November 2016

۳۲ ۔فصل تناسخ کے بیان میں

سب صوفی تو نہیں مگر  بعض صوفی تناسخ کے بھی قائل ہیں اور ایسے ایسے شعر سناتے ہیں

ہم چو سبزہ بارہاروئیدام   یکصدور ہفتا وقالب ویدہ ا م

میں سمجھتا ہوں کہ قرآن تناسخ کا قائل نہیں ہے۔اور محمدی بھی تناسخ کو نہیں مانتےوہ بعض صوفی جو تناسخ کے قائل ہیں انہوں نے بہت باتوں میں اسلام کو اپنے دلوں میں  سے نکال رکھا ہے۔اور وہ ہمیشہ بت پرستوں کے خیالات کی طرف متوجہ ہوتے  ہیں۔

 شرح مواقف و  غیرہ میں جو تناسخ کی بابت مرقوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔اہلِ تناسخ جو جسمانی قیامت کے منکر ہیں یوں کہتے ہیں کہ ارواح مردم جب اپنے کمالات کو پہنچ جاتے ہیں تب عالم قدوس میں جا شامل ہوتی ہے۔اور ہمیشہ کو بدنوں الگ ہو رہتے ہیں۔لیکن وہ روحیں جن کے کمال میں  نقص رہتا ہےایک بدن سے دوسرے بدن میں انتقال کرتی رہتی ہیں۔اور اس انتقال کانام نسخ ہےجب انسانی بدن سے کوئی آدمی اپنی حالت کے مناسب حیوانی بدن میں آتی ہے۔مثلاًشجاع آدمی مرکر شیر بن گیا یا بزدلا آدمی خرگوش بن گیا۔یا احمق آدمی مر کر گدھا بن گیا۔تو ایسی تبدیلی کو مسخ کہتے ہیں۔

اور جب ایسی تبدیلی ہوتی ہے توارواح مردم نباتات بن جاتی ہیں تو اس تبدیلی کورسخ کہتے ہیں ۔

اور جب کسی کی روح جمادات بن جاتی ہے تو یہ فسخ کہلاتا ہے۔پس لفظ تناسخ جو کہ نسخ سے نکلا ہےاس کی تین قسمیں ہیں۔مسخ، رسخ اور فسخ جب تک ارواح اپنے کمالات علمیہ اور اخلاقیہ کو نہ پہنچیں ان میں ایسی ہی تبدیلیاں  رہتی ہیں۔اور جب کمالات کو پہنچیں تو تب عالم قدوس میں شامل ہو جاتی ہیں۔امام فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سورہ انعام کے رکوع چار  ۴ اور آیت ۳۸ میں لکھا ہے کہ

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم

یعنی جو پائی اور پرندی جس قدر دنیا میں موجود ہیں یہ سب تم محمدیوں کی مانند امتیں ہیں۔یعنی تم مسلمان ایک امت ہو ویسے  ہی یہ جانور بھی تمہاری مانند امتیں ہیں۔

 پھر سورہ فاطر کے ۳ رکوع  اور آیت ۲۴میں لکھا ہے کہ

وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ

کوئی امت باقی نہیں جس میں خدا نے کوئی ڈرانےوالا یعنی پیغمبر نہ  بھیجا ہو۔

اہل تناسخ کہتے ہیں کہ آیت بالا میں لفظ امثال تمام ذاتی صفات مساوات کا مقتضی ہےاور کہ چوپائے اور پرندے بھی ہماری مانند  امتیں ہیں۔ اور بموجب آیت دوئم کےہر امت میں پیغمبر آیاہےتو اب جانوروں میں بھی پیغمبر آئے ہوں گے۔اس لیے جانوروں کو خدا کا اور نیکی و بدی کا علم حاصل ہو گا۔کیونکہ ان کے پیغمبروں نے انہیں سکھلایا ہوگا۔میں کہتا ہوں کہ اگر لفظ کم سے مراد تم انسان ہو تومطلب ظاہرہے کہ تم انسان حیوان  کی ایک نوع ہو ایسے تمام جانور انواح ہیں ہاں اگرلفظ کم سے مراد امت محمدیہ ہو تو شاید اہل تناسخ کا کچھ مطلب نکلے گا۔اور وہ جو محمد صاحب نے کہا ہے۔کہ ہر امت میں ایک پیغمبر پہنچایا گیا ہے۔یہ کلام حق کےخلاف ہے۔کیونکہ اگلے زمانے میں خدا نے یہود کےسوا سب قوموں کو چھوڑ دیاتھا۔کہ اپنی تمیز کے موافق کام کریں۔ان کے پاس کچھ پیغام نہیں پہنچایا گیا۔لوگوں نے اپنے خیالات سے جوسوچا کیا اور جو چاہا سو بولااگر خدا سے سب قوموں میں پیغمبر آتے تواس قدر اختلاف نہ ہوتاجیسا اب دیکھ رہے ہیں۔یہ جدائیاں اور جھگڑے اور ایمانی اختلافات  خدا کے نذیروں کے ڈالے ہوئے نہیں ہیں۔بلکہ یہ آدمیوں کی سمجھ سے ہیں۔ہاں جب نجات کاکام مسیح نے پورا کردیا توتب نذیر سب قوموں میں پہنچائے گئے ہیں۔نہ صرف نذیر بلکہ بشیر پس جانوروں میں نذیروں کا آنا تو درکنار ساری دنیا کی قوموں میں بھی ہادی نہ آئے تھےصرف یہود میں پیغمبر آئےتھے۔

(ف) میں نہیں سمجھتا کہ ہمہ اوست میں اور تناسخ میں کیا علاقہ ہے۔صوفی کہتے ہیں از روےتحقیق  ہمہ عین است نہ غیر و از روئے تعین ہمہ غیر است نہ عین۔پس تحقیق اصل بات ہےاور تعین ایک امر اعتباری ہےجو شخص محو ہوگیاہےوہ عالم بالا میں پہنچا  توکیااور  جو محو ہوا تو کیا؟دونوں خدا کے اندر تو رہتے ہیں۔اور اگر سکھ ہے تو خدا کو ہےاور جو دکھ ہے تو خدا کو ہے۔پس اپنا تصوف لے کرگھر جاؤوہ کسی کام کی چیز نہیں ہے۔ہم تو اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر دکھ ہے تو ہمیں ہے۔جو سکھ ہے تو ہمیں ہے۔اور جب ہم خدا سے مل کر سکھ میں جاتے ہیں تو ہم  میں اور خدا میں دوری رہتی  ہے۔کہ ہم انسان ہیں۔وہ خالق ہے۔وید والوں نے بھی جب ہمہ اوست کی تعلیم دی تھی۔تو انہیں تناسخ سے ڈرانا بے جا کام تھا۔

ہمہ اوست اور تناسخ کا خیال یونانی ہےاور ہندوستانی ہے۔قدیم بت پرستوں کا ذہنی ایجاد تھا۔اور ہندوستان کے بعض ہندووں کے درمیان ایسا سرائیت کیے ہوئے ہے۔جیسے بت پرست مسلمانوں میں تقدیر کے خیال نے سرائیت کی ہے۔لیکن وہ اس تناسخ کے خیال کا کچھ ثبوت نہیں رکھتے صرف یہی کہنا پڑتا ہے کہ ایسی کتابوں میں ایسا لکھا ہوا ہے۔

یہ تو سچ ہے  ان کی کتابوں میں ایسا لکھا ہوا ہے۔مگر بحث اس  میں ہے کہ آیا تمہاری کتابیں کہاں سے ہیں؟خدا سے یا آدمیوں سے پس امور ذیل پر بحث آجاتی ہے کہ آیا ان کے مصنف کون تھے؟کس زمانے میں تھے؟اورکس طرح کے اشخاص تھے؟ان کی تحریر سے ان کے دلوں اور خیالوں کی کیا کیفیت معلوم ہوتی ہے؟صفائی کہاں تک تھی؟اور مبالغوں کی کیا کیفیت ہے؟وہ کتابیں تو مبالغوں اور واہی تباہی خیالات سے بھری ہیں۔اس لئے وہ اہلِ عقل کے سامنے غیر  معتبر ہیں۔کیونکہ انہیں کے خیالات نے جو ان کتابوں میں مرقوم ہیں انہیں باطل ثابت کیا ہے۔پس ان کتابوں کے درمیان جو غیر معتبر ہیں۔تناسخ کا ذکر ثبوت تناسخ کی دلیل نہیں ہو سکتا۔

ہم مسیحی جو بعض امور کی نسبت یہ کہہ دیا کرتے ہیں۔کہ خدا کے کلام میں ایسا لکھا ہے کہ ہماری اس بات کاماننا اس لیے واجب سمجھا جاتا ہے۔ کہ ہم نےن اولاً دیگر کتب میں ثابت کردیا ہےکہ وہ کتابیں کلام اللہ ہیں۔اور معتبر خدا پرست اورخدا ترس لوگوں سے لکھی گئی ہیں۔اور خدا نےا پنی قدرتوں سے کلام پر گو اہیاں دی ہیں۔اور اس کلام کی صدہا تعلیمات عقلاً واجب اُلتعمیل ظاہر ہو گئیں۔پھر اگرکوئی تعلیم اس میں ایسی بھی نظر آجائے جو خدا کی ذات پاک سے علاقہ رکھتی ہو۔اور فہم انسانی سے بلندو بالاہوتو صرف کلام  میں مذکورہونے کےسبب سے ہم بغیر سمجھے جرات اور دلاوری سے ادب سے قبول کر لیتے ہیں۔اور یہ مناسب کام ہے۔

ہندووں اور مسلمانوں کو ایسا کہنا جائز نہیں کہ یہ بات قرآن میں یا ویدوں میں شاستروں میں لکھی ہے۔اس لیے حق ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں کو من جانب اللہ ثابت نہیں کر چکے ہیں۔اور نہ کر سکتے ہیں۔اسلئے جو دعوئے وہ اپنی کتابوں سے لائیں گے۔اس کا ثبوت انہیں خارج سے دینا پڑے گا۔

اور تناسخ ہمہ اوست کے لیے خارج میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔تب ان کے بے دلیل دعووں کو اس بارے میں ہم کیونکر قبول کر سکتے ہیں۔تناسخ کے لیے سوائے اس دعوئے کے جو غیر معتبر اشخاص سے ہوا ہےدلائل اثباتیہ محض معدوم ہیں دلائل انکاریہ ضرور موجود ہیں۔اور کئی ایک ہیں ان میں سے تین دلیلیں یہ ہیں۔جن کا ذکر کرتا ہوں۔

  •  جس چیز کا نام نفس ناطقہ ہے۔وہ سوا ءانسان کے کسی اورحیوان میں پایا نہیں گیا۔پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہی روح کبھی انسان میں اور کبھی حیوان میں آتی رہتی ہے۔
  •  قوت حافظہ نفس ناطقہ کی ذاتی صفت ہے ناکہ عارضی پس کیا سبب ہے؟ کہ کسی آدمی کو کچھ کیفیت تولد اورسابقہ جنم کی کیفیت معلوم نہیں ہے۔آیا اس کیفیت کے نقش و نگار محو ہو گئے ہیں یا دب گئے ہیں۔محو تو ہو نہیں سکتے  کیونکہ حافظہ ذاتی صفت ہےہاں دبے جا سکتے ہیں۔مگر دبی ہوئی بات پھر یاد آسکتی ہے۔جب یاد دلانے والی کوئی چیز سامنے آئے۔آدمیوں کے سامنے سب حیوان پھرتے ہیں۔اور ان کے خصائص ان پر ظاہر ہیں۔اگر وہ آدمی کبھی کوئی جانور تھے۔تو ان کو ان کے ملا خط سے اپنی سابقہ کیفیت یاد کیونکہ نہیں آتی؟
  •  تناسخ کا انتظام خدا نے کس غرض سے کیا ہے؟جواب یہی ہے کہ سزائے اعمال کے لیےہم پوچھتے ہیں کہ سزائےا عمال کیا چیز ہے؟بے فکر اس بات کو نہیں جانتے دنیاوی احکام سے جو سزا ہوتی ہے۔ناسمجھ لوگ الٰہی سزا کو اسی کے موافق خیال کرتے ہیں۔ معلوم ہو جائے کہ دنیاوی سزا مجازی سزا ہے۔خدا کی طرف سے جو سزا ہےوہ حقیقی سزا ہے۔دیکھو زید  نےبکر کا لاکھ روپیہ چوراکر  باکل برباد کردیا۔اب بکر زید سے کہتا ہے کہ میرا روپیہ مجھے دےدو ورنہ میں تجھے کسی میعاد کے لیے قید کرادوں گااور خوب پٹواؤں گا۔زید کہتا ہے کہ  جو چاہوسو کرو میرے پاس تو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔پس بکر نے جو کچھ کر سکتا تھا کرکے صبر کیا زید کچھ میعاد تک دکھ پاکر چھوٹ گیا۔اب بتلاؤ کہ اس میں بکر کا نقصان کیونکر پورا ہو گا؟اورزید کیونکر ظلم سے بری ہوگا؟شاید سزا کا میعادی دکھ اور وہ روپیہ مساوی چیز ہوں۔

مگر بتلائیے کہ خدا کی بے عزتی کس میعادی دکھ کے مساوی ہے؟اس لیے خدا کی سزا یہ ہے کہ یا تو کوڑی کوڑی ادا کرو یا ابدالاباد دکھ میں رہو۔لاانتہا برسوں تک کبھی سکھ کا منہ نہ  دیکھو۔یہ سزا خدا کی شان کے مناسب  ہے۔اور ظلم کے بھی مناسب ہے۔تناسخ کے دکھوں میں یہ سزا کیونکر پوری ہو جاتی ہے؟تناسخ میں دکھ کیا ہے؟کچھ بھی نہیں۔اگر گدے ہیں تو گدہے کا کام کرتے ہیں اور خوش ہیں۔اور بلے ہیں تو میاؤں میاؤں میں خوش  ہیں۔سزاکیا ہے؟سزا کے لیے یہ بھی  ضروری ہے کہ مجرم اپنے گناہوں سے آگاہ ہوکر دکھ اٹھائے تاکہ نادم ہو۔اور جانے کہ میں نے فلاں کام  غیر مناسب کیا تھااس لئے دکھ میں ہوں۔بتلاؤ کہ ان غریب ،ناچار،بیمار فاقہ زدہ اور  مصائب کشیدہ آدمیوں میں اور ان جانوروں میں کون آگا ہ ہے؟کہ میں فلاں جرم کے سبب سے اس حالت  میں ہوں۔یہ تو الٰہی حکمت کے انتظام ہیں۔اور ہر جانور اپنی فطری حالت میں خوش ہے۔اور تناسخ کا خیال غلط ہے۔

خدا کے پیغمبروں نے خدا سے معلوم کرکے ہمیں یوں سکھلایا ہے کہ حیوانات کی روحیں فانی ہیں اور سب حیوانات آدمیوں کی خدمت اور خوراک کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔نباتات میں اور اُن میں قدرے فرق ہے۔اور ان میں انسانی روح ہرگز نہیں ہے۔انسان کی روح جو ایک مخلوق شے ہے۔ایک دفعہ دنیا میں آتی ہے۔اور جب وہ مر گیابدن مٹی ہو جاتا ہے۔اور روح اس کی عالم غیب یعنی عالم ارواح میں رہتی ہیں۔عدالت کےدن تک سب روحیں وہاں جمع رہیں گی اور ان کے لیے آسائش یا دکھ حسبِ ان کی حالت کے رہے گا۔قیامت کے دن خداوندیسوع  مسیح آئے گا۔اور جہان کی عدالت وہی کرے گااسی کو خدا باپ نے ساری عدالت سونپ دی ہے۔کیونکہ وہ اللہ انسان ہے۔اس کے سامنے سب روحیں اپنے بدنوں میں اٹھیں گی۔اورعدالت کے بعدایماندار جن کا بھروسہ مسیح کے کفارہ پر ہےابد تک خدا کی رحمت میں آرام سے رہیں گے۔اور بے ایمان ابدی دکھ میں چلے جائیں گے۔پھر وہاں سے کبھی نہیں چھوٹ  سکتے اور یہ بات کہ خدا ایک جدا شے ہے۔اور انسان وغیرہ جدی چیزیں ہیں۔برابر قائم رہیں گی۔مفرد و مجرد سب جھوٹے ثابت ہوں گے۔جب سزا کا منہ دیکھیں گےتوساری تفرید تجرید بھول جائے  گی۔ہائے ہائے سوجھے گی۔ابھی قبروں کا حلوہ اور روٹی کھا کر مست ہو رہے ہیں اور اوست کے دم مارتے ہیں۔وقت آتا ہے کہ اوست کا پوست اترے گا اور میں تو کی سوجھے گی۔

سواء یسوع ابن مریم کے ہر ایک  آدمی پیر ہو یا پیغمبر گناہگار اور ابدی سزا کا مستحق ہے۔کیونکہ سب نے خدا کی شرع کوتوڑا۔ سب نے  نامناسب کام کیے۔سب بگڑی ہوئی جڑ  کی ڈالیاں ہیں سب دوزخ کی آگ میں جلنے کے لائق ہیں لیکن خدا  نےمہربانی کرکے عدالت سے پہلے مسیح خداوند کو بھیج دیاجس نے دنیا میں آکر سب اولین اور آخرین یعنی کل بنی آدم کے لیے الہٰی قرضے کو ادا کیا۔اور دکھوں کو اٹھایا۔اور سب کے لیے شریعت الٰہی کو پورےطور پر عمل میں لایاپھر عام منادی کرائی کہ جوکوئی اس پر ایمان لائے یعنی اس کے فضل کو منظور اور قبول کرےاور کہے کہ میں اس بات سےراضی اور خوش ہوں کہ تونے میرا قرضہ ادا کیا اور مجھے بچا لیا۔میں اب تیرا غلام ہوں سب باتوں میں تیرا فرمانبردار رہوں گا۔توآگے کو بھی میری مدد اور حمایت کر تو وہ آدمی آئندہ سزاسے بچ جائےگا۔اور جو وہ کہے کہ تو کون ہے؟میں ادا کیا ہوا قرض کیوں منظور کروں؟تونے میرا دکھ کیوں اٹھایا؟میں آپ اپنا دکھ اٹھاؤں گا۔آپ نیک اعمال کرکے بچوں گا۔مجھے یقین بھی نہیں آتا کہ تونے میرا قرض اٹھا لیا۔فلاں پیر یا فلاں پیغمبر میری شفاعت کرے گا۔یا خدا آپ رحم کرکے مجھے بخش دے گا۔ایسے آدمی کو اختیار ہے کہ جدھر چاہے وہ ادھر جائے۔اور جو چاہے سو کرے مسلمان رہے یا صوفی بنے یا نیچری ہو۔لیکن یاد رکھیں کہ ابدی سزا میں ضرورپھنسا ہو گا۔خدا اس پر کبھی رحم نہیں کرے گا۔اس لیے کہ اس نے خدا کے انتظام اور  رحم کو جو مسیح میں اس کے لیے ہوا تھارد کیا ہے۔اور مسیح نے جواس کا قرض ادا کیا ہےاس شخص نے اپنی رضامندی اس بارے میں  الگ  کرکےاپنے حق میں اس ادا کیے ہوئے قرضے کومنسوخ کرایا ہے۔اور اپنے اوپر بحال کھوایا ہےاب یہ خود قرضہ ادا کرے یا ابد تک دکھ میں رہے۔

سارےگناہوں کی فہرست ابد تک پیشِ نظر رہے گی اور سب حسرتوں سےبری حسرت یہ ہوگی۔ہائے میں نے مسیح کے فضل کو رد کرکے اپنے سارے گناہوں کے تدارک کو  جو مجھے مفت ہاتھ آیا تھاکیوں نادانی سے قبول نہ کیا تھا۔ہائے میں نے مسیح کو رد کرکے اپنی ابدی آسائش کو رد کردیا اور اب کچھ نہیں ہوسکتا رحم کا دروازہ ابد تک بندا ہو گیا عدالت کا منہ ابد تک چبانے کو کھلا ہے۔ 

۳۳ ۔فصل صوفیوں کی وہ کیفیت جو اب ہے

جو کیفیت علم سلوک اور سالکین  کی اس کتاب میں کتب تصوف سے سنا چکا ہوں اور اس کا ابطال بھی دکھلا چکا ہوںوہ کیفیت حال کے صوفیہ میں برائے نام ہے بلکہ ایک اور کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔جو پہلی کیفیت کی بانسبت زیادہ تر بری ہے۔

 شروع میں پہلی کیفیت کے لوگ ہندوستان میں ظاہر ہوئے تھے ان کے چند شاگرد ویسے ہی ہو گئے تھے۔مثلاً معین الدین چستی، قطب الدین  بختیار کاکی، فرید الدین مسعود یعنی بابا فرید،قطب جمال الدین احمد ہانسوی،نظام الدین اولیا، علاؤالدین صابر۔شاہ ابو المعانی شاہ ابوالعلااور سید بھیک وغیرہ یہ سب لوگ پہلی کیفیت کے شخص تھے۔

 ان کے بعد یہ کارخانہ نہایت بگڑ گیااب صرف نام کے صوفی پھرتے ہیں اور وہ جو اُن میں نامی ہیں اکثر خاندانی پیر زادے ہیں۔جن کا جداعلی کوئی نامی صوفی تھا۔جس کا مزار کہیں کہیں عالی شان عمارت سے بنایا اور خوب سجایا ہے قبر پر عمدہ عمدہ غلاف ڈالے ہیں۔پھولوں اور خوشبوں سے معطر کیا ہے۔رات کو بہت چراغ جلاتے اور ادب سے زیارت کرتےاور کراتے ہیں ۔قبرکے قدموں پر جھک کر بھوسے دتیے ہیں خادم یا مجاور جو مقرر ہیں۔وہ صفائی رکھتے اور مور کی دم کے پرو سے جھاڑوں دیتے ہیں۔سال میں ایک بار موت کی تاریخ  میں میلا کرتے ہیں۔کسبیوں کا ناچ ہوتاہے۔جس سےوہ پیر صاحب اپنی زندگی میں بے زار تھے۔قوالوں کے راگ درویشوں کے وجد ہوتے ہیں۔ہو حق کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔

 جاہل منتیں مانتے نذر نیاز روپیہ پیسہ کوڑیاں اور قسم قسم کے کھانے مٹھائی ریوڑیاں خوب آتی ہیں مزے اڑتے ہیں۔خدا کو چھوڑ دیا قبروں کو معبود بنا لیاہے۔جس پیر زادے کے خاندان میں کسی بزرگ  کا ایسا مزار بن گیا ہے اس کے لیے تو دنیا میں ایک جاگیر پیدا ہوگئی ہے۔وہ زمینداروں سے اچھا رہتا ہے۔اور کتنے گھرانے اس قبر سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔سارا خاندان اس مزار کو مزارشریف کہتا ہے۔بلکہ اس شہر کو بھی اس مزار کی وجہ سے شریف کہتے ہیں اور رات دن مداحی میں مصروف ہیں۔کرامتیں اور قدرتیں اس مزار کی نسبت ہمیشہ تصنیف ہو کر اڑتی رہتی ہیں دیکھو آج کل ایک کتاب نکلی ہےجس کانام حقیقتِ گلزار صابری 11 ہے۔اس کے مصنف نے باطل روایتوں کے فروغ دینے کو بعض کتابوں کے نام بھی دل سے فرض کر لیے ہیں۔کہ یہ بات مکتوب نطاب وغیرہ میں لکھی ہے۔نہ مکتوب نطاب وغیرہ کوئی چیز ہے اور نہ  ہی وہ بات صحیح ہے صرف گلزار صابری کی بہار ہے۔

محمدی مولوی ہمیشہ چلاتے رہتے ہیں کہ اے ظالموں کیا کرتے ہو۔یہ نہ صوفیت ہے اور نہ اسلام ہےیہ تو بت پرستی ہے۔مگر پیر زادےکب مانتے ہیں۔نالائق دلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے اور ایسی بری نگاہوں سے ان کو دیکھتے  ہیں۔جیسے متعصب مومن کافر کو دیکھتا ہے۔پس حال کے صوفیہ کی ایک تو یہ صفت ہے کہ جس کا بیان ہوا۔افسوس کی بات ہے کہ اڈیٹران اخبارات جو اکثر برہمو اور آریوں اور نیچریوںوغیرہ کی نسبت کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ان صوفیوں کی طرف سے کیوں چپ ہیں چپ رہنے میں ان ہزارہاآدمیوں کا نقصان ہے۔اور چھڑ چھاڑ میں فائدہ ہے کہ آدمی جگائے جاتے ہیں۔لیکن ادب  اورشا ئستگی سے کلام کرنا مناسب ہے۔

کچھ نہ کچھ چھیٹر چلی جائے ظفر   گر نہیں وصل تو حسردت ہی سہی

دوسری بات ان میں یہ ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی پیر  صاحب کا مرید ہےاس سے شجرہ لیا ہے۔اور کچھ وظیفہ سیکھاہاتھ میں تسبیح لی جمعرات کو زیارت کے لیے کچھ قبریں انتخاب کیں سالانہ عرسوں میں برابر حاضر ہیں اورکچھ کوشش بھی کرتے ہیں۔کہ لوگوں کو متعقد بنا دیں تاکہ روپیہ آئے اور عزت سے رہیں یہ مقصد اعلیٰ اکثروں کا ہے۔

میں ان صاحبان سے بمنت  کہتا ہوں کہ اگر تم منصف آدمی ہو تو آپ ہی انصاف سے کہو کہ یہ تسبیح اور وظیفہ کس مطلب سے ہے۔کیا فتوحات اور کشائش روزی اور دست غیب اوررجوعات اور تسخیر قلوب کے وظیفے ڈھوندھ ڈھونڈھ کر تم نے اپنے لیےاختیار کررکھے  ہیں۔یا نہیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلاتے ہو کہ نہیں۔پس یہ سر پرستی ہے یا خدا پرستی ہے۔تم کس منہ سے کہا کرتے ہوکہ فلاں شخص دنیا حاصل کرنے مسیحی ہو گیا ہے۔کیا تم خدا کے طالب ہواور وہ دنیا کاطالب تھا؟خدا سے ڈور سچا انصاف کرومیں تو مدت دراز تک صوفیہ میں رہا۔ان کے گھر کے بھید سے خبر دار ہوں۔میں نےتم میں کوئی کوئی آدمی دیکھا جو خدا کا طالب تھا۔اکثر دنیا کے طالب دیکھے اوروہی وظیفے تلاش کرتے رہے۔جن سے دنیا حاصل ہو دنیا کے طالب خود ہو دوسروں کی نسبت کیوں بد گمانی کیا کرتے ہو؟اگر تم خدا کے طالب  ہوتے تو ضرور خدا کو پاتے وہ اپنے طالبوں کو بے مراد نہیں پھرنےد یتا میں نے یہ کتاب ایذا رسانی کے لیے نہیں مگر دلی محبت اور دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے لکھی ہے تاکہ خوابِ غلفت سے جگاؤں۔

تیسری بات جو ان میں ہے یہ ہے کہ جب ان صوفیہ نے دیکھا کہ ہم میں نہ کچھ قدرت ہے نہ تاثیر ہے۔اورہم لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارے  گزشتہ بزرگ ایسی ایسی قدرت اور تاثیر کے شخص تھے۔ہم میں کچھ  تو ہوتاکہ عزت رہےاور ہم بھی صاحبِ تاثیر مشہور ہوں۔اور جاہل سمجھیں کہ قبر والے بڑے پیر کی قدرت حضرت سجادہ نشین صاحب میں بھی ہے۔پس وہ تعویذوں اور گنڈوں اورفلتیوں اورفال اور رمل اوربعض سفلی جادوں کی طرف مائل ہوتے ہیں بلکہ رات دن دعا میں مشغول رہتے ہیں۔

دو تین انگل کا یک مربع کاغذ لے کر اس پر لکیروں سے خانے بناتےاور خانوں میں ۲ و ۴ اور ۸ وغیرہ لکھتے  اور جاہلوں کو دیتے ہیں۔کہ لو گھول کر پی لو یا گلے میں ڈال لو۔تمہاری حفاظت ہوگی۔یہ تعویذ کی صورت ہے۔

گنڈوں کی یہ صورت دو تین بالشت کا کچا دھاگا سات تار کا لیتے ہیں اوراور اس میں  سات گانٹھیں دیتےاور گانٹھ میں اپنے منہ کی ہوا کو منت پڑھ کر باندھتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ لو اپنے لگلے میں باندھوں بخار نزدیک نہ آئے گا۔اور کسی چڑیل وغیرہ کی تاثیر نہ ہو گی۔یا بھینس کے سینگ میں باندھوں خوب دودھ دے گی۔

فلتیوں کی یہ صورت ہے کہ جب کوئی آدمی بھوت کا بیمار سمجھا جاتا ہے تو پیر صاحب کاغذ پر فرشتوں کے یا پیغمبروں کےنام لکھتے ہیں۔اور بتی کی مانند لپیٹتے ہیں اورکہتے ہیں کہ  اسے جلا کر بیمار کی ناک میں دھواں چڑھاہو۔تاکہ اس کا دماغ خراب ہو اوروہ کچھ بکے اور یہ کہیں کہ فلیتے کی تاثیر  سے بھوت آیا ہےوہ بولتا ہے۔اورجو بیمار مضبوط ہو اوراس دھوئیں سے نہ بکےتو ایک اور فلیتہ لکھتےاور نیلے چتھڑے میں لپیٹتے  ہیں۔جس کا دھواں زیادہ گھبرا دیتا ہے اور جو وہ اس سےبھی نہ بکے تو مرچیں جلا کر دھواں دیتے ہیں یہاں تک وہ بک اٹھتا ہے۔اور کہتے ہیں کہ ہاں اب بھوت قابوں میں آیا ہے۔اب میں اس کو جلا دو گا۔چولہےمیں بیری کی لکڑیاں جلاؤ اس پر کوری ہنڈیا خالی رکھواور پاس بیٹھ کر ماش کے دانے پر کچھ پڑھتے ہیں۔اور ہنڈیا میں ڈالتے جاتے ہیں اور آستین میں ایک بکری کا پتہ جس میں سرخ نری کا رنگ بھر لاتےچھپار ہتا ہے اور موقع پا کر فوراً ہنڈیا میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لو بھوت جل گیاآؤ اس کا خون دیکھ لو ارے احمقوں روح میں خون کہاں سے آ سکتا ہے؟پھر کہتے ہیں کہ ہنڈیا کو باہرلے جا کر گہرے غار میں دفن کر دوکہ بھوت پھر سے نہ نکل آئے اور جلد ایک سفید جوان مرغ ، گھی ،چاول، میدا اورمیوہ وغیرہ لاؤ کہ ان فرشتوں کانذرانہ دوں جنہوں نے اس بھوت کو پکڑ کر جلایا ہے۔اورمجھےجو کچھ دینا ہے وہ جدا نقددیدو۔تب وہ جاہل غریب دیہاتی جو تنگ دست  ہوتے ہیں جس طرح ہو سکتا ہے وہ یہ نذرانہ دیتے اور پیر صاحب اپنے گھر میں مرغا پلاو کہتے اورہنستے ہیں۔

فال کی یہ صورت ہے کہ ایک کتاب بنا رکھی ہے۔جس کے اول میں  ایک صفحہ پر ایک نقشہ  ہے  ہر خانے میں کوئی حرف لکھا ہے جیسے کہ الف بے وغیرہ اورحرف کا بیان کتاب میں کچھ لکھا ہے۔

غریب مصیبت زدہ جاہل عورتیں اپنی تنگیوں میں چپ چاپ پیر صاحب کے پاس حاضر ہوتی اور اپنا دکھ روتی ہیں اور پیر صاحب فالنامہ یعنی وہی کتاب نکالتے اور وہ عورت نذرانہ کتاب پر رکھ دیتی ہے۔تب فرماتے ہیں کہ اپنی انگلی کسی خانہ پر رکھ۔جس خاننے پر وہ انگلی رکھی۔اسی کے  حرف کابیان  کتاب میں سےنکال کرسناتے ہیں۔اگراچھا بیان ہے توفال مبارک ہوئی اور اگربرا بیان ہے تو عورت غمگین ہو گئی۔کہ میرے لیے یہ آفت آئے گی۔تب کہتے ہیں کہ یوں صدقہ دواور یوں یوں کرو بلا دفع ہو جائے گی۔بعضوں نے رمل سیکھ لیا ہے۔وہ رمل سےمثلاًً راول جوگیوں کے کچھ بتلاتے ہیں ۔ اوریوں جناب پیر صاحب کی بزرگیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ایسی باتوں میں اسلام کا ذکر ہے۔

یہ تین باتیں جو میں نے یہاں لکھی ہیں ان میں سے پہلی بات گویا ان کاسلوک یا صوفیت ہے۔دوسری بات میں وہ گویا طرق سلوک پورےکرتے ہیں۔تیسری بات میں ان کا عروج  ہے۔جو کہ ان کی صوفیت سے حاصل ہوا ہے فقط آخر میں پھر کہتا ہوں کہ اگر خدا سے ملنا چاہتا ہو ےتو بائبل مقدس  کی طرف دیکھو اور دین مسیحی کی کیفیت اور ماہیت دریافت کرنے کے لیے کوشش کرو۔

راقم بندہ :عماد الدین لاہز


Pages