ساتواں باب
مخالفت کا سال
خدا وند مسیح سال بھر تک بڑی سرگرمی اور جانفشانی سے ملک گلیل میں کام کرتا رہا اور جہاں جہاں وہ جاتا تھا۔ وہاں قابل رحم بیماروں کو اپنی قدرت سے شفا بخشتا اور طالبان حق کو اپنے فضل اور سچائی کے کلام سے بہرہ در فرماتا تھا۔غالباً سینکڑوں خاندان جنہیں اس کے طفیل سے صحت اور خوشی حاصل ہوئی اس کے نام کو محبت سے یاد کرتے اور ہزاروں اشخاص جن کے دلوں کو اس کی تعلیم اور منادی نے ہلا دیا تھا۔ اس کی الفت کا دم بھرتے تھے۔ اس کی شہرت روز بروزبڑھتی جاتی تھی۔ اور معلوم ہوتاتھا ، کہ تھوڑے دنوں کے بعد تمام گلیل اس کی پیروی اختیار کرلیگا۔ اور آخر کار یہ تحریک تمام مخالفتوں پر غالب آجائے گی او ر تمام ملک کو اس طبیب حاذق کی محبت اور اس استاد کا مل کی اطاعت سے معمور کرکے جنوب کی طرف بڑھ جائے گی۔
لیکن ایک سال بھی نہیں ہونے پایا تھا۔ کہ یہ امید مایوسی کی صورت اختیار کرنے لگی۔ اہل گلیل کے دل پتھر یلی زمین کی مانند تھے کیونکہ ان میں خدا کی بادشاہی کا بیج جس قدر جلد اگا اسی قدر جلد کملانے لگا اور یہ عجیب تبدیلی یک بیک وجود میں آئی اور ایسے مستقل طور پر کہ پھر اس میں سر موفرق نہ آیا اور اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے خدا وند کی زندگی نے بھی ایک نئی صورت اختیار کی۔ گو وہ اس کے بعدچھ ماہ تک وہیں رہا مگر یہ چھ ماہ گذشتہ بارہ ماہ کی مانند نہ تھے۔ کیونکہ اب جو صدائیں اس کے ارد گرد بلند ہوتی تھیں۔ انہیں جوش لحن حمد اور شکر گزاری کے نغمے نہیں کہ سکتے۔ ان سے عداوت اوردشمنی اورکفر کی کی بو آتی تھی۔ پہلے وہ ملک کے وسط میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک آزادی سے جایا کرتا تھا۔ اور لوگ ہر جگہ اس سے تپاک سے ملا کرتے تھے۔ اور جو لوگ اس کا کلام سننے کا اشتیاق رکھتے تھے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ لیکن اب وہ دلکش سماں مفقود ہو گیا۔ چنانچہ اب وہ چند رفیقوں کی ساتھ لے کر غیر علاقوں میں جا جا کر پناہ گزیں ہوتا تھا۔
پھر اس نے چھ مہینے کے بعد گلیل سے روانہ ہو کر یہودیہ کا رخ کیا۔ ایک وقت تھا ، جب یہ امید جھلک دکھا رہی تھی۔ کہ جب اس کی قوم کے لوگ گلیل میں اس کی مسیحائی کے قائل ہو جائیں گے۔ تو جنوبی حصے کے باشندوں کے دل بآسانی مسخرہو جائیںگے۔ اور یروشلیم بھی قومی اتفاق کے مقابلہ سے عاجزآ کر اس کی پیروی اختیار کر لیگا۔ مگر اب یہ امید بالکل کا فور ہو گئی۔ پس وہ جنوبی اطراف کی جانب روانہ ہوا اور جا کر چھ ماہ تک یہودیہ اور پیریہ میںبڑی عرق ریزی سے کام کرتارہا ، اور اس میں شک نہیں کہ ان جگہوں میں جہاں جہاں اس معجزے پہلی مرتبہ وجود میں آئے وہا ں وہی پبلک جوش پیدا ہوا جو گلیل کے پُر امید زمانہ میںپیدا ہواتھا۔ مگر ان معجزوں کا اثر صرف اتنا ہوا کہ تھوڑے سے جاں نثار شاگرد اور اس کے پیرووں کے زمرے میں شامل ہو گئے۔ جس دن سے اس نے گلیل کو چھوڑ ا ، اسی دن سے اس نے یروشلیم کا رخ کیا ، اور جو چھ ماہ یہودیہ اور پیریہ میں صرف ہوئے انہیں اس سفر کا عرصہ خیال کرنا چاہےے جو آہستہ آستہ طے ہوا لیکن اس سفر کا اختیار کرنے سے کہیں پہلے اسے معلوم تھا(اور اس نے اپنے شاگردوں کو بھی مطلع کر دیا تھا) کہ یروشلیم میں میرے سر پر تاج نہیں رکھا جائے گا بلکہ وہاں لوگ مجھے بالکل رد کر دیں گے۔ آو ہم اس بات پر غو ر کریں کہ گلیلیوں کی اس تبدیلی کی اور کیونکر اس کے سبب سے مسیح کی زندگی اور کام میں ایک افسوسناک تبدیلی واقعہ ہوئی۔
واضح ہو کہ جو لوگ علم اور عزت رکھتے تھے۔ وہ شروع ہی سے اس کے مخالف تھے۔ البتہ وہ فرقے جو صدوقی اور ہیرودی کہلاتے تھے کچھ مدت تک بے پروار ہے کیونکہ ان کی توجہ دولت جمع کرنے اور حکام کے حضور میں عزت پانے کی طرف لگی ہوئی تھی۔ لہذا وہ اس مذہبی تحریک کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ جو ادنیٰ درجے کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئی۔ اگر چہ یہ شہرت جا بجا پھیل رہی تھی۔ کہ ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ لیکن انہیں اس بات سے چنداں دلچسپی نہ تھی کیونکہ عوام جو کچھ مسیح کے بارے میں مانتے تھے۔ صدوقی اور ہیرودی اس کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ یہ بھی ان فریبیوں میں سے ہو گا جو عام لوگوں کے خیالات کے مطابق وقتاً فوقتاً برپا ہوتے رہتے ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس تحریک کے باعث لوگو ں کے باغی ہوجانے کا خطرہ ہے اور ڈر ہے کہ آخر کار رومی حکام ملک پر ظلم کرنے لگ جائیں، پروکیور یٹر کو لوٹ مار کرنے کا موقع ملے ،اور ہمارا مال و جان خطرے میں پڑ جائے تب انہوں نے بھی کروٹ بدلی۔
لیکن جو لوگ زیادہ تر مذہب کی طرف مائل تھے اور فریسی اور فقیہ کہلاتے تھے۔ ان کا حال دگر گوں تھا۔ وہ کلیسیائی اور دینی معاملا ت کو دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔ اور جب کبھی عام لوگوں کے درمیان کسی طرح کی مذہبی تحریک برپا ہوتی تھی۔ تو وہ چونک اٹھتے تھے کیونکہ وہ خود عوام سے تعظیم اور عزت کرانے کے کے خواہاںتھے۔ پس جب کبھی کوئی ایسی بات مشہور ہوتی کہ فلاں شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی نئی تعلیم یا نیا مسئلہ رواج پکڑتا جاتا ہے۔ تو وہ فوراً اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور خصوصاً جب وہ یہ سنتے تھے۔ کہ کوئی شخص دعوائے مسیحائی کے ساتھ ہمارے ملک میں نمودار ہوا ہے تو سراسر جوش سے بھر جاتے تھے۔ کیونکہ وہ بڑے اصضطراب اور بیقراری کے ساتھ مسیحی امیدوں کے برآنے کی راہ دیکھ رہے تھے اور اس کے علاوہ غیروں کی حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں، کہ اس وقت وہ غالباً چھ ہزار کے قریب تھے اوراپنے ملک میں بڑے ذی عزت اور باوقار سمجھے جاتے تھے۔ یا یوں کہنا چاہےے کہ اپنے وطن میں خالص دین اور بزرگوں کے آئین کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔ لوگ انہیں اپنا رہبر جانتے تھے۔ اور خیال کرتے تھے، کہ مذہبی معاملات میں رائے دینا اور فیصلہ کرنا انہیں کا حق ہے۔ پس ان لوگوں پر صدوقیوں کی کی طرح یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ انہوں نے مسیح یسوع کی طرف مطلق تو جہ نہ کی کیونکہ وہ ایک ایک قدم پر اس کا پیچھا کرتے اور اس کی ایک ایک تعلیم اور اس کے ایک ایک دعویٰ پر بحث کیا کرتے تھے۔ مگر ان کا فیصلہ اس کے برخلاف ہوتا تھا۔ اور انہوں نے اپنے فیصلے کی ایسی پیروی کی کہ ان کی مخالفت میں کبھی فرق نہ آیا۔
مسیح کی تمام غمناک زندگی میں شاید یہ بات سب باتوں سے زیادہ غمناک اور ناموافق معلوم ہوتی ہے۔ کہ جن لوگوں نے اسے رد کیا اور جنہوں سے اسے صلیب پر کھینچا وہ وہی لوگ تھے جو تمام قوم کا فخر اور لوگوں کے پیشوا اور رہبر تصور کئے جاتے تھے۔ جو بائبل اور گذشتہ زمانوں کی روایتوں کے سرگرم محافظ سمجھے جاتے تھے اور جو کمال شوق سے مسیح کی انتظاری کر رہے تھے۔ انہوں نے مسیح کا فیصلہ اپنے زعم میں نوشتوں کے مطابق کیا اور یہ خیال کیا کہ جو کچھ ہم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ وہ اپنی ضمیر کے مطابق اور خدا کی خدمت اور عزت کے لئے کیا ہے۔ جو لوگ انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ ان کے دل میں کبھی کبھی ان لوگوں کے لئے ہمددری کا خیال پیدا نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک یسوع بالکل اس مسیح کی مانند نہ تھا جس کی انتظاری وہ کررہے تھے۔ اور جس کی انتظاری کرنا انہوں نے اپنے باپ دادوں سے سیکھا تھا۔ وہ ان کے تعصبات اور مذہبی تو ہمات کو پامال اور ان باتوں کی تحقیر کرتا تھا۔ جنہیں وہ بچپن سے مقد س سمجھتے تھے۔ بے شک ہمیں ان کے ساتھ ہمددری کرنا چاہےے کیونکہ کبھی کسی قوم نے ایسا جرم نہیں کیا ، جیسا انہوں نے کےا اور نہ کبھی کسی قوم کو ایسی سز املی۔ اسی قسم کا تاسف اور اسی قسم کی غمگینی ان لوگوں کے حالا ت سے ٹپکتی ہے جو دنیا کی تاریخ کے کسی نازک حصے سے دوچار ہو کر اور زمانہ کے آثار سے ناواقف رہ کر طرح طرح کی غلطیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں کا یہی حال تھا جو ریفارمیشن کے زمانے میں بہ سبب اپنی کو تاہ بینی کے انتظام ربی کی رفتار کے ساتھ پہلونہ پہلو نہ چل سکے۔
لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ ان کی جڑ میں کیا گھن لگا ہوا تھا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ان کی آنکھو ں پر ایسا گناہ کا پردہ پڑا ہو اتھا۔ کہ وہ نور کی شعاعوں کو محسوس نہیں کر سکتے تھے۔ صدیوں کی دنیاداری کی روحانی طبیعت کی کمزوری نے مسیح تصور کی ہیت لگا ڑ دی تھی۔ پس انہوں نے مسیح کا ایک بگڑ ا ہوا تصور ورثہ میں پایا تھا۔ وہ یسوع کو گنہگار سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کی ان رسومات سے اتفاق نہیں کر تا تھا۔ جو انہوں اور ان کے آباو جداد نے کلام الٰہی پر اضافہ کر دی تھیں اور نہ وہ اس اندازہ کو درست جانتا تھا۔ جس سے وہ لوگوں کی نیکی کو نا پا کرتے تھے۔ مسیح نے اپنے دعووں کے ثبوت میں مضبوط گواہی ان کے سامنے پیش کی لیکن انہیں اس اس کے پرکھنے اور دیکھنے کی آنکھیں میسر نہ تھیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ دیانتدار اور صادق دلوں کی تہ میں ایک ایسا وصف نہاں ہوتا ہے۔ جو خواہ کیسے ہی سخت تعصب اور گناہ کے پردو سے دبا ہواہو بھی جس وقت وہ شے جو برحق اور قابل تعظیم ہے جو پاک اور عظیم ہے۔ اس کے نزدیک آتی ہے تاکہ لوگ اسے قبول کریں تو خوشی اور شوق کی وجہ سے وہ پوشید ہ وصف ظاہر ہوجاتا ہے۔ لیکن لوگوں میں اس قسم کی کوئی خاصیت نہ تھی۔ بلکہ ان کے دل داغدار اور سخت اور مردہ تھے۔ وہ اپنے قواعد اور اپنے اندازوں سے اس کے دعاوی کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔وہ کبھی اس کی سیرت کی عظمت کو دیکھ کر اپنی نکتہ چینیوںسے سے باز نہ آئے۔ یسوع حقیقت اور صداقت کو ان کے پاس لایا مگر چونکہ وہ صداقت پسند کا ن نہ رکھتے تھے۔ لہذا صداقت کی میٹھی آواز کی شیرینی کا حظ نہ اٹھا سکے۔ وہ ایسی بےھ داغ پاکیزگی ان کے پاس لایا جو برف سے سفید اور اُون سے اجلی تھی۔ جس کے دیکھنے کی تاب فرشتے نہیں رکھتے تھے۔ پر ان کے دل اسے دیکھ کر ملائم نہ ہوئے۔ اس نے ان کے پاس آکر الٰہی رحمت اورمحبت کے چہرے سے نقاب اٹھا دیا۔ مگر ان کو رچشموں نے اس کے حسن تقدس کو ذرا محسوس نہ کیا۔ ہم ایسے لوگوں کی روش کوان کی افسوسناگ بدقسمتی تصور کر سکتے ہیں۔ لیکن شاید زیادہ بہتر یہ ہے۔ کہ ہم اسے خطرناک جرم سمجھ کر اس سے ڈریں اور اپنے دلوں میں کا پنیں۔ جس قدر لوگ شرارت میں پختہ کار ہو تا ہے۔ جس قدر کسی قوم کے گناہ بڑھتے جاتے ہیں۔ اور صدی بصدی میراث کے طور پر آنے والی نسلوں کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ اسی قدر یہ یقین بڑھتا جاتا ہے۔ کہ یہ ہولناک حالت انجام کار کسی عظیم قومی جرم یا ناگریز قومی حادثے پر ختم ہو گی۔ اب جب وہ ناگریز حادثہ سر زد ہو جائے تب اسے نہ صرف قابل رحم سانحہ گرد اننا چاہےے بلکہ خدا کے پاک اور غیرت مند غضب کا موجب بھی سمجھنا چاہے۔
جن باتوں کی سبب سے ان کی مخالفت شروع ہی سے اپنا جو ہر دکھانے لگ گئی ان میں ایک یہ تھی۔ کہ وہ ایک غریب خاندان میں پیداہوا۔ ان کی آنکھوں اہل دنیا اور ارباب علم و فضل کے تعصبات کے پردہ میں تھیں۔ لہذا وہ مرتبے اور تہذیب کی عارضی صفات سے جدا روح کے اصل جو ہر کی جھلک کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ وہ ان کی نظر میں عام آدمی تھا۔ بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ اور بد تہذیب اور شیر یر لوگوں کے ملک گلیل میں پیدا ہو اتھا۔ اس نے یروشلیم کے مشہور مدارس میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ سب نبیوں اور بالخصوص مسیح کی یروشلیم میں پیدا ہونا چاہےے اور یروشلیم میں آکر تہذیب اور مذہب کے بڑے بڑے مرکزوں میں پرورش پانا اور ان اشیا ءسے جو قوم میں ممتاز اور قابل قدر سمجھی جاتی ہیں۔ رسوخ پیدا کرنا چاہے۔
اور اسی طرح وہ شاگرد جو اس نے چنے اور وہ سنگت جو اس نے اختیار کی ان کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوئی۔ جن لوگوں کو اس نے کام کے لئے چنا وہ ان میں سے نہ تھے۔ انہیں نہ اپنی حکمت کا فخر اور نہ اپنے خاندان پر ناز تھا۔ بلکہ وہ کم علم لوگوںمیں سے تھے۔جن کا پیشہ ماہی گیرتھا۔ ان میں سے ایک محصول لینے والا بھی تھا۔ شاید یسوع کے کسی اور فعل سے ان لوگوں کواتنی چوٹ نہیں لگی جتنی محصول لینے والے متی کے انتخاب سے لگی۔ محصول لینے والے جو غیرقوم حاکموں کے نوکر ہوا کرتے تھے۔ بہ سبب اپنے کام اور ظلم اور سیرت کے حقیر سمجھے جاتے تھے۔جو لوگ حب الوطنی کی صفت رکھتے تھے۔ اور مال و عزت سے مالامال ہوتے تھے۔ وہ انہیں بالکل خاطر میں نہ لاتے تھے۔ پس خدا وند یسوع کب یہ تو قع رکھ سکتا تھا۔ کہ ذی عزت اورذی علم اشخاص ان لوگوں کے حلقے میں داخل ہوں جو اس کے ارد گرد جمع تھے۔ علاوہ بریں وہ سب ذیل لوگوں سے پڑی آزادی کے ساتھ ملتا جلتا تھا۔ مثلاً محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے پاس اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس مسیحی زمانہ میں ہم زیادہ تر انہیں باتوں کے لئے اس اس پر فدا ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں۔ کہ اگر وہ واقعی نجات دینے کو آیا تھا۔تو یہ لازمی امر تھا کہ وہ زیادہ تر ایسے لوگوں کی سنگت میں پایا جائے جن کو نجات کی زیادہ تر ضرورت تھی۔ ہم جانتے ہیں۔ کہ اس کو یہ یقین تھا کہ ان کھوئے ہووں کے درمیان بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خاص حالات کے سبب سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے قصدا ً گناہ آلود زندگی کو اپنے لئے نہیں چنا اور اگر میں محبت کی مقناطیسی کشش کو اس کوڑے کرکٹ کے درمیان کام میں پاک طینت اور عالی نسب لوگوں نے بھی اس کے نقش قدم پر چلنا سیکھ لیا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے نمونے کے مطابق گناہ اور ضلالت کے گندے گندے طبقوں میں اترتے ہیں تاکہ کھوئے ہوو ¿ں کو ڈھونڈیں اور بچائیں۔ لیکن اس کے آنے تک اس قسم کے خیالات دنیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پس وہ گنہگار جو تہذیب و تعظیم کے دائرے سے باہرتھے۔ حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھے اور سوسائٹی کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ اور کوئی ان کے بچانے کی کوشش نہ کرتاتھا۔ بلکہ برعکس اس کے یہ دیکھا جاتا تھا۔ کہ جو لوگ دین داری میں نام پیدا کرنا چاہتے تھے۔وہ ان سے بالکل الگ رہتے تھے۔ مثلاً شمعون ، فریسی کو جو مسیح کا میزبان تھا پکا یقین تھا۔ کہ مسیح بنی نہیں اگر ہوتا تو فوراً جان لیتا کہ جس عورت نے مجھے چھوا ہے۔ وہ گنہگار ہے اور فوراً اسے دھمکا کر دور کر دیتا۔ جو سال شمعون فریسی کا تھا وہی سارے زمانے کا تھا۔پھر بھی اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جب مسیح نئی حالت کو دنیا میں لایااور جس وقت اس نے اس کا جلوہ انہیں دکھا یا تب چاہےے تھا۔ کہ وہ نئے اصول کو پہچان لیتے اور اگر ان کے دل سخت اور ظلم سے معمور نہ ہوتے تو وہ اس الٰہی طرز کی انسانیت کے کشف کو آگے بڑھ کر قبول کرتے۔ لازم تھا ، کہ وہ گناہگاروں کو اپنے گناہوں سے تائب ہوتے اور بد چلن عورتوں کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی پر آنسو بہاتے اور زکائی جیسے لالچی اشخاص کو سرگرم دیندار اور کشادہ دل ضیاض بنتے دیکھ کر خوش ہوتے مگر وہ خوش نہ ہوئے بلکہ اس کے اسی رحم کے باعث اس سے متنفر ہو گئے اور اسے محصول لینے والوں اور گناہگاورں کا دوست کہنے لگ گئے۔
تیسر ی وجہ ان کی مخالفت کی یہ تھی کہ وہ بعض بعض رسومات (مثلاً روزہ رکھنے اور کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے وغیرہ )پر نہ خود عمل کر تا تھا اورنہ اپنے شاگردوں کو عمل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ حالانکہ یہی باتیں اس زمانے میں دینداری کا نشان سمجھی جاتی تھیں۔ اس بات کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ کہ کس طرح یہ رسوم وجودمیں آئیں۔ یہ سب رسمیں ایک سر گرمی کے زمانہ میں پیدا ہوئیں۔ اور اس غرض سے کہ ان کے وسیلے سے یہودی قوم کی خصوصیتیں قائم رہیں۔اور وہ غیر قوموں کے ساتھ ملنے نہ پائیں۔ بلکہ ان میں اور دوسری قوموں میں نمایاں طرق نظر ائے۔ اصل مقصد تو درست تھا مگر اس کا نتیجہ افسوسنا ک ہوا۔لوگ بہت جلد بھول گئے کہ یہ رسمیں انسان کی ایجاد ہیں اور یہ ماننے لگ گئے کہ وہ خداکی طرف سے ہیں اور ان کا ماننا ہم پر فرض ہے۔ ان کا شمار رفتہ رفتہ بڑھتا گیا حتیٰ کہ روز مرہ زندگی میںکوئی فعل اور کوئی حرکت ایسی نہ تھی جس پر ان رسموں کا کچھ نہ کچھ اثر نہ پڑتاتھا۔ بہت سے لوگوں نے ان رسموں کو سچی دینداری اور اخلاق کی جگہ دے رکھی تھی۔ مگر روشن ضمیر لوگوں کے لئے یہ فضول رسمیںبڑے بوجھ کا باعث تھیں۔ کیونکہ ہر وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میںبھی اندیشہ ہوتا تھا۔ کہ کہیں کوئی رسم ٹوٹ نہ جائے۔ کوئی شخص ان کے جائز ہونے پر شک نہ لاتا تھا۔ اور بڑی خبر دار ی کے ساتھ ان کو بجا لانا دین داری کا تمغہ سمجھا جاتا تھا۔ پر یسو ع ان رسموں کو اس زمانے کی خرابیوں میں شمار کرتا تھا۔ لہذا وہ ان کی پابندی کا قائل نہ تھا۔ اور نہ دوسروں کوان کا غلام بننے کی اصلاح دیتا تھا۔ وہ لوگوں کو ان کی پابندی کے عوض میں انصاف اور رحم اور ایمان کے سچے اصول کی طرف متوجہ ہونے کی تاکید کرتا تھا۔ اور یہ لیاقت ان میں پیدا کر نا چاہتا تھا۔ کہ وہ ضمیر کی عظمت کو پہچاننا اور شریعت کی گہری باتوں اور روحانی معنو ں کو جاننا سیکھ جائیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ لوگ اسے بے دین اور گمراہ کرنے والا کہنے لگ گئے۔
اس میں اور مذہبی استادوں میں جو نااتفاقی پائی جاتی تھی۔ وہ سبت کے متعلق بڑے شور سے ظاہر ہوئی۔ سبت کے روز کے متعلق ان کے تجویز کئے ہوئے اوامر و نواہی اس حدتک پہنچ گئے تھے۔ کہ آرام اور خوشی اور برکت کا دن ایسا ناگوار ہو گیا تھا۔ کہ لوگ اس تنگ آ گئے تھے ، مسیح اکثر سبت کے روز بیماروں کو چنگا کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ ایسے کاموں کے چوتھے حکم کے برخلاف سمجھتے تھے۔ اس نے بار بار ان کے اعتراضوں کی غلطی فاش کی یا یوں کہیں کہ سبت کے حقیقی مطلب اور مقصد کو کئی طرح سے ظاہر فرمایا کہ وہ آدمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی اس کے لئے ، اور اس کے ثبوت میں پرانے مقدسوں کی نظیریں پیش کیں۔ اور ان کے دستورات کو جو سبت کے روز عمل میں آتے تھے۔ ان کے سامنے رکھا مگر وہ قائل نہ ہوئے اور چونکہ وہ باوجود ان کے اعتراض کے بیماروں کو سبت کے دن چنگا کرتا رہا اس لئے وہ ہمیشہ اس سے عداوت رکھتے تھے۔
اب ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ جو لوگ اس کی نسبتگ اس قسم کے ناقص اور کمینے خیالات اپنے دل میں رکھتے تھے۔ وہ کب اس کے اعلیٰ قسم کے دعوے سننے کو تیار ہو سکتے تھے۔ مثلاً جب اس نے یہ بتایا کہ میں مسیح موعود ہوں، میںگناہوں کو معاف کر سکتا ہوں اور جب اس نے ازلی رشتے کی جو وہ باپ سے رکھتا تھا۔ ان کو خبر دی تو وہ اس کے شنوا نہ ہوئے بلکہ الٹے اس کے مخالف ہو گئے ، اور ان باتوں کو کفر گوئی سمجھ کر اس کا منہ کرنے کے درپے ہوئے۔
ممکن ہے کہ ہم یہ سوچ کر اپنے دل میں حیران ہوں کہ کیا اس کے معجزوںنے بھی اسن کو قائل نہ کیا۔ اگر واقعی اس نے وہ عظیم اور اور بے شمار معجزات دکھائے جو اس سے منسوب کئے جاتے ہیںتو پھر کس طرح انہوں نے اس کے خدا کی طرف ہونے کی اس اعلیٰ گواہی کو رد کیا ؟ وہ بحث جو جو سنہیڈروم کے ممبروں اور جنم کے اندھے کے درمیان واقع ہوئی جس کا بیان یوحنا کی انجیل کے نویں باب میں پایا جانا ظاہر کر تی ہے۔ کہ اس قسم کی شہادت بڑے شدو مد کے ساتھ ان کے روبرو دلائجی جاتی تھی۔ لیکن وہ ایک نامعقول سے جواب سے اپنی خاطر جمعی کر لیا کرتے تھے۔ واضح وہ کہ یہودیوں کے درمیان معجزات کسی شخص کے حق میں خد ا کی طرف سے ہونے کا کامل ثبوت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ ، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ جھوٹے بنی بھی معجزات دکھا سکتے ہیں۔ اور نہ صرف خد اکی قدرت بلکہ شیطانی طاقت بھی معجزے دکھا سکتی ہے۔ پس مسیح کے معجزوں کی سچائی کا فیصلہ ان کی رائے میں دیگر دلائل پر مبنی تھا۔ اور ان دیگر دلائل کی بنا پر وہ مدت سے فیصلہ کر چکے تھے۔ کہ ان کا دکھانے والا خدا کی طرف سے نہیں۔ پس وہ کہتے تھے، کہ اس کے معجزے تاریکی کی قوتوں کی مدد سے وجود میں آتے ہیں۔ مسیح نے اس کفر آمیز الزام کا مقابلہ بار ہا زبردست دلیلوں کے ساتھ کیا اور ان کو لا جواب کر دیا مگر اس کے مخالف اپنے آپ کو محفو ظ سمجھتے رہے۔
وہ ابتداءہی سے اپنے مخالفانہ فیصلے پر جم گئے تھے۔ اور س لئے وہ کبھی مسیح سے متفق نہ ہوئے۔ ابھی اس نے پہلے سال یہودیہ میں اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ وہ اس کی مخالفت پر امادہ ہو گئے اور جب ان کو یہ خبر ملی کہ وہ گلیل میں کامیاب ہو رہاہے۔تو گھبرا گئے اور یروشلیم سے اپنے گماشتے روانہ کئے تاکہ جابجا ان کے معتقدوں کی مددسے یسوع کے کام کی بیخ کنی کریں۔ جو سال اس کی خوشی کا سال تھااس میں بھی اس باربار ان کا مقابلہ کرنا پڑا۔ پہلے پہل وہ ان کے ساتھ بڑی امید رکھتا تھا مگر تھوڑے عرصے بعد بخوبی ظاہر ہو گیا کہ یہ امید کبھی بر نہ آئے گی۔ پس اس نے ان کی مخالفت کو ایک ضروری بات کے طور پر سمجھ کر قبول کیا۔ ان کے بے بنیاد دعووں کی بطالت کو لوگوں پر آشکار ا کیا۔ اور اپنے شاگردوں کو ان کے خمیر سے بچنے کی تاکید کی مگر یہ لوگ بھی لوگوں کے دلوں میں کانٹے بو رہے تھے۔ اور جو بیج مخالفت اور دشمنی کا انہوں نے بویا وہ کثرت سے پھل لایا چنانچہ جب سال کے خاتمہ پر اس کی ہر دلعزیزی میں ضعف آنے لگا ، تو وہ زیادہ دلیری سے اس کی مخالفت کرنے لگے۔
اسی طرح انہوں نے صدوقیوں اور ہر و دیوں کے ٹھنڈے دلوں میںبھی کسی قدر آگ بھر دی۔ شاید ان کو یہ کہا ہو گا۔ کہ یسوع بغاوت کے سامان تیار کر رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے آقا ہیرودیس سے تخت و تاج جاتا رہے گا۔ وہ دُون ہمت اور بدچلن بادشاہ خود اس کے لہو کا پیاسا تھا ، پروہ اور ہی باتوں کی وجہ سے اس سے خائف ہو رہا تھا۔ قریباً انہیں ایاّم میں اس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کیا تھا۔ یہ جرم صفحہ تاریخ پر اپنا ثانی نہیں رکھتا اور اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ گناہ کا نتیجہ گناہ ہوتا ہے۔ اور کہ جب کوئی کینہ در عور ت بدلہ لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ تو لے کر ہی چھوڑتی ہے۔ اس سخت اور گھناو نے جرم کے بعد ہیرودیس کے مصاحبوں نے اس کو ان پولٹیکل تجویزوں کی خبر دی۔ جو ان کے زعم میں یسوع برپا کر رہا تھا۔ پر جب ہیرودیس نے اس نئے بنی کی خبر سنی تو ایک ہولناک خیال اس کے مجرم ضمیر کو حرکت میں لانے کا باعث ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے۔ جس کو میں نے قتل کیا تھا۔ وہ اب مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ گو یہ خواہش شیر ببر کی تھی جو برّے کو اپنا شکار کرنا چاہتی تھی۔ مگر یسوع نے کبھی اس کی دعوت قبول نہ کی اور ناممکن نہیں کہ اسی سبب سے ہیرودیس اپنے اراکین کی باتوں کو اور بھی توجہ سے سنتا اور اسے خطر ناک آدمی سمجھ کر گرفتار کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ اس کے مارنے کے درپے ہوا۔ اب یسوع کو اپنے تیئں اس کے چنگل سے بچانا پڑا اور اس میں شک نہیں کہ اس بات نے دیگر بڑ ی بڑی باتوں کے ساتھ مل کر پچھلے چھ ماہ کے لئے جو خداوند نے گلیل میں کاٹے ، اس کے طرز عمل کو بالکل بدل دیا۔
کچھ عرصہ سے تو ایسا معلوم ہونے لگا تھا۔ کہ خداوند مسیح نے جو اثر عام لوگوں پر ڈال رکھا ہے وہ رفتہ رفتہ اس قدر زور پکڑ جائیگا۔ کہ بڑے بڑے عالی رتبہ اور فاضل لوگ بھی اس کے مطیع ہو جائیں گے۔ کیونکہ بار ہا ایسا اتفاق ہوا ہے۔ کہ جس تحریک کو شروع میں ذی اقتدار اور با اختیار بزرگوں نے ٹھٹھوں میںاڑایا آخر کار وہی عام لوگوں کے دلوں میں گھرکرکے اور ان کی سرگر م امداد سے مضبوط ہو کر اعلیٰ درجہ کے کے لوگوں پر غالب آئی اور عزت اور مقدرت کے مرکزوں میں تسلیم کی گئی۔ قومی قبولیت میں ایک درجہ ہوتا ہے اور جب کوئی تحریک اس درجہ یاحد تک پہنچ جاتی ہے۔ تو سیلاب کی مانند پرُ زور ہو جاتی ہے۔ پھر کوئی تعصب یا حاکمانہ مخالفت اس کی روانی کو روک نہیں سکتی۔ یسوع گلیل کے عام لوگوں کے ساتھ بے تکلف ملتا جلتا تھا۔ اور وہ بھی اس کے ساتھ محبت اور تعظیم سے پیش آتے تھے۔ وہ اسے فریسیوں اور فقیہوں کی طرح کھاو ¿ اور شرابی نہیں کہتے تھے۔ بلکہ اس کی رسالت کے قائل تھے۔ وہ اسے گذشتہ زمانوں کے بڑ ے بڑے انبیاءکے برابر جانتے تھے۔ اور جو لوگ اس کی عظمت کو کسی قدر زیادہ صفائی سے دیکھتے یا اس کی رقت انگیز تعلیم کی خوبیوں کو زیادہ محسوس کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ وہ یا تو یسعیاہ ہے یا یرمیاہ ہے ، لوگو ں کے درمیان یہ خیال مروج تھا کہ جب مسیح آئے گا۔ تو اس سے پہلے ایک بڑ ا بنی بر پا ہو گا۔ اور وہ بنی ان کے گمان کے مطابق ایلیا ہ تھا۔
پس بعضوں کا یہ خیال تھا۔ کہ یسوع ایلیاہ ہے یا یوں کہیں کہ لوگ اسے مسیح نہیںبلکہ مسیح کا پیشر و تصور کرتے تھے۔ اور اس کا سبب یہ تھا کہ جو تصورمسیح کا وہ باندھے بیٹھے تھے۔ اس کی بنیاد دنیوی شان و شوکت پر تھی اور یسوع کی ظاہری حیثیت اس تصور کے بالکل برخلاف تھی۔ البتہ بعض اوقات بڑے بڑے معجزات کو دیکھ کر کوئی ان میں سے یہ کہہ اٹھتا ہے ، کیا وہ مسیح نہیں ہے؟ مگر عموماً باوجود اس کے اور معجزات اور لاثانی تعلیمات کے وہ اس کو وہ مسیح نہیں مانتے تھے۔ جو ان کے ذہن پر نقش ہو رہا تھا۔ لہذا وہ لوگ پختہ اور عالم گیر طور پر اس کی مسیحائی کے قائل نہ تھے۔
آخر کار فیصلہ کی ساعت آ پہنچی۔ یہ وہی ساعت تھی جس کی طر ف بار ہا اشارہ ہو چکا ہے یعنی اس سال کا آخری حصہ جو اس نے گلیل میں کاٹا تھا۔ اس موقع پر ہمارا خداوند یوحنا بپتسمہ دینے والے کی شہادت کا حال سن کر شاگردوں کےساتھ بیابان کی طرف روانہ ہوا تاکہ وہاں جاکر اس افسوس ناک حادثہ پر غور کرکے اور اپنے جان نثاروں سے اس کے بارے میں ہم کلام ہو۔ پس وہ ایک کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے مشرقی کنارے کی جانب بڑھا اور کشتی سے بیت صیدا کے ہریالے میدان میںاترا ، اور پھر اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا ، لیکن بہت دیر نہ ہونے پائی تھی۔ کہ دامن کوہ میں لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا اور اس غرض سے کہ اس کےکلام اور اس کے دیدار سے مخطوظ ہوں، لوگ اس کی قیام گاہ سے آگاہ ہو کر ہر سمت سے امڈ آئے اور وہ جو کہ ہر قوت اوروں کے لئے اپنے آپ کو تصد ق کرنے کو تیار تھا۔ پہاڑ پر سے نیچے اتر آیا تا کہ انہیں تعلیم دے اور ان کے امراض کو دفع کرے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد آفتاب غروب ہو گیا۔ اب اس نے لوگوں کی بے کسی اور بے بسی پر ترس کھا کر وہ عظیم الشان معجزہ دکھا یا جس میں پانچہزار اشخاص کو سیرو آسودہ کیا۔ اس معجزے کا اثر بڑے زور کے ساتھ نمودار ہوا چنانچہ لوگوں نے خیال کیا کہ یہی مسیح موعود ہے۔ اور چونکہ مسیح کی مسیحائی کا ایک ہی تصور ان کے دل میں جما ہوا تھا۔ اس لئے اس تصور کے مطابق انہوں نے اسے جبراً اپنا بادشاہ بنا نا چاہا۔ یعنی وہ چاہتے تھے کہ وہ ایک بغاوت کا جو مسیح کانام میں برپا کی جائے سر غنہ بنے اور قیصر روم سے اور ان شہزادوں کے ہاتھ سے تاج و تخت چھین لے جنہیں قیصر نے مختلف صوبجات پر حکمران بنا دیا تھا۔
بظاہر معلوم ہوتا تھا ، کہ گویا وہ وقت آ گیا ہے، جس میں اس کی محنتوں کے سر پر کامیابی کا تاج رکھا جائے گا۔ لیکن یسوع کی نظر میں یہ وقت رنج اور ناکامیابی کا وقت تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا میری سال بھر کی محنت کا یہی نتیجہ ہوا؟ کیا لوگوں نے میری باتوں کو سن کر یہی خیال میری نسبت قائم کیا ؟ کیا انہوں نے یہی واجب سمجھا کہ مجھے سکھائیں کہ مجھے آئندہ کیا کر نا چاہےے اور نہ جانا کہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مجھ سے پوچھیں کہ انہیں کیا کرنا چاہےے ؟ اس ناموافق نتیجہ کو دیکھ کر اس نے جان لیا کہ میرے کام نے گلیل کے لوگوں پر جو اثر کیا اس کا ثبوت آج مجھ کو مل گیا ، وہ بہت گہرا اثر نہیں ہے۔ اور گلیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس قابل نہیں کہ میں اسے اپنا مرکز بنا کر اس سے اپنی بادشاہی کو باقی سر زمین میں پھیلاوں۔ پس و ہ ان کی نفسانی خواہشات کو دیکھ کر اس جگہ سے چل نکلا اور دوسرے دن کفر نحوم میں پھر ان سے ملا اور اس موقع پر ان کو بتایا کہ تم میری نسبت سخت غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ تم روٹیوں کے بادشاہ کی تلاش کرتے ہو تا کہ وہ تم کو بیکاری کے ساتھ مال کی فراوانی عطا کرے۔ روٹیوں کے ڈھیر لگائے۔ اور دودھ کی نہریں تمہارے لئے جاری کرے اور تم بے مشقت زندگی کا مزہ لوُٹو ، پر میں وہ بادشاہ نہیں ہوں۔ جو برکت میں اپنے بندوں کو عطا کرتا ہوں۔ وہ ہمیشہ کی زندگی کی روٹی ہے۔ لیکن اس کی یہ باتیں لوگو ںکے آتشی جو ش کے لئے ٹھنڈے پانی کاکام کر گئیں۔ چنانچہ اسی وقت سے اس کاکام گلیل میں نامرغوب ساہوگیا۔ اور لکھا ہے کہ ” اس پر اس کے شاگردوں میں سے بہت سے پھر گئے اور اس کے بعد اس کے ساتھ نہ رہے“۔ پر وہ خود یہی چاہتا تھا، یا یوں کہیں کہ اس نے اپنی ہر لعزیزی کی جڑ پر آپ کلہار ا مارا۔ اب اس وقت سے لے کر آئندہ اس نے اپنے تیئں ان چند اشخاص کی طرف متوجہ کیا جو اس کی حقیقت سے کسی قدر زیادہ واقف تھے اور روحانی باتوں کا زیادہ مذاق رکھتے تھے۔
اس کے کام کی صورت کا تبدیل ہو جانا اگرچہ اہل گلیل نے بہ حیثیت مجموعی اپنے آپ کو ناقابل ثابت کیا تو بھی ان میں ایک بقیہ موجود تھا۔ جو وفا دار نکلا ، اس بقیہ کا مرکز رسول تھے ، دیگر شاگردوں کی تعداد کئی سو تک پہنچ گئی تھی۔ یسوع اب خاص طور سے ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ جس وقت تمام گلیل نے اس کو رد کیا۔ اس وقت اس نے ان وفاداروں کو اس طرح بچا لیا۔ جس طرح کوئی جلتی ہوئی لکڑی کو بچا لیتا ہے۔لیکن ان کے لئے بھی یہ وقت ایک بڑی آزمائش کا قت تھا کیونکہ ان کے خیالات بھی بہت کچھ عام لوگوں کے خیالات تھے وہ بھی دنیاوی حشمت اور اور شوکت والے مسیح کا انتظار کر رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے تصور میں روحانی مطالب کو ملانا سیکھ گئے تھے۔ پر پھر بھی ابھی روحانی خیالات کے ساتھ روائتی اور دنیوی تو ہمات لگے ہوئے تھے۔ وہ بڑے ارمان اور حسرت سے کہتے ہو ں گے کہ یہ عجیب راز ہے۔ کہ یسوع اب تک شاہانہ تاج سے اپنے سرکو زیب نہیں دیتا۔ یہی خیال تھا ، جس نے بپتسمہ دینے والے یوحنا کو قید خانہ میں ایسا پریشان کیا کہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہوئے ، اور کہنے لگا کہ کیا یردن کے کنارے پر جو رویا مجھے نصیب ہوئی وہ کسی حقیقت کا نقشہ تھی یا محض سراب ؟ یہی بات سوچ کر اس نے یسوع کے پاس پیغام بھیجا اور دریافت کیا کہ تو مسیح ہے یا نہیں؟ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی موت مسیح کے شاگردوں کے لئے بڑی بے چینی کا باعث ہوئی ہو گی۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر مسیح فی الحقیقت ایسا قادر ہے جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں تو پھر اس نے کیوں اپنے دوست (یوحنا ) کو ایسی شرمناک موت سے مرنے دیا؟ اگر باوجود اس قسم کی سرگرداینوں کے وہ اس کا دامن پکڑے رہے اور جس بات کے سبب سے وہ اس سے چپٹے رہے وہ اس جواب سے عیاں ہے جو انہوں نے یسوع کو اس وقت دیا جب اس نے ان سے یہ سوال کیا کہ” کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو“؟انہوں نے کہا ”اے خداوند ! کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں“ ۔ اگرچہ ان کے خیالات صاف نہ تھے۔ اور وہ پریشانیوں اور سرگرداینوں کی تاریکی سے گھرے ہوئے تھے تو بھی اتنا ضرور جانتے تھے۔ کہ ہم اسی یسوع سے ہمیشہ کی زندگی پا رہے ہیں۔ اسی بات کے باعث وہ اس کے قدموں سے لگے رہے اور خوشی سے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ وہ خود ساری مشکلات کا حل کر دے گا۔
آخری چھ چاہ جو گلیل میں صرف ہوئے ان میں اس نے منادی کرنے اور معجزات دکھانے کا معمولی کام زیادہ تر بند کر دیا ور اپنی توجہ اپنے شاگردوں کو سکھانے کی طرف کی۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر ملک کے دور دور حصوں میں جا یا کرتا تھا۔ اور جہاں تک ہو سکتا تھا۔ شہرت سے بچتا تھا، چنانچہ ان دنوں وہ کبھی ہم کو شمال کی جانب صور اور صیدا میں ملتا ہے اور کبھی شمال مشرق میں قیصر یہ فلّپی کے علاقہ میں دکھائی دیتا ہے۔ اور کبھی دکپلس میں جھیل کے جنوب اور مشرق میں نظر آتا ہے۔ ان سفروں کا باعث کچھ تو فریسیوں کی مخالفت تھی۔ اور کچھ ہیرودیس کے کینے کا خیال۔ مگر زیادہ تر اپنے شاگردوں کے ساتھ اکیلا رہنا چاہتا تھا۔ ان گردشوں کا ایک بیش قیمت نتیجہ قیصر یہ فلّپی میں ظاہر ہوا۔ وہاں خداوند نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ لوگ میری نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟ انہوں نے لوگوں کے مختلف قیاس بیان کئے اور بتا یا کہ کوئی کہتا ہے کہ تو ایک بنی ہے۔ کوئی خیال کرتا ہے کہ تو ایلیا ہ ہے کہ اور بعضوں کا گمان ہے کہ تو یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے۔ اس پر اس نے ان سے پوچھا کہ ”تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں “۔ پطرس نے ان سب کے لئے جواب دیا اور کہا ”تو خداوند خدا کا بیٹا مسیح ہے “۔ اسی بات سے قائل ہو کر انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہی ہو ہم یسوع کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ یسوع نے ان کے اس اقرار کو بڑی شادمانی سے قبول کیا اور جان لیا کہ جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے۔ میں انہی میں سے وہ آئندہ کلیسیاءپیدا کروں گا۔ جو اسی صداقت پر مبنی ہو گی جسے شاگردوں نے اپنے اقرار کے وسیلے ظاہر کر دیا ہے۔
مگر اس فضیلت کو پہنچنا ان کے لئے گویا ایمان کی ایک نئی آزمائش کے لئے تیا ر ہونا تھا۔ چنانچہ ہم پڑھتے ہیںکہ اس وقت سے اس نے اپنے آنے والی تکلیفوں اور موت کی خبر دینی شروع کی۔ اس کی تکلیفیں اور موت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھیں۔ اور وہ جانتا تھا، کہ میرے کام کا انجام یہی ہے۔ اس بات کی طرف اس نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا تھا۔ مگر اس پُر محبت احتیاط کے ساتھ جس کے مطابق وہ ہمیشہ ان کی سمجھ کی سمائی کے مطابق ان کو تعلیم دیا کرتا تھا۔ یہ جاننا ضروری امر ہے کہ اس سے پہلے اس نے ان کے سامنے بار بار اپنے دکھوں اور موت کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا مگر اب وہ کچھ کچھ ان باتوں کو سننے اور برادشت کرنے کے لئے تیار تھے۔ اور چونکہ دکھ اور موت کا آنا لازم تھا ، اور وقت بھی بہت نزدیک آگیا تھا۔ اس لئے وہ بار بار ان کو اپنی مصیبتوں کی خبر دیتا رہا مگر وہ خود ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ اس کا مطلب اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے ہم وطنوں کی طرح ایک طرف تو وہ یہ مانتے تھے۔ کہ مسیح آتے ہی داود کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے۔ کہ یسوع ہی وہ مسیح ہے پس یسوع کا یروشلیم میںجا کر جان سے مارا جانا اور تخت پر نہ بیٹھنا ان کے لئے ایک معمہ سا تھا۔ وہ اس کے دکھوں کی باتوں کو سنتے اور آپس میں بحث کرتے تھے۔ لیکن ان کو ناممکن سمجھتے تھے۔ وہ خیال کرتے تھے ، کہ وہ اس معاملے میں بھی تمثیلی طرز پر کلام کر رہا ہے۔ جیسا کہ دیگر معاملات پر کیا کرتا ہے۔ اور کہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کی موجود ہ پست حالی ہوتی رہے گی۔ اور اس کاکام ایسے جلال اور فتح مندی کے ساتھ نئی صورت اختیار کر ے گا۔ کہ گویا مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ جو ں جوں اس کی موت اور دکھوں کا وقت نزدیک آتا جاتا تھا۔ وہ اسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ ان کو اپنے دکھوں کی کیفیت سے آگاہ کرتا جاتا تھا۔ تاکہ تمام غلط فہمیاں ان کے دل سے دور ہو جائیں مگر ان کے دل اس صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپس میں اکثر اس بات پر جھگڑا کرتے تھے۔ کہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے بڑ ا کون ہو گا۔ اور سلومی کی اس درخواست سے بھی کہ اس کی بادشاہی میںا س کے دونوں بیٹوں میںسے ایک اس کے دہنے اور دوسرا اس کے بائیں بیٹھے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اور جب وہ گلیل سے یروشلیم کی طرف روانہ ہوئے تو اسی خیال سے روانہ ہوئے کہ اب خدا کی بادشاہی نمودار ہو گی۔ اور یسوع دار الخلافہ میںپہنچ کر اس پستی کے لباس کو جواب تک پہنے سے پھینکے گا اور ہر قسم کی مخالفت کو اپنی قدرت سے مغلوب کرکے اپنے باپ دادا کے تخت پر بیٹھ جائے گا۔
اب ہم دیکھیں گے کہ یسوع خود اس سال میںکیا سوچتا تھا اور کیسے کیسے خیالات اس کے دل میں گزرتے تھے؟ اس کے لئے بھی یہ سال سخت آزمائش کا سال تھا۔ یہ پہلا مرتبہ تھا کہ اس کے چہرے پر فکر اور اندیشے کے آثار نمودار ہونے لگے۔ بارہ مہینے کے عرصے میں جو گلیل میں گزرا وہ اپنی ظاہر ی کامیابی کو دیکھ کر نہایت بشاش رہا کرتا تھا۔ پر اب حقیقت میںوہ مردغمناک بن گیا۔ جسب وہ پیچھے لوٹ کر دیکھتا تھا۔ تو اسے یہ با ت نظر آتی تھی کہ گلیل نے مجھے رد کر دیا ہے۔ اس ملک کے بنجر پن کر دیکھ کر جس پر اس نے اتنی محنت صرف کی جو غم اس کے دل میں پیدا ہوا اگر ہم اس کا تخمینہ لگانا چاہیں تو اس محبت کو دیکھنا چاہےے جس سے وہ ان روحوں کو پیار کرتا تھا جن کے بچانے کے لئے اپنے کام میں جان فشانی کے ساتھ مصروف تھا۔ اسی طرح جب آگے کی طرف دیکھتا تھا۔ تو ادھر بھی یہی نظر آتا تھا۔ کہ جب میں یروشلیم پہنچوںگا۔ تو وہاں بھی رد کیا جاو ¿ں گا۔ اس میں ذرا بھی شک نہ تھا۔ آئندہ کے بارے میں جب کوئی خیال اس کے دل میںآتا تھا۔ تو اس کے ساتھ ہی اس واقعہ کا خیال بھی اس کی آنکھوں کے سامنے بڑی صفائی کے ساتھ موجود ہو جاتا تھا۔ اس کا خیال اس وقت اسی بات کی طرف لگا ہواتھا۔ کہ یہ آنے والا واقعہ نہایت سخت واقعہ تھا۔ اور چونکہ وہ نزدیک آتا جاتا تھا اس لئے کبھی کبھی ایسی کش مکش اس کے دل میں بر پا ہوتی تھی کہ ہم اس کی تصویر کھینچنے کی جرات نہیں کر سکتے۔
ان دنوں وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ دعا میںصرف کیا کرتا تھا دعا میں لگے رہنا ہمیشہ اس کی خوشی اور تقویت کا باعث تھا چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ جب وہ اپنے کام میںبہت مصروف ہوتا تھا۔ اور شام کے وقت دن بھر کی محنت سے ایسا چور چور ہو جاتا تھا۔ کہ تکان کے مارے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ تو اس وقت بھی لوگوں سے اور اپنے شاگردوں سے جدا ہو کر اکیلا پہاڑ کی چوٹی پر چلا جاتا تھا۔ اور وہاں اپنے باپ کی صحبت میں پوری پوری رات صرف کر دیتا تھا۔ وہ کوئی بڑ اکام دعا کے بغیر نہیں کیا کرتا تھا۔ لیکن آگے سے بھی کہیں زیادہ دعا میں لگا رہتا تھا۔ اور اپنا مقدمہ خدا کے حضور آنسو بہا رکر پیش کیا کرتا تھا۔ اس کی دعاوں کا جوا ب ایک عظیم الشان صور ت میں اس وقت اس کو ملا جبکہ اس کی صورت پہاڑ پر تبدیل ہوئی۔ یہ پرُ جلا ل نظارہ مخالفت کے سال کے وسط میں گلیل چھوڑ نے اور یروشلیم کی طرف روانہ ہونے سے جہاں وہ دشمنوں کے فتوے کا نشانہ بنا ذرا پہے عیاں ہوا۔ اس عجیب اور جلالی واقعہ کا مقصد کچھ تو یہ تھا کہ اس کے تین شاگردوں کا ایمان اس کے وسیلے سے مضبوط ہو تا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لائق بن جائیں اور کچھ یہ کہ خود اس کے دل کو تسلی ملے۔ گویا اس کی صورت کا تبدیل ہونا اس کے باپ کی طرف سے اس کے لئے ایک انعام تھا۔ خدا نے اس نظار ے کے ذریعے سے اس کی وفاداری کو جو اب تک اس سے ظاہر ہوئی اعلانیہ قبول کیا اور اس کو اس باقی کام کے لئے جو اسے ابھی کرنا تھا۔ تیاری اور تقویت بخشی۔ اس موقعہ پر اس نے اپنی صلیبی موت کے بارے میں مو سیٰ اور ایلیاہ سے گفتگو کی جو اس کے ساتھ پوری ہمددری کر سکتے تھے۔ اور جن کا کام اس کی موت سے پورا اور مکمل ہونے کو تھا۔
گلیل کو چھوڑ کر یسوع یروشلیم کی طرف روانہ ہوا اور راستے کو طے کرنے میں چھ مہینے لگے۔ اس دراز عرصے کی وجہ یہ تھی۔ کہ اسے بادشاہی کی منادی تمام ملک میںکرنی تھی۔ یہ کام اس کے کل کا م کا ایک ضروری حصہ تھا۔ اور اس نے اسے خوب انجام دیا ، پہلے اپنے شاگردوں میں سے چالیس کو بھیجا کہ وہ جا کر گاوں اور شہروں کو اس کے لئے تیار کریں اور جب خود روانہ ہوا تو پھر وہی نظارے ظہور میںآئے جو گلیل میں رونما ہوئے تھے۔ اسی طرح لوگوں کی بھیڑ اس کے پیچھے پیچھے چلتی تھی۔ اور اسی طرح معجزے وقوع میں آتے تھے۔ مگر چونکہ اس عرصہ کے مفصل حالات قلمبند نہیں ہوئے اس لئے ہم قدم بقدم اس کی پیروی نہیں کر سکتے تو بھی ہم اسے سامریہ ، پیریہ ، یردن کے کناروں اور بیت عنیا اور افرائیم کے گاوں میں کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں تاہم یروشلیم ہی وہ منزل مقصود تھی جس کی طرف وہ رفتہ رفتہ بڑ ھ رہا تھا۔ اس شہر میں جو کچھ اس پر واقعہ ہونے والا تھا۔ اس کے خیال میںوہ اس قدر محو تھا، کہ کبھی کبھی اس کے شاگرداس کی خاموشی اور تیز رفتاری کودیکھ کر حیران ہوتے اور ڈر جاتے تھے۔ گاہے گاہے خوشی اور فرحت بھی نمایا ں ہوتی تھی۔ جیسے اس وقت ہوئی جبکہ اس نے چھوٹے بچوں کو برکت دی یا جیسے بیت عنیا میں دوستوں کے گھر میں جانے سے ہوئی۔ پر ان دنوں عموماً اس کی طبیعت اور صورت سے ایسی فکر مندی عیا ں تھی۔ کہ پہلے کبھی اس درجہ تک ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ پس اس زمانہ میں جو گفتگو یا بحث اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان واقع ہوتی تھی وہ بھی پہلے کی نسبت زیادہ پرُ جوش ہو ا کرتی تھی۔ اور جو شرائط وہ ان کو جو اس کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت بتا یا کرتا تھا۔ وہ بھی پہلے کی نسبت زیادہ سخت ہوتی تھیں۔ غرضیکہ ہر بات سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ خاتمہ نزدیک آتا جاتا ہے۔ وہ اس وقت دنیا کے گناہ کے کفارہ کے خیال میں مستغرق تھا اور اس کام کے انجام پانے تک اس کی روح کو سخت دکھ میںگرفتار رہنا پڑا۔ یہ غمناک واقعہ نزدیک آتا جاتاتھا۔ ان چھ مہینوں کے عرصہ میں اس نے آخری بار سے پہلے دو فعہ یروشلیم میں قدم رکھ اور دنوں دفعہ صاحب اقتدار اشخاص نے سخت مخالفت کی۔ پہلی دفعہ وہ اس کے گرفتار کرنے کے درپے ہوئے اور دوسری دفعہ سنگ سار کرنے پر آمادہ ہو گئے اور یہ حکم اس سے بھی پہلے جاری کر چکے تھے کہ جو کوئی اسے مسیح کہے گا۔ وہ قوم سے خارج کیا جائے گا، پر جب لعاذر کے زندہ ہونے سے قومی دارالخلافہ کے دروازوں کے کے پاس عام لوگوں میں جوش وخروش کی روح پیدا ہوئی تو دین کے حاکموں نے دیکھا کہ اس کو جان سے مارنا ضروری ہے اور یہی فیصلہ انہوں نے اپنی کونسل میں کیا۔ یہ فیصلہ خاتمہ سے کوئی ایک یا دوماہ پہلے ہوا تھا۔ اور اس کے سبب سے کچھ عرصے کے لئے مسیح یروشلیم سے چلا گیا لیکن وہ صرف اسی وقت تک یروشلیم سے دور رہا جب تک کہ وہ گھڑی نہ آئی جو اس کے باپ نے اس کے لئے مقر ر کی تھی۔