November 2016

۲۲ ۔فصل حبس کے بیان میں

تیسری تعلیم صوفیہ کی حبس ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں نفی اثبات کے ذکر سے دماغ میں خلل نہیں آیا تب حبس یعنی سانس گھوٹنے کی تعلیم دیتے ہیں۔

طریقہ اس کا یہ ہے کہ خلوت میں اکیلا دو زانوں میں بیٹھے اور دونوں ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں سے کانوں کے دونوں سوراخ بند کرکے  اور انگوٹھوں کے پاس والی دونوں انگلیوں سے دونوں آنکھیں بند کرے اور درمیانی دو انگلیوں سےدونوں سوراخ ناک کے دباکر بند کرے پھر دو انگلیوں سے اوپر کے ہونٹ اور دو سے نیچے کے ہونٹ خوب دباکر بند کرےایسا کہ سانس لینے کی جگہ کہیں نہ رہےاس وقت خیال میں گدی کی طرف متوجہ ہو کیونکہ روح ان کے گمان وہاں رہتی ہے۔اور اب جو ہوا سانس کے اندر بند ہو گئی ہےاس سے ذکر نفی اثبات کا دل میں جاری کرے جب تنگ ہو کے جان اندر سے گھبرائے تو ہاتھ ہٹا کر سانس لینا چاہیےپھر اسی طرح بند کر لینا ۔ہر روز ایسا کرنے سے سانس گھوٹنے کی عادت بڑھتی جائے گی۔یہاں تک کہ دیر دتک سانس گھونٹا کرے گا۔یہ ایسی مشقت ہے کہ ایامِ سرما میں عرق آجاتاہےاور رگوں اور پٹھوں میں تشنج اور عضا رئیسہ کے فطری کام میں خلل آتا ہے اور اس خلل کو وہ الٰہی جذبہ سمجھتے ہیں۔یہ تعلیم ہند و جوگیوں سے صوفیوں نے اڑائی ہےاور محمدی کا کلمہ کا ذکر اس میں اپنی طرف سے ملا دیا ہے۔اورجو کچھ اس سے بدن پر تاثیر ہوتی ہےوہ اس کو کلمہ کی تاثیر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ مشقت کی تاثیر ہے اور دیوانگی کی جسمانی  تاثیر ہے وہ فضلِ الٰہی کا اثر نہیں ہے۔بعض محمدی اس طریقہ حبس کو بدعت کہتے ہیں لیکن صوفی نہیں مانتے کیونکہ ان کا اس سےبڑا مطلب نکلتا ہےمرید کی عقل مارکر جلد اسےولی بناتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کے کلام کے پاس نہیں آتے نہ خدا کی راہوں  کو دریافت کرتے ہیں۔فقیروں کے  بہکائے ہوئے اِدھر اُدھر بے فائدہ مشقت کھینچتے  پھرتے ہیں اور دماغی خلل حاصل کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم خدا سے ملیں گے۔خدا کیا ہے؟اور اس سے کیونکر مل سکتے ہیں؟ اور اس سے مل کراس دنیا میں  ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟اور کیسی امید آئندہ کے لیے  ہوجاتی ہے؟ان باتوں کو انہوں نےا ب تک دریافت نہیں کیا۔

یاد رکھو  کہ سانس کی  رگڑوں سےاور دم گھوٹنے سے اور کسی جسمانی زور سے خدا نہیں ملتا ۔پاک اور صحیح ایمان  کی قلبی توجہ سے وہ ملتا ہےیہ بابئل کا طریقہ ہے۔

۲۳ ۔فصل روزوں اور شب داریوں کے بیان میں۔

روزے اور شب داریاں بجائے خود قربتِ الٰہی کے لیے مفید اور خاص قسم کی عبادات تو ہیں اور اس سےفائدہ تو ہوتا ہے۔اس آدمی کو جو فی حقیقت خدا کا طالب ہے اورسچے ایمان سےخدا کے حضور میں چلتا پھرتا ہے۔روزوں اور شب داریوں کے ساتھ جب سچی طلب اور سچا ایمان نہ ہو تو ان سے صرف جسمانی دکھ حاصل ہوتا ہے۔بعض صوفی صایم الدہر بنتے ہیں یعنی سال بھر برابر خفیہ روزہ رکھتے ہیں محمدی فقہ کے امام کہتے ہیں کہ یہ کام منع ہےمحمد صاحب نے صایم الدھر ہونے سے حدیث میں منع کیا ہے۔صوفی کہتے ہیں کہ ہم عیدیں اور تشریق من روزہ نہیں رکھتے اس لیے اس لیے ہم صایم الدہر نہیں ہیں۔اور وہ شب داریاں بھی کرتے ہیں اور بعض ان میں ایسے ہیں کہ جو خفیتہً  کہ کوئی نہ جانے ساری ساری رات جاگتے کبھی آسمان کو تکتے کبھی ٹہلتے کبھی دیوار سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے  کبھی کبھی ساری رات کسی قبر پر بیٹھ کر اس مردہ خاک شدہ کی منت کرتےہیں کہ ہمیں بھی کچھ نعمت دے۔اگر حقیقی روزے اور حقیقی شب داریاں ہوتیں تو ضرور تقرب الٰہی ہوتا مگر وہ تو کچھ دیوانگی کی حرکتیں دکھاتے ہیں۔اس لیے ان کی شب داریوں میں سوائے نیند کی بربادی کے سبب مزاج میں خلل آتاہےصبح کو آنکھیں سرخ نظر آتی ہی۔دل کہتا ہے کہ ہم نے رات بھر خدا کی عبادت کی ہے۔ سبحان اللہ ہم کیا خوب آدمی ہیں اب ہم کوئی دن میں ولی ہوتے ہیں اور جب ہم صاحبِ تایثر ہو جائیں گے۔فلاں فلاں مخالف کا بد عا ستیاناس کردیں گے۔ہائے افسوس یہ شیطان جو ایک بدروح ہے۔انسان کے کان میں کیسا پھس پھساتا رہتا  ہےاور نیک آدمیوں کے سب اعمال حسنہ کو  جو وہ گر پڑکے کچھ کرتے بھی ہیں یہ برباد کردیتا ہے۔ریااور فخر اور ناپاک امیدیں اور طرح طرح کے بد منصوبے لے کر ہر عابد زاہد بلکہ حقیقی خدا پرست کے پاس  بھی جاتا ہے۔اور اس کی مٹی خراب کرتا ہےوہ جس کا بھروسہ اعمال پر ہے۔ہمیشہ شرمسار اور ناامید رہتا ہے۔اور فی الواقع  آخر کو شرمندہ ہو گااگر خدا صادق القول ہے۔

 مگر وہ مسیحی جس کا بھروسہ صرف مسیح پر ہے اعمال حسنہ کی بربادی اپنی طرف سے اور شیطان کی طرف سے جب دیکھتا ہے اور جب بڑا زور مارکر نیکی کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس میں بھی نقصان رہا تو کہتا ہے کہ سچ ہے کہ میں اعمال سے  نہیں بچ سکتا مجھے یسوع مسیح کی بڑی ضرورت ہے۔

حاصل کلام یہ ہے روزے اور شب داریاں وغیرہ عبادات اگرچہ زمانہ گزشتہ کے بزرگوں کے اطوار ہیں اور مفید بھی ہیں۔مگر باطل خیالات کے ساتھ ان سے کیا ہوسکتا ہےصرف یہ کہ روزوں سے قوت بدنی میں خلل آئے اور معدہ ضعیف ہو اور شب داریوں کی کثرت سے دماغ میں خلل اور پٹھوں میں ہل چل ہو اور اس کے اوپر سانس کی رگڑوں سے دل ضعیف ہو جائے اور حبس کی تاثیر سے مزاج بدل جائے اور یوں یہ ساری حرکتیں مل کر اسے دیوانہ سا بنا دیں اور وہ ولی سمجھا جائے ۔

ان حرکتو ں سے  بعض بشدت دیوانے ہو جاتے ہیں۔دو تین شریف زادوں کے نام مجھے معلوم ہیں جوکہ انہیں حرکتوں سےپاگل ہوگئے۔اور وہ مجذوب سمجھے جاتے  ہیں۔بعض میں قدرے دیوانگی آتی ہےان کو سالک مجذوب کہتے ہیں۔

پس ان باتوں کے سوا جن کا اوپر ذکر ہوا صوفیہ کے پاس اور کچھ نہیں ہے صرف یہی ان کی اصولی باتیں ہیں۔اب ناظرین انصاف سے کہیں کہ یہ ان کے طریقے خدا سے ملنے کے ہیں یا دیوانگی سے ملاقات کرنے کے  ہیں؟ 

۲۴ ۔فصل چلہ کشی کے بیان میں

صوفی لوگ  کبھی کبھی چلہ کشی بھی کرتے ہیں یعنی چالیس دن تک بظاہر دنیا سے الگ ہو کر کسی اپنے خاص طور کے ساتھ کوئی وظیفہ پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وظیفہ کی زکواۃ دے کر اسے اپنے قابوں میں لائیں گئے۔ 

  اور اس چلہ کشی  کے لیےموسیٰ کا چالیس دن تک پہاڑ پر رہنا اور خداوند مسیح کا دن رات کا روزہ اور جنگل میں رہنا اور محمد صاحب کا غارِ حرا میں  رہنا بطور سند کے پیش کرتے ہیں۔

 میں اس بارے میں یوں کہتا ہوں کہ البتہ کبھی کبھی اکیلا ہو کر خدا سے رفاقت کرنا اور دعا کے وسیلے سے ہم کلام ہونا کلام اللہ کے مطابق بزرگوں کاشیوا ہوا ہے لیکن اس پاک اصل کو پکڑ کر صوفیہ کے طور میں لانا اور قصیدہ غوثیہ یا حزب البحر وغیرہ کی فرضی زکواۃ میں وقت برباد کرنا کلام اللہ کے مناسب نہیں ہے اوراس سے روحانی فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔

 جس قدر بزرگ صوفی میری اس تحریر کو پڑھیں گے میں ان سے یوں عرض کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ضرور کچھ چلے بھی کیے ہوں گے۔ خدا کے سامنے اپنی  اپنی تمیزوں کو جواب دوکہ تم نے چلوں کے وسیلے سے کیا پایا ہے؟صرف یہ کہ مریدوں  نے اورآس پاس کے جاہل لوگوں نے آپ کو بزرگ پیر سمجھا اور آپ کی د نیاوی دکانداری  کی آمدگرم ہو گئی۔بعض خانقاہوں کی طرف دیکھو کہ وہ سجادہ نشین جنہیں تم جانتے ہو کہ زنا کار اور شراب خور  اور رشوت دوست اورپورے دنیا دار ہیں۔جب کہ ان کے دادا صاحب کا عرس نزدیک آتا ہے چلہ کرتے ہیں۔کسی مکان میں الگ ہو بیٹھتے ہیں۔صرف ہم راز وہاں آتے جاتے ہیں۔تسبیح ہاتھ میں اور حقہ میں رہتا ہے۔اور دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ اس عرس میں کتنی آمد اور خرچ کیا ہو گا۔پھرعرس کے دن چلہ سے باہر آتے ہیں اور عوام الناس پیر پوجنے کو باہر کھڑے رہتےہیں اور بڑی دھوم مچتی ہے کہ حضرت پیر جی صاحب چلہ میں سے باہر آتے ہیں۔فوراً ان کو ہاتھ لگا کر آنکھوں کو لگانا چاہیےوہ برکتوں سے بھرے ہوئے باہر آتے ہیں۔

 اور بعض وہ صوفی ہیں  ایسے نہیں مگر مثلِ ہندو جوگیوں کے جنگلوں میں سے چلےاور ریاضتیں کرتے ہیں۔کیا تمہارا دلی انصاف کہتا ہے کہ انکے یہ افعال اور خیالات پیغمبروں کے کاموں کے برابر  ہیں؟صرف لفظ چلہ تو وہاں سےلیااور جو کچھ اس میں ہوتا ہےوہ بت پرستوں سے  لیکر اس میں داخل کیا۔ پھر کہتے  کہ جیسے پیغمبروں نے کیا ہم ویسے کرتے ہیں۔کیا تمہارے دلوں میں خدا  کا خوف نہیں ہے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ جسم انسان اور روح شیطان کی۔

 اب میں  تمہیں ایک پاک چلہ کا طریقہ بتلاتا ہوں جیسے سچے بندگان ِ خدا نے  بھی کیا ہے ۔اگر اس کو عمل میں لا ؤ تو دیکھنا کہ کیسی برکت اللہ سے پاؤ گے۔چالیس روز تک ہر روز ایک آدھا گھنٹہ پاک نیت سے خفیتہً خلوت میں جا کر خدا سے جو حاضر وناظر ہے۔اپنی اردوو زبان میں بات کیا کرواور اس سے کہو کہ اے ہمارے خالق مالک ہم گناہگاروں پر رحم کرہمارے گناہوں کو معاف کردے ہمیں اپنی راہ راست دکھا۔سب رکاٹوں کو جو تیرے پاس آنے سے روکتی ہیں۔دفع کر ہمیں  اپنا  خاص بندہ بنا لے وغیرہ ۔جہاں تک چاہوں باتیں کرو ۔لیکن اس چلہ کے ساتھ کچھ پرہیز  بھی درکار ہے۔نہ صرف چالیس دنوں تک بلکہ ساری عمر بھر اور وہ یہ ہے کہ خدا کے ان دس حکموں پر بہت  لحاظ رہے۔جوکتاب خروج کے ۲۰ باب میں مرقوم ہیں اور خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کی انگلی سےایک لوح پر  لکھ کر موسیٰ کو دئیے تھے۔بلکہ ہرایک تمیز دار انسان کی روح میں وہ خداکی طرف سے جلوہ گر ہیں اور محمدی شریعت کے موافق بھی ہیں وہ یہ ہیں۔

  •   تو میرے سوا کسی اور خدا نہ جاننا۔پس ہمہ اوست کو چھوڑنا ۔
  •   کسی مورت کی پوجا نہ کرنا۔پس قبر پرستی اور  پیر پرستی مطلق چھوڑنا ۔
  •   خدا کا نام بے جا نہ لینا۔پس اللہ اللہ کرکے اور ہو حق بک بک نہ کرنا چاہیے۔
  •   سبت کو ماننا۔ یہودی لوگ ہفتے کے دن کوسبت مانتے تھے۔مسیحی اتوار کو سبت مانتے ہیں۔محمدی لوگ جمعہ کو عزت دیتے ہیں۔لیکن وہ بھی مسیح کی صلیبی موت کا دن ہے۔
  •   والدین کی عزت کرنا۔تعظیم اور خدمت اور اطاعت واجبہ سے ناکہ غیر واجبہ سے۔
  •   خون نہ کرنا۔یہ تو خواہ مخواہ ہی مانوں گے کیونکہ خونی کو سرکار پھانسی دیتی ہےلیکن دل میں بھی کسی کی خون ریزی کا خیال نہ کرنا
  •   زنانہ کرنا۔اس گناہ کے سبب سے بڑی لعنتیں خدا سے آتی ہیں۔اور خانہ خرابیاں ہوتی ہیں۔
  •   چوری نہ کرنا۔خدا کو سب کچھ معلوم ہےاس سے ڈر کر ایسا کام ہرگز نہ کرنا۔
  •   جھوٹی گواہی نہ دینا۔نہ صرف کچہری میں درمیان کسی مقدمہ کے مگر پیروں اور قبروں کی نسبت جھوٹی کرامتیں سنانا بھی جھوٹی گواہی ہے۔
  •   غیر کی چیز کا لالچ کرنا۔اپنے حصے پر قناعت چاہیئے پس اس پرہیز گاری کے ساتھ چلہ کشی مفید ہو گی۔

۲۵ ۔فصل صوفیہ کے وردوظائف کے بیان  میں

صوفیوں کے پاس بہت ورد وظائف ہیں جو کہ ان کے بزرگوں نے انہیں بتلائیں ہیں بعض کوئی درود پڑھتے ہیں بعض کسی قرآنی سورۃکا ورد پڑھتے ہیں۔بعض کوئی حزب البحریاقصیدہ غوثیہ وغیرہ کااستعمال کرتے ہیں۔لیکن کوئی  نہ کوئی مختصر عربی فقرہ عربی کا یہ سب لوگ ہر وقت پڑھنے کے لیے پیروں سے پہنچا ہوا۔ضرور وردِ زبان رکھتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ ان عبارتوں کے پڑھنے سے الٰہی برکت آتی ہے۔یہ طریقہ قدیم پرستوں کا اور اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتاصرف وقت ضائع اور دماغ خالی ہوتا ہے۔اور بے فائدہ بک بک میں یہ سب وظائف داخل ہیں۔مسیح نے ہمیں ان کاموں سے منع کیا ہے۔اور فرمایا ہے کہ غیر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی زیادہ گوئی سے ان کی سنی جائے گی لیکن تم مسیحی ایسے کام نہ کرویہ خدا کے سامنے بک بک ہےصحیح طریقہ ہے کہ کلام اللہ میں غور اور فکر کرکے خدا کی راہوں کو دریافت کرنا اور اپنی انسانی راہوں سےاس کا مقابلہ کرکے ہر روز برائی سے الگ اوربھلائی سے میل پیدا کرتے جانا یہ حقیقی وظیفہ خوانی ہے۔ناکہ ہزار دفعہ ہر روز بد ہوُ یا بد ہوَ کہنا جیسے سید میران بھیک کے مرید کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

۲۶ ۔فصل۔نقشبندیہ کی بعض اصطلاحات کے بیان میں۔

 ان لوگوں کے پاس گیارہ لفظ ایسےعمدہ ہیں جن کے سنانے سے وہ سادہ لو حوں  کے دلوں کو اپنی طرف خوب کھینچتے ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس آدمی میں یہ گیارہ باتیں ہوںوہ تو  ضرور ولی اللہ ہوں گے۔وہ گیارہ لفظ یہ ہیں۔

 وقوف قلبی وقوف زمانی وقوف عددی ہوش دروم نظر برقزم۔سفر دروطن۔خلوت درانجمن۔یاد کرد باز گشت۔نگاہ داشت۔یاداشت۔

وقوف قلبی یہ ہے کہ ذکر کے مفہوم سےذاکر کا قلب آگاہ رہے۔

میں کہتا ہوں کہ ضربوں کی دہمادم میں ذکر کا مفہوم ایسا گم ہوتا ہے کہ سوا جسمانی رگڑوں کے اور کچھ  نظر نہیں آتاپھر ذکر ہوتا ہے۔لاالہ الااللہ کا جس کا مفہوم یہ ہے کہ سب جھوٹے معبود باطل ہیں خدا سچا معبود برحق ہےصوفیہ نے اس کا مفہوم ہمہ اوست نکالا ہے۔جو لفظوں سےکچھ تعلق نہیں رکھتاپھر وہ کیونکر لفظوں سے چسپاں رہ سکتاہے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ وقوف قلبی یہ ہے کہ دل ہر وقت خدا کی حضوری میں رہےذکر ہو یا نہ ہو اور یہ برکت ہم مسیحیوں کو بافضلِ مسیح بلامشقت خوب حاصل ہےکیونکہ اس نے جس کے ہم مرید ہیں ہمارے دلوں میں خدا کی محبت  کو جاری کردیا ہے۔

وقوف زمانی یہ ہے کہ صوفی اپنے حال سے آگاہ رہے۔کہ اس کا ہروقت اطاعت میں گزرتا ہےیا معصیت میں۔یہ کیسی بات ہے جب کہ صوفی ہمہ اوست کا قائل ہے۔اور فاعل ہر فعل کاخدا کو مانتا ہے۔اورو حدت الوجود میں غرق ہے۔پھر اطاعت اور مصیبت کیا چیز ہے۔کیا وہ ایمان لاتا ہے کہ میں فعل مختار انسان ہوں اور بدی مجھ سے ہوتی ہے نہ کہ خدا سےاگر وہ ایسا مانتا ہے تو صوفی نہیں ہے۔پھر ذکر کا فرضی مفہوم اس کے پاس کہاں ہے۔سچاو قوف زمانے سچے مسیحیوں سے ہوتا ہے۔کہ وہ ہر وقت اپنا حساب آپ لیتے رہتے ہیں۔

 وقوف عددی اس کو کہتے ہیں کہ نفی اثبات کا ذکر برعایت طاق ہوا کرے جفت نہ رہے یعنی ۲۰ نر ہے اکیس بارو غیرہ ہوجائے تاکہ جفت جفت الگ کرکے آخر کو تین جو طاق ہیں باقی رہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان اللہ وتر یحب الوتر۔اللہ طاق ہے اور طاق کو پیار کرتا ہے۔

مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث ۸۰۸

اسماء باری تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے بشارت

راوی:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لله تعالى تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة " . وفي رواية : " وهو وتر يحب الوتر "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو جس شخص نے ان ناموں کو یاد کیا وہ ابتدا ہی میں بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہو گا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

یہ حدیث ہے محمد صاحب کی اور یہ مقام صوفیوں اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے فکر کا ہےکیونکہ اس میں محمد صاحب گواہی دیتے ہیں کہ اللہ طاق ہے۔محمدی صوفیوں کو چاہیئے کہ لفظ طاق کا بیان کریں کہ کیا ہے؟کیو نکہ مجرد واحد  تو طاق نہیں ہوسکتا۔اوریہ  حدیث معتبر حدیثیوں میں سے ہے۔اورسب اہلِ ہندسہ جانتے ہیں کہ ایک کا عدد نہ طاق  ہےنہ جفت دو جفت ہے اور تین طاق ہےاورتمام محمدی فلاسفر کہتے ہیں کہ  عدادنیٰ نام ہےتین کا  جس کو انگریزی کالم پرائم نمبر کہتے ہیں۔ اور ہم مسیحی بہدایت کلام  اللہ تعالیٰ کو طاق یعنی تثلیث سمجھتے ہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ خدا طاق سے پیار کرتا ہے۔کیونکہ اس کی ذات پاک کواس سے مناسبت ہے۔اور یہی سبب ہے کہ اس کی حمد میں آسمان پر فرشتگان عدد طاق کی رعایت رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ قدوس قدوس قدوس رب الافواج۔

 صوفی کہتے ہیں کہ ذکر میں عدد طاق کی رعایت رہے تاکہ خدا اس کو پسند کرے۔ہم کہتے ہیں کہ ذات پاک میں بھی طاق کی رعایت رہےپس ہمارا وقوف عددی کامل ہے ناکہ ان کا انہوں نے ان اللہ وتر کو تو چھوڑ دیاجو اصلی بات تھی اوراس کی جگہ میں ہمہ اوست رکھ  دیا۔لیکن یحب الوتر عمل کرنا چاہتے ہیں۔اخیر اینہم غنیمت است اس مقام کوکئی بار  غورسے پڑھواور اس کا مطلب حفظ کرلو۔

 ہوش دروم کے معنی یہ ہیں کہ صوفی ہر سانس سے آگاہ رہے کہ وہ غفلت میں نہ گزرے۔یہ بات محال ہے  جو ہو نہیں سکتی کیونکہ غفلت جسم کا خاصہ ہے۔دیکھو خود محمد صاحب کیا فرماتے ہیں؟

مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ استغفار وتوبہ کا بیان ۔ حدیث ۸۵۷

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ و استغفار

راوی:

وعن الأغر المزني رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنه ليغان على قلبي وإني لأستغفر الله في اليوم مائة مرة " . رواه مسلم

حضرت اغر مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ بات ہے کہ میرے دل پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ (مسلم)

(انہ لیغانُ علی قلبی)میرے دل پر غفلت کا پردہ آجاتا ہے۔بندے نے اس حدیث کا بیان تعلیمِ میں مفصل لکھ دیا ہے۔اگر خوب سمجھنا چاہوتو وہاں دیکھو۔

 نظر برقدم یہ ہے کہ جب صوفی کہیں اٹھ کر جائے  تو اس کی نظر پیر کی پشت پر رہے تاکہ متفرق چیزوں کو دیکھنے سے طبیعت پراگندہ نہ ہواور نظر بے جا نہ ہو جائے۔پس اس بات کو پسند نہیں کرنا چاہیےکہ سب چیزوں کو جو دنیا میں ہیں دیکھیں۔خدا نے آنکھیں اسی لیے دی ہیں کہ ہم اس  جہان کی چیزوں کو دیکھیں اگر ہم اللہ کے لوگ ہیں اور خدا ہمارا دوست ہو کر ہمارے ساتھ ہےتو ہم ضرور نیک نظر رہیں گے۔اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں ہےاور زبر دستی اس کی حضوری کو اپنے خیال میں رکھتے ہیں۔تواس بناوٹ سے ہم کہاں تک نیک رہیں گے۔خواہ نظر بر قدم ہوں۔خواہ بر فلک بد خیالات ضرور دل میں پیدا  ہوں گے۔

 سفر در وطن۔یہ ہے کہ صفات بشریہ سے نکل کر صفات ملکیہ میں جاناصوفی لوگ توہمات میں مبتلا ہیں ہم کیونکر یقین کریں۔کہ وہ صفات بشریہ سے نکل کرصفات ملکیہ میں جایا  کرتے ہیں۔یہ ہم مانتے ہیں کہ جب  قیامت کے دن مومنین نئے بدن میں ہو کر مسیح میں اٹھیں گے۔تب فرشتوں کی مانند ہوں گے۔فی الحال کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ خدا کی حضوری کےآثارزیادہ دلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔اس وقت عجیب خوشی اور جلال کا سایہ دلوں میں محسوس ہوتا ہےاور حمد و ثنا کا لطف آتا ہے جو کہ بیان سے باہر ہے۔میرے گمان میں سفر دروطن یہ ہے کہ کہ آدمی ہمیشہ قدوسیت میں ترقی کرے۔اور جسمانی بد خواہشوں میں سے نکلتا رہےگویا وہ اپنے وطن کےقریب آتا جاتا ہےاور اپنی روح میں آسمانی مسافر ہےجب سفر تمام ہو گا۔تب وطن میں جا پہنچے گا۔ہاں یہ کیفیت ہمارے تجربے میں آ چکی ہےاس لیے ہم اس کے مقر ہیں۔مگر یہ بخشش صرف مسیحی ایماندار کو حاصل ہوتی ہے۔جب کہ وہ خداوند مسیح کا پیرو ہے سوائے مسیحی کے ہو نہیں سکتا کہ کبھی کسی کو حاصل ہو۔

 خلوت در انجمن۔ اس کے معنی ہیں کہ بظاہر جماعت میں اور باطن خدا کے ساتھ رہنا یہ دلی حضوری کا بیان ہے۔جو کہ بہت سے مسیحیوں کو  مسیح کے فضل سے حاصل ہے۔صوفیہ کو اگر کچھ حاصل ہوا بھی تو یہی ہو گاکہ وہ جماعت میں بیٹھا ہے۔اور دل میں اس کے ہمہ اوست ہے۔جو خدا  نہیں ہےایسی خدا کی حضوری سے کیا فائدہ ہے کیونکہ اگر ہمہ اوست کا خیال صحیح ہو  تو خلوت درانجمن تحصیل حاصل ہے۔

 یادکرو۔یہ ہے کہ غفلت کو بکوشش دور کرنا ۔غفلت سے  کیامراد ہے؟اگر غفلت فی الاحکام مراد ہے توفرض ہے کہ وہ غفلت بکوشش دور کی جائےاور ہم بھی اس بات میں اتفاق رکھتے ہیں۔مگر صوفیہ کی مراد یہی معلوم ہوتی ہےکہ خدا کی یاد میں اگر غفلت آئے تو بکوشش دور کرنی چاہیے۔خدا موجود ہے۔یہ خیال تو ایک  ایسا بدیہی ہے کہ ہر حال میں آدمی کو یاد رہتا ہے۔لیکن ہمہ اوست کا خیال جو باتکلف ذہن میں جمایا جاتا ہےوہ ضرور خیال سے نکل بھاگنے والی چیزہے۔اس کے لیے وہ  زور اورکوشش کام میں لاتے ہیں۔

 باز گشت۔یہ ہے کہ پہلے روح میں اللہ کو یاد کریں پھر بزبان دل یاد کریں۔

 نگاہداشت۔یہ ہے کہ کیفیت آگاہی کی حفاظت کی جائے۔

 یادداشت۔یہ ہے کہ نگاہداشت میں پائداری ہو۔یہ سب کچھ بھلا ہے۔بشرطیکہ ذہن میں اس خدا کاخیال ہو جو فی الحقیقت خدا ہے۔کوئی بت پرستوں کا بت نہ ہو۔ورنہ اس کے یہ سب حجت بے فائدہ  اور مضر ہو گی۔بت پرستوں نے پتھر ولکڑی وغیرہ کے خدا تراشے ہیں اور اہلِ عقل و صوفیہ وغیرہ نےخیالی خدا تراشے ہیں وہ خیالی بت ہیں۔حقیقی خدا وہی ہے جس کا ذکر بائبل میں ہے۔کیونکہ خدا نے خود بتلایا کہ میں کیا ہوں؟پس سچے خدا کے لیے جتنی محنت  کرو گے۔پھل پاؤ گے۔اورخیالی بتوں کےلیے  جو محنت ہو گی۔شرمندگی کا باعث ہو گی۔

۲۷ ۔ فصل لطائف خمسہ کے بیان میں

طریقہ مجددیہ والے کہتے ہیں کہ تمام عالم کی دو قسمیں ہیں۔عالم خلق اور  عالم امر۔ عرش یعنی خدا کے تخت کے نیچے کا جہان عالم خلق ہے اورعرش کے اوپر کا جہان عالم امر ہےان دونوں عالموں کے مجموعہ  کانام عالم کبیر ہےاور عالم صغیر ہر ایک انسان ہے۔

 عالم خلق کے پانچ اصول ہیں۔یعنی نفس اور عناصر اربعہ اورعالم امر کے پانچ اصول ہیں قلب ۔روح۔سرخفنی ۔اخفیٰ پس عالم کبیر مرکب ہے۔اجزا عشرہ ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ جب خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے تو عالم کبیر کے سانچے پر گویا ایک عالم صغیر سا بنایاہے کیونکہ انہیں عالم کبیرکی سب چیزیں اس میں معلوم ہوتی ہیں۔پانچواں اصول عالم خلق کے اس میں ہیں یعنی اربعہ عناصر اور نفسِ ناطقہ اورپانچواں اصول عالم امر کے اس میں یوں فرض کرتے ہیں۔کہ قلب کو جو عالم امر کا ایک لطیفہ ہے۔صنوبری گوشت کے ٹکڑے میں اللہ نے رکھا ہے۔اورروح کو عالم امر کا دوسرالطیفہ ہےبائیں پسلی کے نیچے رکھا ہےاورسر کو وسطی سینہ اور روح کے مابین جگہ دی ہے۔اور خفی کو روح اور سرکے درمیان رکھا  اور اخفی کو ٹھیک وسط سینہ میں رکھا دیاہے۔

 پس اب کمال حاصل کرنے کے لیے اولاً قلب کی صفائی چاہیےپھر دیگر لطائف میں بذریعہ  ذکر کے صفائی ہوتی رہے گی۔اور جب تمام لطائف صاف ہوں گےتب آدمی فنافی اللہ ہو جائے گا۔

میرے گمان میں یہ ان کا بیان بے اصل صرف وہم ہے۔کیونکہ وہ خوداپنے اس بیان کو نہیں سمجھاسکتے کہ یہ کیا بات ہے؟اور نہ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔ہاں عناصر کی بابت کچھ باتیں کرسکتے ہیں۔سو بھی اسی درجہ کے تک اہلِ علم نے لکھا ہے کہ مگر لطائف کی بابت جو کہتے ہیں کہ وہ وہمی بیان ہے۔عالم کبیر کو کسی بشر نے نہیں دیکھااور نہ انسان دیکھ سکتا ہے۔کون جانتا ہے کہ عالم کبیر کی کیفیت کیا ہے؟یہ علم صرف خدا کو ہے۔اور محمد صاحب فرماتے ہیں کہ (وما اوتیتم من العلم الاقلیلاً) تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔پھر ان صوفیہ نے کیونکر عالم کبیر کی کیفیت سےآگاہ ہو کر اس کا خلاصہ انسان میں پایا ہے۔خیر اس بحث کوچھوڑتا ہوں کہ انسان عالم صغیر ہے کہ نہیں۔لیکن اس بات کومانتا ہوں کہ انسان خدا کی صورت پر بنایاگیااورآزاد تھا۔اس کی وہ صورت الٰہی گناہ اور اس کے وبال کے سبب سے بگڑ گئی ہےاور وہ لعنتی ہو گیا ہے۔مسیح خداوند اس لیے دنیا میں آیا کہ فرمانبردار مومن کی بگڑی ہوئی صورت کو اپنی قدرت کی تاثیر سے بحالی بخشے اوراس پر سے لعنت کو ہٹا دے۔

 یہ بھی سچ ہے کہ اولاً قلب کی صفائی چاہیے کیونکہ قلب ہر انسانیت کی انسانی زندگی کا مرکز ہے۔لیکن میرا سوال صوفیہ سے یہ ہے کہ پہلے صاف صاف ان باتوں کا فیصلہ کرو۔کہ قلب وغیرہ میں کیوں کدورت آگئی اور کیا کدورت ہے؟بگمان شماسب کچھ خدا میں سےنکلا ہے۔کیا کدورت بھی خدا میں سے نکلی ہے؟اگر وہاں سے نکلی ہے توکدورت بھی خدا ہے۔اسے کیوں پھینکتے ہو۔کیوں ریاضت بے فائدہ  کرتے ہو۔ایک قدم پیغمبروں کے گھر  میں دوسرا بت خانے میں رکھتے ہو۔پس تم سوچو کہ کدھر کے ہو اور کہاں کی بولتے ہو۔

۲۸ ۔فصل حلقہ اور توجھ کے بیان میں

سرگرم پیروں کا ایک خاص وقت خصوصاً مغرب کے بعد مقرر ہوتا ہے۔جب  وہ اپنے مریدوں کو لے کر ذکر فکر میں مشغول ہوتے ہیں۔اس کو حلقہ اور توجہ کا وقت کہتے ہیں۔اور ان کے خاندانوں میں اس کے جداجدا طور ہیں چشتیوں کا اور طور ہے۔نقشبندیوں کا اور ہے۔مگر میں یہاں قادریوں کا طور بیان کرتاہوں۔کیونکہ ان کے حلقوں میں جانے کا مجھ کو اکثر اتفاق ہوا ہے۔

 مغرب کی نماز کے بعد پیر صاحب ایک کوٹھڑی میں جا کرپشت بدیوار اپنی مسند پر بیٹھے ہیں۔اور میرید آتے رہتے ہیں۔چند منٹ میں سب لوگ جمع ہو کر دائرے کی شکل میں پیر کے سامنے  بیٹھ جاتے ہیں اوردروازہ بند کیا جاتا ہے۔تب پیر صاحب آنکھیں بند کرکے اپنے دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اور سب  مرید پیر کے منہ کی  طرف برابر تکتے رہتے ہیں اور پیر صاحب شوں شوں کی آواز سے ذکر کی دھونکنی جاری کرتے ہیں۔ جب  سانس کی رگڑوں کی گرمی بدن میں آتی ہے۔اس وقت آنکھ کھول کر بائیں طرف والے مرید کو گھور کر غور سے دیکھتے ہیں۔اور شوں شوں کا جٹکا دیتے ہیں۔فوراً وہ مریدبھی اسی طرح  ہوں ہوں میں ذکر جلی جاری کرتا ہے۔یعنی وہی نفی اثبات کا ذکر شروع کرتا ہے۔اور پیر صاحب پھر بطور سابق اپنے دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔پھر آنکھ اٹھا کر دوسرے کو جھٹکا دیتے ہیں۔علیٰ ہذا لقیاس سب مریدوں سے یہ معاملہ ہوتا ہے۔اور سب مرید مع پیر صاحب گھنٹہ گھنٹہ تک ہوں ہوں کا شور کرتے رہتے ہیں۔اور عرق عرق ہو جاتے ہیں اور تھک تھک کر چپ کرتے جاتے ہیں۔جب سب چپ ہو گئے۔پیر صاحب ہاتھ اٹھا کر الحمد وغیرہ پڑھتے ہیں۔اورسب لوگ منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔یہ مشق ہر روز ہوتی ہے۔اس نشست کے دائرہ کا نام  حلقہ ہے۔اور پیر صاحب کے گھور کر جھٹکا دینے کانام توجھ ہے۔گویا پیر صاحب اپنے اندر سے کچھ برکت نکال کر روز روز مریدوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔اس سے کبھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔اگر کہیں کچھ تاثیر ہوئی بھی ہو تو یہ نشان ولائت  نہیں ہے۔بلکہ مسمریزم( mesmerism)کی بات جو مومن اور کافر سب کرسکتے ہیں۔توجھ کی صوفیہ میں بڑی عزت سمجھی جاتی ہے کہ پیر میں کچھ قدرت  ہے۔وہ ہم میں اثر کرے گی۔ہمیشہ اس توجھ کے لیے کاملین کی تلاش میں رہتے ہیں۔اور کبھی دل سیر نہیں ہوتا۔میں نے اکثروں کو بڑی تمنا سے یہ شعر پڑھتے سنا۔

انانکہ خاک بنظر کمیا کنند   آیا بود کہ نظر سے برمن گدا کنند

اللہ کا دروازہ چھوڑ دیا پیر وں کا دروازے پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں جب کچھ نہیں پاتے تو کہتے ہیں کہ ہماری قسمت۔ارے نادان قسمت کیا چیز ہےتو خدا سے بھیک مانگ وہ دے سکتا ہے۔تونے بھوکوں کے دروازوں پر جا کر بھیک مانگی اور خالی آیا۔وہ جو غنی ہے اس کے دروازے پر کیوں نہ گیا؟کہ وہ تجھے سیر کرتااس کا وعدہ ہےکہ جو کوئی میرے پاس آتا میں اسے نکال نہ دوں گا۔

 میں نے بھی ان صوفیوں کی بہت خاک چھانی بلکہ خاک پھانکی اُس وقت میں مسیحی دین سے ایسا ناواقف تھاجیسے اِس وقت بعض دیہاتی ناواقف ہیں میں نے سچے اعتقاد اور نیک نیتی سے ایسا کیا جیسا کرنا چاہئےمیں ہمیشہ جنید بغدادی اور بشیر حانی اور سری سقطی وغیرہ کی روشوں کو  نگاہ رکہتا تھا۔اور صرف خدا سے یہ سننے کا محتاج تھا کہ تیرا انجام بخیر ہےپیربن کےروپےاور عزت لینے سے مجھے نفرت تھی۔تمام جفاکشی کے بعد مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ راہ خدا سے ملنے کی  نہیں ہے۔اس سے صرف یہی حاصل ہوتا ہےکہ آدمی جاہلوں میں پیر کہلائے اوردنیا کمائے عاقبت کا دغدغہ روح میں سے نہیں نکلتا۔پس میں ان مشقتوں سے تھکا مانندہ اور ناامیدبلکہ متنفر ہو کر قرولی سے پانی پت  میں آیا  یہاں میرے ایک بزرگ مہربان مولوی عبدالسلام امام صابر بخش دہلوی کے داماد قاضی ثنا اللہ کے پوتوں میں سے تھے۔اورصوفی عالم گوشہ نشین کم گو اہلِ فکر میں سے تھے۔میں خلوت میں جا کر ان سےاس مذاق کی باتیں کیا کرتا۔اب آکر میں نے ان سے کہا کہ نہ اسلام سے میری تسلی ہوتی ہےاور نہ تصوف سے۔میں اب ان سب طریقوں کی پابندی چھوڑتا ہوں اورخدا کی تلاش دنیا کے اور فرقوں میں جاکر کروں گا۔اگر آپ مجھے بدلیل روک سکتے ہیں تو  مہربانی کرکے روکیں۔نیچے سر کر لیا اور چپ کرگئے۔آخر میں سلام کرکے چلا آیاسات سال کے بعد مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ خدا کا دین صرف مسیحی دین ہے۔اور عاقبت بخیر اسی سے ہوتی ہے۔اس وقت میں لاہور میں تھا۔اور جب مجھ پر یہ ظاہر ہوا۔تب میں نے ہٹالہ والے صاحب سے یعنی شاہ مولوی میر احسن  صاحب سےکہ صوفی عالم تھے۔یہ بھید خفیتہً وزیر خان کی مسجد واقع لاہور میں بیٹھ کر کہا کہ اگر آپ بدلیل میری تسلی کرکے مجھے مسیحی ہونے سے روک سکتے ہیں تو  خدا کے لیے یہ کام کیجیے۔فرمایا کہ روکنے کی دلیلیں اور تسلی کی طاقت میں نہیں رکھتا مگر یہ کہتا ہوں کہ مسیحی ہونے سے تمہاری مولویت عزت تو جاتی رہے گی۔مسلمان گالیاں دیں گے رشتےدار چھوٹ جائیں گےاور مسیحی لوگ یعنی انگریز بھی تمہاری کچھ پرواہ نہ کریں گے۔عام مسیحیوں کی طرح مارے مارے پھرو گے۔تب میں نے کہا کہ اگر عزت و آرام کی حفاظت کرتا رہوں تو خدا ہاتھ سے جاتا ہےاور اگر خدا کو تھامتاہوں تو یہ سب چیزیں ہاتھ سے جاتی ہیں۔ایک  نقصان تو مجھے بہر حال ہاتھ سے اٹھاناہے۔عقل کا حکم ہے کہ ایسی حالت میں چھوٹے نقصان کو گوارا کرنا چاہیےکہ بڑا نقصان نہ ہوپس میں سلام کرکے چل دیااور مسیحی ہوگیا۔اور میری روح میں تسلی آگئی۔کہ یقیناً میری عاقبت بخیر ہے۔اور اب جو میں دنیا میں زندہ ہوں ہزارکمزوریاں مجھ میں  ہوں پرواہ نہیں ہے مسیح نے مجھے بچالیا ہے۔میں نجات یافتہ ہوں۔خدا کی اور میری صلح ہو گئی۔میرے گناہ بخشے گئے۔میں نے اپنی روح میں خدا سے فضل پایا۔ہاں دنیاوی دکھوں کی موجوں میں ہوں لیکن پر پار اتر کر خدا کے پاس آرام میں ابد تک زندہ رہوں گا۔کیونکہ خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے۔

 ناپاک دل کو تاہ اندیش بازاری مسلمانوں جوچاہا سو مجھے کہا  اور بعض جھوٹے دینی بھائیوں نے بھی جو دکھ دیا میرا دل اور خدا جانتا ہے۔بلکہ جسمانی رشتے داروں سے ایذا پائی لیکن اسی صبر سے کام نکلا۔جو پیغمبروں میں تھااور خدا نے اپنے فضل سے دل میں القا  کیا۔یہ سب کچھ خدا  وند یسوع مسیح کی پاک توجہ  سے ہوا جس نے مجھ پر رحم کیا۔۔وہ ایک ہی شخص ہے جس کی توجہ خاک  سےافلاک پر  پہنچاتی ہے۔وہ بات بالکل غلط ہے کہ دنیا میں ایسے کاملین بھی ہیں کہ جن کی توجہ سے بیڑا پارہوتا ہے۔پیر فقیر تو الگ رہے۔سچے پیغمبروں کی توجہ سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ایک ہی شخص ہے جس کی توجہ سے  اولین و آخرین نے فضل پایا ہے۔بغیر اس کے فضل کے نہ کوئی ولی  ہو سکتا ہے۔نہ کوئی نجات پا سکتا ہے۔نہ کسی کا دل صاف ہو سکتا ہے اور نہ ہی معرفت حاصل ہوتی ہے۔صرف اسی کی توجہ سے سب کچھ ہوتا ہے۔

 وہ جو کہتےہیں کہ  ہم مسیح کو پیچھے ہٹا کر صرف خدا سے فضل کے امید وار ہیں۔وہ سخت غفلت میں ہیں اور نادان ہیں۔کیونکہ خدا جس نے اپنا کلام یعنی بائبل پیغمبروں کے وسیلےسے دنیا کو یہ ثبوت  دیا ہے۔وہ صادق القول اور لا تبدیل خدا ہے۔اور اس نےا س بات پر مہر کردی ہےکہ بغیر خداوند یسوع مسیح کے کوئی  نہیں بچ  سکتا اور نہ روحانی برکت پا سکتا ہے۔

 پس اے میرے ہم ملک پیارے بھائیوں اٹھو فکر کرو اور باانصاف کلام اللہ کو پڑھوسمجھو اور سب واہیات مہلک خیالات پھینک دو اور مسیح پر ایمان لا کرپاک ہو جاؤتب خدا تمہارے پاس آئے گااورتم اس کے پاس جا سکو گے۔بغیر اس ایمان کے خدا اور انسان میں دشمنی رہتی ہے۔اور کسی بات پر الٰہی توجہ نہیں ہوتی حقیقی حلقہ خدا کی کیتھولک کلیسیا ہےاور حقیقی توجہ خداوند یسوع مسیح سے ہوتی ہےاس بات پر بہت سوچو۔

۲۹ ۔فصل مراقبہ کے بیان میں

لفظ مراقبہ اگر رقابت سےہے تو محافظت کے معنی میں ہےاور جو رقوبت سے ہےتو انتظاری کے معنی ہیں۔صوفیہ مراقبہ بہت کرتے ہیں۔گھروں میں، مسجدوں میں،جنگلوں میں اور خصوصاً بزرگوں کی قبروں پر بیٹھتے ہیں۔اور آنکھیں بند کرکے لطائف خمسہ میں سے کسی لطیفے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔زیادی تر قلب کی طرف۔اور اس کام کی طرف مستغرق ہو جاتے ہیں۔اس امید سے کہ اندر کچھ روشنی نظر آئے گی لیکن اندر کیا ہے صرف اندھیرا۔

 جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ میں نے مراقبہ کا عمدہ طور بلی سے سیکھا ہے۔وہ چوہے کے سوراخ پر ایسی دبکی لگا کر بیٹھی تھی کہ اس کا بال تک نہی ہلتا تھا ۔مجھے خیال آیا کہ مراقبہ اسی طرح چاہیے۔پس میں ایسا ہی مراقبہ کرنے لگا۔(از معمولات مظہریہ)

 معلوم ہو جائے کہ کسی آدمی کے اندر کچھ روشنی نہیں ہے۔صرف گناہ،ناپاکی اور تاریکی ہے۔اگر روشنی دیکھنا چاہتے ہو توکلام اللہ کے مضامین میں فکر کروزندگی کا نور وہاں سے دیکھو گے۔اور اگر چاہو کہ وہ نور ہم میں جلوہ گر ہو تو ایمان کے ساتھ خدا کے احکام بجا لانےاور دعا سے یہ ہو گا۔اور کیا ہو گا؟کہ نہ مثل شعلہ آگ کے اور یامثل دنیاوی دھوپ کے کوئی روشنی چمکے گی۔مگر خیالوں میں ایسی روشنی آجائےگی۔کہ نیک و بد میں خوب تمیز کرو گے۔اور حق کو پہچانوں گے۔اور خدا کے بعض پوشیدہ بھید سمجھو گے۔اور شیطان کی گہرائی دریافت کرکےاس کے جالوں سے بچو گے۔اور روح میں ایک تازگی اور زندگی ظاہر ہوگی  اور اس آیت مقدس کا بھید منکشف ہوگا۔کہا جہان کا نور میں ہوں۔صوفیہ ان مراقبوں میں بے فائدہ وقت خرچ کرتے ہیں۔اس طور سے نہ کسی کو  کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ہم مسیحی بھی کبھی کبھی آنکھیں بند کرکے۔ذراچپ ہوجاتےہیں۔یہ اس لیے ہے کہ نادیدہ خدا کی طرف ذرا دل کو متوجہ کریں اور دلی حضوری سے خدا کے سامنے جائیں یا اس کا کلام پڑھیں۔اوردعا و نصیحت کریں۔یہ دلی توجہ ہے اور یہی ہمارا مراقبہ ہے۔ 

۳۰ ۔فصل شجرون اور اجازت کے بیان میں

صوفیہ  اپنے پیروں کےشجرے رکھتے ہیں کہ فلاں شخص کا مرید فلاں تھا۔اور اس کا فلاں مرید ہوا۔اپنے سے لے کر حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔اور جب مریدوں کو شجرے دیتے ہیں تولفظ باحق فلاں یا باطفیل صاف لکھتے ہیں۔اور آخر میں کچھ فقرہ دعا خیر کا ہوتا ہے۔مرید ان شجروں کو پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔یا سارے بدن پر دم کر لیتے ہیں۔یہ کیا لغو کام اور بری عادت ہے۔

 تمام بزرگ تو یہ کہتے ہوئے دنیا سے چلے گئےکہ ما عرفناک حق معرفتک وماعبدناک حق عبادتک اور دلی تمیز صاف کہتی ہے کہ کہ سوا خداوند یسوع مسیح کے کوئی ایسا شخص کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا۔جس کی معرفت اور عبادت کامل ہو اور جس کے اعمال حسنہ ایسے بے نقص ہوکہ وہ کچھ حقوق خدا پر ثابت  کرے۔سب کے سب شرمسار اور امید وار ہیں۔میں نہیں جانتا کہ ان پیروں نے کیاحقوق ان بزرگوں کے خدا پر ثابت کررکھے ہیں۔جن کے واسطے سے مراد براری کے اُمید وار ہیں۔

 ہم مسیحی لوگ خداوند مسیح کے نام سے دعا مانگتے ہیں۔کیونکہ اس نے فرمایا ہے کہ میرے نام سے دعا مانگو اور اس نے وہ کام بھی کیے ہیں۔جو ہماری مقبولیت کا وسیلہ ہیں اس کا تجسم ،ولد،ختنہ،بپتسمہ ،فاقہ،امتحان اورشیطان سے  باطنی کشتی اور لہو کا پیسنااور اذیتِ صلیب اورموت وتدفین اور تیسرے دن جی اٹھنااورآسمان پر جانااورروح القدس کا نازل فرمانایہ سب کام بندگان کے فائدے کے لیے ہوئے ہیں۔اس کو خودان کاموں میں سے کسی کی حاجت نہ تھی اور یہ برحق حقوق ہیں۔جن کے سبب سے وہ ہمارا وسیلہ بنا۔پیروں نے کون سے کام مریدوں کے لیے ہیں۔جو کچھ پیر صاحب نے تصوف میں جفا کشی کی اسی ارادہ اور نیت سےکی تھی کہ ہمہ اوست کے خیال میں خود فنا ہو جائیں۔یہ مرید ناحق ان کے پیچھے چمٹ گئےہیں۔  بعض سمجھتے ہیں کہ شجروں سے یہ تواریخی فائدہ ہے کہ اپنے سلسلوں کے نام معلوم رہتے ہیں اور دوسرا فائدہ یہ  بھی ہو سکتاہے کہ کسی بات کی سند اوپر تک پہنچ جائے۔مگر صوفیہ اپنے تصوف کی سند اوپر تک نہیں پہنچا سکتےان کے مسائل اور عقائد اوراطوار وقتاً فوقتاً اِدھر اَدھرسے جمع ہوتے ہیں۔نہ حضرت علی سے نہ محمد صاحب  سے پھر سلسلہ اور شجرہ سے کیا فائدہ ہوا صرف یہ کہ ان بزرگوں  کے نام سے جاہلوں کو اپنے قابوں میں لائیں اور آپ معتبر ثابت ہوں۔

 اجازت بے شک ایک سنجیدہ بات ہے۔کیونکہ دین کی خدمت معتبر بزرگوں سے اجازت حاصل کرکے کرنا مناسب ہے۔تاکہ نالائق آدمی انتظام دین میں خلل انداز نہ ہوں اور بدعتیں نہ نکلیں مگر صوفیہ سمجھتے ہیں۔کہ کسی پیرانٹ اور منتر میں اجازت سے تاثیر ہوتی ہے۔یہ وہمی بات ہے۔

۳۱ ۔فصل صوفیہ کے بعض خاص دعوؤں کے بیان میں

اگر کوئی آدمی کہے کہ میں ایسی قدرت رکھتا ہوں۔کہ اڑ کر ستاروں میں پہنچوں اور آ جاؤں تو ہم اس کو کیا کہیں گے۔صرف یہ کہ حضرت اڑ کر دکھلاؤ۔

 صوفیہ کےپاس پانچ دعوے اسی قسم کے  ہیں۔جن سے وہ احمقوں کو دھوکا دیتا ہیں۔اور جب کبھی ان دعوؤں کا ذکر آتا ہے۔تو کہتے ہیں کہ ہم  میں جو کاملین ہیں وہ ایسے کام کر سکتے ہیں۔لیکن کسی کامل کا نام اور پتہ نشان نہیں دیتے۔کہ وہ کون ہےاور کہاں ہے؟پس اب کیا کیا جائے گا؟کچھ نہیں  دعوؤں کی طرف دیکھناہوگا کہ کیا دعوے ہیں۔اور جب ہم ان کے دعوؤں کو دیکھیں گے۔تو صاف عقل سے معلوم ہو جائے گا۔کہ بعض باتیں ممکن ہیں لیکن ولایت اور قربت الٰہی کا نشان  نہیں ہیں۔اور بعض باتیں ہیں جو بالکل باطل نہیں ہیں۔ان کا ماننا بے وقوفی ہے۔

  •  وہ کہتے ہیں ہم سلب امراض کرتے ہیں۔اور طریقہ یوں بتلاتے ہیں۔کہ بیمار کو سامنے بیٹھا دیں۔اور اپنے سانس کولمبا اندر کی طرف کھینچیں اورخیال کریں کہ  ہم نے بیمار کی بیماری کو اپنے اندر کھینچ لیا ہے۔پھر باہر کا سانس لیں اور خیال کریں کہ ہم نے اس کو باہر زمین پر پھینک دیا ہے۔اسی طرح دیر تک کرتے رہیں۔وہ بیمار اچھا ہو کر چلا جائے گا۔اس بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں  کہ وہ کونسا پیر آپ لوگوں میں ہے۔جوا یسا کرتا ہے۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسمریزم والے بھی ایسےعمل کے مدعی ہیں۔وہ تو بڑے ولی اللہ ہوں گےکیا یہ ولی اللہ کا نشان ہےیاترکیب ہے؟
  •  وہ  کہتے ہیں کہ ہم دلوں کا حال جان سکتے ہیں طریقہ یوں بتلاتے ہیں صوفی کو اپنی کیفیت سے خالی  ہوکر خدا کی علمی صفت میں مستغرق ہونا چاہیےاور باعاجزی کہنا کہ یا علیم یا خبیر اس شخص کا حال مجھے بتلادے پس جوکچھ اس وقت دل میں آئے وہی حال اس شخص کا ہے۔خدا سےکہنا کہ تو بتلادے کہ یہ تو مناسب  کام ہے۔لیکن خدا ان کوبتلا دیتا ہے۔اس کا ثبوت کیونکر ہو؟اس کا ثبوت اس طرح ہو سکتا ہےکہ کوئی صوفی اٹھےاور خدا سے ہمارے دل کی بات پوچھ کر ہمیں سنائے۔اس وقت ہم کہیں گے کہ غلط ہے یا صحیح۔
  •  وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مکاشفے اور الہام ہوتے ہیں۔آج کل مرزاغلام  احمد صاحب کو الہام ہو ر ہے ہیں۔اور صوفی صاحبان کہتے  ہیں کہ ہاں صاحب ہوتا ہو گا۔فلاں فلاں پیروں کوفلاں فلاں وقت ہوا تھا۔یا نہیں۔دہرنیچریوں کوان کے خلاف الہام  ہو رہا ہے۔آسودہ حال اور پیٹ بھرے آدمیوں کو ایسی باتیں بہت سوجھتی ہیں۔اس بارے میں اتنا کہنا کافی ہے۔کہ گزشتہ زمانے میں جو پیغمبروں کو الہام ہوئے ہیں۔ ان کی ایک  خاص صورت ہےاور خاص وجہ یہ تھی کہ خدا کو اپنی مرضی بندگان پر ظاہر پر کرنا منظور تھا۔سو اس نے کیا۔اور صورت یہ تھی کہ ایسے دلائل قدرتیہ کے ساتھ وہ الہات پیش ہوئے کہ عقل کی مجبوری سےان کا ماننا لازم ہے ان صوفیہ کے الہا مات اور مکاشفات کی وجوہات اور صورتیں اس لائق نہیں ہیں۔کہ ان کا خدا کی طرف سے ہوناثابت ہو وہ تو ہمات اور ذہنی خیالات  ہیں۔اور میں کیا کہو ؟مگر یہ کہ اگر وہ الہامات خدا کی طرف سے ہیں تو ان میں جمع کرکے قرآن کے ساتھ مجلد کرو کہ مسلمان لوگ نماز میں پڑھا کریں۔
  •  وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف توجہ سے آدمی کو نیک اطوار بنا دیتے ہیں۔

اس کا طریقہ یوں لکھا ہے کہ بھلا آدمی بنانا منظور ہےاسے سامنے لا کر بٹھاؤاوراگر وہ حاضر نہ ہو تواس کا تصور کرو اور بوسیلہ خیال کے اس کے دل میں توبہ ڈالواور شوق پھینکو پس وہ توبہ کرکے نیک ہو جائے گا۔

میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد صاحب سے تو ہرگز نہ ہوا۔بہت چاہا کہ ابو جہل چچا مسلمان ہو جائےپر وہ ایمان نہ لایا اور تمام سچے پیغمبروں سے بھی یہ نہ ہوااورتمام گزشتہ صوفی بزرگوں سے بھی ایسا نہ ہوا۔بعض رشتے داروں کے لیے سر پٹ کر رہ گئےخیر اب اگر کوئی کامل صوفی دنیا میں ہے تووہ اٹھے اور ہم مسیحیوں اور ہندووں کی زندگی میں اپنے اسلام یا تصوف کو پھینکے۔لوگوں کے حق میں  دعائے خیر سے توکبھی کبھی کچھ فائدہ دیکھا گیا ہےلیکن پھینکنا کچھ بات نہیں ہے۔وہی وہم ہے۔

  •  وہ کہتے ہیں کہ صوفی لوگ خلع دُلبس کرسکتے ہیں۔

خلع کے معنی ہیں چھوڑنالبس کے معنی ہیں پہننامراد یہ ہے کہ صوفی لوگ اپنے بدن کو چھوڑ کر کسی غیر کے بدن میں اپنی روح کو لے جا سکتے ہیں۔اس کا طریقہ یوں ہے کہ میں اپنی روح کو پیروں کی انگلیوں سے شروع کرکے کھینچو اور تمام بدن میں سےاکٹھا کرتے ہو ئے دماغ میں لئے جاؤجب ساری روح وہاں اکٹھی ہو جائےتب  منہ یا ناک کی راہ سے نکالواور کسی غیر مردہ بدن جو کہ سامنے پڑا ہو داخل کرو پس تمہارا بدن مر جائے گا۔اور وہ ،مردہ بدن جی اٹھے گااور تم جانوں کہ میں اس میں آگیا ہوں۔یہ پرانےزمانے کی جھوٹی باتوں میں سے ایک بات ہے۔ لیکن صوفیہ کو اس پر یقین ہے۔معلوم نہیں کہ علم الیقین یا حق الیقین یا  عین الیقین ہے؟

Pages