عیسائیت

Christianity

عیسوی مذہب کا ثبوت

Evidence for the Christian Religion

Published in Nur-i-Afshan March 9th 1876
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

People in Swat Valley, Pakistan

دو ہزار برس کا  عرصہ گزرا ہے کہ اِنگلستان کے باشندے مورتوں کو پوجتے تھے۔ اور اُن کے وخوش کرنے کے لیے اپنے دشمنوں کی کھوُپریوں میں شراب پیتے تھے۔ مگر ان ہی دنوں میں ہندوستان کے باشندے بہت عقیل اور دانا تھے۔ اور روح جسم خدا اور اِنسان کی بابت بھی خوب چرچا کرتے تھے۔ لیکن اب تمام ملکوں میں لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ انگریز لوگ بہت ہی دانا ہوگئے ہیں۔اور ہندوستانی ویسا ہی اپنے آبا واجداد کے موافق ہیں بلکہ اُن سے بھی کم ۔ اِسکا کیا باعث ہے ۔ اِسکے بہت سبب ہیں مگر خاص کر کے یہہ ہے کہ انگریز لوگ عیسائی ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ ایک حبش کے بت پرست بادشاہ نے انگلستان کی بزرؔگی کامؔیابی حکؔمت دولؔت و حشؔمت کا سبب دریافت کرنے کے لیے ملکہ معظمہ کے پاس اپنے ایلچی بھیجے ۔ اِس کے جواب میں ملکہ نے ایک انجیل اٹھا کے کہا کہ یہہ ہی خاص ہمارے ملک کی بہبود کا باعث ہے۔ واضح  ہو کہ دنیا میں طرح طرح کے مذہب ہیں جن میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ اُن کے ماننے سے آدمی خوؔد غرض بےپرؔواہ اور کاہؔل ہو جاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں کہ جن کے تسلیم کرنے سے بشر سنگدل خون ریز اور تُندمزاج ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض ایسے ہیں کہ اُن کی پیروی کرنے سے رحمؔ دل  حلیؔم الطبع  خیرخواہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ جیسا معبود ویسا ہی عابد۔اب تمام قوموں کو دریافت کرنا واجب ہے کہ وہ مذہب جس کے سبب سے اِنگلستؔان جرؔمنی وغیرہ ملکوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے سچّا ہے یا نہیں    بعضےلوگ کہتے ہیں کہ ہر ایک  ملک کا مذہب اُسنت واسطے سچّا ہے۔ اور اپنے باپ دادونکے مذہب کی تقلید کرنی واجب ہے۔ یہہ سراسر غلط ہے۔ کیا سب مذہب جو ایک دوسرے  سے اختلاف رکھتے  ہیں سچےّ ہو سکتے ہیں ۔ فرض  کرو کہ اگر دس(۱۰) گواہ کسی مقدمہ کی بات کچہریمیں  گواہی دیں اور وہ سب مخلتف  ارائے ہوں تو کس طرح کہ سکتے ہیں کی یہہ سب گواہ سچےّ ہیں  ہرگز نہیں۔ اسی طرح قرؔآن ویؔد شاؔستر  اور بیؔبل ایک دوسرے کے برخلاف ہیں۔ تو سب کے سب کسی طرح سے سچےّ نہیں ہو سکتے۔اور اُن میں سے جو جھوٹے ہیں راہ راست نہیں دکھلا سکتے  ۔ اور اْن کے ماننے والوں کو کچھ فایدہ نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ وے بعینہاُن لوگوں کی مانند ہیں جو سیدہا راہ چھوڑ کرآوارہ بٹھکتےپھرتے ہیں کیونکہ جب تک نوکر اپنے آقا کی مرضی سے واقف نہ ہو تب وہ اُسکو کسی طرح سے راضی نہیں  کر سکتا۔ مثلاً اگر آقا کسی سفر کے واسطے گھر کو چھوڑے اور اپنے خانگی  نوکرونکے لیے کام مقرر کرے اور وہ اُس کی مرضی کےموافق نہ بلکہ اپنی مرضی کے مطابق  کام کریں  تو وہ آقا  صرف ناراض نہ ہوگا  بلکہ اُن کو سزا بھی دیگا۔ اب ہم کو دریافت کرنا چاہیےکہ یہہ سب کتابیں  جو دنیا میں پائی جاتی ہیں اُن میں کون سی برحق ہے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں گناہوں کو ماننا چاہیے جن کو ہمارے باپ دادا  مانتے چلے آئے ہیں ۔ کسی نئے مذہب کی پیروی با  لکل نہیں کرنی چاہیے یہہ تو صرف اُن لوگوں  کا مذہب ہے وے دنیا وی باتوں میں کبھی ایسی دلیل پیش نہیں کرتے جب ہم اُن کو کہتے ہیں کہ اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھاؤ تاکہ خاطر خواہ نوکری ملے تب  وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہم انگریزی نہ پڑھائینگے کیونکہ ہمارے باپ  دادوں انگریزی  نہیں پڑھی۔ پھر کسی کو پیدل چلتے ہوئے دیکھ کر کہینگے کہ ریل پر سوار ہوجاہیے تو وہ نہیں کہیگا  کہ میرا باپ دادا ریل پر سوار نہ ہوا  تھا میں نے بھی نہیں ہونا۔ لیکن جب ہم اُنکو کہتے ہیں کہ سچےّ مذہب کو اختیار کرو تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم کو اپنے باپ دادوں کے مذہب کو ماننا چاہیے ۔ اِس سے صاف اُن کی بے پرواہی اور سسُتی پائی جاتی ہے۔ بھائیو ہمیں سچاّ دین درکار ہے۔ اِس کے حاصل کرنے کے لیے ہمیں نہایت سعی اور کوشش کرنی چاہیے۔کیونکہ ہم اِس کے زریعے سے بہشت کے وارث ہو سکتے ہیں یہہ بھی واضح ہو کہ اگر آدمی غریب کنگال پریشان اور مصیبت زدہ اس دنیا میں چاہے کیسا ہی ہو تو کچھ مضایقہ نہیں کیونکہ یہہ سختیاں اور مصبتیں چند روز ہ ہیں لیکن دوذخ  کا عذاب اور بہشت  کا سرور دائیمی ہے۔ دیکھو اگر تم قبرستان میں جاؤ اور کوئی شخص تمکو بتلائے کہ یہہ قبر دولتمند کی ہے اور وہ غریب کی یہہ جوان کی اور وہ بوڑھے کی تمھارا جواب یہی ہوگا کی کیا  مضایقہ کیونکہ سب مر کر یکساں ہوگئے ہین لیکن اگر تمکو یہہ بات معلوم ہو کہ یہہ آدمی دوذخ میں ہے اور بہشت میں  ہے تو اِس بات سے تم ضرور تعّجب کروگے کہ یہہ نہایت عجیب بات ہوگی بلحاظ اِن باتوں کے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دین ایک عمدہ وسیلہ ہے جس سے ہمیں واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کونیسی باتوں پر راضی ہوتا ہے اور ہمیں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے  چونکہ ہم سب گنہگار ہیں اِسواسطے ہم کو دریافت کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمارے گناہونکو معاف کریگا یا نہیں اگر کر یگا تو   کس شرط پر  ۔ اِن سوالوں کا جواب خدا یا وہ کتاب جو اُس پر نازل ہوئی ہو دیسکتی ہے ۔ اگر کوئی ایسا شخص ہو جو مریضوں کی طرح طرح کی بیماریوں کو رفع دفع  کرے تو  تمام اِطراف کے لوگ کمال شوق سے اُسکے پاس آوینگے کہ شفایاب ہوویں مگر جب  روحانی بیماری ہو تو زیادہ تر جستجوکرنی چاہیے کہ اِسکا کیا علاج ہے اور وہ کہاں  سے دستیاب ہوگا۔ مذہب ضرور ایک ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے  نازل  ہوا اور جس کے ماننے سے ہم نجات  پا سکتے ہیں ۔ اب ہماری مراد یہہ کہ وہ دلیلیں جنسے یہہ مذہب برحق ہو سکتا  ہے۔ لکھیں پہربانی کر کے ہر طرح کا تعصؔب  بؔغض کینہؔاور دشمنؔی کو برکنار رکھ کر  اِن دلیلوں کو آزماؤ اور عقل کی ترازو میں  آزمائی کرو اگر ہلکی ہو تو مانو سب جانتے ہیں  کہ خدا   حاضر و ناظر ہے سچاّئی کو پیار کرتا ہے ہمارے دعاؤں کو بخوبی سنتا ہے اور زیادہ حق کی طرف  ہمیں رجوع کرتا ہے  لازم ہے کہ حق سے دعا مانگ کر اپنے مطلب کی طرف رجوع کریں۔ 

اگر کوئی عیسائی دین کی آزمایئش کرے  تو    اُس کی حقیقت کئی وجہ سے ثابت ہو تی  ۔ اوّل عیسیٰ مسیح کی اصل تعلیم جو ابتک موجود ہے اِس دین کی سچاّئی پر مشاہد کامل ہے۔  دوئم (۲) بسبب پاکیزگی کے اُسکا  خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہوتا ہے۔ سیوم (۳) اُسکا خدا کی طرف سے ہونا نبیوں نی پیشگوئیوں سے بھی بدرجہ ثبوت پہنچتا ہے ۔ چہارم (۴) ثبوت کامل اُسکی حقیقت کا یہہ ہے کہ حواریونکی شہادت ور اُن کے  معتبرے اُسکے صدق پر گواہی دیتے ہیں ۔ پنجم (۵) اِس مذہب کا تمام دنیا میں میں پھیل جانا اُس کی حقیقت پر کامل شہادت ہے۔ اب ہم ہر ایک کو  مفصل بیان  کرینگے  خدا توفیق بخشے۔ 

عیسوی مذہب کا ثبوت

اصل انجیل عیسائیوں کے پاس موجود ہے۔

اِس فصل میں ہمیں یہہ دریافت کرنا چاہیے کہ آیا خدا وند مسیح کی اصلی تعلیم انجیل میں ہے کہ نہیں۔ اکثر خواندہ لوگ جانتے ہیں کہ اکثر محمدی دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس اصل انجیل نہیں ہے ۔پہلے اِسکو دریافت کرنا چاہیے ہمکو قوی اُمید  ہے کہ اکثر اہل اسلام اِس رسالہ کو پڑھینگے  ۔ تو ہم قرآن کی اُن آیتوں میں سے جن میں انجیل کا زکر پایا جاتا ہے ۔ چند ایک کو یہاں لکھتے ہیں تاکہ وے اِس بات پر قائل ہو ں کہ محمد صاحب کے وقت تک یعنے ساتویں (۷) صدی  عیسوی تک انجیل موجود تھی ۔ چنانچہ سورۃ یونس ۶۳ آیت     لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ یعنے  دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے اور سورۃ کہف   ۲۶ آیت    وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا یعنے اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے ۔ اور سورۃ مائیدہ  ۷۸ آیت     قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ صاف کہہ دو کہ "اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں"۔

اِن آیتوں سے صاف صاف معلوم ہے کہ محمد کے وقت میں محمدی لوگ جانتے تھے بلکہ اِسبات پر متیقن تھے کہ اصلی انجیل موجود ہے اور یہہ بات بہت سی کتابوں سے ثابت بھی ہو سکتی ہے فن چھاپہ کے ایجاد ہونے تک پیشتر انجیل ہاتھ سے لکھی  جاتی تھی۔ بباعث  کم ہونے کے اتنی عام جلدیں نی تھیں مگر تو بھی بہت کتب خانوں اور عیسائی عابدوں اور پادریوں کے گھروں میں موجو د تھیں۔ چنانچہ اُنھیں سے اب بھی  پائی جاتی  ہیں۔ اُن میں سے ایک نسخہ انجیل جو لندن میں ہے جو محمد صاحب کے زمانہ میں موجود تھا اور روم شہر کے ایک کتب خانہ میں اور  ایک جلد جو اُس سے بھی دوسو برس پیشتر موجود تھی۔ چند برس کا عرصہ گزرا ہی کہ ڈاکٹر تشن ڈرف ساحب  کوہ طور پر ایک کتب خانہ سے ایک نسخہ انجیل جو کہ قریب چودہ سو برس کے لکھی ہوئی ہوگی پائی اگر کوئی پوچھے یہہ کتابیں کس طرح معلوم ہوسکیں کہ اتنی مدتّ کی ہیں تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ علیٰحدہ علیٰحدہ  صدیوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ  چیزوں پر لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً بہت سی صدیوں سے کتابیں کاغذوں کا پر لکھی جاتی ہیں لیکن یہہ کاغز جسپر کتاب چھپی ہو ئی ہے صرف ایکسو برس سے ہے جاری ہے۔ اسیطرح اور کتابیں جو اِسی کاغز پر لکھی ہوئی ہیں۔ اُن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایکسو برس سے زیادہ کی نہیں لکھی ہوئیں اور کاغذ بھی اسیطرح زمانہ برذمانہ بدلتا جاتا ہے۔ پہلے پہل جب کاغذ نہ تھا بھیڑ بکری کے میشہ یعنے وصلی پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ علی ہذا لقیاس سیاہی ور خط بھی تفاوت چلے آئے ہیں۔ چنانچہ بہت پرُانی کتابوں کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ زمانہ سلف میں لکھنے کا اور ہی دستور تھا اِن علامتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہہ کتاب کتنی مدّت کی ہے۔ جس طرح انجیل  پشت در پشت ہمارے وقت تک چلی آئی ہے اُسیطرح اور بہت سی کتابیں مثلاً افلاؔطون  ارسؔطو زؔینوفن  ورؔجل طیؔطس سسؔرو وغیرہ مصنفوں کی کتابیں چلی آئی ہیں۔ اِن کتابوں کے لکھے جانے کا زمانہ ہی سیاسی خط اُس چیز سے جسپر کہ وہ لکھی جاتی تھیں پچھانا  جاتا ہے۔ یوناؔنیوں فرانسؔیسوں اور  انگلسؔتانیوں میں سے وے لوگ جو اِسبات سے واقف ہیں پرُانی کتاب کو دیکھ کر فوراًٍ بتلا دیتے ہیں کہ یہہ کتنی مدّت کی لکھی ہوئی ہے۔ فرنگسؔتان اور انگلؔستان  کے عولموں  نے پرُانی قلمی انجیلوں کا حال کی انجیلوں سے خوب مقابلہ کیا ہے لیکن مضمون میں زرا بھی فرق نہیں پایا۔ قدیمی انجیل کے پرُانے نسخے ایشیا  افریقہ فرنگستان اور بہت سے ملکوں کے کتب خا نوں میں پائے جاتے ہیں اور اُنک حال کی انجیل سے مقابلہ کرنے سے یہی معلوم ہوا کہ وے سب متفق المعنے ہیں۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہہ انجیلیں آپسمیں بہت سا تفاوت رکھتی ہیں یہہ اُن کی سراسر غلطی ہے۔ بیشک اب عیسائی معلم بھی   اِس بات کے قایل ہیں کہ بعض بعض انجیل کی کوئی آیت مختلف اللغط ہے مگر مختلف المعنے با لکل نہیں ہے۔ اور یہہ فرق بھی چھ(۶) یا  سات (۷) سو یونانی انجیلوں کے پڑھنے سے ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی  شخص پانچ یا چھ سو آدمی کو ایک کتاب پڑ ھکر سُنائے اور وے اُس کو لکھیں تو بیشک  اُن  کی نوشتوں میں بعض بعض  فرق پڑینگے ۔ اگر ایک ایک نوشت میں صرف  دو یا تین سو ہو جاویں تو بیشک سب نوشتوں میں بہت سے فرق پڑجائینگے ۔ لیکن اگر سب صاحب ہوش اور عالم  شخص ہوں تو بیشک سب کتابوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے سے سب کے سب فرق نکال ڈالینگے ۔ اکثر ایسے ایسے فرق ایک کتاب کو دوسری کتاب سے نقل کرنے میں پڑ جاتے ہیں لیکن اُنکی اصلیت میں فرق نہیں آیا۔ دیکھو ٹشن ڈرف صاحب نے ایک انجیل انگریز ی میں چھپوائی ہے جس میں اُس نے  اُن فرقوں کو جو تین بڑی قدیمی انجیلوں میں پڑتے تھے صحیح کر کر لکھا ہے مگر اس کتاب کے ملاحظہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بڑا فرق نہیں ہے۔ کیونکہ یہہ کتاب وہی تعلیم دیتی ہے جیسے کہ اور بہت انجیلیں بیشک ایسے ایسے فرق انجیلوں میں پڑتے ہیں۔ ایک(۱) میں لکھا ہوگا کہ عیسیٰ نے کہا ۔ دوسری (۲ )دوسری میں کہ خداوند نے کہا ۔ تیسری(۳) میں کہ مسیح نے کہا۔ پھر ایک میں ہوگا کہ عیسیٰ نے اپنے شاگردونکو کہا اور دوسری میں کہ اُسنے  اُن کو کہا۔ اور وغیرہ۔ اگر کوئی شخص اسبات کو خوب تحقیقات کرنا چاہے  تو میں اُسکو ضرور بتلاؤنگا تاکہ اُس کو معلوم ہو کہ سب انجیلیں ایک ہی ہیں۔ ایک اور طریقہ جس سے اصل نجیل کا ابتک موجود ہونا ثابت ہوتا ہے یہہ ہے کہ بہت سے عیسائی بزرگوں کے نام تمام عیسائی ملکوں میں مشہور ہیں۔ چنانچہ جسٹن شہید جو کہ پہلی صدی میں زندہ تھا ٹرٹیلؔن جو  کہ دوسری  صدی میں تھا۔ اَریجنؔ  تیسری  میں بسیوٹیس اور اگستین چوتھی صدی میں زندہ تھے۔ جن کی تصنیفین بھی آجتک موجود ہیں اور اکثر عیسائی عالم بھی اُن کو پڑھتے ہیں غرض کہ انجیل کے پورا لکھے جانے کے دوسو برس  بعد تیس(۳۰) مصنف جن کی کتابیں آجتک موجود اور لاہور کے پادری صاحبوں کے پاس ہیں گزرے ہیں۔ جن میں انجیل کا حال اور اِس قدر آئیتں مندرج  ہیں کہ اگر  انجیل کھوئی جاوے تو ہم اُن کتابوں کے زریعہ سے اور ایسی بنا سکتے ہیں۔  ایک اور دلیل ہے جس سے انجیل کی اصلیت پائی جاتی ہے۔ عیسیٰ کے وقت سے آج تک بہت لوگ ایسے گزرے ہیں جو کہ دین عیسوئی کے بڑے دشمن تھے اُن میں سے ایک پا رؔفری سنَلسَنؔس ہے جو کہ مسیح کے بعد دوسری  صدی میں ہوا اور جولنین جو چوتھی  صدی میں میں گزرا ہے۔ یہہ تمام بیبل کی تردید  کرتے چلے آئے ہیں۔ مسمیٰ سالس نے ایک کتاب جسکا نام کلمہ حق تھا لکھی اُس میں مسیح کی موؔت پیدؔایش  بپتمؔسا  معجزؔوں  جی اُٹؔھنے اور اُسکی منؔادی کرنے کا ذکر ہے۔ باوجود ایسا سخت دشمن کے انجیل  کو جھوٹا نہ کر سکا ۔ اِس سے انجیل کی سرا سر صداقت پائی جاتی ہے۔ آریجن نے ایک کتاب اُسکے جواب میں لکھی اور کئی ایک باتوں کو اُس سے نکالکر اپنی کتاب میں مندرج کیا جو کہ اکثر پادری صاحبان کے پاس موجود ہے جو شخص دیکھنا چاہے دیکھ لے ۔ مسیح کی موت کے بعد بہت ملکوں کے لوگ  عیسائی ہوگئے چونکہ وہ یونونی  زبان نہ جانتے تھے۔ اِس لیے اپنی اپنی خاص  زبان میں انجیل کا ترجمہ کر لیا ۔ مثلاً سُرؔیانی کپؔٹی لیٹؔنی انؔگلو بیکسؔنی ا رؔمنی  ابتؔہی اوؔپک  کاتؔہک  اور وغیرہ  زبانوں میں ترجمہ ہو گیا۔  مسیح کی وفات کے ایکسو برس بعد  سُؔریانی اور لیٹنی زبان میں ترجمہ ہوا اِسیطرح بعض بعض تین سو  برس کے بعد ۔ بعد ازاں یورپ کے ہر ایک ملک کی زبان میں ترجمہ ہوتا چلاگیا۔  اِن تمام  ترجموں سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اصلی انجیل ابتک موجود ہے۔ واضح ہو کہ انجیل اِس وقت عنقریب دو سو زبانوں میں چھپی ہے اور دنیا کے تمام حصوّں ایشیؔا افؔریقہ  امرؔیکہ اور یورؔپ اور وغیرہ ملکوں میں اور جزائیر میں ایک ہی طرح کی پائی جاتی ہے ۔ دیکھو اگر ہند کے مسلمان متفق  ہو کر اپنے قرآن بدل ڈالیں تو اور ملکوں کے محمدی لوگ مثلاً روؔم شاؔم  ایؔران مصؔر زنجبؔار الؔجیرس ٹرؔپولی  تیؔونس  مرؔاکو اور وغیرہ ملکوں کے اپنے قرآن کو کبھی نہ  بگاڑینگے ۔ کیونکہ یہہ با لکل ناممکن ہے اور اگر وے مسلمان بند کے قرآن سے اپنے قرآن کا مقابلہ کرینگے تو وے فوراً یہی کہیں گے کہ ہند کے مسلمانوں کے کئی ایک فرقے ہیں مثلاً شیؔعہ  سنُیؔ وہاؔبی صوؔفی اور وغیرہ اُن میں سے اگر ایک فرقہ قرآن کو اپنی  مرضی کے موافق بدل ڈالے تو اور فرقے کبھی اِ س بات کو منظور نہ کرینگے اور اپنے  اپنے قرآن کو کبھی نہیں  بد ل ڈالیں گے۔ 

اِسیطرح عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو یونی ٹیرین یوناوراسٹنٹ  پرو ٹسنٹ ومنسٹنٹ اور وغیرہ کہلاتے ہیں یہہ سب ایک ہی انجیل رکھتے ہیں ۔ اِس سے صاف صاف ظاہر ہوتا   ہے کہ عیسائیوں نے انجیل کو نہیں بگاڑا   ۔ اِن سب کے پاس وہی انجیل ہے جو کہ زمانہ سلف میں موجود تھی۔ جب اہل اسلام اپنے قرآن کو بدل نہیں سکتے تو عیسائی لوگوں کو کس طرح سے انجیل بدلنے کی جُرات ہوئی۔ جس طرح اب عیسائی لوگ اُن لوگوں کے درمیان جو اُن کے مذہب کے دشمن ہیں  بلکہ سراسر حقیر ہی جانتے ہیں بودوباش رکھتے ہیں اِسیطرح وے ہر ایک زمانہ اور ہر ایک ملک میں دشمنوں کے بیچ رہتے آئے ہیں ۔ چنانچہ اب بھی انگلسؔتان جرؔمنی فرؔانس اور امرؔیکہ میں بہت سے لوگ ہیں جو عیسائی مذہب کے سخت دشمن ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ہم اُن کے روبرو کتاب کو بدل سکیں۔ اور اُن کوگوں نے بھی کبھی ہمکو نہیں کہا کہ تمنے اپنی کتاب کو بدل دیا ہاں مگر یہہ بات ہے کہ جب کوئی پادری کسی غیر زبان میں جس سے وہ بخوبی واقف نہیں انجیل کا ترجمہ  کرتا ہے تب وہ اُسکو دوسری دفعہ اچھی صاف کرتا  ہے تو یہہ اختلاف با لکل نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی یونانی  انجیل وہی ہے جو پہلی اور دوسری صدی میں موجود تھی ۔ پھر تمام لوگوں میں عیسائی مذہب کی تعلیم مشہور ہے تو جب اور کوئی قوم اپنی اپنی کتاب کو کبھی نہیں بدلتے اور عیسائی انجیل کی بہت تعظیم کرتے ہیں یہہ سمجھ کر کہ یہہ خدا کا کلام ہے جو ہم کو دیا گیا نجات کا راستہ دکھانے کو وہ بڑی خوشی سے اِ س کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور اُسکی پاک تعلیم پر گفتگو کرتے ہیں تو کیا وہ جان بوجھ کر تحریف کرینگے یہہ بالکل ناممکن ہے۔ پھر ہم اپنی کتاب کو کس طرح سے بدل ڈالیں گے اور لاکھ ہا روپیہ اِسواسطے صرف کرتے ہیں کہ تمام ذبانوں میں  اِسکا ترجمہ ہوجاوے۔  پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی  شخص جب تک کہ اُسکو کوئی دنیاوی فایدہ یا خوشی کی اُمید نہ ہو تب تک وہ قصور نہیں کرتا۔جب انجیل کو بدل ڈالنے سے عیسائی لوگوں کو کچھ فایدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہوتا ہے لوّوے انجیل کو کیونکر بدل سکتے ہیں ۔ یہہ بھی واضح ہو کہ یہودی لوگوں کے پاس توریت ذبور  اور نبیوں کے صحیفے ابتک موجود ہیں۔ اور محمدی عالم بھی جانتے ہیں کہ وہ تعلیم جو انجیل میں پائی جاتی ہے اِن تمام کتابوں میں بھی ملتی ہے۔  مثلاً  عیسیٰ کی الوہیت اُسکا کفارہ ہونا، اور وغیرہ۔ اگرچہ عیسائی لوگ اپنی کتاب بدل ڈالیں تو یہودیوں کی کتاب کو کس طرح خراب کرینگے۔ اب ہم اُمید قوی رکھتے ہیں کہ اگر لوگ تعصب کو چھوڑ کر اِن دلیلوں پر غور کریں تو وہ بھی اِقرار کرینگے کہ یہہ انجیل جواب موجود ہے وہی ہے جو عیسیٰ کے بعد پہلی اور دوسری صدی میں موجود تھی۔ ایک اور سوال اِسبات پر کہ آیا کہ انجیل خدا کا کلام ہے یا نہیں بیان کرتے ہیں اگرچہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہندو لوگونکے پاس اصلی وید اور شاشترموجود ہیں اور آتش پرستوں  کےپاس  ژؔند واشتؔااور سکھ لوگوں کے پاس گرؔنتہ توبھی ہم اِنمیں  سے کسی کو کلام الہیٰ ہر گز نہیں کہہ سکتے جب اِسیطرح ثابت ہوا کہ اصلی انجیل ہمارے پاس موجود ہے تو اِس دلیل سے ہرگز خدا کا کلام نہیں ہوسکتی اب ہمیں اُسکو خدا کا کلام ثابت کرنا چاہیے۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے۔ عمدہ تعلیم کی شہادت

اگر کوئی شخص ہم کو سکی کتاب کو دکھلا کر دعویٰ کرے کہ یہہ کلام اﷲ ہے تو ہم ضرور یہی کہیں گے کہ ہمیں ضرور اِسباتکی تحقیق کرنی چاہیے کہ وہ تعلیم جو اِس میں پائی جاتی ہے خدا کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں جب ہم انجیل کو کلام الہیٰ کہتے ہیں تو ہمیں یہہ بھی دریافت کرنا چاہیے کہ وہ تعلیم جو اُسمیں پائی جاتی ہے خدا کی مرضی کے موافق ہے یا نہیں ۔ اگر اُسکی تعلیم اُسکی مرضی کے مطابق ہو تو بیشک اِسکو تسلیم کرنا چاہیے ورنہ اُسکو رد کریں۔ یہہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ اگر انجیل کی باتو ں میں سے بعض بعض ہماری سمجھ نہ آویں تو اُس پر تعجب کر کہ اُسکو ردّ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح آسمان زمین پر فوقیت اور ترجیح رکھتا ہے اُسیطرح خدا کی سمجھ ہماری سمجھ پر لڑکا اپنے باپ کی تعلیم  کو ہر گز جھوٹا نہیں سمجھتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا باپ مجھ سے زیادہ دانا ہے۔ بعینہ اِسیطرح انجیل کو اگرچہ اُسکی بعض بعض تعلیمیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں خدا کا کلام کہتے ہیں اور اُسے لوگوں کو سُناتے ہیں۔ اور ہم دعویٰ بھی کرتے ہیں انجیل کی تعلیم سراسر خدا کی مرضی کے موافق ہے۔ دیکھو اِن دنوں میں بہت لوگ ہیں جو انجیل سے واقف ہیں مگر اسکی تعلیم پر بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ  اِن باتوں پر جو ہماری سمجھ سے بعید ہیں مثلاً مسیح کی الوہیت اُسکا   مجسّم اور کفارہ ہونا  اور ایسے ایسے مشکلات جنکو عقل اِنسانی دریافت نہیں کر سکتی سوال کرتے ہیں۔ ہمکو صرف اُن تعلیموں دریافت کرنا چاہیے جو ہماری سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ سب لوگ اِس بات پر متفق ہیں کہ خدا خدا تعالیٰ قادر مؔطلق حاضؔر  و ناظؔر دؔانا عادؔل پاؔک اور مہربؔان ہے ۔ دیکھئے انجیل میں بھی یہی تعلیم ہے جو آدمی انجیل کی تعلیم سے واقف ہیں وہ اقرار کرتے ہیں کہ تمام  صفات الہیٰ انجیل میں مندرج ہیں۔ اِس میں لکھا ہے کہ اگرچہ خدا تعالےٰ تمام قسم کے گناہوں نفرت رکھتا ہے تو بھی گنہگاروں کو پیار کرنا اور اُنکی نجات دینی چاہتاہے۔ چنانچہ اُسنے دنیا کو ایسا پیار کیا کہ اپنے بیٹے یسوع مسیح کو دنیا میں بھیجا کہ وہ ہمارے لیے جان دیوے تاکہ ہم نجات پاویں ۔ جو شخص انجیل کو ازروئے انصاف کے پڑھے تو اُسکو بخوبی معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ دانا پاک رحم محبت کا چشمہ اور حقیقی باپ ہے ۔ اگرچہ اور کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ خداوند تعالیٰ رحیؔم عادؔل پاؔک ہے لیکن اُنکی تعلیموں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا بالکل رحیم  نہیں ہے۔ کو کوئی اپنے آپ کو یتیم سمجھتا ہے وہ انجیل کے پڑھنے سے معلوم کر لیتا ہے کہ میرا باپ خداوند تعالیٰ ہے اور جو اپنے کو پلید اور گنہگار تصور کرتا ہے وہ دریافت کرتا ہے انجیل سے کہ خدا مجھے ضرور بچانے کے لیے تیار ہے وہ کسی گنہگار کی بربادی پر راضی  نہیں ہے بلکہ  وہ یہی چاہتا  ہے کہ سب کے سب سچےّ اور ایماندار ہو کر نجات ابدی حاصل  کریں۔ اے بھائیو ہم تمھاری منّت کرتے ہیں کہ اگر تم خدا کی محبت اور رحمت سے واقف ہو نا چاہتے ہو۔ تو انجیل کو پڑھو بیشک انجیل کی تعلیم کامل ہے اُس کے اوّل سے لیکر آخر تک یہی لکھا ہے کہ تم حلیم الطبع غریب دل پاک دل بنو۔ اپنے دشمنوں کے قصوروں کو بھی معاف کرو۔ اُنھیں پیار کرو اور اُنکے لیے  پروردگار سے دعا   مانگو ضابر اور رضامند  بنو خدا تعالیٰ کی دل و جان سے عبادت کرو۔ اپنے ہمسایونکو اپنے جیسا سمجھو خدا تعالیٰ کی مانند پاک ہو۔    نحن اقرب إِلَيْهِ من جل الورید یعنے خدا تعالیٰ ہماری شاہرگ سے بھی نزدیک ہے اگر حکموں کو ظاہری  طور پر مانیں اور دل حقیقی پاکیزگی اور محبت مبعّرا ہو تو صرف  قبرونکی مانند جو باہر سے سفید اور اندر سے طرح طرح کی کی الایش  اور اسُتخوانوں سے پُر  ہیں ہوگا۔  حال میں بہت سے ہند و بنگالی اِس ملک میں ہیں جو علم انگریزی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی اِس بات کے مقتر ہیں کہ کسی نے آج تک ایسی تعلیم  نہیں دی جیسی کہ عیسیٰ مسیح نے دی ہے۔ صرف پچاس (۵۰) برس کا عرصہ گزرا ہے کہ راجہ رام موہن رائے نے جسکا نام ابتک تمام ہندوستان میں مشہور ہے اپنے لوگوں کو شائیستہ کرنے کے لیے بہت ہی سعی و کوشش اور انجیل سے  بہت باتوں کو نکالکر چھپوایا  تاکہ اُسکے ہم وطنوں کو معلوم ہوجاوے کہ خدا کو  کیا کام پسند آیا ہے کہ اُس نے باوجود عیسائی نہ ہونے کے عیسیٰ کی تعلیم کو پسند کیا ۔صرف یہی باعث ہے کہ وہ دانا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہہ تعلیم حقیقی اور درست ہے۔ علاوہ اِس کے مسیح کے ہم عصر لوگ اُس کی تعلیم کو سنکر بے اختیار یہی کہتے تھےکہ کسی نے آج تک ایسی تعلیم نہیں دی  جیسا کہ یہہ دیتا ہے۔  اِس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہہ تعلیم عین خدا کی مرضی کے موافق ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اور کتابوں میں بھی پاک تعلیم ہے تو میں یہہ جواب دیتا ہوں کہ بیشک لیکن انجیل کی تعلیم سراسر صحیح اور پاک ہے ہمکو اب لازم ہے کہ مسیح کے چال چلن پر بھی غور کریں۔ اگر تم ازروئے انصاف کے پڑھو تو تمکو معلوم ہوجاویگا کہ اُسکے افعال وا قوال بہت سی عمدہ تھے بلکہ تم بھی اقرار کرو گے کہ کوئی دنیا  میں اُسکے برابر نہ تھا وہ کہتا تھا کہ باپ  اور میں ایک ہوں جو کچھ اُس نے کہا   یا کیا اُس کے دعویٰ کے موافق تھا اکثر ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے اُستادوں کی تعلیم اُن کے کردار کے موافق نہیں ہوتی یعنے اُنکا چال وچلن اُن کی تعلیم کے برخلاف ہوتا ہے۔ بعض بعض نے اپنی کمزوری سے واقف ہو کر کہا ہے اور اقرار بھی کر دیا ہے کہ بھائیو ایسا کو جیسا کہ ہم سکھلاتے ہیں نہ ایسا کہ جیسا ہم کرتے ہیں ۔ لیکن مسیح کا چال و چلن اُس کی تعلیم کے عین مطابق تھا وہ ہمیشہ حلیؔمی  پرہیؔزگاری  فروؔتنی مؔحبت ہی دکھلاتا تھا۔  ہر ایک کنگال اور گنہگار کی وہ ہمدردی کرتا تھا۔ جب اُس کے دشمن آزمائیش کے طور پر اُس سے سوال کرتے تو وہ اُنکو نہایت حلیمی اور دانائی سے جواب دیتا تھا۔ جب اُسکے دشمن اُسکو طرحطرحکی ایذا دیتے تو وہ صبر کرتا تھابلکہ خدا سے کہتا تھا کہ ای باپ  اِنکو معاف کر کیونکہ یہہ نہیں جانتے   کہ کیا کرتے ہیں ۔ جب اُسکے ایک شاگرد نے اُسے بوسہ سے پکڑوایا تو اُس نے صرف اُسے یہہ کہا کہ اے یہودا کیا تو ابن آدم کا بوسہ لیکر اُسے پکڑاتا  ہے۔ جب یروشلم کی عورتیں اِسلیے کہ گنہگار لوگ اُسے صلیب۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے پیشین گوئیوں سے ثبوت

اہل اسلام اور عیسائی اسبات پر متفق  ہیں کہ خدا تعالیٰ نے نبیونکی معرفت اپنی مرضی ظاہر کی اور دونوں مانتے ہیں کہ موسیٰ و داؤد  و دانیال وغیرہ سب انہیں نبیونمیں سے تھے علاوہ اِسکے قرآنمیں بھی اِنکا  زکر پایا جاتا ہے۔ نورائجےس ثابت ہوتا ہے کہ یہودی اپنی کتاب کی نہایت حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔ جب عیسیٰ اِس دنیا میں تھا تو اُن کو اکثر ملامت کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اپنی کتابوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ لیکن اُس نے اُنکو کبھی نہیں کہا تھا کہ تمنےاُن کو خراب کر دیا ہے بلکہ اُنہیں کتابوں کو لیکر اُنکو سناتا تھا اور فرماتا تھا کہ اُن پر عمل کر و۔ یہہ کتابیں عبرانی زبان میں ککھی گئی تھیں۔ اور آج تک یہودی اور عیسائی لوگ اُن کو اُسی زبان میں پا سکتے ہیں مسیح سے تین سو  برس  کے قریب پیشتر  سکندریہ کے ستر عالموں سے یہہ کتابیں عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ یہی ترجمہ جو تمام روئے زمین پر مشہور ہے سعہ اصلی کتابوں کے ملتا ہے ۔ جو لوگ اِس بات پر یقین کرینگے کہ یہودیوں پاس توریت وغیرہ صحائف انبیا موجود ہیں۔ تو اُن کو یہہ بھی کہنا ضرور پڑیگا کہ یہودیوں نے عیسائیو کو اتنی فر صت ہرگز نہیں دی کہ وہ اُنکی کتاب کو اپنے مطلب کے موافق بدل ڈالیں تاکہ وہ عیسیٰ پر گواہی دیویں ردوّبدل کر سکیں۔ خدا کی مرضی سے ایسا ہوا کہ یہودی لوگ تمام دنیا میں پراگندہ  ہو گئے اور اپنی کتابیں بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں پس ہم یہہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو پیشنگوئیاں اِن کتابوں میں مسیح کی بابت مندرج ہیں عیسائی دین کو ثابت کرتی ہیں۔ اگر کوئی شخص پیشنگوئی کرئے کہ عیؔسیٰ  یا  محؔمد یا مدؔاس آویگا۔ اگرچہ پوری بھی ہو تو اِس سے کچھ  ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ہزار ہا آدمیوں کے ایسے نام ہوتے ہیں ۔ یا اگر کوئی شخص کہے کہ اٹلی یا عرب کے ملک کی زبان سے آگ نکلیگی اور وہ نکل بھی پڑی تو اِس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ آگ کئی ایک ملکوں کی زبان سے نکلتی ہے۔ اگر کوئی زخص کہے کہ انگریز اِس صدی میں قندہار تک فتح کر لیوینگے یا اہل روس کابل تک آوینگے اگر یہہ ہو بھی جاوے تو اس سے بھی اُسکی بنوت نہیں  پائی  جاتی  اکثر لوگ ایسی ایسی باتوں سے فریب کھاتے ہمارے نزدیک چند دلایل میں جن سے سچیّ پیشن گوئی ثابت ہو سکتی ہے ۔ اؔوّل پیشینگوئی پوری ہونیکے پیشتر ہی لکھا جاوے۔ دؔویم  کہ کسی فایدہ کے واسطے ہو ۔ سیؔوم کہ وہ با لکل آدمی پیش بینی سے باہر ہو۔ چہارم کہ وہ پوری بھی ہو جاوے۔ اور پنجم یہ کہ پیشین گوئی  اپنے پورا  ہونے کے سبب نہ ہووے۔ اگریہہ پانچ  علامتیں پائی جاویں  تو بیشک پیشین گوئی سچی ہوگی۔ دیکھو نبیوں کی کتابوں میں بیشمار پیشین گویاں ہیں خدا نے نبیوں کی معرفت مصر  کوہ طور  بابل سور یہودیہ  وغیرہ کی بابت زکر کیا کہ کیا حال آیندہ کو اِنکا   ہوگا۔ 

اِن باتوں کے پارا ہونے سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی جن کی معرفت یہہ سب باتیں لکھی گئی تھیں خدا سے الہام پائی تھیں۔

اب ہم اُن پیشین گوئیوں کا بیان کرتے ہیں جو مسیح اور اُسکی بادشاہت کے بابت  زکر کی گئی ہیں۔ پیدایش کے تیسرے باب کی پندرہویں آیت میں ایک بچانے والے کا زکر ہے۔ جسکا خطاب عورت کی نسل ہے انجیل سے بھی ثابت ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا۔ خدا نے اشارہ دیا کہ یہہ بچانے والا ابراہیم کی نسل سے ہوگا ۔ دیکھو پیدایش کا ۲۲باب ۳ آیت ۔ اور پھر اصحاق سے ہوگا۔ پیدایش ۲۶ باب ۴ آیت ۔ اِسکے ۴۹ باب ۱۰ آیت سے صاف صاف ظاہر ہے کہ یہی بچانے والا بادشاہ یہودہ کے فرقہ سے آنے والا تھا۔ اور یسعیاہ نبی کے ۱۱ باب ۱۰ آیت میں یوں لکھا ہے کہ وہ یسیّ کی نسل سے ہوگا۔ پھر یسعیاہ نبی کی معرفت خدا تعالیٰ  نے فرمایا   کہ کنواری پیٹ ہوگی اور بیٹا جنیگی اور اُسکا نام عمانوئیل یعنے خدا ہمارے ساتھ رکھینگے  ۔ ہر ایک  شخص جانتا ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا۔ اور انجیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا مسیح میں مجسم ہوا ۔ اور مسیح  کے نسب نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم سے اصحاق پیدا ہوا  اور اصحاق سے یعقوب اور یعقوب سے یہوداہ اور یہوداہ کے خاندان میں یسّی پیدا ہوا اور یسیّ سے داؤد  بادشاہ اور مسیح داؤد کے خاندا ن میں پیدا ہوا۔ سو مسیح میں یہہ سب پیشین گوئی پوری ہوئی۔ پھر اُسی نبی نے کہا کہ ہمارے واسطے ایک لڑکا تولد ہو تاہے  اور ہمکو ایک بیٹا بخشا جاتا ہے جسکے کاندے پر سلطنت ہو گی اور اُسکا نام عجؔیب مؔشیر خدا قاؔدر مطلؔق ابدیؔت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ یہہ سب باتیں یسعیاہ نبی کے ساتویں باب ۱۴ آیت میں بیان ہوئیں تو وہ ضرور عمانوئیل ہی تھا۔ اور جو لوگ انجیل سے واقف ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ وہ سب مسیح میں پوری ہوئیں۔ پھر میکاہ ۵ باب کی ۲ آیت میں لکھا ہے کہ بیت الحم میں پیدا ہوگا۔ اور متی کے ۲ باب سے ظاہر ہوتا ہ ے کہ اگرچہ مریم بیت لحم میں نہیں رہتی تھی تو بھی خدا کی قدرت اور حکمت ایسی ہوئی کہ وہ وہاں چلی گئی اور مسیح وہاں پیدا ہوا تاکہ یہہ پیشین گوئی پوری ہو۔ علاوہ اِسکے جبرائیل نے دانیال نبی کو خبردی کہ وہ فلانے زمانہ میں پیدا ہوگا اور اُسکا نام  یہہ نام ہوگا اور کفارہ ہونے کیواسطے آ ئیگا۔ دیکھو باب ۹ ، ۲۵ آیت ۲۷ تکپس تُو معلُوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلِیم کی بحالی اور تعمِیر کا حُکم صادِر ہونے سے ممسُوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے ۔ تب پِھر بازار تعمِیر کِئے جائیں گے اور فصِیل بنائی جائے گی مگر مُصِیبت کے ایّام میں۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسُوح قتل کِیا جائے گا اور اُس کا کُچھ نہ رہے گا اور ایک بادشاہ آئے گا جِس کے لوگ شہر اور مَقدِس کو مِسمار کریں گے اور اُس کا انجام گویا طُوفان کے ساتھ ہو گا اور آخِر تک لڑائی رہے گی ۔ بربادی مُقرّر ہو چُکی ہے۔ اور وہ ایک ہفتہ کے لِئے بُہتوں سے عہد قائِم کرے گا اور نِصف ہفتہ میں ذبِیحہ اور ہدیہ مَوقُوف کرے گا اور فصِیلوں پر اُجاڑنے والی مکرُوہات رکھّی جائیں گی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پُہنچ جائے گی اور وہ بلا جو مُقرّر کی گئی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقِع ہو گی۔ واضح رہے کہ  ایک ہفتہ سات برس کی مراد رکھتا ہے۔ جب یہہ بات دانیال پر ظاہر ہوئی تب بنی اسرائیل بابل میں اسیر تھے لیکن تھوڑے دن بعد بادشاہ نے اُن حکم کیا کہ وہ اپنے ملک کو جاکر یروسلم اور ہیکل کو پھر بناویں اگرچہ اُسکے بنانے میں کچھ روک ٹوک ہوئی تو بھی وہ کامیاب ہوگئے اور اُس حکم کے صادر ہونے سے مسیح کی موت  تک ۴۹۰ بر س سے  تین  چار بر س کم تھے۔ جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ وہ غیروں کے واسطے پچھلے ہفتہ کے درمیان میں مارا جاویگا۔ جسطرح کہ یسعیاہ نبی کے ۶۱باب کی ۱آیت سے ۳ تک لکھا ہے اُسیطرح عیسیٰ نے لوگوں کی تسّلی کی اور اُنکو خوشخبری سنائی۔اُن میں لکھا ہے کہ خُداوند خُدا کی رُوحمُجھ پر ہےکیونکہ اُس نے مُجھے مَسح کِیا تاکہ حلِیموں کو خُو ش خبری سُناؤُں اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ شِکستہ دِلوں کو تسلّی دُوں ۔ قَیدیوں کے لِئے رہائی اور اسِیروں کے لِئے آزادی کا اِعلان کرُوں۔ تاکہ خُداوند کے سالِ مقبُول کا اور اپنے خُدا کے اِنتقام کے روز کا اِشتہار دُوں اور سب غمگِینوں کو دِلاسا دُوں۔ صِیُّون کے غمزدوں کے لِئے یہ مُقرّر کر دُوں کہاُن کو راکھ کے بدلے سِہرااور ماتم کی جگہ خُوشی کا رَوغن اور اُداسی کے بدلے سِتایش کا خِلعت بخشُوں  تاکہ وہ صداقت کے درخت اور خُداوند کے لگائے ہُوئے کہلائیں کہ اُس کا جلال ظاہِر ہو۔ یسعیاہ نبی کی ۵۳ باب کی پہلی آیت میں لکھا ہے کہ لوگ اُسپر ایمان نہیں لاوینگے سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اُسی کی دوسری اور تیسری آیت ہے کہ وے اُسکو حقیر جائنیگے۔  اور چوتھی آیت سے ساتویں تک کہ تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لِیں اور ہمارے غموں کو برداشت کِیا ۔پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹااور ستایا ہُؤا سمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کِیا گیااور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا ۔ہماری ہی سلامتی کے لِئے اُس پر سیاست ہُوئیتاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے ۔ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھراپر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا ۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اورجِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔یہہ بھی حرف حرف پورا ہوا۔ پھر پچاسواں باب ۶آیت میں لکھا ہے کہ مَیں نے اپنی پِیٹھ پِیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی ۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تُھوک سے نہیں چُھپایا۔اور مسیح کی موت کے بابت ۲۲ زبور کی ۱۳ آیت سے ۱۸ تک اِسطور پر لکھا ہے کہ   وہ پھاڑنے اور گرجنے والے بَبر کی طرح  مُجھ پر اپنا مُنہ پسارے ہُوئے ہیں۔ مَیں پانی کی طرح بہہ گیا۔ میری سب ہڈّیاں اُکھڑ گئیِں۔میرا دِل موم کی مانِند ہو گیا۔ وہ میرے سِینہ میں پِگھل گیا۔ میری قُوّت ٹِھیکرے کی مانِند خُشک ہو گئی اور میری زُبان میرے تالُو سے چِپک گئی اور تُو نے مُجھے مَوت کی خاک میں مِلا دِیا۔ کیونکہ کُتّوں نے مُجھے گھیر لِیا ہے ۔ بدکاروں کی گروہ مُجھے گھیرے ہُوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں ۔ مَیں اپنی سب ہڈِّیاں گِن سکتا ہُوں ۔ وہ مُجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں۔ اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔پھر ۱۶ زبور کی ۹ اور ۱۰ آیت میں لکھا ہے کہ  اِسی سبب سے میرا دِل خُوش اور میری رُوح شادمان ہے۔ میرا جِسم بھی امن و امان میں رہے گا۔ کیونکہ تُو نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا۔ نہ اپنے مُقدّس کو سڑنے دے گا۔

یہہ سب باتیں مسیح میں ہی پوری ہوئیں ۔ یہہ تمام پیشین گویاں جو عیسیٰ کے بابت لکھی گئیں ہیں ایکدوسرے سے اِسقدر تفاوت اور ضد رکھتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی میں پوری ہونگی۔ مثلاً ایک جگہ میں لکھا ہے کہ وہ  بڑا فتحمند بادشاہ  ہوگا۔ دوسری زبور کی ۷ آیت سے ۱۳ تک دیکھو پھر یسعیاہ نبی کے ۵۳ کی ۷ آیت میں لکھا ہے کہ وہ ایک مصیبت زدہ اور مغلوب ہوگا۔ اِسی کتاب کے ۹باب کی ۶ آیت میں لکھا ہے کہ وہ قادر مطلق ابدیت کا باپ  اور اسی آیت میں لکھا ہے کہ وہ لڑکا ہوگا۔ پھر دانیال کے ۲ باب کی ۴۴ آیت میں لکھا ہے کہ اُس کی بادشاہت  ابد الاباد ہوگئی۔ اور کئی ایک جگہوں میں لکھا ہے کہ وہ مارا جاویگا۔ ایک جگہ لکھا  کہ وہ مردود ہو گا۔ لیکن ۷۲ زبور کی ۴،۸،۹،۱۱،۱۲،۱۳،۱۷آیت میں اِسکی لکھا ہے یہہ سب کی سب باتیں مسیح میں پائی جاتی ہیں بیشک خدا نے اِن پیشین گوئیوں کو ہماری ہدایت اور تسلّیکیواسطے لکھوایا۔ یہودیوں کی تواریخ سے پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ قوموں کو کتےّ کی مانند جانتے ہیں۔  جسطرح برہمن لوگ اور قوم کے آدمیوں کو ناپاک اور حقیر جانتے ہیں۔ اِسطرح وہ بھی تصور کرتے ہیں۔ ایک روز ایسا واقع ہوا کہ جب پولوس رسول نے اُن کے سامنھے کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے غیر قوموں کے پاس بھیجا ہے انہوں نے اُسکو مار ڈالنا چاہا اِس کے علاوہ کئی ایک نبیوں نے یہی کہا کہ جب یسوع آویگا خدا یہودیوں کو ردّ کر کے اور قوموں کو قبول کرے گا۔ اِسکی تصدیق کے لیے کئی ایک آیت نبیونکی  کتابوں سے نکا لکر ہم لکھتے ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ کے گیا رھویں باب کی ۱۰ آیت میں لکھا  ہے کہاور اُس وقت یُوں ہو گا کہ لوگ یسّی کی اُس جڑ کے طالِب ہوں گے جو لوگوں کے لِئے ایک نِشان ہے اور اُس کی آرام گاہ جلالی ہو گی۔ پھر ۴۲باب کی پہلی آیت میں لکھا ہے  کہ دیکھو میرا خادِم جِس کو مَیں سنبھالتا ہُوں ۔ میرابرگُزِیدہ جِس سے میرا دِل خُوش ہے ۔ مَیں نے اپنی رُوح اُس پر ڈالی ۔ وہ قَوموں میں عدالت جاری کرے گا۔اُسی کی چھ ّیت میں خداوند نے تجھے صداقت کے لیے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا۔ اور تیری حفاظت کرونگا اور لوگوں کے عہد اور قومونکے نور کے لیے تجھے دونگا۔ اور ۴۹ باب کی ۲۲آیت خُداوند خُدا یُوں فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں قَوموں پر ہاتھ اُٹھاؤُں گا اور اُمّتوں پر اپنا جھنڈا کھڑا کرُوں گا  اور وہ تیرے بیٹوں کو اپنی گود میں لِئے آئیں گے اور تیری بیٹِیوں کو اپنے کندھوں پر بِٹھا کر پُہنچائیں گے۔ اور ۶۰ باب کی ۳،۵، ۱۱ آیتوں میں اور قَومیں تیری رَوشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطِین تیرے طلُوع کی تجلّی میں چلیں گے۔  اور سلاطِین تیرے طلُوع کی تجلّی میں چلیں گے۔ہاں تیرا دِل اُچھلے گااور کُشادہ ہو گا۔ کیونکہ سمُندر کی فراوانی تیری طرف پِھرے گی۔ اور قَوموں کی دَولت تیرے پاس فراہم ہو گی۔ اور تیرے پھاٹک ہمیشہ کُھلے رہیں گے ۔ وہ دِن رات کبھی بند نہ ہوں گے۔ تاکہ قَوموں کی دَولت اور اُن کے بادشاہوں کوتیرے پاس لائیں۔ اور ۶۲ باب کی دوسری آیت   تب قَوموں پر تیری صداق اور سب بادشاہوں پر تیری شَوکت ظاہِر ہو گی  اور تُو ایک نئے نام سے کہلائے گی جو خُداوند کے مُنہ سے نِکلے گا۔ اور ۶۶ باب کی ۱۲، ۱۹ آیت   کیونکہ خُداوند یُوں فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں سلامتی نہر کی مانِند اور قَوموں کی دَولت سَیلاب کی طرح اُس کے پاس رواں کرُوں گا تب تُم دُودھ پِیو گے اور بغل میں اُٹھائے جاؤ گے اور گُھٹنوں پر کُدائے جاؤ گے۔ ۴۹ باب کی ۱۶ آیت اُنکی جالی کی پوشاک بن نہیںسکتی وے اپنی بناوٹ سے آپکو ڈھانپ نہیں سکتے۔ یہہ سب پیشین گوئیاں پوری ہوئیں اور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ جب عیسیٰ مسیح اس دنیا میں تھا اُس نے بھی بہت سی پیشینگوئیاں کہیں اور وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں ۔ اُسنے اپنی موت کی پیشین گوئی کی کہ میں کس وقت مارا جاؤں گا۔ متی کی  ۱۲، ۱۸ آیت کو ملاحظہ کیجئے۔ اُسنے یہہ بھی کہا کہ میرا ایک شاگرد مجھے پکڑوائیگا۔ مرقس کے ۱۴ باب ۱۰ آیت کو دیکھو کہ کس طرح مارا جاوے ۔ متی ۲۰ باب  ۱۹ آیت اور مرقس ۱۰ باب ۳۳ آیت اُس نے کہا کہ میرا شاگرد لوگوں سے حقارت کئے جاوینگے  پھر  اُسنے یر وسلم  برباد ہونے کے بابت بھی کہا ۔ متی کے ۲۴ باب  ۲، ۱۰، ۱۶، ۲۱، ۲۲، ۳۴ آیتوں پر ملاحظہ فرمائیے ۔ یہہ سب باتیں  مسیح کی موت کے چالیس برس بعد حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے۔ حواریوں کی گواہی سے ثبوت

انجیل کے تصدیق کرنے کی تیسری  دلیل حواریوں کی گواہی ہے جب تم سے کوئی پوچھے کہ تم کس طرح سے  جانتے ہو کہ اکبر بادشاہ دہلی کا تھا تو تم جواب دہوگےکہ لوگون کی زبان اور کتب تواریخ سے ثابت ہے کہ وہ دہلی کا بادشاہ تھا۔ ایسا یہ سب جانتے ہیں کہ ارسطو ایک یونانی حکیم تھا اور فرعون مصر کا بادشاہ علیٰ ہذا القیاس اور بہت سی باتیں ہیں جو صرف گواہی سے ثابت ہوتی ہیں اور ہم اِن میں ذرا بھی شک نہیں کر سکتے ۔ لیکن بعض بعض گواہیاں بھی  قابل  اعتبار نہیں ہو سکتیں۔ اِس لیے ہمکو ایک ایسا قانون بنانا چاہیے کہ جس سے سچیّ اور جھوٹھی گواہیاں ثابت ہو سکیں۔ چار وجہ ہیں جنسے سچیّ جھوٹھی گواہی معلوم ہوسکےی ہے۔ پہؔلے یہہ کہ وہ بات جسکی بابت گواہی  دی جاوے اغلب ہو۔ مثلاً اگر کوئی آدمی کہے کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑی سختی کی۔ تو یہہ بات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہہ اغلب نہیں کہ کرشن نے  گو پیونکو بارش  سے محفوظ رکھنے کے لیے پہاڑ کو اپنی  انگلی پر اُٹھا کر اُن کے سر پر سایہ کر دیا۔ دوسرے یہہ کہ گواہ بہت ہوں اور معتبربھی۔ فرض کرو کہ اگر کسی مقدمہ کی تصدیق کرنے کے لیے صرف ایک گواہ ہو تو کچہری میں کوئی شخص اُسکی بات پر اعتبار نہیں کر سکتا ۔ یہہ بھی واضح ہو کہ شریر اور بد معاش لوگوں کی گواہی قابل سماعت نہیں ہو سکتی۔ تیسرے یہہ کہ گواہ نے شہادت سے کچھ نفع  نہ اُٹھایا ہو اور اگر اپنی مطلب برآری پر گواہی دیوے تو یہہ بھی مانی نہیں جا سکتی ۔ چوؔتھے یہہ کہ گواہ جس بات پر وہ گواہی دیتا ہے اُس سے آگاہ  ہو۔ وہ گواہی جس میں یہہ چار باتیں پائی جاویں قابل اعتبار ہیں بگر نہ ہر گز نہیں۔ اب ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ بیان کیا جاتا ہے ۔ پہلا یہہ کہ جو بات جس کی بابت گواہی دیجاوی ممکن ہو۔ دیکھو اﷲ تعالیٰ نے اِنسان اور حیوان کیواسطے کیسے کیسے عمدہ بندوبست کئے ہیں مثلاً دیکھنے کے لیے آنکھ سونگھنے کو ناک اور سنُنے کو کان اور وغیرہ  سب چیزیں عطا کی ہیں ۔ اِن سب کے سوا ایک اور بات ہے جو ہر ایک انسان کے لیے بہت ہی ضروری ہے یعنے نجات اور یہہ بات اغلب ہے کے اُس نے ضرور اِس کے واسطے بھی بندوبست  کیا ہوگا کیونکہ وہ ہماری بہتری چاہتا ہے نجات یہہ ہے کہ ہم گناہ کی طاقت اور اُسکی پلیدگی اور سزا سے چُھٹکارا  پاویں۔ اِس چھٹکارے کے لیئے بندوبست چاہیے۔مثلاً اگر کسی کا باپ اپنے بیٹے کو اُسکی تندرستی کی حالت میں اُسکو پیار کرے اور ضروری چیزیں دیوے تو جب وہ بیمار ہوگا تو بھی وہ اپنے لڑکے کا اچھی طرح حفاظت کریگا اور کوشش کرے گا تاکہ وہ صحت پاوے تو کیا وہ مہربان جس نے ہمکو تمام دنیاوی چیزیں دیں کیا یہہ بندوبست  نہ کریگا کہ ہم گناہ سے بچیں اور ہمیشہ کی زندگی پاویں۔

پوشیدہ نہ رئے کہ عیسیٰ کے کام  اور کلام کے بہت سے گواہ ہیں۔ چنانچہ وہ شاگرد جوعیسیٰ کے ساتھ رہے  اور اُسکے کلام کو سنُتے رہے جن کی گواہی آج تک موجود ہے اکثر اہل اسلام نہیں جانتے کہ مسیح جے حواریوں کا زکر قرآ ن میں  ہے لیکن اگر دریافت کرنا ہو تو سورۃ مائدہ کی  ۱۱۱،۱۱۲،۱۱۳ آیت کو دیکھیے  ۔     وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ۔ یعنے اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب اُنہوں نے کہا کہ "ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں"۔    إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔ یعنے جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تیرا رب کر سکتا ہے کہ ہم پر خوان بھرا ہوا آسمان سے اتارے کہا الله سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو ۔     قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ ۔ یعنے انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ر ہیں ۔ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں میں سے بارہ کو چُن لیا تاکہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں اور اُس کے ساتھ اور اُسکے پیچھے انجیل کی منادی کریں اُن میں سے مؔتی یوحّؔنا یعقؔوب  پطؔرس نے مسیح کا احوال کم وبیش لکھا ۔ اِن کے سوائے  مؔرقس لوؔقا اور پوؔلوس نے اِس کام  و کلام پر گواہی  دی جب  یہہ تمام شاگرد اور   اَور   عیسائی لوگوں کے درمیان منادی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمنے اِن بوتونکو بچشم خود دیکھا ہے اور کانوں سے سناُ ہے تو بیشک وہ  لوگ جنمیں سے سنِکڑے لوگوں نے مسیح کو دیکھا اور اُسکی کلام کو سُنا  ہے اِن باتوں  کو مانتے ہیں۔ اب اِن لوگوں کے چال وچلن کو دریافت کرنا چاہیے جو آدمی اُن کتابوں کو پڑھیگا  اُسکو بخوبی  واضح ہوگا کہ وے راست گو اور نیک تھے  کیونکہ اُن کی تعلیم میں فرؔوتنی حلیمؔی بردبارؔی ایک دوسرے کی خطاؤں کی معافی اور محبت پائی جاتی ہے اور خود غرضی کا نشان بھی نہیں  پایا جاتا۔  برہموں کی کتاب میں لکھا ہے کہ برہموں کی عزّت کرو  اور جو شخص کسی برہمن کو گائے دیگا سئرگ میں داخل ہوگا اور جو برہمن کو کسی گناہ کیواسطے ماریگا وہ نرگ میں جائیگا۔  قرآن سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اِسکا مصّنف محمد صاحب دنیاوی اور جسمانی خوشیونکی بہت خواہش کرتا تھا کیونکہ اُس نے کہا کہ مجھے بہ نسبت  اور مسلمانوں کے زیادہ عورتیں چاہیئں۔ جب اُسکی قسم نے اُسے روکا اُسے حکم دیا گیا کہ قسم کو مت مانو ۔  سورۃ تحریم کی پہلی اور دوسری آیت کو دیکھ لیجئے ۔ يَاأَيُّهَاالنَّبِيُّ    لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔ یعنے اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔    قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ یعنے  الله نے تمہارے لیے اپنی قسموں کا توڑ دینا فرض کر دیا ہے اور الله ہی تمہارا مالک ہے اوروہی سب کا جاننے والا حکمت والا ہے۔    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ ۔یعنے  اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو الله نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں۔ برعکس اِسکے خداوند عیسیٰ مسیح کے شاگرد ہر طرح کی خیر خواہی اور خاکساری ظاہر کرتے تھے اور عزت کے خواہاں  کبھی نہ ہوئے تھے کبھی غرور نہ کرتے تھے اور اپنی رسالت پر کبھی فخر نہ کرتے تھے۔ وہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ ہم اعمالوں سے بچیں گے صرف خدا کا فضل ہمکو بچا سکتا ہے کیونکہ ہم بھی اور آدمیوں کی مانند گنہگار اور  لاچار ہیں ۔ سورۃ الانفال  کی پہلی آیت میں لکھا ہے۔    يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۔ یعنے تجھ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دے غنیمت کا مال الله اور رسول کا ہے۔اگر حواری یہہ کہتے کہ غنیمت  کا مال ہمارا اور خدا  کا ہے تو وہ بالکل خود غرض  ہوتے لیکن یہہ عادت تو اُن میں پائی بھی نہیں جاتی  بلاشک وہ لوگوں کی نجات کا فکر کرتے تھے نہ لوٹ کا ۔ کاش  کہ خدا   لوگوں کی آنکھیں کھول دیوے اور وے مسیح کے حواریونکی پاکیزگی اور خود انکاری سے واقف ہوں۔

اب تیسرا نشان سچیّ گواہی کا یہہ ہے کہ  گواہ کو کچھ لالچ نہ ہو جب  سن ۱۸۵۶ ء  میں ہندوستا ن میں غدر مچا تو   جس طرح بہت مفسدوں نے انگریز اور عیسائی  خاص کر کے اُن لوگوں جو واعظ   تھے مارنا چاہا  بلکہ کئی ایک کو مار بھی ڈالا۔ ۔ اسیطرح اُن دنوں میں جب عیسائی مذہب کا آغاز ہو ا خدا وند یسوع مسیح کے کہنے کہ مطابق کہ میں تمکو بھیڑوں کی مانند بھڑیوں میں بھیجتا ہوں اور جو کوئی تمکو مار ڈالیگا یہی گمان کریگا کہ میں خدا کی خدمت بجا لاتا ہوں اسیطرح یہودیوں اور غیر قوموں نے مسیح  کے شاگردوں سے  و پیروں سے دشمنی  حقارت اور طرح طرح کی تعدّی کی بلکہ کتنے پیروں کو قتل بھی کیا  ۔  باوجود اِس ظلم و ستم کے وے لوگ اپنی جان کو ناچیز سمجھ کر ملک بہ ملک شہر بہ شہر گا تو بہ  گانو  پھر تے تھے اور انجیل کی منادی کرتے تھے۔  تواریخ سے منکشف ہوتا ہے  کہ حواری بالکل غریب اور کنگال تھے اور اُن میں بہت سے لوگ مارے بھی گئے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وے  دنیاوی فائیدہ کے ہر گز خواہاں  نہ تھے وہ راست گو تھے اور  دنیاوی فائیدہ کے واسطے جھوٹ نہ بولتے تھے۔ اگرچہ وہ دنیا سے مردود ہوئے اور اُنکا جینا کسی کو  گوارا نہ تھا اور ہر شخص اُن کے قتل  کے درپے تھا تاہم وے اپنے خدا اور اپنے بچانے والے  کے حضور میں روحانی شان و شوکت سے رہتے تھے خدا تعالی اپنے فضل سے ہم کو بھی اُن کی مانند کرے یہہ بھی واضح ہو کہ جب یوّحنا نے رویا  میں آسمان کو کُھلے ہوئے دیکھا اور بہت لوگ سفید پوشاک پھنے ہوئے  اُسے نظر آئے تب اُسنے فرشتے سے پوچھا کہ یہہ کون ہیں ۔ تو اُس نے اُسے جواب دیا  کہ یہہ وہ لوگ  جنہوں نے بسبب قبول کرنے دین عیسوی کے نہایت تکلیف پائی  تھی۔ پولوس رسول کی تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ ہے کہ اُس  نے تین بار چھڑیوں سے مار کھائی ۔  ایک دفعہ سنگسار کیا گیا ۔ پانچ  بار ایک کم چالیس کوڑے  کھائے اور  وغیرہ تواریخ  سے ثابت ہوتا  ہے کہ آخر کا ر قتل ہوا بیشک عیسایونکو پہلے پہلے  ایسے فائیدے ملتے تھے۔

چھوتھا سچاّ نشان سچیّ گواہی کا یہہ ہے کہ گواہ اُس بات کی گواہی دیوے جس سے وہ اچھی طرح سے واقف ہو۔عیسیٰ نے جو کچھ سناُیا  یا سکھایا  جہان کے سامنے کیا یا اپنے شاگردوں کے سامنے وے گانؤ گانؤ ملک بہ ملک  اُسکے ساتھ رہتے اور پھرتے تھے اُسی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے۔ اور وہ معجزے جو اُس نے لوگوں کو دیکھائے سب اُن کے سامنے ہی ہوئے  اُن کی گواہی عین درست ہے کیونکہ اُنھوں نے جو دیکھا اور سنُا وہی لوگوں کے سامنے بیان کیا۔ جب اِس بات میں کچھ شک نہیں  کہ جو باتیں حواریوں نے کہیں  سچیّ تھی اور ممکن بھی تھیں  تو بیشک وہ قابل اعتبار تھیں دنیا میں گواہی دینے کے باعث اُن کو ہر طرح کی تکلیف ملی اور کسی طرح کا فایٔدہ نہ تھا۔  اور وہ باتیں جن پر وہ گواہی دیتے تھے اُن کے سامنے ہوئیں اور انھوں نے بچشم خود دیکھا تو ضرور اُن کی گواہی ماننے کے لایق ہے جس قدر دلایل عیسیٰ کی بات حواریوں اور اور لوگوں نے دی ہیں میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اِس قدر دلیلیں سکندر اعظم کی فتوحات کی بھی نہ ہونگی۔ اگرچہ اِس کی فتوحات میں کوئی آدمی شک نہیں تو بھی اُن کی گواہی  ایسی پختہ نہیں جیسا کہ انجیل کی یعنے جس طرح مسیح کا احوال گواہیوں  سے ثابت ہوتا ہے سکندر کی فتوحات نہیں ہو سکتیں جب باوجود اِن سستُ گواہیوں کے ہمیں ماننا  پڑتا ہے کہ سکندر ایک عظم بڑا   جنگی بادشاہ تھا تو ہم کیوں نہ اُسکو مانیں کہ خداوند عیسیٰ مسیح جس کے بابت بیشمار پختہ گوا ہیا ں ہیں ایک معجزہ کرنے والا اور بچانے  والا۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے ۔ معجزوں سے ثابت

گزشتہ فصلوں میں یہہ بات ثابت کی گئی ہے کہ جو جو ماجرے انجیل میں  لکھے گئے ہیں ماننے کے لایق ہیں اور اگر ہم اُن کو نہ مانیں تو تمام تواریخ کو ردّ کرنا پڑیگا۔ اور یہہ بالکل نہ مانناچاہیے کیونکہ یہہ اسیطرح بنائی گئی جیسی اور تواریخ کہ سلطان محمود غزنوی  ہندوستان میں آبا اور اکبر دہلی کا بادشاہ  ہوا ۔ جو کوئی آدمی انجیل کو پڑھے اُسکو بخوبی معلوم ہو جاویگا کہ جو کچھ اسمیں لکھا ہے عین درست ہے ور پختہ دلائیل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ دیکھو انجیل میں کیا لکھا ہے کہ عیسیٰ نے بہت سے معجزات کئے ہیں چنانچہ بیماروں کو صحت دی جنم کے اندھوں کو بینا کیا ۔ بہروں کے کان کھولے ۔ کوہڑیوں کو پاک و صاف کیا۔ پانچ روٹی سے پانچ ہزار آدمیوں کو سیر کیا ۔ مرُدوں کو ذندہ کیا۔ اور وغیرہ۔ یہہ سب عجیب کام فقط اُس کے کام سے ہوئے ایسے معجزوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا کا فرمان ہے۔ اور وے لوگ جو ایسے ایسے معجزے کرتے ہیں بیشک اپنی باتوں پر خدا تعالیٰ کی مہر رکھتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی فرمان حکام ّ کیطرف سے صادر ہونا ہے تو جب تک وہ اُنک مہر  و دستخط سے مثبت نہ ہو تو لوگ اُسکو اصلی فرمان تصّور نہیں کرتے اور شک میں پڑے رہتے ہیں کہ آیا ہم کو اسپر عملدار آمد کرنا چاہیے یا نہ واضح ہو کہ اِس دنیا  میں بہت ایسے ایسے لوگ آئے ہیں جو پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہیں اور حقیقت میں وہ جھوٹھے ہیں اسواسطے اُن سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ ہندؤں کے شاستروں میں بیشمار معجزونکا  زکا زکر جن کے سنُنے  سے ہنسی آتی ہے اور تعلیم  ہندؤنکی اُن کو جھواٹا جانتی ہے۔ بیشک ایسی ایسی بیہودہ کراماتوں  کو ردّ کرنا  چاہیے۔ کیونکہ وہ ماننے کے لایق نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہ کرنا چاہیے کہ سب کے سب معجزوں کو ردّ کریں ۔ کیونکہ خدا کے نزدیک نبیوں سے معجزے کرانا کچھ مشکل بات نہیں ہے اکثر ایسا واقع ہوتا ہے کہ بہت سے روپیوں میں چند روپیہ کھوٹے بھی ہوتے ہیں۔سب روپیوں کو کھوٹے نہیں بنا سکتے بلکہ اُن کو اچھی طرح پرکھتے ہیں کہ کھراکون ہے اور کھوٹا کون۔ اسواسطے اب بفضل خدا اُن نشانونکو  جن سے سچیّ کرامامتیں  پہچانی  جاسکتی ہیں بیان کرتے ہیں ۔ 

پہلا یہہ کہ وہ خدا کے لایق ہو  نہ ہنسی کا باعث۔ مثلاً  اگر کوئی شخص مجھے کہے کہ فلانے شخص  نے اپنے بیٹے کا سر کاٹ کر ہاتھی کا سر لگا دیا۔ یا  کسی  آدمی نے پہاڑ کو نگل لیا یا اُسنے چاند کو اپنی تلوار سے دو ٹکڑے  کر دیا ۔ جب میں سے ایک  ٹکڑا  اُسکی استین سے ہو کر نکل گیا۔ تو میں اِن باتوں کو باوجود پختہ دلایٔل کے کبھی نہ مانونگا۔ لیکن بیماروں چنگا اندھوں کو بینا کرنا مرُدونکو زندہ کرنا کو یڑوں کو پاک و صاف کرنا خدا ہی پر موقوف ہے اور اُسی کے لایق ہے ۔ ایسے ایسے معجزے خداوند عیسیٰ مسیح نے کئے اور اُس کے معجزات سے ہیں چند نصیحتیں بیش  قیمت حاصل ہوئیں ۔ اور اُسکے کاموں سے سراسر روحانی تعلیم ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً جب اُسنے کویڑیوں کو پاک و صاف کیا تو اُس سے ثابت ہوا کہ وہ گناہ سے بھی صاف کر سکتا ہے۔ انجیر کے درخت کو سُکھانے سے یہہ ثابت ہوا کہ جو آدمی نیکی کا پھل نہیں لاتا سکھایا جاتا ہے۔ بیماروں سے تندرست کرنے سے واضع ہوا کہ وہ روحانی حکیم ہے اور دل کی بیماری کو بھی زایٔل کرنا ہے۔ بیشک عیسیٰ کے معجزے خدا کی مرضی کے مطابق تھے۔  دوسرا نشان یہہ ہے کہ طرح طرح کے معجزے و قوع میں آویں ۔ مسیح نے بیشمار معجزے مختلف قسموں کے کئے۔ اگر کوئی شخص ایک قسم کے چند معجزے دکھا وے  تو دے ۔ ماننے کے لایق   نہیں ہو سکتے  کیونکہ اُنمیں فریب پایا جاتا ہے۔ مسیح نے برخلاف اسبات کے گانؤ بہ گانؤ دہ بدہ  پھر کر بہت سے لوگوں کو قسم قسم کی بیماریوں سے چنگا کیا۔ مرُدونکو قبروں سے نکالکر زندہ کیا۔ لنگڑے اُسکے حکم سے  ہر نونکی مانند کوونےلگے۔ ناپاک روحوں کو دیو انوں سے نکالا۔ اور بعض بعض وقت ایسا واقع ہو کہ آندھی اور سمندروں نے اُسکا  حکم مانا۔ ایسی ایسی باتو ں میں کبھی فریب نہیں پایا جاتا۔ تؔیسرا یہہ کہ معجزا برملا کیا جا وے بیشک عیسیٰ نے اپنے معجزے عام  لوگوں کے سامنے دکھائے۔ ایسے کہ ہر ایک آدمی ا ُسکو  سمجھ سکتا تھا اور معجزے فی الفور وقوع میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ جسوقت ُاسنے آندھے کو کہا کہ بینا ہو تو  وہ فوراً بینا ہو سکے ۔ یہی نشان ہیں  کہ  جنسے  سچےّ معجزے ثابت ہوں گے۔ چوؔتھا یہہ کہ دشمن بھی  معجزے کے قایل ہوں۔ اگرچہ اُسکے دشمن بسبب عداوت معجزوں کے مقر تھے۔ ور اُن کو درست جانتے۔ آج تک محمدی لوگوں میں مشہور ہے  اُسکے دم میں صحت تھی۔ اگرچہ یہودی لوگ کہتے ہیں اور اُن کی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ اُسنے عجیب عجیب کام دکھلائے مگر بہت تعصب سے کہتے ہیں کہ وہ ساحر تھا۔ پانچواں یہہ کہ گواہی پختہ ہو یہہ بات مشہور ہے کہ اُسکے شاگرد   جان سے مار دالے گئے۔ مگر اُسکے معجزون  کی گواہی سے ہر گز  باز  نہ آئے  اِس لیے کہ وہ  ہمیشہ   عیسیٰ کے ساتھ رہتے تھے اور اُسکے کاموں کو اچھی طرح سے  دیکھتے تھے تو کس طرح  ہو سکتا ہے کہ وہ دھوکھا کھاتے دیکھو وہ کیا کہتے ہیں کہ ہم نے اُسکے قسم قسم کے معجزوں کو دیکھا ہمارے سامنے وہ صلیب پر کھینچا گیا جب پھر وہ زندہ ہوا  ہمکو کئی بار ملا ہمارے سامنے وہ آسمان پر چڑھ گیا۔ جب لوگ اُنکو کہنے  سے مانع آئے  تو اُنہوں نے جواب دیا کہ خدا  کا حکم انسان کے حکم سے افضل ہے اور بیشک ماننے کے لایق ہے۔ جیسا اُنکو کہا کہ ایسی ایسی باتیں مت کرو ورنہ تم قتل کئے جاؤ گے تاہم وہ باز نہ آئے۔ دیکھو جان بہت عزیز ہے اور جان کو بچانے کے واسطے انسان ہر ایک دنیاوی چیز کو قربان کرتا ہے اگر وہ فریب کھاتے تو کیونکر اپنی جان دیتے۔ جب انہوں نے فریب نہیں کھایا  اور دیا بھی نہیں تو اُنکی بات قابل تسلیم ہے۔ عیسیٰ اپنی اپنی قول کی تصدیق کے لیے معجزے کئے جو جو اُسنے سکھلایا وہ سچ برحق اور ماننے کے لایق ہے۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے ۔ انتشارِانجیل سے ثبوت

انتشار ِ انجیل اُسکی صداقت کا بھاری نشان ہے۔ جانتے ہیں کہ مسیح سے تھوڑی مدّت کے بعد  دین عیسوی تمام ملکوں میں پھیل گیا اور کئی ایک قوموں سے تسلیم کیا گیا۔ اور بعض لوگ اعتراض کرینگے کہ دین محمدی بھی اسیطرح سے پھیل گیا تھا ۔  درحقیقت سچ ہے یہہ بھی جاننا چاہیے کہ صرف مذہب کے پھیلنےسے اُسکی سچاّئی ظاہر نہیں ہے مگر کئی ایک شرطوں سے  لوگ اپنے قدیمی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو کئی ایک وجہ سے اختیار کرتے ہیں۔ دڑ سے لالچ یا نجات کیواسطے۔ تمام علماءمحمدی جانتے ہیں کہ جس وقت  محمدصاحب نے ایک فریق کو  کو جمع کیا اُس نے اپنے مذہب کو تلوار کت زور سے پھیلا دیا۔ مثلاً  کوئی شخص وحشیوں کے بیچ بڑا بہادر ہو اور چاروں طرف چھوٹے چھوٹے فرقے ہوں جو آپس میں میل نہیں رکھتے تب وہ بہادر ایک نئے مذہب کو جاری کر کے بتلادے کہ یہہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور یہہ بھی کہے کہ جو شخص اُسکے واسطے لڑائی کرئے اُسکو اِس دنیا میں لوٹ اور خوبٖ صورت عورتیں ملینگی۔ اور اُس دنیا میں ویسی خوشی اُسکو عنایت ہوگی تو بیشک بہت لوگ اُسکو قبول کرینگے اور جس قدر زیادہ شریر لوگ ہوں گے اُسقدر اُسے زیادہ مانیں گے کیونکہ لڑائی زر زمین اور زن کے لیے ایسے ایسے لوگوں کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ لیکن عیسائی دین انسان کی ساری بدخواہشوں کے برخلاف ہے۔ دیکھو جب عیسیٰ کے شاگرد اُس کی عزت اور پچاؤ کیواسطے اُسکے دشمنوں کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے۔ تو وپ اُنکو منع کرتا تھا کہ تم نہیں جانتے کہ تم کس طرح کی روح رکھتے ہو۔ علاول اُسکے اُس نے انہیں فرمایا کہ میں تمکو بھیڑونکی مانند بھیڑیونکے درمیان بھیجتا ہوں ۔ اور وہ اُن کو یہہ ہی سکھلاتا تھا کہ رحم دل اور فروتن مزاج ہو جو دشمن تم پر سختی کرے تو خفا مت ہو اپنے دشمنونکو کو پیار کرو اُن کے قصوروں کو معاف کرو اُن کے لیے دعا مانگو اس لیے کہ مغرؔور لالؔچی دغاؔباز کؔینہ وار اور سنگدؔل بادشاہت الہیٰ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بیشمار لوگوں نے اپنے قدیمی مذہب کو کس واسطے چھوڑ کر اِس مذہب کو اختیار کیا ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اُن لوگوں نے دنیاوی مطلب کیواسطے اختیار کیا ہوگا تو یہہ سراسر غلطی ہے کیونکہ دین عیسوی دنیاوی خواہشوں کے بالکل برخلاف ہے۔ اِسکا سبب یہہ کہ جب انہوں نے پہچان اور غور کی کہ یہہ لوگ جو کہ کراماتیں کرتے ہیں اور نئے مذہب کی تلقین کرتے ہیں سچےّ ہیں تو اُنکی بات کو ماننا چاہیے ۔ پھر ہم سب جانتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنے پُن اور ثواب کو اپنا فخر سمجھتے ہیں جیسا کہ نمازی اپنی محراب کو حاجی حج کو پنڈت ودیاّ کو جاتری تیرتھ کو جوگی یا سنیاسی بڑے دُکھ  کو خداوند عیسیٰ مسیح نے صاف فرمایا ہے کہ پُن اور ثواب خداوند تعالیٰ کے آگے کچھ قدر نہیں رکھتے ہیں آپ سے پھر پوچھتا ہوں کہ انہوں نے اِس مذہب کو جس کے سبب کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے رشتہ دار ہم کو چھوڑ دیوینگے اور حکم ہم پر سب سے پچھلی دلیل جس سے دین عیسوی سچاّ ٹھہرایا جاتا یہہ ہے کہ وہ آدمی کی دلی بیماریوں کو اچھی طرح سے انکا علاج کرتا ہے فرض کرو کہ ایک آدمی بیمار ہوا ہو اور دس حکیم اُس کے علاج کیواسطے مقرر ہوں۔ جو بتا دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔ ازا نجملہ معلوم ہو کہ نو حکیم اُس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے اور دسواں بیماری کو خوب تشخیص کرے۔ اور ظاہر کرے کہ مریض کے سر پیٹ اور خون میں خلل ہو اور بیماری کی قباحت کو بیان کرے اور کہے کہ میں بخوبی  اِسکا علاج کر سکتا ہوں۔ تب سب دانا لوگ کہینگے کہ بیشک یہہ دسواں حکیم اِس بیماری کا علاج کر سکتا ہے ۔ میں مدّعی ہو ں کہ بیبل ہی انسان کی ایسی ایسی دلی بیماریوں کو رفع دفع کر سکتی ہے۔ وہ کسی کی چاپلوسی نہیں کرتی وہ ہمکو بار بار یہہ سکھلاتی ہے کہ تم خود بخود تندرست نہیں ہوسکتے اور صرف خدا کا نام لینے یعنے حّج کرنے روزہ رکھنے نماز پڑھنے یا زکوۃدینے  سے خلاصی نہیں پا سکتی۔ لیکن برعکس اِسکے وہ ہمیں یہی سکھلاتی ہے کہ ایسے کاموں سے آدمی مغرور اور متکبر ہو جاتے ہیں اور خدا کی نظر میں اِن کاموں کے کرنے سے آدمی گنہگار ٹہرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ جو ایسے ایسے کام کرتے ہیں ریاکار ہیں اور لوگوں سے عزت پانیکے واسطے انہیں بجا لاتے ہیں اور یہہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ اِس سے ناراض ہے۔ انجیل ہمیں نہ صرف یہہ سکھلاتی ہے کہ ہم کبھی کبھی گناہ کرتے ہیں بلکہ ہمیں بار بار کہتی ہے کہ ہم بزاتہ گنہگار ہیں اور ہم میں کوئی خوبی نہیں ہے اسبات کی تصدیق کے لیے چند آیتیں لکھی جاتی ہیں ۔ پولوس کے رومیوں کے خط کے پہلے باب کی اکیسویں (۲۱) بتیسویں (۳۲) آیت تک کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ خدا کو پہچانا تو بھی خدا کے لایق اُسکی بزرگی اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالوں میں پڑگئے اور اُن کے نافہم دل تاریک ہوگئے وہ آپ کو دانا ٹھہرا کے نادان ہوگئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی آدمی اور پرندوں اور چارپایوں ور کیڑے مکوڑوں کی موت سے بدل ڈالا ۔ اِس واسطے خدا نے بھی اُن کے دلونکی خواہش پرانہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ اپنے بدنوں کو آپس میں بحیرمت کریں۔ اور مخلوق کی پرستش اور بندگی کر کے خالق کو چھوڑ دیا جو ہمیشہ ستایش کے لایق ہے۔ اِس سبب سے خدا نے اُن کو گندی شہتوں میں چھوڑ دیا ۔ تیسرے باب کی دسویں آیت سے اٹھارھویں آیت تکچُنانچہ لِکھا ہے کہ کوئی راست باز نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔

کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالِب نہیں۔ سب گُمراہ ہیں سب کے سب نِکمّے بن گئے ۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کُھلی ہُوئی قبر ہے ۔ اُنہوں نے اپنی زُبانوں سے فریب دِیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے وغیرہ۔ زبور کے ۵۱ باب کی تیسری آیت سے پانچویں آیت تک کیونکہ مَیں اپنی خطاؤں کو مانتا ہُوں ۔اور میرا گُناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔مَیں نے فقط تیرا ہی گُناہ کِیا ہے۔ اور وہ کام کِیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہے۔ تاکہ تُو اپنی باتوں میں راست ٹھہرے۔ اور اپنی عدالت میں بے عَیب رہے۔ دیکھ! مَیں نے بدی میں صُورت پکڑی۔ اور مَیں گُناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا ۔ایسا ہی بیبل سکھلاتی ہے وہ کہتی ہے کہ ہم سب چھوٹے بڑے گنہگار پلید پریشان نالایق اور کمبخت ہیں۔ وہ ہمیں کہتی ہے کہ ہم نیکی نہیں کر سکتے جسطرح حبشی اپنے رنگکو بدل نہیں سکتا۔ چیتا اپنے داغوں کو اِسیطرح گنہگار نیکی نہیں کر سکتا ۔ خدا تعالیٰ ہونٹوں کی بندگی نہیں چاہتا دلی بندگی چاہتا ہے ۔ اُسکا پہلا حکم یہہ ہے کہ ہم اُسکو سارے دل اور ساری جان سے پیار کریں۔ جبکہ ہمارے دل میں دؔشمنی تکبؔرّ  ضؔد اور خود ؔغرضی بھری ہو  خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہم دان اور پُن کریں لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگوں کو اپنا جیسا سمجھیں تو یہہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ دیکھو بیبل کیا فرماتی ہے وہ کہتی ہے کہ سب لوگ کمزؔور ناچار اور نّکمےہیں۔ اِسواسطے وہ شخص اپنے چال و چلن اور دل کو جانچیگا وہ ضرور اقرار کریگا کہ بیبل ہی میرے تمام حالات کو  جانتی ہے۔ واضح رہے کہ انجیل جیسا کہ مذکور ہوا نہ صرف بیماری کو بتلاتی ہے۔  بلکہ علاج بھی کرتی ہے یہہ بات صاف صاف ظاہر ہے کہ ہندو اور محمدی مذہب گناہ سے پاک نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ شخض جو پوجا کرتا  اشنان  کرتا دیوتوں کا نام لیتا ہے جنکے کرنے کی اجازت ہندؤں کے مذہب میں پائی جاتی  وہ  ویسا ہی لالچی اور خود غرض رہتا ہے جیسا کے آگے تھا بلکہ آگے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے ویسا ہی جو حجّ کرتا نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہے وہ بکوبی جانتا ہے کہ میں  ان کے کرنے سے فروتن مزاج رحم دل خیر خواہ کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ تؔکبرّ  خوؔد غرضی غرؔور اور سنگدؔلی سے معمور ہوں۔ برخلاف اِن سب کے انجیل یہہ دعویٰ کرتی ہے کہ جو شخص مجھے مانیگا بیشک راستباز ہو جاویگا۔ اور جو کوئی شخص عیسیٰ پر ایمان لائے گا وہ حلیؔم الطبع فروؔتن مزاج خیؔرخواہ رحم ؔدل ہو گا اور خدا کو پیار کریگا۔ اگرچہ پہلے وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا تھا مگر اب اُسکی صحبت میں مگن رہیگا اور خدا کو ابا کہہ کر پُکارے گا۔ اگر چہ اُسکو خدا کی عبادت کرنا اُسکےواسطے بڑا مشکل کام تھا اب نہایت خوشی اور خواہش سے کریگا۔ گناہ سے نفرت رکھیگا۔ اور حتیالمقدور کوشش کریگا۔ کہ میں گناہ  خودؔغرضی تکؔبرّ اور بُری برُی خواہشوں سے پرہیز کروں۔ قطع نظر  اِس بات کے انجیل ہمیں  فرماتی ہے ہے کہ وہ  شخص جو عیسیٰ پر ایمان لاتا ہے اُسکو روح القدس ملتی ہے جس سے اُس آدمی کا مزاج نیک ہو جاتا ہے اور وہ از سر نو پیدا ہوتا ہے ۔ دیکھو جب نیقو دیموس عیسیٰ کے پاس  رات کو آیا  اور اُسکو کہا اے ربی میں جانتا ہوں کہ تو خدا کی طرف سے اُستاد ہو کے آیا  ہے۔ تب عیسیٰ نے اُسکو جواب میں یہی کہا  کہ تم کو از سر نو پیدا ہونا چاہیے اگر نہین تو تو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ضرور ہم گنہگاروں کو از سر نو پیدا ہونا چاہیے۔ انجیل میں بار بار لکھا ہے کہ جو آدمی مسیح پر ایمان لائے گا از سر نو پیدا ہوگا ۔ دیکھو مسیح کے زمانے سے لیکر آج تک بہت سے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے اقرار کیا ہے کہ ہم آگے مرُدے تھے اب عیسیٰ پر ایمان  لانےسے زندہ ہوئے ہیں۔ آ خدا کو پیار نہیں کرتے تھےابھی اُسکو پیار کرنے لگے آ گے اپنے دشمنوں کی  بربادی چاہتے تھے ابھی اُن کی بہتری چاہتے ہیں۔ آگے گناہ کرتے تھے اب اُس سے پر ہیز کرتے ہیں۔ آگے انسانی عزت کے خواہان تھے اب خدا کی طرف سے عزّت چاہتے ہیں۔  اِسبات میں کوئی شک نہیں کہ وے لوگ جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں یہہ برکت یعنے نیا جنم پاتے ہیں مگر سبھونکو نہیں ملتا ہاں سچےّ عیسائیوں کو۔ میں بھی یہہ کہتا ہوں کہ بیشمار لوگ برائے نام عیسائی ہیں لیکن  بتُ پرستوں  سے بدتر ہیں۔ اور ایسے عیسائیونکو بھی دیکھا جنھوں نے یہہ نیا جنم پایا ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ تم نے کس طرح سے سچےّ اور جھوٹے عیسائی پہچانا۔ تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسیطرح عیسائی بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ فرض کرو کہ اگر کوئی درخت  کھٹا اور خراب پھل لاوے اور پھر سال بہ سال عمدہاور شیریں پھل لانے لگے تو ہر ایک آدمی کہیگا کہ آگے یہہ درخت خراب تھا اب اچھا ہو گیا ہے۔ آگے خراب پھل لاتا تھا اب شیریں لانے لگا ہے۔ پس یہی فرق  عیسائیوں میں ہے کہ جب وہ دل و جان سے عیسیٰ پر ایمان لاتے ہیں تب ہر شخص کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اُنکو نیا جنم حاصل ہو گیا  ہے۔  اور وے اچھے ہو گئے ہیں۔ شاید کو ئی آدمی کہے کہ اِسبات کو ثابت کرو تب میں دین عیسوی کو سچاّ جانونگا  تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ امریکہ انگلستان اور اور ملکوں میں بہت  لوگ  ہیں جنھوں نے یہہ برکت پائی۔  چنانچہ اِس ملک میں بھی بہت سے انگریز ہیں جنھوں نے نیا جنم پا لیا ہے جو بڑے خاندان کے ہیں اور اپنا ملک رشتہ دار ور بھائی بندوں کو چھوڑ  کر طرح طرح کی بے غر تئیں بازاروں میں کمینہ آدمیوں سے اُٹھاتے  ہیں اور بالکل بے غرض ہیں کچھ تنخواہ نہیں لیتے اگر وے چاہیں تو اور پادریوں کی مانند گزارہ کے موافق اُن کو تنخواہ  ملسکتی ہے مگر وہ نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ دولت مند ہیں وہ مفت کام کرتے ہیں۔ دیکھو جب کوئی شخص اُن سے پوچھتا ہے کہ تم نے اپنی ولایت گھر رشتہ دار اور بھاری عہدوں کو کیوں۔   چھوڑا اور اِس ملک میں کیوں آئے ۔ تو وہ یہی جواب دیتے ہیں  کہ ہم اِس ملک میں اِسواسطے آئے ہیں اور طرح طرح کی سختی تکلیف برعّزتی اور وشنام اِسواسطے اُٹھائی ہیں کہ اس ُملک کے لوگ  کلام  الہیٰ سے واقف ہو کر نجات پاویں  ۔ ہم روپیہ  کے واسطے اور عہدے  کے واسطے نہیں آئے اگر روپیہ اور عہدہ چاہتے ہو  تو اپنی ولایت میں اِس میں اِس سے دوگنا حاصل کر سکتے ہیں  تھے۔یہہ مت کہو کہ وہ ثواب کی امید پر یہہ کرتے ہیں  کسواسطے کہ انجیل میں لکھا  ہے کہ ثواب کوئی آدمی  نہیں کر سکتا بلکہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جو عیسیٰ مسیح سے ملتا ہے نجات دیگا  اور کہتے ہیں کہ جب خدا وند عیسیٰ مسیح نے اتنا  ذالجلال ہے  بہشت اور اپنے  باپ کو چھوڑ دیا اور اِس خراب دنیا میں آکر بے نہایت  تکلیف اور دُکھ اور بےعّزتی اُٹھائی اور  سولی پر اپنی بیش قیمت جان دی تاکہ ہمکو حقیقی دولت عّزت اور  ہمیشہ کی زندگی ملے۔ تو کیا یہہ بڑی بھاری بات ہے کہ ہم اپنے بھائیوں جھوٹی  دولت دنیاوی عزّت اور چند روزہ خوشی کو چھوڑ دیں۔  بیشک ایسی خیر خواہی اور محبت حقیقی  ایمان  سے حاصل ہوتی ہے۔ بھائیو  وہ درخت جس سے ایسا  پھل حاصل ہوتا  ہے  بیشک جنتّی ہے۔   قطع نظر اسکے یہہ بھی واضح ہو کہ ہزارہا آدمی عیسائی ملکوں  میں ہیں  جو سال  بہ سال  پادری لوگوں کو روپیہ دیتے ہیں تاکہ وے تمام دنیا میں جاکر اسکول بناویں ہسپتال مقرر کریں۔ اور اَور کام لوگوں کے فایٔدے کے لیے کریں۔ اگر کوئی شخص  دنیا کی سیر کرےاور ہر طرح کے مزہبوں کے لوگوں کو دیکھے اور اکثر جگہ غریبوں بیواؤ ں اور یتیموں کے پالنے کے واسطےخوب بندوبست پاوے۔ اور اندؔھوں  بہؔروں   غرؔیب اور لاچاروں کے سکھلانے کے واسطے مدرسے دیکھے تو اُسکو معلوم   ہوگا کہ یہہ دین عیسوی  کے نتیجے ہیں اور وہ یہہ بھی کہیگا کہ اِن ُملکوں کے بندوبست کے موافق جب میں انجیل مروّج ہے اور خوب پائی جاتی ہے کسی ملک کا بندوبست نہ  ہوگا۔  اے عزیز و اب اِنصاف سے اسبات پر غور کرو کہ وہ دین جس سے ایسے عمدے فایدٔے حاصل  ہوتے ہیں سچاّ ہے کہ نہیں اگر یہہ بات سچ ہے ۔ کہ درخت اپنے پھل سے پحچانا جاتا ہے تو بیشک یہہ دین برحق ہے۔  اب ہماری یہہ التجاہے کہ جو آدمی اس مضمون کو پڑھے تو تحقیق کرے  انجیل کو پڑھو۔ اُسکو خوب غور سے ملاحظہ کرو اور خدا  سے دعا مانگو کہ تمہاری  ہدایت  کرے۔ اور خداوند عیسیٰ مسیح کے طفیل معافی حقیقی راستبازی اور پاکیزگی ڈھونڈھو  تاکہ تمکو نجات ملے  فقط۔ 

PDF File: 

خط  اور اُس کا جواب

Letter and Reply

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Letter Writing

جناب مخدوم بندہ پادری ویری صاحب مہتم مطبح امریکن تسلیم عرض کرتا  ہوں ۔ قبول فرمائے ایک سوال  کے شافی جواب کی آپ سے  بوجہ آپکی نہایت ذعلمی  کے امید قوی ہے لہذاذیل میں عرض کرتا ہوں  معہ جواب کے اخبار نور افشاںمیں طبع  فرمائیگا۔تو بندہ مشکور عنایت ہوگا۔

۱۔سوال ۔ انبیاءسابق از مسیح علیہ السلام کے مبعوث ہونیکا عالم اسباب میں علے العموم کیا نتیجہ حضرت آدم  علیہ السلام سے حضرت مسیح تک کسی کو خدا کی وحدانیت یا تثلیث یعنے کثرت فی الوحدت بزریعہ وحی کے بتلائی گئی۔  اور اگر تثلیث بتلائی گئی۔ تو کتاب سے ثبوت اور جس نبی کی کتاب سے ثبوت دیا جائے۔ اُس نبی کی امت اورمقلدونکے اُس مسئلہ سے فائیدہ نہ اُٹھانے کی وجہ اور اگر سوائے حضرت مسیح علیہ السلام  کے کسی نبی نے بالتصریح اپنے شاگرد ونکو یہ مسئلہ تثلیث بتلایا تو وہ  صورت مان لینے اور یقین کرینکے اُنکے شاگرد ونکی نجات اور حیات ابدی پانیکے مفصل اسباب۔ اور اگر وہ لوگ اِس مسئلہ سے مطلق لاعلم رہے۔ تو آیا من جانب اﷲبے علم رہے۔ بابقصور عقل  ۔  اور اگر وہ لوگ منجانب اﷲلاعلم رہے۔  اور کسی کو اِسکا علم نہیں دیا گیا تو اِنکے واسطے اﷲ پاک کی عدالت و رحم کے قائم  رہنے کی اور نجات پانیکی صورت کہ دراصل وہ اِس خاص صورت میں  مستحق نجات ہیں تبصرہ بدلائیل قویہ ارشاد فرمائیے۔ اور کسی آدمی   سے شریعت کی تکمیل ممکن ہو یا نہیں اور بعد وقوع شہادت مسیح علیہ السلام کے جن لوگوں نے خون حضرت مسیح علیہالسلام کو اپنے گناہونکا  کفارہ  یقین کیا۔ اُنکے سوائے کسی اور نبی کے مطیع الامر اور ایماندار امت کے لیے کفارہ حضرت مسیح کچھ مفید ونافع ہے۔ یا نہیں ۔ زیادہ  نیاز ۔

راقم بندہ  احمد حسن محمد ی ازمین  پوری 

سوال اول۔ انبیا   و سابق از مسیح علیہ السلام کے پیدا ہونے  کا عالم اسباب میں کیا نتیجہ۔

جواب۔ واضح ہو کہ لفظ  نبی عبرانی ہے۔ اور اِسکے معنے ہیں آئیندہ کے اور مخفی باتیں دیکھنے اور بتلانیوالا۔ زمانہ سلف میں خدا نے وقًتا فوقًتا نبیوں کو بھیجا ۔ تاکہ وہ انسان پر خدا کی مرضی ظاہر  کریں ۔ اور اُنکو  روحانی  تعلیم دیویں ۔ یہ لوگ خصوصاً یہودیوں میں پیدا ہوئے  اور اکثر اُنکو راہ راست بتلاتے رہے۔  اور نبوت  کرتے رہے۔ اگرچہ اِنکی تعلیم کئی قسم کی تھی ۔ لیکن  اُنکا خاص اور ضروری کام (جسکے لیے مبعوث  ہوئی) یہ تھا کہ نجات  کی بابت خوشخبریں سُنائیں۔ اور لوگوں کو نجات کی خبریں بتلائیں  مثلاً  نجات دہندہ آویگا۔  وہ کون ہو گا۔  کس قوم سے پیدا ہو گا۔ کب پیدا ہو گا۔ کہاں ہو گا۔ کسطرح پیداہو گا۔ کیا کیا کام کریگا۔ اور انسان کے واسطے تکلیف اٹھا کر کسطرح جان دیگا۔ اور پھر جی اُٹھے گا اور آسمان پر عروج فرمائے گا۔ اسلیے مسیح نے یہودیوں سے کہا ۔ تم نوشتوں میں ڈھونڈھتے ہو ۔ کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ اُنمیں تمہارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہو اور یہ وہی ہیں  جو مجھ پر گواہی دیتے ہیں دیکھو یوحناّ کی انجیل پانچواں باب ۳۹ آیت اور اِسی مضمون پر پطرس حواری کا کلام ہے۔  اُسکا پہلا باب ۱۰۔ ۱۱۔۱۲۔ آیت اِسی نجات کی بابت اول نبیوں نے تلاش  اور تحقیق  کی۔ جنھوں نے اِس نعمت کی پیشین گوئی کی۔ جو تم پر ظاہر ہونیکو تھی۔ وہ اُسکے  تحقیق میں تھے  کہ مسیح کی روح جو اُنمیں تھی۔ جب مسیح کے دکھونکے اور اُسکے بعد جلال کے آگے گواہی دیتی تھی کسوِقت اور کسطرح کے زمانہ کا بیان کرتے تھے۔ سواَنپر یہ ظاہر ہوا کہ دے نہ اپنے بلکہ ہماری خدمت کے لیے جا ؔمیں کہتے تھے جنکی خبر ہمکو اُنکی معرفت ملی۔

اِن آیات سے صاف ظاہر ہے کہ زمانہ سلف میں جو نبی ہوئے اُنکے پیدا ہونیکا یہ نتیجہ تھا۔ کہ وہ مسیح ہر گواہی دیں۔ اور اُسکا حال ظاہر کریں ۔ اور لوگوں کو اُسکے زریعہ سے نجات  حاصل ہونیکی خبر دیں ۔ سمجھنے کے لیے اِس بیان پر غور کرنا چاہیے کہ دے خداوند یسوع مسیح کےگویا  مورخ تھے۔ اُسکی تواریخ اُنہوں نے الہام سے معلوم کر کے لکھی۔ بعض نبیوں کی کتابوں میں مسیح کی نسبت اسقدر پیشین گوئی درج ہے کہ وہ  انجیل نبی کہلاتے ہیں ۔  اُنمیں اور حواریوں میں صرٖ ٖف اتنا ہی فرق ہے کہ اُنکا بیان نسبت واقعات آئیندہ کے ہے اور حواریون کا نسبت بہ واقعات گزشتہ لیکن مطلب برابر ہے۔

۲۔سوال۔ حضرت آدم سے حضرت مسیح تک کسی کو خداکی وحدانیت  تا تثلیث یعنے کثرت فی الوحدت بزریعہ وحی بتلا ئی گئی۔  یا نہیں ۔ اور اگر نہیں بتلائی گئی توخدا کی کیا کیفیت اور الوہیت بتلائی گئی۔ اور اگر تثلیث بتائی گئی تو کتاب سے ثبوت۔

جواب ۔ اِس سوال میں کسقدر غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ اِسمیں خدا    کی وحدانیت اور تثلیث  کو ضد خیال کیا گیاہے یہ نا درست ہے ۔ عیسائی خدا کو واحد مانتے ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ لیکن اُس واحد خدا  میں تین اقنوم ہیں ۔ یعنے باپ بیٹا روح القدس یہ تین اقنوم ملکے ایک خدا ہے۔ یعنے خدا کی زات جو واحد ہے اُسمیں کثرت ہے۔ اور ایسا ہی تورات اور دیگر انبیاء کی کتب میں مسطر ہے ۔ خدا کی وحدانیت کا بہت جگہ بیان ہے اِسجگہ صرف  دو آیتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ دیکھو موسےٰ کی پانچویں کتاب کے چٹھے باب کی ۴ ۔آیت سُن لے اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا  کیا  خداوند ہے ۔ اور یسعیاہ  نبی کی ۴۵ باب کی ۵ آیت کہ میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں ۔ میرے سوا کوئی خداوند نہیں۔اِن آیات  سےخدا کی وحدانیت ثابت ہے۔

اب اُسکی زات واحد میں کثرت کے موجود ہونیکا ثبوت دیا جاتا ہے دیکھو کتاب  پیدائش  پھلا باب ۲۶ ۔ آیت ۔ تب خدا نے کہا کہ ہم  انسان کو اپنی سیرت اور اپنی مانند بناویں۔ تیسرا باب ۲۲۔ آیت اور خداوند نے کہا کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ گیارہ باب ۷آیت  خداوند نے کہا آؤ ہم اُتریں اور اُنکی بولی میں اختلاف ڈالیں تاکہ دے ایک دوسرے کی بات سمجھیں یسعیاہ نبی کی کتاب ۶باب ۸ آیت جسمیں  نبی فرماتا ہے ۔ اِسوقت میں نے خداوند کی آواز سنُی۔جو بولا۔ کہ میں کسکو بھیجوں ۔ اور ہماری طرف سے کون جاویگا۔

اِن آیتیونکے الفاظ اور اُنکے ضمائیرکی طرف توجہ کر دی پہلی  آیت میں ہم  کا لفظ مستمعل ہوا ہے ۔ جو جمع کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور دوسری آیت میں بھی ۔ لیکن دوسری آیت کے یہ الفاظ ۔ ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا   کسِ صفائی سے بیان کرتے ہیں خدا کی زات میں کثرت ہے اور کچھ شک و شبہ کی جگہ نہیں رہتی۔

اور تیسری آیت میں ہے۔ آؤ ہم اُتریں اِس آیت میں بھی جمع کا لفظ مستمعل ہوا ہے لیکن سواء اِسکے آؤ کے لفظ سے معلوم  ہوتا ہے کہ وہ کسی کو خطاب  کر رہا ہے۔ وہ اِس کی زات کا ضرور دوسرا اقنوم ہے۔

چوتھی آیت میں ہے کہ میں کسکو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جاوے گا اِس میں سواضمائیر کے طرزکلام سے  مفہوم ہوتا ہے کہ خدا کی زات میں کثرت فی  الوحدت آیات  صدر سے بخوبی ظاہر ہے کہ خدا کی زات میں کثرت ہے۔

اب اس امر کا بیان کیا جاتا ہے کہ اُسکی زات میں تثلیث ہی ہے۔ اور اُسکی زات میں تین ہی اقنوم ہیں ۔ یہ بیان یوں ہے پھر عہد عتیق کی کتابوں سے صاف  معلوم ہوتا ہے کہ مسیح  جو نجات دہندہ ہوکے دنیا میں پیدا ہوگیااس میں الوہیت ہے  دیکھو ۱۱۰زبور پہلی آیت میں دأود یوں کہتا ہے ۔ خداوند نے میرے خداوند  کو  فرمایا کہ تو میرےدہنیں ہاتھ بیٹھ۔ ۴۵ زبور ۶۔۷ آیت۔ تیرا تخت اے خدا  ابد الااباد  ہے تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے۔ تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے۔ اِس سبب خدا  تیرے خدا نے  تجھے   خوشی کے تیل سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ مسح کیا ہے۔ ان دو  آیتوں   میں مسیح کی نسبت یوں لکھا ہے ۔ اے خدا  تیرے  خدا نے تجھکو مسح کیا ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح میں الوہیت تھی۔ اور واضح ہو کہ اِن آیات میں خدا لفظ یہوداہ کا تر جمہ ہے جو عبرانی لفظ ہے۔اور یہوداہ کا لفظ اُور کسی پرسوائے خدا  کے استعمال نہیں کیا جاتا۔

پھر دیکھو یسعیا نبی کی کتاب نبوت ۹ باب۶ آیت ہمارے لیے ایک لڑکا تولد ہوتا اور ہمکو ایک بیٹا بخشاگیا اور سلطنت اُسکے کا ندھے پر ہوگئ۔ اور وہ اِس  نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب مشیر خدا  قادر اسی سے  صاف ظاہر ہے کہ نجات دہندہ (جسکی نسبت نبوت ہے) اُسمیں الوہیت ہوگی۔  یسعیا۷ باب۱۴ آیت دیکھو  ایک کنواری حاملہ ہوگی۔  اور بیٹ جنے گی۔  اور اُسکا نام  عمانوئیل ہوگا  یعنے  خدا ہمارے ساتھ ۔ اِس سے ظاہر  ہے کہ نجات دینے والا  جو پیدا     ہو گا۔ وہ  الوہیت رکہے گا۔ کیونکہ  وہ عمانوئیل کہلاویگا۔ جسکے  معنے ہیں انسان میں خدا  یرمیاہ نبی کی کتاب ۲۳ باب ۶ آیت دونوں  میں یہوداہ نجات پاویگا اور اسرائیل سلامتی  سے سکونت کریگا۔ اور اِسکا نام رکھاجاویگا  خداوند ہماری صداقت لفظ  خداوند (جو یہوداہ کا ترجمہ ہے ۔ اور صرف خدا پر اُسکا  اطلاق ہوتا ہے مسیح کی نسبت اِسجگہ آیا ۔ اور ظاہر کرتا ہے کہ اُسمیں الوہیت تھی۔ 

دوسرا  تورات اور کتب انبیا سے صاف ظاہر ہے۔ کہ روح القدس میں بھی الوہیت ہے۔ موسیٰ کی پہلی  کتاب پہلا باب  ۲ آیت اور ابتدا میں  خدا کی روح  پانیوں پر جنبش کرتی تھی ۔ یہاں ازلیت ( جو خدا کی صفت ہے ) روح القدس کی نسبت بیان ہو یٰ ۱۳۹زبور ۷ آیت تیری  روح سے میں کدھر جاؤں اور تیری حضوری سے میں کہاں بھاگوں ۔  اگر میں آسمان کے اوپر چڑھ  جاؤں  تو تو وہاں۔ اگر میں پتال میں اپنا  بستر بچھاؤں تو دیکھ تو وہاں بھی ہے۔ اِن آیات میں روح القدس کا ہر جگہ موجود ہونا  (جو صرف خدا کی صفت ہے)بیان ہوا  ایوب کی کتاب ۲۶باب ۱۳ آیت اُسنے اپنی  روح سے آسمانوں کو آرائیش دی ہے۔ اسجگہ روح القدس کا خالق  ہونا بیان کیا گیا ہے۔ یسعیانبی ۴۸باب ۱۶آیت ۔ تم میرے نزدیک آؤ۔ اور سنو مینے شروع ہی سے پوشیدگی میں کچھ نہیں کہا۔ جسوقت سے کہ وہ تھا۔ میں وہیں تھا۔ اور اب خداوند یہوداہ نے اور اُسکی روح نے مجھے بھیجا  ہے۔  خداوند  تیرا نجات دینے والا اسرائیل   کا قدوس یوں فرماتا ہے۔ اِس آیت میں نبی کا بھیجنا خدا اوراُس کی روح  سے ثابت ہے۔  سوا اِس کے اور آیات بھی بکثرت ہیں ۔ جن میں میں تثلیث کا اشارہ اور بیان ہے۔ پر ہم اِسی پر  اکتفا کرتے ہیں۔ کیونکہ ثبوت کے طور پر یہی کافی ہیں۔ 

یاد رکھنا  چاہیے کہ تثلیث کا پورا  اور صاٖٖف بیان مسیح کے آنے سے لوگوں پر ظاہر ہوا۔  اور اُسکا ثبوت بکثرت انجیل سے دیا جاسکتا  ہے۔ الہام  نجات کی نسبت سورج کی روشنی کی مانند ہے۔ جسکی تاپش اور جلوہ صبح   کیوقت   تھوڑا اور دھیماہوتا ہے  پھر اُس سے زیادہ  جوں جوں دِن بڑھتا جاتا ہے سورج کی روشنی بھی تیز ہوتی جاتی ہے اور دوپہر تک   کمالیت کو پہنچ جاتی ہے۔ اِسی طرح الہام کا حال ہے۔ خدا کی زات اور صٖفات  اور نجات دینے والے کا احوال تو رات میں نہایت تھوڑا ہے۔ رفتہ رفتہ کتب انبیاء میں اُس سے زیادہ ہے۔ اورسب سے بڑھکر اِنجیل میں راستبازی کا  سورج کہلاتا  ہے۔

۳۔ سوال۔ جس نبی کی کتاب میں تثلیث کا زکر ہے اُسکی اُمت اور مقلدونکےاُس مسئلہ سے فایدہ نہ اُٹھانے کی وجہ۔

جواب۔ پیشتر لکھا گیا کہ عہد عتیق کی کتابوں میں تثلیث  بیان ہے۔اور کثرت   فی الوحدت کا زکر اُنمیں پایا جاتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اُمت کو ضرور اِس مسئلہ کی خبر ہو گی۔کیونکہ جس کتاب پر وہ  اعتقاد رکھتے ہیں  اُس میں یہ امر مندرج تھا۔ اور اُنکی تعلیم میں تھا۔

اور نیز بعض بعض یہودی عالمو ں کی کتابوں میں جو موجود ہیں جگہ جگہ اِس کا اشارہ ہے۔ گو اسقدر صفائی  سے نہیں جیسا کہ انجیل میں ہے۔ اور اِس کا سبب یہ تھا کہ اُن کو پوری صفائی  سے خبر نہیں تھی۔

۴۔سوال۔ کسی نبی نے  بالتضریح   اپنے شاگرد وں کو یہ مسئلہ تثلیث بتلا یا تو درصورت مان لینےاور یقین   کرنے کے اُن کے شاگردوں  کی نجات اور حیات ابدی پانے مفصل اسباب۔

یہ سوال ۔ ہل ہی اچھی طرح مافی الّضمیرسائیل سمجھا نہیں گیا  لیکن تاہم  جسقدر سمجھا گیا  اُسکا جواب لکھا جاتا ہے۔  پیشتر بیان کر دیا گیا نبیوں نے جگہ جگہ تثلیث کا بیان کیا۔ اور اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ اُنکے شاگردوں کہ خبر تھی ۔ اور واضح ہو کہ صرف تثلیث پر اعتقادکرنے سے نجات ممکن  نہیں۔ بلکہ تثلیث  تو صرف خدا کی زات کا بیان ہے  مسیح پر ایمان  لانے سے ہماری  نجات ممکن ہے اوراُسکے کفارہ پر یقین کرنے سے ہماری نجات ہے مائیبل کی تعلیم ہے کہ سوائے مسیح کے نام کے اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں  کو کوئی دوسرا نام بخشا نہیں گیا۔ جس سے ہم نجات پا سکیں ۔ یہ اصول   نجات کا نہ صرف انجیل میں ہے بلکہ عہد عتیق میں بھی یہی تھا۔ فرق صرف اسقدر ہے کہ عہد عتیق میں  جو لوگ ہوئے وہ آنیوالے مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ اور عہد جدید کے اُس مسیح پر جو آچکا  ہے ۔ لیکن دو نو عہد کے لوگونکے نجات کا طریق صرف ایک ہی ہے ۔ یعنے ایمان خداوند یسوع  مسیح  اور اُسکے کفارہ ۔

۵۔سوال۔  اگر وہ لوگ اِس مسئلہ سے لاعلم رہے۔  تو ایامن جانب اﷲ سے یا بقصور عقل ۔ اگر من جانب اﷲرہے تو اُنکی نجات کی صورت۔

جواب۔ اِسکے جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ پیشتر لکھاجاچکا۔ کہ وہ لاعلم نہیں رہے۔

۶۔سوال۔ کسی  آدمی سے شریعت الہٰی کی تکمیل ممکن ہے یا نہیں۔

جواب۔ عیسائی مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ شریعت کی پوری تعمیل کسی آدمی سے نہیں ہوسکتی جابجا انجیل میں بیان ہے کہ کل انسان خدا کے  حضور گنھگار ہیں۔ اِس کلام سے کوئی شخص مستثنےٰ نہیں ۔ جامۂ انسانیت میں آکر صرف مسیح گناہ سے خالی رہا ۔ دیکھو رومیوں کا خط ۳ باب ۱۰ آیت کوئی راستباز  نہیں ۔ ایک بھی نہیں ۔ کوئی سمجھنے والا نہیں۔  کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب گمراہ ہیں۔ سب کے سب نکمے ہیں ۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اِسی  مضمون پر ۱۴زبور اور ۵۳ زبورکی گواہی ہے۔ اور ایسا تجربہ سےپایا جاتا  ہے  چنانچہ ہر ایک زمانہ کے بڑے بڑے دیندار اور خدا پرست لوگ  (جنکی تمام زندگی پاکیزگی اور راستبازی میں بسر ہوئی) اقراری ہیں کہ ہم گنہگار ہیں۔ دیکھو ۵۱زبور جسمیں دأود پیغمبر یوں فرماتا  ہے۔ اے خدا اپنی رحم دلی کے مطابق مجھ پرشفقت دی۔ اپنی رحمتونکی کثرت کے مطابق میرے گناہ مٹا دے۔ میری برُائی سے مجھے خوب دھو اور میری خطا سے مجھے پاک کر۔ میں اپنے گناہوں کو مان لیتا ہوں۔ اور میرے خطا ہمیشہ میرے سامنےہیں۔ میں نے تیرا ہی گناہ کیا ہے۔اور تیر ے ہی سزا ابدی کی ہے۔  دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے پیٹ میں لیا۔ دیکھ تو اندر کی سچائی چاہتا ہے سو باطن میں مجھکو دانائی سکھلا۔ زوفہ سے مجھے پاک  کر۔ کہ میں صاف ہوجاؤں ۔ مجھکو دھو۔ کہ میں برف سے زیادہ سفید ہوجاؤں ۔ میرے گناہ سے چشم پوشی کر۔ اور میری ساری برُائی مٹا ڈال۔ اے خدا میرے اندر ایک پاک دل پیدا کر۔ اور ایک مستقیم روح میرے باطن میں نئے سر سی ڈال وغیرہ۔ پھر ۱۹۔ زبور میں وہ یوں کہتا ہے کہ اپنی بھول  چوکوں کو کون جان سکتا ہے ۔ اے خدا تو مجھ کو کناہ پنہانی سے پاک کر۔ اور دانیال  نبی ۹ باب میں اپنی کتاب کے یوں کہتا ہے کہ ہمنے خطا کی۔  کہ ہمنے بدکاری کی۔ ہمنے شرارت کی۔ ہمنے بغاوت کی۔ کہ ہمنے تیرے حکموں اور تیری سنتوں  سے عدول کیا۔ اے خداوند زردوری ہمارے لیے ہے ہم ہر گز خداوند اپنے خدا کی آواز سے شنوا نہوئے۔ کہ اُسکی شریعتوں پر جنھیں اُسنے اپنے خدمتگزار نبیوں کی معرفت ظاہر کیا ۔ چلین وغیرہ ۔ پولوس رسول جو راستباز ی اور نیکی میں مشہور تھااپنی نسبت یوں کہتا ہے ۔ کہ  یہ دیانت کی بات با لکل پسند کے لائق ہے کہ مسیح دنیا  میں گنہگارونکے بچانے کو آیا اور میں اُن سب میں زیادہ گنہگار ہوں۔ جبکہ دنیا کے ایسے پاکباز  اور نیک آدمی اپنی نسبت یوں کہتے ہیں تو عام لوگونکا (جو کہ علانیہ گناہوں میں گرفتار ہیں)کیا ٹھکانہ۔ اِس بات کے فیصلے کرنیکے واسطے ہمکو یاد رکھناچاہیے ۔ (۱)کہ انسان اپنی زاتی حالت میں نہیں ہےیعنے  جس حالت میں اُسے خدا  نے پیدا کیا تھا اُسمیں نہیں رہا  خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کی شکل پر بنایا گیا تھا۔ یعنے جیسا خدا پاک اور راستباز پاکیزگی اور راستی سے معمور اور گنہ مترہ ہے ۔ ویسا ہی پہلا انسان تھا لیکن تھوڑے عرصے بعد شیطان کے دام فریب میں آکر گناہ کے پھندے میں پھنس گیا اور اپنی اصلی حالت سےجوراستی اور خوشی کی حالت تھی دور جا پڑا۔ تب سے کل انسانکےدلوں میں گناہ کی گڑہ قائم ہوگئی۔

کیونکہ اُس  انسان کی اولاد  میں سے ہیں جسنےابتدا میں گناہ کیا۔اور اُسی کی سی طبیعت اور اُسی کی سی  زات  رکھتے  ہیں ۔ اسی لیے دأود پیغمبر ۵۸ زبور میں یوں فرماتا ہے ۔ اہل شرارت رحم سے بیگانہ ہوتے ہیں ۔ وے پیدا ہوتے ہی بھٹک جاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔اُنکا زہر سانپ کا سازہر ہے۔ وے اُس بہر ہ ناگ کی مانند ہیں جو اپنے کان کو بند کر رکھتے ہیں اگر انسان اپنی ابتدا ئی حالت میں رہتا تو بے شک شریعت کی تکمیل کر سکتا۔ چونکہ اُس حالت میں نہیں رہا بلکہ زاتی اور طبعی برائی میں پھنس گیا۔ اور اُس کی خلقت میں ہی گناہ اثر کر گیا تو اُسکے لیے شریعت کی تکمیل کرنا ناممکن ہے اور اِسی لیے مسیح خداوند کہتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اگر کوئی سرنوپیدا نہوتو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا۔ اگر آدمی پانی  اور روح سے پیدا نہووےتو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (۲)بات جس پر غور کرنا مناسب ہے یہ ہے کہ شریعت کے دو حصے ہیں ایک لفظی دوسرے معنوی لفظی معنونکے مطابق شریعت  کی تعمیل کرناانسان کے لیے محال نہیں ہے بلکہ ایسے بہت انسان ہیں جو کر سکتے ہیں ۔ مثلاً  ایسے بہت اشخاص ہیں جو چوری نہیں کرتے  زنا کی طرف مائل نہیں ہوتے  قتل کا ارتکاب نہیں کرتے ۔ اور احکام شریعت پر ظاہر اکاربندہوتے ہیں لیکن اگر اِنکے اُن روحانی معنے کیطرف خیال کیا جاوے تو کوئی شخص اِن سے یعنے الزام چوری وغیرہ  سے  بری  نہیں رہ سکتا مسیح خداوند فرماتا ہے کہ تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیاتو خون مت کر۔ اور جو کوئی خون کرئے وہ عدالت میں سزا کے لائق ہوگا۔ پر میں تمہیں کہتاہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بےسبب غّصہ ہو عدالت میں سزا کے قابل ہوگا۔ تم سن چکے ہو اگلوں سے کہاگیا۔زنا مت  کر۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں  کہ جو کوئی  شہوت سےکسی عورت پر نگاہ کرے۔ وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زناکر چکا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام نہ صرف ہمارے ظاہری کاموں پر اثر کرتے ہیں بلکہ ہمارے دل کی حالت سے بھی تعلق رکھتے ہیں واضح ہوکہ خدا دل اور گردوں کا جانچنے والا۔ اور عالم الغیب ہے اگر کوئی ظاہر اخلقت کے سامھنے گناہ کا مرتکب نہووے تو وہ دنیا کی نظر میں گناہ اور شرمندگی ظاہری سے بری خیال کیا جاویگالیکن دلی خیالات اور باطنی ارادونکے سبب وہ خدا کے حضور گناہ سے مستثنےٰنہیں رہ سکتا ۔ مثلاً اگر کوئی بظاہر خون نہ کرئے تو وہ خلقت کے نزدیک خونی تصور ہوویگا۔ لیکن اگر خونی کی سی طبیعت رکھے تو خدا کے حضور خونی ہوچکا۔ اورایسا ہی اگر بظاہر زنا کاارتکاب نکرےلیکن دلمیں خیالات فاسد ہ شہوت انگیز پیدا ہوں تو گو خلقت کے نزدیک وہ زانی نہیں شمار کیا جاویگا لیکن خدا کے حضور وہ گناہ گار ہے ۔اور ایسا  ہی چور اگر اِن معنونکے ترازومیں ہم اپنے آپکو تولیں تو ہمکو آپ ہی معلوم ہوجاویگاکہ شریعت کی پوری تعمیل نہایت ناممکن ہے۔ اور کوئی ایسا انسان نہیں ۔ جو اِس سے عہدہ برارہوسکے مسیح خداوند نے ساری شریعت کا  مجموعہ دو کلام میں ختم کیا۔ یعنے (۱)تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی  ساری جان سے اور اپنے ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر۔اول حکم یہ ہی ہے۔ (۲)تو اپنے پڑوسی کہ اپنے برابر پیار کر۔ اِن سے بڑا  اور کوئی حکم نہیں ۔مرقس ۱۲باب ۳۰۔۳۱۔ آیت اب کون انسان کہ سکتا ہے کہ میں سارے دل وغیرہ سے خدا کو پیار کرتا ہوں۔ اور پڑوسی کو اپنے برابر عزیز جانتاہوں  اگر کوئی ایسا دعوے کرے تو یہ کہاجاویگا کہ وہ اپنی دلی حالت سے خبردار نہیں ۔ یہ تجربہ کی بات ہے کہ آدمی جسقدر پاکیزگی میں ترقی کرتا ہے ۔ اُسی قدر وہ اپنی  نالیاقتی اور گناہ سے واقف ہو کر اپنے گناہونکااقرار کرتا ہے صرف بیوقوف لوگ کہتے ہیں کہ ہم گناہ گار  نہیں ۔ جسکے دل کی آنکھیں بند ہیں وہی اپنے   کی برائی سے ناواقف ہے۔

۷سوال۔ سوائے اُن لوگونکے جو مسیح کے کفارہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی اُمتوں اور اَور لوگونکے لیے بھی مسیح کا کچھ مفید ہے یا نہیں۔

جواب۔ واضح ہو کہ جتنے نبی اور پیغمبر دنیا میں آئے سب کے سب مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ اور مسیح کے وسیلے سے نجات کے امیدوار تھےاور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دیتے رہے ۔ اس لیے مسیح خداوند کہتا ہے یوّحنا کی انجیل پانچواں باب۳۹ آیت ۔ تم نوشتو میں ڈھونڈھتےہو ۔ کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ اُن میں تمھارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اور یہ وہ ہی ہیں جو مجھپر گواہی دیتے ہیں ۔ اور پطرس رسول پہلے خط پہلے باب کی دسویں آیت میں یوں کہتا ہے ۔ اسے نجات کی بابت نبیوں نے تلاش اور تحقیق کی جنھوں نے اُس نعمت کی پیشین گوئی کی ۔ جو تم پر ظاہر ہونے کو تھی غرض جتنے نبی مسیح سے پیشتر عرصہ وجود میں آئے۔ اُنھوں نے مسیح کی بابت شہادت دی اور اپنی امتونکا دل اُسکی طرف رجوع کیا ۔ اسواسطے جسقدر سچی امت انبیا سابق کی تھی وہ مسیح پر ایمان اور بھروسہ رکھکے  اُسکے وسیلے سے نجات کے امیدوار رہےیہ تو ہم کہتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح کل دنیا کے گناہونکا کفارہ ہوا لیکن اِسکے ساتھ ہمارایہ بھی قول ہے کہ اُس کفارہ سے متمتع ہونے اور فایدہ اُٹھانیکے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسپر ایمان لاوے یعنے نجات حاصل کرنیکے کے لیے مسیح پر ایمان لانا شرط ہے دیکھو یوّحنا ۳ باب ۱۶۔ ۱۸۔ ۳۶۔ آیت کے خداوند جہان کو ایسا پیار کیا کہ اُسنے اپنا اکلوتا بیٹا  بخشاتاکہ جو کوئی  اُسپر ایمان لاوے ہلاک نہووے بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ جو اُسپر ایمان لاتا  ہے اُسکے واسطے سزاکا حکم ہوچکا  کیونکہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے  کے نام  پر ایمان نہ لائے۔ جو کہ بیٹے پر ایمان لاتا ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے  اور جو بیٹے پر ایمان  نہیں لاتاہے۔ حیات کو نہ دیکھگا بلکہ خدا کا قہر اُسپر رہتا ہے اور اِسی مضموں  پر انجیل میں سیکڑوں آیتیں موجود ہیں اور اُن سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کے آدمی  ایمان سے راستباز ٹھرتا ہے۔ اور اعمال  نجات کے لیے کافی نہیں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مسیح دنیا کے لیے کفارہ ہوا تو اُسکا  یہی مطلب ہے کہ خداوند یسوع مسیح کا کفارہ   بجہ ہے۔ اور ساری دنیا  کے سارے لوگ اُسمیں شامل ہو سکتے ہیں ۔ وہ سب کی نجات کے لیے موجود ہے اور سب کو دعوت دیتا ہے۔ کہ اگر اُسمیں شریک ہوویں ۔ اور مسیح کا کفارہ ایک بڑی ضیافت کی مانند ہے کہ سارے  بھوکھوں اور پیاسونکےکے لیے تیار کی گئی ہے کہ آکر اُسمیں سے تمتع پاویں۔ اِس ضیافت کا صرف نام سنناکافی نہیں بلکہ یہ ضرور ہے کہ ہر ایک انسان اس میں شریک ہووے مسیحی نجات  میں انسان جیسے ہی شامل ہوسکتا ہے جبکہ ایمان سے اُسے قبول کرے۔ مسیحی نجات کے لیے سمجھنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ مثلاً ایک کشتی جسمیں صدہا آدمی سوار تھے غرق آب ہوگئی اور آدمی ڈوب گئے کوئی رحیم الطبع اور رحمدل جو اُنکی حالت کو دیکھ رہا تھا  دوسری کشتی پر سوار ہو کر آیا ۔  اور اُس نے رسئے چاروں طرف ڈال دئیے اور آواز دی  کہ جسنے بچنا ہو وہ رسؤں کو پکڑ لیوے ۔ جسنے پکڑا   وہ بچ گیا۔ ایسے ہی وہ شخص یسوع مسیح کا خیال کر لو ۔ جو غرق شدگان دریے عصیان کو بجانے کے لیے آیا۔  اور وہ رسئے ایمان ہیں جسنے اُسے پکڑا اُسنے نجات پائی۔ نجات کی کشتی تو موجود ہی اور نجات دہندہ بھی اُسمیں ہے۔ اور رحم دلی غرق شدگان دریائے عصیان کو اُسپر سوار ہونے کے لیے آواز دے دی ہے  لیکن وہی  نجات کو حا صل کر سکتا ہے کہ رسۂ پکڑ کے کشتی پر سوار ہووے۔

PDF File: 

Story of Charles Wesley

چارلس ویزلی
Charles Wesley

پادری ویزلی صاحب کا حوال

۲۹ مارچ ۱۷۸۸ - ۱۸ دسمبر ۱۷۸۷

The Story of

Charles Wesley

18 December 1707 – 29 March 1788
Published in Urdu 1900 A.D

باب اول

جان اور چارلس ویزلی صاحب ویسلن میتھوڈسٹ کلیسیاکے بانی پادری سموئیل ویزلی صاحب کے بیٹے جو اپورتھ ضلع لنکن کا پادری تھا۔

سو اس پادری صاحب اور اس کی میم صاحبہ بی بی سوزانہ جو کہ ڈاکٹر انسلی صاحب کی بیٹی تھی اور نیز ان کے باپ تھے جن کے احوالات بہت سی کتابوں  اور تصنفات میں پائے جاتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر کلارک صاحب فرماتے ہیں کہ خاندان ویزلی ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ان کے باپ دادے پیشتر  ساکنی ملک سےانگلنڈ میں آئے اور نیز ایک گروہ ان کا ائرلینڈ میں جاآباد ہو گیا۔

بعض  خیال کرتے ہیں کہ لفظ ویزلی اسپنش زبان سے نکلا ہے اگرچہ قول راست ہےتو وہ شاید عربی زبان سےبرآمد ہوا ہوگا کیونکہ اس اصول عربی موجود ہیں۔پس اگر ہم عربی زبان کو جو اس ملک میں مدت  تک جاری رہی اور جو اسپنش اور فارسی زبان  میں  خلا اور ملا ہو گئی تھی دریافت کریں تو وہ نام ہم کو ہم کو مع اپنے عجیب اور عمدہ معنی کے ملے گا یعنی ویزلی اور ویزلہ جو کہ ویزل سے نکلے ہیں  عرب والوں میں ایک افضل شخص کا مشہور نام ہے یعنی ابو ویزلی جس کا ذکر فیروز آباد نےاپنی  تصنیف میں کیا ہے اور اس کے معنی بگانگی کا باپ یا صلح کرنے والا ہےمگر میتھو ڈست کلیسیا کے بانی کے واسطے کوئی ایسا عہدہ  اور  نام ہم کو نہیں ملتا۔

ویزلی صاحب کے باپ دادوں کا ذکر اس کتاب  میں صرف اس قدر پایاجاتاہےکہ ہم کی خوش وضعی سےان کے جوان مرد بیٹوں کی فہم و سلامت  روی پر انصاف کرسکیں۔

سموئیل ویزلی اپورتھ کاپادری تھا اور اس کی شریف بی بی کے والدین عقل اور دین داری میں شہرہ آفاق تھے جب وہ  جوان ہوا تو اس کا باپ مر گیا۔پس اس نے عین شباب میں سرکاری  کلیسیا کے دستو رالعمل قبول کیے اور کبھی اپنے بیٹوں جان  اور چارلس کی سر گرمی کو جو صریح کلیسیا کے قانوں اور دستورالعمل کےبرخلاف سرزد ہوئی تھی مانع نہ ہوتا بلکہ ان میں شریک ہو کر انکے حقوق پر لحاظ رکھنا تھا۔

اور وجہ اپورتھ کے پادری ہونے کی یہ ہے کہ ایک مر تبہ بادشاہ جیمس ثانی کے اہل کاروں نے اس کی منت کی کہ وہ درباری منصوبوں میں ان  کی ان کی مدد کریں مگر اس نے انکار کیا اور برخلاف اس کےاس نے تبدیل ِسلطنت  کی تعریف میں جو کہ ۱۶۸۸؁م میں واقع ہوا کتابیں لکھیں کہ جن کا لکھنا ان کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتابلکہ بذریعہ اس کےپروٹسٹنٹ کلیسیاپوپ کے کے خطروں سے بچ گئی ۔ بنابران جلددےحسن کارگذاری اپورتھ کی ملی   اورچند برس بعد اس کے معاش بھی مرحمت ہوئی۔پس وہ چالیس (۴۰) برس کے زیادہ اپورتھ میں رہا  اور اپنے کار متعلقہ کو ایمانداری  اور تندہی سےانجام کرکےمشہور ہوا چنانچہ اس کی تصانیف سےاس کی قابلیت اور علمیت عیاں ہے۔    اور اسی طرح جان ویزلی کی والدہ بھی یعنی  بی بی شوزانہ اپنےخاوند کی مثل عالمِ شباب میں سرکاری کلیسیا میں شامل ہوئیں ۔اس  کے حوال لکھنو والے کہتے ہیں کہ اس نے تیرہ(۱۳) برس کی عمر میں سب تقریریں جدالی کی بابت پڑھیں۔اور خوب پہچانیں۔

پس ان دونوں نے اپنی ان سنجیدہ اور  پسندیدہ عادتوں کو جو کہ اس وقت بذریعہ تعلیم  کے ان کے دلوں پر منقش ہو گئی تھیں نہیں بلکہ ہمیشہ خوفِ  خدا اور راستبازی میں قائم رہے۔

لیکن اس تبدیلی میں ان کے دل ایمان سے راستباز ٹھہرتے اور روح  القدس کے پاکیزہ ہونے سے قریب آخر عمر تک تاریک رہےوہ مثل اور لوگوں کی کلیسیا کے بانی اور ان کے جان نشین کی کتابیں چھوڑ کر پلاخی اور ارمنی سے جو کتابیں تصنیف ہوئیں پڑھاکرتے تھے اور باعثِ محتاجگی اور تمیز کے لیے انھوں نے قانونی تعلیم اور ان سچائیوں کو جو ارمنی لوگوں نےاپنے علمِ الہیٰ میں سکھلائی تھیں اور جو ان کے محر بیتے جان نے بتلائی تھیں چھوڑ دیا اوراس کے والدین کا ایسا ہونا اس کے بھائیوں کے واسطے بہت فائدہ مند ہواکیونکہ انھوں نے اپنے بچپن سے اس کے چال چلن  میں  یعنی  ارپنے باپ کی صفتیں دیکھیں کہ لوگ معزز جان کر اس کی تعلیم قبول کرتے تھے اور اپنے والدہ میں تقدسِ عقل اور مردانہ دانست اور علمیت  پائی جس کو انھوں نے بڑے ہو کر عزت دی ۔چنانچہ یہ قائم اور یکساں دینداری محبت مادری کے ساتھ ہوکر بے تاثیر نہ رہی کیونکہ جان ویزلی صاحب اپنی ماں کی تمیز اور پائدار صفت اور قائم اور مردانہ خاصیت اور دانش مندی اور چالاک دستور کا ٹھیک وارث ہوا  یعنی یہ صفات مذکوراس میں اچھی طرح سے ملیں ہوئیں تھیں اور تینوں بھائیوں نے اپنے باپ کے دینی رائے مقاصد تسلیم کیے۔چنانچہ سموئیل اور چارلس ان پرقائم رہے اور جان  بدل گیا۔

سموئیل پہلوٹا بیٹا۱۶۹۲؁م میں اور جان ۱۷۰۳؁م اورچارلس ۱۷۰۸؁م میں پیدا ہوئے۔سموئیل ویزلی جو کہ نیرو سٹمنسٹرکالج میں تربیت کیا گیا تھا اور۱۷۱۱؁م میں اکسفرڈ کالج کرائسٹ چرچ میں منتخب ہوا اور وہ شاعر ومصنف تھا اور طاقتِ گوئی ہجو بہت رکھتا تھا اور زبرک اور صاحبِ لطیف ہوا۔یہاں تک اپنے زمانے کے صاحبِ عالمین  میں مشہور تھا۔آخرکارڈیون شہر میں ٹورٹن خیراتی مدرسہ میں  ہیڈ ماسٹر مقرر  ہوا یہاں اس نے ۱۷۳۹؁م میں  انچاس سال کی عمر ہو کر وفات پائی بی بی شوزانہ ویزلی صاحبہ خود اپنے لڑکوں کی معلمہ ہوئی ڈاکٹر واہب ہیڈ صاحب کہتے  ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ بی بی صاحبہ موصوف نے کبھی اپنے لڑکوں کو کسی مدرسہ میں بھیجا ہو ۔کیونکہ اسے اس وقت تعلیم تربیت  کرنے کا دستور پسند نہ آیا اور معلوم ہوا کہ جان کی تعلیم و تربیت کرنے میں انہوں نے اس سبب سے بہت کوشش کی کیونکہ وہ جلتے ہوئے گھر میں سے خدا کے فضل سے بچ گیا تھا۔ایک کتاب جس میں اس کامخفی خیال لکھا گیا ہے ایک  جگہ پر یہ ذکر ہے کہ اس نے اپنے آپ میں یہ ضرورت سمجھی کہ میں بہت ہوشیاری سے اس کو جسے خدا نے اپنی رحمت سے بچایا،  تربیت کروں۔

چنانچہ اس خاص خبر داری کی تاثیر الہٰی  بخش ایسی اس کے دل پر اثر انداز ہوئی کہ وہ لڑکپن سے دینی فکر میں رہا اور آتھ برس کی  عمر میں اس نے عشائے ربانی لینے کی اجازت پائی ۔۱۷۱۴؁م میں وہ چارٹر ہاؤس میں  داخل ہو کر اپنی چالاکی اور علم حاصل کرنے  کی وجہ مشہور ہوا۔ اور اپنی خاموشی اور قاعدہ المجنت کے سبب اپنے استاد ڈاکٹر  صاحب کا مصاحب ہوا اور عمر بھر اس جگہ  کو  ایسا پسند کیا کہ  ہرسال  لندن سےسفر کرکے اس کی سیر کیا کرتا تھا جب کہ  بہتوں کو ایسا سفرناپسند ہوتا ہے۔

مگر جان ویزلی صاحب نے اپنے گزشتہ ایام پرکبھی افسوس کے ساتھ خیال نہ کیا اور اس دنیوی فکر کے  واسطے اس کے دل جو ہمیشہ آگے لگا رہتا تھا گنجائش نہ ہوئی جب وہ سترہ برس کا ہوا تو وہ اَکس فرڈ کالج میں کرائسٹ کے لیے مقرر ہوا اور وہاں پر وہ بہت کوشش  اور قائدےسے  قائدے سے اپنی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ڈاکٹر ویگن صاحب جو بڑا منصف اور معتبر شخص تھا  اس کا معلم ہوا ۔سو جان ویزلی صاحب کا مزاج جوانی کے عالم میں بڑاخوش و خرم تھااور کس قدر زیرک اور خوش طبع  بھی ہوا باب کاک صاحب اس کی بابت یوں کہتے ہیں کہ جب وہ اکیس(۲۱) برس کا ہوا تو وہ بہت دانشمند اور ہوشیار اہلِ مدرسہ اور جوان اور فیاض اور معتبر اور مردانہ ہوا اور یونانی اور لاطینی زبانوں سے خوب واقف ہوا جس کے باعث اس کی زیرکی مودب تھی اور اس کی تصنفات بہت عمدہ سے عمدہ ہوئیں اور اس وقت میں وہ اپنی خوشی کے لیے شعر بھی کہنے لگا تھا۔اور اس نے جو  کچھ بھی لکھاتھا خواہ وہ لاطینی طریقے پر ہو خواہ  لاطینی کا ہواس برس میں اس نے پینسٹھویں (۶۵) زبور لاطینی وزن پر لکھ کر اپنے باپ کے پاس بھیجا چنانچہ اس کے باپ نے اس کو لکھا کہ میں  تمہارے شعر کو بہت پسند کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ عقل کو جو جوہرِ شریف ہے اسے بے کار مت کرو۔اس کے بعد وہ خادمِ دین ہونے کا ارداہ رکھتا تھا پس وہ اپنی دینی غفلت  سے جو کہ دینی مدرسہ میں ہوئی تھی جاگ ۔اور بہت کرشش سے علمِ الٰہی پڑھنے لگا اورہمیشہ اپنی ماں  کو چٹھی لکھا کرتا سو اس کے مضمونِ چٹھی کے یہ فکر منداس کا معلوم  ہوا کہ ماں  نے اس کے جواب میں یوں لکھا کہ  تمہاری تبدیلی میرے لیے ایک  بڑی سوچ کا باعث ہوئی اور میں تمہاری ترقی پر ہمیشہ امید رکھ کر یقین کرتی ہوں کہ تبدیلی تمہاری روح القدس کی تاثیر سے ہے تاکہ وہ دل کو دینوی چیزوں سے علیٰحدہ کرکے روحانی چیزوں کی فکر اور غور اور فکر کراوے اگر یہ ایساہے کہ اور تمہارامزاج اس طرح  قائم  رہے تو تم مبارک ہو اور دل و جان سے ارداہ رکھو کہ دینداری تمہاری ساری زندگی کا کام ہووے کیونکہ یہ چیز خاص کر ضرور ہے اور سب چیزیں  زندگی کے لیے واسطے تھوڑی سی فائدہ مند ہیں اب میں ددل و جان سے چاہتی ہوں کہ تم بہت ہوشیاری سے اپنے تیئں آزمایا کرو  تاکہ تم پہچانوکہ تمہاری سچی امید یسوع  مسیح کے وسیلے سدے ہے یا نہیں۔

پس یہ عہدہ صلاح اس کے واسطے بے فائدہ نہ رہا   یعنی اس کی ماں کی چٹھیاں فضلِ الٰہی سے ایک ایسا باعث خاص ہوئیں کہ چند روز میں اس کے خیالات بالکل بدل گئے اور اس عمر اس وقت بالکل بائیس(۲۲) کےقریب تھی اور جن کتابوں کووہ اس وقت پڑھا کرتا تھا اور اس جن سے خادمِ دین ہونے کی تیاری پائی وہ یہ ہیں۔

کرسچن پاٹن  جو اس وقت جو تھامس ای کمپس صاحب   نے تصنیف کی ہے اور رولز ادھولی لیونگ اینڈ ڈائنگ جو بشپ  ٹیلر صاحب نے مقرر کی تھی اور وہ جو اپنے ماں باپ کو لکھتا تھا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی خوبی ہوشیاری سے تولتا ہے اور ان کا مطلب  تھیک  نکالتا ہے کہ زیرک پن اس کی روحانی اسناد تھیں اور اس کی ماں کے جوابات سے معلوم ہوا کہ وہ بہت سوچ اور تمیز نہیں کرتی تھیں بلکہ اس نے اور اس کے  خاوند نے اچھی اچھی کتابیں جو اس کے لیے مفید تھیں اوراس کی حالت کے لائق تھی اسے چھوڑ دیا۔

ان  خط و کتابت میں بعض باتیں سوچنے کے لائق ہیں کیونکہ جان ویزلی صاحب  کی رائے  دین جن  پر وہ بعد ازاں بہت قائم ہوا اور اس کا بیان بہت صفائی سے  کرتا ہے ظاہر ہوا کہ اس نے اپنی چٹھیوں میں اپنی ماں  کو دو تین باتیں  بتلائیں جن کی بشپ ٹیلر صاحب کی کتاب میں یہ بیان لکھا گیا ہے کہ فروتنی اور توبہ  کے ضروری حصے ہیں اس  میں سے فروتنی کی بابت یہ بیان ہے کہ ہم پر یقیناً فرض  ہے کہ جب کبھی ہم  کسی جماعت میں شامل  ہو ں تو کہ ہم اپنے آپ کو   اس بڑی جماعت کے ہر آدمی سے بڑا گناہ گارجانیں۔         اور توبہ کی بابت اس نے تبایا کہ ہم نہیں جان سکتے ہیں خدا نے ہم  کو معاف کیا یا نہیں اس لیے ہر دم اداس ہونا چاہیے کہ ہم نے گناہ کیے ہیں۔

سو ویزلی صاحب کہتا ہےکہ میں اثبات سے زیادہ فکر مند ہوں کہ یہ باتیں اس کے آئندہ باب کی باتوں کے نہایت خلاف ہیں بشپ ٹیلر صاحب لکھتا ہے کہ عشائے ربانی میں سدب شریک آپس میں  متفق ہو کر مسیح  جو سپر ہے مل جاتےہیں اور باقی خاصیت کے لیے روح القدس ضروری فضائل کو ہم  پر نازل  فرماتی ہے اور ہماری روح اس خاصیت کا تخم پاتی ہے اور اب یقیناً فضائل ایسی ناطاقت نہیں ہیں کہ ہم پر تاثیر نہ کریں ہم اس حال سے ناواقف ہیں کہ ہم مسیح میں رہتے ہیں اور وہ ہم میں۔

اگر ہم یقین نہیں کر سکتے کہ ہم نجات کی حالت میں ہیں یا نہیں  تو ہم کو ہر ایک دم اپنی زندگی کا  وقت  اداسی بلکہ خوف اور لرزنے میں گزرانا چاہیے اور یہ سچ ہےکہ  ہم آدمیوں سے اداس ہیں ایسی خوف ناک امید سے خدا ہم کو محفوظ رکھے فی لواقع نجات پانے سے  پیشترفروتنی ضرور ہے اور اگر اتنی فروتنی پانے کے لیے ضروری  صفات ہیں تو کون  فروتن ہوسکتا ہے اور کون نجات پا سکتا ہے؟ اس کی مانیں اس کے جواب ،میں اچھی اچھی باتیں تحریر کریں اور فروتنی کی بابت ٹھیک تمیزبتلائیں۔لیکن اس کی اس بات پر ہم نجات کی حالت میں ہیں یا نہیں۔اورہر چند کہ اس کے حاصل کرنے کی بابت شک میں رہا  لیکن اس نے بتلایا کہ یہ ایمان لانے والے  کا حق ہے۔اس وقت اس نے نجاتِ آیندہ اورموجودہ کے یقین میں تمیز کی۔مگر ان دو طرح کی نجات کے باہم کرنے سے بہت سے آدمیوں  نے اس مضمون پر کہ مقدس لوگ کر نہیں سکتے نجات کے یقین چھوڑا۔

میں سچ جانتا ہوں کہ ہم اپنے گناہ کی معافی کا ایسا یقین نہیں کرتے کہ وہ پھر ہمارا مقابلہ کبھی نہ کرے  گی نہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ ضرور ایسا کرے گی جو کبھی نے رد کی تھی اور جب تک ہم آسمان پر نہ پہنچ جایئں تب تک  ہمارا کوئی گواہ نہیں کہ ہم  سیدھی راہ پر ثابت قدم  رہیں گے اور میں جانتا ہوں کہ اگر ہم اپنی نجات کی حالت میں ہیں تو ضرور اس سے واقف ہیں کیونکہ خدا نے بائبل میں ہمارے ساتھ اس کا وعدہ  کی ہے اور اگر ایمانداری سے کوشش کریں تو ہم یقیناً اپنی ایمانداری کی بابت ٹھیک انصاف کرسکتے ہیں  اس چٹھی کی آخری ۔عبارت سے معلوم  ہوا کہ وہ آسمانی باتوں کی بابت کتنا جانتا ہے اس نےچٹھی میں ایمان کا بیان ناقص کیا  تھا جس کو اس کی ماں نے اس طور سے درست کیا چنانچہ یہاں تک اس نے بیان کیاوہ سب درست ہے مگر وہ ایمان جو بائبل میں شامل ہے اور جس کی  تلاش میں ویزلی صاحب رہا پورا نہ ہوا اس نے اپنی چٹھی میں یوں لکھا کہ تم اپنے ایمان کی بابت کچھ بھول کرتے ہو۔کیونکہ سب ایمان ایک قبول ہے۔مگر سب قبول نہیں ہیں ۔بعض سچائی خود ظاہر ہے ۔اس لیےہم اسے قبول کرتے ہیں اور  بعض سچائی نیک بخت کرنے کے بعد ظاہری سچائی کی مدد سے ظاہر ہوتی ہے اور ہم قبول کرتے ہیں اور یہ قبولیت مذکور ایمان نہیں ہےبلکہ علم ہے اور سچائی بھی ہےاور ہم ان کو اس لیے قبول نہیں کرتے  کہ وہی ظاہر ہوں یا بحث کرنے کے بعد ہم نے ان کو ثابت کیا بلکہ ہم اس لیے ان کو قبول کرتے ہیں کہ خدا نے کو ہم پر نازل کیا  ہے اور ایمانکی طاقت نازل کرنے والے پر موقوف ہے۔اور نازل کرنے والے کی طاقت اور سچائی ہوتی ہے تو افدیمان مظبوط و کامل ہوتا ہے۔جوکوئی خدا کے نازکیے ہوئے کلام کو قبول کرئے تواس  کا قبول یقیناً الٰہی ایمان ہے ۔

اس دل چسپ خط و کتابت میں تقدیر کا بھی ذکر ہے کہ خادم الدین ٹھہرے جانے کے پیشتر کلیسیا کے قواعد اور احکام جانچنے سے اس کا اس مضمون پر لگا رہا اس کی بابت وہ یوں کہتا ہے کہ تقدیر کی بابت میں کیا کہوں اگر خدا نے چند آدمیوں کے بچانے کا اردہ کیا تو باقی اور سب آدمی جو نہیں چنے گئےنجات پانے  سے باہر ٹھہریں گے اور اگر یہ ٹھہرایا گیا  کہ آدمیوں کا مقرری حصہ نجات پائےتو باقی اور بڑے  حصے ہلاک ہونے کے لیے پیدا ہوئے کہ ان کا بچنا اور کسی طرح ممکن نہیں۔یہ کس طرح کی رحمت اورانصاف ہے کیا ایک مخلوق کو ہمیشہ کے عذاب کے لیے ٹھہرانا رحم ہے اور جن آدمیوں نے تقدیر کے  سبب لاچار ہو کر گناہ کیے سزا  دینا عدل ہے اور اگر یہ سچ ہے تو خود خدا گناہ اور بے انصافی کا بانی ہے۔مگر سب جانتے ہیں کہ یہ اس کی پاک خاصیت اور کمالیت کے بلکل برخلاف ہے ویزلی صاحب کی ہمیشہ یہی رئے رہی کبھی انحرافی نہیں کی۔۱۷۲۵؁م میں وہ ڈیکن کے واسطے مقرر ہوا اور آئندہ سال میں وہ لنکن کالج  کافیلو یعنی رفیق کے لیے چن لیا گیا۔اور اس کے سنجیدگی کے تحت لوگوں نے اسے ٹھٹھہ کیا اور اس کے مخالفوں  نے کہا  کہ اس کے خادمِ دین ہونے کو روکنے کا باعث ہے لیکن وہ علم اور چلاکی اورکامل منصب کے سبب نامور ہو کر فتح مند ہوا ۔اور اس کے واسطے یہ شکر کا مقام تھا کہ اسکے والدین اس سے ایسے محفوظ تھے کہ ان کی چٹھیوں سے ظاہر تھا اور اس کے دو (۲) تین (۳) نمونہ اشعار جو اس نے اس وقت تصنیف کیے تھےمعلوم ہوتا تھا کہ اگر وہ ایسے علم  کو پسند کرتا تو وہ ہرگز فصیح شعرا کے بیچ میں چھوٹے درجے پر نہ ہوتا۔لیکن وہ جلد ایسے زیادہ سنجیدہ اور مفید کام میں مشہور ہوا اور فیلو ہونے  کے بعد شہر لنکن میں گیا اور فرست پا کر ان ہی سنجیدہ مضمون پر جن پر ہمیشہ اس کے خیالات رہتے تھے  اپنے والدین کےساتھ گفت وشنید کرکے موسم گرما گزران کیا بعد اس کے آکس فرڈ میں حاضر ہو کر اپنے رائج مطالعہ میں مشغول ہوا اور اس وقت یونیورسٹی علمداروں میں بڑا عالم  قرار کیا گیا ہر طرف کے آدمیوں نے مشہور  کیا  کہ  ویزلی صاحب بہت عقل مند ہیں اور قدیمی زبانوں میں حرف گیر  ہیں ہوتے ہیں اور اس کے لفظوں سے جو عبارت میں فصیح اور صاف تھے اور مطلب میں صحیح اس کی معتبر منش ظاہر ہے اور علم منطق اس کا وقوف مشہور ہوااور یہ حسنِ  طن لوگوں نے اس میں دیکھے جلد ظاہر ہوئے تھے اور جس وقت اس ماہ مارچ فیلو ہونے کی اجازت پائی تھی اس وقت وہ صرف  ۳۳ برس کا تھااور ماسٹر آف آرٹس یعنی علم کے دوسرے درجہ پر تھا اور اس نے  یہ مرتبہ ماہ فروری ۱۷۲۸؁م پایا تھا اور اسی سال کے اگست کے مہینے میں اپنے پاب  کا امام ہوا اور ۱۷۲۸؁م آکس فرد کو خادم لدین کے دوسرے ددرجے پر یعنی ایلڈر کے عہدے پر مقرر ہونے کو گیا اور وہاں پر اور وہاں ایک چھوٹی مجلس کی جماعت میں جو چارلس ویزلی کے صاحب  اور مارکین صاحب اور نیز دو (۲) تین (۳) صاحبوں نے  یاین ارادہ بتا ئی نہیں کہ اپنی اوقات ایک دوسرے  کی مدد سے علم حاصل کرنے اور نیک انجام دینے اور  بسرکرنے میں شریک ہوا۔ایک مہینے کے بعد وہ اپورتھ  میں  واپس آیا اور حسب ِ درخواست ڈاکٹر مورلی صاحب کے آکس فرڈ میں جارہا اور طالب علموں کو فراہم کرکے معلم گیری اختیار کی اور چھ (۶)بار ہفتہ میں  مباحثہ کرنے کی جماعت میں میر مجلس ہوا اور نیز ایک دینی جماعت کا بھی سردار مقرر ہوا۔پس اس وقت سے وہ زیادہ دیندار ہو کر اوروں  کی بھلائی کرنے کو ہوشیار ہوا اور اس آیت کو اس نے سچ پایا کہ سب کے سب  جو مسیح یسوع میں دیندای  کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ستائے جائیں گے اب ہم چارلس ویزلی صاحب کا احوال بیان کرتے ہیں جس کا کام میتھوازم  کے پہلے اوقات میں اپنے بھائی جان  کے کاموں سے چھوٹا تھا۔چارلس ویزلی صاحب جان ویزلی صاحب سے پانچ برس چھوٹا تھا۔اور اپنےبھائی سموئیل سکھلانے سے وسٹمنٹر کالج عالم ہو گیا اور حکومت کی کلیسیا میں اپنے بھائیوں سے زیادسرگرم  ہوا اور کئی برس  سکول میں رہا ۔بعد ایک دولت مند صاحب ساکن ایرلینڈ نے چارلس ویزلی صاحب  کے باپ سے چٹھی لکھ کر دریافت کیا کہ  اگر آہ کے کوئی بیٹا ہو تو میں اسے اپنے وارث کرناچاہتا ہوں اور میں نے اس کام چارلس سنا ہے چنانچہ ایک آدمی سکنہ لندن کی معرفت سالہاسال چند برس تک چارلس ویزلی صاحب کی پرورش اور خبر گیری ہوتی رہی اورایک دفعہ ایک اور صاحب نے شاید ویزلی صاحب خود تھے  آکر دریافت کیا کہ تم میرے ساتھ ایرلینڈ کو چلو گے جو چارلس نے اپنے باپ کو لکھااور یہ جواب پایا کہ تم کو اختیار ہے سو اس نے انگلنڈ میں رہنا پسند کیا کہ اور اپنی خوش دلی کے سبب سے حالانکہ اس کا چال چلن بے عیب تھا اپنے بھائی صاحب کی یہ نصحیت  نہ مانی کہ اب تم نےکرائسٹ چرچ میں طالب علم  ہونے کی اجازت پائی ہے اب تم  کو زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے مگر جب اس کا بھائی جان غیر حاضر تھا اور اپنے باپ کا عوضی واعظ تھا تب اس کی چٹھیوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ زیادی سنجیدہ ہے جس کی بابت جان ویزلی صاحب نے کہا کہ جب میں ماہِ نومبر ۱۷۲۹؁م اَکس فرڈ کولوٹا  تو میں نے اسے اپنی روح کےبچانے میں بہت جہت کرتے پایا اور اس کے حقیقت نامہ میں اس کے حالات کی بابت یہی پایا جاتا ہے کہ اس نے اول سال کالج میں کھیل  کود کر گزار ددیا اور دوسرےسال مطالعہ کرنا شروع کیا اور جب کوشش کرنے  سےبہت فکر مند ہوا تو اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنے ساتھ اور دو(۲) تین (۳)

آدمیوں کو لے کر عشائے ربانی لیتا اور ان سب طریقوں کو جو کالج کے قوانین میں پائے جاتےہیں قبول کیا اس واسطے اس کا میٹھوڈسٹ لقب مشہور ہوا۔پس چارلس ویزلی پہلا میٹھو ڈسٹ  تھا اور اس کلیسیا  کا جو کہ اب تک اسی نام سے  مشہور  چلی جاتی ہے بانی تھا۔جس جان ویزلی صاحب اَکس فرڈ میں رہنے کے لیے لوٹا تو اس جماعت میں شریک ہوا اور اس کی چالاکی اور ہوشیاری سے جماعت کے لوگ اپنے روحانی فائدے حاصل کرتےاور ان کو  مدد دینے میں زیادہ تر چالاک اور ہوشیار ہوگئے اور ویزلی صاحب کا دل کام کرنےاور حکومت کرنے کے لائق ہواور یہ جماعت اس کو پسند اور آئی اورخاص اپنی چالاکی کے سبب اس جماعت کا جس میں ہردی صاحب مصنف اور واہٹ فیل مشہور شریک تھے افسر ہوا۔

پادری جان صاحب کا احوال

باب دوئم

اس وقت جان ویزلی صاحب  نے اَکس فرڈ میں دل و جان سے مذہب قبول کیا اورتفید سے اس کا اقرار کیا  کہ ہم راستباز ہونے کے سبب اور مطلب کو ہوشیاری سے دریافت کریں کیونکہ وہ مذ ہب کے سبب سے ایسا مشہور ہوا کہ لوگوں نے اس کا ٹھٹھااڑایااور تکلیف بھی دی مگر اس نے اسی وقت خود کو باعنقریب مسیح نہ سمجھا کیونکہ یہ بات تنزل کی ٹھوکر کا باعث تھی  جیسا کہ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی ظاہری طور پر دیندار ہے تو وہ حقیقی طور پر بھی دیندار ہےاگرپولس رسول وہاں پر ہوتا تو لوگ اس پر بھی الزام لگاتے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ میں سب گناہ گاروں میں بڑا گناہ گار ہوں حالانکہ وہ موسیٰ کی شریعت کے موافق  بے عیب تھا۔ویزلی صاحبان اَکس فرڈ میں بانسبت ثالوث کے نہ صرف اچھی حالت میں بلکہ اور طرح کی دینی تجربہ کاری رکھتے تھے ۔اگر ہم انجیل کے مطابق فکرِ دین کریں تو ہم کو معلوم ہو گا کہ  اگرچہ وہ آدمیوں کےنزدیک بے عیب اور مقبول تھےتو بھی خدا کے سامنے محتاج تھے اور ان دلی تبدیلیوں کے جو کہ مسیحی مذہب کے ذریعے کی جاتی ہیں وفا دار اور چھوٹی باتوں میں دیانت دار تھے جس سبب سے خدا  نے ان کو سچی دولت دی اور انھوں خدا وند کو اپنے سارے  دل سے ڈھونڈا اور آ خر اس کو پیایا ۔بشپ ٹیلر صاحب کی تصنیف میں پاک ارادہ  رکھنے کے بیان میں ایک بات ہے جس کے پڑھنے سے ویزلی صاحب قائل ہوا کہ جیسا فعل میں درست  اور دیانت ہوتے  ہیں ویسا ہی دل میں  پاک ہونا  واجب اور ضرور  ہے  چنانچہ ایک دیندار آدمی سے دوستی  رکھ کر اپنی تمام گفتگو سے آراستہ کرنے لگا اور نئی زندگی کا شوق شروع کیا وہ ہفتہ وار عشائے ربانی لیا کرتا اور گنا ہ کی ہر بات اور ہر فعل کو ہوشیاری سے چھوڑ دیا کرتا لیکن وہ جانتا تھا کہ جس کے واسطے وہ اتنی کوشش سے ڈھونڈتا تھا وہ مجھے اس وقت تک نہیں ملی اور وہ غلطی جو اس کے دل میں پڑی ٹیلر صاحب اور لا صاحب  کی کتابوں سے سیکھی تھی اور وہ غلطی یہ ہے کہ اس نے راستباز ٹھہرنے اور پاکیزہ ہونے میں فرق نہ سمجھا یا کہ اس نے یہ سمجھا کہ پاکیزہ ہونا راستباز  ٹھہرے جانے کا ایک باعث ہے اور اس نے اس وقت تک تعلیمِ رسول نہ سیکھی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا کہ بے دین لوگ توبہ کرکے بخشش کے طور   راستباز کیے جاتے ہیں خاص اس شرط پرکہ وہ مسیح پرایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد آدمی ہر طرح کے  اندرونی اور بیرونی گنا ہ کی طرف سے  مر جاتے ہیں تاکہ وہ جو راستباز گنا گیا گناہ کی حالت میں زیادہ نہیں رہ سکتا مگر یہ بہت فائدہ مند ہے کہ ہم اس کے دل کی قید کے درمیان اس کی تمام خرابی دریافت کریں  جو کبھی جاتی نہ رہےبلکہ اس کے سبب  سے اس کا چہرہ روشن ہے اور آخر عمر تک اس دل خوش رہا۔

ٹیلر اور لاصاحبان کی  تصنیف   کی ہوئی معمولی  کتابوں کے نتیجے  میں ویزلی صاحبان کے کام اور دستورات میں جلد ظاہر ہوئے کیونکہ کہ اس نے اپنے پیشے  کی طالب علموں کی تربیت زیادہ سختی اور تربیت سے کی یہاں تک وہ ان سے زیادہ دیانت دار معلم تھا۔ اور اس نے حسبِ مقدوراپنے طالب علموں کی ترقی کرنے اور ان کو اخلاقی کام اور دستور سکھانے اور ان دینی تعلیم کےدرست کرنے میں ازبس کوشش کی اور اس کالج میں اس کےتربیتی دستور یہ ظاہر ہوئےکہ اس نے اہلِ مدرسہ کو بہت سویرے پلنگ سے اٹھنے کا حکم دیا  اور  ان کے پڑھنے کے واسطے بس کتابیں مقرر کی اور ان کے تمام چال وچلن ایسے درست ہو گئے جو ہرگز حکم عدولی نہیں کرتے تھے اس بات پر بعضوں کے دوست ناراض ہو گئے اوروں کے دوستوں نے اس کو مشکور چتھیاں بھجیں اور بعض طالب علموں نے خود اس کی تعریف کرکے کہا  کہ ہم اس کے قرض دار ہیں کیونکہ جو کچھ ہماری دین داری ہے اسی کی کوشش سے  ہم کو حاصل ہوئی۔اور اس نے ہن  کو علم دار کیااور ہماری سب برائیوں کو جو کالج میں سب کہی جاتی تھیں روکا۔اس وقت یہ چھوٹی جماعت اپنا کام بڑھانے لگی۔اورجب جان ویزلی صاحب اس میٹھوڈسٹ جماعت میں پہلے شامل ہوا تو اس کے شریکوں نے اس جماعت کا   سب بندو بست اس کے ہاتھ میں سونپ دیا۔اور جان ویزلی صاحب نے اپنے ورز نامچہ میں اس کی بابت یوں لکھا ہے کہ  ماہ نومبر ۱۰۲۹؁م اکسفرڈ کے  چار جوان صاحبان  یعنی جان  ویزلی  صاحب رفیق لنکن کالج میں اور چارلس ویزلی صاحب کرایسٹ چرچ  طلبا اور مارگن صاحب امین کرائسٹ چرچ طلبہ اور کرک من صاحب طالب علم مرٹن کالج کے ہفتہ وار شام کے وقت یونانی انجیل پڑھنے کے لیے جمع ہونے لگے اوراس کے دوسرے سال ویزلی صاحب کے تین طالب علموں نے اس میں شریک ہونے کی اجازت مانگی اور کے بعد چارلس ویزلی صاحب کے ایک طالب نے بھی وہی اجازت چاہی اور ۱۷۲۲؁م  اور۱۷۳۲؁م  میں رینگم  صاحب  کو بین کالج کا اور بروٹن صاحب ایک سینٹر  کالج کا ان کےشمار میں آئےاور ماہ اپریل میں کلیٹن صاحب مع اپنے دو(۲) تین (۳) طالب علموں کے ان میں شریک ہوئے اور اس وقت کے قریب جیمس ہردی صاحب اور جارج واہٹ  صاحب  نے ان میں شریک ہونے کی اجازت پائی ۔ مارگن صاحب اول اس چھوٹی جماعت کے راہنما ہوئے کہ اَکسفرڈ میں جیل خانہ  کے پاس جایں اور قیدیوں کو نصحیت اور تعلیم فرمائیں اور انھوں نے اس وقت سے یہ ارادہ کیا  کہ ہر ہفتے میں دو(۲) تین (۳) گھنٹے بیماروں کی ملاقات اور غریبوں کی مدد کرنے میں جہاں  پر گنے کا خادم الدین ۔۔۔۔۔۔وہ ایسا نیا کام تھا اور بعضوں کے نزدیک دستور العمل کے ایسا برخلاف کہ جان ویزلی صاحب نے اپنے باپ سے اس پر اصلاح لی اور اس نے اسے چٹھی میں ایسا جواب دیا کہ لوگ اس کی تعریف کرتے تھے یعنی اس نے انھیں بڑی خوشی سے اچھے کام کرنے کی اجازت دی اور خدا کا شکر کیا کہ اس نے اس کو ایسے بیٹے بخش دیئے کہ وہ اَکسفرڈ میں فضل اور بہادری پا کر گناہ گار دینا اور شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس نے انھیں دلاوری دے کر کہا کہ خدا کے نام سے خدا کی بتلائی راہ میں آگے جاؤ۔ اور اس نےیہ اصلاح دی کہ جیل خانہ کے خادم الدین سے مشورہ کرو۔اور بشپ صاحب سے اجازت مانگو ۔چنانچہ انھوں نے جلد یہ اجازت پائی ۔ لیکن یہ ان کو اس قدر کافی نہ تھی ۔ کہ وہ ان کو شیر گرم والوں کے دانت سےیا غصہ فریبی دلوں کی ملامت سے بچائےاور اس وقت اس جماعت کا کوئی شریک اتنی بہادری اور ایمان نہیں رکھتا تھا کہ لعن اور طعن ، ٹھٹھا  اور رروکا جو  لوگ ان کے برخلاف کرتے تھے ۔برداشت کرے اور جو کوئی ان کامقابلہ کرنے کے مشہور اور بہادر لوگ رکھتا تھا اس جماعت کو اس نے چھوڑ دیااور ویزلی صاحب نے انپے سے پھر اصلاح دریافت کی۔جس کا اس کتاب میں  نقل کرنے کے لائق ہے مگر تحریر نہ ہوگا۔

وہ اس طرح دلیر کیے جانے کے بعداپنی راہ میں فروتنی سے چلے گئے۔اور غریبوں کے واسطے زائد روپیہ اورگاہے بگاہے اپنی ضروری نقدی بھی خیرات دیتے رہے اور زیادہ کوشش کی کہ اپنے ہم درسوں کے دلوں پر دینی تاثیر کریں جیسا کہ وہ بے  علموں اور غریبوں اور بیماورں کے دلوں پر تاثیر کرتے تھے جب لوگ ان کےدینی اور کائق کاموں کو برخلاف فریادکرتے تھے ۔ویزلی صاحب نے فروتنی سے  ایک عذر ایسا لکھ دیا کہ جس سے معلوم ہوا کہ دینی تجربہ کاری یونیورسٹی میں اس وقت بہت کم تھی اور جیسا اس کے ایک تذکرہ کرنےوالوان نے خیال کیا ویسے ہی پم بھی سوچتے ہیں ۔کہ ایسے نیک اور خیر اندیش کام دوسری طرح کے بدلے کے لائق ہیں۔اور اگر کالج کے حامی اور مدرس ان میٹھوڈسٹ کے ٹھٹھے اور لعن طعن سے بازرہ کر ان کے نمونے پر چلتے تو ان اور نیز دنیا کے واسطے زیادہ مفید ہوتا۔

ان کے بڑے بھائی سموئیل نے بھی اپنی نصیحت بذریعہ ایک چھوٹی اور موثر چٹھی کے ان کو قائم کرنے کو دی۔اس کے بعد بیماری اور صلیب اٹھانے کی درستی شمار اس شراکت کے شریکوں میں جو نیک کام کرنے میں مستعد و سرگرم تھے کم ہوئی اور باوجود اس بات کےکہ جان اور چارلس ویزلی صاحب  کےلیے چھوڑے گئے تو بھی سرگرم اورچالاک اور قائم رہے اور ہم تعجب کرکے کہتے ہیں کہ یہ خدا کا فضل اور برکت ہے کہ جو ا ن کو وہ عمدہ اور سخت کام کرنے کے واسطے تیار کرتا ہے اور اس حالت میں ہو کر ان کے دل میں اس عجیب اور اچھے عناصر پر قائم ہوئے۔اور اس نے اپنے بھائی سموئیل جس نے یہ خیال کیاتھاوہ حدسے زیادہ نیک کام اور دینی تجربہ میں ہیں یوں بیان کیا۔

اول یہ میں اپنی زندگی کے انجام کی بابت یہ قانون بیان کرتا ہوں کہ میں حد سے زیادہ خوش نہیں ہو سکتااس لیے کہ حد سے زیادہ پاک نہیں  ہوسکتاہوں۔اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ  میں اپنی آنکھیں برابر اپنی عمدہ بلاہٹ کی صلح پر لگاتا ہوں۔اوراپنے تمام خیالات الفاظ اور کام اس انجام پر یعنی  پاک ہونے  پر لگاؤں۔

دوئم اپنی زندگی کے انجام حاصل کرنے میں مقرر کیے ہوئے وسیلون کی بابت میں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ میں مقدور بھر ان وسیلوں کو استعمال میں لاؤں وہ چیزیں آپ میں مجہول مطلق ہیں لیکن اگر وہ میرا نقصان کریں وہ میرے واسطے مجہول مطلق نہیں بلکہ خود مجھے اس سے بلکل پرہیز کرنا چاہیے۔اور اس نے دیندار ہونے کی بابت حد سے زیادہ اپن ماں کی منت کی کہ وہ ہر ایک بات میں وہ غافل تھے بتلا دےاوراس کے گھر کے لوگ ان کی بابت فکر کرتے تھےکیونکہ لوگ کالج اور جگہوں میں ان کے کاموں کی متعجب تھے اور کبھی اس کے روکنے  کا ارادہ نہیں کیا اس لیے ان کا باپ اپنے سفر لندن سےآکسفرڈ کو بڑھا اور ان کو دیکھ کر خوش ہواور اس نے اپنی بیگم  صاحبہ کو یوں لکھا کہ میں اپنے بیٹوں کی روشنی دین دیکھ کر اپنے سفر لندن کا عوض پا چکا۔اوران کی چٹھیوں سے معلوم ہوا کہ اگرچہ وہ نیک کام کرنے میں بہت سرگرم تھے تو بھی اپنے کام اور احکام بجالانے کو نجات کا باعث جانتے تھے ۔اس کے بعد اس نے سچ جانا کہ میں اس حالت میں جو کہ انجیل کے مطابق مسیحیوں کا حق ہے نہیں ہوں  اوربہت حیران ہوا کہ وہ محبت اورکامل خوشی اورمیل جس کے واسطے  اتنی بڑی کوشش سے متلاشی ہوا۔اور اس کے حاصل کرنے کو خدا کے ہر ایک فرض اور حکم  کو بجا لایا جو خدا کے نزدیک مطمئن نہیں اور کبھی وہ سوسائٹی اور کلیسیا کے دستور العمل کو ظاہرداری سے  مانتا تھا  اور اس کے سبب سے وہ  بہت پریشان اور اداس ہوا یہاں تک کہ وہ  نہیں جانتا تھا کہ خوشی اور خرومی کی راہ کون سی ہے اس نے اس وقت اپنی ماں کو ایک چٹھی لکھ بھیجی جس سے معلوم ہوا کہ وہ ایسی عجیب فکر میں سرخوش متلاشی تھا۔کہ اس کی راہنمائی اور دستگیری بھی اس کی دانشمندی کے  قابل نہ تھی کہ اس کی زخم ہوئی اور فکرمندروح اپنے کام  پر بھروسا رکھنے  سے کنارہ کرکے اپنا بوجھ مسیح کی صلیب  تلے اٹھا ڈالے ۔

ویزلی صاحب یوں فرماتےہیں کہ میں ایک ہی دلیل کے باعث پاک ساکرامنٹ کی بابت تمہاری تعلیم قبول کرتا ہوں اور وہ دلیل یہ ہے کہ  اگر ہم یقین کریں کہ مسیح  کا جسم کس طرح سے ساکرامنٹ میں موجودہوتا تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ یا تو وہ روٹی اور مے کے ساتھ موجود ہے یا مے اور روٹی بلکل بدل کر مسیح کا بدن بن جاتی ہےلیکن  میں یقین کرتا ہوں کہ مسیح کی  الوہیت بے  شک پاک ساکرامنٹ لینے کے وقت ہمارے ساتھ ایسی مستمل ہے جیسا کہ گویا ایمان لانے والوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن میں اس متفق ہونے کے عجیب  طریقے دریافت   نہیں کرسکتا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ باطنی ترقی کرنے والا وسیلہ ان پر جو  بے سوچ رہتے ہیں  تےتاثیر نہیں کرتے تو مجھے کچھ تعجب نہیں کہ صرف لائق لینے والوں کو یہ برکتیں مذکور ملتی ہیں اور نے اپنے اس جلیل مضمون کا ایسا بیان کیا تھا مارگن صاحب  اورمیرے بھائی نے لائق تاثیر پائی اور میں نے بھی اپنی  عقل آپ کی تعلیم  کو قیمتی جانالیکن اپنے دل میں تاثیر پائی اس کا کیا سبب ہے صرف  یہ کہ دل جسمانی ہوا کیونکہ جسمانی فہم ان سچائیوں کو جو روح سے دیکھی جاتی ہیں دریافت نہیں کرسکتا ۔لیکن میں ان نوشتوں  کو جن کو  خدا نے اس مقصد کے لیےدیا ہے اپنے پاس رکھتا ہوں اور بہت سی اور کتابیں جن کے تصنیف کرنے کے واسطے خدا نے آدمیوں کو فضلیتیں دی ہیں اور  جن  کے  ذریعےسے میں کتاب مقدس کو میں سمجھ لیتا ہوں میرے پاس موجود ہیں اور مجھے  ان کے پڑھنے کے لیے فرصت نہیں ملتی ۔اسےادپنے دل پر لگاؤں ۔مجھے دعا عام اور دعالوشیدہ مانگنے کی ہی فرصت ملتی ہےاور سب سے بہتر یہ ہے کہ میں ہفتہ وار ساکرامنٹ لیتا ہوں لیکن میں کیا کروں یہ برکتیں میرے واسطے کامیاب ہوئیں کہ میں ان کے ذریعے سے وہ مزاج جو مسیح یسوع کا تھا حاصل کروں کہ میں اس میں  روز روز زیادہ  مشغول رہوں پس جاگ جو  تو  سوتا ہے۔کیا ایک ہی خدا نہیں اور ایک ہی روح القدس نہیں ؟ کیا ہماری بلاہٹ کی ایک ہی امید  نہیں ؟اور اس امید کے لیے ایک ہی راہ نہیں ؟تب مجھے بھی دنیا ترک کرنا چاہیے اور یہ وہی کام ہے  جو میں کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی محبت اس دنیا سے کھینچ کر ایک پر جو اس سے اچھا ہے لگاؤں لیکن کس طرح سے سب سے چھوٹی اور اچھی راہ کون ہے ؟ کیا یہ نہیں  کہ فروتن ہوں فی الحقیقت فروتن ہونا اس کی طرف کو لمبا قدم رکھنا ہے لیکن پھر سوال پیش آتا ہے کہ میں کس طرح فروتن ہوں؟فروتن ہونے کی ضرورت کو اقرار کرنا فروتن ہونا نہیں ہے ۔

اگر آپ ہر جمعرات صرف اتنا وقت جو آپ نے پیشتر علم سکھلانے کے واسطے ٹھہرایا تھا ایسے کامو ں کے واسطے مقرر کر دیں گے تو میں جانتا ہوں کہ بے فائدہ نہ رہے گا ۔جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ آدمی بہت جلد مر جاتے ہیں اور بہت آہستہ روحانی بہتری کو صاحل کرتے ہیں تب سوچتا ہوں کہ شاید وہ اپنی اپنی زندگی کی تیاری حاصل کرنے سے پیشت مرجاتے ہیں کیونکہ میں اگر جانتا کہ چاندی کی ڈوری قطاًکھولی نہ جائےاور حوض چرخ ٹوٹ نہ جائے تو بھی اتنے بڑے  کام کے واسطےکتنی چھوٹی فرصت ہوتی ہے تو چالیس(۴۰) برس بانسبت ابدیت کے کیا ہیں؟ اگر  میں اور آدمیوں سے  زیادہ فضلیت پا کر ان باتوں کی بابت دور اندیش ہوتا تو مجھے یہ کیا چاہیے۔

؎                   میں جاتا ہوں اپنی قبر کو
جہاں نہ حمد نہ تجھے مدد ہو
میں موت کے دریا میں ڈوب جاؤں گا
کیا رحم کیا معافی پاؤں گا
بچا  اب مجھے جب تک جیتا ہوں
آندھی کو روک کہ میں پناہ پاؤں
تو مجھ کو رحمت اب دکھلا
اے قدرت کے خد

اور اس نے مرادی  لوگوں سے نہیں سکھا کہ  میں سچا مسیحی نہ تھا کیونکہ ہم ان باتوں سے معلوم کرتےہیں کہ وہ خود کو مسیحی درجے سے پیچھے سمجھتا تھا ۔ وہ اپنی چٹھیوں غلام کی روح کو جس سے وہ ڈرتا تھا دکھلاتا تھا اور معلوم ہوا کہ وہ لے پالک ہونے کی روح کا جس سے وہ آبا اے باپ پکار پکار کہتے ہیں محتاج تھا ۔ ۱۷۳۲؁م میں ویزلی صاحب  نے لندن میں جا کر دیندار اور معتبر اشخا ص سے دوستی کی اور پھر اس نےدو سفر اپورتھ کے کیے اور اس پچھلا سفر اس مطلب پر تھا کہ ایک اور مرتبہ ویزلی خاندان جمع ہوئے پیشتر اس سے کہ موت کے باعث جدا کیے جاویں یہ  سفراس نے پاپیادہ کیے اس نظر سے کہ خیرات کے واسطے روپیہ بچاے اور محنت کا دستور لگاے اور ہمیشہ اس نے ان سفرون منادی کی کہ جس سبب سے ہم اس کو گشی واعظ کہتے ہیں ۔اور دوسرے سال وہ پہر پورتھ اورآکس فرڈ ااور نیز اور دو(۲) تین (۳) شہروں کو گیا۔لیکن اس کی غیر حاضری کا آکس فرڈ  کی میٹھوڈسٹ جماعت کے واسطے بڑانتیجہ نکلاکیونکہ اس کے شریک ٹھٹھا اور ملامت کرنے سے ڈر گے اور سر کی غیر حاضری ہونے کےسبب اپنے قانون کے تفید کو چھوڑنے لگے تب اس نے اپنے باپ کو چٹھی میں یہ خبر بھیجی کہ پچیس(۲۵) آدمیوں سے کہ جو ہفتہ وار پاک ساکرامنٹ لیتے تھے صرف پانچ(۵) قائم رہے ہیں الآ ویزلی صاحب کی دلیری کم نہ ہوئی یعنی وہ بر وقت  واپس آنے اور اور اس نقصان کے درست کرنے کے واسطے زیادہ کوشش اور محنت کرنے لگا اوراس سال کے آخر میں وہ جسمانی اور فہمی زیادہ پرہیز گاری کے سبب ایسا سخت بیمار پڑا کہ اس کا پھیپھڑا پھٹنے لگا اس کی حالت ایسی تھی کہ اس کے سب  دوست ڈر گئے۔الاّ اس کی بیمار طبیعت پر غالب آئی اور وہ بیماری کے سبب سے آسمانی چیزوں  کی تلاش میں زیادہ تیز اور  چالاک ہوا اور نئے سرے سے  کامل پاکیزگی کو ڈھونڈااور اپنے ہم جنسوں کی نجات کے واسطےسعی کرنا شروع کی اور اس وقت وہ بڑے افسوس اور آزمائش میں پڑا  اور اور اس کے باپ نے دوراندیشی سے چاہا کہ اپنے پرگنے کے لوگوں کی روحانی تعلیم دینے کا بندوبست اچھی طرح سے کرے۔اور لوگ بھی جان ویزلی  کواپنا خادم الدین بنانا چاہتے تھے ۔ اوراس کے بھائیں نے بھی  یہی چاہا کہ وہ اپورتھ کا پادری ہو کر اپنے خان دان کے واسطے رزق بچائے چنانچہ اس کے باپ  نے چٹھی میں اصلاح دی کہ وہ اپورتھ  کی کلیسیا کے روز گار کے عرض کرے۔

جان ویزلی صاحب نے یہ سوچ کر کہ آکس فرڈ میں  وہ خدا کے واسطے زیادہ کام کرے کیونکہ خدا نے اس کو اس جگہ ٹھہرایا تھا ۔اس نے اپنےباپ کی درخواست قبول نہ کی ۔اور اس کے باپ نے ایک دوسری چٹھی لکھ بھیجی ۔اور۔۔۔۔سموئیل نے بھی سخت چٹھی لکھی جس میں بھی یہ مضمون تھا کہ اپورتھ کا دآنا تم پر فرض ہے ۔کیونکہ تم خادم الدین مقرر ہوئے۔اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم اپورتھ میں بانسبت آکس فرڈ کے  خدا کی بندگی اور اپنے نجادت کے کام برابر نہیں کرسکتے چنانچہ جان ویزلی صاحب نے ان باتوں کے جوا ب میں پھر  لکھا  کہ میں آکس فرڈ کی بانسبت کسی اور جگہ پر اپنا کام اتنی اچھی  طرح سے  نہیں کر سکتا ہوں اور یہاں میرے دوست ہیں اورکتاب کے مطالعہ کرنےکی بھی مجھے فرصت نہیں ملتی ۔اور اپو رتھ میں دو ہزار آدمیوں کو تعلیم دینے اور خبر داری اور نگہبانی کرنے کےقابل نہیں ہوں ۔اور جیسا کہ اس کے بھائی سموئیل اس کے خادم۔۔۔۔ الدین ہونے پر خیال کیا ویسا  اس نے خیال نہ کیا ۔اوراس رائےمیں وہ بشپ بھی جس نےاس کو خادم الدین مقرر کیا تھا شامل تھا تو اس خط وکتابت سے ہم ویزلی صاحب کی حالت دریافت کرسکتے ہیں ماہ اپریل ۱۷۳۵؁م جان ویزلی صاحب کے باپ نے وفات پائی وہ ظاہراً عرصہ سے اپنی موت کے واسطے تیار ہو جاتا تھا اور اس کے آخری وقت جان اور چارلس اس کے دونوں  بیٹے اس کی تسلی کرنے کے لیے حاضر تھے وہ موت سے ڈرا  اور کبھی کبھی خداکی سلامتی اور شادمانی پڑی ۔۔۔۔جسمانی دردروکے گئے اورجب وہ درد پھر آیا  تو اس  پر غالب ہوااور جب ۔۔۔۔ اس کی زندگی جاتی تھی تو بیٹے جان نے پوچھا کہ کیا آپ نے آسمان کے نزدیک نہیں ہیں اس نے امید و شاد مانی سے صاف جواب دیا کہ میں آسمان کے نزدیک ہوں تب جان نے اس کےواسطے دعامانگ اے خدا کے ہاتھ میں  سونپ دیا تب ان کی  ماں نے ان سے کہا کہ تم سب کچھ کرچکے کیونکہ یہ اس کی پچھلی باتیں تھیں اور وہ ایسی سلامتی اور خاموشی سے سو گیا تھا اس کے بیٹے دیر تک شک میں رہے کہ آیا وہ رخصت ہوا  یا نہیں اور اسں کی بی بی نے کچھ تسلی پائی اور سوچا کہ خدا ے میری دعا سنی کہ میرے خاوند کوآسانی سے وفات دی اور اس نے موت کے وقت  ایمان کو صاف سمجھا تھا اور اس کے بیٹے بھی  اس وقت ایمان اس کے ایمان کی بابت زیادہ تر واقف ہوئےاور اس سال کے بیچ میں اس نوآبادی جارجیہ کے امین نے ارادہ کیا کہ اس ملک میں خادم ادلدین کو بلاوے تاکہ وفہ یہاں کے باشندوں کو روحانی تعلیم دیں اور متوحشون سکھلاکر دین میں داخل کریں چنانچہ جان ویزلی صاحب اور کئی ایک اس کےدوستوں کو ان کی سر گرمی اورنفس کشی جکے سبب سے اس کام کےلیے پسند کیا سو ویزلی صاحب نے کچھ عرصے بعد اپنے رشتہ داروں سے اصلاح لے کر قبول کیا اور اگرچہ اپورتھ کے جانے واسطے کبھی آکس فرڈ کو نہ چھوڑا مگر اس نے مشنری کام کرنے کے واسطے جو بہت محنت اور نفس کشی سے کیا جاتا ہے آکس فرڈ ہی چھوڑ دیا کیونکہ اس نے سوچا کہ امریکہ میں  خدا کے لیے بہت زیادہ نکام کرسکتا ہوں اور اس نے یہ بھی  خیال کیا تھا کہ کوشش کرنی اور تکلیف اٹھانی اوراس کی کمالیت  حاصل کرنے کےلیے فائدہ  مند ہوگی پس اس مشن کو پسند کرکے اس کا رہنا آکس فرڈ میں تمام ہوا اوراس کو اس وقت کے حوال  ختم  کرنے میں ایک چٹھی میں شہادت دیتے ہیں جو گمبول  صاحب ویزلی کے رشتہ دار نے لکھ بھیجی تھی اور گمبول صاحب بہت فہم اور  دیندار شخص تھا اس نے اپنے دوست کے پھر نہ  دیکھنے کی امید رکھ کر اس کی خصلت اور دل چشپ کام بیان کیے ۔اور اس کی چٹھی میں سے یہ نکالا گیا ہےکہ ماہ مارچ کےدرمیان میں چارلس ویزلی صاحب سے میری اول ملاقات ہوئی اس کے بعد اس اپنے بھائی  جان سے ملاقات کروا کر کہا کہ  یہ مجھ سے بڑا عقل مند ہے اور آسانی سئ آپ  کا شک رفع کرسکتا ہے۔ میں نے کبھی ایسی عزت جواس نے اپنےبھائی کو دی کسی میں نہیں دیکھی۔اور یہ تعجب ہے کہ وہ بھائی اور بھائی ہو کو برابر نہ ہو۔حالانکہ وہ علم میں بھی برابر ہیں۔مگر تو بھی چارلس اپنے بھائی کا پیرو ہے۔اور اگر میں ان میں سے  ایک کا بیان کروں تو وہ دونوں کا ہو گااس لیے میں چارلس کی بابت زیادہ نہ لکھوں گا  سوائے کہ وہ محبت ہی کے واسطے پیدا ہوا اور اپنی خوشی اور خرومی سے اپنے دوستوں کا دل تروتازہ  کیا کرتا تھا۔اور نہایت ہوشیاری  سے ان کی تکلیف میں ان کو تسلی دے کر ان کے لیے ہر ایک کام  چھوٹا یا بڑا کیا کرتا تھا۔اور باعث اس کی بےتکلفی سے کسی طرح کی بد مزگی اور بگاڑ واقع  نہ ہوا۔

ویزلی صاحبان ابھی کے دینی کام کرنے کے سبب سے جنھیں مارگن صاحب نے شروع کیا تھا مشہور ہوگئے اوران کے دوستوں  سے ایک شراکت ہوئی اور اس کا سردار جان ویزلی صاحب ہوا جو کہ اس کام کے واسطے نہایت لائق تھا اور صرف اورں عقل مند اور کار ہی نہ تھا بلکہ وہ ایسا چالاک تھا کہ ہمیشہ ترقی کرتا رہا اور وہ ایسا مستقل تھا کہ اس نے کبھی کچھ نہ کھویا اور جو کچھ  کہ اس نے کبھی کسی سے درخواست کی ضرور اس کو ملا کیونکہ وہ بہت سنجیدہ تھا اور وہ اس کی غرض سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔اوروہ  کبھی تبدیل نہ ہوتا تھا اور وہ ہر ایک کام کرنے سے پیشتر اس کے انجام پر خیال اور غور کیا کرتا تھا ۔اور اگرچہ وہ اپنی خاصیت  میں تیز فہم تھا  تو بھی وہ   صحیح امتیاز اورخدا ترس  تھا اور فروتن تھا اور حالانکہ اس کے چہرے پر کس قدر حاکمی اور اختیار جمیت معلوم ہوتا تھا ۔مگر تو بھی اس نے کسی طرح  کا  اختیار یا زبردوستی اپنے دوستوں  پر نہ کی بلکہ انھیں ان  کے خیالات ظاہر کرنے کے لیے اجازت دی اور نیز ان  کی رائے مثل اپنی رائے کے استعمال میں لایا اور ان کے کام  کئی حصوں مین تقسیم  کیے۔ (۱)۔پہلا جوان طالب علموں کے ساتھ گفتگو کرنی۔(۲)۔ دوسراقیدیوں سے ملاقات کرنی۔(۳)۔محتاج خاندانم  کو تعلیم دینی ۔(۴)۔ ایک  مدرسہ اور ایک کارخانہ خبرداری کرنی ۔اور انھوں بہت خبر داری اور کوشش کی کہ طالب علموں کو بد رفیقوں سے پرہیزگار اور مطالعہ پسند بنا دیں۔چنانچہ ان  کہ اچھے نوجوانوں سے ملاقات کرائی اورمشکل سبق سیکھنے میں ان کی مدد کی اور دردمندی سے ان کی نگہبانی کی۔ان میں سے ہرروز کوئی بڑے جیل خانہ کو جاتا اور ایک دوسرا  دوسرے جیل خانہ کو جاتا اور جوکوئی بڑے جیل خانہ میں آتا سب قیدیوں کو جو چیپل میں آتا پڑھایا کرتااور ان کی روھانی نگہبانی کرتا اور ہر ایک کے ساتھ اکیلا گفتگوکرتا س اور جو کوئی نیا قیدی آتا تو وہ اس کے ساتھ پانچ چھ دفعہ بہت کوشش اور  ہوشیاری سے گفتگو کرتا۔اور جس کسی کو موت کا فتویٰ دیا جاتا تھا تو وہ اس کے ساتھ مل کر دعاکرتا اورتسلی دیتا ۔اور انھوں ایک چھوٹا خزانہ جمع کیا کہ جس کے بڑھانے اس کےدوستوں نےسماہی چندہ جمع کیا اور کوئی تھوڑے قرض کے سبب سے قید ہوا تھا چھڑا دیا اور ان کے واسطے کتابیں اور ضروریات کی چیزیں خریدی اور ہر قید خانہ میں ہفتہ ، بدھ اور جمعہ  کی شام کو دعا مانگی اور ہر ایک اتوار کو منادی کی اور ہر مہینے پاک ساکرامنٹ کی تقسیم کی اور جب وہ کسی محتاج  خاندانکی مدد کرنا شروع کرتے تو وہ کم از کم ہفتہ وار ایک مرتبہ  دیکھا کرتے اور کبھی کبھی ان کو خیرات دیتے اور ان  کے گناہ بتلاتے اور ان کی تسلی اور پاک تعلیم ۔۔۔۔پڑھتے اور ان کے لڑکوں کا امتحان  لیتے ۔ویزلی صاحبان سکول مقررکر تے اور مدرسوں کو طلب دیا کرت اور چند طلبا کو کپڑے دیا کرتے تھے ۔جب کوئی ان سکولوں کو دیکھنے جاتا تو وہ ہر ایک چال چلن کی بابت دریافت کرتا اور ان کے کام دیکھتا اور ان  کو دعائیں پڑھاتااور کٹی کزم سنتا اور اس کو بیان کرتا۔اور اب ہم جان  ویزلی صاحب کی خدا ترسی کی  بابت بہت سی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ دعا مانگنے  کے سبب  کیسی ترقی کرگیا اور نگہبانی سے حفاظت اور وہ اپنی خاصیت کی مغروری اور  غصہ اور سب جسمانی خواہشوں خدا کے فضل کے ذریعے ایک چھوٹے لڑکے کی موافق  بن گیا ۔

اور نے دعا مانگنے کو اپنا پہلا  اوربڑا کام جانا ۔میں نے اس  کو اس کمرے میں سےایسا  اور خوش روشن آتے ہوئےدیکھا۔اور میں اس کی سب باتوں کا یقین کرسکتا ہوں۔کہ خدا کے پاس  آ گیا وہ اجہی تعلیم اور نصحیت دیتا  ہے۔اور اپنے سب کاموں اورخیالوں میں خدا کی مرضی بجا لاتا ہے۔ اور اگر ہم سے کو ئی کسی طرح کی باطل اور بے فائدہ باتیں پیش آتیں تو وہ ناخوش ہوتا اور اس نے ہمارے مطالعہ کرنے میں ایک طریقہ مقرر کیا تھا کہ ہم ان سب کو خدا کی نظر کریں اور اس کام کے سبب لوگوں  نے  کہا کہ علم کا دہشت دینے والا ہےلیکن اس نے ایسا نہ کیا اس کا پہلا کام یہ تھا اس نے  طالب علموں کی سستی نیست کرنے کا اردہ کیا تھا۔اورسستی وہ صفت ہے جس سے  مطالعہ کرنا بلکل رک جاتا ہے۔اور اس نےطالب علموں   کو نیا مطالعہ کرنے اور سب کام سرانجام دینے کے لیے قاعدہ مقرر کیا اور اگرچہ وہ  خفا ہوتا تو وہ مجھ سے ہی  خفا ہوتاکیونکہ  میں اس کے طریقوں کو  آہستہ سے قبول کرتا تھا ۔

اب وہ مشنری ہو کر جارجیہ کو یہاں لوگ نادان ہیں گیا اور اب وہ زندہ ہے  اس سبب سے اس کی تعریف سزا وار نہیں ۔مگر میں اپنی تعلیم اور رتربیت کی ترقی کے لیے ہمیشہ یاد کرتا ہوں یہ چتھی مذکور گمبول صاحب نے جب کہ وہ آپ  نورسیدہ دیندار تھا لکھیں۔اور اگرچہ بات اس کے اور ویزلی صاحب  کے لیے عزت کا باعث ہے تو بھی  ہم ویزلی صاحب کی چٹھیوں سے جواس نے اپنی ماں کو لکھی تھیں معلوم کرسکتے ہیں  کہ وہ روحانی طور سے ایسا کابل اور پاک مسیحی نہ تھا جیسا کہ گمبول  صاحب نے خیال کیا فانی ناپاکی کے ساتھ لڑائی کرتا تھا جس کے سبب وہ پکارتا تھا کہ ہادں میں  توسخت مصیبت میں ہوں ۔اس موت کے بندھن سے مجھے کون چھڑائے گا اور وہ اس مسیح کے کفارہ  کی جگہ میں خود انکاری اور تنہائی اور دنیا سے نفرت رکھتا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ  اس  کفارہ کی خوبیاں۔۔۔۔لانے سے حاصل ہوتی ہیں ۔اور اس سدے گناہ کا داغ  فوراً جاتارہتا ہے ۔اور دل گناہ کے ذریعے سے کامل خوشی اور امید حاصل کرتا ہے اور خدا کی مانند پاک اور راست بن جاتا ۔اور وہ اس وقت  کوشش کرتا تھا کہ اپنی نجات کام کوشش اور تھرتھرانے سے کیا کریں اور نہیں جانتا تھا کہ خدا ہی ہے جو تم میں اثر کرتا ہے کہ تم ا س کی مرضی کے چاہو اور کام  بھی کرو۔

جان  ویزلی صاحب کے احوال 

باب سوئم

اب جان ویزلی صاحب نے جارجیہ  کےجانے کے واسطےتیاری کی جس جگہ کی بابت یہ فرمایا ہےکہ وہاں خدانے مجھے فروتن کیا اور میری  آزمایش کی  اور میرےدل کا حال مجھ پر ظاہر کیا۔الاّ قبل اس کے جانے کے اس کے دوستوں نے عرض کیا کہ مت جاؤ اور اس نے آہستہ اور کامل  طور پر ان کو جواب دیا اگرچہ خطا کاروں نے اس کا ٹھٹھا کیا پر اس نے مختصر جوا ب دیا۔ایک یہ کہتا تھا ۔کہ  یہ کیا ہے؟ کیاتو دیوانہ ہے؟ کیا تیرے واسطے کچھ  اور کام مکتفی نہیں؟کہ توں ہوا کی چکی کا مقابلہ کرتا ہے اس کے  میں ویزلی نے کہا کہ صاحب اگر بائبل راست نہیں ہے تو میں نہایت دیوانہ ہوں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں لیکن اگر وہ خدا کی طرف سے ہے تو میں مدبر آدمی  ہوں ۔

اور چارلس ویزلی صاحب  بھی اسی وقت اپنے بھائی کی خلاف  مرضی  اس کے ساتھ جانے کے واسطے خادم الدین مخصوص کیا گیا۔           اورویزلی  صاحب اپنی مشن کےتکلفات اور نفس کشی اپنی نجات اور دن کی مدد کے  واسطےوسیلہ جانتے تھے اوراس کی چٹھیوں سے ظاہر ہے۔ کہ انھوں نے لکھا ہےکہ ہم اپنے دیس کو محتاج  ہونے کےڈر سے  نہیں چھوڑتے کیونکہ خدا نے دنیا کی  خوبیاں بہت سی دی ہیں۔یہ نہیں دولت اور عزت  کی گندگی اور کدورت حاصل  کریں لیکن خاص مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی روں کو بچائیں اور خدا کے جلال  کے واسطے زندہ رہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ وہ اپنی نجات کے لیے اپنے کام اور چال پر تکیہ کرکے بھروسہ  رکھتا تھا جارجیہ اس وقت ایک نو آباد ملک تھا  ،جس میں میٹھوڈسٹ کی جماعت بہت زیادہ تھی مگر ویزلی صاحب وہاں ایسے کام کے وسطے ادمید نہیں رکھتے تھے ۔پس ناامید ہو کر اس نو آبادی سے چلےسے گے۔ اور۱۷۳۲؁م میں پہلے بسنے والے انگلنڈ سے چلے گئے جن کاسردار جیمس اگلی تھا رپہ صاحب  تھا۔جو اس نو آبادی کا امین ہوا اور سیوانہ  شہر کی بنیاد ڈالی اور ۱۷۹۲؁م امیروں نے انگلیڈ کے بادشاہ کو عہد نامہ دیا اور جارجیہ اس سلطنت کا ایک حصہ بن گیا ۔ تب ویزلی صاحب نے اپنا کام شروع کیا ۔اور اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ وہ تکلیف اور ایذا میں پڑکے ناامید ہوئے ہوں اور نوآبادی میں خاص کر ان کے فروغ میں اکثر لوگ جھگڑے اور بے صبری اور عجیب گوئی میں مبتلا ہوجاتے تھے جس کے باعث سے وہ حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے اور یہ حال جارجیہ میں ہوا۔اوراگرچہ اگلی تھارپہہ صاحب اکثر اچھا گورنر تھا تو بھی اس ویزلی صاحب کو لائق عزت اور مدد نہ دی اور ویزلی صاحبان اگرچہ  ارادے میں بلکل بے عیب تھےتو بھی اپنی خالی ضرورت کے موافق ہوشیار نہ تھے اور کلیسیا کی ھکومت کرنے میں ایسے ۔۔۔۔تبدیل تھے کہ ان کی خصوصیت کے سبب سے لوگوں نے خیال کیا کہ مذہب کسی کے  دل کی خوشی کا باعث نہیں  ہے ۔ اور وہ اس روشنی کے موافق چلتے تھے کہ ان کے پاس نہیں لیکن مسیح کی  محبت   سے ناواقف ہو کراس کے ذریعے سے لوگوں پر نقش نہیں کر سکتے تھے اور وہ ارادہ رکھتے تھے کہ آدمیوں نفس کشی کے سبب سے اپنی مانند مسیحی بنا دیں اور جس وقت یہاں پر تھے  تو انھوں اپنے  اوقات گزرانے کے لیےایک تھیک تدبیر کی اور پہلے اس جہازی سفر  پر مرادی مسیحی ان کو ملے۔کیونکہ ۲۶ آدمی جرمنی  جومرادی مسیحی تھے اس نوآبادی کے لیے جہاز پر جاتے تھے اور ویزلی گفت وشنید کرنے جرمنی زبان سیکھنے لگا۔اور ۔۔۔۔صاحب اور وہ ۔۔۔۔صاحب انگریزی زبان ان سے سیکھنے لگے اور اس سفر میں کئی ایک سخت طوفان آئے اور ان سے ویزلی صاحب موت سے بہت  ڈر گیا جس سے اسے معلوم  ہوا  کہ میں موت کے واسطے تیار نہیں ہوں اور اس کو مرادی  لوگوں میں موت کا خوف نہ رہنے بڑا تعجب ہوا۔اور ان کو کہا کہ میں ان کی چال  چلن کی سنجیدگی بہت دیر سے  دیکھ رہا ہوں۔کہ ان کی فروتنی اس میں ظاہر ہے کہ وہ اور دن کے واسطے وہ کافدم کرتے  ہیں کہ جس سے انگریز لوگ انکار کرتے تھے۔اور وہ ان کے واسطے مزدوری نہیں لیتے تھے۔بلکہ انھوں یہ  کہا کہ یہ کام  ہماری دلی مغروری کو نیست  کرنے کواچھا ہے۔اور ہمارے مسیح  نے اس سے زیادہ ہمارے واسطے کام کیا ہے اور ورز ہر  ایک طرح  کی بے عزتی اور نقصان اور حلیمی دکھلاتے تھے۔یہادں تک   کہ اگر وہ کبھی مارے جاتے  تواٹھ کے  خاموش چلے جاتے۔لیکن ان کے منہ سے کسی طرح کی  گالی  یانالائق بات نہیں  نکلتی  تھی ۔اور اس سفر میں ان  کو فرصت ملی تاکہ وہ ظاہر کریں کہ مغروری اور غصہ اور کینہ  سے کس طرح بچیے اورجب کہ  وہ اپنی عبارت کے شروع میں اپورتھ کو جاتے تھے اس وقت سمندر کی لہروں  نے جہاز کےبڑے پال  کو پھاڑ  ڈالا اور جہاز کو چھپایا اور تختہ بندی  کے بیچ میں پانی بھر گیا گویا یہ کہ سمندر نے ہم کو جہاز سمیت نگل لیا۔تب انگریز لوگ بڑے شور سے چلانے لگے۔مرادی  لوگ گاتے رہے۔اور بعد اس کے میں  نے ایک سے پوچھا کہ کیا تم اس طوفان میں نہ ڈرےاس نے جواب میں کہا کہ خداکا شکر ہے کہ  میں نہیں ڈرا۔میں نے پھر پوچھا کہ  کیاآپ کی عورتیں اور لڑکے بالے نہیں ڈرتے تواس نے حلیمی سے جواب دیا کہ ہماری عورتیں اورلڑکے بالے موت سے نہیں  ڈرتے۔تب ویزلی نے دیکھا کہ جو مسیحی دیندار ی  دل سے ہو تو آمی دل کو ہر حال میں سلامت رکھتی ہے۔اوریہ ماہ فروری ۱۸۳۷؁م کو ایک چھوٹا جزیرہ جوآباد نہ تھا جہاز سے اترے ۔اور اس جزیرہ  سے اگلی تھارپھ صاحب اسیوانہ کوروانہ ہوئےاوردوسرے دن ایک اسپاننگ برگ صاحب کی بابت یوں لکھا ہے کہ میں  نے فوراً اس کی روح پہچانی اوراس نے اپنے چال و چلن کی اصلاح دریافت کی کہ میں پیشتر آپ سے کئی سوال پوچھتا ہوں اور اس نے سوال دریافت کیے ۔کیا تمہارے دل میں گواہی ہے؟ کیا خدا کی ورح  تیری روح کے ساتھ گواہی دیتی ہےکہ تو خدا کا فرزند ہے ؟میں حیران ہوا اور جواب دینا نہیں چاہتا تھا تو اس یہ حال دیکھ کر پھر پوچھا  کہ تومسیح کو پہچانتا ہے تب میں نے تھوڑی دیر ٹھہر کر جواب دیا کہ البتہ وہ دنیا کا بچانے والا ہے ۔اس نے کہا کہ سچ !لیکن کیا تو جانتا ہے کہ اس نے تجھ کو بچایا؟میں  نے جواب دیا کہ میرا بھروسہ ہے کہ وہ میرے بچانے کے واسطے  موا  اور اس  نے اس پر  یہ ٹھہرایا  کہ تو خود کو پہچانتا ہے میں  نے کہا ہاں میں خود کو پہچانتا ہوں لیکن اب میں ڈرتا ہوں کہ یہ باتیں باطل ہیں۔

چارلس ویزلی صاحب شہر فیڈرک کا خادم الدین ہو گیا۔اور جان ویزلی گھر نہ تیار ہونے کے سبب  جرمنی لوگوں کے ساتھ سیوانہ میں رہااوران کی روح اور چال چلن پر زیادہ غور کیااور ان کےساتھ بہت خوش ہوا  کیونکہ اس نے اس دستور العمل بشپ کے مقرر کرنے اور مخصوص کرنے میں ان وقتوں کو جن میں بلکل شان و شوکت نہیں یاد کیا۔اور جب کہ اس نے سنا کہ چارلس ویزلی صاحب بہت تکلیف اور بیماری اور تنگی میں ہے تو اس کے بعد گورنر اگلی صاحب نے جو دیکھنے میں اس کا دشمن بن گیا تھا پھر دوستی کی اور اس کو انگلیڈ کو اپنوں کے پاس خبر لینے کو بھیجا۔چنانچہ ۱۷۳۶؁م وہاں پہنچ گیا اور اس  مشنری کام جس میں وہ بہت سرگرم تھا ختم ہوا۔اورجان ویزلی صاحب  سیوانہ کو واپس آیا   کیونکہ  وہ فیڈرک سے اچھا تھا اور وہاں اس نے دیسیوں کے واسطے منادی کرنے کا منادی کا موقع پا کر اپنے دوستوں سے صلاح کی کہ اپنا وقت سیوانہ کی  کلیسیا کے واسطے فائدہ  مندی سے کس طرح خرچ کرے؟اور انھوں نے ٹھہرایا کہ پہلے وہ سنجیدہ  ہوں اور چھوٹی جماعت بن جائے اور التزام اور تعلیم اور نصحیت لینے اور دینے ہفتہ وار ایک دفعہ یا کئی مرتبہ  جمع ہوں اور دوسرے یہ کہ ان چھوٹی جماعت کےواسطے  ایسے لائق اشخاص  چنے  جایئں کہ وہ ہر ایک کے ساتھ گفتگو کریں اور وہ سب ہر اتوار کی شام ویزلی صاحب کے گھر میں جمع ہوں اور ڈاکٹر واہٹ ہیڈ صاحب  کہتا ہے ہم اس میں   کلاس  مٹنگ اور پریر مٹنگ  کاشروع دیکھتے ہیں۔اور شاید ویزلی صاحب  نے مرادی لوگوں سے اس کی بابت کچھ سکھا تھا ۔اور یہ بھی اس کی دانست میں اچھا تھا کہ اس نے پیشتر ایسا خیال  اور عمل  کیا اور اس کی روح  کی خاصیت نہایت معمولی تھی اور وہ مستعد تھا اور اس نے سب کچھ جو کہ آدمیوں کی تربیت اور نجات   کے لیے ترقی  کا باعث تھا ۔پسند کیا اور ایک سکول مقرر کیا ۔اور اس میں خود ویزلی صاحب  نے لڑکوں سے دریافت کیا اور لوگوں کے  گھروں اور کلیسیا  میں باز پرس کی اور اس کے گھر میں لوگوں کےواسطے سنجیدہ دعا ہواکرتی تھی اوروہ ہمیشہ ہر طرح کے اچھے کاموں  مشغول  ہوتا رہتا تھا تاکہ  ہر طور سے اپنی خدمت کا پورا  کرے مگر اس پر بھی اس کی روحانی حالت ویسی ہی رہی اور اس ایک مرادی کی سلامت موت کے وقت ایمان کی  قدرت دیکھی اور اس گرجنے اوربجلی کے طوفان سے معلوم  کیا کہ  وہ خدا کا فرزندنہ تھا۔اس کے انداز اب تک مخفی ہیں اور اس وقت اس  نے کئی دیسی آدمیوں کے ساتھ جو کہ سیوانہ کو آئے  تھے گفتگو کرکے سوچا کہ ان پر منادی کرنے کے واسطے اب راہ  کھلی ہے۔اور اس نے  بہ چاہاکہ ان کے مشنری کام کرنے کے واسطے جائےمگر گورنر صاحب نے اس پر اعتراض کیاکیونکہ سیوانہ کے  واسطے کوئی  اورخادمِ دین  نہ تھا۔اور اس کے دوستوں نے بھی یہی  خیال کیا کہ وہ یہاں سے نہ جائےکیونکہ نو آبادی کے لیے بہت ضرور ہے پس وہ سیوانہ ہی میں بہت عزت دار ہوتا گیا او راخیر انجام  اس کا یہ ہوا کہ  اس نے جارجیہ کوبلکل  چھوڑدیا اور نے کسی کے ساتھ شادی بندوبست کرنا چاہا۔مگر بعد اس کے اس نےان سے صلاح لی اور خود بھی خیال کرکے کہ یہ شادی اس کی بہتری کا باعث نہ  ہوگی اس کا بندو بست نہ کیا تب اس عورت کے رشتے داروں اور اقربا نےاس سے بدسلوکی کی اور نالش دائر کی اور اگرچہ وہ اس جھگڑے میں بلکل  بے عیب تھا تو بھی کئی ایک آدمیوں نے  اس کے بد گوئی  اور اس وقت وہ جارجیہ  سے انگلیڈ  کو روانہ ہوا اور جب  وہ سیوانہ میں تھااس کی منادی مسیح کے کفارہ  میں ناقص ہوئی اور حالانکہ وہ خاصیت میں سینہ صاف اور ہر دل  عزیز تھاتو بھی وہ الہٰی قدرت کے ذریعے سے نئے سرے پیدا ہوا۔جس پیدائش کا پہلا پھل حلیمی اور محبت ہے۔اور ویزلی صاحب نے اپنے جملہ تکلفات میں اپنے دوستوں سکنہ  انگلیڈ اور امریکہ سے چند چٹھیاں تسلی آمیز پائیں اور بہترے آدمی جارجیہ میں ہین رہتے تھے جو ویزلی صاحب کو ان کی  نیک بختی کے سبب بہت عزیز اور اور معزز جانتے تھے کیونکہ وہ ہر ایک اتوار کوپانچ چھ دفعہ مختلف قوموں  کے آدمیوں کےواسطے مختلف زبان یعنی  انگریزی اور فرانس میں  منادی کرتا تھا۔اور اپنے تمام اوقات نیک کام کرنے میں گزرانتا تھا ۔اور تمام اپنا مال و متاع تقسیم کردیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں ایک شلنگ تک باقی نہ رہا اور جب تک وہ امرکہ میں رہا اس کی طبیعت تندرست رہی اور اس نے ہر موسم کے خطروں کو برادشت کیا اور موسم  گرما میں کبھی کبھی اس زمین پر سوتا اور سردی اس  کے بال  زمین پربرف سے بند رہ جاتے اور وہ ماہ فروری ۱۷۳۸؁م میں لندن میں گیا اوراپنے کاموں پر جو اس نے تکلیف اور محنت سے   امریکہ میں کیے تھے خوشی سے خیال  کیا اور اس نے اپنے روزنامہ  میں  یوں  لکھا کہ  بہت سے سبب ہیں جن سے  میں خدا کا شکر گزار ہوں۔کہ میں اپنے ارداہ کے برخلاف غیر ملک میں بلایا گیا اور خدا نے مجھے وہاں فروتن کیا اور میری  آزمائش کی اور جو کچھ  میرے دل میں تھا مجھ پرظاہر کیا اور اسے مجھے اس طرح سکھلایا کہ میں آدمیوں سے خبر دار ہوں اور اس قدر فرصت دی کہ میں اس کے بندوں کو دیکھوں اور پہچانوں خاص کر ان کو  جو ہرن ہتھ کی   کلیسیا میں  ہیں اور وہ  اب بھی  مجھے فرصت دیتا ہے کہ میں مقدسوں کی تصنیفات کو ارمنی اور اسپانش اور فانی  زبانوں میں پڑھوں جن زبانوں کو میں نے جارجیہ میں سکھا تھا اور تمام جارجیہ والوں نے خداد کا کلام سنا اور بعض نے اسے قبول بھی کر لیا اور روحانی طریقے میں دوڑنے لگےاور وحشیوں اورامریکہ کے متوحش لوگوں پر منادی  ہوئی اوراکثر لڑکوں نے سکھا ہے کہ کس طرح وہ خدا کی خدمت اور اپنے پڑوسیوں کی مدد کریں اس نوآبادی کے امین سے اس کی روحانی حالت دریافت ہوسکتی ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس کی بنیاد آنے والی پشتوں کی سلامتی اورخوشی کے واسطے زیادہ قائم اور مضبوط کرسکتے ہیں۔

جان ویزلی صاحب کے احوال

باب چہارم

ویزلی صاحب جہازی سفر سے انگلینڈمیں پہنچنے  کے بعد اپنی روحانی سنجیدگی  سے غورکیا  اور جانچ کر کہا کہ میں اب تک سچا مسیحی نہیں  ہوں مگر اس بات سے لوگ بہت گھبراتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ کسی دھوکے کے سبب ایسا کہتا ہے لیکن وہ ایک پکی دلیل یعنی دل کے حاک سے نبوت کر سکتا تھا کہ اوہ مسیح اس قدر نہیں  کہ خوف سے بچ جائے اور وہ  سر گرمی سے اس ایمان کے لیے کہ جو زندگی اور موت میں سلامتی اور خوشی  بخشتا ہے۔دعا منگتا تھا اور اس نے کہا کہ میں وحشیون سرِنو پیدا کرنے کو امریکہ گیا تھا پر مجھے کون  سرِپیدا کرے گا کون مجھے اس خراب اور بے ایمان دل سے رہائی دے گا۔ میری دینداری خش اوقات کے واسطے اچھی ہے میں اچھی طرح   سے بول  سکتا ہوں۔اور جب کوئی خطرہ نہیں ہے تو میں ایمان بھی لا سکتا ہوں لیکن جب موت نزدیک معلوم ہوتی ہے تو میری روح بہت گھبراتی ہے۔اورمیں نہیں  کہہ سکتا کہ موت میرا نفع ہے۔اب گناہ کا ایک خوف رکھتا ہوں کہ موت کے وقت جلد ہلاک ہوں اور اس نے سوچا کہ آدمی ایمان کےسبب گناہ اور موت کےڈر سے بلکل بچ جاتا ہے اور سلامتی سے معمور ہو جاتا ہے۔مگر وہ خود ایسے  ایمان  کے تھیک بیان اور خاصیت ناواقف تھا ۔اور اس نے حقیقتاً خیال کیا کہ ایمان انجیل کا ایک یقین ہے۔کہ جو آدمی کے دل میں شوق پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی خوشی اور خواہش سے انکار کرئے اور خدا کا کامل فرمانبردار ہو جائے جس سے اس کا دل نیا ہو اورخدا اس کو سلامتی سے قبول کرئےلیکن یادرکھنا چاہئے کہ  ایمان ایک وسیلہ ہے وہ فعل نہیں ہے۔

اور ویزلی صاحب نے اپنے دل کا حال  اپنے روز نامہ میں  اس طرح بتلایا  ہے کہ میں نے اول نصیحت  پائی ہے کہ اپنی ظاہری دینداری کے کام پر بھروسہ نہ رکھوں اورمیرے واسطے بیان بھی کیا گیا ہے کہ جو ایمان  عمل کے ساتھ نہ ہو اس میں امید اور محبت شامل نہیں ہے اس سبب سے میں امید اور محبت کی راہ کو معلوم نہیں کرتا اور تو تھری اور قانونی کتابوں کو پڑھا بھی نہیں ایمان کا بیان ایسا الٹا اور بے ترتیب کہ وہ ایسا بڑا معلوم دیتا ہے کہ تمام احکام ان میں چھپ گئے اس ثابت ہے کہ ویزلی صاحب نے ان صفتوں کو نہیں سمجھا جیسا اس نے جارجیہ میں مرادی لوگوں کو  نہیں سمجھا تھا۔اگرچہ اس نے دیکھا  کہ ایمان لانے کی وہ سلامتی رکھتے ہیں جس سے وہ آپ محتاج تھا اور شاید مصنف جن کا ذکر وہ  کرتا ہے ایمان کا بیان ایسا کرتا کہ وہ  راستباز ٹھہرائے جانے کے لیے وسیلہ ہے اور ویزلی صاحب نے سوچا تھا کہ وہ نجات کے کافی ہے اور اس نے بہت سی کتابیں ایمان کےب بیان  کےتلاش میں مطالعہ  کیں اورایک  غلطی سے دوسری غلطی پر چلا پر کچھ روحانی آرام اسے  نہیں ملا تب اس نے بہت دعا مانگی اور اپنے آپ کو آزما کر بڑا گناہگار سمجھا اور اقرار کیا کہ میں بلکل لاچار او ر بے کس  گناہگار ہوں اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کی بادشاہت سے دور نہیں اور کہتا ہے کہ اب دو برس  سے زیادہ  نہ گزرے کہ جب سے میں  نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا تاکہ امریکہ کے وحشیوں سے مسیح دینداری کابیان  کروں بلکہ میں نے اتنا ہی کہنا سکھا ہےسوائے اس کے جس کو میں نے نہیں سوچا کہ میں جو متوحشی لوگوں  کو ازسرِنو پیدا کرانے کے واسطے امریکہ کو گیا تھا ۔آپازسرِ نو پیدا نہیں ہواہوں اورمیں دیوانہ نہیں ہوں  اور اگرچہ میں ایسا بولتا ہوں بلکہ سچائی اور ہوشیاری  کی باتیں کہتا ہوں شاید کہ کئی اب تک جو خواب غفلت میں سوتے ہیں جاگ جائیں کہ جیسا میں ہوں  ویسے  ہی وہ بھی ہیں۔کیا مغلوب ہیں ؟کیا وہ قدیمی اور سریانہ  کی زبانوں سے واقف ہیں میں بھی ان زبانوں کو خوب جانتا ہوں؟۔کیا وہ علمِ الہٰی میں ہوشیار ہیں میں نےاس علم کو برسوں تک غور کرکے مطالعہ کیا ہے ؟۔کیا وہ  روحانی باتیں بولتے ہیں ،فصیح ہیں ،میں بھی ان باتوں کو فصاحت سے بول سکتا ہوں ؟۔ کیا وہی بہت خیرات دیتے ہیں ،دیکھوں میں سب مال غریبوں کو بانٹ دیتا ہوں ؟۔کیا وہ اپنی محبت دلی کرتے ہیں، میں نے ان سب سے زیادہ کیا  ہے؟۔وہ اپنے ہم جنسوں کے واسطے تکلیف اٹھاتے پر مستعد ہیں ،میں اپنے دوستوں نام اور آرام اور دیس کو چھوڑ دیا ۔ہاں میں نے اپنے بدن کو دیا کہ وہ سمندر سے نگلا جائےیا  گرمی میں خشک ہو جائے یاکہ وہ محنت اور تکلیف سے ضعیف ہو جائے یا جو کچھ خدا دے اسے برداشت کرے ، لیکن کیا میں سب کاموں کے سبب ، کیا وہ کم یا زیادہ  ہوں  خدا کا مقبول ہوں؟۔ کیا میں اپنے سب علم جو میں اب جان سکتا حاصل کرسکتا ہوں ؟اور منادی کرنی اور خیرات دینی اور اچھے کام کرنے اور دکھ اٹھانےسے خدا کے سامنے راستباز ٹھہرایا جاسکتا ہوں اور نجات کے تمام وسیلوں کو جو کہ لائق اورحق ہیں اور پر فرض بھی ہیں استعمال  میں بھی لاتا ہوں۔اورمیں اپنے تئیں ظاہری راستبازی  کی نسبت بے عیب جانا جاتا ہوں۔اور اس سے زیادہ بھی میں مسیحی دینداری کی  تمام تعلیمات  اور سچائیوں پر  یقین کرتا ہوں ۔ لیکن کیا ان سب  زبانوں کے سبب سے میں پاک اور اس آسمانی اور خدائی خصلت اورنامی عیسائی کا دعویٰ کرسکتا ہوں؟۔ہرگز نہیں اگر خدا کے نوشتے سچ ہیں  اور ہم  شریعت اور رعہدنامے کے مطابق انصاف پائیں تو اگرچہ  یہ باتیں مرقوم اور جو کہ مسیح  نام سے سر فراز کی گئیں پاک اور صحیح اور اچھی ہیں تو  بھی بغیر اس کے وہ گندگی  اور کدورت  ہیں تو میں زمین کی  حدوں  میں  یہ سکھا ہے  کہ میں خدا کے جلال  سے محروم ہوں۔ کہ میرا دل بلکل مکروہ  ہیں کیونکہ برا پیڑ اچھاپھل نہیں  لاسکتا۔اور میرا سب کام اور دکھ اور راستبازی  میرے اور خدا کے ساتھ میل نہیں ہے کراتی بلکہ ان کے واسطےجو سب برے اور اچھے  ہیں کفارہ  ہے نہیں وہ عدالت کے دن ہلاک ہوں  گے۔ اوریہ بھی میں نے پایا ہے  کہ میں اپنےدل میں موت کا فتویٰ رکھتا ہوں۔

اور اب میں  کچھ دعویٰ  رکھ کر امید وار نہیں ہو سکتا ہوں سوائے اس کے کہ مسیح کے کفارے کے ذریعے سے میں راستباز ٹھہرایا جاوں اور میں صرف یہ امید رکھتا ہوں  کہ اگر میں مسیح کوڈھونڈوں تو وہ مجھے ملے گا اور میں اس میں  پایا جاؤں گا اور وہ مجھ میں اور نہ اپنی راستبازی دیکھوں بلکہ وہ راستبازی جو مسیح میں ایمان لانے سے ہے ۔وہ ایمان جو میں مانگتا ہوں یہ ہے یعنی ایک مضبوط بھروسا و توکل خدا میں کہ میرے گناہ مسیح کے ذریعے سے معاف ہوئے اور کہ  خدا میرے ساتھ راضی  ہو گیا میں وہ ایمان مانگتا ہوں جس کا ذکر پولوس نے اپنے خط رومیوں  میں  کیا ہے وہ ایمان جس کے ذریعے سے ہر کوئی جو اسے رکھتا کہہ سکتا  ہے۔ کہ  میں ہی زندہ نہیں ہوں بلکہ مسیحی مجھ میں زندہ  ہے اور  جو میں اب جسم سے  زندہ  ہوں سو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے زندہ ہوں جس نے مجھے محبت کی اور آپ کو میرے بدلے دیا گلتوں  کو دوسراباب ۲۰آیت وہی ایمان چاہتا ہوں کہ جس کو ہرایک جو رکھتا ہے اس سے واقف ہوتا ہے کیونکہ جوکوئی اسے رکھتا ہے اس سے واقف ہوتا ہے کیونکہ جوکوئی اسے گناہوں سے آزاد ہے اس سے گناہ کا تمام بدن ہلاک کیا گیا ہے ۔اور وہ خوف سے بھی آزاد ہے کیونکہ مسیح  کے وسیلے سے وہ خدا کے ساتھ میل رکھتا ہے اور خدا کے جلال  کی امید فخر کرتا ہے اور وہ شخص آزاد ہے کیونکہ روح القدس کےوسیلے سے جو ہمیں ملی  خدا کی نسبت ہمارے دل میں جاری ہے رومیں ۵ باب اور وہی روح ہماری روح کے ساتھ گواہی دیتی ہےہم خدا کے فرزند ہیں ۔

اور ایک آدمی جو کہ اس طرح خدا کی تلاش میں رہتا اور چاہتا ہے کہ وہ کامل طور پر خدا  کی راہ سیکھے۔تاریکی میں دیر تک اکیلا  چھوڑا نہ جائےگا۔لندن میں  پہنچنے کے بعد ٹپربور صاحب جو کہ ایک مرادی خادم تھا الدین تھا ملا یہ ماہ فروری سنہ الیہ ۷ تاریخ کو جس دن کی بابت وہ کہتا ہے کہ وہ یاد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ نجات کے ایمان کی بابت یوں بولتے تھے اور قابل ہو کر سچائی پر آیا اور اس نےط آکس فرڈ میں وہ اپنے بھائی چارلس کو جو بیمار تھا دیکھنے گیا  تو میر صاحب کو دیکھا جس  کے سمجھانے سے اس نے صاف دیکھا کہ وہ اس ایمان سے جس سے پوری نجات ہے محتاج تھا اوراس وقت قائل ہوا کہ اس کا ایمان خدا کے وعدوں سے رستباز ٹھہرنے اور مسیح کے کفارے کے  ذریعے سے گناہ  کی  معافی ہونے کی بابت  جدا ہوا تھا اوراس واسطے کہ وہ خوف کی نیند  میں تھا۔اور تھوڑے دنوں  کے بعداس کو پٹر لوسر صاحب پھر ملے اور اس نے اس سے ملاقات کی  بابت اپنے روزنامے میں  یوں لکھا کہ اس نےمجھے زندہ ایمان  کا پھل یعنی پاکیزگی اور شادمانی کا بیان ایساصاف کیا کہ میں حیران ہوا اور دوسرےدن  میں نے یونا نی انجیل کو پھر شروع  کیا اورکہا  کہ میں شریعت اور عہد نامے کے بس میں رہوں گا میں یقین  کرتاہوں کہ خدا مجھ پر ظاہر کرے گا کہ کیایہ تعلیم خدا سے ہے کہ نہیں؟اور جب ویزلی صاحب نے چوتھی دفعہ اس  صاحب  سے ملاقات کی تو وہ بہت زیادہ قائم ہو گیا ۔اس بات پر کہ ایمان ہماری کلیسیا کی تعلیمات کے مطابق ایک قائم بھروسا اور توکل خدا میں کہ مسیح  کے وسیلے سے گناہ معاف ہوئے اور خدا کے ساتھ میل ہوا  اس کی شبیہ اس بات کی بابت  کہ آدمی فوراً تبدیل ہو جائے جاتی رہے جب کہ  اس نے پاک نوشتہ کوپھر جانچا صرف ایک شبیہ باقی رہا وہ یہ تھا   میں نے کہا کہ میں یقین  کرتا ہوں کہ خدا مسیح کلیسیا کے پہلے زمانہ میں ایسا کیا کرتا لیکن وہ  وقت بدل  گئے۔اور ہم کیونکر یقین کریں  کہ وہ اب ایسی جلدی  سے آدمیوں کو تبدیل  کرتا ہےاتوار کے روز یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ کئی  زندہ گواہ تھے جنھوں نے گواہی دی کہ خد انے انکے ساتھ ایسا کیا تھا کہ وہ ہ ایک دم سے اس نے ان کو ایسا ایمان دیا کہ وہ اندھرے سے روشنی میں ہوئے اور گنا ہ  اور خوف سے  پاکیزگی اور شادمانی میں آئے تھے تو میرا مباحثہ ختم ہوا  اور میں صرف یہ کہہ سکتا  ہوں کہ اے خدا تو  میری بے ایمانی کا چارہ کر تب وہ اس سے ایمان کی منادی کرنے لگا اور انھوں نے جو گناہ سے قائل ہوئے اس کو قبول کیا اور ازسرنو پیدا ہوئے اور اس نے بجس صاحب  اور ناکس میم صاحبہ کی تجربہ کاری  کے بیان سننے سے  طاقت اور ترقی پائی اور وہ کہتا تھا کہ یہ دو زندہ  گواہ ہیں اس بات پر کہ خدا اگرچہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتا تو بھی بجلی کے چمکنے سےجسے وہ ایمان ہے نجات دے سکتا ہے۔اور ویزلی صاحب کے ساتھ کئی اور اشخاص دینی شراکت میں فٹرلین جمع ہوا کرتے تھے تو بھی وہ چرچ انگلیلڈ یعنی  حکومت کی کلیسیا میں شریک رہے۔اور اس کے جب کئی مرادی پادری تعلیمات کو سکھلانے لگے تو ویزلی صاحب اور ان کے دوست ان سے جدا ہوگئے اور وہ خاص کلیسیا بن گئے جو کہ میٹھوڈسٹ سوسائٹی مشہور ہے فڑلین کی  شراکت کے احکام  اس القاب سے چھپائے گئے احکام ایک دینی شراکت کے جو کہ فٹرلین خدا کے حکم بموجب خدا کے حکم اوٹبر لولر صاحب کی صلاح سے دیا گیا تھا جمع ہوا کرتےاور اس وقت ویزلی صاحب  نے اس برکت کو جووہ کامل کوشش سے ڈھونڈتا تھا نہیں پایا اور وہ نہایت پریشانی بلکہ سچ مچ شکستہ اور افکارِ دل بولتا تھا وہ ایک آدمی تھا جو کہ  اپنے  کاموں کے انجام سے ناامید اور گھبراہٹ میں پڑا  اور نہیں جانتا تھا کہ مدد  کے واسطے کہاں جاوں اور وہ تخت کے آگے غم میں رک رہا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ فضل کا تخت ہے اور اس کی دعا محصول لینے والے کی دعا ہے یعنی اے خداوند مجھ گناہگار پر رحم کر اوراس نےایک دوست کو یوں لکھا  میں تمہارے واسطے دل سوزی کرتا ہوں پر لائق طور سے  نہیں میں اسی فتوے  کےنیچے ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی تمام شریعت پاک اور راست اور نیک  ہے اور جانتا ہون کہ خدا کی صورت اور دستخط میری روح کے ہر ایک خیال اور مزاج پر ہونا چاہئے پر میں خدا کے جلال سے کتنی دور گر گیا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ جسمانی اور گناہ کے ہاتھوں فروخت ہو  گیا ہوں۔اورمکروہات سے پر ہوں اور بباعث نہ رکھنے گناہ کے کے کفارے کے صرف خدا کے غضب کے لائق ہوں اور میرے سب کام اور راستبازی اور دعاکفارہ کی ضرورت رکھتی ہیں۔اور میں دعویٰ یا عذر نہیں کر سکتا ہوں خدا پاک ہے اور میں ناپاک ہوں خدا ایک جلانے  والی آگ ہے اور میں بلکل گناہگار اور  جلنے کے لائق ہوں تو بھی میں ایک آواز سنتا ہوں وہ خدا کی آواز نہیں ہے جو کہتی ہے کہ ایمان  لاؤ تو تم  بچ جاؤ گے اوروہ جو ایمان لاتا ہے موت سے گزر کر زندگی میں آتا ہے ۔‘‘کیونکہ  خدا نے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا  تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ  ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے’’ (یوحنا ۱۶:۳)۔اوراس حالت میں ۲۴ مئی ۱۷۳۸؁م تک رہا تب اس نے اپنی تبدیلی کا بیان یوں کیا کہ جب میں قریب پانچ بجے صبح کے وقت  اپنی انجیل کھولی تو میری آنکھ ان باتوں پڑی  کہ ‘‘جن  کے باعث اس نے ہم سے قیمتی اور نہایت بڑے  وعدے کیے گئے تاکہ ان کے وسیلے سے  تم اس خرابی سےچھوٹ کر جو دنیا میں بری خواہش کے  سبب سے ہے ذاتِ الہٰی میں شریک ہوجاؤ’’(۲ پطرس ۴:۱)۔ اور دوپہر کو باہر جاے کے  وقت میں نے انجیل کھولیان باتوں پر کہ  تو خداوند سے دور نہیں اور بعد دوپہر کے گرجا سینٹ بالبر کو بلایا گیا اور وہا ں یہ زبور گاتے تھے (زبور ۱۳۰) ۱۔‘‘اے خداوند میں  نے گہراوں میں سے   تیرے حضور فریاد کی ہے۔۲۔اے خدا وند میری آواز سن  لے۔میری التجا کی آواز پر  تیرے کان لگے رہیں۔۳۔ اےخداوند! اگرتو بدکاری کو حساب میں لائےتو اے خدا وند! کون قائ،م رہ سکے گا؟۴۔ پرمغفرت تیرے ہاتھ میں  ہے۔ تاکہ لوگ تجھ سے ڈریں۔۵۔میں خداوند کا انتظار کرتا ہوں۔میری جان منتظر ہے اورمجھے اس کے کلام پر اعتماد ہے۔۶۔ صبح کے کا انتظار کرنے والوں سے زیادہ۔ہاں  صبح  کا انتظار کرنے والوں سے کہیں زیادہ میری جان خداوند کی منتظر ہے۔۷۔اے اسرائیل! خداوند پر اعتماد کر کیونکہ خداوند کے ہاتھ میں شفقت ہے۔اسی کے ہاتھ میں فدیہ کی کثرت ہے۔۸۔  اور وہی اسرئیل کا فدیہ دے کر اس کو ساری بدکاری سے چھڑائے گا۔’’اور شام کے وقت میں بھی ایک جماعت جو کہ الڈرزگیت میں جمع تھی گیا اور وہاں ایک آدمی رومیوں کے خط کے دیباچہ کی تفسیرجوبویر صاحب نے تصنیف کی تھی پڑھ رہا تھا اور جب  آٹھ بجے اس نے وہ تبدیلی جو خدا میں ایمان لانے کے ذریعے سے  آدمی کے دل میں کرتا ہےبیان کی تو میرا دل عجیب طورسے گرم  ہوااور مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف مسیح میں نجات کے واسطے رہتاہوں۔اورمجھےگواہی دی گئی کہ وہ میرا ہے اور میرےگناہ اٹھا لےگا ۔اور مجھے گناہ اور موت کے حکم سے بچایا تب میں تمام زور سے اپنے دکھ دینے والوںاور ستانےوالوں کے  لیے دعا مانگنے لگا۔ اوروہاں اس پر جو کہ میں نے پہلے دل میں معلوم کیا تھاکہ خدا نے میرےگناہ معاف کیے گواہی  دی۔

اور بہت دیر نہ گزری تھی کہ شیطان نے بتایا کہ یہ ایمان نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہاری شادمانی کہاں ہے مگر مجھے یہ سکھلایا گیا کہ سلامتی اور گناہ پر فتح پانی ہمارے نجات کے سردار میں  ضرورشامل ہیں۔اور بعد یہ خیال کرکے کہ اپنی تمام شہوتوں پر غالب آکر یہ کہنے لگا کہ میں ان پرہمیشہ کے لیے فتح مند ہوں اوراپنی دراز عمر تک فضلِ الٰہی  کے ذریعے سے خدا کے واسطے کام  کرتا رہا۔اور اس کے بھائی چارلس نے بھی وہی فضل اور برکتیں  پائیں اور وہ ایک ہی ساتھ تکلیف اور شبہ کے بیان میں چلتے تھے۔اور ان کے آزاد ہونے کے بھی  اوقات جدا نہ تھے بولر صاحب، چارلس ویزلی صاحب جب وہ آکس فرڈمیں بیمار تھا گیااور جب اس نے سنا کہ چارلس ویزلی صاحب اپنے اچھے کام پر نجات کا بھروسا اور امید رکھتا ہے تب اس نے افسوس سے اپناسردنھاجس پر چارلس ویزلی صاحب  نے ٹھوکر کھائی مگر وہ جب چنگا ہوا تو اس نےہالٹن صاحب کے  احوال کے پڑھنے سے معلوم کیا کہ ابھی تک میں اس ایمان  کا جس سفے سلامتی اور روح القدس میں شادمانی ہے محتاج ہوں اور جب بولٹر پھر لندن میں اس سے ملاقات کی تو اس تعلیم پر اسےسنجیدگی سے فکر کرتے ہوئے پایا اور وہ زیادہ  قائل ہوا۔کہ خدا کے بغیر راستباز ٹھہرائے جانے میں خطرا ہےاور میں اس ایمان سے کہ جس میں نجات ہے ابھی تک محتاج  ہوں اور پھر وہ اپنےتمام اوقات  ان باتوں کے مباحثہ  کرنے اور دعا مانگنے اور بائبل پڑھنے میں گزراننے لگا۔اور ایک لوٹہر صاحب کی کتاب جس میں گلتیوں کے خط کی شرح نہیں اس کے ہاتھ پڑی اور اس نے اس کی بابت روز نامہ میں  یوں لکھا میں تعجب کرتا ہوں کہ ہماری کلیسیا اس کی طرف سے جس نے ہم کو مسیح کےفضل میں  بلایا ہے اتنی جلد دوسری انجیل کی طرف پھر گئی کیا ہم یقین کرسکتےہیں کہ ہماری کلیسیا اس تعلیم  پر بنائی گئی ہے کہ ایمان کے وسیلے سے نجات ہے۔میں تعجب کرتا ہوں کہ میں نے اس کو بنا تعلیم جانا کہ حالانکہ ہماری  دینی تعلیمات منسوخ نہ ہوئیں۔اور علم کی کنجی نہیں لی گئی اوراس وقت سے میں نے کوشش کی کہ جتنے دوست میرےپاس آئیں گے ان کو اس بنیادی تعلیم پر قائم کروں گا ۔کہ صرف ایمان کےلانے سے نجات ہے  اور یہ ایمان مردہ اور باطل نہیں ہے بلکہ یہ وہ ایمان ہے کہ جو محبت سے کام کرتا ہے۔اور نیک  کام کرواتا ہے اور پاکیزگی کو پیدا کرتا ہےاور۲۱ مئی ہوٹ سنڈے پر اور اس امید اور انتظاری میں  جاگا کہ میں اپنا مطلب  جلد پاؤں گا۔یعنی یہ کہ  خدا مسیح کے وسیلے میرے ساتھ راضی ہوگیا اور۹ بجے کے قریب اس کے بھائی ویزلی صاحب کے ساتھ  کئی ایک لوگ اس کے پاس اور اس روز کے کے لائق انھوں نے ایک گیت گایا اور جب وہ چلے گئے تب وہ پھر  دعا مانگنے لگااور اس کے بعد تھوڑی دیر میں ایک شخص نے آکر کہا  یسوع ناصری کے نام  لا  تو تو تمام روحانی بیماریوں  اور تکلیفات سےچنگا  ہو  جائے گا پس وہ الفاظ اس کے دل  کے بیچوں بیچ میں نقش ہو گئے اور ان کے ذریعے سے وہ فوراً امید وار بن گیا اور اس نے بائبل میں پڑھا کہ اب تک خدا وند میرا بھروسا ہے تو کہنے لگا کہ یقیناً خداوند میرا بھروسا  تجھ  پر ہےاور ان کی آنکھیں ان باتوں پرپڑیں کہ اس نے میرے منہ میں ایک  نیا گیت ڈالا کہ جس سے میں  اپنے خداوند کی ستائش کرتا ہوں بہترے دیکھیں گےاور ڈریں گے اورخداوند پر توکل کریں گے اور  پھر  اس نے اس بات پربائبل یعنی یسعیاہ نبی کے چار باب  کی پہلی آیت کھولی ‘‘تم تسلی دو میرے لوگوں کو تسلی دو تمہارا خداوند فرماتا ہے یروشلیم کودلاسا  دو اور اسے پکار کے کہوکہ اسی مصیبت کے دن جو جنگ و جدال کے تھے گزر گئے اور اس کے گنا ہ کا   کفارہ ہوا اور اس نے خدا وند کے ہاتھ سے بدلہ دوچند پایا ۔’’(حوالہ نمبر درست نہیں )۔اور ان  آیت کے پڑھنے سےوہ مسیح  کو پہچان  سکتا تھا اور دیکھ سکتا تھا کہ وہ  ہمارے گناہ کا کفارہ مقرر ہوا تاکہ  ہم اسکے لہو پر ایمان لانے سے گناہ سے نجات پائیں اور اس نے وہ سلامتی اور آرام جس کو وہ بہت کوشش سے ڈھونڈتا تھا خدا سے پایا اور دوسرے ۱۰۷ زبور کے پڑھنے سے نہایت خوش ہوا  اور کہنے لگا کہ اس زبور میں  کام  کا بیان ہے جو کہ خدا نے  میری روح  کے واسطے کیا ہے۔ اس نے بہت فروتنی سے اپنی کمزروی کو معلوم  کیا مگر وہ میں  پہچان سکتا تھا کہ مسیح ان  کو جو اس کے وسیلے سے خدا کے حضور جاتے ہیں کامل  طور سے بچا سکتا ہے اور ایسےوہ خاص جن کو خدا  اوپر سے اپنی  بائبل کی دینداری چلانے  کے لیے دنیا میں پھیلانے کے واسطے تیار کرتا تھا آپ  ہی  خدا کے فرزند ہونے کی آزادگی میں داخل  ہوئےاور اس احوال مرقوم کے بیان  میں کئی باتیں مناسب ہیں  مگر یہاں  پر نقل نہ کی جائیں گی۔

جان ویزلی صاحب کا احوال

باب پنجم 

اس وقت سے ویزلی صاحب نے  ایک ایسی جلیل خدمت کو شروع کیا جس کے سبب  ہر قوم  کے بہت سے لوگوں نے جن کا شمار قیامت تک نہیں ہو سکے  گا نجات پائی اور جو کچھ اس نے تجربہ کاری میں پایا تھا ایک کی مانند جوآپ میں گواہی دیتا ہے بے خوف اوردل سے منادی کی  اور اپنے شک و شبہ کو یاد کرکے ان کے ساتھ جو تاریکی اور تکلیف میں چلتے تھے دل و بان سے ہم درد ہوا اور اگلینڈ میں اس وقت آدمی کی حالت مذہب کی نسبت بہت بری اور کم بخت تھی  اسی سبب سے وہ جو دیندار تھے بہت فکر مند رہتے تھے اس کے سبب  سے عام لوگوں نے تعلیم پائی پر انگلینڈ میں ایسا نہ تھا بلکہ جس وقت میٹھوڈسٹ کلیسیا کا شروع ہوا تھا صرف تھوڑے آدمی پڑھ سکتے تھے اور بہت جگہوں میں جنگلی کے موافق تھے اور روم کیتھولک کے دین باطل سے بچ گئے تھے بلکہ سچے دین کی بابت سوائے دو تین آسان باتوں کے اور کچھ نہیں جانتے تھے اور ان باتوں کے محتاج تھے اور اب تک انگلینڈ دکھن اور پچھم کے اطراف میں کئی  ضلع ہیں جن میں آدمی کا حال بہتر نہیں  ہے اور(در بنولا )ایک خادم الدین نے یہ بات چھپوائی کہ ڈیون شہر میں کئی گاؤں ہیں جہاں کہ اب تک یہی نماز ہے جو کہ انھوں نے اپنے باپ دادوں رومن کتھولک سے پائی ۔ یعنی کہ متی ،مرقس ،لوقا اوریوحن    میری  کھاٹ کو برکت کرن

اور کچھ کہنا ضرور نہیں ہے ۔اس وقوت کئی آدمی اور جگہیں بائبل سے ناواقف اور دین کی طرف سے بے فکر رہتے تھے۔اور بہدت جگہوں میں سرگرم منادی کرنےوالوں نے انفرمشن (Information) کے وقت میں رومن کیتھولک کلیسیا میں سے نکلے تھے نہایت بڑی تاثیر کی تھی   اور اکثر شہروں میں ان نے بینروں کو تاریکی سے روشنی میں  لہرایا تھا۔ لیکن اکثر رومن کیتھولک خادم الدین بے فکر کلیسیا کے ساتھ تبدیل ہوئے اور جیسے کہ  وہ پیشتر اپنی خدمت گزاری کے لیے کیا کرتے تھے ویسے ہی اپنی خدمت کرتے اور رومن کیتھولک رسول ہمیشہ سب رسولوں کی پرستش کرتے تھے اور خادم الدین پورتن ازم پھیل جانے کے سبب نئی تعلیم کے سر گرم تھے اور بہترے دیندار اورعقل مند ہوگئے یہاں تک کہ دینداری میں ترقی پانے لگے لیکن شروع میں یہ کام بگڑ گیا تھا ۔کیونکہ حکومت بدلتی رہی اور خانہ جنگی چہارطرف پھیل گئی یہاں تک  کہ لوگ دین پر بلکل فکر نہیں کرتے تھے۔اور نیز ہر طرح  کی بد تعلیم کلیسیا میں جاری ہو گئی اور پادری لوگ بے علم رہ کر صرف نام کے مسیح تھے اورانفر مشن (Information)کی تعلیمات مدرسوں اور ممبروں سے خارج کی گئی اور اگرچہ اس وقت بہت تھوڑے خادم الدین عالم اور مباحثہ کرنے  میں نادر اور فصیح  تھے تو بھی وہ اپنی فصاحت اور علم، دینداری پھیلانے کے لیے استعمال میں نہ لائے اور بہترے پادری ایسے تھے جو بہت بڑے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور انگلینڈ کا ایسا حال ہوا کہ ویزلی صاحبان اور واہٹ فعل صاحب اور تھوڑے جو ان کے موافق کلیسیا کے پاک کرنے کے واسطے اپنا آرام ا ور نام اورزندگی قربان کرنے کو مستعد ہوئے ویزلی صاحب اس کے حال کے شروع  کرنے سے پیشتر کہ جس کے سبب وہ بہت مشہور ہوا اور اپنے اور لوگوں کو روحانی فائدہ حاصل کرانے کا کچھ طریقہ نہ جانتا تھا۔ جرمنی ملک کو گیا تاکہ اول مرادی مسیحیوں کی کلیسیاؤں کو دیکھے اور راستہ میں اس نے ہالیڈ اور جرمنی میں کئی دیندار پادریوں سے ملاقات کی اور مرین پورن میں اس نےان کی  سب تعلیمات کو قبول نہ کیا اور وہاں سے روانہ ہو کر ہرن بٹ کو گیا اور وہاں وہ افسیسوں کے ساتھ گفت وشیند کرنے  میں دو ہفتے تک ٹھہرا اور اس کلیسیا کے دستور العمل کو دیکھا اور اس میں سے  کئی دستور پسند کرکے اپنی جماعتوں میں مقرر کیے اور اس نے کرسچن ڈیوڈ کاواعظ کیا کہ  ہمارے ایمان کی بنیاد کیا ہے اس مضمون پر خلاصہ یوں لکھا اور ہمیشہ ایمان کا بیان اور اس کے مطابق کیا۔

اس ملاپ کی باتیں جو اس نے جو اس نے اپنی تعلیمات کی ،بنیاد رکھی ہیں سو یہ ہیں کہ  ہم خدا کے ساتھ اپنے کاموں اور راستبازی  کے ذریعے سے نہیں ملے بلکہ محض  اور فقط مسفیح کے خون کےب وسیلے سے لیکن کیا کوئی کہے گا میں اپنے گناہوں کہ  واسطے غم آلودہ نہیں ہوں اورکیا میں اپنے  نیک خدا کے سامنے فروتنی نہ کروں اور یہ کیاسب درست اور صحیح نہیں؟ اور کیا ان سب  کو کرنا واجب اور ضرور نہیں؟خدا کو آپ سے راضی ہونے سےپیشتر کہتا ہوں کہ یہ سب درست اور صحیح ہے تجھ کو خدا کے سامنے فروتن ہونا ضرور ہے۔اور تمہارا دل ٹوٹا ہوا  اور شکستہ ہونا چاہئے۔لیکن خیال کرو کہ یہ تمہارا کام نہیں تو غمگین ہوا  اس لیے کہ تو گناہگار ہے یہ روح القدس کا  کام   ہے کیا تو پیشمان ہے کیاتو خدا کےسامنے خاک سار ہے کیا تو فی الحقیقت غم کھاتا  ہے اور تیرا دل میرے اندر ٹوٹا ہےیہ سب کام وہی روح کرتی ہے۔پھر خیال کرو کہ یہ بنیاد نہیں ہے۔کہ جس کے ذریعے سے تو بچ جاتا ہے اور یہ وہ راستبازی اور نہ اس کا  کوئی حصہ ہےکہ جس سے تیرے  اورخدا کے بیچ میں میل ہوتو اپنے گناہ کے سبب غمگین ہے تو نہایت مناسب  ہے تیرا دل ٹوٹا ہوا ہے یہ سب اچھی ہیں مگر توان  سب کاموں اور حالات کے ذریعے سے راستباز نہ ٹھہرایا جائےگا تیری معافی اسی سبب سے نہیں ہوتی  بلکہ تیرا  راستباز ٹھہرایاجانا ان سے روکا جائے گا اگر  تو ان پر تکیہ  کرے گااور اگر تو کہے گا کہ مجھے اتنافروتن ہونا اور اتنا غم کھانا پیشتر  اس سے کہ میں راستباز گنا جاؤں۔

اب اس کوخوب سمجھو کہ اگر تو کہے گا کہ مجھ  کو معاف ہونے سے پیشتر پیشمان ہونا  زیادہ  فروتن  غمگین ہونا زیادہ گناہ کی برائی زیادہ صاف سمجھنا   تَو  تُو اتناغم اور فروتنی اپنے راستباز ٹھہرائے جانے کی بنیاد  بناتاہے اورا س  لیے وہ تیرے راستباز ٹھہرائے جانے کو روکتے ہیں اور یہ ایسا روکاؤ ہے کہ جس کا ہتایا جانا ضرور ہے پیشتر اس کے کہ تو نیک بنیاد ڈال سکے گا اور وہ کوئی چیز تیرے اندر نہیں بلکہ کچھ چیز ہے جو تجھ سے بلکل باہر ہے یعنی مسیح  کا  لہو کیونکہ کلام  یہ ہے ‘‘مگر  جو  شخص کام  نہیں کرتا  بلکہ بے دین کےراستباز  ٹھہرانے  والے پر  ایمان لاتا ہے اس کاایمان  اس کے  لیے راستبازی  گنا جاتا ہے’’(رومیوں۵:۴)۔کیا تو نہیں دیکھتا کہ ہم نہیں ہیں خدا ا ور بے دینوں کے بیچ میں کوئی علاقہ یا رشتہ  نہیں  ہے وہ ایک دوسرے  بلکل الگ ہیں اگر تو اچھی بنیاد ڈالنی چاہتا ہےتواپنی تمام بےدینی ساتھ لے کرسیدھے مسیح کےپاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اے (یسوع ) تو جس کی آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند  ہیں اور میرے دل کو دیکھتا ہے کہ میں بےدین ہوں تو مجھے اس پاس جو بے دینوں راستباز ٹھہراتا ہے پہنچا دے تیرا خون میراکفارہ ہے کیونکہ مجھ میں سوائے بے دینی کے اور کچھ نہیں یہاں بھید ہے یہاں دنیا کے عقل مند  بے وقوف ہوتے ہیں اور اپنی چترائیوں میں پھنس جاتے ہیں اس بات کو دنیوی عقل مند نہیں سمجھ  سکتے اور وہ ان کے نزدیک بے وقوفی  ہے گناہ  وہ  ایک بات ہے کہ جس سے آدمی خدا سے جدا کیے ہیں لیکن گناہ کے سبب سے مسیح کی محبت زیادہ ہوئی جس کے ذریعے سے ہم خدا کے نزدیک  پہنچ سکتے ہیں اور جس کی منادی ہم  دیتے ہیں یہ میل کاکلام ہے یہ وہ بنیاد ہے جو کہ کبھی ہل نہیں سکتی او ر ایمان سے اس بنیاد پر بنائے گئے ہیں اور ایمان بھی خدا کی بخشش ہے جو کہ  اور ہمیشہ ان  کو جو اس کے متلاشی ہیں دیا  کرتا ہے اور جب کہ ان کے دل اس بخشش کو پا چکے ہوں تو پگھل جاتے ہیں۔کہ انھوں نے کبھی اس کا گناہ کیا ہے لیکن یہ کیا خدا کی بخشش دل میں ہے اور سر میں نہیں رہتی ہے۔ عقلی ایمان جو کہ آدمیوں سے خواہ کتابوں سے سیکھا گیا ہے کچھ کام  کانہیں وہ نہ گناہ کی معافی نہ خدا  کے ساتھ میل کراتا ہے کوشش کرو کہ سارے دل سے ایمان لاؤ اور تم مسیح کے خون کا کفارہ پاؤ گے اور سارے گناہ سے صاف کیے جاؤ گے اور روز  ورز  راستبازی اور کامل پاکیزگی میں ازسرِنو پیدا کیے جاؤ گے ۔

اور ویزلی صاحب کہتا ہے  اگرکہ خد مجھے ا ور جگہ میں کام کرنے کو  نہیں بلاتا ہے تو  میں خوشی  سے اپنی زندگی وہاں گزرانتا میں نے اس پسند دیدہ جگہ سے افسو س کے ساتھ رخصت لی، کا شکریہ مسیحی مذہب تمام  دنیا  میں پھیل جائے جیسا کہ پانی گھر اوپر اور پھر وہ  یہ کہتا تھا کہ میں اپنے بڑے اچھے  لوگوں کے ساتھ گفت و شنید کرنے سے نہایت خوش اور قائم ہواا۔اور انگلیڈ کو لوٹا  اس ارادہ  پر میں اپنی ساری زندگی مسیح کے فضل سے دکھلانے میں گزارؤں وہ ۱۷۳۸؁م  میں لندن پہنچا اور آگے کے واسطے اپنے دل میں بندوبست نہیں ٹھہراتا تھا کہ جس سے یہ بات جو لوگوں نے کہی کہ اس نے  پہلے ارادا رکھا کہ گروہ  کا سربن جائے جھٹلائی   گئی۔ثابت ہے کہ ایک کلیسیا کا خادم الدین ہونے کو انکار کیا  اور  وہ جس  نے دنیا کو اپنی کلیسیا سمجھا  کامیاب ہونے کی بابت بہت خیال کن  ہوا  اور شاید جو کچھ بشپ  صاحب  نے اس کے خادم الدین ٹھہرانے  کے وقت کہا تھا یاد رکھا کہ تم پر فقط ایک جگہ میں خادم الدین  ہونا دفرض  نہیں   ہے اگر تم اپنے نزدیک کسی اور طرح  سے زیادہ کامیاب ہو سکتے ہو  اور اگر وہ  کسی اور بات پر بہت فکر کرئے تو اس پر کہ میں زندگی بخشش مذہب کی تازگی کا باعث ہو جاؤں اور اسی طرح جتنی  جگہ  میں  کی بابت گوہی دے سکوں اور جہاں کہی اس نے اجازت پائی اس نے بے رواج تعلیم کی منادی کی یعنی  یہ کہ آدمی فضل سے ایمان لا کر بچ جائےاور لندن بہت بڑی بھیڑ اس کے سننے کو جمع ہوتی تھی لیکن خادم الدین اس کی تعلیم کو  قبول نہیں کرتے تھے  اور نازک لوگ بڑی بھیڑ جمع  ہونے  سے نفرت  کرتے  تھے اور تھوڑے دنوں میں دارالسلطنت کے  گرجے کے دروازے اس پر بند ہوئےمگر تو بھی اس نے  اور گرجوں اور کمروں اور گھروں اور قید خانوں میں بہت سا  کام کیا کہ جس کی تاثیر بہت مدت تک باقی رہی اور تھوڑے عرصے بعد وہ آکس فرڈ  میں  رہ  کر اپنے  دوستوں کو چتھی لکھنے میں مشغول ہوا  جس سے خبر پائی جاتی ہے کہ آکس فرڈ  اور لندن میں بہت سے آدمی اپنے حال سے واقف ہو کر یعنی غفلت کی نیند سے جاگ کر متلاشی ہیں ا ور اس ماہ اکتوبر بتاریخ ۱۰۔۱۳۔۱۷۳۸؁م  ڈاکٹر کوکر صاحب کے پاس یہ خبر بھیجی کہ خدا نے مبارک روح نے اس قدر تاثیر کی ہے کہ سب  لوگ آگاہ  ہوئے  اور بہترے پکار کے کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں جو نجات پائیں ۔اور جب تک کہ  خدا اپنی فصل  کے اور کاٹنے ولے نہ بھیجے تب تک میری  فرصت کام کرنےکو ان کے واسطے  بس نہیں ہے اور اس نے اسی روز ہرن ہرن ہتھ کی کلیسیا کو یوں لکھا کہ ہم بھی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پیروں ہوں جیسا کہ تم مسیح کے  پیرؤ ہو اور جب سے کہ تم ہمارے پاس آئے ہو ۱۴ آدمی ہمارے بیچ میں  آئے ہیں اور اب ہماری شمار آتھ بند ہیں جن میں کل ۵۶ آدمی ہیں۔ اور سب محض مسیح کے لہو سے  نجات ڈھونڈ تے ہیں ۔اور اب تک صرف دو بند عورتوں کے  ہیں اس میں ایک میں  تین اور دوسرے میں پانچ ہیں اور بلکہ جہاں بہت سے ایسے ہیں  جو حرف سیکھنے کے واسطے ٹھہرے  ہیں کہ ہم ان کو سکھا دیں تاکہ مسیح میں شریک ہو کر ایک دوسرے کی مدد کریں اور اگرچہ چارلس اور میں بہت سے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت نہیں پاتے  تو بھی خدا بھی خدا کا شکر ہے کہ ہم اورو ں میں آنے کی اجازت پا کر مسیح کی سچائی میں ہیں اور علاوہ  اس  کے ہم شام اور مقرر شدہ شام  کو میل کا کلام کبھی بیس ( ۲۰)، کبھی تیس (۳۰)،کبھی پچاس (۵۰)، کبھی ساتھ (۶۰)، کبھی تین سو (۳۰۰) اور کبھی چار سو(۴۰۰)آدمیوں کےساتھ مل کر جو اس کے سننے کو جمع ہوتے تھے منادی کرتے تھے۔اور ماہ دسمبر میں واہٹ فیل صاحب جو کہ امریکہ سے لندن  لوٹا تھا۔اس کو ملا اور ایک ساتھ دینی  گفتگو   کرکے ایک دوسرے کو تسلی دیتے تھے اور دوسرے سال  کے شروع میں پسٹریل جہاں واہٹ فیل صاحب  نے باہر منادی کی تھی گیا  اور ویزلی صاحب  نے پہلے ایک چھوٹی جماعت  پر جو بگلس گلی جمع ہوئی تھی منادی کی اور دوسرے دن وہ شبہے اور شکون پر غالب ہوا یہاں تک کہ وہ باہر گیا ایک اونچی پر کھڑے  ہو کر دو ہزار آدمیوں پر منادی کی اور اس دستور کی بابت یہ کہتا تھا کہ میں نے پیشتر درستی  اور ترکیبی پر ایسا تکیہ کیاتھا  کہ اگر کوئی باہر بچ اجاتا تو میں اس کوگنا ہ سمجھتا  لیکن اس  وقت کے بعد میں اس کو نہایت شکر کا باعث جانا  چنانچہ لاکھوں آدمیوں نے جو کبھی گرجے میں نہیں گئے تھے اور نہ کبھی  جانے کہ  ارادہ رکھتے تھے انھوں نےئ خدا کاکلام سن کر نجات پائی اور اس کی جو وہ اس وقت کیا کرتا تھا اس کے روز نامہ میں دیکھتے ہیں کہ وہ یوں کہتا ہے کہ ہر صبح میں نیوگیٹ میں پھرتا اور دعا کرتا اور ہر شام کو ایک دو جماعت میں منادی کرتا ۔ہر سوموار کی شام کو باہر برشبٹل اور منگل کو ماتھ اور ٹومیل ہل میں اور بدھ کو ٹپسیٹ  میں اور ہر دوسری جمعرات کو نپس فرڈومین اور ہر دوسرے جمعہ کو کنگسر روڈ میں اور پیر سنچر کی شام اور ہر اتوار کی صبح بولنگ گرین میں اور اتوار کے گیارہ ( ۱۱) بجے ہنم کوہ کے  نزدیک اور دو(۲) بجے کلفن میں اور پانچ (۵)  بجے  روز گرین میں منادی کرتا  رہا اور جیسا کہ میرا کام تھا ایسی ہی میری طاقت بھی ہوئی اور جب کہ جان ویزلی صاحب جرمن میں رہا تب اس کا بھائی چارلس قید میں اس ہی کی تعلیمات کی منادی سر گرمی سے کرتا  رہا  اور کتاب مقدس کے بیان میں مشغول ہوا اور اس وقت وہ آکس فرڈ کو گیا اور وہاں وہ اپنے مکتب کے بچانے کا باعث ہوا  اور جب جان  ویزلی  صاحب  ہرن ہت سے لوٹا تو بڑی  خوشی سے اس کا بھائی چارلس اسے ملا  اور اسے  خدا کی باتوں کی بابت  اپنی تجربہ کاری اور دوسرے سے بتلائی اور تقدیر کی تعلیم جس کی بابت بہت سا   مباحثہ  کلیسیا  میں قدیم سے  چلا آتا تھا اور جس کی بابت پہلے میٹھوڈسٹ کے بیچ میں اتنی بہت تقریر  ہوئی  تھی کہ تھوڑی دیر کے بعد کسی سفر کرنے کی جماعت میں پیش آیا اور چارلس ویزلی صاحب نے فقط اس  کو انکار کیا  وہ اس وقت بغیر لکھے منادی کرنے لگا اور ایک ہی ملا قات میں  جو ویزلی صاحبان نے لندن  کے بشپ کے ساتھ کی اور انھوں نے  تعلیم کی بابت بشپ صاحب کے دل میں سے شک و شبہ رد کر دیا اور اسے خوب تسیکن ہوئی بلکہ اس نے کے دستورات اس بات میں  کر دیے  ان کو جنھوں نے اور کلیسیا کے خادم الدین سے  بپتسمہ پایا تھا بپتسمہ دینا منظور کیا اور اس بات میں بشپ صاحب نے  اپنی  باتیں عالی ہمت اور کلیسیا کے دستور العمل جاننے والے ظاہرکین اور شاید وہ ان کے زور ایمان سے ڈر گیا تھا کیونکہ اس نے جانا کہ پاکیزہ ہونا ایمان لانے سے تعلق رکھتا ہے ۔

اور اس وقت واہٹ فیل صاحب آکس فرڈ میں تھا اورچارلس ویزلی مدرسے  کے کام کی  ترغیب دی جسے ہم  معلوم کرتے ہیں  کہ انھوں  نے گشتی وعظ کرنے کا بندو بست نہیں ٹھہرایا تھا اور اس پر کچھ فکر کی تھی اور جبکہ جان ویزلی صاحب برسٹبل میں رہا تب اس نےب لمبٹ میں کنٹریری کے آرچ بشپ  سےملاقات کی جس سے بہت افسوس ہوا آرچ بشپ نے ان کی  تعلیمات کا انکار نہ کیا بلکہ ان کےبرخلاف دستور العمل کو بلکل نامنظور کیا اوریہ بھی کہا کہ شاید تم خارج کیے جاؤ گے اس سبب جس نے اپنی زاتی بہادری سے اسے ترغیب دی کہ آنے والے اتوارکو باہر منادی کیجیے کہ جس کام کو تم ٹھہرانہ سکو گے بلکہ آگے کو بڑھ جاؤ گے چنانچہ اس اصلاح پر وہ چلا اور وہ روز نامہ میں اس کی بابت یوں لکھتا ہے کہ ماہ جون کی۲۴ تاریخ  کو میں نے دعا مانگی اور باہر یسوع مسیح نے چلا گیا اور میں نے  مورفیلس میں قریب ایک ہزار لا چار گنادہگاروں کو میرے آنے کے واسطے ٹھہرتے پایا اور میں نے ان کو مسیح کےنام سے اور باتوں میں بھی ملایا یعنی میں نےانھیں کہا کہ‘‘ لوگ جو تھکے اور بڑے بوبھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا’’(متی۱۸۔۱۱ حوالہ نمبر ٹھیک نہیں ہے) خداوند میرے ساتھ ہاں اپنے وعدے کے موافق میرے ساتھ جو اس کی منادی کرنے والوں کے بیچ میں سب سے نالائق اور اسٹپال میں اس روز کی زبور اور سبق اورساکرامنٹ وغیرہ سے مجھ میں ازسرِ نو  طاقدت آئی اور میرا بوبھ اتر گیا اور میرے شک و شبہےجاتےرہے خدا نے  میری راہ پر روشنی چمکائی اور میں نے پہچانا کہ یہ اس کی ہی مرضی کی بابت کلیسٹن کے میدان کو چلا گیا اور بہتروں کو چلایا کہ توبہ کرو اورانجیل پر ایمان لاؤ خداوند میرا زورتھا اور میری زبان اور میری حکمت سب اس لیے اس کی خوبیوں کی تعریفکریں۔

جان ویزلی صاحب کا احوال

باب ششم

ہم نے ویزلی صاحب کو بریسٹبل میں چھوڑا اوروہاں لندن جانے کے بعد پھر اپنے کام پر لوٹا اور ہم نے اگلی بات میں کنگز وڈکا ذکر کیا ہے یہاں ویزلی صاحب نےت بہت کام کیا اور کنگزوڈ ایک ضلع ہے اس کےباشندے کوئلے کھودنے والے تھے اور بہت بڑے گناہگار ہوکے اورں کو بہت ڈراتے تھےاور ان  کے بیچ میں ویزلی صاحب اور واہٹ فیل صاحب نے بڑی تاخیر اور بہت فائدے کی منادی کی  تھی  اور  وہ  کوئلے کھودنے والے گناہ کے سبب سے بہت مشہور تھے مگر سن کے بدل گئے یہاں تک کہ بہت سی دینداری میں سیدھےہوکر اورں کے نمونے بن گئے اور کئی لوگ ترغیب دیے گے کہ برسیٹبل کوساکرامنٹ لینے کے واسطے جائیں اور ان کی شمار بڑھ گئی اور برسیٹبل کے خادم الدین  نے سست  ہو کر ان کو اس بات سے روکا کہ ہماری کلیسیا کے  ہیں۔

اوردوسرے سال میں ایک ہلڑ کے بیچ میں معلوم کیا کہ کلام جو ان وحشیوں کےبیچ  میں سنایا گیا خمیر کے موافق کتنی بڑی تاثیر کا باعث تھا اور چارلس ویزلی صاحب کو خبر پہنچی کہ  کوئلہ  کھودنے والے قحط کے سبب سے لڑائی کرنے کو جمع ہوئے پس وہ سوار ہوکے ان کے ملنے کو گیا اور بہت سے لوگ اس کے ساتھ لڑائی سے لوٹنے کو تیار تھے اورں پر اس نے  ڈور کر مارا اور ان کو ان کے صلح کرنے والے سے مانگا  اور وہ کہتا تھا کہ میں ان  کے پاس جو ہمارے لوگوں میں سے ایک کو مارتا تھا گیا اور اس سے منت کی کہ مجھ  کو مارو اس نے جواب میں کہا کہ نہیں میں آپ کو تمام  دنیا کے حاصل کرنے کے لیے نہیں ماروں گا اور وہ بلکل بے ڈر ہو گیا اور میں کسی اور کی طرف کو جس نے میرا گھوڑا مارا تھا پھرا اور وہی بھیڑ کے بچے کی مانند حلیم ہوگیا اور یہاں کہیں میں نے اپنا منہ پھرا شیطان  کے لشکر کا نقصان  ہوا یہاں تک کہ وہ ناامید ہوگے اور میں نےایک بڑےلمبے آدمی کو پکڑ لیا تھا اور اس سے کہا کہ میرے پیچھے ہولے  اس نے  کہا کہ ہاں  میں زمین کی حدوں تک تیرے پیچھے چلو گا اور میں  چھ شخص اور اس طرح اپنی طرف پھر لیے اور  ہم  ہر ایک جماعت سے کئی ایک آ دمی لے کرگیت گاتے ہوئے سکول کو گئے اور وہاں ہم نے دو گھنٹوں تک دعا مانگی کہ ہماری کلیسیا میں نقصان نہ پہنچے اور وہاں بھی خبر آئی کہ سب کوئلہ کھودنے والے سلامت چلے گئے ہیں اور انھوں نے کچھ نقصان نہیں کیا تھا اور جس نے یہ حال دیکھا سب  نے تعجب کیا ۔ ا سے معلوم ہوا کہ ان کےبیچ میں بڑی  تبدیلی ہوئی اور اس سے معلوم کیا کہ ہماری کلیسیا کے لوگ ہر ایک جواس ہلڑ میں شریک تھے بے مرضی شامل کیے گئے تھے وہ کسی طرح کا جھگڑا نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ایک میٹھوڈسٹ آدمی نے اورں کو صلاح  دی تھی کہ جھگڑا نہ کرو اس سبب سے بندے ہوئے تھے اور جان ویزلی صاحب کسی کو جس نے ان کنگز وڈ لوگوں کا حال پوچھا یوں لکھا دیا کہ بہت تھوڑے آدمی انگلیڈ کے پچھم کی طرف رہتے تھے جن میں کوئلہ کھودنے والے  میں نے سنا ہے کہ وہ ابتدا سے آج تک خدا سے ڈرتے اور آدمیوں  سے کچھ پروا نہیں کرتے وہ خدا کی باتوں سے ایسے نا واقف ہیں کہ  صرف جانوروں سے ایک درجہ اونچے ہیں اس لیےوہ علم کا شوق نہیں رکھتے۔

اور دوسرے سال بہترونم نےط واہٹ صاہب سے ٹھٹھے میں کہا  کہ   اگرچہ آپ وحشیوں کو پڑھانا لکھانا چاہتے ہیں تو کنگز وڈ کے کوئلہ کھودنے والوں کے پاس کیوں  نہیں جاتے؟چنانچہ  وہ تھوڑی دیر کےواسطے  وہاں گیا اور اس کا حال بلکل بدل گیا۔اور اس وقت ویزلی صاحب باتھ کو جہاں  ایک  ٹوٹاس نامی مشہورآدمی اس شہر کا گروہ تھا منادی کرنے کو گیا اور لار صاحب موصوف نے ویزلی صاحب  کو روکنا چاہا اور اس کی بابت ویزلی صاحب نے روزنامہ میں یوں لکھا کہ جب میں جانتا تھا تو اباتھ کے رہنے والے سب انتظار میں رہتے تھے کہ فلاں بڑا آدمی پادری صاحب سے کیا کرے گا اور بہتروں نے مجھے صلاح دی کہ وہاں  منادی کرنے نہ جانا کیونکہ نہیں معلوم کہ وہاں کیا ہوگا؟اور خبر کے پھیل جانے سے میرے سننے والوں کا شمار بہت بڑھ گیا ۔اس قدر کہ  دولت مندوں سے غریبوں تک سارے جمع تھے اور میں نے صاف بتلایا کہ خدا نے ان سب چھوٹوں  بڑوں  اور امیروں اور فقروں کو گناہ میں ٹھہرایا تو بہترے حیران ہوئے اور سوچنے لگے مگر اس وقت ان کا سردار آیا اور میرے نزدیک آکر پوچھنے لگا کہ تو ان باتوں کو کن کے حکم سے کرتا  ہے میں نے جواب دیا  کہ عیسیٰ مسیح کے اختیار سے جو کہ اس نے مجھے کنٹریری  کے آرچ بشپ کی مرفت دیا ہے اور اس نے مجھ  کو خادم الدین مخصوص  کیا اور منادی کرنے اختیار دیا ہے  مگر پولس نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کے حکم کے برخلاف ہے اور یہ باغی  ہے تب میں نے جواب میں کہا کہ صاحب ِجماعت باغی جو اس پارلیمنٹ کے حکم میں ہے اس جماعت کے مطابق نہیں ہے یہ باغی نہیں ہے یہاں فساد کا سایہ بھی نہیں ہے اس لیے کہ اس کے حکم کے برخلاف ہے اور علاوہ اس کے کہ تمہاری منادی سے آدمی ایسے ڈرتے ہیں کہ بے ہوش ہوجات ہیں میں نے پوچھا کہ آپ نے مجھے منادی کرتے سنا ہے؟یہ  جواب دیا کہ  نہیں! تب میں نے کہا کہ آپ اس کی جس کو نہیں سنا  ہے کیونکر منصفی کرسکیں گے۔ اس نے کہا کہ لوگوں کے کہنے سے یہ تو کافی ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا آپ کا نام بوماس نہیں ؟ کہا ہاں !تب میں نے آپ کاانصاف لوگوں کے کہنے مطابق نہیں کرسکتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ لوگوں کا کہنا اس کے واسطے بس نہیں ہے۔تب وہ بہت دیر تک دم کھاتا رہا اور پھر فرصت پا کر کہا کہ میں پوچھتا ہوں یہ لوگ یہاں کیوں آتے ہیں؟اس پر ایک نے کہا کہ مجھے اس کا جواب دینے دو ایک  بوڑھیا اس کا جواب دے گی۔جب لوگ چپ ہوئے تو اس بوڑھیا نے کہا کہ بوماس صاحب آپ اپنے بدن کی خبرداری رکھتے ہیں؟ مگر ہم لوگ اپنی ورحوں کی خبر داری  کرتے ہیں۔اور ان کی بھلائی کےلیے ہم یہاں جمع ہیں۔بوماس صاحب نےکچھ جواب نہ دیا بلکہ چلا گیا اور جب لوٹا تو راستہ میں ان آدمیوں سے جو اِدھر اُدھر بولتے تھے اور دوڑتے  تھے کسی نے پوچھا تو وہی  ہے میں نے جواب دیا کہ میں وہی ہوں تب وہ فوراً  چپ ہوگئے۔ اورکئی میرے پیچھے  خیٹ صاحب کے گھر کے پاس  تک آئے۔

بعد ازاں ویزلی صاحب لندن کو گئے اور موزر فیلڈ اور کلیئین کامن اور اور جگہوں میں بڑی بھیڑ  پر منادی کی جس کے سبب سے بہت سے لوگوں کے دلوں پر عجیب تاثر ہوا اور بہترے غفلت کی نیند سے جاگے۔

اور اکتوبر کے مہینے میں ویزلی صاحب دیلمس میں بلایا گیا اور  بہترے لوگوں  نے وہاں توبہ کی اور انجیل پر ایمان لائے اور آپس میں عہد باندھ کر نیک کام کرنے  میں ایک دوسرے کی مدد کی اور ویزلی  صاحب نے اس وقت عقیدے اور تعلیمات کو اپنے روز نامہ میں بہت صاف لکھ دیا اور وہ یوں ہے کہ ایک سنجیدہ خادم الدین نے پوچھا کہ  آپ  لوگ کن کن باتوں میں حکومت کی کلیسیا کے لوگوں  کے برخلاف ہیں میں نے جواب دیا کہ کسی بات اور تعلیم میں نہیں کیونکہ وہ تعلیمات ،جن کی  ہم  منادی کرتے ہیں حکومت کی کلیسیا کی بنیادی تعلیمات ہیں اور اس دعاؤں اور تعلیمات اور دستور العمل میں مندرج ہیں تب اس نے پھر پوچھا کہ کون سی باتوں کی بابت تم حکومت کی کلیسیا اور خادم الدین سے فرق رکھتے ہو میں نے جواب دیا کہ ان خادم الدین سے جو کہی  کلیسیا کی تعلیم پر قائم نہیں ہیں ذرا سا بھی فرق کسی بات میں نہیں رکھتے مگر ان سے جو کہ ،تعلیمات پر قائم ہیں۔ذرا سا بھی فرق کسی بات کی بابت نہیں رکھتےمگر ان سے جو کلہ کلیسیا کی تعلیمات سے گمراہ ہو گئے ہیں ان باتوں کی بابت فرق رکھتا ہوں مثلاً وہ کہتے کہ  راستباز ٹھہرایا جانا اور بلکل  پاکیزہ ہونا  ایک ہی برکت ہیں۔ یاکہ راستباز ٹھہرنا پاکیزہ ہونے کا پھل ہے میرا اعتقاد ہے کہ راستباز ٹھہرایا جانا ایک بات ہے اور پاکیزہ ہونا اور ہے اور وہ ضرور راستباز ٹھہرائے  جانے  کے بعد حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ کہتے ہیں کہ ہماری پاکیزگی یا نیک کام ہمارے راستباز ٹھہرایئے جانے کا باعث ہیں۔جس سبب سے ہم  خدا کے سامنےراستباز گنے جاتے ہیں۔اور میں یقین کرتاہو کہ ہماری پاکیزگی یا نیک کام  ہماچرے راستباز ٹھہرائے جانے کے کسی طرح کا سبب  نہیں ہے  بلکہ مسیح کی موت  اور راستباز ی ہمارے راستباز ٹھہرائے جانے کا اکیلا باعث ہے  جس ککےئ سبب سے ہم خدا سامنے راستبازہیں ٹھہرائے جاتے ہیں تیسرے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس شرط پر راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں کہ پہلے نیک کام کریں اورمیں اعتقاد رکھتا ہوں کہ راستباز ٹھہرائے جانے کے پیشتر ہم کس طرح کا نیک کام نہیں کرسکتے ہیں تو کیونکر راستباز  گنے جائیں ۔نہیں ! بلکہ ہم فقط  ایمان لانےسے راستباز گنے جاتے  ہیں اور ایمان لانےکے وقت تک ہم ناراست ہیں اس طرح ہم نیک کام کسی سبب سے نہیں کر سکتے چوتھے وہ تقدس یا پاکیزہ ہونے کی بابت کہ وہ ان دو تاثیرو ں پر موقوف  ہیں اول یہ کہ کسی طرح کی برائی نہ کرنی دوسرے نیک کام کرنا مثلاً کلیسیا کےدستورالعمل کو ماننا  اور اپنےپڑوسی  کی مدد کرنا اور یقین کرتا ہوں کہ وہ باطنی ہے یعنی الٰہی زندگی انسان کی روح  میں ہے خدا کی خاصیت  آدمی کے لیےبہتر ہے وہی مزاج جو مسیح یسوع  کا  تھا نئی انسانیت جو معرفت میں اپنے پیدا کرنے والے کی صورت کے موافق نئی بن رہی ہے آخر وہ  نئی پیدائش کے بارے میں یوں کہتےہیں کہ گویا وہ بھی ظاہری ہی  یعنی وہ اور کچھ  نہیں ہیں سوائے  بپتسمہ یا باہری برائی کے باہری نیکی مبدل ہوتا پر میں اعتقاد  رکھتا  ہوں کہ نئی پیدائش بھی باطنی  ہی ہے  یعنی باطنی برائی سے باطنی نیکی تک تبدیل ہونا تاکہ ہم دل  ہی دل  میں شیطان  کی صورت میں سے  جس میں  کہ پیدا ہوئی ہیں خدا کی صورت میں مبدل ہوں اورہم مخلوق کے پیار کو چھوڑ کے  خالق  سے محبت رکھتے ہیں یعنی  دنیاوی چیزوں چھوڑ کر آسفمانی چیزوں  کو پسند کرتے ہیں حاصل کلام یہ  ہے کہ  ہمارےمزاج  جو  شیطان کے سے ہیں ایسے بدل  جاتے ہیں  کہ وہ فرشتوں اور خدا کے سے بن جاتے ہیں جس سبب سے ہمارے اور ان  کے بیچ میں یہ برائی خاصیت اور بنیاد کا فرق ہے۔یہاں تک کہ اگر وہ سچائی کو جیسا کہ وہ مسیح  میں ہے بولتے تو میں خدا کے سامنے جھوٹاگواہ ٹھہرتا ۔اگر میں خدا کی راہ سچائی سے بتلاتا تو  اندھے اندھون کی راہ دکھانے والے ہیں۔اس وقت مرادی میٹھوڈسٹ لوگ جوع کہ پیشتر فٹرلین  ایک ساتھ خدا کی بندگی کیا کرتے تھے جدا ہو گئے اس لیے ن، کہ مرادی پادری نئی تعلیم دینے لگے تھے اور میٹھوڈسٹ لوگ جو۷۰آدمیوں کے قریب تھے فوندری میں بندگی کرنے لگے اور ویزلی  صاحب نے تعلیم کے لیے یہ لکھ دیاکہ پہلے ہم عیسیٰ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ کی زبردستی سے بچ جاتے ہیں جیسا پولوس الہام سے فرماتا ہے اس لیے کہ گناہ تم پر غالب نہیں ہو گا کیونکہ تم شریعت کے اختیار میں نہیں  بلکہ فضل کے اختیار میں  ہو۔

وہ سب جو یسوع مسیح میں ایمان رکھتے ہیں شریعت کی لعنت اور غضب اور سزا کے حکم سے آزادی پاتے ہیں اور خدا کے لے پالک فرزند بن جاتے  ہیں اور  روح  القدس۔۔۔۔مختوم کی  جاتی ہے اور یہ ہیں جو کہ گناہ اختیار سے آزاد ہو گئے کیونکہ  وہ فضل کے اختیار  میں آئے ہیں پس جب وہ ترغیب کیے گئے کہ گناہ تمہارے فافی بدن پر سلطنت نہ کرئے کہ تم اس کی شہوتوں میں اس کے فرمانبردار رہو۔اور نہ اپنے عضو گناہ کے احوالے کرو کہ ناراستی کے ہتھیار ہوئے نہیں کہ سکتے کہ یہ ہمارے واسطے ممکن ہے کہ ہم گناہگار شخص ہیں جسم کی  کمزور وغیرہ اس واسطے ہے کہ انکے ساتھ عیسیٰ مسیح ہے جو اپنے لوگوں کو ان کے گناہ سے بچاتا ہے اور ان کا ایک آسمانی باپ ہے جوکہ ان کی سنتا ہے اور ان کے لیے ایک روح القدس ہے جو کہ ان کے دل میں سکونت کرتی ہے  اور ان  کو ہرا یک کام کردنے میں طاقت دیتی ہے۔اگر وہ لائق طورسے اس فضل کو جس میں وہ کھڑے ہیں استعمال میں لائے تو گناہ ان  کےاوپر اختیار نہیں رکھ سکتا اور وہی بات ہے جو کہ یوحنا اپنے پہلے عام خط ۳باب کی  ۹ آیت میں فرماتا ہے کہ ‘‘جو کو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں بنا رہتا ہےبلکہ وہ گناہ کر ہی سکتا کیونکہ خدا سے پید ہوا ہے ’’اوراس وقت انٹ نومی کی تعلیم پھیل گئی جس کے ذریعے سے کئی  کلاسوں نے شہر بارگ شہر دربی میں کلیسیا کے دستورالعمل کو چھوڑ دیا اور ۱۷۴۰؁م میں شہر موزر فیلڈ میں میٹھوڈسٹ میں ایک سوسائٹی شروع ہوئی اور جان اور چارلس ویزلی صاحب کی محنت بہت بڑھ گئی اور ویزلی صاحب نے اس۔۔۔۔ کےواسطے اور ۔۔۔۔ کے واسطے جو کہ آکس فرڈ  اور برسیٹل اور  اور جگہوں میں جمع ہوئے تھے عام قوانین بنائے   جو تھےآج تک جاری اور قائم ہیں اور وہی اکیلی شرط ہے کہ جس  سے آدمی کاشریک ہونا ٹھہرایا  جائے اور وہ قوانین ڈسپلین میں مندرج  ہیں اس لیے ہم ان کو  اس جگہ  میں نقل  نہیں کرتے   اور ان کی بابت یہ کہا جائے کہ ان میں کسی کے واسطے تعلیمی مذہب مقرر نہیں ہے بلکہ  وہ سب اخلاقی قانون  میں اور ان میں خیرات دینےکے قواعد اور اچھے کام کرنے کے طریقے اورکلیسیا کے دستور العمل کے واسطے تعلیمی مزہب مقرر نہیں ہے  بلکہ وہ سب اخلاقی قانون ہیں اور میں ان  میں خیرات دینے  کے  قواعد اور اچھے کام کرنے کے طریقے  اور کلیسیا کے دستور العمل کے واسطے قانون مندرج ہیں اس لیے ح۔حکومت کی کلیسیا اور ہر ایک کے کلیسیا  کے آدمی ان میٹھوڈسٹ  کے لوگوں میں شریک ہوسکتے ہیں اور اپنی اپنی  کلیسیا  میں رہیں گے اگر وہ محبت سے  اپنی  راہ پر ہے اور ان میٹھوڈسٹ سوسائٹی کاخاص اور اکیلا مطلب یہ تھا کہ  انکےشریک نجات حاصل  کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوانینِ مذہب پر جان اور چارلس ویزلی صاحب کے دستخط ثبت کیے گئے اور ویزلی صاحب کی ماں اس کی منادی  سن کر اس کی جماعتوں میں آنے لگی اور اپنے بیٹوں کی منادی کرنے کےشک میں تھی کیونکہ  اس  نے سنا  تھا  کہ وہ کئی باتوں میں غلطی  کرتے ہیں مگر جب سے آپ ان کے  سننے کے قابل ہوئی کہ خدا کے نوشتوں کے مطابق منادی کرتے ہیں وہ زیادہ سر گرم ہوئی اور ویزلی صاحب نے  اپنی ماں کی بابت اپنے روزنامہ میں یوں لکھا ہے کہ ماہ ستمبر س۱۷۴۰؁م میں نے اپنی ماں   کےساتھ  گفتگوکی اور اس نے مجھ سے کہا کہ تھوڑےروز گزرے کہ اس سے  پیشتر میں نے  کبھی  نہیں سنا تھا  کہ آدمی اس دنیا میں گنا ہ کی معافی پاسکتا ہے۔اور خدا کی روح  ہماری روحوں  کے ساتھ گواہی دیتی ہے اور ثابت ہوا کہ اس نے کبھی خیال نہیں کیا تھا  کہ  یہ  سب ایمان داروں کا حق ہے اس لیے وہ کہتی تھی کہ میں نے ڈر سے اپنے واسطے یہ برکت نہ مانگی لیکن تین ہفتے گزرے کہجب میں نے اپنے بیٹے جان کے ہاتھ سے جب کہ وہ کہتا تھا کہ ہمارے  خداوند یسوع مسیح  کا تیرے واسطے  بہایا گیا ہے۔پا ک ساکرامنٹ لیا تھا اور اس بات  نے میرے تمام دل کو متاثر کیاجس سے میں نے پہچانا کہ خدا نے یسوع مسیح  کے وسیلے سے میرے سارے گناہوں کو اس وقت معاف کیا  ہے۔اور میں نے اس  سے پوچھا ! کہ کیا ہمارا  باپ  ڈاکٹر انیلی صاحب یہ زندہ  ایمان نہیں  رکھتا تھا؟اور  کیا آپ نے ان کو  اورں پر منادی کرتے  نہ سنا میں نے جواب دیا کہ میرے  باپ نے تھوڑی دیر مرنے  سے  پیشتر یہ بات  کہی کہ چالیس برس ہوئے کہ جب سے میرا اندھیرا اور خوف اورشک بلکل جاتا رہا  اور مجھ  کو صاف گواہی آئی کہ میں مسیح میں مقبول ہوں لیکن  تو بھی مجھ کو یاد نہیں  کہ میں نےاس کو ایک دفعہاس مضمون پر منادی کرتے سنا ہو جس سبب سے میں سوچتی ہوں کہ اس نے نہیں جانا کہ یہ  برکت سب ایمان داروں کا حق ہے یعنی یہ  کہ وہ   دل  میں پہچان سکتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہوئےاور خدا ان سے  راضی ہوگیا۔

اور جب لوگ ویزلی صاحب یا اس کے رفقوں کی منادی سننے لگے تو ان پر عجیب طور سے تاثیر ہوئی کہ جس کی  بابت بہت سا مباحثہ ہوا او ر اکثر وں نے ٹھوکر کھائی اور تاثیرایسی ہوئی کہ بہترے لوگ کاپننے لگے  اور بعض توزمین پ گر پڑے نیز جان کندنی میں پڑے اور جب کبھی لوگ ان کے واسطے دعا مانگتے تو وہ اٹھ کے چلانے لگتے کہ ہم مسیح میں ہوکے اس کے خون کی بدولت مخلصی یعنی گناہوں کی معافی اس کے فضل کی فروانی سے پاتے ہیں( افسیوں کا پہلا باب ۷ آیت )۔اورسامیول ویزلی صاحب نے  جس نے گناہ کی معافی پہچان  کا انکار کیا تھا ان حرکتوں کی زیرکی سے لکھ دیا تھا پر جان ویزلی صاحب مباحثہ میں معلوم کیا کہ اس نے اس جسمانی حرکتوں پر بھروسا نہیں رکھا تھا بلکہ اس کہا کہ مجھ پر فرض ہے کہ میں اس کی گواہی سچ جانوں جو کہ ایسی حرکت  کرنے کے  بعد نیا چال چلن دکھلانے اور سننے سے ہمیشہ اقرار  کیا کہ بدنی ریاضیت کا فائدہ  کم ہے پر دینداری سب باتوں کے واسطے فائدہ مند ہے  کہ حال اور استقبال کی زندگی کا وعدہ اس کے لیے ہے پہلا تمطاؤس ۴باب ۸آیت۔ اور اس وقت ویزلی صاحب اور وامٹ  فیل صاحب کے بیچ میں تقدیر کی بابت مباحثہ اور ویزلی صاحب  نے واعظ میں ثابت کیا کہ لوگ اینٹی مونیئن تعلیم کلام کے چھوڑنے میں شریک ہوتے ہیں اور اس واعظ کے سبب سے واہٹ فیل صاحب ویزلی صاحب سے جدا  ہو گئے اور اس وقت ان کی سوسائٹی بھی جدا ہوگئی لیکن ۱۷۵۰ ؁م میں ان کے بیچ میں یہاں تک میل  پیدا  ہوا  کہ وہ ایک دوسرے گرجے میں منادی کرنے۔اور اگرچہ وہ تعلیمی مذاہب یکساں نہیں ہو سکتے تھے تو بھی وہ ایک ساتھ خدا کے واسطے اور گناہگاروں کی نجات کے واسطے کام کرتے رہے۔اور واہٹ فیل صاحب  نے  مرتے وقت چاہا کہ ویزلی صاحب ان کے مرنے کا واعظ  کرے۔

اور میتھوڈسٹ لوگوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا  کہ ان کے واسطے منادی کرنے والے مکتفی نہ تھے تب ویزلی صاحب نے خیال کیا کہ حکومت کی کلیسیا کے خادم الدین ان کو سکھلا دیں گے اور تعلیم دیں گے  اور ان واسطے  پاک ساکرامنٹ  تقسیم کریں گے۔پر خادم الدین نے ایس منظور نہ کیا بلکہ ان کو ستایا اور ساکرامنٹ لینے نہ دیئے۔ویزلی صاحب نے دیکھا کہ بندوبست کرنا ضروری ہے اور وہ اچھےاور ہوشیار اوردیندار آدمیوں  کو نصیحت  اور منادی کرنے کے پروانے دینے لگا  اور اس ہنری مینکس فیلڈ کو ہر طرح سے اچھا  اور خداگزیدہ پاکر منادی کرنے کا پروانہ دیا  اور مینکس فیلڈ صاحب نے بہت سا کام کیا  تو بھی ویزلی  صاحب  نے  نہیں چاہا کہ حکومت کی کلیسیا  سے جدائی ہو یا ان  کی شراکت حکومت کی کلیسیا چھوڑ  دے  بلکہ صرف  یہ  چاہا کہ لوگ جہنم کی آگ سےبچ  کر مسیح  کے ساتھ  بندے  ہوئے آسمان کی راہ میں چلیں اور اگر وہ نئی کلیسیا کا بانی ہونا چاہتا  تو وہ آپ ضرورحکومت کی کلیسیاکوچھوڑتا لیکن وہ اسی میں جیا اور مرا۔

جان ویزلی صاحب کا احوال

باب ہفتم 

اب ہم اس بات میں  بیان کریں گئے کہ یہ حواری بڑے کاموں اور زیادہ سخت لڑئیوں میں مشغول ہوئے اور اخباروں میں بدنام کیے گئے  اور کلیسیا کے مختار ان پر چین بابرو ہوئےاور کبھی کبھی انگلنیڈ اور دینرمین لوگوں نے لعن طعن کی بلکہ شہر لندن میں ہٹلڑان کے برخلاف جمع کیے گئےاور ان کے ہاتھوں سے انھوں نے گرجوں میں بہت سی تکالیف پائیں اور ان تکلیفوں کی بابت یہ نقل کرتے  ہیں کہ کئی سرداروں نے ان کی سرگرمی کو اچھا  سمجھا  چنانچہ ۱۷۴۲؁م  کے آخری دنوں میں سر جان گنبل  صاحب نے ویزلی صاحب سے ملاقات کرکے کہا صاحب یہ ضرور نہیں ہے کہ آپ لوگ  ان بدمعاشوں کے ہاتھ  سے ا س قدر تکلیف اتھا ئیں  کیونکہ مجھ کو اور سب صاحبان مجسٹریٹ کو  حکم ملا ہے کہ تمہاری  مدد کریں جس وقت کہ تم ہم کو خبر دو گئے فوراً  اس کو ہم  اس  کا تدارک کریں گے۔

تھوڑے  عرصے کے بعد میتھوڈسٹ لوگوں نے مجسٹریٹ صاحبان کو خبر دی  کہ  لوگ ہم کوتکلیف دیتے ہیں تب فوراً  ان  بدمعاشوں کو سزا ملی تب وہ سلامتی میں اپنی مرضی کے مطابق خدا کی بندگی   کرتے رہے  اب میتھوڈسٹ کلیسیا کی حکومت کرنے یہ بہت اچھی بات ہے کہ  ہر ایک کلیسیا چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں کہ جن کو کلاس کہتے ہیں تقسیم کی جاتی ہے اور  یہ بیان  دسٹلین میں مندرج  ہے۔اور کلاس میٹنگ کا  شروع  ایسا ہوا کہ   برسٹبل کلیسیا کے گرجا بنا نے  میں  قرض دار ہوگئے  تو  انھوں  نے  یہ بندوبست ٹھہرایا کہ ہر ایک شخص ہر ہفتے ایک  پنی یعنی تین پیسے دے اور ایک کلاس  میں ایک دیانت دار آدمی چندہ جمع کرے اور مختار ان  کے دینے واسطے مقرر ہوا۔اور جب کہ یہ حکمت بہتر کام کے لیے لگائی  گئی تو ویزلی صاحب کے نزدیک بہت اچھی معلوم  ہوئی تھی توا س نے  کئی سرگرم  آدمیوں کو اپنے پاس بلایا۔اور ان سے  صلاح  لے  کر لندن کی کلیسیا کو بھی کئی کلاسوں میں  تقسیم  کیا اور ان آدمیوں   کو لیڈر ٹھہرایا جو کہ اپنی کلاسوں  کے لوگوں کے گھروں میں ہفتہ وار جا کر ان کے ساتھ گفتگو کریں اور تسلی دیں لیکن تھوڑی  دیر کے بعد وہ ان کو ایک  جگہ جمع کرنے لگے ۔اور اس کلاس میٹنگ کا مطلب یہ ہے  کہ ہر ایک آدمی  اپنے دل کی تجربہ کاری کو بیان  کرے۔اور لیڈر ہر ایک  کو اس کے حال کی ضرورت کے مطابق دوستی اور محبت کے طور پر صلاح دے تاکہ  ایک دوسرے  کے حال  سے واقف ہو۔ اور لیڈر سب کا دوست اور صلاح  کار ر ہے اور باہم  فراہم ہو کر کئی دفعہ دعا مانگنے سے مقدسوں  کی رفاقت پیدا ہوتی ہے اور لیڈروں  کے یہ فرائض ڈسپلین میں مندرج ہیں۔

اور کلاس میٹنگ کی بابت ویزلی صاحب یوں فرماتا ہے کہ میری دانست  میں یہ دستور مسیحی کلیسیا میں شروع سے جاری تھا  پہلے زمانے میں انھوں نے جن کو خدا نے بھیجا ہر شخص کو انجیل کی منادی سنائی خواہ  وہ  سننے والے تھے یا غیر قوم امتی اور جس وقت ان  کے بیچ  میں سے کئی  آدمیوں نے اسے قبول کیا یعنی وہ گناہ کو چھوڑ کر نجات کو خوشخبری پر ایمان لائے تو فوراً منادی کرنے والوں سے ان کے نام لکھ کر اور صلاح دے کر ایک دوسرے کی نگہبانی  کرنے پر انھیں قائم کردیا  اور  جدائی میں ان کو الزام  یا   نصیحت  صلاح  دی یا ان کے ہمراہ ان کے حالوں کے موافق دعا مانگی۔

اور اس وقت ویزلی صاحب کے حاسدوں نے یہ شہرت پھلائی کہ وہ اور ان کے پیررومن کیتھولک ہیں لیکن وہ  اس  تہمت کذب سے آسانی سے بچ رہے اور پھر ویزلی صاحب نے اپنا   کام اتر کی طرف پھلایا۔پہلے ضلعلیہڑ کو بلایا گیا اور سفر پر مارک شہر کو اور برسیٹل میں تھوڑے عرصے تک ٹھہرا  اور وہاں صادق خاں تلس صاحب کی منادی اور گفتگو کے ذریعے سے بہترے آدمی آگاہ کیے گئے ۔اور یہ جان تلس صاحب پہلےلندن میں ویزلی صاحب کی منادی سن کر   از سرِ نو پیدا  ہوا تھا۔اور لوگوں کی نجات کی خواہش رکھ  کر بریسٹل کو لوٹا تھا اور صاحب دیانت دار اور بہت تیز فہم تھا۔اور حلیم الطبع آدمی تھا تو بھی مجسٹریٹ صاحبوں اور حکومت کی کلیسیا کی خادم الدین نے  اس  سے بڑی بد سلوکی کی حالانکہ اسف کی منادی سے بہت آدمی قائل ہوگئے۔ اورمسیح پر ایمان لا کر قائم ہو گئے تھے اور اس کی دینی گفتگوبہت  شرینی تھی۔

تو جب ویزلی صاحب  بریسٹل پہنچا تو اس نے یہ حال پایا کہ ٹیلس صاحب کی کوشش سے بہت اچھا کام شروع ہوا یہاں تک کہ اس شہر کا حال بلکل بدل گیا تھا ۔ اور ویزلی صاحب  نے بریسٹل کوہ   پر  بڑی  بھیڑ کے اوپر  منادی کی اور  سر دوڑ بری مور میں منادی کی اور ٹیلس صاحب کے کام  وتسلی دے کر نوح کی نسل کو گیا اور اس امید پر کہ جیسا کنگزوڈ میں کوئلہ کھودنے والوں کے بیچ میں کلام کا بہت اثر ہوا ویسا ہی نوح کی نسل میں ہوا  اور اس طرح  اس نے ظاہر کیا کہ وہ آدمیوں کی روحوں کو بہت پیار کرتا تھا اور اس نے اب منادی کرنے والوں کے واسطے یہ کام بتلایا کہ انف کے پاس جو اوروں سے بہت زیادہ کلام کے محتاج  ہیں جاؤ  اور ویزلی صاحب  کے روز نامہ میں اس شہر کی بابت یوں بیان ہے کہ کھانے کے بعد میں شہر کی سیر کرنے گیا  اور بہت حیران ہوااس لیے کہ پیشتر میں نے اتنی نشہ بازی اور ٹھٹھہ بازی  نہیں دیکھی اور نہ سنی تھی   اوردروغ گوئی ازبس تھی۔اوراکثر  آدمی بہت برے کام کرتے تھے اور  اتوار کے روز  ۳۰  مئی فجر کے وقت غریبوں کی جگہ یعنی سینڈ گیٹ کو گیا اور گلی کے سرے  پر جان ٹیلرصاحب کے ساتھ کھڑے ہو کرسو (۱۰۰)  زبور گانے لگا تو تین (۳)،چار(۴) آدمی دیکھنے کو نزدیک  آئے  اور جلد ان کی تعدادچارسو  (۴۰۰)اور  پانچ سو (۵۰۰ )ہو گئی اور شائد ختم کرنے  کے وقت پانچ سو(۵۰۰)  آدمی حاضر  تھے جن سے میں نے باتوں میں منادی کی یسعیاہ نبی کے ۵۳ باب کی ۵ آیت ‘‘حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا  گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی  کے لیے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اس کےمار کھانے سے ہم شفا  پائیں’’۔اس  کے بعد دکھن کی طرف یارک  کے شہر کی طرف منادئی کی اور اپورتھ کو جہاں کہ میتھوڈسٹ کلیسیا جمع ہوئی اور گرجا  گھر کی  دروازے اس پر بند کیے گے  او ر اس  نے  قبر ستان میں اپنے باپ کی قبر پر کھڑے ہو کر بڑی جماعت پر منادی کی اور ویزلی  صاحب  اورساری بھیڑ  بہت سنجیدہ ہوئی  اور  ان سبھوں  نے  خیال کیا  کہ یہ کیا بات ہے کہ ویزلی صاحب اپنے باپ کی راکھ پر سے وہی سنجیدہ باتیں سناتا ہے جن کی اس کے باپ نے برسوں تک منادی کی تھی  اور یہ حال مذکورہ ماہ جون ۔۔۔اتوار کے دن  واقع ہوا اور اس  کے بعد بذہ کے روز  اس  نے اپنے روز نامہ میں یوں لکھا ہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر فلاں گاؤں کے نزدیک  مجسٹریٹ صاحب کی ملا قات کرنے گیا تو میں نے دیکھا کہ فلاں گاؤں کے آدمی میتھوڈسٹ لوگوں پر بہت غصہ ہو کو ان میں  سے چند اشخاص کو گاڑی پر لاد کر مجسٹریٹ  صاحب کے سامنے لے جاتے ہیں اور جب کہ مجسٹریٹ صاحب نے پوچھا  کہ ان آدمیوں نے کیا گناہ کیا ہے؟تو ان کےجسم بخود ہو گئے تب ایک نے کہا کہ یہ لوگ اپنے تئیں اور افن سے بہتر جانتے ہیں اور علاوہ  اس  کے فجر سے شام  تک دعا مانگتے رہتے ہیں تب مجسٹریٹ صاحب نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اور کچھ کام نہیں کیا؟ تب ایک پیر نے کہا کہ جہاں پناہ انھوں میری بی بی کو ازسرِ نو پیدا کیا ہے ۔ اور پیشتر جب  کہ وہ ان کے شریک کی گئی تھی بہت گالی بکنے  والی تھی۔مگر اب وہ بھیڑ کے بچہ کی مانند کیسی چپ چاپ ہے تب مجسٹریٹ صاحب نےب اپنی زبان ِ مبارک سے فرمایا کہ ان کو جانے دو اور ہر ایک گالی بکنے والوں  کو  تبدیل کرنے  دو  اور  اور دوسرے اتوار کو میں نے پچھلی دفعہ پورتھ کے قبر ستان میں ایک نہایت  بڑی جماعت پر جو کہ چاروں طرف سے جمع تھی مسیح کے پہلے واعظ کے پہلے حصے بیان میں   منادی کی۔ اور اگرچہ میں ان کے ساتھ تین گھنٹے تک رہا تو بھی انھوں نے مجھے بڑی مشکل سے جانے دیا۔اور ان سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ کوئی نہ کہے کہ میری محنت کا کام یعنی  منادی کرنا بے فائدہ ہوتا کیونکہ میں اس کا  پھل جلدی سے نہیں دیکھتا اور میرا باپ یہاں پورتھ میں برابر چالیس برس منادی کرتا رہا مگر بہت پھل اس نے نہیں دیکھا اورمیں نے بھی پھر اپنے لوگوں کے واسطے بڑی محنت کی جو کہ آج  تک بھی پھل ظاہر ہوتی ہے۔لیکن ابھی پھل ظاہر ہوتے ہیں  یعنی کوئی بھی نہیں ایک بھی نہیں جس کے واسطے میں نے اور  میرے باپ نے نجات پانے کی کوشش کی اور اس کے بدل میں کلام کا بیچ جڑ نہ پکڑا ہوا  اور پھل  نہ لایا  ہوا اب ان کے دل میں سچی توبہ پیدا ہوتی ہے اور وہ گناہ سے معافی پاتے  ہیں۔

       اور بر یسٹل سے  وہ لندن کو اپنی ماں کے پاس جو اس وقت موت کے کنارے پر تھی طلب کیا گیاجس کی بابت اس نے یوں لکھا ہے

باتاریخ ۳ جولائی بروز جمعرات کو میں اپنی ماں کے پاس گیا  اور یہ حال پایا کہ وہ نزع میں ہے اور میں نے اس کے پلنگ پر بیٹھ کر معلوم کیا کہ وہ اپنی پچھلی لڑائی میں ہے اور اگرچہ طاقت گفتگو کی نہیں رکھتی مگر ہوش میں ہے اور اس کا چہرہ خوش اور آراستہ ہے اور اس کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ رہی ہیں اور اس نے اپنی روح خدا کے ہاتھ میں سونپ  دی ہے اورتین بجے سے چار بجے تک عالم نزع اور جان کنی کا رہا   اور حرکت یا   آہیں کرکے اس کی روح آزاد ہو گئی اور ہم نے اس کا پلنگ گھپر کے اس کی پچھلی درخواست پوری کی یعنی اس نے کہا تھا کہ ‘‘لڑکو جب اس دنیا فانی سے رحلت کروں تو تم سب خدا کی حمدو ثنا کے گیت گانا چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا فی الوقعہ وہ ایک قائم گواہ ہے اس بائبل کی تعلیم پر ہے   اور اس  طرح  سے  اس نے اپنے تجربہ میں معلوم کیا تھا اور اپنی زبان سے فرمایا تھا کہ آدمی ایمان لانے سے راستباز ٹھہرایا جاتا ہے اور نیز جان سکتا ہے کہ اس کے گناہ معاف ہوگئے۔

اور ۱۷۴۳؁م پہلے دورے میں  چارلس ویزلی صاحب کے کام بہت بڑھ گئے اور خدا نے اپنی برکت اور سپردی اور اس نے اگلینڈ کے پچھم اشٹافرڈشیر تک منادی کی اور دینز بری میں اس نے تین سو آدمی کلیسیا میں شامل ہوتے پائے جن کی بابت اس نے کہا کہ وہ فضل میں ضرور ترقی پاتے جاتے ہیں اور وال سال  کے بازار میں اس نے منادی کی اوروہاں بدمعاش آدمیوں  سے  بہت بدسلوکی پائی یعنی انھوں نے اسے پتھرایا  اور واعظ ختم ہونے کے وقت انھوں اسے گرادیا  اور اس کہا میں پھر اٹھ کر اپنی نجات کے خداوند کا شکر بجالایا اوران سے کہا کہ سلامتی سے رخصت لو ا ورتب  میں ان بدمعاشوں کے درمیان سے ہوکے چلاگیا۔

ہیم اور ٹانگ ہیم میں  ہوکے شفیلڈ کو گئے اور وہاں گویا ایک گلہ بھیڑوں کے بیچ میں تھا اور لوگ وہاں میتھوڈسٹ لوگوں پر غصے ہو کر ان کے پھاڑ ڈالنے کو تھے بوقت چھ (۶) بجے میں گرجے میں گیا اور جہنم  کے دروازے ہمارا مقابلہ کرنے کو مستعد تھے اوجس وقت میں پادری ڈیوڈ ٹیلر صاحب  کے ساتھ ممبر تھا لوگ بڑا غل مچانے لگے اور کسی فوج کے سردار نے میرا  انکار کیا اور لعنت کی مگر میں نے کچھ پروا ہ  نہ کی بلکہ گاتا گیا تب بدمعاش لوگ پتھر مارنے لگے اور مجھ پر اور کئی ممبروں پر اورکئی  ان لوگوں پر جو نزدیک تھےلگے میں نے گھر کے بچاؤ کے وسطے کہا کہ میں راہ میں منادی کروں گا۔اور تمہارے منہ دیکھو گا۔  پس بدمعاشو ں کی ساری فوج  میرے پیچھے ہولی۔ اور ان کے کپتان نے مجھے پکڑا اور میرے ساتھ بد سلوکی کرنے لگا تب میں نے اسے ایک رساکا اسے اس مضمون پر دیا کہ فرصت کی بات یا پلٹن کی نصیحت اور اس اور اس میں نےبہت سرگرمی سے جناب بادشاہ جارج کے واسطے دعا  مانگی اورانجیل کی منادی بہت کوشش سے کی اور اکثر وہ  پتھر میرے  منہ پر لگے تب میں نے گناہگاروں ے واسطے جو کہ شیطا ن کے غلام ہیں دعا مانگی جس بات پر کپتان نے  مجھ پردوڑ کر کہا کہ میں تجھ سے اپنے مالک کی بدنامی کےسبب بدلہ لوں گا۔اور تلوار کھینچ کر میری چھاتی کی طرف لگائی تب  میں نے اپنی چھاتی برہنہ کرکے اس کے آنکھوں آنکھ سے لگائی اور تبسم سے کہا کہ میں خدا سے ڈرتا ہوں اور بادشاہ کوعزت دیتا ہوں۔تب اس کا چہرہ فی الفوراوداس ہو گیا اوروہ آہ کھینچ کر چپ چاپ چلا گیا اور اس نے  کسی سے کہا تھا کہ  تم دیکھو گئے  کہ میں اپنی تلواراس کی چھاتی  کی طرف لگاؤں گا تو فوراً مردہ دل ہوجائے گا چنانچہ میں اپنی بہادری پر یقین رکھتا تو شاید میرا ویسا ہی حال ہوتا  اور ہم  بھائی بنٹ   صاحب کے گھر  دعا کرنے کو لوٹے  اوربدمعاش ہی ہمارے پیچھے آئے اور جو کچھ انھوں نے کیامیں نے اس کے برابر کبھی کوئی بد کام نہی دیکھاتھا۔اور وہ بدمعاش جو میں نے موزر فلیڈ اور کارڈف اور دال سال میں دیکھےان کی بانسبت  بھیڑیوں کے بچے تھے اور شاید اس کا یہ بھی سبب تھا کہ شفلڑ میں کوئی مجسٹریٹ نہ تھا بلکہ ہر ایک آدمی اپنی مرضی کے موافق چلتا تھا تب اس گروہ نے ارادہ کیا کہ ہم لوگوں پر دعامانگنے کے وقت گرجا  گھر گرادیں۔

اور چارلس ویزلی صاحب نے فرمایا کہ ہم پر جلال کا وقت تھا  اور ہر نصیحت دل پر لگی اورہر دعاکا جواب آیا  اور خدا کی روح جلیل تم پر بیتھی اور دوسرے دن گرجا بلکل گرایا گیا یہاں تک کہ ایک دوسرے پر نہیں رہا  تب اس نے راہ پر منادی کی تو انھوں نے اتنی بہت تکلیف نہیں دی لیکن انھوں نے کہا اس گھر کو بھی جس میں تم رہتے ہو گرادیں گیں پھر اس نے باہر جا کر لائق نصیحت کی تب وہ چلے گے اور پھر تکلیف نہ دی اور دوسرے دن پانچ بجے  اس نےاسف شراکت سے وہ باتیں جو کہ اعمال کے ۱۴ باب کی ۲۲آیت میں ہیں رخصت لی یعنی شاگر دوں کے دلوں کو تقویت دیتے اورنصیحت کرتے تھے ایمان پر قائم رہوں اور کیا ضرور ہے کہ ہم  بہت مصیبت کے سبب سے خدا کی باد شاہت میں داخل ہون اوراس نے اپنے روز نامہ یوں لکھا کہ ہمارے دل کی تسلی ہوئی اور آپس میں اکھٹے رہتےاور اس بزرگ خدا کی حضوری جلال کی امید میں خوش وخرم رہتے تھے کہ اس نے ہم کو ایک شیر ببر کے منہ میں سے بچا رکھا تھا اور ڈیوڈ ٹیلر صاحب نے کہا تھا کہ ضلع تھارپ میں جن کے بیچ میں ہم جانے کو تھے ہمارے پر نہایت غصہ ہیں اور ویسا ہی ان نے کو پایا کہ جس وقت ہم بارلی ہال تک پہنچے تو لوگ گھات میں سے اٹھ کے پتھر اور انڈ ے اور میل ڈالنے لگے اور میراگھوڑا  اِدھر اُدھر کودا  اور کس طرح ان کے بیچو بیچ  میں  سے  چلا گیا لیکن انھوں نے ڈیوڈ ٹیلر صاحب کی پیشانی پر زخم لگایا اور اس سے بہت خون بہا  اور  میں نےم پیچھے مڑکے پوچھا  کہ کیا بات ہے؟کہ کوئی پادری اس طرف کو بغیر بد سلوکی نہیں چل سکتا تب وہ بھاگے اور ان کے سردار نے ان کو دلیری دے کر اورمجھے پتھروں اور ہولناک لعنتوں سےجواب دیا تو میرا گھوڑا خوف کھا کر بھاگااور کوہِ بری سے مجھے لے کر چلا اوردشمن دوڑ کر دور تک میرے پیچھے چلے آئے پر میں نقصان سے بچ گیا۔

بڑی بہادری  سے یہ خاص آدمی اس طرح اپنے بھلے  کام کیا کرتے تھے اور وہ اپنی زندگی خدا کے سپرد کرکے کسی جسمانی خطروں سے  نہیں ڈرتے تھےاور چارلس ویزلی صاحب نے  لیڈر شہر کو جاکے ہزار وں پر جو کہ شینت صاحب کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے منادی کی اور لوگوں کو خداوند کے واسطے تیار ہوئے پایا اور بعد اس کے خادم الدین نے بھی اس کو بڑی عزت دی اور ہر طرح سے اس کے ساتھ حسن ِسلوک کیااورپاک ساکرامنٹ لینے میں تقسیم کرنے میں اس کو شریک کرکے اس سے مدد لی اور اسے ان  کی مہربانی کے سبب سے تعجب کیا۔تب  وہ نبو کیسل کو گیا اور وہاں اس نے صرف عام لوگوں کے واسطے بہت محنت کی بلکہ کلیسیا کو بہت بڑھاہوا پاکر اس کے واسطے نصیحت اور تسلی دی اور نگہابانی کرنے میں اس نےان کا حال بہت آزمایا اور بدن کی حرکت اور روح القدس کی تاثیروں کے بیچ میں تمیز کرکے ہر ایک کو ترغیب  دی کہ اپنے تئیں کتابِ مقدس کےقادر قانون کے مطابق آزمادے تو اس سے ثابت ہوا کہ ویزلی صاحبوں نے بدن کی حرکتوں پر بھروسا نہیں رکھا اور اس وقت کی بابت چارلس ویزلی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے کبھی کلام کابیج ایسا پھل دار نہیں دیکھا اور تھوڑی دیر کے بعد جان ویزلی صاحب نے ایک گرجا گھر کی بنیاد ڈلوائی جس کی بابت اکثرو کہا کہ یہ اتنا بڑا  ہے کہ وہ  کبھی تیار نہیں  ہو سکے گا پر ویزلی صاحب نے کہا کہ اورطرح کی سوچ رکھتا  ہوں کیونکہ یہ گرجا خدا کے واسطے شروع ہوا تو وہ کوئی حکمت اس کے تیار کرنے کو ضرور نکالے گا  اور ایسا  ہوا  کہ اگرچہ بہت تکلیف اس کے سبب سے ہوئی تو بھی  وہ  بنے  گا اور کسی  کا نقصان نہ ہوا  اور اس سال میں انگلینڈ کے بیچ میں اور اترا  اور دکھن میں کئی نئی میتھوڈسٹ کلیسیائیں شروع ہوئیں اور جہاں کہیں یہاں کہی میتھوڈسٹ کلیسیا ئیں شروع ہوئیں تھی بہت بڑھ گئیں۔ ۱۷۴۳؁م میں ویزلی صاحب نے اپنی کلیسائیں   جو کہ لندن شہر میں تھیں ایک نیا درجہ کام کرنے والوں کا مقرر  کیا اور درجہ بیماروں کا ملاتی ہوئے جس کیئ بابت وہ یو کہتا ہے کہ اسٹرڈ لوگ بیماروں کے سبب بہت تکلیف میں پڑے کیونکہ بیمار دن کا شمار بہت بڑ گیا تھایہاں تک کہ ان کی خبر اسٹرڈ کو نہیں پہنچی کہ کتنے ان میں سے گزر گئے اور جب کہ انھوں نے ان کی بابت سنا  تو وہ اپنا کام نہیں چھوڑ سکتے تھے لیکن جب میں اس  سب  حال سے واقف ہوا تو میں نے تمام کلیسیا کو اکتھا بلایا اور ان سبھوں کے سامنے اس حال کا کیا اور ان کو بتلایا کہ اسٹرڈ لوگ یہ سب کام نہیں کرسکتے سب تمہارے بیچ میں کون اس کام میں یہ مدد کرسکتا ہے اور خوشی سے کرے گا دوسرے روز فجر کے وقت اکثروں نے بہت خوشی سے اس کام کے کرنے کو قبول کیا  اور ان کے بیچ میں سے چالیس آدمی جو کہ کریم اور مہربان دکھائی دیتے تھے۔ چن لیا شہر کو تئیس(۲۳) حصوں میں تقسیم کرکے دو (۲)  دو (۲)  ان میں بھیج دیئے تاکہ وہ ہر ایک بیمار کے پاس جایا کریں اور ان کے فرائض یہ ہیں کہ پہلے ہفتہ وار وہ اپنے علاقہ میں ہر ایک بیمار کو تین دفعہ دیکھا کریں۔دوسرے وہ روحانی حال کو دریافت کریں اور ان کے واسطے حکیم بلا کر صلاح لیں چوتھے اگر کوئی  محتاج ہو تو اس کوخیرات دیں پانچواں جو کچھ وہ ان کے واسطے  کر سکتا   ہو وہ کرےچھٹےہفتہ وار اپنا  حساب اسٹرڈ کو  دے اور میں نے معائنہ کیا کہ ہم پہلے کلیسیا کےنمونے پر تھیک تھیک جیتے ہیں پہلے خادم کو جس  کا  ذکر اعمال ۔۔۔۔باب اور اس کی ۶آیت میں مندرج ہے کس کام کے واسطے مقرر ہوئے اور خادموں کی جورؤاں جس کا ذکر پہلے تمطاؤس کے ۳باب  کی ۱۱ آیت  میں مندرج ہے۔کس کام  کے واسطے ہیں اورمیں نے ان کے واسطے سوائے ان کے اور کوئی قانون مقرر نہ کیا۔ پہلا قانوں روحوں کے واسطے کام کرنے میں صاف بولو  اور  ایمان سے بھی۔حلیم اورکریم  اور صابر  ہو۔ تیسرے جو کچھ کہ بیماروں کے واسطے کروں تو صفائی سے کرو۔ چوتھے نازک مزاج مت ہو۔ اور وہی سال ویزلی صاحب کی زندگی میں مشہور تھا اس بات کے سبب سے  کہ وہ ایک گروہ کے دیوانہ اورغضبناک بدمعاشوں سے بچ  گیا اور اس بھیڑ کے جمع ہونے کا یہ  سبب تھا کہ دس بڑے خادم الدین نے ویزلی صاحب اور میتھوڈسٹ کے لوگوں کے برخلاف ایک واعظ کیا تھا اور اکثر ایسا نہ ہوا کہ مجسٹریٹ صاحب کے گرہوں کو میتھوڈسٹ لوگوں کا سامنا کرنے کوفراہم کیا اسف عہد پر کہ ہم اپنی کلیسیا  اور ملک کی عزت کرتے ہیں۔دبنس بری اور داسٹین اور وبسٹ بڑا مجھ میں بدمعاشوں نے خادم الدین اور مجسٹریٹ سے تقویت پا کر میتھوڈسٹ لوگوں کے ساتھ بڑی شدت سے بدسلوکی کی اور لڑکے بھی مارے اور سنگسار کیے گئے اور میل سے ملائے گئے اوران کے گھر زبردستی سے کھول لیے گئے اور ان کے مال خیرات کیے گئے اور  چھین لیے گئے تب ویزلی صاحب فوراً ان کی تسلی کرنےگیا اور ایک روز دوپہر کے وقت وبنس بری میں بے تکلف اس نے منادی کی بلکہ شام کے وقت بدمعاشوں نے  گھر کو گھیر لیا اور اس کے ہلاک کے واسطے ہر طرح کی کوشش کی مگروہ خدا کےفضل سے بچ  گیا  اور ناڑتنگ ہیم میں چارلس ویزلی صاحب اس کا بھائی اس کو ملا جس نے اپنےروزنامہ میں اس ملاقات کی بابت ایک بات لکھی ہے جس سے معلوم  ہوتا ہے کہ ویزلی دلوں میں شک وشبہ کی روح رہتی  تھی اور وہ بات مذکور یہ ہے کہ میرابھائی  شیر ببر کے منہ سے بچایا ہوا آیا  اور اس کا کپڑا پھاڑا  ہوا  تھا۔وہ مسیح سپاہی کیسا معلوم ہوا؟اور وبنس بری  اور ڈالسٹن اور دال سال کے بدمعاشوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارداکیا تھا اور کئی گھنٹے تک  اِدھر اُدھر اس کولیے پھرنے کی اجازت پائی تھی۔لیکن اس کا کام ختم نہیں ہوا اور اگر ایسا ہوتاتو وہ ان روحوں کے ساتھ جو مسند کے پیچھے ہیں شامل ہوتا  اور چارلس ویزلی صاحب نے اپنا پہلا سفر کانوال کا کیا ۔اور اس کے بھائی چارلس نے ان کم بختوں پر کرم کیا جیسا کہ جان ویزلی صاحب نے ان کنگز وڈ اوراسٹافرڈ کے کوئلہ والوں رح م کیا تھا اور اس سے پیشتر وہ کانوال کو گیا اور اس نے کئی  جگہوں میں گروہوں بیچ میں جو شفیلڈ  کے بدمعاشوں کی برابر والے تھے منادی کی اور اگست مہینے میں جان ویزلی صاحب گیا تو اس نے ایک  چھوٹی کلیسیا پائی اور اس نے بڑی خوشی سے قبول کیا سسبٹی ایک جڑ ہوئی جس سے اس نے بڑی خوشی حاصل کی اور بہت جماعتیں شروع ہوئیں جو کہ  اس وقت سےآج  تک شمار میں بڑھتی اورپھیلتی رہیں وہ تین ہفتے وہاں رہا اور کئی جو بہت آباد تھیں اس نے ایسی بڑی تاثیر سے ان میں منادی کی جو کہ آج تک قائم  رہی اور مثل کانوال کے کسی جگہ میں میتھوڈسٹ کے طریقے ایسے طریقے جاری نہ ہوئے اورکانوال کے لوگ بےوفا نہ تھے جب کہ اس نے اپنا سب سے پچھلا سفر ان کے پاس کیا  تو وہ ایسے خوش تھے کہ لوگ  گاؤں اور گھروں میں سے اس کےدیکھنے  کو آئے تھے۔اورسرگروہ فوج کے موافق وہ اس کو گاؤں گاؤں کی سیر کراتے تھے  اور دوسرے شہر کلیسیاؤں کےپادری لوگ بھی  ستائے گئے سنتابرین ان کا  گرجا گھر گرایا گیا ااور ایک پادری اور تین  اشخاص   پکڑوائے گئے اور فوج میں بھیجے گئے اوربہترے  پتھرائے گئے  اور ان پر میل پھینکا گیا اور ہر طرح کی بد سلوکی سے وہ ستائے لیکن تو بھی ان کا نمونہ پرہیز گاری اور دینداری اور حلیمی میں بنا رہا اور فقط کانوال ہی میں نہیں بلکہ اور جگہوں میں بھی مجسٹریٹ صاحبوں نے پادریوں کو پکڑواکر فوج میں بھیج دیا اور اس وقت  کے قریب جان ٹیلس صاحب اور طامس بیرو صاحب  اس کام  کے واسطے بھیجے گئے  اسی اکیلے قصور کے سبب سے کہ وہ اپنے لوگوں کو توبہ کرنے کو بلاتے تھے۔اور جان ٹیلس صاحب کی بہادری برداشت کرنے میں مشہور ہے اور طامس بیرو صاحب اگرچہ اپنے دشمنوں سے نہ ڈرا تو بھی اس کا بدن بیماری سے ضیف ہو گیااور نوح کا نسل کے شفاخانے میں بھیجا گیا اور وہاں وہ ہر وقت خدا کا شکر کرتا رہا۔ اور بخار زیادہ ہوا اور اس نےفصد کھلوائی اور اس کا ہاتھ سوج کرکاٹا گیااس کےخدانے اس کی آزادگی پر مہر لگاکر اسے آسمان پربلا لیا اور اسٹافروڈ میں ہلڑ جاری رہے اوردال سال اوردالیسٹن وتبریزی اوباش لوگوں جوکہ ایک بڑےآدمی کےمزدور تھے  اپنی خوشی سے میتھوڈسٹ لوگوں کے گھروں کو رات یا دن کو توڑ  ڈالتے تھے۔ اور نقد اور جنس چھین لیا کرتے تھے اوراسباب خراب کیا کرتے تھےاور آدمیوں کو مارتے  اور عورتوں بے عزت کرتے رہے اور انھوں نے کہا ہم ایک میتھوڈسٹ کو جو انگلینڈ میں مار ڈالیں گے۔اور اسی طرح بادشاہ کی  بادشاہ کی دیانتداری اور فرمانبرداری  رعیت آتھ  مہینوں  تک بدسلوکی کو  برداشت کرتی رہی تب اخبار میں وہ بدنام ہوئے اور کئی منادی کرنے والوں نے بھی بد سلوکی سہی یہاں تک بعض زندگی بھر لنگڑے ہوئے اور بعض بلکل ہلاک ہوئے سنتادس ہامین صا حب کی اور شمس صاحب کی محنت کے سبب لوگ  بہت ناراض ہوئے مگر یہ دونوں بھائی مذکور دینا کے آخر تک مشہور ہونے کے لائق ہیں۔

مبارک دونوں جب تک میری تصنیف ہے تب تک تمہاری شان قائم رہے گی۔اور ماہ اگست ۱۷۴۴؁میں ویزلی صاحب نے اپنے پچھلے واعظ آکسفرڈ و یورپین بیان کی اوروہاں چارلس ویزلی بھی موجود تھے اور اس نے روز نامہ میں اس واعظ کی بابت لکھاکہ میرے بھائی نے بڑی جماعت کے سامنے اپنی گواہی دی اور کہا کہ میں نےایسی  سنجیدہ جماعت کبھی نہیں دیکھی کیونکہ انھوں نے بات بھی جانے نہ دی۔اور کئی کالج کے پریذڈنٹ صاحبان  تمام وقت کھڑے ہو کر اپنی آنکھیں اس  پر لگاتے رہتے اور ایسی درست تعلیم برداست کرسکتے تو اس کے واعظ کے ذریعے سے بڑی برکت ان پر ہوتی اور ویسٹبل جیمس لار  نےاس کے پاس پہنچ کر اس کے واعظ تفسیر کی جس کو اس نے لفافہ میں بند کرکے فوراً بھیج دیا اور ویزلی صاحب نے آپ اسکی بابت یوں لکھا کہ میں ان آدمیوں کے خون سے بے گناہ ہوں میں نے اپنی روح کو بلکل بچایا اور اس کے کرنے بہت خوش ہوں اوراپنی تاریخ پر کہ جس پر سو(۱۰۰) برس پیشتر کے قریب ہوا اور دو ہزار خادم الدین اور چمکتی ہوئی روشنی ایک دم سے پہنچی ۔

لیکن میرے  اور ان  کے کہ بیچ کیا  بڑافرق ہے؟ کہ وہ اپنے گھرو میں سے اور سارے مال میں سے جو وہ رکھتے تعھے جداکیے گئے مگر صرف انتانقصان اٹھاتا ہو کہ ہدر ایک جگہ سے منادی کرنے سے روکا گیا  اور بھی عزت کے طور پر ہے کیونکہ مدرسوں نے مقرر  کیا ہے کہ جب میری فرصت پیش آئےتو تو  وہ  اور کسی کو منادی  کرنے کو بلائے گے اور اس کے واسطے مزدوری  دیں گوے اور انھوں دو دفعہ ایسا ہی کیا اس وقت تک کہ میں  مانے اپنے رفیق ہونے کی ازجات ان کو پھر دی  پادری جیمس ارسکن صاحب اور پادری اور  پادری جان ویزلی صاحب کے بیچ  میں خط و کتابت ہوئیکہ جس کا ذکر بیان نہ آئے گا۔پہلا سالیانہ کانفرس بماہ  جون  ۱۷۴۴؁م کو بمقام شہر لندن جمع  ہوا  اور میتھوڈسٹ کلیسسیا  انگلینڈ کے کئی جگہو ں  پر لگائی گئی تھی بہترے پریچر جو کہ پیش گار اور مدد گار سے مشہور تھے ویزلی صاحب کے حکم کے بموجبکام پر مقرر ہوئے اور خادم الدین بھی دینِ حق کے شعلہ جلانے   کے لیے لیڈر ہو کے مدد دیتے درہے اور اس کام چلانے کے لیے ویزلی صاحب نے انگلینڈ ملک کو  کئی علاقوں  میں جو کہ سرکٹ کہلاتی ہیں تقسیم کیا ہے اور ان میں لوگ بھیجے تھے جو کہ ان مقرر وقتوں پراورجگہوں کو بدل لے۔اور سپرنٹنڈنٹ یا حاکم اس  کے ویزلی صاحبان تھے اور اس سالانہ کام میں ان کو اجہی فرصت ملی وہ آپس میں تعلیم اور دستوالعمل اور ہر ایک بڑی بات پر گفتگو کریں تاکہ ایک یہ بات بولیں اور ایک ہی دستور پر چلیں اور وہ جانوں کے موافق ترغیب ترتیب  کرنے کے قانون ٹھہرا د یں اور آنے والے سال کے واسطے  پریچروں کاکام بتلا دیں اور انھوں نے آپس میں صلاح کی کہ خدا کا کام کس طرح سے زیادہ پھیل جائے اور بڑھ جائےاور سب کام نہ کہ مقرر کیے ہوئے بندوبست کے مطابق بلکہ قدم بقدم حال کےلزوم کے مطابق چلایا جائےگا اور انھوں نے دنیا کی نجات کے واسطے کام کرنا سب سے بڑا عمدہ اور عزیز جاننا اور  اپنی رائے اور اندیشہ اس سے چہوتی سمجھی جب کہ اس کانفرنسکی یادداشت سے معلوم ہوئی  اور انھوں نے اسف وقت بھی سوچا کہ شاید ہمارے مرنے  کے بعد یہ  کلیسیا بڑی سے جدا کی جائے گی اور اس کی بابت دعا کے ساتھ باتیں کی اور یہ باتیں ٹھہرائیں کہ ہم اپنے مقدور بھر کوشش کریں گے کہ ایسا حال ہمارے گزرنے کے بعد کبھی نہ  ہوئے مگر ہم بڑے انجام کے ڈر سے لوگوں  کی جان بچانے کی فکر تا ابد نہ کھوئیں گے اور اس اور بات پر ویزلی صاحب اپنی عمر بھر قائم رہا  فقط۔

جان ویزلی صاحب کا حال

باب ہشتم

۱۷۴۵؁م میں چارلس ویزلی صاحب لندن اوربریسٹل اور ویلز میں دورہ کرتا رہامگر اس کا بیان نہیں  لکھا گیا  اور دوسرے سال کے شروع میں وہ شہر پلتہ کو یہاں واہٹ فیل صاحب نے ایک کلیسیا شروع  کی تھی گیاضلع کانوال کئی جگہ بہت  فائدے کے ساتھ منادی کی اور بہت ستایا گیا پر اس کے سفرکی بابت بہت شکر کے ساتھ سوچ کیا تب اس نے وہ مشہو ر گیت بنا یا  جس کا شروع ہے الحمد اللہ وغیرہ اور کبھی بھی مجسٹریٹ صاحبوں سےاور خادم اور اورں سفے تقویت پا کر ان کوبہت ستایا اس پریذڈنٹ صاحب کی جگہ چارلس ویزلی صاحب کے ساتھ جا کر ستایا گیا مگر بہت دلیری اور محنت سے چارلس ویزولی صاحب  نے اس تمام منادی کی اور اسفی سبب سے بدسلوکی اٹھائی کہ کئی دفعہ بڑی مشکل سے اس ک جان بچ گئی اورجان ویزلی  کاکام جو اس نے ان دو برسوں میں کیا  تھا اس روزنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۷۴۵؁م وہ لندن اور بریسٹل شہروں میں اور ان کے آس پاس گاؤں کام کرتا رہا  اور ماہ فروری میں اس نے ایک بڑا سفر نیو کیسل تک   کیا  جس میں اس نے بہتری جگہ منادی  کی اور  ملک کے جاڑے موسم کے خطرے سہے اور اس نے لکھا ہے کہ میں نے پیشتر بہتری  مرتبہ سفر کیا ہے مگر اس کی  برابر کبھی نہیں کیا  تھا اؤکیونکہ آندھی اور اولہ  اورمنیہ اور برف وغیرہ  مجھ پر زور سے پڑے خدا کرے کہ وہ دن پھر نہ لوٹے اور اسی سبب  سے پھر کبھی نہ ہوا شہر نیو کیسل میں ایک نے اپنے تئیں میری بدسلوکی کرنے کا مشہور کیا تھا میں نے دریافت کرکے معلوم  کیا کہ اس نے اورں کو بھی شروع سے ستایا تو میں نے اس کو  یہ چٹھی لکھ بھیجی رابرٹ  ینگ میں تم کو جمعہ کے دن سے پیشتر دیکھنے کا منتظر ہو ں اور امید رکھتا ہوں کہ تم اپنے تئیں گناہگار جانتے  ہو ورنہ  میں تم کو کل کی  بد سلوکی کے سبب بہت مہربانی  کرکے مجسٹریٹ صاحب کے پاس بھیج دوں  گا میں تمہا را سچا  دوست ہوں جان ویزلی  اور چٹھی بھیجنے کے  دوتین گھنٹے بعد رابرٹ ینگ جان ویزلی صاحب  کےپاس آیا اور اپنے قصور کا مقرر ہو کر وعدہ کیا کہ پھر ایسا نہ کروں گا تب ویزلی صاحب کے لزام محبت نے بہت تاثیر کی  کہ جس کے ذریعے سے اییک گروہ  کا گناہ چھپایا گیا اور جب کہ وہ نیو کیسل میں رہا اس نے اپنا فیصلہ جوکہ میتھوڈسٹ لوگوں لوگوں اور حکومت کی کلیسیا کے بیچ میں جل  رہا یوعں لکھ  کر کلیسیا کو بھیج دیا مقام نیو کیسل  میں۔

ماہ مارچ  ۱۷۴۵؁م میں پہلے (۱)  سات برس ہوئے  کہ  جب سے ہم لوگ منادی کرنے لگے  کہ آدمی محض ایمان  لانے سے  نجات پا سکتا ہے دوسرے (۲)  اس تعلیم کی منادی کرنے سے ہمارے برخلاف گرجا  گھر  بند کیے گئے تیسرے  (۳) جب ہم نے خاص گھروں میں موافق فرصت کے منادی کی اور  جب بہت سے آدمی آنے لگے تو  یہاں تک کہ ان کےواسطے گھروں  میں جگہ  نہ رہی تو ہم نے باہر منادی کی چوتھے (۴)  اس کام کئےمذکور سبب سے خادم الدین نے ہمارئے خلاف رسالوں  اوراخباروں میں چھپاوا اور ہمیں فتوری اور خارجی کہا پانچویں (۵)  وہ جو اپنے تئیں گناہگار جانتے تھے ہم سے عرض کیا کرتےتھے۔  کہ ہم کوصلاح اور نصیحت دوتاکہ ہم آنے والے  غضب سے بھاگنے کی راہ پہچانیں   اور ہم  نے ان سے کہا کہ  اگر تم سب کسی  ایک مقررہ  وقت پر آؤ  تو  ہم تم کو صلاح اور نصیحت  دیں گے۔ چھٹے (۶) اس کام کے سبب خادم الدین نے گرجا گھروں میں کہا  اور اخباروں میں چھپوایا کہ ویزلی صاحب اوران کے  ہم راہی نے روم کیتھولک کی تعلیم سکھلاتے  ہیں اور کلیسیا اور حکومت کے برخلاف  صلاح بابدھتے ہیں۔ ساتویں (۷) ہم کو معلوم ہوا کہ کئی جو ہمارے پاس آیا کرتے ہیں سیدھی چال نہیں چلتے تب پم نے فوراً  ان کو اپنے پاس آنے سے منع  کیا۔ آتھویں ہم نے ان کو  جواورں  سے سنجیدہ اور سیدے  تھے نگہبان رکھا تاکہ  وہ دیکھیں کہ وہی انجیل مطابق   چلتے  ہیں یا نہیں ۔ (۹) کئی بشپ صاحبوں نے گفتگو کی کہ اور گرجےمیں ہمارے برخلاف باتیں کیں۔(۱۰) یہ حال دیکھ کر اور خادم الدین تقویت  پا کر ہمارے برخلاف بددمعاشوں کو ابھارنے لگے کہ ہم کو بدمعاش اور پاگل کہیں۔ گیارہویں (۱۱) لوگوں نے اسٹافروڈ اور  کانوال  اور  جگہ میں اور  اور جگہ میں اسی طرح سے بدسلوکی۔ بارہویں  (۱۲)  وہ اب تک ویسے ہی کیا کرتے ہیں اگر مجسٹریٹ ان کو زور دیتے تو یہ فیصلہ ہمارےاور خادم الدینوں کے بیچ  میں ہے۔ اب ہم کیا کریں اور آپہ لوگ جو ہمارے بھائی ہو کیا کرو گے کہ یہ جھگڑا  درست ہو اگر ایسا میل ہمارے بیچ  میں ہو تو بہت درست ہے کہ تاکہ ہم سب ایک فوج  کے موافق شیطان کا مقابلہ کریں ہم کو فرمائیں  اور کہ جو کچھ ہم صاف دل سے کرسکتے ہیں ضرور کریں کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم  ادپنی تعلیم کو چھوڑ دیں یاکہ ہم کسی اور کی تعلیم کی منادی کریں ہم سوچتے  ہیں کہ تم یہ نہیں چاہتے ہو کیونکہ ہم صاف دل سے یہ  نہیں کرسکتے دوسرے  (۲)  کیا تم  چاہتے  ہو کہ ہم بیچ گرہوں یا باہرمنادی کرنا چھوڑ دیں اگر ہم یہ کریں تو ہم منادی نہیں کرسکتے۔ اورتیسرے (۳) کیا  تم چاہتے ہو کہ ہم ان  کو ہمارے پاس آتے ہیں نصیحت اورصلاح نہ دیں یعنی ان کو اپنے پاس آنے سے منع کریں ہم صاف دل ہو کر اس کو  نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے نزدیک بہترے ہلاک ہو جائیں گے  جن کا خون کا بدلاہم سے لیا جائے گا۔چوتھے  (۴) کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ان کو یک بیک  صلاح دیں کہ ان کے شمار کے   سبب سے ناممکن ہے۔پانچویں  (۵)  کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ادن کو جو سیدھی چال نہیں چلتے اپنی سستی میں شریک رہنے ہیں ہم اس کو بھی صاف دل ہوکے نہیں کر سکتے کیونکہ بری صحبت اچھی عادتوں بگاڑتی ہے۔  (۶) کیا تم چاہتدے ہو کہ ہم کلاس لیڈر کو جنھیں  ہم  نے اورں کی نگہبانی کرنے  کے لیےرکھا ہے موقوف کریں اور ہم کریں تو وہ   جو بدکار ہیں  اور ان کے ساتھ مل جائیں جن کا   انجام  برا ہوگا۔  (۷)  کیا تم چاہتے ہو کہ  بشپ اور خادم الدین کےسامنے تکریم  سے اور  خادم الدین کے سامنے ادب  کے ساتھ چلیں یہ ہم خدا کے فضل سے کر سکتے ہیں اور ضرور کریں گے اوراگر تم ہم سے پوچھتے ہو کہ تم ہم سے کیا چاہتے ہو  تو ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر ہم تمہارے نزدیک بگڑی تعلیم سکھلاتے  ہیں اورتمہارے دلوں   کوئی شک و شبہ ہماری بابت  ہے تو ہم نہیں چاہتے کہ تم کو اپنے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت دومگر جو کوئی یہ پوچھتا ہے کہ ہم لوگوں کو خدا کی تعلیم کرتے ہیں اور وہ ہماری  بابت شک  نہیں رکھتا تو ہم چاہتے ہیں  کہ وہ کسی سے خوف نہ کھائے اور ہم کو اپنے گرجے میں منادی کرنے کی اجازت دے۔

       دوسرے ہم نہیں چاہتے کہ کوئی جس کے نزدیک ہم لوگ کافر یا خارجی ہیں اور جو ہمارے برخلاف بولتا اورجھانکنا حق اور ٹھیک سمجھتا  ہے تو بولنے یا جھانکنے سے پرہیز کرے لیکن ہم یہ  چاہتے ہیں کہ  ہر کوئی منصفی کرنے سے  پیشتر تو سنے خواہ پڑھے اورخدا سے روشنی مانگے اور تب منصفی کرے تو ہم خوش ہوں گئے۔ تیسرے  (۳)  اگر ہم رومن کیتھولک یا خارجی یا بدکار ثابت کیے  جائیں تو ہم طرف داری یا تسلی نہیں چاہتے  کہ تم ان باطل کو جو نادان ولوگ ہماری بابت کہتے ہیں سنو اور ان کو نہ سناؤبلکہ مقدور بھر ان کو روکو۔ چوتھے (۴)  ہم ان سے جو کہ کلیسیا کے مختار ہیں غرض اور عزت اور ےترقی نہیں چاہتےمگر ہم یہ تین باتیں چاہتے ہیں بھلا کوئی ہماری نالش کرے تو تم ہم  کو جواب دینے کی  اجازت دو۔ (۲)  دوسرے تم اپنے طرف داروں  روکو تاکہ وہ ہمارے برخلاف اوباشوں کونہ ابھاریں کیونکہ وہ منصفی نہیں کر سکتے ہیں۔  (۳)  تیسرے  تم کوشش کرو کہ ہرہلڑا  اور بلوہ موقوف ہو کیونکہ وہ  ہمیشہ کلیسیا  اور بادشاہت کا  نقصان کرتے ہیں اب یہ کام مذکورہ صاف دل سے کرسکتے ہو اور جب کہ جب کہ تم کام نہیں کرتے تو یہ مخالف جو کہ ہمارے درمیان   میں ہے تمہارے طرف ہو  ان  باتوں سے معلوم ہوا کہ ویزلی صاحب ان باتوں سے کچا کچا گھبراتا تھا ان کے ذریعے سے ایک اور گروہ ان کے طلبہ کے بیچ  میں بن گیا کیونکہ وہ حکومت کی کلیسیا کا  خادم الدین  ہوناچاہتا تھا پر وہ اس کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے۔اور  وہ  دیر تک  نیو کیسل میں رہا اورشہر لنکن اور شہر یارک اور لنکا میں رہا۔اور چھ (۶)  شہروں  میں منادی کرنے کے لیے دورہ کیااور دکن کی طرف روزبری کو گیا یہاں پر پیشہ بہت  بگڑا ہوا تھا اور بلاتکلف ان کے واسطے منادی کی  اور پھر یار ننگ ہیم کو گیا اور وہاں کے لوگو ں نے  اس پر پتھر اور میل پھنکےاور وہ  لندن کو   لوٹا اور گمی کے موسم میں وہ کانوال کو گیا یہاں ڈاکٹر بالس اس ملک کے  سردار  نے اپنے مجسٹریٹ کے اختیار کا فخر کرکے ترتنی سے میتھوڈسٹ لوگون  ستایا تھا اور اس نے حکم دیا تھاکہ لنکس۔۔۔ ۔جو کہ  کئی جگہوں میں منادی کرتا پکڑوایا جائے اور لڑائی کے جہاز پر بھیجا جائےمگر جہاز کے کپتان نے اس کو قبول نہ کیا پھر ڈاکٹر پالس صاحب کے حکم سے ایک دیندار اور نیک بخت کوئلے والا مع اپنی بی بی اور سات لڑکو ں کے فقط اس سبب سے قید ہوا  کہ اس نے کہ تھا کہ میرے گناہ معاف ہوئے اور آخرش۔۔۔۔ سر گرم دشمن نے ویزلی صاحب کے بھی پکڑوانے کا حکم دیا پر اس کو ایسا کوئی نہ ملا کہ جو اس حکم کو بجا لاتا اور ویزلی صاحب کانوال یہاں کہ اس کی منادی بہت فائدہ مند تھی ۔۔۔۔کوگیا اور اس وقت کونٹ زمرن ڈاف نے جو بہت اچھا آدمی تھا ان میتھوڈسٹ آدمیں سے خوف کھا کر کہ وہ اپنا سردار اسے مانے گے تو  اس کے جواب میں  ویزلی صاحب نے فرمایا کہ بہت کچھ کریں گے لیکن ایساہرگز نہ ہو گا او۔پھر اتر کی طرف دورہ کرنے لگا  اور ارتھ پت میں ڈاکٹر ددرج  سے ملاقات کی اوراس وقت ویزلی صاحب اکثر رسالوں کے لکھنےاور چھپوانے  میں مشغول تھا جن میں سے ہزاہا تقسیم ہو گئے  اور جب کہ   وہ اس سال لندن میں پھر اس کام میں مصروف ہوا پہلا شخص تھا جس نے اپنے ہم جنسوں کے لیے اس طرح کا کام کیا اور اس وقت کی سوسائٹی میں جو کہ ٹریکٹ سوسائٹی کہلاتی ہے نرمی سے ویزلی صاحب کے نمونے کے مطابق ہزاروں رسالے تقسیم  کیےاور لاکھوں آدمی فائدہ مندہوئے اور ۱۷۴۶؁م پہلے دنوں میں ہم ویزلی صاحب کت روزنامہ میں یہ باتیں  پاتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے  میں بریسٹبل کو گیا اور راستہ میں لارڈ لنگ صاحب کی تصنیف کو پہلے کلیسیا کے بیان میں پڑھا اور اگرچہ میری تعلیم اور طرح سے ہےتوبھی میں یقین کرتا ہوں کہ اس کتاب کا  بیان تھیک اور سچ ہے لیکن اگر ایسا ہی ہے تو بشپ اوسیس ایک ہی عہدہ ہے۔اور ہرایک مسیح کی شراکت ایک ہی کلیسیا ہے۔اور ۱۷۴۵؁م کوسالانہ کانفرنس میں پوچھا  گیا  کہ تھا کہ اسقفی پابسٹرین یا انڈی پینڈٹ کس  کے طور پران میں سے کسی کی حکومت کرتی عقل کے موافق ہے  جواب کلیسیا کی حکومت یوں شروع ہوتی کہ مسیح کسی کو انجیل کی منادی کرنے بھیجےاور کئی اس کی سنیں اور توبہ کریں اور انجیل پر ایمان لائیں تب وہ جانیں  گے  کہ جس نے انجیل کی باتیں ان کوسنائیں ان  کا نگہبان اور راہنما ہے تاکہ وہ ترقی پاتے ہوئے راستبازی کی راہوں میں چلیں تو ان کا حال یہ ہے کہ وہ ایک جماعت ہے سوائے پادری کے اور کسی کلیسیا کے اور آدمی کے اختیار میں  نہیں ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد کئی اشخاص کہ جنھوں نےاور جگہ اس کی منادی سنی ہے تو اپنے اس منادی کرنے اور تسلی دینے کو  بلایا اور اس نے قبول کیا  اور جب تک کہ وہ  اپنی پہلی جماعت کے خاص و عام سے نہیں پوچھے گا اور ان کے واسطے ایک لائق  راہنمااورنگہبان مقرر نہیں کر چکے گا تب تک  وہ ان کو نہیں چھوڑے گا اوراگربا اقتضا خدا  اس  جگہ میں  چند جماعت  مقرر ہوجائےتو خادم الدین ویسا ہی اس جگہ میں کلیسیا بناتا ہے اور راہنمامقرر کر تا ہے اور یہ راہنماڈیکن یا کلیسیا کے خادم ہوتے ہیں اور اپنے پہلے پادری کو اپنی کلیسیا ؤں کا باپ   اور گڈریا  جانتے  ہیں اوریہ جماعت خود مختار نہیں ہوتی کیونکہ وہ ایک ہی   گڈریا رکھتی ہے اور جب جماعت بہت بڑھ جائے اور ان ڈیکن کی مدد کرنے  کے واسطے  اور ڈیکن یا مدد گار کی ضرورت ہو تو وہ پہلے ڈیکن قصیص  ہو جاتے ہیں اور پہلا خادم الدین سبھوں کا بشپ یا سردار  یا  گڈریا  ہو جاتا ہے اور اس کتاب مرقوم سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ ویزلی صاحب نے اپنے منادی کرنے والوں کو جو اس نے شروع سے بھیجے  تھے قدیم تواریخ  اور پہلی کلیسیا کی رسموں کے موافق خادم الدین اور قصیص سمجھا اور اس نے اپنے تئیں کتاب مقدس  کے موافق ایک بشپ سمجھااور لارڈ کنگ صاحب کی تصنیف پڑھنے سے اس رائے پرقائم ہو گیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ویزلی صاحب کی پہلی کانفرنس میں ایک دن تک وہ ڈسپلین کی بابت صلاح لیتے رہے اور ویزلی کے طریقوں پر یعنی اس کی جماعت بنانےاور پریچر بلانے پر کہ جس  سے  ایک خاص گروہ بن جائےباتیں کرتے رہے اورپھر کلیسیا کی حکومت پر بہت  باتیں کی اور کانفرنس میں جو کہ ۱۸۴۴؁م میں ویزلی صاحب کےبلانے کے موافق جمع ہورہے تھے وہ باتیں جو کہ کلیسیا کی حکمرانی کی بابت مرقوم ہو ئی  تھیں ٹھہرائی گئی۔ یہاں پر صرف ایک سوال ہے ۔کیاکوئی جو کہ کلیسیا کی تعلیم پر نہیں رکھتا اور اس کا شریک ہے  تو اس کلیسیا کا روحانی حاکم ہو سکتا ہے ؟جواب ہم سوچتے ہیں کہ  اگرچہ بادشاہ کے حکم سے ظاہری  حاکم کی باتوں میں  ہو تو بھی وہ روحانی حاکم  نہیں ہو سکتا۔ سوال :کیا انجیل میں جو کلیسیا لفظ درج  ہے اس کے معنی ایک جماعت ہے؟جواب ہان!یاد نہین کہ لفظ انجیل میں کوئی اور معنی رکھتا ہے۔ سوال: تو انجیل سے حکومت کی کلیسیا ثبوت ہے یعنی کس طرح سے ثابت ہوا؟جواب :ہمارے نزدیک انجیل میں حکومت کی کلیسیا جاری کرنے کے واسطے کوئی نہیں بلکہ وہ حکومت کا ایک بندوبست ہے۔سوال :کیا ان تین عہدوں کا بیان انجیل میں مندرج   ہے؟ جواب:رسولوں کے وقت مسیحی کلیسیا میں رواج تھا۔کیا تم قائل ہوئےکہ خدا  نے ٹھہرایا کہ ہر زمانے  میں تمام کلیسیا کے بیچ میں یہ تین عہدے ویسے ہی ہیں؟جواب : ہم ایسے قائل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم کتاب مقدس میں ایسا حکم نہیں پاتے ۔سوال :ایسا بندوبست حکومت کی کلیسیا کے واسطے ضرور ہے تو وہ کلیسیا جو  اور ملکوں میں جاری ہے کہاں جائیں گی؟جواب :وہ ضرور مسیح کی کلیسیا کا کوئی حصہ ہے یہ بات محض بے وقوفی ہے۔سوال: کس زمانہ میں انگلینڈ کی کلیسیا نے بتلایا  کہ اسقفی حکومت الہٰی ہے ؟ جواب: ملکہ الزبت کی حکومت کے بیچ  میں پیشتر سب بشپ قصیص اورں کے ساتھ جو کہ بشپ ہاتھوں مخصوص  نہیں کیے گئے تھےکلیسیا کے ساکرامنٹوں میں شریک تھے۔ سوال: کیا کلیسیاؤں  میں متفرق بندوبست کا ہونا  ضرور ہے؟جواب:ہاں ضرور ہے کیونکہ آدمیوں کی لیاقیتں اور فضلیتیں متفرق ہیں اور عہدہ اور عہدہ دار بھی تبدیل ہوجائیں۔ سوال  : کیا سبب ہے کہ انجیل میں حکومت کا بندوبست مقرر نہ ہوا؟ خدا نے اپنی دانست میں خیال  کیا کہ آدمیوں کا حال بدلتا رہے گا اور ہمیشہ متفرق ہوں گے۔ سوال کیا کلیسیا کی حکومت کالبیسٹن وقت  کے پیشتر ہوا موافقت کا ذکر  یا خواہش ہوئی؟ جوادب یقین ہےکہ ایسی بات کا ذکر نہ ہوا اور آدمی صرف خداکا کلام دیکھتا ہےتو  اس وقت بھی اس کا ذکر ہوتا ہے اس سے صاف ثابت ہوا کہ کہ ویزلی صاحب نے شروع سے بہت سوچ کرکے اوبہت صلاح لےکے اپنےآگے کے کام کی بنیاد  ڈالی اور اس نے معلوم کیا کہ اپنے لوگوں کے واسطے پادریوں کو مقرر کرنے اور ان کی حکومت کا بندوبست کرنا چاہیے۔اور اس نے دیکھا کہ اگر ان کے واسطے ان باتوں کا بندوبست نہ ہوا وہ اپنی روح کو بچانے میں بے مدد رہیں گے۔اس سبب سے اس نے باتوں بہت سوچا کہ اور جب کہ اس نے دیکھا کہ بائبل میں کسی طرح کی حکومت جاری نہیں کی گئی تب اس نے خوشی سے ان کے واسطے جو خدا نے اس کےوسیلہ سے ملایاحکومت کا زبردست مقرر کیا اور ان کے واسطے پادریوں کو بلایا اور ان کومخصوص کرکے بھیجا پر اپنے لوگوں کی ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں کیا ۔ اور چارلس ویزلی صاحب بھی جو کہ ان سالانہ کانفرنس میں شریک تھا ۔۔۔۔ ویزلی صاحب کہتا تھا  اوربہت برداشت اور مہربانی سے ان کو استعمال میں لایا تھا  لیکن اگر وہ گناہ دیکھتا تو بہت  سرگرمی اور چالاکی سے اس کو نکالتا۔ اور ماہ مارچ ۱۷۴۶؁م بارمنگ ہیم کو گیا اورکلیسیا کی بابت کہا کہ میں دیر تک  اس کلیسیا کے بے پھل ہونے کے سبب شک میں رہا تھا مگراس وقت دریافت کرنے سے بہت جلد معلوم ہوا کہ اس  کلیسیا میں اتنے بہت شریک تھے جو بے کار یا گناہگار تھے کہ خداکی برکت ان پر نہیں رہ سکتی تھی تو میں نے اس کام کو جلداس طرح سے ختم کردیا کہ سب جو قائم نہ تھے یکدم سے خارج کیا  اور صرف وہ جو دل  و جان سے اپنی روح  بچانے کی کوشش کرتے تھے کلیسیا میں رہنے دیئے  اور جب وہ پھر لندن کو لوٹا تو کئی آدمی جو اپنے تئیں ہی مشہور کرتے تھے اس کو ملے جن کی بابت ان نے کہا کہ وہ لاٹن زبان میں بولنا چاہتے ہیں مگر تھیک نہیں بول سکتے جس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنا کام نہیں  جانتے تھے اور اس وقت کے بعد وہ گرمی  کے موسم میں برسٹبل اور ویلس اور ضلع ڈلون اور کانوال میں منادفی کرتا رہا اورلندن برسیٹل  اور ان کے آس پاس کے گاؤں  دس سال کےآخری مہینے تک کام کرتا رہا اور اس وقت اس نے کئی چھوٹیاں سپاہیوں سےپائیں جن سے معلوم ہواکہ فوج بہت پھیل گیا اور وہ از سرِ نو پیدا ہوئے روحانی و جسمانی طور پر بہت بہادر تھے اور اس حال کےسننے سے ویزلی صاحب بہت خوش ہوا کیونکہ اسے جو کہ کہا گیا تھا کہ وہ اس زندہوایمان کو رکھتے ہیں سو سست اور نافرمانبردار رہتےہیں دنیاوی کام چھوڑتے اور کسی کام کے لائق نہیں ۔۔۔۔پای

ماہ فروری ۱۷۴۵؁م وہ جاڑے اوربرف کو برداشت کرکے ضلع لنکن میں کام کرتا رہا اور  وہ  مارچ میں بمقام  نیوکیسل اپنے بھائی چارلس ویزلی صاحب کی جگہ کام میں مشغول ہوا  اور جو کہ ویزلی صاحب عظیم  آپ میں رکھتا تھا یہ عمدہ صفت شامل تھی کہ وہ علم کے آراستہ بیان کرنے اور غریبوں کے بیچ میں پھیلانے کا بڑا شوق رکھتا تھا اور انجام اس نے کئی اس نے کئی علموں کے اختصار کو کرکے چھپوایا اور اس نیک اور خیر اندیش کا کہ جس میں بہترے نیک بخت آدمی اس وقت کے بعد مشغول ہوئے وہ صاحب  رہنما ہوا اور اس نے لکھادیا کہ میں نے اس  ہفتہ جوانوں کے ساتھ ایک علمِ فصاحت کا اختصار اورایک علم الخلاق کی کتاب کو پڑھا۔ اور میں سوچتا ہوں کہ جو  کوئی اوسط عقل رکھتا ہے چھ مہینے عرصہ میں زیادہ علم فیلسوف کو حاصل کر سکتا ہے بہ نسبت اس کے جو کہ آکس فرڈ کالج کے طالب علم  چاریاسات سال کے عرصہ میں اکثر حاصل کرتے اور جب کہ وہ انپے بڑے  کاموں کو جو کہ اس نے  اوتر کی طرف کیے تھےچھوڑے اور پھر  وہ دکن کوع لوٹا وہ منچسٹر  اور ڈاکٹر بیرم  صاحب سے ملاقات کدرنے کو ٹھہرا اور جگہ کا کیسا بدل گیا وہ گھر جس  میں وہ  پیشترگرجا کرتے تھے  اس بڑی بھڑ کے دسویں حصہ کے واسطے جو کہ پیشتر سننا چاہتے تھے کافی نہ ہوا اور پھر وہ کانوال کو گیا یہاں ہم اس کے روزنامہ میں دیکھتے کہ وہ کیسی ترتیب سے اپنی بھڑ کی حفاطت کرتا ہےاور اس نے یوں لکھا ہے کہ آتھویں تاریخ بدھ کے روز میں نےسنا کہ بلنیرمیں منادی کی اور جمعرات کے کلیسیا کے سارےاسٹورد اپنے پاس بلائےاور محبت سے دریافت کیا کہ ہر کلیسیا میں ایکزیٹرہیںاور آیا وہ ناپنے کام کے واسطے لیاقیتں رکھتے ہیں یا  نہیں  اور اگست کو ائرلینڈ کو گیا اور کے جانے پیشتر پادری ولیم  صاحب کی  معر فت میتھوڈسٹ کلیسیاشہر ڈیلن میں شروع ہوئی اور ٹری سسیٹی بن گئی تھی اورجب کہ وہ ڈیلن میں رہتا تھا۔ تورومن کیتھولک لوگوں کی نجات کے واسطے فکر کرتا تھا اور اس نے ان کے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت پاکر اس ان کے واسطے ایک درس لکھ کر چھپوایا اور تھوڑے عرصے  تک اس  شہرمیں رہ سکا تب اس نے اپنے چارلس کو بھیج  دیا اور ماہ ستمبر میں وہ وہاں پہنچااور اس وقت  کے پیشتر میتھوڈسٹ لوگ سنائے بھی گئے تھے اور چارلس ویزلی صاحب کہتا تھا کہ پہلے خبر جو کہ ہمارے کان تک پہنچی  یہ ہے کہ چھوٹی کلیسیا اس زمانے کے طوفان کے بیچ قائم رہی اور تب رومن کیتھولک لوگوں نے ان پر بڑی زبردست سختی کی اور سرکار نے ان  کو نہ روکا  تب میں نے یقین کیا کہ خدا مجھ کو ان کے ساتھ دکھ اتھانے کی خاطر بلایاہے پسد میں ان کےساتھ جاملا اور پہلا واعظ اس مضمون پر کیا‘‘تم تسلی دو میرے لوگوں کو تسلی دو ’’وغیرہ اس کے بعد میں سسیٹی کے ساتھ رہا  خدا نے ہمارے دلوں کو زنجیر ِمحبت سے مستحکم کیا جس سبب سے کہ ہم موت سے نہ ڈرے اور ہم ایک ساتھ روئےاورتسلی پائی اور مجھ کو ان کے مضبوط کردینے کا باعث بنایا اور چارلس ویزلی صاحب اس جاڑے کے موسم میں روزبروز ڈیلن میں منادی کرتارہا اور فروری میں وہ  گاؤں گاؤں کو گیا اس کئی پریچر بہت کامیاب پائے اور اس طرح ائرلینڈ کے لوگو ں کے لیے ترتیب سے کام شروع ہوا  اور جیسا کہ ویزلی صاحبو ں نےانگلینڈ میں پریچروں کے  تبدیل کرنے اور سفر کرنے کا بندو بست  مقرر  کیا ویسا ہی ائرلینڈ میں یہ بندوبست جاری  ہواکہ جس سے بہت فائدہ نکلا اس سبب سے کہ غریبوں کے پاس انجیل کی منادی کی گئی اور رومن کیتھولک اس مذہب میں شریک  ہوئے اور اگر لوگ امریکہ کونہیں جاتے تو میتھوڈسٹ کلیسیا کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی اور ۱۷۴۵؁م میں تمام سال چارلس ویزلی صاحب  ائرلینڈ  میں رہا اور بہت جگہوں میں بلکہ خاص شہر   یارک بہت فائدہ کے ساتھ کام کیے۔

جان ویزلی صاحب کا احوال

      باب نہم

ان محبتوں اور خادم الدین کے سفر کانے کاذکر  ہے  جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ میتھوڈسٹ کلیسیا کی بنیاد جو چل رہی ہے وہ بہت اور محنت سے ڈالی گئی۔اور جیسا کہ چارلس ویزلی صاحب نے بڑا مشکل کام  کیا  اور وہ سب جو خادم تھے ان  کام کرنے میں ان کی مانند ہوئی جو کہ ہم پر ایک چٹھی سے ظاہر کرتی ہے ایک خادم الدین نے ویزلی صاحب کو شہر لنکن سے یہ لکھ دیا کہ منادی کرنے کے اب بہترے دروازے کھلے ہیں مگر منادی کرنے والےنہیں ہیں میری مدد کے واسطے کسی کو بھیج دیجیےورنہ کام میں بہت  نقصان ہو گا اور اب میری سرکٹ اتنی بڑی ہے کہ دو ہفتوں کےعرصے  میں  مجھے ڈیڑھ سو میل کا سفر کرنا پڑتا ہے اوراس عرصے میں ۳۴ دفعہ منادی کرتا ہوں اور سوا اس کے بیماروں کےپاس جانا اور کلاسوں کے پاس جانا اور کلاسوں کا دیکھنا اور اکثر اور کام ہی پیش آئے ہیں  اور کئی  پریچیر دنیاوی کام کرتے ہیں اور فرصت میں اپنے اپنے پڑوس میں منادی کیا  کرتے ہیں  اور کبھی کبھی اپنے اپنے ہم جنسوں  کے بچانے کے لیے بڑا  سفرکرتے ہیں اور بعضوں نے کئی عرصے تک منادی کرنے کا کام  کیا اور اس کے بعد اور کام میں مشغول ہوئے  اور بعض اشخاص ویزلی صاحبوں کے مدد گار ہوئے اور اس بڑے حکم کے اورکچھ بہت فکر نہیں کیا اور مقررہ وقت پر آزمائش میں رہ کر سنجیدہ دعا کے ساتھ کانفرنس کی پوری شراکت میں شامل کیے گئے اور یہی ان کا مقصد تھا  اور ان کے گزارے کے واسطے کوئی بندوبست اس وقت مقرر نہ تھا  سو  وہ نہ تھیلےاور نہ جوتی لے جاتے بلکہ انھوں نے اپنے تئیں خداوند کی پرورش اور کلیسیا کی مہربانی پر سونپ دیا اورسوالوں کے موافق وہ کلیسیا سے مدد پاتے رہے اورانھوں نے  اپنا کام کئی جگہوں تک بڑھایا اور جیسا کہ رسولوں  کی بابت  کہا گیا تھا کہ ویسا ہ ان کی بابت کہا جائے کہ وہ کوئی جگہ رہنے کی نہیں رکھتے اور ان کی بڑی  محنت اوربرداشت کے سبب سے بعض جوانی کے عالم میں ضعیف ہو گئے۔ اور ہم نے آتھویں باب میں سالانہ کانفرنس کا ذکر پڑھا ہے ہم ان تعلیمات کو جو شروع سے ان کانفرنس ٹھہرائی گئی تھیں بیان کریں گے۔اور ہر ایک بات ٹھہرانے کے پیشتر اس پر بہت گفتگو اور مباحثہ ہوااور اس ہی طرح اور مفید اور لائق کتاب قانونی مذہب کی بنائی گئی اورجب کانفرنف بڑھ گئی اورویزلی صاحب کی تعلیموں کا واعظ اور اس کی انجیل کی تفسریں تعلیم قانونی کے واسطے ٹھہرائی گیں اور اس پہلی کانفرنس میں پادریوں نے اس نقشے کے مطابق اپناسارا کام کیا کہ  ہم خدا سے رضامندی اور روشنی مانگیں تاکہ  ہم ہرایک تعلیم جانے کہ آیا وہ خدا سے ہے یا نہیں اور انھوں نے  اپنے شروع میں ٹھہرایا کہ ہر کوئی جو اس شراکت میں شامل ہو ہر طرح کی مسیح  آزدی پائے گا جیسا کہ اس سوال وجواب میں ہے سوال جو کانفرنس کا بڑا حصہ کسی بات کو ٹھہرائے کہاں تک اس بات کا ماننا ہم پر فرض ہے جواب مائل کرنے والی باتوں کا ماننا چاہیے  بشر طیکہ عقل قابل ہو  اورعملی باتوں  کو ماننا چاہیے صاف دل ہو کر جان سکیں سوال کیا کہ اس سے زیادہ کسی اور آدمی یا دنیاوی جماعت کا تابعدار ہوسکتاہے جواب معلوم ہے کہ کوئی اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور بنیاد کی بات کہ ہر ملک مصلح مقرر کرے یعنی ہر ایک آدمی اپنے واسطے خدا کو حساب دے گااور اب کہہ سکتے ہیں کسی اور مسیح کلیسیا  کی بنیاد اس کے موافق آزادی میں انجیل میں ڈالی نہیں گئی اور ہم ان گفتگو پر جن سے وصلاً میتھوڈسٹ تعلیم ظاہر ہوتی ہے  خیال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک خاص تعلیم رکھتے ہیں کہ جس کے سبب سے وہ ایک مشہور گروہ  ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ  خادم الدین جو کہ کانفرنس میں جمع ہوئے تعلیمات کی کتاب بنانے کو جمع نہیں تھے اور وہ حکومت کی کلیسیا کے خادم الدین تھےاور وہ ان تعلیمات کو جو کہ اس کلیسیا قانوں اور واعظوں میں مندرج ہیں قبول کرنے والے تھے اور پوچھتے تھے کہ ہم ان تعلیمات کو کس طرح سے سمجھیں اور اسبات میں مباحثہ کرکے روشنی ڈھونڈتے تھےاورہر ایک بات کو کتابِ مقدس سے آزماتے تھے اور راست ٹھہرائے جانے کاذکر جو پہلے پیش آیا  اس کا بیان وہ بڑی صفائی  سے کرتے تھے اورانھوں نےا سے یوں بیان کیا ہے کہ وہ معافی ہے یا کہ خدا کے رحم میں مقبول وہ  ہونا اور یہ بیان بائبل میں مندرج ہے جسکی بعض آیتو ں میں راست ٹھہرائے جانا  اور معاف ہونا ایک ہی بات ہے اور خدا کا لے پالک فرزند ہونا اس برکت یعنی معافی کا انجام ہے۔اور ویزلی صاحب  کی رائے کے مطابق ازسرِ نو پیدا ہو نا  ایک باطنی تبدیلی ہے جو کہ روح پاک کی تاثیرسے ایمان لانے والوں  دی جاتی ہے  اور جس وقت وہ ایمان لا کر راست ٹھہرائے گئے توراست ٹھہرانے کا بیان انھوں نے  یوں کیاکہ وہ ایسا حال ہے کہ اس میں جو کوئی ہوکے مر جائے وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا اوراس حال میں ہوکے کوئی گناہ کرے تو وہ اپنا زندہ ایمان پھنک دیتا ہے اوراپنے تئیں ہلاکت کے فتویٰ کےنیچے دبا دیتا ہے   اور اس کی نجات بغیر توبہ کرنے کے ناممکن ہے اور سب اسباب پر متفق تھے کہ آدمی اس شرط پر راستباز ٹھہرایا جائے کہ وہ ایمان لائے  اور ثبوت میں یہ آیت بڑی تھی جو اس پر ایمان لاتا ہے اس کے واسطے سزا کا حکم نہیں ہے لیکن جو اس پر   ایمان نہیں لاتا اسف پر سزا کا حکم ہو چکا اور ویزلی صاحب نے اپنے واعظ میں ایمان کے بارےیوں لکھاہے کہ جب کوئی گناہگارمثلاًلڑکپن یا جوانی یا بڑھاپے کے عالم میں ایمان لاتا خدا اس کو معاف کرتا ہے اور راست ٹھہراتاہے اور اگرچہ اس میں اس وقت تک کوئی نیکی نہ تھی تو بھی خدا نے اس کو ضرور توبہ بخشی  لیکن ہمیں  یقین  ہے کہ  ہم میں نیکی نہیں ہے بلکہ بدی بہت ہے اور جو نیکی اس وقت ہوتی ہے جب وہ  یمان کا پھل ہے۔اس نقل کے مطابق پیڑجوپہلے اچھا ہوا اس کا پھل بھی اچھا  ہوگا اور اب یہاں ویزلی صاحب کی اظہاری توبہ کے بیان میں لکھتے ہیں اس نے اپنے پہلے بیان کے مطابق کہا کہ راست اور صادق ٹھہرائے جانے کے پیشتر گناہگاروں کو توبہ کرنا چاہیے لیکن اسکے نزدیک سارے  کام جو کہ راست ٹھہرائے جائیں گے پیشتر ہم سے ہوتے  ہیں مثل گناہ ہیں اور وہ معافی کے باعث نہیں ہوسکتے اس لیے ان کی جڑ خدا کی محبت میں نہیں ہے اور اس نے کہا کہ سچی توبہ یقیناً خداکی بخشش ہے اور اگرچہ بہت پھل لاتی تو آدمی کا علاقہ خدا کے ساتھ نہیں بدلتاہےانسان گناہگار ہے اور گناہگار کی طرح راست گنا جانا ہے کیونکہ راست ٹھہرایا جانا معافی کے طور پر ہے نا کہ راستباز معافی پاتے ہیں بلکہ گناہگار لوگ معاف کیے جاتے ہیں اور ایمان لانے سے آدمی معاف ہوتا ہے  اور اب ہم  وہ بات چیت جو کہ پہلی کانفرنس میں ایمان  کی بابت ہوئی اس جگہ نقل کرتے ہیں سوال جب ہم دل سے معلوم کرتے ہیں کہ ہمارے گنا ہ معاف ہوئے  تو کیا یہ تاثیر نجات بخش ایمان ہے؟جواب نہیں ! جواب نہیں! نجات بخشش ایمان ہے۔نجات بخش یمان کے یہ معنی ہیں کہ جس کے پاس وہ ایمان نہیں ہے وہ خدا کے غضب اورلعنت کے نیچے ہے معانی کی تاثیر یہ ہے کہ  جو اسے جانتا ہے وہ یقیناً معلوم کرتاہے کہ اس کے گناہ معاف ہوئے۔ دوسرا (۲) یہ کہ معافی ہر ایک سچے مسیحی کا خاص استحقاق ہے ۔ تیسرا (۳) مسیحی لوگ ایمان کے ذریعے سے  صاف دل ہوجاتے ہیں اور دنیا پر غالب ہوتے ہیں لیکن صادق بخش ایمان معافی کی تاثیر نہیں ہے  کیونکہ معافی ہم  کو اس شرط پر ملے گی کہ ہم ایمان لائیں۔سوال کیا ہماری کلیسیا کی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے ؟جواب : ہاں !لیکن ہم شریعت اور عہد نامے پر نظر کریں کہ جو کچھ ان کےمطابق ہے سچ ہے اور حق ہے اور وہ ہمیشہ تک قائم رہے گا اورویزلی صاحب نے صادق  بخش   ایمان  کا بیان یو ں کیا ہے کہ آدمی الہٰی مدد سے اپنا سارابھروسامسیح کی موت پررکھ کر  یقین کرتا ہے کہ مسیح میرے واسطے موااور جو کوئی اس پرایمان لاتا ہےاس کا ایمان راستبازی گناجاتا ہے اور اس  ایمان کے پھل یہ ہیں سلامتی اور  شادمانی  اور محبت باطنی اور گناہ  پر غالب ہونے کی طاقت۔اگر کوئی اپنےصادق ایمان کو کھو دے تو  وہ توبہ کرنے اوردعا مانگےبغیراس   کو کبھی نہیں ملے گا کوئی مگر کوئی ایمان دار خوف ن ہیں کھائے گا کیونکہ اگر وہ غافل اور بےوقوف ہو کر اپنے فرائض کو چھوڑ دےگا اور گناہ  نہ کرے گا تو اس کا ایمان کھویا  نہ جائے گا۔کیونکہ کبھی کبھی بڑی سلامتی اور یقین اورشادمانی کےبعد شک اور خوف  دل میں آتا ہے اور کبھی کبھی خدا کا فضل اور مانگنے کے پیشتر روح افسوس اوررنج میں پڑی رہتی ہے اور اس نے سکھلایا کہ میتھوڈسٹ لوگ یقین کرتے ہیں کہ جس وقت خدا کسی کومعاف کرتا ہے وہ اس کو ازسرِ نو پیدا کرتا ہے اور ایمان لانے سے پیشتر آدمی نیک کام نہیں کر سکتا تو کتنازیادہ ایمان لانے سے پیشتر آدمی نیک کام نہیں کرسکتا تو کتنا زیادہ تقدیس ہو نا ایمان لانےاور معافی اورازسرِ نو پیدا ہونے کے پیشتر میں ہو سکتا ہے تو وہ ان کےبعد ہوتاکیونکہ ازسرِنو ایمان کا پھل نجات  جس میں گناہ کرنے سےآزادی اور روح کا چنگا ہونااور خداکی صورت میں ازسرِ نوپیداہوتا ہے اور وہ اس حال میں پیداہو مزاج دکھلاتا ہے اورآسمانی گفتگوکرتا ہے اور ان ساری فضلیتوں میں بڑھ جانے کے لیے دعامانگنااورایمان لانا  ضرور ہے زندہ ایمان سےآدمی کی  روح بند جاتی ہےاور روح القدس  اس کے وسیلے سے دل میں رہتی ہے اور اس میں تاثیر کرتی ہے اور جو ایمان رکھتا ہے  وہ ہر طرح سے اپنے تئیں صاف رکھتا  ہے اور فرشتوں اور آدمیوں  کی مانند  نہیں ہوتا۔ اور ایک   تعلیم جس کے بیان میں ویزلی صاحب نے بہت باتیں لکھی ہیں وہ تقدس ہوتاہے جس کا بیان رسالہ مسیح  کاملیت  میں پایا جاتا ہے۔

اورایک اور تعلیم جو کہ ویزلی صاحب نے سکھلائی اور جس کے بیان میں اس پہلی کانفرنس میں باتیں ہوئیں۔یہ ہے کہ  بابت انسان اپنی معافی کے لیے دل میں یقین رکھ سکتا ہے یا نہیں اور اس یقین کی بنیاد یا اصل جو روح القدس ہے اور جو لے پالک  فرزند ہونے کی روح ہی ہے یا نہیں اس کانفرنس میں بیان کیا۔ سوال روح القدس کی گواہی کیا ہے؟ جواب وہ اصلی لفظ مارتوریا جس کا ترجمہ گواہ یاشہادت یا گواہی ہے جیسے کہ پہلے یوحنا کے ۵باب کی ۱۱آیت میں ترجمہ ہوا ہے ‘‘اور وہ گواہی یہ ہے کہ  خدانے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اوریہ زندگی اس کے بیٹے میں ہے’’۔اوراب وہ گواہی جس کا بیان ہم کرتے ہیں وہ ہے جو کہ خداکی روح ہماری روح کو دیتی ہے روح القدس وہ شخص ہے  جو گواہی دیتا ہے اور وہ گواہی جو ہمیں بچاتی  ہے یہ ہے کہ ہم خدا کے فرزند بنیں گے اور انجام جو فوراً اس گواہی سے نکلتا سوروح القدس کا پھل ہے اور روح القدس کا جو پھل ہے وہ محبت اور خوشی اورسلامتی اور صبر اور خیر خواہی اورنیکی اور ایمانداری اور  پرہیز گاری وغیرہ ہے جس کے بغیر گواہی آپ جاتی رہے گی کیونکہ اگر ہم کسی طرح کا ظاہری گنا ہ کریں تویاکوئیئ فرض چھوڑیں یا آپ میں کوئی برائی رہنے دیں تو  یہ روح کی گواہی نیست  ہوگی یاجو کوئی خداکی مقدس روح کو رنجیدہ کرتا ہے تو وہ اس کوخاموش بھی کرتا ہے ویزلی صاحب یوں فرماتا ہے کہ میں نےکئی برس سے کہا تھا خدا کی گہری باتوں آدمی کے الفاظ سےبیان کرنا مشکل ہے۔ہاں کوئی بافدت نہیں ہے  کہ جس سے ہم لائق طور پر اس کام کو جوخدا کی روح  اس کے دل میں کرتی بیان کریں لیکن کوئی کہے کہ اس کے نزدیک روح القدس کی گواہی کے معنی یہ ہیں  کہ وہ تاثیر وہ ہے جو خدا کی روح میرے دل اور من پر لگاتی ہےاور جس کے ذریعے سے وہ روح مجھ کو بلاواسطے گواہی دیتی ہے کہ میں خداکا فرزند ہوں کہ یسوع مسیح نے مجھ سے محبت کی اور میرے عوض اپنے تئیں خداکے آگے نذر اور قربان کیا کہ میرے سارے گناہ مٹائے گئے اور میں بھی خداسے مل گیااگر کوئی اس کا درستی سے کرسکتا ہے تو اجازت ہے کہ وہ کرے مگریادرکھناچاہیےکہ مین یہ نہیں کہتا کہ خدانے کسی جسمانی آواز سے گواہی دی ہے اور نہ وہ  ہمیشہ باطنی آوازسے گواہی دیتا ہے اور میں نہیں سوچتا کہ وہ روح ہمیشہ کوئی آیت دل پر لگاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ روح انسان کے دل پر ایسی بلا واسطے تاثیر سے جنبش کرتی ہے کہ تکلیف کاطوفان اور رنج کی لہریں بلکل خاموش ہوجاتی ہیں اور دل مسیح کی گود میں آرم لیتا  اور گناہگار صاف صاف معلوم کرتا ہے کہ اس  کے سارے گناہ  معاف  کیے  گئے اور اس  کی خطائیں ڈھانپی گئیں اور اس تعلیم مذکور کی بابت لوگ کچھ کچھ مباحثہ کرتےتھے تو ویزلی صاحب نے اس کے بیان مین زیادہ لکھ دیا کہ اس کی نقل یہاں پر نہ ہوگی اور ویزلی صاحب نے یہ تعلیم اختیا ر کرکے بڑی کوشش اور سرگرمی سے سکھلائی اور اب تلک میتھوڈسٹ لوگ پسند کرتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں اورسر گرمی سے سکھلاتے ہیں اور آدمی ڈھونڈنےاور کوشش کرنے میں ویزلی صاحب سے زیادہ دیانت دار نہ تھا اور ہر بات اور تعلیم کو بائبل کی باتوں سے  آزمایا اور گویا وہ ایک کتاب کا آدمی تھا اورجو کوئی اچھی بات اس میں تھی وہ اس نے کتاب مقدس سے سب کوشش کرکےسیکھی تھی اور وہ ان تعلیمات میں اکیلا نہ تھا۔کیونکہ وہ جو راست ٹھہرائےجاتے تھے اور نجات بخشش ایمان لاتے اور روح القدس کی گواہی کی بابت قبول کرتا اور  سیکھتا تھا  اور لوتہر  کالوننگ بیزا  اور ارمنی  اور انگلینڈ کی ملکوں کے رہنے والے رکھتے اورسکھلاتے تھے اور امام اور پادری جیسا کہ ہوپرااوراینڈوزا اوربال اور ہوکر اور عشر اور بردن رگ اور ویک اور پرس اورسپیردا اور وین اور پول تھے جو کہ اور کلیسیاؤں میں امام پادری تھے بہت صاف سکھلاتے  مگر ویزلی صاحب ان سب  صاحبوں  سےسرگرم ہوااس سبب سے لوگوں اس پر تعجب کیا۔

اور ان  پہلی سالانہ کانفرنسوں کی باتوں کی یاد داشت میں سوائے مباحثہ تعلیماے کے اور باتوں کا ذکر بھی ہے ان میں کلیسیا کی حکومت کی بابت  قانون اور احکام سال بہ سال کی ضروریات کے مطابق ٹھہرائےگئے۔ اور ان قانون اور احکام کے بیچ میں  جو سب  سے اچھے ہیں اب تک میتھوڈسٹ کی کلیسیاوں میں جاری  ہیں مثلاً ہماری ڈسپلن کے دوسرے باب میں قوانین عام  جو اس وقت مقرر تھے مندرج  ہیں اور اس پہلے جلسے میں جو کہ ۱۷۴۴؁م میں جمع ہوا ایک واعظوں کے مدرسہ کے متعلق باتیں ہوئیں اور پھردوسری سالانہ کانفرنسوں میں سوال پوچھاگیاتھا کیا ہم ایک مدرسہ جس میں علم الہٰی سکھلایا جائے واعظوں کے واسطے مقرر کریں مگر یہ مدرسہ مقرر نہ ہواکس لیے کہ کام زیادہ پھیلتا رہا  اور کوئی لائق مدرس ان کو نہ ملاتو وہ کنگز وڈ کا سکول جو پیشتر مقرر ہوا تھا اس کام کے واسطے مقرر ہوا  اور ویزلی صاحب نے اپنے پریچروں پر یہ فرض رکھا کہ وہ  نہ صرف اصلی توریت اور انجیل کو پڑھیں بلکہ یونانی اور لاطینی شعرا  اور تواریخ کو بھی پڑھیں جس سے معلوم ہو کہ علم کا  جاننا بہت ضرورہے اور یہ بھی ہر ایک پریچر پر فرض تھا کہ ہرایک کتاب جو ویزلی صاحب کی معرفت چھپوائی گئی یا اس سے قبول کی گئی پڑھیں اس طرح ویزلی صاحب نے اپنے لوگوں کے دل اور عقل کو بھی تعلیم دی اور ان جلسوں میں ٹھہرایا کہ وہ جو بے دینوں کے ساتھ شادی کریں اوروہ جو کوئی  نشہ کی چدیز کھائیں اور وہ جو رہن  لیں کلیسیا سے نکالے جائیں۔

اور کلیسیا کے عہدہ دار یہ تھے قصیص خادم الدین مدد گار اسنورڈ  کلاس  لیڈر اور ہینڈ لینڈبر بیماروں ملاتی اسکول ماسٹر اورخانہ دار یہ پچھلے عہدہ دار بھی تھوڑے عرصہ میں موقوف ہوئے اور منادی کرنے کی بلاہٹ کی بابت ہم سوالات یہا ں داخل نہ   کریں  گئے کیونکہ وہ ڈسپلین کے۱۱باب کی پہلی فصل میں مندرج  ہیں پریچروں کی آزمائش پیشتر ایک برس کے ہوئی جو کہ بعد ازاں چار برس تک مقرر ہوئی  اور انھوں نے ٹھہرایا کہ ایک چھوٹادواخانہ غریب لوگوں کی شفا کے واسطے لندن میں اور ایک بریسٹبل اور ایک نیو کیسل میں کلیسیا سے مقرر کیا  جائے اورپریچروں کو ترغیب دی گئی کہ  وہ عام عبادتد میں لیناگیت نہ گائیں اور جو کام کرکے زیادہ ضیف ہوگئے تھےچندہ ان کےواسطے مقرر ہوا  اور عبادت کے وقت مباحثہ منع کیا اور کہا گیا کہ کم بولنا اور زیادہ پڑھنا اچھا ہے اور لوگوں کو حکم ہوا کہ پریچروں کے گوہر میں جیسا کہ کافی پینے میں جمع ہوتے تھے مت جمع ہو  اور پریچروں سے  کہا  میلا گوہر نہ رکھنا  بلکہ صاف ہونا اور ان کو کہنا کہ اول دینداری اور دوئم صفائی ہے اور وفات ناموں میں تھوڑی اور اچھی اور شریں باتیں لکھنا ہےاور۱۷۷۷؁م  میں پہلے پوچھا گیا کہ اس سال میں کون کون پریچر گزر گیا کہ ہم اسف جگہ ان کے وفات ناموں کی نقل کریں گے ٹامس ہاس کنگ ایک جواں جو کام کرنے میں سرگرم اور چالاک اور چال چلن میں بے عیب۔ایجارڈبرگ ایماندار اورصابر تکلیفوں سے کامل کیا ہوا جو کہ بڑھے کی مانند دانشمند اور ہوشیار اور بچو ں کی مانند بےعیب اور ارچرڈ بورومن ایک دیندار اور خوش مزاج دانش مند آدمی جس کو سارے اس کے اشنائی عزیز جانتے تھے ہمارے دو بھائیوں میں سے جنھوں نے خوشی سے امریکہ کے مشنری کام کے واسطے مستعد کیا  ایک وہ تھا سکتے سے مرا اور اپنی وفات کے ایک رات پیشتر اس نے منادی کی اگر وہ زندہ رہتا تو وہ بہت کامیاب ہوتااور نیز خدا کی مرضی اسف کی بابت اچھی تھی تامس پین مسیح کا بہادر سپاہی تھا اس کا مزاج بہت سخت اور گرم تھا مگر مرنے کے پیشتر وہ سختی سب جاتی رہی یہاں تک کہ وہ شیر ببر بھیڑ کا بچہ ہو گیا اور وہ ایمان سے فتح پاتے ہوئے اور اپنے پچھلے دم سے خدا کا شکر کرتے ہوئے گزراجان پر کمزور ایک آدمی جو بلکل خدا کو دیا گیا اور کامل تقدس کا نہایت نمونہ تھا ٹامس مچل مسیح کا ایک بڑاسپاہی ۔جان ۔۔۔۔ساری تقدس اور پاکزگی کا نمونہ سوبرس میں کوئی آدمی اس کی مانند نہ ہواکاک عمر چھوٹا  اور فضل میں بڑاتھا ساری پاکزگی  کا نمونہ ایمان اور محبت اور سرگرمی سے مامور۔چارلس ویزلی صاحب جو کہ اسی برس تک بہت رنج اور درد سے کام کرتا  رہا  اور خاموشی سے ابر ہام کی گود میں لیاگیااس کو کوئی بیماری نہ تھا بلکہ وہ  ضعیف ہو گیاتھا اس کی سب سے چھوٹی تعریف اس کی نظم ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر ڈاٹس صاحب نے کہا کہ وہ ایک گیت یعقوب کی بابت ہمارے گیتوں سے اچھاہے ان وفات ناموں سے معلوم ہے کہ ویزلی صاحب نے اختصار کو بہت پسند کیا۔اور اس نے فیلچر کی بابت کہ جس کی تعریف ہر ایک آدمی  کے منہ میں اب تک ہے اوراپنے بھائی چارلس کی بابت جس نے سب سے اچھا گیت بنایاتھا بہت تھوڑی باتیں لکھ دیں۔

اور اب کلیسیاؤں کی خبرداری ویزلی صاحب کو فرض ہوئی اور کلیسیا بہت  ہوئی اور بڑھ گئی اور ویزلی صاحب ان کا نگہبان تھا اور اس نے بہت کوشش کی اور چاہا کہ ہر طرح سے عقل اور دینداری میں لوگ اس کے موافق ہوں اور تاریک دنیا میں نور کی مانند چمکیں اور اس نے اپنے کام کا پھل دیکھا اور نہایت خوش ہوا اور اگرچہ اس نے کلیسیا کی نگہبانی میں بہت تکلیف اٹھائی تو بھی اس کا مزاج برابر رہا اور یہ تعجب کی بات  ہے اور دشکر گزاری کا باعث بھی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگ نادان اور گناہگار تھے اور ویزلی صاحب کو پریچر اور لیڈر اور اسٹورڈ کے واسطے الزام اور نصیحت اور تسلی اور ساری کلیسیا کے واسطے حکم اور قوانین دینے پڑے اور نیز خدانے اس کو مدد دی اور اس نے ایک گیت اپنے دل کا حال بتلایا۔

پادری ویزلی صاحب کا احوال

     باب دہم

اب میتھوڈسٹ کلیسیا  کی مذہب اور قوانین حکومت مقرر ہوئے  اور ویزلی صاحب نے ان سالانہ کانفرنس کی یا دداشتوں کا خلاصہ جو کہ ۱۷۴۹؁م سے ۱۷۶۵؁م سال بہ سال جمع ہوئی تھیں نہیں چھپوایا۔۱۷۶۵؁م میتھوڈسٹ کی ۳۹ شرکت تھی انگلینڈ میں  کانوال سے نیوکیسل ۲۵ اسکاٹ لینڈ ۴ اورویلس ۲۰اور ایرلینڈ ۸ اور اس وقت کل ۹۲ پریچر تھے جنھوں اپنے تئیں بلکل اسی کام میں سپردکیا تھا اور وہ ویزلی  صاحب کا حکم ہر بات  میں مانتے تھے اور ان ۱۶ برسوں میں جو ویزلی صاحب نےکام کیے ہم اس کا مختصر سا بیان کر یں گے اور پیشتر جنھیں لکھا ہے کہ وہ کیسے چالاک تھے اور کس طرح انھو ں نےم بہت سی محنت اور تکلیف اور ایذارسانی برداشت کرکے کلیسیا کی بنیاد ڈالی اور اب اگرچہ وہ برابر موت تک کام کرتے رہےمگرہم ان کے عجائبات کا بیان کریں گے اور پانچویں بات جو باقی ہے اسے مختصر لکھیں گے۔

چارلس ویزلی صاحب نے ۱۷۴۵؁م مین منادی کی مگر تو بھی انھوں نے ذرا سا کام نہ چھوڑا اورایک زلزلہ کے وقت شہر لندن میں تھا اور دوسرے صدمہ کے وقت وہ بہت سویرے فوندری میں منادی کرتا تھا۔

اور پم اس کے روزنامہ میں اس زلزلے کا بیان دیکھتے ہیں کہ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کس طرح سے غالب اورجلیل ہوتا ہے اور اس نے یوں لکھا ہے آج بتاریخ ۸فروری فجر کے سوا پانچ بجے زلزلے کا ایک صدمہ ہولناک ہوااور میں اس وقت اپنا مضمون پڑھ رہا  تھا اور جب گرجا ایسا ہلا کہ لوگوں نےم جاناکہ یہ ہمارے سروں پر ضرور گرےگا اور عورتوں اور لڑکوں نے بہت غل مچایا تب میں بڑی آواز سے بولا  کہ اس لیے کہ پمیں کچھ خوف نہیں اگرچہ زمین کا انقلاب وہ اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہل کر مندر کے پیچھے پہنچ جائیں کیونکہ خداوندرب الفواج ہمارے ساتھ ہے یقوب کا خدا ہماری پناہ ہے اور خدانے میرا دل ایمان سے  بھر دیا اور میرا منہ جن سے ان کے بدن اور روح ہل گئی پہلے زمین پچھم کی طرف ہلی اور پھر یورپ کی طرف  اورپھر  پچھم کی طرف  ہلی اوراس کا اثر تمام شہر لندن اور ویسٹ پیٹر میں معلوم ہوا۔اور وہ حرکت دیر تک معلوم ہوتی رہی۔اور اس کی آوازبادل گرجنے کی سی تھی۔بہترے گھر ہل گئے اور بہتری انگٹھی گر گئیں مگر ان کے سوائے اور کچھ نقصان نہ ہوا۔

پادری برگ صاحب نے جان ویزلی صاحب کو چتھی لکھ کر اس زلزلے کی تاثیر یوں بیان کی کہ اس  بڑے شہر کےلوگ  کئی  روز سے بہت خوف میں رہتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں زلزلہ پھر ہوگا چنانچہ کل ہزارہا آدمی شہر سے بھاگ گئے کیونکہ کسی سپاہی نے کہا  تھا  کہ  مجھ کو الحام سے معلوم ہوا کہ۴ تاریخ بوقت نصف شب کے لندن شہر کا بڑا حصہ اور خاص کر ویسٹ منسٹر زلزلے سے نیست ہوگا پس تمام شہر کے لوگ بڑے خوف میں رہتے ہیں اور تمام گرجا گھر کانپتے ہوئے گناہگاروں سے بھر گیا اور خاص کر ہمارے وہ چاپل اور واہٹ فیل صاحب کی عبادت گاہ  اور کئی کلاسوں نے اپنے انپےلیڈروں کےپاس آکے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ تمام را ت دعا مانگیں اور انھوں نے قبول کیا اورخدانے ان کو برکت دی ۔

         اگرمیں اس نبی کی  رسالت پر بالکل یقین نہ لا کر بدستور اپنے پلنگوسواگیا اور میں نے یہ خیال کیا کہ اگر اپنی جا ن مسیح کے ہاتھ میں سونپ دوں تو خدا مجھ کو بچا سکتا ہے اوراس نےن ہماری حفاظت کی اور فجر کے وقت میں منادی کرنے کے واسطے تیا رہوااور اس نے اپنے خط میں لکھا کہ بہت سی بھیڑ شہر سےےبھاگ گئی تو بھی بہترے لوگ رہ گئے اور گھروں کے گرنے خوف سے میدانوں باغوں میں  بھاگ گئے اور رو  رو کے چلاتے رہے کہ زلزلہ زلزلہ۔اور بوقت آدمی رات کےواہٹ فیل صاحب نے بمقام ہیڈ پاک  ہزاروں پر منادی کی کہ یہ یقین بہتروں کےلیےرحم کے ایام ہوں گے بشر طیکہ میں جاگتا ہوا پایا جاؤں اور اس طرح سے ان بڑے پریچروں نے منادی کے واسطےفرصت بہت ٹھہرائی اور بعض ایک پریچر کام کے سبب سے خارج ہو گیا۔تب ویزلی صاحب نے زیادہ کوشش سے سب پریچروں کا امتحان لیا اور ان کے چال وچلن کو آزمایا اور نیز یہ کام چارلس ویزلی صاحب نے بھی کیا الاوہ جان ویزلی صاب کے موافق خوش مزاج نہ تھا مگربعد اس کے میتھوڈسٹ کے پریچروں نےاس کو جان ویزلی صاحب کی حکومت کے برابر نہیں جانا اور ۱۷۸۱؁م جان ویزلی صاحب نےہمیں شادی کرنا ہمارے کام کے لیے فائدہ مند ہو گا  اور اس نے اس کے کرنے کاارادہ کیااوراس نے گریس مری بیوہ کو پیار کیا اور بہت دیندار عورت تھی مگر چارلس ویزلی صاحب نے خیال کیا کہ وہ ہمارے بھائی کے لائق نہیں ہے اور اس نے اس کی شادی پادری بنٹ صاحب سے کرادی اور جان ویزلی کی شادی خوشی کا باعث نہ ہوئی چونکہ اس کی بیوی بڑی لیاقتیں اور فضلیتں رکھتی تھی تو بھی وہ سب کی سب بباعث بدمزاجی اور بد گمانی کے ناکارہ تھیں اور وہ  اسے سناتی رہتی  اور روکنا چاہتی تھی اور اس کی بدنامی کرناچاہتی تھی اور وہ بیس برس تک اس کو دق کرتی رہی اور بعد ازاں اس کے کئی روزنامے اور کئی قلمی کتابیں لے کر گھر سے چلی گئی مگر اس نے اسے پھر بلایا اور وہ آئی اور اس وقت اس نے لاطینی زبا ن میں یوں کہہ دیا جس کہ ترجمہ یہ ہے کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا میں نے اس کو نہیں نکالا میں اس کو پھر نہیں بلاؤں گا  اور ایک عرصہ کنگز وڈ بستی میں جو برستیل کے نزدیک ہے ایک سکول بنیا تھا اور ویزلی صاحب نے اس جگہ مدت سے کالج بنانے کا اردیہ کیا تھا تا کہ پریچروں اورمیتھوڈسٹ لڑکو ں کو سب سے اچھی تعلیم ملے اوروہ اخلاقی تربیت  علم طالٰہی جو سبھوں کے واسطے مفید ہو دی جائے اورلادج مذکور۱۷۴۸؁؁م میں شروع ہو گیا اور ویزلی صاحب نے اس  کا بیان یوں  کیا کہ جو کوئی اس کی تمام تربیت پائیں گے اور اس کے علم کو حاصل کریں گے۔ تو وہ لو گ آکس فرڈ کی تربیت پانے والوں میں سے زیادہ ترعقلمند اور علم دار ہوں گے مگر میتھوڈسٹ لوگ ایسا بڑا کالج بنانے کے واسطے مستعد اور تیار نہ تھے بس کنگز وڈ اسکول میں پریچروں کے لڑکے بہت آئے اور بہترے اچھی تعلیم پا کر اور ازسرِنو پیدا ہو کر منادی کرنے کے واسطے روح القدس کے وسیلے سے بلائے گئے اور حالانکہ صاحب کے مقصد کے مطابق بڑاکالج نہیں بنا لیکن تو بھی کلیسیا کے واسطے کنگز وڈ اسکول سے بہت فائدہ ہوا اور پھر اسکول کی ضرورت محسوس ہوئی سو میتھوڈسٹ لوگوں نے  یارک شہر میں ایک اور اسکول بنایا اور وہ دونوں مدرسے آج تک ۔موجود ہیں اور ۱۷۵۳ میں اسکاٹ مالینڈ کو گیا اور گلاسگومیں ایک بڑی جماعت پر منادی کی  اور ڈاکٹر کلین صاحب نے اسے بلایا اور اس وقت کئی آدمیوں نے ایک بڑی سخت چٹھی لکھی اور اس نے بڑےصبر اور محبت سے ان کا جواب لکھا  وہ مسیح  کا سچا پیرو تھا اور گولیوں کے عوض گالی نہیں دیتا تھا  اور سال کے آخری مہینے میں وہ بہت دفعہ سردی پاکرسِل کی بیماری میں مبتلاہوا اورڈاکٹر فادر گل صاحب نے اسے صلاح دی یونس نام میں ہوابدلنے جائے مگر وہ نہیں گیا اور اس نے خیال کیا کہ اس بیماری سے کیا  ہوگااور لوگوں کو اپنی ثنا خوانی  سےروکا اور اپنا کتابہ قبر پر یوں لکھ

؎     جان ویزلی کا بدن یہاں لیٹا ہے
وہ ایک بوٹا ہے جو آگ سے نکالا گیا ہے

وہ سل کی  بیماری سے اپنی عمر  کے سال ۱۷۵۱؁م میں مر گیا اور جب اس کا فرض ادا کیا جائے گاتو اس کےمال سے صرف دس پونڈ باقی رہیں گےخدا مجھ نالائق بندے پررحم کرے۔واہٹ فیل صاحب نےاس کی بیماری کی خبرسن کر اس کو ایک چٹھی لکھی جس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ وہ کئی باتوں  کی بابت بہت متفرق رائے رکھتے تھے تو بھی وہ روحانی طور پرایک ہی تھے مثلاً  عزیز پادری صاحب جب میں نے آپ کو لندن چھوڑتے ہوئے دیکھا تو دل میں رنج آیا  اور جب میرے کان تک خبر پہنچی کہ آپ موت کے کنارے پر ہیں تو مجھ کو افسوس کا بڑابوجھ جو کہ میری برداشت سے باہر تھا معلوم ہوا اور اپنےاور کلیسیا کے لیے بڑا افسوس کیا مگر آپ کے لیے کیونکہ آپ کے لیے ایک نورانی تخت تیار ہے۔اور تھوڑے عرصہ میں اپنے مالک کی شادمانی میں داخل ہو گئے دیکھوں  وہ مقدسوں اور فرشتوں میں کھڑاہے اور ہاتھ میں ایک بڑا تاج لیے تمہارے سر پر رکھنے کو تیار ہے لیکن  افسوس کہ میں غریب جو انیس برس سے انتظاری میں تھا پیچھے رہ گیا خیر میرے دل کو تسکین ہے کیونکہ بہت عرصہ نہ گزرے گا کہ میرے لیے رتھ آئے گا اورہم دعاسےآپ کو روک سکتے تو آپ بھی ہمارے بیچ میں سے جانے کی اجازت نہ پاتے اور اگر ٹھہریاگیا کہ آپ مسیح میں سوجائے تو میں آپ کی روں کو چین سے رخصت کروں گا  اور آنے والے ہفتے میں اگرآپ اس جہاں فانی میں جیتے رہیں گے تو میں آپ کو دیکھ کر رخصت لوں گا ورنہ ف۔ہی۔ر۔و۔ہی۔  ل۔ یعنی اسلام اور اگرچہ میں ساتھ نہیں تو مگر پیچھے پیچھے آتا ہوں ۔ اب میراہم دل بھر گیا  اور آنسوں بہتے ہیں اور شائد تم بہت ضعیف  اور ناتواں ہو گئے گے اس سبب سے اور نہ لکھوں گا میں آپ کو بے حد خدا کی رحمتوں پر سونپے  دیتا  ہوں  خداوند کی انجیل کے مطابق  میں ہوں  آپ کا عزیز اور غمگین چھوٹا بھائی واہٹ فیل۔ لیکن اس وقت ویزلی صاحب نہ مرا خدا نے اس کو اور کامو ں کے واسطے زندہ رکھا اور وہ  پھر یونس  نام سے گرم (کوئی کو) جو  کہ برسٹبل سے متصل ہے گیا اور وہان اس نےاپنا وقت غنیمت  جان کر انجیل کی تفسیر کرنا شروع کی۔اور کچھ مدت تک اگرچہ ضعیف رہا تو بھی کتابیں پڑھا کرتا اور جب تک وہ کمزور رہا تب تک چارلس ویزلی صاحب اس کے بدلے جگہ بہ جگہ کلیسیا دیکھنےاور کام کرنے گیا  اور ۱۷۶۵؁م  کو سالانہ جلسے میں اس بات پر بہت مباحثہ ہوا جو کہ ہم حکومت کی کلیسیا سے جدا  ہیں یا نہیں اور ٹھہرایا گیا کہ یہ اب فائدہ مند نہیں ہیں اور ۱۷۵۶؁م ویزلی صاحب ایک درس چھپوایا جس معلوم ہوا کہ اس نے ویسے چاہا کہ میتھوڈسٹ لوگ حکومت کی کلیسیا سے جدا نہیں ہیں اور ۱۷۶۴ میں اس نے ایک عہد نامہ لکھا اور اس میں یہ بندوبست مقرر ہوا کہ سارے پریچر اس کی موت ایک ساتھ رہیں اور اس کے بعد وہ آپس میں بندوبست کریں تاکہ میتھوڈسٹ کلیسیاقائم رہے اور عہد نامہ میں پریچر لوگ وعدہ کرتےہیں کہ میھتوڈسٹ کی تعلیم کی منادی دل و  جان سے کریں گے اور  میتھوڈسٹ ڈسپلن کی ہر ایک بات کو دل و جان سے مانیں گے اور بعد  ازاں  ایک اور بندوبست جو اس سے بہتر تھا ٹھہرایا گیا اور اس عہد نامہ سے  معلوم ہوا کہ ویزلی صاحب کو حکومت کی کلیسیا کی کچھ امید نہیں رہی تھی اور اس نے آئندہ کو صرف اےنی کوشش کی کہ اس کی زندگی میں جدائی نہ ہوے اور اس کی مرضی کے موافق ویساہی ہوا۔

پادری جادن ویزلی صاحب کا احوال

باب یازدہم

اور اس وقت میتھوڈسٹ کلیسیا کے بعض شریک انگلینڈ اور ائر لینڈ سے امرکہ میں جا  بسے اور کلیسیا وہاں شروع ہوئی اور وہ پادریوں کے محتاج تھے۔اور ۱۷۶۹؁  کی کانفرنس میں سوال  پوچھا گیا کہ ہمارے پریچروں کے بیچ میں کوئی ایس پریچر ہے جو اپنے تئیں امریکہ میں کام کرنے کو سپرد کرےگا؟چنانچہ ریچرڈ بورڈ من اور جوزف فلموز قبول  کرکے اس کام کے واسطے مقرر ہوئے اور اس کے بعد اس ملک میں بہت کام پھیل گیا یہاں تک مری لینڈ اور  ورجینا اور بعض یارک اور پیمنسلونیا میں بہت سی سستی پڑ گئی اور اس وقت سے میتھوڈسٹ کلیسیا امریکہ میں اب تک خدا کو بڑا فضل  رہتا ہے اور اس وقت اس ملک میں بعض بعض جگہ اور انگلینڈ میں بھی جوئے مذہب کے تھے جو کہ طرح طرح ککی تایثر سے ہوئے ۔اور کبھی کبھی ایسا حال ہوا کہ لوگ بے ہوش زمیں پر گر پڑے گویا کہ وہ کہ مر گئے ہیں اور تھوڑی دیر لیٹ کے پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑےشور سے  خدا کی طعریف کرنے لگے ایسی  اور تاثیر کبھی کبھی پریر مٹنگ  پر بھی اور کلاس مٹنگ میں بھی ہوئی اور کبھی ایسا بھی  ہوا کہ  روشنی معلوم نہ دی اسوقت بہتروں نے ان کے خلاف بول کے کہا کہ یہ شیطان کے دھوکے ہیں لیکن ویزلی صاحب نے اورمیتھوڈسٹ پادریو ں نے کہا کہ ان کے ان کے پہلوؤں سے وہ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ اگر ان تاثیروں کے ذریعے سے آدمی اپنے بڑے چال وچلن کو چھوڑکے خدا کی بندگی کو اختیار  کرے  تو وہ خدا  سے  ہیں اور اس تایثروں سے بہتری جگہوں میں سے سینکڑوں  اور نے ہزاروں نے ادپنی بری حالت سے آگاہ  ہو کے مسیح کو قبول کیا۔اور ویزلی صاحب نے بائبل سے ثابت کیا کہ خدا کی رون آدمیں کے متفرق مزاجوں مطابق  طرح طرح  کی تاثیر ان کے دلوں پر کرتی ہے اور جس وقت خدا کی روح سے تاثیر ہوتی ہے اس سے اچھا پھل ہوتا ہے اور آدمی ازسرِنو پیدا ہوکے خدا کی کلیسیا میں شامل ہوتا ہےاور ان کی نجات کے واسطے کوشش اور دعا کرتا ہے اور ویزلی صاحب کے روز نامہ سے یہ حال دیکھتے ہیں کہ وہ ۱۷۷۰؁م میں بدستور بہت چلاکی سے ہر طرح کے نیک کام میں مشغول رہا۔اور جگہ روحانی سر گرمی  اور سچی تعلیم دیتا رہا اور کوئی  اس کے سارے روز نامے پڑھے تو اس کو یقین آئے گا کہ اس کی برابر کام کرنے اور منادی کرنےاور بیماروں کے پاس جانے اور کتابون کے تصنیف کرنے  اور دورہ کرنے میں کوئی   نہ تھا۔اور علاوہ اس کے وہ ہمیشہ ان کے مطالعہ کرنے سے  ہر طرح علم اور عقل کی تدربیت حاصل کرے گا اور اس  وقت کچھ کانونی تعلیم ہر کلیسیا  میں پھیل گئی کہ جس سے میتھوڈسٹ کلیسیاؤں میں نقصان ہوا۱۷۷۰؁م کے سالانہ کانفرنس میں مذہبی تعلیمات کا ذکر ہوا اور بہت سی باتیں ہوئیں جن کا خلاصہ یہ ہے سوال: ہمارے بیچ میں کون اب خدا مقبول ہے؟جواب: وہ جو  اب محبت اور فرمانبر داری سےمسیح پر رکھتا  ہے۔سوال جنھوں نے مسیح کی خبر نہیں سنی  ان کے بیچ   میں کون  مقبول  ہے؟جواب: وہ جو اس نور کے مطابق جو اس کا ہے خدا سے ڈرتا ہے اور راستبازی کا کام کرتا ہے ۔سوال کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ نیک کاموں سے نجات ہے؟ نیک کام نجات کا باعث نہیں بلکہ اس کے وسیلہ میں رنٹ نومی کی تعلیم اس بات کی بابت یہ ہے کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں تاکہ خدا ہم کو اپنی مرضی اور قدرت کے مطابق بغیر ایمان لانے کے یا نیک کام کرنے سے نجات بخشے گا لیکن ایسی تعلیم دی ہے اور اسے مانے گا کبھی اس کی نجات نہ ہو گی خداہم کو انجات دے گا اور سارے جلال آپ لے گا اورہماری شرط کے مطابق نہیں بلکہ اپنی شرط اور خدا کی شرط یہ ہے پس توبہ کرو اور انجیل پر ایمان لاؤتب تم  نجات پاؤ گئے اور اس وقت بہت مباحثہ ہوا تو بھی میتھوڈسٹ کلیسیا بہت بڑھ گئی اور بہت سو سائٹی بن گئی کیونکہ سارے پریچر بڑے دیندار اورسرگرم تھے اگرچہ جان ویزلی ۷۰برس کا تھا تو بھی وہ جوان مردی سے  ان سوسائٹیوں کو خوبی سے دیکھتا اور وہ اس وقت بھی سوچنے لگا  کہ جب میں مر جاؤں تو میرا کام کون کرے گا اور اس پادری  جان فلیچرصاحب  سے درخواست کی کہ آپ اپنے تئیں اس کام میں دیجیے اور میرے جان نشین ہو جایئے۔مگر پادری جان فلیچر صاحب آپ کو اس کام کے لائق نہ جانا اور اسے قبول نہ کیا اور اس وقت گریٹ برٹن اور ائر لینڈ کے پریچروں کا شمار ایک سو پچاس(۱۵۰) تھا اور ممبر پینتیس (۳۵) ہزار تھے اور چارلس ویزلی صاحب نے جان ویزلی صاحب کو یہ صلاح دی کہ آپ کلیسیا کے اوپر زندگی بھر اختیار رکھیں اور بعد اپنی موت کے جو سے اچھے ہوں ان کو دے جائیں۔

پادری جادن ویزلی صاحب کا احوال

باب دو از دہم

اور ۱۷۷۵؁م میں ویزلی صاحب ائر لینڈ کے اور تر کی طرف دورا کیا اور وہاں ایک  زمین پر سویا اور سردی پا کر بہت بیمار پڑا اور کئی روز تک بے ہوش رہا جس کے بعد خدا کے فضل سے پھر جلد اچھا ہوا پس پھر ایک اور مر تبہ خدا نے اس کو اور کام کے واسطے بچھایا اور دوسرےسال جب کہ شہر لندن میں تھا تو ایک حکم ہوا کہ ہر شخص جس کے پاس لوگ چاندی کے برتن ہونے کا احتمال کرتے ہیں چٹھی کے ذریعے سے محصول لکھوانے والے  کے پاس طلب کیا جائے تو انھو ں نے ویزلی صاحب کو چٹھی یوں لکھی کمشن محصول شک میں ہیں کہ تمہارے پاس سے برتن چاندی کے ہیں اور تم  نے ان کو نہیں لکھوایا اس لیے حکم یہ ہے کہ تم اپنے سارے چاندی کے برتن لکھو تاکہ ان پر اسی وقت سے جیسے پارلیمنٹ سے چاندی پر محصول لینے کا حکم ہوامحصول لیا جائے اور اگر تم یہ کرو گے تو کمشنر ہوس آف  لارض کو خبر بھیجے گادیکھوہم فوراً جواب مانگتے ہیں۔ویزلی صاحب نے یوں جواب لکھا کہ صاحب جی میرے دو  چھوٹے چمچے لندن میں ہیں اور وہ برسیٹبل میں اور ان کے سوائے اور کچھ چاندی میرے پاس نہیں ہے۔اور جب تک چاروں طرف بھوکے ہیں تب تک میں اور مول نہ لوں گا آپ کا تابعدار جان ویزلی۔

اور پھر ویزلی صاحب  یہ سن کر سوڈاور میں کے جزیرے کےبشپ نے ایک سخت حکم میتھوڈسٹوں کے برخلاف فرمایا تھا وہاں جلدی گیااور۱۷۷۷؁م دو گلس ہابر میں اور سب لوگوں نے خوش دلی قبول کیا اورکچھ نے اس حکم کی بابت نہیں سنا  اور جب کہ ویزلی صاحب پھر وہاں گیا تو اس بشپ کا جان نشین موجود تھا اور وہ ان پر سختی کرتا تھاپس وہاں کی کلیسیا پھلتی پھولتی رہی اور اس سال میں معلوم ہوا کہ دو قونڈری پرانا ہو گیا اور اس بڑی جماعت کے لیے اور اس جماعت کے لیے کافی نہ تھا جو کہ اس میں رہتی تھی اور ایک نیا گھر روڈ میں بن گیا اور ماہ نومبر کی پہلی تاریخ بن چکا اور کھولا گیا اور خدا کو دیا گیااور ایک نہایت بڑی جماعت فجر اور شام میں حاضر ہوئی اور اور خدا نے اپنا جلال ظاہر کیا اور ۱۷۷۸؁م ویزلی صاحب نے آڑنین میگزین چھپوانے لگا اور ایک رسالہ مقرر وقت پر چھاپا  گیا اور اس میں نے تصنیفات سے تعلیم اور نصیحت اور مضمون پر کہ مسیح کا کفارہ سبھوں کے واسطے ہے اور اس طرح سے اس نے ان کا جواب دیا جو کہ اس تعلیم سے انکار کرتے تھے اوراس نے عمر بھر وقت بہ وقت چھپوایا اور وہ اب  تک وصلا کانفرنس کی معرفت شہر لندن میں وصلاً میگزین کے نام سے چھاپا جاتا ہے۔اور ماہ جون ۱۷۸۳؁م ویزلی صاحب ہالینڈ ملک کو گیا اور بیس(۲۰) تک منادی کرتارہا اور دینداروں کے ساتھ ۔ملاقات کرنے میں مشغول کرنے میں رہا اور اس کےکام سے وہاں بھی بہت فائدہ نکلااور ۱۷۸۴؁م میں اس نے ایک ایسا بندوست کیا جس سے وہ موت کےبعد قائم  رہےاور ترتیب سے چلے اورخدا کے جلال کا باعث ہوے۔اور وہ بندو بست اب تک قائم ہے اور اس سے ویزلی صاحب  کی دانش اور دور اندیشی ظاہر ہوتی ہے اور اس بندوبست کرنے کے بعد وہ بہت خوش ہوا  اور اپنے دل میں گمان کیا کہ اب مجھے اتنا وقت باقی ہے۔کہ مرتے وقت انہیں کاموں کو جن میں مَیں اتنے دنوں مشغول رہا خوشی سے کروں اور اس بندوبست  کانام انگزی میں یہ ہےدی ڈیڈ آف ویکل ریشن (E DAD OF WAKIL RATION).  یعنی اقرار کا عہد اور انگستان کی سب سے بڑی عدالت میں اس نام سے لکھا گیااور وہ بندو بست یہ ہے کہ ایک  سو (۱۰۰) پریچر جن کے نام ویزلی صاحب نے لکھوائےمیتھوڈسٹ کی دینی عدالت کی گئی ۔اور میتھوڈسٹ کانفرنس متعلق اٹین ہو گئی اور سارے چابل اس کانفرنس کے مال ہو گئے اور مختاروں کے اختیار میں رکھے گئے اور کانفرنس کا اختیار تھا کہ  وہ پریچروں کو گرجا گھروں میں بھیجے جیساد کہ ویزلی صاحب نے پیشتر کہا پس اس کلیسیا کے لیے جسمانی  و  روحانی حکومت کا بندو بست مقرر ہوا اور اس  اقرار ِعہد میں مقرر ہوا کہ سال بسال وہ کانفرنس ایک پریزیڈینٹ اور سکرٹری مقرر کرے اور جس وقت اس سو(۱۰۰) کے جلسے میں کوئی مر جائے تو اس کی جگہ دوسرا مقرر کیا جائے اور اب تک انگلینڈ میں  ویسے ہی میتھوڈسٹ کلیسیا اپنی  حکومت کرتی ہے اور آپس میں خوب میل ملاپ رکھ کر مسیح کے لیے جیتی ہے اور بہت سا کام کرتی ہے۔اور بعد ازاں یہ بھی ٹھہرایا گیا کہ ان سو(۱۰۰) کے سوائے سب پریچر جو کہ پوری شراکت میں شامل ہیں سالانہ کانفرنس کے شریک ہوں۔

پادری ویزلی صاحب کااحوال

باب سیز دہم

اور ۱۷۸۴؁میں ویزلی صاحب نے دیکھا کہ امریکہ کی کلیسیا کے لیے کوئی بندوبست کرنا ضرور  ہے بورڈمیں اورفیلمور صاحبوں  کا وہاں جانے کا ذکر ہو چکا  اس  کے دو  برس  یعنی ۱۷۷۱؁م ویزلی صاحب نےآربری اور رابٹ صاحبوں کو بھیجا  اور ۱۷۷۳؁م میں دو (۲) اور یعنی رتکبن اور سادفورڈصاحبوں کو بھیجا اور امریکہ کے پریچر جو بلائے گئے چار(۴) تھے اور کلیسیا بہت بڑھ گئی اور بہت  ہی بڑھ گئی تھیں۔اور علاوہ اس کے یونائٹڈ اسٹیل ملک انگلینڈ کی عمل داری سے الگ ہو گیا ا وروہاں کوئی بشپ اور خادم الدین نہ تھا کہ ان کلیسیاؤں میں بپتسمہ دے  اور پاک ساکرامنٹ تقسیم کرئے پس اس حال میں ویزلی صاحب نے یہ کہا کہ ڈاکٹر کوک صاحب کو سپرنٹندنٹ مقرر  کیااور ریچرڈوانٹ کوٹ اور ٹامس دیسی کو قصیص مخصوص کرکے بھیج دیا کہ وہ ان کلیسیاؤں میں بدستور ساکرامنٹوں تقسیم  کرے۔اور کوک صاحب کو اس نے حکم فرمایا کہ امریکہ جاکر فرنس ارنبری صاحب کو اپنے ساتھ سپرنٹنڈنٹ یعنی بشپ کے درجہ میں مقرر کرو اور اس حکم کے مطابق سبھوں نے قبول کیا اور امریکہ کی کلیسیا کے لیے حکمرانی کا بندوبست مقرر ہوا  اور بعض لوگوں نے اعتراض کیے کہ یہ کام انگلینڈ کی کلیسیا کے قانوں کے برخلاف ہے توویزلی صاحب نے جواب دیا کہ میں مدت سے لارڈ کنگ صاحب کی تصنیف کو پڑھ کر قائل ہوا کہ قصیص اور اس قوف کاد عہدہ ایک ہی ہے صرف ان کے کام میں فرق ہے کس لیے جو قصیص ہوں انجیل کے ْمطابق ان کو مخصوص کرنے کا اختیار رکھتا ہوں اورمیں نے  یہ بھی کہا۔اگر کوئی اس  سے بہتر امریکہ کے واسطے تجویز نکال سکےتو میں اسے قبول کروں گا اب اتنی مدت معلوم ہوا کہ خدا نے ویزلی صاحب کے عجیب کاموں پر برکت  اور مہر دی اور ڈاکٹر  کوک صاحب اگرچہ امریکہ میں تمام برابر نہیں رہا اور کبھی کبھی وہاں گیا تو بھی اس  نے  میتھوڈسٹ لوگوں کے سارے مشنری کام کا شروع کیے اور اپنا کل مال اس کام کے واسطےصرف  کیا اور خود بھی ہندو ستان کے واسطے مشنری ہوکے سمندر میں قبر گیر ہوا۔اور ویزلی صاحب نے اسکاٹ لینڈاکے واسطے کئی خادم الدین مقصوص کرےساکرامنٹ مقرر کرنے کے واسطے بھیجا  اور پھر ہالینڈ کو گیا  اور ان  کلیسیاؤں کے دیکھنے سے نہایت خوش ہوا اور تب وہ ایر لینڈ اور بورنی جزیرہ کو گیااوراس کے روز نامہ سے معلوم ہوا کہاگرچہ وہ بوڑھا ہواتو بھی اس نے زرا ساکام نہ چھوڑاکام نہ چھوڑا بلکہ بدستورروزبروز خداکےواسطے کام کرتا رہا اور اس نے دیکھا کہ یہ زندگی بخش مذہب گریٹ برٹن اور ائرلینڈ اور واہٹ اور یلن کے جزیرہ امریکہ کے تمام ملک میں  پھیل گیا اور ساری جگہوں میں میھتوڈسٹ لوگوں کی ہی بات مانتے  ہیں اور ایک ہی طریق پر چلتے ہیں اور روحانی کے یہ معنی ہیں انسان کا دل  اور مزاج بدل یا کہ پاک مسیح کے موافق ہوتا ہے۔اور اس کی عمر کا پچاسیواں(۸۵)  سال شروع ہوا  تو  اس  نے اپنے روزنامہ میں یون لکھا کہ آج میں اپنا پاسیوان(۸۵) سال شروع کرتا ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ کو روحانی اور جسمانی ترکیبیں عناعت کیں اور بہت برس گزرے  کہ میں دکھ میں نہیں پڑا ہوں مگر البتہ  میں ایسا چالاک نہیں جیسا کہ پیشتر تھا میں ایساجلدی نہیں چل سکتا۔اور میری آنکھیں کچھ کچھ دھندلا گئیں۔اور مشکل سے چلتا پھرتا ہوں۔اور کبھی پیشانی اور دہنے کندے اور ہاتھ میں درد ہونے لگتا ہے اور جو باتیں کہ آج کل سنتا  ہوں بھول جاتا ہوں مگر جو باتیں کہ  جو۴۰ یا ۶۰ برس کی ہیں خوب یاد ہیں اورسننے  اور سونگنے اور چکھنے میں کچھ نقصان نہیں ہوا ہے۔اگرچہ پیشتر کی بانسبت کھانے کا تہائی حصہ نہیں کھاتاتو بھی میں اورمنادی کرنے سے تھک نہیں جاتا اب میری طاقت اور لیاقت کے ہونے کا سبب ہے۔پہلے یہ کہ خدا مجھ کو اپنے کام مین بلایا اور مجھ کولیاقت دی  ۔اور علاوہ ازیں اس کے فرزندوں نے میرے واسطے دعا مانگی ہوگی اور وسیلے شائد یہ ہیں میں ہمیشہ کام کرتا رہا  اور ہوا تبدیل کرتا رہا۔دوئم میں بحالت بیماری خواہ تندرستی خشکی یا سمندر پر ایک رات بھی بےب نیند نہیں رہا۔اور تیسرے جس وقت میں تھک جاتا تو میں سو رہتا۔اور چوتھے میں میں برابر ساتھ برس سے چار بجے کے وقت اٹھتا رہا۔پانچویں پچاس برس سے بوقت پانچ سے منادی کرتا رہا۔چھٹے میں درد بہت تھوڑے اٹھائےاور اگرچہ میری آنکھ اور ہاتھ اور پیشانی میں درد ہوتا ہے لیکن وہ بہت دیر تک نہیں رہتا۔پس یہ میرا پچھلا سال ہے تو مجھ کو امید ہے کہ یہ سب سے اچھا ہو گا۔

پادری جان ویزلی کا احوال

باب چہار دہم

جان اورچارلس ویزلی صاحب جو کبھی متفرق یا کسی اور سبب سے دشمن نہیں ہوئے اب موت کے باعث سے الگ  ہوگئے تھے۔

پادری جان ویزلی صاحب نے جب کالج میں بہت زیادہ پڑھنے سے اپنے بدن کو  مارا تو کچھ کمزور ہوگیا اور گاہے گاہے بیمار بھی ہوا مگر اس کی عمر دراز ہوئی اور ہمیشہ خوش مزاج رہا۔اور جب وہ موت کے کنارے پر پہنچا تواس نے فروتنی سے اپنے تئیں بدل کر بلکل خدا کے سپرد کیااور اس کی روح ہمیشہ سلامت رہی۔اور اس نے دو  تین  روز پیشتر اپنےمرنے کے ایک بہت اچھا گیت اپنے قلم سے لکھا۔اوراس نےاناسی(۷۹) سال اور تین (۳)  مہینے کی عمر پا کر ماہ مارچ کی انتیس(۲۹) تاریخ کو وفات پائی۔اور اپریل کی پانچ (۵)  تاریخ  کو مری بون کے قبرستان میں دفنایا گیا ۔اور کی قبر کے پتھر  پر اس کا گیت لکھا گیا۔اور اپنے بیٹےااور بیٹیوں کو بہت پیار کرتا تھا اوراس کے بیٹے علم موسیقی بہت مشہور تھے۔اور چارلس ویزلی صاحب بڑا گیت لکھنے والا تھا  اس نےاڑتالیس(۴۸) جلد کتاب لکھ  چھپوائیں اور کئی کتابیں بڑی قلمی تھیں جو کہ چھاپی نہیں گئی اور اس کے گیتوں کے برابر انگریزی میں کوئی گیت نہیں ہے۔۱۸…۳؁م کو گریٹ برٹن میں اس کے گیتوں کی کتابوں کی سات ہزار(۷۰۰۰) جلدیں فروخت ہو گئیں۔اور امریکہ میں اس سے زیادہ اور  جو فائدہ کہ  جان ویزلی صاحب کے گیتوں کلیسیا کو ہوا لاحد ہے ۔

اور اس وقت جان ویزلی صاحب کی موت نزدیک آئی۔اور اس اپنے روز نامہ میں یوں لکھا کہ آج میں ستاسی(۸۷) سال کو شروع  کرتے ہوئے معلوم کرتا ہوں کہ میں دُہند ہلاتا ہوا ور میں بہت مشکل سے پھرتا ہوں میری طاقت جاتی رہی اور میں آہستہ چلتا  ہوں مگر مجھے چاہیے کہ میں اپنے باپ کا کام کرو  اور اس کےبعد وہ ائرلینڈ کانفرنس ڈیلن شہر اور کانفرنس کا پریزیڈنٹ تھا اور اس کے بعد وہ لندن میں آیا اور بادستور برسٹل ہو کے پچھم میں کانوال کو منادی کرنے گیا اور پھر وہ کال نومہ کو گیااور اس کی بابت اس نے کہاکہ چالیس(۴۰) گزرے کہ جیسے میں جہاں آیا اور اس وقت ایک بڑی بھیڑ نے مجھ کو قید کرکے بد سلوکی کی اور اب کتنا فرق دیکھتا ہوں کہ یہاں سب کے سب چھوٹے بڑے راہ کے کنارے دیکھنے آئے  اور وہ ایسی میری عزت کرتے ہیں کہ  گویابادشاہ گزرتا  ہے شام کے وقت میں نے  ایک پہاڑ پر ایک بڑی بھیڑ میں منادی کی اور خدا نے ان کے دلوں پر عجیب طورتاثیر  کی اور پھر کانوال سے پرسبل اور ماناہہ ہو  کے کے لندن کو لوٹا۔اور پھردوسرے سال پرسٹل کو گیا۔اور وہاں بدھ کے روز منادی کرکے برمن نہم  کو گیااور وہاں سے اسٹافرڈ میں ہوکے میدلی کو گیا  اور اس نے کاکہاکہ نو(۹) بجے میں نے ایک چنی  ہوئی جماعت کے واسطے خدا کی گہری چیزوں کی منادی کرنی ہے اور ہر شام کے وقت اس آیت پر کہ وہ ان سب کو جوخدا  کے پاس اس کے وسیلےسے آتے ہیں بکل بچا سکتا ہے منادی کی اور جمعرات میں اپنا وعظ  شادی پوشاک کے بیان میں ختم  کیا اور شاید یہ میری پچھلی تصنیف ہے۔لیکن خاک میں ملنے سے پیشتر میں مقدور بھر خدا کے واسطے کام کرنا چاہتا ہوں اور شہر جشٹر اور شہر لنکن کی اوتر کی کلیسیانے اپنے باپ کو پہلی  دفعہ دیکھا تب وہ دکھن کی طرف شہر یارک کی طرف ہل تک ہر جگہ میں موت کی زبان کے کنارے سے منادی کرتا ہوا گیا  اور  وہ  اپورتھ اور لنکن شہر کا سفر کرکے بعض گاؤں کو گیا اور جب وی اٹھاسی (۸۸)  برس کا ہوا  اس نے یوں لکھا اب میں اپنے اٹھاسیواں(۸۸) سال شروع کرتا ہوں۔چھیاسی (۸۶) برس تک میں نے بڑھاپے  کی کمزریوں کو محسوس نہیں کیا۔کیونکہ نہ آنکھیں دھوندلائیں اور میری طاقت جاتی رہی۔مگر اگست مہینےمیں میراحال بدل گیا اور میری آنکھیں دھوند لا گئیں یہاں تک کہ آنکھیں بلکل کی نہ رہیں اور طاقت بھی جاتی رہی اور شاید اس دنیا میں پھر نہ آئیں گے لیکن کچھ  درد نہیں معلوم ہوتا  ہے۔ اور بلکہ زندگی کے پہیے تھکے ہوئے تھم مگر تو بھی اب تک اس  نے  کام نہ چھوڑا  اور کام ا ور زندگی  کو ایک ساتھ واپس دو اور ہر روز موت تک بدستور کام کرتا رہا اور اس نے اپنے سالانہ سفر اسکاٹ لینڈ اور ائرلینڈ میں کرنےکے لیےاپنے رتھ اور آگےبھیجے  اور حالانکہ اس کا جی چاہتا تھامگر بباعثِ ناتوانی بدن کے وہ نہیں جاسکا اور ماہ فروری کی ۱۷ تاریخ ۱۷۹۱؁م اس نے سیم تن میں منادی کی اور لوٹ بہت تھک گیا اور بولاکہ میں نے سری پائی اور دوسرے دن پھر دستور لکھتا  اور پھر پڑھتا رہا اور شام کے وقت اس نے کلیسیا میں اس آیت پر منادی کی بادشاہ کے کام میں جلدی کرناچاہیے اور ۲۳ تاریخ کو اس نےا سآیت کے بیان میں کہ جب تک  خدا پایا جائے اس کوڈھونڈوں جب تک کہ وہ نزدیک ہے اس سے دعا مانگو اور یہ ویزلی صاحب کاپچھلا وعظ ہوا۔یہ اس پادری عظیم کا پچھلا کام ہوااور جمعرات کو بہت خوش ہوا اور مولف صاحب  سے  ملاقات کرنے گیا اور دوسرے روز بہت کمزور ہوا اور ڈاکٹر واہٹ بید صاحب بلوایا اور  ہفتے کو بھی ویسا ہی رہا اور اتوا کے روزد وہ خوش ہوا اور چاہتا تھا کہ خدا مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے اور اس کے دوستوں نے اس کے ساتھ دعا کی اور وہ آئیں آئیں بولا اور پھر اس نے کہا کہ جب میں برسٹبل میں تھا تومیری باتیں یہ تھیں میں سب سے بڑا گنہگار اور مسیح کفارہ ہے۔اور وہ کچھ ضرور نہیں۔ کسی نے کہا کہ اب آپ کے دل کی باتیں ہیں اور کیاآپ کا تجربہ ویسا ہی ہے اس نے کہا کہ  ہاں تب اس  شخص نے یہ گیت پڑھا  دیکھو میں  تخت  کے پاس  جاتا ہوں۔اور تاج کومسیح کے وسیلے سے پاتا ہوں تب ویزلی صاحب نے کہا کہ بس  وہ ہمارا عمانوائیل ہے اور اس نے سب کچھ ہمارے واسطے مول لیا اور ہم کو ان کا وعدہ دیا وہ سب ہے۔وہ سب ہے اور اس کے بعد اس نے کہا کہ ہم سب کو ضرور ہے کہ  اپنی سچی نبوت پر قائم رہیں میں سب سے گنہگار ہوں اور مسیح میرا کفارہ ہے ۔اور وہ کمزور ہو ہمیشہ خوش ہوا اور خدا کے کلام سبھوں کے واسطے کرتا رہا اور اس نے کہا کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور یعقوب کا خدا ہماری پناہ ہے اور اس کی پچھلی بات یہ تھی کہ فرذیل یعنی سلام ۔اور بدھ کے روز دس بجے سے پیشتر بتاریخ ۲۷  ماہ  مارچ ۱۷۹۱؁م جب کئی دوست اس کےپلنگ کے چاروں طرف گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے یہ مردِم خدا ہزاروں کا گڈریا اور نگہبان خاموشی اور خوشی سے خداوند کی شادمانی میں شامل ہوا۔اور اسی طرح جس نے پینسٹھ(۶۵) برس تک منادی کی تھی خوشی کے ساتھ اپنے اٹھاسی(۸۸)برس میں گزر گیا۔ڈاکٹر واہٹ بند صاحب نے اس کے دفنانے کاوعظ کیا اور پادری ریچرڈ  صاحب نے اس کے دفنانے کی دعا پڑھی اور جب پڑھتے پڑھتے اس بات پر آیا   کہ یہاں لکھا ہے کہ چونکہ خداکی مرضی ہوئی کہ ہمارا عزیز بھائی ہمارے درمیان میں سے لیا جائے تو اس نے بھائی کی بجائے باپ پڑھا جس کی تایثر بڑی جماعت پر یہ ہوئی کہ سب کےسب فوراً آوازسے رونے لگے اور اس   کے تابوت پر یہ کلام لکھاگیا۔

جان ویزلی ایم  اے

پیشتر لنکن کالج آکس فرڈ کا رفیق مارچ کی ۲تاریخ ۱۷۹۱؁م  میں اٹھاسی (۸۸)  برس کا ہوکے مرگیا   اور سٹی اور چاپل میں اس کی یاد گاری کے واسطے سنگِ مرمر کے تختے پر یہ کلام لکھا گیا۔

یادگاری میں معین
واسطے پادری جان ویزلی ایم اے
کئی برس تک آکس فرڈیونیورسٹی میں لنکن کالج کا رفیق
ایک آدمی جو شاید علم اور  دینداری میں کسی سے کم نہیں

سرگرمی اور پادری  کے کام میں اور فوائد عام میں شاید سب سے جو پولوس رسول کے بعد پیداف ہوئے زیادہ  فاضل اور خطرہ اور بدنامی کو نہ خیال کرکے ہر جگہ گنہگاروں کو  توبہ کے لیے بلانے اور ان پر انجیل کی منادی کرنے کو گیا ۔

`وہ میتھوڈسٹ سسیٹی  کا بانیاور گشتی وعظ  کرنے کاچلانےوالااور یہ بندوبست اس نے گریٹ برٹن اور ائر لینڈاور ویسٹ انڈیزاور امرکہ میں کامل کامیابی سے مقرر کیا گیا۔

وہ جون ۱۷۰۳؁م میں پیدا ہوا۔

اور ماہ مارچ۱۷۹۱؁م میں مسیح کےکفارہ اور سفار ش کے  وسیلہ حیاتِ ابدی کی امید میں مرگیا۔

وہ۶۵ برس تک پادری کا م کرتا رہا
اور ۵۲برس اس  کام می سفر کرتا رہ

اس نے اپنے جیتے جی تین سو(۳۰۰) گشتی وعظ گریٹ برٹن اورائر لینڈ میں اور ایک ہزار لوکل پریچر اپنے لوگو ں کیے اور اسی ہزارآدمی سسٹیوں میں  شامل  ہوئےان کا نام ہمیشہ ان کی یادہوگا  جو کہ خوش ہوئے ہیں اکیلے خدا کو ستائش ہو۔اب ویزلی کی بابت زیادہ لکھناضرور دیکھا کہ وہ عالم اور فاضل تھا اور لاطینی اور یونانی زبان سے خوب واقف تھا اور عبرانی اور کئی زبانیں بھی جانتا تھا مگر اس نے اپنی عمر اور اپنی دولت اور اپنی فضیلت اور علم اور حکمت بہت چالاکی اور سرگرمی سے خدا کے کام میں خرچ کی۔اور یہ اس نے نجات کو ڈھونڈنے سے پایا اور جب اسے خوب معلوم ہواکہ میرے گناہ معاف ہوئے اس نے کمال کوشش سے ان کو اس حال خطیر  میں سے بلایا۔اب اے پڑھنے والوں تم بھی جاکے ایسا ہی کرو۔آمین یا رب العالمین۔

یہ قبر شوزانہ ویزلی یعنی ویزلی صاحب  کی ماں مقام لندن سٹی روڈچیپل میں ہے

فہرستِ مضامین کتاب احوال ویزلی صاحب

باب اول

ویزلی صاحب کے والدین۔بی بی سوزانہ ویزلی۔سموئیل چھوٹا۔جان ویزلی اسکول اور کالج۔اس کی دینی تاثیر اور تحقیقات خادم الدین مخصوص ہوناکالج کی عزت  چارلس ویزلی کی جوانی کے احوالات میتھوڈسٹ لوگ آکس فرڈ میں۔میتھوڈسٹ لفظ کا شروع اور اصل۔تیسرے(۳) صفحے سے چودھویں(۱۴) صفحے تک۔  

باب دوئم

ویزلی صاحبان آکس فرڈمین ان کی کوشش نیک کرنے میں لگ ان کو روکنا چاہتے ان کی خط

و کتابت  باپ  کےساتھ سموئیل ویزلی اور بی بی شوزانہ ویزلی،جان ویزلی کااپورتھ میں رہنے انکار کرنا۔مقولہ صاحب بڑے کی وفات  ویزلی صاحبان جارجیہ کے جانے کو قبول کرتے تھے کموئیل صاحب کی چٹھی ایک  (۱)صفحے سے تین  (۳)صفحے تک۔ 

باب سوئم

ویزلی صاحبان اپنے جہازی سفر پر۔مرادی لوگوں کے ساتھ ان کی آمدو رفت ان کے دستور اور تکلیف اور رنج جارجیہ میں شادی کرنا۔ویزلی صاحب انگلینڈکو لوٹا۔تیس (۳۰) صفحے سے چھتیس (۳۶) صفحے تک۔  

باب چہارم

ویزلی صاحب اپنے دینی تجربہ کو آماتاتھا۔اس کی گھبراہٹ۔اس کی ملاقات پیٹر لومر صاحب کے ساتھ اس تعلیم کو کہ جس کے ایمان لانے کے ذریعے اس کے آدمی راستبازگنے جاتے ہیں قبول کرتاتھا اس  تعلیم کی منادی کرتا تھا۔چارلس ویزلی صاحب کی تجربہ  کاری۔۳۷صفحے سے۴۷ صفحےتک      

باب پنجم

مذہب کا    حال  انگلینڈمیں۔ ویزلی صاحب کا جرمنی کو جانا۔اس کا لوٹنا۔اس کا کام لندن میں اس کی ملاقات واہت فیل کے ساتھ۔ڈاکٹر ودورتہہ صاحب کی سسیٹی۔چارلس ویزلی صاحب کے کام۔ اس کی بارہر ی منادی ۴۸صفحے سے ۵۷صفحے تک۔  

باب ششم

ویزلی اور واہٹ فیل صاحبوں کے کام کا پھیلنا کنگز وڈ میں۔ویزلی صاحب  کی باتہہ میں تعلیمات کا بیان۔لندن میں مرادی لوگوں سے الگ ہونا میتھوڈسٹ سسیٹی بن گئی۔ویزلی صاحب کی ماں کے خط و کتابت سموئیل اور جان ویزلی صاحبوں کے بیچ میں عجیب حرکتوں کی بابت۔ویزلی اور واہٹ فیل صاحبوں کا جدا ہونا۔ان کے بیچ میں میل ہونا۔ہنری میکر فیلڈ۔ویزلی صاحب نے مدد گار بلوایا۔۵۷صفحےسے ۶۸ صفحے تک۔     

باب ہفتم

لندن میں میتھوڈسٹوں کاسنایا جانا۔کلاس مٹنگ  کا مقرر ہونا۔ویزلی صاحب کے رومن کیتھولک ہونے کا گناہ۔اس کا کام شہر یارک اور نارتھ تہمند اور لنکن شہرمیں۔اس کی ماں کی وفات اسٹافرڈشہر اور یارک شہر میں سسٹیوں کا بڑھ جانا۔جان ویزلی صاحب کا وینربری میں خطرے میں  پڑنا اور بچ جانا۔وہ کانوال کو گیا۔شہر اسٹافرڈ میں ہلڑ تھا اس کے پچھلے وعظ آکس فرڈکالج ۔پادری جیمس صاحب کی چھٹی۔پہلی سالانہ کانفرنس۔۶۸صفحے سے ۸۳صفحے تک۔     

باب ہشتم

چارلس ویزلی صاحب کے کام اور اس کا ستایا جانا کانوال اور کنت اور اسٹافرڈجان ویزلی صاحب  نیو کیسل میں۔میتھوڈسٹ لوگ  اور حکومت کی کلیسیا کے بیچ  میں تکرارکا بیان  شہر لنکن میں اس کا کام اور تکلیف۔کوئلہ ریڑن ڈارف ویزلی صاحب رسالہ لکھنے والا۔ اس کی رائے کلیسیا کی حکومت کے بیان  میں پہلی سالانہ کانفرنس کی یاد داشت میں سے چنی ہوئی باتیں۔اس کے کام انگلینڈ کی جگہوں میں۔اس کی سرگرمی علم  کے پھیلانے میں۔ائرلینڈ کو گیا۔چارلس ویزلی ائرلینڈ کو گیا ڈیلن شہر میں اس کی تکلیف صفحے ۸۳ سے صفحے ۹۵تک۔         

باب نہم

پریچروں کا کام۔کانفرنسوں میں تعلیمات دین کی گفتگو۔راستباز ٹھہرایا جانا اور توبہ کرنا ۔نجات کا یقین۔نجات بخش ایمان کا پھل۔روح القدس کی گواہی ویزلی اورصاحب کا سچائی کو ڈھونڈنا۔پہلی سالانہ کانفرنسوں کی یاد داشت کی چند باتیں پریچروں کے وفات نامے۔۹۵ صفحے سے۱۰۶ تک۔    

باب دہم

پہلے سرکٹوں کی فہرست۔چارلس ویزلی صاحب لندن میں۔زلزلہ۔پریچر لوگ  چارلس ویزلی کو جان برابر کلیسیا کی حکومت میں برابر نہ جانا۔ویزلی صاحب کی شادی۔کنگز وڈ کا اسکول۔ویزلی صاحب اسکاٹ لینڈ کو گیا۔ویزلی صاحب کی بیماری۔واہٹ فیل  صاحب کی چٹھی۔۱۰۶ صفحے سے ۱۱۳ صفحے تک۔    

باب ازدہم

میتھوازم امریکہ میں۔جلوہ۔ویزدلی صاحب کے کام۔ ۱۷۷۰؁م  کے کانفرنس کی یاد داشت۔سسٹیوں کا بڑ جانا۔میتھوڈسٹ کے قائم کرنے کا بندوبست۔۱۱۳ صفحے سے ۱۱۵ تک۔ 

باب دوازدہم

ویزلی کی بیماری ائرلینڈ میں۔محصول کمشنر کی چتھی۔ویزلی صاحب جزیرہ کو گیا۔سٹی روڈ چاپل کا تیار ہونا ارمنین میگزین۔ویزلی صاحب ہالن کو گیا۔ڈیڈ آف ویکلرشٹن ۱۱۶ صفحے سے ۱۱۸ تک۔   

باب سیز دہم

امریکن سسیٹی کا حال۔سپرنٹنڈنٹ اور لیڈر ان کےان کے واسطے مقرر ہوئے۔ڈاکٹر لوگ فرنس ایرری۔اسکاٹ لینڈکے واسطے خادم الدین مخصوص ہوئے ویزلی صاحب پھر ہالینڈ ملک کو گیا۔اس کے کام انگلنڈ،ایر لینڈ  اور یوپین جریزہ میں۔لندن لوٹنا۔ویزلی صاحب کے خیال جب اس نے اپنے پچاسی (۸۵) برس  شروع کیے۔۱۱۹ صفحے سے ۱۲۱ تک۔       

باب چہار دہم

چارلس ویزلی کی وفات۔اس کی خصلت اور اس کے گیت۔ویزلی صاحب کے کام۔اس کے خیال جب کہ اس نے اپنے اٹھاسی (۸۸)  برس شروع کیے۔پچھلی بیماری۔وفات۔ کتابہ اختتام۔۱۲۲ سے خاتمہ تک۔

Pages