محمد صاحب کا احوال

دیباچہ

اِس چھوٹے  سےرسالے میں محمد صاحب کی مکمل سوانح عمری تو مندرج نہیں ،صرف  ا س بڑے مصلح کی زندگی  کے بعض بیانات قلم بند کئے جاتے ہیں  اور وہ بھی مسلمانوں کی معتبر کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔اس رسالے  کی غرض یہ دکھا نا ہے کہ اسلام میں محمد صاحب کا درجہ کیا ہے  اور خود مسلمانوں نے اس کی نسبت کیا  کچھ تحریر کِیا ہے۔ جہاں تک ممکن ہوا  غیرمسلم علما کے قیاس کو ہم نے یہاں دخل نہیں دیا ۔ہندوستان  میں حال کے  مسلمانوں نے  محمد صاحب  کی کئی تاریخیں لکھی ہیں،لیکن اُن کی تاریخی صحت کالعدم  ہے۔ان مصنفوں نے اپنے خیالات کا ایک ایسا پتلا کھڑا کر دیاہے ،جو نہ تو تاریخ سے  لگا کھاتا ہے اور نہ خود محمد صاحب کے اپنے بیانات سے  جو   ان کے ہم عصروں نے قلم بند کئے تھے۔

جو ضروری بیانات اس رسالے میں  مندرج ہیں وہ مسلمان مصنفوں  کی کتابوں پر مبنی ہیں اور جب کسی خاص دلچسپ اَمر کا بیان آیا تو ہم نے اکثر اس کو لفظ بہ لفظ نقل کر دیا اور جہاں جہاں سے کوئی مضمو ن اخذ کیا اس کا صرف حوالہ  دےدیا۔ محمد صاحب کے بارے میں جو علم ہم کو حاصل ہوا وہ ان سوانح عمریوں کے ذریعہ ہو اجو او  ائل مسلمانوں نے لکھی تھیں۔لیکن یہ سخت افسوس ہے کہ سب سے قدیم سوانح عمری اب موجود نہیں۔چنانچہ قدیم مورخوں نے محمد صاحب کی چند ایک سوانح عمریوں کا ذکر کیا ہے،جن کا اب کچھ پتا نہیں ملتا۔گمان غالب ہے کہ زہری ۱ جس نے ۱۲۴ھ میں وفات پائی  پہلا شخص تھا جس نے محمد صاحب کی سوانح عمری لکھی۔کم ازکم  اتنا تو تحقیق  سےمعلوم ہے کہ اس نے ایسی حدیثوں  کو جمع کیا جو محمد صاحب کی زندگی اور سیرت سے علاقہ رکھتی تھیں اور ہمیں یقین ہے کہ مابعد مورخوں نے اس کتاب سے بہت مدد لی ہو گی۔اسلامی تاریخی کتابوں میں دو دیگر مورخوں کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے محمد صاحب کا احوال لکھا۔یہ دونوں دوسری صدی ہجری میں گزرے۔ان میں سے ایک کا نام ’’موسیٰ بن عکبہ ‘‘ ۲ تھا اور دوسرے کا نام’’ ابو مشر ‘‘ ۳ ۔ان دونوں مورخوں کی کوئی تصنیف ہمارے زمانے تک نہیں پہنچی اور ’’مدائنی‘‘ ۴ کی وسیع تصنیفات کا بھی یہی حال ہے جو دوسری صدی ہجری کے آخری نصف میں زندہ تھا۔

ایک دوسرا مصنف جس نے اپنے ہم عصروں کی نگا ہ میں بہت عزت حاصل کی ،وہ’’  محمد بن اسحق‘‘ تھا جس نے ۱۵۱  ہجری میں وفات پائی ۔محمد صاحب کے بارے میں حدیثیں اس نے ایک کتاب میں جمع کیں ،لیکن اب وہ کتاب بھی موجود نہیں ۔لیکن اُس کے دوست اور شاگرد’’ ابنِ ہشام‘‘  نے ’’ابنِ اسحٰق‘‘ کے جمع کردہ مسالے کو اپنی کتاب ’’سیرت الرسول ‘‘ ۵ میں مندرج کیا۔ ’’ابنِ ہشام‘‘ کی یہ کتاب اب تک موجود ہے اور محمد صاحب کی تاریخ لکھنے کے لئے اس ’’سیرت الرسول ‘‘     کا مطالعہ لازمی ہے۔اسلامی تاریخ میں یہ شخص بہت مشہور  ہے۔اس نے ۲۱۳ھ میں وفات پائی  اور مابعد سوانح نویسوں نے ہمیشہ اس سے مدد لی۔اس مختصر رسالے میں بھی اس مصنف سے چند اقتباسات لئے گئے ہیں۔

دوسرا مشہور مصنف جس کی تصنیفات ہم تک پہنچی ہیں،وہ’’ محمد بن سعد‘‘ 6 ہے جو عالم و اقدی کا منشی تھا۔اس نے۲۳۰ ھ میں وفات پائی۔اس نے پندرہ رسالے لکھے ۔ان میں سے ایک ’’سیرت المحمدصاحب‘‘ ہے۔اس کتاب میں مضمون کے لحاظ سے ،نہ تاریخی سلسلے کے لحاظ سے حدیثیں جمع کی گئیں ہیں۔لیکن جو شخص اس مضمون کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو اس سے گراں بہا مدد مل سکتی ہے۔

محمد صاحب کی زندگی کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا دوسرا چشمہ احادیث ہیں۔ان حدیثوں کے کئی مجموعے موجود  ہیں۔ان میں محمد صاحب کے اقوال و افعال کا بیان مندرج ہے اور اُن کی روزانہ زندگی کا خوبصورت خاکہ دیا گیا ہے۔یہ حدیثیں محمد صاحب کے اصحاب پہلے پہل تو زبانی بیان کرتے گئے،بعد ازاں ان کو جمع کر کے مختلف کتابوں میں قلم بند کر لیا۔ان مختلف کتابوں میں سے دو بہت مشہور ہیں یعنی’’ صحیح مسلم ‘‘اور’’ صحیح بخاری‘‘۔ان دونوں کتابوں کے مصنف تیسری صدی ہجری کےوسط میں رحلت کر گئے۔اس رسالے میں ان دونوں کتابوں اور ’’جامع الترمزی‘‘ کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔

محمد صاحب  کے بارے میں علم حاصل کرنے کا تیسرا چشمہ قرآن مجید اور اُس کی مستند تفاسیر ہیں۔شاید مابعد احادیث کی کوئی بے وقری    (بے عزتی)   کرے ،لیکن قرآن  مجید میں تو بانی اسلا م کی زندگی کے بارے میں ہم عصر شہادت موجود ہے اور اس جنگی نبی کی تصویر کو قرآن  مجیدکی شہادت کے بغیر تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔اس میں بھی مفسروں کی تشریحات سے مدد لی گئی ہے ،جنہوں نے محمد صاحب کی زندگی کے متعلق بے شمار واقعات کا ذکرقرآن  مجید کی بعض مشکل آیات کی توضیح کے لئے کیا ہے۔چنانچہ اس رسالے  کو لکھنے میں ہم نے عباس ،بیضاوی اور جلالین سے اور کچھ کم معتبر مفسر مثلاً قادری،عبد القادر،روخی اور خلاصہ تفاسیر سے مدد لی۔

ایک اَور بات کا ذکر کرنا باقی رہا۔قدیم سانحہ نویسوں کی طرح ہم نے بھی مضمون کے مطابق اس کتاب کے ابواب کی تقسیم کی ہے اور تاریخ یا زمانہ کی چنداں پابندی  نہیں کی۔اس لئے گو دو بڑے حصے یعنی ’’محمد صاحب کی زندگی مکے میں’’ اور’’ محمد صاحب کی زندگی مدینے میں‘‘ہم نے قائم رکھے ،تو بھی بعض اوقات چند واقعات جو ایک زمانے سے تعلق رکھتے تھے، وہ دیگر ویسے ہی واقعات کے ساتھ جن کا تعلق دوسرے زمانے سے تھا اکٹھے کر دیئے گئے۔ہم نے یہ کوشش بھی کی کہ یہ کتاب اِسم با مُسمّٰی   (جیسا نام ویسے گُن یعنی اپنے  نام کے عین مطابق)  ہو اور محمد صاحب کی زندگی کےمتعلق صرف اُنہی واقعات کا بیان کریں جن کو مسلمان مورخوں نے قلم بند کیا تھا۔

ڈبلیو ۔جی   (دسمبر۱۹۱۵ء) 


۲. Musa bin Uqba, Kitab-ul-Maghazi, A Fragment of the Lost Book of Musa B.'Uqba
Alfred Guillaume, The Life of Muhammad, A Translation of Ishaq’s Sirat Rasul Allah, p. xlii - xlvii