(۷)

مِعیارِ الہام

گذشتہ ابواب میں ہم مسئلہ الہام پر روشنی ڈالتے ہوئے الہام کی اشد ضرورت کو ثابت کرچکے ۔ اوردِکھاچکے کہ حقائق ودقائق الہٰیہ اوررموز اسرار لطیفہ رُوحانیہ کے ادراک وتفہیم کے لئے عقل مجرد کی رہنمائی کافی نہیں ہے ۔ اور نہ ہی عقل کے حاصلات ونتائج میں مطابقت تام ہے ۔ اس لئے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا قطعی ناممکن اورمعلومات ِعقلیہ پر اپنے ایمان ویقان کی بنیاد رکھنا سراسر غیر معقول ہے ۔ جس طرح دُنیا میں سچ کی بہ نسبت جھوٹ کا دائرہ اثر وسیع ہے اُسی طرح دُنیا  میں سچے انبیاء کی بہ نسبت جھوٹے نبیوں کے دعویٰ نبوت کرنے کا زیادہ احتمال ہے ۔ چنانچہ ایا ہی ہوتا رہا۔ ۱۔ سلاطین ۲۲: ۶- ۲۸ میں جھوٹے نبیوں کا نقشہ موجود ہے ۔ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ اُن نبیوں کی باتیں نہ سُنو۔ جو تُم سے نبوت کرتے ہیں۔ وہ تُم کو بطالت کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ اپنے دبوں کے الہام بیان کرتے ہیں۔ نہ کہ خُداوند کےمُنہ کی باتیں (یرمیاہ ۲۳: ۱۶، ۲۱، ۳۲، ۱۴: ۱۴ ) اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں۔ مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیئے ہیں(متی ۷: ۱۵) اسی طرح صحائف مطہرہ میں بار بار جھوٹے نبیوں سے محتاط رہنے اوراُن کے گمراہ کُن خیالات و باطل تعلیمات سے خبردار رہنے کے متعلق تاکید پائی جاتی ہے ۔ پس ہم کس طرح جانیں کہ جو بھی نبی دعویٰ نبوت کرے وہ سچا ہے یا جھوٹا جس طرح کھَرے اورکھوٹے سونے میں تمیز کرنے کے لئے ایک معیار یا کسوٹی ہوتی ہے۔ اُسی طرح کلامِ مقدسس میں ہردوقسم کے انبیاء کی جانچ کا معیار رکھا گیا ہے ۔اگر اُس معیار پر پرکھے بغیر کسی نبی کی اندھا دُھند تقلید کی جائے تو راہ ِحق سے گمراہ ہونے کا سخت اندیشہ ہے ۔ چنانچہ میری ذاتی تحقیقات کے مطابق الہام اورنبوت کی جانچ کا معیار ان پانچ اصولوں پر مشتمل ہے ۔ یعنی ۱۔ معجزہ ۲۔ پیشینگوئی ۳۔ نیک سیرتی ۴۔ مطابقت بہ الہام ماقبل ۵۔ مسیح کا اقرار ۔

معجزہ

الہام ِالہٰی فوق العادت امر ہے ۔ جب کوئی فوق العادت ظہور منصہ شہود پر جلوہ گرہوتا ہے تو انسانی عقل فطری طورپر اُس کی صحت کا ثبوت طلب کرتی اورجب تک ثبوت نہ ملے مشکوک ومشتبہ نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔ دُنیا ہی میں دیکھئے کہ جب کسی سلطنت کا سفیر کسی دوسرے بادشاہ کے پاس کوئی شاہی پیغام لیکرجاتا ہے ۔ تواُس وقت تک اُس کو شاہی نمائندہ تسلیم نہیں کیا جانا جب تک وہ اپنے ثبوت ِسفارت میں کوئی شاہی تصدیق نہ دکھائے ۔ جب وہ بادشاہی مُہر دکھاتا ہے توا ُس کے دعویٰ ِسفارت کو حق سمجھا جاتا اور اُس کے الفاظ کو عین بادشاہ کے الفاظ سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ عقل ِ انسانی دُنیوی معمولی باتوں کی صحت وعدم صحت کے متعلق تصدیق اوریقینی ثبوت کا مطالبہ کرتی ہے ۔ تو کِس قدر فوق العادت امور کے متعلق اُس سے زیادہ قوی ثبوتوں کی ضرورت نہ ہوگی۔ جب کوئی نبی مِن جانب اللہ ہنوے کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کو اپنے دعویٰ کا ثبوت معجزات کے ذریعے دینا ہوتا ہے ۔ اورلازم ہے کہ وہ فوق العادت پیغام کو فوق العادت نشانوں کے ساتھ اہل دُنیا کے سامنے پیش کرے ۔ اوراگر وہ ایسا نہ کر ے تو دُنیا کو حق حاصل ہے کہ اُس کے پیغام کو الہٰی پیغام نہ مانے ۔ موسیٰ پر جب توریت نازل ہوئی تو اُس نے اپنے الہام اوردعویٰ نبوت کو بڑے بڑے معجزات سے ثابت کیا (استثنا ۳۴: ۱۰- ۱۲) اورجو نبی معجزات سے اپنی نبوت نہ دے پر سابقہ الہامی صحائف سے اُس کا پیغام مطابقت رکھے تو وہ پہلی کتابوں کا واعظ ہی ہوسکتا ہے ۔ نہ کہ اس سے زیادہ جب پُرانے عہد کا حدرواج اختتام پذیر ہوا ۔ تو نئے عہد کی بنیاد خُداوند مسیح نے رکھی ۔اور وہ ہزار معجزوں کا ایک معجزہ تھا۔ اُس کی تمام زندگی فوق العادت حقائق واظہارات کا ایک حسین وجمیل مجسمہ تھی۔ اُس  نے اپنے پیغام کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں بے شمار معجزے دکھائے ۔ اورفرمایا کہ '' جو کام باپ نے مجھے بھیجا ہے (۱۔ یوحنا ۵: ۳۶ ) اورآپ کے صعود فرمانے کے بعد رسول یہ گواہی دیتے ہیں۔ اَے اسرائیلی مردو ! یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک مرد تھا۔ جس کا خُدا کی طرف سے ہونا تُم پر ثابت ہوا ۔ اُن معجزات اوراچنبھوں اورنشانیوں سے جو خُدا نے اُس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائیں ۔ جیسا تُم آپ بھی جانتے ہو۔(اعمال ۲: ۲۲) پھر مسیح کے رسولوں نے اپنی رسالت کو معجزات سے ثابت کیا۔ ملاحظہ ہو (اعما ل ۳: ۱- ۱۰ ؛ ۳۶-۴۲ ؛۱۴: ۱۱- ۲۰ ؛۱۶: ۱۶-۱۸؛۲۰:۹- ۱۴) پس معجزات کسی نبی کے مِن جانب خُد ا ہونے کا ڈائر کٹ ثبوت ہیں۔ اور جو نبی پیغمبر یا رسول معجزات نہ دکھائے ۔ وہ انبیاء وہ مُرسلین کی فہرست میں شامل کئے جانے کئے ہرگز ہرگز لائق نہیں۔ہاں البتہ جلد باز اورسریع الاعتقاد لوگ ایسے دعویداران نبوت کی کورانہ تقلید پر ایکدم کمربستہ ہوجاتے اورضلالت وگمراہی کے لق ودق صحرا کی خاک چھا نتے ہیں۔ اوربعض مذہبی کتب کے ذاتی وعادی سے بڑھ کر دعوے کرتے ۔ اورخواہ مخواہ بعض لوگوں سے معجزات منسوب کرکے اُنہیں انبیاء صادق کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت متصدقہ کو چھوڑ کر توہمات کو حقیقت کا لباس پہنانا عبث ہے ۔ عہد عتیق اورعہد جدید ہردو کی بنیاد یں معجزات پررکھی گئی ہیں۔ اورانجیل میں آکر الہام کا مل ہوگیا۔ اوراُس کے وسعت رواج کا زمانہ تاقیامت ہے ۔ اورانجیل نے کسی مزید الہامی کتاب کے نزول کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔ بلکہ کُل واقعات جو ابتدائے عیسویت سے تاقیامت انسان اورخُدا کے درمیان ظہور میں آنے چاہئیں اُس میں بالتفصیل وتشریح قلمبند ہیں۔ اورمعجزات بالخصوص اُس نبی کے لئے ضروری ہیں جو ایک نئی کتاب کا مُلہم اورکسی نئے دین کا بانی ہونے ک داعی ہو۔ موسیٰ عہد عتیق کا بانی تھا۔ اس لئے اُس نے اپنی نبوت کو معجزات سے ثابت کیا ۔ اُس کے بعد کے انبیاء کے لئے معجزات دکھانا لازمی شرط نہیں بلکہ معجزہ یا پیشین گوئی میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے اگرچہ وہ یہ دونوں کام کریں ۔ اسی طرح عہد جدید کے بانی نے اس نئی کتاب (انجیل ِمقدس ) اور نئے عہد کی بنیاد معجزات پررکھی ۔ اب اگر کوئی تیسری کتاب انجیل کے بعد آئے تو اُس کے مُلہم ومنزل علیہ کے لئے معجزات دکھانا ضروری ولابدی ہے ۔ لیکن انجیل نے کسی تیسری کتاب ِ کے لئے بالکل گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔ اس لئے مقدس پولوس رسول فرماتاہے ۔ اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ بھی اُس خوش خبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سُنائی کوئی اورخوش خبری تمہیں سنائے تو معلون ہو۔ (گلتیوں ۱: ۸)۔

پیشینگوئی

لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا مَیں نے اُس کو حکم نہیں دیا۔ یا اورمعبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیاجائے ۔ اوراگر تم اپنے دل میں کہو ہ جو بات خُداوند نے نہیں کہی ہے اُسےہم کیونکر پہچانیں ۔ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خُداوند کے نام سے کچھ کہے اوراُس کے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہوتو وہ بات خُداوند کی کہی ہوئی نہیں۔ بلکہ اُس نبی نے وہ بات خودگستاخ بن کر کہی ہے ۔ تُم اُس سے خوف نہ کر نا (استثنا ۱۸: ۲۰- ۲۳)۔

وہ نبی جو سلامتی کی خبر دیتا ہے جب اُس نبی کا کلام پورا ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ فی الحقیقت خُداوند نے اُسے بھیجا ہے (یرمیاہ ۲۸: ۹) ان حوالہ جات سے خوب روشن ہے کہ نبوت کی صحت اورعدم صحت کی جانچ کی معیار پیشنگوئی بھی ہے ۔ اتنی طاقت نہ تو قلم میں اورنہ ذہن میں ہے کہ بائبل کے تمام انبیاء کی تمام پیشنگوئیوں کو حیطہ تحریر میں لایا جائے ۔ ناظرین خود تحقیق کرسکتے ہیں۔ ہم صرف خُداوند مسیح کی چند پیشینگوئیوں کے پورا ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ جھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی اُٗٹھ کھڑے ہوں گے۔(متی ۲۴: ۲۳- ۲۴) چُنانچہ۔

  1. بعہد اثر جان ۱۱۴ء میں ایک شخص انڈر یونے مسیحائی کا دعویٰ کیا۔
  2. ایڈریان کے عہد ۱۳۲ ء میں بار کو کہب کو مسیح سمجھا گیا ۔ اور یہود پر اُس کے باعث بہت تباہی آئی۔ آخر تنگ آکر یہود نے اُسے جھوٹا مسیح سمجھا ۔
  3. ۴۳۴ء میں جزیرہ کریٹ میں ایک جھوٹا نبی اُٹھا ۔اُس نے موسیٰ ہونے اورلوگوں کوسمندر سے پار کرنے کا دعویٰ کیا۔ آخر جھوٹا ثابت ہوا۔
  4. ۵۲۰ء میں عرب میں ایک ڈونان نامی جھوٹا مسیح اُٹھا ۔اور اپنے یہودی پیروکاروں کے ہمراہ نگرا شہر میں مسیحیوں پر حملہ کردیا۔ آخر مارا گیا۔
  5. ۵۲۹ ء میں جولیا ن نامی ایک جھوٹے مسیح نے یہودیوں اورسامریوں سے بغاوت کرائی۔ اوربہتیرے ہلاک ہوئے ۔ حضرت محمد صاحب کی بعثت کا بھی یہی زمانہ تھا۔ اورآپ نے فرمایا تھا کہ مجھے پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس توریت اورانجیل میں ۔ (سورۃ اعراف ۱۵۸)۔
  6. ۷۲۱ء میں ایک سُریانی مسیحائی برپا ہوا اورجھوٹا ثابت ہوا۔
  7. ۱۳۷ ء میں یہود نے فرانس میں کسی کو مسیح مان لیا اورملک بدر ہوئے ۔
  8. ۱۱۵۷ ء میں یہود نے مُلک ہسپانیہ میں کسی بناوٹی مسیح کے زیر ہوکر بغاوت کی اورقریباً کُل تباہ ہوئے۔
  9. ۱۱۶۷ء میں سلطنت فیز کے اندر یہود نے ایک جھوٹے مسیح سے دھوکا کھا کر بہت دُکھ اُٹھایا ۔ اسی صدی میں عرب میں بھی ایک مسیح اُٹھا۔ اورپھر اسی سن میں دریائے فرات کے پار ایک مسیح اُٹھا ۔ اوردعویٰ کیا کہ مَیں کوڑھی ہو کر سورہوں گا اورتندرست ہوکر اُٹھوں گا ۔
  10. ۱۲۲۲ ء میں جرمنی میں یہود نے ایک شخص کو مسیح سمجھا اوراُسے ابن داود کہنے لگے ۔ اسی برس وہ ایک عورت سے جو ورمس کی تھی مسیح کے پیدا ہونے کی اُمید یں رکھتے تھے۔ لیکن اُٗس کے لڑکی پیدا ہوئی ۔ چودھویں صدی میں ابھی اسی طرح ایک نقلی مسیح اُٹھا۔
  11. ۱۵۰۰ ء میں ربی اسخر لیملا جرمنی میں مسیح پیشتر و ہونے کا داعی ہوا۔ اوریہودیوں میں اُس کی باتوں سے بہت سرگرمی اوراُمید پیدا ہوئی ۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے روزوں اورنمازوں کے باضابطہ اوقات مقرر کرے اُس کی انتظاری کی ۔مگر لاحاصل ثابت ہوئی ۔
  12. ۱۶۲۲ ء میں وہ مشہور جھوٹا سیتہائی زیوی اُٹھا۔ اوراپنی جان بچانے ےکی خاطر آخر محمدی ہوگیا۔

(منقول از کتاب عدم ضرورت قرآن مصنفہ جی ۔ایل ٹھا کر داس۔ )

اوراُنیسویں صدی میں مرزا غلام احمد ۱ قادیانی کو بھی دعویٰ مسیحائی کا شوق چرایا ۔ اورہزاروں بندگان خُدا کو گمراہی میں ڈالا ۔ آپ ے تحصیل لاحاصل میں اپنی سعی گرانما یہ صرف فرمائی ۔تاہم آپ کا خیالی قصر ویسے کا دیسا گبند بے در بنا رہا ۔ اسی طرح قیامت تک جھوٹے مسیح ونبی اُٹھتے اورخُداوند مسیح کی پیشین گوئی پر مہرصداقت لگاتے ےرہی گے ۔

پھر خُداوند مسیح کی یوحنا ۱۶: ۲ کی پیشین گوئی اعمال ۸: ۱ ؛۹: ۱-۲ کے علاوہ ہر زمانے میں پوری ہوتی رہی ۔ ہیکل کی بربادی کی خبردی مرقس ۱۶: ۱۷- ۱۸ جو ہمیشہ پوری ہوتی رہی ۔ اپنی صلیبی موت کی خبردی وہ پوری ہونے والی ہے ۔ برخلاف اس کے مرز قادیانی کی مردم آزاد پیشین گوئیوں کا جوحشر ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم مسیحی مناظر کی موت ۔محمدی بیگم کا نکاح۔ سلطیان احمد ی کی موت اورپھر شیخ محمد حسین۔جعفر زٹلی اور مولوی ابوالحسن تبتی کی موت کی پیشین گوئیاں سراسر باطل اوربے بنیاد ثابت ہوئیں۔ پس آپ کے دعویٰ مسیحائی دنبوت کے بطلان کی اورکیادلیل ہوسکتی ہے ۔ نبی صادق کی ہر پیشنیگوئی کا سچا ہو نا اُس کے دعوےٰ کی صداقت کی دلیل ہے ۔

نیک سیرتی

فرستادہ خُدا اورمدعی نبوت کا نیک سیر ت ہونا ضروی ہے ۔  اور یہاں نیک سیرتی سے وہ نیکی و پاکیزگی مُراد نہیں جو خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے۔ بلکہ مُراد یہ ہے کہ نبی ورسول کی زندگی بہ نسبت عامتہ لناس کے بہترین ہو۔ خُداوند مسیح نے فرمایا۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ ۔۔۔۔اُن کے پھلوں (اعمالوں ) سے تُم اُنہیں پہچان لوگے ۔ کیا جھاڑیوں سے انگور اور اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا بعض لاتا ہے  اوربُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے ۔ (متی ۷: ۱۵- ۱۷) پولوس رسول فرماتا ہے ۔کیونکہ ایسے لوگ جھوٹے رسول اوردغا بازی سے کام کرنے والے ہیں۔ اوراپنے آپ کو مسیح کے رسولوں کے ہم شکل بنالیتے ہیں(۲۔ کرنتھیوں ۱۱: ۱۳) پھر پطرس رسول فرماتا ہے ۔ اور جس طرح اُس اُمت میں جھوٹے نبی بھی تھی ۔ اُسی طرح تُم میں بھی جھوٹے استاد ہوں گے  ۔۔۔۔ اوربہتیرے اُن کی شہوت پرستی کی پیروری کریں گے۔ جن کے سبب سے راہ ؐحق کی بدنامی ہوگی۔ اوروہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔

(۲۔ پطرس ۲: ۱-۳ ) مندرجہ بالا مقامات سے نبی کو اُس کی اخلاقی اورعملی زندگی کے نکتہ نگاہ سے سچایا جھوٹا کہنا ظاہر ہے ۔ اورکوئی یہ نہ سمجھے کہ سب نیک سیر ت نبی ہوتے ہیں۔ سب نیک سیرت نبی نہیں پر سب نبی نیک سیرت ہوتے ہیں اورنیک سیرتی کے ساتھ معجزہ یا پیشینگوئی دونوں میں سے اییک قابلیت ضرور اُ ن میں ہونی چاہئے محض نیک سیرتی نبی ہونیکے لئے کافی نہیں۔ کیونکہ وہ تو غیر نبی میں بھی ہوسکتی ہے۔ اب ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ اس معیار کے مطابق کون کون نبی صادق کہلانے کا حقدار ہے ؟

مطابقت بہ الہام ماقبل

جو نبی خُدا کی طرف سے الہام لے کر مبعوث ہو اورنبی ہو نے کا دعویٰ کرے تو نہایت لازمی ہے کہ اُ س کی تعلیم وتلقین اورمضامین  وخیالات اپنے سے ماسبق نوشتوں کے ساتھ مطابقت تام رکھیں۔ اوراگر برعکس اس کےاختلاف وتناقض دِکھائیں تووہ نبی ہرگز خُدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خُدا متناقض مکاشفے نہیں دے سکتا۔ اُس کے مکشوفات میں تعلیم کے لحاظ سے تدریجی ترقی وکمالیت تولازمی ہے۔ مگر تردید وتنسیخ محال ہے ۔ چنانچہ یہ معیار کسی مدعی نبوت کی صداقت کی جانچ کو اُس کی تعلیات وخیالات کی مطابقت بہ صحائف مُلہمہ سابقہ پر مبنی ٹھہراتا ہے ۔ واضح ہو کہ عہد جدید کی دیوار عہد ِعتیق کی بُنیاد پر اُٹھائی گئی ہے ۔ اور اس نئے عہد کے قیام کی وجہ خود عہد ِعتیق میں یو ں مرقوم دیکھ وہ دن اتے ہیں خُداوند فرماتا ہے  کہ مَیں اسرائیل کے گھرانے اوریہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔یرمیاہ ۳۱: ۳۱ اورعہد ِعتیق کی آخری کتاب کے آخری باب میں یوں مرقوم ہے ۔ تُم میرے بندے موسیٰ کی شریعت یعنی اُ ن فرائض واحکام کو جو مَیں نے حورب پر تمام بنی اسرائیل کے لئے فرمائے یاد رکھو ۔ملاکی ۴:۴  اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ عہد ِعتیق کے ابتدائی ۔وسطی اورانتہائی صحائف مابعد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آخری صحائف میں توریت کی تنسیخ نہ تردید کی گئی ہو۔ بلکہ آخری کتاب بھی توریت ہی کی طرف رجوع کرواتی ہے ۔ اب عہد جدید کی مطابقت عہد عتیق کے ساتھ ملاحظہ ہو۔ خُداوند مسیح کا قول ۔ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوں کی منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔(متی ۵: ۱۷ : لوقا ۱۶: ۱۶ ) اورایک عالم شرع فریسی کو تمام توریت کاخلاصہ بتا ر کرفرمایا کہ ۔ اِن ہی دو حُکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے کہ (متی ۲۲: ۴۰) عہد عتیق کی تقسیم ثلاثہ کی تائید فرمائی ۔ اوراپنے حق میں اُ ن کی خبروں کا پورا ہونا ثابت کیا۔ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اورنبیوں کے صحیفوں اورزبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں(لوقا ۲۴: ۴۴) مقدس پطرس رسول خُداوند مسیح کو عہدعتیق کے تمام انبیاء کی نبوتوں کا نشانہ ٹھہراتا ہے ۔ اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تُم پر ہونے کو تھا نبوت کی (۱۔ پطرس ۱: ۱۰) مگر جن باتوں کی خُدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خبردی تھی کہ اُس کا مسیح دُکھ اُٹھائے گا وہ اُس نے اس اس طرح پوری کہیں۔ (اعمال ۳: ۱۸؛۲۴؛۷: ۵۲) پس خُداوند مسیح کے اپنے اقوال اور اُس کے رسولوں کی گواہیوں سے یہ حقیقت خوب روشن ہوتی ہے  کہ عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پررکھی گئی ہے  ۔اس لئے ان دونوں میں مطابقت تام ہے ۔ اگر مخالفت و مغائرت ہوتی تو توریت کے انبیاء کی نبوتوں کو عہد جدید کےے واقعات کے ثبوت میں پیش کرنا عبث ہوتا ۔ ہم بزیر عنوان عالمگیر مذہب اس حقیقت کو بدلائل قاطع وبراہین ساطع ثابت کرچکے ہیں۔ پس اگر دونوں کتابوں میں مطابقت دیکھنی ہو تو اُس مضمون پر پھر سے غور فرمالیں۔ انجیل کے بعد اگر اورکوئی نبی کوئی مزید الہامی کتاب لے کر نازل ہو تو اُس کتاب کی تعلیمات وخیالات کی مطابقت انجیل کے ساتھ لازمی امر ہے ۔ انجیل تعلیم دیتی ہے کہ خُدا مجسم ہوا۔ مسیح کا کفارہ حصول نجات کے لئے شرط ہت ۔ مسیح خُدا کا بیٹا ہے خُدا کی واحد ذات میں تین اقانیم ہیں۔ مسیح مصلوب ہوا مرگیا ، تیسرے روز زندہ ہوکر آسمان پر صعود فرماگیا۔ وہی دوبارہ آ کر تمام دُنیا کی عدالت کریگا۔ اورعدالت انجیل کے مطابق ہوگی۔ ختنہ کروانا اورقربانیاں چڑھانا غیر ضروری باتیں ہیں۔ ان کو چھوڑ کر صرف مسیح کی قربانی پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ سوائے مسیح کے کوئی دوسرا نجات وہندہ نہیں۔ یہ ہیں انجیل کی اصولی تعلیمیں ۔ اب اگر انجیل کے بعد کوئی اورنبی برپا ہو اور ان تعلیمات واصولات کا قائل ہوا ور اُنہیں کی تلقین کرے ۔ تو ہم ہزار جان سے اُس پر نثار ہونے کی تیار ہیں۔ اوراگر اُس کی تعلیم اس کے خلاف ہو تو ہم اپنے مذہبی معتقدات کی بنا پر مجبور ہیں کہ اُسے نبی برحق نہ  مانیں بلکہ جھوٹا نبی سمجھیں۔ کیونکہ انجیل کی یہ تاکید ہمیں اجازت نہیں دیتی کہ ہر مدعی نبوت کے قائل ہوجائیں۔ اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ بھی اُس خوشخبری (انجیل ) کے سوا جو ہم نے تمہیں سُنائی کوئی اورخوشخبری تمہیں سُنائے تو ملعون ہو (گلتیوں ۱: ۸)۔

مسیح کا اِقرار

انبیاء عہد ِعتیق اِس شرط کے ماتحت نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ مسیح کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے ہوئے ہیں۔ لیکن مسیح کے بعد جو بھی کوئی رسالت یا نبوت کا دعویدا ر ہوکر اُٹھے اُس کی پہچان کا یہ حقیقی اورصحیح معیار ہے کہ وہ خُداوند مسیح کا اقرار زبان اورعمل دونوں سے کر ے ۔اَے عزیزو ہر ایک روح کا یقین نہ کرو۔ بلکہ روحوں کو آزماو کہ وہ خُدا کی رُوح کو تم اس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے ۔وہ خُدا کی طرف سے ہے ۔ اورجو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خُدا کی طرف سے نہیں۔ اوریہی مخالف ِمسیح کی رُوح ہے (۱۔ یوحنا ۴: ۱-۳) پس مَیں جتانا ہوں کہ جو کوئی خُدا کی رُوح کی ہدایت سے بولتا ہے ۔و ہ نہیں کہتا کہ یسوع ملعون ہے ۔ اورنہ ہی کوئی روح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے (۱۔ کرنتھیوں ۱۲: ۳) مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی نے اپنی عمر عزیز مسیح کو ملعون ثابت کرنے کی کوشش میں ضائع کی مگر ناکام ہی رہے ۔ اور قنوطیت ویاسبت کی حالت میں اس عالم آب وگل سے بصد حسرت چل دِئے ۔ انجیل اُس پر اور اُس کے ہم خیالوں پر لعنت کاحکم لگاتی ہے ۔ پس اگر کوئی تمہارے پاس آئے اور یہ تعلیم نہ دے تو نہ اُسے گھر میں آنے دو اورنہ سلام کرو۔(۲۔ یوحنا ۱: ۱۰) جس طرح عہد ِعتیق کے انبیاء اپنے الہامی پیغام کو ہمیشہ خُدا سے منسوب کرتے ہیں۔ اُسی طرح عہد ِجدید کے رسول اپنے الہام وکلام کو خُداوند مسیح سے منسوب کرتے ہیں ۔(گلتیوں ۱: ۱۱- ۱۲؛افسیوں ۱:۱ وغیرہ ) اورانجیل کے بعد جو بھی کو ئی نبی اُٹھے ضروری ہے کہ وہ مسیح کا اقرار کرے اوراپنے کلام کو مسیح سے منسوب کرے ۔ ورنہ اُس کی نبوت بے ثبوت ۔ ناقابل قبول و فضول سے منسوب کرے ۔ ورنہ اُس کی نبوت بے ثبوت ۔ناقابل قبول و فضول اورتمام ماقبل وماسبق صحائف کے استقرائی اصولوں کے خلاف ہوکر باطل ٹھہرے گی۔

یہ امر مخفی نہ رہے کہ مندرجہ بالا پانچ شرائط کا ہر نبی میں موجود ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ بعض انبیاء میں دو۔ بعض میں چار ۔ اوربعض میں پانچوں بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً پولوس رسول نے معجزات دکھائے پیشین گوئیاں کیں۔ نیک سیرت تھا ۔ اُس کا کلام باقی تمام صحائف مطہرہ سے مطابقت تام رکھتا ہے ۔ اوراُس نے زبان اورعمل سے مسیح کا اقرار کیا۔ یادر رہے کہ تمام نیک سیرت نبی نہیں بلکہ تمام نبی نیک سیرت ہوتے ہیں۔ اوراس نیک سیرتی سے مُراد معصومیت تام نہیں ۔ اورتمام جو مسیح کا اقرار کرتے ہیں رسول نہیں پر تمام رسول مسیح کا اقرار کرتے ہیں۔ اورپانچویں وآخری شرط صرف مسیح کے رسولوں کے لئے لازمی ہے ۔ عہد ِعتیق کے انبیاء اس سے آزاد ہیں۔ اگر اب بھی کوئی بائبل کی صحت پر شک کرے اورہمارے دعویٰ کی مزید تحقیق کرنا چاہئے تو مسیحیوں کے کُتب خانے اورلائبریریاں اُن کی تسلی کے لئے ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ اورمسیحی علماء نے صحت صحائف مطہر ہ کے باب میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ مندرجہ ذیل مشہور کتابیں اس موضوع پرزیادہ روشنی ڈالتی ہیں۔ ہماری بائبل ومسلم علماء میزان الحق '' کلام ِحق '' اورتصحیف التحریف '' وغیرہ ۔


۱. مرزائت کی مزید تفصیل ضروری ہے۔