عیسائیت

Christianity

مسیحی مذہب کی بابت  ایک عالم  کے خیالات

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

A Scholar’s view of Christianity

Published in Nur-i-Afshan August 20, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

بزرگ میتھو ہنری صاحب  فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے  عُلما  متقد میں نے مثلاً  شنللنگ فلیٹ۔ ڈاکٹر  و شببے ۔ اور مسٹر وشتن  صاحبان  نے اپنی تصنیفات  میں مسیحی  مذہب کی صداقت کے بارے میں قوی دلیلیں  پیش کی ہیں۔  اور پھر فرماتے ہیں کہ اگر میرے خیالات کسی کو فائدہ  پہنچا سکیں  تو میں  تہہ دلی  سے کہتا ہو ں کہ میں نے اس مذہب  کے  باب مین اپنے خیالوں کو حتی المقدور  جہاں تک میری رسائی ہوئی دوڑایا ہے اور اسکا یہہ نتیجہ ہوا کہ جہاں تک میں نے اُسکو سوچا مجھے اس  إزہب کی پختہ  صداقت معلوم ہونے لگی۔  اور مندرجہ  زیل خیالات  میرے  دلمیں اپسکی بابت ہوئے۔

پہلا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا جسنے اپنی قدرت کاملہ سے انسان  کو ایک  سوچ فکر اور عقل والا مخلوق بنایا ہے وہ اپنا حق  انسان پر رکھتا ہے کہ انسان اُسکے احکاموں  کو بجا لاوے۔ اور اپنی خواہشوں اور روشوں  اور کلام  و گفتار میں اپنی عقل اور تمیز کی عالی طاقت  کے تابع  رہے۔ اور جب میں اپنے دلکی  بابت خیال کرتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ عجیب بناوٹ  خاص خالق  کی سکونت گاہ بنائی گئی تھی۔  جسمیں سرف اُسی کی فرمانبرداری  ہونی چاہئے تھی۔

دوسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا کی مہربانی پر میری خوشی اور شادمانی منحصر ہے اُسی اندازے  پر جسمین کہ میں اُسکے حکموں پر عمل کروں جو اُسکی طرف سے مجھپر  فرض ہیں۔ اور مین اپنکا جواب دہ ہوں نہ صرف اس دنیا میں بلکہ دنیا آیندہ میں بھی۔

تیسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میری خاصیت  اُس آدم  سے بہت مختلف  ہے جو پہلے خالق  کے ہاتھ سے بنا تھا کیونکہ اِس سے اصلی صداقت اور پاکیزگی جاتی رہی مجھ میں ایک ایسی  خاصیت  ہے جو مجھکو میرے فرائیض  سے روگرداں  کرتی ہے اور روحانی  اور آسمانی  باتوں سے بر گشتہ  کرتی  ہے۔ اور بدی کا میلان دلاتی ہے۔ اور دنیا اور جسمانی باتوں  کی طرف ایسا رجوع کرتی ہے کہ بعض وقت قریب  ہوتا ہے کہ میں زندہ خدا سے پھر جاؤں ۔

چوتھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اس  گناہ کی خاصیت کے سبب میں خدا کی مہر بانی سے گر گیا ہوں اور اگرچہ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا رحیم  اور مہربان ہے پر یہہ خیال بھی میرے دل میں آتا ہے کہ  وہ منصف اور عادل بھی ہے اور گنہگار ہونیکے باعث  میں اُسکی پاک درگاہ میں جانیکے ناقابل ہو گیا ہوں  اور اُسکے  جلال کے بالکل  ناقابل بن گیا ہوں۔

پانچواں ۔ اور میں خیال کرتا ہوں  کہ  خدا کی مرضی کے خاص اظہار کے بغیر میں اُسکی مہربانی کو پھر حاصل نہیں کر سکتا اور  نہ میں پہلی حالت میں بحالی ہو کر خدا کے ساتھ ملاپ کر سکتا ہون اور نہ اپنے خالق  کی خدمت  کے لائق ٹھہر سکتا ہوں اور نہ میں اپنے پیدا ہونے کی غرض  کو پورا کر سکتا اور نہ آئندہ دنیا کے لائق ہو سکتا ہوں ۔

چھٹا۔ مین خیال کرتا ہوں کہ گناہ اور اُسکی سزا سے  بچنے اور نجات پانے کا عمدہ طریقہ یسوع مسیح سے ظاہر ہوا جو اُسکے خدا اور آدمیونکے درمیان  درمیانی ہونیکے سبب سے نئے  و سیقے مین مندرج ہے۔ اور میرا یقین ہے کہ یہہ طریقہ میری تمام بُرائیاں اور کمتیاں پوری کرنیکے قابل ہے کہ مجکو خدا کی مہر بانی میں پھر بحال  کرے اور ابدی خوشی کا مستحق بنادوے  کیونکہ مجھکو اسمیں گناہ کے دور کرنیکا عمدہ وسیلہ معلوم ہوتا ہے کہ میں شروع کے فتویٰ سے موت میں نہ  پڑوں،جو خدا کے بیٹے کی بڑے اور کمال درجے کی راستبازی سے مقرر ہو اور یہہ گناہ کی طاقت  کو توڑنیکا عمدہ وسیلہ  ہے (کہ میں گناہ  کی بیماری  میں ہلاک نہ ہوں) جو روح القدس کے زور موثر سے جاری ہوا۔ اسمیں ہر ایک گناہ کاچارہ ہو گیا ہر ایک رنج وغم خوشی سے مبدّل  ہو گیا اور اِس صورت سے ہوا جسمیں خالق کی بڑی دانائی اور تجّلی ظاہر ہوئی اور جو انسان جیسے مخلوق  کے لئے زیبا ہے۔

ساتواں۔ میں خیال کرتا  ہوں  کہ مسیحی مذہب (نیجرل  رلیجس) مذہب  طبعی کے خلاف نہیں  ہے بلکہ  پچھلا پہلےکی پختگی ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ تمام صداقتیں  جو نیچر  میں مجھکو ملتی ہیں  انجیل سے زیادہ واضح  طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔  اور اِس چیز کا جسکا  نیچر  مجھکو  دھندھلا سا پتا دیتی ہے انجیل مقدس  اُسکا  پورا پتا لگاتی ہے تمام نیک کام جو فرض ہیں اور لازآف  نیچر سے مجھے  ملتے ہیں انجیل  میں عمدہ طور پر زیادہ سریح  کر کے موجود  اور انکا ماننا مجھے نہایت ضرور  معلوم ہوتا ہے۔ یہہ مجھکو  میرے فرضوں  میں مشغول ہونیکا  عمدہ  طریقہ  بناتی ہے اور  اُنمیں  مجھے زیادہ دلیری اور مدد دیتی ہے۔ اور  اول امور میں  جنمیں نیچر مجھکو بلکل ادھر میں چھوڑ دیتی ہے اور ساقط ہو جاتی ہے انجیل مجھکو آگے پوری منزل تک پہنچا کے میری  پوری تسلیّ کرتی ہے۔ خاص کر خدا  کا گناہ کے بارے مین انصاف سے راضی ہونا اور انصاف کا پورا  ہونا۔ میرا ضمیر مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں کسطرح خدا کے حضور  پہنچوں اور کسطرح اُس عالی شان خدا کو خوش  کروں۔ کیا وہ ہزارہا  مینڈھوں کی قربان سے خوش  ہو گا۔ لیکن میرے ضمیر  کو اُسکا  پورا جواب نہین ملتا۔ پر اس موقعہ پر انجیل مقّدس  نے مجھے پوری تسلیّ  دی کہ یسوع  مسیح  نے اپنے آپ کو قربان ہونیکے لئے گزران دیا ہے اور خدا نے بھی  اظہار کیا ہے کہ میں خوش ہوں۔

آٹھواں۔  میں خیال کرتا ہوں  کہ وہ ثبوت  جو خدا  نے انجیل کی سچائی  کے ثابت  کرنے کے لئے رکھے ہیں بہت ٹھیک ہیں  جو اسکا ثبوت بدرجہ  ادلیٰ  کرتے ہیں۔ مثلاً کہ شفیع  کی طاقت  اور آفت فضل کی بادشاہت  میں دنیا میں  اسطرح  ظاہر ہوئی کہ نیچر کی حکومت کے موافق اُسکی حکومت ہوئی نہ کہ دنیا کے عالیشان اور بڑے بڑے بادشاہوں کے  دبدبے اور شان شوکت  کے ساتھ  ہے جیسا  کہ یہودیوں نے خیال کیا تھا اور  یسوع مسیح سے ٹھوکر کھائی۔ لیکن  اُسکی بادشاہت آسمانی  اور راحانی تھی۔ اور اسطرحپر اُسکے معجزے جو آدمیوں پر ظاہر ہوئے  جب یسوع مسیح  دنیا پر نہ صرف  لوگوں کے جسمانی مرضوں کے رفع کرنے میں تھے بلکہ اُنکے دلسے تعلق تھے جیسے اُنکے دلوں پر اثر ہوتا تھا جو روح القدس کی تاثیر سے ہوا۔ آگ کی زبانوں کے بخشے  جانے اور اَور روحانی نعمتوں کے بخشنے مین یہہ انجیل کے لئے بڑے ثبوت ہیں  جنسے  بڑی غرض انسان پاک اور صاف بنانا مدنظر تھا۔

نوواں ۔ میں اُس طریقہ کو خیال کرتا ہون جسمیں انجیل عجیب طور پر پھیل  گئی اور اُس عجیب کامیابی کا خیال  کرتا  ہون جو بالکل روحانی  اور آسمانی ہے۔ اور دنیاوی فائدے اور مدد سے بالکل  بے پہرہ ہے۔  اس سے صرف  ظاہر ہوتا ہے کہ یہہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور خدا اور حقیقت  اسکے ساتھ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی مخالفت  میں کسطرح ہو سکتا تھا کہ یہہ مذہب اسطرح  پر پھیل  جاتا۔ اور آج تک اسکا دنیا میں بے جنمبش  چلا آتا باوجودے اتنی بڑی روکاوٹوں کے میرے خیال میں ایک  ظاہر ا اور کافی  ثبوت ہے۔ اور آخر کار میرا یہہ  خیال  ہے کہ  مسیح  کی انجیل کی میرے دلپر ایسی تاثیر ہوئی ہے اور مجھ  پر ایسا غلبہ ہوا اور مجھکو اس  سے ایسی تسلّی ہوئی ہے کہ یہہ میرے لئے ایک پوری دلیل  ہے کہ یہہ سچا  طریقہ  ہے چاہے کسی دوسرے کے واسطے نہ ہو۔ میں نے اسمیں اسباتکا ثبوت  پایا ہے کہ خدا رحیم ہے۔ اور جسطرح کو ئی  بڑا ہوشیار فریب دہندہ  اُس شخص کو جس نے ایک دفعہ  شہد چکھا ہو یقین نہین دلا سکتا کہ چہد میٹھا نہیں  اسیطرح مجھے جس نے مسیحی  مذہب کا مزہ چکھا ہے کسیطرح یقین نہیں کروا سکتا  کہ مسیحی مذہب  سچا  نہیں۔

مندرجہ  بالا بیان سے جو بڑے زور کے ساتھ ایک عالم سے تحریر ہو اہم صرف  دو باتیں  نکال  سکتے ہیں۔ اول کہ اُس نے مسیحی  مذہب کی تحقیق  صدق دلی سے کر کے اُسکو راست پایا اور قبول کیا۔

دویم کہ اُسکی تاثیر اُسکے  دلپر ہوئی جسکا جوش  اُسکے  دلمیں پایا جاتا ہے۔

کاش کہ مخالف  مذہب عیسوی زرہ غور سے پڑھکر  ان باتونپر سوچیں  اور اپنے مذہب کو اس سچے  مذہب  کے ساتھ  مقابلہ کریں تب امید  ہے کہ اگر صدق دلسے یہہ کام انجام پاوے گا تو یہہ نتیجہ ہو گا کہ معترض اس حق مذہب کو اختیار کریگا۔ اور نجات پاویگا۔

راقم ۔ بندہ جمیل سنگھ

مسیحی مذہب کی خوبیاں

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

The Qualities of Christianity

Published in Nur-i-Afshan June 18, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

 دنیا میں سیکڑوں مذہب اور اُن کے ہزارہا فرقے موجود ہیں اور ہر ایک مذہب اور فرقے کا کوئی نہ کوئی بانی مبانی ہے اور اُسکی حسب مرضی وہ مذہب ٹھہرایا  ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مذہب  صرف ایک ہی ہونا چاہئے  اور وہ خدا  کی طرف سے اور اُسکی مرضی  کے مطابق ٹھہرایا ہوا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اتنے مذہب  اور فرقونکا جو ایک دوسرے  سے بالکل  خلاف ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو رد کرتا ہے خدا کی طرف سے  ہونا کسی  طرح ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک حکم کا امر فرماوے اور پھر اُسکی نفی کرے اس سے خدا کا حکم ناکامل  سمجھا جاویگا حالانکہ  سب اسبات پر متفق  ہیں کہ خدا کے تمام احکام  کامل اور صادق  ہیں اور کبھی بدلتے نہیں۔

اب اس میں یہہ مشکل درپیش ہو ئی کہ ہر ایک مذہب کو آزمانا پڑا ور  اگر نہ آزمایا جاوے  تو شائد جھوٹھے ہی کو سچ جانکر مانا ہو اور آخر کو زلیل ہونا پڑے  اور الہیٰ کچھری میں روسیاہ ہو کر عذاب الہیٰ کے نیچے آنا پڑے۔ اس لئے  ہر ایک فرد بشر واجب و لازم ہوا کہ مذہب کو سمجھ بوجھ  کے اختیار کرے اوراسکے آزمانے کے لئے کمال درجے کی ہوشیاری کام میں لاوے۔

خداوند یسوع مسیح شافی حقیقی  اور پیشواے  صادق نے یہہ ایک کسوٹی بتلائی ہے جس سے یہہ مذہبوں  کے پیشوا پر کہے جاتے ہیں  جو متی کی انجیل کے ۷ ۔ باب کی ۱۵ سے ۲۱۔ آیت تک لکھی ہے۔  جُھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تُمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطِن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں۔  اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ کیا جھاڑِیوں سے انگُور یا اُونٹ کٹاروں سے انجِیر توڑتے ہیں؟۔  اِسی طرح ہر ایک اچّھا درخت اچّھا پَھل لاتا ہے اوربُرا درخت بُرا پَھل لاتا ہے۔ اچّھا درخت بُرا پَھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچّھاپَھل لا سکتا ہے۔  جو درخت اچّھا پَھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالاجاتا ہے۔  پس اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ مَیں تُمہیں نہیں جانتا۔

اگر کوئی حق مذہب کا متلاشی ہو اُسکو حق مذہب کے معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کو ئی کسوٹی  نہیں ملے گی۔ اے متلاشیو میں آپ لوگوں کی خدمت میں نہایت عجز و انکساری سے منت کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کسوٹی کو عقل پر  لگا کے پرکھو اور دیکھو کہ ٹھیک  ہے کہ نہیں ۔  اگر  ٹھیک ہے تو اُسی کسوٹی سے اپنے مذہب کو جس پر تم اب قائم ہو  آزماؤ۔ اور اگر اس  سے  وہ ٹھیک  نکلے تب تو اسکو پکڑے رکھو اگر  ٹھیک  نہیں تو  اس پر اور مذہبوں کو آزماؤ اور جو اُس  پر پورا نکلے اُسکو ختیار کرو۔

کمترین  نے کواب ایک مسیحی مناد ہے اس مندرجہ بالا  کسوٹی  پر اس مذہب کو آزمایا ہے اور اسکو پورا پایا ہے اور طمتس  ہوں کہ آپ بھی اِسے آزماؤ اور اس حق  مذہب پر آکے نجات ابدی کے خواہاں ہو جاؤ۔

اور اس لئے میں اب  مسیحی  مذہب کی چند خوبیاں یعنے اُسکے پھل آپکے  پیشکش کر کے امیدوار ہوں کہ آپ لوگ اپنیہ عنان توجہ مسیحی  مذہب کی طرف پھرا کے اُسکی خوبیوں سے مستفیض  ہوگے۔

کیوں نہ ہو کہ جو کام  خود خدا کی طرف سے ہو اور اُسکا انتظام بھی اپسکی طرف سے کیا جاوے وہ ضرور فائدہ  بخش عام ہو گا نہ صرف ایک قوم کے واسطے بلکہ  سب قوموں  کے واسطے مفید ہو گا ۔ اور اِسی طرح اگر خدا اپنا کو ئی حکم  کسی نبی کے زریعہ  فرماوے وہ نہ صرف  موجودہ انسانوں کے واسطے ہی ہو گا بلکہ آنیوالی  پشتوں کے واسطے بھی لازم  و واجب ہو گا اور سب کے واسطے یکساں فائدہ بخش ہو گا۔

خداوند یسوع مسیح نہ صرف ایک قوم کا پیشوا ہے بلکہ تمام قومونکا۔ اُسکی پیروی سے نہ صرف ایک قوم کو فائدہ پہنچا ہے بلکہ تمام قوموں کو جنہوں نے اُسے  قبول کیا ہے فائدہ کثیر  پہنچا ہے۔

یہہ بات اظہر  من الشمس  ہے کہ جہاں جس ملک یا جس قوم یا جس حکومت یس جس خاندان  یا جس انسان میں مسیحی مذہب کا دخل  ہوا اُسمیں اسکی ایسی تاثیر ہوئی کہ ملک یا قوم یا حکومت  یا خاندان یا انسان  ایک جنتنشان ہو گیا  ہے۔ ملک میں امن ہو گیا  قوم  میں ملاپ  حکومت میں انصاف خاندان میں پاکیزگی اور انسان میں خدا ترسی اور پرہیز گاری ہو گئی۔ یسعیاہ نبی کی معرفت جو کہا گیا تھا سو اُسپر  صادق آتا ہے  زبولون کی سر زمیں اور نفتالی کی سر زمیں یعنے غیر قومونکا جلیل جودریا کی راہ یردن کے پار ہے ان لوگوں نے جو اندھیرے میں بیٹھے تھے  بڑی روشنی  دیکھی  اور اُنپر جو موت کے ملک  اور سایہ  میں بیٹھے  تھے نور چمکا ۔ متی ۴۔ باب ۱۵۔ آیت  سے ۱۷۔ تک۔

یہہ جلیل وہ ملک ہے جہاں خداوند  یسوع  مسیح اپسکے ایک شہر میں جسکا نام ناصرت  تھا اور ادائل عمر میں جا کر رہا تھا اور ناصری کہلاتا تھا۔  اور پھر بھی  اکثر وہاں  جایا کرتا تھا اور بہت لوگ اُسپر ایمان لائے تھے جس طرح پر اُس ملک میں خداوند  یسوع مسیح  پہنچا تھا اور اُن لوگوں پر  جو موت کے ملک اور سایہ  میں بیٹھے تھے نور چمکا تھا اسی طرح اور ملکوں  میں بھی ہوا جہاں جہاں اُسکا  کلام پہنچا  وہاں دہی  تاچیر ہوئی  کہ موت کی حالت  اُن پر سے  اُٹھ گئی  اور وہ زندہ مخلوق بن گئے۔

یہہ کلام انگلستان  میں پہنچا وہاں بھی  یہی  تاثیر  ہوئی  کہ اُس  ملک کی بے دینی  اور بُت پرستی دور ہو گئی۔ اور جہاں موت کا سایہ تھا کہ زندہ آدمی کو بت کے سامنھے  جلا دیا کرتے تھے وہاں  ایسا نور چمکا کہ یہہ  سب باتیں  بالکل چھوڑ دیں اور اب وہ ملک کیسا ہے۔  بتُ پرستی کا تو وہاں  نام و نشان نہیں  اسکے بر عکس وہ ملک ہر طرح کی عقل و علم  سے بھر پور  نظر آتا ہے۔ اور سچے خدا کی پر ستش  کرنیوالا کہلاتا  اور ہندوستان کو  ہیدن ورلڈ  یعنے  بت پرستی کی مملکت کہتا ہے۔

یہہ کلام امریکا مین پہنچا وہاں بھی اُس سے کچھ کم فائدہ  نہیں  ہوا وہاں کے غلام  آزاو کئے گئے اور سچے مذہب کے قبول کرنے سے ہر طرح کی ترقی اُن  لوگوں  میں  ہوئی جو کل دنیا کو معلوم  ہے کہ اُنکے زہن میں یہانتک رسائی  پیدا ہوئی  کہ آج دنیا میں علم و ہنر میں اپنا نظیر نہیں رکھتے۔

یہہ کلام ہندوستان  میں بھی یورپ اور امریکا  کے خدا پر ست اور  دیندار بندونکی  معرفت آپہنچا۔  جو در حقیقت  یسعیاہ نبی کی معر فت  موت کا ملک تھا جس مین صدہا جانیں ناحق  موت کےمنُہہ میں جاتی تھیں۔ سینکڑوں  آدمی  تیرتھوں میں جاکے  گاڑیوں اور رتھوں کے نیچے گر کے خود کشی کرتے تھے  ہزاروں دیوتوں کے آگے  چڑہائے جاتے تھے۔ سیکڑوں شیر خوار  لڑکیئیں  پیدا  ہوتے  ہی گلا نپت کے ماری جاتی تھیں  صدہا عورتیں ستی ہو جاتی تھیں ان سب  باتوں سے ہندوستان موت کا ملک  نہیں  تو اور کیا تھا یہہ سب باتیں  مسیحی مذہب  کی تعلیم  ہی سے دور کی گئیں۔

مسیحی مذہب میں نہ صرف یہہ ہی خوبی  ہے کہ خدا کا سچا  راستہ بتاتا ہے بلکہ دنیاوی نعمتیں  علم  و ہنر اور کام میں دیانتداری اور سچائی جو نہایت ضرور  ہیں  اپنے ساتھ  لاتا ہے۔ یہہ نہ صرف  موت کو اٹھاتا ہے ۔ بلکہ نور چمکاتا ہے۔

اندھیرا ترک نہیں ہوتا  اور اُسکو جنبش  نہیں ہوئی جب تک کہ روشنی اُسپر نہ چمکے  اسی طرح  ہردے اور گناہ کے کام تب فروغ پاتے ہیں جب تک کہ اُنکو پُرا  اور جھوٹھا ثابت  کرنیوالا نہ ہو  اور اُسکو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جھوٹھے مذہب  بھی تب ہی تلک رونق پر رہینگے جب تک کہ سچے سے مقابلہ  نہ کئے جاویں۔

جب سے کہ مسیحی مذہب کی روشنی  چمکی تب ہی سے ہم دیکھتے  ہیں کہ  ہر ایک دیگر  مذہبوں کو  بڑی جنبش ہوئی  ہے جو ایسی کہ پیشتر  کبھی نہ ہوئی تھی۔

صدہا بر س کے عرصے  سے محمدی  مذہب جیوں کا تیوں ہی چلا آیا تھا اور اِیسی رسمیں  محمدی مانتے چلے آتے تھے جنکی بابت کو ئی اُنکا مانع  نہ ہوا تھا مثلاً مرُدوں کو ختم  دور و دولانا اور ضیافتیں  کھلانی اس امید پر کہ اُنکی  رحوں کو پہنچ جاوے اور قبروں کی پر ستش  بھی قدیم سے چلی آتی  تھی اور بہت سی  رسومات جو بالکل عیب میں داخل  ہیں صدیوں سے چلی آتی تھی  پر عیسائی مذہب نے ایسی  روشنی  چمکائی کہ اُنکو  بالکل کفر اور باطل کر دکھلایا  اور نیز محمدی  مذہب  کو  بیخ دین سے ہلا دیا اور اب  ان ہی دنوں  میں صاحب علم اورمحمدی مذہب کے عالموں کی طرف سے ایک  اور مذہب بنام  نیچری مشہور ہوا  بلکہ کئی ایک اور بھی فرقے جاری ہو گئے  ہیں کیا یہہ سب  جمبشیں  مسیحی  مذہب کے سبب سے نہیں ہو ئیں پھر صدہا بر س سے برہمن  لوگوں کی باتیں لوگ مانتے چلے آئے  اور اُنکو بڑے بزرگ اور  معزز مانتے تھے۔ یہانتک  کہ اپن کے پاؤں کی خاک دھو دھو کے پیتے تھےت پر عیسائی مذہب نے ثابت کر دیا کہ کل انسان یکساں گنہگار ہیں اور کو ئی آدمی دوسرے سے بہتر نہیں۔ اور سب ایک  ہی  آدمی  کی اولاد ہیں۔  تب سے  سے برہمنوں کی  مانتا کم ہو گئی اور اب  صرف بے علمی ہی  اُنکی کچھ  بات  بنیں پر صاحب  علم  و عقل تو اُنکو  اپنے سے  کچھ بہتر نہیں سمجھتے  بلکہ یہانتک  برہمنون کی تعظیم جاتی رہی کہ  جو آگے بغیر  محنت  اور مشقت کے بیٹھے  بٹھائے کھاتے تھے۔  اب زمینداری  اور دکانداری اور اَور کام کاج کرتے  اوروں  کی مانند اپنی روزی  حاصل کرتے ہیں۔

صدہا بر س سے ہندو مذہب  بے جمبش چلا آیا تھا پر اب اسمیں ایسی ہل چل مچ گئی ہے کہ تھوڑے  ہی عرصے میں دو اور نئے فرقے یعنے برہمو سماج اور آریا  سماج  کے نکلے ہیں جنہوں نے اپنے نئے اصولوں سے دکھایا کہ  ہندو مذہب  بہت  بھولا ہوا اور بگڑا ہوا  بن گیا تھا اور دھوکھے میں  پڑ کے ایک  نیا مذہب برہمنوں کی بھول اور شرارت  سے بن گیا تھا اور اپنے نئے مذہب کے اصولوں کو بیان کر کے  دعویٰ کیا کہ یہہ مذہب  سچا ہے۔

واضح ہو کہ مسیحی مذہب کی روشنی کے پیشتر کبھی ایسا خیال کسی کو نہ ہوا تھا  مسیحی روشنی نے  اندھیرے کے کاموں  کو ظاہر کر کے دکھلا دیا مگر افسوس صدا افسوس کہ اندھیرے نے اُجالے کو پسند نہ کیا جیسا یوحنا  کے  ۱۔ باب کی ۵ ۔ آیت  میں  لکھا ہے کہ  اور نُور تارِیکی میں چمکتا ہے اور تارِیکی نے اُسے قبُول نہ کِیا۔ اے پڑھنے  والے یہہ تو مسیحی مذہب کی بیرونی خوبیاں ہیں  جواُسکی  اندرونی خوبیوں  کے نتیجے  ہیں۔ اب میں چند اندرونی خوبیوں کا بیان کرتا ہوں۔

یہہ اندرونی خوبیاں خود خداوند یسوع مسیح اور اِسکی  تعلیم سے نکلتی ہیں۔ اول خداوند یسوع مسیح ہی میں خوبیاں ہیں۔ جو خداوند یسوع مسیح کا بدن تھا اُسمین سب سے بڑی یہہ خوبی تھی کہ تمام  بنی آدم کے وجود میں نسلی  گناہ چلا آتا ہے مگر وہ وجود اِس  گناہ سے پاک تھا۔ اور اُسمیں  قدرت الہیٰ تھی  اور یہہ  بڑی خوبی ہے کہ اُس وجود  سے کو ئی فعلی گناہ  نہ ہوا اور نہ کو ئی قولی گناہ ہوا  بلکہ قول  اور فعل سے ایسے  کام سر زد ہو ئے  جو  خوبیوں سے بھر پور ہیں  اُسنے ایسی باتیں فرمائیں جو انسان  کے بچنے اور ابدی آرام میں داخل  ہو نیکی  خبریں تھیں۔ اور اُسکے ایسے کام تھے جو آدمیوں کی ہر ایک مرضی اور دکھ کاٹنے اور بھوکھ پیاس  کاٹنے اور آرام کے تھے۔ اور  آخر اُسی  بی وجود سے وہ بھاری  کام انسان کی نجات  کا پورا کیا  جو اُسکے آسمان سے آنیکی  علت نمائی تھا۔

پھر اُسکی تعلیم کی خوبیاں یہہ ہیں کہ اُنسے خدا کی زات پاک پورے بھید  بتا لگایا  جو کسی کو معلوم نہ ہو سکتا تھا جس طرح کہ لکھا ہے کہ باپ کو کسی نے نہ جانا  اکلوتا بیٹا  جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے بتا دیا۔ اور جو تعلیم اور نصیحت دی اسکی غرض گنہگار کو دوزخ سے بچانے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنانے کے بارے میں تھی۔

اور سب سے بڑی خوبی یہہ بھی تھی کہ اُس نے گنہگار وں کے بچانے کا کام پورا کر کے اُنکے واسطے اپنے آپ کو اُس وجود میں ہو کے ایک عمدہ نمونہ بنایا کہ جس طرز پر چلکے گنہگار بدی اور بُرائی  سے بچا رہے اور اس دنیا میں رہکے اُس عالم  جاودانی میں رہنے کے لائیق بنتا جاوے کیا یہہ پھل عیسائی مذہب کی صداقت کے گواہ نہیں ہیں اور کیا کسی اور مذہب  میں پائے جاتے ہیں۔

پس اے ناظرین جو ابھی تک اُس  سر چشمہ خوبیونکے پا س نہیں آیا اور نہ تو  نے کسوٹی لگا کر اپنے مذہب  کو آزمایا ہے آج ہی اپنے مذہب کو آزما اور بہتر کو اختیار  کرتا  کہ تو عدالت کے دن آسمانی خوبیوں سے محروم نہ رہے اور آخر کو شرمندہ  نہ ہووے۔ خداوند یسوع مسیح کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لاتا ہے شرمندہ نہ ہوگا۔ آزما  اور دیکھ  ۔ اگر تو اس ایمان پر  کھڑا ہووے تو ان سب خوبیوں میں تیری شراکت ہو گی  اور تو ابدی آرام اور ہمیشہ کی زندگی  مفت پاویگا۔

الراقم۔۔۔ کمترین جمیل سنگھ

عیسائی مذہب سے دنیا کی دُشمنی

اِس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ سب کہیں اُسے  بُرا کہتے ہیں ۔
اعمال  ۲۸  باب  ۲۲  آیت

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Christianity and its Rival

Published in Nur-i-Afshan September 17, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

ابتداء  دنیا سے جب سے کہ آدم  زاد زمیں پر آباد ہوئے مذہب عیسوی  سے دنیا کی دُشمنی  ثابت ہے۔ جتنے نبی اُس نجات دہندہ  بانیٔ مذہب عیسوی خداوند یسوعمسیح کی خبر دینیوالے خدا کی طرف سے بھیجے گئے اُن  سے خلقت نے دشمنی کی۔ اور جب وقت معیّن پر  یہہ نجات دہندہ  جامہ انسانی مین ظاہر ہوا دُنیا  نے اپس سے ازحد دشمنی  کی۔ اور جب وہ اپنا کام جسکے واسطے وہ مجسم ہوا تھا  کر چکا  تھا  اور آسمان پر صعود  فرما گیا تھا اُسکے حواری  اُسکے بعد  مثرد ہ ٔ نجات بخش کو عالم میں سُنانے لگے تو اُن  سے بھی دیسی ہی  دشمنی کی۔  شروع میں جب پولوس  رسول  بڑی سرگرمی کے ساتھ انجیل کی بشارت دیتا تھا اور قوی  دلیلوں  سے یہودیوں کو قائل کرتا تھا کہ یسوع وہی مسیح ہے جسکو تم نے  کاٹھہ پر لٹکا کے مار ڈالا اُسی کو خدا نے مرُدوں میں سے اُٹھا  میں سے اُٹھایا  کہ زندوں  اور مرُدوں کا انصاف  کر نیوالا  ہو۔ اور اُسی سبب سے  سب عام و خاص  سب رسولوں سے اور شاگردوں سے عداوت  کرتے تھے اور جیوں جیوں اِس مذہب کی شہرت ہوتی جاتی تھی تیوں تیوں  لوگوں کی دشمنی زیادہ  بڑھتی  جاتی تھی۔ اور اُن کو عدالتوں میں بھی اِسی سبب سے کھینچ کر لے جاتے تھے۔ تب یہودی سرداروں نے سُنکر  کہا کہ اِس فرقہ کی بابت ہمکو معلوم  ہو کہ  سب کہیں اُسے بُرا کہتے ہیں ۔ یہہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود وہ سب معجزے اور کراماتیں جو خداوند یسوع  نے اُنکے  بیچ کئے تھے دیکھے تھے۔ اور پھر  بھی اُسے بُرا کہتے تھے اور جان بوجھ ک اُسکی مخالفت کرتے تھے۔ اسمین تین سوالات لازم آتے  ہین اولاً  کہ کون  عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جسکے سبب سے لوگ دشمن  بن جاتے ہیں۔ ثالثا  ً  ۔ کیوں ایسے مذہب سے جسمیں  نجات  کا سب سے افضل طریقہ ملتا ہے۔

اولاً۔ کون عیسائی  مذہب  کے دشمن ہیں۔ دنیا اُسکی دشمن ہے۔ دنیا کے قومیں اور بادشاہ  اُسکے دشمن ہیں۔  داؤد  کے زبور میں لکھا ہے۔ قومین کس لئے جوش میں ہیں اور لوگ باطل  خیال کرتے  زمین  کے بادشاہ سامھنا کرتے ہیں اور سردار آپس میں  خداوند کے اور اُسکے مسیح  کے مخالف منصوبے باندھتے ہیں ۔ الخ ۲ زبور ۱، ۲، ۳۔ آیتیں ۔ تواریخ سے بھی  چابت ہے کہ قوموں اور اُنکے بادشاہوں نے  اس مذہب  کے درہم برہم کرنے کے لئے  کیسے کیسے منصوبے باندھے  ہیں اور کیسی  بڑی بڑی  سازشیں  کی ہیں قوموں نے ملک اپنے بادشاہوں  کو اس بات کی مخالفت  میں اُٹھایا ہے۔ اور بادشاہوں نے اُسکے  برخلاف  فرماں  جاری کءے ہیں اور شاہی زمانوں  سے اُسکے نیست کرنے  کے بجد درپے ہوءے ہیں ۔ نیر جیسے ظالم  بادشاہ نے اُسکی مخالفت  میں کوئی  تدبیر  فردگزاشت نہ کی۔ مگر ایسے سب مخالفوں  کی کوششیں  ناکامیاب  نکلیں اور عیسائی مذہب کا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ایک بال بھی بنیکا نہ کر سکے۔ اب تک یہہ دشمنی  فرد نہیں ہوئی بلکہ بر ابر  چلی جاتی ہے تمام  دنیا  کی قوموں نے اس مزہب سے دشمنی کی  ہے۔ اِس ملک  ہندوستان  میں کتنی  قومیں آباد  ہیں اور آپسمیں  ہر ایک قوم تھوڑا بہت  ملاپ رکھتی ہے اور سب اتفاق  سے اپنے گھروں میں آباد ہیں مگر کیا کو ئی  ایسی قوم  ہے جو عیسائی مذہب سے اتفاق  رکھتی ہے اور میل ملاپ  رکھتی ہے  ایک بھی نہیں۔ پر اسکے سوا سب قومیں  اِس مذہب کی یہانتک  ضد میں ہیں  کہ اگر کو ئی  ایسا موقع حکومت کی ہل چل کا پڑ جاتا ہے تو دل عیسایوں کو برباد کرنے اور قتل  کرنے کے لئے متفق ہوتے ہین  جیسا کہ سن ۱۸۵۷ ء کے غدر  میں فی الحال دیکھنے میں آیا تھا بے چارے  عیسائی ناحق  سیکڑوں مارے گئے اور غدر میں کسی قوم  کو ایسی  تکلیف نہ تھی  جتنی کہ عیسایوں کو تھی بلکہ سب قومیں ایسے وقت کو غنیمت جان کر عیسایوں کا خون پینے پر مستعد  ہوجانے کو تیار معلوم  ہوتی ہیں کیا  بیچارے عیسایوں کا حکومت  میں کچھ  دخل تھا جو اُن  بے کسوں  کو نا حق  قتل کیا لیکن صرف یہہ سب کچھ عیسائی مذہب کے سبب سے ہوا ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی  مزہب سے سب قوموں  کو از حد دشمنی ہو۔

(۲)عیسائی مذہب کے دشمن اس دنیا کے عالم فاضل لوگ ہیں۔ بڑی بڑی کتابیں اس مذہب  کی مخالفت میں چھاپی جاتی ہین اور برابر  بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ تواریخوں میں بھی پچھلے وقتوں کے  مورخوں نے عیسائی  مذہب کے دشمن تھے اپنی دشمنی ظاہر  کی ہے اور آجکل بھی یہہ ہی حال ہے مگر مخالفوں  کامنُہہ خدا کے فضل سے بر ابر  بند ہوتا چلا آیا  اور خدا کے کلام کی دو دھاری  تلوار اُنکے سب اختلاف کو قلم کرتی آئی ہے اور خواہ مخالف  عالم ہوں یا جاہل  سب شرمندہ کئے جاتے ہیں یہہ بات اس مذہب کی صداقت کی بڑی  بھاری دلیل ہے۔

(۳)ادنٰی اور اعلیٰ امیر و فقیر اور اونچ نیچ سب عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ادنیٰ سے ادنیٰ عیسائی مذہب  کو بڑا کہتا ہے اور خواہ مخواہ اپنی نفرت اس سے ظاہر کرتا ہے ۔ اعلیٰ لوگ کہتے ہیں کہ عیسائیونمیں  کوئی  شریف نہیں ہوتا۔ سب ادنی  ٰ لو گ ہوتے اسواسطے ہم کو یہہ مذہب  پسند نہیں۔ ایسا کہنا تو بالکل بے انصافی  کی بات ہے کیا  ایک قوم  میں سب آدمی شریف ہی ہوتے ہین اور کیا سب ہی ادنیٰ ہں  اور کیا سب امیر ہوتے  ہیں  اور غریب  نہیں ہوتے  اگرچہ  عیسائی مذہب میں غریب  و کم قدر  لوگ ہیں تو کیا  اُسمیں شریف  و امیر لوگ  مطلق ہی نہیں  ایسے آدمیوں کو چاہئے کہ دنیا میں جا کر  عیسائی قوموں کو  دیکھیں  اور عیسائیوں سے واقفیت حاصل کریں تب اُن کو اُنکے کہنے کا جھوٹھ سچ معلوم ہو جاویگا۔  امیر لوگ کہتے ہیں  کہ کیا ہم عیسائی  بنکر  فقیر بن جاویں  اور فقیر لوگ  کہتے ہیں کہ ہمکو بھیک مانگکر  کھانا اچھا  ہے  مگر عیسائی  ہونا اس سے بھی  برُا ہے۔ اونچ یعنے وہ لوگ  جو اپنی زات کو اونچا گنتے ہیں  کہتے ہیں کہ عیسائی مذہب سب سے نیچ قوم  اِن ہے  جب اُنسے  سبب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں  نیچ  قوم  اِن میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم کہتے ہیں مسلمانوں  میں بھی نیچ لوگ  شامل ہو جاتے ہیں اور تم اُن  کے ساتھ ایسا سلوک  نہیں کرتے  تو اُسکا جواب کچھ نہیں  دیتے۔ نیچ لوگ اِسکو اپنے سے بھی نیچ سمجھتے ہیں حالانکہ  وہ خود  اپنے کاموں اور مذہب کے برُے وہمات سے درحقیقت  سب سے  نیچے گرے  ہیں پھر بھی  عیسائی مذہب کو اپنے سے بھی بُرا سمجھتے  ہیں ۔ اگرچہ  سادہ لوحوں میں سے کچھ تھوڑے اپنے  چھوٹھے وہمات کو  چھوڑ  کے نجات کی خواہش  میں  عیسائی مذہب کو اختیار  کر لیتے ہیں مگر اکثر  نہیں۔

غرض کہ عیسائی مذہب کو ہر کہیں سب لوگ بُرا کہتے  ہیں نہ کہ ایک  ملک میں بلکہ سب ملکوں میں نہ ایک قوم بلکہ  سب قومیں اُسکو  بُرا  کہتی  ہیں۔ مگر دیکھو اسمیں کیا بھید الہیٰ ہے کہ مو سوائے اتنی مخالفت اور دشمنی کے پھر بھی ہر ایک مذہب  اور ملت اور قوم میں سے لوگ نکل نکل کر اُسمیں  شامل ہوتے جاتے ہین اور دنیا کو ناچیز  گن کر  اور اُسکی شرمندگی اور ندامت کو برداشت  کر کے اپنی  روح کو قیمتی  جانکر اپنی روحوں کے بانی اور شفیع کے پاس بے دھڑک  چلے آتے ہیں۔

ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جس کے سبب سے لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔

سب تو بہت ہیں  لیکن طول کے خوف  سے مختصراًبیان کرتا ہوں۔ (۱)خداوند  یسوع مسیح جو اس دنیا کا نجات  دہندہ  ہے دنیا  کی سخت دشمنی اُس سے ہے۔  جب خداوند یسوع مسیح  اس دنیا میں آیا  اور مجسم ہو کر وگود میں ظاہر ہوا  اُسوقت  ایک بوڑھے بنی نے جسکا  نام شمعون  تھا کہا تھا  کہ یہہ (خداوند یسوع مسیح)اسرائیل  میں بہتوں  کے گرنے اور اُٹھنے کے لئے اور خلاف کہنے کے لئے  نشان کے واسطے رکھا ہوا ہے۔ لوقا ۲ ۔ باب ۳۴ ۔ آیت ۔ جب وہ اس دنیا میں تھا  دنیا اُسکو بُرا کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود نے اُسکو برُا  کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود  نے اُسکو برُا کہا۔ تمام قوموں نےاُسکی تحقیر کی اور کرتی  ہیں اُنہوں نے اُسکے وجود کی حقارت  کی کہ اُسمیں کچھ خوبصورتی  نہ تھی یسعیاہ ۵۳۔ باب ۲، ۳ آیتیں ۔ انہوں نے اُسکی تعلیم کو جھوٹھ  اور فریب کہا۔ یوحنا ۷ باب ۱۲ ۔ آیت  اُنہوں نے اُسکے معجزوں کو بعل زبول  دیوں کے سردار کی طرف سے بتایا۔ متی ۱۲۔ باب ۲۴ آیت۔ اور آجکل بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ  جب خداوند یسوع مسیح کا نام ہی سنُایا  جاتا ہے اور اُسکی عمدہ نصیحت  و تعلیم لوگون کو سنائی جاتی ہے تو  لوگ جھگڑنے اور تکرار  کرنے کو اُٹھ  کھڑے  ہوتے ہیں۔ اور بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔

(۲)خدا کے کلام کئ سبب لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ جب پہلے انجیل سنائی گئی اور حواری اُسکی  منادی کرتے تھے تو لوگ اُسکو بہت برُا  جانتے تھے اور اُنکو برُا  کہتے تھے جیسا کہ اعمال  کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر اتنی بھیڑ دیکھکے یہودی ڈاہ  سے بھر  گئے اور خلاف کہتے اور کفر بکتے ہوئے  پولس کی باتوں سے مخالفت کی۔ اعمال ۱۳۔ باب ۴۵ آیت ۔ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ روزمرہ دیکھنے میں آتا  ہے کہ  جب انجیل کی منادی ہوتی ہے  اُس جگہ کو ئی نہ کوئی مخالف کھڑا ہو جاتا ہے بغیر  برُا کہنے کے ہرگزرہ  نہیں سکتا ۔ اگر کوئی قصہ کہانی کی برُی باتیں سنُائی  جاویں  سب بڑی خاموشی  سے اور دل لگا کر سنینگے  مگر جب انجیل کی عمدہ خوش خبری  سُنائی  جاتی ہے  وہین  بحث و تکرار  کر کے شور مچانے لگتے  ہیں نہ خود  سُنتے ہیں  اور نہ اوروں کو سنُنے دیتے ہیں ۔ اور بعض بعض  ایسے بھی ہیں  کہ انجیل  کی سب باتیں سُن لیتے ہیں اور اچھی طرح قبول بھی کر لیتے ہیں  مگر جب اُنکو یہہ سنایا جاتا ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ  تو نجات ابد ی پاؤ گے  اُسیوقت  بڑے غصہ سے بھر جاتے  ہیں  اور کہتے ہین کہ اور تو تمہاری سب باتیں سچی  مگر یسوع مسیح کی بابت جو کہتے ہو خلاف  ہے۔ اور اکثر تو اُسے سُناّ  بھی نہیں چاہتے۔

(۳)۔ اس مذہب کی پیرعی کر نیوالوں سے فوراً لوگ دشمنی کرنے لگتے  ۔ اسمیں خداوند یسوع مسیح کی وہ پیشین گوئی  جو متی کی انجیل  کے ۵ باب کی ۔ ۱۱، ۱۲ آیتونمیں  لکھی ہے پوری  ہوتی ہے مبارک ہو تم  جب میرے واسطے تمہیں لعن طعن کریں  اور ہر طرح کی بری باتیں تمہارے حقمیں کہیں۔ اگر ایک قوم میں ایک شخص بڑا  شریر اور لوگوں کو دُکھ  دینیوالا ہے لوگ  چنداں اُس سے ناراض نہیں ہوتے جتنا کہ وے  اُس سے  اُسوقت  ناراض ہوتے  ہیں جب کہ وہ عیسائی ہوجوتا ہے چاہے وہ شخص  عیسائی  ہو کر  اپنی شرارت کو چھوڑ  کر ایک  بھلا آدمی ہی بن جاوے۔ لیکن وے اس بات کو پسند کرینگے کہ وہ شخص چاہے ایسا ہی شریر بنا رے مگر عیسائی  نہ رہے۔ عیسائی ہونے سے انکار کرے چاہے اُنکا کیسا ہی نقصان  کیوں نہ ہو۔

(۴)۔ عیسائی نام ہی دنیا کی دشمنی کا سبب  ہے اتنی قومیں  دنیا میں ہیں اور دیکھنے میں آتا ہے کہ اُن میں آپس میں کوئی ضد نہیں  اور دشمنی  پائی  نہیں جاتی خواہ اُنکے مذہب میں آسمان و زمین  کا فرق  ہے مگر عیسائی کا نام سنُتے ہی اچھا نہیں۔ خداوند یسوع مسیح کی بات  بالکل درست  نکلتی  ہے اور  حرف بحرف پوری  ہوئی جو اُسنے اپنے شاگردوں  سے فرمائی تھی۔ میرے نام ہی کے سبب سے لوگ تم سے دشمنی  رکھینگے۔

ثالثاً۔  کیوں ایسے مذہب سے جس میں نجات کا سب سے افضل طریقہ  ملتا ہے اور جو اور سب  جھوٹے مذاہب کو خاطر خواہ باطل  ہی ثابت  کرتا ہے دنیا  ایسی دشمنی  رکھتی ہے۔ خداوند یسوع مسیح  میں بھی کوئی ایسی بات نہ پائی گئی ۔ جس سے قوم یہود اُسکو  ملزم  ٹھہراتی  اور حاکم  اُسپر  فتویٰ  لگاتے پر  تو بھی یہود  اور اُنکے  سردار  مخالفت  میں  چلاّ کے پکارتے  تھے کہ اُسے  صلیب دے صلیب  دے  اور اِس طرح  بغیر کسی قصور  کے اپس بے قصور کو حاکم  بے اِنصاف  نے مصلوب  کرنیکا حکم صادر فرمایا۔  اسیطرح  اُسکے بعد بھی  یہہ ہی حال چلا آیا  ہے خواہ مخواہ  اُس  مذہب کو سب جگہ میں لوگ  بُرا کہتے ہیں اور اُسکے پیرؤں  کو ناحق  بدنامکرتے  ہیں۔ اور تمام دنیا گویا  اُنکو انگشت  نما  بناتی ہے۔  اب ہم  اسبات  کو سوچیں  کہ اسکا کیا سبب ہے۔

(۱)۔ اس مذہب کے دشمن اسکے مخالف ہیں ۔ کیونکہ وے اُس  سے بالکل واقف نہیں ۔ ایک بات کی لاعلمی  میں جو کام کیا جاتا ہے زیادہ خوفناک  دشمنی والا  ہوتا  ہے  بہ نسبت اُسکے جو دنیا و دانستہ جاننے  کی حالت میں کیا جاتا ہے۔  کبھی کبھی ناواقف  ہونے کی  حالت میں انسان  بڑا جرم کر بیٹھتا  ہے جو اگر اس سے واقف  ہوتا ہو  تو  ایسا ہر گز  نہ کرتا ۔ خدا وند یسوع مسیح سے دنیا نے اسواسطے  دشمنی  کی  دنیا نے اپسے نہ جانا  یوحنا ۱۔ باب ۱۰ آیت۔ اگر  وے اُسکی فضیلت  کو جانتے اور اُسکی تعلیم  کی عمدگی اور قدر  سے واقف ہوتے اور دنیا میں اُسکے آنے اور بڑے بھاری کام کے انجام  دینے سے آگاہ  ہوتے تو وے جلال کے خدا وند  کو مصلوب  نہ کرتے دیکھو ۱ قرنتیون  کا ۲۔ باب ۸۔ آیت ۔

(۲)۔ دنیا کے لوگ اسواسطے  اُس سے دشمنی  رکھتے  ہیں  کہ وے اسکو  پسند نہیں  کرتے۔ اور پسند نہ کرنیکا  سبب صرف  یہہ ہے  کہ یہہ  اُنکی  برُی  مرضی کے موافق  اُنکی  خوشیوں کو پورا کرنے سے  روکتا ہے۔ اور وے جانتے ہیں کہ یہہ  مذہب  دنیا کی  ہواؤہوس  کے مارنے اور مغلوب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور انسان کواُسکی  مرضی پر چلنے سے روکتا  ہے اور خدا  مرضی کو مقدم ٹھہراتا  ہے۔ اُنکا مزاج  جسمانی  ہے اور روحانی  باتیں اُنکے  دلکو نہیں  سُہاتیں۔ اسلئے  کہ جسمانی مزاج کا دشمن ہے کیونکہ  خدا  کی شریعت  کے تابع  نہیں اور نہ  ہوسکتا  ہے۔ اِسواسطے  دنیا اُس  سے دشمنی رکھتی ہے اور دنیا اندھیرے کو زیادہ  پسند  کرتی ہے اور نور کے پاس  نہیں آنا  چاہتی  ایسا نہ ہو کہ  اپسکے کام جو برُے ہیں ظاہر ہو جاویں۔

(۳)۔ دنیا اس مذہب کے برخلاف بولتی ہے کیونکہ  یہہ مذہب  دنیا کے برخلاف  گواہی  دے رہا ہے۔ فریسی لوگ یسوع مسیح سے کیوں  ناراض ہو گئے  اسلئے  کہ وہ انکو تمثیلوں  میں ایسی  نصیحت  دیتا  تھا جنکا مطلب اُنکے  برخلاف  تھا۔ کیوں دنیا اُسکی دشمن  تھی جو دنیا کو ایسا  پیار کرتا تھا کہ اُس نے دنیا کے واسطے  اپنی شان و شوکت  آسمانی چھوڑ دی اور دنیا میں جب تھا اُسکے مریضوں  کو  تندرست کرتا تھا اور ہر قسم  کی بیماریوں کو قدرت سے دور کرتا تھا۔ صرف اسلئے  کہ وہ گواہی دیتا تھا کہ دنیا کے کام برُے ہیں۔ خداوند یسوع مسیح  نے خود کہا کہ دنیا تم سے عداوت نہیں سکتی پر مجھ  سے عداوت کرتی ہے کیونکہ  میں اُسپر گواہی  دیتا ہوں کہ اُسکے  کام برُے  ہیں۔ یوحنا  ۷ ۔ باب ۷ ۔ آیت۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف سے کیوں دشمنی  کی صرف اسواسطے  کہ وہ  اُنکے  برخلاف اُنکے برُے  کاموں کی گواہی دیتا تھا دیکھو پیدائیش  ۳۷۔ باب ۱۲ ۔ آیت ۔  اب ہندوستان میں یہہ مذہب برُا  سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہہ ہندوستان کے برخلاف  گواہی دے رہا ہے یہہ اُسکے مذہبوں کو جھوٹھا  ثابت کر رہا ہے اور اُسکے جھوٹھے بھروسوں کو توڑ رہا ہے اور یہہ اُس کی دیویوں  کو ہاتھ  کی کاریگری اور دیوتوں کو محض خیالی ثابت  کر کے انکی پر ستش  کو عبث ثابت کر ہےرہا ہے اور یہہ ہندوستان کی واہی تباہی رسموں  کو بے بنُیاد  ثابت کر رہا ہے اور ہر طرح  کی وہم پر ستی کو رد کر رہا ہے اور یہہ سب کارردائی  عیسائی مذہب ہندوستانکے بالکل برخلاف ہے اور پر عیسائی مذہب ہندوستان کے بڑے بڑے قدیمی تیر تھوں کو اور  دھاموں کو جا کر یوحنا جو ہند و لوگ قدیم سے  کرتے  آئے منع کرتا ہے  غرض ایسے  پوجا  پاٹھ کو ناقص ثابت کر کے ایک سچے خدا کی پر ستش بتاتا ہے  جو اُن سب سے فرق ہے اسلئے ہندوستان اِس مذہب کو برُا کہتا ہے۔ عیسائی مذہب تمام مذہبوں  کو باطل  ثابت کر کے اپنی  سچائی کا اشتہار تمام دنیا کی قوموں کو دے رہا ہے اسی واسطے سب مذہب والے اُسکے  جانی دشمن ہوتے ہیں۔

کاش کہ دُنیا اس مذہب کے نجات بخش عقیدوں سے واقف ہوا اور اُسکی تسلی بخش تعلیم  کو دلمیں جگہ دے اور رو ح  القدس کو  بھیتر آنے دے جو دل کے دروازے پر کھٹکھٹا تا ہوتا کہ وہ  دلکے اندھیرے  کو دور کر کے  جلال والی روشنی کے زندگی بخش جلال کا دیدار کراوے جو خود خداوند  یسوع مسیح ہوتا کہ اُسی  ہی پر جو نجات کے لئے اکیلا نام بخشا ہوا ہے ایمان لاکے کل دنیا نجات ابدی پاوے ۔

الراقم جمیل سنگھ از کھنہ   

Pages