November 2016

۱۲ ۔فصل تقسیم عالم یا مقامات عالم کے بیان میں

 صوفی لوگ جہان کو چار حصوں یامقاموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان مقاموں کے نام یوں رکھے ہیں۔اول ناسوت۔ دوئم جبروت۔سوئم ملکوت۔ چہارم لاہوت۔

 ناسوت عالم اجسام یعنی اس دنیا کو کہتےہیں۔جبروت صفات الہیہ کی عظمت و جلال کے مقام کو کہتے ہیں۔ملکوت عالم فرشتگان یا عالم ارواح وعالم غیب وعالم اسماء کانام بتلاتے ہیں۔لاہوت ذاتِ الہٰی کا عالم ہے۔جہاں جا کر سالک فنافی اللہ ہو جاتا ہے۔یعنی مفرد ومجرد ہوتا ہے۔

 مراۃالاسرار میں لکھا ہے کہ مفردون ہمیشہ مقام لاہوت میں رہتے ہیں۔اور لفظ مقام اس جگہ مجازًاستعمال ہوتا ہے۔ورنہ لاہوت کوئی مقام نہیں وہاں جہات ستہ نہیں ہیں۔وہ تو صرف ذاتِ الٰہی کانام ہے ۔اس کے نیچے جبروت کا مقام ہے۔یعنی جبرو کسر کا مقام اور اس جگہ سے شش جہت کا انتظام شروع ہوتا ہےمعجزات و تصرفات اورتیرا میر بولنااور یہ اور وہ کا لفظ یہاں استعمال ہوتا ہےاور یہ خدا کے تخت کامقام ہے۔اور اس جگہ سے لے کر زمین کی خاک تک قطب عالم کا تصرف مانتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ لاہوت میں جبروت کا خیال کفر ہے۔وہ لوگ جو لاہوت میں پہنچتے ہیں مقام جبروت میں واپس آکر معجزات وغیرہ کیا کرتے ہیں۔اور اس وقت وہ لوگ لاہوت سے گرے ہوتے ہیں۔

 عبدالرزاق کاشی سے منقول ہے کہ لاہوت صوفیہ کے نزدیک وہ حیات ہے جو تمام اشیا میں سرایت کیے ہوئے ہے۔اور مقام ناسوت اور روحِ انسانی اس لاہوت کا محل ہے۔اسی مضمون پر کسی صوفی کا یہ شعر ہے۔

روح شمع وشعاع اوست حیات   خانہ روشن ازو داو از ذات

 میں کہتا ہوں کہ اگرچہ عام صوفی لفظ جبروت سے عالم جبرع کسی مراد لیتے ہیں تو درحقیقت لفظ جبروت جبر سے مبالغہ ہے۔جس کے معنی ہیں بڑی زبر دستی اور بڑی بلندی پس خدا کی وہ شان جس سے وہ سب چیزوں حکومت اور بلندی رکھتا ہے اسی شان کانام جبروت ہے۔اور وہ ذات پاک جس کی وہ شان ہےاسی کا نام لاہوت ہے۔پس لفظ جبروت سے صفات قدیمہ پر اور لفظ لاہوت سے ذات پاک پر اور لفظ ملکوت سے عالمِ بالا پر اور لفظ ناسوت سے عالم ِ اجسام پر اشارہ ہوتا ہے۔اور اس نشان پربظاہر کچھ نقصان نہیں ہے۔البتہ وہ کیفیتیں جو ان مقاموں میں صوفیہ نے اپنی عقل سے اپنے ولیوں کے لیے  فرض کی ہیں کہ یہاں یہ ہوتا ہے۔اور وہاں وہ ہوتا ہے۔اس کا ثبوت بدلیل ان کے ذمے ہے۔میں ان کے اس بیان کو محض وہم سمجھتا ہوں۔

۱۳ ۔فصل معرفت کے بیان میں

لفظ معرفت بمعنی شناختیں اگرچہ چند معنی میں اہل علم نے استعمال کیا ہے۔لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں خدا کی ذات وصفات کی پہچان کا نام معرفت ہے۔اور یہ صحیح و درست بات ہے کہ خدا کی ذات و صفات کی شناخت معرفت ہے۔لیکن بحث اس میں ہے کہ آیا صحیح معرفت الٰہی کہاں سے ہے،اور کیونکر حاصل ہوتی ہے؟اور کہ صوفیہ نے کیا  معرفت حاصل کی ہے؟وہ خدا کی نسبت کیا کچھ سمجھتے ہیں؟اوردانشمند طالب حق کا فرض ہےکہ ان باتوں پر فکر کرے۔

 ہم جو مسیحی ہیں ہم بھی معرفت کی عزت کرتے ہیں۔اورمعرفت میں ترقی کے در پر ہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام جہان کےعلوم کاحاصل یہی ہوناچاہیے  کہ آدمی اپنے خالق کو پہچانے اور ہم صاف کہتے ہیں کہ جس نے سب کچھ سیکھا اور خدا  کو نہیں پہچاناوہ اب تک جاہل ہے۔

 فی الجملہ خدا شناسی تو عام لوگوں کو حاصل ہےکہ وہ خدا کے وجود کے قائل ہیں۔لیکن اتنی خدا شناسی کافی نہیں ہے۔ضرور ہے کہ سب آدمی آگے بڑھیں اوراس قدر بڑھیں کہ نہ صرف کی ذات وصفات پر ہی بس کریں بلکہ اس کی مرضی اور ارادہ کو دریافت کرکے اور اس کے مناسب کام کرکے اس کی رضامندی اپنی نسبت حاصل کریں۔پس وہ معرفت جو کہ صوفیہ نے حاصل کی ہےوہ کہاں سے ہے؟کچھ قرآن سے ہے ۔تو بھی بطریق  تحریف معنوی  کے کچھ حدیثوں سے ہے۔سو بھی اکثر ضعیف اور وضعی حدیثوں سے کچھ اپنے بزرگ صوفیہ اقوال میں سے ہے۔کچھ اہلِ فلسفہ کے خیالات میں سے ہے۔کچھ بعض شعرا کے اشعارمیں سے ہے۔ ان کی معرفت کے ماخذ ہیں۔ناظرین انصاف سے کہیں کہ کیا یہ چیزیں اس لائق ہیں کہ دانش مند آدمی اپنی روح کو ان باتوں کے حوالے کردے؟ہر معتبر جگہ سے  جو باتیں سامنےآتی ہیں۔وہ اس روشنی کے زمانے میں مقبول نہیں ہوسکتی ہیں۔

 پھر صوفیوں نے اور ان کے ولیوں نے کیا معرفت حاصل کی ہے  اوران کے خیالات میں کیا کچھ بھر گیا تھا؟جو کچھ ان کے خیالوں میں بھر گیا تھا تصوف کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہیں۔اور ہم نے ان  کی کتابوں کو پڑھ کر معلوم کر لیا ہے کہ اُن کے خیالوں میں کیا تھا؟اورجو کچھ ان کے خیالوں میں تھا وہی کچھ ان کی معرفت تھی۔سب سے عمدہ اور معبتر اور مسائل معرفت کی جامع کتا ب ان میں مولوی روم کی مثنوی ہے۔جس کی عبارت فصیح اور مضامین اکثر جید ہیں اور اس کی نسبت یہ شعر درست ہے۔

مثنوی مولوی معنوی   ہست قرآن درزبان پہلوی

لیکن  اس میں اور تمام کتب تصوف  میں قریب دو ثلث کے ایسے مضامین درج ہیں جن کو زمانہ حال کی روشنی غلط بتلاتی ہے۔البتہ بعض باتیں صحیح اوردرست بھی ہیں۔لیکن  بعض بڑے بڑے اصول محض غلط ہیں۔مثلاً ہمہ اوست وغیرہ۔اور میں یہ کہہ چکا ہوں کہ جو کچھ اس کے خیالوں میں تھاوہی ان کی معرفت تھی۔پس ان کی معرفت میں دیکھو کہ کہاں تک غلطی تھی۔اور اس کا سبب یہی ہوا کہ ماخذ معرفت ناقص تھا۔اس لیے ناقص معرفت حاصل ہوئی جس کا بطلان اب ظاہر ہو گیا۔پس سوچو کہ وہ لوگ اب غلط خیال  لے کراپنی روحوں میں کدھر گئے ہوں گے۔

 جو معرفت صوفیہ نے اپنی  کتب تصوف سےحاصل کی ہے۔اور جو معرفت ہندوں نے ویدوں اور شاستروں ویراگ سےحاصل کی ہے۔اور جو معرفت قلندروں نے اپنے مشرب قلندریہ اور عشقیہ نعرہ زنی سے حاصل کی ہےاور جو جو باتیں یہ جدید مذاہب والے لوگ اپنے خیالات سے پیدا کررہے ہیں۔یہ سب تنگ و تاریک اور پُر خطر اور بے تسلی ہیں۔کیونکہ وہ سب ایسی راہیں ہیں کہ انسان نے اپنے سے خدا تک نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔عقل کہتی ہے کہ ایسی راہوں سے آدمی  خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔کیونکہ وہ خدا کو نہیں جانتا۔

 انسان خود سے خدا تک راہ نہیں نکال  سکتاہاں خدا خود سے انسان تک راہ نکال سکتا ہے۔اور اس نے راہ نکالی بھی ہے۔کیونکہ اس نے دنیا کے شروع سےپیغمبروں کو بھیجا کہ اہلِ دنیا کے معلم ہوں اوراس نے پیغمبروں کے وسیلے سے الہام سے بائبل مقدس  کو لکھوایاکہ آدمیوں کے ہاتھ میں معرفت الٰہی کا دفتر ہو۔اور وہ اپنی روح سے طالبان حق کے لیے ہدایت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہااور اب بھی تیار ہے۔

 پھر جن لوگوں نے پیغمبروں کو مانا اور بائبل سے معرفت حاصل کی ان کے خیالات بھی  کلیسیا  کے دفتر میں مرقوم ہیں۔اب اگر کچھ علم اور کچھ  عقل اور کچھ انصاف رکھتے ہو تو اٹھوں اور اپنی معرفتوں کو اس معرفت کے ساتھ مقابلہ کرو کہ جو بائبل سے ہےتب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ جو معرفت بائبل سے ہے وہ وہ نہایت لمبی چوڑی ،اونچی ، گہری،روشن اور پر تسلی اور زندگی بخش چیز  ہے۔اور تمام دنیاوی مصنوعی معرفتوں پر ایسی غالب ہے جیسے اللہ تعالیٰ سب چیزوں پرغالب ہے۔

 خدا کی ذات پاک کا صحیح علم۔اور اس کی صفات قدیمہ کا صحیح بیان اور اس مرضی اور ارادوں کا ذکر۔اور اس کے گذشتہ  عجیب کاموں اور انتظاموں کا تذکرہ۔اور اس کے ان عجیب  کاموں اور انتظاموں کا بیان جو ہر روز دنیا میں نظر آتے ہیں۔اور اس کی جلیل حکمت اور پیش بینی کی کیفیت وغیرہ باتیں جس قدر بائبل سے معلوم ہوتے ہیں۔ساری دنیا میں کوئی کتاب نہیں ہےکہ ان امور کا ایسا بیان کرے۔

 لیکن بائبل کو پڑھنا اور سیکھنا چاہئے اس کے ہر ایک لفظ پر غور کرکے اور ہر لفظ کے نیچے جو قادیق مندرج  ہیں کہ اس لفظ کی روشنی میں اور عرفان بائبل الٰہی روح کی مدد سے دریافت کرکےاپنی کتابوں میں لکھے ہیں۔ان سب کو دریافت کرکے پڑھنے کانام بائبل مقدس  کا پڑھنا ہے۔

 کیونکہ کسی شے کی پوری کیفیت اسی وقت معلوم ہوتی ہےجب اس کی خوبی اور برائی میں خوب غور کی جاتی ہے۔ایسا ہی معاملہ ویدوں اور قرآن وغیرہ کے سا تھ بھی برتنا واجب ہے۔تاکہ کسی کی نسبت کوئی امر حق تلفی کا وقوع میں نہ آئے۔عوام الناس کو ایسی تکلیف نہیں دی جاتی۔وہ اپنی لیاقت اور طاقت کے مناسب جو کچھ کلام متن سے سیکھتے ہیں وہ معرفت ان کی نجات کے لیے مفید  ہے۔لیکن وہ جو معرفت میں ترقی چاہتے ہیں اورلیاقت و طاقت اور ہمت بھی رکھتے ہیں۔انہیں ضرور ہے کہ اس انتہا مہر معرفت میں غوطہ زنی کرنے کی تکلیف کو گوارا کریں۔تاکہ حقیقی معرفت کا لطف  حاصل ہواورانوارِ الٰہی سے منور ہو جائیں مسیحی اولیا اللہ نے ایسا ہی کام کیا ہے۔

 حاصل کلام  یہ ہے کہ حقیقی معرفت صرف بائبل سے حاصل ہوتی ہےاور مسیحی ولیوں کو حاصل ہوئی ہےاور بائبل میں مندرج ہے۔اور پیغمبروں سے پہنچی ہے۔لیکن وہ معرفت جو تصوف وغیرہ سے ہے وہ نادانی کے خیالات ہیں جو اڑ گئے اور اڑتے جاتے ہیں۔اور وہ جو اس پر فریفتہ ہیں آخر کو شرمندہ ہوں گے۔اورہائے افسوس ؛کہیں گے۔کیونکہ انہوں نے خدا کے کلام کو ذلیل  اور حقیر سمجھا۔اور اس پر توجہ نہ کی مگر انسانوں کی باتوں  کو مفید اور معتبر قرار دیا تھا۔اس کی سزا خدا کی عدالت میں اٹھانی ہو گی۔

۱۴ ۔ فصل شریعت طریقت حقیقت کے بیان میں

مشرعت الما ۔ نہر کے گھاٹ کو کہتے ہیں۔پس پانی پر جانے کی راہ کو شرع یا شریعت کہتے ہیں پھر دین کی راہ کا نام شریعت پڑ گیاہےکیونکہ وہ بھی انہا رجنت پر جانے کی راہ ان کےگمان میں ہےمحمدی لوگ اسلام  کی راہ کو شریعت کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر پیغمبر ایک شریعت لایا ہے۔لیکن یہ ان کا  خیال غلط ہےخدا کی طرف سے صرف دنیا میں ایک ہی شریعت آئی ہےجو موسیٰ لایا ہےاور سب نبی جو پیدا ہوئےاسی کے خدمت گزار تھے اس مفصل شریعت کا خلاصہ خدا نے ہر انسان کے دل میں ید قدرت سے لکھ رکھا ہےاور وہ یہ ہے کہ سب چیزوں سے زیادہ خدا کو اور اپنی جان کے برابر بنی نوع انسان کو پیار کرناچاہیے۔اب خواہ اس کے موافق ہویا نہ ہو مگر سب کا دل اس بات کو مانتا ہےمگر صوفیہ کی بولی میں ظاہری راہ و رسوم مقررہ اسلام کانام شریعت ہے۔گویادین داری کی صورتِ ظاہری کو وہ شریعت سمجھتے ہیں۔

 طریقت یہ لفظ طریق سے ہےجس کے معنی ہیں عام راستہ ہر کہیں جانے کی راہ کو طریق کہتے ہیں اور یہ لفظ طریق سے بنا ہے۔جس کے معنی ہیں کوٹنااور طریق بمعنی مطروق ہےیعنی کوٹا ہوا۔یعنی راہ جس کو آدمی اپنے پیروں کے چلنے سے کوٹتے ہیں۔صوفی سمجھتے ہیں کہ شریعت عام راہ ہے۔اور طریقت خاص راہ ہےخداسےملنے کا۔اوروہ ان کے تصوف کی چال ہےاس صورت میں محمدی شریعت سے ان کا تصوف افضل ٹھہرا۔بعض محمدی عا لموں نے اس مشکل کے دفع کرنے کو یوں کہا ہے کہ دین کی ظاہری صورت شریعت ہےاوراس کی باطنی جان طریقت ہے۔یہ بھی ان کی غلطی ہے۔وہ دین کی باطنی جان کس کو کہتے ہیں؟آیا اس کیفیت کو جو محمدی اہلِ شرع کی باطنی کیفیت ہے یا اس کیفیت کو جوصوفیہ کے ولیوں کی باطنی کیفیت تھی یہ  تودو کیفیتیں جدا جدا صاف عقل سےنظر آتی ہیں۔  اور طریقت کا لفظ صوفیہ کا ہے۔جو انہوں نے اپنے سلوک کی چال کی نسبت استعمال کیا ہے۔اور شریعتِ محمدی سے افضل اور خدا سے ملنے  کی خاص راہ سے اس کو بتلایا ہے۔ اس لیے وہ شریعتِ محمدی کی خاص باطنی جان نہیں ہے۔بلکہ وہ جدی بات ہے۔جو صوفیہ لائے ہیں۔

 حقیقت یہ لفظ حق سے  ہےیعنی سچائی ۔کشف اللغات میں لکھا ہے کہ حقیقت نزد صوفیہ ظہور ذات حق است بے حجاب تعینات و محو کثرات موہومہ در نور ذات۔پس یہ ہمہ اوست کا مقام ہے۔جو کفر کی بات ہے۔اگر  کفر کی بات حقیقت ہے تو کافر حق پر ہیں۔افسوس کہ یہ تینوں لفظ شریعت ،طریقت اور حقیقت کیسے ذلیل اورمکروہ کردئیےاپنے داہی تباہی معنی سے۔کیونکہ اگر شریعت  صرف ظاہری راہ و رسوم کا نام ہے تو یہ ایسی  چیز ہوئی  کہ جیسے مردہ لاش ہوتی ہے۔جس میں جان نہیں ہوتی۔اور طریقت نام اس تصوفی راہ  کا جو  کہ علوم اسلام سے خارج ہے۔اور حقیقت نام ہے ہمہ اوست  کے خیال کا جو باطل خیال ہےاور طریقت سے حاصل ہوتا ہے۔اب صوفیہ کے پاس کیا خوبی رہ گئی؟شریعتِ محمدی کو مردہ سمجھ کر پھینک دو اورطریقت کو اس لیے پھینک دو کہ اس سے حقیقت یعنی حماقت حاصل ہوتی ہے۔پھر صوفی تو بالکل خالی رہ گئے۔ایک صوفی بزرگ نےکہا ہے کہ شریعت نفس انسانی سے علاقہ رکھتی ہےاور بہشت میں پہنچاتی ہے۔طریقت دل سے علاقہ رکھتی ہے اور  وہ خدا سے ملاتی ہے۔حقیقت روح سے علاقہ رکھتی اور روح کو مقام ہمہ اوست میں پہنچاتی ہے۔یعنی  خدا سے مل کر خدا ہو جاتے ہیں۔اس بیان پر  بھی وہی آیت آتی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہےمجمع السلوک میں لکھا ہے کہ

شریعت در نمازو روزہ بودن   طریقت در جہاد اندر فزودن
حقیقت روی درولدار کردن   نظر اندر جمال یار کردن

یہ بیان بظاہر عبارت تو بہت خوب ہے لیکن حاصل اس کا بھی وہی ہے۔جوصوفیہ کے اصول سے پیدا ہوتا ہے۔کہ ہمہ اوست میں جاکر دم لیتے ہیں۔ 

وہ بات اور ہے کہ جو ہم مانتے ہیں کہ رسمی شریعت مسیح میں مکمل ہو کر اپنی اصلی روحانی صورت میں آگئی ہے۔کیونکہ رسمی اور روحانی میں سایہ اور عین کی نسبت تھی لیکن یہا ں صوفیہ میں یہ تینوں جدا جدا باتیں ہیں۔اور ان میں مخالفت کی نسبت ہے کیونکہ یہ سب انسانی بناوٹیں ہیں۔     خدا کی ڈالی ہوئی بنیاد محکم ہےجو کہ بائبل اور مسیحیت ہے۔

۱۵ ۔فصل یقین کے بیان میں

جازم راسخ ثابت اعتقاد کانام صوفیہ کی اصطلاح میں یقین ہے۔اور وہ سمجھتےہیں کہ یقین کی تین قسمیں ہیں۔اول علم الیقین  یہ حاصل ہوتاہے کہ دلائل قطعیہ سےمثلاًبرہان یا خبر متواتر سے۔دوئم عین الیقین یہ حاصل ہوتا ہے۔آنکھ کے مشاہدے سے۔سوئم حق الیقین یہ  حاصل ہوتا ہے۔کسی شے کے حاصل کے ہونے سے بتواتر خبر ملی ہے کہ دوزخ اور بہشت موجود ہیں۔ جب ہم نے  اس خبر پر یقین کیا کہ تو یہ علم الیقین ہوااور آنکھ سے دوزخ اور بہشت کو جا کر دیکھ لیا تو یہ عین الیقین ہوااورجب دوزخ یا بہشت میں ڈالے جاتے ہیں تو تب حق الیقین ہوا۔

 میں سمجھتا ہوں کہ ان اصطلاحوں میں کچھ غلطی نہیں ہے۔یہ درست باتیں ہیں لیکن مجھے حیرانی اس امر میں ہے کہ ان صوفیہ کےعقائد اور خیالات تو علم ایقین کےرتبےسے بھی بہت نیچے گرے ہوئے ہے۔اور وہ  لو گ ہرگز برہان سے اور خبر متواتر سےاپنے عقائد کا ثبوت نہیں دے سکتےپھر وہ عین الیقین اور حق الیقین کا ان عقائد کی نسبت کیونکر دم بھرتے ہیں۔ان کے پاس صرف توہمات ہیں اور ان کانام یقینات انہوں نے رکھ چھوڑا ہے۔اچھی اچھی اصطلاحیں محمدی اہلِ شرع کے مقابلے میں جمع کی ہیں۔لیکن ان کے اندر کچھ زندگی اور خوبی نہیں ہے۔

۱۶ ۔فصل وحدت وجودی اور شہودی کے بیان میں

 سب بُری باتوں سے زیادہ اور خطر ناک اور نالائق بات صوفیہ میں یہ ہے کہ وہ سب کے سب بالا اتفاق وحدت الوجود کے قائل ہیں اور وحدت الوجود کے معنی کتب تصوف اور غیاث اللغات میں یوں مرقوم ہیں۔(وحدت الوجود باصطلاح متصوفین موجودات راہمہ یک وجود حق سبحانہ تعالے دانستن وجود باماسوا رامحض اعتبارات شمر دن چنانچہ موج وحباب و گرداب قطرہ و ژالہ ہمہ رایک آب پندآشتن)۔

 یہی ہمہ اوست ہے جس کے سب صوفی قائل ہیں اور تمام تصوف کی ساری عمارت اسی بنیاد پرقائم ہے۔ہاں بہت محمدی عالم اس کے قائل نہیں ہیں اور اس خیال کو کفر سمجھتے ہیں تو بھی صدہا بزرگ عالم محمدی جنہوں نے اسلام میں تسلی نہیں پائی اور ناچاری سے تصوف کی طرف جھکے ہیں اس نالائق خیال کی طرف مائل نظر آتے ہیں اور ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ اہلِ شرع کو بھی تھام رکھیں اور اس عقیدے کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ یہ عقیدہ اگر گمراہی ٹھہرے تو ان کے سب اولیا گمراہ ثابت ہوتے ہیں اور تسلی کی کوئی بات ان کے پاس نہیں رہتی     کیونکہ تمام قرآن میں تسلی کا تو کوئی مقام نہیں ہے۔صوفیہ کے گھر میں یہ ہمہ اوست خیال انہیں کچھ تسلی دیتا ہے۔

 صوفیہ کے سب خاندانوں میں نقشبندیہ خاندان زیادہ تر باشرع اور احتیاط کا گھرانا ہے۔اسی گھرانے کے مرید ہمارے شہر پانی پت کے ایک بزرگِ اعظم فاضل جلیل قاضی ثنا اللہ مصنف تفسیر مظہ 9 ری وغیرہ ہیں۔اور وہ مرزا مظہر جان جانان بزرگ دہلی کے مرید تھے۔مرزا صاحب کے تصوف کی ساری کیفیت ایک کتاب میں مندرج ہے۔جس کا نام معمولات مظہریہ 10 ہے۔ہندوستان میں جس قدر تصوف کی کتابیں لکھی گئیں۔یہ کتاب ان سب میں اعلیٰ رتبہ کی ہےاور قاضی صاحب نے اس کی صحت پر گواہی لکھی ہے۔وحدت الوجود کے مسئلے کی بابت اسمیں یوں مرقوم ہے۔(صفحہ ۱۰۲) صانع اور مصنوع میں عینیت ہےیا غیریت اس بارےمیں شرع ساکت ہےلیکن کاملیں پر یہ بے حد کشف سے ظاہر ہوا ہے۔مراد یہ ہے کہ کاملین نے کشف سے معلوم کیا ہے کہ عینیت ہے۔پس یہ ہمہ اوست کا اقرار ہوگیا۔

 پھر اس خاندان میں نامدار بزرگ ہوئے ہیں۔شیخ احمد سرہندی ہیں جنکو مجدد الف ثانی کہتے ہیں اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی ان کی بڑی تعریف شرح فتوح الغیب کے خاتمے میں لکھتے ہیں اور فی الحقیقت وہ صاحبِ علم اور سنجیدہ صوفی تھے۔ان کے مکتوبات ان کی لیاقت ظاہر ہے۔کہ محمدی دین کا علم ان کو پورا تھا۔

 انوار العارفین صفحہ ۴۷میں ان کا بیان یوں مرقوم ہےکہ حقائق الاشیا ثابتہ یہ معاملہ حواس سے علاقہ رکھتا ہے۔لیکن عارفین حواس عقلیہ سے آگے بڑھ گئے ہیں انہوں نے وہاں جا کر ہمہ اوست کا بھید پایا ہے۔پس ان بزرگوں کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ شرع محمدی کو بھی قائم رکھتے ہیں اور ہمہ اوست بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔

 یہ جو اوپر بیان ہو اہے کہ ہمہ اوست کا بھید حواس سے دریافت نہیں  ہوسکتا۔بلکہ حواس سے یہی ثابت  ہے کہ حقائق الاشیا ثابتہ لیکن یہ بھید کشف سے معلوم ہوا ہے۔اور کاملین حواس  سے آگے بڑھ گئے ہیں اور وہاں سے بھید کودریافت کرکے لائے ہیں۔یہ بات سادہ لوحوں کے دلوں کو خوش کرنے کے لیے کیا خوب معلوم ہوتی ہے۔فی الحقیقت دھوکا اور روحوں کی ہلاکت کے لیے زہر ہے۔

 جن اشخاص کو صوفیہ کاملین کہتے ہیں۔ہمیں ان میں کچھ کمال نظر نہیں آتااور جن باتوں کو وہ کمالات کہتے ہیں۔وہ ہمیں نقصانات معلوم ہوتے ہیں۔پھر ان باتوں کی نسبت جن کو وہ ان  کے مکاشفات کہتے ہیں۔حجت باقی رہتی ہے۔ہم کیونکر یقین کریں کہ وہ ان کے الٰہی مکاشفات ہیں؟کیوں نہ کہیں کہ توہمات ہیں۔جو قوت واہمہ سے نکلتے ہیں۔سچے اور جھوٹے نبیوں میں امتیاز کرنے کے لیےکچھ قواعدعقلیہ اور نقلیہ ضرور مقرر ہیں۔اوران قواعد سے جب کوئی سچا نبی ثابت ہوتا ہے توتب اس کی باتیں اس خیال سے مانی جاتی ہیں کہ  وہ خدا کا نبی  ہے۔یہ صوفی کون ہیں؟جن کو مکاشفے ہوتے ہیں۔اور حواس سے آگے بڑھتے ہیں۔اور وہاں سے جہاں حواس کا کام نہیں ہےکچھ لاتے ہیں۔ اوراپنے حواس میں رکھ کر لاتے ہیں۔ اور مریدوں کے حواس میں ڈالتے ہیں۔ان باتوں کو جو حواس سے ثابت نہیں ہو سکتیں اور وہ جو اہلِ حواس ہیں جنہیں خود مکاشفے نہیں ہوئےوہ ان کی تائد میں کوشش کرتے ہیں۔بلکہ ان کے آورد کو اپنے ایمان کی جگہ میں رکھتے ہیں۔

 ہمیں دنیا میں تین قسم کے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔بعض خداکے منکر ہیں مگر جہان کی ،موجودگی کے قائل ہیں۔کیونکہ جہان موجود نظرآتا ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہان کا وجود اور انتظام سب کچھ دہر یعنی زمانے سے ہےاور یہ لوگ دہریہ کہلاتے ہیں۔

بعض خدا کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دہر بھی خدا  کی خلقت میں سے ہیں۔ان لوگوں کی بھی دوقسمیں ہیں۔یعنی وہ جوخدا کے قائل ہیں۔دو طرح سے خدا کو سمجھتے ہیں۔ایک وہ ہیں جو ہمہ اوست میں خدا کو بتلاتے  ہیں۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ صانع اورمصنوع میں عینیت ہےنہ غیریت  یعنی خدا نے جہان کو اپنے ہی اندرسے نکالا ہےیاخدا خود جہان بن گیا ہے۔پس اس جہان  کی اور خدا کی ایک ہی ماہیت اور حقیقت ہوئی ۔قدیم زمانے کے مصری اور یونانی بت پرستوں کا بھی گمان تھا  اور ویدوں میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔قوم صوفیہ جو کہ بت پرست قوم تھی۔ان کو بھی قدیم بت پرستوں سے وراثتہً یہی خیال پہنچا تھا کہ وہی خیال محمدی صوفیوں میں اب تک چلا آتاہے۔اوراس میں متعصب ہوگئے۔وہ یہ  نہیں کہتے ہیں کہ ہم نے یہ خیال بت پرستوں سے لیا ہے۔ بلکہ عیب پوشی کے لیے کہتے ہیں کہ ہمارے کاملین کو مکاشفہ ہوا ہے۔بھلا صاحب  جب آپ لوگ دنیا میں نہ تھے۔تو کیا اس کا مکاشفہ اس وقت بھی بت پرستوں کو ہوا تھا؟یا ان کاعقلی خیال تھا جو کہ باطل تھا۔

 دوسرے وہ لوگ ہیں جو کہ ہمہ ازاوست کے قائل ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ صانع اور مصنوع میں غیریت ہے نہ عینیت اور کہ جہاں عدم سے وجود میں آیا ہے اور کہ خدا کی اور کچھ ماہییت ہےاور اشیا جہاں کی اور کچھ ماہیتیں ہیں۔اور یہ کہ حقائق الاشیا ثابتہ حق ہے۔حواس سے بھی اور مکاشفوں سے بھی۔

 ہم سب مسیحی اور یہودی جو کہ پیغمبروں کے پیروں ہیں۔اسی خیال کو مانتے ہیں ۔اور اکثر علمامحمدیہ بھی اسی خیال میں ہمارے ساتھ ہیں۔اور کلام اللہ کی بھی یہی تعلیم ہے۔لیکن وہ محمدی جو تصوف میں قدم رکھتے ہیں۔ہمہ اوست کا مہلک خیال جس سے خدا کی بے عزتی ہوتی ہے وہ نہیں چھوڑتے۔

اور یہ جو اوپر کہا گیا ہے شرع محمدی اس بارے میں ساکت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ قرآن میں ہمہ اوست کا خیال صاف صاف کہیں نہیں لکھا ہمہ ازوست کا خیال زیادہ تر بیان ہوا ہے۔صرف ایک مقام میں سورہ حدید میں ہےجس سے صوفی کچھ استدلال کرتے ہیں کہ هُوَ   الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ   وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہےلفظ ظاہر سے وہ اشیا دیدنی مرادلیتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ ظاہر ہے اللہ ہے لیکن علما محمدیہ اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ وہ بد لایل ظاہر ہے۔نہ بذات اور ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ  وہ بد لایل ظاہر ہے۔اہلِ ہمہ اوست کہتے ہیں کہ وہ بذات ظاہر ہے اسی کا نام شہود ہے۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد صاحب مفردوں میں سے تھےتو کیا تعجب ہے کہ ان کی مراد لفظ ظاہر سے وہی ہو کہ جو صوفی کہتے ہیں۔پھر یہ لوگ دو وصنعی حدیثیں سناتے ہیں۔کہ حضرت نے فرمایا کہ (انا احد بلامیم واناعرب بلا عین)یعنی میں احدا ور رب ہوں۔یہ تو کفر کے کلمے ہیں۔معتبر کتابوں میں ان حدیثوں کا ذکر نہیں ہے۔شاید صوفیہ نے بنائی ہوں۔

ہاں ایک حدیث اور ہے جو معتبر کتابوں میں مذکور ہے۔جس سے ہمہ اوست کا خیال حضرت کے ذہن میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ ہے کہ   يؤذيني ابن آدم؛ يسب الدهر، وأنا الدهر   اللہ کہتا ہے کہ انسان مجھے دکھ دیتا ہے۔اس لیے کہ وہ دہر کو گالی دیتا ہے۔اور میں خود دہر ہوں۔اس حدیث میں حضرت دہریوں کا مذہب ثابت کرتے ہیں۔اور اللہ کو دہر بتلاتے ہیں۔

 اور ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اگرچہ بظاہر یہ دو فرقے ہیں یعنی دہریے اور ہمہ اوست والے مگر فی الحقیقت حاصل ان کا ایک ہی ہے۔دہریہ کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے۔جو کچھ ہے یہ جہان ہے۔ہمہ اوست والے کہتے ہیں کہ خدا ہے مگر سب کچھ خدا ہے۔یہ تو ایک ہی بات ہوئی۔ دوعبارتوں میں پس جیسے دہریہ بے خدا ہیں۔ویسے ہیں ہمہ اوست والے بھی بے خدا ہیں۔

 ہمہ اوست کا خیال عقلی تجویز ہے۔سب پیغمبر  اس کے مخالف ہیں۔ہاں سب بت پرست اس کو مانتے ہیں۔پس اس کے ماننےوالا پیغمبروں کا ساتھی نہیں۔وہ بت پرستوں کا ساتھی ہے۔اور جو جس کا ساتھی ہےاس کا حشر اسی کےساتھ ہوگا۔تب صوفی قیامت میں بت  پرستوں کے ساتھ اٹھیں گے نہ کہ پیغمبروں کےساتھ۔

 ہمہ اوست کے خیال کی جڑ یہ ہے کہ بعض آدمیوں نے ایسا سمجھا کہ دینا میں ہر کاریگر جو کچھ بناتا ہے۔کسی مادے سے بناتا ہے۔بغیر مادے کے کوئی چیز کسی کاریگر سے نہیں بن سکتی۔خدانے جہان کو کیونکر بنایا ؟وہ مادہ کہاں سے لایا؟تب ان کے قیاس نے جواب دیا کہ مادہ خدا نے اپنے ہی اندر سے نکالا اور اس میں تصرف کرکےسب کچھ ظاہر کردیا۔پس سب کچھ اس میں سے ہے۔اس لیے سب کچھ وہی ہےیہی دلیل وحدت الوجود کی ان کے پاس ہے۔

 خدا کے پیغمبر جو خدا سے سن کر بو لتے ہیں۔کہتے ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے۔اس کی قدرت مطلق ہے۔یعنی آزاد اس کی قدرت کے لئے کوئی حد نہیں وہ کہیں رک نہیں  سکتی۔ورنہ وہ مقید قدرت ہوتی نہ  کہ مطلق۔پس اس قدرت سے اس نے جہان کو پیدا کیا عدم سے نکالا اور عدم کی تعریف علمِ حکمت میں یہ ہے(العدم یقابل الوجود فلیس للعدم وجود)۔یعنی عدم مقابلہ میں ہے  وجود کے اس لیے عدم کا وجود نہ ہوا۔جس لیے فارسی لفظ نیستی ہے۔یعنی لا وجود ۔پس خدا نے جہان کو نہ اپنے اندرسے مادہ نکال کر پیدا کیابلکہ نیستی میں سے پیدا کیا ہے۔لفظ کریٹ(Create) انگریزی میں اور خلقت عربی میں اور پیدا فارسی میں اور بارا عبرانی میں ایسے معنی میں آتا ہے۔کسی چیز کا بغیر مادے کے پیدا کرنا۔پس دنیا کے کاریگر کچھ چیزوں سے کچھ چیزیں بناتے ہیں۔کیونکہ اس کی قدرت محدود اور مقید ہے اور وہ قادر مطلق نہیں۔خدا قادرمطلق ہے۔وہ نیستی سے بحکم خود چیزیں پیدا کرتاہے۔اگر ہم خدا کو دنیا کے کاریگروں کی مانند خیال کریں تو اس کو اس کی عالی شا ن سے گراتے ہیں اور مردود ہوتے ہیں۔

 اس کے سوا یہ بات ہے کہ اگر یہ جہان خدا کے اندر سے نکلاہوا ہوتا تو خدا کی ماہیت میں اس جہان کو بھی دخل ہوتا۔اوراس پاک ماہیت کے جو خاصے ہیں وہ جہان میں بھی پائے جاتے ۔دیکھو خداوند  یسوع مسیح خدا کی ذات  میں سے نکلااور دنیا میں آیاہےاور روح القدس خدا  کے اور مسیح کے اندر سے آتااور غور کرنے سے برگزیدوں کی روحوں میں معلوم ہوتا ہے۔اور جوخاصیت الٰہی ماہیت کی ہے۔وہی خاصیت ان دو نوں شخصوں میں برابر پائی جاتی ہے۔جو خدا کی ذات میں سے ہے۔اس میں خدا کی خاصیت ہے۔ اگر جہان خدا کے اندر سےہوتا تو جہان میں الہٰی خاصیت ضرور ہوتی۔اورجہان تو کچھ بھی نہیں ہے نہ کوئی شے قائم بالذات ہے نہ کسی چیز میں قدرت اور علم اور زندگی بالذات ہے۔ہر شے معلول ہے۔اور ہر علت کے لیے علت ہے۔اور وہ جو علت العلل ہے۔مخفی ہے۔اور ہر معلول کے لیے دو طرفین ہیں۔ایک وہ طرفین ہے جس سے اس کا علاقہ علتہ العلل ہے۔بواستہ علل کے ہے۔اور اسی  سےاور بحال اور موجود ہے۔دوسری طرف وہ ہے جس سے اس کا علاقہ نیستی کی طرف ہے۔اگر علتہ العلل اس کو چھوڑ دے۔تو وہ معلول نیست ہو جاتاہے۔اور اس سے ظاہر ہےہ کہ جہان نیستی سے بقدرت واجب الوجود موجود ہو اہے ۔اگر وحدت الوجود صحیح ہے تو خدا میں نیستی میں گھرا ہوا ہے ہر طرف سے پس ہمہ اوست نہیں ہے۔بلکہ ہمہ از اوست ہے اورجو خدا ہے سب سے نیارا ہے اس کی ماہیت کچھ اور ہے۔اور موجودات کی ماہیتیں کچھ اور ہیں۔ہمہ اوست کے ابطال میں بہت سی ماہیتیں ہیں۔جو دیگر مصنفوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔اور اثبات میں بارے میں سواء دوتین وہمی باتوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔

 گزشتہ زمانہ تاریکی کا خصوصاً غیر اقوام پر ایسا تھا کہ اس میں اس ہمہ اوست کے خیال میں بعض لوگوں نے کچھ تسلی اختیار کی تھی۔مگرباطل تسلی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خدا میں سے نکلے ہیں۔اور مر کر اس میں مل جائیں گے۔اور وہ لوگ اپنے جیتے جی بہ تکلف اس باطل خیال کو اپنے ذہن میں پکاتے تھے۔اورفطری بدیہی خیال جو ہمہ ازاوست کا ہے بہ مشکل ذہن سے نکا لتے تھے۔اور شیطان مجسم ہوئے پھرتےتھے۔کہتے تھے کہ ہم خود خدا ہیں۔اور اس سے شیطان کا مطلب خوب پورا ہوتا تھا۔کہ خدا کی بے  عزتی ہو۔اگر ہمہ اوست صحیح بات ہو  تو کیا ضرور ہے  کہ صوفی اتنی ریاضت کرے کہ  بے ریاضت اور باریاضت آدمی سب برابر  ہیں۔اوربت پرستی کا امر بھی مکرو ہ نہیں ہو سکتا۔اور نیکی بدی میں کچھ حاجت فرق کی نہیں ہے۔ایمانداری اور بے ایمانی فرمان برداری اور نافرمانی برابر ہیں کیونکہ سب کچھ خدا ہے نعوذباللہ من ذٰلک۔

 اب روشنی کازمانہ آگیا ہے۔کلام اللہ کی روشنی اور علمی روشنی نمودار ہوئی ہے۔اوراس خیال کا بطلان زیادہ تر واضح ہو گیا ہے۔اور معلوم ہو گیا ہے کہ ویدیں وغیرہ وہ سب کتابیں جن میں یہ خیال مرقوم ہے۔اللہ کی طرف سےہرگز نہیں ہیں۔انسانی تجویز سے لکھی گئی ہیں۔اور ان سے  بہ سبب اس خیال کے خدا کی بے عزتی ہے۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ جو لوگ اس خیال میں مر گئے ہیں۔اور اولیا اللہ سمجھے گئے ہیں وہ ہرگز خدا رسیدہ نہ تھے۔ اس خیال کو پہنچے ہوئے تھے۔پس خدا کا دوست ہونا تودرکنار رہا خدا کو پہچانا بھی نہ تھا۔اور  جس کو انہوں نے خدا سمجھا تھا۔وہ بطلان تھا۔اب فرمائیں کہ وہ خدا کے دوست تھے  یا بطلان کے۔

  خدا پہچانا جاتا ہےخدا کے کلام سے نہ محض دلائل عقلیہ سے نہ احمق فقیروں کے خیالات سےنہ قدیم بت پرستوں کی تجویزات سے  نہ ہو حق کرنے سے نہ ریاضت سے نہ ذکر فکر سے مگر خدا کے کلام سے اوروہ صوفیوں اور محمدیوں  اور بت پرستوں  او ر عقل پرستوں کے پاس نہیں ہے۔پھر وہ کیونکر خدا شناسی کے دم مارتے ہیں۔اگر کوئی شخص خدا شناسی کاطالب ہو تو وہ بائبل شریف کے قریب آئے اور جو کچھ بائبل شریف خدا کےبارے میں بتلاتی ہے۔اس پر غور کرے۔پھر اپنی تمیز سے پوچھے کہ خدا کیسا ہے اور کدھر ہے۔


۱۷ ۔فصل اطوار تقرب صوفیہ کے بیان میں

صوفیہ کےاطوارجن کےوسیلے سے وہ خدا سے ملنا چاہتے ہیں ان کی کتابوں سے معلوم ہوا کہ اعتقاد واثق اور خلوص اور فروتنی اور ریاضت اور ترکِ دنیا یہ پانچ وسیلے ہیں۔

 لیکن ان کا تمام  زور تصورات پر ہے۔بعض خیالوں کو ذہن میں پکاتے ہیں جب ان میں پختہ ہو گئے تو گو یا محو ہو تے ہیں۔تب سمجھتے ہیں کہ ہم کمالات کو پہنچے چنانچہ آئندہ فصلوں میں ان کے خاص خیالات کا ذکر آئے گا۔جن کے پختہ کرنے سے وہ ولی بنتے ہیں۔

 اس فصل میں عام طور پرمیں ان کے اطوار  کی طرف دیکھتا ہوں کہ کیا ہیں۔پس وہ پانچ باتیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔اگر افراط تفریط سے محفوظ ہوں۔اور مناسب طور سے عمل میں آ یں تو بہت خوب ہیں۔لیکن ان پانچ باتوں میں اس اصل  کو نہیں پاتا۔جو عقلاً و نقلاًخدا پرستی کی جڑ ہےجس کے ساتھ ہر خوبی فی الحقیقت خوبی ہوتی ہے۔اور جس کے بغیر تمام خوبیاں برباد اور غیر مفید ہیں۔

 اور وہ اصل یہ ہے کہ خدا پرست آدمی میں سب سے پہلے صحیح اور زندہ ایمان ہونا چاہیے۔

دنیا میں  ہر فرقہ اپنے گمان میں ایک ایمان کامدعی ہے اور اس کی حماعت کرتا ہےاور وہ سب ایمان جو دنیاکے فرقوں میں ہیں ہرگز یکساں نہیں ہیں اور سب فرقےایساسمجھتے ہیں کہ گویا ہم نے باوسیلہ اپنےایمان کے خدا کو راضی کیا ہے۔

 یہ کیفیت دنیا میں ایمانوں کی دیکھ کے کیا کروں گے؟اپنے ہی قومی ایمان کو بے دلیل یا زبردستی کی دلیل سے صحیح ایمان سمجھو گے یا تمام دنیا کے ایمانوں کا مقابلہ کرکے صحیح  ایمان تلاش کرو گے اور اس کو خدا کی رضامندی کا وسیلہ سمجھے کر اختیار کرو گے۔اگر دانائی اور انصاف ہے  تو ایسا ہی کرو گے۔

 لفظ ایمان کی بحث محمدی کتابوں میں بہت ہوئی ہے۔ کتاب عینی شرح صحیح بخاری اور فتح المبین شرح اربعین اور شرح مواقف وغیرہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔لیکن ایمان کے بارے میں جو بات فکر کی ہے۔اس کا وہاں کچھ بھی ذکر نہیں ہے۔

 جو کچھ وہاں لکھا ہےاس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض نےکہا ہے کہ ایمان صرف دل کا کام ہے یعنی تصدیق۔بعض نے کہا کہ دل کا اور زبان کا اکٹھا کام ہے یعنی دل سے یقین زبان سے اقرار ۔بعض نے کہا ہے  کہ ایمان صرف دل کا کام ہے۔یعنی تصدیق۔ بعض نے کہا ہے کہ صرف زبان کا کام ہے یعنی اقرار۔بعض نے کہا ہے کہ دل اور زبان کا اکٹھا کام ہے۔یعنی دل سے یقین اور زبان سے اقرار۔بعض نے کہا کہ دل کا اور زبان کا اور تمام بدنی عضاکاکام ہے ۔یعنی اعمال بھی شامل ہیں ۔پھر یہ کہ آیا ایمان اوراسلام ایک ہی بات ہے۔ یادو جدا جدا  چیزیں بعض نے کہا کہ ایک ہی چیز ہے۔دو چیزیں ہیں۔پھر یہ کہ آیا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔کسی نے کہا کہ نہیں پھر یہ کہ آیا ایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق احمد بن حنبل نے کہا کہ غیر مخلوق ہے اور لوگوں نے کہا کہ مخلوق ہے۔فیصلہ یوں ہوا کہ آدمی کا اقرار جو اس کا فعل ہےمخلوق ہے اور ہدایتِ الہٰی جو کہ خدا کا کام ہے۔وہ غیر مخلوق ہے۔پس شے مخلوق اور غیر مخلوق مل کر ایک ایمان ٹھہرا۔

 اصل بات کا کچھ ذکر نہیں کہ جس چیز کا اقرار اور یقین ہوتا ہےوہ کیا ہے اورکہاں سے ہے؟ہم مسیحوں کا زور اس بات پر بہت ہےکہ کیا ہے اور کہاں سے ہے؟

 یہ دو الفاظ کہ ہمارا ایمان کیا ہے اورکہ کہاں سے ہے؟اگر ناظرین یاد رکھیں تو جلد صحیح ایمان پائیں گے۔اس سوال کا جواب کہ کہاں سے ہے؟اور کیا ہے؟محمدی لوگ یوں دیں گے کہ ہمارا ایمان قرآن و حدیث سے ہےاور خدا کی وحدتِ فردی اور اور محمد صاحب کی رسالت پر ہے۔صوفی یوں کہیں گے کہ ہمارا ایمان قرآن و حدیث اور اقوال صوفیہ سے ہے۔اور خدا کی وحد ت وجودی اور محمد صاحب کی رسالت پر اور انتظام قطبیہ پر ہے۔ہم مسیح یوں کہیں گےکہ ہمارا ایمان تمام سچے پیغمبروں کی کتابوں  میں سے ہے۔نہ کہ آدمیوں کی حدیثوں اور اقوال  میں سے۔اور خدا کی وحدت اور تثلیث مجید پر ہےاوراس بات پر ہے کہ یسوع مسیح ابنِ اللہ اور ہمارے گناہوں کاخداکی طرف سےبھیجا ہوا کفارا ہے۔اوراسی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔لفظ کہاں سےمیں ہم یہ ڈھونڈتے ہیں کہ آیا ماخذایمان معتبر ہے یا نہیں اور لفظ کیا میں ہم یہ تلاش کرتے ہیں کہ وہ چیز جو روح میں رکھی  جاتی ہے۔ اس کی ابدی زندگی کے لیے مفید ہےیا نہیں۔پس ہمارے ایمان  کو اور اس کے ماخذ کو اور اپنے ایمانوں کو ان کے ماخذوں کو دیکھ کر آپ ہی انصاف کرسکتے ہیں کہ صحیح ایمان کیا ہے؟

 صوفیہ وغیرہ کا ایمان نہ روح کی مرضی کے مناسب ہے اور نہ اس کا ماخذ معتبر اس لیے ان کی بنیاد خام  رہتی ہے اسی بنیاد خام پر وہ ان پانچ باتوں پر زور دیتے ہیں جن کا اب میں ذکر کرتا ہوں۔

(۱) یہ وہ سچ کتے ہیں کہ اعتقاد واثق چاہیےلیکن سچائی پر اعتقاد واثق چاہیے۔ناکہ باطل بات پر صرف اعتقاد واثق میں ہی خوبی نہیں ہے خوبی سچائی میں ہے۔ بعض بت پرستوں اور جاہل آدمیوں نے غلط باتوں پر اعتقاد واثق رکھ کر جان نثار کی ہے۔تو کیا ان کا بھیلا ہو جائے گا؟ہرگز نہیں۔یہ قول بالکل غلط ہےکہ پیر من خس است اعتقاد من بس است۔

(۲) وہ خلوص کا ذکر بہت کرتے ہیں۔فی الحقیقت خلوص عجیب نعمت ہے۔اور ہر حال میں مفیدہے۔مناسب ہے کہ آدمی بےریا ہو کر پاک نیت سے خدا پرستی اور سب کام دنیاوی بھی کیاکرے۔اس سے کامیابی ہوتی ہے۔لیکن جب خلوص کے ساتھ پتھر بھی پوجےاور ہدایتِ الٰہی کے خلاف راہ اختیار کرے تو اور مکروہ و باطل عقائد میں خلوص کے در پہ ہو تو خلوص سے کیا نکلے گا؟یہی کہا جائے گا کہ یہ آدمی تو نیک نیت  ہے مگر نادانی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ باخلوص لوگو ں پر خدا کی مہربانی ہوئی ہے۔اوروہ مہربانی یہی ہوئی ہے کہ انھیں راہ راست کی طرف ہدایت کےلئے بعض وسائل بخشے گئے ہیں۔اور ان کی دانانی ان پر ظاہر کی گئی ہے۔اور دکھلایا گیا ہے کہ جہاں سے تم کچھ ڈھونڈتے ہووہاں سے  کچھ نہیں مل سکتا ۔مسیح خدا وند کی طرف جاؤ وہاں سے سب کچھ پاسکتے ہو۔پس اگر وہ مسیح کی طرف آئیں تو سب کچھ پاتے ہیں۔ورنہ اپنے خلوص کا ٹوکرا سر پراٹھا کر  جہنم میں جانا ہوگا۔

(۳) فروتنی اور خاکساری بھی خوبی کی صفتیں ہیں۔اور دل کی درستی کے نشان ہو سکتے ہیں۔جب کہ سچی خاکساری ہو ورنہ ہوسکتا ہے کہ ظاہر میں فروتنی ہو اور باطن  میں پوشیدہ غرور ناپاک مطلب بھرے ہوں۔بعض لوگوں نے فروتنی کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ لوگوں سے ان کی تعریف ہواور ان کے بہت دوست اور مرید ہو جائیں۔ایسی فروتنی ناپاک مراد کے ساتھ غیر مفید اور بلکہ عین گناہ ہے۔حقیقی    فروتنی  وہ ہےجس کا ذکر مسیح خداوند نے کیامبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔خواہ بظاہر شان و شوکت میں ہوں لیکن اندر دل غریب ہے۔ایسے لوگوں کے ساتتد برکت کا وعدہ ہے۔

(۱) صوفیہ کا ریاضت  پر بہت زور ہے۔اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی دنیاسے الگ ہو کر ریاضیت و عبادت میں مشغول ہوتا ہےتب وہ بہت ہی جلد پیر بن  جاتا ہےاور احمق لوگ ریاضت پر فریفتہ ہو کر اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔اوراس کے لیے کرامتیں تصنیف کرڈالتے اورچرچے اڑاتے  ہیں۔یہ سب پیر اسی طرح سے پیر مشہور  پوتے ہیں۔اوراب بھی اگر کوئی چاہے کہ میں پیر بن جاؤں تو وہ دو کام کرےاول وہ ایسی جگہ جائے جہاں بہت زیادہ جاہل ہوں۔وہاں بیٹھ کر دنیا سے کچھ نفرت دکھائےاور ریاضت کرے۔پھر دیکھو کہ وہ جلد پیر بن جاتا ہےنہیں۔ہندوں اور مسلمان فقیروں  نے ریاضت ہی دکھلاکر جاہلوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔لیکن دانشمند لوگ صرف ریاضت پر ہی فریفتہ نہیں ہوتے۔دیکھو رسول کیا فرماتا ہے(فلپیوں۔۔۔۲۔۲۳) یہ چیزیں تو ایجاد کی ہوئیں عبادت اور خاکساری اور بدنی ریاضت اور تن کی عزت نہ کرنا کہ اس کی خواہشیں پوری ہوں حکمت کی صورت رکھتی ہے۔

صورت بغیر جان کے مردہ ہے۔دانشمند جان کی تلاش کرتا ہے۔نہ کہ صرف صورت کی۔مگر جاہل صرف صورت پر فریفتہ ہوتے ہیں۔پھر رسول بتلاتا ہے۔کہ ریاضت کی دو قسمیں ہیں۔ایک بدنی ریاضت ہے اوردوسری دینداری کی ریاضت (۱ تمطاؤس ۴۔۷، ۸) بے ہودہ اور بوڑھیوں کی کہانیوں سے منہ موڑ اور دینداری میں ریاضت کر کہ بدنی ریاضت کافائدہ تھوڑا ہے۔پر دینداری سب باتوں کے واسطے فائدہ مند ہے۔کہ اب کی اور آیندہ کی زندگی کاوعدہ اسی کے لیے ہے۔وہ ریاضت جو دینداری میں ہے۔اس کا علاقہ ایمانِ بر حق اور تمام صحیح عقائد اور حقیقی نیک اعمال اور حمیدہ اخلاق ہےاور بدنی ریاضت کا علاقہ ان جسمانی تکلیفات کی برداشت سے ہے۔جو امور ایجادی ہیں انسانی تجویز سے ہیں۔صوفیہ میں اور ہندو فقیروں میں بدنی ریاضت بہت ہوتی ہے۔لیکن  دینداری کی ریاضت صرف ان حقیقی مسیحیوں میں ہے جو خدا کے کلام پر چلنے کی کوشش میں رہتے  ہیں۔ان کو دنیا کے درمیان سب معاملات میں رہ کر بڑی نفس کشی کرنی پڑتی ہے۔اور یہی ریاضت مفید و آفرین کے لائق ہے۔

(۲) اور یہ جو ترک دنیا کا ذکر وہ کرتے ہیں۔یہ مضمون بھی سخت غورِ طلب ہے۔ترک دنیا کی دو صورتیں ہیں۔اول دنیا کی محبت اور خدمت دلوں میں ایسی غالب نہ رہے کہ خدا کی محبت اورخدمت میں قصور آجائے۔دنیا کے سب مناسب کاروبار اور اہلِ رشتہ کے حقوق خدا کے حکم سے اور عقل کے حکم سے فطرت کے موافق پورے کرنا انسان کا فرض ہے۔اور ایسا فرض ہے کہ اس میں قصور آئے تو آدمی خدا کا گناہگار ہوتا ہے۔اور وہ اس میں ایسادھسے کہ خداکی محبت اور خدمت میں قصور آئے تو وہ ملعون ہوتا ہے۔اس کو ضرور ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرے۔پس جب ہم ترکِ دنیا کا ذکر سنتے ہیں تو یہی مطلب ہمارے خیالوں میں آتا ہے۔کہ دنیا کی محبت  خدا کی محبت پر غالب نہ آجائے۔جیسے سب دنیا داروں کی کیفیت ہے۔یہ ہم ہرگز نہیں سمجھتے کہ دنیا  کے سب کارو بار کو چھوڑ کر ہمیں جنگلوں میں جانا ضرور ہے۔یہ دنیا کو ترک کرنے کی دوسری قسم ہے۔لیکن اس قسم میں حقوق العباد متعلقہ فوت ہوتے ہیں۔اور خدا کی اور عقل کی اورفطرت کی نافرمانی ہوتی ہے۔پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم ایسے نافرمان ہو کر کیونکر  خداسے برکت پائیں گے؟کیا وہ اپنےنافرمانوں کو اپنا دوست سمجھے گا؟

صوفیہ نے یہ سمجھ لیا  ہے کہ دنیا سے مطلقاً  بھاگنا خدا پرستی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورت گناہ کی ہے۔مخالفوں کے درمیان کھڑا رہ کر اور جنگ کرکے فتح یاب ہونا بہادری ہے یا مخالفوں کے ڈر سے دور بھاگ جانا اور کہنا کہ میں دشمنوں سے جان بچا کر بھاگ آیا ہوں۔اس لیے میں بہادرہوں۔اب فرمایئے کہ بادشاہ کون سے سپاہی سے کہے گا کہ تو بہادر تیرے لیے انعام ہے پہلا شخص مسیحی ہے اور دوسرا صوفی ہے۔

۱۸ ۔فصل علم سینہ اور سفینہ کے بیان میں

لفظ  سفینہ کے معنی ہیں بیاض اشعار یعنی شعروں کی کتاب اور کشتی کور بھی سفینہ کہتے ہیں۔علمِ سفینہ بااصطلاح صوفیہ وہ علم ہے جو کتب میں مرقوم ہے۔اور اس سے محمدی شرع  کی کتابوں پر اشارہ ہوتا ہے۔

 علم سینہ ان کے گمان میں وہ باتیں ہیں جو محمد صاحب سے اور  صوفی بزرگوں سےسینہ بہ سینہ یعنی خفیہ تعلیم سے ان میں آئی ہیں۔ان باتوں کو وہ چھپا کر رکھتے ہیں۔اور خاص مریدوں کو سکھلاتے ہیں۔اور علم سفینہ کی نسبت اس علم سینہ کی بڑی عزت کرتے ہیں۔گویا اصل معرفت یہی ہے۔مراد یہ ہے کہ محمد صاحب کی عام اور علانیہ تعلیم تو قرآن و حدیث ہےاور خفیہ تعلیم  صوفیہ کے پاس پوشیدہ ہے۔

 نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نے دوطرح کی تعلیم دی ہےعلانیہ اور خفیہ۔علانیہ میں کچھ اور ہے خفیہ میں کچھ اور ہے۔اور یہ بات عدم صفائی اور فساد کی ہے دنیاوی مزاج لوگ جن کے دلوں میں اور  کاموںمیں  صفائی نہیں ہے۔وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ خدا کے پیغمبروں نے ایسے کام نہیں کیے۔جو کچھ انہوں نے خدا سے پایاجہاں کے سامنےعلانیہ رکھ دیا تاکہ اہلِ دنیا ان باتوں کو پرکھیں۔مسیح خداوند نےصاف فرمایا کہ (یوحنا ۱۸۔۲۰)میں نے آشکارا عالم سے باتیں کیں۔میں نے ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور خفیہ کچھ نہیں کہا۔

 دیکھو یہ کیسی صفائی کی بات ہےاب کوئی مسیحی یہ نہیں کہ سکتا ہےمجھے  کچھ خفیہ تعلیم مسیح سے پہنچی ہے۔پھر یہ کیا بات ہے کہ محمد صاحب سے شرعی تعلیم علانیہ اور تصوفی تعلیم خفیہ ہوتی ہے۔اُسپر لطف کی  بات یہ ہے کہ جو کچھ صوفیہ کے پاس خفیہ تھا وہ سب ظاہر ہو گیا اور ان کی کتابوں میں مرقوم ہے۔پس وہ خفیہ اب خفیہ نہ رہااور ظاہر ہو گیا۔کہ اس میں بہت کچھ تعلیم علانیہ کے خلاف ہے۔اور دانش مند کے سامنے نہ اس علانیہ کا اعتباررہا نہ اس خفیہ کا بلکہ معلم کی چالاکی ثابت ہوئی اور نقادوں کو معلوم ہو گیا کہ نہ علانیہ میں زندگی ہے اور نہ خفیہ میں۔

 اس وقت شاید کوئی محمدی صاحب کہیں حضرت محمد صاحب نے خفیہ کچھ نہیں سکھلایا ہے۔صوفی لوگ حضرت پر تہمت لگاتے ہیں جو ان کی خفیہ تعلیم کے قائل ہیں۔اس لیے مجھے یہ بتلانا بھی  واجب ہے کہ حضرت میں کچھ خفیہ تعلیم کی عادت تو تھی  خلافت کا انتظام حضرت علی کے ساتھ تو خفیتہً  کچھ اور کیااور ابو بکر کے ساتھ کچھ اور کیا اور اس خفیہ بندو بست  سے کس قدر فساداور خون  ریزی اور امت میں تفرقہ پڑااگر آنحضرت اس خلافت کا انتظام صاف صاف قرآن میں کہہ دیتے تو کاہے کو وہ فساد ہوتے؟اور کیوں یہ سنی شعیہ بنتے؟دیکھو مسیح  نے پطرس کے حق میں صاف صاف کہہ دیا تھا(متی ۱۶: ۱۸سے ۲۰، یوحنا ۲۱: ۱۵ سے ۱۷ اور ۲۳) کہ تو میرے پیچھے ہولے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت وہ کلیسیا کے انتظام کے لیے  مقررہو گیا اور سب حواری خاموشی سے اس کے پیچھے ہو لیے  ہیں۔محمد صاحب نے ایسانہیں کیا ۔بلکہ اس کو کچھ خفیہ کہہ کر فساد برپا کردیا میری اس سے  صرف یہ غرض ہے کہ خفیہ تعلیم کی عادت توتھی کیا تعجب ہے کہ تصوفی خیالات کی جڑ خفیہ سکھلائی ہو۔ 

۱۹ ۔ فصل بیعت یعنی پیری مریدی کے بیان میں

بیعت کی اصل یہ ہےکہ ۱۰ ہجری میں جب محمد صاحب مکہ میں آئے اور بت پرست قریشیوں کا غلبہ تھااور یہ غلط بات مشہور ہو گئی تھی  کہ عثمان قریش کے ہاتھ سے مارے گئے ہیں۔ تو حضرت نے ہمراہی مسلمانوں کو جمع کرکے اس ارادے سے کہ وہ بہاورانہ لڑیں گے۔ایک ایک کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گویا قسم لی تھی کہ وہ بے وفائی نہ کریں گےاس کا ذکر سورہ فتح کے پہلے رکوع میں ہے۔پیچھے یہ بیعت کادستور مسلمانوں میں جاری ہو گیا۔علمہ محمدیہ اور احکام اس کو عمل میں لانے لگے۔صوفیہ نے اس دستور کو اپنی طرف کھینچ لیااور پیری مریدی میں جاری کیا یہ عہد بندی کا دستور ہےجو دنیا کے اقوام میں اور شکلوں میں چلا آتا ہے۔

 بیعت لفظ بیع سے ہےفروخت کرنا  گویا وہ خود کو پیر کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں۔کہ بالکل تیری تابعداری کریں گے۔ہم مسیحی بھی مسیح کے ہاتھوں فروخت ہوئے ہیں۔اس قیمت پر جو اس نے ہماری جانوں  کے لیے اپنے کفارے میں دی ہے۔لیکن صوفی لوگ پیروں کے ہاتھو ں مفت فروخت ہوتے ہیں۔اور انہوں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔صرف اس امید پر کہ کوئی خفیہ تعلیم تصوف کی شاید  کبھی بتلائیں گے۔

 پیر یا شیخ بڈھاآدمی ہے جو پچاس برس سے گزر گیاہوا صطلاح صوفیہ میں پیر وہ آدمی ہے جو شریعت طریقت حقیقت کی باتوں میں پورا ماہر ہو اور جانوں کے امراض سے واقف اور شفا بخشنے پر قادر ہو۔اس اصطلاح کے موافق صوفیہ میں ایک پیر بھی نہ ملے گاتو یہی وہ فرض کرتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے کہ ایسا شخص تو صرف ایک ہےیعنی یسوع مسیح جو خدا کی مرضی سے کامل  واقف ہےاور ہماری جانوں کے امراض سے خبردار ہے اور شفا بخشنے پر قادر ہے۔

 قطب بختیارا دشی کاکی فرماتے ہیں کہ پیر وہ ہے کہ جو اپنی باطنی  نگاہ  کی قوت سے دنیا وغیرہ کا زنگار اپنےمرید کے دل پر سے دور کردے تاکہ کچھ قدرت وغیرہ نہ رہے۔

 سید محمد سینی گیسودراز کہتے ہیں کہ پیر وہ ہے جس کو کشف قبور و کشف ارواح  ہوا کرتاہو۔اور جس کی ملاقات ارواح انبیا سے ہوا کرتی ہواور افعال  صفات الہیہ کی تجلی اور ذات باری تعالیٰ ظہور حاصل ہو یہ سب باتیں صرف مسیح میں ہیں اور کسی میں نہیں مجمع السلوک میں لکھا ہے کہ پیر وہی ہے جو شرع پر مستقم ہو۔اور کچھ ہو نہ ہو شرع الہٰی پر کامل طور پر چلنے والا اور اس کو مکمل کرنے والاصرف یسوع مسیح ہےاور کوئی نہیں۔

اس لیے ہم مسیحی کسی پیر مرشد کی تلاشش میں ہرگز نہیں رہتےہم سب کا ایک ہی پیر مرشد ہے یعنی یسوع مسیح جو ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔اور قادر  خدا اور کامل انسان ہے۔ہمارے درمیان بعض ایسے بزرگ مسیحی بھی ہیں جو یقیناً خدا کے دوست ہیں۔اور ہر وقت خدا کی حضوری میں رہتے ہیں اور بابرکت ہیں۔ہم مسیحی ان کی عزت کرتے اور انہیں بزرگ سمجھتے ہیں اور ان کے نیک نمونے اور چال چلن  میں اور عبادات میں دیکھتے  اور سیکھتے ہیں۔اور ان کی تعلمات سے فائدہ اٹھاتے اوران کو  اپنے لیے خدا کی بڑی بخشش سمجھتے ہیں۔لیکن ہم کسی کو اپنا پیر و مرشد نہیں بناتے وہ اور ہم سب پیر بھائی ہیں کیونکہ اپنی روحوں کو سوائے مسیح خداوند کے کسی اور آدمی  کے ہاتھ میں  سوپنا عقلاً نقلاً ناجائز ہے۔

 پھر صوفی کہتے ہیں کہ مرید کو پیر کی نسبت اعتقاد میں مضبوط ہونا اور اطاعت بلا حجت کرنا چاہیے۔ورنہ کامیاب نہ ہو گا۔چنانچہ وہ کہتے کہ پیر من خس است و اعتقاد و من بس است یہ قول تجربہ اور عقل اور کلام اللہ کے خلاف ہے۔اگر خوبی صرف اعتقاد  میں ہے تو خوبی ہم میں ہوئی نہ کہ پیر میں کیونکہ اعتقاد ہمارا فعل ہے۔ہم خوب جانتے ہیں کہ خوبی صرف خدا میں ہے۔نہ کسی آدمی میں نہ کسی آدمی کے فعل میں۔ہاں اعتقاد گویا ایک ہاتھ ہے جو بھیک مانگنے کے لیے خدا کےآگے پھلایا جاتا ہے۔اگر ہم آگ کی نسبت اعتقاد کریں  کہ وہ سرد ہے۔یا سانپ کی مانند کہ کہ وہ گوگا پیر ہے۔تو یہاں سے کیا نکلتا ہے  جلنا اور بت پرستوں نے بتوں پر اعتقاد کرکے کیا نکالا یہ کہ خود پتھر ہو گئے۔پس اعتقاد نے ان کے لیے وہی چیز نکالی جو وہاں تھی صوفیہ نے مردوں اور قبروں پر ایمان باندھا وہاں سے کیا پایا؟یہ کہ دلوں میں زیادہ مردگی چھا گئی تمیزیں سن ہوگئیں۔

 ہاں اگر وہ زندہ خدا پر اور اس کے کلام پر بھروسہ یا اعتقاد کرتے اورتو زندگی اور روشنی روحوں میں آجاتی۔جیسے حقیقی مسیحیوں کے دلوں  میں آگئی ہے۔کیونکہ جس چیز پر دل ٹکتا ہے وہ اسی چیز کا اثر دل میں ہوتا ہے۔اور وہ جو کہتے ہیں کہ پیر کی اطاعت ہر امر  میں  بلا حجت کرنا چاہیےاور یہ شعر سناتے ہیں کہ

بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغان گوید
کہ سالک بے خبر بنود زراو رسم منزلہا

 اس بارے میں ہم یوں کہتے ہیں کہ صرف پیغمبروں کی اطاعت بلاحجت فرض ہےکیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہادی اور معلم ہیں۔سوائے پیغمبروں کے اورکسی کی اطاعت بلا سمجھے ناجائز ہے۔کسی پیر فقیر اور پنڈت اور مولوی اورکسی پادری کا یہ منصب نہیں ہے کہ اس کی اطاعت بلا حجت کی  جائے جب وہ کچھ کہے گا تو ہم سوچیں گے کہ خدا کے کلام کے موافق کہتا ہے کہ یا نہیں اگر نہیں تو اس کی ہرگز نہ مانیں گے کیو نکہ  ہم خدا کےفرمانبردار ہیں نہ کہ کسی  آدمی کےاور ہم نے خداسے بیعت کی ہے۔نہ کہ کسی پیر سے۔

۲۰ ۔فصل تصور شیخ کے بیان میں

سب صوفی اس بات کے قائل ہیں کہ تصورِشیخ ابتدا میں  مرید کے لیے ضرور ہےیعنی خیال کے وسیلے سے پیر جی کی صورت اپنے دل میں قائم  کرنا اور ایسا قائم کرنا کہ گویاوہی صورت اس کا معبود ہے۔اور یہ شعر سناتے ہیں کہ

چون دیدہ عقل آمد اَحول   معبود تو پیر تست اول

حضرت مجدد صاحب اپنی جلد ثانی کے ۳۱ مکتوب میں اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب قول جمیل میں اس کی تعلیم دیتے ہیں اور کتاب رشحات کی فصل اول مقصد دوئم رشحہ چہارم میں ایک آیت قرآنی یعنی سورہ توبہ کی ۱۱۹آیت     ( وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ )     کی تفسیر خواجہ احرار سےیوں منقول ہےکہ صادقین کے ساتھ ہونا دو معنی رکھتا ہے۔

 اول مجالست جسمانی۔دوئم باطنی تصورات پس دیکھو کہ یہ صوفی قرآن کے مطالب کو کس  ظلم اور زبردستی سے  اپنے مطلب پر کہنچتے ہیں با لکل  نیچریوں کی تفسیروں کی مانند یہ تفسیر ہے۔عقل اس تفسیر کو قبول نہیں کر سکتی۔ میں پوچھتا ہوں کہ اس تعلیم میں اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟ حضرت مرزا مظہر  جان جانان سے  کتاب معمولات  مظہر یہ میں منقول  ہے کہ نواب مکرم خان نے اپنے پیر خواجہ محمد  معصوم صاحب کی خدمت میں خط لکھا اور کہا کہ آپ کی محبت خدا و رسول کی محبت پر غالب آ گئی اور میں اس سے شرمندہ ہوں۔پیر صاحب نے جواب دیا کہ پیر کی محبت عین خداا و رسول کی محبت ہے۔اور پیر کے کمالات مرید میں آجاتے ہیں۔یہ تو سچ ہے کہ جب پیر معبود ہو گیا تو جوکچھ پیر میں ہےاس میں تاثیر کرے گا۔جیسے بت پرستی سے سنگدلی  اور خدا پرستی سے زندگی حاصل ہوتی ہے۔لیکن پیر صاحب میں کیا ہے صرف ہمہ اوست کا خیال ہےکہ  ویسے ہی یہ ہو جائیں گے۔ہم جانتے ہیں یہ سب بدعتی لوگ خدا اور انسان کے درمیان بعض جسمانی وسائل قائم کرتے ہیں۔لیکن خدا کے کلام میں صاف لکھا ہے کہ خداایسے پرستاروں کو چاہتا ہے کہ جو روح اورراستی سے پرستش کرتے ہیں۔مگر یہ تصور شیخ کی وہی بات ہے کہ ہے جیسے بت پرست لوگ بت کو اپنے اور حقیقی خدا کےدرمیان قائم کرتے ہیں۔

۲۱ ۔فصل نفی اثبات کےبیان میں

دوسری تعلیم جو پیر لوگ مرید کو کرتے ہیں نفی اثبات کا ذکر ہے یعنی لاالہ الااللہ کا ذکر لا الہ میں نفی ہے اور الا اللہ میں اثبات ہے۔

طریقہ اس کا یوں بتلاتے ہیں کہ آدمی وضو کرکے رو بکعبہ چار زانو یا دو زانو بیٹھے اور آنکھیں بند کرکے صنوبری قلب کی طرف متوجہ ہو اور سانس کو ناف  کے نیچے بند کرکے لفظ لا کو ناف سے دماغ کی طرف سانس میں کھینچے  اور وہاں سے لفظ الہ کو دہنے کولہے کی طرف لائےپھر یہاں سے لفظ الہ اللہ  کو سانس کے زور کے ساتھ دل کے گوشت پر ایسا زور سے مارے کہ سارے بدن میں صدمہ پہنچے۔اگر آواز ہوں ہوں کی نکلے تو ذکر جہری جو قادریوں کا دستور ہےہوگیااور جو آواز مطلق نہ نکلے تو ذکر خفی نقشبندیہ کا طور ہےاور یہ ضرب کہلاتی ہے۔اسی طرح جس قدر چاہے دل پر ضربیں لگائے۔

مگر یہ ضرور ہے کہ لفظ لا الہ میں کل محدثات کی نفی کا اور لفظ لاالہ میں اثبات ذات حق کا خیال پختہ رہے یعنی جہاں کی سب چیزیں نیست ہیں صرف خدا موجود ہے۔

صوفی لوگ ابتدا میں اس ذکر کی خوب مشق کرتے ہیں اور خاص وقت پر اکھٹے ہوکر اکثر ایسا کام کرتےہیں اور ہر وقت چلتے پھرتے سانس میں یہ ذکر چلا جاتا ہے۔اور اس میں مشتاق ہوجاتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ دل میں اس سے کچھ نور چمکےگالیکن کبھی کچھ نہیں چمکتا۔

یہ ہمہ اوست کے خیال کی ابتدا ئی  مشق ہے۔اور یہ محمد صاحب کی تعلیم نہیں ہے۔بلکہ محمد صاحب کی مراد کے خلاف ہےفقرہ لالہ الاللہ میں محمد صاحب نے غیر معبودوں کی نفی کرکے باری تعالیٰ کے وجودِحق کا اثبات  کیا ہے۔جو ایک دفعہ سمجھ لینا کافی ہے۔صوفیہ نے زیادتی کرکے لااللہ میں کل محدثات میں نفی  اقرار دی ہے۔پس غیر معبودوں  کی نفی کو کل محدثات  کی نفی اقرار  دینا محمد صاحب کی مراد کے خلاف ہےاور عقل کے بھی خلاف ہے بلکہ کفرہے۔

 اور اس سےفائدہ کیا ہوتا ہے؟کثرت ضربات دل کمزور اور ناتواں ہو جاتا ہے۔بلکہ بعض اوقات دلی بیماریاں لا علاج  پیدا ہوجاتی ہیں۔اوراس سے جنون بھی ہوتا ہے۔جس کو وہ لوگ جذبہ الہٰی سمجھتے ہیں۔یہ جذبہ الہٰی نہیں  ہےاور نہ اس میں کلمہ کی کچھ تاثیر ہے۔یہ تو صرف سانس کے رگڑوں کی تاثیر ہےجو حرارت پیدا کرتی ہے۔اگر کلمہ کو درمیان سے نکال کر بے معنی جلد جلد بزور سانس لیں تو بھی وہی کیفیت پیدا ہوتی ہےکیونکہ یہ برقی حرارت ہے جو سب جسموں میں موجود ہےاور رگڑ سے محسوس ہوتی ہے۔

 اوراس سے وجد بھی آتا ہے جب کہ صوفی صاحب کسی قبر پر بیٹھ کر اندر ہی اندر ضربات خفیہ کی حرارت پیدا کرتے اور اوپر سے ڈھولک کی تان اور راگ کا لطف اور قوالوں کی ٹپاٹپ تالیاں تاثیر کرتی ہیں تب وہ کودنے لگتے  ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے دل میں کچھ ظاہر ہوا ہے۔پس یہ نفی اثبات کچھ پسند کے لائق چیز نہیں ہے۔ہم صرف ایمان کی آنکھ سے سچے  خدا کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سےہمارے دلوں میں الہٰی محبت جوش مارتی ہے۔تب ہم سب نیک کاموں کے لیے مستعد ہوتے ہیں نہ کہ کودنے کے لیے۔ 

Pages