تیسرا باب

محمد صاحب کا رشتہ یہودیوں سے

ہم یہ تو ذکر کر آئے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے وقت یہودیوں کے بہت سے طاقتور قبیلے مدینے اور اُس کے گردو نواح میں موجود تھے۔پہلے پہل تو محمد صاحب نے اُن کی تالیف قلوب کی بہت کوشش کی ۔انہیں بڑی امید تھی کہ چونکہ میں واحد خدا کی تلقین کرتا ہوں اس لئے موحد یہودی اُسے کھلے بازو بغل میں لے لیں گے اور میرے ساتھ متحد ہو کر بت پرستی کے خلاف جنگ کریں گے۔لیکن ان ساری کوششوں کا یہودیوں نے ایک ہی جواب دیا ،اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل کے باہر کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔شام اور فلسطین انبیا کا وطن تھا ،اس لئے ابراہیم اور موسیٰ کا حقیقی جانشین مکہ سے برپا نہیں ہو سکتا۔البتہ تفسیر بیضاوی  (صفحہ۳۸۱)  میں یہ مندرج ہے کہ یہودیوں نے ان الفاظ میں محمد صاحب کی ہنسی اڑائی:

الشام مقام الأنبياء فإن كنت نبياً فالحق بها حتى نؤمن بك

ترجمہ:’’ شام انبیا کا وطن ہے ۔اگر تو فی الحقیقت نبی ہے تو تُو وہاں  جا تاکہ ہم تجھ پر ایمان لائیں‘‘۔

اس طنز کو محمد صاحب نے نہ سمجھا کہ یہودی اس کی مکی پیدائش پر ہنسی اڑا رہے تھے  ،بلکہ ان الفاظ کو انہوں نے ایک عمدہ نصیحت کے طور پر قبول کیا۔کیونکہ بقول بیضاوی:

فوقع ذلك في قلبه فخرج مرحلة

ترجمہ:’’یہ ( نصیحت)  اُن کو پسند آئی ۔اس لئے وہ روانہ ہو کر ایک دن کی راہ چلے گئے‘‘۔

اس کے بعد وحی کے نازل ہونے پر وہ واپس آئے۔انہوں نےیہودیوں کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے ان کی مقدس کتابوں کی باربار تعریف کی اور اُن کو ’’کلام خدا‘‘ کہا’’ اورآدمیوں کےلئے نورو ہدایت ‘‘ جن کی تصدیق کرنے کے لئے قرآن مجید نازل ہوا، لیکن یہودیوں نے نہ تو محمد صاحب کو قبول کیا اور نہ قرآن مجید کو بلکہ جب کبھی ان کو موقع ملا انہوں نے اس نبی پر تمسخر ہی کیا ۔چنانچہ جب انہوں نے یہودیوں سے ان کی مقد س کتابوں کے بارے میں  سوال کیا تو انہوں نے وہ بات چھپا لی اور اپنی احادیث میں سے چند قصے اور فسانے اس کی جگہ سنا دیئے۔یہودیوں کے اس دستور کے بارے میں مسلم میں ابن عباس سے ایک حدیث آئی ہے:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فلما سَأَلَ النَّبِيُّ صلعم عَنْ شَيْءٍ من أهل الكتاب فَكَتَمُوهُ إياه وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ خْبَرُوهُ بِمَا قَدْ سَأَلَهُمْ عَنْهُ

ترجمہ:’’ابن عباس نے کہا کہ جب کبھی رسول اہل کتا ب سے کوئی سوال پوچھتے تو وہ اس مضمون کو دبا لیتے اور اس کی جگہ کچھ اَور ہی بتا دیتے اور یہ خیال کر کے چلے جاتے تھے کہ وہ سمجھ لے گا کہ جو کچھ اُس نے پوچھا تھا اُسی کا جواب انہوں نے دیا‘‘۔

علاوہ ازیں یہ نہ ماننا بھی مشکل ہے کہ بائبل مقدس کی تاریخ کے بارے میں محمد صاحب کی غلطیوں کی وجہ سے یہودی اُن پر برابر طعن کرتے رہے۔بخوف طوالت ایسی غلطیوں کی تفصیل دینا یہاں مشکل ہے۔لیکن اگر ناظرین رسالہ ہذا بائبل مقدس اور قرآن مجید کو لے کر اُن بزرگوں کے احوال کا مقابلہ کریں جو ان کتابوں میں مذکور ہیں تو وہ فوراً معلوم کر لے گا کہ قرآن مجید پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے میں کہاں تک قاصر رہا۔ محمد صاحب تاریخ بائبل سے ایسے ناواقف تھے کہ انہوں نے مریم والدہ یسوع کو موسیٰ و ہارون کی ہمشیرہ مریم سمجھا۔مدینے کے تعلیم یافتہ یہودی ایسے شخص کی کیا عزت کر سکتے تھے۔انہوں نے اُس کچھ عزت نہ کی بلکہ انہوں نے نظم میں اُس کی ہجو (بدگوئی ۔نظم میں کسی  کی برائی کرنا)  کرنی شروع کی اور اس سے محمد صاحب ایسے برانگیختہ ہوئے کہ ان کے تالیف قلوب کی کوشش سے دست بردار ہو گئے اور برعکس اِس کے اُن پر ظلم و قتل کرنا شروع کیا حتٰی کہ سارے یہودیوں کو مدینے اور اس کے قرب وجوار سے نکال دیا۔

سیرت الرسول میں ایک یہودی عصمہ بنت مروان کا قصہ آیا ہے جس سے محمد صاحب کی اس نئی حکمت عملی کی تشریح ہوتی ہے۔اس عورت نے چند شعر محمد صاحب کی مذمت اور ہجو میں لکھے تھے۔ محمد صاحبنے جب یہ شعر سنے تو وہ آگ بگولا ہو کر بولے’’کیا میں بنت مروان سے اپنے لئے تلافی طلب نہ کروں؟‘‘ایک مسلمان بنام عمیر بن عُدے نے محمد صاحب کے یہ الفاظ سنے اور ان کا یہ مطلب سمجھا کہ وہ عصمہ کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔  اس لئے  اُس  نےرات کے  وقت عصمہ کے گھر  میں گھس کر ا س کو وحشیانہ طور سےقتل کیا۔اگلے روز اُس نے محمد صاحب کو اس فعل کی خبر دی۔ محمد صاحب نے عصمہ کے قتل کی خبر سُن کر یہ کہا’’اے عمیر تو نے خدا اور اس کے رسول کی مدد کی ہے‘‘۔

اسی وقت کے قریب محمد صاحب کے اشارے سے ایک اَور شخص قتل کیا گیا۔اس شخص کا نام کعب بن الاشرف تھا۔سیرت الرسول  (جلد دوم۔صفحہ۷۴،۷۳)  میں اس کی پوری تفصیل مندرج ہے۔مختصراً وہ قصہ یہ ہے:

کعب سے چِڑ کر ایک دن محمد صاحب نے یہ کہا۔ابن الاشرف کے معاملے میں میرا مددگار  کون ہے؟ محمد صاحب کا ایک شاگرد فوراً یہ چلّا اٹھا’’اس معاملے میں مَیں آپ کی طرف ہوں۔اے رسول خدا میں اُسے قتل کروں گا‘‘۔پھر محمد صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد اور چند  رفیقوں کو ساتھ لے کر چپکے سے کعب کے گھر  میں  جاگھسا اور اِس بہانے سے اُس کو گھر سے باہر لے آیا کہ وہ اوزار گروی رکھنا چاہتا تھا اور یوں اُس کو بُری طرح سے قتل کر ڈالا۔

ایک اَور یہودی بوڑھا شخص محمد صاحب کے حکم سے مارا گیا ۔اس کا نام رافع تھا ۔بخاری نے اس قصے کو یوں لکھا ہے:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث ۱۲۶۳

راوی: اسحق بن نصر , یحیی بن آدم , ابن ابی زائدہ , ابوزائدہ , ابواسحاق سبیعی براء بن عازب

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا إِلَی أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيکٍ بَيْتَهُ لَيْلًا وَهُوَ نَائِمٌ فَقَتَلَهُ

ترجمہ:’’ اسحاق بن نصر، یحیی بن آدم، ابن ابی زائدہ، ابوزائدہ، ابواسحاق سبیعی حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک جماعت ابو رافع کے گھر بھیجی اور جب وہ سو رہا تھا تو عبداللہ بن عتیک رات کے وقت اُس کے گھر گھس گیا اور اُس نے اُسے قتل کر ڈالا‘‘۔

ان قتلوں  اور دوسرے قتلوں کے جو قصے مورخوں نے بیان کئے ہیں جن کے تحریر کرنے کی ہمارے پاس گنجائش نہیں ،اُن سے یہودیوں نے سمجھ لیا کہ اب اُن کی عین ہستی معرض خطر میں تھی اور چونکہ یکے بعد دیگرے ان یہودی قبیلوں پر حملے ہونے لگے اور مال و اسباب لٹنے لگا تو وہ مایوس ہو گئے۔ اس لئے بعض تو اپنی جان بچانے کی خاطر مرتد ہو کر مسلمان بن گئے۔چنانچہ ابن ہشام نے سیرت الرسول صفحہ ۱۸۶ پر بیان کیا کہ بہت یہودی:

فظهروا بالإسلام واتخذوه جنة من القتل

ترجمہ:’’دکھاوے کے لئے مسلمان ہو گئے، لیکن یہ انہوں نے جان بچانے کی خاطر کہا تھا‘‘۔

یہودیوں کے ایک قبیلے بنی قریظ پر ایک سخت مصیبت آئی جس  کی وجہ سے وہ نہایت خوف زدہ ہو گئے۔سیرت الرسول میں اس کا مفصل ذکر ہے (جلد سوم،صفحہ۹۔۲۴) ۔کتاب المغازی (صفحہ۱۲۵)  ،مِشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجیار اور دیگر کتابوں میں اس ذکر مختصراً یہ آیا ہے۔ محمد صاحب کے جنگوں میں سے کسی میں بنی قریظہ نے مخالفانہ اور مکارانہ طرز اختیار کیا تھا۔اس کی وجہ سے مسلمانوں نے اُن سے انتقام  لینے کا ارادہ کیا۔جب محمد صاحب کو کافی فرصت ملی تو مسلح فوج کا ایک بڑا دستہ لے کر انہوں نے اس قبیلے کے قلعے پر یورش کر دی اور ایسی سختی سے اس کا محاصرہ کیا کہ ان کی جورو  ،بال بچے بھوک سے تنگ آگئے او ر مجبور ہو کر قلعے کو محمد صاحب کے سپرد کر دیا او ررحم کے لئے التجا کی۔لیکن کسی نے اُن کی التجا کی پرواہ نہ کی اور ان کو سزا دینے کے لئے ان کے سخت دشمن سعد بن معیدہ کو مقرر کیا ۔اُس وقت سعد جنگ میں زخموں  سے سخت تکلیف میں تھا۔اُس نے فوراً یہ حکم دیا کہ سارے مردوں کو جو بالغ ہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ محمد صاحب نے اُس کا یہ حکم سن کر فرمایا:

حكمت بحكم الله

ترجمہ:’’تو نے خدا کے فرمان کے مطابق حکم دیا ہے‘‘

(تفسیر بیضاوی ،صفحہ۵۵۶ اور سیرت الرسل،جلد سوم،صفحہ۹۲) ۔

چنانچہ مدینے کے بازار میں خندقیں کھودی گئیں اور چھ سو اور نو سو کے قریب یہودی مردوں کا سرد مہری سے سر قلم کیا گیا۔مختلف مصنفوں نے مقتولوں کا شمار مختلف بتایا ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ مقتولوں کی لاشیں نہ گنی گئیں صرف اُن کا اندازہ لگایا گیا۔کم ازکم ان کا شمار چھ سو تھا۔حالانکہ ابن ہشام یہ کہتا ہے:

المكثر لهم يقول كانوا بين الثمانمائة والتسعمائة

ترجمہ:’’زیادہ سے زیادہ شمار ان مقتولوں کا آٹھ سو اور نو سو کے درمیان تھا‘‘۔

اور محمد صاحب کے اسی تاریخ نویس نے یہ بھی لکھا:

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قسم أموال بني قريظة ونساءهم وأبناءهم على المسلمين

ترجمہ:’’رسول خدا نے بنی قریظہ کا مال و متاع، اُن کی بیویاں اور اُن کے بچے مسلمانوں کے د رمیان تقسیم کر دیئے‘‘۔

جس بے رحمی کے قتل کا اوپر ذکر ہوا اور جس سے محمد صاحب کے نام پر بڑا دھبا لگتا ہے ۔قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں ہواہے:

وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

ترجمہ:’’اور اہل کتاب کے جن لوگوں نے اپنے قلعوں کے نیچے آکر دشمنوں کی مددکی تھی اُس نے  (خدا)  اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈال دی۔بعضوں کو تم نے قتل کیا، بعضوں کو تم نے قید کیا اوراُس  (خدا)  نے ان کی زمین، اُن کےمکانات اور اُن کی دولت میراث میں  تمہیں دے دی۔وہ زمین جس پر تم نے قدم  بھی نہ رکھاتھا‘‘ (سورۃ الاحزاب۲۶:۳۳) ۔

غنیمت کے مال میں سے محمد صاحب کے حصے میں ریحانہ نام ایک عورت آئی جس کے خاوند کو محمد صاحب نے ابھی قتل کرایا تھا۔

ایک دوسرا یہودی فرقہ جس پر اسلامی طاقت بازو آزمائی گئی، خیبر کا یہودی فرقہ تھا جو مدینہ کے شمال کی طرف تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر خیبر کے سر سبز نخلستانوں میں رہتا تھا۔ان یہودیوں سے کوئی ایسی حرکت بھی سرزد نہ ہوئی تھی جس سے کہ مسلمانوں کو خفگی پیدا ہو۔اگر ان کا کچھ قصور تھا تو یہ تھا کہ صاحب مال و دولت تھے۔جب ان کی یہ حالت اُن  لٹیروں کو معلوم ہوئی جو مدینہ پر حکمران تھے تو محمد صاحب بہ نفس نفیس لشکر جرار لے کر ان بے خبر یہودیوں پر حملہ کرنے کو چل پڑے۔یہ یہودی مغلوب ہوئے اور مسلمانوں کے ہاتھ غنیمت میں مال کثیر آیااور اس  شرط پر ان یہودیوں کی جان بخشی ہوئی کہ وہ اپنی آمدنی اورپیداو ار کا نصف حصہ برا بر مدینے کو بھیجتے رہا کریں۔اس حملہ کی اہمیت اس اَمر سے بھی واضح ہو سکتی ہے کہ ابن ہشام نے اٹھارہ  صفحے اس مہم اور اس کے امور متعلقہ کے بیان میں کالے کر دئیے۔کہتے ہیں کہ:

ایک مقتول یہودی کی بیوہ نے جس کا نام زینت بن حارث تھا انتقام کی راہ سے پکے گوشت میں زہر ملا کر محمد صاحب کے آگے دھر دیا۔ محمد صاحب اور اُس کے چند رفیقوں نے اُس گوشت میں سے کچھ کھا لیا اور کہتے ہیں کہ اُن رفیقوں میں سے ایک اُس زہر کے اثر سے مر گیا۔ محمد صاحب خود تو موت سے بچ نکلے لیکن سخت دردوں میں مبتلا رہے اور وہ اپنی موت کے دن تک یہ کہا کرتے تھے کہ جو زہر انہوں نے اس موقعہ پر کھایا تھا اس کا اثر وہ اب تک محسو س کرتے تھے۔

جب لوگوں نے اس عورت مسمات زینب کو محمد صاحب کے سامنے پیش کیا تو محمد صاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو نے میری جان کا قصد کیوں کیا تو اس عورت نے یہ جواب دیا:

فقلت إنْ كان ملكاً استرحت منه وإنْ كان نبياً فسيُخبر

ترجمہ:’’میں نے  ( اپنے دل میں)  کہا اگر یہ محض بادشاہ ہے تو ہم کو مخلصی حاصل ہو گی اور اگر  یہ نبی ہے تو اس کو زہر معلوم ہو جائے گا‘‘۔

ایک دوسرے واقعہ سے بھی محمد صاحب اور اُس کے فریق کی عداوت یہودیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔قصہ یوں بیان ہوا ہے کہ:

ایک مسلمان تیمہ بن ابرق نامی نے اپنے ہمسایہ کا زرہ چرا لیا اور آٹے کی بوری میں چھپا دیا۔جب لوگوں نے تیمہ پر شک کیا تو اُس نے دوسروں کے ساتھ مل کر یہ الزام ایک معصوم یہودی زید بن السمین پر لگا دیا۔کہتے ہیں کہ محمد صاحب بھی ایک مسلمان کو سزا دینا نہ چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس چوری کی سزا میں اُس یہودی کے دونوں ہاتھ کٹوانے کا حکم صادر کر دیا۔لیکن اعجازی طور پر وہ اس حکم کی تعمیل سے باز رہے بلکہ برعکس اس کے ان کو حکم ہوا کہ خدا سے اپنی  عارضی کمزور کے لئے معافی مانگیں (تفسیر بیضاوی۔سورۃ نسا۱۰۶:۴) ۔

محمد صاحب نے آخری ایام میں یہودیوں اور مسیحیوں  کے ساتھ سخت دشمنی اور عداوت  کا اظہا ر کیا۔جب محمد صاحب مکہ میں بے کس اور مظلوم تھا تو  وہ کہا  کرتا تھا کہ:

’’اہل کتاب کے ساتھ بحث کیا کرو،لیکن نرمی سے۔ سوائے اُن کے جو تمہارے ساتھ بے جا سلوک کرتے ہیں اور تو یہ کہہ کہ ہم ایمان لائے اس پر جو ہم پر  نازل ہوا اور جو تم پر نازل ہوا ،ہمارا خدا اور تمہارا خدا واحد ہے اور ہم اس کے آگے سر خم کرتے ہیں‘‘ ۔

لیکن مدینے میں جب ان کو زور اور عروج حاصل ہوا اورجب وہ جنگ میں  عربوں کے سر لشکر بن گئے تو بر عکس اُس کے اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیا:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

’’اُن لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جن  پر کتاب نازل ہوئی لیکن وہ خدا پر ایمان نہیں لاتے۔ نہ یوم آخرت پر اور  نہ اُس کو حرام ٹھہراتے ہیں جسے خدا اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا اور جو حق کا اظہار نہیں کرتے ،جب تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا نہ کریں اور عاجز ہو جائیں‘‘ (سورۃ توبہ۲۹:۹) ۔