(۶)

عالمگیر مذ ہب

عالمگیر مذہب  وہ ہوسکتا ہے جو جغرفائی حدود وقیود سے آزاد ہو۔ تمام نسلوں اورقوموں کی روحانی اوراخلاقی زندگی پر یکساں طورپر اثر انداز ہو اورجس میں مِن کُل الوجو ہ ہو۔اور بنی نوع انسان کی اخلاقی ضروریات اور رُوحانی جذبات کی تسکین وسودگی کا ضامن ہو۔ اور کامل تحقیق کے بعد فرد واحد بھی یہ کہنے کی جرات نہ کرسکے کہ اس مذہب میں میری رُوحانی حوائج وضرورت کاجواب نہیں ہے۔ ہم مسیحی مذہب کو اس معنی کا عالمیگر مذہب ادلہ یقینیہ وبراہین شا فعیہ قطعیہ سے ثابت کریں گے۔ ذراء انصاف پروری اورصدق دلی سے تمام دلائل پر غور فرمائے۔

عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پر

عہد جد ید کی بنیاد عہد عتیق پر رکھی گئی ہے۔ اور نئے عہد کے بانی نے پُرانے عہد کے سلسلے کو توڑا نہیں۔ بلکہ اُسی کی بنیاد پر رد سے لگا کر قومی مذہب کی عمارت کو بتدریخ تکمیل تک پہنچا یا ہے۔ اورجہاں عہد عتیق کے  انبیاء نے اپنا کام چھوڑا تھا۔ خُداوند مسیح نے اُسی جگہ سے شروع کرکے اُسے قومی دائرہ سے نکال کو بتدریج عمومیت کی طرف ترقی دی۔ اورجو مخالفین مسیحیت ہٹ دھرمی اورتعصب کی سیاہ عینکیں لگا کر اصل حقیقت کومشکوک نظروں سے دیکھتے اوریہ کہا کرتے ہیں۔ کہ خُداوند مسیح نے توریت کو رد اورباطل کردیا ہے۔یہ اُن کی خوش فہمی ضد اورمحض کو تاہ اندیشی ہے۔ اورحقیقت اس کے برعکس ہے توریت کی خبر ملاحظہ ہو۔دیکھ وہ دن آتے ہیں۔ خداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھرانے اوریہوداہ کےی گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا (یرمیاہ ۳۱: ۳۱ ) پھر اس آنے والے عہد کی عمومیت کی خبر ہر غور کرو۔ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروونگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔ (یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ) الفاظ وہ دن آتے ہیں اورو ہ وقت آتا ہے قابل غور ہیں۔ اوریہ اُس آنے والے نئے عہد اوراُس کے ہونے والے بانی کے متعلق صریح پیش خبری ہیں۔ خُدا کے علم وارادہ میں توریت کا حدِ رواج مسیح تک تھا۔ لیکن جب وقت پورا ہوگیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا۔ اورشریعت کے ماتحت  پیدا ہوا۔ تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول  لے اورہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے۔ (گلتی ۴: ۴- ۵) اور لازم  تھا کہ عہد جد ید کابانی شریعت کے ماتحت  پیدا ہو۔ تاکہ شریعت سابقہ کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔جو شریعت موسوی کوکامل کرنے آیا تھا وہ پہلے خود اُس کا پابند ہوا۔ چنانچہ آٹھویں روز اُس کا ختنہ ہوا۔ لوقا ۲: ۲۱ مطابق احبار ۱۲: ۳ اورمریم مقدسہ شرع موسوی کے مطابق پاک ہونے کے دن پورے ہونےپر ہیکل میں قربانی چڑھانے گئی۔لوقا ۲: ۲۲- ۲۴ مطابق احبار ۱۲: ۶ -۸ مسیح نے بپتسمہ بھی لیا۔ متی ۳: ۱۳- ۱۷ وہ ہرسال عیدوں کے لئے یروشلیم کو جایا کرتا تھا۔ لوقا ۲: ۴۱- ۴۲ مطابق خروج ۳۰ : ۱۴، ۱۷ وہ ہیکل کا محصول ادا کرتا تھا۔ متی ۱۷ : ۲۴–۲۷ مطابق خروج ۳۰ : ۱۳ یہودی روزہ رکھتے تھے مسیح نے بھی چالیس دن روز ہ رکھا۔متی ۴: ۱ لوقا ۴: ۲ مطابق احبار ۱۶: ۲۹ ،یسعیاہ ۵۸: ۳- ۷ آپ نے ایک کوڑھی کو معجزانہ طور سے شفا دی اوراُسے موسوی دستور کی ہدایت فرمائی۔متی ۸: ۱- ۴ مطابق احبار ۱۴: ۱-۷ اور آپ نے اپنی خدمت کے آغازہی میں فرمایا۔ یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔متی ۵: ۱۷ چنانچہ آپ نے شریعت دی۔اُس کی تردید وتنسیخ نہیں بلکہ تکمیل فرمائی اوراُس کو انقیادی خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں تبدیل کیا۔ اورتمام اقوام عالم کادستو ر العمل ہونے کی صلاحیت اُس میں پیدا کردی۔ جس طرح ایک گورنر کا رُعب واقتدار اورحکومت واختیار صرف ایک ہی صوبہ تک محدود ومختص ہوتا ہے۔ اوراُس کے اپنے صوبہ سے باہر اُص کے احکام وقوانین کچھ اثر نہیں رکھتے۔ اسی طرح موسوی شرائع و احکام کا دائرہ اثر صرف یہودی قوم تک ہی محدود تھا۔ اوریہودیت کے باہر انبیاء کے قوانین اوراُن کی آواز کا کچھ اثرنہ  تھا۔ تعزیرات پاک وہند کے قوانین و دفعات صرف ان ممالک کی حدود کے اندر ہی زور رکھتے ہیں۔ اورفرانس جرمنی اورامریکہ کے لوگو ں سے اُن کی تعمیل کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح شریعت موسوی تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی ہنفسہ کوئی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اورخُدا وند مسیح کی آمد اورظہور کا سب سے اعلیٰ مقصد یہی تھا کہ مذہب الہٰی عالمیگر ہوجاتے۔ چونکہ خُدا تمام دُنیا کا واحد مالک اورشہنشاہ ہے اس واسطے مسیح شریعت کو جو مختص بالقوم والزمان ہونے کے باعث کمزور اور ادھوری تھی کامل کرنے آیا۔ اورفرمایا کہ میں توریت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔ ہم آگے چل کر اچھی طرح دکھائیں گے کہ توریت کی تکمیل مسیح نے کس صورت میں فرمائی۔ اورکس طرح قومی مذہب کو عالمیگر مذہب کی صورت دے دی۔

توریت کا تجزیہ

توریت کا تجزیہ کیا جائے تواُس میں تین قسم کے مضامین دستیاب ہوتے ہیں۔ اول۔ احکام۔دوم۔اخبار ،سوم تعلیم ، اَحکام کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی اَمر اورنہی اَمر وہ احکام ہیں جن پر عمل کرنے کی تاکید پائی جاتی ہے۔ مثلاً توسبت کادن پاک ماننا۔ تُواپنے باپ اوراپنی ماں کی عزت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے تمام احکام کو اوامر کہتے ہیں۔ اورنہی وہ احکام کہلاتے ہیں جن میں کسی کام کےے کرنے کے کی ممانعت پائی جائے۔مثلا ً تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بناتا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا۔اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے امتناعی احکام کو نواہی کہتے ہیں۔پھر اخبار تین قسم کی ہیں۔ یعنی حال کی ،ماضی کی ،اورمستقبل کی۔

اول۔ اخبار حال وہ ہیں جو موسیٰ اوردیگر انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں واقعات موجودہ اورتجارب مشہودہ کی بنا پر لکھیں۔

دوم۔ اخبار ماضی جیسے موسیٰ نے دُنیا کی پیدا ئش۔ آدم کی نافرمانی و استخراج ازجنت العدن اورطوفان نوح کے واقعات لکھے۔ اوراُن اخبار سابقہ کو الہام الہٰی کی روشنی میں قلمبند کیا۔

سوم۔ اخبار مستقبل۔جیسے موسیٰ اوراُس کے ماقبل ومابعد کے انبیاء نے خُداوند مسیح کے متعلق خبریں دیں۔ یہ خبریں انبیاء خُدا سے حاصل کرکے بوساطت الہام لکھتے تھے۔ اور انہیں کو پیشین گوئی کہتے ہیں۔ اوامر ونواہی اوراخبار باقسام ثلٰثہ توتمام صحائف عتیقہ وجدیدہ کومِن حیث المجوعہ شامل ہیں۔یعنی انجیل میں بھی توریت کی طرح موجود ہیں۔ لیکن احکام کی دو اور خاص قسمیں ہیں جو صرف توریت ہی سے متعلق ہیں۔ یعنی :۔ احکام خاص اوراحکام عام۔ اب ہم اُن کا مفصل بیان کریں گے۔

اَحکام خاص

قربانیاں ،ختنہ۔روزہ ،نذریں ،طہارت بدنی ، سبت ، عیدیں اورحلت وخرمت وغیرہ جوھ سب ہیکل کے ساتھ متعلق تھے۔ اوراحکام وقضاۃ وشاہان نبی اسرائیل کے متعلق سیاسی قوانین وفرائض سب احکام خاص میں شامل ہیں۔ اور شرائع رسمی وملکی ان ہی سے متعلق تھیں۔ ان کا تعلق صرف قوم اسرائیل کے ساتھ تھا۔ دیگر اقوام میں نہ تو کبھی ان کی تردیج کی کوشش کی گئی اورنہ ایسا کرنے کا کوئی حکم ہی تھا۔ احکام خاص اپنی ذات اورمقصد میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے تھے۔ ان کا تعلق صر ف یہودی مذہب۔تمدن ومعاشرت اورقومیت سے تھا۔ مثلاُعیدیں یہودی تاریخ کے خاص واقعات کی یاد گاہیں تھیں۔

یہودیت سے باہر کی دنیا کو اُن سےکوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اُس کی تاریخ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتیں۔ مثلاً ایک فوجی آدمی اگراپنے لباس پر تمغے لگاتا ہے تووہ اُس کی جنگی زندگی کے واقعات کی یاد گاریں اورنشانیاں ہیں۔ اگر دوسرے لوگ جن کو محاریہ ومکاربر ہ سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا اُس فوجی کی دیکھا دیکھی اپنے لباس پر تمغے لگالیں۔تو وہ بے مطلب اور بے معنی ہونگے۔فوجی لوگوں کے چند خاص ظاہری امتیازات ہوتے ہیں۔ جن کے باعث وہ عوام الناس سے متماز نظر آتے ہیں۔ اور وہ امتیازی علامات اُن ہی کے لئے خاص ہوتی ہیں نہ کہ تمام لوگوں کے لئے۔اسی طرح توریت کی رسمی وملکی شرائع یہودیت کواُس وقت کی تمام دیگر اقوام سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوردوسری وجہ احکام خاص کے نفاذ کی یہ تھی ک ہان ظاہری اورجسمانی قوانین کے ذریعے اُن میں الہٰی متابعت وفرمانبرداری کی رُو ح پیدا کی جائے۔ یہ گویا ایک ابتدائی تربیت تھی۔اور اس تربیت اولہ سے منتہائے مقصود یہ تھا کہ اخلاقی وروحانی شریعت کی پا بندی کرنا سیکھیں۔ جیسے حروف تہجی بچوں کو محض اس لئے کھائے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے وہ کسی وقت اعلیٰ علمی کتابیں پڑھ سکیں۔ اسی طرح اَحکام خاص بھی اُس قوم کے لئے بطور ابتدائی سبق کے تھے۔ اورجب کوئی طالب علم مولوی فاضل بن جاتا ہے تو پھر اُسے حروف تہجی پر مغز مارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اورقاعدہ حروف تہجی کے متروک ہونے سے وہ قاعد ہ رد و باطل نہیں ہو جاتا بلکہ جس حدتک پہنچا نا اُس کا مقصود  تھا اُس تک  پہنچ کر اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح احکام خاص اعلیٰ اخلاقی وروحانی شریعت تک پہنچا کر متروک العمل ہوگئے۔ اور پھر  پھر کر اُن کی رَٹ لگانا ایسا ہی عبث ہے جیسے کوئی مولوی فاضل ہوکر دوبارہ حروف ِ تہجی کی مشق شروع کرے۔ چراغ کی ضرورت اُس وقت تک ہوا کرتی ہے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو۔لیکن آفتاب کی آمد سے چراغ رد وباطل نہیں ہوجاتا بلکہ اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس سورج کی موجودگی  میں مٹی کے چراغ جلانا نادانی ہے ۔اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا۔اورتُم اچھا کرتے ہوجو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہوکہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔جب تک پَونہ پھٹے اورصبح کا ستارہ تمارے دلوں میں نہ چمکے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۱۹) اوروہ شرعی زمانہ مذہب الہٰی کی طفولیت کا زمانہ تھا۔ اورخُدا  وند مسیح نے اُسی کو شباب کےی عہد تک پہنچایا۔ جب میں بچہ تھا بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔بچوں کی سی سمجھ تھی لیکن جب جوان  ہوا تو بچپن کی باتیں ترک کردیں(۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۱) پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی۔ تاکہ ہم ایمان کے سبب راستباز ٹھہریں۔ مگر جب ایمان آچکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے۔ (گلیتوں ۳: ۲۴- ۲۵) اب ذرالفصیل کے ساتھ دکھا یاجائے گا کہ کس طرح احکام خاص کا تکملہ عہد جدید میں آکر ہو گیا۔ اورشرع رسمی میں سے چند بڑی بڑی رسوم کو لے کر انجیل مقدس میں اُن کی تکمیل دکھائی جائے گی۔ یعنی اُس کا آغاز کا انجام دکھایا جائے گا۔ اُسی خواب کی تعبیر پیش کی جائے گی۔

قربانیاں

لفظ قربانی کامادہ قرب (نزدیکی ) ہے۔یعنی قربانی ایک ایسا شرعی فعل ہے جس کےذریعے انسان خاطی۔عاصی تقریب الہٰی کوحاصل کرسکے۔ شرع موسوی میں بنی اسرائیل قوم کو قربانی چڑھانے کے خاص احکام تھے۔ اوروہ بموجب فرمان ِ الہٰی پانچ قسم کی قربانیاں گذرانتے تھے۔ احبار کی کتاب میں اُن کا مفصل بیان مل سکتا ہے۔ واضح ہوکہ انسان اس دُنیا کی کسی بھی شئے کا مالک نہیں بلکہ مختار ہے۔اور خُدا سب دُنیا کا واحد مالک ہے۔ زمین اوراُس کی معموری خُداوند کی ہے۔ جہان اوراُس کے باشندے بھی (زبور ۲۲: ۱) اورہزاروں پہاڑوں کے چوپائے میرے ہی ہیں۔ اگر میں بھوکا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ کیونکہ دُنیا اوراُس کی معموری میری ہی ہے (زبور ۵۰: ۱- ۱۲) اورانسان کے قبضے میں ان اشیاء کی ذاتوں کے منافع اور فوائد ہی ہیں۔ اورانسان کو یہی حکم تھا کہ ان جانوروں کی ذاتوں کے فوائد کو قربان کرکے۔ اورچونکہ اُن کی ذآت کے فوائد کوقربان کرنے کے لئے اُن کو ذبح کرنا پڑتا تھا۔ اوربغیر ذبح کئے وہ فوائد عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان نہیں کئے جاسکتے تھے۔ اس واسطے قربانی کے لئے جانور ذبح کئےجاتے تھے۔اور یہ ایک طرح کا ایثار تھا جو وہ خُدا کے حکم کے مطابق اُس کی خوشنودی ورضا جوئی کے لئے کرتے تھے۔ اوراس سے مقصود یہ تھا کہ تقریب الہٰی کے حصول کی خاطر ان معمولی منافع کو قربان کرتے کرتے اُن میں خُدا کی محبت یہاں تک بڑھ جائے کہ کسی وقت وہ اپنی جان بھی اُس کی خاطر قربان کردینے میں دریغ نہ کریں۔ اورایک طرف تو خود انکاری وایثار کی رُوح اُن میں پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف وہ یہ احساس کرنے لگ جائیں کہ خُدا کی شریعت کا عدول کرنے سے جو موت اُنہو ں نے کمائی وہ جانورں پر وارد ہورہی ہے۔ اورخُداہماری جانوں کو اس قدر عزیز رکھتا ہے کہ ان بیگنا ہ جانوروں کی جانوں کو ہماری جانوں کا مبادلہ ٹھہراتا ہے۔ تو بھی ممکن نہیں کہ بیلوں اوربکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔(عبرانیوں ۱۰: ۴)۔ بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دِلاتی ہیں۔(عبرانیوں ۱۰: ۳)۔ چونکہ خُدا عادل ہے۔اورعدل کا تقاضا ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے۔اس لئے عارضی طورپر یہ حیوانی مجازی قربانیاں مسیح کی حقیقی قُربانی کے انبیاء کے طورپر قائم رہیں۔ اورجب خُداوند مسیح نے حقیقی اوراصلی قُربانی دے دی تو اُن مجازی قربانیوں کا رواج اُسی وقت سے بند ہوگیا۔ اورموسوی قربانیاں مسیح کی قربانی کی ایک تمثیل ہی تھیں۔ کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اوراُن چیزوں کی اصلی صورت نہیں۔ عبرانیوں ۱۰: ۱۔

اگر بالفرض محال حیوانی قربانی عدل الہٰی کے تقاضا کو پورا کرسکتی ہے تو سوال لازم آتا ہے کہ قربانی سے عابد کو فائدہ پہنچتا ہے یا معبود کو اوریا مذبوح کر؟ اگرکہا جائ کہ عابد کو تو یہ خلاف انصاف ہے۔کیوننکہ مجرم کو فائدہ پہنچاتا عدل نہیں۔ بلکہ ازروئے عددل مجرم کو خسارہ کا متحمل ہونا لازمی ہے۔ اورجبکہ گناہ کے باعث مجرم انسان سزائے موت کا مستحق ہے۔(رومیوں ۶: ۲۳) تو اُس کی جان کا مبادلہ حیوان کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ بھی عدل کو پورا نہیں کرتا۔ او ر پھر جانور کسری طورپر قربان کیا جاتا ہے۔ اورفعل کسری نہ تو نیک ہوسکتا ہے نہ بد۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ایک خونی کی جان کے عوض میں سرکار کو ایک بکرابا بیل پیش کیا جائے۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سے خُدا کو فائدہ پہنچتا ہے تو یہ اُس کی ذات بے نیاز ، لااحتیاج کے منافی ہے۔ اُس میں کوئی کمی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ اوراگر کہا جائے کہ جانور کی ذات کو فائدہ پہنچتا ہے۔ تو یہ خلاف عقل ہے۔کیونکہ ہلاکت کسی ذی جان کے لئے فائدہ مند ہونہیں سکتی۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سےکسی کو بھی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ تواس صورت میں قر  بانی ایک فضول اوربے بنیاد کا م ٹھہرتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حیوانی قربانی اگر خُدا وند مسیح کی حقیقی واخلاقی قربانی کی علامت نہ سمجھ جائے تو وہ ظلم وتشد د کے سوا کچھ نہ تھی۔ اورخُداوند مسیح کی آمد پر قربانیوں کے رواج بند ہوجانے کی خبر خود عہد عتیق میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد مسیح تقل کیا جائے گا۔ اوروہ ایک ہفتہ کے لئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا۔ اورنصف ہفتہ میں ذبیحہ اورہدیہ موقوف کرے گا۔(دانی ایل ۹: ۲۶- ۲۷) جس طرح  موسم برسات کی بافراط وبہتات بارشیں فصلوں کو چاہی آبپاشی کی طرف سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ اورپھر آبیاشی کے محدود انسانی ذرائع بند ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح کی حقیقی اورکامل قربانی کے بعد پھر کسی حیوانی قربانی کی ضرورت نہ رہی۔ جانور کی قربانی کسری اورمجہول ہوتی تھی۔ اورخُداوند مسیح کی قربانی اختیاری اورمعلوم قربانی ہے۔ آپ کا فرمان ملاحظہ ہو۔

باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتاہوں۔ تاکہ اُسے پھر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں۔ بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے۔ اوراُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا (یوحنا ۱۰: ۱۷- ۱۸)۔

ختنہ

ختنہ کا آغاز ابراہام سے ہوا۔ خُدا تعالیٰ نے اُس کے ساتھ عہد باندھا تھا۔ اورختنہ اُس عہد کے لئے بطور ایک نشان کے ٹھہرایا۔خُداوند نے ابراہام سے فرمایا۔ اورمیرا عہد جو میرے اورتیرے درمیان اورتیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے۔ اورجسے تُم مانو گے سویہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے۔ اورتُم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا۔ اوریہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اورتمہارے درمیان ہے۔ (پیدائش ۱۷: ۱۰-۱۱) اورختنہ کاحکم صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص تھا۔ ابرہام کی نسل سے باہر کسی اور قوم کو اُس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اورظاہر ہے کہ تمام اقوام عالم ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں۔ بلکہ اقوام کی تفریق تو نوح کے بیٹوں سمِ۔حام اوریافت ہی سے ہوجاتی ہے۔ صرف یہودی قوم ہی ابراہام کی نسل تھی۔ اس لئے ختنہ کا حکم صرف اُ سی کے لئے دیا گیا تھا۔ اوراس رسم کاروحانی مطلب بھی توریت میں بدیں الفاظ موجود ہے۔ اس لئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اورآگے کو گردن کش نہ رہو (استثنا ۱۰ : ۱۶) اورخُداوند تمہارا  خُدا تمہارے اورتمہاری اولا د کے دل کا ختنہ کرے گا۔ (استثنا ۳۰: ۶ ،یرمیاہ ۴: ۴) اگرچہ وعدے ک ینسل ہونے کے سبب سے یہودی قوم کے لئے ختنہ لازمی تھا۔ لیکن اگر تمام دُنیا کی اقوام کے لئے ختنہ کا حکم خُدا  دیو سے تو وہ روحانی معنی میں ہی ہوسکتا ہے۔ اورختنہ کا روحانی مفہوم ہی دل کی غلاظت کو کاٹ پھینکنا تھا۔ روحانی مفہوم ومطالب کا محسوسات وجسمانیات کے پیرایہ میں متمثل ہونا کوئی امر جدید اوردور ازفہم بات نہیں۔ پولوس رسول فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے۔ اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہر ی وجسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہ ہے جو باطن میں ہے۔ اورختنہ وہی ہے جو دل کا اورروحانی ہے نہ کہ لفظی (رومیوں ۲: ۲۸ )نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نامختونی بلکہ نئے سرے سے مخلوق ہونا (گلیتوں ۶: ۱۵۔۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ گلیتوں ۵: ۲-۳ کلیسوں ۲: ۱۱ ) ختنہ بعض حافتوں میں  طبی لحاظ سے مفید ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی روحانی فائدہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ مختون اورنامختون ہر دوقسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دونوں فریق گناہ کے ماتحت ہیں۔ اگرختنہ سے روحانی اخلاقی زندگی کی اصلاح وبہبود ممکن ہوتی تو لازم تھا کہ مختون بلحاط روحانیت وپاکیزگی کے نامختونوں سے بدرجہا افضل ہوتے۔ لیکن مشاہد ہ اس کے خلاف ہے۔ خُداوند مسیح کا ختنہ ابراہام کی نسل ہونے کے سبب ہوا لیکن غیر یہودی چونکہ ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں اس لئے اُن پر ختنہ کر وانا لازمی نہیں ہے۔ اسی واسطے مسیحیت کے قیام پر ختنہ موقوف ہوگیا۔ اوراُ س کی جگہ نئے عہد میں بپتسمہ کی رسم قائم ہوئی(متی ۲۸: ۱۹)۔

سبت

آفزنیش عالم کےی عظیم الشان اورلاثانی واقعہ کی یاد گار کے طورپر سبت کو مقدس ٹھہرا گیا۔ اُس روز خُد ا نے تمام بے جان اورجاندار۔دیدنی اورنادیدنی اشیاء کو بنا کر فراغت پائی (پیدا ئش ۲: ۳) اورخُدا نے سبت کا دن شریعت میں دو جوہات کے ماتحت شامل کیا۔

اول۔ سبت کو آفرینش عالم کی یاد گار ٹھہرانے ےاورشریعت میں داخل کرنے سے خُدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ مابعد زمانوں میں اس دُنیا کی علت فاعلی کسی وہمی ہستی کو نہ ماننے لگ جائیں۔ اورخیالات باطلہ و توہمات مظنونہ میں نہ پھنس جائیں۔ بلکہ جب جب سبت کومنائیں تو یہ یاد کریں کہ یہ وہ دن ہے۔ جس میں خُدا نے تخلیق عالم سے فراغت پائی تھی۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ تمام عالم خُدا کے کہنے سے ہے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو۔(عبرانیوں ۱۱: ۲)۔

دوم۔ سبت کے دن کو مقدس ٹھہرانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قوم اسرائیل دُنیوی دھندوں اورفکروں و الجھیڑوں میں یہاں تک نہ پھنس جائے کہ خُدا ک یادی ہی بسر جائے۔ اس واسطے مصلحناً پابند ی اورعبودیت کی رُوح اُن میں پیدا کرنے کے لئے یہ خاص دن اُن کے واسطے جسمانی دھندوں سے قراغت پانے اورعبادت میں صرف کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔لیکن جو شخص سیدھی اورصاف نیت سے خُدا کی عبارت نہیں کرتا اُس کے لئے سبت اورباقی سب دن برابر ہیں۔ یہودیوں میں سبت کے متعلق ایسی سو ء عقیدت پیدا ہوگئی کہ وہ اُس روز میں نیکی کرنا بھی گناہ سمجھنے لگے۔ اسی واسطے خُداوند مسیح نے بارہا اُن کے اس غلط خیال کی اصلاح کی کوشش کی۔ اورایک دفعہ فرمایا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ آیا سبت کے دن نیکی کرنی روا ہے یا بدی کرنا ؟ جان کو بچانا یا ہلاک کرنا۔(لوقا ۶: ۹) اورجب آپ نے اُس مریض کو تندرست کردیا تو وہ آپے سے باہرہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یسوع کے ساتھ کیا کریں؟ (آیت ۱۱) ایک اورموقع پر مسیح نے سبت کے روز ایک کبڑی عورت کوجو ۱۸ برس سے کسی بدروح کے باعث  مریض تھی شفا بخشی توعبادت خانے کاسردار ناراض ہوکر کہنے لگا۔ چھ دن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے۔پس اُن ہی میں آکر شفا پاو نہ کہ سبت کے دن۔ لوقا ۱۳: ۱۴) وہ سبت کیے روز سوئی تک کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ اُن کی سُو عقیدت اورفضول نمائش کو مٹانے کےلئے  مسیح کے زندہ ہوکر صعود فرمانے کے بعد رسولی عدہ میں سبت کی جگہ ہفتے کا پہلا دن (اتوار ) مقرر ہوا۔ اور جس طرح سبت آفرینش عالم کے عدیم النظیر واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح ہفتے کا پہلا دن مسیح کے گناہ موت اور قبر پر فوق الفطرت طاقت سے غالب آنے کی فقید المثل واقعہ کی یادگار ٹھہرا۔ سبت وہ دن ہے جوتمام دنیا میں زندگی کا مبداء سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اُس روز خُدا تعالیٰ نے قالب گیتی میں رُوح پھونکنے کے کام کو تمام کیا۔ اورہفتے کا پہلا دن وہ ہے جس میں انسان بلکہ تمام مخلوقات کو گناہ موت اوربطالت وفنا کے قبضہ سے چھڑا کر کھوئی ہوئی زندگی کو پھر سے سبحال کیاگیا۔(رومیوں ۸: ۲۰-۲۱) اورخُدا وند مسیح نھے فرمایا۔ سبت آدمی کے واسطے بناہے زآدمی سبت کے واسطے۔پس ابن ادم سبت کا بھی مالک ہے (مرقس ۲: ۲۷- ۲۸ ) اورصرف سبت کے روز ہی عبادت کوکافی نہیں ٹھہراتا بلکہ فرمایا۔ ہر وقت دُعا مانگتے رہنا اورہمت زبانی چاہئے۔ لوقا ۱۸: ۱ اور ہروقت اورہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے رہو۔ اوراسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مقدسوں کے واسطے بلاناغہ دُعا مانگا کرو(افیسوں ۶: ۱۸) اگر اب کوئی سبت کے دن کو دُنیا کی تخلیق کی یاد گار سمجھ کر اُس کی تعظیم کرے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ پر یہودیوں کی طرح اُس کی سطحی وظاہری پابندی جس میں نیکی کرنا بھی گناہ میں داخل ہے سراسر معیوب ہے۔ اس لئے سبت تمام عالم کا دستور العمل ہونے کے ناقابل ہے۔اسی لئے پولوس رسول فرماتا ہے۔ پس کھانے پینے یا عید یا نئے چاند یاسبت کی بابت کوئی تم پرالزام نہ لگائے۔کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں۔ (کلسیوں ۲: ۱۶ ،گلتیون ۴: ۹-۱۰) خُداوند مسیح نے سارے دن پاک رکھنے اوراُن میں عبادت کرنے کی تاکید فرمائی۔ پس سبت کی کوئی خصوصیت نہ رہی۔

ظاہری طہارت

شریعت موسوی میں بدنی طہارت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (گنتی ۱۹: ۷- ۲۲) اوراس ظاہری وجسمانی طہارت سے منشائے الہٰی یہ تھا کہ وہ لوگ باطنی اورروحانی پاکیزگی کے طالب ہوں۔ اور اُس کے لئے کوشش کریں۔ اگرچہ جسمانی صفائی ، تندستی وصحت کے زایہ نگا۔ سے نہایت ضروری ولازمی ہے۔ اورایسی صفائی سے خُدا نارواض نہیں ہوتا۔ اورنہ ہی خوش ہوتا ہے۔ تاہم روحانی زندگی کے ارتقاء میں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ باطنی پاکیزگی وہ ہے جس کے لئے داود نبی خُدا سے یوں التجا کرتا ہے۔

اے خُدا ! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے بالن میں ازسر تو مستقیم رُوح ڈال۔ (زبور ۵۱: ۱۰) اگرچہ ہندو لوگ تیرتھوں پر جاکر باطنی پاکیزگی کی بے کار اورموہوم اُمید پر اشنا ن وغیرہ کرتے ہیں۔ تو بھی تیر تھ اشنا ں کرنے والوں  اورنہ کر نیو الوں میں بلحاظ پاکیزگی کوئی مابہ الامتیاز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ہر دوقسم کے لوگ گناہ کی غلامی میں خوب  پھنسے ہوئے ہیں۔ کہنیوں تک ہاتھ دھونے ،وضو کرنے۔اور اشناں کرنے سے باطنی طہارت ناممکن ہے۔اسی واسطے ظاہر دار فقیہ وفریسی خُداو ندمسیح کے سامنے اُس کے شاگردوں کی بوں شکایت کرنے آئے کہ۔تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ روٹی کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔(متی ۱۵: ۲) تو خُداوند مسیح ن اُنہیں یوں جواب دیا کہ۔جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(آیت ۱۱) اورشاگردوں کی فرمائش پر اپنے جواب کی یوں تفصیل فرمائی جو کچھ منہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتااور پاخانے میں نکل جاتا ہے۔ مگر جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں۔ اوروہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ برے خیال  ،خون ربزیاں ، زناکاریاں حرام کاریاں ،چوریاں ،جھوٹی گواہیاں ،بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھاناکھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔(متی  ۱۵ : ۱۷- ۲۰ ،مرقس ۷: ۱۷- ۲۲) اور فقہیوں اورفریسیو! تُم پر افسوس ہے کہ پیا لے اوررکابی کواوپر سے صاف کرتے ہو۔ مگر وہ اندر بوت اورناپرہیز گاری سے بھر ے ہیں(متی ۲۳: ۲۵ ) (۲۶- ۲۸) تمام اناجیل باطنی طہارت اوراندرونی پاکیزگی کی تعلیم وتلقین سے ملو ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہیں تو زیادہ حق ہوگا کہ مسیح کی تعلیم کا تماتر مقصد د مدعا ہی باطنی پاکیزگی تھا۔ پس مسیح کی کامل شریعت کی آمد سے توریت کی ظاہری اور اُدھوری شریعت خود بخود متروک ہوگئی۔ اورجس اعلیٰ مقصد کی انجام دہی کے لئے خُدا نے وہ ابتدائی اورناکامل شریعت دی تھی اُس نے مسیح کی مال واکمل شریعت کے ذریعے تکمیل پائی۔ اوروہ مختص بالقوم وزمان شرع (احکام خاص ) عالمیگر اورابدی ودائمی شرع کی آمد پر متروک العمل ہوگئی۔ کیونکہ وہ صرف کھانے پینے اورطرح طرح کے غسلوں کی بناء پر جسمانی احکام ہیں جو اصلاح کے وقت تک مقرر کئے ہیں۔ عبرانیوں ۹: ۱۰ خُداوند مسیح کی کامل شریعت کا حکم طہارت باطنی کے متعلق ملاحظہ ہو۔ پس اَے عزیزو ! چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے۔ تو آو۔اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اورروحانی آلودگی سے پاک کریں۔ اور خُدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔ (۲۔ کرنتھیوں ۷: ۱)۔

حدتِ وحُرمت

توریت میں بعض اشیاء کھانے پینے کے لحاظ سے حلال اور بعض حرام ٹھہرائی گئی تھیں۔ (استثنا ۱۴: ۳- ۲۱ ) امُور ِ معاشرت میں حلال و حرام اورپاک وناپاک کے متعلق اومرونواہی خُدا نے دو اعلیٰ رُوحانی مقاصد کے تحت فرمائے۔اول یہ کہ وہ منازل جسمانیہ سے شروع کرکے بتدریج منازل رُوحانیہ کی طرف قد م اُٹھائیں۔ ادنی ٰ سے آغاز کرکے اعلیٰ کی طرف بڑھنا سیکھیں۔ اورجسم سے شروع کرکے روح کی طرف بڑھیں۔حرام کا رُوحانی مفہوم گناہ اورحلال کاروحانی مطلب نیکی وپاکیزگی ہے۔ بَدی سے نفرت رکھو نیکی سے لپٹے رہو۔ (رومیوں ۱۲: ۹) دوم یہ کہ خُدا کی برگزیدہ قوم اورغیر اقوام میں امتیاز نظر آئے۔ اوررفتہ رفتہ رُوحانی واخلاقی امتیاز جسمانی اورمعاشرت امتیازات کی جگہ لے لے۔ اورکسی وقت وہ روحانی امتیاز خصوصیت کی قیود سے نکل کر عمومیت میں منتقل ہوجائے۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔ تاکہ لوگ تمہارے نیک کامون کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جوآسمان پر ہےبڑائی کریں۔(متی ۵: ۱۶ ) بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے ہیں نہ جتو۔ کیونکہ راستبازی اوربے دینی میں کیا میل جول ؟ یا روشنی وتاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح کو بلی یعل کے ساتھ کیا موافقت ؟ یا یماندار کا بے ایمان کے ساتھ کیا۔ اورخُدا کے مَقِد س کو بتوں سے کیامناسبت ہے ؟ (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴- ۱۶ ) یہ امتیاز تھا جو اُس معاشرتی وجسمانی امتیازات کی جگہ لینے والا تھا۔ اسی واسطے جلت وحرمت کے قومی اورزمانی اَحکام کا باطنی اوررُوحانی مفہوم خُدا وند مسیح نے یوں ظاہر فرمایا۔ جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔ مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(متی ۱۵: ۱۱ ) مقدس پطرس رسول نے بھی توریت کے حکم کے مطابق خُدا کی اُتاری ہوئی چیزوں میں حلال وحرام کا امتیاز ظاہر کیا تھا۔ لیکن خُدا نے فرمایا۔ کہ جن کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو اُنہیں حرام نہ کہہ۔ (اعمال ۱: ۱۱- ۱۵) ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب خُدا خود پاک ہے تو اُس نے ناپاک چیزیں کیسے پیدا کردیں؟ کیا کبھی سورج سے تاریکی برآمد ہوسکتی ہے ؟ ایک نقیض دوسرے نقیض کی علت ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں لہٰذا جب خُدا پاک ہے تو اُس نے کوئی شے بذاتہ ناپاک پیدا  نہیں کی۔ اورحلت وحرمت کے احکام کا نفاذ محض  فرمانبرداری اورپابندی کی رُوح بنی اسرائیل میں پیدا کرنے کی غرض سے ہوا تھا۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہرچیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکرگزاری کے ساتھ کھائی جائے۔ (ا۔ تمتھیس ۴: ۴) کوئی بذاتہ حرام نہیں۔ لیکن جو اُ س کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۴ ) پھر فرما تا ہے۔کھانا ہمیں خُدا سے نہیں مِلائے گا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں۔ (ا۔ کرنتھیوں ۸: ۸ ) کیونکہ خُڈا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۷ ) البتہ اگر ہمارے کھانے پینے سے کسی کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا اجتمال ہو تو اس نیت سے کہ کسی کوٹھوکر نہ لگے اورمحبت کا قاعدہ نہ ٹوٹے احیتاط لازمی ہے۔(رمیوں ۱۴: ۱۵ ؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۱۳ ) کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہوجاتاہے۔یعنی اس سے کہ تُونے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ (گلتیوں ۵: ۱۴ )۔

روزہ

جس روحانی مقصد سے روز کا حکم قوم یہود کو دیاگیا وہ بہت گہرا تھا۔ اس میں اییک توعابد کے جسمانی ایثار کی علامت پائی جاتی ہے۔کہ عابد اپنے معبود حقیقی کے عشق ومحبت میں یہاں تک محو ہوجائے کہ کوئی جسمانی فکر اُس کی اس عقید ت ومحبت پر غالب نہ آسکے۔ بلکہ اگر اُس کو اپنی تمام لذایذ وحظا یظ نفسانی اورآرئش وزیبا ئش جسمانی اپنے محبوب حقیقی کی قربان گاہ عقیدت ومحبت پر نثار کرنی پڑھائیں تو مطلق دریغ نہ کرے۔ اوروہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ آدمی صرف روٹی سے جیتا نہیں رہتا۔ بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نکلتی ہے (متی ۴: ۴) دوم یہ کہ بعض دفعہ عابد اپنے معبود کی طبیعت اورمرضی کے خلاف کوئی گناہ کرکے اُس کی ناراضگی کو محسوس کرتا ہے۔ اور اُس کی ناراضگی کے باعث طبیعت میں بے چینی۔اضطراب اور قلق اس درجہ بڑھ جاتا ہے۔ کہ کھانا پینا قدرتی طورپر اچھا نہیں لگتا۔اور انسا ن خور د ونوس اورآسائش وزیبا ئش کو یکسر ترک کرکے سوگوار حالت میں بیٹھتا ہے۔ جیسے داود نبی سے جب خلاف مرضی خُدا گناہ سرزد ہوا ور اُس نے خُدا کی ناراضگی کو محسوس کیا تو نہایت غمگین اوربے چین ہو کر روزہ رکھا اورتخت کو چھوڑ کر ٹاٹ اوڑھا اورفرض پر پڑا رہا۔ (۲۔ سموایل ۱۲: ۱۶- ۱۷ ) یوناہ ۳: ۵) سوم۔ حضرت ابوالبشر (آدم ) کے گناہ میں گر جانے کے باعث تمام بنی آدم مورثی ناپاکی میں مبتلا ہیں۔ اورگناہ تمام دُنیا پر مرض کی طرح غالب ہے۔ اوراس مرض نے زندگی کے شیریں چشمہ کو کڑوا کردیا ہے۔ اورانسان اپنی ذاتی کوشش وتدبیر سے پاک بننے میں قطعی قاصر ہے۔ اس واسطے جب تک اُن کے اس مرض روحانی کاکوئی حکیم وشافی ظاہر نہ ہو تب تک مریضان گناہ کا غمگین حالت میں رہنا  اورروزہ رکھنا ضروری ہ۔ اورمرض کی حالت میں ویسے بھی کھانا پینا اچھا نہیں لگتا۔ اورخُداوند تعالیٰ نے زکریاہ نبی کی معرفت گویا مرض ِ گناہ کے حکیم حاذق خُدا وند مسیح کی خبردی اورفرمایا۔ کہ چوتھے اورپانچویں اورساتویں اوردسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اورخُرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا (زکریاہ ۸: ۱۹) اوریوحنا کے شاگرد اورفریسی جو روزہ کے بڑے پابند تھے مسیح کے شاگردوں کی شکایت کرنے لگے کہ وہ روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟ خُداوند مسیح نے اُنہیں جواب دیاکہ۔ کیا بَراتی جب تک دُولھا اُن کے ساتھ ے روزہ رکھ سکتے ہیں؟ (مرقس ۲: ۱۹) گویا مسیح کی آمد سے مریضان گناہ کے دلوں میں ایک زبردست اُمید اس بات کی جھلک رہی تھی کہ اب غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارے گناہوں کو مِٹانے والا ظاہر ہوگیا ہے۔ اب کیوں مایوس رہیں۔یسوع نے سُن کر اُن سے کہا تندرستوں کوحکیم درکار نہیں۔ بلکہ بیماروں کو میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہو ں(مرقس ۲: ۱۷) یہودی لوگ دیگر دینی رسوم کی طرح روزہ کی رَسم پر بھی ظاہرداری اورریاکاری کی رنگ آمیزی کو چکے تھے۔ اس لئے خُدا نے اُنہیں یوں ملامت کی۔ اورروزہ کی اصل غایت کو اُن پر بدیں الفاظ ظاہر فرمایا۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے ؟ ایسا دن ہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دیکھ دے۔ اوراپنے سَر کو جھاوکی طرح جھکائے۔ اوراپنے نیچے ٹاٹ اورراکھ بچھائے ؟ کیا تو اس کو روز ہ اورایسا دن کہیگا جو خُداوند کا مقبول ہو؟ کیاوہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اورجوئے کے بندھن کھولیں۔ اورمظلموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں ؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بھوکون کو کھلائے اورمسیکنوں کو جوآوارہ ہیں  اپنے گھر میں لائے اورجب کسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے۔ اورتُواپنے ہم جنس سے رو پوشی نہ کرے (یسعیاہ ۵۸: ۵- ۷) اورخُدا وند  مسیح نے بھی فرمایا۔ اورجب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناو۔ کیونکہ وہ اپنا مُنہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اَجر پاچکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تواپنے سر میں تیل ڈال اور مُنہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔۔۔(متی ۶: ۱۶- ۱۸) انجیل ِ مقدس میں روزہ کےمتعلق نہ تو تاکید ہے اور نہ امتناع بلکہ عابد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ جب ایسے حالات پیش  آئیں جن سے روزہ کی نوبت پہنچے توروزہ رکھے۔ اورایسا ہی ہوتا بھی ہے  پر کسی خاص دن یا مہینہ یا موسم کی تخصیص کی کوئی ہدایت نہیں اورنہ ہوتی چاہئے۔ روزہ ایمانداروں کی تمام زندگی پر حادی ہے۔ پس نئے عہد کی کامل شریعت میں آکر روزہ لازمی حکم نہ رہا اختیاری امر ہوگیا۔

عیدیں

یہودیوں کے لئے تین عیدیں مقر رتھیں۔ تُوسال بھر میں تین بار میرے لئے عہد منانا (خروج ۲۳: ۱۴ ) اوریہ عید یں اُن کی گذشتہ تاریخ کے واقعات کی یادگاریں تھیں۔

  • پہلی عید فسح تھی جو مارچ یا اپریل میں ہوتی تھی۔ یہ بنی اسرائیل کے مصر کی غلامی سے چھٹکارے کی یاد گات تھی۔ اس موقع پر بھنا ہوا گوشت بے خمیری روٹی اورکڑوی ترکاری کے ساتھ کھانے کے حکم تھا(خروج ۱۲: ۸) اس کے بعد ہی مسات روز تک خمیر کو گھروں سے جُدا کرنے کا حکم تھا۔ اسی واسطے اس کو عید فطیر بھی کہاگیا۔ کڑوی ترکاری کھانے سے مراد یہ تھی کہ جب جب یہ عید مَنائی جائے مصر کے گذشتہ دکھوں کو یاد کیاجائے۔ اورخمیر کو جُدا کرنے سے مراد تھی کہ گناہ وشرارت کو اپنے دلوں سے نکالیں۔عین اُس وقت جبکہ عید فسح کا موقع تھا خُداو ند مسیح نے اپنی جان تمام جہان کے اسیران گناہ کی خاطر دے کر انہیں شیطان اورگناہ کی شیدید غلامی سے آزاد فرمایا۔ (عبرانیوں ۲: ۱۴–۱۵) اوریہودی عید فسح کا تکملہ مسیح کی قربانی میں ہوگیا۔ اور کڑوی ترکاری کھانے کی رسم اوربھُنا ہوا گوشت کھانے میں مسیح کے صلیبی دُکھوں اوراُس کے جسمانی ورُوحانی صدمات کی پیشین گوئی موجود ہے۔پھر اُس نے روٹی لی اورشُکر کرکے توڑی اوریہ کہہ کر اُن کو دی کہ یہ میرا بدن ہے۔ جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔میری یادگاری کے لئے یہی کیاکرو۔ اسی طرح کھانے کے بعد پیالہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ میرے اُس خون میں نیا عہد ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے۔ (لوقا ۲۲: ۱۹–۲۰)۔ جس طرح فسح کی عید یہود کے لئے مصر کی غلامی سے آزاد ہونے کی یاد گاری تھی۔ اُسی طرح پاک عشا ء ربانی کی رسم ابلیس وگناہ کی غلامی سے چھٹکارے کی ابدی اوردائمی یادگار ٹھہری مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ پرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کرلو۔ تاکہ تازہ گندھا ہوا آٹا بن جاو۔ چنانچہ تُم بے خمیر ہو۔ کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا۔ پس آو عید کریں نہ پرانے خمیر سے اورنہ بدی وشرارت کے خمیر سے بالکل صاف دلی اور سچائی کی بے خمیر روٹی سے (۱۔ کرنتھیوں ۵: ۷- ۸) اوریوں ہو مختص بالقوم و زمان یادگار ایک عالمگیر اوردائمی روحانی عید میں منتقل ہوگئی۔
  • عید پنتی کوست یاہفتوں کی عید۔ یہ عید مصر کی غلامی سے چھٹکارے کے پچاسویں دن قائم ہوئی۔ ماہ مئی یا جون کے درمیانن میں ہوتی تھی۔ یہ ایک طرف مصر سے آزادی کی اوردوسری طرف شریعت الہٰی  کے دئے جانے کی یادگاری تھی۔ اس میں یہودی لوگ اپنے گہہوں اورجو کے پہلے پھل خُدا کی لئے نذر کرتے تھے۔ یہ عید روح ہے وہاں آزادی ہے۔ (۲۔کرنتھیوں ۳: ۱۷ ) چنانچہ خُداوند مسیح کے صعود کے دس روز بعد روح القدس اسی عید کے موقع پر نازل ہوا تھا۔ اورروحانی معنی میں پہلے پھل وہ تین ہزار مرد تھے جنہو ں نے اپنے آپ کو خُدا کے نذر کردیا(اعمال ۲: ۴۱) انجیل میں اپنی شخیصت کو نذر کرنے کا حکم ہے (رومیوں ۱۲: ۱؛ کلیسوں ۱:۱ ؛ عبرانیوں ۱۳: ۱۵) عید پنتی کوست کا تکملہ رُوح القدس کے نزول پر ہوگیا اورروح القدس اُن پر آگ کی پھٹی ہوئی زبانوں کی صورت میں نازل ہوا۔ اور وہ غیر زبانیں بولنے لگے۔ ہر ایک اپنے اپنے مُلک کی بولی وہا ںسنتا تھا۔ یہ گویا الہٰی اشارہ تھا کہ خُدا کا مذہب قومی دائرہ سے نکل کر تمام اہل لغت کا دستور العمل بن جائے۔ اورپاک صحائف کے تراجم تمام دُنیا کی زبانوں میں ہوجائیں ۔تاکہ سب قومیں بلا امتیاز وخصوصیت اُن سے فائز المرام ہو سکیں۔ اورمذہب ِالہٰی تمام دُنیا کا مذہب ہوجائے۔
  • عید ِخیام یہ عید قوم یہود کی غریب الوطنی اوردشت نور دی کی یادگار تھی۔ستمبر یا اکتوبر میں ہوتی تھی۔ اُ ن کی مسافرت کے ایام اورخیموں کی سکونت کے دوران میں فیوض الہٰی وبرکات سمادی کے نزول کی یادگار تھی۔ آخر اُن کی دشت گردی اوربادیہ پیمائی ملک کنعان کی مستقل سکونت پر منتج ہوئی۔ اگرچہ اُن کی مسافرت کانشانہ ملک کنعان تھا۔ مگر حقیقت میں وہ ایک بہتر۔ یعنی آسمانی ملک کے مشتاق تھے۔ (عبرانیوں ۱۱: ۱۶ ) اور تمام ایمانداروں بندوں کا بھی وہی نصبت العین ہے۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خُداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔(۱۔ کرنتھیوں ۵: ۶)۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمے کا گھر جو زمین پر ہے گِرا یا جائے گا۔ تو ہم کو خُدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنایا ہوا گھر نہیں۔ بلکہ ابدی ہے(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱ ) اوراُسی آسمانی وطن کی بابت خُداوند مسیح نے فرمایا۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ کیونکر میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں (یوحنا ۱۴: ۲) مقدس پطرس رسول فرماتا ہے اپنے آپ کو پردیسی اورامُسافر جان کراُن جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو رُوح سے لڑائی دیکھتی ہیں (۱۔ پطرس ۲: ۱۱) ان تین بڑی عیدوں کے علاوہ دو اورچھوٹی عیدیں بھی تھیں۔ یعنی عید پوریم اورعید تجدید۔لیکن یہ خُدا کی مقرر کردہ نہ تھیں۔ بلکہ ایک ملکہ آستر کے زمانے میں اوردوسری یہوداہ مکابی کے وقت میں یہودیوں نے خود مقر ر کرلی تھیں۔ ان دونوں موخرا لذ کر عیدوں کا یروشلیم کی ہیکل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سب عیدیں جن واقعات کی یادگاریں تھیں وہ صرف بنی اسرائیل کی تاریخ سے متعلق تھے۔اور تمام دُنیا کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔اس لئے وہ تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کے قابل نہ تھیں۔ اس لئے وقت پورا ہونے اوراپنے حد رواج کے اختتام پر وہ بند ہوگئیں۔ اورہیکل کے بغیر اُن پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا۔ اس لئےجب ہیکل نہ رہی تو عید یں کیسے وہ سکتی تھیں۔ خُداوندمسیح کی قربانی اورمحبت کا تعلق تمام دُنیا کے ساتھ ہے (انجیل یوحنا ۳: ۱۶ ،خط ،۱۔ یوحنا ۲: ۲) الہٰذا اُس کے متعلق تمام واقعات کا تعلق عام طور پر تمام افراد عالم کے ساتھ ہے۔

طریق ِعبادت

ہم  پیچھے کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ یہودی مذہب کا مرکز ہیکل تھی۔جس میں اُن کی تمام مذہبی رسوم اورعبادت قومی صوررت میں انجام پاتی تھیں۔ اورخُدا کا یہ حکم تھا کہ اگر تم غیر معبودوں اوربتوں کی پرستش کروگے اورنیک نیتی سےمیری عبادت بجانہ لاوگے۔ تو مَیں اِس ہیکل کو گرادوں گا اور تمہیں اس زمین سے نکال دوں گا۔ (۱۔ سلاطین ۹:۶-۹) اوراس انتظام سے اُن کے اندر عبادت الہٰی کی خالص رُوح پیدا کرنا مقصود تھا۔ اورجب وہ خُدا کی خالص عبادت کے کھنڈرات پر بت پرستی کی عمارت اُٹھانے لگے۔ اور غیرمعبودوں ک طرف مائل ہوئے۔ تو خُدا نے بھی اُنہیں ترک کردیا۔ اورایک بُت پرست کسدی بادشاہ نبوکدنظر کے ذریعے اسری ہوکر بابل لے جانے گئے۔ اورمقدس ہیکل بھی برباد کی گئی (یرمیاہ ۵۲: ۱۳) ایماندار یہودی اُس غریب  الوطنی اوراسیری کے زمانہ میں بھی خُدا کو نہ بھولے اورکثرتین مرتبہ دن میں یروشلیم کی طرف رخ کرکے نماز کیا کرتے تھے۔ اورجب دانی ایل نے معلوم کیا کہ اُس نوشتہ پر دستخط ہوگئے۔ تو اپنے گھر میں آیا۔ اوراپنی کوٹھڑی کا دریچہ جو یروشلیم کی طرف تھا کھول کردن میں تین مرتبہ حسب معمول گھٹنے ٹیک کر خُدا کے حضور دُعا اوراُس کی شکر گذاری کرتا رہا۔ (دانی ایل ۶: ۱۰ ؛۱۔سلاطین ۸: ۴۸)اس بیان سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ ہیکل کے رُخ پر تین دفعہ دن میں نماز پڑھتے تھے۔ اوبانی اسلام نے رُخ کعبہ پر نماز گنا رنا یہودیوں سے سیکھا۔ اورکئی ماہ تک بیَت المقدس (ہیکل ) کے رُخ پر نماز ادا کرتے اورکرواتے رہے۔ اوریہود کی نماز عبرانی زبان میں ہوتی تھی۔ اہل اسلام بھی عربی زبان کے سِوا اورکسی زبان میں نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ اس سے  اِسلام کا ایک قومی مذہب ہونا ظاہر ہے۔ بھلا اہل عرب تو اپنی ملکی زبان عربی میں نماز پڑھیں۔ دیگر ممالک کے مسلمان تو عربی نہیں ہیں۔ اُن پرعربی زبان کی قید لگانا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے ؟ کیا خُدا سوائے عربی زبان کے او رکوئی زبان نہیں جانتا ؟ مسیحیت کی عمومیت اور عالیگر ی کی یہ کیسی بین دلیل ہے کہ مسیحی ہر زبان میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔اور تما دُنیا کی زبانوں میں انجیل کا رواج پایا جاتا ہے۔یہ صرف مقدان آخداند کی کوئی اپنی ایجاد کردہ تجویز نہ تھی جس پر اُنہوں نے عمل کر لیا۔ بلکہ رُوح القدس ک ہدایت کے ماتحت انجیل مقدس کے دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمے کئےگئے (اعمال ۲: ۳-۸) اورزبان کی تخصیص کسی مذہب کے عالمگیر ہونے کی محدود مانع ہے۔اسی واسطے مقدس پولوس رسول بیگانی زبان میں دُعا مانگنے اورکلام کرنے و معیوب ٹھہراتا ہے۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۴: ۱-۲۳) یہودی ہیکل کے رُخ پر نماز پڑھتے تھے اور اہل اسلام کعبہ کے رُخ پر۔ لیکن خُداوند مسیح نے تخصیص جہت وسمت کا جھگڑا ہی ختم کردیا۔ جس میں ظاہرداری کا بھی امکان نہیں رہتا۔(ملاحظہ ہومتی ۶: ۵- ۶) یعنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کرکے پوشید گی میں دُعا مانگنے کا حکم دیا۔ شریعت موسوی پر عمل درآمد کے لئے ہیکل کا وجود لازمی تھا۔ اوربغیر ہیکل کے یہودی مذہب ایک قالب بے جان کی مثال تھا۔ خُداوند مسیح چونکہ عالمگیر مذہب کابانی ہوکر آیا تھا۔ اس لئے جب ایک دفعہ اُس کے شاگردوں نے ہیکل کی زیارت کے لئے اُس سے سوال کیا تو اُس نے فرمایا۔ میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا جو گرایا نہ جائے۔ (متی ۲۴: ۲) اور پھر سامری عورت نے آپ سے کہا کہ۔ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی۔اور تُم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر ستش کرنی چاہئے یروشلیم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا اَے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تُم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلیم میں۔۔۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اورسچائی سے کریں گے۔ (یوحنا ۴: ۲۰-۲۳) اورایمانداروں کےدلوں کو خُدا کا مَقِدس (ہیکل ) کہا گیا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۶- ۱۷) اورآپ کے قول کے مطابق ہیکل سلیمانی ۷۰ عیسوی میں برباد ہوگئی اور مذہب الہٰی خصوصیت کی قیود سے آزاد ہوگیا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل بن سکے۔

ہم بالتفصیل دکھاچکے کہ کس طرح اورکن معنوں میں خُداوند مسیح نے شریعت موسوی کی تکمیل فرمائی۔ اوراحکام خاص کس طرح اورکیوں متروک العمل ہوگئے۔ رد نہیں کئے گئے بلکہ اُن کی ضرورت نہ رہی۔ شباب کی آمد سے طفلی رد نہیں ہوجاتی بلک شباب کی کمالیت میں گُم ہوجاتی ہے۔جب بنیاد پر رد ے لگا کر عمارت کو انجام تک پہنچا یا جاتا ہے تو بنیاد رد نہیں ہو جاتی بلکہ چھپ جاتی ہے۔ توریت کی ناکامل شریعت مسیح کی کامل شریعت (یعقوب ۱: ۲۵) کی آمد پر رد وباطل نہیں ہوئی بلکہ اُس کی کمالیت میں چھپ گئی۔ اس واسطے کامل اورعالمگیر شریعت کےی رواج پانے سے موسوی ناکمل شریعت ایسے ہی غائب ہوگئی جیسے آفتاب کے طلوع ہونے پر چراغ گُل کردیا جاتا ہے۔ خُداوند مسیح نے شرع اِلہٰی کے حقیقی اورباطنی معنوں کی روشن کر دیا۔ اوراُس کے قالب میں ایک نئی رُوح پھونک کر اور اُس کے حجاب خصوصیت کو اُتار کر عمومیت کے وسیع میدان میں بے نقاب کرکے اورتمام دُنیا کے لئے نور ہدایت بنا کر دکھ دیا ہے۔ اب اس متروک شُدہ شرع موسوی احکام خاص پر عمل کرنے کے خلاف انجیل مقدس کی تعلیم ملاحظہ ہو۔ مگر اب جو تم نے خُدا کو پہچانا۔ بلکہ خُدا نے تُم کو پہچانا تو اُن ضیعف اورنکمی ابتدائی باتوں کی طرف کس طرح پھر رجوع ہوتے ہوجن ک دوبار ہ غلامی کرنا چاہتے ہو۔تُم دنوں اورمہینوں اورمقررہ وقتوں اوربرسوں کو مانتے ہو۔ (گلیتوں ۴: ۹- ۱۰) پس کھانے پینے یا عید یاکئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تُم پرالزام نہ لگائے۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں (کلسیوں ۲: ۱۶- ۱۷) جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا اوراُسے ہاتھ نہ لگانا (کلسیوں ۲: ۲- ۲۱) اوراُس عالمگیر نئے عہد کی آمد اوراُس کی شرع کامل کے رواج پانے پر نہ یونانی رہانہ یہودی۔نہ ختنہ نہ نامختونی نہ وحشی نہ سکوتی۔نہ غلام نہ آزاد صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے (کلیسوں ۳: ۱۱) جیسے ایک معمار جب امکان کی محراب بناتا ہے اوراُس کے نیچے اینٹوں کا ایک عارضی سہارا لگاتا ہے اورجو نہی وہ محراب پختہ ہوجاتی ہے وہ ماتحت قالب کوگراد یتا ہے۔ اسی طرح توریت کے احکام خاص کامل مذہب اورکامل شریعت کے قیام پر متروک العمل ہوگئے۔

اَحکام عام

اخلاقی شریعت کے احکام عشرہ جو خُدا نے موسیٰ کو لکھے لکھا ئے سونپے (خروج ۳۱: ۱۸) اُنہیں کو احکام عام کہا جاتا ہے۔ اوریہ احکام ہیں جو ہرزمانے میں متبوع اورمطالعہ ہے اوررہیں گے۔ یہ احکام خاص کا مرکز اوررُوح رواں تھے۔ اور اِن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل صلاحیت موجود ہے۔جس طرح انسان کی جسمانی زندگی کے لئے خُدا تعالیٰ کے عطا کردہ طبعی وفطری سامان کافی ودانی ہیں۔ اسی طرح ہماری روحانی اورمجلسی زندگی کے لئے یہ احکام نہایت ضروری اورمفید ہیں۔ اِ ن اَحکام کا بیان (خروج ۲۰: ۱-۱۷ ) اورمفصل تشریض (احبار با ب ۱۹) میں موجود ہے۔ اورخُداوند مسیح نے ان کاخلاصہ بدیں الفاظ پیش کیا ہے۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اورپہلا حکم یہی ہے۔ اوردوسرا ا  س کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔ (متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) جیسے توریت کے احکام خاص ظاہر بات سے تعلق رکھتے تھے۔اُسی طرح احکام عام انسان کی باطنی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔مسیح کی تمام تعلیم باطنیت سے متعلق ہے۔تمام مامور ان ربانی اورداعیان حقانی ایک ہی قومی مرکز کے گرد چکر لگاتے رہے۔ اوراپنی قومی حدود سے نہ تو وہ خود آگے بڑھے اورنہ ہی اُنہیں خُدا کی طرف سے ایسا ختیار ہی دیا گیا تھا۔ لیکن عہدجدید کے بانی ومبدا نے تمام دُنیا کو اپنا دائرہ عمل بنایا۔ اورتوریت کے قومی مذہب کی معیاد کو یوحنا تک محدود ٹھرایا۔ کیونکہ سب نبیوں اورتوریت نے یوحنا تک نبوت کی (متی ۱۱: ۱۳) شریعت اورانبیاء یوحنا تک رہے اُس وقت سے خُدا کی بادشاہت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۹) اورشریعت اخلاقی (احکام عام ) کے متعلق فرمایا۔آسمان اورزمین کاٹل جانا شریعت کے ایک نقطے کے مٹ جانے سےآسان ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۷ ،متی ۵: ۱۸- ۱۹) اورجس طرح ایک گورنر کے اختیارات کا زور صرف ایک ہی صوبے تک محدود ہوتا  ہے۔اسی طرح انبیائے توریت کا اختیار اورمنصب قوم یہود سے باہر اثر انداز نہ ہوسکتا تھا اور نہ ہوا اُن کا یہ سلسلہ یوحنا اصططاﷺی ایک اُسی خصوصیت سے چلا آیا۔ ایک شہنشاہ کے اختیارت ایک گورنر کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہیں۔ چنانچہ اسی طرح عالمگیر عہد کے بانی کے اختیارات اورذاتی قابلیت انبیاء عہد عتیق سے بہت زیادہ ہونی چاہئے۔ اوردرحقیقت ایسا ہی ہے۔آپ نے اپنے آپ کو تمام انبیاء سابقہ سے بہر صورت افضل ظاہر کیا۔ مثلاً یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے۔(متی ۱۲: ۴۱) یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے (آیت۴۲) داود سے بڑا ہونا (متی ۲۲: ۴۲- ۴۵) یہاں وہ ہے جوہیکل سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۶) پیشترع اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔ (یوحنا ۸: ۵۸) موسیٰ پر فضیلت (عبرانیوں ۳: ۳-۶) فی الحال ہم مسیح کے فضائل کے متعلق ان چند امثلہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی مُناسب مقام پر مفصل بیان کریں گے۔

واضح ہوکہ خُداوند مسیح نے اپنی مختصر سی زمینی زندگی میں عالمگیر مذہب کی صرف بنیاد ہی رکھی۔ اورجس طرح توریت کا زمانہ مذہب کی ابتدائی حالت کا زمانہ تھا۔ اُسی طرح مسیح کا زمانہ مذہب الہٰی کی وسطی حالت کا زمانہ تھا۔ اورجس طرح توریت کے تمام انبیاء مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عالمیگر وسعت کی خبردے گئے تھے ،اُسی طرح خُداوند مسیح بھی اپنے بعد ایک دوسرے مددگار کے نزول وظہور کی خبردے گئے۔مجھے تُم سے اوربھی بہت سی باتیں کہنی ہیں۔ مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دِکھائےگا۔۔۔۔ وہ میرا جلال ظاہر کرگے گا۔ اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا۔ (یوحنا ۱۶: ۱۲- ۱۴ ، ۱۵: ۲۶ ) اور مذہب الہٰی کو انتہائی کمالیت تک پہنچا نا رُوح القدس کا کام تھا۔جس کا خُداوند مسیح نے وعدہ فرمایا تھا۔ مذہب کی ارتقائی حیثیت سے توریت کا زمانہ ابتدائی مسیح کی زمینی زندگی کا زمانہ وسطی۔ اوررُوح القدس کا زمانہ انتہائی کمالیت کا زمانہ ہے۔ خُداوند نے اپنی زمینی زندگی میں عالگیر مذہب کی صرف بنیادیں رکھیں۔ اورکسی قدر خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں بدل دیا۔ مثلاً یہودی قوم تمام دیگر غیر اقوام کا نامختون بے دین۔ لامذہب اورگمراہ سمجھ کر اُ ن سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ اوربالخصوص یہودی لوگ سامریوں سے بہت زیادہ متنفر تھے۔ اور اُنہیں حقیر اورناچیز جانتے تھے۔ مگرمسیح نے سامریوں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا۔ اور اُن کی قدر کی یہود کو اُن کی ظاہری داری۔خود پرستی اورتعصب پر بارہا ملامت کی۔ایک رَحم دلِ سامری کی تعریف کی اورمغرور کاہن اورخود سرلادی کو ملامت کی (لوقا ۱۰: ۲۵- ۳۷) پھرایک دفعہ دَس کوڑھی آپ سے شفا پاکر گئے۔ اُن میں سے ایک نے جو سامری تھا لَوٹ کرخُداوند کی شکر گزاری ک۔آپ نے اُس کے ایمان کی تعریف کی (لوقا ۱۷: ۱۵- ۱۹)۔ ایک دفعہ جب سامریوں نے آپ  کو اپنے گاوں میں ٹکنے نہ دیااورشاگردوں کا پارہ طیش بہت چڑھ گیا اور اُس گاوں پر آسمان سے آگ برسانا چاہتے تھے توآپ نے شاگردوں کو جھڑکا اورفرمایا ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے۔(لوقا ۹: ۵۱- ۵۶) اورپھر یوحنا ۴: ۷- ۲۶) میں سامری عورت کا مشہور قصہ سب جانتے ہیں۔ کہ مسیح نے کیسے محبت سے اُس کے ساتھ برتاو کیا تھا۔ اورسُورفینکی عورت جو غیر قوم تھی مسیح کے پاس آئی۔ آپ نے اُس کی مُراد کوپورا کرنے کے علاوہ اُس کے ایمان کی تعریف کی (متی ۱۵: ۲۱- ۲۸) اورایک دفعہ جب ایک غیر قوم صوبہ دار کے نوکر کو آپ نے شفا دی تو اُس صوبہ دار کے ایمان کی بدیں الفاظ تعریف کی۔میں نے ایسا ایمان اسرائی میں بھی نہیں پایا (لوقا ۷: ۹) اورآپ نے ایک جگہ جو انگور ی باغ کے ٹھیکداروں کی تمثیل کہی ہے۔اُس میں باغ سے مُراد یہودی قوم اور ٹھیکیداروں سے مُراد اُس کے رہبر اورکرتا دھرتا یعنی فقیہہ اورفریسی۔ اورباغ کو اُن ٹھیکیداروں سے چھین کر اَوروں کو دے دینے مُراد غیر اقوام کو دینے سے ہے۔ یہ مذہب کی عالمگیر ہی کی ایک تمثیلی پیشین گوئی تھی۔ (لوقا ۲۰: ۹- ۱۸ ،تمی ۲۱: ۳۳- ۴۵) پھر آسمان کی بادشاہت کورائی کے دانہ اورخمیر سے تشبیہہ دے کر مسیحیت کی عمومیت و ہمگیری کی خبردی (متی ۱۳: ۳۱-۳۳) غیرضیکہ مسیح نے ہر پہلو اورہر صورت سے شریعت کو کامل کیا۔ اورعالمگیر مذہب کی بنیادیں پختہ کرکے اُن پرعملی طورسے کام بھی کیا۔اگرچہ اس عظیم مہم کی راہ میں حاسداورمخالف طاقتیں دیوار بن کر حائل ہوئیں۔ مگر آپ کے عزم  آہنی نے اپنی مقدس خدمت کے لے اس خادزار میں رستہ تلاش کرہی لیا۔ اوربے پنا ہ نفرت کے جنوبی دھارے جو یہود کے اعصا  ب میں تیر رہےتھے۔ اورمخالف ومنافرت کا مہیب سمندر جواُن کے اعماق قلب میں طوفان خیز تھا آپ کے لئےپائے استقلال کو مثل نہ کرسکا۔ اگرچہ وہ ہمیشہ آپ کی شدید مصیبت مظلومیت اورموت میں اپنے سارہ اقبال کی فال نکالتے تھے۔ اوراُس نور کے سامنے اپنی پوشید ہ ذلتوں کو مجوب مصائب ونقائص کو بے نقاب دیکھ کراُس کو بجھا دینے کے ہر وقت درپے رہتے تھے۔ اوراپنی اِن مکروہ مساعی میں کامیاب بھ ہوئے لیکن پھر بھی جس پتھر کو معماروں نے رَدکیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوا۔ اُس نئے عہد کے بانی کونئے عہد کی بنیاد رکھنھے کے لئے اپنی جان دینی پڑی۔ اس لئے پہلا عہد بھی بغیر خون کے نہیں باندھا گیا۔ (عبرانی ۹: ۱۸ ) مطابق خروج ۲۴: ۱۸) ذر شریعت موسوی کی تکمیل کا تمام ترد اردمدار آپ کی پاک اور بے عیب عالمگیر قربانی پر تھا۔ اسی واسطے آپ مذہب الہٰی کو عالمگیر  کی انتہائی حدود تک اپنی زمینی زندگی میں پہنچا نہ سکے۔ بلکہ انتہائی کمالیت کی ابتداء آپ کی موت قیامت اورصعود کے بعد ہوئی۔ کیونکہ آپ کی قربانی کے بغیر شریعت عتیقہ کا مل نہ ہوسکتی تھی۔ اور وہ آپ کی صلیب پر کامل ہوئی۔اور آپ نے کہا۔ پورا ہوا۔ اور سرجھکا کرجان دے دی۔ (یوحنا ۹: ۳۰) اورقبر دعوت پر کامل فتح پاکر اپنے حواریوں کو یہ وصیت کی کہ  آسمان اورزمین کا کُل اختیار مجھے دیاگیا ہے۔ پس تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔اور اُنہیں باپ اور بیٹے اوررُوح القدس کے نام پر بپتسمہ دو۔ اوراُنہیں یہ تعلییم دو کہ اب سب باتوں پر عمل کری ں جن کا میں ن تُم کو حکم دیا۔ دیکھو میں زمانے کے آخر تک ہمیشہ تمارے ساتھ ہوں (متی ۲۸: ۱۸-۲۰) اوراُس نے اُن سے کہا کہ تُم تمام دیان میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اوربپتسمہ لے وہ نجات پائے گا۔ اورجو ایمان  نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا(مرقس ۱۶: ۱۵-۱۶) اوراُن سے کہایوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔ اورتیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھیگا۔اوریروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے گی (لوقا ۲۴: ۴۶- ۴۸)۔

رُوح الُقدس کا نزول اور مذہب الہٰی کی
انتہائی کمالیت

ہم پیچھے دکھاچُکے کہ عہد عتیق نے مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عمومیت کی خبریں دیں چنانچہ وقت پورا ہونے پر خُداوند مسیح آیا۔ اوراُس نے اُسی مذہب کی ابتدائی حالت سے اُٹھا کر وسطی حالت تک پہنچایا۔ اوراپنی جان تمام جہان کے گناہوں کے لئے دے کر شریعت کی تکمیل فرمائی۔ لیکن دُنیا کی حدود تک اُس مذہب کو وسعت نہ دے سکے۔ بلکہ آپ نے بھی اپنے ایک اور قائم مقام یعنی رُوح القدس کے نزول کی خبر اپنے شاگردوں کو دی۔اور مذہب کو وسطی حالت سے نکال کر انتہائی کمالیت تک پہنچانا اپنے ہونے والے قائم مقام کے لئےچھوڑ گئے۔ اورزندہ ہوکر اپنے شاگردوں کو یہ وصیت کی۔اوردیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازل کروں گا۔ لیکن جب تک عالم ِبالا سے تُم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو۔ (لوقا ۲۴: ۴۹) اورقبر سے زندہ ہوکر چالیس دن تک اُن پر طرح بہ طرح ظاہر ہوتے رہے۔ لیکن صعود فرمانے سے پہلے پھر اُسی خبر کو دہرایا۔ لیکن جب رُوح القدس تُم قوت پاو گے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوئے (اعمال ۱: ۸) آپ کے ان الفاظ سے خوب روشن ہے کہ آپ نے مذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت کو رُوح القدس کے نزول کے ساتھ مشروط ٹھہرایا۔ اورحسب وعدہ اپنے صعود کے دس روز بعد ہی رُوح القدس کو اُن پر عید پنتی کو ست کادن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔ کہ یکایک آسمان سے ایسی آیا جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے۔ اُس سے سارا گھر جہاوہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اوراُن میں سے ہرا یک پر آٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اورغیر زبانیں بولنے لگے۔ جس طرح رُوح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی (اعمال ۲: ۱-۴) اوردیگر غیر مسیحی لوگوں نے جو لاکھوں کی تعدا د میں اُس وقت وہاں عید کے لئے جمع تھے یہ تمام ماجرا دیکھا۔ اورسب حیران اورمتعجب ہوکر کہنےلگے۔ دیکھو یہ بولنے والے کیا سب گلیلی نہیں ؟ پھر کیو نکر ہم سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے ؟(اعمال ۲: ۷- ۸) اوررُوح القدس نے نازل ہوکر اُسی وقت لوگوں کی ایک کثیر تعداد مسیح پر ایمان لے آئی۔ پس جن لوگوں نے اُس کا کلام قبول کیا اُنہوں نے بپتسمہ لیا اوراُسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں ہل گئے۔(اعمال ۲: ۴۱) اورمقلدان مسیح کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر کلام کے سننے والوں میں سے بہترے ایمان لائے۔ یہاں تک کہ مردوں (عورتوں کا شمار شامل نہیں ) کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہوگئی (اعمال ۴: ۴) اوررُو ح القدس نے جو اُن کو ملک ملک کی غیر زبانیں بولنے کی قوت بخشی۔ تویہ گویا خُدا کا ایک صاف وصریح اشارہ اس امر کا تھا کہ کلام ِ مقدس کے ترجمے دُنیا کی تمام زبانوں میں کردئے جائیں تاکہ کوئی بشر خُدا کی رُوحانی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے۔چنانچہ خُدا کی اسی ہدایت کے ماتحت مسیح کی شمع عشق کے پروانوں کے انجیل جلیل کے ترجملے دُنیا کی ہر زبان میں کردئے۔ اوریسعیاہ نبی کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ۔وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروں گا۔ اوروہ آئیں گے  اورمیراجلال دیکھیں گے (یسعیاہ ۶۶: ۱۸) اورجس طرح یہودیوں نے خُدا وند مسیح کو دُکھ دیا اورستایا تھا اُسی طرح اب اُس کے شاگردوں کو ستانے لگے۔ اُن کو قیدوں میں ڈالنے اورطرح طرح سے ایذائیں دینے لگے۔تاکہ وہ مسیح کےنام کی منادی بند کردیں۔ لیکن مسیح کی محبت کا شعلہ اُن کے دل کے مذبح پر اور بھی تیزی سے جلنے لگا۔ اورسب سے پہلے مسیح کےخادم ستفنس نے جام شہادت نوش کیا۔ تاہم خُدا کا کلام پھیلتا رہا۔ اور یروشلیم مَیں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا۔ اورکاہنوں کا بڑا گروہ اس دین کے تحت میں ہوگیا (اعمال ۶:۷) اوروہ ہیکل میں اورگھروں میں ہرروز سکھانے اوراس بات کی خوشخبری دینے سے کہ یسوع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔(اعمال ۵: ۴۲)۔

مسیحیت غیر اقوام میں

آخر وہ وقت آگیا کہ یروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے(لوقا ۲۴: ۴۷) چنانچہ شاگردوں نے یروشلیم میں اپنی خدمت کو شروع کیا۔ اوررُوح القدس کی طاقت سےمعمور ہوکر بہت کا میابی حاصل کی۔ اب وہ یروشلیم سے باہر نکلتے ہیں۔ سامریہ میں جاتا ہے اورسامری لوگ اُس کے کلام سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں(اعمال ۸: ۴-۸) پطرس بھی غیر قوموں میں منادی کرنے لگا اوراُن پررُوح القدس نازل ہوا (اعمال ۱۰: ۴۵) اوراُنہوں نے بپتسمہ لیا۔ (آیت ۴۸) مگر جب رسولوں نے غیر اقوام کی طرف رُخ کیا اور اُنہیں خُدا کی بادشاہت کشادہ دلی سے شامل کرنےلگے تو یہودی مسیحی اُن پر اعتراض کرنے ہے اوراُن میں بڑی بحث ہوئی (اعمال ۱۱:۱-۲) اورپطرس نے دُن کو یوں جواب دیا۔ پس جب خُدا نے اُن کو بھی وہی نعمت دی جو ہم کوخُدا وند یسوع مسیح پر ایمان لاکر ملی تھی تو مَیں کون تھا کہ خُدا کوروک سکتا۔ وہ یہ سُن کر چپ رہے اورخُدا کی بڑائی کرکے کہا۔ توبےشک خُدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے (اعمال ۱۱: ۱۷- ۱۸) اوجب یہودیوں کی مخالفت ومخاصمت اوربغض و حسد کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگا تو پولوس اوربرنبادلیر ہوکر بولے۔ کہ ضرور تھا ہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنا یا جائے۔لیکن چونکہ تم اُسے رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو۔ تودیکھ ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (اعمال ۱۳: ۴۶) چنانچہ اُس وقت سے رسول دلیرانہ طورپر غیر اقوام میں مسیح ک گواہی دینے گئے اورپولوس رسول اپنے آپ کو غیر قوموں کا رسول کہتا ہے (اعمال ۱۸: ۶ ،رومیوں ۱۱: ۱۳،گنتی ۲: ۸- ۹۔ افیسوں ۴: ۱، ۸) اورخُدا وند مسیح کا وہ قول پورا ہوکہ۔۔جب رُوح القدس تُم پر نازلل ہوگا تو تم قوت پاوگے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔

(اعمال ۱: ۸) اورمذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت اورانتہائی کمالیت کا زمانہ رُوح القدس کے نزول سے لے کرقیامت کے دن تک وسیع ہے۔ چنانچہ پہلی صدیی عیسوی سے لے کر آج تک جو عالمیگر ترقی مسیحیت نے کی ہے وہ کسی منطقی دلیل سے ثابت کئے جانے کی محتاج نہیں۔ عیاں راچہ بیاں۔ قالب ِ دُنیا کے اعضائے رئیسہ اسی کے حلقہ بگوش ہیں۔ علمی ،عقلی ، مذہبی اورمالی ہر قسم کی ترقی بھی اُنہی کے ہاتھوں کو چوم رہی ہے۔ اورہر ملک وقوم میں مسیح کے گواہ تمام زبانوں میں انجیل مقدس کا اشتہار نہ لے رہے ہیں۔ خُدا وند تعالیٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت اور صداقت کو تمام رُوئے زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی قدرت کاملہ وحکمت بالغہ سے ذرائع وہ وسائل بھی ایسے زبردست مہیا کردے ہیں کہ اُس کی نشر واشاعت باآسانی تمام ہوسکے۔ مثلاً اُس نے اپنے خادموں کو پریس اورمطابع ایجاد کرنے کی حکمت بخشی۔ تاکہ وہ انجیل کو ہرزبان میں بہ تعداد کثیر تھوڑے عرصہ میں چھاپ کر تیار کریں۔ اورموٹر وریل گاڑی اورہوائی جہاز اوربحری جہاز وتاربرقی کے ذریعے انجیل ِمقدس دُنیا کے ہر حصے میں پہچا سکیں۔ ذرائع آمد ورفت کی آسانیاں ، اورپریس کی اختراع کچھ ایسے خُداداد عجیب وغریب سامان ہیں کہ جن سےبڑھ کر انجیل کی ترویخ وتوسیع اشاعت کے معاون بلنے محال ہیں۔ ریڈیو کی دریافت نے مبشران ِکلام کے حوصلوں کی اوربھی بلند کردیا ہے۔یہ ہیں وہ ذرائع جو مسیحیت کی ترویج اورتشہیر عامہ کے لئے خُدا تعالیٰ کی حکمت ودانش پر دلالت کرتے ہیں۔ آج اقوام ِعالم اورادیان دہر تمام امور میں مسیحیت کی تقلید پر جھکے ہوئے ہیں۔ اگرچہ زبان سے مسیح اورمسیحیت کو طعن ودشنام کرتے ہیں مگر باطن میں اُس کی تایثر سحرِ تخمیر کوخوب محسوس کرتے ہیں۔ اورمسیحیت کے آفتاب ِصداقت کے سامنے تمام دیگر مذاہب کے چراغ گل ہوئے جاتے ہیں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ سب اپنے اپنے مدھم عارضی چراغوں کو پھونک مار کے کر بھجادیں گے۔اور مسیحیت کے نیودرخشاں کی  ضیا باریوں سے بہر ہوں گے۔ اورخُداوند مسیح کو جو تمام دُنیا کے پیر طریقت میں اپنے دلوں کےپرسریر آرا فرمائیں گے۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹکے۔ خواہ آسمانیوں کو خواہ زمینوں کا۔خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اورخُدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔(فلپوں ۲: ۱۰-۱۱)۔

مسیحیت ہند میں

اس وقت متعد و مذاہب پاکستان  ہندوستان میں نظر آتے ہیں۔ اورروز بروز بہت سے مذہبی فرقے برپا ہوتے جاتے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں مذاہب اورہر فرقہ یہی دعوے ٰ کرتا ہے کہ وہ واحد عالمگیر الہیٰ مذہب ہے  اوردوسرے مذاہب باطل اورانسانی اختراع ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب خُدا واحد مسلم ہے تو وہ ایک ہی خُدا اتنے متناقض ومتضاد مکاشفے کیسے دے سکتا ہے ؟ اگر تمام مذہبی کتابیں الہامی مان لی جائیں توماننا پڑیگا۔ کہ اُن سب کا الہام خُدا کی طرف سے نہیں ہوا۔ اورتعجب انگیز امریہ بھی ہے کہ عام طورپر مسیحیت کے باہر تمام مذاہب امور معاشرت کو بھی مذہب کا جز بنائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ کھانا پینا۔ پہننا اورچند امتیازی علامتیں رکھانا سب جسمانی باتیں ہیں۔ آج جو لوگ اپنے اپنے مذاہب کی عالمگیر ی کے دعویدارہیں۔وہ محض مسیحیت کی تقلید پر خالی ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اورعالمگیر مذہب جیسا ہم ثابت کرچکے مسیحیت سے باہر اورکوئی نہیں۔ انجیل ہی کے آفتاب فیضان صداقت کی ضیا بارویوں سے دُختر کشی۔رسم متی۔اورغلامی نسواں و یردہ فروشی کی ستم رانیوں کو سرپرپاوں رکھ کر بھاگنا پرا۔ اوروہی رسوم بوجو کو تاہی نظر وفکر وارخساست وانقباض طبائع مجموبہ عندالخواص نا باعث صداافتخار ومباہات اورموجب حسنا ت سمجھی جاتی تھیں۔ آج مسیحیت خواض عجیبہ اورتایثرات غریبہ کے طفیل معیوب ومذموم سمجھی جاتی ہیں۔اگرتُم تھا تو اس قدر کہ آہنسا پر مودھر ما کے خیالا ت مروج تھے۔ اوراگر ظلم تھا تو اس انتہا کا کہ ستی اوردختر کُشی کی قبیح رسُوم کو ثواب ِ عظیم سمجھا جاتا تھا۔ اوررحم وقہر کی ضدین پر بطور افراط وتفریط عمل در آمد ہوتا تھا۔ مسیحیت نے ہر شبعہ انسانیت میں مِن  کل الوجود اعتدال ومیانہ روی کی عملی صورت میں رواج دیا۔ راجہ رام موہن رائے جب یونانی وعبرانی کی تعلیم حاصل کرنے کےلئےسیرا مپور گئے تو وہاں ولیم کیئری صاحب نے ستی کی رسم کے خلاف اُن کو اُبھارا اورآخر کار اُن دونوں کی کوشش سے سرکار اس رسم کے خلاف قانون نافذ کرنے پر مجبور ہوئی۔اورولیم کیئری صاحب کے تبلیغی اثر سے سرکار ہند نے ہندوستان کی قبیح رسُوم کو مثلاً دُختر کُشی وغیرہ کو قانو ناً بند کیا۔ جس طرح مکان کے اندر چراغ کے داخل ہونے سے چھت کے جالے۔دیواروں کی گرد آلودگی و گندگی شہتیروں کی بوسیدگی اورفرش کی ناہمواری وغلاظت صاف نظر آتی اور صاحب ِخانہ کو اپنے مکان کی ایسی ردی حالت سے نفرت وکراہیت پیدا ہوکر اُس کی قطع وبُرید اورصفائی کا فوری خیال پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح مسیحیت جو ایک چرا غ معرفت الہٰی اورمفارق سفید ی وسیاہی ہے۔جب ظلمت کوہ ہند میں داخل ہوا تو ہر مذہب کو اپنے اپنے معائب ونقائس صاف صاف نظر آنے لگے۔ اوراُس چراغ ِمعرفت وحقیقت اورشمع فیضان صداقت کی آمد سے ہر کسی کو ا پنے اپنے گھر کی پڑگئی۔ اورمسیحیت کے اخلاق فاضلہ اورشمائل ِحسنہ کی روشنی میں ہر مذہب وملیت نے اپنے اپنے مذہبی عقائد ورسوم اوراخلاق وآداب کی کنز پیونت اورنئی نئی تاویلیں وتشریحیں کرکے مسیحیت کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردیا۔ اورتمام ہندوستان میں سوشل ریفرمیشن کے آثار نظر آنے لگے۔ اورمسیحیت نے نہ صرف پاکستان وہندوستان کے خارستان کو گُل وگُلزار بنایا بلکہ ہمہ اقوام عالم ہیں باوجود انتہائی مشکلات کے اپنی ترویخ واشاعت کےلئے میدان تلاش کرلئے۔ اس وقت انجیلِ مقدس کے تراجم قریب نوصد (۹۰۰) زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اوریہ ترجمے وتفسیریں دوسری صدی عیسوی سے ہی ہوتے آئے ہیں کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ آج مسیحیت کی تقلید برقرآن شریف بھی چند زبانوں میں چھپنے لگاہے تاکہ مسیحیت کی طرح اپنی عالمیگری کا دعوےٰ کرسکے۔ اورویدہ وغیرہ اول توجرمنی علماء کی جاز کاہیوں اورویدہ ریزیوں سے انگریزی اورچند دیگر زبانوں میں نظر آئے۔ اوراب چند مشرقی زبانوں میں بھی ملبس نظر آنے لگے ہیں۔ یہ سب مسیحیت کی خوش چینوں کے نتائج ہیں۔ آج سے پیشتر کبھی دیدوں نے سوائے سنسکرت کے کسی اورزبان کا منہ بھی دیکھا؟ کبھ یادنیٰ اقوام میں اُن کی منادی کی گئی ؟ اوراچھوتوں کی وید کے واعظ ہونے کا حق دیاگیا ؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اُ ن کو وید سُنا نا گناہ کبیرہ سمجھا گیا۔ آج کیوں اچھوتوں کو وید پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا ؟ آج کیوں گھر گھر میں وید پڑے ہیں ؟ آج کیوں شدھی سنگٹھن قائم ہیں ؟ صرف مسیحیت کی نظر فیض اثر ک نتائج ہیں۔ مسیحیت بغیر کسی سیاسی غر ض کے صرف خُداوند مسیح کے ارشادِ فیض بنیاد کی تعمیل کی خاطر اچھوت وپسماندہ اقوام کو وقت قابلیت اورسم وزر خرچ کرکے اپنے میں ملا کر اونچ نیچ کے مذموم امتیازات کو علام رہی ہے۔ ہندومسلم اقوام دوبڑے درخت ہیں۔ اورپسماندہ گروہ چھوٹی کمزور پودجو اُن کے سایہ میں صدیوں رہ کر نشوونما پانے کے قابل رہی مسیحیت اس کمزور اورنیم جان یود کو اُن کے نیچے سے اُکھاڑاُکھاڑ کر علیٰحدہ لگاتی اورتعلیم وتہذیب کے پانی سے سینچتی ہے۔ تاکہ وہ بھی اُن تناور درختوں کی طرح پرورش پاکے سر بلند سرفراز ہوجائے۔ انجیل تمام اقوام ِعالم کو ایک دوسرے کے بھائی اورایک ہی نسل وخاندان کے آدمی بیان کرتی ہے۔ اوراُس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تما م رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔ (اعمال ۱۷: ۲۶ ؛کُلیسوں ۳: ۱۱ ؛گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) اورمسیحیت ہی واحد عالمگیر مذہب ہے۔ اورتمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل اوراکمل۔قابلیت وصلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔کھانے پینے پہننے کے متعلق کوئی قید نہیں لگاتا۔ ذات پات کے مُنافرت ومخاصمت کے برخلاف سخت ِ امتناعی اَحکام لگاتا ہے۔مسیحیت ایک خورشید رخشاں ہے اورتمام دیگر مذاہب ستارے۔مسیحیت ایک بحڑ بیکراں ہے اورتمام دیگر مذاہب ندی نالے۔ آخر ان سب ندی نالوں اوردریاوں اورنہروں کو اُسی ایک سمندر (مسیحیت ) میں آکر گِرنا ہے۔ پھر ایک ہی گلہ اورایک ہی چرواہا ہوگا(یوحنا ۱۰: ۱۶ ؛فلپیوں ۲: ۱۰- ۱۱، افیسوں ۱: ۱۰ ؛متی ۲۸: ۱۸- ۱۹؛ اعمال ۴: ۱۲)۔

لوگ مذہب سے کیوں بیزار ہیں

آج کل لاکھوں مذہب سےبیزار نظر آتے ہیں اورایسے حضرات تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ اورمذہب کی جان کا فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اوراس بیجا ئیت کی اولیت کا سہرا بالخصوص اُن سیا سی پاریٹوں اورتحریکوں کے سر ہے جنہوں نے اس بیسویں صدی کے آغاز سے آج تک جنم لیا ہے۔ اوربالعموم ہندومذہب کی ناستک تعلیمات کے سر ہے۔ جس نے لوگوں کو خُدا اورمذہب کی طرف سے لاپرواہ کردیا ہے۔ اورتیسری وجہ مذہب سے بیزاری کی مغربی خیالات ونظر یا ت کی ہند ترویخ ہے۔ مذہب توانسانی فطرت کا ایک جُز وغیر منفک ہے۔ اوراُٗس سے پیچا چھڑانا فطرۃ کے خلاف جہاد ہے۔البتہ یہ بات سوفیصدی درست ہے کہ نقلی مذاہب جولوگوں کے خود ساختیں ضرور موجود انحطاط وتخریب کے ذمہ دار ہیں۔ اوراُن کا استیصال ہی تعصب۔ مخاصمت ومنافرت۔حسد وکنیہ اورخود غرضی کےوجود کے لئے جو اس وقت انسانیت کے شرائین میں خون حیات بن کر تیر رہے ہیں موت کا پیغام ہوسکتا ہے۔ لیکن اس اقدا سے پہلے نقلی واصلی مذاہب کی تحقیق ضروری ہے۔ ہم آگے چل کر مناسب مقام پر اس موضوع کو چھیڑ یں گے۔ فی الحال انسان کی مذاہبی بیزاری کے موجبات کا سُراغ لگانا ! نسب اورضروری ہے۔

وجہ اول

لوگ چاہتے ہیں کہ خُدا ہماری حسب منشاء ہو۔ جو ہم چاہیں وہ فوراً کرے۔ اورجدھر چاہیں اُسے پھیرلیں۔ وہ ہماری جائز وناجائز خواہشات کے پورا کرنے میں ذرا پس وپیش نہ کرے۔ اگر آدھے لوگ چاہیں کہ بارش نہ ہو اورآدھے چاہیں کہ بارش ہوتو خُدا اُن واحد میں ان دونوں کی خواہش کو پورا کرے۔ لوگو ں نے خُدا کو لیجسلیٹو اسمبلی کا ممبر سمجھ رکھا ہے۔جس کا انتخاب رائے عامہ پرمنحصر ہے۔ اورجس کی عبادت مشروط اس بات سے ہے کہ پہلے وہ اُن کی ہر طرح کی نیک وبدخواہشات کوبلاحیل وحجت پورا کرے۔ چونکہ حرص وہا کے بندوں کی نفسانی خواہشات کاجواب خُدا کی طرف سے دیا نہیں جاتا۔ اس لئے وہ جھٹ ایسے یک طرفہ خُدا سے مُنکر ہوکے کسی ایسے نئے خُدا کو ایجاد کرنا چاہتے ہیں جو ہر وقت اُن کی ہاں میں ہاں ملایا کرے۔

وجہ دوم

مذہب کی پابند ی نفسانیت اوردُنیا داری سے روکتی ہے۔ (متی ۱۰: ۳۷- ۳۸) اورایک ہی وقت میں انسان خُدا اوردولت دُنیا وک پیار نہیں کرسکتا۔(متی ۶: ۲۴) اوربنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بشدت مائل ہے۔ (واعظ ۸: ۱۱) چونکہ مذہب کی پیروی  میں رخارف ِدُنیا اورحیفہ جہان کو ٹھکرانا پڑتا ہے۔ اورلوگ اس وقت اس دلفریب ودلآ ویز دُنیا کے تیر نگا ہ کے زخم خوردہ ہیں۔ اورمذہب کی بُنیاد پر دولت پر ستی۔ اقبال؛ وکامرانی ،نفسانیت وعشرت پرستی اور حکومت وسیاست کی نظر فریب عمارتیں اُٹھاچکے ہیں۔ اوران دلکش مگر فانی عمارتوں کو ڈھانا اورمذہب کی محبت کو دل میں بٹھانا اُن کے لئے جوئے شیر کے لانے سے زیادہ محال معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مذہب کو اپنی نفسانی خواہشات کی راہ میں سد سکندری سمجھ کر اُسے اُٹھا پھینکنا چاہتے ہیں۔ مذہب اورنفسانیت دو متضاد اشیاء ہیں۔ اورایک ہی وقت میں  ایک شخص ان دونوں کی پیروی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے۔ اوررُوح جسم کے خلاف اوریہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ تاکہ جو تم چاہتے ہووہ نہ کر و۔(گلیتوں ۵: ۱۷ ؛ ا۔کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔

وجہ سوم

مذہبی احکام اورتعلیمات کا رُوحانی نکتہ نگاہ بہت بلندو بالا ہے۔ اسل ئے عامتہ الناس اُن تعلیمات کوصرف سُن اورپڑھ کر ہی محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔ اُن پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ انسان کا عملی پہلو بہت پست اورکمزور ہوچکا ہے۔ اب ان مذہبی درس وتدریس اورقوانین پر عمل کرنا محال وناممکن سمجھ کر مذہب سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُس تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُ س تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کی فضیلت کا اقرار اوراپنی قابلیت کا انکار ہوتا۔ لیکن یہا ں مذہب کا انکار اوراپنی قابلیت کا اقرار کیاجاتا ہے۔ یہ تو اُس شخص کا ساحال ہوا۔ جو کسی اُستاد کامل کے آگے زانوئے شاگردطے کرنے سے توعار کرے اورجب علم حاصل نہ ہوسکے  تو کہے کہ علم فضول شے ہے اواس کاوجود و عدم برابر ہے۔

وجہ چہارم

لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں خُدا دِکھاو بغیر دیکھے ہم اُس کوکیسے مان لیں؟ اگر خُدا اپنی شان ِکبریائی والوہیت کےساتھ نادیدہ وپوشیدہ اورفوق افلیم وادراک رہے تو لوگ اُس کو کسی دیدنی وظاہری صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ دیدنی صورت میں ظاہر نہ ہو تو اُس کی ہستی کے متعلق شکوک میں پڑاکر آخر اُس سے مُنکر ہوجاتے ہیں۔ اوراگروہ کسی دیدنی مظہر میں تجسم اختیار کرکے مرئی ومجسم ہوجائے اورانسان کی فہم وسمجھ کے مطابق اُس کی خُدا بینی کی خواہش کا جواب دے تولوگ اُس کو محض ایک خُدا رسیدہ اور راستباز آدمی سمجھ کر اُس کی الوہیت وخُدا ئی کا یکسر انکار کرتےہیں۔ اب تبائے ان دوصورتوں کے علاوہ اورکونسی تیسری صورت ممکن ہے جس سے خُدا انسان کی آرزوں کو پورا کرسکے۔

وجہ پنجم

درحقیقت لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون مُرکب سے بیزار ہیں۔ آپ یہ خوب ذہن نشین کر لیجئے کہ امور معاشرت ہرگز مذہب کا جُز نہیں ہیں۔ جس طرح لوہا زر نہیں اورنہ زر لوہا ہے۔ اسی طرح معاشرت مذہب نہیں اور مذہب معاشرت نہیں ہے۔ روٹی سے بھوک مٹتی اورپانی سے پیس تو بجھتی ہے مگر جس طر ح روٹی سے پیاس نہیں بجھ سکتی اورپانی سے بھوک دور نہیں ہوسکتی۔ اُسی طرح معاشرت کو مذہب کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی مذہب معاشرت کی جگہ لے سکتا ہے۔ دونوں کے اغراض ومقاصد میں بعد المشر قین ہے۔ کھانا پینا اورپہننا (امور معاشرت) حوائج جسمانیہ ونفسانیہ کی آسودگی کے لئے ضروری ہے۔ اورمذہب حوائج رُوحانیہ وخواہشات اخلاقیہ کی تسکین وآسود گی کا ذمہ دار ہے۔ دونوں کے مقاصد میں مغائرت وتفادت اظہر ہن الشمس ہے۔ خُدا کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے خُداوند نے ہر ایک چیز خاص مقصد کے لئے بنائی (امثال ۱۶: ۴) دراصل امُور معاشرت کو غلطی سے مذہب کا جز سمجھ کر لوگوں نے تمدنی معاشرتی اورسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مذہب کی آڑ میں جھگڑے کھڑے کرکے مذہب کو بدنام کررکھا ہے۔ اوراسی قسم کے جھگڑے ہمارےملک میں لا انتہا قتل خون اور غارت گری اورمنافرت کا صریح سبب ٹھہرےہیں۔ خون کرواتے ہیں۔ ان میں سے ایک سور اورگائے کا مسئلہ ہے حیوانی جانوں کی حفاظت کی خاطر انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ اگرحیوان کو ن مارنا گناہ صغیرہ ہے تو انسان کو مارنا گناہ کیسی نامعقول فلاسفی ہے۔ جب تک کھانے پینے اورمختلف ظاہری امتیازی نشانات رکھنے کو مذہب کا جُز سمجھا جائیگا تب تک ہماری سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔ اوراتحاد تعاون واشتراک کے الفاظ ایک قالب ِمردہ کی طرح رُوح ِمعافی سے تاابدخالی رہیں گے۔ ان الفاظ کو اگر شرمندہ معانی بنانا مقصود ہے تو معاشرت کو مذہب سے جُدا کرکے دونوں میں امتیازی حدولگادو۔ افسوس کا مقام ہے کہ غیر مسیحی اکثریت کا ظالمانہ دُنیوی اقتدار انجیل کے ہمہ گیر وہمہ رَس رُوحانی مذہب کو گوشہ لحد میں لٹادینے کے لئے محض اس واسطے تُلا ہوا ہے کہ وہ معاشرت کو مذہب کو جُز نہ سمجھتے ہوئے دونوں کو الگ الگ رکھتا ہے۔ انجیل کا فرمان ملاحظ ہو۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں۔ اوراگرکھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸؛۱۳) کوئی چیز بذاتہ ِ حرام نہیں۔ لیکن جو اُس کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ اگر تیرے بھائی کو تیرے کھانے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تو محبت کے قاعدے پر نہیں چلتا۔(رومیوں ۱۴: ۱۴- ۱۵) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۱۴:۱۷) کیونکہ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکر گزاری کے ساتھ کھائی جائے۔(۱۔ تمیتھیس ۴:۴)۔

جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گُزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا۔ اُسے ہاتھ نہ لگانا۔(کُلسیوں ۲: ۲۰- ۲۱) پھر ختنے کے امتیازی نشان کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ نہ ختنہ کوئی چیز ہے۔ نامختونی بلکہ خُدا کے حکموں پر چلنا ہی سب کچھھ ہے (۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ ؛کلسیو ں۳: ۱۱) طبی نُکتہ نگا ہ سے گائے وسور کے گوشت اورحقہ نوشی کے فوائد یا نقائص کچھ ہی ہوں پر۔طبعی ومعاشرتی معاملات پر رائے زنی کرنا مذہب کاکام نہیں۔ شراب کو اگر مذہب ناجائز قرار دیتاہے تومحض اس لئے کہ اُس کے معائب ونقائص کا پلڑا اُس کے فوائد کی بہ نسبت بہت بھاری ہے۔ انسان شرابی ہوکر بدکلامی کرتا۔ گالیاں دیتا لڑائی دنگا کرتا۔ اورمدہوش ہوکر خُدا کی عبادت سے اضطراری طورپر غافل ہوجاتا ہے۔ لیکن گوشت خوری وحقہ نوشی سے نہ تو مدہوش ہوکر عبادت میں غفلت کرسکتا اورنہ ہی اُن سے کسی قسم کی بے ہوشی طاری ہوکر کسی ناجائز حرکت یا فعل کے صدور کا امکان ہوتا ہے۔اگر شراب نیک نیتی سے حالات پیش آمد ہ کے مطابق جائز فائدہ کے حصول کے لئے (مثلاً نمونیہ ) استعمال کی جائے۔ تو کم ازکم مسیحیت اُس کی مخالف نہیں ہے۔ دیکھئے سنکھیا شراب کی بہ نسبت زیادہ خطرناک اور مہلک شئے ہے۔ لیکن ہر مذہب کا مریض اطباء سے دوا کے طورپر لے کر استعمال کرتا ہے۔ صرف نیت کی نیکی یا بدی کی بات ہے۔ اگر کوئی نیک نیتی سے سنکھیایا استعمال کرےتو مرض سے شفا پاتا ہے۔ اوراگر بدنیتی(خود کُشی کے لئے ) سے استعمال کرے تو نتیجہ ہلاکت ہوتی ہے۔ اوریہی گناہ ہوتا ہے۔ یہی حال شراب کا ہے ہر شئے میں حدس ے تجاوز کرنا مضرت رساں ہے۔اور امور معاشرت میں یہ اصول بالکل درست ہے۔ پھر ذات پات اوراُونچ نیچ کے امتیازات مسیحیت کے باہر تمام مذاہب میں خاص اُبھری ہوئی جگہ رکھتے ہیں۔ اس امتیاز پسندی کے اختلال وخبط نے مذہبی دیوانوں کے دما غ کے ساتھ بہت بُرا سلوکک کیا ہے۔ اورہر منصف مزاج شخص اپنی ضمیر سے جنگ کئے بغیر ان کو انسان نمادرندے کہہ سکتا ہے۔ دُنیا کے اس حرماں نصیب برصیغر کی تباہ حالی۔ عدم تعاون عدم ، اشتراک اورعدم مساوات کی حمایت کرنے والی یہی ذات پات کی واہیات ریت ورسوم ہیں۔ یہاں ہر پیشہ ایک مستقل مذہب کا قائم مقام ہے۔ یہ سب معاشرتی امُور ہیں۔ مذہب کے اند ان کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اورمسیحیت واحد حقیقی مذہب ہے جو ذات پات کے امتیازات کی جان پر ذاتحہ پڑھنے میں نہایت سنگدل واقع ہوا ہے۔ ملاحظ ہو۔ اُٗس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہرایک قوم تمام رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی (اعمال ۱۷: ۲۶) نہ یہودی رہانہ یونانی نہ ختنہ نامختونی نہ وحشی ، نہ سکوتی نہ غلام نہ آزاد۔ صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے۔(کلسیوں ۳: ۱۱ ) اورتم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی۔نہ کوئی غلام نہ آزاد نہ کوئی مُروز عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) مسیحیت کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب آقا وغلام اورمحمود ایاز کو سلک ِاتحاد واشتراک میں منسلک کرکے ایک ہی ضف میں کھڑا کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔ البتہ آج ہر مذہب مسیحیت کی اُٗدھوری اورناتمام سی نقل ضرور اُتا ر رہا ہے۔ تاہم نقل نقل ہی ہے اوراصل اصل۔

کچھ سال ہوئے ایک شخص میرے ساتھ مذہب کے متعلق بات چیت کرنے آیا۔ اور اُس نے حسب معمول گوشت خوری کے جواز وعدم جواز کے متعلق گفتگو چھیڑوی۔ مَیں اُس بحث کا خلاصہ ! اس جگہ پیش کرتا ہوں تاکہ معاشرت و مذہب کے موضوع پر زیادہ روشنی پڑے۔

ہندو صاحب۔ صاحب تُم لوگ گوشت کھاتے اور جیو ہتیا جیسے مہاں باپ کے مرتُکب کیوں ہوتے ہو۔

راقم۔ پہلے میرے سوالات کا جواب دیں۔ پھر مَیں آ پ کے سوال کا ہعقول اورتسلی بخش جواب دوں گا۔

ہندوصاحب ۔بہتر ! فرمائے۔

راقم۔ آپ انسانی اجسام۔حیوانی اجسام اورنباتی اجسام میں کیا فرق مانتے ہیں ؟

ہندوصاحب۔ انسانی اجسام کو ہم ارواح کے اصلی گھر مانتے ہیں۔ اور حیوانی ونباتی اجسام کو قید یں۔۔ یا یوں سمجھیں کہ جسم انسانی کرم حونی اورجسم حیوانی ونباتی بھوگ جونی ہیں۔ جب رُوح انسانی جسم میں رَہ کر بُرے اعمال کرتی ہے۔ تو وہ اُن کا پھل بھوگنے کے لئے حیوانی ونباقی اجسام (قیدوں ) میں ڈالی جاتی ہے۔

راقم۔ بہت خوب ! مَیں نے آپ کا مطلب سمجھ لیا ہے۔ اب مجھے یہ بتائے  کہ کسی قیدی کو قید سے رہا کر نا یا کروانا رَحم میں داخل ہے یا نہیں ؟

ہندو صاحب۔ جی ہاں ! قیدیوں اورمظلوموں پر رَحم کرنانہایت مستحسن فعل ہے۔ اسی واسطے ہم لوگ اندھوں لیگڑوں اورپاہجوں اور حیوانا ت پررحَم کرتے ہیں۔ ہمارے گئو شالہ اوریتیم خانے اس بات کا بین ثبوت ہیں۔

راقم۔ بہت بہتر ! تو اب اپنے سوال کاجواب سنئے۔ ہم نباتا ت کو کھاتے ہیں تاکہ قیدی ارواح کو نباتی اجسام سے آزاد کریں۔ لیکن وہ ارواح نباتی قیود سے چھوٹ کر فوراً حیوانی اجسام میں داخل ہوجاتی ہیں۔

ہماری ہمدردی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اُٗنہیں حیوانی قیود میں رہنے دیں۔ چنانچہ ہم حیوانات کوکھا لیتے ہیں۔ حیوانی قیود سے نکل کر ارواح انسانی قالبوں میں یعنی اپنے اصلی گھر وں میں آجاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے۔ کہ ہم انسانوں کو نہیں کھاتے ہم اُن قیدیوں کو آزاد کرکے اُن کے اصلی گھر وں میں پہنچا کروم لیتے ہیں۔ آپ بھ یاس پَر م پکار میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ یعنی نباتات کو کھاتے ہیں۔ لیکن پہلی ہی منزل پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اورہم اُن کی آزادی کی خاطر ایک اورکٹھن منزل کو طے کرتے ہیں۔ کہو صاحب پھر گوشت کھانا کیسے پا پ ٹھہرا ؟

ہندو صاحب۔ واہ صاحب ! آپ نے نئی فلاسفی سے اس مسئلہ کو حل کیا۔ لیکن میرا دل قائل نہیں ہوا۔ ہم تو آہنسا پر مود ھرما کلے قائل ہیں۔

راقم۔ خیر آپ قائل رہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی حمایت سے آپ کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

ہندوصاحب۔ وہ کیسے ؟

راقم۔ اول تو یہ بُدھ مت کی تعلیم ہے۔ اورویدوں کے صریح مخالف ہے۔ ویدوں میں اسومیدھ یگ گئو میدھ یگ اورنرمیدھ یگ(انسانی قربانی ) کے احکام صاحب موجود ہیں۔ اوراُن پر صدیوں عمل در آمد ہو تا رہا ہے۔ مغربی مسیحی علما ء کے علاوہ ڈاکٹر راجندرلال مترجیسے وحدی العصر اوریگانہ روز گار سنسکرت عالم نے بھی ویدوں کی کامل تحقیق موشگافی کے بعد صاف اقرار کیا۔ کہ ویدوں میں جانورں کی قُربانی کا ویسا ہی حال ہے جیس اتوریت کی کتاب احبار ہیں( دیکھو ڈاکٹر مذکور کی تصنیف انڈو آرنیس ) بُدھ مذہب کے عروج اورہمہ گیروہمہ ہیں رسوخ واثر نے ان ویدوں کی تعلیم کو زوا پہنچایا۔ اُسی وقت سے یہ قُربانیاں توبند ہوچکیں۔ لیکن ویدو ں میں اُن کے احکام اب بھ یاُصی طرح موجود ہیں۔

دوم۔ لیکن اب بُدھ کی تقلید سے بھی آپ کادامن چھوٹ نہیں سکتا۔ یعنی آہنسا پر مودھر یا کے اصول پر عملدر آمد قطعاً محال ہے۔ دیکھئے پانی اورہوا اور نباتا ت میں بیشمار جیو موجود ہیں لیکن آپ ان کو استعمال کرتے ہیں۔ پلیگ کے دنوں میں کروڑوں چوہے عدم آباد پہنچائے جاتے ہیں۔جراثیم کی برکت سے ملیریا اورہیضہ وتپ دق وغیر امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے امراض میں مریض کو دوادینے یا ٹیکہ کرنے سے یہی مقصد ہوتا ہے کہ بیماری کے جراثیم دوا  کے زہر سے ہلاک ہوجائیں۔ کپڑوں یا بالوں میں جوئیں پڑجائیں یا گند ے پانی پر مچھر پیدا ہوجائیں۔ یا مکھیاں ہیضے کے ایام میں بڑھ جائیں تو اُن کو فنا کردیا جاتا ہے۔ زہر یلے جانوروں کو ہلاک کیاجاتا  ہے۔ ٹڈی دل کلے انڈوں بچوں کو زندہ دبا دیا جاتا ہے۔ کیا کوئی آریہ یا ہندو ڈاکٹر اس خلاف فطرہ اصول پر عمل کرسکتا ہے ؟ ہاں ! اگر حکمت وطبابت کو بند کردیا جائے۔ اور انسانی زندگی کی قیمت ایک صفر کے برابر سمجھی جانے لگے تو یہ ہوسکتا ہے۔

سوم۔ آپ رُوح کو قدیم اورناقابل فنا سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں گوشت خوری سے جیو ہتیا تو نہیں البتہ پر کرتی (مادہ ) ہتیا ہوسکتی ہے۔ پھر آپ پر کرتی کو بھی قدیم اورغیرفانی مانتے ہیں۔ تو اس صورت میں جیو ہتیا پر کرتی ہتیا دونوں ناممکن ہیں۔ کیونکہ ارادہ وراواح ناقابل فناہیں۔

چہارم۔ جیو ہنسا خلاف  فطرہ نہیں بلکہ موافق فطرہ ہے۔ ایک زندگی کا قیام دوسری زندگی کی فنا پر منحصر ہے۔ مثلا ً بڑی مچھلیاں چھوتی مچھلیوں کو کا کر جیتی ہیں۔ اس طرح تمام موجودات پر غور فرما لیجئے۔

پنجم۔ اگر کہو کہ یہ قانون صرف حیوانات کے لئے ہے انسان کے لئے نہیں۔ تو اول تو اس میں یہ قباحت آئے گی کہ انسان بھی حیوانات میں شامل ہے۔ وہ حیوان ناطق مسلم ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ امر قابل غور ہے۔ کہ دُنیا کے بعض حصص ایسے سرد ہیں کہ وہاں نباتی زندگی قطعی ناپید ہے۔ مثلاً سائبیریا کے میدان کے باشندے اوراسکمیو لوگ صرف گوشت کھاتے اورکھالیں پہنتے ہیں۔ اب اپ کا یہ استقرا ٹوٹ گیا کہ انسان کے لئے گوشت کھانا گناہ ہے۔ کُل انسانوں کے لئے گوشت خوری گناہ ہے یہ غلط ہے۔ اگر کُل کی جگہ بعض استعمال کریں تو خیر ہ بعض انسانوں سے ہندو آریہ مُراد لے لیں گے۔ یعنی انسان کُلی کے بعض افراد (ہندو) کے لئے گناہ ہے۔ اگر آہنسا پر مود ھر ما۔ خُدا کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ تو ا س پر عمل در آمد ناممکن ہے۔ اورنیچر کی یہ کیا دل لگی ہے کہ بعض اقوام (اسکیمو وغیرہ) کاجینا صرف گوش خوری ہے۔ مسیحی کھانے پینے کو مذہب کو کوئی حصہ نہیں سمجھتے۔ مذہب رُوحانی زندگی سے متعلق ہے ہ کہ جسمانیات سے۔ اگر ہم گوشت کھائیں تو مذہب کی خلاف ورزی  نہیں اور اگر نہ کھائیں تو مذہب کی اطاعت نہیں۔ حکم دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک امر دوسر انہی  جیسے گناہ نہ کر و یہ نہی نہے۔ نیکی کر و یہ امر ہے۔ لیکن گوشت کے متعلق یہ دونوں قسم کے حکم نہیں ہیں۔ اس لئے امور معاشرت اختیاری باتیں ہیں اورمذہب کاجُز نہیں ہیں۔ پس تُم کھاو یا پیو یا جو کچھ کرو۔ سب خُدا کے جلال کےلئے کر و(۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳۱)

وہ صاحب ان دلائل سے قائل ہوکر چلے گئے۔ اورپھر کبھی درشن نہ دئے۔ میرا مقصد یہ نہ تھا کہ اُس کو دلائل سے ہرادوں۔ بلکہ صرف اظہار ِحق سے غر ض تھی۔ا ور مَیں چاہتا تھا کہ وہ معاشرت ومذہب کی تفادت ومغائرت کو سمجھ لے۔ اب مَیں پھر۔ پہلے جملے کو دوہر اتا ہوں کہ لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون ِمرکب سے بیزار ہیں۔

ششم۔ حضور خُداوند مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔(متی ۲۸: ۱۹) اورکہ تُم زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔(اعمال ۱: ۸) جب اُس قادر ہستی نے یہ حکم د یا تو اس کی تعملی کے لئے اس قسم کی آسانیاں بھی بہم پہنچادیں کہ جن سے مذہب الہیی کی تردیج واشاعت ہر جگہ بلاوقت ہوسکے۔ اورمبشر ان انجیل کے ذہنوں کو اس قدر روشن کردیا کہ وہ دنیا کے گمنام حصص اوردردراز اقالیم وممالک کی دریافت میں کامیاب ہوگئے۔ اورتمام ملکوں کے راستے کھل گئے اور ذرائع آمدورفت نہایت آسان ہوگئے۔ اورچھاپہ کی مشین کی ایجاد سے انجیل کی اشاعت کو بہت مدد ملی۔ اورچھاپہ کی ایجاد سے وہ تمام مشکلات جو مختلف فلسفوں کی تردیج وتشہیر عامہ کی سیدراہ تھیں مکیسر دور ہوگئیں۔ اورذرائع سفر کی آسانیاں ایک ملک کے فلسفوں وخیالوں کو دوسرے ملکوں میں لے گئیں۔ پہلے ایک دوفلسفوں سے ایک ذ ہن آشنا ہوتا تھا۔ کیونکہ ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں ایک توگِراں قیمت پر مکتی تھیں۔ اورپھر دوسرے ممالکک کے راستے نامعلوم ہونے کے باعث ہر جگہ مروج نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لئے بہت کم لوگ اُن سے واقف ہوسکتے تھے۔ اورلوگ غیر ممالک کے مذہبی فلسفوں سے نابدوبے نصیب رہتے تھے۔ اب سینکڑوں فلسفوں اورنظریوں نے دماغ کو متعدد مختلف خیالات کی گھڑ دور کا میدان بنارکھا ہے۔ اورمختلف  فلسفوں اورعلوم نے باہم اخذاب وتجذیب اورئاثر وتاثیر کرکے ایک نیا خمیر اُٹھایا ہے جس کو مذہب سے بیزاری کہنا درست ہے۔ اب لوگ اس شش وپنج میں ہیں کہ کس خیال یا نظر یہ کو اپنائیںاور کس کوتر ک کردیں۔ اتنے کثیر خیالات کاموازنہ ومقابلہ کرکے کسی صحیح عقیدہ کی بنیاد رکھنا لوگوں کے لئے مشکل ہورہا ہے۔ آخر انسان کامحدود دماغ کیا کرے۔ اس ذہنی کشمکش وبے چینی سے لاچار ہوکر لوگ مذہب سے بیزار ہو رہے ہیں۔ عقائد کی روز افزوں کثرت بھی مذہب کی بے قدری کو موجب ہے کیونک جب قدر کسی چیز کی زیادتی ہواُسی قدر لوگ اُس کی بے قدری کرتے ہیں۔

مذہبی بیزاری کا علاج

ہم ماس بیان کے آغاز میں ذکر کرچکے کہ مذہب انسان کی فطرت کا جزو اعظم ہے۔ اوراُس سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔ جب لوگ خُدا کو چھوڑ دیتے ہیں تو اُن کو ایک عوضی معبود ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ ویو سماجیوں نے خُدا کو چھوڑا تو اُنہیں ستیہ نند اگنی ہو تری موجد یود سماج کے منگین مجسمہ پر جبین نیاز رگڑنی پڑی۔ اسی طرح بُت پرستوں نے خُدا کی جگہ عوضی  بُت بنا کر اُن کی پرستش کرنی شروع کردی۔ اس سےثابت ہوتا ہے کہ مذہب انسان کی فطرت ہے۔ اوراُس کی قیود سے آزاد ہونامحال۔ جب مذہب کی ضرورت ثابت ہوگئی تو اب موازنہ مذاہب سے اس امر کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ کونسا مذہب خُدا کا عطاکرد ہ ہے۔ ہم عقل اورمذہب کےبیان میں بخوبی ثابت کرچکے کہ خُدا ایک ہے اورا ُس کا مذہب بھی ایک ہے۔ اب ہمایک سادہ سامعیار پیش کریں گےجس سے ناظرین کو مذہب الہٰی اورانسان کے اختراعی مذاہب میں نمایاں امتیاز نظر آئے گا۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ عقلمند والدین اپنے بچوں کو ہمیشہ وہ چیز دیتے ہیں۔ جس کی اُن کےپاس کمی ہو۔ اورضرورت بھی اُسی شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ تُم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگر اُص کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے۔یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے۔ پس جبکہ تُم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتا ہو۔ تو تُمہارا آسمانی باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دیگا ؟(متی ۷:۹-۱۱) اگر ایک بچے کے پاس دس جوڑی کپڑے ہوں۔ اوروہ پاوں سے بالکل ننگا ہو۔ اور اُس کے والدین اُس کو کپڑے دوجوڑی اوربنادیں مگر جُوتی نبوا کر نہ دیں۔ تو کیا اُس بچے کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔؟ ہر گز نہیں جس چیز (جوتی ) کی ضرورت اورکمی تھی وہ اُسے دی نہیں گئی اورجس شے کی کمی نہ تھی بلکہ افراط تھی وہ دے دی گئی۔ لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ایک اورمثال تھی وہ دے دی گئی۔ لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ ایک اور مثال لیجئے۔ فرض کیجئے ایک شخص فاقہ زدہ گرسنگی سے لاچار ہوکر لب دریا بیٹھا ہوا ہے۔ اس حالت میں اگر کوئ ازراہ ِرحَم پانی کا گلاس اُسے لاکر دیوے تو کیا اُس کی ضرورت پوری ہوجائے گی ؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ پانی کی توا ُس کےپاس پہلے ہی قلت نہیں بلکہ افراط ہے۔ اورروٹی جس کی سخت حاجت تھی وہ اُسے ملی نہیں۔ اورضرورت اُس شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ خُدا دُنیا کا با پ ہے وہ بھی دُنیا کو ایسا ہی مذہب دیتا ہے جس کی دُنیا کو ضرورت ہو۔ اس وقت دُنیا میں نااتفاقی۔عداوت۔خصومت فساد تکبر۔ خود غرضی لنبع وتپر کی محبت اورسیاسی وتمدنی مخصوں کی کثرت ہے۔ اب اگر کوئی مذہب دُنیا کو یہی چیزیں دیوئے تو ظاہر ہے کہ ان کی توآگے ہی کیا کمی ہے۔بلکہ اُن کی کثرت نے اہل دنیا پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ اب دیکھیئے۔ کہ دُنیامیں کمی کس شئے کی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ محبت اورمیل ملاپ کا اس وقت قحط پڑا ہوا ہے۔ لہٰذا خُدا کا عطا کردہ مذہب وہ ہوسکتا ہے جس میں میل ملاپ اوررمحبت ک تلقین ہو۔ اوردشمنی عداوت اورشمیشر زنی کے خلاف سخت امتناعی احکام ہوں۔کیونکہ معاشرت وسیاست ہوگز مذہب کے جُز نہیں ہیں۔ اب مختلف مذاہب کی تعلیمات کو  اس معیار پر رکھ کر دیکھ لیجئے۔ کرشن بھگوان گیتا میں ارجن سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں۔ اَے ارجن جو تُو بدھ بکھے لڑکر مریگا تو سُرگ کوجائے پر اپت ہوگا۔ اورجوجیتے گا تو راج کے بھوگے گا۔ اس کا رن سے اُٹھ کر بدھ کر لابھ  اورہان اورسُکھ اوردُکھ اورجیت ہار کر سمان جان کر بُدھ کر (بھگوت گیتا دوتیہ ادھیائے آیت ۳۷ ،۳۸) یہاں سُرگ اورراج کے بھوگوں کی تحریص دلا کر ارجن کوجنگ وجدل کے لئے اُبھاا جاتا ہے۔ حالانکہ شمیشر زنی اورقتل وغارت کا انعام سُرگ نہیں ہوسکتا۔ محض ودُنیوی اغراض کے حصو ل کی خاطر سُرگ کا لالچ دیکر شمیشر زنی وخون ریزی پر آمادہ ودلیر کیاگیا ہے۔ لٰہذا گیتا نے دُنیا کو وہ چیز دی جس کی دُنیا میں پہلے ہی کثرت تھی۔ اور سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا۔ اب قران شریف کی تعلیم پر غور فرمائیے جو گیتا کے مندرجہ بالا خیال کےساتھ ہو بہوملتی ہے۔ جب تُم کافروں سے بھڑوتو اُن کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب تُم اُن میں خوب خون ریزی کو چکو تو اُن کی مشکیں باندھ لو۔ اس کے بعد یا تو احسان کرکے چھوڑ دو۔ یا فدیہ لے کر۔ یہاں تک کہ لڑائی اپنے اہتھیار رکھ دے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کے اعمال وہ ہرگز نہ کھوئے گا۔ اُنہیں ہدایت کرے گا اوراُن کا ال درست کرے گا۔ اوراُنہیں بہشت میں داخل کرے گا۔ جس کابیان اُس نے اُن کے لئے کردیا ہے (سورۃ محمد ۴- ۷ آیت وبقر ۱۸۶- ۱۸۹، ۲۱۲ ) جولوگ ایمان لائے اورگھر چھوڑ آئے اورلڑ ے اللہ کی راہ میں۔ اورجن لوگوں نے جگہ دی (نبی کو پناہ دی ) اوراُس کی مدد کی وہی ہیں مسلمان ٹھیک۔ اُن کو بخشش ہے اورروزی عزت کی۔ (سورۃ انفال آیت ۷۵) قرآن شریف نے بی شمیشرزنی اوردشمنی و خون ریزی کو مذہب کو جُز بنادیا۔ اورجنگ وجدل کے ساتھ بہشتی خوشیوں کو مشروط ٹھہرایا۔ الہٰذا قرآن نے دُنیا کی ضرورت کو پورا نہیں کیا۔ سکھ ازم اگرچہ ویدک دھرم کی ایک شاخ ہے۔ تاہم اُس کی تعلیم بھی اس بارہ میں ہم پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ربیہ راس مُکھ واک پادشاہی دس۔

ہمرے دُٗسٹ سبھی تُم گھادو۔۔۔۔ آپ ہاتھ دے سوہے کرتارا
موراچھا نج کَردے کرئے۔۔۔ سب بیرن کو آج سنگھر یئے
پُورن ہوئے ہماری آسا۔۔۔ توربھجن کی رہے پیاسا
تُمھیں چھاڈ کو اورنہ دھیاوں۔۔۔ جو بَرچا ہوں سو تُم نے پاوں
سیوک سکھ ہمارے تاریئے۔۔۔ چُن چُن سِترہ ہمارے ماریئے
وسٹ جیتے اُٹھوت اٗتپاتا۔۔۔ سگل ملیچھ  کر ورَن گھاتا
اپنا جان مجھے پرت پرئیے۔۔۔ چُن چُن سترو ہمارے مرئیے
ویگ تیغ جگ میں دود چلے۔۔۔ راک آپ ہو ہے اورنہ دلے۔

ناظرین  خودغور کر کے دیکھ لیں کہ سِکھ ازم کس حدتک دُنیا کی ضرورت کو پرار کتا ہے تیغ وتبر کی ہدایات اوردُشمنوں کے حق میں بددعائیں مانگنے سے میل ملاپ اورباہمی محبت ہرگزترقی نہیں کرسکتی ۔ اب ہم انجیل ِمقدس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اورابتداہی میں نہایت عجزو انکسار سے گذراش کرتے ہیں کہ انجیل ِجلیل کےکُل ۲۷ صحیفوں میں باوجود گہری تحقیق وتدقیق کے ہمیں ایک بھی آیت  ایسی نہیں ملی جو مندرجہ بالاتین کتابوں کی مذکورہ آیات وتعلیمات کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت ومشابہت رکھتی ہو۔ اگر ایک بھی آیت ایسی مل جاتی تو ہم اُس کو ایماندار سے پیش کردیتے ۔ اگر اورکوئی مسیحی یا غیر مسیحی صاحب انجیل ِمقدس سے کوئی ایک بھی آیت جس میں عداوت شمیشر زنی۔ خون ریزی اورخود غرضی سکھائی گئی ہوپائیں تو راقم کومطلع فرما کر مشکوری کاموقع دیں ۔اب ہم انجیل کی وہ امتیازی تعلیم جو مسیحیت کو تمام دیگر مروجہ مذاہب ِعالم سے ممتاز کردیتی ہے پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ذرا صدق دلی اور انصاف پروری سے ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلے ہم انجیل سے وہ تعلیم پیش کریں گے جو شمیشر زنی وخون ریزی کے خلاف ہے ۔ جب خُداوند مسیح کو گرفتار کیاگیا تو آپ  کے ایک حواری پطر س نے تلوار سے سردار کاہن کے نوکر ملخس کا کان اُڑادیا۔ یسوع نے اُس سے کہ اپنی تلوار میان میں کرنے ۔کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلا ک کئے جائیں گے۔ (متی ۲۶: ۵۲؛ مکاشفہ ۱۳: ۱۰) خُداوند مسیح نے مذہب کی مختصر سی تعریف اس طرح پیش کی ہے ۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اوردوسرا اُس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ ان ہی دوحکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے ۔(متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) خُدا محبت ہے ۔ اورجو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خُدا میں قائم رہتا ہے۔ اورخُدا اُس میں قائم رہتا ہے ۔(۱۔ یوحنا ۴: ۱۶) اگرکوئی کہے کہ مَیں قائم رہتا ہے ۔ اورخُدا سے محبت رکھتا ہوں ۔ اوروہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے ۔ کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خُداسے بھی جسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا(۱۔ یوحنا ۴: ۲۰) اورخُدا اوراپنے ہم جنس مخلوقوں کی محبت کو لازم ملزوم ٹھہرایا گیا ہے ۔جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے  وہ اُس کی اولاد سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵: ۱) قول المسیح '' مَیں تم سے یہ کتہا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ اوراپنے ستانے والوں کے لئے دُعا مانگو۔۔ اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرے (متی ۵: ۴۴، ۴۶ ) اگرتیرا دُشمن بھوکا ہو تواُس کو کھانا کھِلا ۔ اگرپیا سا ہوتو اُصے پانی پلا (رومیوں ۱۲: ۲۰) محبت کی جامع تعریف ملاحظہ ہو(۱۔کرنتھیوں ۱۳ باب ) محبت کا مفصل بیان دیکھئے (اول خط یوحنا تمام )۔

ایک دفعہ ایک اچھے تعلیم یافتہ غیر مسیحی شخص سے میری گفتگو ہورہی تھی ۔ اور ہماری گفتگو کا موضوع مذہب اورمحبت تھا۔ جب مَیں نے محبت کے متعلق انجیلی تعلیم کوپیش کیا۔ تو وہ فرمانے لگے کہ بھئی وہ کونسا مذہب ہے جو محبت کی تعلیم  نہیں دیتا ؟ اروکس مذہب میں شمیشر زنی وخونریزی جائر ہے ؟ مَیں نے کہا کہ انجیل کے باہر تمام مذاہب میں (یہاں سے یہ گفتگو مکالمہ کی صورت میں چلیگی )

سائل ۔ اگرمَیں اپنی مذہبی کتا ب میں سے وہ آیات پیش کردوں جن میں محبت کرنے کی تعلیم ہے تو پھر کیا کہو گے ؟

راقم ۔ آخر ایسی کتنی آیات پیش کروگے ؟

سائل ۔ خواہ دوتین ہی ہوں۔ آخر خُدا ہی کی دی ہوئی ہوں گی۔

راقم ۔ ہاں سچ ہے کہ آپ کی کتاب میں دو تین سے زائد آیا ت محبت کی تعلیم نہیں دیتیں ۔ پر اس سے آپ کامذہب محبت پر مبنی ثابت نہ ہوجائیگا۔

سائل ۔ کیوں نہیں ؟ آخر وہ تین آیات بھی تو خُدا کے الہام سے ہیں۔
(اُن کی منطق دیکھئے) آپ کے قائم کردوہ معیار کے مطابق جس کتاب میں محبت کی تعلیم ہو وہ الہامی ہوسکتی ہے ۔ میری کتاب کے اندر (نہ کہ باہر) محبت کی تعلیم ہے ۔ لہٰذا وہ خُدا کی دی ہوئی کتاب اور دُنیا کا مذہب ہے ۔

راقم ۔ واہ صاحب ! آپ کا فلسفیانہ استدلال خوب ہے ۔دیکھئے اگرکنکروں کے بڑے سے ڈھیر میں تین چار گندم کے دانے پڑ ے ہوں توکیا وہ گندم کا ڈھیر کہلائے گا۔ ؟ ہر گز نہیں ! اسی طرح جس کتاب میں معرکہ آرائیوں نبرد آزمائیوں اورجدال وقتال کی تعلیم کا حصہ غالب ہو۔ اورمحبت کی تعلم محض تین چار آیات تک محدود ہو وہ ہر گز محبت کی تعلیم نہیں ہوسکتی اورنہ ہی وہ خُدا کی عطا کردہ کتاب اوردُنیا کا روحانی دستور العمل ہونے کے قابل ہے ۔ اب انجیل شریف میں متی سے لے کر مکاشفہ تک ۲۷ صحائف میں ایک بھی آیت تلوار ۔ خون ریزی اورعداوت کی موید نہیں ہے ۔ اوراُس کی تمام تعلیم میل ملاپ ،محبت ،برداشت وصبر ،حلِم و فروتنی ۔خود انکاری وایثار ، ہمدردی اورنیکی وپاکیزگی سے بھری پڑی ہے ۔ اس لئے مسیحیت ہی واحد عالمگیر الہٰی مذہب ہے ۔

سائل ۔ گیارھویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک مسیحیوں نے مسلمانوں کے سات  جنگیں کیں جن کو '' صلیبی  جنگ '' کہا جتا ہے ۔ تو آپ کس صورت میں ا س داغ کو مسیحیت کے پاکیزہ دامن سے دھو سکتے ہیں۔ کیونکہ تاریخی واقعات کاانکار اہل دانش سے بعید ہے ۔

راقم۔ چونکہ مسلمانوں نے عمداً وقصد اً مسیحیوں کے معابدمقاسہ اورمقامات متبرکہ پر قبضہ جماکر اوراُن کی زیارت وعبادت پر ناحق پابندیاں لگا کر مسیحیوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ اوراُن کی امن پسندی ۔ صرب پروری اورشرافت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اس لئے اگرمسیحی اپنے جائز مطالبات کے حصول کی خاطر لڑے تو محض اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنی تحریصات ِنفسانیہ اوراغراض جسمانیہ کے زیر اثر خود اُن کو اس قسم کا قدم اُٹھانے پر مجبور کیا۔

دوم۔ حروب ِصلیبیہ کی علت غائی ملک گیری نہ تھی۔ اورنہ دولت وثروت اوربیگانی عورتیں چھیننے یا بلاوجہ جہاد کرنے کی ہو س نے اُن کے جذبات کو جنگ کے لئے متحرک کیا۔ جیسا کہ مسیحیت کے باہر تمام دیگر اقوام میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے ۔

سوم۔ ہندو مسلمان اقوا  نے حق تلفی وظلم  اورمحاربہ ومکابرہ کرکے ہمیشہ اپنی مذہبی کُتب کے فرامین کی تعمیل کی ہے ۔ لیکن مسیحیوں نے صلیبی جنگوں کے ذریعے انجیل  ِمقدس کی خلاف ورزی اورمخالفت  کی ۔ کیونکہ انجیل میں ایک بھی ایسا حُکم نہیں جو جو حروب صلیبیہ کا محرک وہودی ہو۔ بلکہ صاف لکھا ہے ۔تُم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکومت چلاتے اورامیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ تُم میں بڑا ہونا چاہئے وہ تمہارا خادم بنے ۔ اورجوتم میں اول ہونا چاہئے وہ تمہاراغلام بنے (متی ۲۰: ۲۵- ۲۷) کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جسم کے طورپر لڑتے نہیں ۔ اس  لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں (۲۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳- ۴ ،افیسوں ۶: ۱۰–۱۸)

چہارم۔ اگرکوئی شخص نسخہ استعمال نہ کرے اورمرض سے صحت یاب نہ ہو تو اس سے کُتب حکمت کانقص ثابت نہ ہوگا ۔ اسی طرح اگرکوئی مسیحی لڑائی جھگڑے کرے تو اُس کی اس کجروی کی علت انجیل کی تعلیم کو قرار دینا محض خوش فہمی اورضدہے ۔
جنگی ہتھیاروں کی موجودگی محبت پر دلالت نہیں کرتی ۔ بلکہ زور اورزبردستی پر ۔ اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار ہی سے مارے جائیں گے(متی ۲۶: ۵۲) ''مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیرے دے ۔ (متی ۵: ۳۹) اگر اہل دُنیا مسیح کے ان اقوال کی تعمیل کرنے لگ جائیں تو آج یہی خارستان (دُنیا ) جنت کا نمونہ بن جائے۔ سائل ۔ پُرانے عہد نامے میں یہودیوں نے مختلف قوموں کے ساتھ متعدد لڑائیاں لڑیں۔ اورتوریت میں جنگ کے خلاف امتناعی احکام کا وجود نابود ہے ۔

راقم۔ توریت کا مذہب مذہب الہٰی کی ناقص حیثیت تھا۔ خُداوند مسیح عہد جدید کے بانی ہوکر اُسی کو کامل کرنے آئے تھے۔ ہرشے کاکمال یہ ثابت کرتا ہے ۔ کہ وہ کسی وقت ناقص اورادھوری تھی۔ مسیحی مذہب توریت کے ناقص مذہب ہی کی کامل حالت ہے  ۔اس لئے انجیلی کامل مذہب کے مقابلے میں توریت کے ناکامل مذہب کو رکھ کر اُس کے نقائص بیان کرنا تحصیل لا حاصل ہے ۔ جس طرح ایک گُنبد کو تعمیر کرنے کے  لئے اُس کے نیچے انیٹوں کا عارضی ساسہارا لگایا جاتا ہے ۔ اور جونہی وہ گُنبد مکمل ہوجاتا ہے تو اُس ماتحت قالب کو  گِرا دیاجاتا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ عہد جدید میں آکر مذہب الہٰی کمالیت کو پہنچا اورمعاشرت کو اُس سے جد کیاگیا ۔جس طرح پھول اورپھل ایک خاص معیاد تک اکٹھے رہتے ہیں۔ اورجونہی پھل ترقی کرنے لگتا ہے پھول کود بخود جھڑ جا تا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ اورخُداوند مسیح نے دونوں کویکسر جُدا کردیا۔ اس لئے اس قسم کا اعتراض کرنے سے پہلے انجیل ِمقدس کی پوری واقفیت حاصل کرلینا ضروری ہے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ توریت میں خُون ریزی کے خلاف حُکم نہیں ۔ لکھا ہے ۔تو خون نہ کر۔

دوم ۔ ہم لوگ یہودی یا موسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں۔

سوم۔ یہ مانا کہ پُرانے عہد میں یہود کے قومی جنگوں کا ذکر موجود ہے مگر اُن جنگوں کی نوعیت قرآن اورویدک محاربات سے غیر ہے ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہود نے کبھی بھی اپنے مذہب کی جبری اشاعت کی غرض سے دیگر اقوام سے جنگ نہیں کی ۔ اگرمذہبی اشاعت اُن کی جنگوں کی علت غائی تھی تو آپ بائبل مقدس میں سے کوئی ایسا مقام پیش کرکے ثابت کریں۔ اوردوسری بات قابل غور یہ ہے کہ کبھی ان جنگوں کے صاد میں خُدا نے اُنہیں بہشت کی خوشیاں عطاکر نے کا وعدہ نہیں کیا۔ جیسے کہ قرآن وید اورگیتا میں نہایت کھلے الفاظ میں ایسے انعامی اشتہار خُدا کی طرف سے موجود ہیں۔ یہودیوں نے صرف تمدنی وسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر غیر اقوام سے محاربے کئے ۔  پس جس سے کی کمی ہو اُسی کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ دُنیا میں محبت کا سخت افلاس بلکہ قحط ہے ۔ اورمسیحیت صرف یہی شے دُنیا کو بخشسی ہے ۔ اس واسطے وہ دُنیا کی سب سے بڑی روحانی واخلاقی ضرورت کو پورا کرتی اورجنت کے دروازے اُس کے لئے کھولتی ہے ۔اَے منکراِ ن مذہب ! مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوکر اطمینان قلبی اورسکون باطنی کوجلد حاصل کریں۔ مذہب سے بیزاری کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ اوراُن کا شافی اوربے خطا علاج بھی ہم نے لکھ دیا۔ اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ اُس سے فائدہ اُٹھائیں یا نہ اُٹھائیں۔

مطلب ۔ ہر اعلیٰ سے اعلیٰ چیز ہر عزیز سے عزیز ہستی جس سے تمہیں جُدا ہونا پڑے اس دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں اُس کو عوض مل سکتا ہے ۔ لیکن یاد رکھو اگر اللہ سے جُدا ہوجاو گے تو اُس کا بدل کہیں نہیں پاو گے۔

مسیحیت کی مخالفت

لوگ مسیحیت پر واہبات اعتراضات کی بوچھاڑ کرکرے اُس کی شان کو گھٹانے کی ہمیشہ اس لئے کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ۔

اول ۔ وہ جانتے  ہیں کہ مسیحیت کا معیار روحانی بہت بلند ہے ۔ جب وہ اپنے مذہبی اصولوں کو مسیحیت کی لاثانی تعلیمات کے مقابلہ میں کمزور اورحقیر دیکھتے ہیں تو اُن کو جھٹ یہی تجویز سوجھتی ہے کہ چونکہ ہمارے اصول تومسیحیت کی بلند ی تک پہنچے سے قطعی قاصر ہیں۔ اس لئے کس طرح انجیلی اصولوں کی جاو بیجا تاویلیں کرکے اوراُن کو گھٹا کرا پنے برابر کرلیں۔ وہ مسیحیت کے ججج قطعیہ اوربراہین شافیہ کے بالمقابل مشککا نہ دلائل سے صف آراء ہیں۔ لیکن مسیحیت کے نور کر پھونکوں سے بھجنا  محال ہے ۔

دوم۔ وہ مسیحیت کو ایک بدیشی مذہب سمجھتے ہوئے بدیشی حکومت کی طرح اُس سے بھی دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مذہب صرف حوائج روحانیہ واخلاقیہ کی تسکین وآسودگی کا ذمہ داری ہے ۔ اورحکومت محض جسمانی ونفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ جس قدر رُوح جسم سے اعلیٰ ہے اُسی قدر مذہب کا نکتہ نظر حکو مت سے بدرجہا اعلیٰ وارفع ہے ۔ ایسے لوگوں کو خوب جان نینا چاہئے کہ مسیحیت مغربی مذہب نہیں بلکہ ایشیائی ہے ۔یعنی اُس نے جنم ایشیا میں لیا تھا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل ہوکر اپنی روحانی واخلاقی برکات وحسنا ت کو من حیث الاجتماع تمام صفحہ گیتی پرپھیلادے ۔ اورتمام اقوام عالم کو واحد برداری بنا کر ذات پات اوررنگ ونسل کے امتیازات کی جان فاتحہ پڑھ دے۔

سوم۔ لوگ مسیحیت کے اس لئے بھی مخالف ہیں کہ مسیحی مذہب ادنی ٰ واعلیٰ کے امتیازات کی نفی کو ایک آنکھ دیکھ نہیں سکتا ۔ اورمسیحیت کا سب سےبڑا مدعایہی ہے کہ آقا وغلام اورمحمود وایاز کو ایک ہی سلک اتحاد واشتراک میں منسلک کرکے دنیا کو ایک واحد برداری بنادے ۔تُم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہانہ یونانی ۔ نہ کوئی غلام نہ آزاد ۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تُم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸ ؛کلسیوں ۳: ۱۱) چونکہ اس قسم کے مسادات کے قیام کادوسرا نام اعلیٰ اقوام کی امتیازی عظمت اوربزرگی کی نفی ہے ۔اس لئے لازمی امر ہے ۔ کہ وہ مسیحیت کی پنپتی ہوئی دیکھ کر گل حکمت کی ہنڈیاں کی طرح اندر ہی اندر چرغ کھایا کریں۔ اس کامقاطعہ کریں اورا سکی جلاوطنی کی دعائیں مانگا کریں لیکن اگردعائے فطلاں مستجاب بودے یک معلم درعالم زندہ نہ ماندے۔

چہارم۔ جب ایک ڈاکٹر مریض پر جراحی عمل کرتا ہے ۔ توشدت درد کے باعث مریض اکثر بے اختیار ہوکر ڈاکٹر کو کوستا ہے ۔ اورڈاکٹر کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تاہم ڈاکٹر مریض کی بھلائی کی خاطر اس طعن وتشنیع کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ اسی طرح روحانی مریضوں کو مرض عصیاں اورعارضہ جہالت سے آزاد کرنے کے لئے جو عمل مسیحیت کررہی ہے وہ ہے تو اُن کے لئے کثیر المنفعت لیکن عارضی طورپر  وہ بلاوجہ مسیحیت کے خلاف شور مچار رہے ہیں۔ لیکن مسیحیت کروڑوں جانوں کی سلامتی اوربہتری کی اُمید پر اس تمام مخالفت ومخاصمت اورمُنافرت کی طرف سے آنکھیں بند کرچکی ہے ۔

ہم تو سمجھتے ہیں کہ مخالفین مسیحیت معازنین مسیحیت ہیں۔ اگروہ منفی ہیں تو مسیحیت مثبت ،برق ہمیشہ منفی ومثبت کے اتصال ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ جس قدر مخالفت شدید اوراُس کے خطرات عظیم ہوتے ہیں۔ اُسی قدر خود حفاظتی اورمقابلہ کے سامان عظیم ہوتے ہیں۔ اگر مخالفت اورخطرہ نہ ہوتو مضبوطی اوراستقلال کی نفی ہوگی ۔ ہم مشکور ہیں اُن مخالفین کے جو مسیحیت کے لئے وجہ استحکام ہیں۔