عیسائیت

Christianity

دُوسِتَی

باجوہ

Friendship

Published in Nur-i-Afshan August 31, 1894
By Bajwa

کوئی آدمی اِس  دُنیا  میں بمشکل ملے گا جس کے دوست  اور دخن نہ ہوں۔  دوست باہمی ہمدردی اور مدد کے واسطے ضرور ہے۔ اور چونکہ انسان کو خدا تعالی نے مدنی الطبع پیدا کیا؟  اسواسطے بغیر دوستوں  کے وہ رہ نہیں سکتا۔ باہمی ایک دوسرے کی مدد کرنا دوستی کی شرایط میں داخل ہے۔ لیکن بغور دیکھو  تو کسی  کی مدد کرنا دراصل اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ کلام الہیٰ میں یونتن ؔ اور داؤد کی دوستی غور طلب ہے۔  آخر الزکر اوّل  الزکر  کے مرنے پر کہتا ہے۔ کہ تیری دوستی مجھ کو عورت  کی دوستی سے زیادہ  تھی۔ لیکن سقراط  کہتا ہے کہ جو محبت عورت  سے ہوتی ہے۔ وہ دراصل  محبت نہیں ہے۔ ہمیشہ کلیات  میں مستثنیات ہو ا  کر تی  ہیں ۔ جب ہمکسی دوستانہ مجلس میں  ہوتے ہیں تو جس  قدر جماعت بڑی ہو اُسی قدر عام طور پر موسم و دستور کی گفتگو رہتی ہے۔ یہی حال دو آدمیوں کی  ابتدائے  ملاقات کا ہوتا ہے۔ مگر حکیم ٹلیؔ  کہتا ہے کہ دوستو خوشیکو بڑہاتی ہے۔ اور مصیبت کو کم کرتی ہے۔  اور لارڈ ؔبیکن  کا قول ہے۔ کہ دوستی کے ہزاروں فواید  کے ساتھ یہ ہے۔ کہ دوست مصیبت کو بھی بانٹ لیتا ہے۔ چلیا کے ایک حکیم کا قول ہے۔ کہ میٹھی  باتوں سے بہت دوست  بن جاتے ہیں۔ اِسواسطے سب سے ملکر رہنا چاہئے۔ اور ایک  کو اپنا صلاح کار بنا رکھا چاہئے  دوستی کے لئے سمجھ واقفیت  و عمر و دولت کی مساوات چاہئے ورنہ دوستی قایم نہ رہی گی۔ چاہئے کہ نیکوں کے ساتھ دوستی ہو۔ کیونکہ کون ایسا شخص ہے جو نیکوں  کی صحبت میں رہکر بڑائی  حاصل نہ  کرے۔ پھولکے پتون پر شبنم کو دیکھو شبنم  کے قطرے چمک میں موتی کو بھی مات کرتے ہیں۔ یہ خوبی اُن مین پھولون کی صحبت اور قرابت  سے آگئی ہے۔ ویسے ہی قطرے زمین پر پڑے تھے جو مٹی میں مل گئے۔ دوستی ہمیشہ جوانی  میں ہوتی ہے۔ جب ہر قسم کا جوش  انسان میں ہوتا ہے۔ اور  دراصل  خفیفی دوست بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔  نہ بڑی عمر میں نئے دوست پیدا نہیں ہوتے۔ اور پُرانے دوست بعض اوقات بعض  وجوہات سے ضایع ہو جاتے ہیں۔ نہ اُس کا پیشتر باعث یہ ہے۔ کہ باہم ایک دوسرے  کے عیوب سے آگاہ ہوجاتے  ہیں۔ اور سلوک میں کسی طرح سے کمی ہو جاتی  ہے۔ وقت اور مواقع ایسے  نہیں رہا کرتے۔لیکن اگر کو ئی بھاری سبب نہ ہو تو پھر ملاقات سے وے باہم ویسے ہی خوش ہوتے ہیں۔ ایک دانا کا یہ بھی قول ہے۔  کہ جو دوست کی تلاش کرتا ہے وہ اپنےتکلیف  کو بڑہاتا ہے۔کیونکر اُس کے افکار کا حصہ لینا پڑتا ہے لارڈؔبیکن  یہ بھی کہتا ہے کہ کسی شکص کو پہلےمرتبہ ہی بہت کچھ نہ سمجھ لیا جاوے۔ کیونکہ کوئی شخص اُمید کی مقدار  پوری نہیں کر سکتا۔ وشنو کا لڈ۔ کہتا ہے کہ جس وجہ سے ہم نئے دوستوں کو پسند کرتے ہیں۔  وہ اس قدر ہمارے پہلے دوستوں کی طرف  سے دل برداشتہ ہو جانے۔ یا نئی چیز سے لُطف پیدا ہونے کے خیال سے نہیں۔ جسقدر  اس دلگیری کے باعث  ہے۔  کہ جو اُن لوگون سے حسب  و بخواد تعریف  نہ حاصل کرنے کے سبب سے ہوتی ہے۔ جو ہم کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اور اُن لوگوں سے جو ہم کو ایسی اچھی طرح سے  نہیں جانتے زیادہ تعریف حاصل کرنے کی توقع ہوتی ہے۔ ہم جنس اور ہم خیال میں دوستی  ہوا کرتی ہے۔  کم از کم ایک امر میں مماثلت  چاہئے۔ ورنہ ہر گز دوستی نہ ہوگی۔  مطلب کے دوست دُنیا میں بہت ہوتے۔ جب مطلب  نکل  گیا۔  یا مطلب نہیں ہے۔ یا مطلب نکلنے کی اُمید  نہیں ہے۔  تو وہ دوستی اور ملاقات  بھی جاتی رہتی ہے۔ سچ پوچھو تو دنیا میں کوئی  کسی کا دوست نہیں ہے۔ البتہ سچے خدا پرست  خیر خواہ حقیقی  ہیں۔

اشعار

دلی دشمن ہیں دُنیا میں  تیرے دل بند جتنے ہیں
ہیں سارے دوست مطلب کے زن  و فرزند جتنے ہیں
محبت حق سے رکھو اور ملوِاہل محبت سے
ؑزیزو غیر حق سب توڑ دو پیوند جتنے ہیں

مگر یہ سوال ہے کہ حقیقی  خدا پرست کون ہیں؟ وہ نایاب ہیں۔ درخت  اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے ۔ مگر جو زبانی جمع و خرچ  کرتے ہیں۔ اور لفاظ  میں خیر خواہی  جتلاتے ہیں۔ اُنہیں بھی بمشکل ایسا شخص  ملے گا جو خداوند سے محبت رکھتا ہے یا سچا خیر خواہ انسان کا ہے  وعظ  یا اُن کی نرم گفتگو ثبوت اس امر کا نہیں  ہے۔ کہ جیسا وہ کہتے ہیں  فی الحقیقت  ویسے ہی ہیں۔

شعر

واعِظاں کیں جلوہ بر محراب و ممبری کنند
چوں نجلوت می روندآن کارد یگری کنند

وعظ یہ ہے ۔ کہ فریسیوں کے موافق  نہ بنو۔ مگر بیچارے اپنے آپ کو بھول گئے۔ کہ خود فریسیوں  سے زیادہ  مکاّری اور  یا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سچ مچ وہ یا نو فریب  خوردہ ہیں۔ یا فریب دہندہ ہیں۔ حالت اول میں معذور ہیں۔ مگر یاد  رکھیں۔ کہ دوسری حالت میں وہ اپنے افعال  کے جوابدہ ہیں۔ اکثر دوستوں  سے تکلیفات ہو کرتی ہیں۔ وہ خیالی ہوں یا حقیقی ۔ مگر اُن کی تعداد کم  نہیں ہے۔  وہ تکلیفات بیوفا کہلاتی ہے۔ غالباً فریقین  ایسا سمجھتے ہوں۔ کیونکر اپنے سلوکوں کا اندازہ ہر ایک زیادہ کیا کرتا ہے۔ اس واسطے دوستی کو قایم  رکھنے کے واسطے معافی بہت چاہئے۔ اگر اس میں فیاضی نہ ہو۔ تو دوستی  بہت  دنوں تک قایم نہ رہے گی۔  ایسی حالت میں کسی کا شعر  ہے۔

دوستوں سے اسقدر صدمے اُٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ  جاتا رہا

پس دوستوں  کے برتاؤ  میں ہوشیاری بکار ہے۔ اور جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کو معاف کرے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناکت بھی کر لے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناخت بھی کر لے۔ جو اس میں ہوشیار ہیں وہ دغا نہیں کھاتے۔ اُن کے دوست تعداد  میں گو کم ہوں۔ مگر پائیداری  میں مضبوط ہوں گے۔ 

ایک دوستی ریل کے سفر۔ یا کشتی  میں۔ یا راستہ چلتے (یکہّ میں) ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اُسی وقت کے واسطے ہے جب ریل سے اُترے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ اس دنیا  کی دوستی کا بھی قریباً ایسا حال ہے۔ صرف عرصہ کا فرق ہے۔ پس دوستی کم ہو۔ یا زیادہ ۔ صرف وقت کے واسطے ہے۔ وقت پورا ہونے پر نہ وہ ہے۔ نہ یہ ہے۔ مگر خداودن  وفادار ہے۔ وہ آج اور کل یکساں ہے۔ وہ اپنی وفا میں کامل ہے۔ دنیاوی دوستوں کی طرح بدلتا نہیں۔  پس اُسی  پر پنا بھروسا رکھ۔ جس قدر اُس بھروسہ  میں کمی  ہوگی۔ اُسی قدر آزما ئیش اور مصیبت زیادہ ہوگی اور تیری پریشانی بطور سزا کے تجھ کو دبائے گی۔

اس مضمون پر کچھ  خیالات پہلے ظاہر کئے گئے ہیں۔  مگر یہ مضمون ایسا وسیع ہے۔ کہ جس قدر اس پر سوچو یا غور کرو۔ اُسی قدر زیادہ  خیالات  کی جولانی  ہوتی ہے۔ اور پہلے مضمون  کو  بدّنظر  رکھ کر مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کہ مختصر  فیصلہ اس کی نسبت کیا ہے۔ اس واسطے چند خیالات  اور اقوال اور ظاہر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اپنے واسطے خود  فیصلہ  کر لیں۔

کچھ روز ہوئے ایک طالب علم سکاچ مشن سکول سیالکوٹ  نے اشتہار دیا تھا۔ کہ ’’میں سّچے دوست کی تلاش میں ہوں ۔ وہ مجھ کو مل جاوے‘‘۔ اُس کے جواب میں بہتوں نے خامہ فرسائی  کی۔ اور نائب  تحصیلدار  رعیہ نے ایک شاعر  کا شعر لکھ دیا  جس کواڈمیٹر  اخبار پیسہ اخبار نے آخری  فیصلہ قرار دیا۔ اور وہ یہ ہے۔

؎خدا ملے تو ملے آشنا نہیں ملتا

کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے

اس سے بھی سّچے  دوست کے ملنے کی مشکلات  ہی معلوم ہوتے ہیں۔ سقراط حکیم جس کی دوستی اور مُحبت کے سینکڑوں نہیں ۔ بلکہ ہزاروں خواہاں تھے۔ اُس شخص کو جس نے اُس کے  اتہنؔیز میں ایک  چھوٹا  سا مکان بنانے پر کہا کہ’’یہ مکان چھوٹا ہے ‘‘ کہتا ہےکہ ’’اگر یہ سّچے دوستون سے بہر جوعے تو میں اس گھر کو بڑا عالیشان اور باسامان سمجھوں گا۔’’ اس جواب  سے اُس روشن  ضمیر انسان کی رائے ظا ہر ہوتی ہے۔ کہ اُس کو بھی سچے  دوستوں  کے ملنے کی ایسی توقع نہ تھی۔ کہ وہ تنگ مکان اُن سے بہر جاتا۔ ارسطوؔ کہتا ہے۔ کہ  اگر کسی شخص کو دوستی کی ضرورت  نہ ہو۔ تو وہ انسان  نہیں ہے۔ اپنی خوشی کے لئے ضرور ہے۔ کہ وہ کسی کو اپنا دوست بناوے۔ یہ حکیم اس امر  کا قائیل ہے۔ کہ بعض آدمی ایسے سوچنے والے ہوتے ہیں۔  کہ وہ اپنے واسطے  کافی ہیں۔ اور  ظاہری حالات اُن کے ایسے  ہیں۔ کہ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ اس واسطے وہ خدا کی طرف متوجہ  رہتے ہیں۔ مگر افلاطون  اس کے خلاف کہتا ہے۔ کہ ’’ محض تنہائی سے خدائی صفات نہیں آئیں‘‘۔ راہب اس واسطے خلوت گر میں ہوتے ہین۔ کہ خاص مجلس میں بیٹھیں۔ اور خدا سے باتیں کریں۔ مسیحی بزرگوں اور عالموں کی کچھ عرصہ سے یہ رائے  ہے۔ کہ خلوت سے جلوت بہتر ہے۔ کہ اس سے اپنے عیوب معلوم ہوتے ہیں۔ اور انسانوں  کو فیض  پہنچایا  جاتا ہے۔ اسی واسطے بزرگ اگسٹین کہتا ہے۔ کہ ’’راہب نیکیوں کو جنگل میں لے جاتے ہیں۔ اس واسطے شہر نیکی سے خالی ہو جاتے ہیں۔‘‘ دراصل اُس شخص کی تنہائی سب سے زیادہ مصیبت  ناک ہے۔ جس کے سّچے  دوست نہوں کیونکہ سّچے دوستوں کی دُنیا ایک ویران جنگل  ہے۔ دوستی کا سب بڑا پھل بکثرت  رائے یہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ اُس سے دِل ہلکا ہوجاتا ہے۔ جو باتیں دل میں بہری ہوتے ہیں۔ سب زبان پر آجاتی ہیں ۔ کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف آدمی کو دل کے ُگھٹنے  سے ہوتی  ہے۔ پس ایسے ہی دل کا حال ہے۔ کہ اگر دوست نہ ہوں ۔ تو بڑا  گھُٹتا  ہے۔  یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کہ اس دوستی کو شاہان و فرمانردایاں لو لو الغرم اپنی جان  اور شان کو خطرہ میں ڈالکر خریدتے ہیں۔ کیونکہ  بادشاہ اور رعایا کے رُتبہ میں زمین و آسمان  کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے اُن کو دوست بنانے کے واسطے  ضرور  ہے۔ کہ رعایا میں  سے لوگوں اول  ادنی ٰ درجہ  سے اعلیٰ  پر پہنچایا  جاوے اور پھر ان کو اپنا رفیق بناویں ۔ اور اس کام کے سرانجام  کرنے کے لئے اُن  کو بہت  تکلیفات  اور مصائب  اُٹھانی پڑتی  ہیں۔  بادشاہ  اہل دل۔ بہادر ۔ عاقل سب جانتے ہیں۔ کہ بغیر  دوستوں کے اُن کو آرام  نہیں ملتا۔ اور اُن کے کام ادہورے رہتے ہیں۔ جو تسلّی دوستوں  سے ہوتی ہے۔ وہ بھائی بندوں  سے نہیں  ہوتی۔ یہ بھی حضرت  سلیمان کا قول ہے۔ کہ ’’دوست خوشی کےواسطے۔ اور بھائی مصیبت کے واسطے ہے‘‘۔یہاں سے بھی بّچے دوست کی نایابی ظاہر ہے۔ کیونکہ تکلیف  میں مدد دینے کے واسطے صرف بھائی ہے اور یہ سچ ہے۔

تاہم دوستون کا نہونا۔ اور جو تنہائی  بغیر دوستوں کے ہو۔ وہ ایک قسم کی سزا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ سزا بڑے  مجرموں کو دی جاتی ہے۔  مققدمین کی رائے ہے۔ کہ دوست اپنی زات ثانی ہے۔ اُس کا ایک جسم ہے۔ اس واسطے وہ  (انسان) ایک ہی جگہ موجود ہوتا ہے۔ مگر جس کے دوست ہوں ۔ وہ اِنسان بہت جگہ  کام کر سکتا ہے۔ اگر کسی کی قبضہ  میں ساری دُنیا ہو۔ مگر اُس کا کوئی  دوست  نہ ہو۔ (اول تو ایسے شخص کے قبضہ  میں  کچھ نہیں ہوسکتا نہیں ہو سکتا) تو سب ہیچ ہے۔ مگر مشتبہ دوست سے ایسا خوف ہوتا ہے۔ جو دشمن سے نہیں ہوتا  جو آدمی اپنی زات سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن اُس کا کوئی  دوست نہیں۔  وہ نہ صرف الزام کی لایق ہے۔ بلکہ نیکی کے بڑے حصّہ سے محروم  ہے۔ دنیا میں دوستی کا حال  موسم خزاں کے موافق ہے۔ جب تک درخت میں پتوں کے غزا موجود ہے  وہ لگے رہتے  پھر اُسے چھوڑ جاتے  ہیں۔ ایسا ہی حال انسانوں کا ہے۔ کہ جب تک اُن میں طاقت اور دوست موجود ہے۔ تب تک وہ قایم  (دوستی میں) رہتے۔ پھر چھوڑ جاتے ہیں۔

دور کیوں جاتے ہو۔ ایک زمانہ تھا جب پرنس بسمارک وزیراعظم  ملک جرمنی کا تھا۔ ہر ایک ہوشیار شخص  کو اُس سے تشبیہ  دی جاتی تھی۔  مشکل سے کوئی اخبار ہوتا تھا۔ جس میں کچھ نہ کچھ  اُس کا تزکرہ نہ ہوتا  ہو۔ لیکن جب سے وہ عہدے سے برطرف  ہوا کوئی پوچھتا بھی نہیں۔  گویا وہ جیتا ہی مر گیا۔ ایسا حال  ہر روز ہم عہدہ  داران  کا دیکھتے  ہیں۔  جب وہ پنشن  لے لیتے ہیں۔  جو دوستی  اُن سے لوگ کرتے ہیں۔ وہ مطلب کی دوستی تھی۔ جب مطلب نہ رہا۔ تو دوستی بھی نہ رہی۔ مگر جو باہم سّچے دوست ہیں۔ وہ ایسے نہین کسی کا قول ہے۔ کہ دوستی چاند کے گرہن کو دیکھنے کے لئے۔ اور دشمنی پورا چاند دیکھنے کے لئے آنکھیں  بند کر لیتی  ہے۔  اس کا مطلب  یہ ہے۔ کہ دوست دوست کی تھوڑی تکلیف دیکھنے کو راضی نہیں۔ اور دشمن اُس کا پورا جلال نہیں دیکھ سکتا یعنے دشمن دشمن  کی پوری عزت نہیں دیکھ سکتا۔ جو دوستی  دنیاوی  خواہشوں  کے پورا کرنے کے واسطے  نہ ہو۔ بلکہ پاک دوستی براہ  خدا ہے۔ اُس میں موت سے پہلے کمی نہیں ہوتی۔  بلکہ مرنے کے بعد آلایش  سے دوستی  پاک ہو جاتی ہے۔  اور اُس وقت دوست کے عیب نظر نہیں آتے۔ اور اُس کی خوبیاں قبر کی تاریکی میں روشن  نظر آتی ہیں۔ پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ خداوند کے واسطے انسانوں سے اور دیگر  مخلوقات  سے دوستی کرو۔ اُس کی بنیاد قایم ہے۔ اور خداوند  سے محبت صرف اُس کے واسطے کرو کیونکہ  وہ وفادار ہے۔ ( باقی پھر کسی وقت)

دُوستی  کی نسبت دو ایک آرٹیکل  نور افشاں میں شائع ہو چکے ہیں  جن میں بعض خیالات  عمدہ ظاہر کئے گئے ہیں۔ واقعی یہ مضمون بہت وسیع ہے جہانتک  غور کیا جائے ایک نہ ایک بات نئی  نکل ہی آتی ہے۔ یہ  پیپرز بھی اپنا خیال ظاہر کرنے کی جرات کرتا ہے۔

آجکل کے زمانہ میں اگر حقیقی  دوست کی تلاش کی جائے  تو اس میں کامیابی کی اُمید اگر ناممکن نہیں  تو مشکل  ضرور  ہے کیونکہ آدمی یسا کہ ظاہری صورت  میں ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہیں ویسا ہی سیرت میں بھی۔ جہاں دو کی طبیعت  ایک طرح کی مل گئی وہاں ہی دوستی کی بنیاد یہی پڑ گئی۔ اس میں نہ دولت  و ثروت کوئی  رکاوٹ ہو سکتی  ہے نہ علم و ہنر  کوئی سدِراہ۔ 

حقیقی دوستی وہی ہے جب ایک دوست دوسرے  دوست  کی مصیبت و تکلیف کو یہ سمجھے  کہ یہ تکلیف و مصیبت میرے دوست پر نہیں آئی ہے بلکہ مجھ پر  ۔ اور اسکا بوجھ ہلکا کرنے میں حصہ  لے مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ جہان دوست پر مصیبت آئی باتیں تو بہت سی بنائی جاتی ہیں۔ دلجمی  کی جاتی ہے تسلی یہ دی جاتی ہے مگر محض بے سود جہاں کسی قسم کی امداد کی استدعا  کی گئی سینکڑوں  عزر بہانے  بنائے جاتے ہیں اور رو پوشی  اختیار  کی جاتی ہے اور آخر کو یہ بھی خیال  نہیں رہتا کہ اس شخص  سے  کبھی ہماری ملاقات تھی بقول حضرت سفیر ؔ

دنیا پر ست دیکھنے والے ہوا کے ہیں اور جہاں کہین راستہ پر آمنا سامنا ہو یہی گیا۔ تو نظر تک اُٹھا کے نہیں دیکھتے  بات چیت کرنا تو درکنار ۔

؎ سچ تو یہ ہے کہ بُرا  وقت نہ دکہلائے خدا۔ دوست پھر جاتے ہیں  دشمن کی شکایت کیا ہے۔  حقیقی دوستی میں دوست کی مصیبت  دیکھی  نہیں جاتی۔ جبتک کہ وہ مصیبت اس پر سے ٹل نہ جائے دوست کی طبیعت  بر ابر  بے چین  رہتی ہے۔ مصیبت زدہ دوست کی امداد  کرنے کو دل خواہ مخواہ  تحریک کرتا ہے۔  اُبھارتا ہے۔ شوق دلاتا ہے اور یہ فرض منصبی ایک گونہ راحت معلو م  ہوتا  ہے۔  سینکڑوں  تدبیریں سوچی جاتی ہیں  کہ کسیطرح  دوست  کی مدد ہو کسی نے خوب  کہا ہے۔

درپریشاں  حالی دور ماندگی، مگر یہ امداد  و ہمدردی کا اظہار بےغرض و بے لوث  ہونا چاہئے  تب ہی حققی  دوستی کی بنیاد  قایم رہتی ہے مگربہت لوگ ایک شخص کی مصیبت مین اُس کی امداد کرنے سے اس پر ایک طرح کا دبوو ڈال کر اپنا  کوئی  مطلب نکالنا  چاہتے ہیں ہمارے تجربہ میں  کئی شخص اس قسم کے آئے۔ اُن کے واسطے یہی کہا جا سکتا ہے۔ شعر جستجوئے دگرے داشت چو پر سیدم ازو  منفعل  گشت  وبمن  گفت ترامی خواہم۔  اور اس پر طرہ یہ ہے کہ جب اپنا مطلب  نکلتا نہیں  دیکھتے تو دشمن ہو جاتے  ہیں ۔ دوست کی پہچان میں کسی کا مقولہ ہے کہ دوست کو آدہی رات کو جگا کر اُس سے کوئی رقم بطور  قرضہ  مانگی جائے۔ 

حقیقی دوست کی پہچان  ایک یہ بھی ہے کہ دوست  کے عیوب آئینہ  کی ما نند  روبرو صاف  و صریح  ظاہر کروگے مگر تجربہ میں ایسا بھی ہوتا کم دیکھتے  میں آیا ہے مل  کہ اس کے برعکس  تعلق و  چاپلوسی کو کام میں لایا جاتا ہے جھوٹی خوشامد سے آسمان  پر چڑہا دیا جاتا ہے  آپ ایسے  آپ ویسے  آپ کے باپ ویسے  آپ کے دادا ویسے۔  تملق و خوشامد  کی عادت جس میں ہو اُس کی دوستی کا اظہار  قابل اعتماد نہیں۔

دوستی کے خاص آئین  میں جن کا لحاظ  رکھنا واجبات سے ہے۔ رشک و حسد  کو پاس  نہ پھٹکے  دے  غیبت  کے عادی نہ ہونا چاہیئے۔ دوست کی عزت آبرو و خیر خواہی مدِنظر رہے۔

؎ خیال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔ انیس  ٹھیس نہ لگجائے  آہیگنوں کو ۔ صاف باطنی و سینہ بے کینہ ہونا چاہئے ۔ تحمل بردباری  و برداشت کی عادت ہونا چاہئے  وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی پر دوستی کے قایم  رہنے کا دارومدار موقوف ہے۔

دوستی وہ ہی سچی  ہوتی ہے  جو دیر میں پیدا ہو۔ چٹ روٹی پٹ دال سے کام نہیں چلتا اور یہی سبب ہے کہ دوستوں سے اکثر ٹھوکریں  پہنچتی ہیں۔

؎ دوستوں سے اس قدر صدمے  اُٹھائے  جان پر ۔ دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا۔  کسی نے کہا ہے دیر آمد درست آمد۔  جو  چیز  جلد گرم  ہوجاتی  ہے وہ ٹھنڈی  بھی جلد ہوتی ہے۔ مگر جو دیر میں گرم ہوتی ہے وہ دیر میں  ٹھنڈی ہوتی ہے۔  اگر دوستی میں  یہ باتیں  ہیں  تو وہ دوستی  کہلائیگی ورنہ  یہ شعر  بجا کہا جا سکتا ہے۔

؎ خدا ملے  تو ملے  آشنا نہیں ملتا۔ کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے۔ یوں تو مطلب کے یار بہت مل جاتے ہیں۔ اور آخر یہی ہوتا ہے سلفی یار کس کے ۔ دم  لگایا اور کہسکے۔

دوستی کے مختلف مراتب ہیں ایک وہ جس کو انگریزی  میں اینٹی میسی (intimacy) کہتے ہیں  جس میں ایک دوست دوسرے  دوست کا ہمدم  و ہمراز ہوتا ہے دوسرے کو فراینڈشپَ (Friendship)  کہتے ہیں جس میں زرہ کھل کر برتاؤ  ہوتا ہے۔  تیسرے کو ایکونٹنس (acquaintance)  کہتے ہیں یعنے  جان پہچان  جس میں معمولی  علیک سلیک ہی ہوتی ہے۔ زیادہ بے تکلفی  نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ لوِو (love) عشق دوسری بات ہے۔

دُنیوی دوستی تو صرف دنیا ہی کے واسطے ہے عاقبت  میں کام  آئیگی  لازم ہے کہ عاقبت کے واسطے بھی ایک  حقیقی  دوست  ڈہونڈہنا چاہیں جو کہ ایک  مقدم امر ہے۔ پس خدا سے لوو لگانا چاہئے اور اُس کے اکلوتا بیٹے کو اپنا  ہمراز بنانا چاہئے ۔

مضمون کو حتی المقدور  مختصر  لکھا گیا ہے تاکہ ناظرین  کا  بیش قیمت وقت  زیادہ ضایع نہ ہو۔

راقم۔۔۔

ہماری لخت جگر اُٹھ کے دیکھ لو تم بھی
زمانہ اور ہے یہ رنگ بھی نظر میں رہے

دین عیسوی کا معجزانہ ثبوت

Miraculous proof of Christian Religion

Published in Nur-i-Afshan October 3, 1889
By Rev. J. Newton

معجزہ کا اصلی مادہّ  عجز بالکسر  ہے اور معنی اُسکے ناتوانی یا عاجز ہو جانیکے ہیں۔ حالت فاعلیت میں معجزہ کہا جاتا ہے۔ تب اُسکے معنی عاجز کرنیوالا اِسم فاعل کے آتے ہیں۔ اور حالت مفعولیت میں  معُجز بفتح جیم عربی اِسم  مفعول  بہ معنی عاجز  کیا کیا پاتے ہیں۔ اگرچہ ان معنوں میں یہہ جملہ حالتیں اِس کی عمومیت پر دلالت کرتی ہیں۔  مگر لغت میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت اضافی میں جبکہ اضافت بنی کی جانب ہو خارق عادت کہتے ہیں یعنی عادت کا پھاڑ نیوالا اور اصطلاح  میں مراد وہ کام ہے جو زاتی  عادت کے خلاف  واقع ہو۔ زمانہ حال میں فرقہ نیچر ان اصطلاحی معنوں پر ایک اعتراض دارد کر کے راستی سے بہت دور جا پڑے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اُس سے قانون فطرت ٹوٹتا ہے۔ لیکن اِس کا جواب مختصر میں  صرف اِسی قدر کافی و  وافی ہے کہ نیچریوں نے اپنی ہی عقل محدودہ کے مطابق خلقت کی عام  ترتیب پر جہانتک کہ اُنکی بصارت نے کام کیا نگاہ ڈال کر قانون فطرت گڑہ لیا ہے۔ خدا نے الہام سے نیچریوں کو نہیں بتادیا کہ میری لامحدود ترتیب صرف اسی ترتیب  پر پر جو تم نے دیکھ لی محدود ہے۔ پس جب تک یہہ ثابت نہو تب تک اصطلاحی  معنی بجائے خود قایم اور برقرار ہیں۔ پھر اِس لفظ معجزہ کے مرادی معنی ہم عیسایوں کے نزدیک یہہ ہیں کہ ایسی قدرت عمل میں لائی جائے جو خلقت کی عام ترتیب کی تبدیل کی قایل ہے۔ مثلاً بحراحمر کا سکھانا اور لعزر کوجلانا وغیرہ نہ خلاف عقل ہے نہ مخالف نقل  عقلاً اِسواسطے کہ عقل انسانی محدود اور خدائے قادر مطلق کے کام لامحدود اور نہ صرف یہی بلکہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کے بعض امور کو دریافت  نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ریاضی وئبیت وغیرہ علوم اُسپر گواہ ہیں۔ نقلاً اِس لئے کہ اسی جہانمیں آنکھوں دیکھتے  اکثر  ایسے امور حادث ہوتے ہیں  کہ عقل انسان واحیرانی میں مستغرق  ہو جاتی ہے۔ اب بعد اس قدر بیان کے ثابت ہو گیا  کہ درحقیقت معجزہ  ہمارے مرادی معنونمیں محال نہیںبلکہ ممکن الوقوع ہے۔ مگر اس سے یہہ نہ سمجھ  لینا چاہئے کہ وہ سارے  واقعات  خیالی جو محمد یا  رام کرشن  وغیرہ سے مثل شق القمر و سبت بندر رامیشور و گوبر دھن لیلامنسوبکئے جاتے ہیں۔ سب درست ہیں جب تک کہ اُنکے دکھانے کی علت ِنمائی اور خدا کی مرضی معرض ثبوت میں نہ لائی جائے۔ کیونکہ عقل سلیم کے نزدیک یہہ بہت قابل تسلیم ہے کہ معجزہ دین حق کے اثبات میں ضروری ہے  داُن امور میں جنہیں اِنسان آپ ہی اپنی عقل  اور علم سے  ثابت  اور غیر ثابت کر سکتا  ہے۔ ہمارا ارادہ نہیں کہ ہم اُن سارے معجزات مندرج بائبل کو نبیوں اور رسولوں اور خداوند مسیح سے وقوع پزیر ہوئے فرداً سامعین کے روبرو پیش کریں کیونکہ ان پر  یہانتک  زد و قع  ہو چکی ہے کہ اُنمیں بیان کرنا قریباً تحصیل  کی ھد  تک گزرنا ہے ہم صرف یہہ بیان کیا چاہتے ہیں کہ قطع نظر دیگر معجزات کے جن سے مسیحی مذہب  ثابت کیا جاتا ہے مسیحی  مذہب خود معجزہ ہے۔ دیکھو جب تمام مذہبوں  کے اجرا کی عام ترتیب پر نظر ڈالی ہے تو  معلوم  ہو جاتا ہے کہ اگر وہ تمام وسایل جو مذہب جاری کرنے  میں کام آتے ہیں قاعدہ مفروضہ  کے مطابق برتے جائیں  تو فی الجملہ  ہر شخص  ایک مذہب جاری کر سکتا ہے۔ مثلاً موجودہ ہندو مذہب اسطرح  جاری ہوا کہ جب عام ہندو  بودہ مذہب  کیردکھی پھیکی حکیمانہ تعلیم سے متنفر ہوئے اور چاہتے تھے کہ اُسکے خلاف کو قبول کر لیں۔ تب برہمنوں نے اُنکی  اِس خواہش کو پا کر ایک ایسا نوطرز مرصع مذہب  پیش کر دیا کہ جس میں سب کے سب  بخواہش تام شامل ہوگئے اور بودہ مذہب  کو ہندوستان سے نیست و نابود کر دیا۔  پھر محمدی مذہب عربوں  کی حسب طبالع ہونے پر کیسا ضلد چارو نطرف پھیل جانیکو تیاربرگیا علے ہذالقیاس آربہ ہرہمو وغیرہ بھی حسب ِھال و موافق طبایع انسانی ہیں۔ اب اَسی کے مقابل عیسوی مذہب  کو دیکھو جسمیں کہاں خداوند کی وہ نئی  اور انوکھی تعلیم نئی پیدائش کی ضرورت جسے نقودیمں سا اُستاد اور معلم یہود  سمجھ نہ سکا اور کہا پطرس اندریاس  وغیرہ  مچُھوؤٔں کا وہ ظرف  جو پنتکوست کے دن روح قدس سے معمور کیا گیا۔ بھلا کوں کہہ سکتا تھا  کہ حام  ترتیب مذہب کے خلاف  ایسی بنیاد پر انسان مذہب عیسوی کو قبول کرلیگا پھر باقی مذہب کی فروتنی لاچاری اور گرفتاری کے وقت شاگردوں کا  چھوڑ دینا  نیا خود پطرس کا جو زرا اپنے کو سر گرم مذہب سمجھتا تھا تین بار مسیح کا اِنکار کرنا اور شاگرد ہی کا اُستاد کو پکڑوا دینا  کیا آدمی کو حیرت میں نہیں ڈالتا علاوہ بریں جب مسیح مصلوب  ہو کر دفن ہوا تو عقل کہہ سکتی ہے کہ عام ترتیب مذاہب کے موافق عیسوی مذہب  دنیا سے جاتا رہا اور کوئی  صورت  پھر اُس کے قایم ہونیکی نہ رہی ہاں انسانی مذہبوں کے حق میں تو یہہ رائے بیشک درست ہے۔  مگر خلاف  اُسکے کیا دیکھنے میں آیا تو یہہ رائے بیشک  درست ہے۔ مگر خلاف اُسکے کیا دیکھنے میں آیا کہ جسطرح دانہ زمین میں گرکر اور مر کر ایک کےبدلے۱نیک ہوجاتا ہے اُسیطرح  خلاف دستور زمانہ مسیحی  مزہب نے زمین میں دفن ہو کر پھر رواج پایا پس جسطرح سچائی سچائی  سے نکلتی  ہے اُسیطرح معجزہ مسیحی مذہب سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ مسیحی  مذہب خود معجزہ ہے  اور اُسکے وسایل خواہ مذہب سے خواہ بانی مذہب سے علاقہ رکھتے ہوں سب کے سب معجزہ ہین المطلب مذہب عیسوی اپنے ثبوت میں معجزہ کا محتاج نہیں بلکہ وہ آپ  معجزہ کو ثابت کرتا ہے۔ مذہب سے اِسواسطے کہ و ہ خلاف  اور مذہبوں کے اپنی اشاعت و افزایش  میں کسی دنیاوی  طاقت سے مدد نہیں پانا کبھی نہ سُنا ہو گا کہ محمد صاحب  اور اُنکے خلفاء محمود غزنوی  اور اورنگزیب  کی صورت  خداوند مسیح یا اُن کے حواریوں یا مسیحی سلاطین نے مسیحی مذہب کو  بزدرشمشیر جاری  کیا بلکہ برعکس اسکے ابتدائے حکومت  پنطوس  پلاطوس اور دیگر شاہاں روم نیرو وغیرہ سے جنہوں نے ہمیشہ مسیحی مذہب کی مخالفت  میں کوئی  بات اُٹھا نہیں رکھی  عیسایوں کو شیروں سے پھڑوایا  زندہ جلوایا شکنجے میں کھچوایا آخر آج تک عیسائی جابجا  کسی  نہ کسی  صورت سے ستائے جاتے ہیں باوجودے کہ گورنمنٹ موجودہ عیسائی  کہلاتی ہے تو بھی  مصُنف  مزاج  واقف آئین سلطنت  برطانیہ کہہ سکتا ہے کہ گورنمنٹ کے نزدیک اور مذہبوں سے عیسوی مذہب کی کوئی  زیادہ  دفعت  نہین ہے مگر خدا اپنے مذہب کو آپ ہی معجزانہ قاعدہ سے بڑہایا جاتا ہے۔  بانی مذہب سے اسلئے  کہ خلاف  اور  بانیان مذہب  کے مسیح کی پیدایش ہی معجزہ  ہے جسمیں کسی دوسرے  کا واسطہ نہیں یعنی یہاں جو مضاف ہے وہی مصاف الیہ ہے پس یہہ معجزہ نحوکے عام ترتیب کو تبدیل کر دیتا ہے پھر بعدمصلوبی  وہ آپ تیسرے دن  زندہ قبر سے نکل  آیا نہ یہہ کہ کسی دوسرے نے زندہ کیا  کیونکہ وہ زندگی اُسی میں تھی پس اِس معجزہ میں بھی  خلاف  نحو جو مفعول ہے وہی فاعل ہے اور جو صفت ہے وہی موصوف ہے اور یہی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے جو مسیح سے مفت ملتی ہے کاش قومیں جو معجزات پر جا مزادہ یا اُنکی تکزیب پر آمادہ ہیں اس مجسم  معجزہ یعنی مسیح پر ایمان لائیں  اور حیات ابدی پائیں۔

میں تم سے سچ کہتا ہوں  کہ جب تک یہہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانے کے لوگ گزرنہ  جائینگے

متی باب  ۲۴ آیت ۳۴

جب کہ خداوند یسوع مسیح  کے شاگردوں  نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ یروشلم کی ہیکل کب برباد  ہوگی اور اُسکے (خداوند یسوع مسیح کے) آنے اور زمانے  کے آخر ہونیکا نشان کیا ہے تب خداوند نے اُس واقعہ  کی خبر دی کہ جو یہود کی تواریخ  میں سب سے مشہور واقعات  میں سے ایک ہے جسمیں کہ اُس کے اِس دنیا سے آسمان  پر چلے جانیکے  وقت سے اُسکے پھر زمین  پر آنیکے اور اپنی بادشاہت قائم  کرنیکے  وقت  تک کا ھال بے حکم وکاسٹ منکشف  ہوتا ہے۔ اِن واقعات  کابہت مختصر بیان ہوا  ہے اور اُنمیں  سے بعض کا توصرف  اشارہ ہی پایا جاتا ہے۔ مثلاً  یروشلم کا محاصرہ  ہونا اور دوبارہ  برباد ہونا۔ اول ططیس سے جیسا کہ تواریخ کے مطالع سے معلوم ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کے آسمان  پر چلے جانیکے  ۴۰ برس بعد وقوع  میں آیا۔ دویم  جو  دجال سے ہوگا۔ جسکا زمانہ  خداوند یسوع مسیح کی دوسری آمد سے کچھ پہلے ہوگا۔ جیسا کہ زکریا  نبی کی کتاب کے پڑھنے  سے واضح ہوتا ہے دیکھو  صحیفہ  زکریا ۴ باب ۱ آیت سے ۴ تک۔ اور تاہم اِن دونون واقعات  کا ایک ہی ساتھ زکر آیا  ہے اور اُن دونوں میں موافقت بھی پائی جاتی ہے۔ اور دونوں واقعات  اگرچہ ایک کا زمانہ دوسرے  سے بہت دور کا تھا ایسے بیان ہوئے کہ دونوں کی عبارت ہر دو واقعات  پر صادق ٹھہر سکتی ہے اور یہہ تمام زمانہ مصیبت کا زمانہ کہلاتا ہے جسکا آخری حصہ ایسا سختی والا ہوگا کہ جسکی کوئی نظیر دی جا نہیں سکتی۔  وہ بربادی کہ جسکا زکر ہوا تھا  آدمیوں کی سزا کے لئے تجویز ہوئی تھی خصوصاً قوم یہود کو سزا دینے کیواسطے ۔ اُنکی بدکاریوں کے سبب سے جو ھد سے بڑھگئی تھیں۔ لیکن وہ  کہتا ہے اُن دنوں کی مصیبتوں کے بعد فوراً  ابن آدم  کا نشان  آسمان میں ظاہر  ہوگا اور تب وہ خود آویگا، اور ۳۴ آیت میں لکھا ہے کہ ’’ جب تک یہہ سب کچھ نہو نہ لے اِس زمانے  کے  لوگ گزر نجائینگے‘‘۔ اب بعض  جو پاک کلام بائبل  کی عبارت و محاورہ کو نہیں سمجھتے  کہتے  ہیں  کہ یسوع مسیح کی یہہ باتیں کہ جبتک سب کچھ نہ ہولے  اِس زمانیکے لوگ گزر نجائینگے سچ نہیں  نکلیں کیونکہ واقعات میں اختلاف  پایا گیا۔ اور یہہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گو ۱۸۰۰ برس  گزرے کہ وہ لوگ جو اُس زمانہ میں زندہ تھے گزر گئے پر مسیح کی بعض پیشینگویاں  آج تک پوری نہیں ہوئیں۔ ایسے معترضوں  کو سمجھنا  چاہئے کہ یہہ تین الفاظ زمانہ کے لوگ صرف ایک ہی یونانی  لفظ  (گنیا) کا ترجمہ  ہے جسکے معنی انگریزی  میں  ( جنریشین) یعنی پشت  کے ہیں لیکن اگر بیبل کو غور  سے پڑہا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہہ لفظ صرف اُسی زمانہ کے لوگوں سے  جو اُسوقت موجود دینوں مراد نہیں بلکہ اکثر اُن سے مراد ہوتا ہے جو کہ ایک  سامزاج یا  ایک سی خصلت رکھتے ہوں خواہ وہ ایک ہی زمانہ کے لوگ ہوں یا نہوں چنانچہ  زبار ۲۴ آیت ۶ میں مرقوم ہے کہ یہہ وہ گروہ (جنریشن) ہے جو اُس کی طالب ہے۔ یعنی وہ جو خدا کی طالب ہے اور پھر لکھا ہے کہ اُسکی نسل (جنریشن) زمین پر زور  آور ہو گی۔ زبور ۱۱۲ آیت ۲ اور پھر دیکھو عیسائیوں کی بابت کہا گیا ہے کہ تم چنا ہوا خاندان  (جنریشن) ہوا پطر س  ۲ باب ۹ آیت اور پھر زبور ۵۳ ۔ آیت ۱۵ میں کہا ہے کہ اگر میں کہتا کہ یون بیان کرونگا تو دیکھ  کہ میں تیری اولادکی گروہ (جنریشن) سے بیوفائی  کرتا ۔ اور پھر دیکھو امثال۳۰ ۔ آیت ۱۱ تا ۱۴ میں یہہ لفظ مختلف  قسم کا گنہگاروں  کے بیان  میں چار  دفعہ استعمال کیا گیا ہے ایک پشت  (جنریشن) ایسی ہے جو اپنے باپ پر لعنت کرتی  ہے اور اپنی ماں کو مبارک نہیں کہتی۔ ایک پشت (جنریشن)  ایسی ہے جو اپنی نگاہ میں پاک  ہے لیکن اُسکی گندگی اُس سے  دھوئی نہیں گئی۔ ایک پشت ( جنریشن) ایسی  ہے کہ واہ  واہ کیا ہے بلند نظر ہے اور اُنکی پلکیں اوپر کو رہتی  ہیں۔  ایک پشت (جنریشن) ایسی ہے کہ جس کے دانت تلواریں ہیں اور  داڑھیں  چُھریاں تاکہ زمین کے مسکینو کو کاٹ  کھاوے اور کنگالوں کو خلق میں سے فنا کر دے ۔ پھر یرمیاہ نبی کہتا ہے  کہ خداوند نے اُس  نسل (جنریشن)  کو جسپر اُسکا قہر بھڑکا تھا مردود کیا اور ٹرک ہے  یرمیاہ ۸ باب ، ۲۹ آیت  ۱۹ ۔ یعنی اُن لوگونکو جو بسبب بتُ پرستی کے اُسکے قہر کے لائق ٹھہرے تھے  موسیٰ بھی اسرائیل کو کجرو اور گردن کش قوم  (جنریشن) کہتا ہے استثن ۳۱باب ۵ آیت۔ یہہ اُن لوگوں کی نسبت کہا گیا  تھا جو آخری  زمانے میں ہونگے  جنکی بابت اُس نے کہا کہ  وہ خدا کی نظر  میں بدی کرینگے۔ اِس آیت کا استثنا کے ۳۱ باب ۱۹ آیت سے مقابلہ  کرو۔ یوحناّ بپتمسہ  دینوالے نے فریسیوں  اور صدوقیوں کو ’’ سانپوں کے بچے (جنریشن) کہا‘‘۔ جہانکر یہہ ہی لفط استعمال  کیا گیا ہے متی ۳ باب ۷ آیت ۔ اور پھر خداوند یسوع مسیح نے قوم یہود کی سخت بیدینی کی بابت مثال  دی جو متی کی انجیل کے ۱۲ باب کی ۴۳ سے ۴۵ آیتوں  تک مندرج ہے۔ وہ مثال ایک بدروح  کی بابت تھی  جو ایک آدمی پر سے اُترتی  ہے لیکن پھر دوبارہ اُسکے  دلمیں جاتی ہے نہ صرف  اکیلی  بلکہ سات اور روحیں  جو  ازحد  برُی ہون ساتھ لیجاتی  ہے اور کہا کہ اُس  زمانہ کے لوگوں (جنریشن) کا حال بھی ایسا ہی ہوگا  یہہ تمام قوم پر عاید ہوتا ہے جو بُت پرستی کی عادت کو چھوڑ کر بابل کی اسیری کیوقت یسوع مسیح سے ۵۰۰ برس پیشتر فوراًٍ ہر قسم کی شرارت میں مبتلا ہو گئی۔ یہہ شرارت کرنیوالی نسل تھی اور بدتر ہوتی گئی جب تک کہ اُسکی بابت یہہ کہا گیا جیسا کہ پولوس رسول نے کہا کہ جنہوں نے خداوند یسوع مسیح اور اپنے نبیوں کو مار ڈالا  اور ہمیں سنایا اور وے خدا کو خوش نہین آتے اور سارے آدمیوں کے مخالف  ہیں۔ اور اسلئے کہ اُنکے گناہ ہمیشہ کمال کو پہنچتے  ہیں وے ہمکو منع کرتے ہیں کہ ہم غیر قوموں  کو وہ کلام نہ سناویں  جس سے اُنکی بجات ہو۔ کیونکہ اُنپر غضب انتہا  کو پہنچا۔ ۱تسلنیقیوں ۲ باب ۱۵ تا ۱۶ آیت۔ یہہ شریر نسل ہے جسکی بابت یسوع مسیح  نے کہا ہے کہ وے شرارت کے فرزند  (جنریشن) ہیں مندرجہ بالا بائبل  کی آئیتں  جو  پیش کی گئی ہیں  اِس بات کے ثابت کرنے کے لئے  کہ لفظ  جنریشن  کسی خاص زمانے کے لوگوں ہی پر نہیں لگایا جاتا بلکہ ایک ویسی ہی خصلت کے لوگوں پر جو کسی دوسرے زمانے میں ہوں  عابد ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں متی کی انجیل کے ۲۴ باب کی  ۳۴ آیت  کا یہہ ہی مطلب ہے۔ خداوند مسیح نے قوم یہود کا زکر کیا تھا کہ بسبب اُنکی بیدینی  کے اُن پر خوفناک مصُیبتیں آپڑینگیں اور کہا کہ اگر خدا اُس وقت کو نہ گھٹاتا تو ایک تن نجات نہ پاتا  لیکن اُنمیں سے اُن لوگوں کی خاطر جو چُنے ہوئے تھے وہ وقت  کو گھٹائیگا اور بعض اُنمیں سے زندے بچ  رہینگے جب تک کہ مصیبت کا زمانہ گزر نہ جاوے  اور ابن آدم آسمان سے آ نہ لے تاکہ زمین پر راستبازی کی سلطنت قایم کرے۔ اِن ہی معنوں میں اُس نے کہا کہ جب تک یہہ سب کچھ نہولے یہہ پشت (جنریشن)  گزر نجاینگے۔ پس جبکہمسیح دوسری دفعہ  آویگا  تب وے اُس کی بادشاہت  کے قایل ہونگے۔ اور اُسوقت وے شرارت اور گردن کشی سے پچتائینگے اور واویلا کرینگے۔ اور خصوصاً وے اُس بات سے پچتائینگے کہ کیوں  اُنہوں نے اُسے رد کیا اور  مصلوب کیا تھا اور جب وے اُسے دیکھینگے وے چلائینگے اور کہینگے کہ مبارک وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ۔ (متی۱۳باب ۳۹ آیت)  اُس وقت سے وہ کبھی پھر شریر پشت (ویکیڈ جنریشن) نہیں کہلائینگے۔ اِس سبب سے معترض کا یہہ کہنا کہ اُس  واقعہ میں اختلاف  رہا  اور کہ یہہ بات  سچ  نہ ٹھہری  ٹھیک نہیں۔ یہودی ایک ایسی قوم ہے جو خداوند یسوع مسیح پر ایمان  نہیں لائی اور اگرچہ وہ خوفناک مصیبت جو ہو گی اُنکے شمار کو بہت گھٹاویگی  تاہم تمام برباد  نہوگی اور گزرنجاویگی  کب تک  کہ ابن آدم نہ آوے اور تمام دوسری  باتیں جو بطور پشین گوئی  کے کہی گئیں تھیں پوری  نہوں۔

راقم ( پادری) جے نیوٹن۔

عیسوّیت  شافی قدرت  ہے

علامہ جی ۔ایل ٹھاکر داس

Christianity is the Nature’s Healer

Published in Nur-i-Afshan March 7, 1889
By Allama G.L.Thakkur Dass

تمہید

الہام الہی کا وہ مقصد  جو گناہگار اِنسان  کے لئے نہایت ضروری  ہے وہ راہؔ نجات ہے۔ اور یہہ بات دریافت کرنا لازم ہے کہ  وہ کونسی قدرت  ہے جو ہمکو گناہ  اور اسکے برُے نتیجوں سے نجات دیسکتی  ہے اور  یوں ہمیں  بقا کے لائق اور اسکے وارث  کر سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں  کہ اِس امر میں انسان نے اپنی  کوشش کی کوئی صورت باقی نہین چھوڑی ہے لیکن افسوس  اتنا ہے کہ مختلف خیالوں مین پڑ کت مختلف طریقے  نجات کے تجویز کئے ہین۔ جب اِن خیالون اور طریقوں پر  غور کرتے ہیں تو معلوم  ہوتا ہے کہ لوگ اِن  باتوں کو پارے طور سے نہیں  سمجھتے  کہ کسلئے نجات  چاہئے  اور کہ وہ کیونکر  حاصل  ہو سکے۔ یہہ دونون باتیں بتلانے کے لئے خدا نے الہام سے انسان  کے  ساتھ  کلام کیا۔ اور اِس تحریر سے غرض یہی ہے کہ الہام اِس مقصد کوہم اور زیادہ سمجھ  جاویں۔

جاننا چاہئے  کہ کل  عالم میں  خداوند  خالق  نے اپنی حکومت  دو طرح کی قائم  کی ہو ئی ہے۔ جسمانی ؔ اور اخلاؔقی  جسمانی  حکومت سے مراد وہ حکومت ہے جو غیر ناطق جسم پر ہے  اور اخلاقی حکومت  سے مراد وہ حکومت ہے جو ناطق  عقل پر ہے۔ دونوں قسم کے لھاظ سے جسمانیؔ قانون  اور اخلاؔقی قانون کہے جا سکتے ہیں۔ اِس ترتیب سے غرض  برتاؤ  محبتّ یعنی نیکیؔ  ہے۔ اور نیکی کا نتیجہ  خوشیؔ ہے۔

پھر دونوں قسم قوانین  کی ہم یہہ کیفیت دیکھتے  ہیں کہ جسمانی قانون  جس جسمانی چیزوں  کے متعلق ہیں  خالق نے ایسے  طور  سے قائم  کئے ہوئے ہیں کہ کوئی چیز اُنسے انحراف  نہ کر سکے۔ اور انتظام عام  باترتیب  اسی  لئے چل رہا ہے کہ یہہ قانون  ضرورت سے بھر پور  ہین۔ اور یہی سبب ہے کہ انسان بھی اُن سے تجاوز نہیں کر سکتا اور جب کرتا ہے تو ساتھ ہی سزا  پاتا ہے۔ لیکن اگر اُن قوانین  کے تقاضا  کے موافق کرتا  ہے تو  خوشی اور آرام پاتا ہے۔ اسیطرح  اخلاقی قوانین  سے  بھی مرُاد اخلاقی عالم میں ترتیب اور انتظام قائم رکھنے سے ہے۔  اِن قوانین کے موافق روش رکھنے سے خوشی حاسل  ہوتی ہے اور تجاوز باعث دُکھ اور رنج کاہے۔ یہاں بھی خوشی اور سزا  لازمی ہیں۔ اِس کیفیت سے ہم معلوم  کرتے ہیں  کہ یہہ کلُ  انتظام  خدا نے انسان کی خوشی  کےلئے  کیا ہوا ہے اور اسکو خوشی حاصل اور ہو سکتی ہے اگر اِس  انتظام کے قوانین کے موافق  چلے۔ اور اس سے ہم  خالق  کی مرضی بھی معلوم  کرتے ہیں کہ وہ کس بات سے  خوشی ہوتا ہے اور کس بات سے ناراض ہوتا ہے۔ ہان مقنّن  کی بابت ہم  اسکے ٹھہر ائے ہوئے قوانین سے جانتے  ہیں کہ وہ کس طبیعّت کا شخص  ہے۔ اسکی مہربانی اور عدل دونوں  ہی صاف معلوم ہو رہے ہیں۔اب اسبات کا بھی خیال  کرنا چاہئے کہ اِنسان پر واجبؔ ہے کہ اخلاقی  قوانین کی پابندی کرے۔ کیوں؟ اسلئے کہ بزات ہی اچھے  ہیں۔ اور اچھے ہونے کے  سبب سے  کوشی کا باعث ہیں۔ پس اصل بات جسکے سبب سے انسان کو چاہئے کہ اپنی روش کو اُن  کے موافق رکھے  یہہ ہے کہ وہ خوشی کا باعث  ہیں۔  اور خوشی اپنے آپ میں  بذات ہی مرغوب چیز ہے۔ دیکھو لوگ اُن  کاموں  کو جو جسمانی  قوانین  کے متعلق  ہیں( مثلاً ہر قسم کا ہنُر) ایسے  طور سے کر نیکی  کوشش کرتے ہیں کہاُنکو آرام اور خوشی حاصل  ہو۔ ایسا ہی محبّت  یا نیکی جو اخلاقی قوانین کا مقصد ہے خوشی کا باعث  ہے اور جہاں یہہ نہیں  ہوتی وہاں رنج اور تکلیف  ضرور  ہوتے ہیں۔ غرضکہ اِنسان کو چاہئے کہ نیکی کرے اور بدی سے باز رہے۔ 

پس نیکیؔ کیا ہے؟

 قوانین خلاقیہ کے موافق روش رکھنا نیکی ہے۔

بدی کیا ؟

 قوانین اخلاقیہ  کے موافق  روش نہ رکھنا بدی ہے۔

کن کن سے نیکی مطلوب  ہے؟ اخلاقی و جودوں سے اور وہ خدا  اور انسان ہیں؟

اخلاقی وجود ہونیکی  کیا  کیا شرطیں ہیں؟ وہ شرطیں جنکی وجہ سے ہم کسیکو اخلاقی  وجود کہہ سکتے ہیں  یہہ ہیں  یعنی عقلؔ اور ضمیرؔ  اور آزادؔ  مرضی۔ اور چونکہ اِنسان میں یہہ  جو ہر ہین لہذا ہمکو ماننا پڑتا ہے کہ انسان اخلاقی وجود  ہے۔  اور علاوہ  اسکے ہم فطرتاً جانتے ہیں کہ ہم ایسے ہیں۔ اور پھر خداوند  خالق میں بھی یہہ جوہر  ماننے پڑتے  ہیں کیونکہ اگر خالق میں نہ ہوتے تو مخلوق میں خود  ہی نہیں ہو سکتے تھے۔ اُن کے ہونیکا کوئی مادہ یا سبب نہ ہوتا۔ خدا آپ اخلاق وجود ہے اسلئے اُسنے اخلاقی انتظام عالم میں قائم کیا۔ اور اخلاقی  حاکم  ہونے کے سبب سے وہ کل عالم  میں راستی کا محافظ  ہے اور اسلئے  دوسرے  اخلاقی  وجودوں  سے اطاعت  طلب کرتا ہے کہ راستی اور محبّت  کو قائم رکھیں۔ اُس راستی اور محبّت  کے قوانین حسب زیل ہیں۔

(۱)۔ میرے حضور  تیرے لئے دوسرا  خدا نہ ہووے ۔

(۲)۔  تو اپنے لئے  کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت  جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں  زمین کے نیچے  ہے مت بنا۔  تو اُن  کے آگے  اپنے تئیں  مت جھُکا۔ اور نہ اُن کی عبادت کت کیونکہ میں خداوند تیرا  خدا  غیّور خدا ہوں الخ۔

(۳)۔ تو خداوند اپنے خدا کا نام  بیفائدہ  مت لے کیونکہ  جو اُسکا  نام بیفائدہ لیتا ہے خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہراویگا۔

(۴)۔ تو سبت کا دن پاک رکھنے  کے لئے  یاد کر۔ چھ دن تک تو محنت کر کے اپنے سارے  کام کاج  کر لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت پے اُسمیں کچھ کام نہ کر۔ نہ تو نہ تیرا بیتا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرے مواشی اور نہ تیرا مسافر  جو تیرے پھاٹکوں کے اندر  ہو۔ کیونکہ خدا نے  چھ دن میں آسمان  اور زمین دریا اور سب کچھ جو اُن میں ہے بنایا اور ساتویں  دن آرام کیا۔ اِسلئے خداوند  نے سبت کے دن کو برکت دی اور اِسے مقدس ٹھہرایا۔ 

(۵)۔ تو اپنے ماں باپ کو عزت  دے تاکہ تیری عمر  اُس زمین پر جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہووے۔

(۶)۔ تو خون مت کر۔

(۷)۔ تو زنا مت کر۔

(۸)۔ تو چوری مت کر۔

(۹)۔ تو اپنے پڑوسی پر جھوٹی گواہی  مت دے۔

(۱۰)۔ تو اپنے ہمسائے کے گھر کا لالچ مت کر۔ اپنے پڑوسی کی جورو اور اُسکے  غلام  اور اُسکی  لونڈی اور اُسکے بیل اور اُسکے گدھے  اور کسی چیز کا جو تیرے پڑوسی کی ہے لالچ مت کر۔ ( خروج باب۲۰)

قوانین  اخلاقیہ  کے شارح  اسظم خداوند یسوع مسیح نے اِن  دس  باتوں  کا خلاصہ  یہہ فرمایا ہے کہ تو خداوند کو جو  تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی  ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے  اور اپنے زور سے پیار کر۔ اوّل حکم یہی ہے۔  اور دوسرا جو اسکی مانند ہے یہہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے بر ابر  پیار کر۔ ( مرقس ۳۰:۱۲)

اب انسان نے اِن قوانین سے تجاوز کیا ہے اور خدا  کے انتظام میں  بڑا بھاری  فساد دالا ہے اور سزا کے لایق ہو گیا ہے اور زندگی اور خوشی کے لایق نہیں رہا۔ اور یاد رہے کہ سزا کو ئی مسنوعی امر نہیں ہے بلکہ قدرتی  ہے اور لازمی ہے۔ اور موت ہے  ۔ قدرت کے قانون میں یہہ بات  پائی جاتی ہے اور اِس  قانون  کو لاآف  کانٹی نوُئٹی کہتے ہین کہ ہر چیز اپنے اپنے تعلقات  میں زندہ ہے مگر غیر تعلقات  کے نزدیک وہ مردہ ہے جمادات اپنے میں خواہ کچھ ہی ہوں مگر نباتات کے نزدیک مردہ ہیں۔ اور نباتات حیوانات کے نزدیک مردہ ہیں۔ اِسیطرح چونکہ انسان  نے اخلاقی قانون سے تجاوز کر کے  اپنا تعلق گناہ سے کر لیا لہذا  اخلاقی اور راحانی زندگی کے نزدیک وہ مرُدہ ہو گیا ہے۔ اور قدرتی تقاضیٰ  ہے کہ وہ ایسا  ہی ہو  جاوے۔  اور اسکے مطابق کلام الہیٰ  مین بھی اِنسان کی موجودہ  حالت  کو  موتؔ سے بیان کیا گیا ہے۔ ‘‘جسمانی مزاج موت ہے پر راحانی مزاج زندگانی’’ ( رومیوں ۶:۸) اسحال میں انسان  روحانی  زندگی کے دائرے سے نکل گیا اور گناہ کی  شریعت یا دائرے  میں آگیا  ہے جیسے مچھلی پانی سے نکلکے خشکی پر آجاوے۔  اور جس علاقہ مین ہو گیا ہے اُسیکے  نتیجے پا سکتا ہے اور وہ ڈُکھ  اور موت ہے ۔  یہہ سزا تو انسان کو قدرت  ہی کی طرف  سے ہوئی  ہے اور آخر اُسکو ہمیشہ  کی موت  تک پُہنچا  دیگی۔  اور یو ں اُسکو  ہمیشہ  کی زندگی اور خوشی  سے محروم رکھیگی۔  اور الہام کے زریعہ  سے خدا نے  انسان کو اِس  بات  سے اور بھی آگاہ کر دیا ہے۔ پس وہ چیز  جو اِنسان  کو اِس  نئے تعلق  سے بچاوے اسکو ہم انسان کے لئے شافی قدرت جانینگے۔

دوسری نات جو لاآف کانٹی نوئٹی ہمیں باور کراتی ہے یہہ ہے کہ جو قانوں جس شے کی نسبت  ٹھہرایا گیا ہے اگر وہ شے یا شخص  اُن میں قائم رہنے سے غفلت کرے تو اپنی حالت سے زائل  ہو جائیگی۔ قیام  اور ترقی کے لئے حفاظت اور کو شش لازمی ہیں۔ ہر چیز اپنے آپ میں مائل  بطرف  زوال  ہے کیونکہ قیام کی دلیل اپنے میں نہیں  رکھتی مگر دوسرے  میں رکھتی ہے۔ یعنی خالقؔ مین ۔ اور خالق  نے جو قانون اُن  کے قیام  کے لئے  مقّرر کئے ہیں۔ اُن کے موافق  کرنے کے بغیر  کوئی چیز قائم  و دائم  نہیں رہ سکتی۔ اِس حال میں ہر ایک شے  جو اِس قیام و ترقی  کے لئے  مضّر  ہے اسکو دُکھ نا ضروری ہے۔ کسی باغ کو پھلدار  اور سر سبز کرنے کے لئے حفاظت  اور پرورش ہیں  کیونکہ اگر یہہ نہ ہو تو اور  چیزیں یا قوانین  ہیں  جو اسکو بر بادی کی حالت  مین لانیوالی ہیں۔  اسیطرح  انسان اگر اپنے  قیام اور ترقی کے سامان سے غافل رہے  تو ضرور زوال پاتا ہے۔ چنانچہ  اگر اپنی صحت کے قوانین  سے گافل رہے تو نقصان اُٹھاتا ہے۔ اور جو لوگ شائستگی  کے قوانین سے غافل  رہے یا  رہتے ہیں وہ شائستہ  نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے  ہیں۔ بلکہ وحشی  ہو جاتے  رہے ہیں۔ پس اگر قوانین  اخلاقیہ سے غافل  رہے تو روحانیّت سے  گر جاتا ہے اور سلامتی  اور ترقی  سے محروم  رہتا ہے اور رہیگا۔  علی ہزا القیاس  اگر وہ اپنی نجات سے گافل رہے تو ہلاکت سے کیونکر بچ  سکتا ہے؟  لیکن افسوس ! انسان غافل  ہو کر ہلاکت کے یقینی راستہ  پر ہے۔ پس وہ چیز جو اسکو بیدار  کرے اور حفاظت  اور ترقی کے لئے آمادہ کرے اور یوں ہلاک  ہو جانے  سے بچاوے اسکو ہم انسان  کے لئے  شافی قدرت کہینگے۔

 تیسرا نتیجہ  جو ہمکو  لا آف کانٹی نیوئٹی  کے زریعہ سے ہاتھ آتا ہے یہہ ہی ہے کہ کو ئی چیز اپنے آپ  اپنی قدرتی حالت کو بدل  نہیں  سکتی۔ البتہ وہ جو اِس سے اعلیٰ ہے وہ اسمیں تبدیلیاں  کر سکتا ہے۔ پتھر اپنے تئیں  نباتات  کی قسم میں نہیں لا سکتے اور جانور انسان  نہیں بن سکتے۔ اور اگر اِن میں ترقی کی  ضرورت ہو وے تو اعلیٰ قسم اپنے سے ادنیٰ قسم  میں کر سکتی ہے۔  انسان اپنے سے ادنیٰ  قسموں میں تبدیلیاں اور  ترقیاں  کراسکتا ہے۔  مگر انسان کی جو گناہوالی  گویا  قدرتی  حالت  ہے اِس میں وہ خود اپنی  حالت  کو روحانیت کی طرف بدل  نہیں سکتا۔ اور نہ اِس  سے نجات پا سکتا ہے۔ انجیل مقدّس کی تعلیم  بھی اسکے موافق  ہے۔ ‘‘تم  فضل  کے سبب ایمان لاکے بچ گئے ہو اور یہہ تم سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے’’ ( افسیوں ۸،۳:۲) اس سے بھی یہی معلوم  ہوتا ہے کہ روحانی  زندگی کے نزدیک انسان کی یہہ حالت مردہ حالت  ہے اور وہ روحانی  عالم اور اُسکی  خوشیوں سے تعلق  نہیں  کر سکتا  جبتک کہ روحانی  عالم سے اسکے لئے امداد نہ پُہنچے۔ اِس بات میں یہی انتظام  قدرت اور الہام کاایک ہی بیان ہے پس وہ چیز جو  اِنسان  کو اُسکی موجودہ حالت اور اسکے نتیجوں سے نجات  دیوے  وہی اِنسان کے لئے  شافی قدرت ہوگی۔

اِس بیان سے ہم کو یہہ باتیں حاصل ہیں۔ (۱)اِنسان کی حالت  خطرناک اور نا امیدی  کی ہے۔ (۲)قوانین قدرت میں اسکے بچنے کی صورت اور  گنجائش  نہیں ہے۔ (۳)اُن میں یہہ گنجائش ہے کہ کسی اعلیٰ  طریق سے بچ سکتا ہے۔ اب ہمیں وہ طریق  یا قدرت  دریافت کرنا ضروری ہے جس سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ کیونکہ آدمی کو کیا فائدہ ہے اگر تمام جہان کو حاصل  کرے اور اپنی جان کھودے؟ پھر آدمی اپنی جان کے بدلے  کیا دیسکتا  ہے؟ ( متی ۱۶: ۲۶)۔ 

دفعہ اّول  نجات ممکن ہے یا نہیں

(دیکھو نور افشان نمبر ۱۰ سن ۱۸۸۹ء)

جاننا چاہئے کہ جسمانی قوانین اور اخلاقی قوانین ایک دوسرے سے جدا اور اپنے اپنے دائرے میں  پوری پوری تعمیل کے  متقاضی ہیں۔ مگر جسمانی قوانین  کی تعمیل  قوانین اخلاقیہ  کے ثواب  کا مستحق  نہیں کر سکتی  اور قوانین اخلاقیہ کی تعمیل قوانین جسمانی کے نتیجوں  کا استحقاق  نہیں دیتی۔  جب تک دونون کی تعمیل اپنے اپنے طور پر نہو تب تک دونوں کے نتیجے حاصل نہیں ہو سکتے ۔ اِ س سے  یہہ بات حاصل ہوتی ہے کہ علم و ہنر اور مال و دولت وغیرہ  جو جسمانی قوانین کے موافق روش کہنے سے حاصل ہوں وہ ہمیں  روحانی  زندگی نہیں  دلا سکتے ۔ کیونکہ روحانی زندگی صرف اُسی حال میں  حاصل  ہو سکتی ہے جبکہ ہم قوانین  اخلاقیہ کے موافق  روش رکہیں۔ ہر دو قسم قوانین  میں  سزا لازمی ہے۔ تجاوز کا ضروری  نتیجہ ہے۔ جسمانی  قوانین سے تجاوز  کرنے کی سزا کو لوگ  خوب  جانتے ہیں۔ اور ڈرتے ہیں۔ مگر روحانی قوانین  سے تجاوز  کر نیکی سزا بھی ہے تو دیسی  ہی لازمی پر چند اں پروا نہیں کرتے۔ اسبات کا کچھ  مفصل  بیان  ہم  ایک اور موقع  پر کر چکے ہیں۔ اب صرف یہہ جتایا  جاتا  ہے کہ گناہ کرنے  سے انسان  فوراً  روحانی  زندگی سے خارج  ہو جاتا ہے۔ اسکی خالت روحانی موت کی حالت  ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ  جب سے گناہ دنیا میں آیا تب سے انسان سزا  یا بی کی حالت  میں ہے۔ اسکی عقلؔ اور ضمیرؔ اور فہمؔ اور آزاؔد  مرؔضی  ناقص اور خراب ہو گئے ہیں۔ ہر ایک گناہ نہ صرف  اسکو زیادہ  خراب کرتا ہے  بلکہ ہمیشہ کی موت  کے زیادہ  تر  نزدیک کرتا جاتا ہے۔ اور اگر اس جہان سے کوچ  کرنے کے پہلے وہ کسیطرح اِس خراب  اور مردہ حالت سے نجات نہ پاوے  تو اسک انجام کیسا خطرناک ہے۔ اب سوال ٍ یہہ ہے کہ آیا اِس خوفناک اور  نا میدی  کیحالت سے بچنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ممکن ہو تو کس  وجہ  سے ممکن ہے؟ اگر قوانین  کیطرف  کریں  تو وہ بخشش  سے واقف نہیں بلکہ اُنکا تقاضیٰ  یہہ ہے  کہ گناہ کی ضروری موت ہے’’۔اس حال میں اُنسے تجاوز کر کے زندگی  کی اُمید رکھنا  ممکن ہے۔

پھر نجات کیونکر ہو سکےہوسکے؟ لوگوں کی تجویز  ہےکہ ساگ ؔ پات ؔ اور لکڑیؔ کاٹھ ؔ  اور ہومؔ وغیرہ  کے زریعہ  سے نجات ہو سکتی ہے۔ مگر مایور ہے کہ یہہ جسمانی  چیزیں  ہیں  اور جسمانی قوانین کے متعلق  ہیں اِن کو کھانے یا پالنے یا جلانے یا نھلانے  سے اُن چیزوں کو یا ہمارے جسموں کو وہ فائدہ یا نقسان ہو گا جو قوانین جسمانی سے مصورّ ہے۔ اِن کو روحانی  قوانین  اور نجات سے کچھ  نسبت نہیں ہے۔ جیسا ہمنے تمہید میں کہا تھا یہہ لوگون کی ناواقفی کی تجویز یں  ہیں۔ اور پھر ایسی  تجویزوں  کا مختلف  ہونا  اور ہمیشہ بدلتے رہنا  انسان  کی گمراہی  کی دلیل ہے۔ 

بعضے اب یہہ خیال کرتے ہیں کہ گناہ  کو ترک کرنا یعنی توبہ کرنا  گناہ کی سزا سے نجات  پانا  ہے۔ مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے  اگر توبہ  کرے تو نجات ہو گئی۔ اگر خون کرے  اور توبہ کرے تو نجات ہو گئی اور ہر ایک گناہ  کی نجات اسیظرح ہو سکتی ہے۔ یہہ وہی بات ہے جسکی ہم پہلے تردید کر  چُکے  یعنی شرع کا تقاضیٰ  پوری  تعمیل  ہے۔  کہ تجاوز  اور نہ نہ توبہ ۔ دیکھو نیکی کا نتیجہ خوشی ہے۔ اور گناہ کا نتیجہ سزا ہے۔ اب جب تک سزا کے عوض میں کچھ اور نہ ہو تو  ضرور  ہے کہ  سزا قائم  رہے۔  توبہ اِس سزا کا عوض  نہیں  ہو سکتا۔ اِس کا  تعلق  نیکی کے ساتھ  ٹھہرتا ہے نہ کہ گناہ اور اُسکی لازمی سزا کے اس عالم میں خواہ کسی قانون کو دیکھو تجاوز کی  سزا  ضروری  ہے توبہ  اُس  سزا سے نہیں  بچا سکتی۔  توبہ سزا کے بعد ہے نہ کہ پہلے۔ انتظام  عالم ایسا ہی ہے۔ انسان کا ایسی  تجویزیں سوچنا کچھ تعجب  کی بات نہیں ہے۔  کیونکہ موجودات کی حدود میں محدود ہو کر  اسکو حقیقی  راہ نجات کا پتا نہین  لگ سکتا۔ انسان چاہتا ہے کہ بچے  اسلئے اپنےدائرہ میں تلاش کرتا رہا۔ مگر  تقاضیٰ  قانوں الہیٰ  کو پورا نہین کر سکا۔ اِدھر اُدھر بھٹکتا بے شک رہا ہے۔

کیا کو ئی اور صورت گناہگاروں  کی نجات کے ممکن ہونیکی  ہے؟ گناہگارو خوش ہو۔ ایک صورت ہے اور فقط وہی صورت  ہے اور وہ یہہ ہے کہ ‘‘ خدا محّبت ہے’’۔ اسکی وحدانّیت اور قدرت  پاکیزگی سے ہمیں  اس امکان کا خیال  و گمان بھی نہیں  ہو سکتا  ہے۔ انکی رُو سے تو وہ راستی کا نگاہبان ہے اور عدولی  کی سزا لازمی ٹھہراتا  ہے۔ لیکن وہ آسمانی  باپ ہے۔ اور اسکی پدرانہ محّبت میں ہم اپنی نجات کا آسرا  پا سکتے ہیں۔ محّبت  ہو کر وہ ہماری ہلاکت  نہیں چاہتا اور ہماری نجات کے امکان کی یہی  وجہ  ہے۔

جب یہہ معلوم  ہو گیا کہ کسی وجہ سے نجات ممکن ہے تو اب ہم دریافت  کرینگے کہ ایسے  اِنتظام  اخلاقیہ کے درمیان  کسی  صورت سے یہہ محبّت  ہماری نجات کرواسکتی ہے۔ اور ہم ایسے کچے گمان ہر گز نہ کریں کہ محبّت  ہو کر خدا گناہگار کو اندھا دُھند  بخش سکتا ہے۔  یا بخش دیگا۔ جن لوگوں کا ایسا  گمان ہے وہ اصل  میں  خدا کو بھی تقصیردار ٹھہراتے ہین۔ اور اس امر میں بڑی غلطی یہہ کیجاتی ہے کہ ایک حاکم اور ایک معمولی  آدمی کے فرائض کو یکساں خیال  کرتے ہیں حالانکہ دونوں  میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ ایک معمولی شخص جسکو عدالت کی زمہ داری نہیں  ہے چاہے کتنے  ہی قصور اپنے دوستوں یا دشمنوں کے معاف کیا کرے اس سے کچھ ہرج نہیں ہوگا۔  کیونکہ انتظام  عدالت کا زمہ دار نہیں ہے۔ پر اگر  کو ئی  بادشاہ یا حاکم  جو  ملک میں راستی اور انساف کو قائم رکھنے کا زمہ دار ہے اور شرع کا محافظ  ہے اگر وہ کسی  گناہگار کو بے عقوبت  چھوڑ  دے تو امن ملک میں اور  محافظت  شرع  میں فرق آویگا۔  اور ایسا کر کے اپنے منصبی  فرائض کے رو سے وہ  خود  خطا  کار ٹھہریگا اور مثل اُس  مُجرم  کے وہ خود بھی شرع سے تجاوز کرنیوالا  بنیگا۔ اسلئے  انجیل مقدس میں لوگوں کو ہدائت آئی  ہے کہ  ‘‘ ایک دوسرے کو بخشا کرو’’۔  ‘‘اپنا انتقام مت لو کیونکہ خداوند کہتا ہے  انتقام  لینا میرا کام ہے میں ہی بدلالونگا’’۔  مگر خدا  جو راستی کا بانی  اور اپنے لئے آپ ہی  (دراصل واجبی بدلا خدا ہی لے سکتا ہے۔ کیونکہ قوانین  اخلاقیہ  کی منزلت  کو جو واقفی  اور قدر خدا کو ہے وہ انسان کو نہیں  ہے۔ اس لئے لوگ آپسمین خطا ؤنکا واجبی  بدلا نہیں  لے دے سکتے۔ ملکی  کچہریوں کی سزائیں بھی محض  اٹکلیں ہیں) شرع ہے اور اسکا محافظ  ہے یونہی  اندھا دھند  کیونکر  گناہگار  کو بخش سکتا ہے ؟  نافہمی  کے سبب لوگ اپنے تئیں  دھوکھا دیتے ہیں ۔ بیشک  خدا محّبت  ہے  اور اس وجہ  ہماری نجات کے امکان کا گمان  ہو سکتا ہے لیکن اسبات  کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ محّبت  اس حال میں نجات کس صورت  سے دے سکتی ہے۔  فقط اس صورت  سے خدا راست ٹھہرے  اور انسان بھی بچ جاوے مگر راستی اور انصاف سے تجاوز کر کے وہ  حاکم  الحاکمین گناہگار  کو چھوڑ نہیں سکتا۔ خیال  رہے  کہ خدا کی محّبت میں یہہ مقدور ہے کہ خدا راست ٹھہرے اور انسان بھی بچ جاوے۔ پھر کاہیکو داہی  خیال کریں۔ اُس محبت کا پتا اور اس محبت  کی کارروائی کا بیان خدا نے اپنے  کلام میں یوں  بتلایا  ہے۔ ‘‘خدا نے اپنی محّبت ہم  پر یوں ظاہر کی کہ جب  ہم  گناہگار  ٹھہرے تھے مسیح ہمارے  موا’’۔ نامہ  رومیوں ۸:۵ ۔ محّبت  کی اس کارروائی  کابیان ہم آئیندہ دفعات  مین کرینگے۔

عیسوئیت  شافی قدرت ہے دفعہ دوم ۔ نجات یعنی گناہ کا کفارہ  ( دیکھو  نور افشان نمبر  ۱۵ سن ۱۸۸۹ء)

امر اوّل ۔ اصوِل درمیانی

واضح ہو کہ جسمانی  اور اخلاقی  قوانین  میں یہہ صداقت مشترک  ہے کہ ہر نتیجہ  کا کوئی  سبب  ہے۔ پر جب سبب کے لازمی نتیجہ  کو دُور  کرنا بدلنا ہو تو  اسکے لئے یہہ انتظام  پایا جاتا ہے کہ سکی غیر شے یا  قدرت کو درمیان لانے سے امر  مطلوبہ حاصل ہو گا ۔ جیسے زہر اور اسکے نتیجہ ہلاکت کے درمیان زہرمہرُہ  زہر کے نتیجہ  ہلاکت کو صحت سے بدل دیتا ہے۔ بغیر ایسے  درمیانی کے سبب  کا لازمی نتیجہ بدل نہیں سکتا یوناؔنی  اور انگرؔیزی  اور  ویؔدک حکمت اسی بات کی شہادتیں  ہیں  اور قدرت کے اسی تقاضی  کے موافق دنیا کے لوگوں نے شافی زریوں کو درمیانی  لانیکی  ہدائت  کی ہے۔اور پھر دیکھو  کہ جہالت  کے بُرے  نتیجوں سے بچنے کے لئے علم و ہنر کا درمیان ضرور ہے ۔ خدا  خود انتظام  عالم  کی معمولی  حالتوں میں معمولی  زریعوں سے  کا م کرتا  ہے جیسے  خشک سالی کے مُہلک نتیجہ  سے بچنے کے لئے ابرباران کو درمیانی  لاتا ہے  اور خاص  حالتوں  میں غیر معمولی  قدرت  کو درمیانی لاتا رہا ہے۔ اور نتیجوں  کو جو اپنے اپنے اسباب کے تقاضیٰ  کے موافق ہونیوالے تھے بدلتا رہا ہے۔  معجزات  اس قسم کی باتوں  میں شامل  ہیں۔  یہی  اصول اخلاقی  باتوں  میں بھی ہے۔  گناہ ایک مُہلک  مرض ہے۔ ہلاکت اسکا نتیجہ ہے۔ پس گناہ اور اسکی  سزا  میں ایسا  درمیانی  ہونا ضروری ہے جو گناہ  کی سزا کو ہمارے اوپر سے ٹال  دیوے گا ایسا  کرے کہ گناہ تو ہے مگر اُسکا نتیجہ سزا نہ رہے بلکہ نجات  سے بدل  جاوے موت سے بچانے  کے لئے  زندگی کا درمیان آنا ضروری ہے۔

امر دوم۔ مسیح درمیانی

ایک طرف قوانین  اخلاقیہ  کا تقاضی  یہہ ہے کہ ‘‘ گناہ کی مزدوری  موت ہے’’۔ اور دوسری طرف خدا کی محّبت  کا یہہ  تقاضی  ہے کہ اِنسان موت سے بچے ۔ اب کیونکر بچے اور خدا بھی راست ٹھہرے ؟ امر دل میں جو اصولی  درمیانی کا ہم نے  معلوم کیا اسکو گناہ اور اسکی سزا کے درمیان لاوے تب سزا کا تعلق درمیانی  کے ساتھ  اور نجاتکا تعلق  گناہگار  کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ قوانین  قدرت  کی یہی طرز محبت الہیٰ  نے اختیار  کی جسکی فی الواقعی  تفصیل  انجیل مقدس  میں یوں  کی گئی ہے کہ ‘‘خدا نے اپنی  محّبت ہم پر یوں  ظاہر کی کہ  جب ہم گنہگار  ٹھہرے  تھے  مسیح ہمارے بدلے  موا’’۔  ( رومیوں ۸:۵) ‘‘ خدا اور آدمیوں کے بیچ  ایک آدمی بھی درمیانی ہے وہ مسیح یسوع ہے’’۔ (ا۔ تمطاؤس ۸:۲)۔ اِن دونوں امور سے ہم جانے سکتے ہیں  کہ انسان  کی نجات قانون قدرت کے موافق  ہے۔

کنی ہو تری صاحب اپنے رسالہ باپ اور امر جیون  کے صفحہ ۶۲،  ۶۸ میں باپ اور اُسکے  سزا یعنی کفارہ کا یوں  بیان  کرتے کہ ‘‘ باپ کی اصل  سزا اور اُسکی  سزا  اور اُسکے ساتھ کشمکش اُسوقت سے  شروع ہوتی ہے جسوقت  سے پاپی پاپ جیون  سے پھر کر نئی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اُسی حالت  میں دل کے اندر ہی اندر  ایک ایسی  آگ  سُلگنی شروع  ہوتی  ہے جسکی  جلن سے دل کو بڑی  خوفناک  تکلیف پہنچتی ہے۔ اِسی دل کو جلن  سے  کو انوتاب کی آگ کہتے ہیں۔  روحانی  انو تاپ یا جلن ہی باپ کی سزا یا اُسکا اصل  کفارہ ہے۔ اولاً یہہ وہی  بات ہے جسکو  توبہ  کہا جاتا ہے۔ مگر یہہ پچھتانا  باگناہ کی سزا انہیں ہو سکتا اور نہ سزا کا عوض  کفارہ ہو سکتا ہے۔ یہہ جلن گناہ  سرزد  شدہ  کا کفارہ نہیں  ہے البتہ نیکی کرنے  اور گناہ ترک  کرنیکا اقرار  اور  اِرادہ  ہے۔ ایسی بات اُس حالت  میں کفارہ ہو سکتی ہے اگر شرع میں کچھ  تخفیف  ہو گئی ہو یا کچھ تبدیلی  ہو گئی ہو جسکی وجہ سے ایسی  رعائتیں سزا میں ہو سکیں۔ ثانیاً ۔ معلوم ہووے کہ اخلاقی  چلن کی ایسی  مختلف  قسمیں  اور متفرق درجے ہو گئے  ہیں کہ صحیح طور سے معلوم کرنا  نا ممکن ہو گیا ہے کہ کونسا آدمی پورے درجے کا نیک آدمی ہے اور  کہ کہانتک اور کس قسم کی نیکی  کرے کہ بہشت کا وارث  ہو جاوے۔اور کہانتک اور کس درجہ اور قسم کے گناہ جنّہم  میں لیجاونگے۔اِس حال میں ہماری روحانی  جلن کی  کیا حیثیت ہے۔ اور پھر ثا لثاً  خدا کی  عدالت اسقدر  بے حد راست ہے کہ انسان کو اپنی توبہ یا نیکی کے زریعہ  سے نجات کا یقین  نہیں  ہو سکتا ہے۔ شائد اسکی بے حد  راستی  کے سامنے انسان ک برُی  نیکی بھی قاصر  ہو۔ اِس حا ل میں روحانی  جلن اور توبہ وغیرہ  صرف  فرصی کفارہ  ہو گا۔  دیکھنا کہیں  دھوکھا  نہلگ جائے۔ ‘‘ جسوقت لوگ کہتے ہو نگے کہ سلامتی اور بے خطری  ہت تب  جسطرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اُنپر ناگہانی  ہلاکت آویگی اور وے نہ بچینگے۔’’ ( ۱ تسلونقییوں ۳:۵) یاد رہے  کہ آنیولی سزا کو  جانکر پچھتانے  سے کام  نہیں بنتا ۔  اس سزا کو دور  کرنیکا  تدراک ہونا چاہئے۔ اس حال میں درمیانی کیا کرے؟ جواب یہہ ہے کہ کفارہ  و دیوے۔  ہم خود  اپنی طرف سے کوئی کفارہ نہیں دے سکتے۔  اگنی ہوتری  والی  بات دھوکھے  سے بھری ہے۔ خبردار  ہو جاو۔ خدا کے قوانین  کو ہم اپنی مرضی  کے موافق نرم یا سکت نہیں کر سکتے۔

امر سوم۔ کفارہ کی ضرورت

چند باتوں  کا زکر کیا چاہتا ہوں جنسے کفارہ کی ضرورت واضح ہو گی۔

(۱)۔ دنیا کی دینی  تواریخ  اسبات کو واضح  کرتی ہے کہ لوگ عموماً کفارہ کی ضرورت کے قائل رہے ہیں ۔ نہ صرف  توریت بلکہ  دیگر دینی  کتابوں میں اور رسموں میں یہہ بات صا ف ظاہر ہے کہ  گناہوں  کیواسطے کسی نہ کسی  قسم کا کفارہ دیا جاتا تھا تاکہ  خدا یاد یوتوں کی ناراضگی دور ہو جاوے۔ اسبات کو کھوجنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم میں شروع  ہی سے کفارہ یا قربانی کی رسم رائج  رہی ہے۔ جس سے یہہ نتیجہ  حاصل  ہوتا ہے کہ  لوگوں  کو یقین  تھا کہ بغیر کفارہ  کے خدا گناہ نہیں  بخش سکتا۔انجیل ہی کفارہ کو پیش کرتی ہے۔  پس ظاہر ہےکہ ُکل دنیا کا اِس  بات پر اتفاق رہا ہے  گناہ کی سزا  سے بچنے  کے لئے کفارہ  ضروری ہے۔

(۲)۔ انسان کی اخلاقی حالت اور خدا  کی اخلاقی حکومت  کے رو سے  کفارہ  کی ضرورت  کے لئے  یہہ بات  عیاں  ہے کہ اگر عدولی شرع کی سزا  دیجاتی  تو لوگ ایسی  اخلاقی  بغاوت  سے باز  رہتے۔ لیکن سزاؤں  کے زریعہ سے دل مغلوب  نہیں  ہوتا  خدا  کا خوف  ضرور  ہو جاتا ہے  جیسا شیاطین کو بھی  ہے لیکن خدا کیطرف  محّبت  بالکل نہ ہوتی۔ پس  تاکہ  گناہگار  خدا سے محّبت  رکھیں  یہہ ضروری  تھا کہ  خدا  پہلے  اُنسے  محبت دکھلاوے۔ اور محّبت  کا ظہور عدالت  کے ہوتے ہوئے بدون کفارہ  کے نہیں ہو سکتا ہے۔  اور پھر اگر  شیروں کو بالکل نیست و نابود  کر دیوے تو حکومت  الہی قائم  نہیں  رہتی۔  اور محّبت  کا سارا  ظہور ضائع  ہو جاتا ہے۔ مگر یہہ ضروری امر تھا کہ  خدا کی حکومت  قائم  رہے  اور گناہ  بھی روکا  جاوے۔  اسبات  کی واقعی  نظیر  ہےکہ سزا  گناہ کو روک نہ سکی نہ اس دنیا  مین اور نہ کہیں اَزر۔ پس یہہ دونوں  امور  کفارہ  ہی سے حاصل  ہو سکتے ہیں۔

(۳)۔ شریعت  کے ضروری  تقاضی  کے ہوتے  ہوئے  اگر گناہگار  کو یونہی  بخشا  جاوے  جیسا اگنیؔ  ہوتری  صاحب کا منشا ہے تو اس سے ظاہر یہہ ہو گا کہ گناہ  خدا کی نظر میں چنداں  برُی  چیز نہیں ہے  اور عدولی کی سزا  بھی  لازمی  نہیں ہے ورنہ یہہ رعائت  نہ کی جاتی مگر کفارہ  خدا کو اِس الزاموں  سے بری رکھتا ہے۔

(۴)۔ انتظام الہیٰ کے اِن  غیر زائل  تقاضوںں کے موافق انجیل مقدس کا اظہار یہہ ہے۔ ‘‘اسلئے کہ جو شریعت سے جسم کی کمزوری کے سبب نہو ہوسکا سو خدا سے ہوا کہ اُسنے اپنے بیٹے  کو گناہگار  جسم کی صورت  میں گناہ  کے سبب بھیجکر گناہ پر جسم  میں سزا کا حکم کیا’’۔ (رومیوں ۳:۸) ‘‘ اسلئے کہ سبہوں نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم  ہیں۔ سو وے  اسکے فضل  سے اُس  مخلصی  کے سبب جو مسیح یسوع  سے ہے مفُت  راستباز گنےجاتے ہیں  جسے خدا نے پیش کیاکہ ایک کفارہ ہووے۔ الخ (رومیوں۳: ۲۳۔ ۲۵) جب معلوم ہو گیا کہ درمیانی  کو ضرور ہے کہ گناہگار کی نجات کے لئے کفارہ  دیوے تو اب سوال  یہہ ہے کہ کفارہ میں کیا دیوے؟ جس کا جواب یہہ ہے کہ شریعت  کا تقاضی  یہہ ہے کہ ‘‘ گناہ کی مزدوری موت ہے’’۔ پس ضرور ہے کہ وہ درمیانی  گناہ کی سزا  یعنی موت بھوگے۔‘‘بغیر لہو بہائے معافی نہیں ہوتی۔’’ ( عبرانیوں ۹:۲۲)۔

دفعہ ۳أ کفارۂ مسیح

واضع ہو کہ کفارہؔ کی بابت  توریت میں یوں  لکھا ہے کہ اپنی خطا کی قربانی  اور اپنی  سوختنی  قربانی  گزران اور  اپنے  لئے اور قوم کے لئے کفارہ دے (احبار ۹:۷ اس کے لئے عبرانی  لفظ  کو قرؔ ہے اور اسکے  معنے ہیں  ڈھاؔپنا۔ مطلب  اِس سے یہہ ہے کہ قربانی سے گناہ  ڈھانپا جاتا ہے۔ اِس مطلب  کو ادا کر نیکے لئے کئی الفاظ  انجیل مقدس میں استعمال  کئے گئے ہین۔ مثلاً جب  گناہ کو خدا اور انسان کی رفاقت کا توڑنے والا کہا گیا تو کفارۂ  مسیحؔ کو ملاپ  کروانے والا بیان کیا گیا ہے۔ ( رومیوں ۵: ۱۱) جب انسان کو گناہ کے سب  گناہ کی اور شیطان  کی غلامی  میں سمجھا گیا  ہے تو مسیح کی موت  کو فدیہؔ  یا قیمت کہا گیا ہے۔ (۱۔ قرنتیوں۶: ۲۰ ۔ اور  تمطاؤس  ۲: ۶) جب گناہ ایک بوجھ سمجھا گیا ہے  رو مسیح کی موت اس بوجھ  کو اٹھا نیوالی  کہی گئی ہے ( عبرانیوں ۹: ۲۸) جب گناہ ایک  پلیدگی  یا ناپاکی کہا گیا  ہے تو  مسیح کا خون اِس  ناپاکی سے پاک  کر نیوالا بیان کیا گیا ہے۔  ( ا۔ یوحنا ۱: ۷)  غرضکہ یہہ سب مسیح کے کفارہ میں شامل  ہیں۔  ان سے کفارہ کا مقصد  طرح بطرح  بیان کیا گیا ہے۔ اور مسیح کے کفارہ  میں کفارہ کا اصل  مطلب ڈھانپنے کا یعنے گناہوں کو ڈھانپنے  کا قائم  رہتا ہے۔ 

اسکے علاوہ یہہ بھی  یاد رہے  کہ ہر قسم  کی دینی  رسم  جو خدایا  دیوتوں  کو خوش کرنے کے کئے کی جاتی ہے اسکو کفارہ یا عوض کہا جا سکتا ہے۔  عبادت خواہ  کسی قسم کی ہو لوگ اس کے زریعہ  سے گناہوں  کی سزا سے بچنے کی توقع رکھتے ہیں۔  قربانی خواہ اونٹ یا گائے  یا گھوڑے  یا بکری  یا انسان کی ہو اِس سے بھی یہی اُمید رکھی جاتی تھی  اور اب بھی رکھی جاتی ہے۔ لیکن اِن کفاروں پر لوگوں کا پورا اور یکساں یقین نہیں رہا ہے۔ تاہم  غور طلب  امر  یہہ ہے کہ جس حال  میں گناہ  کی سزا سے بچنے  کے لئے  کفارہ ضروری  ہے تو معلوم  کریں کہ وہ کونسا کفارہ ہے اور وہ کفارہ کیسا  ہونا چاہئے۔ ہر چیز یا خیال تو وہ کفارپ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ وہ درمیانی  جو سبب کے لازمی نتیجہ کو بدل سکے ضرور  ہے کہ اس میں یہہ خوبی اور تو فیق ہووے  جو ایسا کر سکے۔ مثلاً پانی میں ڈوبنے  سے بچنے  کے لئے  پانی پر چادر بچھا کر نہیں بیٹھتے۔ نہ پتھر پر سوار ہوتے ہین لیکن جہاز اور کشتیاں درمیان  لاتے ہیں۔ بھوکہہ ہٹانے  یا بھوکہہ کے مارے  مرجانے سے بچنے کے لئے مٹی یس لکڑی وگیرہ پر گزران نہیں کر سکتے۔ نباتات  یا گوشت وغیرہ  استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور ایسا نہ کرنا  خلاف  قدرت ہو گا اور بجائے اسکے کہ پانی یس بھوکہہ سے بچیں  ہلاکت زیادہ  یقینی ہو گی۔  اسیطرح ہمکو جاننا چاہئے کہ ناقص  اور  کمزور زریعوں  سے  ہمارے گناہونکا  کفارہ نہیں ہو سکتا۔ اسبات کے لئے کہ جانوروں میں خواہ  وہ کنعاؔن میں قربانی کئے جاویں  اور خواہ  ہندوستانؔ میں  یہہ توفیق اور خوبی  نہیں ہے کہ ہمارے گناہوں  کاکفارہ  ہو سکیں  پولوس رسول کا خط  عبرانیوں کو غور سے پڑھنا چاہئے۔ خصوصاً  باب ۹  آیت ۱۰۔ ۱۴۔اسیطرح مکہّؔ  اور گنگا جسمانی چیزیں ہیں  اور ہماری  روحانی  سزا کو دور نہیں کر سکتے۔ دونوں میں کچھ  نسبت ہی نہیں ہے۔ اور کلمہؔ اور گائتری  جو صرف  لفظ تکرار ہیں  کو ئی  واقعی  کفارہ  ہمارے گناہوں  کا نہیں  ہیں۔ اور نہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ان میں  کوئی  زاتی  خوبی  نہیں ہے۔ اور حقیقت  میں جب  انسان اخلاقی قوانین کے تقاضیٰ اور اُس کی سزا کو سمجھتا  اور فکر کرتا ہے تو  ایسی  باتوں  پر اسکا یقین قائم  بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی گمرہیوں  سے بچانے  کے لئے  خدا نے اپنا کلام  یعنے  انجیل بخشی ہے۔ اور اُسمیں سبہوں کو ایک کفارہ  بتلایا ہے۔ جس میں یہہ  خوبی اور توفیق  تھی کہ گناہوں کا کفارہ  ہو سکے۔ اور وہ مسیحؔ خداوند  ہے۔  اب پیشتر اِس سے کہ  اِس واقعی  کفارہ کا زکر کیا جاوے یہہ معلوم کرنا  ضروری ہے۔ کہ مسیح میں کیا خوبی اور قدرت تھی جسکے سبب وہ ہمارا  درمیانی  یا کفارہ  ہو سکتا تھا۔

امر اول مسیح کی ذاتی  عظمت  اور قدرت

(جب آنخداوند مسیح  نے اِس  دنیا میں ظہور فرمایا۔)

اس سے پہلے جو کچھ انبیاء سابقیں نے اُن کی شان میں پیشین گوئی کے طور پر لکھا تھا اسکو یہاں نقل کرنے سے کلام طول ہوتا ہے اسلئے  جو کچھ انجیل میں اُنکی  زاتی  عظمت  اور قدرت کی نسبت بیان کیا گیا وہی پیش  کیا جاتا  ہے۔ چنانچہ  اسبات  کو ظاہر کرنیکے لئے  خداوند نے خود  شاگردوں سے پوچھا  کہ ‘‘ لو گ کیا کہتے ہیں کہ میں  جو ابن آدم ہوں  کون ہوں؟’’ اور اس  جواب کو کہ  تو مسیح  زندہ خدا کا بیٹا ہے’’ درست کہا۔ ( متی باب ۱۶) اب مسیح  کی زاتی منزلت  ہم دو صورتوں  میں معلوم کرتے ہیں۔ ایک اسکی الوہیت میں اور  دوسرے  اسکی انسانیت  میں۔ کسی بشر یا شے میں یہہ باتیں موجود نہین ہیں اور نہ کبھی  ہوئیں۔ اور وہ چیزیں  جسکو لوگ مانتے  ہیں اُن میں تو محض انسانیت والی فضیلت بھی نہیں ہے۔

مسیح کا نام یسعیاہؔ نبی عجیب ؔ لکھتا ہے(۶:۹) اور مسیح کی کیفیت عجیب کو ایک بھید کر کے لکھا ہے کہ  ‘‘ با لا تفاق  دینداری  کا بڑا بھید ہے یعنی خدا جسم مین ظاہر کیا گیا ہے’’۔(۱۔تمطاؤس ۱۶:۳) اس بات کو یوحنا رسول  لکھتا ہے کہ  ‘‘کلام مجسم ہوا’’۔ یہہ وہی بات ہے جو رسول نے دوسری جگہہ یوں  بیان کی ہے کہ‘‘ الوہیت کا سارا کمال اسمیں مجسم  ہو رہا’’ ( قلسیوں ۹:۲) اور اسبات  کو مسیح خداوند  نے اپنے حق میں یوں  بیان کیا تھا ‘‘ میںؔ اور باپ ایک ہیں’’۔ (یوحنا ۱۰: ۳۰) ‘‘باپ جو مجھ ؔمیں رہتا  ہے وہ یہہ کام کرتا ہے’’ (۱۴:۱۰) اس الہیٰ منزلت کے لائق ویسا ہی  پاکیزہ جسم تیار کیا گیا۔  اور وہ بھی ایک اعلی طور سے۔ ( لوقا  ۱:۳۵) ۔ وہ (یعنے بیٹا)  اسکے (خدا کے) جلال کی رونق اور اسکی ماہیت کا نقش  ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کام سے سمجھالتا ہے۔ وہ آپ سے ہمارے گناہوں کو پاک  کر کے  بلندی پر  جناب عالی کے دہنے جا بیٹھا (عبرانیوں ۱: ۳) اِس بیان سے مسیح  کی زاتی  منزلت  اور قدرت اور اِس کی وجہ سے اسکا کام صاف طاہر کیا گیا ہے  یہہ سارا  انتظام  اسی لئے کیا گیا کہ مسیح کے کفارہ مین اس قابلیت کو پیش کرتا ہے کہ‘‘  کتنا زیادہ مسیح کا لہوؔ جسنے بےعیبؔ  ہو کے  ابدی  روح کے وسیلے  آپ کو خدا کے سامنےقربانی گزرانا تمھارے دلون اور عقلوں کو  مرُدہ کاموں  سے پاک کریگا  کہ تم زندہ خدا کی عبادت کرو۔’’ (عبرانیوں ۱۴:۹)

اس سے دو اعتراض دور ہوتے ہیں ۔ ایک یہہ کہ اگر کہا جاوے  کہ محض  ایک آدمی  گناہونکا  کفارہ نہیں ہو  سکتا تو یہہ ناممکن  امر  ممکن کیا گیا کہ ‘‘کلام مجسم ہوا’’۔  یعنے ‘‘خدائی  کا سارا  کمال مجسم  ہوا’’۔ اور اگر کہا  جائے  کہ خدا دُکھ  نہیں اُٹھا سکتا اور نہ مر سکتا ہے تو  اسی  حادثہ کو بر داشت  کرنیکے لئے ایک جسم تیار کیا گیا ۔ اور یوں مسیح میں الوہیت اور انسانیت پاک ہونیکی وجہ سے وہ کفارہ دینے کے لئے ہر طرح قابل ٹھہرتا ہے۔ اب زیل میں اِس کفارہ  کا بیان آتا ہے  جس سے گناہگاروں  کی نجات ہو گئی ہے۔

امر دوم ۔ کفارۂ مبارک

(بغیر لہو بہائے معافی نہیں ہوتی)

اِسی لِئے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قُربانی اور نذر کو پسند نہ کِیا ۔ بلکہ میرے لِئے ایک بدن تیّار کِیا۔ پُوری سوختنی قُربانِیوں اور گُناہ کی قُربانِیوں سے تُو خُوش نہ ہُؤا۔ اُس وقت مَیں نے کہا کہ دیکھ! مَیں آیا ہُوں۔ (کِتاب کے ورقوں میں میری نِسبت لِکھا ہُؤا ہے) تاکہ اَے خُدا! تیری مرضی پُوری کرُوں۔’’ (عبرانیوں ۱۰: ۵۔۷)۔ اور بموجب اسکے ابن آدم آیا تاکہ ‘‘ خدمت کر اور اپنی جان بہتیروں کے لئے فدیہ میں دے۔’’ (متی ۲۸:۲۰) اور وہ کار عظیم یوں وقوع میں آیا کہ۔

نویں گھنٹے کے قریب یسوع نے بڑے شور سے چلاّ کر کہا ایلی ایلی لما سب سبقتانی!یعنے! اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا ؟ پھر یسوع نے کہا۔ پوُرا ہوا اور سر جُھکا کے جان دی (متی ۲۶:۲۷۔ یوحنا ۳۰:۱۹)

مسیح کی موت شہیدوں کی سی موت نہ تھی  جو اپنے ایمان کی شہادت  اور ازاں موجب اُمید عقبی کے لئے  مرتے ہیں۔ مسیح کی موت اُن لوگوں کی سی موت نہ تھی  جو حُبِ وطنی  کے لئے مرتے ہیں۔ اور نہ اُسکی موت محض  اسواسطے تھی کہ اپنی نیک  تعلیم کی صداقت پر گواہی دے۔ مسیح  کی موت اِس سب  باتوں کو شامل کرتی ہے ۔  اور ان سب سے اول اسبات کو کہ انسان کی نجات  ہو جائے۔ اور کہ اسکی موت میں یہہ خوصوصیت  تھی مسیح کی کے قول منقولہ بالا سے اور رسولوں کے اقوال سے ظاہر ہے۔ پطرس ۲۴:۲ ۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر اُٹھا کے صلیب  پر چڑھ گیا وغیرہ۔ رومیوں۸:۵، ۹ خدا نے اپنی محبت  ہمپر  یوں ظاہر  کی کہ جب ہم گناہگار ٹھہر ے  تھے مسیح ہمارے واسطے  مواد وغیرہ ۔ دیگر تکیفات  اسکی موت کے  متعلق  اتفاقیہ باتیں تھیں  اور وہ بھی اسکو سنہی  پڑیں مگر گناہوں کا کفارہ فقط اسکی موت تھی۔

(۲)۔ معلوم ہووے کہ مسیح  خداوند  میں ایسی شان اور قدرت اسلئے موجود ہوئیں کہ ایسے عظیم الشان کی موت بیحدؔ گران بہا ہو جاوے تاکہ گناہگاروں  کی سزا یعنے ہمیشہؔ کے عذاب  کے بدلے میں فدیہ ہو سکے۔ ورنہ یہہ ہوتا کہ کفارہ دینے والا  ہمیشہ کے عزاب  میں گرفتار رہتا ۔  مگر  مسیح کی عظمت  اور قدرت  کی وجہ  سے کچھ  ضرور  نہ تھا کہ وہ ابدی عذاب  بھوگتا رہتا۔ اور اس حال  میں ہمیں  اتنا ہی جاننا اور ماننا کافی ہے کہ مسیح کی موت ہمارے گناہوں  کا کافی کفارہ ہے۔ ہاں ہماری نجات  کے لئے شافی قدرت ہے۔

اسکے ساتھ یہہ بھی جاننا چاہئےکہ مسیح کا کفارہ  عموماً عدالت کے تقاضیٰ کو پورا کرنے کے لئے  تھا تاکہ رحمت یا فضل کے لئے جگہہ ہو اور یہہ نہیں کہ ہر ایک گناہگار اب سزا نہیں پا سکتا۔ یعنے گناہگاروں  پر  سزا اب نہیں پا سکتا۔ یعنے گناہگاروں پر سزا اب نھی  ویسی ہی واجب ہے جیسے بغیر کفارہ کے ہوتی اگر وہ کفارۂ مسیح پر ایمان نہ لاویں ۔ پھر اسکو سمجھو کہ انتظام الہیٰ کا تقاضیٰ یہہ ہئ کہ قانوں کی پیروی درستی کت ساتھ ہووے۔ اور ہر ایککے لئے اس سے خوشی اور فائدہ حاصل ہووے ( اسبات کا ہم پہلے  بیان کر چکے ہیں) اب چونکہ اس قانون کے تقاضیٰ  کے برخلاف انتظام  مطلوبہ  میں قصور واقع ہوا اسلئے  عدالت  کا یہہ تقاضیٰ  ہوا کہ شریعت کا فتویٰ  ہر ایک عدول کرنے والے پر وار کیا جاوے اور یا اُن کے بدلے کفارہ دیا جاوے  تاکہ سزا سے بچ  سکیں۔ ظاہر  ہے کہ سزا کی نسبت کفارہ میں  سلامتی تھی۔ اور اسلئے کفارہ دیا گیا کہ انسان کے لئے زندگی  اور خوشی ممکن  ہو جاوے۔ اور یہی باعث ہے کہ اگر کو ئی کفارہ مسیح سے بے ایمان رہے تو وہ عدالت کے تقاضیٰ کے تحت میں رہتا ہے ۔ اور جو ایمان لاتے ہیں وہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث  ہوتے ہین۔ مسیھ کے کفارہ کا یہہ منشا ہم رومیوں  ۳: ۲۳۔ ۲۶۔ میں مندرج  پاتے ہیں۔ اسلئے  کہ سبہوں نے گناہ کیا اور خدا کی کے جلال سے محروم ہیں ۔ ہووے اسکےفضلؔ سے اُس مخلصی کے سبب جو یسوع مسیح سے ہے مفت  راستباز گنے جاتے ہیں۔ جسے خدا نے پیش کیا کہ ایک کفارہ  ہو  جو اسکے لہو  ا پر ایمان لانے سے کام آوے ۔ تاکہ وہ اپنی راستی اگلے وقت کے گناہوں  سے  صبر الہیٰ کے باعث طرح دینے میں ظاہر کرے۔ اور اِس وقت  کی بابت بھی  اپنی راستی ظاہر کرے  تاکہ وہ  آپ ہی راسؔت ہے اور اُسے جو یسوع پر ایمان  لاوے راستباز ٹھہر اوے‘‘۔ غرضکہ خدا نے اگلے وقت اور اس  وقت میں اپنی راستی ظاہر کرنے کے لئے کفارہ دلوایا۔ اور اِس کفارہ پر ایمان لانے والے  ہی راستباز  ٹھہر سکتے ہیں اور دوسرے  جیسے کے تیسے گناہگار اور غضب  کے فرزند  رہتے ہیں۔ اسکے مطابق خداوند مسیح  نے خود فرمایا تھا دیکھو انجیل  یوحنا  ۳: ۱۶۔ ۱۹۔ اسمیں دونوں باتیں  آگئیں کہ کفارہ سب کے لئے ہوا اور یہہ بھی کہ بر گزیدوں کے لئے ہوا تھا۔ بھائیو شکر اور فکر کی جاہے۔

(۳)۔ پھر خیال رہے کہ مسیح کا کفارہ  اسبات میں نہیں ہے کہ اُسنے گناہگاروں کے بدلے شرع اخلاقی کی فرمانبرداری کردی ایسا کہ اب ہم سے اُسکی فرمانبرداری  مطلوب نہیں ہے۔ بعضے ایسا خیال  کرتے ہیں اور مخالف  اسکو طنزاً اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ مگر یہہ خیال کلام الہیٰ کے برخلاف ہے۔  سو واضح ہو کہ شرع اخلاقی پر عمل کرنا کدا اور انسان دونوں  پر واجب  ہے۔ اور ایسا ہی  مسیح پر بھی واجب تھا۔  سو اگر اُسنے شرع اخلاقی  کی فرمانبرداری کی تو اپنے واسطے کی نہ ہمارے عوض میں۔ اور پھر اگر مسیح کی فرمانبرداری ہمارے بدلے تھی تو پھر وہ خود  لوگوں کو اور خصوصاً  اپنے ایمانداروں کو اسکی اطاعت  کی تاکید کیوں فرماتا ہے۔  اور پھر مسیح  کو کیوں موت دیکھنی پڑی جبکہ اُسنے ہمارے بدلے  نیکی کر دی تھی۔ ایسا خیال انسان کو کل واجبات سے سبکدوش کرتا ہے۔ مگر کفارہ مسیح کا  یہہ منشا نہیں تھا۔  بلکہ کفارہ کے سبب یہہ بات اور بھی واجب ہو گئی کہ ’’ ہم اس سے محبت رکھتے ہیں اسلئے کہ پہلے اُسنے ہم سے محبت رکھی۔ اے پیارو جب کہ خدا نے ہم سے ایسی  محبت  رکھی تو لازم ہے کہ ہم بھی  ایک دوسرے سے محبت  رکھیں‘‘۔ ( یوحنا ۴: ۱۹، ۱۱) اب اُمید ہے کہ ناظرین سمجھ جائینگے کہ کفارہ کسبات مین ہے۔ اور کنکے لئے ہے۔

امرّسوم۔ کفارۂ  مسیح کا فائدہ

مسیح کے کفارۂ  کی قدر اُن  فائدوں کے سبب سے ازحد واجبی ہے جو اس سے حاصل  ہوتے ہیں۔ کفارہ کی قابلیّت  صرف اسبات مین نہیں ہے اِسکے  زریعہ سے  راہ نجات  کھل گئی ہے بلکہ  اسبات میں بھی  ہے کہ وہ اخلاقی قدرت ہے یعنے اس میں نیکی اور خوشی کی افزائش کے لئے قوی  ترغیب  ہے اُس میں یہہ ذور ہے کہ انسان کی مرضی  کو نیکی  کی طرف مائل  کرے اور وہ اسطرح  سے کہ کفارۂ  مسیح  راستی اور محبت کا نمونہ  ہے۔ اور نمونہ میں برا  زور ہوتا ہے۔ صلاح  اور نصیحت  اور تعزیر میں بھی زور  تو ہے مگر نمونہ  میں سب سے بڑھکر قدرت اور تاثیر  ہے تاکہ اِنسان کی طبیعت  کو نیکی کی طرف  پھیرے ۔ اگر بڑوں  کا نمونہ چھوٹوں  کے لئے اور نیکو نکا  نمونہ بدوں  کے لئے  کار گر ہے تو خدا کا نمونہ عالم میں  سب سے  زیادہ  اخلاقی  تاثیر  رکھتا ہے۔ خدا کے کلام  اور احکام  اور دھمکیوں  اور وعدوں  میں قدرت  تو ہے۔ مگر اسکا نمونہ اِن سے بڑھکر  زور رکھتا ہے۔ 

اب ایک دوسرے سے بھلا کرنا  نیکی  ہے۔ اور خدا سے  سب یہہ نیکی طلب کرتا ہے۔ جو نیکی نہ کریں  اُنکو سزا کے لائق  قرار دیتا  ہے ۔ جو نیکی نہ کریں اُنکو سزا کے لائق قرار دتیا ہے اور جو کریں اُنسے  ہمیشہ  کی زندگی کا وعدہ کرتا ہے ۔ لیکن اس امر میں اسکا  اپنا نمونہ  محبت  کا جو اُسنے کفارہ میں دکھ  لایا ہے سب سے قوی اخلاقی  تاثیر رکھتا ہے۔ چنانچہ یہہ نمونہ پیش  بھی کیا گیا ہے۔ ’’ اے پیارو  جبکہ خدا نے ہم سے ایسی  محبت رکھی  تو لازم  ہے کہ ہم بھی  ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔‘‘ ( ۱۔ یوحنا ۴: ۱۱ ) یعنے کدا نے کفارہ سے انتظام اخلاقیہ کی غرض کو قائم رکھا بلکہ اسکو لازمی ثابت کیا کہ انسان  نیکی کرے اور خوشی حاصل کرے۔ پس عالم میں سب سے قوی  چیز جو انسان کو نیکی کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ وہ کفارہ ٔ مسیح ہے اور اُس سے دو گونہ  فائدہ حاصل ہے۔ ایک یہہ کہ گناہگاروں  کے لئے نجات ممکن  ہو جاوے۔ دوسرے  یہہ کہ  نیکی کرنے اور ازاں  موجب خوشی  اور ارام حاصل اور ارام حاصل کرنے کے لئے قوی موجب  اور ترغیب ملجاوے۔ اسلئے  مسیحؔ انسان کے لئے شافی قدرت ہے کہ نہ صرف  گناہ کی سزا سے بچاتا  بلکہ گناہ سے پاک بھی کرتا  ہے۔ اے گناہگارو! اور کیا چاہئے؟ اور مسیحی بھائی جانین کہ کیوں خداوند اپنے ایمانداروں سے فقہیوں اور فر یسیوں۔ ہندؤں اور محمدیوں کی راستبازی سے زیادہ  طلب کرتا ہے۔ روحانی  زندگی اور نئے  جنم کی کیوں تاکید  کرتا ہے۔ ہاں ہر ایک آدمی جانے کہ مجھ پر کیا فرض  ہے۔

دفعہ ۴۔ ہمیشہ کی زندگی

("ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ وہ تجھکو اکیلا سچا  خدا اور یسوع مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہے جانیں‘‘۔ یو حنا ۱۷: ۳ )

اس عنوان کے تحت میں یہہ واضح  کیا چاہتا ہوں کہ بغیر خداوند  کے روحانی  زندگی اور ہمیشہ کی زندگی ناممکن  ہے۔ یہی امر ہے جسکی تحصیل  کے لئے کفارہ ٔ مسیح  کا انتظام  کیا گیا تھا اور مسیح  کے کفارہ کی تاثیر کو سمجھنے کے لئے ضروری  ہے کہ ہم جانیں کہ ہمیشہ کی زندگی کیا ہے۔  اِس دنیاوی زندگی کے لئے  انسان کتنا فکر کرتا ہے اور اسکے قیام کی کیا کیا تدبیریں سوچتا  ہے تو  ہمیشہ کی زندگی کی زندگی کسقدت سوچ و فکر  کی متقاضی ہے  اور لوگ  اِسی کی نسبت زیادہ  تر بے فکر رہتے ہیں بعضے  تو اسبات کو مانتے ہی نہیں ۔ بعضے  جون بدلنا اور بعضے ناس ہو جانا مانے بیٹھے  ہیں۔ مدتوں سے اکیلے  دینؔ عیسوی کی یہہ آواز ہے  کہ ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ تجھکو اکیلا سچاّ خدا اور یسوع مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہو جانیں۔ گناہگار نیچری انسان  کے لئے  خوشی کی خبر ہے کہ دین کی اِس دلیل  کے لئے  سائنس کی گواہی بھی ظاہر ہوئی ہے۔ اور زیل  میں کمترین  پر وفیسر  ہنری ڈرمنڈ  (ایف۔ جی۔ ایس۔ ایف ۔ ار۔ ایس۔ ای  )  کی کتاب  ’’  نیچرل لاء  ان دی  سپیرچل ورلڈ‘‘ سے اِس مضمون کا اختصار اور ترجمہ پیش کرتا  ہے۔ ناظرین غور  فرماویں۔

ابتک مسیحی فلاسفر نیستی  کے برخلاف عملی ثبوت پر صابر  رہا ہے۔ یا کہ ٹیلر صاحب  کے ساتھ اُسنے کیڑوں مکوڑوں  کی تبدیلی  صورت سے آئندہ زندگی کی دلیل نکالی ہے۔ اور یالاآف ؔ  کانٹی ینونٹیؔ  کی بناپر مکمل  اور موچر دلائیل  قائم کئے ہیں۔ اور اب پہلی بار  ہی کہ سائینس  بقا  کی تعلیم  میں دیں  عیسویؔ  کے ساتھ  صریح  اتفاق دکھاتا ہے۔ وہ ہمارے سامنے ہمیشہ  کی زندگی  کی ایک  واقعی تعریف  پیش کرتا ہے جو اُسکی لازمی شرطوں کی پوری  اور صحیح  تفتیش  پر مبنی ہے  سائنیس دعویٰ  نہیں کرتا کہ وہ اُن شرطوں کو پورا  کر سکتا ہے۔ اسکے پیرؤ ہمیشہ کی زندگی کے قابض ہونیکا دعویٰ  نہیں کرتے۔  وہ ہمیشہ کی زندگی کی صرف ضروری شرائط  کا تقاضیٰ  کرتا ہے۔ اور اِس بات سے سروکار نہیں  رکھتا کہ کوئی قدرتی وجود ایسا ہوگا  یا کہ ہےجو ہمیشہ کی زندگی  رکھتا ہے۔ اور وہ سوال جو ہم نے حل کرنا ہے یہہ ہے کہ وہ ہمیشہ  کی زندگی  رکھنے کا دعویٰ  کرتے ہیں کیا وے اُن شرطوں کو پورا کرتے ہیں جو سائنیس طلب  کر تا ہے۔ یاکہ وہ شرائط کچھ اور مین؟ خلاصہ یہ کہ ہمیشہ کی زندگی کا مسیحی  خیال سائنیس  کے مطابق ہے یا نہیں۔

مسٹر ہر برٹ ؔ سپین سر دجسنے کچھ مذہب کے لحاظ  سے ہمیشہ کی زندگی کی تعریف  نہین کی ، نہایت  ہوشیاری  سے  محیطؔ اور زندگیؔ ( انویرمنٹ اینڈ لائف) کی تشریح  کرتا ہے وہ اُس اصول کو ظاہر کرتا ہے جسکے بموجب زندگی اعلیٰ یا ادنیٰ دراذیا کوتہ ہوئی ہے۔ وہ دکھلاتا ہے قدرتی وجود کیوں  جیتے مرجاتے ہیں۔ اور آخر اُس شرط  کا بیان کرتا  ہے  جس میں کوئی وجود کبھی نہیں مریگا۔ جس میں وہ ایک دائمی اور کامل زندگی رکھیگا۔ البتہ یہہ اسکے لئے صرف ایک خیال ہے۔ ہمیشہ کی زندگی بائی آلوجی  ( یعنے  علم زندگی) کاایک وہم ہے۔ کیونکہ وہ شرائط جو ہمیشہ  کی زندگی کے لئے ضروری ہین اِس نیچری  دنیا مین موجود نہیں ہیں۔ 

مسٹر سپین سرَ صاحب کا بیان پیش  کرنے سے پہلے اگر ہم بائیؔ آلوجی کی چند سادہ حقیقتوں  کازکر کر کے اُس بیان تک رفتہ رفتہ پہُنچیں تو وہ زیادہ سمجھ مین آسکیگا یعنے اُن حقیقتوں  کا جنپر وہ بیان مبنی ہے۔ اِس سے پہلے ہم نے موتؔ کے مضمون پر غور  کرتے ہوئے  معلوم کیا کہ زندگی کے درجےؔ ہیں۔ اُس سے مراد یہہ ہے کہ بعض زندگیوں  کا محیطؔ  (انوئیر منٹ)  کے ساتھ زیادہ  اور پورا تعلق ہے  بہ نسبت اَوروں کے۔ اور پھر تعلق کا مقدار خلقی ِ ترکیب  کی زیادہ  یا کم  پیچیدگی کی وجہ سے  ٹھہرایا  ہوا ہے۔ مثلاً  اموئیؔ  با  (ایک جانور ہے ) جیسی سادہ بناوٹ والا وجود بہت  ہی تھوڑے تعلق رکھتا ہے۔ یعنے وہ صرف ایک شفاف  بے وضع لعاب کا تھیلا ہے۔ جسکے لئے قدرتی ترکیب نے کچھ نہیں کیا اور اس لئے وہ محیط  کے نہایت  چھوٹےحصے  سے تعلق یا رشتہ  رکھ سکتا ہے۔ لیکن ایک  کیڑا بہ سبب اپی زیادہ تر پیچدہ  بناوٹ  کے زیادہ تر وسیع حصہ کے ساتھ رشتہ رکھتا ہے۔ قدرت نے اسکو کئی  طرفوں سے محیط  کو پُہنچنےکے  لئے خاص  طاقتیں دی ہیں۔ اس میں اموئیؔ با کی نسبت زیادہ  زندگی ہے۔ اَور لفظوں  میں یہہ کہ وہ اعلیٰ  جانور ہے۔ پھر انسان کے جسم کے مختلف  قسم کے تعلقات  ہیں۔ وہ اپنے  گھیروں  کے ساتھ زیادہ  تر وسیع  رشتہ رکھتا ہے۔ اور اسلئے وہ زیادہ  اعلیی ہے۔ زیادہ جنیے  والا ہے ۔ اور یہہ قانون کہ زندگی  کا درجہ اُسی قسم کا ہوتا ہے۔ جیسا اُسکے تعلقات  کا درجہ  ہوتا ہے۔ جاندار چیزوں  کے سارے سلسلہ  میں سے  چھوٹی  چیز پر بھی عائد  ہوتا ہے۔

ہم معلوم کر ینگے کہ پیچیدگی  اور عمر درازی میں ایک خاص رشتہ  ہے  اور اسکا ہونا  ضروری ہے۔ جبکہ موت اس حال میں  آتی ہے  جب محیط میں کوئی تبدیلی  ہو  اور قدرتی بناوٹ  اپنے تئیں  اِس تبدیلی کے مطابق  کرنے میں عاجز  اُجائے  تو اِس  سے یہہ نتیجہ  حاصل ہوتا ہے کہ وہ  وجود  جو اپنے  تئیں  جلدی اور کامیابی کے ساتھ مطابق کر سکتے  ہیں  وہ زیادہ  دیر تک  جئینگے ۔ مثلاً ہر ایک حیوان کی محیطؔ میں بعض  چیزیں  جو صراحتاً  یا اشارتاً  زندگی کے لئے  نقصان کا باعث  ہیں۔  اگر اسکے تعلقات کا سامان  اسقدر پورا نہیں ہے کہ ہر ممکن حالت  میں اُن خطروں  کو باز رکھے  تو ضرور  ہے کہ فوراً  یا کچھ دیر میں وہ زیر ہو جاوے۔ پس وہ وجود جنکے تعلقات کا  سامان  پورا ہے یعنے نہایت اعلی اور نہایت  پیچیدہ  بناوٹ  جو کم پیچیدہ  صورتوں  پر ظاہر  افوقیت رکھتی ہے وہ اپنے تئیں زیادہ تر کامل طور سے اور اکثر  بار خطروں  کے مطابق  کر سکتی ہے۔ یعنے زیادہ جی سکتی ہے۔

اِس بیان  کو اُلٹانے سے یہہ بات زیادہ صاف  ہو جائیگی کہ جسقدر  حیوان  کی  اعلیٰ ترکیب  کم ہے اُسیقدر  اُسکو  اپنی محُیط  کے  ساتھ طول عرصہ تک  رشتہ رکھنے  کا کم موقعہ ہو گا۔  اُسکی زندگی کے زمانہ  میں کسی  نہ کسی  وقت ایسی  حالات  ضرور  واقعہ ہونگے جنکے ساتھ اسکی نا بڑھنے  والی  ترکیب  اپنے تئیں  مطابق  نہیں  کر سکتی۔ چنانچہ  میڈؔوسئ جو پانی  کی لہر کے زریعہ سے کنارے  پر آپڑے وہ اُس  نئی محُیط  کے ساتھ اپنے تئیں  ایسا بے تعلق  تاپا  ہے کہ  اُسکو اپنی جان گنوانی پڑے گی۔ اگر وہ اندرونی  تبدیلی  سے اپنے تئیں  بیرونی  تبدیلی  کے مطابق  کرنے کے قابل  ہوتا یعنے نئے محیط  کے ساتھ کافی رشتہ رکھ سکتا۔ چنانچہ  رینگنے  لگتا جیسا  کہ ایلؔ مچھلی  کرتی  اور یوں اپنے اُسی محیط  مین چلا  جاتا جسکے ساتھ اُسکا  رشتہ تھا تو اُسکی  جان بچ جاتی۔

پرندہ اپنی  زیادہ  پیچیدہ  ترکیب  کی وجہ  سے زیادہ  تر وسیع  محیط  پر حکم رکھتا ہے۔ وہ پہلے ہی سے ایسے  تدارک کر سکتا  ہے جو میڈوسہؔ  نہیں کر سکتا ۔ خوراک حاصل  کرنے کے لئے اُسکو بڑھکر  سہولتیں  ہیں۔ اسکے رشتے  ہر طرح  پیچیدہ  ہیں۔  اور اسلئے  چاہئے کہ وہ اپنی  زندگی  کو زیادہ  عرصہ  قائم  رکھ سکے۔ تاہم اور بھی زیادہ  تر وسیع  میدان  ہے جسپر اُسکا  کچھ  ھکم نہیں ہے ۔ اِسکی اندرونی تبدیلی کی طاقت اسقدر  کامل نہیں  ہے کہ کل بیرونی  شرائط  کی نسبت بھی محدود  ہے جنکے  ساتھ وہ صرف  کسیقدر قائم  ہو ا ہے۔ مثلاً  کسی چڑیا  کو معمولی  حالتوں میں  اسبات  کی بابت کچھ تکلیف  نہیں  ہوتی  کہ  اپنے تئیں  حالت  گرمی  و سردی کی تبدیلیوں کے مطابق  کرے لیکن اگر یہہ  تبدیلیاں  اِس حد  سے بڑھکر  ہو جاویں  جہاں اسکی قوت اپنے تئیں  اُنکےمطابق  کر نیکی ذائل ہوتی ہے جیسا  نہایت سردی  مین۔ تو قدرتی  بناوٹ  اُس شرط کو  پورا  نہ کر سکنے کی وجہ  سے ضرور  ہے کہ ہلاک  ہووے۔ مگر انسانی  وجود اس بیرونی  شرط کے مطابق  بھی ہو سکتا  ہے اور اَور بے شمار تبدیلیوں  کے مطابق  بھی ہو سکتا  ہے جنمیں  دیگر  ادنی  وجود  بلا شک  عاجز ہونگے۔ انسان کے تعلقات  یا رشتے  محیط  کے سب سے وسیع میدان  کے ساتھ ہیں۔ اور اسلئے چاہئے  کہ وہ  زندگی  کو سب سے زیادہ بڑہا سکے۔  اس سے ظاہر ہے کہ جیوں جیوں  زندگی کے سلسلہ  میں بڑھتے ہیں۔ تیوں تیوں  عمر درازی کے سلسلہ  میں بڑھتے ہیں۔ 

دفعہؔ ۴ ہمیشہ کی زندگی

اب ہمیشہ کی زندگی کی تعریف نظر  آنے لگی ہے۔ ضرور ہے کہ خِلقی  ترکیب  اُن عملوں  اور خوراک  کی تبدیلیوں کی پہنُچ کے باہر ہو جو اُن  حرکات  کو روکنے  والی ہوتی ہیں جو خلِقی ترکیب  کے اندر جاری ہوں ۔ ہاں ضرور ہے کہ ہم  اِس محدود ضلع  سے پار گزریں جہاں کے تعلقات  فانی اور جسمانی  زریعوں  پر منحصر  ہیں۔ اور اِس سے ایک پرے ملک میں داخل ہوں جہاں کہ محیط جسکے ساتھ تعلق  ہونا چاہئے خود  دائمی  ہے۔ ایسا محیط  ہستی میں ہے  یعنے روحانی  عالم کا محیط  اُن عملوں  کی تاثیر  سے باہر ہے۔ جو  کبھی جلدی کبھی دیر  میں  اُن حرکات کو روک دیتے  ہیں۔ جو تمام محدود  و وجودوں  کے اندر ہوتی رہتی ہیں ۔ پس اگر ہم ایک  ایسی  خِلقی  ترکیب  یو وجود پا سکیں  جنسے روحانی  عالم کے ساتھ  رشتہ قائم  کر لیا ہے تو اُس  رشتہ میں  ابدّیت  کے اصول  ہونگے  بشرطیکہ ایک اور شرط  پوری کیجاوے  اور وہ شرط  یہہ ہے کہ  محیط  کامل  ہو اگر کامل  نہ ہو  اور اگر سب سے اعلی نہ ہو  اور اگر اُسمیں تبدیلی  کی صفت ہو تو اسبات کی زمہداری نہین ہو سکتی کہ اسکے ساتھ تعلق رکھنے والوں  کی زندگی  دائمی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اُس میں کوئی  تبدیلی  واقعہ  ہو۔ جسکا مقابلہ کرنیکے  لئے تعلقدار کو طاقت نہیں اور زندگی  اور زندگی ضرور  تمام ہو گی۔

اب ہم ہمیشہ کی زندگی کی بابت ہر برٹ سپنیر صاحب کی تعریف  پیش کرتے ہیں۔ اُسمیں ایسی  ہی شرطیں پائی جاتی ہیں جیسی اوپر  بیان ہوئی  ہیں۔ اور وہ یہہ ہے کہ ۔ ’’ کامل رشتہ  کامل  زندگی ہو گی اگر محیط  میں کو ئی تبدیلی  نہو  سوائے  ایسئیوں  کے جنکے مقابلہ کے لئے قدرتی  ترکیب  مین بھی اُنکے مطابق کی تبدیلیاں  ہوں۔ اور اگر  وہ اپنی طاقت  میں جس  سے وہ اُنکا  مقابلہ کرے کبھی زائل  نہو  تو ابدی زندگی  ابدی عرفان  ہوگا‘‘۔  اب ہم ہمیشہ  کی زندگی کی تعریف  کا خیال  کریں جو مسیحؔ نے کی ہے۔ سائینس  کے بموجب  کامل محیط کے ساتھ بے روک ٹوک  علاقہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ مسیح  کے قول کے بموجب ’’ ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ  وے تجھکو  اکیلا سچاّ خدا اور یسوع  مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہوجانیں ۔‘‘ خدا کو جاننا ہمیشہ  کی زندگی ہے۔ خدا کو جاننا  خدا کے ساتھ علاقہ یا رشتہ رکھنا۔  خدا کے ساتھ  علاقہ رکھنا  کامل محیط کے ساتھ علاقہ رکھنا ہے۔ اور وہ وجود جو یہہ حاصل کرے ضرور ہے کہ ہمیشہ  زندہ رہے۔

سائینس اور دین  کی باتوں  اصلی موافقت  اسبات مین ہے کہ زندگی ایک خاص اور زاتی رشتہ پر منحصر ہے۔ اصل میں زندگی محیطوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں ہی  صاحب ُہنر کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ موصیفی کی زندگی راگ کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ اُن کو ان محیطوں سے جدا کرنا اُنکی  زندگی کو جدا کرنا ہے۔ کل محیطوں  سے منقطع کیا جانا موت ہے۔ پھر ایک نیا محیط  پانا اور اُسکے ساتھ رشتہ قائم کرنا  نئی  زندگی ہے۔ دین کی  رُو سے بھی یہہ صحیح ہے۔ اسمین بھی زندگی کو ایک رشتہ بیان کیا گیا ہے۔

( حاشیہ پروفسیر  صاحب کے بیان سے یہہ خلاصہ حاصل ہوتا ہے کہ سائینس  نے ہمیشہ کی زندگی کا اصول اور امکان بتلایا  ہے۔ لیکن وہ کسی خاص کامل  محیط اور اُسکے  ساتھ علاقہ رکھنے والے کا پتا نہیں بتلا سکتا۔ دین کا اِس  بقیہ حاشیہ قانون کے ساتھ اتفاق ہے مگر اُس سے بڑھ کر وہ یہہ بتلایا ہے کہ  وہ کامل  محیط کیا ہے۔ اور ہمیشہ  کی زندگی والے کون  ہیں  سائینس کی اِس لاچاری کو اِنسان کے  لئے  اِ نسان کے فائدہ کے لئے دور کرنے کیواسطے  ضرور  تھاکہ  وہ محبت کل اُس محیط  اور رستکا اظہار فرماوے۔ تاکہ انسان اُس  طریق سے ہمیشہ  کی زندگی  حاصل  کر سکے  اور کرے۔ اور وہ اظہار یہہ ہے  کہ ’’وہ تجھکو  اکیلا سچاّ خدا  اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں‘‘}  روحانی  عالم میں محیط  خدا ہے۔ اور وہ روحانی  اور زندہ  اور ابدی محیط ہے۔  ایسے  محیط کے ساتھ رشتہ رکھنے کے لئے  ہمیشہ تک جینا پڑیگا اور وہ چیز  جسکو سائینس  رشتہ یا تعلق  کہتا ہے وہی بات دین میں بھی ہے۔ یعنے صحُبت  یا شراکت اسکو ایمان  اور محبت سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جسطرح ہر محیط  میں تعلقات  کی اپنی اپنی طرز  ہے اُسیطرح  روحانی محیط  میں اپنی طرز ہے۔  اصول وہی ہے۔

جو اصول  اور نتیجہ پروفیسر  صاحب  نے واضح کیا ہےکہ اُسپر  ایک دو سوال ہو سکتے ہیں۔  اور جو کچھ صاحب  موصوف  نے اُ نکے  جواب میں لکھا ہے وہ بھی پیش  کرتا ہوں۔ اور وہ یہہ ہے کہ کیا سائینس سے ثابت  ہو سکتا ہے کہ خدا کے ساتھ شراکت ایسا رشتہ ہے  جو کبھی نہیں ٹوٹیگا؟ ہم سائینس سے ایسی  گواہی طلب نہیں  کرے ہم نے ہمیشہ کی زندگی کی بابت اُسکا خیال پوچھا  تھا اور جواب یہہ پایا ہے کہ ہمہشہ کی زندگی  ایسے  رشتہ  میں  ہے جو کبھی  موقوف نہیں ہوگا۔ اور  و  ہ  رشتہ  ایسے محیط  کے ساتھ ہے جو کبھی گزر نہ جائیگا۔ اور کامل رشتہ کی بابت سائینس اور کیا طلب کرتا  ہے جو کہ ’’ خدا کو  جاننے‘‘ میں نہیں ہے ؟ کو ئی اور شرط ایسی  پیش نہین کی جاسکتی جسمیں فنا  کی علات  نہ ہو۔ لیکن  یہہ یعنے خدا کو جاننا  یکساں۔

 اب سوال طلب یہہ  ہے کہ ایک جسمانی  بدن  ہے اور ایک روحانی ترکتیب ہے  جو اسکے ساتھ ایسی  ملی ہوئی ہے کہ  جدا نہیں ہو سکتی۔ اور اُنسے قبر  پر پل  باندھنا ہے۔ سائینس جو  مسئلہ بقا میں ابتک معاون رہا ہے وہی  روح کی  بقا کے بقا کے برخ؛اف  ہے ’’ سچی فلاسفی شخصی بقا کو  اور موت کے بعد زاتی پائداری کے خیال کو رد کرتی ہے۔ ضرور ہے کہ روح  جسمانی بنیاد کے برباد ہونے کے ساتھ ہی نیست ہو جاوے۔ کہ فقط اُسی کے زریعہ سے اسکو اپنی ہستی  کا علم آیا وہ ایک  وہ  ایک شخص  ہو گئی۔  اور اُسپر  اُسکا  مدار تھا‘‘۔  ( دیکھو رسالہ  فورس  اینڈ  میٹر  طبع  سوم  صفحہ  ۲۳۲ مصنفہ بُخنز)  اِس سے دیکھتے ہیں کہ سائنیس  اختیار والے کٖیطرح اس صداقت کو برباد کرتا ہے۔ جسکی ہم اُس  سے تعریف کر دانا چاہتے ہیں۔

اِس  میں شک نہیں کہ روح اور دماغ  ۔ عقلی اور جسمانی اعمال باہم رشتہ دار ہیں اور بہت نزدیکی رشتہ رکھتے  ہیں۔لیکن کس طرح وے ایک دوسرے سے رشتہ رکھتے ہیں  معترض مانتا ہے  کہ معلوم نہیں روح اور دماغ کی نزدیکی رشتہ داری  اُنکی  قطبیق نفسی  کو شامل  نہیں کرتی۔ یعنے اُس رشتہ سے یہہ ظاہر  نہیں ہوتا  کہ  دونوں  ایک ہی ہیں۔  اور اسلئے بہتیرے عالموں نے اس امر میں کوئی نتیجہ نکالنے  کی جُرأت  نہیں کی۔ پھر جب  ہم  اُس  تعلیم کا خیال کرتے ہیں جومسیح  کی زبان سے نکلی  تو اپنے  تئیں ایک اور ہی ملک میں پاتے ہیں۔ وہ اس جسمانی کو غیر جسمانی میں نہیں کھینچتا ۔ پُرانے  عناصر اپنے جسم کی نسبت خواہ کیسے صاف  اور لطیف ہوئے  ہوں خدا کی بادشاہت کے وارث  نہیں ہو سکتے۔ جو جسم سےہے  سو جسم ہے۔ وہ ایک نیا اور اصلی  عامل پیش کرتا ہے۔  یعنے ’’وہ جسکے ساتھ خدا کا بیٹا  ہے  ہے اُسکے ساتھ زندگی ہے اور وہ جسکے ساتھ بیٹا نہیں زندگی نہیں رکھتا۔‘‘ یہہ اُس شرط  یا رشتہ  کی تعریف ہے جو قبر پر پُل  باندھنے والا ہے۔ اور یہہ  جسمانی  رشتہ نہین روحانی رشتہ  ہے پیدا  ہونے  سے نہیں لیکن سرِنو پیدا ہونے  سے حاصل  ہوتا ہے۔ نئی روح کے زریعے  فرزندی  کے رشتہ سے وہ باپؔ کو جانتا ہے اور  یہی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ یہہ نہ صرف حقیقی  رشتہ ہے ۔ لیکن فقط یہی ممکن رشتہ ہے۔ ’’  کو ئی باپ کو نہیں جانتا مگر بیٹا  اور وہ جسپر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔‘‘ پس یہہ ایک رشتہ  ہے جو کبھی موقوف نہ ہوگا۔ سائینس  نے جو تعریف ہمیشہ کی زندگی کی بتلائی ہے وہ یہہ ہے کہ ’’ کامل رشتہ کامل زندگی ہوگی اگر محیط  میں کوئی تبدیلی نہ ہو سو اَے ایسیوں کے جنکے مقابلہ کے لئے  قدرتی ترکیب میں بھی اُسکے مطابقکی تبدیلیاں ہوں اور اگر وہ اپنی قوت میں جس سے وہ اُنکا مقابلہ کرے کبھی زائل نہ ہو تو ابدی زندگی اور ابدی عرفان ہوگا۔‘‘ اب روحانی آدمی  قیامت اور زندگی  والی فوق العادت خوبیاں  رکھتا ہے۔ قیامت کے زریعہ  وہ محیط  کی جسمانی  حالت  کی تبدیلیوں سے اور خوراک وغیرہ کی تبدیلیوں  سے بچ  نکلتا ہے جو قدرتی ترکیب کے عملوں کو روکنے والی ہیں۔ پس یہہ رشتہ سائینس اور مذہب دونوں کے دعووں کو پورا کرتا ہے۔ اِس رشتہ کے لازوال ہو نیکی بابت پولاس رسول یوں لکھتا ہے۔ کہ ’’ کون ہمکو  مسیح ؔ  کی محبت سے جدا کریگا۔ مسیبت یا تنگی یا  ظلم  یا کال یا ننگائی یا خطرہ یا تلوار؟‘‘ ( رومیوں ۳۵:۸) یعنے  کیا محیط کی یہہ جسمانی تبدیلیاں جو قدرتی آدمی  کو دھمکاتی ہیں روحانی  آدمی کو ہلاک کر سکتی ہیں؟ نہیں۔ ’’ بلکہ ہم اِن سب چیزوں میں اُسکے  وسیلے  جنسے ہم سے محبت کی ہر غالب بر غالب ہیں۔ کیونکہ مجھکو یقین ہے کہ نہ موت نہ زندگی نہ فرشتے نہ حکومتیں نہ قدرتیں اور نہ حال  کی نہ  استقبال  کی چیزیں نہ بلندی نہ پستی اور نہ کوئی دوسرا مخلوق  ہم کو خدا کی اُس محبت  سے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے جدا کر سکیگا۔ ‘‘  ( آئیت  ۳۷، ۳۸، ۳۹)۔

دوسرا سوال یہہ ہے کہ کامل رشتہ کا انسان کے لئے ایسا اعلیٰ  طور سے آنا بعضوں کے لئے اعتراض کا موجب ہے۔ اِس تعلیم کی ابتدائی  حالتیں اچھی صورت ظاہر کرتی ہیں۔  وہ بالکل نیچر کے موافق ہیں  پر اگر نیچر ہی نے کامل رشتہ بھی دیا ہوتا تو یہہ امر قابل اعتراض  نہ ہوتا۔ لیکن قدرتی محیط سے باہر  ایک چیز کا حوالہ دینا کانٹی  نیو نٹی ؔ کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اِس سارے بیان میں ایک دائمی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

معلوم ہو کہ کہ وہ جسکو نیچر کہتے ہیں اس سے باہر جانا محیط سے باہر جانا نہیں ہے۔ ینچر محیط  کا  صرف  ایک حصہ ہے۔ ایک اور بڑا حصہ  ہے جسکو اگرچہ  بعضے کہتے ہیں کہ اسکے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے تاہم اِس سبب سے وہ غیر معنوی یا خلاف نیچر نہیں ہے۔ عقلی اور اخلاقی عالم نباتات کو نامعلوم ہے تو بھی تھقیق  ہے یہہ نہیں  کہا جا سکتا کہ پودے کے لئے وہ خلاف نیچری  ہے۔ تاہم یہہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نباتات  کے لئے فوق النیچر اِنسان  جمادات کےلئے اور  خدا انسان کے لئے فوق النیچر  ہے۔ ( اگر نیچر کو وسیع معنوں مین لیا جاوے تو جمادات اور نباتات اور انسان اور خدا سب نیچر ہی میں ہیں) پس یہہ اعتراض کچھ نہیں ہے۔ اور ہمیشہ کی زندگی کا خدا  کی طرف  سے دیا جانا  نیچر کے موافق ہے۔ 

  حاصل کلام یہہ ہے کہ آدمی یعنے روحانی  آدمی  دو قسم کے تعلقات سے مسلح ہے۔ ایک قسم میں ابدّیؔت کی وصف ہے اور دوسری دنیاوی ہے۔ پر اگر یہہ کسیطرح جدانہ کئے جاویں  تو  دنیاؔوی  ابدؔی  کو روکتا  اور خراب کرتا  رہیگا۔ لہذاہمیشہ کی  زندگی کے وارث  ہونیکے  لئے آخری تیاری  اُن چیزوں ( یا اصلی اجزا) کو ترک کرنے میں ہے جو ابدی  نہیں ہیں۔ اور یہہ موت کے زریعہ  سے ہوتا ہے۔  تعلقات  کے نا کامل یا ناقص ہونیکا نتیجہ موت ہے۔  لیکن ’’ کامل تعلقات  کامل زندگی ہے‘‘۔  اب دین عیسوی  کا دعویٰ  ہے کہ وہ موت کو نیست کرتا ہے۔ یعنے  نا کالمیت یا ناقص  کو نیست کرتا ہے اِس سے وہ سب رکاوٹیں جوہمیشہ  کی  زندگی کی مانع ہیں دور ہو جاتی ہیں  اور انسان اُسمیں  دخل  پاتا ہے۔ اور وہ چیز یا زریعہ  جو موت کے بعد ہمیشہ  کی زندگی میں دخل  دلاوے ۔ گویو قبر پر سے  پار  ہونیکے لئے  پُل  باندھے۔ وہ یہہ ہے ۔  کہ ’’ وے تجھے اکیلا سچاّ  خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا  ہے جانیں‘‘۔ 

دفعہ ۵۔ ایمان

(راستباز ایمان سے  جئیگا)

گزشتہ دفعات میں ہم نے نجات اور منجی کا احوال معلوم کیا۔ اب معلوم کرنا چاہئے  کہ یہہ نجات ہمارے لئے  کسطرح  موّثر ہو سکتی ہے۔ اب ہم کیا کریں کہ مسیح کے کفارہ کا فائدہ  ہمکو پہنچے۔ مسئلہ نجات کو کیوںؔ  اور کسطرحؔ کو صرف سمجھنا  مفید نہیں  ہے جبتک کہ حقیقت  میں ہمارے لئے تاثیر  گر نہ ہووے۔ 

Pages