November 2016

۲ ۔فصل اسلام اور تصوف کے بیان میں

سوال یہ ہے کہ آیا علم تصوف  علوم اسلام میں داخل  ہے یانہیں اور کہ  صوفی آدمی مسلمان ہے یا نہیں۔اسلام کےمعنی اپنی حدِ یثوں میں  محمد صاحب نے یوں بتلائے ہیں خدا کو ایک اور محمد صاحب کو نبی ماننا ، نماز، روزہ ،حج اور زکواۃٰ ادا  کرنا اسلام ہےاورعقلاً بہ وسعت یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ محمد صاحب نے تمام مجموعہ قرآن اور اس کے موافق حدیثوں میں سکھلایا ہے کہ وہی ان کا اسلام ہے۔چنانچہ جو کچھ ویدومیں لکھا ہےوہی ویدانت ہے۔ اور جو کچھ انجیل مقدس میں مذکور ہے وہی عیسایت ہے۔پس اگر  علمِ تصوف  قرآن و حدیث سے باستنباط صحیح مستنبط  ہےتو وہ علومِ اسلام میں سے ہے۔اور ہر صوفی آدمی مسلمان ہے اور اگر وہ قرآن و حدیث سے نہیں ہےکوئی خارجی بات ہے جو صوفیہ نے کہیں سے نکالی ہے۔تو وہ علومِ اسلام میں سے نہیں اور نہ صوفی آدمی مسلمان ہے۔کیونکہ اس کے عقائد تصوف کے ہیں نہ کہ اسلام کے  اور جو محمد صاحب کو مانتا ہے۔بطور صلح کل کے مانتا ہے نہ کہ بطور اسلام کے۔

اب اسبات کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟اولاً چاہیے کہ معتبر محمدی عالم اس کا فیصلہ کریں کہ وہ تصوف کو اپنے اسلام کاجز سمجھتے ہیں یا نہیں ثایناً ہم خود فکر کرسکتے ہیں کہ تصوف اسلام میں سے نکلا ہےیا باہر سے آیا ہے۔سب سے زیادہ معتبر کتاب اسلام کے تفسیر اتقان ہے۔اس کی نوع ۷۸ میں لکھا ہے کہ ( واماکلام الصوفیۃ فی القرآن فلنس بنمفسیر ۔یعنی صوفیا کا کلام جو قرآن کی بعض آیات کے معنی میں ہوتا ہے۔وہ قرآن کی تفسیر میں نہیں ہے۔یعنی ان کا اپنا تجویز کیا ہوامضمون ہوتا ہے۔جو کہ محمد صاحب کی مراد نہیں ہے)۔ پھر لکھا ہے کہ ( النصوص علےظواہر ہا والعدول عنہا الی معا نِ ید عیہا اہل الباطن الحاد  ) یعنی وہ جو صاف صاف قرآنی آیات ہیں۔وہ اپنے ظاہری معنے پر ہیں۔ان ظاہری معنی سے اس طرف جھکنا جن کے مدعی اہل ِ باطن یعنی صوفی ہیں الحاد یعنی کفر ہیں۔

 اب ناظرین کو معلوم کرنا چاہیے کہ تصوف کس چیز کا نام ہے؟اکثر کتبِ تصوف دیکھنے سے معلوم ہو ا ہے کہ ان میں دو قسم کی باتیں مذکور ہیں۔

اول اسلام کی باتیں ہیں مثلاً ایمان،نمازروزہ خلوص جو کہ محمدیت ہے۔ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔یہ سب کچھ ہرگز تصوف نہیں ہےیہ تو اسلام ہے اور اس کا بطلان ہدایت المسلمین اور تواریخ محمدی و تعلیم محمدی وغیرہ میں بندہ نے کافی طورپرد کہلا دیا  ہے۔

دوئم خاص باتیں صوفیہ کی ہیں کچھ عقائد ہیں کچھ خیالات ہیں کچھ اطوارِ ریاضت ہیں جن کا ثبوٹ نہ قرآن سے ہے نہ معتبر حدیثوں سےبلکہ صوفیہ نےان اپنی تجویزوں سے اور کچھ بت پرست قوموں سے لے کر جمع کی ہیں۔اسی کانام علمِ تصوف یاسلوک ہےاور میری بحث اس کتاب میں انہی باتوں سے ہے۔اوروہ تصوف کی باتیں ہمیشہ اسلام سے الگ نظر آتی ہیں۔اور کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ تصوف کا ہے اور یہ اسلام کا ہے۔

 اب صوفیوں سے کوئی پوچھے کہ کیا تم اپنے تصوفی خیالات کو قرآن و حدیث کی معتبر تفسیروں سے ثابت کر سکتے  ہوکہ آپ لوگ مسلمان سمجھے جائیں اورآپ کے ولیوں کی ولایت اسلام کی برکت سمجھی جائے۔اور آپ تو ہرگز ثابت نہیں کرسکتے کہ تب وہی بات جلال الدین سیوطی کے  خیالاتِ تصوف کی نسبت درست ہوگی۔کہ الحادُاور جب تصوفی خیالات الحادٹھہرے تو پھر صوفی کیا ہواملحد ہوا کہ نہیں اور ملحد سے بالفرض کرامتیں بھی ظاہر ہوں توالحاد کی حقیقت ثابت ہو گی نا کہ اسلام کی۔

 محمدیوں میں جو ۷۲ فرقے مشہور ہیں وہ سب کے سب غالباً تصوف کو ناچیز جانتے ہیں۔اور شعیہ تو اس کے بہت ہی مخالف ہیں۔ لیکن سنیوں میں سے بعض ہیں جو تصوف کی قدر کرتے ہیں۔بلکہ اپنے شاگردوں کو علومِ اسلام سکھلانے کے پیچھے سے تصوف کی طرف سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ کامل صوفی  کی تلاش میں ہمیشہ رہتے ہیں کیونکہ اسلام میں ان کی تسلی نہیں ہوتی تصوفی خیالات کے وسیلےسے خدا کے نزدیک جانا چاہتے ہیں۔

کیاخوب بات ہے کہ محمد صاحب نے اسلام نکالاصوفیوں نے تصوف نکالا اسلام کے وسیلے سے کوئی ولی اللہ نہ ہواتصوف کے وسیلے سے ولی اللہ ہو گئے۔تب تصوف اسلام سے بڑا اور صوفی محمد صاحب سے بڑے ہادی ٹھہرے پھر وہ کہتےہیں کہ ہم محمد صاحب کے پیروں ہیں اوروہ ہمارے  پیشوا ہیں لیکن اس پیشوائی کا ثبوت اس وقت ہو سکتا ہے تصوف قرآن سے ثابت ہو جاتا ہے تصوف تو ویدوں سے ثابت ہوتا ہے۔نہ کہ قرآن سے پس ان کے پیشوا ویدوں  کے مصنف ہوں گے نہ کہ  محمد صاحب کے۔ایک محمدی بزرگ نے  یوں کہا ہے کہ

علمِ دین فقہ ہست و تفسیر و حدیث   ہرکہ خواند غیر ازین گرد وخبیث

یہ شعر اور جلال الدین کا قول بالا تصوف کو محمدی دین سے بے عزتی کے ساتھ باہر نکالتا ہے۔ مگر بعض محمدی مولویوں نے جو تصوف پر فریفتہ ہیں بہ تکلف تصوف کو اسلام  میں داخل کیا ہے۔کہ اس کو اسلام کا لب لباب سمجھا ہے اور  یہ ان کی غلطی ہے۔

 مشکوۃ کتاب الایمان جو پہلی حدیث ہے اس میں لکھاہے کہ

فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ جبرائیل نے حضرت سے پوچھاکہ احسان کیا چیز ہے فرمایا یہ کہ تو خدا کی ایسی عبادت کرےگویا تو اس کو دیکھتا ہے۔اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ایسا کہ وہ تجھے وہ دیکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ دلی حضوری سے عبادت کرنا احسان ہے۔

مظاہرالحق جلد اول صفحہ ۲۶ میں لکھا ہےکہ احسان اشارہ ہے۔اصل تصوف پر کہ توجہ الی اللہ سے مراد ہے کہ  اور فقہ  بغیر تصوف کے تمام نہیں ہوتی۔

 یہاں اس  مصنف نے دھوکا کھایا کہ چترائی کا کلام کیا ہےکہ  تصوف محمدی فقہ کا تکملہ ہو کےاسلام کے علوم میں جگہ پائے۔اس لیے ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ لفظ تصوف بمعنی صفائی قلب اور بات ہے۔اور علم تصوف کو اصطالاحاً مجموعہ قواعدصوفیہ کانام ہےاور بات ہے کہ بغیر اس مجموعہ قواعد  کے اگر کوئی دلی حضوری سے عبادت کرسکتا ہے پھر اس علمِ تصوف پر لفظ احسان سے کیونکر اشارہ ہو گا۔

 میں تو خوش ہوں کہ تصوف اسلام کا ایک حصہ یالب لباب ثابت ہو۔تاکہ تعلیم محمدی اور بھی زیادہ حقیر ہو جائے۔لیکن انصاف کے سبب سے کہتا ہوں کہ سارا علم تصوف ہرگز قرآن و حدیث سے  نہیں نکلا ۔نادانی کی باتیں باہر سے صوفیہ نے لے کر جمع کی ہیں۔کیونکہ اسلام سے دل کی سیری نہ ہوئی تھی اور روح کی بھوک پیاس نہ بھجی تھی تب بھوکے پیاسوں نے ادھر ادھر تاکا کہ کہیں سے کچھ پائیں۔لیکن جو کچھ بت پرستوں سے پایا اور کھایا وہ زہر قاتل تھا۔کہ ان کی روحیں ہلاک ہو  گئیں اور وہ ہمہ اوست کے غار میں اترگئے۔

نجات اور تسلی زندگی اور خوشی صرف خدا تعالیٰ کے کلام سے حاصل ہوتی ہےاور وہ کلام ان صوفیوں کے پاس نہ تھا۔اس لیے وہ انجام بخیر نہ ہوا۔اپنے گناہوں میں دھنسے ہوئے اس جہاں سے چلے گئے اور روتے ہوئے گئےاور وغدغہ میں گئےکہ بچیں گے یا نہ بچیں گے۔خدا کے بندے بائبل شریف کے مومنین ہمیشہ بوسیلہ کلام اللہ کے تسلی اور مغفرت پا کر مرتے ہیں اور مسیح نے فرمایا ہے کہ (جو کوئی میرے پاس آتا ہےکبھی بھوکااور پیاسا نہ ہوگا)۔ یہاں روح کی بھوک اور پیاس کا ذکر ہے۔ہم جتنے ایمان سے مسیح کے  پاس آئے ہیں  ہم نے تسلی او ر چین حاصل کیا ہے۔ہم الٰہی قربت اور مغفرت  وغیرہ کے لیے ادھر ادھر ہرگز نہیں تاکتے۔ہم سیر ہو گئے ہیں اوریہ  خدا کے  کلام کا خاصہ ہےکہ مومن کو سیر کرے۔یہ کام قرآن سے اور تصوف سے اور دنیا کی کتاب سے اور کسی ریاضت و عمل اور وظیفہ سے نہیں ہوسکتا ۔صرف مسیح سے ہوتا ہے کیونکہ وہ ازلی کلمہ ہے۔

۳ ۔فصل صوفی کی وجہ تسمیہ کے بیان میں

کتابوں میں اس فرقہ کی تین وجہ تسمیہ مذکور ہیں۔اول یہ کہ صوف کے معنی ہیں پشم یا اون پس وجہ پشمینہ پوشی کے یہ صوفی کہلاتے ہیں۔میرے گمان میں یہ کچھ بات نہیں ہےاس بات سےتو انگریز بڑے صوفی ہیں وہ سب ہمیشہ اونی کپڑے پہنتے ہیں۔بھیڑ بکری اور اونٹ بڑے صوفی ہیں کیونکہ صوف پوش ہیں۔یحییٰ اور الیاس پیغمبروں نے اونٹ  کے بالوں کی پوشاک استعمال کی ہےکیا وہ صوفی تھے ؟ ہرگز نہیں ۔البتہ اکثر درویشوں کا دستور رہا ہے کہ ایک کمبل یا لبادہ اون کار کھتے تھے کہ کفایت شعاری اور جسمی آرام اور بزرگانہ شکل قائم رکھنے کے لیے۔اگلے زمانے کے فقیر اکثر کمبل پوش تھے۔اوراب بھی بعض ایسے ہیں کہ کمبل پوشی کو دروشی کی سنت سمجھتے ہیں۔

انوار العارفین ۱ صفحہ ۸۲ میں لکھا ہےکہ حضرت محمد صاحب نے فرمایا کہ  (علیکم بلبس الصوف) یعنی اون پوشی کو اپنے اوپر لازم سمجھو اور ایک اور حدیث میں ہے کہ کان النبی یلبس الصوف ویر کب الحمار ۔نبی صاحبہ پشمینہ پوش رہتے۔اور گدھے کی سواری کیا کرتے تھےاور یہ بھی حدیثوں میں ہے کہ ایک سیاہ کمبل محمد صاحب نے علی کو دیا تھا۔صوفی کہتے ہیں کہ وہ فقیری کانشان تھا۔اور وہ کمبل پیروں میں دست بدست نصیر الدین محمود تک چلا آیا تھا۔آخر کو محمود اسےاپنی قبر میں لے گیا۔اس لیے اس فرقہ میں کمبل پوشی ایک مثل ایک سنت کے ہوگئی امام اعظم صاحب اور داؤد طائی اور ابراہیم ادہم اور حسن بصری اور سلیمان فارسی وغیرہ نے اور اول زمانے کے اکثر بزرگوں نے کمبل پوشی اختیار کی تھی پس ایک وجہ تسمیہ ان کی کمبل پوشی ہے۔اس وجہ سے صرف کمبل پوشوں کو صوفی کہنا چاہیے۔ ان پیر زادں کو جو غالیچوں پر بیٹھتے اور کم خواب پہنتے اور پیچوان پیتے ہیں۔وہ ناحق صوفی کہلاتے ہیں۔جب کہ کمبل پوش نہیں ہیں ۔دوسری وجہ تسمیہ صوفی کی یہ بیان ہوئی ہے کہ صوفی آنراگویند گا وارد دل خودرا وصاف دار خاطر خود ارا از خیال غیر حق ۔اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیار حق کا خیال بھی دل اور خاطر میں نہ آنے دیں۔یعنی ہمہ دست کے خیال سے مستغرق رہےوہ صوفی ہے۔یا صوفی وہ ہےجس نےا پنے دل کو خدا کے لیے صاف کیا ہےاورصاف کرنے کے معنی ان کی اصطلاح کے مطابق یہی ہیں۔کہ کسی غیر شے کے وجود قائل نہ ر ہےاسے سب کچھ خدا نظر آئے یعنی ہمہ اوست کے درجے کو خوب پہنچا ہو۔میں سمجھتا ہوں ایسے آدمی نے اپنے دل کو زیادہ تر کدورت اگین کیا ہے کہ خالق کی عزت مخلوقات کو دی ہے۔اور خدا کو اپنے خیال میں سے نکالا ہے۔اور غیر چیزوں کو اس کی جگہ میں بٹھایا ہے۔ایسے شخص کو صاف دل کہنا غلط ہے۔اگر اس وجہ سے یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں تویہ وجہ خلاف واقع کے ہے۔تیسری وجہ تسمیہ صوفی کی اور ہےاور وہ میرے گمان میں زیادہ تر صحیح ہے۔چاہیے کہ سب مسیحی لوگ ان صوفیوں کو اس تیسری وجہ کے سبب سے صوفی کہیں اور وہ یہ ہے ہے کہ مکہ شہر میں ظہورِاسلام سے پہلے جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔تو اس کے منتظم اور پوجاری یا خدمت گزار قوم صوفہ کے لوگ تھےاور اس وقت ان کی عزت عرب میں تھی۔وہ پیروں کے موافق تھی اور صوفہ کہلاتے تھے کہ جب اسلام ظاہرہوا تو محمدیوں میں سے بعض شخص بعض امورمیں ان بت پرستوں سے اتفاق کے سبب ان کی طرف منسوب ہو کر صوفی کہلائے شروع میں اسی سبب سے انہوں نے یہ نام پایاپھر کمبل پوشی اور صفائی وغیرہ کےچرچے ہوئے۔اور وہ اصلی پہلی مکروہ بات پو شیدہ ہوگئی۔دیکھو غیاث اللغات لفظ صوفی کے ذیل میں کیا لکھا ہے۔ (ورشرحی معتبر از شروح نوشتہ کہ صوفی منسوب کہ بصوفہ است کہ قومےبوداز اہل تجردد رایام جاہلیت کہ خدمت کعبہ میکردند د خدمت خلق برائے حق مے نموندد پس اہل تصوف منسوب بایشان شدند )۔

  پھر قاموس اور منتہی الارب افیک ہی عبارت یوں لکھی ہے ۔(وصوفہ ایضاً ابوحی من مضرو ہوالغوث بن مربن اوبن طائحتہ کا نوایحذ مون الکعبتہ ویحبیڑون الحاج فی الجاہلتہ اے  یفیفون بہم من عرفات  وکان احد ہم یقوم فیقول اجیڑی صوفہ فاذ اجازت  قال اجیڑی خندف فاذا اجازت اذن اللناس کلہم فی الا حاذۃ اوہم قوم من افنا  القبایل تجعموا فتشکبوااکتشبک الصوفۃ)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مضر کے گھرانے میں سے ایک قبیلہ کے باپ کا نام صوفہ ہے۔ اس کا دوسرا نام غوث تھااور وہ مربن اوبن طایخہ کا بیٹا تھا یہ لوگ کعبہ کی خدمت کرتےتھے۔اور ایامِ جاہلیت میں حاجیوں کو چلاتے ہیں ۔یعنی مقام  عرفات سے طوائف  کے لیےانہیں روانہ کرتے تھے۔کوئی آدمی ان کاکھڑا ہو کرکہتا  تھاکہ چل اے قوم صوفہ جب وہ چلتےتب وہ کہتا چل مٹک چال جب وہ مٹک چال چلتے تو تب تمام لوگوں چلنے کی اجازت ہوتی  تھی۔

اور صوفہ ایک گروہ کا نام بھی تھا۔جو سب قبائل میں سے معلوم النسب لوگ تھےوہ جمع ہوتے تھےاورآپس میں ایسا میل ملاپ کرتےتھے کہ جیسے قوم صوفہ مذکرہ بالا کا باہمی  میل ملاپ تھا۔پس یہ لوگ آپ کو صوفہ  کی مانند بنانے کی وجہ سے صوفہ کہلاتے تھے۔

اجیزی خندف کے معنی ہیں کہ چلو خوشی اور تکبر کی چال میں نے اس کا ترجمہ مٹک چال کیاہے۔چنانچہ اب تک وہاں تین طواف رمل ہوتی ہیں۔یعنی بانکوں کی مانند مگر محمدی لوگ یہ مٹک چال فتح مکہ کا نشان بتلاتے ہیں۔اور قدیم عرب اور مطالب سے کرتے تھے۔ خندف بمعنی مٹک چال ان کی ایک پڑدادی کانام تھا۔جو الیاس بن مضر کی زوجہ تھی اور طائحنہ کی والدہ تھی۔وہ ایک دفعہ مٹک چال جنگل میں چلی تھی۔جب خرگوش سے اووک کے اونٹ بھاگے تھے۔اس وقت سے اس کے شوہر نے ان کا نام خندف رکھ دیا تھااورطائحنہ پڑدادا ہےصوفہ غوث کا اور صوفہ غوث سے یہ تمام قوم نکلی تھی اور اپنی جدا اعلیٰ کے نام پر سب صوفہ کہلاتے تھے۔پس اس مٹک چال میں وہ اپنی دادی کی سنت پر کوئی اشارہ کہتےتھےاور یہی قوم تمام عرب کے لیے کعبہ پرستی میں پیشوا اور پوجاری تھی۔دیگر قبائل میں سے بھی وہ معلوم النسب لوگ جو قوم صوفہ کی مانند عادات بناتے تھےصوفہ کہلائے۔حاصل کلام یہ ہے کہ صوفہ غوث ایک بت پرست آدمی تھا۔اسلام سے بہت دنوں پہلےاس کی تمام اولاد کئی پشت تک صوفہ کہلائی اور دوسرے گھرانوں کے لوگ بھی جو معلوم النسب تھےصوفہ کہلائےاس لیے کہ صوفہ غوث کی اولاد کے نقشِ قدم پر میل ملاپ اور کعبہ کے بتوں کی پرستش کرتےاور سال بسال کعبہ میں جمع ہوا کرتے تھے۔

اس بیان سے جو بالکل صحیح ہےظاہر ہے کہ لفظ صوفی کی اصل وہی صوفہ غوث بت پرست آدمی ہےاس سے اولاً اسکے  اولاد صوفہ کہلائی اور ان کے اقتدار کے سبب غیر لوگ بھی صوفہ کہلائے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اس جہالت کے زمانے میں درمیاں اُن بت پرستوں کے صوفی لوگ ممتاز تھےوہ خدا پرست سمجھے گئے۔ اس لیے بعض دیگرقبائل کے لوگ ان کی اقتدار کرکے صوفہ ہو جاتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اطوار  خدا پرستی میں درست ہیں۔جب اسلام کا زمانہ آیااورتمام ملک عرب بزور شمشیر مسلمان کیا گیااور انہیں محمدی شریعت دی گئی۔ان سے پرانی بت پرستی کے دستور چھڑائے گئے۔تو انہیں نومسلم لوگوں میں سے اکثروں کے دلوں میں قوم صوفہ کا خمیر موجود تھا۔چنانچہ اکثر ذی علم صوفی اب تک قائل ہیں کہ ہمارا تصوف اسلام سے پہلے تھااور اسلام میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ خمیر اس کے ذہنوں میں سے نکالتااب وہ نومرید صوفہ لوگ کیا کر سکتے تھے۔اگر اسلام کو چھوڑیں تو مارے جائیں صوفہ کو چھوڑیں تو بگمان ذیش حقیقی خدا پرستی سے الگ ہوتے ہیں۔

 قیاس چاہتاہے کہ  اس و قت ایسے لوگوں میں بہت کانا پوسی ہوئی ہوگی اور ان ہی کی کانا پوسی کا وہ نتیجہ معلوم ہوتا ہےجو کہ آج تک صوفیہ میں مشہور ہے کہ ایک علم سینہ ہے تو دوسرا سفینہ ہے۔ایک ظاہری انتظامی شریعت ہے جو محمد صاحب قرآن وحد یث میں لائے ہیں اس کے پیرو اصحاب ظا ہر یعنی محمدی لوگ ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ ہیں۔ تو دوسری  باطنی شریعت ہےجو صوفیہ  میں سینہ بسینہ چلی آتی ہے۔اور خدا کا وصال اسی سے ہوتا ہے۔محمدی شریعت ملکی انتظام کے لیے ہےخدا پرستی کی راہیں جدا ہیں وہ لائق آدمی کو بڑی آزمائش کے بعدصوفی لوگ بتلاتے ہیں اور  یہ لوگ اصحاب باطن ہیں۔اور کچھ عرصے کے بعداس کے ساتھ یہ بھی اڑایا کہ یہ علم سینہ محمد صاحب سے ہی پہنچا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ صوفہ غوث کی بات ہے۔اور محتسب کے کوڑے اور قاضی کے فتوے میں کچھ تخفیف ہو۔اور اصحاب ظاہر میں سے جو کچھ مادہ کے شخص ہوں صوفیہ میں شامل ہونا گمراہی نہ سمجھیں بلکہ جانیں کہ محمدصاحب کی اصل ہدایت صوفیہ کے پاس ہےمحمد صاحب علی کے کان میں ڈالی گئی تھی۔حضرت علی نے امام حسن وامام حسین اور کمیل بن زیاداور حسن بصری کو ہدایت خفیہ کی تھی کہ یہی چارا شخاص  پیر طریقیت ہیں اور ان ہی سے یہ نعمت سینہ بسنیہ پیروں میں چلی آئی ہے۔

 پس تمام ملک میں جس قدر  صوفی پیدا ہوئے۔صدہا شجرے اپنے مرشدوں سے لےکہ انہیں چار میں سے کسی پیر تک پہنچتے ہیں ۔لیکن نقشبندیہ کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا پیر ابو بکر صدیق ہےاُن کو محمد صاحب سے علم باطن پہنچا تھا۔اور اس کےسلسلے سے ہمیں پہنچا ہے۔

 قیاس اور قول بالا سے ظاہر ہے کہ ان کا اصل مرشد وہی صوفہ غوث ہےکیونکہ قوم صوفہ کی اصل باتیں ان میں اب تک ویسے پائی جاتیں ہیں عقائد اور خیالات اور اطوارِ ریاضت وہی ہیں جو ان بت پرستوں کے تھے۔چنانچہ اس کتاب میں ان کے اطوار کا مفصل بیان ہوتا ہے۔اس وقت ناظرین کو اتنا معلوم ہو جائے کہ قاموس کی عبارت میں جو صوفہ کے کاموں کا ذکر ہے۔وہی کام بعینہ یہ صوفی کرتے ہیں۔

 وہ سال بسال کعبے کے میلے  میں جمع ہوتے تھے۔یہ سال بسال قبروں پر عرس کے لیے  جمع ہوتے ہیں۔وہ من افناء القبائل تھے ۔ صحیح ترجمہ اس عبارت کا یہی ہے کہ سب قبیلوں میں سے معلوم النسب لوگ تھےیہ سب صوفی بھی ہر گروہ میں سےمعلوم النسبت ہوتےہیں اور شجروں سے پہچانے جاتے ہیں کہ کون کس گھرانے کا مرید ہے۔اگر کوئی اجنبی صوفی آجاتا ہے تو پوچھتے ہیں آپ کس سلسلے کہ ہیں وہ کہتا ہے کہ قادریہ یا ٍچشتیہ وغیرہ ہوں۔وہ آپس میں میل ملاپ کرتے تھے یہاں بھی وہی حال ہےہزار اہلِ تماشہ عرس میں آ  ئیں۔اصل گمت صوفیوں ہی  کی ہوتی ہے۔وہ بت پوجتے تھےیہ قبروں کے قدم چومتے ہیں۔وہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔یہ قبروں کا  طواف کر تے ہیں۔وہ آبِ زم زم پیتے تھے یہ چرنامت چکھتے ہیں۔یعنی وہ پانی جو قبروں کے غسل اوس دوبالشت کے حوض میں جمع رہتا ہے۔جو پیر کی قبرسے پیروں کی قبروں کی طرف چونے سے بنی رہتی وہ کعبہ کے غلاف چومتے تھے یہ قبروں کے غلاف آنکھوں سے لگاتے وہ بتوں سے مدد مانگتے تھے یہ مردوں سے مانگتے ہیں۔ان کا ایک آدمی پیشوائی کرتا تھا۔ان کابھی ایک سجادہ نشین پیشوا ہوتا ہے۔اور یہ خیال جواب تک ان میں ہے۔کہ تمام ولیوں میں غوث بڑا شخص ہوتا ہے۔اس کی اصل بھی وہی صوفہ غوث ہے۔جو اُن میں جدا علی تھااور کیا  تعجب ہے کہ اس کانام یا غوث بت سے کچھ علاقہ رکھتا ہو۔جو ان بت پرستوں میں نہایت بڑا دیوتا سمجھا گیا  تھا۔اب فرمائے کہ صحیح وجہ تسمیہ کیا ہے۔ 


۴ ۔فصل اقسام صوفیہ کے بیان میں

صوفیہ کی اقسام دو طرح کی ہیں۔اول خاندانوں کے اعتبار سے اور دوئم ان کی باطنی حالت کے اعتبار سے ۔خاندانوں کے اعتبار سے یہ کیفیت ہے کہ اسلام میں جو  ۷۲ فرقے اختلاف رائے سے پیدا ہوتے ہیں۔ان سے کچھ ہی زیادہ فرقے ان میں مشخیت  کے لیے پیدا ہوئےہیں خاندانوں کے اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ جو چار پیر تھے ان سے چودہ خانوادے نکلے ہیں۔

 زیدیہ۔عیاضیہ ۔ اوہمیہ ہیبئریہ ۔چشتیہ ۔ عجمیہ۔ طیفوریہ۔ کرضیہ۔ سقطیہ۔ جنیدیہ۔ کاردینہ طوسیہ۔ سہروردیہ۔ فردوسیہ ۔پہران چودہ سے اور فرقے اس قدر نکلے کہ مصنف لوگ جمع نہیں کرسکتے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔قادریہ۔ یسویہ ۔نقشبندیہ۔ نوریہ۔ شطاریہ۔ خضرویہ۔نجاریہ۔ زاہدیہ ۔ الضاریہ ۔ صفویہ۔ عید روسیہ وغیرہ۔اورمشرب قلندریہ میں سے بھی مدرایہ رسول شاہی ۔ نوشاہی وغیرہ قسم قسم کے فقیر ہندوستان میں پھرتے ہوئےملتے ہیں۔اور اپنے فرقوں کے نام بتلاتے ہیں اور اسی کو خوبی سمجھتے ہیں۔ کہ ہم فلاں فرقے کے ہیں ۔وہ اپنے فرقے کے نام سے روٹی کما کر کھاتے ہیں۔ اور اکثر ان میں محض جاہل اور نکارہ سست  لوگ ہیں جو محنت کرکے کھانا نہیں چاہتے ۔ غیروں سے خوراک پانا اورنشہ بازی کیے لیے کچھ دام حاصل کرنا اپنی فقیری کامنشا سمجھتے ہیں۔

پھر صوفی کہتے ہیں کہ بااعتبار باطنی کیفیت کے ہمارے درمیان تین قسم کے لوگ ہیں۔ واصلان۔متوسطان۔مقیمان۔

مقیمان وہ صوفی ہیں جو اپنی دنیاوی کیفیت میں قائم رہتے ہیں۔ اپنی بری حالت کو چھوڑ کر مدارج تصوف میں ترقی نہیں کرتے  ان لوگوں کو متصوفہ کہتے ہیں یعنی چھوٹے صوفی۔یہ لوگ شکم پرور اور دنیا دار ہیں۔ کپڑے رنگے ہوئے ہاتھ میں ہاتھ تسبیح منہ میں سبحان اللہ وغیرہ الفاظ بولتے، مقبروں اور پیروں کی تعریفیں کرتے اور ان کے عرسوں  یا میلوں کی تاریخیں یاد رکھتے اور ختم سناکے اچھےکھانے اوڑاتے اور دن رات پیسہ پیدا کرنے کی ایسی فکر ہوتی ہے جیسے ایمان دار خدا کی تلاش کرتا ہے۔دیہاتی نادانوں کی طرف  بہت جاتے  ہیں۔ اور ان کو مرید بناتے اور ان کا مال کھا جاتے ہیں۔اور ان کی تعلیم اور صحبت سے اور لوگ اسی قسم کے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ چلہ کشی یاورد خوانی وغیرہ کچھ کام بھی اگر کرتے ہیں تومنشایہی ہوتا ہے کہ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کریں۔اور جب کوئی دولت مند ذی اختیار ان  کے ان کے پنجےمیں پھنس جاتا ہے  اور ان کی عزت کرتا یا کچھ زمے داری بخش دیتا ہے  یا مرنے کے بعد کسی کا مزار بنا دیتا ہے۔تو یہ بات ان کے کمال کی دلیل سمجھی  جاتی اور اس کا ذکر پشتوں تک چلاآتا  ہے۔کہ فلاں صاحب ایسے بزرگ تھے کہ فلاں امیر نے ان کو یہ کچھ بخشد یا تھا۔ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس کچھ اثاثہ زمینداری یا کسی خانقاہ کی آمد کاجو ان کے آبا ءنے اسی طرح پیدا کیاتھاموجود ہےوہ عزت سے رہتے اور غریب صوفیوں  کو بھی کچھ کھلاتے اور مہمان داری کرتے ہیں روٹیاں تقسیم فرماتے ہیں۔اور اس وجہ سےدور  دور تک تعریفیں  ہوتی ہیں اور وہ اس تعریف سے بہت خوش ہوتے ہیں۔کیونکہ آمد بڑھتی اور ولی اللہ مشہور  ہوتے ہیں۔اور اس کے ساتھ جب خوش اخلاقی ظاہر کرتے ہیں۔تب زیادہ رونق ہوتی ہے۔لیکن بعض ان میں سخت دل،متعصب اور شہوانی شخص ہوتے ہیں۔

 متوسطان وہ ہیں جو مقیمان کے اوپر اور واصلاں  کے نیچے سمجھے گئےہیں انہوں نےد نیا کو کسی قدر چھوڑا اور تصوف کے طریقوں کو اختیار کیا ہے۔ لیکن ابھی تک خدا  کے پاس نہیں پہنچنے کوشش کررہے ہیں کہ پہنچ  جائیں ان کو سالکین کہتے ہیں ۔

  میں دیکھتا ہوں کہ  ایسے صوفیہ میں کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔سو مقیمان  میں شاید پانچ ایسے ہوں۔ان میں کچھ تو خدا کی محبت ہےجس کی سبب سے انہوں نے جفا کشی اختیار کی ہےاور کچھ اپنا دنیاوی آرام چھوڑا ہے۔ اس لیے وہ عزت اور محبت اور ہم نشینی کے لائق ہیں۔ان کی نسبت مجھے یہی افسوس ہے کہ جس راہ پر وہ چلے جاتے ہیں۔وہ راہ خدا سے ملنے کی نہیں ہے۔بے فائدہ مشقت کھینچتے ہیں۔ان اطوار سے جو انہوں نے اختیار کیے ہیں۔خدا کو کبھی نہ پائیں گے۔ میں ان کی منت کرتا ہوں کہ میری یہ باتیں سن کر خفا نہ ہوں۔بلکہ فکر میں پڑ جائیں۔اور غور کریں کہ جو کچھ اس کتاب میں بیان ہوا ہےسچ ہے یا نہیں۔

 ان متوسطان میں سے کئی ایک آدمی ہمارے مسیحیوں  کی جماعت میں بھی آ ملے ہیں ۔اور دینِ مسیحیت کا انہیں لطف حاصل ہوا ہے۔کیونکہ وہ سچائی کے بھوکے اور رضیاتوں کے تھکے ماندے تھے۔جب وہ مسیح کے پاس آئے مسیح نے بموجب اپنے وعدے کے (متی 1۱۔۸)  ان کے دلوں میں آرام داخل کردیا۔اب وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ صوفیوں کے جال سے نکلے اور پیغمبروں کی جماعت میں آئےاور خدا کو فی الحقیقت پایااور اس سے فضل حاصل کیا جودلوں اور خیالوں میں جلوہ گر ہواہے اور تبدیل ہو کر نئے انسان ہو گئے ہیں۔اب پورا یقین ہے کہ وہ انتقال کے بعد وہ حقیقی آرام میں پہنچیں گے۔کیونکہ اسی زندگی میں خدا کی قدرت اور محبت کا ہاتھ  اپنی طرف دیکھتے ہیں ۔پس یہ لوگ ان صوفی متوسطان کو بہت یاد کرتے ہیں جن کو غلطی میں پیچھے چھوڑا ہےان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی اس گرداب میں  سے ایسا نکالے کہ جیسا ہمیں نکالا ہے۔کیونکہ وہ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بکواسی اور شریر  نہیں صرف  بھول میں ہیں۔

 واصلان وہ صوفی سمجھے گئے ہیں جو کہ  ان مقیمان اور متوسطان کے گمان میں خدا سے مل گئے ہیں ۔تصوف یا سلوک کی منزلیں طے کرکے  منزل مقصود کو پہنچے ہیں۔یہی بیان اس کتاب میں بڑی بحث کا ہے۔

 اس لیے میں صاف صاف کہتا ہوں کہ ایسے اشخاص جن کو واصلان کہا جائےصوفیہ میں کبھی ہوئے نہ کبھی ہوں گئے۔یہ صوفیوں کا وہم ہے جو وہ کہتے ہیں ہم میں واصلان بھی  گزرے ہیں۔

اور وہ جو ان میں بڑے بڑے نامور ولی اللہ مشہور  ہیں۔ جن کے عالی شان  مقبرے بنے ہوئے ہیں۔جہاں میلوں اورعرسوں کے وقت  مریدوں اور پیر زادوں  اور عوام مرد عورت کا ہجوم اور چراغوں اور غلافوں اور چورو ناچ اور حال قال اور ماہ و ساوں میں پنکھیوں  کی دھوم رہتی ہے۔یہ ساری کیفیتیں دلائل ولایت واصلان حق ہونے کے شان نہیں ہیں۔یہ تو پیر زادوں کی دکانداری ہے۔ البتہ وہ بزرگ اپنے اپنے زمانے میں بطور صوفیہ خدا پرست اور نیک ہونگےلیکن واصلان میں سے وہ ہرگز نہ تھے۔ وہ سب سلوک ہی میں مر گئے۔ہاں ان کے سلوک میں زیادہ استغراق دیکھ کر لوگوں نے انہیں واصلان میں سمجھ  لیا ہے۔اور انہیں اڑایا ہے تاکہ وہ جاہلوں میں سے پوجے جائیں اور پیر زادے حلوے کھائیں۔اور ان کے نام سے عزت حاصل کریں کہ ہم اتنے بڑے شخص کی اولاد میں سے ہیں۔آؤ ہمارے پیر وں کو ہاتھ لگاؤ اور نذرانہ لاؤ۔

اس مقام پر یہ سوال لازم ہے کہ واصلان حق کے کیا معنی ہیں اور وہ جو واصلان ہیں کیونکر پہچانے جاتے ہیں۔پہلے اس سوال کا تصفیہ کرو۔پھر کہنا کہ کون واصل اور کون فاضل ہے۔

اس سوال کا جواب صوفیہ کی بعض تحریرات  سے یوں  برآمد ہوتا ہےکہ جو لوگ ہمہ اوست کے خیال میں  پختہ ہو گئےہیں۔وہی ان کے گمان میں واصلان ہیں گویا خدا میں وصل ہوگئے ہیں۔اور وہ جو ان کی کچھ کرامتیں اورمکاشفے مذکور ہیں وہ علاماتِ ولایت ہیں۔اور یہ کہ ان کے عہد کے بعض لوگ ان کے متعقد تھے۔اور اب تک  بہت سے لوگ ان کی قبروں پر جمع ہوتے ہیں اور ان سے منت مانتے اور درخواستیں کرتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں۔

 اگر واصلان حق کے معنی اور علامات کچھ اور ہوں  جنہیں میں نہ سمجھا ہوں تو چاہیے کہ صوفی خود بیان کرے۔میں تو ان کی کتابوں کے مطالعہ سے ایسا ہی سمجھا ہوں۔جیسا میں نےاوپر لکھاہے۔

اور اس بیان کی نسبت یوں کہتا ہوں کہ گزشتہ تاریکی کے زمانے میں وہ بیان قبول ہوا کرتا تھااب قبول نہیں ہو سکتا ہے۔کیونکہ نہایت ناقص خیال ہے۔اس وجہ سے کہ ہمہ اوست کا خیال فی الواقع ایک  باطل وہم ہے۔خداتعالیٰ ہرگز ہمہ اوست کی کیفیت میں نہیں ہے۔پس یہ لوگ یعنی ان کے اولیا اگر واصل ہیں تو ہمہ اوست کے باطل خیال سے واصل ہیں ناکہ  خدا سے۔

 اوروہ جو ان کی کرامتیں مشہور ہیں۔ان کا اثبادت محال ہےکیونکہ اگرچہ کرامتوں کے ظہور کا اولیا اللہ سے امکان ہے۔تو بھی کچھ قاعدے ہم مسیحیوں اور محمدی محدثوں کے پاس بھی ضرور موجود ہیں۔جن سے خبروں  کی آزمائش کرناعقلاً واجب ہےتاکہ ثابت  ہو جائے کہ کس قسم کی خبریں لائق اعتبار ہوتی ہیں۔انہیں قواعد واجبہ کی رو سے محمدی معجزات کی خبریں غیر معتبر ٹھہر ی ہیں۔اور وہی قواعد ہیں جن سے ہر احمق بت پرست کا منہ کرامتوں کے بارے میں بند کیا جاتا ہے۔پس فرض ہے کہ ہم انہیں قواعد سے ان ولیوں کی کرامتوں کی خبروں کو بھی پرکھیں ثقہ روایوں کی تلاش کریں اور خبروں کا تواتر دیکھیں اگر ہم ایسا کریں تو یہ دفتر کے دفتر کرامتوں کے صاف  اڑ جاتے ہیں۔کیونکہ یہ ظاہر مریدوں اور غرض مند پیرزادوں کے بے سرو پا زٹلیات ہیں۔جو ایک وقت میں تصنیف ہو گئےاور اب تک  ہر للو پنجو سے تصنیف ہوتے چلے جاتے ہیں۔

 بائبل شریف کے معجزات ایک خاص مراد پر اور ایک خاص نبوت کے ساتھ ممتاز ہو کر مرقوم ہوئے ہیں اور ان کا وقوع سنجیدگی میں ہے۔وعلی روس الاشہاد ہوا ہےاس لیے صرف وہی معجزات اعتبار کے لائق ہیں۔

  باقی تمام زمین پرہر گروہ کے لوگ  جو کچھ کرامتیں اپنے بزرگوں کی سناتے ہیں ایک بھی نہیں ہے کہ بائبل کے معجزات کے ثبوت کی مانند اپنے بیان کا ثبوت رکھتا ہو۔

محمد صاحب قرآن میں ایک تعلیم دنیا کے سامنے لائے ہیں اگر وہ تعلیم خدا سےثابت ہوتی تو مناسب تھا کہ خدا اپنی قدرتوں سے اس پر گواہی دے کر اسے ثابت کرتا جیسے گزشتہ زمانے میں اس نے بائبل مقدس  کی نسبت کیا ہے۔لیکن خوب ثابت ہو گیا کہ خدا نے قرآنی تعلیم پر کچھ گواہی نہیں دی۔ پھر ان صوفی ولیوں کی کرامتوں پر کس بات پرگواہی دیتا ہے۔آیا تصوف پر یا ہمہ اوست کے باطل خیال پر یا ان پیروں کے حال و قال پر  ۔

 معجزات کی وہ پُر شان قدرت جو کہ خدا میں مخفی ہےاور انتظامِ فطری سے بلند و بالا ہےجسے خدا نے بڑی سنجیدگی کی صورت میں بمزاو ثبوت پیغام گاہے بگاہے ظاہر کیا ہے۔کیا وہ قدرت ایسی عام ہو گئی کہ ان ولیوں نے صدہا کرامتیں چٹکی چٹکی میں کر ڈالیں؟کیا ان ولیوں پر بھی ایمان لانا  اہل ِ دنیا پر فرض ہے؟

" دھوکا  نہ کھاؤ سوکھی جڑ سے سبز ڈالیا نہیں نکلا کرتیں"۔

رہے ان کے مکاشفے اور مہلمات سو ان کی طرف بھی غور سے دیکھو کہ صرف توہمات ہیں۔حقیقی مکاشفے جوخدا کی طرف سے ہیں بائبل میں مذکور ہیں۔ان کی مانند کوئی مکاشفہ کسی ولی کا اگر کسی کو معلوم ہو تو بتلا دےتاکہ ہم اس پر فکر کرکے کہیں کہ  وہ مکاشفہ ہے یا وہم ہےیاصرف ایک  خیال ہےجو انسان سے ہے۔

اور یہ کہنا کہ ان کے عہد کے لوگ ان کے متعقد تھے یہ کچھ بات نہیں ہے۔جیسے سچے معلموں کے متعقد دنیا میں ہو گزرے ہیں ویسے جھوٹے معلموں کے متعقد بھی ہو گزرے ہیں۔یہ دکھلانا چاہیے کہ ان میں کیا تھا جن کے سبب سے لوگ متعقد ہوئے تھے؟

 اور اب جو قبروں پر لوگ جمع  ہوتے ہیں۔ان کا سبب  تو وہی صوفی باطل خیال ہیں وراثتہ اً ان میں چلے آتے ہیں اورپیر زادگان کی طرف سے کشش بھی ہےاور وہ جو منت مانتے ہیں اس کا سبب انسانی بے ایمانی ہےکہ خدا کو چھوڑ کر مردوں سے درخواست کرتے ہیں مصیبت  زدہ جاہل عورتیں اس بلا میں زیادہ مبتلا ہے۔لیکن کیا ہوتا ہے کیا ہر کسی کی مراد پوری ہو جاتی ہےہرگز نہیں سب کام انتظام ِ الٰہی سے ہوتے ہیں۔کیو نکر کوئی ثابت کرسکتا ہےکہ فلاں کام فلاں پیر سے ہو گیا ہےاور کہ کون کون امور میں پیرپرست کامیاب ہیں؟کہ پیروں کے  منکر وہاں ناکامیاب رہے ہیں بر خلاف اس کے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ  جو  زندہ خدا کو چھوڑ کر غیر معبودوں کے دروازوں پر بھیک مانگتے  پھرتےہیں کبھی سیر نہیں ہوتے بلکہ تمام لعنتیں ان کو گھیرے رہتی ہیں اورآخر ہائے ہائے کرکے بے ایمان مر جاتے ہیں۔

 حاصل کلام یہ ہے کہ صرف سالکین اور متصوفین صوفیہ میں ہوئے ہیں اور واصلان حق کبھی ان میں نہیں ہوئےاور جن کو انہوں نے واصلان ِ حق سمجھا ہے وہ  فی الحقیقت واصلانِ حق نہ تھے۔وہ اپنے باطل خیالات میں مستغرق تھےاور اس استغراق میں ان کی حالت دگر گوں دیکھ  کر ان لوگوں نے ان کو واصلان سمجھا ہے۔

۵ ۔فصل ولی اور ولایت کے بیان میں

 لفظ ولی مصدر ولا سے مشتق ہے۔اس کے معنی ہیں کہ محبت رکھنے والااور اس کی جمع اولیا ہے۔ولایت اسی لفظ ولاسےدوسرا مصدر ہے جس کے معنی  دوستی اور تقربِ بندہ بخدا کےہیں۔

 ہر قوم اورہر فرقے میں بعض ایسے اشخاص بھی ملتے ہیں۔جو کچھ کچھ محبت اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں۔خواہ دانشمندی یا نادانی کے ساتھ لیکن وہ سب ولی اللہ نہیں سمجھے جاتے۔

 ولی اللہ میں کچھ اور بھی مطلوب ہے جس سے وہ سچا ولی اللہ سمجھا جائے۔پس کسی نے کہا کہ ولی وہی ہے جو خدا سے محبت رکھتا ہے۔یعنی دونوں میں دوستی ہو۔

 اس مضمون پر کسی نے کہا کہ یہ بھی ولی کی پوری تعریف نہیں ہے۔کیونکہ خدا کی محبت پیدائش اور رزق رسانی اور حفاظت اور دنیاوی برکت میں کافروں اور مومنین کی نسبت برابر  ظاہر ہےاور دونوں کے لوگوں میں سے بعض ہیں جو خود بھی محبت کا دم بھرتے ہیں۔پس جن میں محبت توہے کیا وہ سب ولی ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 مولوی عبدالغفور نفحات کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ولایت کی دو قسمیں ہیں۔عامہ اور خاصہ ولایت عامہ سب مومنین اہلِ اسلام کو حاصل ہے۔خدا کی مہربانی سے خدا کے قریب ہیں ۔جس نے انہیں کفر کی تاریکی سے نکالا اور ایمان کے نور میں شامل کیا۔

 ولایت خاصہ مقربان درگاہ کے لیے مخصوص ہے۔جس کے معنی ہیں بندہ کا خدا میں فنا ہو نا۔بہ نسبت غیر چیزوں کے اور خدا میں بقا  ہونا بہ نسبت حق کے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیان بھی مولوی عبدالغفور کا درست نہیں ہے۔اولاً ولایت کی تعریف صحیح کرنا چاہیے پھر تقسیم جب کہ ہم ان کے بیان سے ولایت ہی کو نہیں سمجھے کہ وہ کیا چیز ہےتو ہم اس کی قسمیں کیونکر مان سکتے ہیں؟

 اور یہ جو ولایت عامہ میں محمدی مومنین کی نسبت خدا کی مہربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔کہ اس نے انہیں کفرسے نکالااور نور ایمان میں شامل کیا۔یہ مقام بحث طلب ہےپہلے یہ فیصلہ  ہوناچاہیے کہ کفر کیا ہے اور محمدی ایمان کیا ہےاور اس میں کیا روشنی ہےجس کو وہ نور کہتےہیں اور یہ کہ  خدانے ان کواس نور میں شامل کیا ہےیا تلوار نے یایہ کہ مجبوری سے مسلمان شدہ لوگوں کے گھروں پیدا ہو کر اسلام کے نور میں شامل ہوئےاور اس شمسول کو الٰہی فعل قرار دیتے ہیں  جب تک یہ سب باتیں صاف نہ ہو جائیں ہم کیو نکر قائل ہو سکتے ہیں۔کہ خدا کی خاص مہربانی ان پر ہوئی ہے۔اور کہ یہ قربت کی ایک صورت ہے۔پس یہ ولایت عامہ توجہ کے لائق شے نہیں ہے اوراس سے دینِ  محمدی کا  کچھ جلال ظاہر نہیں ہوسکتا۔

 اور ولایت خاصہ کی جو یہ تعریف کی ہےکہ نسبت غیر چیزوں کے فنا ہونا اور بہ نسبت حق کے خدا میں بقا حاصل کرنا البتہ یہ بات فکر کی ہے کہ یہ کیا ہے؟

یہ بات بہ تبدیل عبارت نفحات میں یوں مرقوم ہے کہ ولی وہ ہے۔ جو اپنے حال کی نسبت فناہو جائےاور مشاہدہ  حق کی نسبت باقی رہےاورتمام کتب تصوف میں ایسی ہی تعریفیں ولی  کی لکھی ہیں۔جس کا حاصل یہ ہے کہ از خود فنا بخدا رسیدہ شخص ولی ہے۔لیکن فی الحقیقت ایسا شخص ولی نہیں ہو سکتا۔یعنی وہ جو اپنے حال کی نسبت فنا ہو جائےوہ تو پاگل یا دیوانہ یا مخبط الحواس ہے ۔ پھر مشاہدہ حق کی نسبت باقی رہنا اس کا ثبوت اس شخص کی نسبت کیونکر ہو سکتا ہےکیونکہ ازخود رفتگی جواُس میں  ہےوہ حواس میں تاریکی کانشان ہےاور جب اس میں تاریکی اور خلل ہے تو روح میں خدا سے دوری ثابت  ہوگی۔نہ کہ قربت کیونکہ خدا نور ہےاس کی قربت آدمی کو منور اور روشن کرتی ہے ناکہ پاگل۔

 پھر صوفیہ  کہتے ہیں کہ ولایت اور نبوت دو حالتیں ہیں باطنی حالت کانام ولایت ہےاور ظاہری  حالت ہدایت خلق کانام نبوت ہے۔اس لیے ہر نبی ضرور ولی بھی ہےلیکن ہر ولی نبی نہیں ہے۔بعض ولیوں کو نبوت کا عہدہ بھی بخشا گیا ہے۔وہ ولی نبی کہلاتے ہیں اور بہت ولی ہیں جو نبی نہیں ہیں مگر اندورنی کیفیت ان سب نبیوں اورولیوں کی یکساں ہیں۔

 میں اس بات کو مانتاہوں کہ درحقیقت ولایت ایک باطنی کیفیت ہے مگر کلام اس میں ہے کہ وہ کس قسم کی کیفیت ہے اوروہ کون سے نشان ہیں جن سے اس کیفیت کو پہچان کر کسی کو ولی قرار دے سکتے ہیں۔اس کا فیصلہ اب تک صوفیوں سے نہیں ہوااور نہ ہو سکتا ہے۔تو بھی انہوں نے بعض آدمیوں کو ناحق  ولی سمجھ لیا ہےاور ہمیشہ چند احمق آدمی مل کر کسی نہ  کسی آدمی  کوولی مشہور کردیتے ہیں۔میں  نےجہاں تک ان کی کتابوں میں فکر کیا ہے۔مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ صوفی نہ حقیقی نبی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی حقیقی ولی سے واقف ہیں۔جس قسم کے لوگ ان میں ظاہر ہوئے ہیں ان ہی کی کیفیت پر غور کرکے انہوں نے نبوت اور ولایت کا بیان کیاہے۔ ان کے پاس خدا کا کلام نہیں ہے۔ کہ انہیں روشنی بخشےاور راہ راست دکھلادے ان کے پاس صرف آدمیوں کے اقوال ہیں اور وہ بھی ناقص اقوال اور قرآن ہے جو انسان کا کلام ہےاور حدیثیں ہیں جو کہ ناکارہ باتیں ہیں نہ ان کے درمیان  کوئی نبی ِبرحق ظاہر ہوااور کوئی سچا دل پیدا ہوا ۔اس لیے وہ غلطی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

 معلوم ہو جائے کہ سچاولی اللہ وہ شخص ہے جو صحیح توبہ اور برحق ایمان کےبعد محبت الٰہی میں ترقی کرتا اور خدا کی مرضی خدا کے کلام سے دریافت کرکے عمل میں لاتا ہےاور خدا کے حکموں کو چمٹا رہتا ہے وہ گناہ کی نسبت فنا اور راستبازی کی نسبت بقا کا رتبہ حاصل کرتا ہے۔ایسا ہی شخص خدا کا مقرب ہوتا ہے اور نشان قربت جو اولاً خود اس پر ظاہر ہوتے ہیں۔یہ ہیں کہ اس کی روح میں ایک نئی زندگی اور روشنی اور تازگی اللہ کی طرف سے آجاتی ہے اور اس کو حقیقی اطمینان حاصل ہوتا ہےثانیا  جو نشانِ قربت غیروں پرظاہر ہوتے ہیں یہ ہیں کہ اس شخص کے افعال اور اقوال اور سب حرکات و سکنات اسی نئی زندگی اور روشنی اور تازگی و اطمینان کے مناسب ظاہر ہوتے ہیں یہ ہیں اس سے لوگ پہچانتے ہیں کہ یہ مردِ خدا ہے۔

 اور یہ بھی کچھ ضروری نہیں کہ اس سے کرامتیں ظاہر ہوں۔البتہ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی کرامت کا کام بھی اگر  خدا چاہے تو اس سے ظاہر ہو جائےاور یہ بھی کچھ ضرور نہیں  کہ لوگ اس کے پیچھے دوڑیں یا اس کی قبر پرستی کریں یااس کے قدم پکڑے اگر وہ ایسے کام لوگوں کو کرنےدے تو وہ خدا کا آدمی نہیں ہے۔

 ہاں اسکے بعض نیک نمونے اگرچا ہیں تو لوگ اختیار کرسکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ اس نے خدا کی اطاعت اور خدمت کیونکر کی ہم ایسے ہی کریں۔اس نے خدا کی طرف دل لگایا ہم بھی خدا کی طرف دل و جان سے متوجہ ہوں۔خدا نے اس پر فضل کیاہم پر بھی فضل کرے گا۔

 مسیحی ولیوں کی کیفیت  اور محمدی ولیوں کی کیفیت زمین آسمان کا فرق ہے۔اگر کوئی محمدی باانصاف اس معاملے پر غور کریں تو اسے معلوم ہو جائے گا۔سچےولی اللہ صرف مسیحیوں میں گزرے ہیں اوراب زندہ موجودہیں۔

۷ ۔فصل مجذوب ولیوں کے بیان میں

 صوفی سمجھتے ہیں کہ باعتبار عقل وہوش اور چال چلن کے ولیوں کی تین قسمیں ہیں۔اول مجذوب۔ دوئم قلندر۔ سوئم سالکین۔

جذب کے معنی ہیں کھینچنااور مجذوب کے معنی ہیں کھینچا ہوا شخص یعنی دنیا سے ایسا کھینچا گیا  کہ دنیا کا کچھ ہوش  نہ رہا ننگا پھرتا، بکتا، روتا اور نیک و بد میں تمیز نہیں کرتا جیسے یہ سب پاگل  گلیوں میں پھرتے ہیں پاگل خانوں میں قید ہیں۔ 

 لیکن سب پاگلوں کو صوفی لوگ ولی نہیں سمجھتے۔بعض پاگل ان کے گمان میں مجذوب ہیں۔جن میں انہیں کچھ قدرت نظر آتی ہے۔مثلاً ان میں کچھ غیب دانی کی روح ہویا زنجیروں میں جکڑا جائےاور انہیں توڑ ڈالے یا کسی کے حق کے کچھ بات کہے اور وہ پوری ہو جائےتو ایسے پاگلوں کو مجذوب سمجھتے ہیں اور اعلیٰ درجے کا ولی بتلاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ مجذبوں سے فیض رسانی کام نہیں ہوتا ہے تو بھی میں نےاپنی گذشتہ عمر میں اکثر شریف محمدیوں کو مجذبوں کے پیچھے بہت سر گرداب دیکھا ہےاور ان کا انجام یہی ہو ا کہ پاگلوں کے پیچھےدوڑکے خود پاگل ہو گئےاور ان کی خانہ خرابیاں ہو ئیں ۔تَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَ

 غور کرنے سے معلوم ہوا  ہےکہ بعض آدمی کسی بیماری کے سبب سے پاگل ہوتے ہیں اور بعض میں کوئی بد  روح سماجاتی ہےاور وہ شیطان کے قبضے میں آجاتے ہیں ہم انہیں شیطان کے مقبوض سمجھتے ہیں۔صوفی انہیں اللہ کے مجذوب کہتے ہیں۔ 

جناب مسیح کو بھی ایک سخت مجذوب ملا تھادیکھو(مرقس ۵۔۱سے۱۵)اور پولوس رسول کو بھی ایک لڑکی ملی تھی جس میں غیب دانی کی روح تھی (اعمال ۱۶۔۱۶ سے ۱۸)۔اگر صوفیوں کو یہ آدمی ملتے تو کتنے بڑے ولی سمجھے جاتے اور ان کے عالی شان مزار اب تک قائم رہتے۔

 خوب یاد رہے ایسے لوگ خدا کی طرف مجذوب نہیں ہوتے بلکہ ٍشیطان کی طرف مجذوب ہوتے ہیں اوران سے جو بعض کرامتیں انکے گمان میں ظاہر ہو جاتیں ہیں اگر فی الحقیقت ہوں تو شیطانی قدرت سے ہوں گی۔

 کشش الٰہی تو ایک بڑی چیز ہے جو آدمی کے دل کو خدا کی طرف کھینچتی  ہےاوروہ فضل کا نشان ہے۔مگر جو کوئی سچے خدا کی طرف کھینچا جاتا ہےوہ زیادہ  ہوہشیار اور روشن  ہوتا ہے وہ خدا اورآدمیوں کے حقوق خوب پہچانتا ہےاور خدا کے حکموں پر مضبوط اور قائم ہو جاتا ہےتاکہ پاگل مجذوب اس بات پر خوب فکر کریں۔ 

۶ ۔فصل ان صوفی ولیوں کے اختیارات کے بیان میں

 صوفیہ کی کتابوں میں ان ولیوں کے بڑے بڑے اختیارات کا ذکر ہےجس سے خوب معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ فرقہ کہاں تک نادان  ہے کہ گزشتہ زمانے کے لوگ کہاں تک سادہ لوح تھےجوایسے خیالوں کو مانتے تھے۔اس وقت کوئی دانشمند ایسی باتوں کو ہرگز قبول نہ کرے گا۔انوار العارفین صفحہ ۲ ۱۴ میں لکھا ہے کہ (خداتعالی رااولیا اندکہ ایشانرا بدو ستی وولایت مخصوص گردایندہ است ووالیان ملک وے اند کہ یہ بندگی برگزیدہ است ایشانراو نشانہ اظہار فعل خود گردایندہ است وامرا یشانراوالیان عالم گردایندہ از آسمان باران بابرکت اقدام یشان آید )۔ اور صفحہ ۱۰۰ کشف المحجوب سے منقول ہے کہ از آسمان باراں یرکت ایشان آبدواز زمین نباتات بصفااحوال ایشان روبدو برکا فران مسلمانان نصرت باہمت ایشان یابند )۔ایسے ایسے بیان ان کی کتابوں میں اس کثرت سے ہیں کہ گویا خدا نے اپنی ساری خدائی کا اختیار ان ولیوں کے ہاتھ میں دے رکھا ہے اور سارے جہان کا بندوبست یہی لوگ کر رہے ہیں۔یہ محض غلط اور گمراہی کا خیال جاہلوں کے دل قبروں کے طرف کھینچنے کے لیے کیا خوب ہیں۔

 قرآن  میں ایسی باتوں کا کچھ ذکر نہیں ہے بلکہ  وہاںکل اختیار خدا کے ہاتھ میں بتلایا گیا  ہےاورسب کو ناچارثابت کیا گیا ہے۔صرف صوفیہ کی کتابوں میں ایسی باتیں ہیں ایسی ہی باتوں  سےپیر پرستی اور قبر  پرستی سے رونق پائی ہے یہاں تک کہ خدا پرستی کی جگہ میں پیر پرستی قائم ہو گئی ہے۔ہزاروں مسلمان مرد اور عورت ایسے ہیں کہ اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کے وقت نہ کہ خدا کو بلکہ پیروں کو پکارتے ہیں۔کشمیرمیں ایک گھر کے درمیان آگ لگی تمام اہلِ محلہ مرد اور عورتیں چھاتی پٹتے اور جلد جلد بولتے تھے۔اے پیر دستگیر بچا۔وہاں ایک عیسائی مرد موجود تھا۔کہا اے کم بخت لوگوں! پانی ڈالوپیر صاحب نہیں بچاسکتا بمشکل پانی ڈلوایا تب آگ بجھی۔انصاف کیجیے کہ یہ حقیقی بت پرستی ہے کہ نہیں اور یہ بت پرستی انہیں باطل خیال سے نکلی ہے جو صوفیوں نے ان ولیوں کے  اختیار کے بارے میں تصنیف کی ہے۔

 میں پوچھتا ہوں کہ یہ محمد صاحب کی تعلیم ہےیا صوفیہ کی اگر محمد صاحب کی تعلیم ہے تو انہوں نے خدا کی عزت آدمیوں کو دی ہےاور پرانے بت ہٹا کر نئی قسم کے  بت قائم کیے ہیں اور اگر  صرف صوفیہ  کی باتیں ہیں تو فرمائیں کہ ایسے خیالات کے شخص محمدی سمجھے جائیں گےیا مشرک پھر ایسے خیالوں کو آدمیوں کو صوفی صاف دل  کہوگےیانا پاک دل کا آدمی سمجھو گے۔یہ پیر لوگ جو دیہات میں دورہ کرتے اور مرید بڑھاتے پھرتے  اور کہتے ہیں کہ ہم خلق اللہ کو ہدایت کرتے ہیں وہ کیا سکھلاتے پھرتے ہیں یہی کہ فلاں پیر صاحب نے فلاں شخص کی یوں مدد  کی تھی اور فلاں عورت نے وہاں قبر سے یو ں مراد پائی تھی پھریہ بھی کہتے ہیں کہ سب کچھ خدا سے ہوتا ہے۔


۸ ۔فصل قلندروں کے بیان میں

لفظ قلندر کی اصل کلندر یا غلندر ہے معنی کندہ نا تراشیدہ لیکن بول چال میں بے شرع شہدے کو اور بندر یا ریچھ نچانے والے کو اور بازی گر کو اور مگر ے شہدے ہنگڑ چرسی وغیرہ کو بھی قلندر کہتے ہیں جیسے دہلی میں جامع مسجد کے شہدےیا بعض تکیوں میں کونڈی سونٹے لیے ہوئے بعض لنگارے نعرہ زن نظر آتے ہیں اور یاعلی مدد بولتے ہیں یہ سب قلندر ہیں۔

 صوفی سمجھتے ہیں کہ بعض قلندر ولی اللہ ہیں اور وہ شریر اور لچے نہیں لیکن ان کا مشرب قلندریہ ہے۔وہ عشق باز اور آزاد  ہیں۔وہ ہمہ اوست کا دم بھرتے ہیں اور شرع محمدی کے تابع نہیں ہوتے ان میں سے ایک قلندر کا یہ شعر ہے۔

ماز دریائیم دریائیم زماست   این سخن داندکسی کو آشنا ست

 شاہ  خضر رومی پہلا قلندر ہے جو روم سے ہندوستان میں آیا تھا۔وہ کسی کا مرید اور چیلا  نہ تھاکیونکہ قلندر لوگ کسی کے مرید نہیں ہوتےنہ کسی پیر کی پرواہ کرتے ہیں وہ سونٹے باز زبان دراز آزاد نعرہ زن ہوتے ہیں۔صوفیوں کا ان سے دم بند ہونا ہے۔

 جب یہ خضر رومی قلندر دہلی  میں آیا تواس وقت دہلی کے قطب صاحب باوہ فرید کے پیر مرشد زندہ تھے۔اس قلندر نے ارادہ کیا کہ حضرت کی خدمت میں جائے اور ان کا مرید ہوقطب صاحب نے جب یہ سنا تومریدی کا شجرہ کلہ اس کے ڈیرے ہی پر بھیج دیااور دور ہی سے رخصت کیااس کی آزاد طبع سے ڈر گئے۔

 حضرت نعمت اللہ ولی نے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ پورا صوفی جب اپنے مقصد کو پہنچ جاتا ہے تو تب قلندر ہوتا ہے۔قلندر حق حق کرتا ہےقلندر کا علم شہود ہےقلندر کا عمل محو ہے قلندر کی راہ عشق ہے۔قلندر کا دین انا ہے۔قلندر کی دنیا توحید ہے۔

 پھر یہ قلندر لوگ ایک ہی قسم کے  نہیں ہیں۔بلکہ کئی ایک قسم کے لوگ ا ن میں شامل ہیں قلندریہ ایک مشرب ہی مشرب تصوف سے الگ اسی میں بانوا رسول شاہی مداری نوشاہی وغیرہ قسم کے فقیر شامل ہیں اور سب کے سب ارکانِ اسلام سے الگ رہتے ہیں اوران میں بعض شریف و خواندہ اشخاص بھی  ہوتے ہیں۔مثلاً ایک نجم الدین قلندر ہیں ایک محمود قلندر ہیں لکھنو میں ایک سید غلام محمود قلندر ہیں مرادآباد میں ایک شہباز قلندر ہیں سندھ میں لیکن سب قلندروں میں نامی گرامی شریف الدین بو علی قلندر ہیں۔جن کا اصلی مزار پانی پت میں ہےاور دو نقلی مزار ہیں۔ایک بوڈی کہڑے  میں اور دوسرا کرنال میں مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ صاحبِ کرامات تھے۔کتاب سیر الاقطاب صفحہ ۱۹۰ میں لکھا ہے کہ یہ شخص صاحبِ علم اور پارساآدمی تھےاور امام اعظم ابو حنیفہ کوفی کی اولاد میں سے تھے۔ان کے آباوآجدادپانی پت میں رہتے تھےاور خود یہ شخص دہلی میں قطب صاحب کی  لاٹھ کے نیچے بیٹھ کر کتابوں کا درس طالب علموں کو دیا کرتے تھےکیونکہ اس زمانے میں دہلی وہاں آباد تھی جب خدا نے ان کو اپنی طرف کھینچا تو تب انہوں نے اپن سب کتابیں  دریا میں پھینک دی اور قلندر ہوکر پانی پت میں چلے آئے۔فارسی میں ان کی ایک مثنوی مشہور ہےاور اس کے مضامین عالی ہیں اور ان کے خیال کی جولانی اور نیت کی پاکیزگی کا اس سے خوب اظہار ہوتا ہے۔مگر وہ کتاب قلندر ہونے سے پہلے کی ہے۔قلندر ہو کر تو وہ بے ہوش سے ہو گئے تھے۔اسلام کو دل سے نکال دیا تھااور کتابوں کو دریا میں پھینک دیا تھاناکارہ سمجھ کر لڑکوں پر عاشق ہونے لگےتھے۔ پہلے جلال الدین پر عاشق ہوئے جو مخدوم صاحب ہیں۔پھرمبارز خان پر عاشق ہوئےجن کا مزار ان کے مزار کے اندر ہے۔میں ہرگز ہرگز اس آدمی کی نسبت بد گمان نہیں ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ کس قسم کا جنون ہو گیا ہوگا۔

 اور وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ صاحب کرامات تھے اگر فی الحقیقت ایسے ہوں تو کیا ان کی کرامتوں سے اسلام کی خوبی ظاہر ہو گی؟ہرگز نہیں بلکہ یہ ثابت ہو گا کہ جب تک کوئی مسلمان  اسلام کو نہ چھوڑے اور اس کی کتابوں کے خیالات کو دل سے نکال کر نہ پھینکے تب تک بابرکت نہیں  ہوسکتا اور تصوف کی خوبی بھی ان کی حالت سے ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ صوفی صاحبِ سلوک نہ تھےبلکہ قلندر  تھے۔وہ بحالتِ اسلام خدا کے طالب تھے۔شاید خدا نے ان پر کسی طرح سے ظاہر کیا ہو کہ اسلام کو چھوڑنا چاہیے۔تب برکت ملے گی پس انہوں نے فوراً اسلام کو چھوڑا اور ناراض ہو کر کتابوں کو  پھینک دیا۔

 یہی حال رسول شاہ نامی ایک شخص کا الور میں ہوا جس سے رسول شاہی فرقہ نکلا ہے۔اس شخص نے دینِ محمدی کو بالکل چھوڑاتب کچھ صاحبِ تاثیرہوا اور انوارالعارفین   ۳   ۶۰۳ صفحے میں اس کا مصنف کہتا ہے کہ میں اور حاجی عطا حسین جب دہلی میں آکر اس مکان میں اترے یہاں رسول شاہ کی بحالت ِ زندگی کی نشست گاہ تھی تو اس مکان کی تاثیر سے ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ ڈاہڑی منڈوانا چاہیےیعنہ اطاعت ِ محمدی کے چھوڑنے کا اشارہ ہمارے دلوں میں ہواپس ہم اس مکان سے توبہ توبہ کرکے بھاگے۔

 اسی رسول شاہ کا خلیفہ فدا حسین نامی شاہ عبدالعزیز صاحب کے عہد میں دہلی کے درمیان ایک مشہور بے شرع فقیر تھا۔محمدی دین کے خلاف تھا مسلمان اسے کافر کہتے تھے۔انہیں دنوں میں پانی پت کے درمیان ایک مسلمان بزرگ ذی علم سفید ریش متشرع حلیم مزاج حافظِ مانی نام رہتے تھے۔ان کی مسجد آج تک محلہ افغان میں  حافظ مانی کی مسجد مشہورہے۔میں عماد الدین لاہز اس وقت چھوٹا لڑکا تھا۔میں نے بار بار اس بزرگ حافظ کو دیکھا کہ مسجد کی اُس دیوار پر جو شمال مسجد میں سڑک کی طرف ہےبیٹھے ہوئے کسی کتاب کا مطالعہ کیا کرتے اور چپکے چپکے آنسو پونچھا کرتے تھے۔بڑے ہوکر میں نے سنا کہ مولاناروم کی مثنوی پڑھا کرتے تھےاور اس کے مضامین میں غرق ہوجاتے تھےغرض ان حافظ صاحب کو قرآن کے لفظ (ہواالظاہر) پر شک پڑ گیا اور کسی طرح ان کی تسلی نہ ہوتی تھی۔تسلی کے لیے شاہ عبدالعزیز صاحب  کے پاس  دہلی میں گئے لیکن تسلی نہ ہوئی۔آخر اس بے شرع فدا حسین نے کہلا بھیجا کہ اے بابا حافظ ادھر آ جو کچھ مولوی نہیں بتلا سکتے میں بتلاؤں گا  تب حافظ صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اُس نے ان کو ہمہ اوست کی تعلیم دی اور شہودی بنا دیا۔حافظ صاحب کی تسلی ہو گئی۔ کیونکہ مولوی روم کی مثنوی سے یہ خمیر ذہن میں پختہ ہو رہا تھاتب فدا حسین نے کہا کہ آپ نے اپنا مطلب پا لیااب اپنے گھر کو جائیں۔حافظ صاحب نے کہا کہ میں جاؤں گا۔جب تک آپ مجھے اپنا چیلا نہ بنائیں۔فدا حسین نے کہا کہ یہ سفید دھاڑی اور دین محمدی کی صورت ہمیں برُی معلوم ہوتی ہے۔اگر ہمارا چیلا ہونا منظور ہے تو ہمارا طریقہ اختیار کروحافظ صاحب نے یہ منظور کیا اور عجیب شکل کے آدمی بن کر پانی پت واپس آئے تھے۔ یہاں کے مسلمانوں نے انہیں بہت تنگ کیا۔لیکن وہ موت تک اسی حال میں ر ہےاوروہ حجرہ جو مسجد میں کنوئیں کے پاس ہےاسی میں ہمیشہ فقیروں کے لیے بھنگ تیار رہتی تھی۔مگر حافظ جی نہیں پیتے تھےاور جو کوئی دہلی سے آتا تھا اس کو سجدہ کرتے تھے۔ایک دفعہ میرے والد دہلی سے ان کے پاس گئے تو حافظ جی نے ان کو بھی سجدہ کیا تھا۔میں نہیں جانتا کہ حافظ جی صاحب نے کیا پایا تھا، مگر اتنا جانتا ہوں کہ شرع محمد ی کو چھوڑا تھا۔تب دل میں تسلی آئی تھی۔

 اسی طرح بلے شاہ نام پنجاب میں ایک مشہور درویش گزرا ہے۔وہ بھی محمدی دین کے خلاف بولتا تھا۔اس کے پاس ایک شخص گیا کہ خدا کی راہ دریافت کرےکیونکہ وہ مشہور ولی تھااور یہ جو گیا نو مسلم تھا۔اورنگ زیب کے عہد میں ہندو سے مسلمان ہوا تھا۔جا کر کہاکہ یا حضرت مجھے خدا کی راہ بتائیں۔بلے شاہ نے کہا تھا کہ اگر خدا سے ملنا تھا تو مسلمان کیوں ہوا تھا۔ اب اگر مسلمانی کے خیالات  کو چھوڑے تو خدا  کو پا سکتا ہےاور جو باتیں بلے شاہ اسلام کی نسبت اس شخص سے کہیں تو میں اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کرسکتا۔تہذیب کے سبب سے ہاں وہ سب باتیں ایک کتاب میں قلمبند ہیں۔جو دیوان بوٹا  سنگھ صاحب کے پاس لاہور میں دیکھی تھی ۔

 حاصل کلام یہ ہے کہ  اس قسم کے لوگ سب کے سب قلندریہ مشرب کے ہیں اور  انہی لوگوں کی کرامتیں ہندوستان میں زیادہ تر مشہور ہیں اور مسلمان لوگ بے فکری سے ان کو اپنی قوم کے  اولیا اقرار دیتے ہیں۔بالفرض ان سے اگر کوئی کرامتیں ہوئی بھی ہوں تو قلندروں کی کرامتوں سے مشرب قلندریہ کا حق ہونا ثابت ہو گااور بہنگڑوں کی کرامتوں سے بھنگ نوشی کے شان  ظاہر ہو گی نہ اسلام کی۔پس اب معلوم ہو گیا کہ مجذبوں اور قلندروں  کو اسلام سے کچھ علاقہ نہیں ہے صوفی لوگ مہربانی کرکے ان لوگوں کی بزرگی اور  کرامتوں کا ذکر ہم مسیحیوں کے سامنے نہ کیا کریں کیونکہ ان کی بزرگی سےاسلام کی خوبی ثابت نہیں ہوسکتی ہاں وہ جو اپنے آپ کو محمدی کہتے ہیں اور سالکین کہلاتے ہیں۔اگر بوسیلہ اسلام اور بوسیلہ تصوف ان میں کچھ اسلام کی خوبی ہو توہمیں دکھلائیں۔


۹۔فصل سالکین کے بیان میں

لفظ سالکین کے معنی ہیں کہ راہ روندہ۔لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں تقربِ حق کے  اس طالب کو سالک کہتے ہیں کہ جو عقل و معاش بھی رکھتا ہو۔لفظ سالک مجذوب کے مقابلے میں ہے۔کیونکہ مجذوب راہ روندہ نہیں ہے۔نہ وہ مسلمان ہے نہ ہندو  ہےنہ صوفی نہ کوفی وہ بیرا ہ کھینچا ہوا شخص ہےاور اس میں عقل معاش نہیں ہے۔کیونکہ وہ پاگل ہے۔سالک با عقل ہے اورقواعد و تصوف پر چلتا ہے۔اس لیے مجذوب و سالک ہر دو لفظ مقابلے کے ہیں۔

صوفی لوگ    تین چیزوں    کی تلاش کرتے ہیں۔ان میں سے پہلی چیز جذبہ ہےاور ان میں اس کی بڑی قدرو منزلت ہے۔کیونکہ یہ ان کے گمان میں خدا کی طرف سے ایک کشش ہے۔ ہم مسیحی بھی اس کشش کو جو اللہ سے ہوتی ہے۔بڑی نعمت اور فضل سمجھتے ہیں۔چنانچہ خداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ میرا باپ آدمیوں کو میری طرف کھینچ لاتا ہے۔اسی کشش کو ہم جذبہ سمجھتے ہیں۔لیکن ان کے خیال اورہمارے خیال میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ دیوانگی کو کشش سمجھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کشش الٰہی سے دیوانگی دفع ہوتی ہے ۔روح میں زندگی اور عقل میں ہو شیاری اور خیالات میں روشنی اور دل میں تازگی آتی ہے۔تب حقوق اللہ اور حقوق العبادوہ شخص پہچانتا ہے اور بجا لاتاصوفی سمجھتے ہیں کہ سب حقوق اڑ جاتے ہیں اور قیدِ الٰہی شرع کی نہیں رہتی۔

  دوسری چیز    جس کی وہ تلاش کرتے ہیں سلوک ہےاور یہ نہ کشش ہے اور بلکہ کوشش ہےجو حصول مراد کے لیے خدا کی راہ میں سالک اپنی طرف سے کرتاہے۔یعنی صوفیہ کے تجویز کیے ہوئے طریقوں کو عمل میں لاتا ہے تاکہ وہ خدا کا ولی ہو جائے۔پس ہر سالک کے گمان میں راہ روندہ ہے،جو بھی منزل و مقصود تک نہیں پہنچا جیسے مسافر جو ابھی راہ میں ہے۔

 ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں اورواجب جانتےہیں کہ انسان کو قربتِ الٰہی کے لیے کوشش اور محنت کرنی چاہیے۔لیکن  ہم میں اور صوفیہ میں فرق  صرف اتنا ہےکہ وہ لوگ انسانی خیال سے تجویز شدہ طریقوں کو عمل میں لا کر خدا سے ملنا چاہتے ہیں اور ہم مسیحی لوگ ان طریقوں کو اس مطلب پر مفید سمجھتے ہیں جو خدا نے آپ اپنے کلام میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے ظاہر کیا ہےاور اپنی قدرتوں سے ان پر گواہی دی ہے۔پس ان کا سلوک وہ ہے۔ہمارا سلوک یہ ہے۔

   تیسری چیز      جس کی وہ تلاش میں ہیں      عروج    ہے۔یعنی وصول بمنزلہ مقصود اس کوو ہ لوگ خدا کی بخشش بھی کہتے ہیں۔کہ خدا اس سالک کو کوئی رتبہ یا ولایت کا کوئی درجہ بخشا ہے۔مثلاً کوئی قطب ہو گیا یا غوث بن گیایا شاہ ولایت ہو گیاوغیرہ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے عہدے اور درجے خدا نے آدمیوں کو کبھی نہیں بخشے یہ صرف فرضی باتیں ہیں۔اگر ان میں کچھ عروج ہے تو یہی ہے کہ اکثر جاہل لوگ کسی کو بڑا مرتاض دیکھ کر اس کے گرد ہو جاتے ہیں اور  برملا پیر سمجھتے ہیں اور اس کی قبر چونے یا سنگِ مرمر کی بناتے  اور برج کھڑا کرتے ہیں اور ڈھول  بجا کر  سال بسال میلہ لگاتے ہیں اور تماشہ دکھلاتے ہیں۔یہی عروج ان کے پاس ہے اور ہمیں ان میں کچھ عروج نظر نہیں آتابلکہ عروج کے عوض بہت سا نزول وہاں ہے۔

 حقیقی عروج جو  حقیقی ولیوں کو اللہ سے بخشا جاتا ہے۔یہ ہے اطمینان الٰہی ان کی روح میں اللہ سے القا ہوتا ہے اور وہ محبت الٰہی سے اللہ کی طرف سے بھر جاتے ہیں اور معرفت کے اسرار زیادہ تر ان پر منکشف ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وہ لوگ  کلام اللہ کی خدمت کے لیے مومنین کے درمیان ا علیٰ عہدوں پر خدا کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں اور وہ خوبی کے ساتھ جانفشانی اور جفاکشی کرکے کلام اللہ کی خدمت کرتے ہیں اور کمزوروں کو طاقت بخشتے ہیں اور  بہت سے لوگوں کو بہشت کے لیے آراستہ کرتے کر ڈالتے ہیں آخر میں ابد تک وہ خدا کے پاس کے خوشی میں زندہ رہیں گے۔پس ان کے اورہمارے عرو ج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہاں کچھ ہے جو اوپر سےا ن کے دلوں میں آتا  وہاں کچھ ہےجو اِدھر اُدھر کے آدمیوں سے دیا جاتا ہےایک چیز ابدی ہے دوسری فانی۔

 پھر صوفیہ یوں کہتے ہیں کہ جس کو خدا تعالیٰ اپنی طرف کھینچتا ہے وہ سب کچھ چھوڑتا اور عشقِ الٰہی کے رتبہ میں پہنچتا ہے اگر وہ اسی جگہ میں رہ جائے اور دنیا میں واپس نہ آئے یعنی اس کے  ہوش و حواس پھر درست نہ ہو ویسےہی بے ہوش رہے وہ (صرف مجذوب ہے) اگر وہ پھر ہوش میں آجائے اورسالک بن بیٹھے اس کو (مجذوب سالک ) کہتے ہیں اور وہ جو اولاً سالک تھا اور مراتب سلوک عطا کر چکا تھاپھر وہ خدا سے کھینچا گیااس کا نام (سالک مجذوب ) ہے اور اگر سالک ہو اور سلوک تما م نہ کیا ہو اور خدا نے بھی اسے اب تک نہ کھینچاہو۔(وہ صرف سالک )ہے پس یہ صرف چار قسم، کے لوگ ہیں۔مجذوب۔ مجذوب سالک سالک مجذوب ۔سالک۔

اب وہ جو صرف سالک ہے اور وہ جو مجذوب ہے یہ دونوں ان کے گمان میں پیر و مرشد ہونے کے لائق نہیں ہےمگر وہ جو مجذوب سالک ہے اور جو سالک مجذوب ہے وہی پیر و مرشد ہونے کے لائق سمجھے گئے ہیں اوران میں بھی مجذوب سالک کا درجہ بڑا ہے۔

(ف) یہ جومحمدی لوگ پیروں کے مرید ہوتے پھرتے ہیں اکثر سالکوں کے مرید ہوتے ہیں یا بعض مجذبوں کے معتقد ہوتے ہیں۔ان کا کام  تصوف  کے خلاف اور بے فائدہ ہےکیونکہ پیری کے لائق وہی اشخاص سمجھے گئے ہیں جنہوں نے اولاً یا آخراً کچھ جذب کی چاشنی چکھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر دماغی خلل کے کوئی صوفی پیر مرشد ہونے کے لائق نہیں ہےاور قواعد و سلوک جن کا ذکر اسی کتاب میں  مفصل آنے والا ہے۔ناظرین دیکھ کر معلوم کر سکیں گے کہ ہو سب دماغی خلل  پیدا کرنے کے نسخے ہیں اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا مگر صرف دماغی خلل تاکہ وہ  پیر کامل ہو جائیں۔

 ہمارا پیرو مرشد صرف ایک ہے جو آسمان سے اترا اورازل سے خدا کے ساتھ تھاجس نے سارے جہان کو پیدا کیا جو کہ کامل خدا اور کامل انسان ہےاوروہ جہان کا نور ہے ہر ایک کہ جو اس کےپاس آتا ہےوہ روشن کرتا ہے۔یعنی یسوع مسیح ابنِ اللہ اور ہم سب مومنین اولین اورآخرین آپس میں پیر بھائی ہیں اور جس قدر سچے پیغمبر دنیا میں آئے وہ سب ہمارے بھائی تھےاور وہ اور ہم خدا وندمسیح کے بندے  اور خدمت گزار ہیں ہمیں کچھ حاجت نہیں کہ پیر تلاش کریں اور کسی خفیہ نعمت کے ہم بھوکے نہیں جو سینہ بسینہ پیروں سے  ہم تک پہنچےخدا ہمارا باپ  ہے اور ہم مسیح میں ہو کر اس کے فرزند ہیں اس کی روح ہم میں موثر ہےہم نور میں اور روشنی میں رہتے ہیں اور برائے راست مسیح سے نعمتیں پاتے  اورخوش رہتے ہیں۔

۱۰ ۔فصل ان ولیوں کے عہدوں کے نام بحسب اختیارت

صوفی سمجھتے ہیں کہ ان کے اولیا اللہ بحسب اپنے عہدوں اور درجوں دس قسم کے لوگ ہیں۔(۱) قطب العالم (۲) دیگر اقطاب یعنی  قطب اقلیم قطب ملک جس کو شاہ ولایت بھی  کہتے ہیں اور قطب  شہر وغیرہ (۳)امامان  (۴) اوتاد (۵) ابدال(۶) اخیارو ابرار(۷)  نقبا، ونجبا  (۸)عمداء (۹)  مکتومان (۱۰) مفردان ، مجردان ۔ اب ان عہدوں اوردرجوں کی شرع اور تفصیل جہاں  تک کتب تصوف مجھے معلوم ہوئی بیان کرتا ہوں۔

(۱)قطب العالم

لفظ قطب کے معنی ہیں کہ چکی کی کیلی یعنی  وہ لوہےکی میخ جس کے گرد اور جس کے سہارے سے اوپر کا پاٹ  گھومتا ہے۔صوفی کہتے ہیں کہ دنیا کے درمیان ایک آدمی ہر زمانے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس پر خدا کی ایک خاص نگاہ ہوتی ہے۔گویا وہ خدا کی نگاہ کا محل ہوتا ہےاورسارے جہان کاانتظام اسی آدمی سے ہوتا ہے وہ سب موجودات پر اورعالم سفلی وعلوی کے تمام مخلوقات  پر حاکمِ اعلیٰ ہوتا ہے اورسب اولیا  ء اللہ اُس کے نیچے ہوتے ہیں اسی کانام قطب العالم ہے اور اسی کو قطب الاقطاب و قطب و کیر و قطب ارشاد قطب مدار بھی کہتے ہیں۔کتاب مجمع السلوک میں لکھا ہے  کہ اسی کا نام غوث ہےلیکن دوسری بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ غوث اور شخص ہے جو قطب العالم کے نیچے ہوتا ہے۔ مراۃ الا اسرار وغیرہ میں لکھا ہے کہ قطب العالم کے دائیں بائیں دو ولی اللہ مثل وزیر وں کے  رہتے ہیں،ان دونوں کا نام غوث ہے یعنی فریاد رس وہ غوث جو قطب العالم کے دہنی طرف  رہتا ہے اس کا خطاب عبدالملک ہے اور کام اس کا یہ ہے کہ قطب العالم کے دل پر سے فیض  اٹھا کر عالمِ بالا کی موجودات کو پہنچاتا ہےاور وہ غوث جو بائیں طرف رہتا ہے اس کا خطاب عبدالرب ہے کام اس کا یہ ہے کہ قطب العالم کے دل پر سے فیض اٹھا کر عالمِ سفلی یعنی اس جہان کی موجودات کو پہنچاتا ہے اور جب قطب العالم مر جاتا ہے یا اپنے عہدے سے ترقی کرکے قطبِ وحدت ہوجاتا ہے یعنی خدا میں اس کو دوری نہیں رہتی ہے تب اس کا عہدہ خالی ہوتا ہے اور عبدالملک اس کی جگہ میں آجاتا ہےاور عبدالرب عبدالملک کی جگہ میں آجاتا ہے اور عبدالرب کی جگہ کوئی اور ولی  ترقی پا کر بھرتی ہوجاتا ہے۔

 اور یہ بھی کہتے ہیں کہ قطب العالم کا دل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسا محمد صاحب کا دل تھا۔یعنی تمام خصلتیں اس کی محمدی خصلتیں ہوتی ہیں۔کتاب لطائف اشرفی ۴ میں لکھا ہے کہ اگر غوث اور قطب  نہ ہوں تمام جہان زیر زبر ہو جائےپس معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ جہان کے سنبھالنے  والے ہیں۔

 میں کہتا ہوں کہ یہ صوفیہ کا دعوی ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ہر دعوے کے  لیے کچھ دلیل ہونی چاہیے ورنہ دعویٰ باطل ہو گا۔ پس اس دعوے کے لیے کتب تصوف میں کوئی دلیل نظر نہیں آئی جس کا میں یہاں بیان کروں۔چاہئے کہ ناظرین کتاب ہذا  صوفیوں سے  اس دعوے کا ثبوت طلب کریں اوران سے کہیں کہ تم جو قرآن پر ایمان رکھتے ہوکیا تمہارے خدا نے تمہارے قرآن میں ایسے عہدوں کی تمہیں کچھ خبر دی ہے یا تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل ان عہدوں کے ثبوت میں ہے،یاتم دنیا کی تاریخ سے یہ ثابت کرسکتے ہو،ان عہدوں کے اشخاص اس دنیا میں ہوتےآئے ہیں؟یاتم بتلا سکتے ہو کہ دنیا میں اس وقت ایسے ایسے  فلاں اشخاص موجود ہیں۔برخلاف اس کے صوفی یوں کہتے ہیں کہ  ایسے اشخاص ہوتے تو ہیں مگر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتے کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں۔اب فرمائیں کہ اس بات کو سوائے ناسمجھ آدمی کے کون قبول کرئے گا۔

 جہان کو سنبھالنااسی کا کام ہے جس نے جہان کو پیدا کیا ہے۔انسان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ اپنی جان کو سنبھالے۔اگر  خدا آدمی کو نہ سنبھالے تو آدمی قائم نہیں رہ سکتا۔اگر آدمی فرضاًً خدا کے برابر ہو جائے علم اورطاقت میں اور حکمت ودور بینی میں تب وہ شاید خدا کا شریک جہان کو سنبھال سکتا ہے لیکن یہ بات عقلاً نقلاً محال ہے کہ کوئی مخلوق خدا کے برابر ہوجائےاور جب برابر نہیں ہوسکتا تو وہ کام بھی نہیں کرسکتا جو خداکے کرنے کا ہے۔

 غوث اور قطب عالم کا عہدہ اتنا بڑا بیان ہوا ہے کہ قرآن اور حدیث سے محمد صاحب کا بھی اتنا بڑا عہدہ ثابت نہیں ہوا۔پس یہ کیسا مبالغہ ان صوفیوں کا ہےاور ایسا خیال ان کے دلوں میں کہاں سے آگیا؟ شاید قوم صوفہ میں یغوث بت کی شان کاخیال چلا آیا ہواور حالتِ اسلام میں اس مکروہ خیال نے نئی شکل پکڑ کر یہ غوث قطب کا خیال پیدا  کردیاہوواللہ علم۔

 ہم مسیحی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کل جہان کا اختیار خداوند مسیح کے ہاتھ میں اور ابد تک اسی کے ہاتھ میں رہےگا۔یہ ہمارا دعویٰ کلام اللہ سے ثابت ہےاور مسیح کی شان کے مناسب ہےکیونکہ وہ اللہ انسان ہے اورسب جہان اس سے پیدا ہوا ہے پس وہ جو سارے جہان کا خالق ہےوہی جہان کو سنبھالتا بھی ہے۔

(۲) دیگر اقطاب یعنی دوازدہ اقطاب

 قطب العالم توکل جہان میں ایک شخص فرض کیا گیا پھر اس کے نیچے بارہ قطب اور مانے جاتے ہیں۔جو اس کے حکم میں رہتے ہیں۔کیا تعجب ہے کہ یہ  خیال قدیم صوفیہ نے خداوند یسوع مسیح اوراس کے بارہ شاگردوں پر غور کرکے اپنے ولیوں کی طرف الٹ لیا ہو۔وہ کہتے ہیں کہ کل زمین  ہفت اقلیم میں منقسم ہے اورہر اقلیم میں ایک قطب رہتا ہے جس کو قطب اقلیم کہتے ہیں۔پھر ہر ولایت میں ایک قطب فرض کرتے ہیں۔جس کو شاہِ ولایت کہتے ہیں اور پانچ ولایتیں بتلاتے ہیں۔یہ پرانے زمانے کی تقسیم ہے۔پس سات اورپانچ بارہ قطب ہوئے۔

فتوحاتِ مکی ۵ میں لکھا ہے کہ قطبوں کی  کچھ نہایت نہیں ہےقطب زہاد، قطب عباد ، قطب عرفا، قطب متو کلان وغیرہ۔ہر صفت پر ایک قطب ہوتا ہےاور ہر گاؤں میں ایک قطب رہتا ہےاور گاؤں کی حفاظت کرتا ہےاورولیوں کی بھی انتہا نہیں ہے۔جب کوئی ولی ترقی کرتا ہے تو وہ قطب ولایت بن جاتا ہے۔پھر ترقی کرکے قطب اقلیم ہوتا ہے۔اسی کو قطب ابدال کہتے ہیں اور وہ ترقی کرکے عبدالرب یا بایان غوث  ہو جاتا ہے۔پھر  دہناغوث یا عبدالملک بنتا ہے۔پھر قطب عالم ہوتا ہےاور وہاں سے ترقی کرکےقطب وحدت ہوتا ہےانہیں کو مفردون اور مجردون کہتے ہیں لیکن یہ صرف صوفیہ کی تجویز ہےاس کا ثبوت تو کچھ نہیں ہےبلکہ دعوے بے دلیل ہے۔اوراس روشنی کے زمانے میں اس کا بطلان ظاہر گو گیا  اور معلوم ہوگیاہے۔کہ یہ ان کی وہمی اور فرضی بات تھی۔خدا نے ایسے غوث اور قطب وغیرہ کچھ نہیں بنائے۔البتہ بعض لوگ خود نیک اور خدا پرست گزرے ہیں۔ان کی موت کے بعد مریدوں نے ان کی قبروں پر دکان داری جاری کرنے کے لیے ان کے نام غوث اور قطب اور شاہ ولایت اور مخدوم صاحب رکھ لیے ہیں اور مذکورہ عہدے فرض کیے ہیں۔پھر آپ ہی کہتے ہیں کہ ان عہدے داروں کی موت کے بعد دوسرے لوگ ان عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں۔پس چاہئے کہ ان مرد گان کو ان عہدوں سے برخاست شدہ سمجھ کر ان کی قبریں نہ پوجیں۔بلکہ ان زندوں کو تلاش کریں جو بجائے ان کے عہدہ یاب ہوئے  ہیں۔

(۳) اوتاد

 لفظ اوتاد وَتَد یا وِتَد کی جمع ہے۔لکڑی کی کھونٹے کو عربی میں وَتَد کہتے ہیں محمد صاحب نے  پہاڑوں کو قرآن میں اوتاد کہا ہے۔گویا وہ خدا کی طرف سے زمین پر گاڑے ہوئے کھونٹے ہیں۔تاکہ زمین جنبش نہ کرے صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے ولیوں میں سے چار ولی ایسے ہیں کہ وہی اوتاد ہیں۔مراۃ الاسرار ۶ میں لکھا ہے کہ مشرق میں عبدالرحمٰن کھونٹا ہے۔مغرب میں عبدالودود  کھونٹا ہے۔جنوب میں عبدالرحیم کھونٹا ہے۔شمال میں عبدالقدوس کھونٹا ہے۔ان چاراشخاص سے جہان کا استحکام ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جہان کا استحکام صرف خدا کی قدرت سے ہےنہ  کہ ان چار اوتاد سے جن کا ثبوت نہ عقل سے ہے نہ کلام اللہ سے۔

(۴) ابدال

  لفظ بَدل بامعنی معاوضہ یا بُدیل بمعنی شریف کے  جمع ابدال ہے۔لیکن اس کا استعمال واحدا ور جمع پر برابر ہےبعض صوفی کہتے ہیں کہ ابدال وہ لوگ ہیں جنہوں نے تبدیلی حاصل کی ہےبرُی  صفتوں میں سے نکلے ہیں اچھی صفتیں پیدا کی ہیں یہی مضمون سچ ہےاور یہ انجیل شریف کی بات ہے  نہ کہ قرآن کی کیونکہ انجیل کی بڑی اور مقدم تعلیم  یہی ہےکہ مسیحی ایماندار مسیح کی قدرت سے تبدیل ِدل اور تبدیلِ  مزاج کرتاہےاور جتنے سچے مسیحی ہیں وہ سب ابدال ہیں اور اہلِ دنیا بھی اگر غور سے دیکھیں توانہیں حقیقی مسیحی بدلے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔

  میں سمجھتا ہوں کہ یہ خیال ان صوفیہ میں ملک شام سے آیا ہے۔اس لیے ان کی کتابوں میں عراق اور شام کی طرف بہت ابدال بیان ہوئے ہیں کیونکہ وہاں رُہبان بکثرت رہتے ہیں۔

(انورالعارفین صفحہ۱۰۵) میں لکھا ہے کہ    نشان ابدال آنست کہ زائدہ نمیشو مردایشان رااولاد و ایشان لعنت نمیکنندِچیزیرہ    کسی چیز پر لعنت نہ کرنایہ خاصہ صرف مسیحی آدمی کا ہے    اور اولاد پیدا نہ ہونا یہ خاصہ رہبان کا ہے۔کیونکہ رہبان نکاح نہیں کرتےاور اگر شادی والے پہلے سے ہوں تو وہ دونوں مرد عورت اس دنیاوی خیال سے الگ ہو کر عبادت میں مصروف رہتے ہیں اس لیے ان کی اولاد پیدا نہیں ہوتی۔پس صوفی کہتے ہیں کہ خدا نےابدال کو وہ طاقت دی ہےکہ جہاں چاہیں اڑ کر چلے جائیں اور اپنی مثالی صورت اس جہاں پر چھوڑ جائے بلکہ بعض اوقات گیڈریا شیر یا بلی وغیرہ کی صورت بھی بن جاتے ہیں۔یہ سب باتیں غلط ہیں۔ابدال وہی مسیحی ہیں جو بدل گئے ہیں جنہوں نے نیا جنم پایا ہے۔اگر کوئی صوفی ابدال بننا چاہے تو حقیقی مسیحی ہو جائے۔

صوفیوں کا تصوف اور محمدیوں کا اسلام اور کل مذاہب  دنیا کےخیالات عبادات وغیرہ سے کوئی آدمی دل کی تبدیلی حاصل نہیں کرسکتا اور جب تک اس کا دل تبدیل نہ ہو جائےخدا کا مقرب بھی نہیں سکتا۔صرف مسیحی دین ہےجس سے تبدیلی ہوتی ہےاور آدمی ابدال بن جاتا ہے۔

(۵) اخیاروابر

یہ لفظ خیر اور بر کی جمع ہے۔بمعنی نیکو کاران فی الحقیقت یہ الفاظ سچے ایمانداروں اور نیکوکاروں کے حق میں تھے۔لیکن صوفیوں نے زبردستی یانادانی سے اپنے خاص قسم کے ولیوں کے حق میں تجویز کر لیے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین سو آدمی ایسے ہوتے ہیں اور کچھ بیان ان کا نہیں کرسکتے۔

(۶)امامان

یعنی دین کے پیشوا ایسے لوگ  البتہ محمدیوں میں  ہوئے ہیں۔جنہوں نے ان کے دین کا بندوبست ظاہری طور پر کیا ہے۔لیکن ان عہدوں کو ولایت سے کہ  امر باطنی ہے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ان کے امام تین قسم کےہیں۔اول بارہ امام ہیں۔جو حضرت علی کی اولاد میں سے ہوئے ہیں۔جن کو شعیہ لوگ معصوم بتاتے ہیں اور اپنے دین کا پیشوا سمجھتے ہیں۔دوئم چار امام سنیوں کی فقہ کے گزرے ہیں۔جنہوں نے مسائلِ فقہ اپنے اجتہاد  سے نکالے ہیں۔سوئم وہ امام ہیں۔جو کہ جہاد کے وقت محمدی فوج کے سردار  یا سپہ سالار ہوتے تھے۔بعض ان میں سے جہادوں میں مر گئے ہیں اور ان کے مقبر ے پوجے جاتے ہیں۔چنانچہ دو امام ہمارے پانی پت میں بھی پوجے جاتے ہیں۔پس ان صوفیہ نے اپنے ولیوں کی فہرست میں ان اماموں کو بھی شامل کیا ہے تاکہ امام پر ظاہر کریں۔وہ بھی ان کی طرف تھے۔

 کتاب اصطلاحات صوفیہ مصنفہ عبدالرزاق کاشی ۷ میں لکھا ہے کہ امامان وہ دو شخاص ہیں جو قطب عالم کے داہنے اور بائیں رہتے ہیں۔یہی قدیم اصطلاح صوفیہ کی معلوم ہوتی ہے۔اس صورت میں وہ تین قسم کے  امام ولیوں کی فہرست میں نہیں آسکتے اور یہ امامان غیر معلوم شخص ہوتے ہیں۔پس یہ صرف نام ہی نام ہے اور کچھ نہیں ہے۔

(۷) نُقَباَو بخُباَ

نُقَباَ نقیب کی جمع ہےبمعنی مہتر وعریف و دانندہ انساب مردم شرح فصوص ۸ میں لکھا ہے کہ نُقبا تین سو اشخاص ہیں انہیں کو ابرار بھی کہتے ہیں اور یہ لوگ مغرب میں رہتے ہیں اور سب ولیوں میں ان کا درجہ چھوٹا ہے۔

 بخبا بخیب کی جمع ہے بعنی برگزیدہ۔شرح فصوص میں ہے کہ بخبا سات آدمی ہیں۔انہیں کو رجال الغیب کہتے ہیں۔مجمع السلوک میں لکھا ہے کہ وہ چالیس آدمی ہیں اور خلق اللہ کے حقوق میں متمرف ہیں۔آدمیوں کے حالات درست کرنے اور ان کے بوجھ اٹھانے کو کھڑے رہتے ہیں۔

 (ف) یہی چالیس آدمی ہیں جو چہل تن کہلاتے ہیں اور بعض آدمیوں کے سر پر بھی آتے ہیں۔ان کی پوجا نادان مسلمانوں میں بہت ہوتی ہے۔ایک محمدی منشی صاحب کو میں نے ۳۰ برس دیکھا کہ اپنی مصیبتوں میں برابر چہل تن کو پکارتے رہےاور ان کی نذر نیاز کرتے رہےتاکہ ان کی دنیاوی تنگیاں دفع ہوں۔لیکن کچھ تنگیاں تمام عمر دفع نہ ہوئیں۔بلکہ تنگی پر تنگی آتی رہی اور وہ اسی خیال میں مر گئےاور بعض احمق عورتوں کو اپنا برا خیال سکھلا گئے۔وہ اب تک ان چہل تن کو پکارتی ہیں۔جس کا وجود کہیں نہیں ہے۔وہ اللہ کو نہیں پکارتی ہیں جو کہ سب کچھ کرسکتا ہےاور زندہ موجود ہے۔

(۸) عُمَدا

عمود کی جمع ہے بمعنی ستون خانہ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ایسے چار شخص ہیں جو زمین کے چار کونوں میں رہتے ہیں وہ جہان کے ستون ہیں اُن سے جہان ایسا قائم ہے جیسے چہت ستون سے قائم ہوتی ہے۔ لیکن کچھ ثبوت نہیں دے سکتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں۔

 کمتوم بمعنی پوشیدہ یہ پوشیدہ ولی ہیں۔گویا چھپے رستم ہیں۔توضیح المذاہب میں لکھاہے کہ یہ چار ہزار آدمی ہیں۔جو پوشیدہ رہتے ہیں اور اہلِ تصرف میں سے نہیں ہیں۔کوئی ان صوفیہ سے پوچھے کہ تمہارے تو سارے ولی پوشیدہ ہیں۔تم خود انہیں جانتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں پھر ان خاص کو مکتومان کہنے کی وجہ کیا ہےکچھ نہیں جو دل میں آیا کہہ دیا۔

(۹) مکتومان

 کمتوم بمعنی پوشیدہ یہ پوشیدہ ولی ہیں گویا چھپے رستم ہیں۔توضیح المذاہب میں لکھاہے کہ یہ چار ہزار آدمی ہیں۔جو پوشیدہ رہتے ہیں اور اہلِ تصرف میں سے نہیں ہیں۔کوئی ان صوفیہ سے پوچھے کہ تمہارے تو سارے ولی پوشیدہ ہیں۔تم خود انہیں نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں پھر ان خاص کو مکتومان کہنے کی وجہ کیا ہےکچھ نہیں جو دل میں آیا کہہ دیا۔

(۱۰) مفردون ومجردون

 مفرد ومجرد وہ ہے جو اکیلا رہ گیا ہو۔صوفی کہتے ہیں کہ مفرد و مجرد وہ ہے جو فردیت کی تجلی کو پہنچا ہے۔یعنی اس مقام کو پہنچا ہے۔جہاں صرف اللہ ہی اللہ ہےاور سب چیزیں اور سب خیالات نیست و نابود ہیں۔جو لوگ اس مقام کو پہنچتے ہیں وہ خود کو بھول جاتے ہیں۔اپنے میں اور خدا میں کچھ فرق نہیں رہتا۔یہ مقام محویت ہے یا ہمہ اوست کا کامل انکشاف یہاں ہوتا ہے۔کسی صوفی نےاس مقا م کی شرح اس شعر میں کی ہے۔

توز توکم شوکہ تفریداین بود   کم ازان کم کن تجریداین بود

کشف اللغات میں لکھا ہے کہ جو لوگ اس مقام کو پہنچتے ہیں وہ قطب کے نظام سے فارغ ہو جاتے ہیں مراۃالاسرارمیں لکھا ہے کہ ایسے لوگوں  کی کچھ تعداد نہیں ہے۔اور اکثر صوفی مصنف کہتے ہیں کہ محمد صاحب بھی دعوے نبوت سے پہلے مفردوں میں سے تھے۔پہلے میرا خیال تھا کہ صوفی لوگ حضرت محمد صاحب کی نسبت ہمہ اوست کا خیال جماتے ہیں۔مگر اب زیادہ تر کتبِ تصوف کے دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ شاید اس بارے میں صوفی لوگ سچے ہوں۔کیونکہ ہمہ اوست کاذائقہ البتہ محمد صاحب کے خیال میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔غالباً وہ ضرور مفردوں سے ہوں گے۔ کیونکہ جس شخص کے خیالات میں آسمانی روشنی کچھ بھی نہیں چمکی ہے وہ اسی ہمہ اوست کے خیال میں اپنے لیے کچھ تسلی تلاش کرتا ہے۔لفظ ظاہر قرآن میں غالباً اسی مطلب پر ہو گا۔


۱۱ ۔ فصل صوفی ولیوں کی مشابہت بانبیاء کے بیان میں

 کتب صوفیہ میں دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ولیوں کو خدا کے سچے نبیوں کے مشاہبہ بیان کرتے ہیں۔کسی کو کہتے ہیں کہ وہو علی قلب موسیٰ اور کسی کو کہتے ہیں کہ وہو علی قلب عیسیٰ اور کسی کو علی قلب داؤد بتلاتے ہیں وغیرہ غیرہ۔ جب میں نے اس مضمون پر ان کا زور دیکھا اور ان کی اصطلاحات سے معلوم کیا کہ علی قلب معنی مشاہبت کے ہیں۔ یعنی خوخصلت اور اندرونی کیفیت اور نسبت و علاقہ بخدا اُس ولی کا ایسا ہے کہ جیسا فلاں پیغمبر کا تھااور قطب عالم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہو علے قلب محمدیہ تو میں مانتا  ہوں علی قلب محمد مسلمان ہو سکتے ہیں۔کیونکہ ان کے مقتدی ہیں اور خصلت کی پیر وی میں ساعی رہتے ہیں۔لیکن سچے پیغمبروں کے مشاہبہ یہ لوگ کیونکر ہو سکتے ہیں یہ افترائی مضمون ہےاور تاریکی کے زمانے میں سادہ لوگوں کو فریب دینے کےلیے خوب تھا۔مگر اب روشنی کا زمانہ آگیا ہےاب ہم اس بات کو کیونکر قبول کرسکتے ہیں۔ گزشتہ پیغمبروں کی کتابیں موجود ہیں اور یہود و انصاریٰ ان کی امتیں بھی حاضر ہیں۔اور ان پیغمبروں کا مزاج اور خصلت اور ایمان وغیرہ کی کیفیت ان کتابوں میں مرقوم ہے اورصوفی ولیوں کی خو خصلت ان کے تذکروں میں مر قوم ہے۔پس مقابلہ کرکے دیکھو کہ کس قدر فرق ہے۔ایسا فرق ہے جیسا جاہل اور عالم میں یا مومن یا غیر مومن میں ہوتا ہے۔پس یہ کہنا تو بجا ہے کہ یہ اولیا لوگ پیغمبروں کے مخالف ہیں۔اور یہ کہنا بیجا ہے کہ وہ ان کے مشاہبہ ہیں۔   چہ نسبت خاک راباعالم پاک   

یہ بھی غنیمت ہے کہ ان پیغمبروں کو بڑا بزرگ تو سمجھتے ہیں۔ کہ اپنے ولیوں کو ان کے مشاہبہ بتا کر فروغ دینا چاہتے ہیں۔کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ اگر کوئی چاہے کہ میں اپنے مزاج میں محمد صاحب کا ہم شکل ہو جاؤں تو وہ اپنے ظاہر اور باطن کو قرآن اور حدیث کے مطابق بنادے ۔

اور اگر کوئی چاہے کہ میں پیغمبروں کا ہم شکل ہو جاؤں تو چاہیے کہ وہ   بائبل کی تعلیم  کے مطابق خود کو سنوارے۔صوفی صاحب نہ تو محض قرآن کے تابع ہیں نہ بائبل کے۔ وہ تو ویدوں اور بت پرست یونانیوں کے خیالات کے تابع ہیں۔پھر وہ کیونکر نبیوں کے ہم شکل ہو سکتے ہیں؟   یہ تو وہی بات ہے کہ رہیں جھوپنڑوں میں اور خواب دیکھیں محلوں کے   ۔یا وہ بات ہے کہ گرگ گو سفندون کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں۔چاہے کہ ناظرین کتاب ہذا صوفیوں سے یوں کہیں کہ اے صاحبو! انیباکی خصلت تو الگ رہی پہلے یہ تو ثابت کردو ان ولیوں میں وہی ایمان تھاجو نبیوں میں تھا؟ نبیوں کا ایمان کچھ اور ہے اور ان کا ایمان کچھ اورہے۔کون سا نبی ہمہ اوست کا قائل تھا؟بتلاؤ۔اس طرح ان کی تعلیم اور چال چلن میں فرق ہے۔پس تم نے مخالفت کا نام مشابہت کیوں رکھا ہے۔کیا خدا سے نہیں ڈرتے؟

Pages