(۱)
ویدانت
جملہ مذاہب کے معتقدات اِس امر میں اتفاق کلی رکھتے ہیں کہ تمام نوع انسان کی طبائع کوکسی نہ کسی طرح سے عرض گناہ عراض ہے۔ اور استقرانی طورپر بھی گناہ کی ہمہ گیری مسلم الثبوت ہے۔ مسئلہ گناہ پر پوری بحث ہم آگے چل کر مناسب مقام پر کریں گے ۔سردست عقیدہ ویدانت کے مطابق گناہ اورنجات پرمختصر طورپر لکھیں گے۔ ویدانتی لوگ گناہ کو اگیان اودیا اوربھرم وغیرہ ناموں سے پکارتے ہیں۔ اوراُن کے مسلمات کے مطابق گناہ یا پاپ ایک اعتباری محض اور عدمی شے ہے۔ اور خارج میں اُس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اوراُس کو محض اگیان یا بھول ہی مانتے ہیں اورگیان پراپتی کوبرہم پراپتی کا سبب مانتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ برہم میں سے پرکرتی یا مایا پیدا ہوئی ۔ اورپرکرتی نے ہی برہم کواپنے جال میں پھنسالیا۔جیسے مکڑی میں سے جالا نکلا اوراُسی نے مکڑی کوپھنسارکھاہے۔ یہ جگت نتھیار (خواب ووہم ) ہے اوربرہم ست(حقیقت ) ہے۔
دراصل برہم اورمایا (مادہ پرکرتی ) کا جوخیال ہے وہ بائبل کی تخلیق آدم وحوا کا ایک بگڑا ہوا اور کسی قدر صاف عکس ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ آدم برہم تھا اورحوا مایا پرکرتی ہے۔ اورحوا نے آدم میں سے بالکل نکل کر آدم کو ہی اپنے فریب میں پھنسالیا۔ اوراس طرح سے گناہ دنیامیں آیااورسب آدمیوں میں پھیل گیا۔ اورتمام آلام ومصائب گناہ کا نتیجہ ہیں۔ اورپھر وہ مانتے ہیں کہ اگیان (جہالت) کی تاریکی سے نکل کر گیان کوحاصل کرنا ہی مُکتی یا براہم پراپتی ہے۔ اوراس طرح جیو اور مادہ برہم میں لین یا ابھید ہوجاتاہے۔جس طرح صوفی لوگ بھی آخری منزل کو فنافی اللہ ہونا مانتے ہیں یعنی جیو(روح) اوربرہم میں کسی قسم کا تغیرہ وتفاوت نہیں رہتا۔ بلکہ التصاق تام ہوتاہے۔ اور دُوئی کے پردہ کے ہٹ جانے سے ایسا ہی ہوتاہے جیسے ایک حباب یا قطرہ سمندر میں غائب ہوکراپنے خصوصی امتیاز کوکھودیتا اوراُسی کا رُوپ ہوجاتاہے۔ دراصل وہ برہم سے اُوپر کسی اعلےٰ ہستی یا خالق کے قائل ہی نہیں ہیں۔
ہم مانتے ہیں کہ جس طرح گناہ کے باعث انسان کی خداسے جدائی ہوئی اُسی طرح گناہ سے مخلصی حاصل کرکے انسان آدم والی ابتدائی پاکیزہ حالت پر بحال ہوکر پھرتقریب الہٰی حاصل کرتاہے۔ لیکن ہم نجات دہندہ اورنجات یا بندہ کی ہستیوں میں امتیاز کے قائل ہیں۔ اورخالق ومخلوق کوجُدا جُدا متمائز ہستیاں مانتے ہیں۔ یعنی نجات کی حالت میں ہم خدا کی عین ذات نہیں ہوجاتے ۔ بلکہ اوصاف ملکوتیہ کے باعث خداکی مُشابہت قریبی رکھتے ہیں۔ جیسے ابتدا میں خدا نے آدم کواپنی صورت پر ذی ارادہ پاک اور فعل مختار بنایا۔ اُسی طرح دوبارہ شبیہ اللہ کے ساتھ ظلی طورپر ہماری مُشابہت ہوجاتی ہے۔ نہ یہ کہ برہم میں لین ہوجاتے ہیں۔ جب مسیح جوہماری زندگی ہے ظاہر کیاجائےگا توتم بھی جلال میں اُس کے ساتھ ظاہر کئے جاؤگے"(کلسیوں ۳: ۳۔ ۴) ویدانتیوں کا خیال ہے کہ برہم ہی خالق اوربرہم ہی مخلوق ہے۔ مگر اُن کا یہ خیال نادرست ہے کیونکہ خالق ومخلوق ۔ فاعل ومفعول اورصانع ومصنوع میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ یا توخالق ومخلوق اورکارن وکارج مترادف الفاظ ہوں گے۔جس طرح پیارومحبت ۔ اوررنج وغم مترادف اورہم معنی الفاظ ہیں اور یہ سراسر محال ہے۔ جس طرح ضارب کے بغیر مضروب والد کے بغیر پسر اورکاتب کے بغیر مکتوب کا وجود محال ہے۔ اُسی طرح صانع کے بغیر مصنوع اورکارن کے بغیر کارج کا ہونا ناممکن ومحال ہے۔ ورنہ کارن وکارج وغیرہ توہمات کا ذخیرہ ہوں گے۔
دوم۔ یہ لازمی امر ہے کہ فاعل کا وجود مفعول سے مقدم ہواور مفعول کے فاعل کے ارادہ میں توقدیم ہوسکتاہے ۔ لیکن وجود خارجی کے اعتبار سے مفعول اور فاعل آنِ واحد میں کبھی نہیں ہوسکتے۔ اگریُوں ہوناممکن ہو توپھر کوئی کسی فعل کا فاعل نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ فاعل مقدم اور مفعول موخر ہو۔
سوم۔ برہم ست اور جگت متھیا کا خیال بھی ابتدائی سوء عقیدت اور کورانہ فلسفہ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ متھیاشئے ست شئے کا جُز نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ کسی شئے کا اپنے نقیض میں سے برآمدہ ہونا محال ہے۔ سورج میں سے تاریکی شہد سے تلخی اور سفید میں سے سیاہی کبھی نکل نہیں سکتی۔ اسی طرح ست برہم میں سے متھیا جگت کابرآمدہونا ناممکن ومحال ٹھہرا۔ ویدانتیوں کا یہ خیال ہے کہ جیسے ایک ہی سوت سے مختلف الوان واشکال کےکپڑے بنتے ہیں۔ اوراُن کے مختلف نام رکھےجاتے ہیں مگر ادُھیڑنے پر وہی سُوت کا سوت رہ جاتاہے۔ اسی طرح ایک ہی برہم ہے جو جگت کی بوقلموں اشیاء میں جُدا جُدا معلوم ہوتاہے۔ اور وہ اشیاء مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہیں مگر ہے " سروم کھلودم برہم" لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ سونے کی ایک اینٹ ہے اُس کی ڈھال کر مختلف اطوار اوراشکال کے زیورات بناکر اُن کے متفرق نام رکھے جاتے ہیں ۔ تاہم وہ سونا زیورات کی صورت میں تبدیل کردینے سے بھی سونا ہی رہے گا۔ پیتل نہیں بن جائے گا اورنہ ہی متھیا ہوگا۔کیونکہ ست میں سے است کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔پس ثابت ہوا کہ برہم ست ہے توجگت بھی ست ہے۔ گرنتھ صاحب کی گواہی بھی یہی ہے کہ" آپ ست کیا سب ست" ۔ علاوہ ازیں اگرسچ مُچ ویدانت کے خیال کے مطابق یہ دنیا محض وہمی وخیالی ہو توچاہیے کہ اگر آگ کوپانی کہاجائے تووہ پانی ہوجائے۔اوراسی طرح اگردن کورات کہہ دیا جائے توفوراً رات ہوجائے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پس عالم کی حقیقت ثابت ہے۔ اورجگت متھیا اوربرہم ست کے مسئلہ کا ابطال ظاہر ہے۔
چہارم ۔ عقیدہ ویدانت کے مطابق خدا کامُرکب ماننا پڑتاہے کیونکہ تمام جہادات ۔ نباتات حیوانات اورارواح کا اُسی میں سے برآمد ہوناثابت کرتاہے کہ تمام مادی وغیرہ مادی اشیا برہم کے اجزا ہیں۔ اول تو مادی وغیرہ مادی آپس میں ایک دوسرے کے اجزاء نہیں ہوسکتے۔ اور پھر برہم کے اجزا مانتے سے برہم کوترکیب لازم آتی ہے۔ اور شۓمُرکب اول توحادث ہوتی ہے اوربرہم کا حدُوث ایک اور خالق کو گنجائش دیتاہے۔ جو اُس سے قدیم ہوکر اُس کی بھی علت ٹھہرے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مُرکب ہونا کوئی اعلیٰ صفت نہیں چاہتا ۔ ترکیب ادنیٰ اجسام کا خاصہ ہے۔ روح اعلیٰ وجود ہے اور وہ غیر مُرکب ہے۔ جسم ادنیٰ شے ہے اور یہ مُرکب ہے۔ پس برہم کا مُرکب ہونا اُس کے متنزل اورادنیٰ ہونے کی دلیل ہے۔
پنجم ۔ ویدانت کے مطابق برہم کو سُگن اور نِرگن مانا جاتاہے۔ یعنی جب اُس کا تعلق تین گنوں ست ۔ رج۔ تم سے ہو تو وہ سگن ہوتاہے اور جب ان تین گنوں سے جدا ہو تو وہ نرگن ہوتاہےاورجب ان تین گنوں سے جدا ہو تووہ نرگن ہوتاہے۔ لیکن اُن کا یہ نظریہ بھی دیگر خیالات کی طرح خلافِ عقل ہے۔ ذات اور صفات آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ذات مجموعہ صفات ہے۔ جس طرح صفات کا وجود بغیر موصوف کے محال ہے۔ اُسی طرح موصوف کا وجود بلاصفات ممکن نہیں۔ برہم کو سگن اورنرگن ماننے کے یہ معنی ہوئے کہ وہ ذی صفات بھی ہے اورلاصفات بھی۔ اس طرح واحد ذات میں دونقیضوں کا اجتماع جائز ٹھہرا کر خداکی ہستی سے منُکر ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص عالم بھی ہو اور لاعلم بھی۔زندہ بھی ہو اور مرُدہ بھی ۔ موصوف کے بغیر صفت اور صفت کے بغیر موصوف کا وجود قطعی محال وممتنع ہے۔ مثلاً آگ ذات ہے اور حرارت اُس کی صفت ۔ اگر حرارت نہ رہے توآگ کی ذات کا انکار لازم آئے گا اور اگر آگ نہ ہو توحرارت کا وجود کہاں رہیگا ۔ پس لامحالہ ایک ہی خدا سگن اور نرگن دونوں نہیں ہوسکتا اورمحض نرگن بھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ بے صفات شئے اعتباری محض اور عدمی ہوگی نہ کہ نفس الامری اورحقیقی۔ پس یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ خدا ذی صفات(سگن) ہے۔ اس لئے کہ وہ حقیقی وجود ہے۔ اس لئے بھی کہ مخلوقات جواُس سے صادر ہوئی وہ ذی صفات ہے۔(رومیوں ۱: ۱۹سے ۲۰)۔ اگر خالق کو بے صفات (نرگن) مانا جائے اوراُس کی مخلوقات کوذی صفات (سگن) توایک نقیض کودوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔اوریہ محال ہے۔ لہذا خدا الحی ۔ ذی صفات اورحقیقی وجود ہے اور ویدانت کا عقیدہ سراسر باطل ہے۔
رہا یہ خیال کہ جو کچھ نظر آتاہے سب برہم ہے۔ اس کے متعلق یہ اُمور قابل غور ہیں کہ جبکہ کوئی انسان اپنے جسم۔ رنگ۔ شکل وصورت ۔ خدوخال ۔ صحت وسقم ۔ عادات وخصائل اورحُسن وقبح میں کسی دوسرے انسان سے مناسب ومطابقت تام نہیں رکھتا ۔ بلکہ ہر انسان میں ایک دُوسرے ششم ۔ سے نمایاں امتیاز پایا جاتاہے۔ اورجس کے باعث ہم ماں باپ بہن بھائی حاکم محکوم اور دوست ودشمن کو جُدا جُدا پہچانتے ہیں۔ اوران امتیازات کے باعث ہرایک کی شخصیت کے متعلق "میں" کا احساس ہونے پر دیگر افراد سے خودکو ممتاز سمجھتے اوراپنی شے کو" میری" کہتے اور اپنی اشیاومقبوضات کودیگر افراد کی اشیا سے عزیز رکھتے اور اُن کے کھوجانے پر افسوس کرتے ہیں توکس صورت میں تمام خلقت ایک برہم ہوسکتی ہے؟ زید کے مبروص ہونے سے بکر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک کوگیان ہونے سے سب کوگیان نہیں ہوتا۔ ایک سانپ کوماردینے سے تمام سانپوں کا زہر دُور نہیں ہوتا۔ توبھلا اس خیال کی صحت کی کیا دلیل ہوسکتی ہےکہ" سروم کھلودم برہم" بلکہ اس خیال میں ایک بھاری قباحت یہ ہے کہ بہن ۔ بیٹی۔ ماں۔ زوجہ ۔ خالہ اور دادی وغیرہ رشتوں میں کوئی فرق نہ رہنے کے باعث ان سب کوایک ہی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔اورتمدنی وخاندانی زندگی میں سخت مشکلات پیش آئیں گی۔ اوران تمام رشتوں ناطوں کا باہمدگرممتاز صُورت قائم رہنا بھی اس عقیدہ کے ابطال کی ایک مسکت دلیل ہے۔
ہفتم ۔ اور اگر فی نفسہ یہ تمام جگت ایک ہی برہم ہے۔ توذات پات اور اُونچ نیچ کے مکروہ وناشائستہ خیالات اوراعلےٰ وادنیٰ کے امتیازات کے کیا معنی ہیں؟ ویدانتی بھگتوں کو توکتے بلیوں اور گدھوں کووں کے ساتھ کھانے پینے سے بھی پرہیز جائز نہیں۔ چہ جائیکہ اچھوتوں کے ساتھ چھوجانا بھی زندہ درگور ہونے کا مصداق بنا ہوا ہے۔ اگرسرب جگت کوبرہم ثابت کرنے بیٹھے تھے توپہلے ان معمولی ابتدائی باتوں کی تواصلاح کرلیتے اورکم ازکم چھوت چھات کے قلعہ کو توپہلے سرکرلیتے ۔اگر ویدانت کی یکتائی کی تعلیم کی مثال سوائے ویدانت کی دنیا کے اورکسی بھی مذہب میں موجود نہیں۔ لیکن اگربرہم گیانیوں کے عملی پہلو کو دیکھ جائے تواُن کی سی امتیاز پسندی اورباہمد گرنفرت وجدائی کے خیالات کی کثرت کی مثال بھی کافہ انام پر اورکسی مذہب میں ہرگز ہرگز نہ ملے گی۔ گویا یکتائی توصرف زبان کے لئے ہے اور جدائی عمل کرنے کے لئے ۔ یہ تو اُس شخص کا سا حال ہوا کہ جس کے گھر میں توافلاس کی وجہ سے چوہے بھوکے مرتے ہوں اور زبان سے رٹنا پھرے سونا۔ سونا۔ اگران بھلے آدمیوں سےکوئی پوچھے کہ صاحب ! ایسی زبردست یکتائی کی تعلیم اورپھر ان امتیازات کے معنی؟ توجواب یہ ہوتا ہے کہ ابھی ہم اگیانی ہیں۔جب گیان ہوجائے گا توامتیازات نہ رہیں گے۔ اول توہمیں آج تک کوئی ویدانتی پوُرن گیانی نہیں ملا۔ اگرکوئی ہزار میں سے ایک ہوگا توگیان کی مشین کی سست رفتاری پرشک کی گنجائش نہیں۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جوشخص یہ اقرار کرتاہے کہ ابھی مجھے پورا گیان نہیں ہوا جب ہوجائے گا تو امتیازات کوچھوڑدونگا ۔ تواُس کے اس اقرار ہی سے ثابت ہے کہ وہ ان امتیازات کی قباحت سے آگاہ ہے اور اُنہیں مٹانا بھی چاہتاہے توبھلا ا س سے زیادہ گیان اورکیا ہوتاہے۔ سب زبانی جمع خرچ ہے اور حقیقت ندارد۔ اپنی اخلاقی کمزوریوں کی پردہ دری کے لئے اگیانی بن جاتے ہیں۔ ایسی تعلیموں نے ملک کی ذہنیت کوغایت درجہ پست کر رکھا ہے۔ اورجب تک ان خیالات کی جان کا فاتحہ نہ پڑھا جائیگا ہم حقیقی اخلاقی شائستگی ۔ تمدنی آزادی اور رُوحانی ترقی سے بے نصیب رہیں گے۔شُکر کا مقام اورہماری خوش قسمتی ہےکہ مسیحیت نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قلعہ بطلان پر بمباری کرنے کے لئے میدان کارزار میں ڈیرے ڈال لئے ہیں اور صرف مسیحیت نے ہند میں تمدنی اصلاحات اورمساوات کی تحریکوں کوجنم دیا ہے جس کی تقلید پر آج آریہ۔ سکھ اور مسلمان جھکے ہوئے ہیں۔
پھر کوئی ان ویدانتیوں سے یہ توپوچھے کہ کسی شیر چیتے اور سانپ وغیرہ سے خائف وسہمگیں ہوکر کیوں بھاگے جبکہ وہ اُسی کا رُوپ ہے ۔ کوئی دویت نہیں۔ اس واجبی اجابت کا جواب اکثر ہمیں یہ دیا جاتا ہے کہ بھرم کے آگے بھرم بھاگتاہے۔ یا یوں کہیں کہ بھرم سے ڈر کر بھرم بھاگ جاتاہے نہ ہشتم کہ ویدانتی ۔ اس مضحکہ خیز جواب سے ہمیں ہنسی آتی ہے۔ اول اس لئے کہ شیر او رویدانتی دونوں حقیقی اور خارجی وجود ہیں کہ نہ وہمی۔ اورپھر دونوں برہم۔ دُوسرے یہ کہ وہم سے وہم کیسے ڈرکر بھاگ سکتا ہے؟ دُوسرے الفاظ میں اُس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وہم دُوسرے وہم کو دُور کرسکتاہے۔ حالانکہ یہ صریح باطل ہے ۔ دواشیا جواپنی خاصیت میں ایک ہی ہیں وہ ایک دُوسرے کی مدافعت نہیں کرسکتیں ۔ مثلاً سردی سردی کو اور گرمی گرمی کو اورتاریکی تاریکی کوکبھی دُور نہیں کرسکتی۔کوئی بھی خاصیت اپنی متضاد خاصیت کے وسیلے دُور کی جاسکتی ہے۔ لہذا وہم وہم سے ڈرکر بھاگ نہیں سکتا۔ بلکہ ویدانتی شیر سے ڈر بھاگتاہے۔ اسی سے اُن دونوں میں مغائرت وتفاوت ظاہر ہے ۔پس ثابت ہوا کہ تمام جگت برہم نہیں ہے۔بلکہ خدائے واجب الوجود وفوق الفطرت تمام مصنوعات مرئیہ اور غیر مرئیہ اور سفیلہ وعلویہ کا واحد خالق اورصانع ہے۔ اور وہی تمام کائنات پر حکمران ہے۔ وہ مُرکب نہیں۔ نرگن نہیں ۔ گیان واگیان ہردوکابانی نہیں۔ اُس نے مخلوقات کواپنے میں سے نہیں نکالا اور نہ ہی تمام ممکنات فنا ہوکر اُس میں مل جائیں گی۔ وہ ازلی وابدی غیر مرئی ۔ لطیف الحی ذی صفات خالق مالک رازق فوق الفطرت اور ادراک عقل انسانی سے باہر ہے۔
آتما نیتہ مُکت ۔ ویدانیتوں کا خیال ہے کہ آتما نیتہ مُکت اور برلیب (منزہ عن الخطا)ہے۔ اوراُس پر گناہ مطلق اثر انداز نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غیر مادی اور غیر متاثر ہے۔ وہ ہمیشہ پاک وصاف رہتی ہے۔ پاپ(اگیان) صرف ستھول دیہہ (کثیف جسم) ہی سے متعلق ہے۔ اوردکھ سکھ کے سب اثرات دیہہ ہی پر ہوتے ہیں۔ رُوح ان کیفیات سے قطعی متکیف نہیں ہوتی۔
اول۔ اگر تنزہ تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ اورگناہ جسم کا خاصہ ذاتی ہے۔ تواس صورت میں رُوح اورجسم کی طبائع باہمد گرمتضاد ہوئیں۔ اور ضدین کا اجتماع محال ہے۔ اوریُوں انسانی زندگی کا قائم رہنا محال ٹھہرا۔(شائد اسی واسطے جگت کومتھیا سمجھتے ہیں ) لیکن انسانی زندگیاں قائم ہیں۔ پس گناہ کا تعلق روح وجسم دونوں سے ثابت ہوگیا۔
دوم۔ اگر پاکیزگی اورمعصومیت تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ تو حصول موکھش (نجات) یابرہم پراپتی کی خاطر اس قدر کٹھن ریاضیتیں کرنا فضول اور تحصیل لاحاصل ہے ۔جسم کے فنا ہونے پر آتما پرماتما میں جاملے گی۔ کسی کوتپ جپ سادھن وغیرہ کی مطلق ضرورت نہیں۔ یہ سراسر گمراہ کن عقیدہ ہے۔ دراصل اشرف شئے کے فساد سے ادنیٰ شئے کا فساد لازم آتاہے ۔ اگر اصل الشجر سوُکھ جائے توڈالیاں کبھی قائم نہیں رہ سکتیں۔ برعکس اس کے ڈالیوں کے سُوکھ جانے سے جڑ کا نقصان نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح روح جسم کی بہ نسبت اشرف ہے۔ اگراُس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تولازمی امر ہے کہ جسم بھی اُس بگاڑ سے متاثر ہو۔پس اگر جسم میں گناہ موجود ہے توروح میں اُس سے پہلے ہے۔ جب تک رُوح کی اصلاح نہ کی جائے جسم کی اصلاح ناممکن ہے اورجسم مادہ ہے۔ اور مادہ بذاتہ غیر مُدرک اور غیر متحرک ہے۔بغیر روح کے سہارے کے وہ اچھا یا بُرا کوئی عمل نہیں کرسکتا۔ پس ہر طرح سے رُوح پر ہی الزام آتاہے۔ اس لئے آتمانیتہ اور نرلیب ہرگز نہیں ہوسکتی"۔
سوم۔ پس جبکہ رُوح اورجسم دونوں گناہ آلودثابت ہوگئے تواب سوال لازم آتاہے کہ پھر گناہ کا وجود حقیقی ہے یا اعتباری محض۔ اگرکہو اعتباری توامراعتباری کی مدافعت کے لئے خارجی تدابیر جیسے سادھن ریاضت وغیرہ اورکرم دھرم وغیرہ بے سُود وبےکارٹھہرتے ہیں۔ اورجب گناہ مفروض ذہنی ٹھہرا تودکھ جوپاپ کا نتیجہ ہے وہ بھی ناپید ہونا چاہیے۔ اورکوئی بھی دنیا میں دُکھیا اورمصیبت زدہ نہ ہونا چاہیے۔ اوراگر دُکھ اورپاپ کوئی موجود فی الخارج شۓ نہیں توتناسخ کس پرند ے کا نام ہے ۔ اور ویدانتیوں کی جُملہ تدابیر دربارہ مدافعت اگیان اور حُصول موکھش کیا معنی رکھتی ہے؟ یہ تواُس سڑی آدمی کا ساحال ہوا جوبری یا سیمرغ (ایک فرضی عظیم الحبثہ پرندہ جس کی نسبت وہمی لوگوں کا خیال ہے کہ ہاتھی کوپنجوں میں لے کر اڑجاتا ہے)کے خوف سے غاروں میں چھپتا پھرے۔ اور یا حُصول اقبال ودولت کے لئے ہُما کی تلاش میں صحرا نوروی وبادیہ پیمائی کرتاہے پھرے۔حالانکہ یہ دونوں پرندے قوتِ واہمہ کی اختراع کا وہمی نتیجہ ہیں۔ اگرکہو کہ گیان ہونے پر ان وہمی تصورات کا سدباب ہوجاتاہے توکیا اب کس برہم گیانی کو دکھ درد محسوس نہیں ہوتا؟ اگراب محسوس ہوتاہے توپہلے اُس کا وجود حقیقی تھا نہ کہ اعتباری ۔ اوراگر کہو کہ اب بھی دکھ درد محسوس نہیں ہوتا تویہ صریح باطل ہے۔ اگر کوئی روز روشن میں سُورج کے وجود سے انکاری ہو تو اُس کے مخبوط الحواس اور سڑی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں۔ چُونکہ دُکھ درد وغیرہ کا وجود دنیا میں بدیہی الظہور ہے اور کسی ثبوت کا محتاج نہیں اور دکھ نتیجہ ہے پاپ کا۔ پس جب دُکھ کا وجُود حقیقی ثابت ہے تواُس کا سبب یا علت یعنی گناہ کیونکر اعتباری ہوگا۔ لہذا گناہ بھرم اور وہم نہ رہا بلکہ حقیقی ٹھہرا اوریہ بالکل صحیح ہے۔
گیان۔ گناہ اوراُس کے نتائج دُکھ درد اور رنج ومحن کا وجود عالم میں بدیہی ہے۔ویدانتیوں کا خیال ہے کہ گیان ہونے پرگناہ (بھول) معُدوم ہوجاتاہے۔ واضح ہو کہ گیان کے معنی علم ہیں۔ کسی بیماری کا محض علم اُس کا علاج نہیں ہوسکتا۔اگربیماری کا علم ہی اُس کا علاج ہوسکتا تو صفحہ ہستی پر ڈاکٹروں اورحکیموں کا وجود ناُبود ہوتا۔کسی مریض کواُن کا منت کش احسان ہونے کی کبھی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ بلکہ اپنے مرض کے محض علم ہی سے شفا ہوجایا کرتی۔ گیان وغیرہ کے بھروسے پر رہ کر گناہ کی طرف سے آنکھیں بند رکھنا سخت نادانی اورکج فہمی ہے۔ گیان یا علم (شرع) سے تومحض گناہ کی پہچان ہوتی ہے۔(رومیوں۳: ۲۰) فرض کروایک شخص اندھیری رات میں ایک ایسے مکان میں سویا ہوا ہے جواندر سے نہایت گندہ اور غلیظ ہے۔ مکڑی کے جالے۔ کوڑا کرکٹ وغیرہ بکھرے پڑے ہیں۔لیکن وہ شخص نہایت اطمینان سے اُس میں شب باش ہے۔ اب ایک دوسرا شخص چراغ لے کر اُس کمرے میں وارد ہوتاہے۔ لیکن چراغ کی آمد سے مکین کی طبیعت میں ایک دم ایک انقلاب پیدا ہوجاتاہے۔ اب وہ پہلے کی طرح مطمئن اورپُرسکون نہیں رہتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چراغ کی روشنی نے مکان کی غلاظت وگندگی کواُس پر ظاہر کردیا۔ اب وہ ایک لمحہ تک اُس میں رہنا نہیں چاہتا۔ اب وہ چاہتاہے کہ اُس مکان کوفوراً غلاظت سے پاک کیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ چراغ اُ س مکان کوہرگز صاف نہیں کرسکتا۔ وہ توصرف اُس کی گندگی کوظاہر کرکے محض اُس کی مدافعت کی طرف مائل ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح گیان (علم شرع) کوایک چراغ سمجھیۓ۔ (زبور ۱۱۹: ۱۰۵)وُہ انسان کے گناہوں کی کراہت کو اُس پر ظاہر کردیتاہے۔ لیکن دُور نہیں کرسکتا۔ البتہ وہ نجات کی ضرورت کومحسوس کرواکے کسی طبیب روحانی کی طرف ترغیب دلاسکتاہے۔اور متلاشی حق بنادیتاہے۔ اور اُن کا یہ خیال بھی عجیب ہے کہ گیان حاصل ہونے پر سادھن (عملی تدابیر) ختم ہوجاتے ہیں۔ جیسے پھل لگنے پر پھُول خود بخود جھڑجاتے ہیں۔ اور مسیحی مسلمات کے مطابق گیان(علم شرع) کے حُصول کے بعداصل سادھن شروع ہوتے ہیں۔ جیسے مرض کا علم ہوجانے پر بُہت سے غذاؤں سے پرہیز رکھنا اور بہت سی دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے پُرانی انسانیت کو اُس کےکاموں سمیت اُتارنا پڑتا اور نئی انسانیت کو پہننا پڑتا ہے(کلسیوں ۳: ۹-۱۰) برہم گیانی کو تونیک اور بد دونوں قسم کے کاموں کو تیاگنا پڑتاہے ۔ لیکن انجیل اس کے برخلاف یہ حکم لگاتی ہے کہ "پس جو کوئی نیکی کرنا جانتاہے اورنہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے"(یعقوب ۴: ۱۷)۔ جب تک خوابیدہ شخص کو گھر میں لگی ہوئی آگ کا علم ہی نہیں وہ اُسےکیسے بجھا ئے گا ؟جونہی اُس کی آنکھ کھلے گی اورمکان کی آتشزدگی کا گیان ہوگا وہ ایک دم عملی تدابیر (سادھن) اُس کے بجھانے کی کرے گا۔ اگر آگ کا گیان ہونے پر بھی اُس کے بجھانے کی ضرورت کا قائل نہ ہو تو اُس کے سڑی ہونے میں کیا شک ہے؟
مکتی ازروئے ویدانت ۔ اوپر ہم واضح طورپر دکھاچکے کہ گیان یا علم محض سے نجات کا حصول ناممکن ہے۔ البتہ گیان گنہگار انسان پر اُس کی گناہ آلودہ اورمکروہ حالت کوپورے طورپر آشکارا کردیتاہے۔ اوراُس سے چھٹکارا ہرگز نہیں کراسکتا۔بلکہ نجات کی ضرورت محسوس کروادیتا ہے۔ اور ویدانتی مکتی کوچار قسم کی مانتے ہیں یا یوں کہیں کہ ازروئے ویدانت نجات کے چار مدارج ہیں۔ یعنی : سلوک۔ سمیت۔ سُروپ ۔سمُجھ۔
اول۔ سلوک ۔ یعنی برہم کے دیس میں رہنا۔ دوم۔ سمیپ ۔ یعنی برہم کی قرُبت میں رہنا۔ سوم۔ سُروپ ۔برہم کے ساتھ مشابہت ومماثلت حاصل کرنا۔
چہارم۔ سمجھ یعنی برہم کی عین ذات ہوجانا۔ جس کی وہ ابھید ہونا یا برہم میں لین ہونا۔ (سما جانا) کہتے ہیں۔ وحدۃ الوجود یعنی سمجھ ہی مُکتی کا کمال ہے۔
اگربغور دیکھا جائے تویہ کوئی کمال کی حالت نہیں بلکہ برعکس اس کے انتہائی زوال اور عدم کی حالت ہے۔ اول توابھید ہونے میں کوئی آنند نہیں کیونکہ تودوئی (دویت) میں ہوتا ہے نہ کہ ادویت میں۔ ایک طرف معبود ہو اور دُوسری طرف عابد اپنے معبود کے وصل سے اپنی مُدتوں کی تشنہ روح کی تشنگی بجھائے اوراُس کے دیدار فیض آثار سے اطمینان قلبی اورسکون باطنی حاصل کرے۔ یک جان دوقلب ہوجائیں تب حقیقی آنند ہے۔ لکن برہم میں فنا ہوجانا کوئی اطمینان کی بات نہیں ہے۔ایسی مکتی نہیں بلکہ انتہائی بے بسی اورلاچاری کی حالت ہے ۔ اورنہ ہی ازروئے عقل یہ ممکن ہے کہ جیو جوا لپگیہ (محدود) ہے۔ برہم میں جوسروگیہ (لامحدود ) ہے کسی صورت ابھید ہوسکے۔ کیونکہ متنا ہی وجود لاانتہا زمانہ تک ترقی کرتے جانے سے بھی کبھی بے حد نہیں ہوسکتا ۔ازیں جہت محدود ولامحدود جو باہم نقیضین ہیں کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ازروئے ویدانت انسان کے بھلے اور بُرے افعال کی جزاوسزادینے والا کوئی عادل ومصنف خدا نہیں ہے۔ اوربرہم ہی ہر طرح کی نیکی وبدی کا مخرج ومنبع ہے اور دونقیضوں کا علت واحد پر اجتماع جائز سمجھتے ہیں۔ اورپاپ اُن کے نزدیک غیر فطری امر نہیں ہے۔ پاپ کا نتیجہ چوراسی لاکھ جنموں کا چکر اورپاپ کے تیاگ اور گیان پراپتی کا انجام برہم کی ذات میں فنا ہوکر ہمیشہ کے لئے معدوم اورناپید ہوجانا ویدانت کے مطابق طریق حیات اورنجات وغیرہ کا تصور نہایت گمراہ کن اور ہلاکت آفرین ہے۔اس کے مطابق انسان کو نراچھت (بے خواہش) ہونا نجات کے لئے ضروری ہے ۔ یہ بھی قانون قدرت کے خلاف جہاد ہے کیونکہ انسانی فطرتی طورپر بے خواہش نہیں بلکہ باخواہش پیدا کیا گیا ہے۔ البتہ خواہشات کا نیک ہونا انسانی کمال کا نشان ہے۔ اور عدم خواہش توادنیٰ اجسام کی خاصیت ہے۔ جیسے پتھر ۔دھات اورنباتات وغیرہ میں اچھی یا بُری کوئی بھی خواہش نہیں پائی جاتی۔ ہاں برہم میں فنا ہوجانے سے نیستی ہی ہوگی ۔اورسچ ہے کہ نیستی میں خواہش کا وجود محال ہے۔ جبکہ چوراسی لاکھ جنموں میں سے صرف انسانی جنم ہی اعلےٰ اور بابرکت سمجھا جاتاہے ۔ اورخواہشات کا وجود اور نیک وبد خواہش کا امتیاز بھی اسی جنم میں حاصل ہوتاہے تولازم تھا کہ اس جنم کا انتہائی کمال یہ سمجھا جاتا کہ اُس میں خواہش کا ظہور اوربھی اعلےٰ ہوتا۔ اور وہ اس صورت میں ہوتا کہ انسان کی خواہشات مفیلہ وذمیمہ معُدوم ہوجاتیں۔ اوربرعکس اس کے خواہشات علویہ وسعیدہ اورجذبات لطیفہ رُوحانیہ میں حد کمال کوپہنچتا۔ لیکن افسوس ! کہ ویدانتی لوگوں نے مُکت جیو کو قطعی بے خواہش مان کرنجات کوایک انتہائی متنزل اور ادنیٰ حالت ثابت کیا ہے۔ تاہم بے خواہش ہونا بھی خلاف واقعہ ہونے کے باعث جہل مرکب ہے۔ کیونکہ یہ امر بدیہی ہے کہ اس ملبوس ہستی میں کوئی انسان بے خواہش ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی ویدانتی کومُکتی کی اُمید نہ رکھنا چاہیے۔ پھر برہم گیانی کو کسی کے ساتھ بولنا نہ چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کو تو تم اور تمہارے وغیرہ کہنے سے دوئی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ قدرت نے زبان وذہن انسان کواستعمال کے لئے دے رکھے ہیں۔ اور قدرت اپنے قوانین کوجبری طور پر منواتی ہے۔ اوراس لئے ضرور بولنا ہی پڑتاہے ۔ مگر برہم گیانی اپنی اس کمزوری ونقیص کی پردہ داری ایک اور صورت میں کرنا چاہتے ہیں۔ کہ جوگیا سُو(طالب علم ) کوسمجھانے اور تعلیم دینے کے لئے بولتے ہیں ورنہ بولنے کی کوئی اچھیا (خواہش ) نہیں ہے۔ اجی صاحب !جوگیا سُو کواگیان کی تاریکی سے نکالنے اور راہ راست پرلانے کی فکر بھی توایک خواہش ہے ۔ خواہش کے معنی ہیں چاہنا ۔ جب تم چاہتے ہو کہ دُوسروں کو اُپدیش کرکے راہ راست پر لاؤتوخواہش اورکس پرندے کانام ہے۔ ویدانتی فنا ہونے کو مُکتی اعلیٰ حالت سمجھتے ہیں اور زندگی کو لعنت اور بُرے اعمال کا بُرا نتیجہ ۔ ہم زندگی سے خارج ہونے کو ہلاکت اور ابدی زندگی کوخدا کی بخشش اورانعام سمجھتے ہیں۔ اب ناظرین خود دیکھ لیکں کہ کونسا طریق انسان کی فلاح وبہبود جسمانی وروحانی کا آئینہ دار ہے۔ سوء عقیدت مسئلہ ویدانت کا جنم وہ ہے۔ اوراُس کی تقلید سے نہ تو انسان دینوی تہذیب وشائستگی کوحاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی اس طبعی موت کے بعد اُس کے لئے حقیقی خوشی اوراطمینان وسکون قلبی کی کوئی اُمید باقی رہتی ہے۔ اور انسان آئندہ زندگی کی سنہری اُمیدوں سے ہاتھ دھوکر یہی کہتاہے کہ "اگر مُردے نہ جلائے جائیں گے ۔ توآؤ کھائیں۔پئیں ۔ کیونکہ کل تومرہی جائینگے"۔(انجیل شریف۔ ۱کرنتھیوں ۱۵: ۳۲)۔
انجیلی نجات ۔ انجیل کی رُو سے نجات یا بندہ کی مختصر سی تعریف یہ ہے: ۔ پُرانی انسانیت مصلوب ہوکر گناہ کا بدن بیکار ہوجائے۔ آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہے (رومیوں ۶: ۶) بدن گناہ کے سبب سے مُردہ اور روح راست بازی کے سبب زندہ ہو (رومیوں ۸: ۱۰) ۔
حُصول کمال کی استعداد پیدا ہوجائے (۲کرنتھیوں ۳: ۱۸)۔ آنخداوند مسیح کے ساتھ مشابہت ہوجائے (فلپیوں ۳: ۲۱۔ ۱یوحنا ۳: ۲)خدا کے ساتھ ملاپ(افسیوں ۲: ۱۳۔ ۲۲) سزائے عدالت سے رہائی (رومیوں۸: ۱) اوریہ نجات خدا کی بخشش ہے نہ کہ ہماری کمائی ہوئی(افسیوں ۲: ۸سے ۹) اور یہ نجات ابدی اور لازوال ہے (مکاشفہ ۲۱: ۳۔۷۔ ۲۳: ۲۷۔عبرانیوں ۹: ۱۲)۔