عیسائیت

Christianity
Early Sunrise

 

مسیحی مذہب کی ترقی

 

 


The Growth of Christianity

 

 

Published in Nur-i-Afshan March 12, 1897


 

مسیحی مذہب کی عجیب و غریب کامیابی ایک ایسا امر ہے کہ ہر سمجھ دار اور تعلیم یافتہ شخص کی توجہ طلب کرتا ہے۔ ہماری دانست میں یہ کامیابی اُس کے منجانب اللہ ہونیکا ایک بھاری ثبوت ہے۔ ہم مانتےہیں کہ اُسکی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اور دلائل بھی چائیں کیونکہدنیا میں اور بہت سے مذاہب مثل رومی بت پر ستی اور بدُھ مت اور اسلام کے پائے جاتے ہین جن کو ایک درجہ تک کامیابی حاصل ہوئی لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اُن کی کامیابی کے اسباب و وسائل مسیحی مذہب کی کامیابی کے اسباب و وسائل سے دگرگوں تھے۔ جس طرح اور باتونمیں مسیح کا مذہب بے مثل اور بے نظیر دکھائی دیتا ہے اُسی طرح اِس امر میں بھی لاثانی نظر آتا ہے۔ جس شاہانہ رفتار سے وہ اپنا قدم اگے کی طرف اُٹھاتا چلا آیا ہے۔ جس قدرت سے اُس نے اُن دیواروں کو ڈھایا ہے جو اُس کے سامنے سدراہ تھیں۔ جس صبر اور برداشت سے اُس نے مخالفوں کے حملوں کو سہا اور اپنے روحانی اثر سے فتح پر فتح حاصل کی ہے اُس سے اگر کچھ ظاہر ہوتا ہے تو یہ ہوتا ہے۔ کہ اُس کی اصل خدا سے ہے۔ ہم اِس آرٹیکل میں چند باتیں اِس کامیابی کے متعلق تحریر کرتے ہیں۔ جو ہماری دانست میں مسیحی مذہب کی سچائی کو بخوبی ثابت کرتی ہیں۔

( ۱)اوّل اُس کا قدیم زمانہ کی حالت کو بالکل بدل ڈالنا اور بڑی سرعت اور کامیابی کے ساتھ اُس زمانہ کی دنیا میں پھیل جانا اُس کے منجانب اللہ ہونی کی دلیل ہے۔ کئی باتیں اسکے متعلّق پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اِس جگہ ہم صرف اُس زمانہ کی بُت پرستی کا تھوڑا سا حال تحریر کریں گے۔ دریائے فراط کے کناروں سے ملک برطانیہ تک اور نیل سے جرمنی تک بت پرستی کا بازار گرم تھا۔ بحیرہ میڈیٹرینین کے گردنواح کی دنیا میں اِسی ملکہ کا راج تھا۔ لیکن مسیحی مذہب نے اپنے زور آور یعنی اپنی تسلی بخش تعلیمات کے اثر سے روم اور یونان اور اسور اور مصر اور شمالی افریقہ کی بُت پرستی کو ایسا گرایا کہ اب تا قیامت اُس کے پھر اُٹھنے کی اُمید نہیں۔ وہی ڈائناؔ دیوی جس کی غیرت اور ہوا حولکہ ہی سے کسی زمانہ میں شہروں کے شہر اگ بگولا ہو جاتے تھے اج ایسی معدوم پو گئی ہے کہ اگر تمام دنیا میں ڈھونڈو تو اُسکا ایک پجاری بھی ملیگا۔ اِسی طرح ڈروایڈیکلؔ اور ٹیوٹانکؔ بت پرستی کا نام و نشان تک جاتا رہا۔ بعضؔ اور رواجونؔ۔ ایسؔ اور سراپسؔ ۔ تھوؔر اور ووڈنؔ جیسے دیوتا جن کے سامنے پشتیں خم ہوتی تھیں اور سر تسلیم جُھکائے جاتے تھےخاک میں مِل گئے۔ اور اب اگر کسی جگہ اُن کی یاد باقی ہے تو کاغذی دنیا میں ہے۔ عاِلم محسوسات میں نہ اُن کا کوئی مندر ہے نہ کوئی خانقاہ نہ کوئی اُن کا پجاری ہے اور نہ کوئی معتکف ۔ یہی حال آپاؔلو اور وینس ؔ اورمنرواؔ اور ہر کلیزؔ کا بھی ہوا۔ جس طرح اج افریقہ اور ہند کے باشندے۔ اپنے بدئیت اور بے حس و حرکت دیوتاؤں کے سامنے گر کر سجدہ کرتے ہیں اُسی طرح کسی زمانہ میں لوگ اُن کے سامنے بھی سجدہ کرتے تھے۔ لیکن اب صدیاں گزر گئیں کوئی اُن کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ چنانچہ اب زمینداروں کو لائرؔ کے سامنے قربانیاں چڑھانےکی ضرورت نہیں۔ اور ملاحوں کو پنچوں سے شگون لینے اور سپاہیوں کو ماؔرس کے ہاں ہار چڑھانے کی حاجت نہیں۔ مسیحی مزہب کی روشنی نے زود اعتقادیوں کی تاریکی کو دور کردیا۔ اور ہندوستان کا پیارے ناظرین کیا حال ہے؟ اگرچہ ابھی ہند کی بُت پرستی کی بیخکنی پورے درجہ تک نہیں ہوئی۔ اگرچہ ابھی جگناتھ اور ہر دور میں جان باقی ہے۔ تاہم یہ سوال پوچھنے کے لائق ہے کہ بُت پرستی کی طرف جو نفرت آج ہندؤں میں پائی جاتی ہے اور روز بروز بڑھتی جاتی ہے اس کا کیا سبب ہے؟ کیا پچاس برس سے پہلے وہی وید نہ تھے جو آج ہیں۔ کیا سنسکرت زبان کی وہی تفسیریں اور ڈکشنریاں نہ تھی جواب موجود ہیں ۔ پھر کیا سبب ہے کہ اِ س صدی کے شروع میں یا اُس سے پیشتر کوئ دیانند سرُستی پیدا نہ ہوا اور نہ کوئی کیشب چندر سین اُٹھا۔ محمدی مذہب جو خدا کی وحدت کا ایسا غیر تمدن ہے کہ شرک کا نام ایا اور وہ تائرہ غضب سے سوزاں ہوا وہ بھی جب پراوی ڈنس (Providence) نے تلوار اُس کے ہاتھ سے چھین لی اس امر مین قاصر نکلا کہ ہندوؤں میں دو تین ایسے مصلح پیدا کر دے جو بت پرست کو جڑ سے دور کر دیں۔ مگر مسیحی مذہب کی منادی جو دنیا کی نظر میں ایک بیوقوفی سی ہے ہندوستان کی بُت پرستی کی بنیاد کو بلا رہی ہے اور کس دن اِس عمارت کو بالکل مسمار کر دیگی۔ مسیح کا مزہب ہمیشہ اور اپنی ہر منزل میں ایسا کرتا چلا آیا ہے۔ تلوار سے نہیں بلکہ مبشروں کی بشارت اور مصنّفوں کی تصنیفوں اور شہیدوں کے خون سے +

رومی بُت پرستی کے اُٹھ جانے کی نسبت ہم کہ نہیں سکتے ( جس طرح کہ بعض مخالفوں نے کہا ہے) کہ جب لوگوں نے اُس میں کچھ تسلّی نہ پائی تو آخر تھک کر اُسے خود بخود چھوڑ دیا۔ ہماری دانست میں یہ تفسیر درست نہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جو بُت پرست اقوام مذکورہ الصدر حدود کے اندر بستی ےتھیں۔ وہ تو اُس قدیم زمانہ میں بُت پرستی کو اِسلئے چھوڑ دیں کہ اُس میں کچھ تسلّی نہیں پائی جاتی مگر ہند اور جاپان اور چین کی قومیں اٹھارہ سو برس آگے نکل کر اور اِس طول طویل عرصہ کی تہذیب اور فلسفی کی روشنی رکھکر بھی بُت پرستی کے چھوڑنے کا خود بخود وہ فیصلہ نہ کر سکیں جو اُن قوموں نے اُس وقت کیا نہیں یہ کہنا کہ اُن لوگوں نے خودبخود بت پرستی کو چھوڑ دیا صحیح نہیں کیونکہ ما سوائے ملکی امور میں فتور پیدا ہونے اور شخصی فوائد اور منافعوں میں نقصان آنے کے کطرےکے اس تبدیلی کے راستے میں ایک بڑی بھاری روک یہ تھیکہ ہر کس و ناکس اور ہر کہہ یہ بُت پرستی کا عادی ہو گیا تھا۔تمام قوم کے رگ و ریشہ میں بت پرستی خون کی طرح جوش مارتی تھی۔ وہ اُن کے خمیر میں تھی۔ لوگوں کے فیصلہ سے وہ دور نہیں ہو سکتی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ آخری دم تک مسیحی مذہب کامقابلہ کرتی رہی۔ چنانچہ ہم چوتھی صدی میں دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو شہنشاہ جولین بُت پرستی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں لگا ہے اور دوسری طرف سِرل اُس کی مخالفت میں دلائل پیش کر رہا ہے۔ بلکہ اگسٹین کے زمانہ میں بھی کہ جسے مسیحی مزہب کی فتح کا زمانہ سمجھنا چاہئے بُت پرستی اپنا آخری وار کرنے سے باز نہ رہی۔ چنانچہ ہم اُس زمانہ کے لوگوں کو یہ کہتے سنتے کہ اگر دیوی دیوتا کی پوجا پاٹ جیسی چاہئے تھی ویسی کیجاتی تو شاید قوم گاتھ روم کامحاصرہ نہ کر سکتی۔ نہیں بُت پرستی کے دور ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگوں اُس کے چھوڑنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ اب اُس کو ایک ایسے زبردست مخالف کا مقابلہ آپڑا تھا جس کے سامنے وہ مدت تک ٹھہرنے کی تاب و تواں نہ رکھی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو فتح مسیحی مذہب ے اِس قدیم زمانہ کی بُت پرستی پر پانی اُس کے برابر وہ فتح بھی نہ ہوگی جو وہ ہند اور چین اور جاپان کی بُت پرستی پر پائیگا۔ کیونکہ یہ قومیں دنیا کی قوموں کی پشیر اور رہنما نہیں۔ مگر اہل روم اپنے زمانہ کی دنیا کے مالک تھے۔ قلمر وردم میں بُت پرستی کے سکے کو بے رواج کرنا ایک کاص قدرت کا کام تھا۔ اب یہ قدرت کس کی تھی۔ انسان کی یا خدا کی؟ دنیا کی تواریخ میں کوئی ایسی کامل اور دائمی فتح نظر اتی ہے؟ 

( ۲) دوسری بات ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ باطنی ؔ انسان کے تبدیل کرنے میں جو کامیابی مسیحی مذہب کو حاصل ہوئی وہ بھی اس کی صداقت پر دال ہے۔ یہ تبدیلی بھی مسیحی مذہب ہمیشہ اور ہر جگہ پیدا کرتا آیا ہے۔ مگر اس بات کی رونق اور جلال زیادہ خوبصورتی سے اُس زمانہ پر نظر کرنے سے معلوم ہو گا جب کہ یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کامیابی کے اسباب زرا بھی میّسر نہ تھے۔ اُسوقت دشمن اُس کو ایک مکروہ عقیدہ سمجھ کر اُس کی بیخ و بُن کاٹنے کے درپے تھے مگر وہ اپنا اثر غائب ہاتھ سے انسانی دل پر جما رہا تھا جو انسانی زندگی اور خصلت میں نمودار ہونےلگا۔ ہم اِس کی نظریں نئے عہد نامہ میں سے پیش کر سکتے ہیں جہاں اعلیٰ درجہ کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی تعمیل کے ساتھ پہلو بہ پہلو کھڑی نظر آتی ہے۔ مگر ہم اس موقعہ پر رسولی زمانہ کی بعد کی تصنیفات سے چند مقامات اقتباس کر کے دکھائینگے کہ شروع ہی سے مسیح اور مسیح کی تعلیم اِنسانی دل کے تبدیل کرنے میں اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔

پہلے ہم جسٹن شہید کی کتاب۔ اپالوجی ؔاوّل سے کچھ بیان نقل کرتے ہیں۔ جسٹن قوم کا یونانی مگر رہنےوالا ملک فلسطین کا تھا۔ یونانی علوم و فلاسفی میں کامل مہارت اور دستگاہ رکھتا تھا۔ مسیحی ہونے کے بعد سن۱۳۹ء میں اُس نے کتاب مذکورہ بالا اِس غرض سے تصنیف کی کہ اُس کے وسیلے سے شہنشاہ انٹونیؔ مائپس اور اُسکے بیٹوں کو مسیحی مذہب کی طرف رجوع کرے۔ ایک جگہ وہ اِس کتاب میں مسیحی مزہب کے اخلاق اور روحانی پھلوں کا اِس طرح بیاں کرتے ہیں۔

قبل جسٹن شہید کا بیان کرنے کے ہم ایک مشکل کو رفع کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شاید کوئی اِن قدیم عیسائیونکی شہادتوں کو بڑھکر یہ کہے کہ یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے۔ شاہد تو تمہارے عیسائی ہیں وہ بھلا کب اپنے مذہب کو بُرا کہنے لگے تھے۔ ہم اِس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ جسٹن و غیرہ مسیحوؐ کی کتابیں شہنشاہوں کے لئے لکھی گئی تھیں اور ایسے زمانہ میں جبکہ ایزارسانی کا بازار گرم تھا اور مسیحیوں پر پیغمبری وقت آپڑا تھا۔ اگر وہ دعاوی جواِن کتابوں میں درج ہیں بال برابر بھی سچائی کے اِدھر اُدھر ہوتے تو قیامت بپا ہوجاتی۔ بھلا یہ مظلوم کس طرح چھوٹ منہ رکھ کر بڑی بات بول سکتے تھے۔کچھ تو تریاق اِن کے پاس ہو گا جو خوانخواہ اژدہے کہ منہ میں انگلی ڈالتے ہیں۔ آگ سے بھرے ہوئے شہنشاہوں کو چھیڑ کر آتش غضب کے شعلہ کو اور بھی دوبالا کرتے ہیں ۔ نہین جو کچھ وہ کہتے ہیں سو واقعی صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ جب تلوار گردن پر رکھی جاتی ہے تب قوت واہمہ بچّے جننا چھوڑ دیتی ہے۔ اور جھوٹے اور من گھڑت خیالات بند ہو جاتے ہیں۔ اب ہم جسٹن صاحب کی گواہی پیش کرتے ہیں۔وہوہذا۔

جب کلام کے اثر نے ہمکو مؤثر کیا۔ تو ہمنے تاریکی کی قوتوں ( شیطانی تاثیرات) کو سلام کیا اور اب ہم ازلی اور ابدی خدا کی بوسیلہ اُسکے بیٹے کے پیروی کرتے ہیں۔ ہم جو پہلے بدکاری سے خطا اٹھاتے تھے اب پر ہیزگاری کے لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہم جو پہلے جادو گری کے فعلوں میں مصروف تھے اب خدائے حیی القیوم کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف و مخصوص کرتے ہیں۔ ہم جو پیشتر تجارت اور مکانوں اور زمینوں کی امدنی اور سود پر جان دیتے تھے اب جو کچھہمارے پاس ہے اُسکو ایک جگے جمع کر کے محتاجوں کو اُس میں سے دیتے ہیں۔ ہم جو ایک دوسرے سے نفرت رکھتے تھے اور آپس کے جھگڑے اور فساد سے خون بہاتے تھے۔ اور پابندی دستورات کی وجہ سے ایک جگہ باہم بیٹھ کر آگ تانپنے تک کو عار سمجھتے تھے۔ اب مسیح کے نام میں ایک دستر خوان پر بیٹھ کر ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوتے ہیں ۔ ہم اپنے دشمنوں کے لئے دعا مانگتے ہیں۔ اُن کو جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں مسیح کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مسیح کے جلالی احکام کے مطابق زندگی بسر کریں اور رب العالمین سے جزائے خیر کی اُمید میں ہمارے ساتھ شرکت پیدا کریں۔“

ایک اور جگہ جسٹن صاحب مسیح کے الفاظ ” تمہاری روشنی ۔۔۔۔۔۔ ایسی چمکے وغیرہ“ کی نسبت یوں فرماتے ہیں۔ ” مقابلہ ہمیں زیب نہیں دیتا ۔ کیونکہ اُس نے ( یسوع نے) اپنی مرضی ہم پر اِس طرح کی ہے کہ تم شریروں کی تقلید نہ کرو۔ بلکہ صبر و حلم سے اُن سب کو جو برُی خواہشوں میں مبتلا ہیں چھڑانے کی کوشش کرو۔ اور ہم اِس بات کی کئی نظریں اُن اشخاص میں سے جو پہلے تمہارےدرمیان رہتے ہیں پیش کر سکتے ہیں اور ثابت کر سکتے کہ کس طرح اُن کی سخت دلی اور بد مزاجی مسیحیوں کے نمونہ کو دیکھ کر بدل گئی ۔ ہاں جب اُنہوں نے دیکھا کہ مسیحی اپنے مزاج پر ایسا قابو رکھتے ہیں کہ لوگ اُنکو دھوکا دیتے۔ اور لینے دینے میں معاملہ داری کے قواعد سے تجاوز کر جاتے ہیں تاہم مسیحی برُد باری اور برداشت سے کام لیتے ہیں تو ان کے مزاج اور طبیعت اِس نمونہ سے بالکل بدل گئے“۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ” جو لوگ مسیح کے حکم کے مطابق زندگی نہیں بسر کرتے اُن کو مسیحی مت سمجھو۔ خواہ زبان سے وہ ہزار اقرار کریں۔ ہم اُن لوگوں کو جن کے لب مسیحی ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور اُن کی زندگی اِس اقرار کے مطابق نہیں تمہارے حوالہ کرتے ہیں جیسا چاہو ویسا اُن کے ساتھ سلوک کرو۔“

اِسی طرح کی شہادت ایک خط سے ملتی ہے جس کا نام ڈایوکتِس کا خط ہے۔یہخط دوسری صدی کے شروع میں تصنیف ہوا۔ مسیحی زندگی کی جو تصویر اس خط میں پائی جاتی ہے وہ ایسی نئی تازہ معلوم ہوتی ہے کہ گویا کل ہی مصورکے ہاتھ سے نکلی ہے۔ مصُنّف اِس کا بیان کرتا ہے۔ غیر ملک اُن کے ( مسیحیوں کے) نزدیک اپنے گھر کی طرح ہے اور اپنا گھر مثل پردیس کے۔ وہ جسم میں ہیں مگر جسم کی خواہشوں کے غلام نہیں۔ وہ دُنیا میں رہتے ہیں مگر مملکت اُنکی آسمان پر ہے۔ وہ سرکاری قوانین کے پابند ہیں۔ مگر اپنے چال چلن میں اُن سے کہیں سبقت لیجاتے ہیں وہ سب کو پیار کرتے ہیں مگرسبھی ان کو ستاتے ہیں۔ لوگ اُن کو مارتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ جی اٹھتے ہیں۔ وہ مفنس ہیں پربہتونکو دولتمند بناتے ہیں۔ سب چیزوں کے محتاج ہین اور سبھی چیزیں بہتات سے رکھتے ہیں۔ اُنکی بیحرمتی کیجاتی ہے پر وہ اپنی بیحرمتی میں جلال پاتے ہیں۔ لوگ اُنکو بُرا بھلاکہتے لیکن وہ راست باز ٹھہرتے ہیں ۔ لوگ انکو گالیاں دیتے اور وہ اُنکے لئے برکت کے مستدعی ہیں۔ لوگ اُنکو حقیر جانتے ہیں مگر وہ اُنکی عزت کرتے ہیں۔ وہ نیکی کرتے ہیں اور لوگ اُنکو بدکار سمجھ کر سزا دیتے ہیں پر وہ سزا پا کر بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی اِسی تکلیف میں ہے۔ یہودی اُن کو اپنا دشمن سمجھ کر اُن کے برخلاف لڑائی برپا کرتے ہیں اور یونانی بے انصافی سے اُن کو دُکھ دیتے ہیں اور اگر اِس ساری مخالفت کا سبب پوچھا جائے تو مخالفوں کے منہ بند ہیں اور کوئی سبب نہیں بتلا سکتے۔“   

Tulip Flowers

مسیحی مذہب کی عالمگیر تاثیرات

Christian universal effects

Published in Nur-i-Afshan March 05, 1897

ڈاکڑ بیروز صاحب یہ بات ثابت کر کے کہ کسی مذہب کا اندازہ اس کی کئی اعلیٰ تعلیمات ہی پر مبنی نہین ہے۔ مندرجہ بالا عنوان مضمون میں مطلع کرتا ہے کہ برعکس اِس کے کسی مذہب پر صرف اُن کی غلطیوں اور نقصوں سے بھی اپنی رائے قائم کرنے کی غکطی میں نہ پڑ جانا چاہئے۔ پس اِس ثبوت سے ہم ڈاکڑ بیروز صاحب کا یہ مضمون ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ ( اڈیٹر)

لیکن اور بھی احتیاطوں کی ضرورت ہے۔ ایک ہی ہے کہ کسی مذہب پر صرف اُس کی غلطیوں اور نقصوں سے رائے قائم کرنی نہ چاہئے خواہ ہندو مذہب ہو یا بدُھ خواہ محمدی مذہب ہو یا ادنیٰ قسم کی بُت پرستی۔

ضرورت نہین ہے کہ آپ کو بتلایا جاوے کہ یہ سب برُائیاں مسیحی مذہب کے بنیادی قانون کی آئین شکنیاں ہیں یعنے اُس قانون محبتّ کی ہو خدا اور انسان کی طرف ہے۔

ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسیح خود اپنی زندگی اور روح اور تعلیم میں ہمارے ایمان کا خلاصہ ہے۔ وہ ہم کو خدا کے باپ ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور اُس کو ایک حقیقت ثابت کرتا ہے۔ وہ ہم کو خدا کے روح ہونےکی تعلیم دیتا ہے اور ہم کو محض ظاہر پرستی سے چھٹکارا دیتا ہے۔ وہ ہم تک خدا کی صداقت کی تعلیم پہنچاتا ہے اور ہم کو منع کرتا ہے کہ بدی کو دل میں جگہ دیں۔ وہ اپنی زندگی سے محّبت کی فوقیت سکھلاتا ہے اور خود نثاری کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ 

اگر مسیحی مذہب کے نقطہ چین اناجیل کی لیاقت اور اُس کے اخلاقی اصولوں پر غور کریں تو وہ زیادہ صحیح خیال کریں گے۔ کیمیا گر جو کہ زہریلی ہوا میں تجّس کرے اغلباً صاف ہوا کی خاصیتوں کو نہ معلوم کرے گا۔ فرض کرو کہ سائنس کا کوئی نیم حکیم زیل کے تجربہ حاصل کرے۔ وہ شام کولمپ کے پاس بیٹھا ہے اور ہوا کا ایک جھونکا لمپ کو بجھا دیتا ہے تب وہ بازار میں پھرتا ہے اور ٹھنڈی ہوا اُس کو ٹھٹھراتی ہے۔ پھر وہ ایک پہاڑ ہر چڑہتا ہے اور لطیف ہوا اُس کی دم کشی کو مشکل کر دیتی ہے۔ وہ سمندر پر عبور کرتا ہے ایک سخت طوفانی ہوا جہاز کو خطرہ میں ڈالدیتی ہے ۔ وہ انگلستان کے ایک کوئلہ کی کان مین اُترتا ہے وہاں کی زہریلی ہوا اُس کی جان کو خطرہ میں ڈالتی ہے وہ روم شہر کے کمپینا میدان میں گزر کرتا ہے ایک مہلک ہوا اُس کے زور کو گھٹا دیتی ہے۔ وہ کوہِ وسویس کے اندر جھانکتا ہے تو گندھکی ہوا کا ایک جھونکا قریباً اُس کے دم کو گھونٹدیتا ہے۔ اُس کے بعد وہ اپنے گھر کو واپس جاتا ہے اور ہوا میں اپنے پرُ تکلیف تجربوں کو سوچ کر کے وہ عوام کے سامنے علانیہ اپنے یقینکو کہ سناتا ہے کہ ہوا دنیا کے لئے بڑی لعنتہے۔ اِس بات کو بیوقوف سنتے ہین اور اُس کو آفرین کہتے ہیں اور بھول جاتے ہین کہ معلوم شدہ زمانہ کے آغاز سے انسان اِس فراخ ہوائی سمندر میں حرکت کرتا اور رہتا چلا آیا ہے اور بغیر اُس کے تمام زندگی مر جاتی ہے۔ موت زندہ ہو جاتی ہے۔ مذہب وہ فضا ہے جس میں انسان زندہ رہتا ہے اور بجائے اِس کے کہ ہم اِس کو چھوڑ دیں ہم اچھی طرح برداشت کر سکتے ہیں فقیہ کی لطیف ہوا اور تعصب کے سرد دانت اور نیز بے رحم وہم کے مضّر نجارات کی۔

میں اِس محبت کو پیش کرتا ہوں اور اِن کیفیتوں کونہ صرف مسیحی مذہب کے حق میں پیش کرتا ہوں بلکہ اوّل مذاہب کے حق میں بھی جو مسیحی مزہب سے باہر ہیں۔ ڈاکڑ مارٹن نے شہر پیکنگمیں امپیریل یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ ہیں تھوڑے دن گزرےیوں لکھا ہے۔ ” غیر مسیحی دنیا کے سخت منجمد منطقوں بھی گرم ہوا کی لہریں سورج کی طرف اٹھتی ہیں اور مسیحی ملکوں میں زیادہ روحانی مین کیا سرد لہریں ہیں جو اُس سے یعنے خدا سے دور ہوتی ہیں۔ “ اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں ۔ ” یہ خیال کرنا غلطی ہے کہ روح القدس اپنے عملوں کو صرف مسیحی صورتوں میں کرتی ہے۔ غیر مسیحی ملکوں میں اُسکی حضوری اُس برتی رقیق کی مانند ہے جو کہ فضا میں ہوتا ہے۔ حالانکہ مسیحی ملُکوں میں یہ اُن مایہ کی مانند ہے جو کہ تاروں کے جالے میں دورہ کرتا ہے۔ اوراُن کے چھونے کا جواب روشنی۔حرارت اورطاقت پیدا کرنے سےجلتی ہے۔

ایک مذہب کو بخوبی جاننے کےلئے ضروری ہےکہ اُس کی بنیادی باتوں اور عملی طاقتوں اور نیز اُن نتیجوں کو معلوم کرے جو اُس کے متعلق ہوں۔ یہ بھی ضرور ہے کہ ہم معلوم کریں کہ اُس کے جائیز پھل اور اُس دین کی تواریخی ترقی کے کون کون سے حادثات ہیں۔ دیگر اِسباب بھی مذہب کے ساتھ ملکر کام کیا کرتے ہیں اُن کی طاقت کا بھی اندازہ کرنا چاہئے۔ ہم اِس بات سے نہیں ڈرتے ہیں کہ مسیحی مذہب کا کسی اور مذہب کے ساتھ مقابلہ کیا جاوے آزمائیشوں کے کسی سلسلے کے زریعے جو ہم کو صداقت کے نکالنے میں مدد دے سکے۔ اِن ازمائیشوں میں ہر ایک مذہب کی بنیادی اور اخلاقی اور روحانی باتیں شامل ہونی چائیں۔ اور نیز نامکمل اور برُی تعلیمات اگر ایسی ہوں اور ہر ایک کی روحانی طاقتیں جن کے زریعہ سے اُن کے کامل نمونے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور عمدہ نتا ئج جو ہر مذہب دکھا سکتاہے اور وہ باتیں جس کو میں اِس کے کام کے اوسط نتیجے کہونگا زمانہ ٍ حال میں لوگوں کے بڑے گروہ پر یا یوں کہیں ا،س کے اصلی رشتے شایستگی علمی ترقی آزادی اور ترقی عام سے ۔ ا،س طرح سے معلوم ہو گا کہ امتیاز کرنے والیقوت فیصلہ کی ضرورت ہے ایسے بڑے مکمل مضمون کے تحقیق کرنے کے لئے جیسا کہ مسیحی مذہب کے دور دراز اثر ہیں بمقابلہ اثر ہائے دیگر مذاہب۔ 

چونکہ آغاز میں یہایک نفرتی وہم کیا گیا پس قدیم قوموں میں سے نہایت نفرتی اور حقیر قوم کے رہنماؤں نے اس کو حقیر جانا۔ اور یونان کے فلسفہ دان نے اِس سے گھنِ کی۔ اور مغرور جنگی رومیوں کو نقصان دہ معلوم پڑا۔ اِس لئے ہم اِس بات پر مُتحیرّ نہیں ہوتے ہیں کہ مسیحی مذہبکے پہلے شاگردوں پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا اور جب اُن کی فتحیں پھیلتی گئیں اُن کو ستانا اور بھی زیادہ مہلک ہوتا گیا۔ تو بھی باوجود یہودی اصل کے اور باوجود اِس کے بلا شرکت غیری کے ( کیونکہ یہ تب بھی یہ مطلب کرتا تھا جیسا کہ اب طلب کرتا ہے کہ اور سب انتطاموں کو جو نجات کے وسیلے سمجھے جاتے تھے ترک کرے) اور باوجود بت پرستی۔ ناپاکی اوربے انسافی سے اُس کی سخت دشمنی کے ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ یسوع کا مزہب اپنے بہت بُت پرست دشمنوں کی شکور مدح سے مبارک کہا جا کر تاریک مرُدہ خانوں اور تماشا گاہ کے خون آلودہ ریگ سے فتحمند اٹھکر انسانی طاقت۔ شرارت اور دشمنی کے سب سے بڑے مجموعہ پرجسکا کلیسیا کو مقابلہ کرنا پڑا یعنے سلطنت روم پر آخری فتح حاصل کی۔ آخر کار ہم اِس کو اسکول مندر عدالت گاہ لشکر گاہ اور گھر میں فتحمند پاتےہیں۔ رومی بُت پرستی سے مسیحی جنگ و جدل کا بیان پڑھنا اور اِن باتوں کو یاد کرنا انسان کے روحانی ممکنات کے بارے میں ایمان کو تقویت بخشتا ہے کہ نہ تو نیرو اور مارکس آریلسیس اور ڈایو کلیشین اور نہ ٹریجن کے پُر عداوت قوانین اور نہ وہ سب کا میابیاں جو کہ تہمت اور دشمنی حاصل کر سکیں کلیسیا کے شاہانہ گوُ پردرد ترقی کو روک سکے۔ صرف روحانی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اور اپنے سینے کو ہلاک کرنے والے کی برچھی کے سامنے کر کے اُس نے اپنے بادشاہ مسیح کو گواہی دی۔ مورخ یوں لکھتا ہے کہ وہ بخت عزاب کے وقت تھے خاص کر کے دیسمیس کے دو سال اور ڈالو یو کلیشین ے دس سال جب کہ طاقتور رومی سلطنت تماشا گاہ کے دروازوں کو بند کر کے مسیحی کلیسیا کے مقابلہ پر اکھاڑے میں کود پڑی پر جب دروازے کھولے گئے تو فتحمند کلیسیا اپنی مُقدسانہ پیشانی پر کون کا بپتمسہ لیکر اور اپنے خوبصورت سفید بازؤں پر ایک نئی مسیحی سلطنت کو اُٹھائے ہوئے نکل پڑی۔ 

لیکن مسیحی مذہب خمیر اور تخم دونو کا کام دیتا رہا ہے۔ اِس کا کام نہ صرف پھیلانے اور اِس کی بادشاہت کو زمانہ بزمانہ بڑھاتا رہا ہے بلکہ اِس کا کام روحانی اور زور دار رہا ہے۔

جرمنی کی قومیں اُس سلطنت پر حملہ اور ہوئیں اور مسیحی منادّ داور جرمنی کے وحشی لوگ ایک دوسرے کے سامنے ہوئے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ دس صدیوں تک بلکہ اُس سے زیادہ مسیح کی کلیسیا خوفناک طرح سے روم کی خرابیوں کے ساتھ اور نیم شائستہ وحشیوں کی تندیوں میں مبتلا رہی جو کہ اج کے دن کی یورپ کی خاص قوموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ 

ہم مسیحی مذہب کی بہت ہی ٹھیک واقفیت حاصل کرتے ہیں جب ہم اُس کے بنیادی قانوں کو زندگی کا قانون مان لیتے ہیں۔ ہم کو بتلایا گیا ہے کہ بدُھ مذہب کا بنیادی اصول یا بھید یہ تعلیم ہے کہ ہر نیکی کے بعد اور اوپر دل کی وہ بیحوش حالت ہے جو نہ غم کرتا ہے اور نہ خوشی ۔ نہ نفرت کرتا ہے اور نہ محبّت۔

”ہر ایک شخص کے واسطے اپنی ہی غیر فانیت کی کوئی امید نہیں ہے۔ “ آخر کار اُس کو جزب ہو جانا ہے“۔ اور سزا آخرکار دونو ختم ہو جائینگی“ یہ ان کا قول ہے۔ لیکن جب تک انسان نیکی کرتے جاویں وے جزا کے مستحق رہتے ہیں جیسا کہ وے سزا کے سزا وار رہتے ہیں جب تک وے بدی کرتے ہیں۔ ” تمام قسم کے کاموں سے چھٹکارا حاسل کرنا چاہئے۔ انسان کی اعلیٰ ھالت دھیان میں متغرق حالت ہےجس میں کوئی کام نہیں کیا جاتا“۔ لیکن مسیحی مذہب جو انسان اور سوسائیٹی کے مہیب کام اختیار کرتاہے اور جو اور تمام مذاہب کو اپنے پرُ یقین دعوون کے سبب تاریکی میں ڈالدیتا ہے سب سے بڑھکر بھرپور زندگی اور آلہی قوت کا مذہب ہے۔ جیسا کہ امریکہ کے ایک عالم نے جوکہ مدّت تک جاپان میں رہا یوں ساف طرح کہا۔ ” بدُھ مذہب جبکہ دنیا کے گناہ اور قابل اِمکان ترقی کے مشکل سوال کے سامنے کیا جات ہے تو اِس کی ٹال دیتا ہے۔ شروع ہی میں دعویٰ بے دلیل کرتا ہے۔ اور ہستی سے بچنے کے لئے دعا کرتا ہے اور یہ کہ ہم کو زندگی سے بچا اور جہاں تک ممکن ہو اِس کا بہت تھوڑا حصّہ ہم کو ملے۔ پر مسیحی مذہب اِس سوال کا سامنا کرتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹنا۔ بلکہ حکم دیتا ہے کہ کوشش کے برابر خط کے ساتھ پڑھتے جاؤ اور دعایوں کرتا ہے کہ ہمکو بدی سے بچا ۔ اور ہمیشہ خوش امید میں رہتا ہے کیونکہ اِس کا سردار اور رہنما یوں کہتا ہے۔ میں دنیا پر غالب آیا ہوں ۔ جاؤ اس کو میرے لئے جیتو۔ میں آیا ہوں تاکہ وے زندگی پاویں اور تاکہ وے اِس کو بکثرت حاحل کریں۔

لوگ ترقی کے آغاز کو اور اُس طاقت کو جس سے ترقی صورت پکڑتی ہے بھول جاتے ہین جبکہ تسکین کے ساتھ انیسیویں صدی کی بابت گفتگو کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بڑے مربیّ یعنے زمانہ جدید کی شائستگی پر نظر کرو اور مسیحی مذہب کے پھلوں کی بابت بڑائی کرنے سے باز آؤ۔ لیکن چین کے وسط میں جاؤ جہانکہ انجیل اب تک نہیں پہنچی ہے۔ وہاں پر انیسویں صدی نہین ہے۔ وہاں پر لوگ اب تک مسیح کے پیشتر کی پانچویں صدی میں رہتے ہیں۔ کہاں ہے انیسویں صدی اُن فرقوں میں جو کہ افریقہ کے تیز سورج کے تلے رہتے سہتے ہیں۔ یا بڑے لامہ کے لوگوں میں جو کہ تبّت کے سطح مرتفع پر رہتے ہیں۔ اگر آزادی کی ترقی کی بابت کہو تو اُس کی ترقی کا سلسلہ ٹھیک اُس سے آتا ہے جس نے تعلیم دی کہ کُل ادم بھائی ہیں اور خدا باپ ہے۔ رومی سلطنت میں اُسی کے کلام نے غلامی کی موت کا ڈنکا بجایا۔ جس طرح تخموں نے کالیسیم میں اور اینٹوں کے بیج اُگی ہوئی سبزی نے قیصروں کے محل میں پرُانی بنیاد کو خراب کر دیا اور الٹ دیا۔ اِسی طرح اُس تخم نے جس کو یسوع نے بکھرایا گزشتہ زمانہ کے بہت سے زلیلکرنے والے ظالموں کو برباد کر دیا اور الٹ دیا ہے۔ زمینداری بشرط شرکت کا دستور جاتا رہا ہے۔ بائبل چھٹکارا کا باعث ہوا ہے۔ اِس کے تخم جو کہ وکلف۔ ہس۔ لوتھر اور جنیوا کے دینی اصلاح کنند گان کے دلوں اور سکاٹ لینڈ اور انگلستان کے پیورٹین فرقہ کے روحوں میں تھا اُن درختوں سے بہایا گیا تھا جن کے تلے یسوع نے کوہ زیتوں جے اطرافوں پر تعلیم دی۔ مسیحی مذہب کی فتحیابیوں کا ایک باب بتلاویگا کس طرح آزاد گیوں کے بڑہاؤ کا پتہ عین خدا کے کلام سے پا سکتے ہیں۔ جنیوا کے بڑے علم آلہئ دان جان کیلون سے لیکر حال کی صدی کے اخلاق رہنماؤں تک یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ غلاموں کی آزادی کے خاص خاص شجاع اور غلامی کے برخلاف اصلاح کنندوں میں نہایت رسوخ والے ایسے آدمی تھے جنہوں نے بائبل کو اپنی ابرؤں پر باندھا۔ مسیحی روح کا شکر ہے کہ آج کے دن غلامی تمام دنیا پر مر گئی ہے یا مرری ہے۔ وہ حرکت جس نے شائستہ قومونکو آزادی اور کود انتظامی کی روح یاقوت دی آخر اُس نے ہماری جنس کے ادنیٰ تک پہنچتا تھا۔ مسیحی مذہب تحریک پھیلاؤ اوربڑاہا ڈکو ترقی بخشتا ہے۔ مصر سدوم اور ایران کا جرمنی انگلستان اور اضلاح متحد سے مقابلہ کرو۔ مسیحی مذہب لوگوں کو پُر ظلم سلطنت میں بھی آزادی کے لئے تیار کرتا ہے اور چند روزہ روکا وٹوں میں بھی آزادی اور ترقی کے لئے تیار کرنا ہے۔ اِس کی روح ایسی زندہ اور غلامی سے آزادی بخش ہے جب کہ مسیحی صداقت کا تھوڑا سا حصہّ بھی اییک پرُ ظلم سلنطت میں بندھا ہو خواہ دیناوی یا دینی تو وہ سلطنت فتویٰ پا چکی ہے۔ بوجہ اِس کی اصلاح کرنیوالیقوت کے مسیحی شائستگی اُس کی غلطیوں کو درست کرتی ہے۔

ایک بات جو ابت تک لکھی نہیں گئی ظاہر کرے گی کہ اِن تیار کرنے والی شروع کی حرکتوں نے ایشیا میں کیا کچھ کیا ہے نہ صرف جہان ہلال حکومت کرتا ہے یعنے محمدی سلطنت ہے۔ نہ صرف جہاں محمدیوں نے مسیحی نمونوں کے زور سے بھی اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینا منظور کیا ہے اور مسیح سرکار کے دباؤ سے اصلاح کی طرف اوّل قدم اٹھائے ہیں اور نہ صرف جاپان میں ہو کہ مسیحی قوموں کی تعلیمی اور جنگی زرہ بکتر پہن کر اپنی فتحوں کو حاصل کرتا ہے لیکن نیز یہاں اصلاح کرنے والے فرقے پے فرقے اُٹھتے ہیں اور جہانکہ ہندو مذہب اب دعویٰ کرتا ہے کہ وہروح اور صداقت ا،س کی اپنی ہے جو کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ بائبل کےملکوں اور بائبل کی شائستگی سے نکلی ہے۔ مسیح مذہب ایسا خمیر ہے کہ جو کہ قوموں کی زندگیوں میں گھس رہا ہے لوگوں کے ملکی رشتوں میں اِس نے بہت ہی اثر پیدا کیا ہے اِسنے حکومتوں کو مجبورا کیا کم ظالم ہوں اور زیادہ رحمدل ہوں اِس نے پرانی سوسائٹی کے مقولوں کو الٹا دیاہے اور لوگوں کو ریاست کے لاحق اور غلام نہیں رہنے دیا مگر اُن تمام نوکریوں کے پانے کے حق دار کر دیا ہے جو سرکارر دے سکتی ہے۔ اِس نے تمام رشتوں کو بدل ڈالا ہے جو تمام قومیں ایک دوسرے سے رکھتی ہیں۔ آج کے دن کواہ قومیں کتنی ہی جنگ جو نظر نہ آئی ہوں تو بھی قیدی بُت پرست سوسائٹی کے دیر پا اور متواتر جنگوں نے زیادہ نرم دلاورصلح آمیز حالت کو جگہ دی ہے۔

Pages