چوتھا باب
قریش سے تکرار
جب محمد صاحب کے پیروابی سینا کو ہجرت کر گئے تو رفتہ رفتہ وحی کے لہجے نے بھی کچھ سختی اختیار کرلی ۔پہلے پہل تو خدا کی وحدت ،خلقت میں اس کی قدرت اور حکمت پر زور دیا جاتا تھا اور قیامت اور عدالت کے یقینی ہونے کا بیان سنایا جاتا تھا ۔لیکن اب بے ایمان عربوں پر سخت لعنتوں کی بھر مار ہونے لگی ۔آیندہ سزا کی سختی ظاہر کرنے کے لئے دوزخ کی آگ و عذاب کا مفصل ذکر ہونے لگا اور جنہوں نے ان کی ایذارسانی میں خاص حصہ لیا تھا اُن پر لعنتیں اور بد دعائیں ہونے لگیں ۔چنانچہ قریش پر جو لعنت کی گئی اس کی ایک دو مثالوں سے ظاہر ہو جائے گا کہ انہوں نے محمد صاحب اور اُن کی تعلیم کی کہاں تک مخالفت کی تھی۔سورۃ الحج (سورہ۲۲) میں جس کے بعض حصے شاید مدینہ کو ہجرت کر جانے سے تھوڑا عرصہ پہلے نازل ہوئے ،بے ایمان قریش سے یوں خطاب کیا گیا :
سورہ الحج ۔ آیت ۱۹ سے ۲۱
هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
ترجمہ:’’جو لوگ خدا کو نہیں مانتے اُن کے لئے آگ کے کپڑے قطع کر دیئے گئے ہیں۔اُن کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس سے جو کچھ اُن کے پیٹ میں ہے اور کھالیں جل جائیں گی اور اُن کے لئے لوہے کے گُرزہوں گے اور گُھٹے گُھٹے جب اُن سے نکلنا چاہیں تو اُسی میں پھر دھکیل دیئے جائیں گے اور اُن کو حکم دیا جائے گا کہ جلنے کے عذاب چکھا کرو‘‘۔
سورۃ لہب (۱۱۱) اس سے کچھ پہلے کی ہے اور اُس میں محمد صاحب کے چچا ابو لہب کا ذکر ہے۔وہ محمد صاحب کی سخت مخالفت کیا کرتا تھا۔گالی دشنام دینے میں محمد صاحب اپنے رشتہ دار وں سے کچھ پیچھے نہیں رہے۔چنانچہ اس سے جو اقتباس دیا جاتا ہے اُس میں بخوبی روشن ہے اور سب مسلمان مانتے ہیں کہ یہ سورہ بھی لوح محفوظ میں ابتدائے عالم سے پیشتر لکھی تھی۔وہ عبارت یہ ہے:
’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور ہلاک ہوا ،نہ تو اُس کا مال ہی اُس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی اور وہ ڈینگ مارتے ہوئے عنقریب آگ میں جا داخل ہو گا اور اُس کی جورُو بھی جو لگائی بجھائی کرتی پھرتی ہے کہ اُس کی گردن میں بھانجوان رسی ہو گی‘‘۔
یہ جائے تعجب نہیں کہ جب محمد صاحب نے نام لے لے کر کوسنا شروع کیا تو انتقام کے لئے سخت غصہ وغضب بھڑک اُٹھا اور یہ منصوبے ہونے لگے کہ اسلام کی اشاعت کسی طرح بند کر دی جائے۔اس میں تو شک نہیں کہ اگر ابو طالب کا یہ ڈر نہ ہوتا کہ اس کے بھتیجے کے قتل سے خون کا پاداش لیا جائے تو محمد صاحب کو انہوں نے کب کا قتل کر دیا ہوتا ۔لیکن محمد صاحب پر اس کا اُلٹا اثر ہوا۔وہ آگے سے زیادہ بت پرستی پر ملامت کرنے اور اپنے دعویٰ نبوت پر زور دینے لگے اور قرآن مجید کے لئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خدا کا کلام تھا جو آدمیوں کی ہدایت کے لئےآسمان سے نازل ہوا۔لیکن ایسے دعویٰ کا جو اب بے ایمان قریش نے ہمیشہ یہ دیا کہ یہ اس کا اپنا بنایا ہوا تھا کہ وہ محض ’’اساطیر الاولین‘‘ یعنی پہلو ں کی کہانیاں تھا۔
ابن ہشام نے سیرت الرسول میں اس زمانہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے اِن منکرعربوں کے سلوک کا حال معلوم ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک روز نذیر بن حارث نے اہل قریش کے سامنے کھڑے ہو کر فارسی بادشاہوں کے چند قصے سنائے اور یہ کہا:
والله ما محمد بأحسن حديثاً مني وما حديثه إلا أساطير الأولين كتبه كما أكتبه
ترجمہ:’’خدا کی قسم محمد صاحبکی کہانیاں میری کہانیوں سے بہتر نہیں، وہ تو قدیم لوگوں کے قصے ہیں جو اُس نے لکھ لئے ہیں جیسے کہ مَیں نے لکھ لئے ہیں‘‘۔
جب محمد صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہنے لگا کہ اس کی خبر یہودی اور مسیحی مقدس کتابوں میں دی گئی تھی تو قریش نے یہ جواب دیا:
يا محمد لقد سألنا عنك اليهود والنصارى فزعموا أن ليس لك عندهم ذكر ولا صفة فأرنا من يشهد لك أنّك رسول الله
ترجمہ:’’اے محمد صاحب ہم یہودیوں اور عیسائیوں سے تیری بابت پوچھ چکے ہیں۔لیکن انہوں نے یہ جواب دیا کہ تیری بابت اُن کے پاس کوئی پیشین گوئی نہیں۔پس اب ہم کو بتا کہ تیرے بارے میں کون گواہی دیتا ہے کہ توخدا کا نبی ہے‘‘ (تفسیر البیضاوی،صفحہ۱۷۱) ۔
پھر جب محمد صاحب نے قدیم بزرگوں کا حال قریش کے سامنے بیان کیا جیسا کہ اس نے اپنے یہودی دوستوں کی زبانی سنا تھا۔ (ایسے قصے جو توریت کے مطابق نہیں بلکہ تالمود کے جعلی قصوں کے مطابق ) تو قریش نے یوں طعنہ دیا۔
إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ
ترجمہ:’’تحقیق اُسے کوئی آدمی سکھاتا ہے‘‘ (سورۃ نحل ۱۰۳:۱۶) ۔
تفسیروں سے یہ واضح ہے کہ یہ جواب محض کسی اٹکل پر مبنی نہ تھا بلکہ اُس سے عام لوگ واقف تھےیعنی یہ کہ محمدصاحب چند یہودیوں اور مسیحیوں کی زبان بائبل مقدس کےقصے سنا کرتے تھے اور پھر اہل عرب کو وحی سماوی کے طور پر سنایا کرتےتھے۔مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں مولوی بیضاوی نے اس بات کو بخوبی ثابت کر دیا کہ اہل قریش کا یہ طعن بالکل درست تھا۔چنانچہ اُس تفسیر میں یہ عبارت آئی ہے:
يعنون جبرا الرومي غلام عامر بن الحضرمي، وقيل جبراً ويساراً، كانا يصنعان السيوف بمكة ويقرآن التوراة والإنجيل وكان الرسول صلى الله عليه وسلم يمرّ عليهما ويسمع ما يقرآنه
ترجمہ:’’کہتے ہیں کہ جس شخص کی طرف یہاں اشارہ ہے وہ یونانی (یعنی مسیحی) غلام جبر نامی غلام عاَمر ابن الحضرمی تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں اشارہ جبر اور یسار کی طرف تھا۔یہ دونوں مکے میں تلواریں بنایا کرتے تھے۔یہ دونوں توریت اور انجیل پڑھا کرتے تھے اور نبی اُن کے پاس سے گزرتےوقت سننے کے لئے ٹھہر جاتے تھے‘‘۔
مدرک اور حسین نے بھی یہی بیان کیا ہے ۔ا س لئے کچھ شک نہیں کہ محمدصاحب نے عہد عتیق اور عہد جدید کے جو قصے سنائے وہ انہوں نے یہودیوں اور مسیحیوں سے سیکھے تھے۔اسی وجہ سے قریش نے اُن کو نئے مکاشفے کے طور پر قبول کرنا نہ چاہا۔
اہل قریش اور مسلمانوں کے درمیان معجزوں کے بارے میں بھی بہت تکرار رہی ۔جب محمدصاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے تئیں موسیٰ اور عیسیٰ کا جانشین قرار دیا تو قریش نے یہ طعنہ دیا کہ اُن بزرگوں کی رسالت تو اُن کے معجزوں کے ذریعے ثابت ہوگئی۔لیکن تمہارے پاس وہ سند کہاں ہے؟چنانچہ قرآن مجید میں بار بار محمدصاحب سے معجزے طلب کرنے کا ذکر پایا جاتا ہے اور ہر موقعے پر محمدصاحب نے ایک ہی جواب دیا۔اُنہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ مجھے معجزے نہیں دیئے گئے اور یہ کہ معجزے صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں اور مَیں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ ایسی بے شمار آیتوں میں سے ایک آیت کا پیش کر دینا کافی ہوگا۔یہ سورۃ انعام (۱۰۹:۶) میں ہے:
وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔
ترجمہ:’’اور اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ اُن کے سامنے آئے تو وہ ضرور اُس پر ایمان لے آئیں گے تم سمجھا دو کہ معجزے تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور تم لوگ کیا جانو یہ لوگ تو معجزے آئے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔
مفسروں کا یہ بیان ہے کہ قریش نے باربار محمدصاحب کے پاس آ کر یہ کہا’’اے محمدصاحب تو نے خود ہمیں کہا ہے کہ موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو چیرا اور اس میں سے پانی بہہ نکلا اور عیسیٰ نے مردوں کو زندہ کیا۔اگر تو بھی ایسا نشان ہمیں دکھائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے‘‘۔یہ تو سچ ہے کہ حدیثوں میں محمدصاحب کے بے شمار فسانہ آمیز معجزوں کے قصے آئے ہیں ،لیکن وہ تو مابعد لوگوں کی اختراع معلوم ہوتے ہیں اور محمدصاحب کی عزت بڑھانے کی خاطر درج کئے گئے۔اُس زمانے کی ایک ہی واحد کتاب جو ہم تک پہنچی ہے، وہ قرآن مجید ہے اور اُس میں صاف طور سے واضح کر دیا گیا کہ محمدصاحب قریش کا یہ تقاضا پورا نہ کر سکے۔شاید یہاںمعراج کا ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔قرآن مجید میں اس قصے کی طرف صرف یہ اشارہ ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا
ترجمہ:’’اس کی تعریف ہو جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا جس کا احاطہ مبارک ہے تاکہ ہم اپنی نشانیاں اُسے دکھائیں‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل۱:۱۷) ۔
مابعد کی حدیثوں نے روحانی رویت کے اس سادہ بیان کو عجیب قصہ بنا دیا کہ محمد صاحب بدن کے ساتھ آسمان پر کی سیر کر آئے۔مِشکوٰۃ المصابیح اور قصص الانبیا اور دیگر حدیثوں میں ا س قصہ کا مختصر بیان یہ آیا ہے:
’’ایک رات کو جب محمد صاحب مکے میں اپنے گھر سو رہا تھا تو ناگہان فرشتہ جبرائیل اُس کے پاس آکھڑا ہوا اور اس کاسینہ چاک کر کے اُس کے د ل کو نکالا اور اُسے پانی سے دھویا اور پھر اس کو اسی مقام میں رکھ دیا اور ایک عجیب المخلوق مرکب براق نامی پر محمدصاحب کو سوار کر کے طرفتہ العین میں یروشلیم کی مشہور ہیکل میں لے گیا۔یہاں محمد نے نماز ادا کی اور پھر وہاں سے فرشتہ اُس کو آسمان میں لے گیا ۔وہاں خدا تعالیٰ سے اُس نے کلام کیا۔اسی رات وہ واپس زمین پر آگیا‘‘۔
اسی سفر کا نام معراج ہے اور اسے ایک بڑا معجزہ سمجھا جاتا ہے اور اُن کی رسالت کے ثبوت اور دعویٰ نبوت کی تصدیق میں پیش کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ہم ذکر کر چکے قرآن مجیدمیں اس کاذکر محض رات کی رویت کے طور پر آیا ہے۔چنانچہ سر سید احمد خان مرحوم نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔اس میں سفر کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی ۶۰آیت میں یوں آیا ہے:
وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ۔
ترجمہ:’’ اور خواب جو ہم نے تم کو دکھایا تو بس اس کولوگوں کی آزمائش ٹھہرایا اور درخت کو جس پر قرآن مجید میں لعنت کی گئی ہے‘‘۔
جلالین اور عباس دونوں نے ا س آیت کو معراج سے منسوب کیا ۔محمد عبد الحکیم نے قرآن مجید کی تفسیر میں (صفحہ۴۰۰) یہ لکھا:
یہ سب اعلیٰ درجہ کی رویت تھی جسے رسول نے رات کے وقت دیکھا تھا جیسا کہ اس سورہ کی پہلی آیت میں مذکور ہے کہ’’وہ اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا‘‘۔
ابن ہشام نے سیرت الرسول کے صفحہ۱۳۹ پر یہ بیان کیا کہ:
إن عائشة زوج النبي صلعم كانت تقول ما فقد جسد رسول الله صلعم ولكن الله أسرى بروحه
ترجمہ:’’تحقیق عائشہؓ زوجہ رسول کہا کرتی تھی کہ رسول خداکا بدن تو غائب نہیں ہوا لیکن خدا رات کے وقت اُس کی روح کو لے گیا‘‘۔
اس مفسر نے ایک اَور حدیث معاویہ ابن ابو سفیان کے بارے میں اس مضمون کی قلم بند کی:
كان إذا سُئل عن مسرى رسول الله صلعم قال كانت رؤيا من الله تعالى صادقة.
ترجمہ:’’جب اس سے رسول خدا کے رات کے سفر کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے کہا یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سچی رویت تھی‘‘۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث اسی مضمون کی ابن ہشام نے قلم بند کی ہے:
کان رسول اللہ صلعم یقول فیمابلغنی تنام عینی و قلبی یقظان۔
ترجمہ: ’’رسول خدا یہ کہا کرتے تھے جو کچھ مجھے پہنچا اس وقت میری آنکھ سو رہی تھی لیکن میرا دل بیدار تھا‘‘۔
ان ابتدائی مسلمانوں کی شہادت سے یہ واضح ہے کہ جس معراج کا ذکر سیرت الرسول میں ہوا وہ ایک خواب یا رویا تھا ۔اُس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ معجزے کر سکتے تھے۔قرآن مجید کے سارے مفسروں نے ان الفاظ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کی بالاتفاق یہ تفسیر کی ہے کہ یہ یروشلیم کی ہیکل تھی اور مِشکوٰۃ المصابیح میں اس معراج کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے کہ محمد صاحب نے کہا:
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معراج کا بیان ۔ حدیث ۴۴۷
وعن ثابت البناني عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أتيت بالبراق وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يقع حافره عند منتهى طرفه فركبته حتى أتيت بيت المقدس فربطته بالحلقة التي تربط بها الأنبياء " . قال : " ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين
ترجمہ:’’ اور حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( تابعی ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے سامنے براق لایا گیا جو ایک سفید رنگ کا ، دراز بینی ، میانہ قد ، چوپایہ تھا ، گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا ، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا ، اور میں نے اس براق کو ( مسجد کے دروازہ پر ) اس حلقہ سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرام ( اپنے براقوں کو یا اس براق کو ) باندھتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی ، ‘‘۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یروشلیم کی یہودی ہیکل اس وقت بالکل برباد ہو چکی تھی جیسا کہ ہر تعلیم یافتہ شخص کو معلو م ہے۔ محمد صاحب کی پیدائش سے صدیوں پیشتر رومیوں نے اس کو برباد کر دیا تھا اور اس وقت سے وہ کبھی تعمیر نہ ہوئی ۔اس اَمر واقعہ سے مطلع ہو کر بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں نے محمد صاحب کے جسم کے ساتھ معراج کرنے کے قصے کو رد کر دیا اور یہی کہنے لگے کہ یہ رویا تھی ۔چنانچہ سر سید احمد خاں نے اپنے لیکچروں میں اس کی یہی تشریح بیان کی:
’’مسلمانوں کو معراج کے بارے میں جس اَمر پر ایمان لانا چاہیے وہ یہ ہے کہ محمد صاحب نے رویت میں اپنے تئیں مکہ سے یروشلیم جاتے دیکھا اور اس رویت میں اُس نے فی الحقیقت اپنے رب کے بڑے سےبڑے نشانوں کو دیکھا‘‘۔
ایک دوسرے تعلیم یافتہ مسلمان مرزا ابو الفضل نامی نے اپنی کتاب منتخیات قرآن (صفحہ۱۸۱) میں قرآن مجید کی اس آیت کی یہ تفسیر کی:
’’ا س میں معراج کی اس مشہور رویت کی طرف اشارہ ہے جو محمد صاحب نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پیشتر دیکھی تھی‘‘۔
سید امیر علی صاحب نے بھی ا پنی کتاب حیات محمد صاحب (صفحہ۵۹،۵۸ انگریزی) میں یہ رقم کیا:
’’یہ عرصہ بھی معرا ج کی اُس رویت کے باعث قابل لحاظ ہے جس نے شاعروں اور محدثوں کے خیالات میں سنہری خوابوں کے جہانوں کو پیدا کر دیا اور قرآن مجید کے سادہ الفاظ سے بے شمار فسانے اور قصے بنا لئے۔۔۔میرے خیال میں میور صاحب نے ٹھیک کہا کہ’’ قدیم مصنف اسے رویا سمجھتے تھے،نہ کوئی سفر بدن کے ساتھ‘‘۔
اصل بات یہ ہے بشرطیکہ قرآن مجید کی شہادت قبول کی جائے کہ محمد صاحب نے کوئی معجزہ نہیں کیا۔اس نے بار بار اس کا انکار کیا۔جب منکر قریش نے اس سے معجزہ طلب کیا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ سکتا تھا کہ قرآن مجید ہی اُس کا واحد معجزہ تھا۔چنانچہ اس سے یہ روایت ہے:
مَا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ من نَبِيٌّ إِلَّا قد أُعْطِيَ من الآيات مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ
ترجمہ:’’کوئی پیغمبر نہیں گزرا جسے معجزہ نہ ملا ہو تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں،لیکن مجھے تو وحی ملی ہے‘‘۔
قرآن مجید میں بھی بالکل یہی مضمون آیا ہے۔چنانچہ سورۃعنکبوت (۵۱،۵۰:۲۹ ) میں یہ لکھا ہے:
وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۔اَوَ لَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ۔
ترجمہ:’’اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جب تک اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان اس پر نازل نہ ہو۔۔۔۔ تو کہہ کہ نشان تو صرف خدا ہی کی طاقت میں ہیں۔میں تو صرف صاف ڈرانے والا ہوں۔کیا اُن کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی تاکہ تو اُن کو پڑھ کر سنایا کرے‘‘۔
اس کے بارے میں کہ محمد صاحب کوئی معجزہ نہ دکھا سکے قرآن کی شہادت ایسی صریح ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مجبوراً ایسی حدیثیں رد کرنی پڑیں جن میں محمد صاحب کے عجیب و غریب معجزوں کا ذکر ہوا اور ان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ محمد صاحب نے اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔چنانچہ سید امیر علی صاحب نے اپنی کتاب حیات محمدصاحب کےصفحہ۴۹ (انگریزی) پر یہ صاف لکھ دیا کہ:
’’ اُنہوں نے محمد صاحب سے اُس کی رسالت کے ثبوت میں معجزہ طلب کیا تو یہ غور طلب جواب اُنہوں دیا کہ’’خدا نے مجھے معجزے کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔اُس نے تو مجھے تمہارے پاس وعظ کرنے کو بھیجا ہے۔اس لئے جو کچھ میں لایا ہوں اگر تم اُس پر ایمان لاؤ تو تم کو اس جہاں میں بھی خوشی ہو گی اور اگلے جہان میں بھی۔اگر تم میری نصیحت رد کرو گے تو میں تو صبر کروں گا اور خدا میرے اور تمہار ےدرمیان فیصلہ کرے گا۔ محمد صاحب نے معجزے دکھانے کی طاقت سے انکار کر کے اپنی منجانب اللہ کی رسالت کی بنیاد سراسر اپنی تعلیم پر رکھی‘‘۔
محمد صاحب نہ صرف قرآن مجید کو خدا کی طرف سے مکاشفے کے طور پر پڑھا کرتے تھے بلکہ اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ انسانی ساخت کی ساری علمی کتابوں سے وہ اعلیٰ کتاب تھی۔المختصر انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن مجیدایک لاثانی کتاب ہے اور یہ اعلان کر دیا کہ انسانوں اورجنّوں میں سے اگرکسی کو طاقت ہے تو اس کی مثل بنا لائے۔پھر بھی یہ عجیب بات ہے کہ تفسیروں اور حدیثوں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ قرآن مجید کے بعض حصوں کو محمد صاحب کے سوائے دوسروں نے تیار کیا۔چنانچہ تفسیر بیضاوی کے صفحہ ۱۶۴ پر ایک قصہ آیا ہے کہ محمد صاحب کا ایک منشی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھا جس نے کم ازکم ایک آیت قرآن کی بنائی۔بیضاوی نے جس قصہ کا بیان کیا ،وہ یہ ہے:
عبد الله بن سعد بن أبي سرح كان يكتب لرسول الله فلما نزلت: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُلالَةٍ مِّن طِينٍ، فلما بلغ قوله ثم أنشأناه خلقا آخر، قال عبد الله: فتبارك الله أحسن الخالقين تعجباً من تفضيل خلق الإنسان فقال عليه السلام اكتبها، فكذلك نزلت، فشك عبد الله، وقال: لئن كان محمداً صادقاً، لقد أوحي إليَّ مثل ما أوحي إليه، ولئن كان كاذباً، فلقد قلت كما قال
ترجمہ:’’عبد اللہ بن سعد بن سرح رسول اللہ کا منشی تھا اور جب یہ الفاظ نازل ہوئے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُلالَةٍ مِّن طِین اور ان الفاظ پر ختم ہوئے أنشأناه خلقا آخر تو عبداللہ نے چلا کر یہ کہا فتبارك الله أحسن الخالقين ۔۔۔۔۔۔اس پر محمد صاحب نے یہ کہا’’ان لفظوں کو لکھ دے کیونکہ ایسا ہی نازل ہوا ہے ‘‘۔لیکن عبداللہ کو شک ہوا اور کہنے لگا ’’اگر محمد صاحب کی بات سچ ہے تو جیسے اُس پروحی نازل ہوئی ویسی ہی مجھ پر بھی اگر محمد کی بات جھوٹ ہے تو میں نے بھی ویسا ہی کہا جیسا اُ س نے کہا تھا‘‘۔
بیضاوی کے اس قصے سے یہ واضح ہے کہ عبداللہ کے جملہ کی عمدگی سے محمد صاحب ایسے خوش ہوئے کہ اس جملہ کو فوراً قرآن میں داخل کر دیا اور اب تک یہ جملہ قرآن میں موجود ہے۔بخاری نے ایک معتبر حدیث روایت کی ہے جس کے ذریعے قرآن کے بعض دیگر مقاموں کا چشمہ بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ جس سے روشن ہے کہ محمد صاحب کے ہم عصروں میں بعض ایسے لوگ تھے جن کا طر ز کلام اور تحریر محمد صاحب کے طرز کلام سے کسی اَمر میں کم نہ تھا ،وہ حدیث یہ ہے:
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث ۶۵۸
عن أنس وابن عمر أن عمر قال : وافقت ربي في ثلاث : قلت : يا رسول الله لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى ؟ فنزلت [ واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى ] . وقلت : يا رسول الله يدخل على نسائك البر والفاجر فلو أمرتهن يحتجبن ؟ فنزلت آية الحجاب واجتمع نساء النبي صلى الله عليه و سلم في الغيرة فقلت [ عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن ] فنزلت كذلك وفي رواية لابن عمر قال : قال عمر : وافقت ربي في ثلاث : في مقام إبراهيم وفي الحجاب وفي أسارى بدر . متفق عليه
ترجمہ:’’ " حضرت انس اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا ۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مقام ابراہیم کو ہم نماز پڑھنے کی جگہ بنائیں تو بہتر ہو (یعنی طواف کعبہ کے بعد کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اگر وہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا ) پس یہ آیت نازل ہوئی : (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰه مَ مُصَلًّى) ۲۔ البقرۃ : ۱۲۵) اور بناؤ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ ۔" اور (دوسری بات یہ کہ ) میں نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو پردہ میں رہنے کا حکم فرمادیں (تاکہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ان کا آنا بند ہوجائے ) تو بہتر ہو ۔ پس (میرے اس عرض کرنے پر) پردہ کی آیت نازل ہوئی ۔ اور (تیسری بات یہ کہ ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے رشک وغیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا ۔ تو میں نے (ان سب کو مخاطب کر کے ) کہا تھا : اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار جلد تمہارے بدلے ان کو اچھی بیبیاں دے دے گا " پس میرے انہی الفاظ ومفہوم میں یہ آیت نازل ہوئی ۔اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا ، ایک تو مقام ابراہیم (کو نماز ادا کرنے کی جگہ قرار دینے ) کے بارے میں دوسرے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے ) پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں ۔ (
جن تین آیات کو عمر نے پیش کیا تھا وہ اب تک قرآن میں موجود ہیں اور کسی بات میں باقی قرآن سے متفرق نہیں۔قرآن مجید کو منجانب اللہ ثابت کرنے کے لئے محمد صاحب نے یہ دلیل بھی دی کہ وہ کبھی برباد نہ ہو گا ۔ محمد صاحب نے بار بار یہ کہا کہ خدا قرآن کا محافظ ہے تاکہ اس میں نہ تبدیلی ہواور نہ کسی طرح کی کمی بیشی ۔پس محمد صاحب نے بار بار اہل قریش کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن ہر زمانے میں ویسا ہی محفوظ رہے گا جیسا کہ جبرائیل فرشتے نے اُس کو محمد صاحب پر نازل کیا تھا اور اسی مقصد کے لئے محمد صاحب کا قول بھی مندرج ہے:
لُوْ جُعِلَ القرآنَ في إِهَابٍ ثمّ أُلقيِ في النَّارِ ما احْتَرَق
ترجمہ:’’اگر قرآن مجید کو چمڑے میں مجلد کر کے آگ میں ڈ ال دیں تو وہ جلے گا نہیں‘‘۔
ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں تاکہ یہ ظاہر کریں کہ قرآن مجید کے متن کو محمد صاحب کے زمانے سے لے کر کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ قرآن مجید کی جو معتبر تفسیریں ہیں ان میں بے شمار مختلف قراتوں کا بھی ذکر آیا ہےاور نیز اس کا کہ اصل قرآن مجید میں کس قدر کمی بیشی واقع ہوئی ہے۔اگر کوئی صاحب اس کا مفصل ذکر پڑھنا چاہے تو قرآن و اسلام نامی کتاب میں پڑھ سکتا ہے۔
محمد صاحب کے دشمن گو اُن کا جسمانی نقصان تو نہ کر سکتے تھے لیکن زبان سے برابر اُس کو بُرا بھلا کہتے رہے۔کبھی اُس کو انہوں نے دھوکے باز کہا اور کبھی عجب سوالوں سے اُسے تنگ کیا اور بعض اوقات جن لوگوں نے اُس کے دعویٰ کو رد کیا تھا اُس سے طعن و تشنیع کے ساتھ پیش آئے اور جو حال ہم تک پہنچا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب کو ان لوگوں نے تنگ کر رکھا تھا۔بیضاوی نے اس قسم کا ایک قصہ بیان کیا ہے جس کو مثال کےطور پر ہم یہاں درج کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک دن قریش محمد صاحب کے پاس تین سوال لے کر آئے لیکن جب محمد صاحب اُن کو جواب نہ دے سکا تو اُن کو دوسرے دن بلوایا،لیکن دوسرے دن بھی وہ تیار نہ تھے۔اس لئے اُن سے کہا کہ کسی اَور دن آنا۔بیضاوی نے اس قصہ کو یوں بیان کیا ہے:
قَالَتِ الْيَهُودُ لِقُرَيْشٍ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَذِي الْقَرْنَيْنِ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ ائْتُونِي غَدًا أُخْبِرْكُمْ وَلَمْ يَسْتَثْنِ فَأَبْطَأَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بضعة عشر يوماً حَتَّى شَقَّ عَلَيْهِ وكذبته قريش
ترجمہ:’’یہودیوں نے قریش کو کہا کہ تم اُس (محمد صاحب) سے روح،اصحاب کہف اور اسکندر اعظم کے بارے میں سوال کرو‘‘۔تب انہوں نے یہ سوال کیے۔لیکن اُس نے کہا تم نے میرے پاس کل آنا تو میں جواب دوں گا۔لیکن وہ انشااللہ کہنا بھول گیا اور اس لئے دس روز تک کوئی وحی اس پر نازل نہ ہوئی اور یہ اُس پر بہت شاق گزرا اور قریش اُسے کذّاب کہنے لگے‘‘۔
عباس اور ابن ہشام نے (جلد اول،صفحہ۲۷۳) بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں نے محمد صاحب کے آزمانے کے لئے کہ آیا وہ نبی ہے یا نہیں یہ منصوبہ باندھا تھا۔یہ جائے تعجب نہیں کہ جب معترضین کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے ناراض ہو کر اُسے کذاب کہنا شروع کیا۔
محمد صاحب کے دشمن ایک اَور بات میں بھی اُس پر طعن کیا کرتے تھے۔قرآن مجید کے مختلف مقامات ایک دوسرے کے نقیض تھے اور اگر اس کتاب کو غور سے پڑھیں تو ایسے بہت نقیض مقامات ملیں گے اور اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ منکر عربوں نے فوراً اس سقم (خرابی۔نقص) کو دریافت کر کے قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے پر اعتراض کئے۔پہلے پہل جب محمد صاحب مکے میں بے کسی جیسی حالت میں تھے اور ان کی زندگی محض قوم کی مرضی پر حصر (منحصر ۔انحصار کرنا) رکھتی تھی ۔اس وقت انہوں نے مذہبی آزادی اور نرمی کے اصول کی تلقین کی۔لیکن مابعد زمانے میں جب مدینہ میں جنگی عربی فوج اس کے زیر فرمان تھی تو اُنہوں نے اپنے لہجے کو بدلا اور جہاد کی تلقین ہونے لگی اور مکہ سے بھاگ کر جب محمد صاحب پہلی دفعہ مدینہ پہنچے تو اُنہوں نےبارسوخ یہودیوں کے تالیف قلوب کی خاطر یروشلیم کو اپنا قبلہ ٹھہرایا۔مگر بعد ازاں جب اُن کو یہ امید نہ رہی تو کعبہ کو اپنا قبلہ بنا لیا کہ اُس کی طرف منہ کر کے سجدہ کریں تاکہ عربوں کو خوش کرے،کیونکہ اہل عرب کی نگاہ میں وہ قدیم سے قومی مقدس مانا جاتا تھا۔ مگر عربوں نے اس طرز پر بھی پھبتیاں اُڑائیں اور جب محمد صاحب نے یہ کہا کہ اس تبدیلی کا حکم خدا نے دیا ہے تو انہوں نے یہ کہا:
إنما أنت مفتر متقول على الله تأمر بشيء ثم يبدو لك فتنهي عنه
ترجمہ:’’تو (اے محمد صاحب) مفتری (فریبی) ہے تو اپنے الفاظ کو خدا سے منسوب کرتا ہے تو پہلے ایک بات کا حکم دیتا ہے اور پھر اپنے دل ہی سے اس کو بدل کے اُس کو منع کرتا ہے‘‘ (تفسیر البیضاوی،صفحہ۳۶۶) ۔
یوں زمانہ گزرتا گیا اور قریش غیر مطمئن اور منکر کے منکر رہے ۔جب انہوں نے محمد صاحب سے معجزہ طلب کیا تو اُس نے کہا کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہی ہوں اور جب سوالات کے ذریعے محمد صاحب کی نبوت کا ثبوت مانگا تو وہاں بھی مایوسی کے سوا اور کچھ نتیجہ نہ ہوا۔پس وہ اس ڈرانے والے سے متنفر ہو گئے اور ایسے شخص کو اپنے درمیان رہنے دینے کے روز بروز خلاف ہو تےگئے اور ان کو یہ یقین ہو گیا کہ محمد صاحب دھوکے باز اور احمق تھا۔