(۳)
تزکہ نفس وریاضت ِبدنی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اشرف کے فساد سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے۔ جیسا ہم اُوپر کے بیان میں ثابت کرچکے ہیں۔ اورفطرت کی صد یا اشیاء غور وفکر کرنے سے ا س امر کی صداقت اوربھی روشن ہوتی ہے۔ اسی طرح رُوح انسانی میں جو جسم کی بہ نسبت اشرف یہ اعلیٰ ہے بگاڑ پیدا ہونے سے جسم میں لازمی طورپر اُس سے متاثر ہوگیا۔ جب گناہ کے باعث انسان خُدا سے جُدا ہوگیا۔ یعنی روحانی متنزل اورموت کے ماتحت آگیا تو جسم بھی موت وتنزل سے مغلوب ہوگیا۔اورا س طرح بنی نوع انسان پر موت نے تسلط جمالیا۔ اب اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ جس سے رُوح بحال ہوسکے۔ تو ضرور جسم بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کو بقا کو حاصل کرے۔ اسی نکتہ پر پہنچکر انسان میں بھگتی۔ریاضت اورتپسیا کے خیالات پیدا ہوگئے۔ ہندوستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی رہبانیت نے ریاضت جسمانی کے خیالات کو حد سے زیادہ بڑھا دیا اگرچہ نفسانی خواہشات کو روئے اوردبانے سےروحانی زندگی میں ارتقاء کی کچھ شعاعیں پڑنے لگتی ہیں۔ اورنفس امارہ پر قابو پانے کی کوشش کرنا نیک زندگی گذارنے کے لئے کسی حدتک مفید بھی ہے۔ تاہم یہ سراسر غلط فہمی اورنادانی ہے کہ جسم کوبالکل حقیر اورردی سمجھ کر اُس کی نشوونما اورپرورش کی طرف سے قطعی آنکھیں بند کرلیجائیں۔ جس طرح قیمتی اشیاء کی حفاظت مکان کی پختگی پر منحصر ہے۔ اُسی طرح رُوح کی حفاظت کے لئے جسم کی پرورش جو اُس کا ظرف ہے نہایت ضروری ہے۔ ورنہ خُدا داد اِنعام (جسم ) کی بے قدری وحقارت ہوگی۔ اورخود کشی وریاحیت بدنی ایک ہی مفہوم کے مصداق ہوں گے۔ واضح ہوکہ کھانا پینا اورپہننا کوئی گناہ نہیں اورنہ ہی یہ کوئی نیکی ہے۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان (روحانی نقصان ) نہیں۔ اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸:۸) کھانے پیٹ کے لئے ہیں اورپیٹ کھانوں کے لئے۔لیکن خُدا ا س کو اور اُن کو نیست کرے گا (ا۔ کرنتھیوں ۶: ۱۳) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۴: ۱۷) اگر کھانا پینا اورپہننا وغیرہ گناہ ہوتو اس گناہ کاباقی خُدا کو ماننا پڑے گا جس نے ہمیں جسم دیا۔ اورجسم بھی ایسا جو خوراک وپوشاک اوردیگر ضروریات کا محتاج ہے۔ جب خُدا رازق ہے اوراُس نے ہماری جسمانی خواہشات کا جواب بھی اسی فطرت کے اندر دیا ہے تو لازمی بات ہے کہ ہم رُوح کے ساتھ جسم کی بھی فکر رکھیں۔ لیکن امور معاشرت میں بھی حداِ اعتدال سے تجاوز کرنا خلاف ِ فطرت ہونے کے باعث جسمانی سزا لازمی ٹھہراتاہے۔ اگر بالکل نہ کھائیں توموت یقینی ہے۔اور اگر حد سے زیادہ کھائیں تو بھی اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودنھے کا مقولہ درست ہے۔ امور ِمعاشرت میں اعتدال مفید ہے اورتجاوز مضُر پیٹ خُدانے خالی رکھنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ اس لئے کہ اس میں کچھ ڈالا جائے۔جسمانی زندگی اسی پر منحصر ہے۔ اگر جیب میں کچھ ڈالنا ہی نہ ہوتا تو اُس کا لگانا بلا مقصد ہوتا۔ اسی طرح جو اعضا ء خُدا نے ہماری جسمانی ساخت میں بنا دئے ہیں وہ کوئی نہ کو ئی مقصد ضرور رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ مٹانے کے لئے نہیں بلکہ قائم رکھنے کے لئے ہیں۔ (دیکھو توڑوں کی تمثیل متی ۲۵: ۱۴- ۳۰)۔
اگر نفسیائی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو انسان کا دماغ بمنزلہ ایک کپتان کےہے۔ اورجسم کے تمام اعضا ء سپاہی ہیں۔ پیٹ راشن کا گودام اور بھنڈاری ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کپتان کی طاقت کا تمامتردار ومدار سپاہیوں کی صحت اورمضبوطی پر ہے۔ اکیلا کپتان کبھی دشمن کی فوجوں کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سپاہیوں کے صنعف وقوت کا انحصار خوراک کی کمی وبیشی پر ہے۔ جس قدر اچھی اورکتفی خوراک کا ذخیرہ پیٹ کے گودام میں ہوگا۔ اوردل کے ذریعے سے دما غ اوردیگر اعضا ء کو وہ خوراک بقدر ضرورت ملیگی۔اُسی قدر دماغ ان اعضا ء سے بہترین خدمات لے سکیگا۔ جب اعضاء کی نشوونما میں لاپرواہی وبے احتیاطی ہوگی اوراُن سے محنت زیادہ لیچا ئیگی تو ہستہ آہستی کمزور ہوتے جائیں گے۔ اوراُن کی کمزور ی وناتوانی سے دماغ بھی ضیعف ونحیف ہوکر بے کار ہوجائے گا۔ اوراس طرح سے جو بہترین خدمات اپنے اعضا ء سے ہم مخلوقات خُدا کی بجالا سکتے ہیں وہ انجام نہ پائیں گی۔ اوریوں انسانی زندگی ایک انتہائی خود غرضی کی زندگی بن جائے گی۔ اورخُدا سے محبت کرنے کا پہلا زینہ ہے مخلوقات سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵:۱) اورتارک الدنیا ہونے سے مخلوقات سے محبت وہمدردی کے مواقع ہی نہیں ملتے۔ اس لئے ان ذرائع سے خُدا کا وصال حاصل ہونا قطعی ناممکن ومحال ہے۔ جو لوگ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی ومحبت کے خیال کو ترک کرکے براہ ِراست خُدا ہی سے ملاپ کرنا چاہتے ہیں وہ اولا د سے نفرت اوروالد سے محبت رکھنے کو ممکن سمجھتے اور ایک کنارے کے سمندر کے قائل ہیں۔ جیسے ایک کنارے کے دریا کا وجود محال ہے۔ ویسے ہی مخلوقات کو چھوڑ کر خُدا سے محبت رکھنا ناممکن ہے۔
کلام ِالہٰی کا یہ پیغام ہے کہ تم اہویہ نفسانیہ اوراغشیہ جسمانیہ میں اپنے دلوں کو یہاں تک نہ الجھاو کہ خُدا کی یاد ہی تمہارے دِلوں سے بسر جائے۔ اورتم نِرے نفسانی اوردُنیا پر ست ہی ہوجاو۔ کلام کا فرمان ملاحظہ ہو۔ کیونکہ نہ ہم دُنیا میں کچھ لائے۔ اورنہ کچھ اُس میں سے لیجا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں(۱۔ تیمتھیس ۶:۷-۸ کلسیوں ۳: ۲ متی ۶: ۳۳ ) دو مکھیاں ہیں۔ ایک کھانڈ کے شیرہ پر میٹھتی ہے اوراُس میں ایسی پھنستی ہے کہ پھر زندہ باہر نہیں نکل سکتی۔ دوسری مکھی مصری کی ڈلی پر بیٹھتی ہے اورکھا کر خوشی سے اُڑ جاتی ہے۔ مزا تو دونوں نے شیرینی کا لیا مگر ایک کا انجام ہلاکت اوردوسری کا زندگی اورخوشی ہوا۔ اسی طرح لذائدو حظا نفسانیہ کے پوجاری بن جانے سے خُدا سے جُدائی اورہلاکت لازمی ہے۔ اوراشیائے جسمانیہ کو اپنے غلام بنا کر اُن سے خاطر خواہ کا م لینا خوشی کا موجب ہے۔ امور معاشرت میں بھی افراط تفریط ہو جب ہلاکت ہے۔ اِن نعمت ہائے گوناگوں کو ٹھکر ادینا کفران نعمت (۱۔ تیمھتیس ۴: ۱- ۵)۔
اکثر سادھو اورتیاگی بیراگی لوگ حظا ئظ جسمانیہ اورلذائذ نفسانیہ سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہوجاتے ہیں۔ اورویرانوں میں جاکر اپنے جسموں کو نہایت بیدروانہ وجاملا نہ طریقوں سے ریاضت کے شکنجوں میں کھینچتے ہیں۔ قانون مرتے ہیں اُلٹے سرکےبل درخت پر لٹکتے۔ جل دھارے کرتے باہیں سُکھالیتے ہیں تاکہ اُن کی انانیت (خودی ) مٹ جائے۔ لیکن یہ کوئی خودی کشی نہیں بلکہ خود کشی ہے۔ ایسی کٹھن ریاضتوں کے باوجود وہ حقیقی خوشی اورسکون قلبی سے محروم رہتے ہیں۔ اسی واسطے مغربی رہبانیت اورہندوستانی ریاضت جن میں حماقت ایک اُبھرا ہوا عنصر ہے مقبول عام نہ ہوسکے۔ اورمذہبی دُنیا میں اُن کی قدر ومنزلت ان خیالات کے حامیوں کی توقعات کے خلاف ہوئی۔ اوراُن کی تقلید دیر پانہ رہی۔ ہندوستان کے توپتے پتے پر کرم مارگ ،بھگتی مارگ ،گیان مارگ نیستا آہسناپر مودھر ما اور نروان وغیرہ لکھے ہوئے ہیں۔ اورمہا تمابدھ نے تو ان خیالات ہمہ گیر تھے۔ اوراب تک اُن کا بقیہ کم وبیش ہر حصہ دُنیا میں موجود ہے۔ پولوس رسول بدنی ریاضت کوغیر فطری ہونے کے باعث معیوب ٹھہراتا ہے۔ملاحظہ کیونکہ جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے لیکن دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مند ہے (۱۔ تیمتھیس ۴: ۵۸)(کلسیوں ۲: ۲-۲۳) اگر ترک دنیا اوراس قسم کا تزکیہ نفس رُوحانی کمالیت کے حصول کے لئے ضروری شرط ہو تو ضرور ہے کہ تمام بنی نوع انسان آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں ڈیرے لگائیں۔ کیونکہ جو چیز بذریعہ ترک دنیا وریاضت حاصل ہونے کی اُمید ہے اُس کی ضرورت سے کوئی خالی نہیں۔ پھر جنگلوں میں آباد ہونے سے آبادیاں جنگل ہوجائیں گی۔ اورجس دنیا کو ترک کیا وہی ساتھ جائے گی۔ اوراس طرح دُنیا کے تمام کارخانے بگڑ جائیں گے اورتمدن معاشرت کے عالم میں انقلاب کے طوفان برپا ہونے سے انسانی زندگی نہایت خطرناک ضلالت وگمراہی کے سمندر میں غر قاب ہوجائے گی۔ اورنہ مرض رہے نہ مریض کا مقولہ پورا ہوجائے گا۔
اگرجسمانی اعضا ء اورنفسانی قوی کو مضحمل واز کا ر رفتہ بنا کر اوربدی کے صدور کے امکان کو مٹا کر کوئی بدی سے بچنے اورنیک کر دار ہونے کا دعویدار ہو تو یہ کوئی خوبی اوراخلاقی جرات کا کام نہیں ہے۔ بلکہ انتہائی بزدلی وخنک طبعی ہے۔ رابرنسن کا قول کیرکٹریا سیر تکی تعریف میں کیا خوب ہے کہ زبر دست جذبات اوراُن پر زبردست قابو کا نام سیرت ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص جو گن چشم بعلت مولودی ہو یہ دعویٰ کرکے کہ میں اپنی تمام زندگی پھر کبھی بدنظری کا مرتکب نہیں ہوا تو کونسی خوبی ہے۔ اگر گو نگا کہے کہ میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی یا کسی کی بدگوئی نہیں کی تو یہ کوئی قابل ِتحسین بات نہیں ہے۔ کوئی بلند مکان کی چھت پر کھڑا ہے اور نیچے زمین پر شیر موجود ہے۔ اگروہ شخص اوپر ہی سے پکارے کہ دیکھو میری بہادری کہ میں شیر سے مطلق خوف نہیں کھاتا تو کون ہے جو اُس کے اس بزدلانہ ومضحکہ خیز دعویٰ پر نہ ہنسے گا؟ ہندوستان میں تیاگی بیراگی لوگوں کا بھی یہی حال تھا اورہے لق ودق صحر ا میں ایک وتنہارہتے ہوئے اول تو اُن کا ماحول ہی اس قسم کا ہوتا ہے کہ عملی بدی کا امکان ہی محال ہوتا ہے بدنظری کریں تو کس پر زنا کریں توکس سے وہاں اُن کے سوااورکوئی نہیں ہوتا۔
اسی طرح چوری جھوٹ اورعداوت وغیرہ کا بھی کوئی امکان وہاں نہیں ہوتا۔کیونکہ وہاں ایسے مواقع ہی ناپید ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اعضا ئے جسمانیہ کو معطل دبے کار کرنے سے بھی نیت میں خواہشات بدکار ریالہرایا کرتا ہے۔ کیونکہ سانپ کے بِل کو مارنے سے سانپ نہیں مرتا۔ اگرچہ عملی گناہوں کا موقع نہیں ملتا اوراُن کا امکان عارضی طور پر مِٹ بھی جاتا ہے۔ لیکن خیالی گناہ سے رہائی محال ہے۔ جس طرح ایک کوڑھی والدین کا بچہ طبعی موروثی طورپر مبروص ہونے کے باعث دیگر کوڑھیوں سے الگ رکھے جانے پر بھی بُرص کے جراثیم سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں اس مرض موذی کے جراثیم ضرور قائم رہیں گے۔ اُسی طرح ارثی گناہ آلودہ طبیعت ترکِ دُنیا اورتزکیہ نفس سے بحال نہیں ہوسکتی۔ اورگناہ کے موروثی مرض ہونیکی شہادت کلام ِالہٰی یوں پیش کرتا ہے۔ دیکھ ! میں نے صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا (زبور ۵۱: ۵ رومیوں ۵: ۱۲) کیونکہ میں جانتا تھا کہ تو بالکل بے وفا ہے اوررحم ہی سے خطا کار کہلاتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۸: ۴) اورنہ ہی سمادھی لگانے اورمحض ارادہ پرزور دینے سے گناہ سے رہائی ممکن ہے۔کیونکہ اِرادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے چنانچہ جس نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا وہ کرلیتا ہوں (رومیوں ۷: ۸- ۹۱) پس گناہ کا ازالہ انسانی تدابیر سے مجال ہے۔ گناہ کی علت چونکہ بُری خواہش ہے اوروہ کسب بد سے پیشتر ہی موجود ہوتی (یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵)۔ اورخواہش بد کوئی اکتسابی شے نہیں بلکہ طبعی موروثی ہے۔اس لئے ریاضت وغیرہ سے اُس کا انسداد ازالہ توتب ہی ممکن ہوتا اگروہ کوئی تحصیلی اوراکتسابی شے ہوتی۔ اس لئے مقدس پولوس فرماتا ہے۔ ان باتوں میں اپنی ایجاد کی ہوئی عبادت اورخاکساری۔اورجسمانی ریاضت کے اعتبارسے حکمت کی صورت تو ہے مگر جسمانی خواہشوں کے روکنے میں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا(کلسیوں ۲: ۲۳)۔
قدرت نے جو طاقتیں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں وہ بذاتہ بُری نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کو اچھا یا بُرا بنا دینا ہماری نیت کے حسن یا قبح پر منحصر ہے۔ اوران قابلتوں کو مسلوب وبیکار کردینا فطرت کے خلاف جہاد اورخُدا کی مرضی سے بغاوت ہے۔ اسی لئے پولوس رسول نے یہ جانتے ہوئے کہ غصہ ایک فطرتی جذبہ ہے اُس کے متعلق فرمایا کہ غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کر و۔سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے (افسیوں ۴: ۲۶)۔ ایک بزرگ جہاندیدہ کا قول ہے کہ وہ بیوقوف ہے جسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اوروہ عقلمند ہے جو غصے کو آنے نہیں دیتا۔
مشہور یونانی حکیم سقراط کی بیوی نہایت بدمزاج اورزور رنج تھی۔ایک دن اُس نے سقراط کوا یک معاملہ پر بہت سخت سست کہا۔ مگر وہ اُس کی بے لگامم زبان کی ہنگامہ خیز روانی کو دیکھ کر دروازے میں چپ چاپ جا بیٹھا۔ اُس کی اِس خاموشی سے وہ اوربھی بھنائی۔اورغص سے برتنوں کا دھوون اُس کے سرپر انڈیل دیا۔ سقراط نے غصہ کو روکتے ہوئے نہایت نرمی اورخندہ پیشانی سے فرمایا کہ اس قدر گرجنے کے بعد برسنا بھی ضروری تھا اورخُداوند مسیح نے سب سے بڑھ کر انتقامی جذبات پر قابو پانے اورصبر وبرداشت کرنے کی عملی مثال صلیب پر دشمنوں کے حق میں معافی وبرکت مانگنے سے پیش کی (لوقا ۲۳: ۳۴)۔ پھر خُداوند مسیح کی شمع محبت کے پروانے مقدس ستفنس نے بھی اپنے پیر طریقت کی طرح بوقت سنگسار ہونے کے اپنے دشمنوں کے حق میں یہ دُعا مانگی کہ اَے خُداوند یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا (اعمال ۷: ۶۰)۔ ان تمام اِمثلہ توضیحات سے منتہائے مقصود اورخلاصہ المرام یہ ہے کہ فطرتی قویٰ اورپنچرل جذبات و جبلت کو معطل کرنے کی بجائے اُن کو ایک منظم صورت میں بطریق احسن جائز استعمال لانا عین دانائی انسانیت اورخُدا کی فرمانبرداری ہے۔ ہمارے نفسانی وبہمی قویٰ جب بدکرداری ونفسانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں تو اُن کی حالت کا خاکہ کچھ اس طرح پر ہوتا ہے۔جیسے ایک گندی بدرروشہر سے تمام گندگی وغلاظت کو لیجا کر باہر ایک بسیط قطعہ اراضی کو دلدل اور تعفن کامرکز بنادیتی ہے۔اور ہر کوئی اُس جگہ سے نفرت کرتا ہے اورکوئی بھی اُس کے پاس سے گذرناپسند نہیں کرتا۔ یہ خاکہ اُس وقت کا ہے جب ہمارے جذبات پر سفلی عنصر غالب ہوتا ہے۔ اب اس تصویر کا دوسرا رُخ جو نہایت حسین اوردلکش ہ ملاحظہ ہو۔ ایک زیر ک ودانا آدمی اُسی قابل صد نفرت وکراہیت قطعہ اراضی کو اس طرح پسند عام وخوشگوار بنادیتا ہے۔ کہ اُس خط میں ایک خوشنما باغ لگادیتا ہ۔ اوراُسی کھادوالے پانی سے اُسے سینچتا ہے۔ اب وہ زمین دیگر قطعات کی بہ نسبت زیادہ زرخیز ہونے کے باعث پودوں کو زیادہ خوراک دیتی ہے۔ اوروہی متعفن وغلیظ جگہ اہل شہر کی دلبستگیوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ بھانت بھانت کے میووں کی کثرت فواروں کی سیم ریزی۔شیمیم گل کی عنبر بہتری ظہور کی نغمہ سنجیاں۔بادنسیم کی نطق باریاں گلہائے دلکشائے کے رنگین مرقعے خوش بہار پھولوں کے جمگھٹے زائران ودلدار گان فطرف کی گلگت سے روضہ جنت کا دھوکہ پڑتا ہے اوروہی گھنونی دمکروہ جگہ اپنی رعنائیوں اوردلفریبیوں میں کیف زا اثرات لئ ہوئے شائقین فطرت کے لطیف جذبات پر کھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہی حال ہماری جسمانی قوتوں کا ہے۔ قدرت نے جس خاص مقصد کے ماتحت ان کو پیدا کیا ہے اُس سے تجاوز کرنا الہٰی سرتابی اور قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے۔ ان طاقتوں کو معطل کرنا یا اُن کے مخصوص افعال سے باز رکھنا اوردبانا ایسا ہی مضرت رساں ہے جیسا کہ بدررَد کو بند لگا دینے سے شہر میں غلاظت وگندگی کے جمع ہوجانے کے باعث مختلف امراض کے پھیلنے سے نقصان ہوتا ہے۔ ریاضت وغیرہ کے خیالات گناہ کے وجود اوراُس کے باعث انسان کی رُوحانی بے چینی اوراضطراب کے مظہر ہیں۔ اوریہ بھی اظہر من الشمس ہے۔
ان انسانیت سوز طریقوں پر صدیوں عمل در آمد کرتے رہنے کے بعد بھی انسان حقیقی اطمینان قلبی اورسکون باطنی سے بے نصیب ہے۔ وجہ ا سکی یہ ہے کہ مصائب جسمانی و آلام روحانی کے موجبات کا صحیح سراغ لگانے میں لوگ قاصر رہے۔ جب تک کسی مرض کی علت کا علم نہ ہو اُس کے نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ہمیشہ سبب کی مدافعت سے نتیجہ کی مدافعت ہواکر تی ہے۔ جس طرح ہم بار ہاذکر کرچکے ہیں کہ ہمیشہ اشرف کے بگاڑسے ادنی ٰ کی اصلاح ممکن ہے۔ نہ کہ اُس کے برعکس پس گناہ رُوح کو عارض ہے اوربطور نتیجہ اُس کے آثار جسم میں بھی ظاہر ہیں۔ رُوح اورجسم کا تعلق بطور مرُکب کے سمجھیئے۔ یایوں کہیں کہ رُوح ہماری زندگی میں مثل ایک ہاتھ کے ہے۔ اوراعضا ئے جسم اُس کے ہتھیار بقول شخصے۔
جب تک ہے رُوح جسم میں چلتے ہیں دست دیا
دُولھا کے دم کے ساتھ یہ ساری برات ہے
جب رُوح پاکیزہ اوردل عارف کی طرح صاف اورگناہ کے رنگ سے منزہ ومبرہ ہوتی ہے توان ہتھیاروں کو نیک کاموں میں استعمال کرتی ہے۔ اورجب وہ نفس امارہ کے دام تزویر میں مبتلا ہوتی ہے تو ان ہی ہتھیاروں کو بدی کی راہ میں استعمال کرتی ہے۔ مثلاً زید اوربکر کے پاس دو تلواریں ہیں۔ زید نے اپنی تلوار سے کسی بیگنا ہ کا سر قلم کردیا۔ اوربکر نے اپنی تلوار سے ایک شیر کو مار کر چند راہگیروں کی جانیں بچادیں۔ ہر دوصورتوں میں تلوار اچھی یابری نہیں بلکہ تلوار کے استعمال کنندوں کی طبائع نیک یا بد ہیں۔ اسی طرح جو نیک یا بدافعال ہمارے اعضا ء سے صاد ر ہوتے ہیں وہ رُوح کی بدیا نیک خصلت کے آئینہ دار ہیں۔ جب ہماری رُوح کا مطلع صاف نہیں ہوتا اوراُس پر گناہ کے تاریک بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں تو ان ہی اعضا ء سے ہم بُرے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ ہاتھوں سے چوری حق تلفی ظلم اورخون ریزی زبان سے دروغ گوئی دروغ حلفی اورگالی ودشنام آنکھوں سے بدنظری فحش بازاری کُتب کامطالعہ اورعیب بینی کانوں سے ہزلیات بدگوئی نمامی اورنفسانی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے قصے سُننا پسند کرتے ہیں۔ دما غ ہمیشہ بدی کے منصوبے باندھتا اورپاوں ٹیڑھی روشیں اختیار کرتے ہیں۔ اورجب ہماری روحانیات پر آفتاب ِصداقت کی ضیاباریاں ہوتی اوررُوح آغوش محبوب کی طرح پاک وبے عیب ہوتی ہے۔ تو اسی دماغ سے جذبات سعیدہ اورخیالات پسندیدہ اُبلے پڑتے ہیں۔ اورلطیف وسحر آگیں پاکیزہ تخیل خندہ سیال کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتا ہے۔ زبان سے خُدائے عزہ جل کی تعریف و توصیف کی خراماں موسیقی وکیف زاترئم نکل کر لبوں پرکھلیتا ہے۔ اورغمزدو ںکے لئے تسلی سے بھرے ہوئے فقرے زبان سے نکلا کرتے ہیں۔ ہاتھ خیرات پر مستعد ہونے اورمریضوں کی مرہم پٹی و تمہاداری کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ کان کلام ِالہٰی کی آواز پر چھکتے اوربدگوئی سننے سے نفرت کرتے ہیں۔ اوردل میں شکر گزاری محبت ،نیکی ،رَحم ،ہمدردی معافی اورخُدا پر ستی کے جذبات وخیالات جوش مارنے میں۔ غیرضیکہ روحانی کمالیت سے ہماری جسمانی زندگی بھی متاثر ہوکر روحانیت میں بیدیل ہوجاتی ہے اورانسان بالکل نیامخلوق بن جاتا ہے۔ پر جس طرح لوہے کی دوکان پر سونا نہیں مل سکتا۔ اسی طرح بغیر خُداوند مسیح کے جو تمام جہان کے طبعیت روحانی ہیں رُوحانی کمالیت اوردلی صحت کاحاصل ہونا قطعی محال ہے شفا خانہ حیوانات میں صرف مویشیوں کا علاج ہوتا ہے انسانوںکا علاج نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہمارے تمام جسمانی امراض وعوراض کا علاج معالجہ ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ لیکن روحانی مرض (گناہ ) کے علاج کے لئے کوئی شفا خانہ دُنیا میں موجود نہیں ہے۔ مریض روحوں کو حکیم حاذق اورطبیب صادق خُداوند مسیح ہے۔ اُس پر ایمان لانے والے اوردلی توبہ سے اُس کے حضور جانے سے روحانی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ پس تمام ریاضت کرنے والے اورتھکے ماندے اوربوجھ سے دے ہوئے لوگوں کو اطمینان رُوحانی اورسکون قلبی دینے کے لئے خُداوند مسیح دعوت دیتا ہے (متی ۱۱: ۲۸: ۳۰)۔