پانچواں باب

محمد صاحب کی وفات

 

محمد صاحب کا مقبرہ

 

مدینے  کے قرب وجوار میں جو یہودی  رہتے تھے جب ان کو محمد صاحب مطیع بنا چکے تو عرب کے  بعید علاقوں میں مسلح فوجی دستے بھیج کر یہ تقاضا کرنے لگے کہ اگر وہ  بت پرست ہوں تو یا اسلام قبول کر یں یا تلوار کے گھاٹ اتارے جائیں۔جامع الترمذی (جلد دوم) صفحہ۴۶۸ میں یہ مندرج ہے کہ محمد صاحب نے اپنی فوجوں کو یہ حکم دے کر بھیجا:

أمرت أن أقاتل الناس حتّى يقولوا لا إله إلا الله

ترجمہ:’’مجھے اُن سے جنگ کرنے کا حکم ملا ہے جب تک کہ وہ یہ کلمہ نہ پڑھیں،لا الہ الااللہ‘‘۔

یعنی جب تک کہ وہ اسلام قبول  نہ کریں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سینکڑوں نے اسلام کا آسان طریقہ قبول کیا اور مسلمانی خون چکاں  (جس سے خون ٹپکتا ہو) تلوار سے جو چاروں طرف چمک رہی تھی ،رہائی حاصل کی۔ اب محمد صاحب نے مکے کے حج کا ارادہ کیا اور سن چھ ہجری میں ایک لشکر جرار (بڑا بھاری لشکر)  لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔لیکن قریش نے اُس  کوشہر میں گھسنے نہ دیا۔کچھ گفت وشنید کے بعد مکہ کے نزدیک بمقام حدیبہ ان دونوں میں عہدو پیمان ہو گئے اور اُس میں یہ شرط ٹھہری کہ اب مسلمان بغیر حج کئے واپس چلے جائیں۔لیکن اگلے سال اُن کو مکہ میں داخل ہو کر حج کرنے کی پوری آزادی ہوگی اور کوئی تکلیف اُن کو نہ دی جائے گی۔بخاری نے اس عہد نامہ کا دلچسپ بیان دیا ہے اور مِشکوٰۃ المصابیح میں مندرج ہے۔ابن ہشام نے بھی سیرت الرسول کی تیسری جلد کے صفحے ۱۵۹ پر اس کا ذکر کیا ہے ۔بخاری کے بیان کے مطابق اس موقعےپر علی کو محمد صاحب نے اپنا وکیل چنا اور جب محمد صاحب نے اس کو یہ الفاظ لکھنے کا حکم دیا’’عہدنامہ مابین محمد صاحب رسول اللہ اور سہیل بن عمر‘‘تو سہیل نے اس جملے ’’رسول اللہ ‘‘پر اعتراض کیا اور کہا کہ اگر قریش محمد صاحب کو رسول اللہ تسلیم کر لیتے تو پھر ان کی مخالفت کیوں کرتے۔اس پر محمد صاحب نے علی کوحکم دیا کہ یہ جملہ’’رسول اللہ‘‘ کاٹ دے اور اور اس کی جگہ سہیل کے کہنے کے مطابق’’ابن عبد اللہ‘‘ لکھ دے۔علی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ’’ میں ہر گز  یہ جملہ نہیں کاٹوں گا‘‘۔پھر یوں بیان ہے کہ:

أخذ رسول الله صلعم الكتاب وليس يحسن يكتب فكتب هذا ما قاضى محمد بن عبد الله

ترجمہ:’’رسول خدا نے کا غذ لیا۔گو اچھی طرح سے نہ لکھ سکے ،لیکن لکھا جیسا انہوں نے ( علی کو)  حکم دیا تھا یعنی’’محمد بن عبد اللہ‘‘۔

یہ قصہ اس لئے دلچسپ ہے کیونکہ اس میں اس اَمر کا ثبوت پایا جاتا ہے کہ محمد صاحب لکھ پڑھ سکتے تھے۔ گو زمانہ حال کے مصنف اس کے خلاف کچھ ہی کہیں ۔بعض دوسرے موقعوں کا بھی اس کتاب میں ذکر آیا ہے جن میں محمد صاحب نے کچھ لکھا۔

قریش کے ساتھ جب عہد بمقام حدیبہ باندھا گیا تو محمد صاحب مدینے واپس آئے۔اگلے سال وہ پھر مکے میں جا پہنچے اور ہزار ہا مسلمان اُن کے ہمراہ تھے اور عہد کے مطابق انہوں نے حج کی ساری رسوم ادا کیں۔عہد نامہ حدیبہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمانوں اور قریش  کے مابین دس سا ل تک صلح رہے گی۔لیکن جس سال محمد صاحب نے حج کیا تواگلے سال اس عہد کے خلاف دس  ہزار فوج کے ساتھ محمد صاحب اچانک مکے جا پہنچے ۔اہل قریش بالکل تیار نہ تھے اور شہر کو مسلمانوں نے بلا جنگ فتح کر لیا۔اس کے بعد کئی ایک مہمیں بھیجی گئیں جن کا مقصد تھا کہ قرب وجوار کے قبیلوں کو مطیع کریں۔علاوہ ازیں روم اور فارس کے بادشاہوں کو دعوت اسلام کے خط بھیجے۔

ان لگاتار مہموں کے باوجود بھی محمد صاحب کو نئے قوانین مشتہر کرنے کا موقعہ ملتا رہا۔تقریباً ہر صیغہ زندگی کے لئے وحی نازل ہوتی  رہی۔اس بیسویں صدی میں اُس کی بعض تعلیمات تو کچھ بے موقعہ سی معلوم پڑتی ہیں۔پھر بھی سب مسلمان ایماندار وں کا فرض ہے کہ اُس کی تعلیم کو وحی منجانب اللہ مانیں، مثلاً

  • قرآن مجید میں باربار یہ مذکور ہے کہ پہاڑوں کے پیدا کرنے میں خدا کا منشاء یہ تھا کہ زمین کو ہلنے سے بازرکھے۔
  • شہابئے  (وہ چمکتے ہوئے جرم فلکی جو رات کو ٹو ٹتے ہیں) وہ تِیر ہیں جو فرشتے شیاطین کی طرف پھینکتے ہیں جب کہ شیاطین آسمانی گفتگو کو سننے کے لئے جاتے ہیں۔
  • دوزخ اور بہشت کی تفصیلیں خاص طور پر قرآن مجید میں مندر ج ہیں۔یہ دونوں مقام مادی بیان ہوئے ہیں۔بہشت سایہ دار درختوں اور سرد ندیوں کی جگہ ہے،جہاں شہوات ِنفسانی پوری کی جاتی ہیں اور شراب کی ندیاں وہاں کے لوگوں کی پیاس بجھاتی ہیں۔دوزخ بدنی عذاب کی جگہ ہے جس کی نسبت قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق قرآن نے قسم کھائی ہے کہ جِنّ و انس سے بھر دے گا۔
  • اسی کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس مقصد کے لئے خدا نے انسانوں کو پیدا کیا بلکہ مسلمانوں کو بھی نار جہنم میں سے گزرنا پڑے گا اور قرآن مجید کی ایک مشہور آیت میں یہ مندرج ہے کہ ہر شخص اس عذاب کی جگہ میں داخل ہو گا۔

آج کل کے بعض مسلمان اس پر زور دیا کرتے ہیں کہ محمد صاحب ان کی سفارش کرے گا۔برعکس اس کے قرآن مجید میں بار بار یہ بیان کیا کہ عدالت کے د ن کوئی شفیع نہ ہو گا۔احادیث میں بھی گو اُن میں سے بعض قرآن کے خلاف ہیں، محمد صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اپنی بیٹی فاطمہ کو کہا کرتے تھے:

يا فاطمة انقذي نفسك من النار فإني لا أملك لكم من الله شيئاً

ترجمہ:’’ اے فاطمہ اپنے تئیں آگ سے بچا کیونکہ تیری بابت  مَیں خدا  سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔

محمد صاحب نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ وہ دوسروں کے بچانے کے ناقابل تھے بلکہ انہوں نے اپنے مستقبل کی طرف سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔چنانچہ بخاری میں اس مضمون کی ایک حدیث ہے:

والله لا أدرى وأنا رسول الله ما يُفعل بي ولا بكم

ترجمہ:’’خدا کی قسم گو مَیں رسول خدا ہوں مَیں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا‘‘۔

قرآن مجید میں بھی یہی بیان آیا ہے  (دیکھو سوہ احقاف)  ۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب اسمااللہ میں یہ مندرج ہے:

لَنْ يُنَجِّيَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ قَالُوا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَته

ترجمہ:’’ تم میں سے کسی کے اعمال اُس کو نہ بچائیں گے۔ (ایک نے کہا) اے رسول خدا کیا تیرے اعمال بھی؟انہوں نے جواب دیا’’میرے بھی جب تک خدا مجھ پر رحمت نہ کرے‘‘۔

بلکہ محمد صاحب کو اپنے مستقبل کی ایسی فکر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو ان  کے لئے یہ دعا کرنے کی تلقین کی:

إذا تشهد أحدكم في الصلاة فليقل: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وبارك على محمد وعلى آل محمد وارحم محمدا وآل محمد كما صليت وباركت وترحمت على ابراهيم وعلى آل إبراهيم

ترجمہ:’’جب تم میں سے کوئی  (اپنی نماز کے وقت )  خدا اور اُس کے رسول  کے بارے میں شہادت دے تب وہ  یہ کہے’’اے خدا محمد اور اس کی آل کو برکت دے اور محمد اور آل محمد پر رحم کر جیسا تو نے ابراہیم اور اس کی اولاد کو برکت دی اور رحم کیا‘‘۔

آ ج تک ساری دنیا میں مسلمان اپنے نبی کی بھلائی  کے لئے اِس دعا کو دہراتے ہیں۔ ہجری کے گیارہویں سال میں محمد صاحب بیمار ہو گئے۔مسلسل تیز بخار نے اُنہیں کمزور کر دیا اور بہت جلد وہ  شدید بیمار نظر آنے لگے۔جب اُسےاپنے آخری ایام  کے متعلق اندیشہ ہونے لگا تو اُس نے ابو بکرؓ  کو  مقر ر کیا کہ وہ اُس کی جگہ پر امام مسجد ہو اور پھر اپنی خاموشی (موت)  کے وقت عائشہ کے کمرے میں اُس نے قلم اور سیاہی  لانے کو کہا تا کہ وہ اپنی  (دی ہوئی)  گزشتہ تعلیم میں کچھ  اضافہ کر سکے۔لیکن جو آگ  (بخار کی حرارت) بڑی تیزی سے سلگ رہی تھی بہت زیادہ شدت اختیار کر گئی  اور محمدصاحب زندہ نہ رہا کہ ان الفاظ کا اضافہ کر سکےجو کہ اس کے  مذہب کی تکمیل اور اس کے پیرو کاروں کو  بھٹکنے سے روکتے۔یہ واقعہ دو وجوہات کی بنا  پر اہم ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ محمد پڑھ اور لکھ سکتا تھا اور اس واقعہ سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس نے اپنا  (اسلامی مذہبی) نظام نامکمل چھوڑا۔بخاری اس واقعہ کو ابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ جب رسول خدا مرنے کو تھااور کافی لوگ کمرے میں موجود تھے،ان میں  عمر بن خطاب  بھی تھا،اُس  (رسول اللہ)  نے کہا:

ھَلُمّوا اکَّتُبٗ لَکُمٗ کِتٰباً لَنٗ تَضِلّوا بَعٗدِہٖ۔

ترجمہ:’’آؤمیں تمہارے لئے ایک تحریر لکھوں گا (پس وہ) اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے‘‘۔

پھر عمر نے کہا:

 ’’ وہ یقینی طور پر درد  میں مبتلا ہیں تاہم آپ کے پاس قرآن مجید ہے۔کلام خدا تمہارے لئے کافی ہے‘‘۔

پھر ایک تقسیم نے ان لوگوں کے درمیان جنم لیا جو کمرے میں موجود تھےاور ان میں بحث و تکرارشروع ہو گیا۔بعض نے کہا’’اُسے قلم اور سیاہی لا کے دو  تاکہ رسول اللہ صاحبتمہارے لئے کچھ لکھ سکیں‘‘۔دوسرے عمر کے ساتھ متفق تھے۔کافی دیر تک جب وہ شور مچا رہے تھے اور تذبذب  کا شکار تھے تو رسول اللہ صاحبنے کہا’’مجھے چھوڑ دو‘‘۔تھوڑی دیر بعد محمدصاحب نے عائشہ کے کمرے میں  آخری سانسیں لیں اور خالق حقیقی سے جا ملے۔پیغمبر عربی  مدفون  اُس عظیم دن کے منتظر ہیں جب خدا کے سامنے ہر کسی کو اپنا حساب دینا پڑے گا۔

یوں یہ عظیم شخصیت گزر گئی۔اس کتاب کے مقصد اور محدودیت کے باعث اس  (محمدصاحب) کی زندگی کا مکمل طرز عمل  تحریر نہیں  کیا گیا۔بہت سے دلچسپ اوراہم حقائق کونظرا نداز کر دیا گیا ،لیکن ہم نے کوشش کی کہ ہم نے جو کچھ لکھا ( جس قدر ممکن ہو)  اس کتاب کے عنوان کے مطابق سچ ہواور صرف وہی کچھ دیا  جو خوداسلام میں  پایا جاتا ہے۔جو تصویر مسلم تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہےوہ مکمل طور پر دلکش نہیں ہے اور اب ہم یہ قاری پر چھوڑتے ہیں  کہ وہ فیصلہ کرےکہ کس لحاظ سے محمدصاحب  کوحقیقت میں خدا کانبی مانا جا سکتا ہے۔