مسیحی مذہب کی خوبیاں
جمیل سنگھ
(۱۸۴۳–۱۹۲7)
The Qualities of Christianity
Published in Nur-i-Afshan June 18, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)
دنیا میں سیکڑوں مذہب اور اُن کے ہزارہا فرقے موجود ہیں اور ہر ایک مذہب اور فرقے کا کوئی نہ کوئی بانی مبانی ہے اور اُسکی حسب مرضی وہ مذہب ٹھہرایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مذہب صرف ایک ہی ہونا چاہئے اور وہ خدا کی طرف سے اور اُسکی مرضی کے مطابق ٹھہرایا ہوا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اتنے مذہب اور فرقونکا جو ایک دوسرے سے بالکل خلاف ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو رد کرتا ہے خدا کی طرف سے ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک حکم کا امر فرماوے اور پھر اُسکی نفی کرے اس سے خدا کا حکم ناکامل سمجھا جاویگا حالانکہ سب اسبات پر متفق ہیں کہ خدا کے تمام احکام کامل اور صادق ہیں اور کبھی بدلتے نہیں۔
اب اس میں یہہ مشکل درپیش ہو ئی کہ ہر ایک مذہب کو آزمانا پڑا ور اگر نہ آزمایا جاوے تو شائد جھوٹھے ہی کو سچ جانکر مانا ہو اور آخر کو زلیل ہونا پڑے اور الہیٰ کچھری میں روسیاہ ہو کر عذاب الہیٰ کے نیچے آنا پڑے۔ اس لئے ہر ایک فرد بشر واجب و لازم ہوا کہ مذہب کو سمجھ بوجھ کے اختیار کرے اوراسکے آزمانے کے لئے کمال درجے کی ہوشیاری کام میں لاوے۔
خداوند یسوع مسیح شافی حقیقی اور پیشواے صادق نے یہہ ایک کسوٹی بتلائی ہے جس سے یہہ مذہبوں کے پیشوا پر کہے جاتے ہیں جو متی کی انجیل کے ۷ ۔ باب کی ۱۵ سے ۲۱۔ آیت تک لکھی ہے۔ جُھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تُمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطِن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں۔ اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ کیا جھاڑِیوں سے انگُور یا اُونٹ کٹاروں سے انجِیر توڑتے ہیں؟۔ اِسی طرح ہر ایک اچّھا درخت اچّھا پَھل لاتا ہے اوربُرا درخت بُرا پَھل لاتا ہے۔ اچّھا درخت بُرا پَھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچّھاپَھل لا سکتا ہے۔ جو درخت اچّھا پَھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالاجاتا ہے۔ پس اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ مَیں تُمہیں نہیں جانتا۔
اگر کوئی حق مذہب کا متلاشی ہو اُسکو حق مذہب کے معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کو ئی کسوٹی نہیں ملے گی۔ اے متلاشیو میں آپ لوگوں کی خدمت میں نہایت عجز و انکساری سے منت کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کسوٹی کو عقل پر لگا کے پرکھو اور دیکھو کہ ٹھیک ہے کہ نہیں ۔ اگر ٹھیک ہے تو اُسی کسوٹی سے اپنے مذہب کو جس پر تم اب قائم ہو آزماؤ۔ اور اگر اس سے وہ ٹھیک نکلے تب تو اسکو پکڑے رکھو اگر ٹھیک نہیں تو اس پر اور مذہبوں کو آزماؤ اور جو اُس پر پورا نکلے اُسکو ختیار کرو۔
کمترین نے کواب ایک مسیحی مناد ہے اس مندرجہ بالا کسوٹی پر اس مذہب کو آزمایا ہے اور اسکو پورا پایا ہے اور طمتس ہوں کہ آپ بھی اِسے آزماؤ اور اس حق مذہب پر آکے نجات ابدی کے خواہاں ہو جاؤ۔
اور اس لئے میں اب مسیحی مذہب کی چند خوبیاں یعنے اُسکے پھل آپکے پیشکش کر کے امیدوار ہوں کہ آپ لوگ اپنیہ عنان توجہ مسیحی مذہب کی طرف پھرا کے اُسکی خوبیوں سے مستفیض ہوگے۔
کیوں نہ ہو کہ جو کام خود خدا کی طرف سے ہو اور اُسکا انتظام بھی اپسکی طرف سے کیا جاوے وہ ضرور فائدہ بخش عام ہو گا نہ صرف ایک قوم کے واسطے بلکہ سب قوموں کے واسطے مفید ہو گا ۔ اور اِسی طرح اگر خدا اپنا کو ئی حکم کسی نبی کے زریعہ فرماوے وہ نہ صرف موجودہ انسانوں کے واسطے ہی ہو گا بلکہ آنیوالی پشتوں کے واسطے بھی لازم و واجب ہو گا اور سب کے واسطے یکساں فائدہ بخش ہو گا۔
خداوند یسوع مسیح نہ صرف ایک قوم کا پیشوا ہے بلکہ تمام قومونکا۔ اُسکی پیروی سے نہ صرف ایک قوم کو فائدہ پہنچا ہے بلکہ تمام قوموں کو جنہوں نے اُسے قبول کیا ہے فائدہ کثیر پہنچا ہے۔
یہہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جہاں جس ملک یا جس قوم یا جس حکومت یس جس خاندان یا جس انسان میں مسیحی مذہب کا دخل ہوا اُسمیں اسکی ایسی تاثیر ہوئی کہ ملک یا قوم یا حکومت یا خاندان یا انسان ایک جنتنشان ہو گیا ہے۔ ملک میں امن ہو گیا قوم میں ملاپ حکومت میں انصاف خاندان میں پاکیزگی اور انسان میں خدا ترسی اور پرہیز گاری ہو گئی۔ یسعیاہ نبی کی معرفت جو کہا گیا تھا سو اُسپر صادق آتا ہے زبولون کی سر زمیں اور نفتالی کی سر زمیں یعنے غیر قومونکا جلیل جودریا کی راہ یردن کے پار ہے ان لوگوں نے جو اندھیرے میں بیٹھے تھے بڑی روشنی دیکھی اور اُنپر جو موت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے تھے نور چمکا ۔ متی ۴۔ باب ۱۵۔ آیت سے ۱۷۔ تک۔
یہہ جلیل وہ ملک ہے جہاں خداوند یسوع مسیح اپسکے ایک شہر میں جسکا نام ناصرت تھا اور ادائل عمر میں جا کر رہا تھا اور ناصری کہلاتا تھا۔ اور پھر بھی اکثر وہاں جایا کرتا تھا اور بہت لوگ اُسپر ایمان لائے تھے جس طرح پر اُس ملک میں خداوند یسوع مسیح پہنچا تھا اور اُن لوگوں پر جو موت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے تھے نور چمکا تھا اسی طرح اور ملکوں میں بھی ہوا جہاں جہاں اُسکا کلام پہنچا وہاں دہی تاچیر ہوئی کہ موت کی حالت اُن پر سے اُٹھ گئی اور وہ زندہ مخلوق بن گئے۔
یہہ کلام انگلستان میں پہنچا وہاں بھی یہی تاثیر ہوئی کہ اُس ملک کی بے دینی اور بُت پرستی دور ہو گئی۔ اور جہاں موت کا سایہ تھا کہ زندہ آدمی کو بت کے سامنھے جلا دیا کرتے تھے وہاں ایسا نور چمکا کہ یہہ سب باتیں بالکل چھوڑ دیں اور اب وہ ملک کیسا ہے۔ بتُ پرستی کا تو وہاں نام و نشان نہیں اسکے بر عکس وہ ملک ہر طرح کی عقل و علم سے بھر پور نظر آتا ہے۔ اور سچے خدا کی پر ستش کرنیوالا کہلاتا اور ہندوستان کو ہیدن ورلڈ یعنے بت پرستی کی مملکت کہتا ہے۔
یہہ کلام امریکا مین پہنچا وہاں بھی اُس سے کچھ کم فائدہ نہیں ہوا وہاں کے غلام آزاو کئے گئے اور سچے مذہب کے قبول کرنے سے ہر طرح کی ترقی اُن لوگوں میں ہوئی جو کل دنیا کو معلوم ہے کہ اُنکے زہن میں یہانتک رسائی پیدا ہوئی کہ آج دنیا میں علم و ہنر میں اپنا نظیر نہیں رکھتے۔
یہہ کلام ہندوستان میں بھی یورپ اور امریکا کے خدا پر ست اور دیندار بندونکی معرفت آپہنچا۔ جو در حقیقت یسعیاہ نبی کی معر فت موت کا ملک تھا جس مین صدہا جانیں ناحق موت کےمنُہہ میں جاتی تھیں۔ سینکڑوں آدمی تیرتھوں میں جاکے گاڑیوں اور رتھوں کے نیچے گر کے خود کشی کرتے تھے ہزاروں دیوتوں کے آگے چڑہائے جاتے تھے۔ سیکڑوں شیر خوار لڑکیئیں پیدا ہوتے ہی گلا نپت کے ماری جاتی تھیں صدہا عورتیں ستی ہو جاتی تھیں ان سب باتوں سے ہندوستان موت کا ملک نہیں تو اور کیا تھا یہہ سب باتیں مسیحی مذہب کی تعلیم ہی سے دور کی گئیں۔
مسیحی مذہب میں نہ صرف یہہ ہی خوبی ہے کہ خدا کا سچا راستہ بتاتا ہے بلکہ دنیاوی نعمتیں علم و ہنر اور کام میں دیانتداری اور سچائی جو نہایت ضرور ہیں اپنے ساتھ لاتا ہے۔ یہہ نہ صرف موت کو اٹھاتا ہے ۔ بلکہ نور چمکاتا ہے۔
اندھیرا ترک نہیں ہوتا اور اُسکو جنبش نہیں ہوئی جب تک کہ روشنی اُسپر نہ چمکے اسی طرح ہردے اور گناہ کے کام تب فروغ پاتے ہیں جب تک کہ اُنکو پُرا اور جھوٹھا ثابت کرنیوالا نہ ہو اور اُسکو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جھوٹھے مذہب بھی تب ہی تلک رونق پر رہینگے جب تک کہ سچے سے مقابلہ نہ کئے جاویں۔
جب سے کہ مسیحی مذہب کی روشنی چمکی تب ہی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک دیگر مذہبوں کو بڑی جنبش ہوئی ہے جو ایسی کہ پیشتر کبھی نہ ہوئی تھی۔
صدہا بر س کے عرصے سے محمدی مذہب جیوں کا تیوں ہی چلا آیا تھا اور اِیسی رسمیں محمدی مانتے چلے آتے تھے جنکی بابت کو ئی اُنکا مانع نہ ہوا تھا مثلاً مرُدوں کو ختم دور و دولانا اور ضیافتیں کھلانی اس امید پر کہ اُنکی رحوں کو پہنچ جاوے اور قبروں کی پر ستش بھی قدیم سے چلی آتی تھی اور بہت سی رسومات جو بالکل عیب میں داخل ہیں صدیوں سے چلی آتی تھی پر عیسائی مذہب نے ایسی روشنی چمکائی کہ اُنکو بالکل کفر اور باطل کر دکھلایا اور نیز محمدی مذہب کو بیخ دین سے ہلا دیا اور اب ان ہی دنوں میں صاحب علم اورمحمدی مذہب کے عالموں کی طرف سے ایک اور مذہب بنام نیچری مشہور ہوا بلکہ کئی ایک اور بھی فرقے جاری ہو گئے ہیں کیا یہہ سب جمبشیں مسیحی مذہب کے سبب سے نہیں ہو ئیں پھر صدہا بر س سے برہمن لوگوں کی باتیں لوگ مانتے چلے آئے اور اُنکو بڑے بزرگ اور معزز مانتے تھے۔ یہانتک کہ اپن کے پاؤں کی خاک دھو دھو کے پیتے تھےت پر عیسائی مذہب نے ثابت کر دیا کہ کل انسان یکساں گنہگار ہیں اور کو ئی آدمی دوسرے سے بہتر نہیں۔ اور سب ایک ہی آدمی کی اولاد ہیں۔ تب سے سے برہمنوں کی مانتا کم ہو گئی اور اب صرف بے علمی ہی اُنکی کچھ بات بنیں پر صاحب علم و عقل تو اُنکو اپنے سے کچھ بہتر نہیں سمجھتے بلکہ یہانتک برہمنون کی تعظیم جاتی رہی کہ جو آگے بغیر محنت اور مشقت کے بیٹھے بٹھائے کھاتے تھے۔ اب زمینداری اور دکانداری اور اَور کام کاج کرتے اوروں کی مانند اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔
صدہا بر س سے ہندو مذہب بے جمبش چلا آیا تھا پر اب اسمیں ایسی ہل چل مچ گئی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں دو اور نئے فرقے یعنے برہمو سماج اور آریا سماج کے نکلے ہیں جنہوں نے اپنے نئے اصولوں سے دکھایا کہ ہندو مذہب بہت بھولا ہوا اور بگڑا ہوا بن گیا تھا اور دھوکھے میں پڑ کے ایک نیا مذہب برہمنوں کی بھول اور شرارت سے بن گیا تھا اور اپنے نئے مذہب کے اصولوں کو بیان کر کے دعویٰ کیا کہ یہہ مذہب سچا ہے۔
واضح ہو کہ مسیحی مذہب کی روشنی کے پیشتر کبھی ایسا خیال کسی کو نہ ہوا تھا مسیحی روشنی نے اندھیرے کے کاموں کو ظاہر کر کے دکھلا دیا مگر افسوس صدا افسوس کہ اندھیرے نے اُجالے کو پسند نہ کیا جیسا یوحنا کے ۱۔ باب کی ۵ ۔ آیت میں لکھا ہے کہ اور نُور تارِیکی میں چمکتا ہے اور تارِیکی نے اُسے قبُول نہ کِیا۔ اے پڑھنے والے یہہ تو مسیحی مذہب کی بیرونی خوبیاں ہیں جواُسکی اندرونی خوبیوں کے نتیجے ہیں۔ اب میں چند اندرونی خوبیوں کا بیان کرتا ہوں۔
یہہ اندرونی خوبیاں خود خداوند یسوع مسیح اور اِسکی تعلیم سے نکلتی ہیں۔ اول خداوند یسوع مسیح ہی میں خوبیاں ہیں۔ جو خداوند یسوع مسیح کا بدن تھا اُسمین سب سے بڑی یہہ خوبی تھی کہ تمام بنی آدم کے وجود میں نسلی گناہ چلا آتا ہے مگر وہ وجود اِس گناہ سے پاک تھا۔ اور اُسمیں قدرت الہیٰ تھی اور یہہ بڑی خوبی ہے کہ اُس وجود سے کو ئی فعلی گناہ نہ ہوا اور نہ کو ئی قولی گناہ ہوا بلکہ قول اور فعل سے ایسے کام سر زد ہو ئے جو خوبیوں سے بھر پور ہیں اُسنے ایسی باتیں فرمائیں جو انسان کے بچنے اور ابدی آرام میں داخل ہو نیکی خبریں تھیں۔ اور اُسکے ایسے کام تھے جو آدمیوں کی ہر ایک مرضی اور دکھ کاٹنے اور بھوکھ پیاس کاٹنے اور آرام کے تھے۔ اور آخر اُسی بی وجود سے وہ بھاری کام انسان کی نجات کا پورا کیا جو اُسکے آسمان سے آنیکی علت نمائی تھا۔
پھر اُسکی تعلیم کی خوبیاں یہہ ہیں کہ اُنسے خدا کی زات پاک پورے بھید بتا لگایا جو کسی کو معلوم نہ ہو سکتا تھا جس طرح کہ لکھا ہے کہ باپ کو کسی نے نہ جانا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے بتا دیا۔ اور جو تعلیم اور نصیحت دی اسکی غرض گنہگار کو دوزخ سے بچانے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنانے کے بارے میں تھی۔
اور سب سے بڑی خوبی یہہ بھی تھی کہ اُس نے گنہگار وں کے بچانے کا کام پورا کر کے اُنکے واسطے اپنے آپ کو اُس وجود میں ہو کے ایک عمدہ نمونہ بنایا کہ جس طرز پر چلکے گنہگار بدی اور بُرائی سے بچا رہے اور اس دنیا میں رہکے اُس عالم جاودانی میں رہنے کے لائیق بنتا جاوے کیا یہہ پھل عیسائی مذہب کی صداقت کے گواہ نہیں ہیں اور کیا کسی اور مذہب میں پائے جاتے ہیں۔
پس اے ناظرین جو ابھی تک اُس سر چشمہ خوبیونکے پا س نہیں آیا اور نہ تو نے کسوٹی لگا کر اپنے مذہب کو آزمایا ہے آج ہی اپنے مذہب کو آزما اور بہتر کو اختیار کرتا کہ تو عدالت کے دن آسمانی خوبیوں سے محروم نہ رہے اور آخر کو شرمندہ نہ ہووے۔ خداوند یسوع مسیح کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لاتا ہے شرمندہ نہ ہوگا۔ آزما اور دیکھ ۔ اگر تو اس ایمان پر کھڑا ہووے تو ان سب خوبیوں میں تیری شراکت ہو گی اور تو ابدی آرام اور ہمیشہ کی زندگی مفت پاویگا۔
الراقم۔۔۔ کمترین جمیل سنگھ