November 2016

مسیح ابنُ اﷲ

Jesus, Son of God


Published in Nur-i-Afshan June 28, 1895
By Chandar Ghus


مسیح خدا کا  بیٹا ہے۔ جو شخص یہ نہیں مانتا وہ مسیحی نہیں۔ لیکن کیا  خدا بھی آدمیوں کی طرح بیٹے بیٹیاں جنتا ہے اس کا جواب زرہ مشکل ہے۔ اور اکثر  دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے اس مسئلہ پر غیر اقوام  برُا ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جبتک   مسیحی مذہب  میں ایسی لڑکپن اور کم عقلی کی باتیں پائی  جاتی ہیں تب تک  زی عقل  لوگ  اس مذہب کو قبول  نہ کریں گے۔ اب ہم زرہ دیکھیں  کہ آیا  یہ مسئلہ  فی الحقیقت  کم عقل اور لڑکپن  کا نتیجہ  ہے یا  نہیں۔

(۱ ) لفظ  بیٹے سے کیا مراد ہے۔ عام محاورہ  میں جب زید بکر کے تخم سے پیدا ہو تو کہتے ہیں کہ زید بکر کا بیٹا  ہے اس کا مطلب یہ ہے زید کے جسم اور حضایل اور دیگر انسانی صفات اور لوازمات کا ما خز بکر ہے۔ اور جس قدر زید زیادہ  زیادہ  اپنے  والد  بکر کے قد اور اندازے کو پہنچتا جاتا  ہے اس قدر ہم کہتے ہیں زید کی ابنیت  پوری ہوتی جاتی ہے۔  اور جب زید بالغ ہو کر  اپنے والد  کے قد اور صورت اور علم اور عقل کو پہنچ گیا  تو ہم کہتے ہیں کہ فی الحقیقت  یہ بکر کا بیٹا ہے۔ لیکن فرض کرو زید بکر کے تخم  سے تو پیدا ہوا لیکن بڑا ہو کر اس کی صورت شکل اس کا قد اور خصلت بالکل بکر کے خلاف ہوئی اور جس حال کہ بکر رو عالم خوبصورت اور زی عزت  آدمی تھا لیکن زید نے اپنی عمر کا کاتمہ قید خانہ میں کیا کہیں گے کہ اگرچہ یہ شخص بکر کے تخم سے تو تھا تاہم جس قدر وہ بڑا  ہو کر اپنے باپ سے متفرق ہوتا گیا اُسی قدر اس کی انبیت بھی باطل ہوتی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم آدمیوں کے درمیان انبیت  کے قایم  کرنے کے لئے صرف جسمانی  تخم  ہی کافی نہیں بلکہ اس سے بڑھکر  ایک اور شے ہے جس کو روحانی  تخم   کہ سکتے ہیں۔ اور اس سے بڑھکر یہ کہ ہم آدمیوں کے نزدیک  بھی جسمانی تخم  اس قدر ضروری نہیں سمجھا جاتا جس قدر روحانی  تخم  ہے چنانچہ اس کے ثبوت  مین اس امر پر غور کرو کہ برُے بیٹے  سے اچھا نوکر بہتر سمجھا جاتا ہے۔ یعنے وہ نوکر جو اپنے آقا کی خصلت روحانیت اور تعلیم  کا اثر  اپنے دل پر ہونے دیتا ہے  ( یعنے جو گویا اپنے آقا  کے روحانی  تخم  کو قبول کرتا ہے) اس بیٹے سے جو اپنے باپ سے تو پیدا ہوا لیکن خصلت میں اپنے باپ سے بالکل جدا بلکہ خلاف ہے اپنے آقائے کا بیٹا سمجھا  جاوے گا باوجود اس امر کے کہ اُس کی پیدایش کسی اور کے زریعہ سے ہوئی۔

(۲ )  اب ہم ایک قدم آگے بڑھیں۔ یہ روحانی  تخم  کس طرح سے ظاہر ہو سکتا  ہے اس کے ظہور کا فقط ایک ہی وسیلہ ہے یعنے آدمی کا کلام ۔ بالکل جسمانی تخم  تو بیٹے کو جسمانی طور پر دیا جاتا ہے۔لیکن روحانی تخم کلام  کے زریعہ  سے پہنچتا ہے۔ اور اگر کسی شخص میں یہ طاقت ہو کہ اپنی مصنفہ کتابوں اور مضامین کو انسانی صورت  میں لکھے یعنے اپنے   زہنی  خیالات کو جو بذریعہ کلام ظہور پاتے ہیں مجسّم کر کے انسانی صورتوں میں دکھاوے تو یہ سب اس کے بیٹے  اور بیٹیاں  کہلانیکے مستحق ہوں گے۔  پس کلام روحانی  تخم  ہے اور اگر بکر کا کلام مجسّم کیا جاوے اور اس میں بکر کی سی جان ڈالی  جاوے اور اُس کا نام زید رکھا جاوے تو یہ زید بکر کا بیٹا  کہلاویگا  خواہ اس زید کے جسم کے پیدا کرنے میں بکر نے کچھ کام نہ کیا ہو۔ چونکہ زید میں بکر کا کلام مجّسم ہوا اس لئے زید بکر کا بیٹا ہے۔

(۳ )مقدّس یوحنا  خداوند مسیح کے شاگردوں میں سب سے گہرے عقل رکھتے تھے اور اُن کو خداوند مسیح سے خاص محبت  تھی چنانچہ وہ اپنی انجیل میں اپنا نام نہیں لکھتے بلکہ اپنا زکر اسطرھ کرتے ہیں کہ وہ شاگرد جسے خدواند  پیار کرتا تھا۔ وہ اپنی انجیل کے شروع ہی میں مسیح کی بابت لکھتے ہیں کہ اِبتدا میں کلام  تھا۔ وغیرہ مسیح کی ابنیت کا فقط اسی بات پر انحصار  ہے کہ وہ کلمتہ اﷲ تھا۔ لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنا چاہئے۔ انسان کا کلام  تو ایسا ہے کہ منُہ سے نکلا  اور ختم ہوا۔ لیکن خدا کا کلام ایسا  نہیں۔ وہ اپنے میں وہی الہیٰ زندگی رکھتا ہے جس زندگی  سے خدا خود  زندہ ہے۔ یعنے خدا کا کلام  خود ایک خدا ہے اور پاک تثلیث میں اقنوم ثانی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ وہ ایسا نہین کہ پورے طور  پر ایک بیجان کتاب کے زریعہ سے  دنیا میں ظہور پاسکے  بلکہ وہ دنیا میں انسانی  صورت میں مجسم ہوئے بغیر اپنا پورا ظہور ہم کو نہ دے سکتا تھا۔ اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ  تھا اور کلام خدا تھا سب چیزیں اُس سے پیدا ہوئیں اور کلام مجسمّ ہوا  خدا کا کلام مثل خدا کے ایک علیحدہ شخصیت  رکھتا  ہے۔ وہ خدا ہے اور خدا کے ساتھ ہے۔ اور بحیثیت کلام ہونے کے خدا کا بیٹا یعنے ابن وحید  ہے۔ یہی کلام بزریعہ  کنوری مریم  مجسم  ہوا اور مسیح  اور عیسیٰ کہلایا اور اس کو ہم مسیحی مسیح خدا کا بیٹا کہرتے ہیں شاید اتنا تو ثابت ہوا کہ جب کوئی مسیحی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا ہے تو وہ کوئی ایسی بیہودہ بات  نہیں کہتا جو قابل مضحکہ ہو۔ بلکہ یہ ایک بڑا عظیم الشان اور عمیق مسئلہ ہے۔ اور اس پر فقط شیطان الرّحیم  ہنس سکتا ہے۔

( ۴ ) ابنیت  مسیح پر اہل اسلام بہت ہنستے  ہیں اور لم یلد ولم یولد کا مقولہ  پیش کرتے ہیں۔ ہم یہاں ثابت کریں گے کہ محمد صاحب  نے قرآن میں بڑی غلطی  کی ہے یعنے جب وہ مسیح  کا کلمتہ اﷲ اور روح اﷲ مان چکے تھے تو اُن  کا کچھ حق نہ تھا کہ قرآن  میں لم یلد ولم یولد کے الفاظ داخل کرتے۔ یا وہ  تولد کے ان حقیقی اور گہرے معنوں سے واقف نہ تھے جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔  

قرآن  اِس با کا اقراری ہے کہ مسیح کلمتہ اﷲ تھے۔  لیکن کلمتہ اﷲ کسے کہتے ہیں۔ اس بات کے تو سب اقراری  ہیں کہ دنیا میں جو چیز  ہے وہ خدا   کے کلام سے پیدا ہوئی ہے گویا دنُیا میں ہر شے  خدا کے کلام کا ظہور ہے۔ اور اگر اس کے مطابق جب قرآن نے عیسیٰ کا کلمتہ اﷲ کہا اور اِس سے فقط یہی مراد رکھی  کہ اور آدمیوں اور نبیوں اور چیزوں کی طرح  وہ خدا کے کلام کے زریعہ سے پیدا ہوئے تو یاد رہے جو خاص خطاب یا القاب انبیا  سابقین میں سے چند کو دے گئے ان میں کسی نہ کسی خاص  کی طرف  اشارہ تھا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا  کہ خدا  کسی نبی کو ئی خطاب  دیوے اور اس خطاب میں کوئی خاص بھید  اور معنے نہوں۔ ابراھیم خلیل اﷲ کہلائے یوں  تو ہزاروں آدمی خدا سے محبت رکھنے والے تھے اور میں توکیا  سب خلیل اﷲہیں۔ موسیٰ کلیم اﷲ کہلائے۔ یوں ساری دنیا بزریعہ دعا اور تلاوت  کلام ربّانی خدا سے باتیں کرتی ہے تو کیا سب کلیم اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں۔ ابراہیم  کو کوئی خاص محبّت خدا سے تھی جس کے باعث   اُس کی ساری تسلیّ مخصوص ہو گئی موسیٰ کے تکلم  میں کوئی خاص راز تھا جس کے باعث وہ کلیم اﷲ کہلائے تو  کیا جب عیسیٰ کلمتہ اﷲ کہلائے تو اس میں کوئی راز نہیں یوں تو پھّتر  بھی خدا کے کلام سے پیدا ہوئے  ہیں تو کیا پتّھر بھی کلمتہ اﷲ ہیں۔ سب انسان خدا کی کلام سے پیدا ہوئے تو کیا وہ سب کلمتہ اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں  کلمتہ اﷲ کہلانیکا وہی باعث ہے جو یوحنا نے بیان کیا ہے یعنے اِبتدا میں کلام  تھا وغیرہ پس قرآن  سے بھی ابنیت  مسیح ثابت ہوئی ہے اور اشارہ کے طور  پر الوہیت مسیح بھی چابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خدا کا کلام خدائی  کا درجہ رکھتا ہے۔

چندر گھوش

معجزات محمدی

Miracles of Muhammad


Published in Nur-i-Afshan June 21, 1895


تحفہ محمدیہ کان پور کے  ۱۲ع جلد ۳ میں لکھا ہے کہ جس رات  محمد صاحب  پیدا ہوئے وہ رات  محمدی  نور سے  ایسی روشن ہو گئی  کہ بصرہ کی پہاڑیاں روم و شام اور کسری کے محل نظر آتے تھے دویم  اُس رات ستارے  آسمان  سے لٹک کر نیچے آگئے سوم روے زمین کے بُت گر گئے  چہارم  فارسیوں کی آگ جو ہزار برس سے روشن تھی بجھ گئی پنجم نو شیروان کے محل  کے چودہ کنگرے گر گئے ششم ساور کا چشمہ خشک ہو گیا ہفتم ملک شام کی نہر جو ہزار  برس  سے خشک  تھی جاری ہو گئی  ہشتم  ابر کا ٹکڑا آیا اور محمد صاحب کو تمام جنات اور فرشتوں  کے پیش کیا۔ اور تھوڑی  دیر کے بعد حریر میں لپٹا ہوا چھوڑ گیا  اور جب اُس کو بی بی حلیمہ نے چھاتی پر رکھا تو  لڑکا مسکرایا اور آنکھیں کھولکر دیکھا تو آنکھوں سے نور نکلا  نہمؔ محمد صاحب نے دہنی  چھاتی کا دودھ پیا اور بائیں چھاتی کا اپنے رضاعی  بھائی کے لئے چھوڑ دیا  اِس پر  محمدی  کہتا ہے کہ سبحان اﷲ انصاف اِسی کو کہتے ہیں۔ دہم(۱۰) جس اونٹ  پر محمدی صاحب  کے والدین چلے اُس نے تین دفعہ کعبہ کو سجدہ کیا یا زد ہم آپ کے گہوارہ کو فرشتے جھلایا کرتے تھےدو ازدوہم  کبھی محمدی صاحب نے کپڑوں پر بول  و براز نہیں کیا سیزد ہم جب محمد صاحب چلنے لگے تو باہر آکر کہا کہ کھیلنا نہیں چاہئے ہم کھیلنے کےواسطے پیدا نہیں ہوئے ۔ چہارم دہم  آپ پر ابر  کا سایہ ہمیشہ رہتا تھا پانزدہم جب چار برس کے ہوئے تو  حیریل  اور میکائیل  نے سینہ کو چاک کر کے دل کو نکالکر  طشت میں رکھ دیا اور شیطانی حصہ جو کالا تھا   نکال کر پھینک  دیا تاکہ محمد صاحب وسوسہ شیطانی سے بری  ہو جاویں۔

اور بھی بہت سے معجزات ازیں قبیل لکھےہیں مگر ہم اسی کے نقل پر اکتفا کر کے  ناظرین اخبار خصوصاً محمدی علماء سے پوچھتے ہیں کہ ہم کو اُس کی صداقت کا ثبوت دیویں سر سید احمد خان بالقا بہ  سے ہمارا سوال ہے کہ آپ  تو فرماتے ہیں کہ محمد صاحب  نے کوئی معجزہ  نہیں کیا یہ معجزات کیسے ہیں۔

اے محمدیوں !! اسی سرمایہ پر یورپ  اور امریکہ  میں دعوت  اسلام کرنا چاہتے  ہو ان معجزات پر غور کر کے وہ کیا کہیں گے جنہوں نے مولوی عماوالدین صاحب کی تاریخ محمدی پڑہی ہے۔  

سلطنت اسلامیہ میں اسلامی شریعت کے
مطابق مسیحیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے۔

How Ottoman Empire Treated Christians
according to Islamic Sharia Law


Published in Nur-i-Afshan April 19, 1895
By Canon Malcom


یاد رکھنا چاہئے کہ ہند میں اسلام کی سلطنت  نہیں اور یہاں پر فقط  اسلام  کی عبادت اور عبادت کے متعلق  دیگر مستورات عمل میں آتے ہیں۔ لیکن جہاں اسلام اسلام کی سلطنت ہے وہاں مذہبی حکومت ہوتی ہے اور عدالت  اسلامی  شرع کے مطابق کیجاتی ہے۔ مفتوح قوموں کی بابت شرع کا یہ حکم ہے۔ کافروں کے تین  گروہوں کے علاوہ باقی سب کو دو باتیں پیش  کی جاتی ہیں۔  یعنے قرآن یا موت سے۔ تین گروہ جو  مستثنےٰ ہیں  مسیحیؔ،  یہودیؔ۔ اور گبرؔ ہیں۔ یعنے قرآن یا موت یا جزیہ اور اس قانونکے مطابق یہودی  اور مسیحی سلطان روم کی سلطنت  میں جزیہ دیتے ہیں۔ لیکن اب ہم دیکھیں کہ زّمی یا جزیہ دینے والے کا درجہ اور مرتبہ کیسا سمجھا جاتا ہے۔ خلیفہ عمر نے جو عہد نامہ یروسلم پر قبضہ  کرتے وقت مسیحیّوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس میں مسیحّیوں کی حالت چنداں سخت نہ کی گئی تھی۔  عمری کی تصنیف  سے یہ باتیں معلوم  ہوتی  ہیں۔ مسیحی کو حکم ہے کہ کسی مسلمان کومسیحی ہونے کی ترغیب  نہ  دے اور نہ کسی مسلمان کو بپتمسہ دے۔  اگر اُس کو کوئی رشتہ  دارمسلمان ہوناچاہئے  تو ہر گز کسی طرح اُس خواہش کے خلاف ترغیب  نہ دے۔ اِن حکموں کو توڑنے کی سزا موت ہے۔ مسیحی  کا فرض ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو دیکھے خواہ وہ مسلمان  کیسے ہی درجہ  کا ہو تو اُس  کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ مسیحی نواب  یا  آرچ  بشپ مسلمان بھیک منگےکے سامنے ادب کے لئے کھڑا ہو۔ کوئی مسیحی گھوڑے پر زین ڈالکر  سوار نہو۔ اُس کو اجازت  نہیں کہ تلوار یا لڑائی  کا اور کوئی  ہتھیار  رکھتے۔مسیحی کوئی نیا گرجا  یا رہبان  خانہ یا کوئی  اور مکان مزہبی غرض  سے نہ بناویں۔ شہر میں یا شہر کے گردنواح  میں۔ اگر کسی ایسی گلی میں جس میں  مسلمان رہتے ہوں ۔ کوئی گرجا پرُانا  ہوجائے تو مسیحی اُس کی مرمت نہ کریں۔ دوسری جگہ میں ان کو اجازت  ہے۔ کہ اپنی مقدّس عمارتوں  کی مرمت کریں۔ لیکن یہ عمارتیں پرانی جگہ  پر اور بعد مرمت پرانی قد  اور مقدار کی ہوں۔ وہ صلیب کا نشان  نہ بناویں اور اپنے مرُدوں  کے لئے ماتم نہ کریں۔ اگر کوئی مسلمان  مسافران  کے پاس آے  تو تین دن تک اُس کی مہمانی  کریں اور اگر سال بھر مسافر آتے رہیں تو سال بھر مہمانداری  جاری رہے۔

خلیفہ  عمر کی امان بہت ہی پر از رحم سمجھنی  چاہئے۔ اور  عمر کے بعد جوملک  مسلمانوں نے بہت  فتح  کئے ان میں  مسیحیوں  پر ان سے کہیں  زیادہ دہ سختیاں کی جاتی تھیں۔ یہ قانون سلسلہ ھسپانیہ اور ھند میں پاری طرح جاری رہ  چکا  ہے۔  اور اب  سلطان کی سلطنت  میں جاری ہے۔ اگر کوئی مسلمان  کہے کہ یہ قوانین  قرآن سے چابت نہیں ہوسکتے تو جاننا چاہئے کہ ایسا کہنے والا ناواقف  ہے کیونکہ قرآن  اسلامی دنیا پر حاکم  نہین بلکہ وہ اجماعی قواعد  اور قوانین  جو کہ  ( ماموں نے قرآن  اور حدیث  سے استنناط کئے ہیں۔ ترکوں کا کوڈ  جس کے مطابق  اُن کی سلطنت  میں حکومت  ہوتی ہے بنام  ملُنق مشہور ہے۔  اور ایک شخص بنامی ابی سینی  جو سلطان  کے سول سروس میں بیس برس ملازم تھا۔  اُس  کا یوں بیان کرتا ہے۔ اس کتاب میں مسائیل عبادت و اخلاق اور سلطنت  کے تمام  اُمور فیصل  ہو چکے ہیں۔  اور  آیندہ تبدیل  یا تفسیر  کی جگہ باقی چھوڑی نہیں گئی۔ یہ کتاب ایک محکمہ ہے۔ جس کے بعد کوئی اور جائے اپیل باقی نہیں ۔ اس کتاب میں پوری طرح  سے بیان کیا گیا ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ  کیسا اور کس طرھ  برتاؤ  کرنا چاہئے ۔ اور اسکتاب کے قانون اس بارے میں ایسے پر جفا اور خالی  از رحم  ہیں کہ ان سے بڑھکر  خیال کرنا بھی محال ہے۔ علاوہ ان سختیوں  کے جو عمر نے مسیحیوں پر جایز  رکھی تھیں یہ کتاب چند اور بھی مقرر کرتی ہے۔ اس کتاب میں حکم  ہے کہ مسلمان کے خلاف مسیحی کی گواہی کبھی نہ سُنی جاوے اور زِلّت کے چند اور سامان بھی  بہم کئے گئے ہیں۔ مسیحی کو حکم  ہے کہ  اپنے دروازے پر ایک نشان  لگاوے جس سے سب کو اُس کا گھر معلوم ہو جاوے  اور جس کو دیکھ کر  بھیک منگے  بھی اس کو خدا کے نام سے دعا دینے سے باز رہیں۔ اگر سڑک  پر چلتے  وقت اس کو کوئی مسلمان ملے تو عیسائی  کو لازم ہے کہ سڑک کے تنگ  حّصے کی طرف ہوجائے۔ جزیہ  لینے والا جزیہ لیتے  وقت اس کے ساتھ بڑی بیرحمی  سے پیش آوے۔ یعنے اس کو جھنجھوڑے  اور اس کی چھاتی پر  مارے یا زمین پر  گھیسٹتے اور کہے اے زمی ای اﷲ کے دشمن جزیہ دے۔ اور یہ اس واسطے کرے کہ مسیحی زلیل اور بیعزت  ہو جاوے۔ بعض  کونسل اس برتاؤ کا چشم  دید بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے حاکم اپنی طبیعت کی سختی کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات میں غلطی پر ہیں کیونکہ یہ تو حکم  شرع ہے۔ ایک کونسل لکھتا ہے۔ کہ مسیحیوں  کو بے خطر ہر قسم کی  گالیاں دی جاتی ہیں۔  اور دوسرے بیعزتی کے کلمات  کہے جاتے ہیں۔ اور اس امر میں خاصکر حکاّم  بڑے مشتاق  ہیں کمیٹوں اور عدالتوں میں تمام گالیاں جو ترکوں کی زبان میں  مرکب  ہوسکتی ہیں عیسائیوں کو دی جاتی ہیں۔ اور اُن کے مذہب کی توہین کی جاتی ہے۔ سلطنت کے حاکم اور جج ہر گھنٹہ حقیر  اور زلیل  مسیحیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔

اگر کوئی مسیحی مرجاتا تو اہلکارون کی اصلاح میں جاتا ہے کہ وہ جہّنم رسیدہ ہوا۔ آرمینیہ کے ایک قاضی  نےایک مسیحی مرُدے کے دفن  کے لئے سارٹیکفٹ  دیا جس کو میں نے کود پڑہا۔ اس کے الفاظ  یہ تھے۔ مریم کے گرجا کے پادری کو ہم اجازت دیتے  ہیں کہ فلاں شخص کی ناپاک سڑی گلی بدبو دار لاش کو جو آج  واصل جہنم  ہوا زمین میں چھپا دیوے۔

یاد رکھنا  چاہئے کہ مذکورہ بالا قوانین ہنوز پرُانے نہیں ہوئے۔ احکام شرع  نہ موقوف  ہو سکتے ہیں۔ اور نہ بدل سکتے ہیں۔ سلطان بھی ان پر کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اگر سلطان چاہے  کہ ان قوانین میں سے کسی موقوف کرے تو لوگوں کا اختیار ہے کہ اُس کی تابعداری  چھوڑ دیں۔ اور شیخ الاسلام  کے فتویٰ سے وہ تخت سے معزول کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ عدالت کا مختار  سلطان  نہیں بلکہ شیخ الاسلام ہے۔ اور شیخ الاسلام کے فتویٰ کے بغیر سلطان سلطان کاکوئی ملکی حکم کچھ بھی زور  نہیں رکھتا ۔ پیرس۔ برلن  اور سائی پرس کے عہد ناموں میں  جو وعدہے  سلطان نے عیسائیوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے کی بابت کئے  اُن پر شیخ الاسلام  نے کبھی اپنی مہر نہیں کی۔ اس لئے وہ تمام وعدے جو سلطان  کر چکا ہے۔  خاک کی مانند ہیں جو سلطان  نے یورپ کی آنکھوں میں ڈال رکھی ہے۔ اور کوئی مسلمان سلطان  کے علاقہ میں اُنکا زرہ بھی پابند نہیں۔ کسی سلطان نے آجتک  اِن وعدوں کے پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اگر سلطان اِن کو پورا کرنے کو کوشش کرے تو اُس کا تخت  جاتا رہیگا ۔ گویا خلاصہ یہ ہے کہ  زبردستی اگر یورپ والے چاہیں تو سلطان کو انصاف  سکھا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی شرع  کی رو سے ترکوں کی عدالتوں میں مسیحی کی گواہی ہر گز منظور نہیں ہو سکتی۔ علاوہ اس کے  لبنان کے صوبہ کے علاوہ باقی صوبوں میں مسیحیوں کو ہتھیار رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔ لبنان کا صوبہ اس واسطے  مستثنیٰ ہے کہ سنہ۱۸۶۰ء  سے وہ صوبہ  سلطان کے اختیار سے کسی قدر نکال لیا گیا ہے۔ ایک اور ظلم  یہ ہے کہ شرع  حکم کرتی ہے کہ مسیحی مسلمان اہلکاروں اور مسافروں کی تین  دن تک مفت مہما نداری کریں۔ اگر کوئی مسیحی کسی مسلمان کو اپنے مذہب میں لانیکی کوشش کرے تو اُس کے واسطے موت کی سزا ہے۔ اور جو مسلمان  مسیحی ہو جاوے اُس کے واسطے بھی موت کا حکم  ہے۔ اِن احکام پر سلطان کی سلطنت میں پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ اِن احکام پر سلطان  کی سلطنت  میں پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ سنہ ۱۸۸۰ میں چرچ مشن کے ایک پادری بنام ڈاکٹر  کالر نے ترکوں کے کسی  کالج کے ایک  پروفیسر  سے دعائے غمیم کی کتاب کے چند صفحوں کی تصیح میں  مدد لی۔  یہ جرم سمجھا گیا اور پادری گرفتار  کیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ جرمنی کا باشندہ  اور انگریزوں  کا مشنری تھا۔ اس لئے وہ رو رہاہوگیا۔ لیکن شیخ الاسلام نے مسلمان پروفیسر پر موت کا فتویٰ دیا۔  یورپ والون نے مزاحمت  کی۔ سلطان نے اس ساری واردات کا الزام اپنی پولیس کے زمہ لگایا۔سر ھنری لیرڈ نے لارڈ سالر بری کے حکم سے درخواست کی کہ وہ پولیس  افسر یں نے یہ ظلم  کیا تھا  موقوف کیا جاوے چند دنوں کے بعد سر ھنری  لیرڈ  نے اِنگلستان تار بھیجا  کہ یہ ساری کار ستانی سلطان  کی ہے  اس لئے پولس کا افسر  موقوف  نہیں ہو سکتا۔ خلاصہ  یہ ہوا کہ  یورپ کی چھ بڑی سلطنتوں نے بڑی کوشش سے چار مہینے  میں سلطان کے دروغ اور تاخیر اور بہانوں پر غالب  آکر  اِس بیچارے  مسلمان پروفیسر  کی جان بچائی۔ جب بہت زور دیا گیا تو سلطان اور اُس  کے اہلکاروں نے اقرار کیا کہ جب  یہ پروفیسر اپنے فعل سے ازروئے شرع  موت کا سزاوار ہو چکا ہے توسلطان  بھی اس کی جان نہیں  بچا سکتا۔ اُسکی جان  مسیحی فقط زبردستی  کر کے بچا سکتے  ہیں یہ تمام واردات  سنہ ۱۸۸۰ء مین پارلیمنٹ  کی طرف سے چھپ چکی ہے۔ سنہ ۱۸۷۷ء میں شیخ الاسلام  نے قسطنطنیہ  میں علما کی ایک کونسل منعقد کی اور ان سے دریافت  کیا کہ کی کسی شرع کا حکم ڈھیلا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ تاکہ آیندہ عیسائیوں کی  شہادت قبول ہوا کرے اور ان کو ہتھیار  رکھنے کی اجازت ملے مشورہ کے بعد فتویٰ نکلا کہ ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔

میجر کالس رایل انجنیر  جس کو سلطان کے علاقہ میں بھیجا  یوں لکھتا ہے۔ مسیحیوں کو حکم  ہے کہ اجنبی  مسلمانوں کی مہمانداری  کریں۔ اور اِس حکم سے مسلمان بالکل  آزادہیں۔ اور حکم ہے کہ جب کسی عیسائی کے گھر میں کوئی مہمان  ہو تو مسیحی مرد اپنے گھر سے باہر رات کاٹے اور اپنی جورو اور بیٹیوں  کو اس مسلمان کے سپرد  کر دیوے۔ اس حکم سے عیسائی ہر گز بچ نہیں سکتا۔ اُس کے پاس ہتھیار نہیں اور کچہری  میں اُس کی نالش مسلمان  کے خلاف سنی نہیں جاتی۔ اُس کی زندگی اور اُس کے عزیزوں کی زندگی  مسلمان کے اختیار  میں ہے۔ اِس قانون سے سلطان کی پولس کے سپاہی  اکثر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

راقم ۔۔۔ ملکم مکال۔ لندن

عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں

Son of God


Published in Nur-i-Afshan September 13, 1895
By G. H. Daniel


یہ سچ ہے کہ عیسائی  خداوند عیسیٰ مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے اور اس کہنے پر محمدی بہت تکرار کرتے اور لڑتے ہیں۔ کہ جو کہے کہ مسیح خدا  کا بیٹا  ہے سو کافر ہے۔  بلکہ اگر اُن کو کچھ قدرت  ہوتو جان سے بھی مار ڈالنے پر  آمادہ ہیں جیسے کہ خود  محمد صاحب اور اُن کے خلیفوں کے زمانے میں ہوا۔ پر جو  شخص جس کتاب کو الہامی اور خدا کی جانتا اُسے مناسب ہے کہ اس کتاب کے موافق کہے  چنانچہ محمدی قرآن کے مطابق  دین کی بابت کلام کرتے ہیں اور جو کوئی اُس کے موافق  نہیں کہتا تو وہ سچا محمدی  نہیں مگر ہم سب انجیل مقدس  پر ایمان لائے ہیں کہ وہ اﷲ کا کلام ہے۔ اس لئے جیسا  اُس میں پاتے ہیں ویسی ہی گواہی دیتے ہیں۔ کتاب کی بابت ہر ایک کو تحقیق اور دریافت کرنا واجب ہے۔ کہ وہ کتاب خدا کا کلام ہے کہ نہیں۔ اگر دلیلیوں سے چابت ہو کہ وہ خدا کی کتاب ہے تو یہ درست ہے۔ کہ جو بات اُس میں پاوے اُس  پر یقین لاوے۔ اور اُس کے موافق کہے۔ پس انجیل شریف کےحق میں ۔ جو ہم نے دریافت اور تحقیق کیا یقین جانتےہیں کہ وہ بیشک آسمانی کتاب اور خدا کا کلام ہے۔ اور اُس میں صاف لکھا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ فرشتے نے اُس کی والدہ بیبی مریم صاحبہ سے کہا کہ وہ بزرگ ہوگا۔  اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگا۔ اور پھر کہا کہ وہ پاک لڑکا جو تجھ  سے پیدا ہوگا۔ خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ دیکھو لوقا کی انجیل  ۱: ۳۲، ۳۵ اور خدا نے خود اُسے بیٹا کہا چنانچہ متی ۲: ۱۶، ۱۷۔ اور دیکھو آسمان سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا پیارا  بیٹا  ہے جس سےمیں خوش ہوں۔دوسرے مقام پر کہ میرا پیارا بیٹا ہے اُسکی سنوُ۔ لوقا ۹: ۳۵ اور پطرس ۱: ۱۶: ۱۷۔ یسوع نے بھی خدا کو اکثر اپنا باپ کہا ہے۔ سردار کاہن نے اُس سے پوچھاکیا تو مسیح اُس مبارک کا بیتا ہے اُس نے جواب دیا ( میں وہی ہوں ) مرقس ۱۴: ۶۱۔ ۶۲ پس ظاہر ہے کہ انجیل میں ابتدا سے انتہا تک  مسیح کو خدا کا بیتا لکھا ہے پھر ہم کون ہین جو کہیں کہ یہ غلط  ہے کیا انجیل کے لکھنے والوں اور خدا سے جس نے اُس کی معرفت اپنی مرضی طاہر کی۔ اس راز سے ہم زیادہ واقف ہیں اب ہم دریافت کریں کہ سید صاحب  کا دوسرا  دعویٰ کہا تک سچ ٹھہرسکتا ہے۔ یا نہیں۔ اس دعویٰ کی تردید میں ہم قرآن  ہی سے دلیلیں پیش کرتے ہیں قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ محمد صاحب  کے وقت توریت  اور انجیل کے صحیح نسخے موجود تھے۔ یہ بات زیل کی دلیل سے ثابت ہوتی ہے۔  

(۱ ) محمد صاحب کے دنوں میں یہودی توریت صحیح کو سُنا کرتے تھے چنانچہ سورہ بقر رکوع ۹ میں لکھا ہے کہ یعنے اب کیا تم مسلمان توقع رکھتے ہو کہ وہ مانے تمہاری بات کہ الخ پھر سورہ بقر رکوع ۱۴ میں یہ مرقوم ہے یعنے یہود نے کہا نہین نصارا کچھ راہ پر اور کہا نسارا نے نہین یہود کچھ راہ پر اور وے سب  پڑھتے ہیں کتاب وغیرہ۔ اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ وہ کتاب جو قرآن  میں کلام  خدا کہلاتی ہے۔ پڑھی اور سنُی جاتی  تھی۔ اگر کوئی کہے کہ محمد صاحب کے بعد یہ نوشتے  بگڑ گئے۔  تو محمدی  لوگ خود اسبات کے زمہ دار ہوں گے۔ کیونکہ  صحیح نسخےکثرت  سے انکے ہاتھ میں آگئے تھے۔ لیکن ایسا نہو ہوا۔ کیونکہ (۱ ) بائیبل کے نسخے اس وقتموجود ہیں  جو محمد صاحب کے مدت پیشتر  لکھے گئے۔ مثلاً کوڈکس سے نائیٹکس تیسری صدی  کا اور کوڈکس نپرا چوتھی صدی کا موجود ہیں وغیرہ۔

( ۲) بائبل  کے ترجمے بھی موجود ہین جومحمد صاحبکے پیشتر رایج تھےْ جیسا کہ پشتو سریانی زبان  کا جو پہلی  صدی  عیسوی میں کیا گیا موجود ہے۔  وغیرہ پھر ( ۳) بائبل کی اقتباس  کی ہوئی آیتیں کثرت کے ساتھ قدیم تصنیفات میں پائی جاتی ہیں۔ پس ان کتابوں کے وسیلے سے یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہو سکتی ہے کہ حال کے نسخے انجیل شریف کے قدیم نسخوں کے ساتھ ملتے ہیں اور کہ وے تحریف  شدہ نہیں ہیں۔ اسبات کے بارہ  میں ہمکو یاد کرنا چاہئے کہ کلام کی ہر قسم کی عبارت منسوخ ہو سکتی مثلاًوے  آیتیں جو خدا کی پاک زات و صفات کو بیان کرتی ہیں یا وے جو تواریخی  وارداتوں کی خبر  دیتی ہیں یا وے جو پیشین گوئیوں کا زکر کرتیہین  یا وے جو انسان کی بدحالت اور اس سے نجات پانیکی تجویز  کو پیش کرتی ہیں یہ سب آیتیںمنسوخ ہونے والی نہیں ہیں۔ اور بائبل کی اکثر  عبارت اس ہی قسم کی ہے۔ پس صاف  ظاہر ہے  بائبل کے نوشتے صحیح ہیں۔ اور کہ وہ محمد یونکے خیال موافق منسوخ نہ ہوئے۔ ہاں ہم اتنا جانتے ہیں کہ قرآن میں صدہا آیتیں ناسخ منسوخ  کی پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ انسانی کلام ہے۔

جی ۔ایچ ۔ ڈانیل 

یونانی اور محمدی اور ہندو معجزوں وغیرہ اورمسیحی معجزوں کا فرق

Biblical Miracles
and Greek, Islamic and Hindu Mythology


Published in Nur-i-Afshan July 12, 1895
By Dina Nath Sahd


غیر اقوام کے معجزے صرف وہم اور فضول اور بلا مطلب  اور بے گواہ اور اکثر حدیثوں اور روایتوں اور فسانوں میں  جن کو وہ الہامی نہیں م،انتے۔ پائے جاتے ہیں۔ لیکن اُن کی الہامی کتابوں میں زرابھی زکر نہیں ہے۔ چنانچہ یونانیوں میں وسیشین بادشاہ کا ایک اندھے اور لنگڑے کو چنگا کرنا۔ اور محمدیوں میں صاحب پر ہمیشہ بادل کا سایۂ رہنا اور کھانا  اور پھل  اُن کے لئے آسمان  سے آنا۔ اور چاند کو دو ٹکڑے کر کے دونوں آستینوں میں لے لینا۔ہندوؤں میں اگست منی کا سمندر کو پی جانا ۔ اور پھر پیشاب کرنے سے پانی کا کھارا ہوجانا۔ شوکا  اپنے بیٹے  گنیش کا سر کاٹنا اور بجائے اس کے ہاتھی  کا سر لگانا۔ وغیرہ۔

اے ناظرین  نور افشان  آپ خواہ یونانی ہوں یا محمدی یا ہندو یا مسیحی۔ لیکن براہ نوازش اپنے بیدار مغز اور تحقق دل پر سے تعصب  اور طرفداری کا نقاب الٹکر چشم بنیا اور گوشن پیش سے برھ سنکر دل دانا سے گور اور فکر کو کام  میں لاکر مندرجہ   بالاعنوان کی نوشیروانی  داد دیں۔ کہ کیا  بیانشدہ معجزات مین کسی زی عقل فرد بشر کو تسکین  اور تشفی ہو سکتی ہے۔  کہ وہ صحیح ہیں۔ یا کسی مطلب  اور فواید  کے لئے ظہور  میں آئے۔ یا کوئی شخص شہادت دے سکتا ہے۔ کہ میرے سامنے واقع ہوئے یا کہیں اور قرآن  اور دیدوں میں ان  کا کوئی زکر پایا جاتا ہے۔  لیکن مسیح معجزوں اور بیان شدہ معجزوں میں۔ اگر میں یہ کہوں کہ دن اور رات کا فرق پایا جاتا ہے۔ تو میری دانست  کافی نہوگا۔ بلکہ میری رائے میں جتنا آسمان اور زمین  میں فرق ہے۔  اتنا ہی مسیحی اور بیان شدہ معجزوں میں کہنا پڑے گا ۔ کیونکہ مسیح کے معجزے  اول تو بہت صاف اور صریح اور با ضرورت  تھے۔ چنانچہ لکھا  ہے۔ کہ جب ہمارے خداوند یسوع مسیح نے اُس شخص کو کہ جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا۔ چنگا کیا۔ تو پہلے یہ جملہ  ( کہ تم میں کون ہے جس کی ایک بھیڑ ہو۔ اگر وہ سبت کے دن گڑھے میں گرے۔ وہ اُسے پکڑ کے نہ نکالے ) زبان مبارک پر لایا۔

دویم  دوستوں اور دشمنوں کے سامنے ظہور میں آئے۔ سویم۔ شاگردوں نے اُن معجزوں کو صحیح مانا۔ اور اُن کی سچائی کے اظہار مین اپنیجان تک بھی دیدی۔  

چنانچہ تمثیل زیل کے بیان سے ناظرین کو پورا پورا  اطمینان ہو جاویگا۔ کہ مسیحی معجزات درست اور صحیح ہیں۔ فرض کرو۔ کہ بارہ شخص  جن کو ہم معتبر اور ہوشیار مانتے ہیں۔ برے تحمل اور خاکساری اور عجز اور بردباری اور سنت سے ایسے عجیب کاموں کا۔ جو کہ اُن کےچشمدیدہ ہوں بیان کریں اور ملک کا حاکم اُن کو اپنے حضور طلب کر کے الگ الگ یہ فرمان سناوے۔ کہ یا تو تم اپنے فریبی اور دغا باز ہونے کے اقرار کرو۔ ورنہ تمکو پھانسی دیجاویگی۔ لیکن وہ سب ہم ہم آواز ہو کر اپنے راست باز ہونے کا اقرار کریں۔ اور وہ حاکم ان کو ایک ایک کر کے پھانسی دیتا جاوے۔  اور پھر بھی وہ سب کے سب اپنی سچائی  پر ثابت قدم رہیں اور پھانسی پانے اور شکنجے  میں کھینچے جانے سے کچھ خوف و خطر نہ رکھیں۔ تو اے ناظرین  باوقار  کیونکر انکے بیانات کو صحیح اور درست نہ سمجھا جاوے۔

چہارم۔ یہودی اور غیر قوم دونوں اُن معجزوں کے قایل ہیں۔  

پنجم ۔ اس کے دشمنوں  نے اُس کے حق  ہونے کا  اقرار کیا۔  اور مسیح کی وفات کے بعد بوقت اظہار کسی نے  تردید نہ کی۔  بلکہ یہودیوں کی کتاب تالمود  میں زکر ہے کہ عیسیٰ نے بہت عجیب کام دکھلائے۔ لیکن اُس کی قدرت جادو گری سے منسوب کرتے ہیں۔ اور بھی بہت عے عداوتی نوشتوں میں پایا جاتا ہے۔ کہ وہ کوڑہیوں کو چنگا کرنے اور مردوں کوزندہ کرنے کی اور مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت اور طاقت رکھتا تھا۔

سلیس  اور بے دین مخالف بھی مسیح کے کامون سے حیران ہو کر جھٹلانے کی غرض سے اُن کو جادو گری سے  منسوب کرتے ہیں۔

جولئین۔ بھی اُن معجزوں کا مقر ہے۔ لیکن اس خیال سےکہ یہ کام الوہیت  کے ہیں۔ جٹھلانے کے غرض سے یوں  لکھتا ہے۔ کہ اندھوں کو لنگڑوں کو چنگا کرنا اور ناپاک روحوں کو نکالنا کچھ عجیب بات نہیں ہے۔

ششم۔ سب سے نادر معجزونکی  یاد گاری میں آئین دین اور رسوم مقرر ہونا۔ چنانچہ اتوار کا دن مسیح کے جی اُٹھنے  سے اور رسم بپتمسہ اور عشائے ربانی اس کی موت اور جی اُٹھنے کی یادگاری میں مقرر ہوئے۔

دینانا تھ  شاد

ایمان کی آزمایش

ایس مسیح


The Test of Faith

Published in Nur-i-Afshan March 18, 1895
By S. Masih


دن کے ۳ بجے کا وقت ہے۔ آسمان پر قدرے  ابر چھایا  ہوا ہے۔آفتاب کی تیزی بہت کم ہے۔  نگاہ کی چاروں طرف  خشک کھیت نظر آتے ہیں۔ اور میں خاموشی کے عالم میں حیران اور رنجیدہ  ایک چھوٹے گرجا گھر کے قریب جہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک باغ  بھی ہے مگر ویران جس کے مرجھائے ہوئے درخت دلکو اور بھی زیادہ  پثرمردہ کرتے ہیں کھڑا ہوں۔  مسلمان دشمنوں نے چاروں  سمت سے گھیر لیسا ہے۔ میں ایک انگلش سولجر سے بزبان انگریزی  کہ رہا ہوں کہ مجھے نینی تال جہاں میرے والدین اور عزیز حفاظت  سے ہیں پہنچا دو۔ لیکن سولجر  ایک عجیب غمناک اور دلگیر آواز سے جواب دیتا ہے کہ اب کسی صورت سے رہائی ممکن نہیں۔ قریب ہےکہ دشمن جلد ہمیں ینزوں  پر اُٹھالیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ کہیں بھاگ کر اپنی جان بچاؤں کہ یکایک ایک آواز گرجے کی اندر سے سنائی دی کہ کوئی عربی زبان میں پڑھ رہا ہے کہ کافروں کو مارو اور قتل  کرو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جاویں۔ مین گو کہ زبان عربی سے محض ناواقف ہوں تو بھی گویا  صاف سمجھتا ہوں کہ مطلب کیا ہے۔ اب مین رُکااور خیال کرنے لگا کہ گرجا گھر میں کوں ہیں۔ جب دروازہ سے جھانکا تو معلوم ہوا کہ سیکڑوں مسلمان ایک بڑی جماعت مسیحی مرد عورت اور بچونکے گرد تلوار یں  لئے چاروں طرف سے محاصرہ کئے  ہوئے کھڑے ہیں۔ یہ بھاگ کر بچ  نہ سکے اور قید ہوگئے۔ پلپٹ پر ایک مولوی سفید  پوش موٹا تازہ پگڑی باندھے ٹخنوں تک ڈہیلا پایجامہ پہنے کھڑا ہو درس دے رہا ہے۔ اب میں نے بھی مصمم ارادہ  کر لیا کہ کہیں نہ بھاگوں گا۔ اور جو کچھ سلوک اِن بیچاروں کے ساتھ کیا جائیگا شریک ہونگا۔ جب مولوی اپنا درس تمام کر چکا تو  بندوق جو میز پر رکھی تھی اُٹھا کر سب سے پہلے چھوٹےبچوں  پر  فائیر کرنے لگا جو اپنے والدین کی گود سے علیحدہ کر ا کے بٹھائے گئے تھے۔ میں بندوق کی آواز سُن کر گھبرایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ جن بچہ کے گولی مارتا ہے وہ بیچارہ تڑپ تڑپ کر  بنچ ہی پر مر جاتا ہے۔ بعد اس کے جب سب بچوں کو قتل کر چکا تو مرد اور عورتوں  کو ہلاک کرنا شروع کیا۔ پلپٹ کے نزدیک  ایک بنچ پر چند اور مسیحی بیٹھے  ہیں جن اُنکی باری آئی تو ایک محمدی نے جو اُن کا دوست معلوم ہوتا ہے مولوی سے سفارش کی کہ ان کو قتل نہ کیجئے یہ تو مسلمان ہیں۔ اور میں ان سے خوب واقف ہوں۔ مولوی بندوق  ہاتھ میں لئے ہوئے اُن سے دریافت  کرنے لگا۔ کہ تم کون ہو؟  افسوس کہ بوجھکمزور ایمان اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں ہم کو اِن عیسائیوں نے جو قتل ہوئے عیسائی مشہور کر رکھا ہے۔ ایمان کو چھوڑ دیا (متی ۲۳۔۲۳) اِس جماعت میں میرا ایک کم سن بھائی بھی مقید ہے۔ جب مولوی نے کہا کہ اگر یہ مسلمان ہیں تو جانے دو۔ جب اُنکو ہلاک کرنے سے چھوڑا تو میرا بھائی  بہت خوش ہوا۔ اور جن آنکھوں سے ابھی آنسو جاری تھے اور خوف سے روتا تھا  وہ چہرہ اب بشاش نظر آتا ہے کہ جان بچی۔ اُس وقت ایک ایسا جوش دل میں اُٹھا اور اندر جا کر چاہا کہ  بآواز  بلند کہوں۔ پر میں سچا مسیحی ہوں جو اس بندوق سے جو تیرے ہاتھ میں ہے نہیں ڈرتا۔ اور جیسے ہی کہ چلایا  میری آنکھ کھل گئی۔

ایک عجیب حادثہ دل پر گزرا جس کا بیان  تحریر سے باہر ہے۔ فوراًٍ رات ہی کو مقدس انجیل پڑھنے لگا اور خدا کا شکر کیا  کہ خواب تھا۔ لیکن معلوم ہوا کہ ایمان کی آزمایش تھی۔ گو کہ اب بھی دخل نہیں کہ پھر ایسا پرُ خطر وقت آوے اور ہم ایسی آسانی سےقید ہو جاویں جیسا گرجا گھر میں  تو بھی اُن بھائیوں ک طرف سے جو مسیح کی صلیب نہ اُٹھاسکے اور اُس کا انکار کیا جی دُکھا۔ جب دن ہوا تو مین اپنے دل سے پوچھنے لگا کہ اے دل یہ تو صرف خواب تھا اگر ایسا وقت آوے بھی  تو تُو مسیح کے لئے کیا کریگا؟ دل نے جواب دیا کہ  فوراً جان دونگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی دل میں گذرا کہ کیا تیرا ایمان باعمل ہے۔ (اس کی نسبت میں تحریر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ پھر کسی وقت اگر ہو سکا لکھونگا) اُسی روز میرے نجات دہندہ کی عجیب صورت میرے رو برو صلیب ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آئی۔  ( یہ صرف خیال تھا کہ مسیح سامنے کھڑا ہے پر کچھ شک نہیں کہ روح القدس کا دل پر  بڑا اثر تھا ) کہ میں جا کر سجدہ  کیا کہ۔ اے مسیح ہمارے  ایمان کو بڑہا ( لوقا ۱۷۔ ۵)  اور ہماری بے ایمان کا چارہ کر  (مرقس ۹: ۲۴) اور دیر تک خداوند یسوع مسیح  کے سامنے سجدہ سے اُٹھنے کو جی نہ چاہا۔

اے ناظرین گو کہ میں ایک بڑا  گنہگار  اور سب سے حقیر مسیح کا شاگرد ہوں تو بھی آپ سے ایک سوال کرتا ہوں جس کا جواب دل ہی میں رکھئے۔ کیا ہمارا ایسا قوی اور پختہ ایمان مسیح پر ہے اگر اس وقت ہمارے ایمان کی آزمایش کی  جائے تو ہم اپنی جان اُس کے لئے دریغ  نہ کریں گے؟ اگر چہ سوال مشکل ہے تو بھی بڑی اُمید ہے کہ بہت کہیں گے کون ہمکو مسیح کی محبت سے جُدا کریگا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کا ل یا ننگائی  یا خطرہ یا تلوار ( رومیوں ۸: ۳۵) اور دل یہ  جواب بھی دیگا۔ کہ روح تو مستعد پر جسم سسُت ہے۔ (متی ۲۶۔ ۴۱) اُسی وقت بہت  ٹھوکر کھائینگے  ( متی ۱۴: ۱۰) اور بہتوں کی محبت ٹھنڈی ہو جائیگی (متی ۲۴: ۱۲)۔

اُس مولوی کی طرحجب ہم دنیا کی مکرو ہاتھوں میں پھنس کر مسیح سے دور ہو جاتے ہیں تو فوراً  شیطان ( کیونکہ شیطان تم میں سے کئی ایک کو قید میں ڈالے گا تاکہ تم آزمائے جاؤ۔  مکاشفات ۲:۱۰) ہم سےیہ سوال کرتا ہے کہ۔ کیا تو بھی یسوع ناصری کے ساتھ ہے ( متی ۲۶۔ ۶۹) تو بعض کم اعتقاد جن کا پورا بھروسے اب تک مسیح پر نہیں گو کہ اُس کی کلیسیا میں شامل ہیں ( کیونکہ بلائے ہوئے بہت ہر برگذیدہ تھوڑے ہیں۔ متی ۱۲۲۔ ۱۴) ۔ اندیشہ ہے کہ پطرس رسول کی طرح کہنے لگیں کہ ۔ میں اُس سے واقف نہیں (متی ۲۶: ۷۲) پر وہ ہی پطرس رسول مسیح کے لئے ایسا سرگرم اور قوی ایمان بہادر شاگرد ہوا کہ جب یہ سوال اُس سے کیا گیا تو جواب دیا کہ میرے خداوند  کو تم نے سیدھا صلیب دیا مجھے اُس کے لئے  اولٹا لٹکاؤ یہ رسول بھی ہماری طرح انسان تھاجو اس دلیری سے اپنی جان دیکر ہمارے لئے نمونہ چھوڑ گیا۔نہ صرف پطرس اِس امتحان میں پورا نکلا بلکہ ہزاروں ۔کیونکہ بعض اُس امتحان میں پڑے کہ ٹھٹھوں میں اُڑائے گئے۔ کوڑے کھائے اور زنجیر اور قید میں پھنسے ۔ پتھراؤ کئے گے۔ آرے سے چیرے گے۔ شکنجے میں کھینچے گئے۔ تلوار سے مارے گئے بھیڑو اور بکریوں کی کھال اوڑہی ہوئی تنگی میں۔ مصیبت مین دُکھ میں مارے پھرے (دنیااُن کے لایق نہ تھی) بیابانوں اور پہاڑوں  اور گڑہوں اور زمین کی غاروں میں ضراب پھرا کئے (عبرانیوں ۱۱: ۳۶۔۳۸) اور بڑی برداشت ہے۔ مصیبتوں سے۔ اختیاجوں سے ۔ تنگیوں سے۔ کوڑے کھانے سے۔ قید سے۔ ہنگاموں سے۔ بیداریوں سے  فاقوں سے ( ۲ قرن ۶: ۴۔ ۵)۔ سب کچھ برداشت  کر کے آزمایش میں پورے ہوئے۔ پولوس رسول فرماتا ہے۔ کہ ہم اس گھڑی تک بھوکھے پیاسے ننگے ہیں۔ مار کھاتے اور آوارہ پھرتے  ہیں۔ اور اپنے  ہاتھوں سے محنتیں  کرتے۔ وے بُرا کہتے  ہم بھلا مناتے ہیں۔ وے ستاتے ہم سہتے ہیں۔ وے گالیاں دیتے ہم  گڑ ِ گڑاتے ہیں۔ ہم دنیا میں کوڑے کی اوع سب چیزوں کے جھارن کی مانند آج تک  ہیں( ۱ قرن ۴: ۱۱۔ ۱۳)

یہ امتحان نجات کی راہ ہے جو نہایت  دشوار  اور پر خطر ہے۔ طرح طرح کے امتحان اور آزمایشیں چاروں طرف سےمحاصرہ کئے ہوئے ہیں جس میں سے ہم سب کو جو مسیح کے شاگرد ہیں گزرنا ہے۔ یہ بھی تو انسان تھے جو کمال استقلال سے سب کچھ برداشت کر کے اس راہ سے گزر گئے۔ دیکھئے۔ اب میرا لہُو ڈہالا جاتا ہے۔ اور میرے کوچ کا وقت آپہنچا ہے ( یہ ایمان کی  آزمایش کی آخیر منزل ہے) میں اچھی لڑائی لڑ چکا۔دوڑ کو تمام کیا ۔ میں نے  ایمان کو قایم  رکھا۔ باقی راستبازی  کا تاج میرے لئے  دہرا ہے ( ۲ طمطاؤس ۴: ۶۔ ۸) جس کا اس مسافر اور امتحان بردار کو کہ۔ مرنے تک ایماندار  رہ تو میں زندگی کا تاج تجھے دونگا (مکاشفہ ۲: ۱۰) پورا بھروسا تھا وعدہ  کو پہنچا۔ ہمارا  خداوند جو خود اس امتحان کو ہماری جان بچانے کے لئے اپنا خون بہا کر پورا کر گیا فرماتا ہے کہ اب۔ جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کرمیرے پیچھے نہیں آتا میرے لایق نہیں۔ ( متی ۱۰۔ ۳۸) اے ناظرین اگر ہم مسیحی ہین توضرور ہے کہ اُس کی صلیب اُٹھاویں اور پر امتحان کو جس میں شیطان ہمیں ڈالے بہادری سے قایم  رہکر ایمان کونہ چھوڑیں ۔ کیونکہ ہم جو اُس کے خون خریدے ہیں یہ ہی فرض ہے۔ اس لئے ڈھیلےہاتھوں اور سسُت گھٹنوں کومستعد کرو۔ ( عبرانیوں ۱۲: ۱۲) کہ ہم ہرگز مسیح  کا انکار نہ کریں  اور ایمانکو ہاتھ  سے نہ دیں ۔ یہ تو صرف ایک خواب تھا جو نیند کی غفلت میں دیکھا۔ اس لئے۔ آرے آ ۔ تو جو سوا ہے جاگ اور مرُدوں میں سے اُٹھ کہ مسیح تجھے روشن کریگا۔ ( افسیوں ۵: ۱۴)

راقم۔۔ ایس مسیح

الثالوث الاقدس

راقم

ابناش چندر گھوس از دہلی

The Holy Trinity


Published in Nur-i-Afshan July 12, 1895
By Chandar Ghus


مسیحیوں کو اکثر  یہ الزام دیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسئلہ ثالوث ماننے سے  خدا کے تین ٹکڑے کر دئے ہیں۔  اسی الزام کے باعث کلیسیا چاہتی ہے کہ  پرانا تثلیث کا لفظ  ترک کر دیا جاوے۔ ہم اس مضمون میں ثابت کریں گے کہ اگر یہ الزام ثالوث  کے ماننے والوں پر عاید ہو سکتا ہے تو توحید کے ماننے والے  یعنے اہل اسلام بھی اس سے بھاگ نہیں سکتے۔ انسانکی عقل ایسی کمزور اور تھوڑی سی ہے  کہ محض خدا کی ہستی کے ماننے ہی سے اس کو بڑی  بڑی  دقتّیں پیش آتی ہیں۔اور جو دقتّیں ثالوچ کے مسئلہ میں ہیں  بعینہ  وہی دقتیں محض توحید ماننے میں بھی ہیں۔ ہم اس وقت ایک بڑی دقّت جس کا ہم نے اوپر بیان کیا چن لیتے ہیں اور دکھاویں گے کہ یہی وقت موحّدوِں  کے زمرنے  سے باہر  نہین کرتے فرق اتنا ہے کہ ہماری توحید اور طرحکی ہے۔

الزام  یہ ہے کہ ثالوث کے قائیل خدا کے تین ٹکڑے کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ یہ الزام  صحیح  ہے اور اس لئے ہم  نے ثالوث سے انکار کیا اور اہل اسلام  کی سی توحید کو منظور کیا۔ دیکھئے یہ توحید کس طرح زایل ہوتی ہے اور اس سے خدا کے کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہاں محض عقل سے کام لیا جاویگا۔

عقل کا ایک  بڑا  عظیم  الشان دعویٰ یہ ہےکہ نیستی سے ہستی بر آمد نہیں ہو سکتی۔ دوسرا بڑا دعویٰ عقل کا یہ ہے کہ ہستی نیستی سے مبدل نہیں ہو سکتی یعنے جو چیز ہے وہ ہر گز نیست نہیں ہو سکتی فقط  اتنا ممکن ہے کہ اس کی صورت  بدل جائے  یا وہ ہماری نظر  سے غایب ہو جاوے۔ ان دو دعوؤں  کا نتیجہ یہ ہوا کہ  دنیا میں نہ کوئی چیز بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ  سکتی  ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دنیا میں نہ تو کوئی چیز  بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ  کہ دنیا میں نہ تو کوئی چیز کبھی بڑھی اور نہ گھٹی۔ ہمیشہ سے دنیا اتنی ہی چلی آئی اور تا ابداِتنی ہی چلی جائیگی۔ یہ عقلی دعوے ہیں اور کوئی اُن کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی کرے تو بندہ  اس کا شکر  یہ ادا کرے گا۔ لیکن کرے تو محض  عقل سے کرے۔ ایمان کو کام میں نہ لاوے۔

پس خلاصہ  یہ ہوا اگر خدا ہی تو وہ ازلی ہے اور اگر دنیا ہے تو وہ بھی ازلی ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ نہیں دوازلی نہیں بلکہ ایک ہی ازلی ہے یعنے خدا اور دنیا اُس کی مخلوقات ہے۔ لیکن یہ عقل میں نہیں سماتا۔ خلق تو کوئی شے ہو نہیں سکتی۔ نیستی سے ہستی مستخرج نہیں  ہوسکتی۔  پس اگر  یہ ماننا چاہیں  کہ خدا نے دنیا کوبنایا  ہے۔ تو یہ بھی  ماننا پڑیگا کہ نیست سے ہست نہیں کیا بلکہ  اپنی ہی  پاک زات کے ایک  حصہّ کو دنیا کی صورت میں کر دیا ہے۔ پس خدا کے ٹکڑے ہو گئے یعنے ایک حصہ  خدا کہلاتا ہے اور ایک حصہ  دنیا۔ اور اگر یہ نہیں تو خلاف عقل یہ ماننا پڑیگا کہ نیستی میں ہستی برآمد ہو سکتی ہے۔ یا تو یہ مانو کہ کل موجودات  کے مجموعے کا نام خدا ہے اور انسان آفتاب  ماہتاب زمین وغیرہ خدا کے ٹکڑے ہیں۔ اور یا یہ مانو کہ خدا میں نیستی میں سے ہستی بر آمد کر نیکی طاقت ہے۔ یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں اور تیسری صورت کوئی نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی ہے تو  کوئی مسلمان ہمیں اس سے آگاہ کرے۔ اور خدا کے ٹکڑے کو ( ۱ ) یا دنیا کو خدا مانو ( ۲) یا خدا میں عقل کے خلاف  ایک طاقت قایم کرو۔

یاد رہے کہ ہم نے یہاں ثالوث کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ ہم نئ فقط اتنا ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت  جو خاص مسئلہ ثالوث کے ساتھ مخصوص سمجھی  جاتی ہے حقیقت  میں اس کو اس مسئلہ کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ  نہیں بلکہ وہ وقت  تو خدا کی ہستی کے ماننے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھکر ہم آیندہ ثابت کریں  گے کہ جتنے عقلی  اعتراض  مسیحی مذہب کے خلاف ایجاد کئے جاتے ہیں اُن کا مسیحی مذہب کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہین بلکہ وہ  اعتراض تمام مذاہب پر یکساں عاید ہو سکتے ہیں۔ اتنا تو ظاہر ہوا کہ ایک برا اعتراض جو  مسیحی مذہب کے خلاف پیش کیا جاتا ہے اسلام پر بھی عاید ہوتا ہے۔

راقم۔۔۔ ابناش چندر گھوس از دہلی

قُرآنی  خدُا کو جواب

راقم

کیدار ناتھ

An Answer to the Qur’anic God


Published in Nur-i-Afshan July 5, 1895
By Kidarnath


آج ہم زیل کے چند اعتراضات کا جواب  عرض کرتے ہیں جو بعقیدہ محمدیاں گویان اُن کے خدا نے خود اہل کتاب پروار دکئے ہیں اہل انصاف ان کو پڑھ کر ہماری دادویں گے  نکالئے سورہ  مائدہ رکوع ۳۔

محمدیوں کا اﷲ جل شانہ فرماتا ہے۔ اور کہتے ہیں یہودونصاریٰ ہم بیٹے اﷲ کے اور اُس کے پیارے تو کہ پھر کیوں عذاب کرتا ہے تجھکو تمھارے گناہوں پر کوئی نہیں تم بھی ایک انسان ہو اُس کی مخلوقات میں سے بخشے جس کو چاہے اور عذاب کرے جس کو چاہے۔  اس پر اُن کے  مختار  پیرو  کار سید ابو المنصور صاحب  دہلوی اپنی کتاب نوید جاوید کے صفحہ ۶پر یہ یوں گل فشانی  کرتے ہیں کہ مطلب  یہ کہ اگر تم خدا کے فرزند اور پیارے ہو تو کس واسطے  تمہیں سزائے اعمال  ملتی ہے اور نظیر کے واسطے جب قرآن سے کچھ سہارا نہ ملا تو سیدھے متی ۱۷: ۵،۶۔ پر دوڑے  مگر بقول شخصے آنکھوں کے آگے ناک سوجھی کیا خاک  وہاں ملا  تو یہ کہ جب وہ گھرمیں آیا تب یسع نے اُس کے بولنے کے پیشتر اُس سے کہا کہ اے شمعون  تو کیا سمجھتا ہے دُنیا کے بادشاہ خراج یا جزیہ  کس سے لیتے ہیں اپنے لڑکوں سے آیا  غیروں سے۔ پطرس نے اُس سے کہا غیروں سے یسوع نے اُس سے کہا پس تو لڑکے اُس سے آزاد ہیں۔ اور ایسی دلجمعی کی حالت مین دینی تکلیفات  کیوں اپنے اوپر گوارا کرتے ہو اور کس لئے مرنے سے ڈرتے  ہو پھر جس طرح خدا کی سب مخلوقات میں بیمار پڑے اندھے کانے لولے لنگڑے ہو جاتے تم بھی ہو جاتے ہو خدا کے فرزندوں میں خدا کے بندوں سے کوئی بات زیادہ ہونی چاہئے نہ کہ انسان تندرست کے سامنے خدا کے فرزند کانے یا لنگڑے نظر آئیں پھر یہودی لوگ جو بابل  کی اسیری اور اُس سے قبل اور بعد قوموں کے ہاتھ بار بار غلامی میں بیچے گئے پس تعجب  ہے کہ خدا کے فرزند انسانوں کے غلام  بنائے جاویں۔ استثنا ۱۴: ۱، رومی ۸: ۱۶ ، ۱۷، یوحنا ۱: ۱۲، ۱۳۔

جواب قبل اس کے کہ محمدیوں  کے خدا کو جواب دیا جاوے واجب ہے کہ لفظ انسان اور لفظ  بندہ کو سمجھ لین کیونکہ آیت قرآنی اصل عربی میں بشر اور اُس کے اُردو ترجمہ میں انسان اور اُن کے مختار  پیروجار کی تقریر میں بندہ آیا ہے یاد رکھنا  چاہئے کہ انسان جنس حیوان کی نوع ہے اور ہر فرد بشر پر صادق آتا ہے  مثلاً انسان فانی ہیں  زید انسان ہے۔ پس زید فانی ہے۔ مگر بندہ بندہ تو ہر ایک کو نہیں کہ سکتا مگر اُس کو جوبندگی کرے۔ لیکن یہاں ایک اور لفظ ہے جس پر مقدمہ کی کل بنیاد ہے۔ یعنے فرزند خدا  بصٔیغہ جمع سخن انباء اا اور بیبل میں اﷲ  کے  فرزند اُن کا خطاب  ہے جنہوں  نے روح پاک کے وسیلہ نئی پیدایش  حاصل کی ہی اور وہ سب انسان ہے۔ پس مولوی صاحب  اور اُن کے موکل محمدیوں کے اﷲ کایہ فرمانا  کہ تم بھی ایک انسان ہو اُن عجیب منطق ہونیکے سوائے اور کچھ ثابت نہیں کرتا۔ لیکن باعتبارفرزندیت  کل انسانوں کی دو تقسیم ہو سکتی ہیں یعنے انسان یا تو خدا کا فرزند ہے یا شیطان  کا فرزند تب یون کہنا چاہئے تھاکہ خدا کے فرزندوں میں شیطان کے فرزندوں سے کوئی بات زیادہ  ہونی چاہئے تھی۔ اس نے اُنہیں کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتاتو تممجھے عزیز  جانتے کیونکہ میں خدا سے نکلااور آیا ہوں  کیونکہ میں آپسے نہیں آیا پر اُس نے مجھے بھیجا تم میری ربارت کیوں نہیں سمجھتے اس لئے کہ میرا کلام سُن نہیں سکتے تم اپنے باپ شیطان سے ہو اور چاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہش کے موافق کرو۔ انجیل یوحنا ۸: ۲۴، ۴۴۔

خدائے قادر جع ولم کا چشمہ  ہے اُس نی ایک دن ٹھہرا رکھا ہے کہ اُسدن صالح اور طالع کا انصاف بے رو و رعایت کریگا۔ اگرچہ ممکن تھا کہ وہ ابھی ہر بدکار کو سزائے اعمال دیتا لیکن اس لئے تامل ہے تاکہ توبہ کے لئے ہر گنہگار کو ایام حیات تک فرصت  باقی رہے۔ دوسرے کہ عدالت کے دن کا ہر شخص منتظر رہے دوسرے کہ عدالت کے دن کا ہر شخص منتظر رہے کیونکہ اگرابھی ہر ایک کو سزا و جزا  سے اعمال ملے تو قیامت اور عدالت کا کوئی  انتظار نکرے۔ اور خدا کے فرزند ونکی بابت نوید جاوید صفحہ ۶۵ پر ملاحظہ  ہو خداوند جسے پیار کرتا ہے اُسے تنبیہ کرتا ہے اور ہر ایک بیٹے کو جسے قبول کرتا ہے پیٹتا ہے عبرانی ۱۲: ۶۔

رہی بات کانے کی ہو اُس کا جواب یہ ہے کہ کانا ایک آنکھ سے وہی کام لیتا ہے جو ہم اپنی دونوں آنکھوں سے لیکن اندھے پن کا مرض محمدیوں میں زیادہ پھیلا ہوا ہے اس کا کیا سبب ہے ہماری رائے میں دوسبب  ہین اول یہ کہ قرآن  کے حافظ زیادہ ہوں۔ یا یہ کہ وہ کدا کے فرزندوں سے الگ پہچانے جائیں۔

پھر اسیری کی بابت دیکھو نوید جاوید صفحہ۶۴ جب حضرت یوسف قید خانہ مین اورفرعون تخت سلطنت پر تب خدا یوسف کے ساتھ تھا اور جب بنی اسرائیل  سخت مصیبتوں میں تھے اور فرعون اُن پر ظلم کر رہا تھا اور حضرت موسیٰ پانی میں پڑے تھے تب خدا بنی اسرائیل  کے ساتھ تھا اور اس کے ساتھ ہماری طرف سے بھی جواب سن لیجئے کہ جب آرمینیا میں مسیحیوں پر نا گفتہ بہظلم سلطنت عثمانیہ کی طرف سے ہوا تب خداوند عیسائیوں کے ساتھ تھا اور یہاں ہندوستان مین جب محمدی لوگ عیسائی واعظوں کے ساتھ سخت و سست گفتگو کرتے اور اُن کو حقیر  جانتے اور جب تم خود نوید جاوید میں اور تمہارا خدا قرآن  میں مسیحی مذہب کے بابت زہر اُگلتے ہو تب خدا مسیحیوں کے ساتھ ہے دیکھو متی ۲۸: ۲۰ خداوند مسیح نے فرمایا مین زمانے کے تمام ہونے تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں۔ آمین۔

کیدار ناتھ

Taftishul Auliya

Sufi Saints in Islam

تفتیش الاولیا

یہ کتاب  صوفیہ  اور ان کے تصوف اور ان کے ولیوں کی کفیت  کے بارے میں


پادری مولوی عماد الدین لاہز

۱۸۳۰ - ۱۹۰۰


نےاس مراد سے لکھی ہےکہ اہلِ فکر صوفی اس سے فائدہ اٹھائیں

اور درمیان ۱۸۸۹ء

رلیجیس بک سوسائٹی کی منظوری سے
ریاض ہینڈ پریس میں طبع ہوئی


 

Dr. Imad ul-din Lahiz

اے تو جوسوتا جاگ اور مردوں میں سے اٹھ کہ مسیح تجھے روشن کرے گا۔

(انجیل  مقدس خط افسیوں ۱۴:۵)


Taftishul Auliya

Researches about Islamic Saints

An inquiry into the origin of Sufi Saints in Islam

By

Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900


Wake up, sleeper, rise from the dead, and Christ will shine on you.

Ephesians 5:15


 

فہرستِ مضامین تفتیش الاولیا
دیباچہ
۱۔ فصل زمانہ گذشتہ و حال کی کیفیت میں ۷
۲۔ فصل اسلام اور تصوف کے بیان میں ۹
۳۔فصل صوفی کی وجہ تسمیہ کیے بیان میں ۱۱
۴۔فصل اقسام صوفیہ کے بیان میں ۱۴
۵۔فصل ولی اور ولایت کے بیان میں ۱۷
۶۔فصل ان صوفی ولیوں کے اختیارات کے بیان میں ۱۹
۷۔فصل مجذوب ولیوں کے بیان میں ۲۰
۸۔فصل قلندروں کے بیان میں ۲۱
۹۔فصل سالکین کے بیان میں ۲۳
۱۰۔فصل ان ولیوں کے عہدوں کے نام بجب اختیارات ۲۵
۱۱۔فصل صوفی ولیوں کی مشابہت با نبیاء کے بیان میں ۳۰
۱۲۔فصل تقسیم عالم یا مقامات عالم کے بیان میں ۳۱
۱۳۔فصل معرفت کے بیان میں ۳۲
۱۴۔فصل شریعت طریقت حقیقت کے بیان میں ۳۳
۱۵۔فصل یقین کے بیان میں ۳۵
۱۶۔فصل وحدت وجودی اور شہودی کے بیان میں ۳۵
۱۷۔فصل اطوار تقرب صوفیہ کے بیان میں ۳۹
۱۸۔فصل علم سینہ اور سفینہ کے بیان میں ۴۲
۱۹۔فصل بیعت یعنی پیری مرید ی کے بیان میں ۴۳
۲۰۔فصل تصورِ شیخ کے بیان میں ۴۴
۲۱۔فصل نفی اثبات کے بیان میں ۴۵
۲۲۔فصل حبس کے بیان میں ۴۶
۲۳۔ فصل روزوں اور شب داریوں کے بیان میں ۴۷
۲۴۔فصل چلہ کشی کے بیان میں ۴۸
۲۵۔فصل صوفیہ کے ورد وظائف کے بیان میں ۴۹
۲۶۔فصل نقشبندیہ کی بعض اصطلاحات کے بیان میں ۵۰
۲۷۔فصل لطائف خمسہ کے بیان میں ۵۲
۲۸۔فصل حلقہ اور توجھ کے بیان میں ۵۳
۲۹۔فصل مراقبہ کے بیان میں ۵۵
۳۰۔فصل شجروں اور اجازت کے بیان میں ۵۶
۳۱۔فصل صوفیہ کے بعض خاص دعوؤں کے بیان میں ۵۷
۳۲۔فصل تناسخ کے بیان میں ۵۸
۳۳۔فصل صوفیوں کی وہ کیفیت جو اب ہے ۶۲

 

دیباچہ

پیروں کے نام لیتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ ہمارے درمیان ایسے ولی اللہ ہوئے ہیں۔اور جب مسیح خداوند کے معجزوں کا بیان سنتے ہیں تواپنے پیروں کی کرامتوں کاایسا ذکر کرتے ہیں کہ گویامسیح کے معجزوں سے زیادہ تر قدرتیں اور تاثیریں ان کے پیرو  ں سے ظہور میں آئیں ہیں بلکہ پیغمبروں کے معجزے ان کےولیوں کی کرامتوں کے سامنے حقیر ہیں۔ان لوگوں نے نہ پیروں کو پہچانا  نہ پیغمبروں  کو نہ کرامتوں اور معجزوں کی ماہیت کو سمجھا۔

یہ تو اندھی اونٹنی کی مانند دنیا  کے  جنگل میں چرتے ہیں۔میرے ساتھ ایسے لوگوں کی بہت باتیں ہوئیں اورہوا  کرتی ہیں کیونکہ ایک وقت تھا کہ میں ان میں سے تھا۔اس لئے میں ان کے خیالوں کو سمجھتا اور پہچانتا ہوں۔کہ وہ کس رنگ میں ہیں یہ لوگ صوفیہ مشرب کے ہیں۔

اور مجھے معلوم ہے کہ ان میں بکواسی اور متعصب  اور قبر پرستی کےسبب مردہ دل لوگ بہت ہیں تو بھی بعض شخص اُن میں خدا کی قربت کے طالب ہوتے ہیں۔اوران کے اخلاق بھی اچھے ہوتے ہیں۔اور وہ دنیا کے کسی فرقے کے ساتھ عداوت نہیں رکھتے بے تعصب ہو کر صلحٔ  کل کا دم بھرتے ہیں۔اور حصولِ قربتِ  الٰہی  کی غرض سے بڑی ریاضتیں اور  مشقتیں خفیہ طور پر کرتے ہیں۔اور یہی خوبی ضرور اُن بعض میں ہے۔لیکن افسوس کہ وہ سادہ لوح اور فریب خوردہ غلطی میں پھنسے ہوئے  بے راہ چلے جاتےہیں۔اگرچہ بعض میں تحقیقات کی طاقت ہے۔لیکن عادت نہیں اور بعض میں طاقت ہی نہیں ہے کہ از دخود دریافت کرکے  غلطی کو چھوڑیں اور درست طور کو اختیار کریں تاکہ فی الحقیقت سچے خدا کی رفاقت اور قربت حاصل ہواوروہ سچ مچ ولی اللہ ہو جائیں۔

اور یہ ہی ظاہر ہے کہ اس ملک میں  اب تک خدا کی پاک کلیسیا کی طرف سے ان کو ا یسی کتاب نہیں دی گئی کہ جو ان کے خیالوں کوہلائےاور ان کو زندہ خدا  کی طرف بلائےاور ان کے خیالوں میں روشنی کا باعث ہواوراُس جنجال  کو جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں سلجھائےاوران کئے گور کھ دھند ے کو ہلائےاور ان کی غلطیوں کو ان پر ظاہر کرکے ان کے سامنے راہ راست کو پیش کرے۔شاید ان میں کچھ جانیں اور ہلاک ہونے سے بچیں۔

لہذا میں نے ارادا کیا کہ ایک مختصر کتاب ان کے لیے لکھوں جن میں خاص ان باتوں کا ذکرہوجو اس بارہ میں تنقیح طلب ہیں اور فضول باتوں کا کچھ ذکر نہ ہو۔پس میں نے اس کتاب کو لکھ دیا اور اس کا نام  تفتیش الاولیا رکھا کیونکہ اس میں صوفیوں کے ولیوں کی تفتیش ہوئی ہے۔کہ وہ کیسے لوگ ہیں اور ان میں کیا کچھ ہے ؟خدا کرے کہ سب صوفی اسےغور سے پڑھیں اور فائدہ اٹھائیں۔وبااللہ اتوفیق۔

۱ ۔پہلی فصل زمانہ گزشتہ وحال کی کیفیت میں

ہر  عقل مند آدمی کو اسبات میں کچھ شک و شبہ نہیں کہ زمانۂ گزشتہ  میں درمیاں خیالات مردم دنیا کے خصوصاً غیراقوام کے درمیان سخت اند ھیرا تھا اور اِس وقت دنیا میں بہت روشنی اور تھوڑا  اندھیرا ہے۔بعض اندھیرے کے اسباب باانتظام خدا رفتہ رفتہ اٹھ گئے ہیں اور  اٹھتے  چلے جاتے ہیں۔

گزشتہ زمانے کی نسبت اب لوگوں کے تجربات بڑھ گئےہیں۔اب ہمیں وہ باتیں معلوم ہو گی ہیں۔جو کہ پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں۔اگلے زمانے میں اپنے اپنے ملک کے درمیان گھرے ہوئے بیٹھےتھےدور دراز کے ممالک  کے باشندوں سے خط و کتابت اور ملا قات کا موقع نہ تھا کہ آپس میں خیالات کو مقابلہ کرکے صحیح و سقیم میں امتیاز کرسکتے۔اب یہ موقع خوب حاصل ہے۔

اگلے زمانے میں چھاپہ خانے نہ تھےاور یہ حکمت آدمیوں کو معلوم نہ تھی۔پس وہ اپنے اپنے خیالات کی کتابیں اپنی زبان میں بمشکل قلم  سے لکھا کرتے اور لکھواتے  تھے۔ اور  بہت سے دقت سے تھوڑے نسخےموجود ہوتے تھے۔اور بڑی قیمت سے بکتے تھے۔اب کتابیں عام ہو گئی ہیں۔

اگلے زمانے میں پڑھنے لکھنے کا عام رواج بھی نہ تھا۔ہزاروں جاہل اشخاص ان پڑھ ہوتے تھے۔اور عالم فاضل تو بہت ہی تھوڑے ہوتے تھے۔اور  وہ بھی صرف اپنے ملکی خیالات کے عالم ہوا  کرتے تھے۔نہ  جہان کی باتوں سے آگاہ اور سب جاہل ہدایت کے لیے ان کے منہ کی طرف تاکتے تھے۔اب یہ باتیں دفع ہو گئیں۔ڈاک اور ریل اور تار اور مدرسوں مطبعات اور کثرت کتب اور اخبارات اور تعلیم عام اور ملکی اسن چین وغیرہ سے دنیا کا رنگ ہی بدل گیااورروشنی کازمانہ آ  گیا ہے۔

 گزشتہ تاریکی کے عہد میں ہر ہر ملک کے  لوگوں میں سےبعض چتر آدمیوں نے بقدر اپنی اپنی فہمید کے دین و دنیا کے انتظام کے لیے کچھ کچھ مذاہب اور دستورات جاری کرلیے ہیں جنہیں اس وقت کچھ باتیں صحیح اور منا سب اور غلط اور غیر مناسب نظر آتی ہیں۔بلکہ اس روشنی کے زمانے کے درمیان مذاہب اور دستورات دنیا کے عجیب کہلبلی مچی ہوئی ہے۔بعض اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر دوسرے مذہبوں میں چلے جاتے ہیں۔بعض اپنے قدیم مذہب کی مرمت کرتے ہیں۔بعض لا مذہب ہو بیٹھتے ہیں اور  بالکل جھوٹ بولتے ہیں۔کہ ہم اپنے قدیم مذہب پر ہیں۔جب کہ قدیم خیالات و دستورات چھوڑ دیا ہے ۔ ہاں بعض ہیں جوکہ بےفقری سے لیکر کے فقیر ہیں۔

اب فکر کیجیے  کہ یہ کہلبلی دنیا میں کیوں پڑی ہے۔اسی روشنی کے سبب جو کہ اب دنیا میں آگئی ہے۔ان   لوگوں نے اپنے مذاہب قدیمہ کے درمیان اس روشنی کی کچھ غلطیاں دیکھیں اور ان کی تمیز نے انہیں بے چین کیا۔تب سے وہ کچھ حرکتیں کرنے لگے ہپں۔

یہودی اور عیسائی دین کی کتابیں بھی اسی تاریکی کے عہد میں لکھی گئیں تھی ۔لیکن اس روشنی کےزمانے میں وہی ایک عیسائی دین ہے ہر منصف اور عاقبت اندیش آدمی کے خیال میں قائیم رہ سکتا ہے اور بغیر اس کے وہ کہیں تسلی نہیں پاسکتا۔بلکہ جس قدر یہ روشنی دنیا میں زیادہ بڑھتی ہے۔اُسی قدر زیادہ زیادہ اس دین کی خوبی ظاہر ہوتی جاتی ہے۔یہ دین تمام دنیا کی حدوں تک دوڑ گیااور اس دین کی اصل کتاب یعنی بائبل شریف دو سو پچاس زبانوں سے زیادہ میں ترجمہ ہو کر عام ہو گئی۔اوریوں اس دین کا مقابلہ دنیا کے تمام مذاہب کے ساتھ خوب ہو گیااور ہو رہا ہے۔ اس نے دنیا کے سب مذہبوں کو گرا دیا ہےاور کوئی دنیا کا مذہب اس پر غالب نہ آیااور نہ آسکتا ہے۔اس لیے کہ یہ خدا سے ہے۔اگرچہ اس عہد تاریکی میں جاری ہوا۔مگر خدا سے جاری ہواتھا لہذا اس عہدِروشنی میں قائم اور مضبوط رہتا ہے۔اہلِ دنیا کے مذاہب انسانوں سے تھے اس لیے وہ شکست کھا گئے۔لیکن خدا کی ڈالی ہوئی بنیاد محکم ہے اسےا بد تک جنبش نہ ہو گی۔اور وہی عیسائی دین ہے۔

ہاں  بعض دنیاوی عقلمندوں نےاس دین کا بھی بڑی سختی سے مقابلہ کیا ہےاور اس پر کچھ اعتراض کیے ہیں۔کیونکہ کوئی بات خواہ حق ہو یا نا حق  لوگوں نے بغیر اعتراض کیے نہیں چھوڑی خدا کی پاک ذات پر بھی ملحدوں نے اعتراض کیے ہیں۔لیکن صرف اعتراضوں سے کوئی بات باطل نہیں ہو سکتی ہے۔جب تک کہ واجبی اعتراض  اس کو کہا نہ جائے۔دیگر مذاہب پر جو اعتراض ہوئے ہیں وہ ان پر کیے گئے ہیں۔مگر مسیحی دین پر جو اعتراض ہوئےہیں وہ اسے باطل نہیں کرسکتے۔بلکہ الٹے معترض کی حالت پر واقع ہوتے ہیں۔

 ہم لوگ جو عیسائی ہیں اور خود کو خدا اور اپنی تمیزوں کے سامنے باانصاف سمجھتے ہیں ۔ہم نے اپنی باتوں پر حتٰی المقدور  باانصاف فکر کیا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جن اصولوں پر دینِ عیسائی قائم ہے۔ان کا ماننا ہر فردِ بشر پر اس روشنی کے زما نہ میں بھی زیادہ تر فرض ہےاور جن اصولوں پر قائم ہو کر ہمارے مخالف بولتے ہیں وہ اصول عقلاً باطل اور مکروہ ہیں۔اس لیے ان کے اعتراض بھی نالائق ہوتے ہیں اور  ہمارے دلوں میں سے دین عیسائی کو ہلا نہیں سکتے۔پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مخالف شکست خوردہ ہیں اور دین ِ عیسائی فتحمند ہے ہر قسم کے مخالف پر یعنی دنیاوی مذاہب  کے خیالات پر اور تمام جسمانی و روحانی بد خواہشوں پر اور سب اہل الحاد پر بلکہ تمام ظالم بادشاہ ہوں کی تلواروں پر اور سب سلیم الطبع عاقبت اندیش آدمیوں کے دلوں میں بھی ۔

 چار لفظ عہدِ عتیق میں ایسے ہیں۔جن پر اس وقت فکر کرنا چاہئے ۔اول اندھیرا۔ دوئم موت  کاسایہ ۔سوئم چراغ۔چہارم آفتابِ صداقت پہلے ساری دنیا میں اندھیرا تھااورموت کے سائے میں سب بیٹھے تھے۔لیکن یہودیوں پر موت کا سایہ نہ تھا۔ان پرمسیح کا سایہ تھاکہ جو زندگی ہے وہ اس کےنمونوں میں تھے۔ہاں کچھ کچھ اندھیرا ان پر بھی تھا۔مگرایسا جیسا رات کو چراغ آدمیوں کے اردگرد ہوتا ہے۔کیونکہ ان کے پاس خدا کا کلام تھا۔جو کہ چراغ کی مانند تھااوراس چراغ  کو روشنی میں یہ دکھلایا  گیاتھاکہ آفتابِ صداقت نکلنے والا ہے۔اور وہ سارے جہان کو روشن کرے گا۔سچائی کے اظہار سے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا مسیح  کی روشنی سے کہ وہ آفتابِ صداقت ہے تمام دنیا میں دھوپ سےکہل گئی ہےاور ہر برائی بھلائی تمام دنیا میں نظر آتی ہے۔سچی باتیں اور جھوٹی باتیں۔آشکارا ہو گئیں ۔بھلے برُے آدمی بھی پوشیدہ نہ رہے ۔پس یہ وقت خدا کے وعدے کے مطابق آیا ہے اورآتا چلا جاتا ہے۔تاریکی اور موت کے نیچے سے نکلنے کا وقت ہی وہ زمانہ ہے کہ اب ہر  کوئی اپنے خیالات کواور اپنے مذہب کی باتوں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی انجیل کے سامنے لائے اور بطلان و سچائی میں امتیاز کرے۔اگر اس کے پاس انجیل سے بہترکوئی چیز ہےوہ اسے تھامے رہے۔اور ہمیں بھی دکھلائےاور اگر اس کے پاس محض بطلان  اوردھوکا ہے تو وہ گمراہی میں کیوں مرنا چاہتا ہے۔اپنی جان  پر رحم کرے اور غلطی میں سے نکلے ۔

صوفیوں کو بھی اِس وقت مسیح کی روشنی میں  اپناتصوف اور سلوک لے کر حاضر ہونا واجب ہے اوریہ دیکھنا کہ ان کے پاس کیا کچھ ہے۔لیکن وہ صاحب اب تک گوشوں میں بیٹھے ہو ئے ہُوحق کرتے  ہیں اوراپنی خانقاہوں اور مردوں کی قبروں پر سے اٹھ کر زندگی کے درخت کا پھل کھانے  کو باہر  نہیں آتے میں چاہتا ہوں کہ انہیں ہوشیار کروں اور دائمی استغراق میں سے نکلال کر زندگی کی روشنی میں لاؤں۔میرے بھی بعض بزرگ ہم جد ہیں ۔جو صوفی ہیں ۔اور بہت سے شریف زادے ہیں۔جو اس تصوف کی آفت میں مبتلا ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی مدد کرےاور انہیں حیات ِ ابدی میں شامل کریں۔ 

Pages