(۵)
الہام کی ضرورت
جب رُوح انسانی پر انحطاط وتنزل نے قبضہ جمالیا اوراُس کا وہ نور بصیرت جوخُدا نے اُسے بخش دیا تھاگناہ کی تاریکیوں میں بالکل مدھم پڑگیا۔ اورچشم بصیرت پر معصیت کا پَردہ ساچھاگیا۔ تواُس نے گناہ کی تیرگی میں ادھر اُدھر پاو ں مارنے شروع کئے۔ اوراس ظلمت میں جو بھی پگڈنڈی اُسے سوجھی بس اُسی کو تھام لیا جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہار ا مگر راہ ِحق کے حصول میں ناکا م رہی۔ عقل کی اس لاچاری اوربے بسی کی حالت میں خالق نے الہام کی مشعل سے صراط ِ مستقیم کی طرف اُس کی رہنمائی وہدایت فرمائی۔ جس مدعا ومقصد کے حصول میں عقل ِانسانی ناکا م رہی۔ وہ خُدا نے الہام کی وساطت سےعطا فرمایا۔ گویا اُس فوق الفہم وادرا ہستی نے انسان سو والفہم وفاسد العقل اورمحدود العلم پر خود اپنی ذات وصفات اورمرضی کا انکشاف فرمایا۔ کیونکہ اورکوئی صورت ممکن ہی نہ تھی۔
جوڑا اورترقی
یہ بدیہ حقیقت ہے کہ فطرت کی کوئی شئے بغیر جوڑے کے کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ ہر شئے جوڑے کے ساتھ مل کر بڑھ سکتی ہے۔ ورنہ مجرد ہی رہتی ہے۔ نباتا ت حیوانات اورانسان میں جوڑے کاوجود ترقی کی شرط ہے۔چنانچہ موجودات کی ہر ہر جنس میں مذکرو مونٹ اورنرد مادہ کاوجود اس صداقت پر دال ہے۔ آنکھوں کا جوڑا آفتاب ہے۔اگر آفتا ب نہ ہوتو ہم کچھ بھی دیکھ نہ سکیں۔ کان جوڑا ہوا ہے۔ اگر ہوا نہ ہوتو ہم کو ئی آواز بھی سن نہ سکیں۔ بیج کا جوڑا زمین ہے۔ اگر ایک بیج کو دس سال تک کسی ڈبی میں بند کررکھیں تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ لیکن زمین میں بونے سے تیسرے دن اُگ آتا اوربتدریج کمال کو پہنچتا ہے۔ اورایک دانے کے درجنوں دانے ہوجاتے ہیں۔ برقی تار کے دوسرے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اوردوسرا منفی۔ اگران دونوں کو باہم ملایا نہ جائے تو بجلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن ملانے سے فوراً بجلی پیداہوجاتی ہے۔ اسی طرح عقل مجرد کو لھو کے بیل کی طرح ایک ہی مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ اوراپنی مخصوص حدود سے باہر نہیں جاسکتی۔ پس عقل کا جوڑا الہام ہے۔جب دونوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ تو تیسری شئے پیدا ہوتی ہے۔ اوروہ خُدا کی معرفت اورحقیقت کا علم ہے۔ موٹر صرف سمند رکے کنارے تک ہی پہنچا سکتی ہے۔ پار نہیں لے جاسکتی اورممکن ہے کہ موٹر ڈرائیوڑ یہ سمجھے کہ سمندر کے پرے اورکوئی عالم نہیں۔ پس پانی ہی پانی ہے اوراسی طرح دیدانتی کی عقل بھی نیچر کےحالات ِ موجودہ اورتجارب مشہورہ کی بنا پر کہدے کہ اس عالم ناسوت سے پرے اورکوئی رُوحانی عالم نہیں اورخُدا بھی کوئی غیر از نیچر شئے نہیں۔ بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے وہی ہے۔ لیکن سمندر کے پار جہاز لے جاتا ہے۔ اورثابت کرتا ہے کہ سمندر کے پار اوربھی دنیابسی ہے۔ اوراُس کی یہ کیفیت ہے۔ جس طرح موٹر اورجہاز دونوں کے ذریعے سمندر پار کی دُنیا کا علم حاصل ہوتا ہے۔اُسی عقل والہام کے ذریعے عام ناسوت سے عالم لاہوت تک پہنچنا اوراُس سے کم وبیش واقفیت حاصل کرنا ممکن ہے ۔اگرانسان میں عقل نہ ہوتی توالہام بے معنی ہوتا۔ اوراگر الہام نہ ہوتا تو عقل رُوحانی اورالہٰی حقائق کے علم سے قاصر رہتی۔ بہرحال دونوں کا وجود ترقی کے لئے ضروری ہے۔ جب انسان اپنی کمزور عقل اورمحدود حواس سے خُدا ئے بیحد کی ہستی کے متعلق صحیح علم حاصل کرنے میں قاصر اورمجبور ثابت ہوتو ایزد تعالیٰ لے اپنی ہستی اورعالم لاہوت کی کیفیت کو اپنی رُوح کے وسیلے بوساطت انبیاء موسلین کے خود اُس پر آشکارا فرمایا۔ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں۔ نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُد ا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ ظاہر کیا۔ کیونکہ رُوح (رُوح الہٰی) ساری باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کرلیتا ہے۔۔۔اِسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا خُدا کی باتیں کوئی نہیں جانتا (۱۔ کرنتھیوں ۲:۹- ۱۱)۔
رُوح خود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے (رومیوں ۸: ۱۶) انسانی عقل گویا منفی اورالہام الہیٰ(۲۔ تیمتھیس ۳: -۱۶ ۱۷)۔ مثبت ہے جب ان دونوں کاملِاپ ہوا تو عقل انسانی میں نور آیا۔ اورالہام الہٰی وہ سلسلہ حقائق وددائق لطیفہ رُوحانیہ اورنکات ومعارف قُدسیہ الہٰیہ ہے جس کے ذریعے خُداتعالیٰ تدریجی طورپر حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح بنی نوع انسان پر اپنی مرضی ومنشا کا اظہار وانکشاف بذریعہ انبیاء مُہلین کے فرماتا ہے۔ اورخُدا کی رُوح منزل علیہ کے ذہن عقل کو مکاشفہ دینے سے پہلے اس قابل بنا لیتی ہے ۔ کہ وہ پیغام ِالہٰی کو قبول کرکے اُس کے مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت رکھے۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی۔بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۲۱ ) اورعقل ِانسانی الہام الہٰی کے وصال سے لاا نتہا تورانیت کے عالم میں پہنچ جاتی ہے۔ اورمعرفت ِالہٰی کے اسرار سربستہ ورموز مخفیہ کو سمجھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔
عقل الہام کی متقاضی ہے
جس طرح امراض جسمانی وعوارض جسدانی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اورہر شخص اُن کے متعلق ذاتی تجربہ رکھتا ہے اسی طرح عوراض رُوحانیہ بھی ہرشخص میں حقیقتاً اوربدیہی طورپر ظاہر ہیں۔ رُوح وجسم کے اجتماع کا نام انسان ہے۔ رُوح لطیف اوراشرف وجود ہے۔ اورجسم کثیف وادنی ٰ شے ہے۔ چنانچہ رُوح کے بگاڑ سے جسم کا بگاڑ لازم آیا۔ جب رُوح پر مرض گناہ نے ڈیرے ڈال لئے تو جسم پربھی اُس کے آثار ظاہر ہوئے۔ اورجسم بھی طرح طرح کے امراض میں پھنس کر قبضہ موت میں آگیا۔ اب یہ ہر دانشمندپر ظاہر ہے کہ امراض جسمانی کی مدافعت وازالہ کے لئے خُدا نے حکیم وقدیر نے بیشمار ادویہ۔جڑی بوٹیاں وغیرہ پید اکردی ہیں۔ اورماہرین طب اورحکما واطباء نے اُن کے خواص و فوائد کی مفصل تشریحات کتب طب میں فرمادی ہیں۔ یہ خُدا تعالیٰ کا وہ بے نظیر انتظام ہے جس سے جسم کے تما امراض کی مدافعت اورجسمانی زندگی کے استحفاظ واصلاح کے بارے میں اُس کی قدرت وحکمت ظاہر ہے۔ جس حال کہ انسان کی جسمانی زندگی کی صحت وقیام کے با ب میں اُس نے اِس قدرسخاوت کے دریا بہادئے ہیں۔ توبڑے افسوس اورحیرت کا مقام ہو اگر وہ انسان کی رُوحانی زندگی کی بہتری۔ اصلاح اورحفاظت کے با ب میں بخل واغماض سے کام لے۔ بلکہ جس طرح رُوح بہ نسبت جسم کے اعلیٰ اورانمول شئے ہے اُسی طرح اُس کی صحت وبقا کے لئے فطرہ میں جسمانی اسباب کی بہ نسبت اعلیٰ رُوحانی اسباب ووسائل کا پیدا کرنا اوراعلیٰ قوانین کا نفاذ زیادہ ضروری ولازمی ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ خُدا وند کریم نے ایسا ہی کیا اوررُوحانی امراض کی تشخیص ومدافعت کے لئے روحانی حکمت کی کتاب بھی نازل فرمائی۔ اوروہ کتاب بائبل مقدس ہے۔ ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اورالزام اوراِصلاح اورراست بازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مرد خُدا کامل ہے اورہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے (۱۔ تمتھیس ۳: ۱۶- ۱۷)۔ کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں۔ تاکہ صبر سے اور کتاب ِمقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔(رومیوں ۱۵: ۴)۔
پس عقل کے اس واجبی تقاضا کو اِلہام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اگررُوحانی طب کی کتاب (الہام) اورروحانی اصلاح کے اسباب خُداوند کریم اس دُنیا میں ہمیں نہ بخشتا اورصرف جسمانی اسباب ہی کے دینے پر اکتفا کرتا تو اُس کی قدرت وحکمت پر دھبہ آتا تھا۔ لیکن اُس نے دونو قسم کے انتظام کرکے ہمارے لئے عُذر کی کوئی وجہ نہیں چھوڑی۔
اِلہام اورباطنی شریعت
اِنسان فطِرتا ً عقلی اوراخلاقی وجود ہے اورخُدا نے اُسے اپنی صورت پر پاک وراست صاحب ارادہ۔اورفاعل مختار بنایا۔ اوراپنی مرضی کا اظہار اُس پر فرمایا۔ یعنی اخلاقی شریعت اُس کو بخشی۔ وہ شریعت کسی ظاہر ی وتحریری صورت میں نہ تھی۔ بلکہ انسان کی عقل وضمیر پر مرتسم کی گئی تھی۔ جب انسان نے وہ باطنی اخلاقی شریعت کھودی۔ اورگناہ کی تاریکی میں وہ انمول وبیش بہاشئے گُم ہوگئی۔ اورانسان کے دل سے خُدا کی وہ صورت جس کی مانند وہ بنایا گیا تھا جو ہوگئی تو اس کے لئے یہ مشکل پیش آئی کہ وہ کس طرح اُس گم شدہ الہٰی پاکیزہ صورت کی مانند خود کو پھر سے بنائے۔ کیونکہ جب اصل شئے گم ہوجائے تو نقل کو اُس کے مطابق بنانا محال ہے۔ جب نمونہ نادیدہ ہو تو دیدنی صورت کو اُسکے مشابہ کرنا مشکل ہے۔ اب اِلہام الہٰی باطنی شریعت کی وہ ظاہری صورت ہے۔ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان کمدر الصورت اورمفصد الطبع پھر سے اصلی پاکیزہ حالات پر آسکتا ہے۔ شریعت الہامی (ظاہری ) شریعت باطنی سے غیر نہیں۔ بلکہ اُسی کا اعادہ ہے ۔الہام کی ضرورت یہی ہے کہ وہ انسان کو اس کی اصلی سرشت کی طرف دوبارہ رجو ع کرائے۔اگر ابو البشر (آدم) باطنی شریعت کو کھونہ دیتا تو کبھی انسان کو ظاہری الہامی شریعت دئے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ انسان کی اُس شوکت گذشتہ اور جااِلت رفتہ کے آثار کچھ نہ کچھ اب تک موجود ہیں۔ اورہونا بھی یوں ہی چاہئے۔ بقول شخصے۔
از نقش ونگار ور ودیوار شکستہ۔۔۔۔۔۔ آثار پدید ست حنادید عجم را
چنانچہ خلیفہ خُدا (انسان ) کی ابتدائی پاکیزہ حالت اورشرع باطنی کا ثبوت تمام اقوام ِعالم میں نیکی وبدی کا وہ احساس وامتیاز ہے جو وہ خُدا کی ہستی اورالہام کے منکر ہونے کے باوجود فطری طورپر رکھتی ہیں۔جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے (رومیوں ۱: ۱۹)۔ وہ نیکی کو نیکی اوربدی کو بدی کہتی ہیں۔ اگرچہ نیک وبداعمال کے تعین کے متعلق سب کے خیالات میں اتفاق کلی نہیں۔ تاہم نیکی کا خیال اورعلم وعمل اوربدی سے نفرت ہر جگہ ہر قوم میں ظاہر ہے۔ اورباطنی شریعت کا بقیہ ہر منکر دملحد کے باطن میں موجود ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبعیت سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔ تو باوجود شریعت (یعنی الہامی شریعت ) نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اوراُن کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے۔ اوراُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں اوریا اُن کو مغدور رکھتے ہیں(رومیوں ۲: ۱۴ – ۱۵)پس ثابت ہو اکہ الہامی شرع انسان کی ابتدائی شرع باطنی کا اعادہ ہے۔اُس سے علیٰحد ہ نہیں بلکہ اُسی کے مطابق ہے اورالہام کی ضرورت ہی اس لئے ہوئی کہ شرع باطنی کو انسان نے گناہ کی تاریکی میں کھودیاتھا۔ گواُس کا کچھ بقیہ ہر ایک کے دل میں موجود ہے پر وہ انسان کی کامل رہنمائی میں قاصر ہے۔ کیونکہ امتداد زمانہ اوراظاہری وباطنی انقلابات نے اُس میں بہت سی تبدیلی کر دی ہے۔ اب الہام خُدا کی طبیعت۔مرضی اوررحمت ومحبت کا ظہور ہے۔جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان محبوب الطبع ومدر الفطرہ پھر ابتدائی پاکیزہ ومبارک حالت پر بحال ہو سکتا اوراپنی بگڑی ہوئی رُوحانی صورت کو آئنیہ الہام میں سنوار کردوبارہ خُدا کی صورت پر بن سکتاہے گناہ کی تاریکی میں انسان خُدا سے بچھڑا گیا اوراپنے محبوب حقیقی کی فرفت سے بے قرار ہو کر اُس کی جستجو وتلاش میں مارا مار اپھراکیا۔ لیکن اُس کے دیدارفیض آثار سے لطف اندوز نہ ہوسکا۔ دل میں آرزوئے دید کروٹیں لے رہی تھی۔ مگر اس حرماں نصیب کو اپنے پردہ نشین نادیدہ اورلامکاں محبوب کی آستاں بوسی کو فخر کبھی حاصل نہ ہوا۔ آخر خُدا نے خطوط اسلات (صحائف مطہرہ) کے ذریعے خود کو اُس پر آشکار افرمایا اوراُس کی خواہشات کا جواب دیا۔ پس الہامی صحائف گویا خُدا کے مکتوب ہیں۔
شخصی مذہب
ہم گذصفحات میں دلیل وبراہین سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا چکے ہیں کہ انسانی عقل محدود ضعیف اوربگڑی ہوئی ہونے کے باعث معرفت حقانیہ اورحقائق رُوحانیہ کے افہام و تفہیم میں قاصر ہے۔ اوریہ بھی دکھا چکے کہ الہام ہی ایک ایسا ممکن اورمعقول ذریعہ ہوسکتا ہے جو عقل ِانسانی پر غیر مرئی اورفوق الفطرت روحانی حقیقتوں کو مُنکشف کرسکتا ہے۔چنانچہ الہام ِالہٰی پہلے شخصی طورپر خاص اشخاص پر نازل ہوا۔ ازمنہ سابقہ میں جبکہ مذہب الہٰی انفرادی صورت میں تھا خُداوند تعالیٰ نے خاص خاص اشخاص کے ساتھ کلام کیا۔ا ور اپنی مرضی ومنشاء کو اُن پر شخصی طور سے ظاہر فرمایا۔ چونکہ تمام دُنیا اُس وقت گناہ کی غلامی اورتاریکی میں مبتلا تھی اس لئے خُدا نے اُس میں سے خاص اشخاص کو انتخاب کرکے صراطِ مستقیم پر قائم کیا۔مثلاً اُس نے ابراہام کو بُت پرستوں میں سےچُن لیا اوراُس سے یوں مخاطب ہوا (الہام دیا) تُو اپنے وطن اوراپنے ناطے داروں کے بیچ سے اوراپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جاجو میں تجھے دکھاوں گا۔ اورمیں تجھے ایک بڑی قوم بناوں گا اوربرکت دونگا اورتیرا نام سرفراز کرو ں گا۔ سوتو باعث برکت ہو۔ جو تجھے مبارک کہیں اُن کو میں برکت دُونگا۔ اورجو تجھ پر لعنت کرے اُس پر میں لعنت کروں گا۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے (پیدائش ۱۲: ۱-۳) اورا براہام نے اُسی جگہ پر جہا ں خُدا اُسے کسی دیدنی صورت میں نظر آیا تھا ایک قربا ن گاہ بنائی اوروہاں خُدا کی عبادت کی (۱۲: ۷-۸) پھر یعقوب کے ساتھ خُدا ہمکلام (الہام) ہوا۔ ملاحظہ ہو(پیدا ئش ۲۸: ۱۳- ۱۵) اوراُس نے بھی اُسی جگہ جہاں خُدا اُس سے ہمکلام ہو ایک پتھر کا مذبح بناکر اُس کا نام بیت ایل (خُدا کا گھر ) رکھا اورخُدا کی عبادت کی ۲۸: ۱۸-۱۹ ) پھر کو ہ ِحورب کے نزدیک خُدا موسیٰ پر ایک جھاڑی میں نگی ہوئی آگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اوراُس سے کلام کیا۔ اوراُس کے آباو اجداد کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کودوہرا۔اورموسیٰ نے الہٰی حضور کو محسوس کرکے ازراہ ِ تعظیم اپنے پاوں سے جوتی اُتاری اورمُنہ چُھپا یا۔خروج ۳ باب
قومی مذہب
پہلے الہام الہٰی شخصی تھا اور مذہب الہٰی بھی شخصی۔ اس لئے خُدا خاص اورچیدہ اشخاص کے ساتھ تنہائی میں ہمکلام ہوتا اوراُن سے اپنے احکام کی تعمیل طلب کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہی مذہب الہٰی انفرادی خصوصیت سے نکل کر قومیت میں منتقل ہوگیا۔ اورمذہب الہٰی ایک قومی مذہب اور الہام الہیٰ ایک قومی الہام ہوگیا۔ اورخُدائے تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جوابراہام سے کیا تھا اُس کی نسل کو جواب ایک قومی صورت اختیار کرچکی تھی چن کر تمام بت پرست اورمشرک اقوام سے الگ کیا۔ اوراپنی خاص قوم بنایا اورفرمایا۔ کیونکہ تُم خُد اوند اپنے خُدا کے لئے ایک مقدس قوم ہو۔ خُداوند تمہارے خُدا نے تُم کو رُوئے زمین کیاورسب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ تم اُس کی خاص اُمت ٹھرو۔
(استثنا ۷: ۶) اوراس خاص قوم (بنی اسرائیل) پر موسیٰ ک وسیلے اپنی مرضی کا اظہار فرمایا۔ اوراپنے اوامر و نواہی کو اُن پر نازل فرما کے اُن پر اُن تفصیل طلب کی۔ اس لئے جو فرمان اورآئین اوراحکام میں آج کے دن تم کو بتاتا ہوں تم اُن کو ماننا اوراُن پر عمل کر نا (استثنا ۷: ۱۶) اوروہ شرع الہٰی تین قسم کی تھی۔ یعنی شریعت ملکی۔شریعت رسمی اورشریعت اخلاقی۔اورملکی ورسمی شرائع کی رُوح رواں اورمرکز شرع ِ اخلاقی تھی۔ اب ہم نہایت مختصر طورپر شرائع ثلاثہ کا جُدا جُدا بیان کریں گے۔
شریعت رسمی
قربانیاں،ختنہ۔عبدیں نئے چاند۔نذریں،حلت وحرمت،طہارت ِبدنی،۔روزہ اورکاہن وسردار کاہن اورلاویوں اورعام قوم کے فرائض وغیرہ سب رسمی شریعت میں شامل ہیں۔ اس شریعت کابیان پیدا ئش کی کتاب کے سوا توریت کی چاروں کتابوں میں موجود ہے۔
شریعت اخلاقی
اس میں احکام عشرہ موجو د ہیں۔جو خُدا نے پتھر کی دونو لوحوں پر لکھے لکھائے موسیٰ کو سوپنے (خروج ۳۱: ۱۸،۳۲ ۱۵: ۱۶ ؛۳۴: ۲۸) اوریہ دس احکام خروج ۲۰: ۱- ۱۷) میں پائے جاتے ہیں۔ اور احبار ۱۹ باب اور استثنا کے چند ابتدائی ابواب میں اُن کی مفعقل شرع موجود ہے۔ اواس شرع اخلاقی کا خلاصہ بدیں الفاظ موجود ہے۔ تو اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے محبت رکھ استثنا ۶: ۵ یہ دس احکام کی لوح اول کے چار احکام کا خلاصہ ہے۔ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت رکھ (احبار ۱۹: ۱۸) یہ لوح ثانی کے چھ احکام کا خلاصہ ہے۔ اورخُداوندمسیح نے بھی اخلاقی شریعت کو ہرقسم کی شریعت رسمی وملکی کی جان ٹھہرایا۔ اواسی خلاسہ شرع اخلاقی کا اعادہ فرماتے ہوئے یہ کہا کہ ان ہی دوحکموں پر تما م توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے (متی ۲۲: ۴۰)۔
ملکی شریعت
اس میں بادشاہوں،قاضیوں اورحاکموں اوررعیت کے فرائض ہیں۔ اورحکام قوم اسرائیل شرائع رسمی اخلاقی کے محافظ تھے۔ شرع کی خلاف ورزی کرنے والے تغریرات ملکی ک ماتحت مختلف سزائیں پاتے تھے۔ تاکہ احکام ِالہٰی کی پابندی کی رُوح اُن میں پیدا ہو۔ اورقوم خُدا کی مرضی ومنشاء کی قدر ومنزلت کو پہچانے۔
اخلاقی وجسمانی ہر دوقسم کے قوانین پہلو بہ پہلو اس قوم میں چلے آئے۔ اوربہت سے انبیاء یکے بعد ویگر ے مختلف زمانوں اورمتفرق حالتوں میں پیغام ِالہٰی لے کر اس قوم میں مبعوث ہوتے رہے۔ اور اپنے اپنے وقت میں قوم کی معاشرتی واخلاقی اِصلاح مختلف طریقوں سے کرتے آئے۔ اورہزاروں برس کے طویل عرصہ میں خُدا کی اس برگزیدہ وچنیدہ قوم کی مذہبی واخلاقی حالت نے کئی رنگ پلٹے۔ کی بار شرع ِالہٰی سے تابی وانحراف کرکے مور ورعتاب ٹھہری۔ کئی بار تو بہ و استغفار کے ذریعے بحال کی گئی۔ خُدا کا عادل ہے۔ اوراُس عادل نے قوانین کا نفاذ فرما کے اُن پر اس مخصوصہ گروہ کا مخصوص عمل طلب کیا۔ لیکن اُس نے بجائے فرمانبرداری کے عدول حکمی کی۔ اس لئے خُدا نے عادل ہونے کی حیثیت میں قانون شکن کو سزا دی۔ اورمعیاد تغریرکے اختتام پر اُن کررہائی دیتا رہا۔ اس قوم کا سب سے بڑا گناہ جو خُدا ئ غیور کی غیر ت کو جوش دِلاتا رہا بُت پرستی تھا۔ جب جب اس قوم کو اردگرد کی دیگر بے خُدا اوربُت پرست اقوام ہوئے بغیر نہ رہی۔ اورخُدا نے ان ہی معائب ونقائص کے زنگ کو اُن کو طبائع سے مٹانے کے لئے بار ہا اُنہیں مصیبت کی آگ میں ڈالا۔ تاکہ وہ کندن کی طرح صاف اورخالص ہوجائیں۔ جب وہ مجھے تالے گا تو میں سونے کی مانند نکل آوں گا۔ (ایوب ۲۳: ۱۰،زبور ۶۶: ۵۰)۔
شریعت کا مرکز
بنی اسرائیل قوم کے فرائض مذہبی کی انجام دہی کا مرکز پہلے توخیمہ تھا جس کا مفصل احوال خروج با ۲۵ میں پایا جاتا ہے۔ خیمہ کو دینی امور کا مرکز اُس وقت اس وجہ سے بنایاگیا۔ کہ ابھی قوم اسرائیل خود آوار ہ غربت تھی۔ اورخیموں میں قیام کرتی تھی۔ اس لئے اُن کی مذہبی ضرورت کو عارضی طورپر پورا کرنے کے لئے خُدا نے خیمہ بنانے کا حکم دیا۔ اورہرقسم کی شرع رسمی۔ ملکی واخلاقی کا تعلق اُسی سے تھا۔ اورجب یہ قوم رفتہ رفتہ ملک موعود کنعان پر قابض ہوئی اوروہاں ہر سکونت کے لئے مکان بنائے اورقصبے وشہر آباد کئے تو عبادت ِالہٰی کے لئے بھی ایک مکان بنایا گیا ۔ اوروہ ہیکل تھی جو سیلمان بن داود نے شہر یروشلیم میں کوہ مور یا پر تعمیر کی تھی۔ اورعبادت کے تمام لوازمات واسباب خیمہ موسوی سے اس ہیکل میں منتقل ہوئے اورہیکل کی تعمیرکےمتعلق خُدا نے پہلے ہی اُن کے ایام مسافرت میں فرمای دیاتھا۔ لیکن جب تم یردن پار جا کر اُس ملک میں جس کا مالک خُداوند تمہارا خُدا تم کو بناتا ہے بس جاو۔ اوروہ تمہارے سب دشمنوں کی طرف سے جو گردا گرد ہیں تم کو راحت دے اوتم امن سے رہنے لگو۔ تو وہاں جس جگہ کو خُداوند تمہارا خُدا اپنے نام کے مسکن کے لئےچن لے وہیں تم یہ سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں لے جایا کرنا۔ یعنی اپنی سوختنی قربانیاں اوراپنے ذبیحے اوراپنی دو یکیاں۔اوراپنے ہاتھ کے اُٹھائے ہوئے ہدئے اوراپنی خاص نذر کی چیزیں (استثنا ۱۲: ۱۰ – ۱۱،۱۸، ۲۶)۔
اس ہیکل کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کے سوا اورکسی قوم کا کوئی تعلق نہ تھا۔اورنہ ہی عام اجازت تھی کہ غیر اقوام اُس سے تعلق رکھیں۔ اورنہ ہی شرع ِالہیٰ کی نشرو اشاعت کا دیگر اقوام میں حکم تھا۔ ہیکل ایک مختص بالقوم وزمان عبادت گاہ تھی۔ اورقوانین وشرع الہٰی بھی محدود بالقوم ومان تھی۔ مدتوں تک مذہب ِالہٰی اُس خاص قوم کے ساتھ خاص رہا۔ اورقوم اسرائیل کو ختنہ۔قربانی۔روزہ سبت طہارت اورحلت وحرمت کے احکام دینے اوران تمام فرائض کی انجام دہی کا مرکز یروشلیم کی ہیکل کوٹھہرانے سے خُدا کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اردگرد کی تمام دیگر بت پرست اقوام سے قوم مخصوصہ الہٰیہ کا افتراق امتیاز صاف نظر آئے۔ جس طرح فوجی لوگ خاص امتیازی نشانات وعلامات کے باعث بادشاہ کی رعیت کے عام افراد سے جُدا گانہ اورممتاز نظر آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اُن ظاہری اور رسمی دستورات اور ابتدائی اصولوں کی پابندی سے اُن کے اندر متابعت الہٰی کی بنیاد رکھی جائے۔ تاکہ جہاں وہ اپنے مویشی اورمال واسباب کو عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان کرتے ہیں وہاں کسی وقت اپنی شخصیت کو نثار کرنے میں بھی دریغ نہ کریں۔ چنانچہ خُداوند تعالیٰ نے یہ ابتدائی سبق اُنہیں انبیاء کے ذریعے خوب سکھایا۔ اورا ن رسمی قربانیوں اوردیگر ظاہری اورجسمانی رسومات کی تکمیل وتعمیل کے مطالبہ سے مقصد ِالہٰی یہ تھا کہ فرمانبرداری اوراطاعت کے بیج کو اُن کے دلوں میں بویا جائے۔ اوروہ خاص روحانی مقصدد جوان عارضی وظاہری رسوم کے دائرہ کا مرکزز تھا۔ بدیں الفاظ ظاہر کیاگیا ہے۔ تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے محبت رکھ (استثنا ۶: ۵)۔
عہد عتیق مختص بالقوم اور مختص بالزمان تھا
اگرکوئی متلاشی حق وصدق صاف باطنی سے عہد عتیق کا اول سے آخر تک مطالعہ کرے تو وہ یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ توریت کا مذہب ایک مختص بالقوم ولزمان تھا۔ توریت میں ذاتی طورپر ایک عالمگیر مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اورنہ ہی اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہرزمانے اورہرقوم کے لئے دی گئی ہے۔ اُس کے تمام احکام و شرائع اوردستورات واصولات خاص قوم بنی اسرائیل سے ہی مختص تھے۔ اورشریعت موسوی کی تعمیل وتکمیل کا مرکز تروشلیم کی ہیکل تھا۔ یہودیت کے دائرہ خاص سے باہر نہ تو اُس کی تبلیغ واشاعت کا حکم کہیں موجود ہے۔ اورنہ ہی کبھی یہودی انبیاء نے اُس کو غیر اقوام میں جائز رکھا۔ بلکہ و توبُت پرست غیر اقوام کے درمیان خُدا کا نام لینا بھی خُدا کی بے عزتی وحقارت سمجھتے تھے۔ جب شاہ نبو کدنظر تمام یہودیوں کو اسیر کرکے بابل لے گیا تو اُس وقت اُن کی دینی غیر ت اورخُدا کے نام کی توقیر کا اظہار ان الفاظ سے عیاں ہے۔ ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے۔ اورصیون کو یاد کرکے روئے ۔وہاں بید کے درختوں پر ہم نے اپنی ستاروں کو ٹانگ دیا۔ کیونکہ وہاں ہم کواسیر کرنے والوں نے گیت گانے کا حکم دیا۔ اورتباہ کرنے والوں نے خوشی کرنے کا۔ اورکہاصیون کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سُنا و۔ہم پردیس میں خُداوند کا گیت کیسے گائیں۔زبور ۱۳۷ : ۱- ۴) وہ غیر اقوام میں خُدا کا نام لینا خُدا کو ٹھٹھوں میں اُڑانے کے برابر سمجھتے تھے۔ ملکی ورسمی شرائع بہ نفسہ کمزور اور مختص بالقوم ولزمان تھیں۔ اوراُن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی مفقو دتھی۔ اورشرع اخلاقی قوم وزمان کی قیود سے آزاد تھی۔ چنانچہ وہ اب تک یہودی مسیحی اورکئی دیگر مہذب اقوام کا دستور العمل بنی ہوئی پہلی آتی ہے۔ عہد عتیق کے انبیاء خود توریت کی قربانیو ں اوردیگر رسموں کو کمزور اورناقص بتاتے گئے ہیں۔ مثلاً سموایل نبی کہتا ہے کہ کیاخُداوند سوختنی قربانیوں اورذبیحوں سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اس بات سے کہ خُداوند کا حکم مانا جائے ؟ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اوربات ماننی مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے (۱۔ سموایل ۱۵ : ۲۲ ) داود نبی کا قول (زبور ۵۱: ۱۶- ۱۷) سلیمان نبی کا قول (امثال ۲۱: ۳) ہوسیع نبی کا قول (ہوسیع ۶: ۶) دانی ایل نبی کا قول مرادانی ایل ۹: ۲۴- ۲۷) نبی اسرائیل میں قربانیاں چڑھاتے چڑھاتے یہ سُو عقیدت پیدا ہوگئی کہ قربانی کی اصل رُوح اورغر ض وغایت سے لاپرواہ ہوکر گناہ کرنے میں آزاد اوربے خوف ہوگئے۔ اورعمد اً وقصد اً گناہ کرکرکے قربانیوں اوردیگر رسُوم کو رواجی ورسمی پر انجام دینے لگے۔ اور اس بات کو بھول گئے کہ خُدا کی فرمانبرداری قربانی چڑھاتے سے بہتر ہے۔ اُنہوں نے عمداً گناہ کرکرکے اُن کی تلافی کے لئ قربانیاں چڑھانا ایک دستور العمل ہی بنالیا۔ اوراس لئے خُدا نے انبیاء کے ذریعے اس دستور کو نامقبول ٹھہرا کے تنبیہہ وہدایت فرمائی۔ خُداوند فرماتا ہے لیکن میں اُس شخص پر نگاہ کروں گا۔ اُسی پر جو غریب اورشکستہ دل ہے۔ اورمیرے کلام سے کانپ جاتا ہے۔ جو بیل ذبح کرتا ہے اُس کی مانند ہے جو کسی آدمی کو مار ڈالتا ہے اورجو برہ کی قربانی کرتا ہے اُس کےبرابر ہے جو کتے کی گردن کاٹتا ہے ۔جو ہدیہ لاتا ہے گویا سور کالہوگذرانتا ہے جو لُبان جلاتا ہے اُس کی مانند ہےجو بُت کو مبارک کہتا ہے۔ ہاں انہوں نے اپنی اپنی راہیں چن لیں اوراُن کے دل اُن کی نفرتی چیزوں سے مسرور ہیں (یسعیاہ ۶۶: ۲- ۳ ؛ ۱: ۱۱- ۱۴) یہودی لوگ سال میں تین مرتبہ عیدیں منانے کے لئے یروشلیم میں جایا کرتے تھے۔ اوران تینوں عیدوں یعنی عید فسح۔ عید خیام اور عید پنتیکست کا تعلق ہیکل کے ساتھ تھا۔ اان عیدوں۔قربانیوں اوردیگر تمام مذہبی رسوم کی ادائیگی کا مرکزہیکل تھی۔ اُس کے علاوہ اورکسی جگہ ان فرائض کی انجام دہ ممنوع تی۔ اورخبردار رہنا تا ایسا نہ ہوکہ جس جگہ کو دیکھ لووہیں اپنی سوختنی قربانی چڑھاو بلکہ فقط اُسی جگہ جسے خُداوند تمہارے کسی قبیلہ میں چن لے تم اپنی سوختنی قربانیوں گذراننا اوروہیں سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں کرنا استثنا ۱۲: ۱۳- ۱۴ اورہیکل کا ایک خاص مقام یروشلیم ہی سے متعلق ہونا اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اُس میں عالمگیر دینی مرکز ہونے کی قابلیت نہ تھی۔ کیونکہ بالفرت اگرتمام دُنیا توریت کی پیروی پر آمادہ ہوتی تو تمام دُنیا کا عیدوں،قربانیوں اوردیگر رسموں کی ادائیگی کے لئے یروشلیم میں سال میں تین مرتبہ حاضر ہونا محال ہوتا۔ اول تواس قدر ہجوم کی وہاں گنجائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔ اورجو وہاں نہ جاتا وہ خُدا کا نافرمان ٹھہرتا۔ اور پھر تین مرتبہ سال میں وہاں حاضر ہونا لازمی تھا۔ تو اس صورت میں ہزاروں کو س سے دور دراز ممالک ک باشندے وہاں کیسے پہنچ سکتے۔ اُن کا تو سال بھر آمد ورفت ہی میں ختم ہوجایا کرتا۔ اورپھر ذرائع آمد ورفت کی دشواریاں توریت کی توسیع اشاعت میں سد ِ راہ تھیں۔ اورہیکل کاتمام عالم کے لئے مرجع دینی ہونے سے اُمور معاشرت میں سخت نقصان ہوکر جسمانی زندگی معرض خطر میں پڑجاتی۔ پھر آمدورفت کے بھاری اخراجات ومصارف سے محروم رہنے کے علاوہ خُدا کے مجرم ٹھہرتے۔ اور یہ ایک سخت ترین آسمانی سزا بنی نوع انسان کے لئے ہوتی۔ چنانچہ کعبہ اورتیرتھوں کا وجو داسلام اورہندو از م کے مختص بالقوم وملک ہونے کی ایک بین اورمسکت دلیل ہے۔ ہم پیچھے خوب دِکھا چکے ہیں کہ مذہب الہٰی کس طرح انفرادیت سے قومیت میں منتقل ہوا۔ اب عقل خواہ مخواہ یہ سوال کرتی ہے کہ کیا خُدا صرف ایک خاندان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیا وہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیاوہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان سے ےمستفید فرما کر فقط اُسی سے اپنی عبادت وطاعت اوربندگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟ کیا خُدا صرف یہودیوں ہی کا ہے۔ غیر قوموں کا نہیں ؟ بیشک غیر قوموں کا بھی ہے رومیوں ۳: ۲۹ وہ تمام دیدنی ونایدنی عالم کا خالق و رازق ہے۔ اوراُس نے اییک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رُوئے زمین پررہنے کے لئے پیدا کی۔اعمال ۱۷: ۲۶ تُونے آسمان اورآسمانو کے آسمان کو اور اُن کے سارے لشکر کو اورزمین کو اورجوکچھ اُس پر ہے۔ اورسمندر وں کو اورجو کچھ اُن میں ہے بنایا اورتُو سبھوں کا پرور دگار ہے اورآسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔نحمیاہ ۹: ۶ چنانچہ اسی بنا پر وہ تمام دُنیا سے استحقاق عبادت رکھتا ہے۔ اس لئے لازمیی امر ہے کہ اُس کا مذہب انفرادی اورقومی نہ ہو بلکہ عالمگیر ہو۔
توریت میں ایک عالمگیر
نئے عہد کی خبر
عہد عتیق کے حدِ رواج اورمُختص بالقوم وزمان ہونے کا مفصل ذکر ِ ہم نے اُوپر کردیاہے۔ صحائف عتیقہ اپنے حدِ رواج کی خبر کے علاوہ ایک اورعہد کی خبر بھی دئے گئے ہیں۔ تاکہ جب اُس ک رواج کا زمانہ اختتام کو پہنچے تو وہ عہد شروعع ہوجائے۔ اورجس طر ح پہلے پہل مذہب الہٰی انفرادیت کی صورت میں تھا اورپھر قومیت میں بدل گیا تو ضروری گامزن ہو۔ اوربجائے قومی ہونے کے عالمگیر ہو۔ چنانچہ اُس آنے والے نئے عہد کے متعلق عہد عتیق یہ خبر دیتا ہے۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھر انے اوریہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو میں نے اُن کے باپ دادا سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اِن دنو ں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔۔۔۔۔ یر میاہ ۳۱: ۳۱- ۳۴ خط عبرانی کا مصنف اپنے خط میں اسی مقام کو اقتباس کرکے آخر میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے نیا عہد کیا تو پہلے کر پُرانا ٹھہرایا۔ اورجو چیز پُرانی اورمُدت کی ہوجاتی ہے وہ مٹنے کے قریب ہوتی ہے۔ عبرانی ۸: ۱۳ اوریہ عہد قومیت کی انقیادی خصوصیت سے آزاد اورعالمگیر بیان کیاگیا ہے۔ جو یسعیاہ نبی نے خُدا سے بذریعہ الہام خبر پا کے اس طرح بیان کیا ہے۔ اوربیگانے کی اُولاد بھی جنہوں نے آپ کو خُداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اُس کی خدمت کریں اورخُداوند کے نام کو عیز یز رکھیں۔اوراُس کےبندے ہوں وہ سب جو سبت کو لفظ کرکے اُسے ناپاک نہ کریں۔ اورمیرے عہد پر قائم رہیں مَیں اُن کو بھی اپنے کو ہ ِمقدس پر لاو ں گا۔ اوراپنی عبادت گاہ میں اُن کو شادمان کروں گا اوراُن کی سوختنی قربانیاں اوراُن کے ذبیحے میرے مذبح پر مقبول ہوں گے کیونیہ میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔ خُداوند خُدا جو اسرائیل کے پراگناہ لوگوں کو جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ مَیں اُن کے سوا جو اُسی کے ہوکر جمع ہوئے ہیں اَوروں کو بھی اُس کے پاس جمع کروں گا۔ یسعیاہ ۵۶: ۶- ۸ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل ِلغت کو جمع کرو ںگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اورخُداوند فرماتا ہے کہ مَیں اُن میں سے بھی کاہن اور لاوہی ہونے کے لئے لوں گا۔۔۔۔ اوریوں ہوگا خُداوند فرماتا ہے کہ ایک نئے چاند سے ددسرے تک اورایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے میر ے حضور آئیگا۔ یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ، ۲۱، ۲۳ اورجس طرح عہد عتیق کا بانی اورضامن موسیٰ تھا۔ اُسی طرح اُس نے عہد کے بانی وضامن کی خبر بھی توریت میں بالتصریح وتفصیل موجود ہے۔ ہم توریت ہی کے الفاظ میں اُس کو مفصل طورپر قلمبند کریں گے۔
نئے عہد کے بانی کے متعلق مفصل خبریں
قول المسیح۔ تُم کتاب ِمقدس میں ڈھونڈتے ہو۔ کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے۔ اوریہ وہ ہے جومیری گواہی دیتی ہے (یوحنا ۵: ۳۹)۔
۱۔ وہ یہوداہ کے فرِقہ داود کے خاندان سے ہوگا۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے کہ میں داود کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا۔ اوراُس کی بادشاہی ملک میں اقبال مندی اورعدالت اورصداقت کے ساتھ ہوگی۔ اُس کے ایام میں یہوداہ نجات پائیگااور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا۔ اوراُس کا نام یہ رکھا جائے گا خُداوند ہماری صداقت ہے۔یرمیاہ ۲۳: ۵ – ۶ یسعیاہ ۱۱: ۱- ۲ زکریاہ ۱۳: ۱ مطابق یوحنا ۷: ۴۲۔
۲۔ اُس کا ایک پیشر وہوگا۔ دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اوروہ میرے آگے راہ درست کریگا۔ (ملاکی ۳: ۱) پکارنے واے کی آواز ! بیابان میں خُداوند کی راہ درست کرو۔ صحرا میں ہمارے خُداکے لئے شاہراہ ہموار کر و۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا یسعیاہ ۴۰: ۳ مطابق متی ۳: ۱- ۳
۳۔ وہ کنواری سے پیدا ہوگا۔ لیکن خُداوند آپ تُم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اوربیٹا پیدا ہوگا۔ اوروہ اُس کا نام عمانوایل رکھیگی۔ یسعیاہ ۷: ۴ مطابق متی ۱: ۲۳۔
۴۔ شہر بیت الحم میں پیدا ہوگا۔ لیکن اَے بَیت الحم افراتا ہ اگرچہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے۔ تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلیگا۔ اورمیرے حضور اسرائیل کا بادشاہ ہوگا۔ اوراُس کا مصدر زمانہ مطابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔میکاہ ۵: ۲ مطابق متی ۲: ۱ لوقا ۲: ۴۔
۵۔ اُٗس کو سجدہ کرنے کے لئے مجوسی آئیں گے۔ وہ سب سبا سے آئیں گے اورسونا لوہان لائیں گے اورخُداوند کی حمد کا اعلان کرینگے۔ یسعیاہ ۶۰: ۶ مطابق متی ۲: ۱ -۲
۶۔ مِصر میں پناہ پائیگا۔ جب اسرائیل ابھی بچہ ہی تھا مَیں نے اُس سے محبت رکھی۔ اوراپنے بیٹے کو مِصر سے بلایا۔ہوسیع ۱۱: ۱ مطابق متی ۲: ۱۳- ۱۴۔
۷۔ معصوم بچوں کا قتل۔ رامہ میں ایک آواز سُنائی دی نوحہ اورزار زار رونا۔ راخل اپنےبچوں کو رورہی ہے۔وہ اپنے بچوں کی بابت تسلی پذیر نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ نہیں ہیں۔ یرمیاہ ۳۱: ۱۵ مطابق متی ۲: ۱۶- ۱۸۔
۸۔ وہ رُوح القدس سے ممسوح ہوگا۔ خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے۔کیونکہ اُس نے مجھے مسَح کیا۔ تاکہ خوشخبری (انجیل ) سُناوں۔ یسعیاہ ۶۱: ۱ اورخُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرئے گی۔ حکمت اورخرد کی رُوح مصلحت اور قدرت کی رُوح معرفت اورخُداوند کے خوف کی رُوح۔یسعیاہ ۱۱: ۲ مطابق متی ۳: ۱۶۔
۹۔ قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے۔ پیدائش ۱۲: ۳ مطابق اعمال ۳: ۲۵- ۲۶۔
۱۰۔ گلیل میں اُس کا نام۔ لیکن اندوہگیں کی تیرگی جاتی رہے گی۔ اُس نے قدیم زمانہ میں زبلون اورنفتالی کے علاقوں کو ذلیل کیا۔ پر آخری زمانہ میں قوموں کی گلیل میں دریا کی سمت یردن کے پار بزرگی دے گا۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جوموت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نور چمکا۔یسعیاہ ۹: ۱- ۲ مطابق متی ۴: ۱۲- ۱۷۔
۱۱۔ اُس معجزات۔ اُن کو جو کچھ لے ہیں کہوہمت باندھو مت ڈرو۔۔۔۔۔اُس وقت اندھوں کی آنکھیں دا کی جائیں گی۔ اوربہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھر ینگے۔ اورگونگے کی زبان گائے گی۔ یسعیاہ ۳۵: ۴- ۶ مطابق متی ۱۱: ۴ – ۵ اعمال ۲: ۲۲۔۔
۱۲۔ گدھے پر سوا ہوکر یروشیلم میں داخل ہونا۔ اَے دُختر ِیروشلیم خوب للکار۔ کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوا ہے۔ زکریاہ ۹:۹ مطابق متی ۲۱: ۵- ۷۔
۱۳۔ یہودو غیر اقوام اُسے رد کرینگے۔ قومیں کس لئے جوش میں ہیں اورلوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں۔ خُداوند اوراُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کرکے اورحاکم آپس میں مشورہ کرکے کہتے ہیں۔۔۔ زبور ۲: ۱-۲ اعمال ۴: ۲۵- ۲۸۔
۱۴۔ اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں گرفتار ہوگا۔ بلکہ میرے دلی دوست نے جس پر مجھے بھروسہ تھا اورجو میری روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی۔ زبور ۴۱: ۹، ۵۵ : ۱۲ مطابق یوحنا ۱۳: ۱۸ ، ۲۶ – ۲۷۔
۱۵۔ تیس روپے میں بیچا جائیگا۔ اوراُنہوں نے میری مزدوری کے لئے تیس روپے تول کردئے۔ اورخُداوند نے مجھے کہا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے۔یعنی اُس بڑی قیمت کو جو انہوں نے میرے لئے ٹھہرائی۔ اور میں نے یہ تیس روپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دئے۔ زکریاہ ۱۱: ۱۲- ۱۳ مطابق متی ۲۶: ۲۷- ۳- ۱۰
۱۶۔ شاگرد اُس سے بیوفائی کرینگے۔ رب الافواج فرماتا ہے اَے تلوار تُو میرے چرواے یعنی انسان پر جو میر ارفیق ہے بیدار ہو۔ چرواہے کو مارکہ گلہ پراگندہ ہوجائے۔ زکریاہ ۱۳: ۷ مطابق متی ۲۶ : ۳۱ ، ۵۶،
۱۷۔ جھوٹے گواہوں کی شہادت۔ جھوٹے گواہ اُٹھتے ہیں اورجو باتیں میں نہیں جانتا وہ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ وہ مجھ سے نیکی کے بدلے بدی کرتے ہیں۔زبور ۳۵ : ۱۱ ۱۲، ۲۷ : ۱۲ مطابق مرقس ۱۴ : ۵۵ – ۵۸۔
۱۸۔ اُس کے منہ پر طمانچے مارینگے۔ ہمارا محاصرہ کیا جاتا ہے۔وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں۔ میکاہ ۵: ۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۰۔مرقس ۱۵: ۱۹۔
۱۹۔ اُس کے منہ پر تھوکیں گے اورٹھٹھے مارینگے۔ مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اوراپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کی۔ میں نے اپنا منہ رسوائی اورتھوک سے نہیں چھپایا۔ یسعیاہ ۵: ۶ مطابق مرقس ۱۵: ۱۹- ۲۰۔
۲۰۔ وہ تمام اذیتوں کو خاموشی سے سہیگا۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اورمنہ نہ کھولا۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں۔ اورجس طرح بھیڑ بال کُترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔یسعیاہ ۵۳: ۷ مطابق متی ۲۷ : ۱۲- ۱۴۔
۲۱۔ اُس کی صلیبی حالت۔ مَیں پانی کی طرح بہ گیا۔ میری سب ہڈیاں اُکھڑ گیئیں۔ میرا دل موم کی مانند ہوگیا۔ وہ میرے سینہ میں پگھل گیا۔ میری قوت ٹھیکرے کی مانند خشک ہوگی۔اورمیری زبان میرے تالو سے چپک گئی۔ اورتونے مجھے موت کی خاک میں ملادیا۔ کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیاہے۔ بدکاروں کا گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں وہ مجھے تاکتے اورگھورتے ہیں۔زبور ۲۲: ۱۴- ۱۷ مطابق متی ۲۷: ۲۷- ۴۴۔
۲۲۔ اُس کی پوشاک پر قرعہ اندازی ۔ " وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۸ مطابق متی ۲۷ : ۳۵۔
۲۳۔ پت اورسرکہ پلانا۔ اُنہوں نے مجھے کھانے کوپت دیا۔ اورمیری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مجھے سرکا پلایا۔ زبور ۲۹: ۲۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۴ و یوحنا ۱۹: ۲۸ – ۳۰۔
۲۴۔ وہ چھید ا جائیگا۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۶ اوروہ اُس پر جس کو اُنہو ں نے چھید ا ہے نظر کرینگے۔ زکریاہ ۱۲: ۱۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۴، ۳۷۔
۲۵۔ اُس کی ہڈی توڑی نہ جائیگی۔ وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُ ن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔ زبور ۳۴: ۲۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۲: ۳۶۔
۲۶۔ برضا ورغبت وفات پائیگا۔ قربانی اورنذر کو توپسند نہیں کرتا۔ تونے میرے کان کھول دئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کتاِب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے۔اَے میرے خُدا میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے۔زبور ۴۰ : ۶- ۸ مطابق یوحنا ۱۰ : ۱۷ – ۱۸۔
۲۷۔ ہمارے گناہوں کے بدلے مریگا۔ یقیناً اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں۔ اورہمارے غموں کو برداشت کیا پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اورستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاوں کے سبب سے گھائل کیاگیا۔ اورہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی۔ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔۔۔۔۔
خُدا وند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاوی۔یسعیاہ ۵۳: ۴- ۶ دانی ایل ۹: ۲۶ مطابق مرقس ۱۰: ۴۵ ،اعمال ۸: ۳۰ – ۳۵۔۱۔ پطرس ۲: ۲۴۔۔
۲۸۔تیسرے روز قبر سے زندہ ہوگا۔ وہ دو روز کے بعد ہم کو حیات تاز ہ بخشیگا اورتیسرے روز اُٹھا کھڑا کریگا۔ اورہم اُس کے حضور زندگی بسر کریں گے۔ ہوسیع۶: ۲ اسی سبب سے میرا دل خوش اورمیری رُوح شادمان ہے۔میرا جسم بھی امن وامان میں رہیگا۔ کیونکہ تونہ میر جان کو پاتال میں رہنے دے گا نہ اپنے مقدس کو سٹرنے دیگا۔ تو مجھے زندگی کی راہ دکھائے گا۔ زبور ۱۶: ۹- ۱۱ مطابق اعمال ۲: ۳۱- ۳۲ ، ۲: ۲۴- ۲۸،لوقا ۲۴: ۵- ۷۔
۲۹۔ تُوما کو اپنے زخم دکھانا۔ اورجب کوئی اُسے پوچھے گا کہ تیری چھاتی پر یہ زخم کیسے ہیں تو وہ جواب دیگا۔ یہ وہ زخم ہیں جو میرے دوستوں کے گھر میں لگے۔ زکریاہ ۳۱: ۲ مطابق یوحنا ۲۰: ۲۴- ۲۵ ،۲۷۔
۳۰۔ زندہ ہوکر آسمان پر صعود فرمائے گا۔ تُونے عالم ِ بالا کو صعود فرمایا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا۔ زبور ۶۸ : ۱۸ یہواہ نے میرے خُداوند سے کہا تو میرے داہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاوں کی چوکی نہ کردوں۔زبور ۱۱۰: ۱ مطابق لوقا ۲۴ : ۵۱ ،اعمال ۱: ۹ ،۲ ۳۴- ۳۵۔
۳۱۔ دوبارہ آئیگا اور تاابد سلطنت کرے گا۔ خُداوند میرا خُدا آئیگا۔ اورسب قُدسی اُس کے ساتھ۔زکریاہ ۱۴: ۵ مطابق ۲۔ تھسلنکیوں ۱: ۷ و،متی ۱۶: ۲۷ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اورقدیم الایام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اورسلطنت اورحشمت اور مملکت اُسے دی گئی۔ تاکہ سب لوگ اوراُمتیں اوراہل لغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔دانی ۷: ۱۳- ۱۴ مطابق متی ۲۸: ۱۸ ،یوحنا ۵: ۲۲- ۲۳ ،فلپی ۲: ۹- ۱۱ و۲۔ پطرس ۱: ۱۱۔
اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا۔ اورسلطنت اُس کے کاندھے پرہوگی۔ اوراُس کانام عجیب مشیر۔ خُدا ئے قادر ابدیت کا باپ۔سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اورسلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی۔ وہ داود کے تخت اوراُس کی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہے گا۔ اورعدالت اورصداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رب الافواج کی غیوری یہ کرے ےگی۔ یسعیاہ ۹: ۶ مطابق لوقا ۱: ۳۱ – ۲۳۔
عہد عتیق اورعہد جدید
کے بانیوں کی باہمی مشابہت
قول المسیح۔ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اورنبیوں کے صحیفوں اورزبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔لوقا ۲۴: ۴۴۔
ہم اُوپر عہد جدید کے ہونے والے بانی کی تمام زندگی کی مکمل تصویر نبیوں کے صحیفوں اورزبور کی پیشین گوئیوں میں دکھاچکے ہیں۔ اب صرف توریت کی شہادت باقی ہے جو ہم ابھی پیش کرنے والے ہیں۔ تما م الہامی انبیاء اپنے صحائف منزلہ الہٰیہ میں بانی عہد جدید کی تصویر کے جدا جدا پہلو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرناظرین مندرجہ بالا اکتیس پیشین گوئیوں میں کھنچی ہوئی تصویر کو بانی عہد جدید کی تصویر کےساتھ جو انجیل مقدس (عہد جدید ) میں موجود ہے ملا دیکھیں تو دونوں میں سِر موفرق نہ پائیںگے۔ وہ تصویر جو موسیٰ اورمابعد کے متعدد انبیاء نے اُس موعود کی کھینچی ہے اُس کے تمام خط وخال خُداوند مسیح کے ساتھ پورے پورے طورپر ملتے ہیں۔ تمام اخبار عتیق واذ کا رسابقہ کا کھوج سوائے سرور کائنات وسرچشمہ حسنات جناب فضیلت مآ ب خُداوند مسیح کی عدیم النظیر اورفقید المثال ہستی کے کسی بھی دوسری ہستی اصلاً نہ ملیگا۔ ہم اپنے اس دعویٰ کی صداقت اورحقیت کو عہد عتیق کے بانی موسیٰ نبی کی زبانی اوربھی زیادہ صفائی سے پایہ ثبوت کو پہنچائیں گے۔ موسیٰ توریت کی پانچویں کتاب میں یوں فرماتا ہے۔ اورخُداوندنے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سوٹھیک کہتے ہیں۔ مَیں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ اوراپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اورجو کچھ مَیں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہیگا۔ اورجو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو مَیں اُن کا حساب اُس سے لونگا۔(استثنا۱۸: ۱۷- ۱۹ اس کے ساتھ مسیح کا قول بھی ملاحظہ ہو۔ کیونکہ اگرتم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ یوحنا ۵: ۴۶ خُداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اُن ہی کے بھائیوں میں تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسیٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ تواب نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسی ٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ توا ب یہ دیکھنا مناسب ہے کہ موسیٰ اورمسیح میں کن کن باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔اور اگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہو ں تو پائی جاتی ہے۔ اوراگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہوں تو مشابہت قائم نہیں رہ سکتی۔ اورنہ ہی ہم مسیح پر اس مشین گوئی کو چسپاں کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر مشابہت ثابت ہوجائے تو پھر خُداوند مسیح ہی اس خبر کے مفہوم کا مصداق ہوگا نہ کوئی اورمندرجہ ذیل امور متقابلہ پر غو ر کیجئے۔
۱۔ موسیٰ کی پیدائش کے وقت اسرائیلوں کے لڑکے شاہ فرعون کے حکم سے مروائے جاتے تھے۔ خروج ۱: ۱۵- ۱۶ ،۲۲ | ۱۔ مسیح کی پیدائش کے وقت شاہ ہرودیس کے حکم سے لڑکے قتل کروائے گئے۔متی ۲: ۱۶ |
۲۔ موسیٰ کی بچپن میں خُدا نے عجیب حکمت سے بادشاہ کے دست ِ ستم سے بچایا۔ خروج ۲: ۵- ۱۰ | ۲۔ مسیح کو بچپن میں خُدا نے فرشتے کے ذریعے آگاہی دیکر عجیب طورپر شاہ ہرودیس کے دست ِ ستم سے بچایا۔اورلطف یہ کہ موسیٰ نے بھی مصر میں پنا ہ پائی اورمسیح نے بھی مصر ہی میں پناہ پائی۔ متی ۲: ۱۳–۱۵ |
۳۔ موسیٰ بارہ قبیلوں کا ہادی تھا۔ | ۳۔ مسیح کےشاگرد بھی بارہ تھے۔بعدازاں وہ تمام دُنیا کا ہادی ٹھہرا۔ |
۴۔ موسیٰ کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو خون بنا دیا۔ خروج ۷: ۱۹-۲۰ | ۴۔ مسیح کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو مے بنایا۔یوحنا ۲: ۷- ۹ |
۵۔ موسیٰ نے معجزانہ طورپر بحرِ قلزم کے دو حصے کردئے۔ اور بنی اسرائیل سلامتی سے اُس میں سے گذرگئے اوردریا سے کسی جان کا بھی نقصان نہ ہوا۔خروج ۱۴: ۲۱- ۲۲ | ۵۔ مسیح نے اعجازی قوت سے جھیل کے طوفان کو روکا اوراپنے شاگردوں کی جانیں ہلاکت سے بچائیں۔ لوقا ۸: ۲۲- ۲۵ ۶۔ خُداوند مسیح نے فرمایا زندگی کا پانی میں ہو ں۔جوکوئی مجھ سے پیتا ہے وہ کبھی پیا سا نہ ہوگا۔ یوحنا ۴: ۱۴ اورپولوس رسول حورب کی چٹان کو جس سے موسیٰ نے پانی نکالا خُداوند مسیح سے ملاتا ہے۔۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۶ |
۶۔ موسیٰ نے حورب کی چٹان سے پانی نکالا اورقوم کی پیاس بجھا کر اُنہیں مرنے سے بچایا۔خروج ۱۷: ۳- ۶ | ۶۔ خُداوند مسیح نے فرمایا زندگی کا پانی میں ہو ں۔جوکوئی مجھ سے پیتا ہے وہ کبھی پیا سا نہ ہوگا۔ یوحنا ۴: ۱۴ اورپولوس رسول حورب کی چٹان کو جس سے موسیٰ نے پانی نکالا خُداوند مسیح سے ملاتا ہے۔۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۶ |
۷۔ موسیٰ نے قوم اسرائیلل کو مَن کھلایا جو معجزانہ طورپر آسمان سے نازل ہوتا تھا۔خروج ۱۶ : ۱۴- ۱۵ | ۷۔ مسیح نے ایک دفعہ پانچ ہزار کی بھیڑ اور دوسری دفعہ چار ہزار کی بھیڑ کو معجزانہ طورپر صرف چند روٹیوں سے آسودہ کیا اوربہت روٹی بچ بھی رہی متی ۱۴: ۱۵–۲۱ ، ۱۵۔۳۲- ۳۸اور پھر فرمایا تمہارے باپ دادو ں نے بیابان میں مَن کھایا اورمرگئے۔ میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔اگر کوئی اس روٹی میں سے کھائے توابد تک زندہ رہیگا۔ یوحنا ۶: ۴۹- ۵۱ |
۸۔ موسیٰ نے اسرائیلوں کو شاہ ِمصر کی غلامی سے چھڑا یا۔ | ۸۔ مسیح نے ابلیس ،گناہ اورموت کی غلامی سے ایمانداروں کو آزاد کیا۔یوحنا ۸: ۳۴- ۳۶ ،عبرانیوں ۲: ۱۵ |
۹۔ موسیٰ نے اپنے مِن جانب خُدا نبی ہونے کو معجزات سے ثابت کیا۔استثنا ۳۴: ۱۰–۱۲ | ۹۔ مسیح نے فرستاوہ خُدا ہونے کے ثبوت میں معجزات پیش کئے۔یوحنا ۵: ۳۶ ،اعمال ۲: ۲۲ |
۱۰۔ موسیٰ چالیس روز تک بغیر کھائے پیئے خُدا کے حضور میں رہا۔خروج ۳۴: ۲۸ | ۱۰۔ مسیح چالیس روز تک بلا خور دنوش جنگل میں خُدا کی قربت میں رہا۔ متی ۴: ۱- ۲ |
۱۱۔ موسیٰ کا چہر ہ خُدا کےجلال کی تجلی سے چمکنے لگا۔ اوراُس کی صورت تبدیل ہو گئی۔ یہا ں تک کہ لوگ اُس سے ڈرنے لگے۔خروج ۳۴: ۲۹- ۳۵۔۲۔ کرنتھیوں ۳: ۸ | ۱۱۔ مسیح کی صورت کوہ حرمون پر تبدیل ہو گئی اور سورج کی مانند چمکنے لگی۔ اوراُس کے شاگرد نہایت خوفزدہ ہوئے اورلطف یہ کہ موسیٰ بھی اُس وقت ایلیاہ کی ہمراہی میں مسیح کے ساتھ پایاگیا۔متی ۱۷: ۲- ۸ ، مرقس ۹: ۲- ۸ لوقا ۹: ۲۸–۳۶ موسیٰ کی صورت کو ہ سینا پر نورانی ہوگئی۔ موسی ٰ کی صورت کوہ سینا پر تبدیل ہوئی اور مسیح کی صورت کوہ ِ حرمون پر نورانی ہوگئی۔ دونوں نظارے پہاڑی ہیں۔ |
۱۲۔ پرانا عہد موسیٰ کے ذریعے خون سے باندھا گیا۔خروج ۲۴: ۸ عبرانیوں ۹: ۱۸۰۲۰ | ۱۲۔ نیا عہد مسیح کے خون سے باندھا گیا۔ لوقا ۲۲: ۲۰۔ا۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۵ عبرانیوں ۹: ۱۱–۲۲ |
۱۳۔ شریعت تو موسیٰ کے ذریعے دی گئی۔ یوحنا ۱: ۱۷ | ۱۳۔ مگر فضل اورسچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔یوحنا ۱: ۱۷ |
۱۴۔ موسیٰ نے آخری وقت یشوع پر ہاتھ رکھ کر اُسے مخصوص کیا۔ اور اپنی جگہ اُسے قوم کا ہادی بنا کر وصیت کی۔گنتی ۲۷: ۱۵- ۲۳ ، استثنا ۳۴- ۹ | ۱۴۔ مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو برکت دی۔ اوررُوح القدس سے مَسح کرکے اپنی جگہ قائم مقام بنا کر وصیت کی۔متی ۲۸: ۱۸- ۲۰ ،یوحنا ۲۰ : ۲۱- ۲۳ |
۱۵۔ موسیٰ کی قبر عدیم الپتہ ہے۔کوئی اُس کی بابت نہیں جانتا۔استثنا ۳۴: ۶ ،خط یہوداہ ۹ آیت۔ | ۱۵۔ خُداوند مسیح کی قبر بھی معدو م ہے۔اگر ہے تو خالی ہے۔مسیح زندہ ہوگیا۔ متی ۲۸ : ۵-۷ ،لوقا ۲۴: ۳- ۷، ا۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۰ ،اعمال ۲: ۳۴۔ |
اُوپر ہم نے پندرہ اُمور میں موسیٰ اورخُداوند مسیح کی مُشابہت دکھائی ہے جس سے ہتمام وکمال طور سے ثابت ہوتا ہے کہ موسی کی وہ خبر جو اُس نے اپنی مانند ایک نبی کے برپا ہونے کے متعلق دی تھی وہ بجز خُداوند کے اورکسی نبی کی بعثت کا اشارہ تک نہیں ہے۔ بلکہ برعکس اس کے یوں لکھا ہے۔ اوراُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبھی موسیٰ کی مانند جس سے خُداوند نے روبرو باتیں کیں نہیں اُٹھا۔ استثنا ۳۴: ۱ اوراُس کے بعد بھی کسی نبی نے نہ تو بالصراحت اورنہ بالا ِشارت اُ س موعود نبی کے آ چکنے کا کہیں ذکر کیا۔ اس لئے عہد عتیق کے سب سے آخری نبی نے بھی موسوی شریعت ہی کی طرف قو م کی وجہ جی رہنمائی کی۔اگر وہ موعود نبی اُسکے زمانہ تک آچکا ہوتا تو وہ قوم کی اُس کی طرف توجہ دلاتا نہ کہ موسیٰ کی طرف۔ لیکن وہ شرع موسوی ہی کی یاددہانی کرواتا ہے۔ تم میرے بندے موسیٰ کی شریعت یعنی اُن فرائض واحکام کو جو میں نے حورب پر تمام بنی اسرائیل کےلئے فرمائے یاد دکھو۔ ملاکی ۴:۴ پس ثابت ہوا کہ توریت کے سب سے آخری نبی یعنی ملاکی کے زمانہ تک بھی وہ نبی ظاہر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اُس نبی کی کھوج ہمیں ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں کرنی پڑےگی دریں عالیکہ ملاکی نبی نے بھی اُس موعودہ نبی اور اُس کے پیشرو (یوحنا بیٹسپٹ ) کے ظہور آیندہ کی صریح خبربدیں الفاظ دی۔ دیکھو مَیں اپنے رسول کو بھیجوں گا۔ اورمیرے آگے راہ درست کرےگا۔ اورخُداوند جس کے تم طالب ہو نا گہاں اپنی ہیکل میں آموجود ہوگا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم منتظر ہوآئے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے۔ ملاکی ۳: ۱ مطابق مرقس ۱: ۲ ،لوقا ۷: ۲۷ ،یوحنا ۲: ۱۳ – ۱۷ چنانچہ ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں خُداوند یسوع مسیح کا ظہور ہوا۔ اوروہ عدیم اُلہیم شخصیت اورفقید المثل ہستی تمام انبیاء کی پیش خبریوں کو پورا کرنے اورقوم کے طویل انتظار کاجواب دینے کے لئے زینت افزائے کا شانہ گیتی ہوئی۔ پُرانے عہد کے ےموعود نبی وبادشاہ اورنئے عہد کے خُداوند مسیح کی فوٹو میں سر فرق نہیں۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک جواب ہے تو دوسرا اُس کی تعبیر ہے۔ اگرعہد عتیق انتظار کی دراز تبرہ شب ہے تو عہد جدید اُس انتظار کا جواب اورحصول ِمقصود کا روز ِروشن ہے۔اورخُداوند مسیح نے بارہا اخبار انبیاء سابقہ کو خود اپنی ذات پر چسپاں کیا۔ ملاحظہ ہو لوقا ۲۴: ۴۴، ۴: ۱۷ – ۲۱۔ متی ۲۲: ۴۲ – ۴۶ ،یوحنا ۵: ۳۹۔ پس ثابت ہوا کہ توریت میں جو ایک عالمیگر نئے عہد کی خبر پائی جاتی ہے وہ عہد مسیحیت ہے۔ اورجس بانی عہد جدید کی خبریں عہد عتیق نے دی ہیں۔ وہ بانی خُداوند یسوع مسیح ہے جس نے اس عالم آب دنگل کو اپنےمبارک قدموں کی برکت سے سرفراز فرمایا۔
اِلہام ومذہب الہٰی کی تدریحی کمالیت
اگر صحیفہ فطرت پر ایک خائز اورتحقیقی نظر ڈالی جائے تو ایک قانون نظر آتا ہے جو تمام موجودات عالم میں مشترک طورپر جاری وساری ہے۔ وہ قانون ہے تدریجی ارتقاء ہرشئے ادنی ٰ سے اعلیٰ اورناقص سے کامل کی طرف ترقی کرتی ہوئی صاف نظر آتی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ رات کو جامن کا بیج بویا جائے اورصبح کو وپچاس فُٹ اُونچا درخت ہوکر پھل دینے لگے۔ بلکہ رفتہ رفتہ درجہ بدرجہ ایک مخصوص وقت پر کمال کو پہنچتا ہے۔ ہر شئے کی پیدائش۔،وسطی اورانتہائی حالت اس حقیقت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔جبکہ جسمانی ومادی عالم میں تدریجی ارتقاء کا قانون خالق نے موضوع کردیا ہے۔ تو لازمی امر ہے کہ اخلاقی وروحانی امور میں بھی ایسا ہی ہو۔ کیونکہ صحیفہ فطرت اورصحیفہ الہام دونوں کجا مصنف خُدا تعالیٰ ہے۔ کائنات جس خُدا کا فعل ہے الہام اُسی کا قول ہے۔ لہٰذا دونوں میں مطابقت ومناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ عقلی وعلمی ارتقا ء میں بھی تدریجی ترقی وکمالیت کا اٹل قانون وساری نظر آتا ہے۔۔طالب علم جوں جوں عقلی منازل کو طے کرتا جاتا ہے ہر مرحلہ پراُس کےحسب لیاقت کُتب درسی پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ پہلے ہی روز بچے کے ہاتھ میں گلستان بوستان دے دی جائیں۔ یہی حال نزول الہام الہٰی کا ہے۔ خُدا اہل ِ دُنیا کی حالت اساسی وسطی اورانتہائی کے تناسب سے اپنے مکاشفے والہام نازل فرماتا ہے۔ اُس نے اپنا الہام ومکاشفہ انفرادیت سے شروع کیا۔ اورخاص اشخاص کو چند سادہ احکام وقوانین دے کر اُن سے اُن کی تعمیل طلب کی۔ پھر اُس نے ایک خاص قوم کو چن لیا اوراپنے احکام وقوانین زیادہ تعداد میں موسیٰ کی معرفت اُن پر نازل کئے۔ اوراُن کی تعمیل وتقلید کی تاکید زمانہ بہ زمانہ طرح بہ طرح انبیاء کی معرفت فرماتا رہا۔ وہ الہام صرف قوم اسرائیل ہی سے متعلق تھا اور مذہب الہٰی قومی مذہب تھا۔اور ضروری تھا کہ مذہب الہٰی انقیادی خصوصیت سے نکل کر عمومیت میں تبدیل ہوجائے۔ اورایسا ہی ہوا جیسا ہم پیشتر یا لتفصیل دکھاچکے ہیں۔ چونکہ خصوصیت عمومیت کی ایک فردہے۔ لہٰذا خُدا نے اپنا الہام ومکاشفہ ابتدائی خاص سے شروع کرکے عام تک پہنچایا۔ پہلے اُس نے خاص افراد کو چُنا۔ پھر اُس نے ایک خاص قوم کو چُن لیا۔ جس طرح خُداوند مسیح نے بھی پہلے بارہ شاگردوں کو چن لیا اوراُنہیں فرمایا مَیں نے تمہیں چن لیا اورتُم کو مقرر کیا کہ جاکر پھل لاو۔ (ا۔یوحنا ۱۵: ۱۶ ) اوراس عالمیگر مذہب کے بانی نے اپنی خدمت کو اُسی جگہ سے شروع کیا جہاں انبیاء عہد عتیق نے اپنے کام کو چھوڑا تھا۔ یعنی یہودی قوم سے شروع کرکے تمامم اقوام عالم تک اوریروشلیم سے شروع کرکے تمام دُنیا کی حدود تک اپنی خدمت کو وسعت دی (لوقا ۲۴: ۴۷ ) مرکز سے شروع کرکے محیط کی طرف بڑھنا مسیح کا مقصد تھا۔ اسی لئے آپ نے ایک جگہ فرمایا۔ مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔(متی ۱۵: ۲۴ ) یہ ہی تھا مرکز سے شروع کرنا۔ یروشلیم سے شروع کرنا ۔لیکن بعد میں آپ نے فرمایا۔ میری اوربھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے (قوم اسرائیل ) کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اوروہ میری آوا ز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔ یہی تھا محیط تک پہنچنا۔ زمین کی انتہا تک گواہ ہونا۔ (یوحنا ۱۰: ۱۶۔اعمال ۱: ۸) دُنیا کی ہرشئے مرکز سے محیط کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اورخُداوند مسیح نے بھی اس مقررہ قانون کے مطابق اپنے کام کو مرکز سے آغاز کرکے دائرہ کی طرف بتدریج بڑھایا۔ اورقومی مذہب کو بتدریج عالمگیر مذہب میں منتقل فرمایا۔ اوالہام الہٰی کی تدریجی کمالیت کے متعلق خط عبرانی کا مصفنف یوں فرماتا ہے۔اگلے زمانے میں خُدا نے باپ دادوں سے حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اس زمانے کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا (عبرانیوں ۱: ۲)۔