دوسرا باب
محمد صاحب کی ولادت اور اوائل زندگی
محمد صاحب ۵۷۰ء میں بمقام مکہ پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام عبداللہ اور اُن کی والدہ کا نام آمنہ تھا۔موروثی طورپر اہل قریش کعبہ کے محافظ تھے اوراسی وجہ سے اہل عرب اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ عبداللہ اور آمنہ کے نکاح کے چند روز بعد عبداللہ کو تجارت کے لئے شام کا سفر کرنا پڑا۔اس سفر سے واپس آتے وقت راہ میں وہ بیمار پڑ گیا اور اپنی عروس کو دیکھنے سے پیشتر ہی رحلت کر گیا۔اُس کی وفات کے چند ماہ بعد آمنہ کے بطن سے محمد صاحب پیدا ہوئے اور چند ہفتوں کےبعد شہری عربوں کے عام دستور کے مطابق آمنہ نے اس بچہ کو ایک بدُّو عورت حلیمہ نام کے سپرد کیا۔حلیمہ نے اس یتیم بچے کی پرورش شروع کی اور پانچ سال تک وہ اس کی پرورش اپنے گھر پر کرتی رہی۔اس عرصے کے گزرنے کے بعد بچہ اُس کی والدہ کے حوالے کیا گیا۔قصص الانبیا اور دیگر حدیث کی کتابوں میں ایک عجیب قصہ بیان ہوا ہے کہ جن ایام میں محمد صاحب حلیمہ کے پاس تھے تو ایک حادثہ اُن پر واقعہ ہوا۔وہ قصہ یہ ہے کہ جب یہ بچہ حلیمہ کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا (یا بروایت دیگر بکریاں چرا رہاتھا) تونا گہاں دو فرشتے دکھائی دیئے۔انہوں نے آکر بچہ کو فوراً پکڑ لیا اور اُسے زمین پر چت لٹا کے اُس کےسینے کو کھولا اور خالص پانی سے دھو کر اُس میں سے ایک سیاہ چیز نکال ڈالی اور اُنہوں نے یہ کہا:
هذا حظ الشيطان منك يا حبيب الله ۔ترجمہ:’’اے خدا کے پیارے یہ تیرے اندر شیطان کا حصہ تھا‘‘۔جب وہ یہ کر چکے تو اُنہوں نے اُن کے سینے کو پھر بند کر دیا اور غائب ہو گئے۔اس عجیب قصہ کا ذکر مِشکوٰۃ المصابیح میں بھی ہوا ہے اور دیگر اسلامی کتابوں میں بھی اور بہت سےمسلمان مصنفوں نے اس پر بہت لمبے چوڑے حاشیے چڑھائے تا کہ یہ ظاہر کریں کہ خدا نے بچپن ہی سے محمد صاحب کو نبوت و رسالت کے لئے تیار کیا تھا۔بعضوں نے تو یہ کہا کہ محمد صاحب کو صاف کیا گیا اور اس میں سے گناہ کا داغ و دھبہ ہمیشہ کے لئے نکال دیا گیا۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو فرشتے اس غیر معمولی کام کے سر انجام دینے میں قاصر رہے یا محمد صاحب کی شخصیت کچھ ایسی مضبوط تھی کہ وہ خدا کے ارادوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی، کیونکہ قصص الانبیا میں مذکور ہے کہ چند سال بعد ایک دوسرے موقعے پر جب محمد صاحب معراج پر جانے کو تھے تو دو فرشتے ظاہر ہوئے اور محمد صاحب کا سینہ چاک کر کے آبِ زم زم کے پانی سے اس کو خوب دھویا۔خواہ کچھ ہی ہو حلیمہ نے جب یہ قصہ محمد صاحب اور اس کے رفیقوں سے سنا تو بہت گھبرائی اور ساتھ ہی مرگی کے آثاروں کو دیکھ کر اُس نے ارادہ کر لیا کہ اس بچے کواُس کی ماں کے حوالے کردے اور اُس کی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جائے۔سیرت الرسول میں یہ بیان ہے کہ حلیمہ کے خاوند کو بھی فکر پیدا ہو گئی اور یوں مخاطب ہوا:
’’اے حلیمہ مجھے اندیشہ ہے کہ اِ س بچے میں شیطان گھسا ہوا ہے، اس لئے جلد جا کر اس بچے کو اُس کی ماں کے سپرد کر دے‘‘۔
آمنہ نے دل لگا کر اس قصے کو سنا اور حلیمہ کے اندیشوں کو سن کر یوں چلّائی:أفتخوفت عليه الشيطان ۔ترجمہ:’’کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ اس پر شیطان چڑھا ہے‘‘۔لیکن چونکہ وہ بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اُس نے حلیمہ کو پھُسلا کر ایک اَور سال کے لئے بچہ اُ س کے سپرد کردیا۔
اس عرصے کے ختم ہونے کے بعد جب محمد صاحب چھ سال کا ہو گیا تو اُ س نے بچہ کو اُس کی ماں کے سپرد کر دیا۔جب محمد صاحب مکہ میں اپنی والدہ کے پاس آگیا تو اُس سے تھوڑی دیر بعد آمنہ اپنے کسی رشتہ دار کو مدینہ میں ملنے گئی اور محمد صاحب کو بھی ساتھ لیتی گئی۔چند دن وہاں ہنسی خوشی گزار کر اپنے گھر کو روانہ ہوئی۔لیکن آمنہ بیمار پڑ گئی اور چند دنوں بعد مر گئی اور یہ بچہ بالکل ہی یتیم رہ گیا اور ماں باپ کا سایہ سر پر سے اُٹھ گیا۔اب محمد صاحب کے دادا عبد المطلب نے اُس کی پرورش کا ذمہ لیا اور اُس کی بڑی خبرداری کرتا رہا۔لیکن عبد المطلب اسّی (۸۰) سال کا بوڑھا تھا اور دو سال بعد وہ بھی چل بسا اور محمد صاحب کو اپنے بیٹے ابو طالب کے سپرد کر گیا۔ابو طالب بہت نیک طینت اور کشادہ دل شخص تھا۔اس نے بڑی وفاداری اور خوش اسلوبی سے اس ذمہ داری کے کام کو سر انجام دیا جو اُس کے والد نے اُس کے کندھوں پر رکھ دیا تھا۔
دس سال کی عمر میں محمد صاحب کو اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی قافلے کے ساتھ جانا پڑا اور اس ملک میں مسیحیوں کی کثرت تھی ،اس لئے وہاں اُسے بہت سےمسیحیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔اس تاریخ سے لے کر دعویٰ نبوت تک تیس سال کا عرصہ گزرا۔اس عرصے میں محمد صاحب کی زندگی کے متعلق کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں گزرا۔اپنی صداقت و دیانت کے باعث محمد صاحب سب کا عزیز بن گیا اور کہتے ہیں کہ اسی صداقت کی وجہ سے لوگ اُسے ’’الامین‘‘ کہنے لگے۔
ابو طالب دولت ِدُنیا سے بہت بہرہ ور نہ تھا۔اس لئے اُس کی مشورت سے محمد صاحب کو اپنی معاش حاصل کرنے کی فکر ہوئی اور اس کے لئے جلد ہی ایک موقعہ مل گیا۔خدیجہؓ نامی ایک دولت مند بیوہ نے قافلہ کے ساتھ محمد صاحبکوشام جانے کے لئے ملازم رکھ لیا۔چند دنوں کےبعد ایک قافلہ کے ہمراہ وہ روانہ ہوئے اور جو کام اس کے سپرد تھااسے ایسی ہوشیاری اور تن دہی سے سر انجام دیا کہ اُس کے واپس آنے پر خدیجہؓ نے اُس سے شادی کر لی۔اس وقت محمد صاحب کی عمر تقریباً پچیس سال کی تھی اور خدیجہؓ کم ازکم چالیس سال کی۔عمر کے اس قدر تفاوت کے باوجود بھی یہ شادی مسعود ٹھہری۔اُس کے بطن سے چھ بچے پیدا ہوئے ،لیکن وہ سب ایام طفولیت ہی میں مر گئے۔خدیجہؓ کے بچے پہلے خاوند سے بھی تھے، لیکن اگر سب نہیں تو اکثر ان میں سے بھی پہلے ہی مر چکے تھے۔ان کے بارے میں مِشکوٰۃ میں ایک دلچسپ حدیث آئی ہے۔ محمد صاحب کے دعویٰ نبوت کے بعد ایک روز:
مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث ۱۰۷۶
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
سَأَلَتْ خَدِيجَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَلَدَيْنِ مَاتَا لَهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمَا فِي النَّارِ ترجمہ:’’خدیجہؓ نے نبی سے اپنے دو بیٹوں کے بارے میں جو ایام جاہلیت میں مر گئے تھے سوال کیا۔رسول اللہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں (دوزخ کی) آگ میں ہیں‘‘۔
اس میں تو کچھ شک نہیں کہ ایک وقت خدیجہؓ اور محمد صاحب دونوں بُت پرست تھے۔قدیم مسلمانوں کی تاریخ میں اس کا صریح ثبوت ملتا ہے،مثلاً کتاب مسند (جلد چہارم ،صفحہ۲۲۲) میں یہ مندرج ہے کہ رات کے وقت سونے سے پیشتر یہ دونوں بتوں کے آگے سجدہ کیا کرتے تھے۔ابن حنبل نے اس دستور کا یہ ذکر کیا:
حدثني جار لخديجة بنت خويلد أنه سمع النبي صلعم ويقول لخديجة أي خديجة والله لا أعبد اللات والعزى والله لا أعبد أبداً قال فتقول خديجة خل اللات خل العزى قال كانت صنمهم التي كانوا يعبدون ثم يضطجعون. ترجمہ:’’عبداللہ نے کہا:خدیجہؓ بنت خویلد کے خادم نے مجھ سے بیان کیا کہ اُس نے نبی کو خدیجہؓ سے یہ کہتے سنا۔خدا کی قسم اب میں لات اور عزی کی پرستش نہیں کرتا اور خدا کی قسم میں آئندہ کو بھی ایسا نہ کروں گا۔اُس نے کہا کہ خدیجہؓ نے یہ جواب دیا کہ لات اور عزی کو چھوڑ دو (عبداللہ نے) کہا، بستر خواب پر جانے سے پیشتر جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے یہ تھے‘‘۔
اس مضمون کے بارے میں قرآن مجید بھی بالکل خاموش نہیں۔سورۃ الضحیٰ (۷،۶:۹۳) میں یہ لکھا ہے:
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
ترجمہ:’’کیا تجھے (اے محمد صاحب) یتیم نہیں پایا اور تجھے گھر دیا اور تجھے گمراہ پایا اور تیری ہدایت کی‘‘۔
جلال الدین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا:
ووجدك ضالاً عما أنت عليه من الشريعة فهدى أي هداك إليها
ترجمہ:’’کیا اس نے تجھے اپنی شریعت سے جس پر اب قائم ہے گمراہ نہ پایا اور اس کی طرف تیری ہدایت کی‘‘۔
شاہ عبد العزیز دہلوی نے قرآن کی فارسی تفسیر میں اس کی مزید وضاحت کر دی۔ بقول اُن کے :
اس آیت میں رسول صاحب کی روحانی تاریخ کے اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب اُ س نے بالغ ہو کر خرد حاصل کر کے یہ معلوم کر لیا کہ بتوں کی پرستش اور ایام جہالت کی رسوم ہیچ تھیں۔۔۔پس اُنہوں نے اُن بتوں کو ترک کیا اور اُن بد رسوم سے کنارہ کشی کی اور ابراہیم کے خدا کا عرفان حاصل کیا۔
پھر سورۃ الفتح (۲،۱:۴۸) میں یوں مرقوم ہے:
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
ترجمہ:’’ہم نے تمہارے لئے ایک صریح فتح حاصل کی جس کا یہ نشان ہے کہ اُس نے تیرے پہلے اور تیرے پچھلے گناہ معاف کر دیئے‘‘۔
اس مشہور آیت کی تفسیر میں ’’پہلے گناہ‘‘ کی نسبت مفسر عباس نے یہ رقم کیا:
ما تقدم من ذنبك قبل الوحي
ترجمہ:’’یعنی تیرےوہ گناہ جو وحی نازل ہونے سے پیشتر کے تھے‘‘۔
عباس کے بیان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ محمدصاحب کے جن گناہوں کا اس آیت میں ذکر ہے، وہ اس عالم شباب اور اوائل عمر کے گناہ تھے۔یعنی ایسے گناہوں کا جو دعویٰ نبوت سے پیشتر اُن سے سر زد ہوئے اور خود محمدصاحب نے مابعد ایام میں اپنی جوانی کے گناہوں کی طرف اشارہ کیا اور صحیح مسلم اور بخاری میں اُن کے استغفار کی دعاؤں کا ذکر آیا ہے۔چنانچہ مثال کے طور پر ایک دعا مِشکوٰۃ المصابیح (کتاب الصلوٰۃ ) میں سے یہاں نقل کی جاتی ہے:
صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ حدیث ۱۸۰۶
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي
ترجمہ:’’اے خدا میرےپہلے اور پچھلے (وحی نازل ہونے سے) گناہوں کو معاف کر جن کو میں نے چھپایا،جن کو میں نے ظاہر کیا،جن کو میں نے شدت سے کیا اور جن کو میری نسبت تو ہی جانتا ہے‘‘۔
یہ تسلیم کر لینا آسان ہے کہ محمد صاحب نے اپنے والدین اور متولّیوں کی طرح بت پرستی میں حصہ لیا۔یہ تو تحقیق ہے کہ اُس کے والدین بتوں کی پرستش کرتے تھے اور قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اسی وجہ سے محمد صاحب کو ممانعت ہوئی کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے لئے دعا کریں۔
سورۃ التوبہ (۱۱۳:۹) میں یہ لکھا ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
ترجمہ:’’ نہ نبی کو چاہیے اور نہ ایماندار وں کو کہ اُن لوگوں کی معافی کے لئے دعا کریں، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں بعد اس کے کہ یہ واضح ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں‘‘۔
گو محمد صاحب عالم شباب اور اوائل عمر میں بت پرست تھے ،لیکن متوسط عمر کے ہو کر اُنہوں نے بُت پرستی کی ساری رسوم کو ترک کر دیا۔اُس کے حنیف رشتہ داروں اور مسیحی متبنّٰی بیٹے زید کی تاثیر سے بلا لحاظ مسیحیوں اور یہودیوں کی عام تاثیر کے وہ بتدریج واحد خدا کے پرستار بن گئے اور اُس بڑے پیغام کے لئے تیار ہو گئے جس کی نسبت اُنہوں نے یقین کر لیا کہ خدا نے اُس کو لوگوں کو سنانے کے لئے بھیجا تھا۔