دفعہ ۳۹
موت کے بیان میں
کسی حیوان کی زندگی کاجا تا رہنا’’ موت‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان کے سواسب حیوان مطلق فانی ہیں۔ پس اُن کی موت یہ ہے کہ اُن کی زندگی بالکل معدوم ہوجائے یعنی بدن ٹوٹ کے عناصر میں مل جائے اورجان بھی کہیں نہ رہے ،بالکل نیست نابود ہوجائے۔انسان کی موت کچھ اورچیز ہے۔ اس لئے کہ وہ محض حیوان نہیں ہے بلکہ اُس کی حیوانیت کے اُوپر کچھ اورچیز اُس میں ہے جو غیر فانی ہے ۔پس جہاں تک انسان میں حیوانیت ہے وہاں تک اُس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوتا ہے جو سب حیوانوں کے ساتھ موت میں ہوا کرتا ہے لیکن اُس چیز میں جو حیوانیت سے بلند اس میں ہے نیستی کامعاملہ عمل میں نہیں آتا ہے صرف اخراج کامعاملہ ہوتا ہے۔ اسی واسطے انسان کی موت کے لئے ایک دوسرا لفظ ’’انتقال‘‘ دنیا میں مروج ہوا ہے۔ کلام اللہ میں پانچ لفظ انسان کی موت کے لئے استعمال میں آئے ہیں جن سے کچھ کچھ موت کی کیفیت معلوم ہوجاتی ہے۔
۱۔ بدن سے رُوح کانکلنا (ایوب ۲۰:۱۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوح انسانی اُس کے مردہ بدن ہی میں تحلیل نہیں ہوجاتی مگر اُس سے الگ ہوجاتی ہے۔
۲۔ رُوح کا انڈیلا جانا جیسے پانی ایک برتن سے دوسرے برتن میں اُنڈ یلتے ہیں (یسعیاہ ۵۳: ۱۲) ۔اس لفظ میں اشارہ ہے کہ رُوح انسانی بدن سے نکل کے کوئی اوربدن اللہ سے پاتی ہے (۱۔ کرنتھیوں۳۵:۱۵۔۴۴)۔
۳۔ چلاجانا یعنی اس جہان کو مع بدن کے چھوڑ کے کسی دوسرے جہاں میں چلا جانا (زبور۱۳:۳۹) ۔
۴۔ سوجانا یا موت کی نیند میں آجانا یا خواب دائمی میں چلے جانا (یوحنا۱۱:۱۱؛ زبور۳:۱۳؛ یرمیاہ۳۹:۵۱) ۔یہ الفاظ بدن کی نسبت معلوم ہوتے ہیں کیونکہ رُوح کبھی نہیں سوتی۔ دنیا میں دیکھتے ہیں کہ نیند کے وقت بدن سوتا ہے رُوح بیدار رہتی ہے ۔ہاں اعضا کو کچھ حواس کے کاموں سے معطل کرکے چپ چاپ ہوجاتی ہے۔
۵۔ سورج کا ڈوبنا یا غروب ہونا ۔یرمیاہ۹:۱۵میں لکھا ہے’’ اُس کا سورج ڈوب گیا ‘‘۔یہاں ’’رُوح ‘‘کو ’’سورج ‘‘ کہاگیا ہے اوردنیا کا سورج جب ڈوبتا ہے تو وہ معدوم نہیں ہوجاتا لیکن زمین کی دوسری طرف چلا جاتا ہے۔
ف۔ کلام اللہ سے اورعقل سے بھی موت کی دو قسمیں بلحاظ شخص مردہ کے معلوم ہوتی ہیں ۔
اول صادقوں کی موت ہے ،دومبے ایمانوں کی موت ہے۔ صادقوں کی موت یہ ہے کہ انسان ایمان میں مغفرت حاصل کرکے مرے۔ بلعام نے بھی اس موت کی تمنا کی تھی مگر نہ پائی (گنتی۱۰:۲۳) ۔اس دنیاوی زندگی کے انجام پر بھی موت انسان کے لئے فتح یابی کا پہلا دروازہ ہے۔ بے ایمانوں کی موت کیا ہے؟ یہ کہ آدمی اپنے گناہوں میں لپٹا ہوا بغیر ایمان اورمغفرت کے مرجائے (یوحنا۲۴:۸)۔ یہ موت جہنم میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ ہے۔
ف۔ موت کے ظاہری اسباب پر نگاہ کرکے حکیموں نے اُس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ اول ’’موت طبعی‘‘ وہ ہے کہ جسم کے فطری انتظام میں کچھ خلل آجائے یا وہ شخص اپنی پوری عمر کو پہنچ کے مرجائے جیسے درختوں کے پکے پھل گرجاتے ہیں۔ دوم ’’موت اخترامی‘‘ وہ ہے کہ بھلے چنگے آدمی کی موت کسی اَورسبب سے آجائے مثلاً میں وہ دشمنوں سے یا حاکم سے قتل کیا جائےیا ڈوب مرےیا آگ میں جل جائے یاکوئی اورناگہانی صدمہ سے مرجائے۔ خیر کسی طرح مرجائے مگر بغیر اجازت اللہ کےکوئی نہیں مرتا۔ مسیح خُداوند فرماتا ہے کہ کوئی چڑیا بھی بے اجازت اللہ کے زمین پرنہیں گرتی۔
ف۔ موت کا وجود انسان کی پیدائش سے پہلے معلوم ہوتا ہے ۔علم ترکیب ارضی سے ظاہر کرتے ہیں کہ انسان سے پہلے زمین پر حیوان رہتے تھے اوروہ مرتے بھی تھے۔ تب موت کا وجود پہلے سے تھالیکن آدم کو جب خُدا نے پیدا کیا تو اپنی شکل پر بنایا تھا۔ اُس کے لئے موت نہ تھی اوراُس سے کہاگیا تھا کہ اُس درخت سے نہ کھانا ورنہ تو مرے گا ۔پس اگر وہ نہ کھاتا تو ہرگز نہ مرتا اورہمیشہ زندہ رہتا اوراولاد بھی نہ مرتی۔ موت اُس کے لئے امر طبعی نہ تھا جیسے حیوانات اورنباتا ت کے لئے امر طبعی ہے ۔لیکن آدم نے نافرمانی کرکے اپنے اوپر موت کا تسلط ہونے دیا اوریوں موت اُس کو لاحق ہوگئی اورایسی لاحق ہوئی کہ گویا اُس کے لئے امر طبعی ہے،اُس وقت تک کہ سب کچھ نیا ہو نئی زمین، نیا آسمان اور نیابدن ظاہر ہو۔ ابھی تمام حقیقی عیسایوں کی رُوحوں میں اوراُن کے دلوں میں نوزادگی ظاہر ہوئی ہے تو بھی وہ سب موت کے بدن میں رہتے ہیں یعنی اُس بدن میں جس پر موت کا فتویٰ ہے اور جس کے لئے یہ موت ایک امر طبعی ہوگیا ہے ۔وقت چلا آتا ہے کہ ہم موت کے بدن سے بھی مخلصی پائینگے بوسیلہ مسیح کے۔
ف۔ خُدا کا کلام موت کی دوقسمیں دکھاتا ہے’’ جسمانی موت‘‘ جس کا بیان ہوچکا۔’’ روحانی موت ‘‘جس کا یہ بیان ہے کہ انسان کی رُوح میں موت کازہر چھوڑا جائے اوراس پر موت چھا جائے ۔چنانچہ جس وقت آدم نے گناہ کیا تھا روحانی موت سے وہ اُسی وقت گیا تھا۔ جسمانی موت ۹۳۰ بر س بعد آئی تھی اور اس عرصہ میں وہ جسمانی زندہ اورروحانی مردہ رہا تھا جب تک کہ بوسیلہ مسیحی ایمان کے موت اُس کی رُوح پر سے نہ ہٹی ، وہ روحانی مردہ تھا کیونکہ فتوی ٰموت کا اُس پر آگیا تھا اورنسبت الہٰی ٹوٹ گئی تھی اورخُدا کی حضوری سےنکالاگیا تھا۔ اس لئے برکت الہٰی کی اَوس اس پر گرنی موقوف ہوگئی تھی اوررُوح میں تاریکی چھاگئی تھی اورمزاج میں جسمانیت غالب آگئی تھی اوریہی روحانی موت ہے۔پولس رسول کہتا ہے کہ ’’جسمانی نیت موت ہے‘‘ (رومیوں۶:۸)۔ یہی بڑی موت ہے اوریہ سب آدمیوں کی رُوحوں میں ہے۔ اگریہ موت آدمیوں کی رُوحوں میں سے اسی زندگی کے دوران نکل نہ جائے تو اُن شخصوں کو ابدالآباد موت میں رہنا ہوگا ۔جہاں خُدا سے جدائی اورشیطان سے قربت ہے ،رات دن رونا اوردانت پیسنا ہے۔ صرف مسیح خُداوند ہے جو اس موت سے آدمیوں کی رُوحوں کو چھڑا تا ہے اوربدنوں کو مرنے دیتا ہے کیونکہ نئے بدن ان لوگوں کو ملنے والے ہیں۔
ف۔ مسیح پر موت کا فتویٰ نہ تھا۔ وہ ہمارے لئے موا کہ موت کےفتوے کو مکمل کرکے ہم پر سے ہٹائے ۔دیکھو کیالکھا ہے ’’ کوئی اُسے (یعنی میری جان کو) مجھ سے چھینتانہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں ۔مجھےاُس کے دینےکا بھی اختیار ہےاور اُسےپھر لینے کابھی اختیار ہے ۔یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا‘‘(یوحنا ۱۔۱۸)۔مسیح خُداوند جو کامل انسان اورمحض بےگناہ شخص تھا اُس پر موت کا فتویٰ نہ تھا کیونکہ موت گنہگار کے لئے ہے اوروہ بےگنا ہ تھا اس لئے اُس کا حصہ موت میں نہ تھا ۔اُس نے اپنی مرضی اورخوشی سے ہمارے فائدہ کے لئے اپنی جان دی اورپھر اپنی جان کو لےلیا۔ اگر مسیح پر بھی موت کا فتویٰ ہوتا جیسے سب آدمیوں پر ہے تو وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ نہ ہوسکتا ۔ہمارے قرض وہی شخص ادا کرسکتا ہے جو خود قرضد ار نہیں ہے جو خود قرضدار ہے وہ اپنا قرض ادا نہیں کرسکتاہمارے قرض کیسے ادا کرےگا ؟پس مسیح خُداوند موت کا مطلق قرضدار نہ تھا اوراسی لئے اُس نے آیت بالا میں صاف بتایا ہے کہ میں اپنی جان پر اختیار رکھتا ہوں مروں یا نہ مروں ۔خُدا باپ کی مرضی تو یہ ہے کہ میں اپنی جان کفارہ میں دو ں مگر جبر نہیں ہے۔ مجھے اختیار دیاگیا ہے۔ سومیں اپنے با پ کی مرضی کو اپنے اختیار سے قبول کرتا ہوں اورجان دیتا ہوں اورپھر اپنی جان کو موت کے نیچے سے نکال کے آپ لےلوں گا۔
(۱۔ پطرس ۳: ۱۸) راستباز نے ناراستوں کے لئے دکھ اُٹھایا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵۴) موت کو فتح نے نگل لیا۔ (یسعیاہ ۲۵: ۸) وہ موت کو ہمیشہ کے لئےنابود کرےگا۔ آدم کے سبب سے آدمیوں میں موت آئی ہے مسیح کے سبب سے موت دفع ہوئی اورزندگی آئی اورساری بحالی کی صورت دکھائی دی۔ فی الحال موت جہان میں نظر آتی ہے لیکن اس کی جڑیں کٹ گئی ہیں اورایک وقت چلا آتا ہے کہ یہ موت ،غم ،رونا اور آہ و نالہ مطلق اس جہان سے دفع ہوجائےگا۔ سارے بے ایمان لوگ اوریہ سب آفتیں ہٹ جائیں گی اورسب کچھ نیا اورنہایت خوب اور پُر جلال ہوگا۔
ف۔ موت کی چابی مسیح یسوع خُداوند کے پاس ہے ’’۔۔۔مَیں مر گیاتھا اور دیکھ ابدالآباد زندہ ر ہوں گا اور موت اور عالم ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں ‘‘(مکاشفہ۱۸:۱) ۔ موت سے رہائی بخشنا یہووا ہ خُداوند ہی کاکام ہے(زبور ۶۸: ۲۰ )۔ مسیح خُداوند’’ یہواہ‘‘ ہے اس لئے موت کی چابیاں اُس کے پاس ہیں اوراس لئے بھی کہ وہ موت پر غالب آیا ۔اُس کا سارا زور اُس نے سہا ۔اُس کا تمام زہر نوش کرلیا ۔اپنےآپ کو اس کے قبضہ میں کردیا اوراس کی ساری کیفیت کا لطف دیکھ کے اُس کے نیچے سے از خود نکل آیا اور قیامت اپنی آپ کرلی اورمردوں میں سے پہلوٹھا ہو کے جی اُٹھا اورخُدا تعالیٰ کی دہنی طرف اُس کے عرش مجید پر جا بیٹھا۔ اب وہ سب اولین اورآخرین کو موت کے قبضہ سے نکال کے زندہ کرےگا اوراُن کے بدنوں میں اُنہیں کھڑا کرےگا اوراپنے سب بندوں کو اپنے ساتھ جلال میں اورحقیقی خوشی و آرام میں لائےگا اور سب شیطان کے فرزندوں کو اوراُن سب آدمیوں کو جو عیسائی ہوکے نہیں مرتے تھے ،ابدی موت کے حوالہ کردےگا کہ ہمیشہ دیکھ میں رہیں۔