چوتھا باب
عورتوں کے ساتھ محمد صاحب کا سلوک
محمد صاحب کی سوانح عمری کا مطالعہ کرنے سے یہ بخوبی روشن ہے کہ عورتوں کے بارے میں اُن میں ایک خاص کمزوری پائی جاتی تھی۔حدیثوں کا ایک بڑا حصہ اور قرآن مجید کا ایک بڑا جز اس اَمر سے علاقہ رکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے عورتوں کے بارے میں کیا کہا اور کیا کِیا۔ان بیانات کے سرسری پڑھنے سے بھی یہ امور نظر آجاتے ہیں۔یہ امور ایسے صریح ہیں کہ ہم صرف مسلمان مصنفوں سے اقتباس کرنے پر ہی اکتفا کریں گے اور ناظرین خود نتیجہ نکال لیں۔
محمد صاحب کا جو شوق محبت عورتوں سے تھا اس سےحدیثیں بھر پڑی ہیں۔لیکن یہاں ہم مشتے نمونہ از خروارے صرف دو یا تین مثالیں ہی پیش کریں گے۔ان میں سے ایک جو بہت مشہور ہے محمد صاحب کی زوجہ عائشہ سے مروی ہے اور مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب الادب میں مندرج ہے۔وہ یہ ہے:
وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ مِنَ الدُّنْيَا ثَلَاثَةٌ: الطَّعَامُ وَالنِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، فَأَصَابَ اثْنَيْنِ وَلَمْ يُصِبْ وَاحِدًا، أَصَابَ النِّسَاءَ وَالطِّيبَ، وَلَمْ يُصِبِ الطَّعَامَ
ترجمہ:’’عائشہ سے روایت ہے کہ اُس نے کہا’’دنیا کی تین چیزیں رسول کو مرغوب تھیں طَّعَامَ ،عورتیں اور عطریات۔ان میں سے دو تو اُن کوحاصل ہو گئیں لیکن تیسری ان کو حاصل نہ ہوئی۔اُسے عورتیں اور عطریات تو حاصل تھیں لیکن طَّعَامَ حاصل نہ تھی‘‘۔
اسی باب میں انس سے یہ روایت مندرج ہے:
قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِّبَ إليّ الطّيْبَ والنّساءَ
ترجمہ:’’رسول اللہ صاحب نے کہاعطریات اور عورتیں مجھےپسند ہیں‘‘۔
پھر مِشکوٰۃ کے باب جہاد میں انس سے ایک اَور حدیث اس مقصد کی آئی ہے:
عَنْ أَنَسِ قَالَ لَمْ يَكُنْ شَىْءٌ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ النِّسَاءِ مِنَ الْخَيْلِ
ترجمہ:’’انس سے یہ روایت ہے کہ اس نے یہ کہا کہ عورتوں کے بعد محمد صاحب کو گھوڑوں سے زیادہ اورکوئی شے عزیز نہ تھی‘‘۔
یہ شہادتیں ایسے لوگوں کی طرف سے ہیں جو محمد صاحب کے اپنے خاندان میں سے تھے اور جو اُس سے بہتر واقف تھے۔اس باب میں جو محمد صاحب کی سیرت کا بیان ہوا ہے ایسی حدیثوں سے وہ سمجھ میں آ سکتی ہے،بغیر ان کی مدد کے اس کا سمجھ میں آنا مشکل ہے۔جب محمد صاحب کے اپنے پیرو اُن کی نسبت یہ کہا کرتے تھے تو جائے تعجب نہیں کہ محمد صاحب کےمخالف رسول خدا میں ایسی باتوں کو دیکھ کر اُن پر طعن کریں۔چنانچہ تفسیر بیضاوی میں صفحہ۲۵۵ پر یہ بیان آیا ہے:
’’بعض یہودی حضرت صاحب کو طعنے دیتے تھے کہ یہ نکاح بہت کرتے ہیں اور ہمیشہ عورتوں میں مشغول رہتے ہیں۔اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اُن کو عورتوں کا خیال نہ ہوتا‘‘۔
زمانہ حال میں محمد صاحب کے بعض مداح یہ کہا کرتے ہیں کہ محمد صاحب نے جو بہت سے نکاح کئے تو وہ محض خیر خواہی اور ترس سے کئے تا کہ اپنے متوفی پیروؤں کی عمر رسیدہ بیوگان کی معاش کا انتظام کر دیں۔ محمدی تاریخ سے ظاہر ہے کہ یہ عذر اور حیلہ بودا اور غلط ہے۔ محمد صاحب کی ساری بیویاں بیوگان میں سے نہ تھیں اور نہ ساری عمر رسیدہ تھیں۔بعض توکنواری نوجوان تھیں اور بعض اُن بدنصیب لوگوں کی بیوگان سے تھیں جن کو محمد صاحب نے قتل کیا تھا۔علاوہ ازیں یہ تاریخی واقعہ اور محمدی مصنفوں نے اس کی تصدیق کی ہے کہ درجن سے زیادہ بیویوں کے علاوہ محمد صاحب کے پاس چند ایک لونڈیاں بھی تھیں جن سے وہ حظ اٹھاتے تھے۔مِشکوٰۃ المصابیح کے باب نکاح میں یہ مذکور ہے:
صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث ۹۸۸
راوی: عبد بن حمید , عبدالرزاق , معمر عروہ , عائشہ
و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ
ترجمہ:’’ عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو وہ سات سال کی لڑکی تھیں اور ان سے زفاف کیا گیا تو وہ نو سال کی لڑکی تھیں اور ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ‘‘
قرآن مجید اور حدیث میں ایک اَور واقعہ کا ذکر بھی آیا ہے۔یہ زینب بن جاحش کا قصہ ہے۔اس سے بخوبی واضح ہے کہ محمد صاحب کی کثرت ازدواجی فیاضی اور مہربانی کی غرض سے نہ تھی۔یہ زینب زید کی بیوی تھی اور یہ زید محمد صاحب کا متبنّٰی بیٹا تھا اور عام طور پر وہ ابن محمد ہی کہلاتا تھا۔مسلمان مورخوں کا بیان ہے کہ ایک روز محمد صاحب اچانک زید کے گھر چلے گئے اور زینب کو ایسے لباس میں پایا جس سے اُس کی عُریانی ظاہر ہوتی تھی اور اُس کےحسن کو چھپا نہ سکتی تھی۔ محمد صاحب کی خواہش نفسانی مشتعل ہوگئی اور فرط جوش میں یہ پکار اُٹھے:
سبحان الله مقلت القلوب
ترجمہ:’’ اُس خدا کی تعریف ہو جو دلوں کو بدل ڈالتا ہے‘‘۔
زینب نے بھی یہ الفاظ سن لئے اور فوراً اپنے خاوند کو اس اطلاع دی۔زید نے یہ سن کر زینب کو طلاق دے دی اور زینب کو محمد صاحب نے اپنے گھر میں ڈ ال لیا۔یہ حال دیکھ کر مسلمان ہکے بکّے رہ گئے۔اُن کے اطمینان کی خاطر وحی نازل ہوئی جس نے ایسی شادی کے جواز پر صاد (منظور کرنے کی علامت) کر دیا اور اس وحی کا ذکر قرآن مجید کے صفحوں میں ہمیشہ تک ایک سیاہ داغ رہے گا۔
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا۔
ترجمہ:’’اور جب زید نے اُن کے طلاق کی ٹھان لی۔ہم نے اس کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تاکہ ایماندار وں کے لئے متبنّٰی بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنا جرم نہ سمجھا جائے جب کہ انہوں نے اُن کا معاملہ فیصلہ کر دیا ہو‘‘ (سوۃالاحزاب۳۷:۳۳) ۔
جلالین نے اس آیت کی تفسیر میں اس نکاح کی حقیقی وجہ بتا دی ۔اس تفسیر میں یہ صاف بیان ہے کہ:
فزوجها النبي لزيد ثم وقع بصره عليها بعد حين فوقع في نفسه حبها وفي نفس زيد كراهتها
ترجمہ:’’نبی نے ( زینب کی) شادی زید سے کر دی بعداز اں کچھ دن پیچھے محمدصاحب کی نظر اُس (زینب) پر پڑی اور اُن کے دل میں اس کی محبت پیدا ہو گئی لیکن زید کے د ل میں کراہیت پیدا ہوئی‘‘۔
اس قصے پر کسی شرح کی ضرورت نہیں۔اس قصے میں اسلام کا نبی نہایت بھدے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی تکذیب ہوتی ہے جو یہ کہا کرتے ہیں کہ محمدصاحب کی شادیاں ایک طرح کے رفاہ عام کے خیال سے تھیں تا کہ غریب بیو گان کا بھلا ہو۔قرآن مجید میں ایک اَور معاملے کا ذکر آیا ہے جس میں محمدصاحب کی سیرت پر بہت روشنی پڑتی ہے ۔یہ سورۃ تحریم ۶۶ کی پہلی دو آیات ہیں۔ان میں یہ لکھا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ۔
ترجمہ:’’اے نبی تو اُس شے کو حرام کیوں سمجھتا ہے جس کو خدا نے تیرے لئے حلال ٹھہرایا،کیونکہ تیری خواہش اپنی بیویوں کو خوش کرنے کی تھی۔خدا غفور ورحیم ہے۔خدا نے تجھے اپنی قسموں سے در گزر کرنے کی اجازت دی‘‘۔
اس آیت کے بارے میں مفسروں کی یہ رائے ہے کہ:
محمدصاحب اپنی لونڈی ماریہ قبطی کے ایسے فریفتہ تھے کہ اُن کی دوسری بیویاں حسد کرنے لگیں اور ناراض ہو گئیں کہ انہوں نے اُن کو نظر انداز کر کے ایک اجنبی لونڈی کو مقبول نظر بنا لیا۔اُن کا غصہ یہاں تک بھڑکا کہ ان کو راضی کرنے کی خاطر انہوں نے قسم کھائی کہ وہ اس قبطی لونڈی کے نزدیک پھر کبھی نہ جائیں گے۔مگر آخر کار یہ حرمت اُن پر شاق گزرنے لگی اور ماریہ قبطی سے پھر صحبت کرنے کی آرزو کرنے لگے۔چنانچہ اس آرزو کے جواز کی تائید میں قرآن مجید کی مذکورہ بالاآ ٓیت نازل ہوئی اور محمدصاحب پھر ماریہ کے گھر جانے لگے۔
تفسیر بیضاوی کے صفحہ ۷۴۵ پر یہ بیان پایا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے محمدصاحب کی بیویوں کی ناراضگی غایت درجے تک بھڑک اٹھی۔وہ بیان یہ ہے:
رُوي أنه عليه السلام خلا بمارية في يوم عائشة أو حفصة فأطلعت على ذلك حفصة فعاتبته فيه فحرّم مارية فنزّلت
ترجمہ:’’یہ روایت ہے کہ وہ (یعنی نبی) عائشہ یا حفصہ کی باری میں ماریہ کے ساتھ خلوت میں تھے۔لیکن اس کی خبر پا کر حفصہ سخت ناراض ہوئی اور محمدصاحب کو ملامت کرنے لگی۔اس پر محمدصاحب نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اس کے بعد یہ آیت (جس میں اُن کواُن کی قسموں کے توڑنے کی اجازت دی گئی) نازل ہوئی‘‘۔
عباس نےاسی آیت کی تفسیر میں حفصہ کے بارے میں یہ کہا:
شق عليها كون ذلك في بيتها وعلى فراشها
ترجمہ:’’اُس (حفصہ) پر یہ معاملہ شاق گزرا کیونکہ یہ اس کے گھر میں ہی اور اس کے بستر پر وقوع میں آیا‘‘۔
اور محمدصاحب نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کی خاطر قسم کھا لی کہ وہ ماریہ لونڈی کی صحبت سے کنارہ کریں گے اور اس کے لئے دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ خدا نے محمدصاحب سے مذکورہ بالا الفاظ میں خطاب کیا،جن میں ان کو اپنی قسم توڑنے او ر اس لونڈی کی ناجائز صحبت کرنے کی اجازت ملی۔قرآن مجید میں یہ شرع ہے کہ جس آدمی کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہوں وہ ہر ایک کو برابر باری دے۔پہلے پہل تومحمدصاحب اس شرع پر عمل کرتے رہے اور اپنی مختلف بیویوں کے پاس باقاعدہ باری باری جاتے رہے۔لیکن کچھ عرصے کے بعد عائشہ کی صحبت ان کو ایسی بھائی کہ وحی نے آکر ان کو اس تکلیف دہ شرع سے آزاد کر دیااور ان کواجازت مل گئی کہ اپنی جور وؤ ں میں سے جس کو چاہیں اور جب چاہیں چن لیں۔اس عجیب مکاشفہ کو مسلمان عین کلام خدا مانتے ہیں اور یہ سور احزاب۵۱:۳۳ میں مذکور ہے:
تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ۔
ترجمہ:’’فی الحال جس سے چاہے تو کنارہ کر سکتا ہے اور جس سے تو چاہے ہم بستر ہو سکتا ہے اور جن کو تو نے پہلے ترک کیا تھا اُن میں سے جس کو تیرا جی چاہے اور یہ تیرے لئےجرم نہ ہوگا‘‘۔
مذکورہ بالا بیان پر ہم کچھ حاشیہ چڑھانا نہیں چاہتے ۔لیکن ہم ناظرین سے التماس کرتے ہیں کہ حضرت کی چہیتی بیوی عائشہ نے اس وحی کو سن کر جو تفسیر کی اُس پر غور کریں۔یہ مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب النکاح میں مذکور ہے۔وہ یوں گویا ہے:
ما أرى ربك إلى يسارع في هواك
ترجمہ:’’میں تیرے رب کو نہیں دیکھتی سوائے اس کے کہ وہ تیری دلی تمناؤں کو پورا کرنے میں شتابی کرتا ہے‘‘۔
اس میں توکچھ شک نہیں کہ محمد صاحب کے نزدیک عورت کا درجہ بہت ہی ادنیٰ تھا۔عورتوں کے بارے جوکچھ انہوں نے بیان کیا اُس سے ظاہر ہے کہ وہ عورت کو ایک لازمی زحمت سمجھتے تھے اور آدمی سے بہت ادنیٰ قرار دیتے ۔چنانچہ یہ اَمر مشہور ہے کہ محمد صاحب نے خاوندوں کو اپنی بیویوں کےساتھ زدو کوب کرنے کی اجازت ان الفاظ میں دی:
وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ۔
ترجمہ:’’ اُن بیویوں کی سر زنش کرو جن کے گستاخ ہونے کا اندیشہ ہے ۔اُن کو بستروں سے الگ کرو او راُن کو کوڑے لگاؤ‘‘ (سورۃ النسا۳۴:۴) ۔
مِشکوٰۃ میں مذکور ہے کہ ایام جنگ میں عورتیں لڑنے نکلا کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں ۔لیکن کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے اُن کو غنیمت کے مال میں سے حصہ دنیے سے انکار کیا۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب رقاق میں جو حدیث مندرج ہے اُس سے پتہ لگتاہے کہ اُن کی نگاہ میں عورتوں کی کیاقدر تھی۔وہاں یہ لکھا ہے:
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ حدیث ۱
النساء حبائل الشيطان
ترجمہ:’’عورتیں شیطان کا پھندا ہیں‘‘۔
بخاری نے ایک اَور حدیث محمد صاحب سے اس مقصد کی بیان کی ہے:
قمت على باب النار فإذا عامّة من دخلها النساء
ترجمہ:’’میں دوز خ کے د روازے پر کھڑا ہو ں گا اور دیکھو کہ جو لوگ د وز خ میں داخل ہوں گے اُن میں سے کثرت عورتوں کی ہو گی‘‘۔
بخاری اور مسلم دونوں نے ایک اَورحدیث اس مضمون کی بیان کی ہے جس میں ذکر ہے کہ محمد صاحب نے کہا:
رأيت النار فلم أرَ كاليوم منظراً قطّ أفظع ورأيت أكثر أهلها النساء
ترجمہ:’’میں نے (رویا میں) نار جہنم کو دیکھا اور جیسا میں نے آج کے دن دیکھا تھا ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اور یہ ہولناک نظارہ تھا اور میں نے دیکھا کہ اہل د وز خ میں اکثر عورتیں تھیں‘‘۔
عورتوں کی کم قدری اور ادنیٰ ہونے کی تائید اس شرع سے بھی ہوتی ہے کہ ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کی گواہی کے برابر ٹھہرائی گئی۔چنانچہ قرآن مجید میں اس شرع کا یوں ذکر آیا ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
ترجمہ: ’’ مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے ‘‘ (سورۃ بقرہ۲۸۲:۲) ۔
مشکوٰۃ میں محمد صاحب کی یہ حدیث مندرج ہے:
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حدیث ۳۰۲
راوی: سعید بن ابی مریم , محمد بن جعفر , زید بن اسلم , عیاض بن عبداللہ , ابوسعید خدری
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحَی أَوْ فِطْرٍ إِلَی الْمُصَلَّی فَمَرَّ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُکُنَّ أَکْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَی قَالَ فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَی قَالَ فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا
ترجمہ:’’ سعید بن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے (واپسی میں) عورتوں کی جماعت پر گذر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو، اس لئے کہ میں نے تم کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے، وہ بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کثرت سے لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور تمہارے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ دین اور عقل میں نا قص ہونے کے باوجود کسی پختہ عقل والے مرد پر غالب آجائے، عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی شہادت (شرعا) مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا بس یہی اس کے دین کا نقصان ہے ‘‘۔
محمد صاحب نے نہ صرف کثرت ازدواج کو دنیا میں جائز ٹھہرایا بلکہ بہشت میں بھی اس کثرت کا وعدہ کیا۔اُن حدیثوں میں جو اس مضمون کے متعلق ہیں اور محمد صاحب سے منسوب ہیں بعض بہت ناشائستہ اور فحش باتیں آئی ہیں جن کا یہاں نقل کرنا مناسب نہیں۔ایک حدیث جو ایسی خراب نہیں مثال کے طور پر یہاں نقل کی جاتی ہے۔یہ مِشکوٰۃ المصابیح باب الجنّۃ میں مندرج ہے:
جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ جنت کی صفات کا بیان ۔ حدیث ۴۶۴
راوی: سوید بن نصر , ابن مبارک , رشدین بن سعد , عمرو بن حارث , دراج , ابوہیثم , ابوسعید خدری
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ الَّذِي لَهُ ثَمَانُونَ أَلْفَ خَادِمٍ وَاثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ زَوْجَةً وَتُنْصَبُ لَهُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ وَيَاقُوتٍ كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ إِلَى صَنْعَاءَ
ترجمہ:’’ سوید بن نصر، ابن مبارک، رشدین بن سعد، عمرو بن حارث، دراج، ابوہیثم، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ادنی جنتی وہ ہے جس کے اسی ہزار خادم اور بہتّر بیویاں ہوں گی۔ اس کے لئے موتی، یاقوت اور زمرد سے اتنا بڑا خیمہ نصب کیا جائے گا جتنا کہ صنعاء اور جابیہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ ‘‘