پانچواں باب
مکّہ سے ہجرت
جوکچھ ماقبل باب میں مرقوم ہوا اُس سے ناظرین یہ نتیجہ نکالیں گے کہ اس موقعہ تک مکّہ میں محمد صاحب کی رسالت کو بہت تھوڑی کامیابی حاصل ہوئی۔فی الواقع اہل قریش میں سے بہت تھوڑے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور جن لوگوں نےقبول کیا وہ ادنیٰ طبقے کے لوگ تھے۔ان امور سے محمد صاحب کے دل میں بڑا غم تھا اور اب یہی فکر تھی کہ کسی دیگر طریقے سے وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اس دین میں لائے اور اُن میں اعتبار قائم کرے اور یہی خیال بار بار آیا کہ جب موقعہ ملے ان لوگوں سے راضی نامہ کر لے۔یہ آزمائش جس میں کہ محمد صاحب گر گئے یوں پیش آئی،کہتے ہیں کہ ایک روز محمد صاحب کعبہ گئے اور سورۃنجم (۵۳) سنانے لگے اور جب وہ یہ الفاظ پڑھنے لگے
اللّٰت ولعزّٰی وَمنوۃ الثالثۃ الاخریٰ
تو قریش کو راضی کرنے کی خاطر اُس نے یہ الفاظ بھی زائد کئے۔
تلک العزانیق العلی وان شفاعتہم لترتجیٰ۔
ترجمہ:’’یہ سرفراز دیویاں ہیں اور تحقیق اُن کی سفارش کی امید رکھنی چاہیے‘‘۔
یہ سن کر قریش تو بہت خوش ہوگئے اور رسول کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے اور یہ کہنے لگے:
’’اب ہم جان گئے کہ واحد رب ہی زندگی دیتاا ور لیتا ہے، وہی خلق کرتا اور سنبھالتا ہے۔ہماری یہ دیویاں اُس کے پاس ہماری سفارش کرتی ہیں اور چونکہ تو نے اُن کا یہ رتبہ مان لیا ہے اس لئے اب ہم تیری پیروی کرنے پر راضی ہیں‘‘۔
لیکن اس راضی نامے سے محمد صاحب کا بہت نقصان ہوا اور دل میں اندیشہ پیدا ہوا اور اپنی غلطی سے تائب ہو کر وہ لفظ اُن کی جگہ ڈالے جو اَب اُس سورۃ میں پائے جاتے ہیں’’کیا تم لوگوں کے لئے بیٹے او ر خدا کے لئےبیٹیاں،یہ تو بے انصافی کی تقسیم ہے،یہ تو نرےنام ہی ہیں جو تم نے اور تمہارے بڑوں نے رکھ لئے ہیں‘‘۔
اس روش سے محمد صاحب کے پیروؤں کو صدمہ پہنچا اور کڑواہٹ یہاں تک ہونے لگی کہ محمد صاحب کو اس کی وجہ بیان کرنی پڑی۔انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ شیطان نے یہ لفظ اس کے منہ میں ڈال دیئے اور شیطان نے اُس سے ماقبل سارے انبیا کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا اور یہ وحی نازل ہوئی:
مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ۔
ترجمہ:’’ہم نے کسی رسول یا نبی کو تجھ سے پیشتر نہیں بھیجا کہ جب اُس نے سنانا شروع کیا تو شیطان نے کچھ (غلط) تمنا اُس کے دل میں ڈال دی اور جوتمنا شیطان نے ڈ الی تھی اُس کو خدا نے منسوخ کر دیا‘‘ (سورۃ الحج۵۲:۲۲) ۔
اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا کہ اسی طرح شیطان نے مکّہ کے بتوں کی تعریف کے الفاظ محمد صاحب کے منہ میں ڈال دیئے۔جس واقعہ کا اُوپر ذکر ہوا وہ ایسا اہم معاملہ تھا کہ اُس سے محمد صاحب کی سیرت پر دھبہ لگتا ہے۔اس لئے مفصل ذکر ہم نے کیا اور معتبر مصنفوں نے اس کا تاریخی ثبوت دیا ہے۔چنانچہ معالم نے حسب ذیل بیان کیا:
قالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ ، فَكَانَ يَوْمًا فِي مَجْلِسِ قُرَيْشٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى سُورَةَ النَّجْمِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: «أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى» أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ : «تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى»، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ
ترجمہ:’’ابن عباس اور محمدابن کعب القرضی سے روایت ہے اور علاوہ ازیں دیگر مفسروں نے بھی کہ جب محمد صاحب نے دیکھا کہ اس کی قوم اُس سے پھرتی جا رہی ہے اور اُس کی مخالفت کرتی ہے اور (قرآن کو) رد کر دیا ہے جسے وہ خدا کی طرف سے لائے تھے ۔تب اُن کے دل میں آرزوپیدا ہوئی کہ کوئی ایسا لفظ نازل ہو جس سے کہ اُس کے اور اُس کی قوم کے درمیان دوستی قائم ہو جائے اور ایسی ترغیب اُن کو ملے جس سے کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایسا ہو اکہ ایک روز جب وہ قریش کے کعبہ میں تھے تو خدا نے سورہ نجم اُن پر نازل کی اور محمد یہ سورۃ اُن کو سنانے لگے اور جب وہ اس مقام پہنچے افرایتم اللّات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری توشیطان نے وہی باتیں اُن کے منہ میں ڈال دیں جن کی آرزو اُن کے دل میں تھی ۔ تلک الغرانین العلی وان شفاعتھم لترتجی اور جب قریش نے یہ لفظ سنے تو بہت خوش ہوگئے۔
مواھب الدنیا میں اس قصہ کا بیان اس طرح سے ہوا ہے اا :
قرأ رسول الله صلعم بمكة النجم فلما بلغ أفريتم اللات والعزى ومناة الثالثة الأخرى ألقى الشيطان على لسانه تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى. فقال المشركون ما ذكر آلهتنا بخير قبل اليوم فسجد وسجدوا فنزلت هذه الآية: وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي إلا إذ تمنى ألقى الشيطان في أمنيته.
ترجمہ:’’نبی مکہ میں سورہ نجم سنا رہا تھا اور جب وہ ان الفاظ پر پہنچا افرایتم اللّات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری تو شیطان نے اُس کے منہ میں یہ الفاظ ڈال دیئے۔ تلک الغرانیق العلی واَن شفاعتھم لترتجی ۔اس پر بت پرست کہنے لگے اس نے ہماری دیویوں کا ذکر خیر کیا ہے۔اُس نے نماز پڑھی ہے اور انہوں نے بھی نماز پڑھی اور تب یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ہم نے تجھ سے پیشتر کسی رسول یا نبی کو نہیں بھیجا لیکن جب وہ سنانے لگا شیطان نے اُس کے اندر کوئی تمنا ڈ ال دی‘‘۔
بیضاوی نے اپنی تفسیر کے صفحہ۴۴۷ پر یہی قصہ بیان کیا ،اس لئے اس قصے کی صحت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ابن اسیر جو محمد صاحب کے قدیم سوانح نویسوں میں سے ہے ،یہ لکھتا ہے کہ یہ افواہ مشہور ہوئی کہ قریش نے اسلام قبول کر لیا اور یہ خبر ابی سینا کے مہاجرین تک پہنچی اور وہ لوگ جلد مکہ کو واپس آئے۔گو مکہ کے دیوتاؤں کو اللہ کے ساتھ ملانے سے قریش خوش ہو گئے تھے لیکن جب اُس نے اپنے اس فعل سے توبہ کی تو قریش غصے کے مارے جھلّا اُٹھے اور اُنہوں نے یہ عزم بالجزم کیا کہ اس تحریک کو وسعت پکڑنے سے پیشتر ہی کچل کر نیست و نابود کر دیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو برادری سے خارج کر کے اُن کے ساتھ لین دین اور میل برتاؤ سب بند کر دیا اور اس فتویٰ میں انہوں نے نہ صرف محمد صاحب اور اس کے پیروؤں کو شامل کیا بلکہ بنی ہاشم کے سارے گھرانے کو۔اب سارے بنی ہاشم شہر کے ایک الگ محلے میں رہنے لگے اور دو تین سال تک اس سختی کی برداشت کرتے رہے ۔مگر آخر کار اہل قریش ڈھیلے پڑ گئے اور محمد صاحب کے گروہ کے ساتھ لین دین پھر شروع ہو گیا۔
اب محمد صاحب نے آگے سے دو چند کوشش شروع کی تاکہ قریش کسی طرح سے اس کی رسالت پر ایما ن لے آئیں۔اُس نے خاص کر اہل قریش کے رئیسوں کی طرف توجہ مبذول کی اور جس استقلال سے محمد صاحب نے وعظ کا کام جاری رکھا اُس کے بارے میں ایک قصے کا بیان آیا ہے جس سے محمد صاحب کی سیرت پربڑی روشنی پڑتی ہے۔بیضاوی نےا س قصے کا یہ بیان کیا ہے کہ ایک روز محمد صاحب قریش کے سرداروں کے سامنے بیٹھا اس نئے عقیدے کے دعاوی پر زور دے رہا تھا۔اس وقت ایک غریب نابینا شخص عبد اللہ بن ام مکتوم نامی نے نزدیک ہو کر یہ کہنا شروع کیا:
يا رسول الله علمني مما علمك الله
ترجمہ:’’اے رسول اللہ کیا تو مجھے اس اَمر کی تعلیم دیتا ہے جس کی تعلیم کہ خدا نے تجھے دی‘‘۔
لیکن محمد صاحب نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور قریش سے ہی مخاطب رہا اور اس شخص کی خلل اندازی سے دق ہو کر تیوری بدل کر اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔اس کے بعد خدا نے محمد صاحب کی بے قراری پر اس کو ملامت کی اور محمد صاحب نے اپنے فعل سے توبہ کی (قصےمیں یہ ذکر ہے) اور اُس نابینا شخص کو بلا کر اُس پر عزتوں اور مہربانیوں کے پُل باندھ دیئے اور آخر کار اُس کو مدینہ کا عامل دیا۔ اس مورخ نے یہ بھی بیان کیا کہ محمد صاحب کو اپنے اس گناہ کا ایسا رنج تھا کہ جب کبھی وہ عبداللہ کو ملتا تو وہ یہ کہا کرتا تھا:
مرحبا بمن عاتبني فيه ربي
ترجمہ:’’مرحبا اُس شخص کو جس کی خاطر خدا نے مجھ پر عتاب کیا‘‘۔
چونکہ یہ واقعہ اہم تھا اس لئے قرآن مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا:
ترجمہ:’’ (محمد صاحب) اتنی بات پر چین بجبیں ہوئے اور منہ موڑ بیٹھے کہ ایک نابینا اُن کے پاس آیا اور تم کیا جانو ۔عجب نہیں وہ منور ہو جائے یا نصیحت سنے اور اُس کو نصیحت سود مند ہو تو جو شخص بے پروائی کرتا ہےاُس کی طرف تم خوب توجہ کرتے ہو۔حالانکہ وہ ٹھیک نہ ہو تو تم پر کچھ نہیں اور جو ڈر کر تمہارے پاس دوڑتا ہواآئے تو تم اُس سے بے اعتنائی کرتے ہو‘‘ (سورۃ العبس۱:۸۰۔۸) ۔
اسی وقت کے قریب محمد صاحب کی زوجہ خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ اس کا محمد صاحب کو بہت قلق ہوا اور اس کی جانثاری اور وفاداری کا ذکر اپنی موت تک کرتے رہے۔اب مصیبت پر مصیبت آئی۔خدیجہؓ کو گزرے تھوڑا ہی عرصہ ہو اتھا کہ محمد صاحب کا محافظ ابو طالب رحلت کر گیا۔ محمد صاحب کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور اس پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ابو طالب کا ہاتھ سر پر سے اُٹھ جانے کے بعد اس کا مکےمیں رہنا خطرناک تھا۔ان صدموں کے بوجھ سے آئندہ مکہ میں نا امیدی کے خیال سے محمد صاحب نے یہ ارادہ کیا کہ آئندہ کو وہ طائف میں جا کر وعظ کرے گا۔یہ شہر مکہ سے مشرق کی طرف ستر میل کے فاصلے پر تھا۔لیکن مکے کے لوگوں کی طرح طائف کے لوگ بھی اپنے بتوں پر فریفتہ تھے۔دس دن تک طائف کے لوگوں کے سامنے محمد صاحب وعظ و نصیحت کرتا رہا لیکن انہوں نے کچھ توجہ نہ کی ،بلکہ بے عزت و زخمی ہو کر وہ پھر اپنے شہر مکے کو واپس چلا آیا۔کہتے ہیں کہ اثنائے راہ میں اُس نے جنّوں کو وعظ کیا اور اُن میں سے کئی جِن ایمان لائے۔ہم ایسے قصے سے در گزر کرتے وقت سر سید احمد خاں کی طرح یہ کہیں گے کہ جنّوں سے مراد یہاں غیر مہذب عربوں کا گروہ تھا۔
محمد صاحب نے تھوڑی دیر ابی سینا کے ایک مہاجر کی بیوہ سے شادی کرکے اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے غم سے رہائی پائی۔اس کے بعد اُس نے ایک اور نکاح کیا۔یہ بیوی ابو بکر کی بیٹی سات سال عمر کی تھی۔اس کا نام عائشہ تھا۔اس عرصے میں محمد صاحب کی مخالفت زیادہ ہونے لگی۔اس لئے اب محمد صاحب صرف مسافروں کو وعظ کرنے لگےجو عرب کے دوسرے شہروں سے مکہ میں حج کے لئے سال بہ سال آیا کرتے تھےیا گاہے بہ گاہے مختلف اوقات و مقامات پر میلوں میں جمع ہو اکرتے تھے۔مدینے کے چند مسافروں نے محمد صاحب کی تعلیم کوقبول کر لیا اورجب مدینے کو واپس گئے تو انہوں نے اسلام کی تبلیغ ایسی کامیابی سے کی کہ دوسال کے بعد ستر شخصوں کا گروہ مکہ کو گیا اور محمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔اس کامیابی سے محمد صاحب کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اب جگہ بدلنی چاہیئے اور مکے کے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ سب کے سب مدینے کو چلے جائیں۔چنانچہ اس تجویز پر عمل ہوا اور تھوڑی دیر بعد محمد صاحب بھی اپنے رفیق ابو بکر کے ساتھ مدینے میں اُن سے جا ملے اور اہل قریش کے طعن و تشنیع کو پیچھے چھوڑ گئے۔مدینہ میں اُن کا استقبال بڑے تپاک سے کیا گیا۔محمد صاحب اور اُس کے پیروؤں کے یک لخت غائب ہو جانے سے اہل قریش گھبرا گئے اور ان کو راہ میں پکڑ لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔پس ۶۲۲ء میں مکہ میں تیرہ سال تقریباً بے سود محنت کرنے کے بعد محمد صاحب اپنے رفیقوں کو لے کر مکے سے مدینہ کو ہجرت کر گیا۔اسی وقت سے مسلمانوں کے سن ہجری کا آغاز ہوا۔