حصہ اوّل

محمد صاحب مکّہ میں

پہلا باب

محمد صاحب کے زمانے  کے اہل عرب

ا س شخص اور اس کے پیغام کے سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضرور  ی ہے کہ اُس کے زمانے میں عرب کی حالت کیا تھی۔خوش قسمتی سے ایسے علم کے ذرائع شاذو نادر  نہیں ۔عربی مورخ ابوالفدا نے بالخصوص زمانہ اسلام کے ماقبل عربوں کےبارے میں بہت کچھ مفصل بیان لکھا ہے ،مثلاً اُس نے یہ لکھا کہ:

وكانوا يحجّون البيت ويعتمرون ويحرمون ويطوفون ويسعون ويقفون المواقف كلها يرمون الجمار وكانوا يكبسون في كل ثلاث أعوام شهراً وحلق الختان وكانوا يقطعون يد السارق اليمنى.

ترجمہ:’’ وہ کعبہ کا حج کیا کرتے تھے اور وہاں وہ عمرہ اور احرام باندھا کرتے اورطواف کرتےاور  (کوہ صفا و مروہ پر)  دوڑتےاور کنکر پھینکتے اور ہر تین سال کے بعد ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھتے۔۔۔وہ ختنہ کرتے اور چور کا داہنا ہاتھ کاٹا کرتے تھے‘‘۔

Rev. William Goldsack

ابن ہشام نے ’’سیرت الرسل ‘‘میں دیگر امور کے ساتھ ایک سارا باب عرب کے بتوں کے بیان میں مخصوص کر دیا اور ان لوگوں کی بت پرستی کے متعلق کئی دلچسپ قصے بیان کئے۔یہ تو سچ ہے کہ بت پرستی عربوں کا عام مذہب تھا ،لیکن یہ کہنا ٹھیک نہ ہو گا کہ بت پرستی کے سوا اورکوئی مذہب عرب میں پایاجاتا ہی نہ تھا۔کئی موحد ایمان دار تھے جو ’’حنیف‘‘ کہلاتے تھے ۔ وہ مروجہ بت پرستی سے کنارہ کش تھے اور صرف واحد خدا کی پرستش کرتے تھے۔ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’سیرت الرسل ‘‘میں صفحہ۲۱۵ پر ان طالبان حق کا بہت عمدہ بیان کیا اور یہ واضح کر دیا کہ واحد  حقیقی خدا کا علم عربوں سے بالکل پوشیدہ نہ تھا۔جو علمی  کتابیں ہمارے زمانے تک پہنچی ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ محمدصاحب کی پیدائش سے بہت پیشتر خدا تعالیٰ کا علم عربوں کو حاصل تھا اور اُس کی پرستش ہوتی تھی۔اسلام سے ماقبل تصنیفات میں اہل عرب کے ادنیٰ دیوتا’’ لات ‘‘کہلاتے تھے۔لیکن جب اس کے ساتھ حرف تعریف ’’ آل ‘‘لگایا جاتا تو’’  اَل لات ‘‘جس کا مخفف’’ اللہ‘‘ ہے وہ خدا تعالیٰ کا نام ہو جاتا ۔بُت پرست شاعر نبیکا اور لبید دونوں نے لفظ اللہ کو بار بار خدا تعالیٰ کے معنی میں استعمال کیا اور سبعہ معلقہ میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں مستعمل ہے۔ محمد صاحب سے بہت زمانہ پیشتر مکہ کے کعبہ کو  بیت اللہ کہا کرتے تھے۔

اس کا کافی ثبوت  ہے کہ محمد صاحب کو اہل حنیف کے ساتھ راہ و ربط تھا۔ چنانچہ مسلم محدث نے یہ تحریر کیا کہ  مصلحٰان کلان میں  سے ایک شخص ورقہ بن نوفل تھا۔یہ شخص خدیجہؓ کا رشتہ  کا بھائی تھا۔اس لئے محمد صاحب کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ توحید خدا کا مسئلہ اس سے سیکھ لے۔اس قدر تو تحقیق ہے کہ  جب محمد صاحب  نے وعظ کرنا شروع کیا تو  اُس نے  اپنے وعظ کا تکیہ کلام اسی لفظ ’’ حنیف ‘‘  کو ٹھہرایا اور بار باراُنہوں نے اس اَمر پر زور دیا کہ  مَیں تو صرف ابراہیم حنیف کے مذہب کی تلقین کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔چنانچہ یہ لکھا ہے:

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا 

ترجمہ:’’ میرے خدا نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ۔حقیقی دین ابراہیم حنیف کے ملت کی  (سورۃ الانعام۱۶۱:۶) ‘‘۔

اہل حنیف کے علاوہ  محمد صاحب کے زمانے میں عرب میں دو دیگر موحد فرقے تھے یعنی یہودی اور مسیحی۔مکہ میں ان کا شمار تو بہت نہ تھا لیکن  مدینے اور اُس کے قرب و جوار میں بہت بار سوخ اور دولت مند یہودی قبیلے پائے جاتے تھے۔فی الحقیقت محمد صاحب کی ولادت سے پیشتر جنوبی عرب میں ایک یہودی سلطنت تھی جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھ میں آگئی ۔اس مسیحی سلطنت کا دارالحکومت شہر ’’صفا‘‘ تھا جو مکہ سے مشرق کی طرف کچھ فاصلہ پر واقع تھا۔یہ یہودی اور مسیحی اہل کتاب بمقابلہ مشرکین زیادہ عالم اور بارسوخ لوگ تھے اور انہوں نے اہل عرب کے مذہب پر بہت تاثیر کی ہو گی۔اس سے یہ تو واضح ہے کہ ان جماعتوں کی تعلیم توحید  نے محمد صاحب پر ضرور اثر کیاہوگا۔اس اَمر کی کافی شہادت ہے کہ ان کے ساتھ محمد صاحب کا گہرا راہ وربط تھا، مثلاً قرآن مجید میں پتری آرکوں کے جو قصے مندرج ہیں اگر ان کا مقابلہ تالمود کے بیانات سے کیا جائے جس میں بائبل مقدس کی تاریخ کو کچھ توڑا مروڑا  گیاہے اور جو محمد صاحب  کے زمانہ میں یہودیوں کے درمیان  مروج تھے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان خیالات کے لئے محمد صاحب  کہاں تک یہودیوں کے زیر احسان تھے۔خود قرآن  مجیدمیں باربار  محمد صاحب اور یہودیوں کے درمیان گفتگو کا ذکر آیا ہے اور یہ بھی شک نہیں کہ ایک وقت ان کایہ تعلق بہت ہی دوستانہ تھا ۔ ان کتابوں سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب  کی یہ عادت تھی کہ دین کے بارے میں وہ یہودیوں سے سوال پوچھا کرتے  تھے  اور صحیح مسلم میں اس مقصد کی ایک حدیث آئی ہےجس سے سارا شبہ جاتا رہتا ہے ،وہ یہ ہے : 

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث ۹۵۲

راوی: حسن بن محمد زعفرانی , حجاج بن محمد , ابن جریج , بن ابی ملیکة , حمید بن عبد الرحمن بن عوف

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْئٍ فَکَتَمُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا قَدْ سَأَلَهُمْ عَنْهُ

ترجمہ :۔’’ابن عباس نے کہا کہ جب نبی صلعم کوئی سوال اہل کتاب سے پوچھتے تو وہ اس مضمون کو چھپا دیتے اور اُس کی جگہ کچھ اَ ور ہی بتا دیتے اور اس خیال میں چلے جاتے کہ یہ سمجھے گا کہ جو اُس نے پوچھا تھا اُسی کا جواب ہم نے دیا‘‘۔

سید امیر علی نے اپنی کتاب   ۷     (Life & Teaching of Muhammad )  میں صفحہ ۵۷ پر اس اَمر کو مان لیا کہ اسلام کی اشاعت میں یہودی  اور مسیحی خیال نے کس قدر دخل پایا۔چند مسیحی بدعتی  فرقوں  (Docetes    ۸ , Marcionites  ۹ , Valentinians  ۱۰ وغیرہ)  کے عقیدوں کا ذکر کرتے وقت جو عرب آباد تھے، وہ کہتا ہے:

  ’’ محمد صاحب کی آمد سے پیشتر یہ ساری حدیثیں جو اَمر واقعی پر مبنی تھیں گو خیالات کی جولانی نے اپنا رنگ اُن پر چڑھا دیا،لوگوں کے عقائد میں نقش ہو گئی تھیں اور اس لئے اُن لوگوں  کے مروجہ دین کا جزو اعظم بن گئیں۔پس جب محمد صاحب نے اپنے  عقیدے اور شرائع (شرع کی جمع)  کی اشاعت شروع کی تو ان حدیثوں کولوگوں میں مروج پایا ،اس لئے اُنہوں نے ان کو لے کر عربوں اور گردونواح کی  قوموں کو اٹھانے کا وسیلہ بنا لیا کیونکہ وہ لوگ تمدنی اور اخلاقی طور  پر بہت ہی گرے ہوئے تھے‘‘۔

ایک دوسرے مسلمان خدا بخش نے اپنے ایک رسالے (Indian + Islamic)  میں صفحہ۱۰،۹ پر یہ لکھا:

’’محمد صاحب نے نہ صرف یہودیوں کی تعلیم وعقائد کو قبول کر لیا تھا اور تالمود کی رسوم کو، بلکہ  بعض یہودی دستورات کو بھی اور ان سب سے بڑھ کر توحید کو جو کہ اسلام کی عین بنیاد ہے‘‘۔

پس  یہ ظاہر ہو گیا کہ گو اکثر اہل عرب بُت پرست تھے ،لیکن سب کے سب بت پرستی میں مبتلا نہ تھے۔برعکس اس کے یہودیوں اور مسیحیوں کے بہت قبیلے تھے جن سے محمد صاحب نے حقیقی خدا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا اور توحید کی اس تلقین کے لئے راہ تیار کردی جس نے وہاں کے لوگوں کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا۔

Mecca
Rev. William Goldsack