آٹھواں باب

کام کا خاتمہ

اب ہمارے خداوند کے کام کے تیسرا سال بھی خاتمہ کو پہنچا اور فسح کی عید نزدیک آئی۔ کہتے ہیں کہ اس عید کی تقریب پر کم ازکم بیس یا تیس لاکھ آدمی یروشلیم میںجمع ہو جاتے تھے۔ جو نہ صرف فلسطین کے مختلف علاقوں سے بلکہ دور دور کے ملکوں سے خشکی اور تری کی سختیاں سہہ کر آتے تھے۔ تاکہ اس عید میں جو ان کی قومی تواریخ کی بنیاد سمجھی جاتی تھی شامل ہوں،ان میں سے کئی تو سنجیدہ خیالات اور حقیقی خوشی کے ساتھ آتے ہوں گے اور ان کے دلی تصورات اس عظیم عید کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں گے۔ لیکن کئی اس لئے آتے ہو ں گے کہ بچھڑے ہوئے عزیزوں اور دور افتادہ دوستوں کو دیکھ کر دل ٹھنڈ ا کر یں اور کئی تجارت اور بیوپار کے منافع سے ہاتھ گرم کرنا چاہتے ہوںگے۔ پر اس دفعہ بے شمار لوگوں کے دلوں ایک میں اور ہی تحریک پیدا ہو رہی تھی۔ وہ اب کی دفعہ یروشلیم میں عجیب کام دیکھنے کی امید رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ اس دفعہ ہم یسوع کو وہاں دیکھیں گے۔ وہ اس کے بارے میں طرح طر ح کے خیالات اپنے ذہن میںجمائے ہوئے تھے۔ اگر ہم وہاں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ ہزاروں مسافر جو یروشلیم کو جارہے ہیں۔ راستے میں اسی کی بابت گفتگو کرتے جاتے ہیں۔اور سینکٹروں یہودی جو جہازوں پر بیٹھے ایشائے کو چک او ر مصر سے یروشیلم کو آرہے ہیں اسی کے نام کا ورد کر رہے ہیں۔ماسواان کے اس کے شاگرد بھی وہاں موجود تھے۔ان کے دل میں بھی یہ امید جوش زن ہوگی کہ اب تو لاکھوں لوگ دارالسظنیت میں موجود ہیں ،اب ہمارا خداوند ضرور پستی کے پردے کو اتار کر اپنے جلال کو آشکارہ کرئے گا اور کسی نہ کسی عجیب صورت سے لوگوں کو قائل کر دے گا کہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔علاوہ ان کے ہزارو ں آدمی ملک کے جنوبی حصہ سے آئے ہوئے تھے اور چونکہ چند دنوںسے وہ ان کے درمیان کام کر رہا تھا۔اس لئے وہ بھی اس کی نسبت کچھ اسی طرح کا خیال رکھتے تھے جیسا گلیل میں پہلے سال ک آخر میں گلیلوں کا تھا ۔اس موقعہ پر بے شمار گلیلی حاضر تھے جو اس کی نسبت اچھی رائے رکھتے اور اس کے متعلق ہر امر میں دلچسپی دکھانے کو تیار تھے۔لاکھوں اشخاص جہنوں نے اسے کبھی دیکھا تو نہیں تھا مگر اس کے بارے میں سنا بہت کچھ تھا اور اور ممالک سے بھی آئے ہوئے تھے وہ اپنے دلوں میں یہ امید لئے بیٹھے تھے کہ یا تو ہم اس کا کوئی عجیب معجزہ دیکھیں گے یا اس کا معجزانہ باتیں سن کر مخظوظ ہوں گے۔ان سب لوگوں کے علاوہ یروشلیم کے دینی عہدیدار بھی اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ان کے دلوں میں بھی طرح طرح کے خیالات جوش مار رہے تھے۔وہ ا س گھات میں تھے کہ اب کی دفعہ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اتنا ضرور کریں گے۔کہ آگے کو اسے کام کرنے سے بند کر دیں مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی ڈرا رہاتھا کہ اگر وہ گلیل یا کسی اور صوبہ کے لوگوں کا سپہ سالار بن کر آگیا تو ہمیں ضرو ر اس کا مطیع ہو نا پڑے گا۔

قوم کے ساتھ آخری ناچاقی فسح سے چھ دن پہلے یسوع مریم و مارتھا کے ہمراہ لعاذر کے گاؤں یعنی بیت عینا میں وارد ہوا۔بیت عنیایروشیلم سے دو یا تین میل کے فاصلے پر کوہ زیتون کی چوٹی کی دوسر ی طرف واقع تھا اورچونکہ وہ یروشیلم سے کل نصف گھنٹے کا راستہ تھا۔اس لئے عید کے دنوں میں وہاں ٹھہرنا یسوع کے لئے زیادہ آرام کا باعث تھا۔عید کی رسوم جمعرات سے شروع ہونے کو تھیں مگر یسوع چھ دن پہلے یعنی جمعہ کے روز بیت عنیامیں آگیا۔اس کے سفر کے آخری بیس میل میں ہزاروں مسافر اس کے ہمراہ تھے۔جن کی آنکھیں اس پر لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے اس کو یریحو میں برتمائی کی آنکھیں روشن کر تے دیکھا تھا اور اس معجزے نے ان میں عجیب قسم کی نرم دلی پید اکردی تھی۔اور اب جب وہ بیت عنیامیں آئے توا نہوں نے دیکھا کہ یہ گاﺅں لعاذر کو زندہ کرنے کے معجزے سے گونج رہاہے۔اور جب وہ یروشلیم میں پہنچے تو انہوں نے جا بجا یہ خبر پھیلا دی کہ یسوع آگیا ہے۔

پس جب وہ سبت کے روز آرام کر کے اتوار کویروشلیم کی طرف جانے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ گاﺅںکی گلیاں اور آس پاس کی سڑکیں لوگوں سے بھری پڑی ہیں ؛۔ان میں کچھ تو وہ لوگ شامل تھے جو اسکے ساتھ آئے تھے اور کچھ وہ لوگ شامل تھے جو اس کے ساتھ آئے تھے اور کچھ وہ جواس کے پیچھے یریحو سے گزرے تھے اور جہنوں نے وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے معجزے کی خبر سنی تھی۔او ر کئی ان میں سے ایسے بھی تھے جوا سے دیکھنے کو یروشلیم سے آئے تھے انہوں نے اس کو بڑی سرگرمی اور گرم جوشی سے قبول کیا اور یہ نعرے مارنے شروع کئے۔

ابن داؤد کو ہو شعنا۔مبارک وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔یہ نعرہ گویا اس کی مسیحائی کی منادی تھے۔اس لئے پہلے وہ اس قسم کی باتوں سے بچتا تھااور لوگوں کو روک دیا کرتا تھا۔مگر اب کی دفعہ اس نے انہیں ان باتوںسے نہ روکا۔شاید اس لئے کہ یہ اظہار ات ان کی سچی تعظیم سے پیداہوئے تھے۔بہرحال اب ایسا وقت آگیا تھا کہ وہ اپنی مسیحانہ بادشاہی کے دعوے کو چھپا نہیں سکتا تھا لیکن یہ یاد رہے کہ جب اس کے ساتھ اس بات کو بھی بخوبی ظاہر کر دیا کہ میری بادشاہی کس طرح کی ہے۔چنانچہ اس نے ایک گدھی کا بچہ منگوایااور جب اس کے شاگردوں نے اس پر اپنے کپڑے ڈال دئیے تو اس پر سوار ہوا اور بھیڑ کے آگے آگے چل پڑا۔اس سے ظاہر ہوا کہ وہ جنگ کے ہتھیار وں سے آراستہ یا کسی بادرفتار کوتل پر سوار ہو کر یروشلیم میں نہیں آتا بلکہ سادگی اور سلامتی کا شہزادہ بن کر اس میں داخل ہوتا ہے۔جب جلوس کوہ زتیون کی چوٹی اور پہاڑ کے دامن سے گزر کر اور نالہ کدرون کو عبور کر کے شہر کے پھاٹک پر پہنچا تو وہاں سے شہر کے کوچوں میں سے ہو کر ہیکل میں آئے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتے جاتے تھے اژدہام زیادہ ہوتا جاتا تھا اور دیکھنے والے کھجور اور زیتو ن کی ٹہنیان لے کر فتمند انہ طور پر ہلاتے اور زرو زور سے ہو شعنا۔ہوشعنا کہتے جاتے تھے۔شہر کے باشندے اپنے گھروں کے دروازوں اور مکانوں کی کھڑکیوں پر سے جھک جھک کر دیکھتے تھے اور پوچھتے تھے۔”یہ کون ہے ؟اہل گلیل اور دیگر لوگ ملکی فخر سے معمور ہو کر یہ جواب دیتے تھے یہ ناصرت کا بنی یسوع ہے “۔مگر یہ سب اعزاز باہر والوں کی طرف سے تھایروشلیم کے لوگوں نے اس کچھ حصہ نہ لیا بلکہ بڑی سرددلی سے کنارہ کشی اختیار کی۔یہودیوں کے دینی سردار خوب جانتے تھے کہ اس سار ی کاروائی کا کیا مطلب ہے۔پس وہ غیظ وغضب سے بھر گئے اور یسوع کے پاس آکر پیروﺅں کو ان ناشائستہ حرکات سے بند کر ؟شاید انہوں نے اس کو اشارتاً یہ بھی کہاہو گا کہ اگر تو ان کو منع نہیں کرے گا تو رومی قلعے سے نکلیں گے ؛اور تجھ پر اور تیرے شاگردوں پر حملہ آور ہوںگے اور تمام شہر کو سر کشی کے جرم میں سزا وار ٹھہرائیں گے۔

سیدنا مسیح کی زندگی میں اس موقع سے بڑھ کرا ور کوئی موقعہ نہیں ہے جس کی نسبت یہ سوال کیا جائے کہ لوگ اس کے دعوے کو قبول کر لیتے تو کیا نتیجہ ہوتا؟پس یہ خیال آتا ہے کہ اگر یروشلیم کے باشندے بھی بیرونی صویحات کے باشندوں کے جوش و خروش سے مغلوب ہو کر اس کے مطیع ہوجاتے اور کاہنوں اور فقہیوں کے تعصبات کو عام لوگوں کی مدد چکنا چور کر دتیی تو یسوع عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر ایک ایسا تاریخی زمانہ جاری کر دتیا جوا س سے بعد میں جاری ہوا بالکل مختلف ہو تا ؟اس قسم کے خیالات ہماری رسائی سے بعید ہیں اگرچہ دانش مند آدمی ان سے بری بھی نہیں رہ سکتا۔

یسوع نے اس سے پہلے یروشلیم اور یروشلیم کے سرداروں سے اطاعت طلب کی مگر انہوں نے کچھ توجہ نہ کی اور اس وقت دوسری جگہ کے لوگوںسے قبول کیا جانا قومی قبولیت کے لئے کافی نہ تھا۔پس اس نے اس وقت اہل یروشلیم کے فیصلے کو آخری فیصلہ سمجھا۔حالانکہ وہ لوگ جو اس وقت یروشلیم میں موجود تھے صرف اس کے اشارہ کے منتظر تھے۔اس وقت جو کچھ وہ کہتا وہ اسے بجا لانے کو بالکل تیار تھے مگر اس نے کوئی حکم نہ دیا بلکہ ہیکل میں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر اور ادھر ادھر دیکھ کر بیت عنیا کو واپس چلا گیا۔

مگر عوام کو جو مایوسی اس سے ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔اب سرداروں نے عوام الناس کی مایوسی کو غنیمت جانا اور اس موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔فریسیوں کوتو اکسانے کی کچھ ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ تو سرااس کے خون کے پیاسے تھے رہے صدوقی جو مروجہ انتظام اور امن پر جان دیتے تھے انہوں نے بھی عام لوگوں کے حال اور ملکی امن کو خطرے میں دیکھ کرا پنے جانی دشمن فریسیوںکا ساتھ دینا منطور کیا تاکہ یسوع کو نیست و نابود کریں۔

یسوع پھر پیر اور منگل کے روز شہر میں آیا اور لوگوں کوشفا بخشنے اور تعلیم دینے کے کام میں حسب معمول مصروف ہوا مگر منگل کے روز دینی سرداروں نے آکر مداخلت کی۔ فریسی۔ صدوقی۔ ہیرودی سردار کاہن ،کاہن اور فقیہ سب اس سازش میں جو یسوع کے بر خلاف کی گئی تھی متفق ہوئے اور اس کے پاس آکر کہنے لگے کہ تو کس کے اختیار سے یہ باتیں کہتا اور یہ کام کرتا ہے ؟وہ لوگ اپنے عہدوں کے پر شوکت لباس پہنے اور تمدنی اعزاز و افتخار و دستا ر سر پر رکھے ہوئے بڑے کرّوفر کے ساتھ اس سادہ سے گلیلی کے پیچھے پڑ گئے۔لوگوں کا اژدہام اس عجیب تماشے کو دیکھ رہاتھا۔تھوڑی دیر کے بعد بحث کا بازار گرم ہوا۔مخالفوں نے وہ سوال پوچھنے شروع کئے جو پہلے ہی سے تیا ر کر رکھے تھے۔او راس مباحثے کا اہتمام شاید ان اشخاص کے سپرد کیا جو رشک افلاطون اور غیرت ارسطو سمجھے جاتے تھے۔ان کا مطلب یا تو غالبایہ تھا کہ اسے خاص و عام کے سامنے شکست دے کر شرمندہ کریں یا یہ کہ اگر تقریر میں تیز ہو کر کوئی ایسا لفظ اس کی زبان سے نکل جائے جو شنشاہ وقت کی شان کے خلاف ہو توا س پر بغاوت کی تہمت لگائیں۔چنانچہ انہوں نے اس سے پوچھا کہ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں ؟وہ جانتے تھے کہ اگر اس نے کہا ”ہاں “ تو اس کا تمام اثر جو عوام الناس پر پیدا گیا ہے ایک دم میں کا فور ہو جائے گا کیونکہ قیصر کی حکومت کے تابع رہنا مسیحائی زمانے کی امیدوں کے بالکل برخلاف تھا اور اگر اس نے کہا ”نہیں “ تو پھر اسے قیصر سے باغی ثابت کر کے رومی حاکم کے دربار میں اس پر سرکشی کی نالش دائیر کریں گے وہ ان کے پھندوں میں کب آنے والا تھا پس وہ بڑی مدت تک ان کے حملوں سے بڑی خوبی کے ساتھ اپنے آپ کو بچاتا رہا او را ٓخر کا راس کی صاف دلی نے ان کی ریاکاری کو فاش کر دیا او راس کے طریق استدلال کی راستی نے ہر نیزہ کو جو اس پر چلایا جاتا تھا مخالفوں ہی کے سینے میںجا گاڑا۔اب جب ان کا منہ بند ہو گیا توا س نے ان پر حملہ شروع کیا اور ان کی صداقت کی کمی بلکہ نفی فاش کر کے تمام حاضرین کے رو برو ان کو ایسا شرمندہ کیا کہ وہ پانی پانی ہو گئے اور پھر اس کی زبان سے وہ غضب آمیز اور دہشت انگیزالفاظ نکلے جومتی کے تیئسویں 23 باب میں مر قوم ہیں جن سے ان کے عیوب جن پر اب تک خاموشی کا پر دہ پڑا تھا صاف طور پر ظاہر ہوگئے اور عادا ت و حرکا ت پر سے وہ پوست اتا ر ڈالا گیا جس نے ان کی ریا کارطبیعت کو بالکل چھپا رکھا تھا اور ایسے کلمات ان کے حق میں کئے جو بجلی کی طرح ان پر گرے اور ان کو نہ صرف اس وقت سب لوگوں کے سامنے شرمندہ کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے ان پر شرمندگی کی مہر لگا دی۔

لیکن ان باتوں کے سبب سے ناچاقی اور بھی بڑھ گئی کیونکہ یہ لوگ ملک کے سردار او ر قوم کے رہبر سمجھے جاتے تھے پس ہزار ہاآدمیوں کے سامنے عجز او ر شرمندگی کے ؛پنجہ میں گرفتار ہوناان کے لئے بڑی حقارت کا موجب تھا۔سوانہوں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ گستاخیال ہماری برداشت سے باہر ہیں۔اور جب تک ان کا بدلہ نہ لے لیں گے تب تک ہم بھی آرام کی نیند نہ سو ئیں گے پس سنہیڈریم کے شرکا ءطیش میں آکر اسی شام کو فراہم ہوئے اور اس غرض سے فراہم ہوئے کہ اس کے نام و نشان کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی تدبیر نکالیں۔ممکن ہے کہ نیکدیمس یا ارمتیا کے یوسف نے ان کی حاسدانہ او ر مجنونانہ کاروائی کو دیکھ کر کچھ مخالفت کی ہو مگر انہوں نے ان کو بھی دھمکا کر خاموش کر دیا اور پھر بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ قرین مصلحت یہی ہے کہ یسوع جان سے مارا جائے۔اب وہ چاہتے تھے کہ یہ فیصلہ جس قدر جلد ہو سکے عمل میں آئے مگر موقع اس خواہش کے برخلاف تھاکیونکہ کم ازکم مقرری دستوروں اور قانون کی پیروی کرنا ان پر لازم تھا۔ماسواے اس کے تمام اجنبی جو اس وقت یروشیلم میں آئے ہوئے تھے یسوع کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے پس ان سرداروں کو اندیشہ دامن گیر ہوا کہ اگر ہم نے اسے ان لوگوں کے روبرو گرفتار کیا تو کیا جانے کیا ہو جائے۔لہذ امناسب ہے کہ جب تک مسافر شہر میں ہیں تب تک اس کو کچھ نہ کہا جائے لیکن ابھی وہ اس بات کا فیصلہ کرنے نہیں پائے تھے کہ ایک ایسا واقعہ سر زد ہوا جس کی توقع ان کو ہر گز ہر گز نہ تھی اور جس نے ان کے دلوں کو شاد کر دیا وہ عجیب واقعہ یہ تھا کہ اسی کے شاگردوں میںسے ایک نے ان سے رشوت لے کر اسے پکڑوانے کا وعدہ کیا۔

یہوداہ اسکریوطی وہ نام ہے جس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔مشہور و معروف شاعر ڈانٹے نے اپنی کتاب ”دوزخ کی رویا “ میں اس شخص کو تمام مردود اور سزا یافتہ اشخاص کے درمیان سب سے نیچی اور ادنے جگہ دی ہے اور ا س طرح ظاہر کیا ہے کہ گویا وہی اکیلا اس سزامیں حصہ دار ہے جو خدا کی طرف سے ابلیس لعین پر نازل ہوئی ہے اور جو فتوے اس شاعر نے اس پر لگا یا ہے وہی تمام بنی آدم اس ہر لگاتے ہیں۔پھر بھی یہ کہنا بیجا نہیں کہ وہ ایسا شرارت کا پتلا نہ تھا کہ اس کی کاروائی سمجھ میں نہ آئے یا اس کے ساتھ ذرا بھی ہمددری نہ کی جائے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا گر جانے کا افسوس ناک قصہ بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے اس نے بھی دوسرے رسولوں کی طرح اسی امید سے اس کی شاگردی اختیا ر کی تھی کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب مجھے ایک بڑی ملکی تحریک میںشامل ہونے کافخر حاصل ہوگا او ر فتح کے بعد ،مسیح کی دنیوی بادشاہی میں مجھے ایک اعلےٰ منصب عطا کیا جائے گا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرم اس میں سے پہلے کسی طرح کا جوش اور محبت کا کوئی اظہار دکھائی نہ دیتا تو شاید مسیح اسے رسولوں کے زمرے میں داخل نہ کرتا۔رسولوں کی جماعت میں وہی ایک ایسا شخص تھا جس کے ہاتھ میں روپوں کی تھیلی رہاکرتی تھی اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ نہایت پھرتیلا اور انتظامی معاملات میں صاحب لیاقت آدمی تھا پراس کی خصلت کی جڑمیں وہ گھن لگا ہوا تھا جس نے رفتہ رفتہ ان تمام اچھی صفتوں کو جو اس میں پائی جاتی تھیں کھا لیا اور آخر کار ایک ہو لناک جذبے کی صورت اختیار کی۔یہ کیڑاوہی تھا جسے زر کی دوستی کہتے ہیں۔اس نے اس کیڑے کو محبت سے پالا۔چنانچہ شروع میں اس نے اس خیرات میں سے جو یسوع کو اس کے شاگردوں کے لئے یا ان غریبوں کی مدد کے واسطے جن سے وہ ہر روز گھرا رہتا تھادی جاتی تھی۔تھوڑاتھوڑا چرانا شروع کیا اور یہ امید رکھی کہ جب میں نئی بادشاہی میں شاہی خزانوں کا نگران مقرر کیا جاﺅںگا تو دل کھول کر زر پرستی کی پیاس بجھاﺅں گا۔اب اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں دوسرے رسولوں کے خیالات بھی اسی قسم کے دینوی تھے لیکن ان کے اور ا س شخص کے حال میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔وہ تو ہر دم روحانی بنتے جاتے تھے مگر یہ ہر گھڑی دینوی مزاج میں ترقی کرتا جاتا تھا مسیح کی حین حیات میں تو بے شک باقی رسول بھی کبھی اس منزل تک نہ پہنچے کہ روحانی بادشاہی کو زمینی بادشاہی سے بالکل جدا سمجھتے مگر باوجود اس نقص کے جو کچھ ان کے استا د سے بالکل جدا سمجھتے مگر باوجود اس نقص کے جوکچھ ان کے استاد نے روحانیت کی بابت سکھایا وہ ان کے دل میںگھر کر گیا اور رفتہ رفتہ اس قدر نگل گئے یا یوں کہیں کہ دنیاداری کے خیالات کو روحانی تصورا ت بالکل نگل گئے یا یوں کہیں دنیوی بادشاہی کے خیال کا ایک چھلکا ساباقی رہ گیا اور وہ بھی جب وقت آیا تو بھوسے کی طرح اڑ گیا مگر یہوداہ اسکریوطی کے خیالات دن بدن دنیاداری میں بڑھتے گئے اور اپنی خواہش کے سبب سے بے چین ہونے لگا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ میری خواہش ایک دم میں پوری ہو جائے۔منادی کرنا اور شفا بخشنا اس کے نزدیک صرف وقت ضائع کرنا تھا اور اسی طرح یسوع کی پاکیزکی اور اس کا دنیا وی عزت، و حرمت سے بے پرواہ ہونا یہوداہ کی جان کا وبال تھا وہ کہتا تھا کہ یسوع اپنی بادشاہی کو پہلے قائم کیوں نہیں کرلیتا۔اس کے بعد جتنی منادی کرنا چاہے کرے۔جب اس نے دیکھا کہ جس بادشاہی کی میں توقع کئے بیٹھا ہوں وہ کبھی وجود میں نہیں آئے گی تو اس نے اپنے دل میں کہا کہ میں نے بڑا دھوکا کھایا اور جب یہ خیال اس کے دل میں جم گیا تووہ نہ صرف اپنے استاد کو نظر حقارت سے دیکھنے لگا بلکہ اس سے متنفر بھی ہو گیا اور پھر جب اس نے اتوار کے روز جب کہ لوگ کجھور کی ڈالیا ںبچھاتے اور ہلاتے تھے یہ دیکھا کہ یسوع ان لوگوں کی تیاری سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا نا چاہتا توا س کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی اور اس نے سوچا کہ اب یسوع ناصری کی پیروی کرنا بالکل فضول ہے پس اس نے اپنے دل میں کہا کہ اب تو جہاز غرق ہونے پر ہے میں کیوں مفت میں اپنی جان کھوﺅں۔بہتر ہے کہ اس کشتی سے کودکر سلامتی کے کنارے پر پہنچ جاﺅں اور اس کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اب مجھے رسولوں کے زمرے سے نکلنا تو ہے ہی ایسے طور پر کیوں نہ نکلوں کہ ایک پنتھ دو کاج کی مثل میرے حق میں پوری ہو۔پس کوئی ایسا طریقہ اختیار کرﺅں کہ جیب بھی گرم ہو اور یہودی سردار بھی احسان مند ہو جائیں۔ان نالائق خیالات نے اس کو ایسا اندھا کر دیا کہ وہ یہودی حکام کے پاس حاضر ہوا اور ایسے موقع پر حاضر ہوا جبکہ اس کی مدد کی ان کو اشد ضرورت تھی۔پس انہوں نے اس کی مد د کو غنیمت سمجھا اوردام ٹھہراکر اسے روانہ کر دیا اور کہا کہ جب اچھا موقعہ ہاتھ آئے تو ہمیں خبر دنیا۔جس جلدی سے اس نے اپنے مناسب کام کو پورا کیا انہیں اس کی امیدبھی نہ تھی چنا نچہ جس رات یہ لعنتی سودا کیا گیا اس سے دوسری رات اس نے اپنے مہربان او ر محسن نجات دہندے اور استاد کو ظالموں کے سپرد کیا۔

سیدنا مسیح اور موت۔اس ہفتہ میں موت اپنا منہ کھولے یسوع کے سامنے کھڑی تھی اور جو حالت اس کی اس وقت تھی اس کی یاد بڑھ کر اور کوئی بیش بہا ہمار ے پاس موجود نہیں۔یوں تو ہر وقت اس کی جلیل اور جمیل سیرت اپنا جلوہ دکھاتی رہتی تھی مگر اس ناقابل برداشت مصیبت کے دنوں میں جو شوکت اور عظمت نمایاں ہوئی اس کا بیان انسان بالکل نہیں کر سکتا۔اتنا کہنا کافی ہے کہ اس قلیل عرصہ میں اس کی سیرت کی سب سے شان دار اور نہایت ملائم خاصیتں اورا س کی انسانی اور الہٰی ذات کی بے نظیر خوبیاں روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیئں۔

یروشلیم میں آنے سے کہیں پہلے اس کو معلوم تھا کہ میں وہاں جان سے مارا جاﺅں گا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک سال سے یہ کانٹا اس کے دل میں کھٹک رہاتھا او ر وہ جانتا تھا کہ میرے باپ کی یہی مرضی ہے کہ میں اسی طرح اس دنیا سے کوچ کرﺅں اور جب وقت آیا تو اس نے ایک بے مثال دلیری اور ہمت سے مقتل کی طرف قدم اٹھایا مگر بڑی جدوجہد کے ساتھ طرح طرح کے خیالات اس کے دل میں پیدا ہو تا تھا کبھی دیر تک دریائے فکر میں ڈوبا رہتا تھا کبھی فتح مندی کی خوشی اور سلامتی کے خیال سے بھرجاتا تھا۔غرض یہ کہ مختلف قسم کے خیالات اس کے دل میں سمندر کے مدوّجزر کی طرح موجزن ہو رہے تھے۔

بعض لوگ ڈرتے ہیں اوریہ نہیں کہنا چاہتے کہ جس طرح عام انسان موت سے بچنے کی کوشش کر تے ہیں اسی طرح وہ بھی اس سے دور رہنا چاہتا تھا پروہ اپنے ڈر کی معقول وجہ پیش نہیں کرتے۔ہم یاد رکھیں کہ یہ احساس قدرتی ہے اور بالکل اپنی ذات میں بے بد ہے اور تعجب نہیں کہ اس میں یہ احساس ہماری نسبت زیادہ پایا جاتا ہو کیونکہ اسکا جسم بالکل پاک تھا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ وہ اس وقت نوجوانی کی حالت میں تھا۔یہ اس کی عمر کا تنتیسواں سال تھا۔زندگی کی دھاڑ بڑے زرو شور سے بہ رہی تھی اور تمام حسات کی طاقت سر سبز تھی۔پس جوانی کی طاقتوں کا جو سیل رواں کی طرح بہ رہی تھی یک بیک سوکھ جانا ااور نخل زندگانی کا مرجھا جانا بے شک اس کو ناگوار گذار ہو گا۔اسی دور کو ایک واقعہ نے جو پیر کے روز سرزد ہو ا،اس کے دل میں شدت سے پیدا کردیا۔چنانچہ چند یونانیوں نے اس کے دو شاگردوں کے پاس آکر کہا کہ ہم یسوع کو دیکھنا چاہتے ہیں۔اس زمانے میں کئی بت پرست لوگوں نے جو یونانی عملداری میں رہاکرتے تھے اپنے زمانے کی بیدنیی اور بد اخلاقی سے تنگ آکریہودیوں کے مذہب میں پناہ پائی تھی جو ان کے درمیان مقیم تھے اوریہواہ کی پرستش اختیار کی تھی۔یہ یونانی جو یسوع کو دیکھنا چاہتے تھے اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے مگر ان کی درخواست نے اس کے دل میں وہ خیال پیدا کئے جن کا خواب بھی ان کو کبھی نہیں آیا تھا۔مسیح کو فقط دو یا تین مرتبہ ان لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ، وہ فلسطین کے اردگرد کے ملکوں میں رہتے تھے مسیح صرف اسرائیل کی کھوئی ہو ئی بھیڑوںکے لئے آیا تھا مگر جب اسے ایسے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقعہ ملا اس نے ان میں ایسا ایمان اور ایسی شرافت پائی کہ کئی موقعوں پر اس نے خود یہودیوں کی بے اعتقادی اور بے ادبی اور کمنیگی سے ان کا مقابلہ کیا۔اب یہ خیال بار بار اس کے دل میں آتا ہوگا کہ کاش میں فلسطین کی حددو کو چھوڑ کر ان قوموں سے جاہلوں جن کی طیبعت ایسی سادہ اور ایسی فیاض ہے۔اس کی آنکھوں کے سامنے بارہا اس کے کام کے متعلق ایسے نظارے آئے ہوں گے جیسے بعد میں پولوس کو نصیب ہوئے جس نے جابجا مسیح کے نام کی منادی کی اور اتیھنز اور روم اور دیگر بڑے بڑے مغربی مرکزوں میں جا کر انجیل سنائی۔اگر مسیح بھی اسی طرح کام کرتا تو اس کو کیسی خوشی حاصل ہو تی۔کیونکہ اس کے اندر قدرت کی ندیاں جاری اور رحمت کا دریا موجزن تھا اور یہ صفیتں اس قسم کے کام سے خاص مناسبت رکھتی ہیں پر موت امیدوں کے چراغ کو بجھانے کے لئے سامنے کھڑی تھی۔پس ان یونانیوں کی ملاقات نے ایسے خیالات کا سلسلہ برپا کر دیا کہ ان کی درخواست کا جواب دینے کے عوض وہ رنج کے بھنور میں پڑگیا۔چہرے پراداسی چھا گئی اور تمام بدن اندرونی جدّو جہد کے سبب کانپ اٹھا مگر یہ غمناک حالت فوراّکا فور ہو گئی اور اس نے ان خیالات کو ظاہر کیا جن کے وسیلے سے ان دنوں اپنی روح کو مضبوط کیا کرتا تھا۔وہ خیالات ان الفاظ میں قلمبند ہیں۔جب تک گہیوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلارہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے اور میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاﺅ ں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچ لو نگا “۔ان کلمات مبارک کا کیا مطلب ہے ؟ کیا ان کا یہ مطلب نہیں کہ اگر چہ موت اس کو بڑی بھیانک معلوم ہوتی تھی تو بھی اس کی حقیقت شناس آنکھ اس کے پرئے تک دیکھتی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اگر میں شخصی طور پر غیر قومو ں میں جا کر کام کرتا توا س کا اثر اور نتیجہ ایسا عظیم اور وسیع نہ ہوتا جیسا اب میری قربانی سے پیدا ہوگا لیکن ان تمام خیالات کے علاوہ ایک اور خیال اس کے دل میں موجود تھا جو ا ن سب پر حاوی تھا۔چنانچہ وہ سوچتا تھا کہ یہی موت تو وہ موت ہے جو میرے باپ نے میرے لئے مقرر کی ہے۔یہ خیال تمام تسلی کی جڑ اور اطمینان کا منبع تھا اور اسی سے وہ اپنی خاکسار اور پر تو کل روح کی تشفی اس قسم کے مشکل وقتوں میں کیا کر تا تھا۔”اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کہوں ؟اے باپ مجھے اس گھڑی سے بچا۔لیکن میں اسی سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔اے باپ !اپنے نام کو جلال دے “۔

ہم یہ بھی یادرکھیں کہ موت اس کے پاس اکیلی نہیں آئی بلکہ ہر طرح کے دہشت ناک معاونوں کو اپنے ساتھ لے کر آئی یا یوں کہیں کہ کئی واقعات اس کی موت کے ساتھ ایسے وابستہ تھے جہنوں نے اس کے پیالے کواور بھی تلخ کر دیا۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ اسے اپنے ہی شاگرد کے فریب کا نشانہ بننا پڑا جسے اس نے چن کر اپنے آغوش محبت میں جگہ دی تھی اور پھر دیکھئے کہ کوئی غیر قوم اس کی جان کے در پے نہ تھی بلکہ اسی کی قوم اس کے خون کی پیاسی تھی اور وہی شہر اس کا مقتل بنا جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتا تھا۔وہ تو اس لئے آیا تھا کہ اپنی قوم کو عرش تک پہنچائے اور اسے دل و جان سے پیار کر تا تھا کیونکہ اس کے تمام حالات سے پوری پوری واقفیت رکھتا تھا اوران لوگوں کو خوب جانتا تھا جو اس کی مانند اس سے پہلے اس کو پیار کر تے کرتے گزر گئے تھے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ میں اس کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہوں اور یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں مار اگیا تو فلسطین اور یروشلیم پر ہزار ہا قسم کی لعنتیں نازل ہوں گی۔متی کی انجیل کے چوبیسویں باب میں وہ الفاظ قلمبند ہیں جو اس نے منگل کی شام کو اپنے شاگردوں کے رو برو اس وقت بیان فرمائے جس وقت وہ کوہ زتیون پر بیٹھے تھے اور وہ شہر جس پر قہر الہٰی نازل ہونے والا تھا ان کے سامنے تھا۔ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے ان واقعات کو جو یروشلیم پر حادث ہونے کو تھے بڑی صفائی سے دیکھا۔اگر ہم اس کے غم کا اندازہ لگانا چاہیں توا ن کلمات کی طرف متوجہ ہوں جو اس کے لبو ں سے اتوار کے روز نکلے۔وہ وقت اس کی فتمندی کا وقت تھا۔جو لوگ خوشی سے معمو ر تھے اس کو خوشی کے نعرے مارتے ہوئے آگے لئے جاتے تھے مگر جب وہ اس مقام پر پہنچا جہاں یروشلیم یک بیک اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا تووہاں ٹھہر گیا اور نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ان حوادث کی جو اس پر ناز ل ہونے والے تھے نبوت کرنے لگا۔لازم تو یہ تھا کہ وہ دن یر وشلیم کی شادی کا دن ہوتا ،ہاں اس دن خدا کے بیٹے کے ساتھ شادی کر کے اس بستی کو جشن منانا چاہیے تھا مگر جشن کہاں ؟ وہاں تووہ زردی تو وہ زردی اور سردی یروشلیم کے منہ پر چھائی ہوئی تھی جو موت کے وقت مرنے والوں کے چہروں پر نمودار ہوتی ہے۔پس وہ اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے چھپاتی ہے اسی طرح اس کو اپنی رحمت کے سائے تلے لینے کو آمادہ تھا۔اب دیکھتا ہے کہ زاغ و زعن ہوا میں اڑ رہے ہیں اورمنتظر ہیں کہ اس کے گوشت و پوست کو نوچ کر کھا جائیں۔

اس ہفتے میں وہ ہر روز شام کے وقت بیت عنیا کو لو ٹ جاتا تھا پر کبھی لمبی تان کر نہیںسوتا تھا۔اغلب ہے کہ اس نے اپنی کئی راتیں اس ہفتے میں تنہا جاگ جاگ کر کاٹیں۔غالباًوہ اکیلا پہاڑ کی غیر آباد چو ٹی پر جایا کرتا تھا یا ان زتیون کے درختوں اور باغوں میں جو پہاڑ کے پہلوﺅں میں لہلہاتے تھے جاکر اپنا وقت کاٹا کرتا تھا اور ناممکن نہیں کہ بارہااس سڑک پر بھی جاتا ہوگا جس پر سے اتوار کے روز جلوس گزرا تھا اور جب چلتے چلتے اس موقع پر پہنچتا ہوگا جہاں ایک دفعہ پہلے ٹھہر ا تھا تو وادی میں سے شہر یروشلیم کو دیکھتا ہو گا جس کے رہنے والے رات کی خاموشی اور چاند کی روشنی میں نیند کے مزے لیتے تھے او را سے دیکھ کر ایسے جگر فگار نالے بلند کر تا ہو گا جو اس نوحے سے بھی جس نے اتوار کے روز لوگوں کے دل ہلادئے کہیں زیادہ درد انگیز ہوتے ہوں گے اور کئی بارا رات کی تنہائی میں اپنے دل کو وہی صداقت آمیز باتیں سناتا ہو گا جو اس نے یونانیوں کے سامنے بیان فر مائیں۔

اس وقت وہ بالکل اکیلا تھا ،ایسا کہ اس کی غم ناک تنہائی کو دیکھ کر دل پاش پاش ہو جا تا ہے۔ساری دنیا اس کی مخالفت پر تلی کھڑی تھی یروشلیم کے لوگ حسد کے مارے اس کی جان کے خواہاں تھے اور باہر سے آئے تھے وہ بھی مایوس ہو کر رو گرداں ہو گئے تھے او رنہ کوئی اس کے رسولوں میں ایسا تھا جو ا س کی درد ناک حالت سے بخوبی واقف ہوتا اور اسے اپنا ہم راز بناتا۔یوحنا سے بھی اس بات کی توقع نہ تھی اس ہو لناک تنہائی نے اس کے تلخ پیالے کو اور بھی کڑوا بنا دیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میں مرنے کے بعد بھی جیتا رہوں۔اس نے دیکھا کہ جو بادشاہی میں قائم کر نے آیا ہوںؓاور اسے فنا نہیں ہونا چاہیے وہ تو تمام دنیا کے لئے ہے او ر اسے تمام پشتوں اور زمانوں میں قائم رہنا اور دنیا کے ہر حصے میں پھیلنا ہے مگر میرے مرنے کے بعد یہ کام میرے رسولوں کے ہاتھ میں آئے گا جوا ب اپنے تئیں ایسے کم درد اور بے درد اور بے علم ظاہر کر رہے ہیں۔کیا وہ اس کا م کے لائق ہیں کیا ان میں سے بھی ایک دشمن نہیں نکلا ؟کیا میرے پیچھے میرا کام (شاید شیطان نے بھی اس کو اسی طرح کہہ کر آزمایا ) تباہ نہیں ہو جائے گا اور میری وہ تمام تدبیریں جو دنیا کی اصلاح کے لئے کی گئی ہیں کا فور نہیں ہوجائیں گی ؟

لیکن وہ حقیقت میں اکیلا نہ تھا وہ درختوں کے گھنے سائے میں جا کر اور کوہ زتیون کی چوٹیوں پر چڑھ کر اس کے زوال تسلی کو ڈھونڈتا تھا جوا سے ان دنوں میسر تھی اور وہی تسلی اس کو بے بیان فکر کے وقت کثرت سے حاصل ہوئی۔اس کا باپ ا سکے ساتھ تھا۔پس جب اس نے رو رو کر اور آنسو بہا بہا کر دعا مانگی تو اس کی سنی گئی کیونکہ وہ خدا سے ڈرتا تھا۔اس نے اپنی روح کی بے چینی کو اس خیال کے وسیلے سے دور کیا کہ جو کچھ مجھ پر بیت رہا ہے اسے باپ کی حکمت اور محبت نے بھیجا ہے اور میں اپنے باپ کا جلال ظاہر کرتا ہوں اور وہ کام کر رہاہوں جو اس نے میرے سپرد کیا ہے۔اس خیال کے وسیلے سے وہ ہر طرح کے خوف کو دور اور اپنے دل کو ایک بے بیان اور پر جلال خوشی سے معمور کر سکتا تھا۔

آخر کا ر خاتمہ کا وقت آپہنچا یعنی جمعرات کی وہ شام آگئی جبکہ یروشلیم کے ہر گھر میں فسح کھا یا جاتا تھا۔یسوع بھی اپنے بارہ رسولوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھا۔وہ جانتا تھا کہ اس دنیا میں یہ میر ی آخری رات اور میرے دوستوں کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہے۔ہماری خوش قسمتی سے اس وقت اور موقع کا مفصل حال ہمارے پاس موجود ہے جس سے ہر مسیحی کم و بیش واقف ہے یہ وقت اس کی زندگی میں ایک عظیم الشان وقت تھا اس کی روح ایک بے بیان محبت اور جلال سے معمور تھی۔البتہ شام کے شروع میں غم کے بادل نے اپنی تاریکی کا کچھ کچھ سایہ اس پر ڈالا تھا ،مگر اب وہ بالکل غائب ہو گیا تھا۔چنانچہ جب اس نے شاگردوں کے پاﺅں دھوئے ،فسح کھایا ،عشائے ربانی کی رسم مقرر کی ، آخری تقریریں بیان فرمائیں اور سردار کاہن ہونے کی حیثیت سے سفارسی دعا مانگی توا س کی سیرت کی جلالی شوکت تمام کمال کے ساتھ جلوہ نما ہوئی۔وہ اس وقت ان خیالوں میں محو تھا جودوستی سے تعلقل رکھتے ہیں۔چنانچہ وہ ”محبت جس سے وہ اپنوں کو پیار کر تا تھا “ دریا کی طرح جاری تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ اپنے شاگردوں کے تمام نقصوں کو بھول گیا ہے۔اور ان کی کامیابی اور فتح مندی کی پیش بینی سے شاداں ہو رہا ہے۔کوئی خیال ایسا نہ تھا جوا س کے باپ کے چہرے کو اس سے چھپاتا۔کوئی بات ایسی نہ تھی اس کے دل سے دور کر تی بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہر طرح کا دکھ اور غم بالکل دور ہو گیا ہے اور ا س کی سرفرازی کا جلال اس کو چاروں اطراف سے۔ گھیر رہاہے۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد غم اور دکھ کی حالت نے پھر عود کیا۔فسح کھانے کے بعد کوئی آدھی رات کے قریب وہ اور اس کے شاگرد بازار سے گزر کر مشرقی دروازے پر پہنچے اوراس دروازے سے شہر کے باہر نکل کر اور کدرون کے نالے کو عبور کر کے اس جگہ گئے جہاں وہ اکثر جایا کرتاتھا۔یہ جگہ کوہ زتیوں کے دامن میں واقع تھی اور گتسمنی کا باغ کہلاتی تھی۔وہاں وہ جانکا ہ اور دہشت انگیز جان کنی واقع ہوئی جس کی یاد کبھی دنیا سے نہیں کٹے گی۔یہ اس گہری غمگینی کا جو تمام ہفتہ بھر اس شادمانی سے لڑتی رہی جس کا اعلیٰ نظارہ فسح کے وقت جلوہ گر ہوا ایک آخری حملہ تھا یا یوں کہیں یہ جان کنی ان آزمائشوں کا آخری دھاوا تھا جن سے اس کی زندگی کبھی آزادنہ نہ تھی۔لیکن ہم اس نظارے کی تشریح نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اس ک نسبت خواہ کہتا ہی لکھیں اس کا گہر امطلب پورے طور پر بیان نہیں کرسکتے مثلاًہم کس طرح دنیا کی گناہ کے بوجھ کی جوا س وقت اس پر آگرا تھا اور جو اس کی جان کنی میں سب سے بڑا عنصر تھا اور جس کا کفارہ وہ دے رہاتھا تشریح کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ جان کنی کامل فتح میں تبدیل ہو گئی۔اس کے شاگردوں نے تو ان گھنٹوں کو سوار کر ضائع کیا جن میں ان کو اس نازک وقت کے لئے تیار ہونا چاہیے تھا جو تھوڑی دیر کے بعد آنے والا تھا مگر اس نے انہی گھنٹوں میں اپنے آپ کو تیار کر لیا۔آزمائش کے آخری حملے پر بھی فتح پائی پس موت کی تلخی دور ہو گئی اور اب وہ بالکل تیار تھا کہ ان دکھوں میں سے گذرے جو تھوڑی دیر کے بعد آنے والے تھے اور ایسے اطمینا ن اورجلال کے ساتھ گذرے کہ اس کا دکھ اور صلیب دونوں بنی آدم کے لئے فخر کا باعث ہوں۔

پیشی۔اس باطنی جدوجہد پر فتح پائے ،بہت دیر نہ ہوئی تھی کہ اس نے زتیون کے درختوں میں سے اپنے دشمنوں کو جو آرہے تھے ،چاند کی روشنی میں دیکھا۔وہ اسے پکڑنے کے لئے آئے تھے اور ان کا پیشوا یہوداہ اسکریوطی تھا۔وہ جانتا تھا کہ یسوع اکثر اسی جگہ آرام کیا کرتا ہے اور سوچتا تھا کہ میں اسے وقت سوتا پاﺅں گا۔یہی سبب تھا کہ اس نے یسوع کے پکڑوانے کے لئے آدھی رات کا وقت پسند کیا۔یہودی سرداروں کے نزدیک ببھی یہی وقت زیادہ موزوں تھا کیونکہ وہ ان گلیلیوں کے مزاج کو خواب جانتے تھے جو اس وقت شہر میں آئے ہوئے تھے کہ اگر صبح ہونے سے پہلے پہلے یسوع گرفتار ہو جائے اور اس پر قوم اور حاکم کی طرف سے سزاکا فتوےٰ لگ جائے تو پھر کسی طرح کا خوف نہ رہے گا کیونکہ اس وقت ہم اسے ایسے مجرم کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے جو ازروئے قانون سزا کے لائق سمجھا گیا ہے۔یہ لوگ اپنے ساتھ لالیٹنیں اور مشعلیں لائے کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی غار میں گھس جائے یا ہمیں جنگل میں اس کا پیچھا کر نا پڑے۔مگر ان کا یہ خیال غلط تھا کیونکہ جب وہ باغ کے دروازے پر پہنچا تو یسوع خود بخود ان کے پاس آیا اوراس وقت اس کی پر جلال اور پر شوکت حضوری نے اس کے مخالفوں پر ایسا اثر کیا کہ وہ لڑکھڑاکر گر پڑے۔اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کیا او روہ اسے شہر کی طرف لے گئے۔رات کا باقی حصہ اور صبح کا وقت ان قانونی رسوم کے ادا کرنے میں کٹا جن کا بجانا لانا لازمی امر تھا۔یسوع کے مخالف جانتے تھے کہ جب تک یہ قانونی منزلیں طے نہ ہوں تب تک و ہ جان سے نہیں مارا جاسکتا۔

مسیح کی پیشی دو عدالتوں میں ہوئی۔ان میں سے ایک دینی اور دوسری سرکا ری تھی اور ہر ایک کی تین تین منزلیں تھیں۔پہلی پیشی ،پہلے حناّ کے ،پھر کائفا کے اور پھر سنہیڈرم کے سامنے ہوئی سنہیڈریم کے سامنے وہ دو مرتبہ آیا۔ایک دفعہ اس وقت جبکہ ممبران سنہیڈرم مقررہ باقاعدے طور پر فراہم ہوگئی تھی۔سرکاری پیشی پہلے پلاطوس کے ہیرودیس کے اور پھر دوبارہ پلاطوس کے سامنے ہوئی۔

اگر پوچھا جائے کہ ان دوہری دوہری پیشوں کا کیا سبب تھا تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس دوہری پیشی کا باعث ملک کی پو لٹیکل حالت تھی ہم کئی بار بتا چکے ہیں کہ یہودیہ رومیوں کے قبضے میں تھا اور اس رومی صوبہ کا حصہ سمجھا جاتا تھا جو سریایاارام کہلاتا تھا اس کا رومی حاکم قیصر یہ میں رہا کرتا تھا۔مگر رومیوںں کا یہ معمول تھا کہ جن ممالک کو اپنے قبضے میں لاتے تھے انہیں ان کے طرز حکومت سے بالکل محروم نہیں کیا کرتے تھے۔اس میں شک نہیں کہ وہ لوہے کے عصا سے حکمرانی کیا کرتے تھے۔محصول اور جزیہ بڑی سختی سے لیتے تھے۔بغاوت کو فوراًاپنے زرو آور بازو سے دور کر دیتے تھے اور بڑے بڑے موقعوں پر اپنے اختیار اور حکومت کا سکہ جمانے سے باز نہیں آتے تھے مگر باوجود اس سختی اور تحکم کے اپنی مفتوحہ قوموں کوایسے ایسے قومی دستور جاری رکھنے کی اجازت دیتے تھے جو ان کے شاہانہ اختیار اور دبدبے میں کس طرح کی خلل اندازی نہیں کرتے تھے خصوصاًمذہبی معاملات میں تو یہ آزادی سب کو دی جاتی تھی۔پس سنہیڈرم کو جو یہودیوں کے مذہبی مقامات کی ایک اعلیٰ کچہری تھی اب تک دینی معاملات کا فیصلہ کرنے کا اخیتار حاصل تھا مگر جب جائے توا س مجرم کو قیصریہ بھیجنا پڑتا تھا تاکہ اس کے جرم پر پہلے رومی حاکم غور کرے اور اگر وہ بھی سنہیڈرن کے فیصلے کی تائید کرتا تھا تو مجرم جان سے مارا جاتا تھا ورنہ بری ہو جاتا تھا پر اگر رومی حاکم ایسے موقع پر یروشلیم میں حاضر ہوتا تھا تو مجرم کو قیصر یہ نہیں جاتا پڑتا تھا۔اب چونکہ وہ جرم جو مسیح پر لگا یا گیا دینی تھا اس لئے اسے یہودیوں کی دینی کچہری میںا ٓنا پڑا اورجو فتوے سنہیڈرم نے اس پر لگایا وہ یہی تھا کہ وہ جان سے مارا جائے مگر رومی قانوں کے مطابق سنہیڈرم کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ اپنے فتوے کو آپ عمل میں لائے پس ضرور تھا کہ وہ پہلے رومی حاکم کے حضور بھیجا جائے جواس وقت یروشلیم میں حاضر تھا کیونکہ فسح کی تقریب پر وہ ہمیشہ یروشلیم میں آجاتا تھا اب ہم ان جان گذار واقعات کا جو ان پیشوںسے وابستہ ہیں کچھ مفصل حال بیان کریں گے۔

مسیح کے دشمن پہلے اس کو حنا کے محل میں لے گئے۔یہ پیر فرتوت اس وقت اسی سال کا تھا اور بیس برس تک سردار کاہن رہ چکا تھا۔اگر چہ وہ کہانت کے عہدے پر مامو ر نہ تھا تو بھی لوگ اس کو سردار کاہن ہی کہا کرتے تھے اور اس کے پانچ بیٹے بھی اسی لقب سے ملقب تھے حالانکہ ان میں سے کوئی اس وقت اس عہدے پر مامور نہ تھا۔اس وقت جوشخص اس رتبہ پر ممتاز تھا وہ کائفاکا داماد تھا۔حنا ّ بسیب اپنی پیری اور لیاقت اور خاندانی مقدرت کے بڑے بزرگ سمجھا جاتا تھا اور گووہ اس وقت ا نتظامی طور پر تو سنہیڈرم کا میر مجلس نہ تھا تو بھی حقیقت میں کرسی نشین ہونے کی عزت اس کو دی جاتی تھی مگر اس نے مسیح کے معاملے میں کوئی رائے نہ دی۔وہ صرف اسے دیکھنا اور چند سوالات پو چھنا چاہتا تھا۔پس تھوڑی دیر کے بعد اس نے اسے کائفا کے پاس بھیج دیا۔کائفا کا محل سے غالباًبہت دور نہ تھا ،بلکہ اسی قطار میں واقع تھا جس میں یہودی عہددار رہاکرتے تھے۔کائفا سردار کاہن تھا اور سردار کاہن ہونے کے سبب سے اس سنہیڈرم کی میٹنگ ازروے قانون طلوع آفتاب سے پہلے منعقد نہیں ہو سکتی تھی مگر یہ لوگ مخالفت کے سبب سے ایسے اندھے ہورہے تھے کہ جتنے اس جگہ اس وقت موجود تھے وہ سب ایک جافراہم ہوگئے تاکہ صبح سے پہلے پہلے قرار داد جرم تیار کریں اور مسیح کے برخلاف اس کے مدعیوں کی گواہی جمع کریں۔مطلب یہ تھا کہ دن چڑھے پر ان لوگوں کو جو باہر سے یروشلیم میں آئے ہوئے تھے کسی طرح کی مداخلت کا موقع نہ ملے اور جب سورج نکل آئے تو تھوڑی دیر کے لئے باقاعدہ طور پر فراہم ہو کر اس پر سزا کا فتوی لگا دیں اور پھر اسے حاکم کے پاس لے جائیں۔اسی تجویز کی پیروی کی گئی چنانچہ جس وقت یروشلیم کے باشندے لمبی تانے پڑتے تھے اس وقت یہ حسد کے پتلے اپنی سیاہ اور ڈراونی تدبیروں کو پورا کرنے کے جور توڑ میں لگے ہوئے تھے۔

اس عجیب کچہری کی بات جو بات ہماری توجہ سب سے پہلے اپنی طرف کھنیچتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس مقدمے کوکسی خاص جرم کی بنا پر شروع نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنا بہت ہی مشکل تھا اور اس کا باعث یہ تھا کہ ممبران سنہیڈرم میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔مسیح کی زندگی میں کئی باتیں ایسی تھیں جہنیں فریسی تو بہت برا سمجھتے تھے مگر صدوقی ان کی کچھ پرواہ نہیںکیا کرتے تھے۔اسی طرح کئی ایسی باتیں بھی تھیں جن کی برداشت صدوقی نہیں کرتے تھے۔مگر فریسی ان کوا چھا جانتے تھے مثلاًمسیح کا ہیکل کو پاک و صاف کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے صدوقیوں کو غیظ و غضب سے بھر دیا مگر فریسی اس سے بہت خوش ہوئے۔

کائفا نے اس کی تعلیمات اور اس کے رسولوں کے بارے میں سوال کرنا شروع کیا۔غالباًاس کا مطلب یہ تھا کہ دیکھے کہ اس کی تعلیمات میں کوئی ایسی تعلیم بھی پائی جاتی ہے جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ وہ ملکی انتظام کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے اور اگر کوئی ایس نکتہ مل جائے تو اس کی بنا پر اسے حاکم کے سامنے پیش کر ے مگر یسو ع نے اس کے سوال کا یہ جواب دیا کہ میں حفیہ نہیں دبلکہ اعلانیہ تمام دنیا کے سامنے تعلیم دیتا رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے بتایا جائے کہ میں نے کیا قصور کیا ہے اس نے جواب کی غیر معمولی طرز کو دیکھ کر کائفا کے کسی خوشامدی اہل کار نے اس کے رخسار پر طمانچہ مار امگر ان منصف مزاج حضرات نے اس نابکا ر کو کچھ بھی نہ کہا۔اس ناسزاحرکت سے روشن ہے کہ وہ ان بے انصافوں سے کیسے انصاف کی توقع رکھ سکتا تھا۔اس کے بعد کو شش کی گئی کہ اس کے بر خلاف گواہوں کی گواہی لی جائے اور اس سے کسی قسم کا الزام تیا ر کیا جائے۔اس غرض کی انجام دہی کے لئے کئی شخص اٹھے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس کویہ کہتے سنا ہے اور وہ کہتے سنا ہے مگر اس کوشش کا نتیجہ کچھ نہ نکلا کیونکہ گواہ آپس میں متفق نہ تھے آخرکا ر دو آدمی اٹھے جو ایک بات پر جو اس کے کام کے آغاز میںاس کی زبان سے نکلی تھی اس پر الزام لگانے لگے ،کیونکہ ان کے زعم میں وہ بڑی خراب بات تھی مگریہ الزام بھی بوسیدہ تھا اور اگر اسے حاکم کے سامنے جرم کی صورت میں پیش کرتے تو ان کی نادانی فاش ہو جاتی۔

اب ارادہ تو انہوں نے مصمم باندھ رکھا تھا کہ اسے جان سے مار ڈالیں لیکن شکار ان کے ہاتھ سے نکلا جاتا تھا اور یسوع خاموش کھڑا دیکھ رہاتھا کہ مخالفوں کی گواہیاں کس طرح ایک دوسر ی کی کاٹ رہی ہیں۔اس عجیب خاموشی ظاہر کر رہی تھی کہ وہ اپنے منصبوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہے اور اسکے دشمن بھی اس بات کو محسوس کر رہے تھے۔پس آخر کا ر جب اور کچھ نہ ہو سکا تو میر مجلس بگولا ہو کر اسے بولنے کے لئے مجبور کرنے لگا۔کیا سبب تھا کہ وہ رعد کی طرح کڑکنے لگا ؟اس کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف تووہ شرمناک نظارہ جو گواہوں کی جھوٹی گواہی سے عیاں ہورہاتھاان لوگوں کو شرمندہ کر رہاتھا اور دوسر ی طرف یسوع کی پرجلا ل خاموشی ان حضرات کی ضمیروں کو جو آدھی رات کے اندھیرے میں ایک بے قصور کے خون کی ادھیڑبن میں لگے ہوئے تھے ستا رہی تھی

جب مقدمہ میں کچھ جان نظر نہ آئی تو کائفا اپنی جگہ سے اٹھا اور مصنوعی سنجیدگی سے پو چھنے لگا ”کیا تو خدا کا بیٹا مسیح ہے “؟۔یہ سوال یسوع پر محض جرم لگانے کی نیت سے کیا گیا تھا ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا خداوندا جس وقت بول سکتا تھا ،اس وقت چپ رہامگر اس وقت جب کہ جپ رہ سکتا تھا بول اٹھا اور اس نے بڑی سنجیدگی سے اقرار کیا کہ میں مسیح خدا کا بیٹا ہوں۔یہ بات سن کر وہ جو اس کی عدالت کرنے بیٹھے تھے ،بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ جواب ان کی حسب منشا تھا۔پس انہوں نے متفق ہو کر اس پر کفر کا فتوی لگایا اور اسے واجب القتل ٹھہرایا۔

ساری کاروائی جلد جلد طے کی گئی اور کسی نے ان قوانین کی پروانہ کی جو انصاف کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ان کی کا روائی کا مدعا یہ نہیں تھا کہ انصاف یا حق رسی ہو لیکن صرف یہ کہ یسوع مجرم گردانا جائے۔کیسا غضب ہے کہ جو لوگ اس کے مدعی تھے وہی اس کے منصف بھی تھے کسی نے اس سے یہ سوال نہ پوچھا کہ ائے یسوع کیا تو بھی اپنے گواہ اپنی بریت کے لئے پیش کرنا چاہتا ہے ؟ہاں !اتنا اس کے مخالفوں کی تعریف میں کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ فتوٰے ایک طرح بالکل راست تھا کیونکہ کوئی انسان وہ دعوی نہیں کر سکتا جو مسیح نے کیا۔کوئی بشر اپنے آپ کو خد ا نہین کہہ سکتا مگر ان کی شقاوت اور بد بختی اس میں تھی کہ انہوں نے کبھی اس کی حقیقت سے واقف ہونے کی کوشش نہ کی اور نہ کبھی رضا مندی ہی دکھائی۔ان کے دل کی آنکھوں کو خود غرضی اور تعصب نے اندھا کر دیا تھا۔پس یہ فیصلہ جو انہوں نے اس وقت کیا ایسے دل سے نکلاتھا جس کے دروازے صداقت کے بر خلاف بند تھے اور جس میں عناد اور انتظام کا زہر اپنا کام کر گیا تھا۔

ان کے نزدیک پیشی کے متعلق جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ صبح کے وقت جو اجلاس حسب قاعدہ منعقد ہو گا وہ چار لمحوں میں ختم ہو جائے گا۔اب یسوع ظلم پیشہ اور ستم شعار محافظان جیل اور بیرحم لوگوں کے سپرد کیا گیا۔اس قلم عاری ہے۔طعن اور دشنام کی بوچھاڑ جو ہمیشہ اہل مشرق کی بدنامی کا باعث سمجھی جاتی ہے شروع ہوئی۔معلوم ہوتا ہے کہ ممبران سنہیڈرم بھی اس بد لگامی میں شامل تھے کیونکہ یہ شخص جو ان کو شرمندہ کرتا اور ان کے اختیارات پر حملہ آور ہوتا تھا اور ان کی ریاکاری کی قلعی کھول دیا کرتا تھا ان کے نزدیک سخت نفرت کا باعث تھا۔صدوقی البتہ کسی قدر بے پرواتھے مگر جب ان کو ایک دفعہ جوش آجاتا تھا توا ن کی بے پروائی بالکل دور ہوجاتی تھی اور وہ ایک دم آتش غضب سے بھر کر شعلہ اور بھبوکا ہوجاتے تھے اور اگر فریسیوں کے مجذوبانہ جوش کی پوچھو تو اس کی نسبت چپ ہی رہنا بہتر ہے کیونکہ وہ کبھی اسے گھونسے مارتے ،کبھی اس پر تھوکتے اور کبھی اس کی آنکھیں بند کر کے اسے طمانچوں سے پیٹتے تھے اورا س کے پیغمبری دعوﺅںکو ٹھٹھوں میں اڑانے کے لئے اس سےکہتے تھے اگر تو نبی ہے تو بتا کہ تجھے کس نے مارا ہے ؟ہم ان باتوں کو جوا نسانیت پر داغ لگاتی ہیں زیادہ طول دینا نہیں چاہتے۔اب وہ مسیح کو چھ یا سات بجے صبح کے زنجیریں پہنا کر رومی حاکم کے مکان کی طرف چلے۔وہ کیسا عجیب اور دل خراش نظارہ تھا جس وقت یہودی قوم کے کاہن اور معلم اور قاضی اپنے مسیح کو لئے جاتے تھے تاکہ ایک غیر قوم شخص کے ہاتھ سے اس کاخون کرائیں۔یہ ساعت گویا تمام قوم کی خودکشی کی ساعت تھی۔کیا اسی واسطے خدا نے ان کو چنا اور ایسی فضیلت اور فوقیت بخشی تھی ؟کیا اسی واسطے عقاب نے قدرت کے بازوﺅں پر بٹھا کر ان کو آسمانوں کی ہوا کھلائی اور ہر مشکل او ر آفت کے نیچے سے پناہ دی تھی ؟کیا یہی دن دیکھنے کو ان کے باپ دادا کو مصراور بابل کے چنگل سے چھڑایا ؟کیا اسی نتیجے کے باپ دادا کو مصر اور بابل کے چنگل سے چھڑایا ؟ کیا اسی نتیجے کے لئے وہ صدیوں سے اپنے جلال کے کرشمے ان کو دکھا رہاتھا ؟ان کی حرکت تو یہی ظاہر کرتی تھی کہ گویا انتظامات ربی ٹھٹھوں میں اڑا ئے جارہے ہیں مگر کون خدا کو ٹھٹھوں میں اڑا سکتا ہے ؟ اس کے ارادے دہمیشہ تاریخ کے دور میں اس طرح آگے آگے بڑھتے جاتے ہیں کہ کوئی چیز سد راہ نہیں ہو سکتی۔وہ انسان کی رضامندی اور مد د کا محتاج نہیں۔پس یہ اندو ہناک گھڑی بھی جس میں یہودی قوم اس کے انتظاموں کو ٹھٹھوں میں اڑا رہی تھی ،اسی لئے مقرر ہوئی تھی کہ اس کی حکمت اور محبت کی گہرائی ظاہر ہو۔

جس رومی حاکم کے رو برو مسیح کو حاضر ہونا تھا وہ پنطیس پیلاطس تھا جو چھ سال سے یہودیہ کا حاکم تھا یہ شخص پکا رومی تھا ،مگر ان پرانے اور سادہ رومیوں کی مانند نہ تھا جو گذشتہ زمانہ میں موجود تھے بلکہ قیصری زمانے کے رومیوں کی مانند تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس کی طبعیت میں پرانے رومیوں کے انصاف کی کچھ کچھ رمق باقی تھی لیکن وہ عشرت پسند اور متکبر اور بد چلن آدمی تھا وہ ان یہودیوں کو جن پر حکمرانی کرتا تھا حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا پس وہ اس کو بالکل عزیز نہیں رکھتے تھے بلکہ اس پر بد انتظامی اور ظلم اور لوٹ مار کی تہمت لگایا کرتے تھے۔پیلاطس یروشلیم میں بہت کم آتا تھا اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ وہ شخص جو روم کے عشرتی سامانوںکا شیفتہ تھا جو تھیڑوں اور طرح طرح کی فرحت بخشی کھیلوں کی گرم بازاری میں لگا ہوا تھااور عیاش سوسائٹی کا فریفتہ ہو رہاتھا ،کب یروشلیم جیسے شہر کو جہاں دینی باتوں کا چرچا ہوتا رہتا تھا او ر بغاوت کی آگ سدا سلگتی رہتی تھی ،پسند کر سکتا تھا ؟ اور جب کبھی آتا تھا تو ہیرودیس کے شاہی محل میں اتر اکر تا تھا کیونکہ رومی حاکموں کا دستور تھا کہ جب وہ مفتوحہ ممالک میں جاتے تھے توا ن بادشاہوں کے محلوں میں رہتے تھے جو حکومت سے بر طرف کئے جاتے تھے۔

اہل سنیہڈرن اور وہ لوگ جو بازار میں ان کے ساتھ مل گئے تھے یسو ع کو اس سڑک سے لے گئے جو اس باغ کے بیچ سے گذرتی تھی جسمیںخو بصورت روشیں اور تالاب اور درخت پائے جاتے تھے اور شاہی محل پر پہنچ کر اسے محل کے سامنے کھڑا کیا۔پیلاطس میدان میں اس جگہ کے سامنے جہاں محل کے دونوں بازو آپس میں ملتے تھے اور جہاں فرش پر طرح طرح کے رنگ اور قطع کے پتھر جڑے ہوئے تھے اپنی مسند پر بیٹھ کر کچہری کرنے لگا۔

یہودی سرداروں کو یہ یقین تھا کہ پیلاطس ہمار ے فیصلہ کو قبول کر لیگا اور مقدمہ کے نشیب و فراز پر غور کئے بغیر اس فتوی کو تائید کرئے گا جوہم نے لگا یا ہے کیونکہ رومی صوبجات کے حاکم بسا اوقات اسی طرح کیا کرتے تھے۔خصوصاًمذہبی مقدمات میں یہ اسدتفاق اکثر دیکھنے میں آتا تھا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ بسیب اجنبی ہونے کے ہو مذہبی معاملوں کو بخوبی سمجھ نہیں سکتے تھے۔پس جب پیلاطس نے پو چھا کہ یسوع نے کیا قصور کیا ہے تو وہ ایک زبان ہو کر چلااٹھے کہ ”اگر یہ بدکار نہ ہوتا توہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے“۔مگر پیلاطس اس وقت ان کی درخواست قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔لہذا اس نے کہا کہ اگر تم نہیں چاہتے کہ میں حالات دریافت کروں تو بہتر ہے کہ تم اسے وہ سزا دے کر چھوڑ دو جس کے دینے کی اجازت تم کو سرکار کی طرف سے ملی ہوئی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ یسوع کے حالات سے کسی قدر واقف تھا۔چنانچہ وہ چاہتا تھا کہ حسد کے سبب سے انہوں نے اس کو پکڑا ہے۔یسوع اتوار کے روز شاہانہ شوکت سے جب یروشلیم میں داخل ہواتھا تواس عجیب واقعہ کی خبر ضرور پیلاطس کو ملی ہوگی مگر اس نے یہ دیکھ کر کہ یسو ع نے لوگوں کے جوش اور تعظیم سے کو ئی پو لیٹکل مقصد پورا کرنے کی کوشش نہیں کی ،یہ نتیجہ نکال لیا ہوگا کہ وہ سرکار ی معاملات میں خلل اندازی کر نے والا آدمی نہیں اور اسکی بیوی کا خواب بھی دلالت کرتا ہے کہ مسیح نسبت محل میں بات چیت ہو اکرتی تھی او ر ناممکن نہیں کہ ا س دنیا دار مہذب حاکم اور اس کی بیوی نے یہ دلچسپ قصہ سن کر کہ یروشلیم میں ایک دہقان آیا ہے جس نے کاہنوں کا دم ناک میں کر رکھا ہے بڑی خوشی منائی اور ہنس ہنس کر راہ کی تکان کو دور کیا ہو۔اب جب ان سے پو چھا گیا کہ اس کا کیا جرم ہے ،او رتم کس طرح اس کو ثابت کرتے ہو تو انہوں نے طرح طرح کے جھوٹے الزام لگانے شروع کئے جن میں سے تین بالکل صاف ہیں۔

پہلا الزام یہ تھا کہ وہ قوم کو بہکاتا ہے۔دوسرا یہ کہ وہ قیصر کو خراج دینے سے منع کرتا ہے۔تیسرا یہ کہ وہ اپنے آپ کو بادشاہ کہتا ہے۔غور کیجئے کہ سنہیڈرم میں تو اس پر کفر کوئی کا الزام لگایا تھا ،پراب اور ہی الزام لگائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خوب جانتے تھے کہ کفر گوئی کا الزام پلاطوس کے دربار میں کا ر گر نہ ہوگا۔رومی اس قسم کے الزاموں اور جرموں کی چند اں پرواہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب چند سال بعد پرواہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب چند سال بعد پولوس پر یہی الزام گالیو کی کچہری میں لگایا گیا تو اس کے مدعیوں کی طرف ذرا توجہ نہ کی بلکہ ان کو کچہری سے نکال دیا۔پس مسیح کے مخالفوں نے ایسے نئے جرم گھڑنے شروع کئے جو ثابت کرتے تھے کہ وہ گورنمنٹ سے باغی ہے ،لیکن یہ کیسا کمینہ پن تھا۔دیکھیے انہیں نہ صرف ریا کاری کے بند میں پھنسنا پڑا بلکہ صاف صاف جھوٹ بھی بولنا پڑا۔اب ہم ان کو دروغ گونہ کہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ منگل کو جب اس سے اسی مضمون پر سوال کیا گیا تواس نے اس جرم سے بالکل مختلف جواب دیا تھا۔چنانچہ اس نے بڑی صفائی سے بتا دیا تھا کہ ”جو قیصر کا ہے قیصر کو دو “۔

لیکن پلاطوس خوب جانتا تھا کہ یہ وفا داری جو اس وقت قیصر کو خراج دینے کے بارے میں دکھائی جاتی ہے اس کا کیا مطلب ہے وہ ان کو نمک حلالی اور سر گرمی کو اچھی طرح سمجھتا تھا پس و ہ ان کے شور و غل سے جان بچانے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھا اور مسیح کو محل کے اند ر لے گیا تا کہ وہاں جا کر اس سے خود حالات دریافت کرے۔یہ گھڑی اس کے لئے نہایت سنجیدہ گھڑی تھی لیکن وہ اس کو نہیں جانتا تھا کہ وہ کس کا ہاتھ تھا جو اسے اس جگہ کھینچ لایا ؟ہزاروں رومی حاکم جا بجا رومی سلظنیت میں پائے جاتے تھے اور انہی اصولوں کے پابند تھے جن کا پابند پلاطوس تھا مگر اس کا کیا سبب ہے کہ یہی حاکم چنا گیا کہ ان اصولوں کو مسیح کے مقدمہ کے متعلق کا م لائے ؟جن باتوں کا پلاطوس اس وقت فیصلہ کر رہاتھا ،ان کے نتا ئج اس کو معلوم نہ تھے شاید اس مجرم کوا س وقت اس کے سامنے کھڑا تھا وہ اوروں کی نسبت کسی قدر زیادہ عجیب سمجھتا ہو مگر وہ یہ کہتا ہو گا کہ میرا ایسے ایسے ہزاروں آدمیوں سے بالا پڑچکا ہے۔پس وہ کب یہ خیال کر سکتا تھا کہ اگرچہ اس وقت انصاف کی چوکی پر تو میں ہی بیٹھا ہوا ہوں لیکن در حقیقت میری اور اس انتظام کی جس کے اصولوں کے مطابق میں عدالت کر رہا ہوں اس عادل حقیقی کے رو برو پیشی ہو رہی ہے جس کے کمال کا نو ر ہر شخص کے عیب اور ہر انسانی انتظام کو فاش کر دیتا ہے۔پلاطوس نے اس وقت مسیح سے چند سوالات ان الزاموں کی نسبت کئے جو اس پر لگائے گئے تھے خصوصاًاس کے بادشاہی دعوے ٰکے متعلق اس سے دریافت کیا۔یسو ع نے اسے بتا یا کہ میں پولٹیکل معنی میں کبھی بادشاہ بننے کا دعوے ٰ نہیں کیا مگر صداقت کا بادشاہ ہونے کا دعوے ٰ کیا ہے۔یہ ایسا جوا ب تھا جو ان صداقت دوست لوگوں کی توجہ کھنچنے کے لئے کافی تھا جو غیر قوموں کے درمیان تلاش حق میں سرگرداں ہو رہے تھے کہ پلاطوس کے دل میں حق کا احساس ہے یا نہیں۔لیکن وہ اس قسم کی باتوں کا ذوق نہیں رکھتا تھا لہذا اس کی بات ہنسی میں اڑا دی۔پھر بھی وہ اس بات کا قائل ہو گیا کہ یسوع کے پاک اور مطمین اور غمناک چہرے پر کوئی ایسے آثار نہیں پائے جاتے جن سے یہ ظاہر ہو کہ وہ سرکاری امن میں ابتری پیدا کرنا چاہتا ہے۔پس وہ محل سے نکل آیا اور یہودیوں سے کہنے لگا کہ چونکہ میں یسو ع میں کوئی ایسا قصور نہیں پاتا۔اس لئے اسے چھوڑ دیتا ہوں ۔

یہ سن کر یہودی مایوسی کے مارے غصہ سے بھر گئے اور چلا ّچلاّکر ان الزاموں کو مسیح پر لگائے گئے تھے دہرانے لگے۔یہ طریقہ یہودیوں ہی سے مخصوص تھا چنانچہ کئی دفعہ اس سے پہلے انہوں نے اپنے شورو غل کی منطق سے اپنے اجنبی حاکموں پرفتح پائی تھی اور ان کے فیصلوں کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کروا لیا تھا اب پلاطوس کا فرض یہ تھا کہ وہ ان کو شورو گل کی طرف ذرا توجہ نہ کرتا بلکہ اسکو اسی وقت چھوڑ دیتا مگر اس کے خمیر میں وہ حکمت عملی گھسی ہوئی تھی جو رومی انتظام کی جان تھی یعنی وہ باہمی امن اور مدّبرانہ چالاکیوں کا معتقد تھا۔پس جب اس نے ان چیخوں کے درمیان جو اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں ،ان کو یہ کہتے سنا ”یہ سارے یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھاسکھا کر ابھارتا ہے “ تو اس بات سے وہ بہت خوش ہو ا ،کیونکہ اس کو ایک بہانہ مل گیا جس سے وہ اس تکلیف دہ معاملے سے بالکل سبکدوش ہوسکتا تھا۔چنانچہ اس نے کہا کہ میں یسوع کو ہیرودیس کے پاس جو گلیل کا حاکم ہے اور اس وقت یروشلیم میں آیا ہوا ہے بھیج دوں گا تاکہ وہ اس کا مقدمہ کرے۔رومی عملداری میں یہ دستور تھا کہ جس علاقہ میں کوئی شخص گرفتار کیا جاتا تھا ،اس کا حاکم اس کو علاقے کے حاکم کے پاس بھیج دیا کرتا تھا جس سے وہم علاقہ رکھتا تھا۔لہذا پلاطوس نے یسوع کو اپنے باڈی گارڈ کے ہمراہ ہیرودیس کے محل کی طرف روانہ کیا اور مسیح کے مخالف بھی ان کے ساتھ اسی طرف چل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تودیکھا کہ ہیرودیس اپنے چھوٹے سے دربار میں خوشامدی اہل کاروں اور مذیموں کے بیچ مسند پر بیٹھا ہے اور ادھر ادھر باڈی گارد کے سپا ہی موجود ہیں۔ہیردویس بھی رومیوں کی طرح جن کا وہ حلقہ بگوش تھا باڈی گارڈ رکھا کرتا تھا اور اس وقت عہد کے لئے یروشلیم میںآیا ہواتھا۔وہ یہ سن کرکہ یسوع آیا ہے بڑاخوش ہوا کیونکہ جس ملک پر وہ حکمران تھا اس کے اس سرے سے اس سرے تک یسوع کی شہرت پھیل رہی تھی۔ہیرودیس مشرقی بادشاہوں کا ایک عمدہ نمونہ تھا کیونکہ اس کے دل میں صرف ایک ہی خیال بھرا ہو اتھا اور وہ یہ کہ اپنے دل کو ہر طرح خوش رکھناچاہیے۔عشرت اور تفریح اس کادستور العمل تھا اور یروشلیم میں بھی اس وقت تماشے ہی کے لئے آیا تھا۔سو جب یسو ع اس کے پاس آیا توا س نے خیال کیا کہ آب دل لگی کا اچھا موقعہ مل گیا۔کچھ عرصہ کے لئے میری اور میرے درباریوں کی طبیعت خوب لگی رہی گی۔اسے امید تھی کہ یسوع ضرور کسی نہ کسی طرح کی کرامات دکھا کر ہمیں خوش کریگا۔ہیرودیس کسی بات کی طرف سنجیدگی سے دھیان نہیں لگا سکتا تھا۔چنانچہ یہودی تو جوش و خروش سے بھر ے ہوے اس بات کی امید رکھتے تھے کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کر یگا مگر اس نے ذرا توجہ نہ کی بلکہ ایسے بے ترتیب سوال یکے دیگرے کرنے شروع کئے کہ جواب دینے کی مہلت نہ دی۔آخر کا ر تھک کر چپ ہو گیا۔اور یسوع کے جواب کی انتظاری کرنے لگا مگر یسوع نے اس کے سامنے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نہ نکالا۔ہیرودیس یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کو بھو ل گیا تھا اور جو خیالات اس کی خونریزی سے اس کے دل میں پیدا ہوئے وہ بھی کا فور ہو گئے تھے ،کیونکہ اس کا دل چکنے گھڑئے کی مانند تھا جس پر پانی کی بوند کبھی نہیں تھہرتی ،مگر یسوع یوحنا کے قتل کو نہیں بھولا تھا اور وہ اپنے دل میں کہتا تھا کہ ہیرودیس کو میرے سامنے جو یوحنا کا دوست ہوں آنکھ اٹھانے سے شرم کھانا چاہیے۔پس خداوند نے ارادہ کیا کہ میں ایسے شخص کے ساتھ ہرگز ہرگز بات نہ کروں گا ،جو مجھے فقط ایک اچنبھے دکھا نے والا آدمی تصور کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میں اسے اپنی کرامات کے تماشے سے رجھاﺅں سووہ اس شخص کی طرف جس نے اپنے آپ کو یہاں تک خراب کر دیا تھا کہ ضمیر اور انسانیت کا نام و نشان تک اس میں نہ رہا ،دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن ہیرودیس جو بالکل مردہ ہو گیا تھا اس خاموش نفرت کی پیسنے والی تا ثیر کو محسوس نہیں کر سکتا تھا۔

مگر ہیرودیس بھی اس مقدمہ میں سنجیدگی کو کام میں نہ لایا اور مسیح سے معجزہ دیکھنے کی بے فائدہ کو شش کرنے کے بعد اب اس نے اور اس کے سپاہیوں نے یسو ع کو ذلیل کرنا شروع کیا۔چنانچہ اسے ایک ایسی چمک دات پو شاک پہنائی جیسی رومی دربار میں وہ لوگ پہنا کرتے تھے جوشاہانہ تخت پر بیٹھنے کی امید رکھتے تھے او ر ہیرودیس کا بھی یہی مطلب تھا کہ اس پو شاک سے ظاہرہو کہ کہ یسوع بھی یہودیوں کے تخت کا امیدوار ہے لیکن ایسا امیدوار جو ذلت اور خواری کے سوا او ر کسی بات کے لائق نہیں۔اس ذلت کے ساتھ یسوع کو پھر رومی حاکم کے دربار کی طرف لو ٹنا پڑا۔اب پلاطوس سے وہ باتیں سر زد ہوئیں جہنوں نے اس کو زمانہ سازی کا ایک ایسا نمونہ بنا دیا جس کو مسیح کی بے گناہی کا نور صدیوں سے فاش کر تا آیا تھا اس کو اسی وقت بری کر دیتا مگر اس نے چالاکی سے کام لیناچاہا او ر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک غلطی کے بعد دوسر ی غلطی میں گرفتا ر ہو گیا اورراستی کا بالکل خون کر بیٹھا۔اس نے یہودیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اس شخص میں نہ مجھے اور نہ ہیرودیس کو کو ئی قصور معلوم ہو تا ہے ،پس میں اسے کوڑے مار کر چھوڑ دیتا ہوں۔اس میں پلاطوس کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ خیال کر تا تھا کہ کوڑے یہودیوں کے آنسو پو نچھ دیں گے اور یسو ع کو چھوڑ دنیا انصاف کی دیوی کے لئے بھینٹ کا کا م کر جائے گا۔

لیکن ابھی وہ اس تجویز کو پو را کر نے نہیں پایا تھا کہ ایک او ر واقعہ سر زد ہو ا جس نے ایک مرتبہ پھر پلاطوس کو یسوع کے چھوڑنے کا موقعہ دیا۔رومی حاکم کو اجازت تھی کہ فسح کے روز قیدیوں میں سے ایک قیدی کو لوگوں کے لئے چھوڑ دے۔اس دستور کو اہل یروشلیم بہت پسند کرتے تھے کیونکہ قید خانہ میں بہتےرے ایسے قیدی ہوتے تھے جورومیوں کے جوئے سے متنفر ہو کر آزادی کے لئے بغاوت کا جھنڈا اٹھاتے تھے اور عوام کے نزدیک اسی حرکت کے سبب سے بڑے بہادر گنے جاتے تھے۔آج چو نکہ فسح کا دن تھا لہذا لوگ شہر کی گلیوں اور کو چوں سے جوق در جوق نکل آئے اور بڑے جوش و خروش اور شورو غل کے ساتھ شاہی محل کے دروازے پر آن موجود ہوئے تاکہ اپنا سالانہ انعام پائیں۔لوگوں کی یہ پر شور درخواست پلاطوس کے حسب خواہش تھی کیونکہ اس کے دل میں یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید ا ب بھی میں اس مشکل حالت سے جس میں پھنس رہاہوں بچ نکلوں گا مگر یہ ان کی گردن کے لئے ایک نیا پھندا تھا۔اب پلاطوس نے ان سے کہا کہ اگر چاہو تو یسوع کو تمہارے لئے چھوڑ دوں۔تھوڑی دیر کے لئے وہ خاموش رہے مگر جب یاد آیا کہ ہمارا ایک رفیق شفیق برابا بھی قید میں پڑا ہے توا س کی رہائی کی درخواست کی۔یہ شخص اپنی سر کشی کے سبب مشہور تھا کیونکہ اس نے رومی حکومت کی بیج کنی کے لئے علم بغاوت بلند کیا تھا۔لوگ ابھی اس کی نسبت سوچ ہی رہے تھے کہ یہودی سرداروں نے کانا پھوسی شروع کر دی او ر انہیں ترغیب دی کہ یسو ع کی رہائی پر متفق نہ ہوں۔دیکھئے سنہیڈرم کے ممبران کی یہ کا روائی کیسی قابل داد ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ وہ یہ جتاتے تھے کہ ہم جان نثاراور وفادار رعایا ہیں اور رومی قانون اور انتظام کو پسند کرتے ہیں لیکن جب یسوع کے رہا ہونے کی ایک صورت نظر آئی تو فوراً اس کی طرف ہو گئے جو بغاوت کا سرغنہ تھا اور اپنی کو ششوں میں کامیاب ہوئے کہ تمام لوگوں کو ور غلا لیا۔چنانچہ وہ سب کے سب برابا ّ براباّ پکارنے لگے۔پلاطوس نے یہ سن کر کہا میں یسوع سے کیا کرﺅں ؟شاید وہ سوچتا تھا کہ میرے اس سوال کو سن کر لوگ کہیں گے کہ اسے بھی چھوڑ دے مگر یہ اس کی غلطی تھی۔کیونکہ سنہیڈرم والوں نے اپنا کام ایسی خوبی سے کر لیا تھا کہ ہزار ہا آوازیں یہ کہتی ہوئی آائیں ”’اسے صلیب دے “ ؟پس جس طرح ان کے دینی حاکموں نے کہا اسی طرح وہ بول اٹھے یا یوں کہیں کہ جو فیصلہ ان کے رہبروں نے کیااس پر انہوں نے بھی اپنے دستخط کر دئیے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر پلاطوس بڑاغصے ہوا اور کہنے لگا۔”کیوں ؟ اس نے کیا قصور کیا ہے ؟مگر اس کی خفگی اور ایسے جوابوں سے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔کیونکہ فیصلہ توا ن کے ہاتھا میں چھوڑ دیا گیا تھا جن کے سر پر بھوت سوار ہو رہاتھا پس اس کا یہ سوال سن کروہ اور بھی چلاّچلا ّ کر کہنے لگے ”اسے لے جا اور صلیب دے !صلیب“!!

لیکن پلاطوس ابھی انصاف کا خون کرنے کے لئے پورے طور پر تیار نہ تھا۔وہ ابھی ایک اور چال چلنا چاہتا تھا مگر پہلے اس نے یہ حکم دیا کہ یسوع کے کوڑے لگائے جائیں۔یہ فعل عموماً صلیب دینے سے پہلے وقوع میں آیا کرتا تھا۔اب سپاہی ا س کو اپنی چوکی میں لے گئے او ر وہاں اس کو بے عزت کر کے اور تکلیف دے کر اپنی ظلم پسند طبعیت کو سیر کیا۔ہم ا س شرمناک اور درد انگیز نظارے کا حال بہت دیر تک سناناچاہتے۔غور کیجئے کہ جب یہ لوگ اپنے سخت ہاتھوں سے اس کو جو انسانیت کو ایسی عزت دیتا اور ایسا پیار کرتا تھا دکھ دیتے ہوں گے توا س کے دل میں کیا کچھ گذرتا ہوگا او ر کیسا صدمہ پہنچتا ہوگا جب وہ اس قدر نزدیک سے اس بے حد ظلم کو دیکھتا تھا جو انسا ن سے سر زد ہو سکتا ہے۔سپاہی اپنی ظالمانہ حرکات کے مزے لے رہے تھے اور ظلم پر ظلم کرتے جاتے تھے ،چنانچہ جب کوڑے لگا چکے تواس کو ایک کر سی پر بٹھا دیا او ر بادشاہوں کے ارغونی چوغہ کی نقل میں کہیں سے پھٹا پرانا چوغہ لا کر اسے پہنا دیا۔عصا کی جگہ ایک سر کنڈا اس کے ہاتھ میں دیا اور ان جھاڑیوں میں سے جوا ٓس پاس اگ رہی تھیں خاردار ٹہنیاں لے کر او ر انہیں توڑ مروڑ کر تاج بنا یا اور اس کے سر پر رکھ کر ایسا دبا یا کہ کانٹے اس کی نورانی پیشانی میں جا گھسے۔اس کے بعد ہر ایک ٹھٹھے سے اس کے سامنے جا کر سجدہ کرتا اور اس کے منہ پر تھوکتا تھا اور جو سر کنڈا اس کے ہاتھ میں تھا وہی چھین کر اس کے سر ا ور منہ پر مارتا تھا۔

جب وہ اپنی ناشائستہ حرکات او ر ظلم سے آخر کا ر سیر ہو گئے تو اسے ارغونی چوغے اور کانٹوں کے تاج کے ساتھ پلاطوس کے پاس لائے۔لوگ سپاہیوں کے اس نئے چٹکلے کو دیکھ کر ہنستے ہنستے پاگل ہو گئے۔اب پلاطوس نے اس کو ایسی جگہ کھڑا کیا جہاں سے سب لوگ اسے دیکھ سکتے تھے اور یہودیوں سے کہاکہ ”اس آدمی کو دیکھو “اس کا مطلب یہ تھا کہ تم اس آدمی کو دیکھو جس کے ساتھ اس سے زیادہ سختی کرنے کی ضرورت نہیں۔تم کیوں اس کی جان کے پیچھے پڑے ہو ؟ اس کو مارنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ کیا ایسا خستہ حال آدمی کسی طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ مگر جو الفا ظ پلاطوس کے منہ سے نکلے وہ ان کا مطلب آپ ہی نہیں سمجھتا تھا۔اس کے یہ الفاظ ”’ اس آدمی کو دیکھو “ تما م دنیا میں گونج رہے ہیں اور ان کے سبب سے ہر زمانہ کے لوگوں کی آنکھیں اس مرد غمناک کی مائل ہیں۔لیکن جب ہم اس کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں ؟ یہ کہ اس کے چہرے پر سے تو شرم کا سایہ دور ہو گیا ہے اور پلا طوس اور سپاہیوں او رکاہنوں اور دیگر مخالفوں کے چہروں پر جا پڑا ہے۔اس کے جلال کے نو ر نے بے حرمتی کے داغوں کو دور کر دیا ہے اور کانٹوں کے تاج کے سنیکڑوں کناروں کو جلتے ہوئے شعلے کی طرح درخشاں کر دیا ہے۔اب ہم تھوڑی دیر کے لئے پلاطوس کی طرف آتے ہیںجس طرح وہ یسوع کی عظمت کو محسوس کرنے میں قاصر نکلا ،اسی طرح ان لوگوں کی طبیعت اورمزاج کے جاننے میں ناقص نکلا جن پرحکومت کیا کرتا تھا وہ سوچتا تھا کہ وہ مسیح کو ایسی خستہ حالی میں دیکھ کر خاموش ہو جائیں گے اور ان کے انتقام کی پیاس اس ذلیل نظارے سے بجھ جائے گی مگر وہ ان باتوں کو کب سنتے تھے۔وہ تو شروع ہی سے یہی حجت کرتے تھے کہ یہ شخص جو نہ دولت کا فخر رکھتا ہے اور نہ بادشاہ بننے کی طمع کب مسیح ہو نے کا دعوی کر سکتا ہے ؟اور اب تو بات اور بھی بگڑ گئی تھی کیونکہ وہ غیر قوم سپاہیوں کے ہاتھ سے کوڑے کھا چکا تھا اور ٹھٹھوں میں اڑا جا چکا تھا۔پس اب یہ بے حرمتی کا نظارہ ان کے دلوں کو پلاطوس کی بات ماننے کی ترغیب کہاں دے سکتا تھا ؟نہیں بلکہ ان باتوں نے ان کو اور بھی نفرت اور دیوانہ پن سے بھر دیا اور وہ پہلے سے زیادہ زور سے چلانے لگے۔”اسے صلیب دے !اسے صلیب دے !!

آخر کا ر انہوں نے وہ الزام بھی اگل دیا جو اب تک ان کے دلوں کی تہ میں چھپا ہوا تھا اور جسے اب زیادہ چھپا نہیں سکتے تھے۔چنانچہ وہ چلا ّاٹھے ”ہم اہل شریعت ہیں اور رشریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرایا “۔مگر یہ بات سن کر پلاطوس کے دل میں اور ہی خیالات پیدا ہوگئے جو یہودیوں کے وہم میں بھی نہیں آئے تھے۔پلاطوس کے وطن میں کئی پرانی روائتیں دیوتاﺅں کے بیٹوں کی مروج تھیں جو بتائی تھیں کہ وہ دنیا میں غریب بن کر آئے اور ایسے طور پر رہے کہ کوئی ان کو عام لوگوں سے امتیاز نہیں کر سکتا تھا اور لوگوں کا ان کے متعلق یہ عقیدہ بھی تھا کہ ان سے دو چار ہو نا بڑے خطرے کا باعث ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ان کو کسی سے دکھ پہنچا توان کے دیوتا باپ ضرور دکھ دینے والے کو دکھ پہنچائیں گے لیکن اب لوگ اس قسم کے قصوں کو ماننا چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ بنی آدم میں کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا تھا جس میں ایسی عجیب خصوصیتیں ظاہر ہوں جن کے سبب سے وہ دیوتاﺅں کا فرزند مانا جائے لیکن پلاطوس کی آنکھ نے یسو ع میں کچھ ایسے سر کی بات محسوس کی ہوگی جس کے سبب سے اس کا دل دہشت سے بھر گیا او راب جب اس نے لوگوں کے ہجوم کو یہ کہتے سنا کہ ”اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرایا “۔تو یہ نیا مکاشفہ بجلی کی طرح اس پر آیا۔ان لفظوں نے اس کے حافظے کی تہوں میںسے ان پرانے اور بھولے ہوئے قصوں کو جو اس نے عالم طفلی میں سنے تھے نکال کر اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا کر دیا او را س کے دل میںایسا خوف بھر دیا جو بت پرستی سے خاص ہے اور جس پر یونانی زبان میں کئی بڑے بڑے ناٹک (ڈرامے ) موجو د ہیں یا یوؓں کہیں کہ ایسے ڈرامے ہوئے ہیں جن کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں بھو ل چوک سے بھی ایسا جرم نہ ہو جائے جس کے سبب سے آسمانی طاقتیں انتقام لینے پر آمادہ ہو جائیں۔اب پلاطوس کے دل میںیہ خیال پیدا ہو ا کہ جس طرح کیسٹراو ر پالکس جو پیٹر کے بیٹے تھے کہیں اسی طرح یسوع بھی یہودیوں کے یہواہ کا بیٹا نہ ہو۔پس وہ فوراً اسے محل میں لے گیا اور ایک نئے خوف اور ذوق سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا ”توکہاں سے ہے “؟ مگر یسوع نے اس کے جواب میںایک لفظ نہ کہا اور اس کا سبب یہ تھا کہ جب یسوع اسے اپنی بابت سب کچھ بتانے کو تیار تھا اس وقت اس نے اس کی طرف ذراالتفات نہ کی بلکہ اسے کوڑے لگوا کرانصاف کا ستیا ناس کر دیا۔یادر کھنا چاہیے کہ کوئی اس وقت مسیح کی طرف توجہ نہیں کرتا جس وقت وہ اس سے بولتا یابولنا چاہتا ہے۔وہ ایک ایسا وقت دیکھے گا جب وہ چاہے گا کہ مسیح بولے لیکن اسے کچھ جواب نہ دیا جائے گا۔اب یہ مغرور حاکم کبھی یسوع کی اس خاموشی سے تعجب کر تا تھا اور کبھی غصہ ہوتا تھا۔آخر طیش میں آکر کہنے لگا ”تو مجھ سے بولتا نہیں ؟کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے تیرے چھوڑ دینے کا بھی اختیا ر ہے اور صلیب دینے کا بھی“؟ اس کے جواب میں یسوع نے اس شاہانہ دبدبہ سے جو باوجو د ظالمانہ ذلت و خواری کے اس کی صورت سے ٹپک رہاتھا یہ کہا ”اگر تجھے اوپر سے نہ دیا جا تا تو تیرا مجھ پر کچھ اختیار نہ ہوتا “۔

پلاطوس اپنے اختیا ر او ر طاقت پر ناز کر کے کہتا تھا کہ ”میں جو چاہوں سو تیرے ساتھ کر سکتا ہوں “ مگر در حقیقت وہ بہت ہی کمزور تھا کیونکہ وہ اس پکے ارادے سے باہر آیا تھا کہ میں یسوع کو چھوڑ دوں گا مگر ا س پر قائم نہ رہا ۔یہودیوں نے اس کے چہرے کو دیکھ کر معلوم کر لیا کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔پس انہوں نے اپنا آخری جملہ ان الفاظ کے وسیلے سے کیا جہنیں وہ اب تک دل میں چھپائے ہوئے بیٹھے تھے یعنی اسے دھمکی دے کر کہا کہ ”اگر تو اسے چھوڑ دئے گا تو ہم تجھ پر قیصر کے دربا ر میں نالش کریں گے “ ہماری دانست میں الفاظ مذکورہ ذیل کا جو ان کی زبان سے نکلے یہی مطلب ہے ” اگر تو اسے چھوڑ دیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں“ ۔یہی اندیشہ پیشی کے شروع سے پلاطوس کے دل میں کھٹک رہا تھا ۔یہی وہ بات تھی جس کے سبب سے پلاطوس منصفانہ فیصلہ پر قائم نہ رہا ۔رومی حکام کسی بات سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا ان نالشوں اور شکایتوں سے جو ان کے بر خلاف قیصر کے در با ر میں کی جاتی تھیں ۔پلاطوس کے زمانہ میں اس قسم کی شکائتےں اور بھی نقصان دہ سمجھی جاتی تھیں کیونکہ اس وقت ایک ایسا شخص رومی تخت پر بیٹھا ہو اتھا جو بڑا ردی اور بد گمان اور ظالم آدمی تھا ۔وہ اپنے خادمو ں کو بے عزت کر کے خوش ہوتا تھا اور اگر اپنے ماتختوں میں سے کسی کو تخت کے دعوے دار کی رعایت کرتے دیکھ لیتا تھا تو وہ فوراًآگ بگولا ہو جاتا تھا ۔پلاطوس یہ خوب جانتا تھا کہ میرا کام ملاخطے کے لائق نہیں کیونکہ اس میں ظلم اور خرابی کے داغ لگے ہوئے ہیں ۔یاد رکھنا چاہیے کہ کسی شخص کو نیکی کرنے سے کوئی بات اتنا نہیں روکتی جتنا اس کی گذشتہ عمر کی بدی روکتی ہے ۔پس یہودیوں کا ڈراوا پلاطوس کے اس ارادے کو ہلانے میں وہی کا م کر گیا جو پانیوں کے سیلاسب عین اسی وقت آئے جب کہ اس نے اپنے ضمیر کی اطاعت کا قصد کر لیا تھا ۔مگر وہ ایسا بہادر نہ تھا کہ اپنا نقصان گوارا کر کے بھی اس بات کی پیروی کر تا جس کووہ راست سمجھتا تھا وہ دنیا کا غلام تھا سو اس نے فوراًدیکھ لیا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ یسوع کو یہودیوں کے حوالے کر دے ۔

اب کچھ تو وہ اس بات سے غصہ ہو رہا تھا کہ ان یہودیوں نے مجھے بڑالتاڑا ہے اور کچھ کچھ مذہبی خیال کے سبب سے بھی پژمردہ خاطرہورہاتھا ۔اس آخری خیال کے سبب سے اس نے پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھوکر کہا میںاس راستباز کے خون سے بری ہوں ۔لیکن اس نے بڑی غلطی کی کیونکہ ہاتھ دھونے کے عوض لازم یہ تھا کہ وہ انہیں مسیح کی رہائی کے لئے استعمال کرتا ۔خون آسانی سے دھویا نہیں جاتا ۔لوگوں نے پلاطوس کے پس و پیش کرنے کو خوب ٹھٹھوں میں اڑا یا اور چلا کر کہنا شروع کیا ’اس نے خون ہم پر اور ہماری اولاد پر “۔

اب پلاطوس نے ان کی بے ادبی سے تنگ آکر یہ ارادہ کیا کہ میں بھی ان کو خوب شرمندہ کرﺅں گا۔پس اس نے یسوع کوایک ایسی جگہ جہاں سے اسے سب دیکھ سکتے تھے کھڑا کر کے ان کو ٹھٹھوں میں اڑانا شروع کیا ۔چنانچہ یسوع کو یہودیوں کا بادشاہ کہہ یہ جتانے لگا کہ یہی شخص جو نہایت گنگال اور بے لاچار ہے حقیقت میں تمہارا بادشاہ ہے ۔”کیا میں تمہارے بادشاہ کو صلیب دوں “؟وہ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اوربلند آواز سے کہنے لگے ”قیصر کے سو اہمارا کوئی بادشاہ نہیں “۔دیکھئے یہ اقرار یہودیوں کے لبوں سے کیسا سجتا ہے ۔یہ کہنا گویا اپنی قوم کی آزادی اور تواسریخ کو برباد کر نا تھا ۔پلاطوس نے ان کے اس اقرار کو تسلیم کیا اور یسوع کو ان کے حوالے کر دیا۔

صلیب

جب وہ پلاطوس کے ہاتھوں سے اپنا شکار چھنینے میں کامیاب نکلے تواسے صلیب دینے کو مقتل کی طرف روانہ ہوئے ۔اب ان کے دل ٹھندے ہوگئے ۔چنانچہ وہ راستے میں اپنی نالائق او ر ناروافتحمندی کو طرح طرح سے ظاہر کرتے جاتے تھے ۔یوں تو مسیح کے جلاّدیہودی سردار تھے وہ اس خراب کا م کے متعلق ایسے سر گرم تھے کہ اسے سرکاری پیادوں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتے تھے بلکہ ساری جماعت کے آگے آگے خود جارہے تھے تاکہ مقتل میں جاکر اور اس کی تکلیفوں کو دیکھ کر اس کے خون سے اپنے انتقام کی پیاس بجھائیں ۔اس وقت قریباًصبح کے دس بج گئے تھے اور لوگوں کا شمار جو حاکم کے محل پر حاضر تھے ،رفتہ رفتہ بڑھ گیا تھا اور جب وہ اہل سنہیڈرم کے پیچھے پیچھے شہر میں سے گزرتے ہوں گے توا س وقت اور لوگ بھی ان سے آملے ہوں گے اور چونکہ آج فسح کا دن تھا اور لوگوں کو اپنے کاروبار سے فرصت تھی اور اس لئے ہزار ہا لوگ تماشے کے لئے جمع ہوگئے ۔خصوصا ًوہ لوگ جو سنہیڈرم کے ممبروں کے ہمددر تھے مسیح کو صلیب پر دیکھنے کے لئے ضرور موجود ہوئے ہوں گے ۔ان لوگوں کو دیکھ کر ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے خداوند کو ہزاروں سخت دل اور بید رد لوگوں میں سے گزر کر اپنے مقتل کو جانا پڑا ۔

جس جگہ و ہ صلیب پر کھینچا گیا اس کا ٹھیک پتہ معلوم نہیں غالباً یہ شہر کے باہر تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی جگہ لوگ پھانسی دئیے جاتے تھے ۔انجیل میں کوئی ایسا مقام نہیں پایا جاتا جس سے ظاہر ہو کہ وہ کلوری کہلاتی تھی ۔اور نہ مقتل کے قرب و جوار میں کوئی ایسا پہاڑہی واقع ہے جسے دیکھ کر ہم یہ نتیجہ نکال سکیں کہ وہ پہاڑ پر مصلوب ہوا تھا گلگتھا کی جس کا ترجمہ” کھوپڑی کی جگہ “کیا گیاہے یا تو یہ وجہ تسمیہ ہے کہ اس جگہ کی شکل انسان کی کھوپڑی کی مانند تھی یا یہ کہ وہاں ان لوگوں کی کھو پڑیاں پائی جاتی تھیں جو قتل ازیں موت کا شکار ہو چکے تھے ۔یہ وجہ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے بہر حال یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جگہ ایسی کشادہ اور کھلی تھی کہ بہت سے لوگ وہاں سما سکتے تھے اوراسی طرح یہ بھی روشن ہے کہ وہ سڑک کے کنارے تھی ۔کیونکہ انجیلوں کے پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان لوگوں کے سوا جو وہاں پہلے سے موجود تھے آتے جاتے تماشائی بھی کھڑے ہو کر یسوع کے دکھوں کو دیکھنے لگ گئے تھے ۔

صلیب کی موت واقعی بڑی ہولناک موت تھی ۔سیسرو جو اس سے خوب واقف تھا بتاتا ہے کہ وہ نہایت سخت اور حقیرقسم کی موت تھی ۔چنانچہ وہ کہتا ہے ”وہ کسی رومی کے بد ن کے نزدیک نہ آنے پائے ۔نہیں بلکہ اس کے خیالات او ر آنکھوں او ر کانوں کے پاس بھی نہ آنے پائے “۔ یہ سزاا غلاموں اور باغیوں کو دی جاتی تھی اور ان کی ذلت کا خاص نشان سمجھی جاتی تھی ۔واقعی ایک زندہ آدمی کو صلیب پر میخوں سے گاڑنا ایک ایسا نظارہ تھا کہ اس سے زیادہ ہیبت ناک اور کو ئی نظارہ نہیں ہو سکتا ۔اگر میخیں گاڑتے گاڑتے مو ت آجاتی تو بھی مصلوب کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی ،مگر صلیبی موت کی بڑی قباحت یہ تھی کہ مصلوب کو دو دو تین تین دن تک عذاب کے مارے کراہنا پڑتا تھا ۔ہاتھ اور پاﺅں جن میںمیخیں ٹھونکی جاتی تھیں اور پیاس اس قدر لگتی تھی اور اس قدر دم بدم بڑھتی جاتی تھی کہ مصلوب ” پیاس پیاس “ پکارتا رہتا تھا ۔بدن کو ساکن رکھنا بڑا مشکل کا م تھا کیونکہ جب درد محسوس ہوتا تھا تو اس سے بچنے کے لئے جسم خود بخود ہلنے لگ جاتا تھا مگر جسم کی ہر جنبش دکھ کی نئی صورت پیدا کرتی تھی ۔

ہم اس ہیبت ناک نظارے کے بیان کو طول دینا نہیں چاہتے سو ہم اس کا ذکر چھوڑ کر اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح یسوع اپنی روح کی طاقت اوررضا الٰہی پر راضی ہونے کی قدرت اور اپنی محبت کے زرو سے صلیب کی شرم اور سختی پر غالب آیا ۔جس طرح شام کے وقت جب شفق پھولی ہوئی ہے آفتاب اپنی رنگین کر نوں سے ایک میلے سے حوض کو سونے کی سیر بنا دیتا ہے اور ہر چیز کو جو اس کی روشنی میں آتی ہے اپنے نور سے ملبس کر دیتا ہے اسی طرح مسیح نے صلیب کو جو غلامی اور ذلت کا نشان سمجھی جاتی تھی دنیا کی سب سے ؛پاک اور جلالی چیز کی علامت بنا دیا چونکہ مصلوب کے سر میں میخیں نہیں گاڑی جاتی تھیں اس لئے سر کھلا رہتا تھا پس یسوع ادھرادھر ہورہاتھا اسے دیکھ سکتا تھا اور بول بھی سکتا تھا ۔جب وہ صلیب پر ٹنگا ہواتھا اس وقت سات جملے اس کی زبان سے نکلے جہنیں سات روز ن کہنا چاہیے جن میں سے ہم اس کے دل اور دماغ کے اندر نظر ڈال کر یہ دریافت کر سکتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت اس کے دہنے بائیں ہو رہا تھا اس کا اثر اس پر کیسا ہو رہا تھ ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سکون اور شوکت جوا س کی ذات سے پیشی کے تمام عرصہ میں ظاہر ہوئی صلیب پر بھی جلوہ نما تھی اور اس کے اطمینا ن اور جلا ل نے ان تمام صفات کو جن میں اور کوئی اس کا ثانی نہ تھا پو رے طور سے روشن کر دیا ۔یاد رہے کہ اس نے اپنے دکھوں پر فتح پانے کے لئے اس جبر اور صبر سے کا م نہیں لیا جو فرقہ سٹواک کے ساتھ مخصوص تھا بلکہ اس نے ان دکھوں پر اس محبت کے وسیلے سے فتح پائی جو خود کو بھول جاتی ہے ۔جب وہ اپنی صلیب اٹھائے مقتل کی طرف جا رہا تھا ،اس وقت وہ اپنی تکان اور ماندگی کو بھول گیا اور یروشلیم کی بیٹوں اور ان فرزندوں کے فکر سے غمگین ہو ا ۔جب لوگ اسے صلیب پر میخوں سے ٹانگ رہے تھے اس وقت وہ میخوں کے درد کو بھول کر اپنے خونیوں کے لئے معافی کی دعا مانگتا تھا اور جب صلیب پر لٹکا یا گیا تو اس نے اپنی تکلیفوں کوا س چو ر سے دلچسپ گفتگو کر کے ہلکا کیا جو اس کے ساتھ مصلوب ہو ا تھا او ر اسی طرح اپنے درد کی شدت کے وقت اپنی ماں کے آرام و آسائش کے لئے ایک نیا گھر تجویز فرمایا ۔پس جب ہم اس کو صلیب پر دیکھتے ہیں تو وہ ہم کو بدلا ہوا یسوع نہیں دکھا ئی دیتا بلکہ وہی یسوع معلوم ہوتا ہے جو خود غرضی سے بالکل آزاد اور اوروں کے لئے اپنے آپ کو نثاسر کرنے والا تھا ۔

اگر کسی جگہ اس پر گہرا زخم لگ سکتا تھا تو اس کی محبت پر لگ سکتا تھا اگرچہ وہ جسمانی تکلیفیں جو اس کی مبارک بدن کو سہنی پڑیں ،نہایت شدید اور دیرپا تھیں تو بھی ہم اس کی تکلیفوں کوان سے جو بہتوں کو اس دنیا میں اٹھانی پڑیں زیادہ شدید نہیں کہہ سکتے تاوقت یہ کہ یہ نہ مانیں کہ ا نے اپنے بدن کی اعلےٰ ساخت کے باعث ان دکھوں کو اس درجہ تک محسوس کیا جہاں تک عام آدمی محسوس نہیں کر سکتے ۔وہ پانچ گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہ رہا اور یہ عرصہ معمولی عرصہ سے اتنا کم تھا کہ جب سپاہی اس کی ٹانگیں توڑنے لگے تو وہ یہ دیکھ کر وہ مر گیا ہے حیران ہوئے لیکن اس کا اصل دکھ اوراس کی سب سے بڑی تکلیفیں وہ تھیں جو دل اور دماغ سے علاقہ رکھتی تھیں وہ جو سرتا پا محبت کے لئے اس طرح ترستا تھا جس طرح ہر نی پانی کے چشموں کے لئے ترستی ہے اس وقت لوگوں کی نفرت اور دشمنی کے سمندر سے جوطغیانی پر آیا ہوا تھا اور جس کی لہریں صلیب تک جادتی تھیں ،گھراہوا تھا اس کی روح ہر طرح کے داغ سے منزہ تھی ۔پاکیزگی اس کی جان تھی مگر گناہ اس وقت اس پر گرا پڑتا تھا اور اس سے مس پیداکرنا چاہتا تھا مگر اس کا ایک ایک روتگٹااس سے بچنا چاہتا تھا ۔

سنہیڈرم کے ممبران نے ہر طرح حقارت آمیز طعنوں اور حاسدانہ نفرت سے بھرے ہوئے ٹھٹھوں کا پل باندھ دیا اور سب لوگوں نے بڑی وفاداری سے ان کی تقلید کی لیکن یہ لوگ کو ن تھے ؟کیا وہی نہ تھے جن کو وہ ہمیشہ پیار کرتا رہا اور اب بھی کر تا تھا ؟مگر انہی لو گوں نے اس کی محبت کو پامال کیا ۔ان کے الفاظ کے وسیلے سے شیطان نے پھر وہی آزمائش پیش کی جس کے ساتھ وہ اس پر ہمیشہ حملہ کر تا رہا او روہ یہ کہ اپنے فائدہ کے لئے کوئی فوق العادت کرشمہ دکھا کر اب بھی اپنی قوم کو مطیع بنا ئے ۔ان لوگوں کو جواس وقت جوش سے بھر ے کھڑے تھے جن کے چہروں کو ان کے دلی کینے اور حسد نے بدہئیت بنا رکھا تھا ۔تمام بنی آدم کی بدی کا ایک خلاصہ کہنا چاہیے ۔اس کی آنکھیں ان کو دیکھتی تھیں ان کی سختی ان کی بد حالی ،ان کے کفر اور ان کے کمینہ پن نے برچھیوں کی طرح اس کے سینے کو چھلنی چھلنی کر ڈالا تھا ۔

پر اس کے دکھوں میںایک اور پر راز دکھ شامل تھا اوروہ یہ کہ دنیا کا گناہ نہ صرف انہی لوگوں کے وسیلے سے جو اس وقت اس کے پاس حاضر تھے اس پرا ٓگرا ،بلکہ گذشتہ اور آیندہ کے زمانے کا گناہ بھی اس پر رکھا گیا اور خدا کی بھسم کر نے والی خاصیت جوا س پاکیزگی اور محبت کے نو ر کا دوسرا پہلوہے اپنی بھسم کر نے والی خاصیت جوا س پاکیزگی اور محبت کے نو ر کا دوسرا پہلوہے اپنی بھسم کرنے والی آگ کے شعلے مسیح کے اردگرد بلند کر رہی تھی تا کہ دنیا کا گناہ جوا س پر آپڑا تھا ،بھسم کیا جائے ۔خدا کو یونہی پسند آیا کہ وہ اس کو جو گناہ سے واقف نہ تھا لیکن ہمارے لئے گہنگار بناغم میںڈالے ۔

جن دکھوں کا اوپر ہوا وہی وہ دکھ تھے جہنوں نے صلیب کی موت کو بھیانک اور ہولناک بنا دیا ۔دو گھنٹے کے بعد اس نے اس دنیا سے اپنا منہ پھر کر عالم جاودانی کی طرف رخ کیا ۔اس وقت ایک عجیب قسم کی تاریکی تمام سر زمین پر چھاگئی اور یروشلیم اس کا بے بادل کے نیچے جس کی بڑھتی ہوئی سیاہی اس کی سزا کی مانند معلوم ہوتی تھی کانپ اٹھا ۔قریباًسب لوگ اسے چھوڑ کر گلگتھا سے چلے گئے اوروہ اس کی تاریکی میں جو باہر پھیلی ہوئی تھی اوراس غم کے اندھیرے میں جو باطن میں پھیل رہاتھا کتنی مدت تک صلیب پر لٹکا رہا اور آخر کا ر اندرونی دکھ کے سمندر کی تہ سے وہ آواز پیدا ہوئی جس کا مطلب بیان کر نا انسان کی طاقت سے بعید ہے۔”ائے میرے خدا !ائے میرے خدا !تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟یہ سب وقت تھا جبکہ اس مرد غمناک کی روح نے اپنے دکھ کی سب سے گہری تہ کو چھوا ۔

تھوڑی دیر کے بعد اندھیرا زمین کی سطح پر سے کا فور ہو گیا اور سورج نمودار ہوا او ر مسیح کی روح بھی دکھ کے گہن سے نکل آئی چنانچہ جو فتح اس نے ظاہر ہوئی ” پورا ہو ا“ ۔اس کے بعد اس نے اپنی جان ایک دل پسندزبور کی آیت کے الفاظ اپنی زبان سے نکا لتے ہوئے خدا کے سپرد کی ’۔’ائے خدا میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں “ ۔

مردوں میں سے جی اٹھنا او ر آسمان پر چڑھ جانا

دنیامیں کبھی کسی کام یا مہم کے نامکمل ہونے سے ایسی مایوسی نہیں ہوئی جیسی مسیح کے کام سے اس سبت کے روز ہوئی جو پرانے عہد نامے کا آخری سبت تھا ۔معلوم ہوتا تھا کہ اب یسوع کے ارادے کبھی پورئے نہیں ہوں گے ۔جب وہ مر گیا اور دفن کیا گیا توا یسا معلوم ہوتاتھا کہ گویا مسیحی مذہب بھی فوت ہو گیا اور اس کی قبر میں اس کے ساتھا گاڑا گیا ہے ۔ہم جو اس زمانے کے ہیں جب گذشتہ صدیوں کی طرف لوٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں قبر پر سےءپتھر ہٹتا ہو ا دکھائی دیتا ہے اور ہمارے دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جوا س وقت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئی اور اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے واقعات نے ہم کو انتظام ربی کے بھید سے آگاہ کر دیا ہے ۔پس جب ہم اس کی قبر پر کھڑے ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں مایوسی نہیں آتی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پتھر ہٹایا جائے گا اور وہ جی اٹھے گا لیکن جب وہ گاڑا گیا اس وقت وہاں ایک شخص بھی یہ امید نہ رکھتا تھا کہ وہ روز حشر سے پہلے کبھی مردوں میں سے جی اٹھے گا ۔

اور سنیہڈرم کے شریک او ر یہودی سردار تو اس با ت کے بالکل قائی ہو گئے تھے ۔موت ہر طرح کی بحث اور جھگڑوں کو تما م کر دیتی ہے اسی طرح مسیح کی موت نے بھی اس جھگڑے کو جو اس کے اور یہودی سرداروں کے درمیان پایا جاتا تھا تمام کر دیا اور ایسی صورت میں فتح یہودی لیڈروں کے حصے میں آئی ۔یسوع نے مسیح موعودہونے کا دعوی کیا پرا س دعوے کے ساتھ ان نشانات میں سے جن کے وہ منتظر تھے کوئی بھی ان کی حسب خواہش نہ دکھایا ۔اسے قوم نے کبھی اپنا مسیح سمجھ کر قبول نہ کیا اور نہ اس کے شاگرد ہی بے شمار یا صاحب اقتدار تھے اور اگر اس کے کام کی طرف دیکھا جائے تو و ہ بھی دو یا تین سال سے زیادہ عمر کا نہ تھا اور وہ خود اس وقت قبر میں بے حس و حرکت پڑا تھا ۔پس کو ن اس کو یاد کر سکتا تھا ؟۔

شاگردوں کی دل شکنی میں بھی کوئی کسر باقی نہ تھی ۔چنانچہ جس وقت وہ پکڑا گیا اس وقت وہ سب اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔پطرس سردار کاہن کے گھر تک اس کے ساتھ گیا ،مگر وہ وہاں جا کر اور بھی زیادہ شرمناک حالت میں گرفتار ہوا ۔چنانچہ اپنے مالک کا انکار کر بیٹھا ۔یوحنا نے البتہ گلگتھا تک اسکا ساتھ دیا مگر وہ بھی شاید ناامیدی میں یہ امید رکھتا ہوگا ِ،کہ ممکن ہے کہ اب بھی وہ صلیب سے اتر آئے او ر داﺅد کے تخت پر رونق افروز ہو لیکن یہ آخری لمحہ بھی گزر گیا اور وہ امید بر نہ آئی اب یہ شاگردا س کے سوا اور کیا کر سکتے تھے کہ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو واپس آئیں اور پھر ماہی گیری کا پیشہ اختیا ر کریں اور عمر بھر اپنی غلطی کو جس کے سبب سے انہوں نے ایک جھوٹے مسیح کی پیروی کی تھی یاد کر کے اپنے سر دھنا کریں اور اپنے دل سے پوچھا کریں کہ وہ تخت کہاں ہیں جن پر ہمکو بٹھانے کا وعدہ اس نے کیا تھا ؟

بیشک یسوع نے توا پنے دکھوں اور موت اور جی اٹھنے کی خبر ان کو دے دی تھی مگر وہ ان باتوں کا مطلب نہیں سمجھتے تھے ۔اب یا تو وہ ان کو بالکل بھول گئے تھے یا ان کا مطلب اورہی نکالنے لگ گئے تھے ۔سو جب وہ اس دنیا سے رحلت کر گیا توان باتوں نے ان کو تسلی نہ دی ۔چنانچہ وہ عورتیں جو پہلے مسیحی سبت کے دن اس کی قبر پر آئیں ،اس امید سے نہیں آئی تھیں کہ قبر کو خالی پائیں گی بلکہ وہ اس لئے آئی تھیں کہ لاش کو مصالحہ اور خوشبو سے آراستہ کریں ۔مریم شاگردوں کے پاس اس لئے دوڑی دوڑی نہیں گئی تھی کہ ان کو یہ بتائے کہ خداوند جی اٹھا ہے بلکہ وہ ان کو یہ کہنے گئی تھی کہ ان کو یہ بتائے کہ خداوند جی اٹھا ہے بلکہ وہ ان کو یہ کہنے گئی تھی کہ اس کی نعش قبر میں نہیں ہے معلوم نہیں کہ لوگوں نے اسے کہاں رکھ دیا ہے ؟پھر جب عورتوں نے شاگردوں کو بتا یا کہ خداوند نے ہم سے ملاقات کی ہے توا ن کے الفاظ بھی شاگردوں کو مہمل سے معلوم ہوئے ۔یوحنا خود بتایا ہے کہ نہ پطرس اور نہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ نوشتوں کے مطابق پھر جی اٹھے گا ۔کیا ان لفظوں سے جو ان دو شاگردوں کے منہ سے نکلے جو اماﺅس کو جارہے تھے بڑھ کر اور الفاظ بھی تاسف آمیز ہیں ؟وہ کہتے تھے ”ہم کو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دیگا ؟۔جب شاگرد فراہم ہوئے تو انہوں نے رونا اور ماتم کر نا شروع کیا ۔ہاں ان لوگوں سے زیادہ اور کوئی مایوس اور شکستہ دل نہ تھا ۔

مگرہم خوش ہیں کہ وہ مغموم اور مایوس ہوئے ۔وہ شک لائے تاکہ ہم ایمان لائیں یہی عقیدہ اس مشکل سوال کا حل ہے ،کہ وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے چند ہی دنوں کے بعد یہ لوگ جو اب مایوس معلوم ہوتے ہیں بڑی خوشی اور بھروسے سے بھر گئے اور ان کا ایمان تروتازہ ہوا اور مسیحی مذہب ایسی تازگی اور طاقت سے حرکت میںآیا کہ دیسی تازگی اور طاقت اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی تھی ؟یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کا سبب یہ تھا مسیح مردوں میں سے کہ جی اٹھا تھا ۔وہ ہم کو بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح خالی قبر پر گئے کس طرح یسوع مریم مگدلینی اور دوسری عورتوں کو دکھائی دیا‘ کس طرح پطرس پر اور ان دو شاگردوں پر جو اماﺅس کو جا رہے تھے ظاہر ہو ا کس طرح ایک دفعہ گیارہ کو نظر آیا ؛۔کس طرح ایک دفعہ یعقوب نے اور ایک دفعہ پانچ سو نے اس کو دیکھا ۔کیا یہ شہا دتیں ماننے کے قابل نہیں ؟اگر یہ شہادتیں اکیلی ہوتیں تو شاید ہم ان کونہ ماننے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ( جس کا دعویٰ وہ کرتے ہیں ) ایسا واقعہ تھا جس کے ساتھ واقعہ تھا جس کے ساتھ مسیحی مذہب بھی اپنی قبر میں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر پہلا دعویٰ سچا نہیں تو مسیحی مذہب جو اس کی موت کے سبب سے بے جان ہو گیا تھا۔ کس طرح پھر زندہ ہوا؟ شاید کوئی یہ کہے کہ سبب سے بے جان ہو گیا تھا۔کس طرح پھر زندہ ہوا؟ شاید کوئی یہ کہے کہ یسوع نے ان کے دلوں شاہانہ امیدوں سے بھر دیاتھا۔ اور اگرچہ وہ امیدیں پوری نہ ہوئیں تو بھی ان لوگوں کے لئے مشکل تھا ۔ کہ ایسی امیدوں کو دل میں ایک مرتبہ جگہ دے کر پھر اپنے ادنیٰ کاموں میں مصروف ہوں ۔ پس انہوں نے آپ لئے مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا ایک قصہ گھڑ لیا لیکن انہیں وہم گیا تھا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے مگر یہ دعوےٰ قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ جب ان کے ایمان نے پھر تقویت پائی تو انہوں نے دنیوی خیالات کو بالکل چھو ڑ دیا اور روحانی مزاج بن گئے ۔ پھر وہ تختوں کی امید نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر دم اپنے آپ کو ایذا اور موت کا شکار سمجھتے تھے مگر باوجود اس کے ایسی دانائی اور سرگرمی اور بڑے بڑے نتائج کی امید رکھنے والے ایمان سے مسیح کے نام کی منادی میں مصروف تھے کہ پیشتر کبھی ایسی خوبیاں ان میں نظر نہیں آتی تھیں ۔ پس اب اصل میں یہ ہے کہ جس طرح مسیح کی عجیب تبدیلی کے ساتھ جی اٹھا اس کا دین بھی عجیب تبدیلی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا یا یوں کہیں کہ اس کے مذہب نے بھی جسمانیت کو اتار پھینکا لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ یہ تبدیلی کس طرح وقوع میںآئی ؟ شاگرد یہ جواب دیتے ہیں کہ اس تبدیلی کا باعث مسیح کا کا جی اٹھنا اور اس کے دیدار کا وہ نظارہ ہے جو اس کے جی اٹھنے کے بعد ہم کو نصیب ہوا مگر ان کی گواہی فیصلہ کن ثبوت نہیں بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی عجیب تبدیلی جو وقوع میں آئی، یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا سب سے پختہ ثبوت ہے وہ تبدیلی یہ تھی کہ وہ جو پہلے بزدل تھے یک بیک دلیرین گئے۔ وہ جو پہلے ناامید تھے امید سے بھر گئے ۔ وہ جو پہلے کم اعتقاد تھے ایمان میں پختہ ہو گئے اور دنیا کو آئندہ کے بارے میں پرحکمت تصورات سے بھر گئے اور کلیسیاءکو قائم کرنے کے لئے تمام ضروری اوصاف ان میں پیدا ہو گئے اور دنیا کو مسیح کے پاس لانے اور بنی آدم کے درمیان مسیحی مذہب کو پاکیزگی کے ساتھ قائم کرنے کی حکمت ان میں آگئی۔ پرانے عہد نامے کے آخری سبت اور ان دو تین ہفتوں کے درمیان جن کے اندر یہ عجیب تبدیلی وجود میں آئی ضرور کوئی نہ کوئی واقعہ سرز د ہوا ہو گا۔ جسے اس نتیجہ کا کافی سبب سمجھنا چاہےے ۔ اس عقد ہ کو صرف یہی دعویٰ حل کر سکتا ہے کہ یسوع مردوں میں سے جی اٹھا ۔ پس اس کا جی اٹھنا ایک ایسے ثبوت پر قائم ہے جو گواہوں کے ثبوت سے کہیں مضبوط اور زبردست ہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ مسیح کا جی اٹھنا ایسے ثبوت پر قائم ہے کیونکہ اگر مسیح نہیں جیا تو ہمارا ایمان بے فائد ہ ہے لیکن اگر وہ جی اٹھا ہے تو اس کی تمام زندگی جو اعجاز سے پر تھی اعتبار اور قبول کرنے کے لائق ہے کیونکہ اس کا جی اٹھنا تمام معجزوں سے بڑا معجزہ ہے اس کا خدا کی طرف سے ہونا بھی اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے سوا اور کون اس کو زندہ کر سکتا تھا؟ اور اسی سے ابدی دنیا کی حقیقتیں بر حق معلوم ہوتی ہیں۔

خدا وند مسیح زندہ ہونے کے بعد اتنی مدت تک اس دنیا میں رہا کہ اس کے پیرو اس کے جی اٹھنے کے بالکل قائل ہو گئے ۔یاد رہے کہ شاگرد بڑی دیر میں اس بات سے قائل ہوئے۔ چنانچہ جب انہوں نے عورتوں سے اس کے جی اٹھنے کی خبر سنی تو انہوں نے پورا یقین نہ کیا۔ تو مانے دوسرے رسولوں کی گواہی پر شک کیا اور ان پانچ سونے جن کو وہ ایک گلیلی پہاڑ پر ملا اپنی آنکھ کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جب تک کہ اس کی آوازکو نہ پہچانا مگر جس صبر و برداشت سے وہ ان شک لانے والوں کے ساتھ سلوک کرتا رہا اس نے ثابت کر دیا کہ گو اس وقت اس کی جسمانی صور ت کسی قدر تبدیلی ہو گئی ہے تو بھی اس کا دل پہلے طرح محبت اور برداشت سے بھرا ہواہے۔ یہ حقیقت بڑے موثر طور پر اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ ان کو انہی جگہوں میں ملتا رہا جہاں جلال کو پہنچنے سے پہلے آیا جایا کرتا تھا۔ یہ وہی پرانی جگہیں تھیں ۔ جہاں وہ دعا مانگا اور منادی کیا کرتا تھا۔ جہاں جا جا کر اس نے اپنے کام کو انجام دیا ۔ جہاں اپنے دکھ سہے تھے یا یوں کہیں کہ وہ جی اٹھنے کے بعد بھی گلیل کے پہاڑ اور پسندیدہ جھیل اور کو ہ زیتون اور بیت عنیاہ میں نمودار ہوا اور یروشلیم میں جس نے اسے قتل کیا دکھائی دیا اور وہ اب بھی اسے پیار کر نے سے باز نہیں رہ سکتا ۔

مگراس کے ساتھ ہی ایسے نشانات بھی موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب اس دنیا سے کچھ تعلق نہیں رکھتا تھا ۔چنا نچہ اسکی انسانیت میں جی اٹھنے کے بعد ایک قسم کی جدائی پید اہو گئی تھی مثلاًجب مریم نے اس پاﺅں کو چو منا چاہا توا س نے اس کو چھونے سے منع کیا ۔وہ اپنے دوستوں کے درمیان ایسے طور پر یک بیک نمودار ہو جاتا تھا کہ اس راز کا بیان ہماری طاقت سے بعید ہے ،اور جس طرح یک بیک ظاہر ہوتا تھا اسی طرح غائب بھی ہو جاتا تھا اور کبھی کبھی دکھائی دیتا تھا کیونکہ جس طرح پہلے ان کے ساتھ شیرو شکر تھا اس طرح اب نہ تھا ۔آخر کار چالیس دن کے بعد جب وہ غرض جس کے لئے وہ اتنے دن تک زمین پر رہا پوری ہو گئی اور اس کے شاگرد اپنی خوشی کی نئی طاقت کے ساتھ تمام قوموں کو اس کی زندگی اور محبت کا مثردہ دینے کے لئے تیا ر ہو گئے تو اس کی جلالی انسانیت اس دنیا کو صعو د کر گئی جوا س کا اصلی وطن تھا ۔

فائدہ ۔جب وہ جسم جس کے وسیلے سے کو ئی زندگی اس دنیا میں نمودار ہوتی ہے ،فنا ہو جاتا ہے تواس زندگی کا تعلق اس دنیا سے قطع نہیں ہو تا کیونکہ وہ بنی آدم کی زندگی کے دریا میں گر کر اپنے سارے زرو سے اپنا اثردکھاتی رہتی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ بسا اوقات یہی تاثیر جو بعدظاہر ہوتی ہے ثابت کر تی ہے کہ آدمی کی زندگی در حققیقت کیسی وزن دار تھی ۔مسیح کی زندگی کا بھی یہی حال ہے کہ انجیلوںکے بے مبالغہ بیان سے تواس نتائج آفرین قدرت کا پتہ نہیں لگتا جو اس کی زندگی سے اس وقت جاری ہوئی جس وقت معلوم ہو تا تھا کہ یسوع بالکل فنا ہو گیا ہے ۔جو اثر اس کی زندگی نے موجو د ہ دنیا پر پیدا کر رکھا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ حقیقت میں کیسا عظیم الشان شخص تھا ۔ہاں جو نتیجہ اب ہم کو نظر آتا ہے اسے دیکھ کریہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس نتیجے میں نظر آتا ہے وہ سب کچھ اس کے سبب یا علت میں بھی موجود تھا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی تمام بنی آدم کی زندگی کی پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی تاثیروں کے طفیل سے انسان کے دل میں روحانیت کی گلزار کھلی ہوئی ہے اورتمام تاثیروں کو اس طرح جذب کر تی جاتی ہے جس طرح کسی دریا میں جو ملک کے بیچ سے گزرتا ہے کہ اس کے معاون گر کر معدوم ہو جاتے ہیں ۔اس کی وسعت کی نسبت اس خاصیت زیادہ قابل غور ہے ۔

پراس کی حقیقت کی اصل شہادت نہ تو زمانہ حال کی تہذیب کی عام تاریخ میں ملتی ہے اورنہ کلیسیا کی ظاہری سر گذشت میں اس قدر پائی جاتی ہے جس قدر ان کا ایمان داروں کے مسلسل تجربوں میں دیکھی جاتی ہے ۔جو مسیحی پشتوں کے بیج میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک سلسلہ باندھ کر اپنے خداوند سے جا ملتے ہیں وہ لاکھوں روحیں جہنیں اس نے ان کے گناہ اور دنیا سے نجات دی اپنے تجربہ کے وسیلے سے ثابت کرتی ہیں کہ تاریخ نئی پیدائش بخشنے والے نجات دہندے کے وسیلے سے جو بنی آدم کے سلسلے میں ایک عام کڑی نہ تھا دو ٹکڑے ہوگئی ہے ۔ان کا تجربہ ظاہر کر تا ہے کہ اسے بنی آدم اپنی طاقتوں کے وسیلے سے پیدا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک کامل نمونہ ہے اور بنی آدم میں خاص ابن آدم وہی ہے ۔وہ لوگ جو ایک طرف خدا کی پاکیزگی کو محسوس کرتے اور دوسری طرف اپنی گنہگاری کو پورے طور سے جانتے ہیں مگر پھربھی اس سلامتی سے خوش حال ہیں جو پاک زندگی کا ایک بے زوال منبع ہے ۔ان کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں ایک حقیقی میل کی ایک راہ کھل گئی ہے جس کے وسیلے سے گنہگارانسان خدائے پاک کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ہزارا ہا بنی آدم جو اس خدا کے دیدار سے مالا مال ہیں جو مسیح کے کلام سے صاف کی ہوئی آنکھ کو ایسا خالص نور معلوم ہو ا ہے جس میں تاریکی کو ذرا دخل نہیں ،اپنے تجربہ سے ظاہر کرتے ہیں کہ ازلی خدا کا آخری مکاشفہ دنیا کو اسی کے وسیلے سے پہنچا جو خدا کوایسے کامل طور سے جانتا تھا کہ اس کا علم کو دیکھ کرا سے خدا سے کم نہیں کہہ سکتے ۔

مسیح کی زندگی دنیا کی تاریخ سے کبھی معدوم نہ ہوگی بلکہ اس کا اثر دن بدن زیادہ زور پکڑتا جاتا ہے ۔موجودہ دنیا میں جس قدر نئی باتیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں اور بنی آدم کے افضل تصورات جس قدر نشوو نما پاتے جاتے ہیں اور جس قدر ان کی اعلیٰ طاقتیں بڑھتی جاتی ہیں اور بہتر جذبات پاک ہوتے جاتے ہیں اسی قدر مسیح کی حقیقت روز بروز منکشف ہوتی جاتی ہے او ر بنی نو ع انسان یہ چاہتے ہیں کہ تمام انسانی زندگی اس کے تصورات اورا س کی سیرت کے سانچے میں ڈھالی جائے ۔

التماس

کتاب ”حیات المسیح “جو اب جدا چھپ کر ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے اوراق ترقی میں کئی صاحبان کی نظر سے گذر چکی ہے ۔اردو زبان میں دو تین نامکمل کتابوں کو چھوڑ کر اور کوئی کتاب اس قسم موجود نہیں اورمجھے امید ہے کہ جب تک ا س سے بہتر کوئی اور حیات المسیح تیار نہ ہو تب تک یہی موجودہ ضرورت کو رفع کرتی رہے گی ۔انگریزی زبان میں کئی کتابیں اس مضمون پر پائی جاتی ہیں جن کے مطالعہ سے پڑھنے والے کو بہت فائدہ حاصل ہو تا ہے ۔مسیح کی زندگی کے تمام واقعات سلسلہ وار ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں واقعہ اس کی زندگی کے فلاں وقت سے علاقہ رکھتا ہے ۔یہ کام آسانی سے نہیں ہوسکتا کیونکہ جوا یسا کرنے کی لیاقت رکھتے ہیں ان کو اشغال زندگی فرصت نہیں دیتے اور جہیں فر صت حاصل ہے وہ شاید لیاقت نہیں رکھتے ۔

لہذا اناجیل کے مطالعہ میں اس قسم کی کتابیں بہت مدد دیتی ہیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حیات المسیح خواہ کیسی ہی مطول اور مفصل ہو پھر بی وہ رتبہ نہیں رکھتی جوا ناجیل کو حاصل ہے ۔پس حیات المسیح گویا ایک طرح کی مدد ہے جس کے وسیلے سے انجیلوں کے بیانات روشن ہو جاتے ہیں ۔جو شخص انسان کے تالیف کردہ سوانح عمری پر اکتفا کر تا ہے اور انجیلوں کا مطالعہ نہیں کر تا وہ اس روحانی لطف سے کلام کے پڑھنے سے حاصل ہو تا ہے محروم رہتا ہے ۔پس مجھے امید ہے کہ جوصاحبان اس کتاب کوپڑھیں گے وہ اس سے ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی تحریک پائیں گے جس میں خداوند کی زندگی کا اصل حال درج ہے ۔میں یہ بھی جتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے اس کتاب کی تالیف کا بھی حق حاصل نہیں گو اس کے تیار کرنے میں میں نے ایڈرشام اور فیرر اور انڈریوز اور نینڈر کی تصانیف سے بھی بعض بعض جگہ مدد لی ہے اور میں ان کی کتابوں سے بہت کچھ اس میں درج کر سکتا تھا مگر چو نکہ اس بات کا خیال دامن گیر تھا کہ کتاب کی ضخامت بڑھنے نہ پائے ،لہذا فقط چند موقعوں پر اکتفا کی ۔

زیادہ تر مدد اس کے تیار کر نے میں سٹاکر صاحب کی کتاب حیات المسیح سے لی گئی ہے بلکہ اس کتاب کا بہت سا حصہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے ۔ترقی میں جو کچھ شائع ہوا وہ صرف سٹاکر صاحب کی کتاب کا خلاصہ تھا ،مگر اب اس پربہت کچھ بڑھایا گیا ہے ۔کئی مفید اور کار آمد حواشی بھی اضافہ کئے گئے ہیں اور جتنا حصہ تر قی میں شائع ہو چکا ہے اس کی نظرثانی کی گئی ہے ۔مجھے امید ہے او ر میری دعا بھی یہی ہے کہ اس کتاب کے وسیلے سے بہت لوگوں کی زندگیاں اس کتاب کی مانند بن جائیں جس کی پاک اور الٰہی زندگی کا بیان اس کتاب میں قلمبند ہے او رکئی ایک کے دل میں اس کا ایسا عشق پیدا ہو کہ جب تک وہ اس پر ایمان نہ لائیں تب تک ان کوآرام نہ ملے کیونکہ دلی آرام کی ندیاں اسی طرح ان کے اندر جاری ہو سکتی ہیں ۔

خادم طالب الدین پاسٹر ۔ہندوستانی پر یسبٹیرین چرچ ۔لاہور