دوسراباب

آغوش مادر اور خاموش تربیت

پیدائش ۔جس زمانہ میں مسیح پیدا ہو ا ان دنو ں قیصر اگستس روم کابادشاہ تھا اور روم کے تخت پر متمکن ہو نا گویا تمام مہذب دنیا کی عنان حکومت کو ہاتھ میں لا نا تھا ۔ پس یہ کہنا بے جانیں کہ اگستس ذرا سے اشارے سے تمام عالم کو تہ بالا کرسکتا تھا ۔ وہ اپنی دولت اور بے انتہا اختیار پر نازاں تھا اور چاہتا تھا کہ انہیں اور بھی رونق دے او ر اس آرزوکو پو را کرنے کے لئے وہ اس فکر میں تھا کہ اس آرزو کو پو را کرنے کے لئے وہ اس فکر میں تھا کہ ایک ایسا رجسڑ تیا رکیا جائے جس میں تمام ممالک [١]کی آبادی کوشمار اور آمدنی کی تفصیل درج ہو ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس نے وہ حکم جاری کیا جو مقدس لو قا کی انجیل میں اس طرح قلمبند ہے۔ ”ان دنوں میں ایسا ہو کہ قیصر اگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں “۔اس اسم نویسی یا مردم شماری کا مطلب یہ تھا کہ آیندہ اسی کے مطابق محصو ل اور جزیہ لیا جائے۔جن ممالک پر اس فرمان کی اطاعت فرض تھی ۔ ان میں سے ایک فلسطین تھاجس کا بادشاہردویس شہنشاہ روم کے با جگزاور ں میں شامل تھا ۔اس حکم سے تمام ملک میں ہل چل پڑگئی کیونکہ یہودیوں کا یہ قدیم دستور تھا کہ اسم نویسی کے وقت جہاں وہ رہا کرتے تھے وہاں اپنے نام نہیں لکھوایا کرتے تھے بلکہ ہر فرقہ کے لوگ اپنے نام لکھوانے کے لئے ان جگہوں کو چلے جانے تھے جو ان کے باپ دادوں سے علاقہ رکھتی تھیں ۔

جن لو گوں کو قیصر حکم مختلف جگہوں کو کھینچے لئے جاتا تھا ان میں یوسف اور مقدسہ مریم بھی شامل تھے یہ دونوں مقدسین ناصرت سے بیت لحم کی طرف روانہ ہوئے ۔ سو میل کا کھٹن سفر ان کے سامنے تھا تو بھی وہ اس سفر کو جو مشکلات اور تکلیفوں کے سبب سے دوزخ کا نمونہ تھا ، اختیار کرنے کو تیار تھے تا کہ اپنے شہر میں جا کر اصل رجسٹر میں اپنے نام درج کرائیں ۔گو اس وقت وہ تنگی کپنجہ میں گرفتار تھے اور ان کو سیدھی سادی وضع سے غریبی ٹپکتی تھی مگر بیت لحم کو جانا ظاہر کر رہا تھا اکہ شاہی خون ان کی رگوں میں حرکت کر رہا ہے ۔ بادشاہ کا حکم ان دونوں کودھکیلتے ہو ے ان کوا منزل مقصود کی طرف لئے جاتا تھا اور وہ دشوار گزار راستے کی سختیوں کا مقابلہ کرتے ہو ئے دن بدن آگے بڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک دن چٹانی چڑھائی طے کرکے اپنی منزل پرجا پہنچے ۔ مگر اس وقت یوسف طرح طرح کی فکروںمیں ڈوبا ہوا تھااور مریم تھکان کے مارے بے دم ہو ئی جاتی تھی اور جب سرائے[٢] میں داخل ہو ئے تو دیکھاوہ مسافروں سے پھری پڑی ہے اور ان مسافروں کو بھی وہی مقصد اس جگہ کھینچ لا یا تھا۔ جو یوسف اور مریم کے سفر کا موجب ہوا تھا۔ سرائے میں کہیں تل رکھنے کو جگہ نہ تھی ۔ اور نہ شہر میں کوئی ایسا دوست تھا جو آؤ بھگت کرتا اور نہ کوئی ایسا ہمدرد تھا جو ان مسافروں کے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھولتا اور دستر خوان بچھاتا ۔ آخر اس بے کسی اور بے بسی کی حالت میں اصطبل کے ایک گوشہ پر جہاں مسافروں کے گھوڑے اور خچر بندھے تھے۔ قناعت کی، اسی رات اور اسی جگہ مریم کا پہلو ٹھا بیٹا پیدا ہوا ۔ اب چونکہ نہ تو کوئی ایسی عورت پاس تھی جو اس مشکل وقت میں اس کی مدد کرتی اور نہ کوئی پلنگ یا کھٹولا موجود تھا۔ جس پر اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو لٹاتی لہذا اسے ،چیتھڑوں میں لپیٹ کر چرنی[٣] میں رکھ دیا۔ سٹاکر صاحب فرماتے ہیں کہ جب تک میں وسط جرمنی کے مشہور تجارتی شہرا ٓئس لیبن میں ، نہ گیا تب تک یہ عجیب سماں پور ے پورے طورپر میری سمجھ میں نہ آیا۔ جب میں آئس لیبن کی سرائے میں پہنچا تو میں نے اس کمرے کو دیکھا جہاں مارٹن لوتھر پیدا ہوا تھا۔ اس کے ماں باپ بھی کسی کام کے لئے یہاں آئے تھے ۔ اور وہ بھی تنگدستی کے چنگل میں گرفتار تھے اور جب یہ سرائے ایک بڑی بھیڑ سے پرُ اور شور و غوغا سے گونج رہی تھی۔ عین اس وقت وہ شخص پیدا ہوا جو یورپ کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے والا تھا۔

مسیح کی پیدائش کے بعد صبح کو سرائے میں پھر شور غل کا بازار گرم ہوا۔ بیت الحم کے باشندے حسب معمول پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے ، کوئی نہیں جانتا تھاکہ گزری رات ایک ایسی بات وقوع میں آئی ۔ جو تما م دنیا کی تاریخ میں بے نظیر ہے ہر ایک بچہ جواس دنیا میں آتا ہے۔ گویا راز سر بستہ کی طرح یا یو ں کہیں کہ بند ڈبیا کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں طرح طرح کے امکانات کے جواہر بند ہوتے ہیں۔ بے شک یوسف اور مریم اس بھید سے واقف تھے۔ اور جانتے تھے، اور جانتے تھے، کہ مریم جو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی اور ایک غریب نجار سے بیاہی گئی ہے ، اور اعزاز سے ممتاز کی گئی ہے۔ کہ اپنی قوم کے مسیح موعود اور دنیا کے نجات دہندہ کی اور جس کے اعتبار سے خدا کے بیٹے کی ماں کہلائے ۔

ایک قدیم نبوت کے مطابق اسے اسی جگہ پیدا ہونا تھا۔ وہ نبوت یہ تھی کہ اے بیت الحم افراتاً ہر چند کہ تو یہوداہ کے سرادروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے وہ شخص نکل کے مجھ پاس آئیگا۔ جو اسرائیل میں حاکم ہو گا۔ اگرچہ ان دو جانوں کو متکبر مزاج اگستس کا حکم بیت الحم کی جانب جو جنوب کی طرف واقع تھا۔ کھینچ لایا تھا ، تو بھی یہ یا د رکھنا چاہےے کہ ساتھ ہی ساتھ ایک اور ہاتھ بھی کام کررہا تھا۔ اور وہ ہاتھ اس کا تھا جو اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے شہنشاہوں اور بادشاہوں ، بڑے بڑے مدبروں اور پارلیمنٹوں کے ارادوں کو اپنے بس میں رکھتا ہے ۔ خواہ وہ اسے جانیں یا نہ جانیں۔ اسی نے فرعون کے دل کو سخت کیا ۔ اسی نے خور س کو غلام کی طرح اپنے قدموں میں بلایا ۔ اسی نے زاد اور بنوکدنضر کو اپنا چا کر بنایا ۔ پس وہ اس قابل تھا کہ اگستس کی حرص اور تکبر کو اپنے اغراض کے پورا کرنے کی خاطر اپنی حکمت کے مطابق کام میں لائے ۔

مختلف پرستار ۔اگرچہ مسیح نے بڑی پستی اور خاموشی سے زندگی کی سٹیج پر اپنا قدم رکھا۔ اگرچہ باشندگان بیت الحم نے نہ جانا کہ ہمارے درمیان کیسا عجیب واقعہ سرزد ہوا ہے۔ اگرچہ شنہشاہ روم اس بات سے بالکل بے خبر تھا۔ کہ باغ عالم میںایک نیا گل کھلا ہے۔ جس کی خوشبو سے تمام دنیا مہک اٹھے گی اور آج وہ بادشاہوں کا بادشاہ پیدا ہوا ہے۔ جو نہ صرف سلطنت روم پر حکمران ہو گا۔ بلکہ اس کی بادشاہی کا سکہ ان ممالک میں بھی رائج ہو گا جہاں رومی عقاب نے اب تک پر نہیں مارا ۔ اگرچہ بنی آدم کی تاریخ موجزن دریا کی طرح شور مچاتی ہوئی یعنی معمولی طرز پر جارہی تھی۔ اور اس نادر واقعہ سے جو سرزد ہو چکا تھا۔ نا آشنا تھی تو بھی کئی لوگ ایسے بھی تھے جو اس عجیب واقعہ سے واقف تھے جس طرح الیشبع کے رحم میں جب اس کے خداوند کی ماں اس کے نزدیک آئی تو لڑکا اچھل پڑا تھا۔ اسی طرح جب وہ جو نئی دنیا کو اپنے ساتھ لایا اور نمودار ہوا تو جا بجا پرانی دنیا میں جو اب مٹنے والی تھی۔ لوگوں کے درمیان آنے والے بادشاہ اور نجات دہندے کے متعلق طرح طرح کے نشانات اور خیالات پیدا ہوئے۔ چنانچہ جولوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے اور روحانی بینائی اور باطنی پاکیزگی کے سبب ان نشانات کو دیکھنے اور سمجھنے کی لیاقت رکھتے تھے۔ ان کے دل میں کچھ کچھ روشنی چمک اٹھی کہ جو آنے والا تھا وہ آگیا ہے۔

جن لوگوں نے سب سے پہلے اس بچہ کی زیارت کی اور اس کے سامنے سر بسجود ہوئے ۔ وہ چوپان تھے، جس بے مثال واقعہ سے عالیجاہ بادشاہ اور زمانے کے بڑے بڑے نامور لوگ بے خبر تھے۔ اہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ آسمانی شہزادے اس میں اس قدر محور اور مگن تھے کہ انہوں نے علوم غیب اٹھا ڈالے تاکہ اپنی خوشی کے جوش کو ظاہر کریں اور اس جلیل القدر واقعہ کا مطلب سمجھائیں۔ اور وہ جیسے لوگوں سے ملنا چاہتے تھے۔ ویسے لوگ ان کو مل گئے اور وہ گڈریے تھے جو گیان دھیان میں مصروف اور دعا و مناجات میں مشغول ہو کر ان کھیتوں میں اپنے گلے چرار ہے تھے۔ یہ لوگ یہودی تاریخ بعض عجیب واقعات کا مظہر ہونے کی وجہ سے روحانی حقیقتوں کے پھولوں کا گویا ایک گلدستہ بنے ہوئے تھے۔ جس میں سے تازہ تازہ خیالات خوشبو کی طرح اٹھتے تھے۔ انہیں کھیتوں میں یعقوب اپنی بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ یہیں روت ،بوعز کے نکاح میںآئی ۔ اسی جگہ داؤد نے جو عہد عتیق میں مسیح کا علامتی نمونہ تھا اپنی جوانی کے دن کاٹے تھے۔ سویہ گڈریے ان یاد گاروں کے مرکز میں اپنے دل کی مخفی ضرورتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے آنے والے نجات دہندے کے بارے میں تازہ سبق لے رہے تھے۔ اس علم میں ان کے کی لیاقت ان فریسیوں پر سبقت لے گئی تھی۔ جو ہیکل کی شاندار عبادت میں اپنی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ اور نہ ہی وہ فقیہ اس امر میں ان کے ہم پلہ تھے جو پرانے عہد نامے کی نبوتوں کی ورق گردانی تو کیا کرتے تھے۔ مگر اس عمیق بحر میں جو موتی چھپا ہوا تھا اس کے دیکھنے کی آنکھ نہ رکھتے تھے۔ فرشتے ان گڈریوں کو بتایا کہ دنیا کا نجات دہندہ چرنی میں پڑا ہے۔ اور وہ یہ خبر پاتے ہی فی الفور اس طرف روانہ ہوئے تاکہ اس کے دیدار سے آنکھیں روشن کریں۔ ان گڈریوں کو ان مفلس اور غریب لوگوں کے نمائندے سے سمجھنا چاہےے جو کچھ عرصہ کے بعد بکثرت اس کے پیرو ہوئے۔

گڈریوں کے بعد شمعون ، اور اناّآئے جنہیں ان لوگوں کے نمائندے سمجھنا چاہےے جو مقدس نوشتوں کو بڑے عجز و شوق سے پڑھا کرتے اور ان کے معانی کو بھی سمجھتے تھے۔ ان دنوں اس قسم کے لوگ مسیح کے ظہور کے منتظر تھے اور ان میں سے کئی ایک نے بعد میں اس کی پیروی اختیار کی اور اس کے وفا دار اور جان نثار شاگرد بنے۔ پیدائش سے آٹھ روز بعد معمول کے مطابق اس کا ختنہ کیا گیااور اس طرح شریعت کے تابع اور عہد میں شامل اور اپنا نام اپنے خون سے لکھ کر اپنی قوم کے شمار میں داخل ہوا اور جب تھوڑی مدت بعد مریم کی طہارت کے ایاّم پورے ہوئے تو مسیح کو بیت الحم سے یروشلیم میں لائے تا کہ ہیکل میں خدا کے حضور نذر کریں۔ یہ کیسا عجیب سماں تھا ۔ گویا اس وقت ہیکل کا خداوند ، خداوند کی ہیکل میں داخل ہو رہا تھا۔ کاہنوں نے شاید کبھی کسی زائر کو ایسی کم التفاتی سے نہ دیکھا ہو گا جیسا مریم اس کے بچے کو دیکھا ،کیونکہ مریم اپنے ساتھ وہ قربانی نہیں لائی تھی جو عموماً ایسا موقعو ں پر چڑھا ئی جاتی تھی۔ وہ فقط قمر یوں کا ایک جو ڑ ا الائی تھی جو کنگالوں کی قربانی سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ ہیکل کے کار گذاروں نے اسے نہ پہچانا پر بعض اہل بصیرت نے جن کی آنکھوں پر اس گندم نما جو فروش کے چمکیلے نظاروں کی جھلک سے چکا چوندی کا پردہ نہیں چھا یا تھا اسے پہچان لیا۔ تنگ دستی کا پردہ ان سے اس کے جلال کو نہیں چھپا سکتا تھا۔ ان اہل نظرمیں سے ایک شمعون تھا جس نے اپنی بے شما ر دعاوؤں کے جواب میں یہ وعدہ پایا تھا۔ کہ جب تک وہ مسیح کو نہ دیکھ لے تب تک اس دنیا ئے فانی سے کوچ نہ کریگا۔ اور جب اس نے مریم اور اس کے بچے کو دیکھا توفوراًیہ خیال بجلی کی طرح اس کے دل میں سے گزر گیا کہ یہی بچہ وہ نجات دہندہ ہے جس کےے اشتیاق دیدار میں مدت سے چشم براہ ہوں۔ اس نے اسے اپنی گود میں لیا اور غیر قوموں کے نور اور اسرائیل کے جلا ل کو دیکھ کر خدا کا لشکر ادا کیا۔ وہ اپنا کلام ہنوز ختم نہ کرنے پایا تھا۔ کہ ایک اور گواہ ان موجود ہوا۔ یہ ایک خدا پرست بیوہ تھی جس کا نام اناّ تھا۔ جو مدت سے ہیکل ہی میں رہا کرتی تھی۔ اس کی آنکھیں دعا اور دروزاے کے سرمہ سے ایسی صاف ہو گئی تھی۔ کہ اس کی نظر ظاہری صورت کو دیکھنے سے اندرونی حقیقت کی تہ تک بآسانی پہنچ سکتی تھی۔ اس نے بوڑھے شمعون کی گواہی کی تائید کی اور س راز سے دیگر بند گان خدا کو جو اسرائیل کی نجات کی انتظاری میں تھے۔ آگاہ کیا، اب یہ چرواے اور یہ عمر رسیدہ مقدس تو اس جگہ کے نزدیک ہی رہا کرتے تھے۔ جہاں یہ نئی طاقت دنیا میں داخل ہوئی مگر اس عجیب واقعہ نے دور دراز ممالک میںبھی اثر پذیر دلو ں پر عکس جا ڈالا ۔ جب مجوسی اسے دیکھنے آئے تو اس وقت غالباً وہ ہیکل میں جا چکا تھا۔ اور اس کے ماں باپ اسے بیت الحم کو واپس لے گئے تھے۔ تاکہ وہیں بودوباش اختیار کریں اور ناصرت کو واپس نہ جائیں۔ یہ مجوسی ان ممالک کے رہنے والے تھے۔ وہ گویا گنجینہ علوم کے محافظ تھے جس میں سائنس اور فلسفہ اور طب شامل تھے اور دینی رازوں کے خزانوں کی کنجیاں بھی انہیں کے سپرد تھیں۔ ٹے سیٹس اور سوٹائینس اور یوسیفس جیسے نامور مورخ بتاتے ہیں کہ جن ممالک سے یہ لوگ آئے تھے۔ وہاں ان دنوں اس بات کا انتظار عالمگیر تھا کہ ملک یہودیہ میں ایک بادشاہ پیدا ہونے والا ہے اور ہمیں قابل منجم کپلر کے حساب سے معلوم ہواہے۔ کہ انہیں ایاّم میں سطح آسمان پر ایک چند روزہ مگر نہایت چمکتا ہوا ستارہ[٤] نمودار ہواتھا۔ اب یہ ، مجوسی علم نجوم کے بڑے شائق تھے۔ اور مانتے تھے، کہ غیر معمولی اظہار جو سطح آسمان پر نمودار ہوتا ہے۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سطح زمین پر بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو گا۔ پس ممکن ہے کہ انہوں نے اس ستارے کو جس کی طرف ان کی توجہ ہوئی ہو گی اور اس عالمگیر انتظار کو جو ان کے ممالک میں پایا جاتا تھا۔ کہ پہلو یہ رکھ کر زیادہ جوش حاصل کیا ہو کہ چلیں اور چل کر دیکھیں ، کہ جس بات کی انتظاری میںبے قراری ہو رہی ہے۔ وہ ابھی پوری ہوئی ہے یا نہیں ، ناممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ہی اپنی ذاتی محتاجی اور بے کسی کو بھی پہچانا ہو اور آسودگی کی خبر عالم غیب سے پائی ہو ۔ پس ممکن ہے کہ گو ان کی تلاش کا آغاز محض ایک علمی شوق اور تصور پر مبنی ہو سکتا ہے۔ تو بھی خدا نے انہیں کامل صداقت کی راہ دکھائی ۔ خدا ہمیشہ اسی طرح کیا کرتا ہے۔ مثلاً ہم ناکاملوں کو لعنت ملامت کرنے کی جگہ وہ ہمارے ساتھ ایسی زبان میں ہم کلام ہوتا ہے جو ہم سمجھ سکتے ہیں خواہ اس کا مطلب ادھورے طورپر ہی ظاہر ہو ، اور یوں وہ ہمیں کامل صداقت ،کی طرف لے چلتا ہے جس طرح اس نے اسٹرا لو جی (علم نجوم ) سے دنیا کو اسٹرانو می (ہیت ) تک پہنچایا اور مہوسوں کی کیمیا گری کے پہنچہ سے رہا کرکے حقیقی علم کیمیا (کمسٹری ) کا دروازہ دکھایا اور جسا طرح ”ریولول آف لرننگ “کے بعد آفتاب ریفارمشن کو طلوع کیا اسی طرح اس نے لو گو ں کے علم سے کیا جو پہلے نصف سے زیادہ لغو اور باطل ہو گا یعنی اسی کے وسیلے سے انہیں دنیا کے نو ر کے حضور لے گیا ۔ ان کا آنا گویا اس بات کی نبوت تھا کہ آنے والے زمانوں میں کس طرح غیر قومیں اس کی تعلیم اور نجات کو قبول کریں اور کیونکہ اپنی دولت اور حکمت اپنا علم اور فلسفہ اسکے پا ﺅں پر نثار کر ڈالیں گے ۔

یہ لوگ تو اس کے گہوارے کے اردگرد اس لئے جمع ہو ئے تھے کہ اس کے ساتھ سر نیاز خم کریں ۔چنانچہ گڈرئیے اپنی سادی سی ہییت کے ساتھ اس کے حضور سر نگوں ہو ئے ۔ شمعون اور انا اس گہری تعظیم کے ساتھ جو صدیوں کی دانائی اور دینداری سے پر تھی اس کے سامنے سر بسجود ہو ئے اور مجوسیوں نے بڑے بڑے نذرانوں اور مایہ علم کے ہدیوں کے ساتھ ڈنڈوت کی ۔ ادھر یہ لوگ اس کے در پر سجدے کر تے ہیں ادھر ایک اور شخص نمودار ہوتا ہے جس کے چہرے سے دغا اور خو نریری کے آثار ظاہر ہیں ۔ یہ ہیرودیس ہے جو اس ملک کا بادشاہ ہے اور اس وقت در حقیقت ایک اجنبی کمینہ اور غاصب آدمی تھا اس کی ماں عربی تھی اور باپ ادومی تھا ۔ کہتے ہیں کہ جب وہ تخت نشین ہوا تو ممبران سہڈرم نے کمال سے اس کو آگاہ کیا کہ ہم بموجب استثنا 15:17 کے ایک اجنبی کو اپنا بادشاہ نہیں بنا سکتے ۔ ہیرودیس نے ان میں سے کئی ایک کو مر وا ڈالا ۔ اس کی رعایا اس سے نفرت رکھتی تھی اور اگر وہ اپنے تخت پر قائم تھا توا رومیوں کے طفیل سے تھا اس میں شک نہیں کہ وہ ایک قاتل اور حریص اور شان و شکوہ کو پسند کرنے والا آدمی تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ ظالم اور فریبی اور مردہ اور پلید دل بھی رکھتا تھا ۔ اس کا ثانی سوا مشرقی ظالوں کے اور کہیں نہیں مل سکتا ۔ کو ئی ایسا جرم نہ تھا جس کا مرتکب وہ نہ تھا ۔ ا س کے محل خون میں تیر رہا تھا اپنی چہتی بیوی کوا اس نے قتل کیا اپنے تین بیٹوں کا خون اس نے پیا اور اپنے کئی رشتہ داروں کوتلوار کے گھٹ پار اتا ر ا ۔ ان دنوں بڑھاپے کا عالم تھا ۔ کھبی بیماری دکھ دیتی تھی اور کبھی نا کر ونی افعال کی مذامت اس کو ستاتی تھی ۔ کھبی یہ خیال بے آرام کرتا تھا کہ لوگ مجھ کو پسند نہیں کرتے اور کبھی تخت کے دعوے داروں کی دعوے داری کا ڈر گلے کا ہار بن جاتا تھا ۔ مجوسی قاعدے کے مطابق پہلے دارالسلطنت کی طرف آے تا کہ دریافت کریں کہ جس کا ستا رہ انہوں نے سوال ہیرودیس سے کیا تو اس کے پر دبر چھیا ں چلنے لگیں ۔ لیکن اس نے اپنے خیالات کو بڑ ی احتیاط سے شیطانی ریا کا ری کے پردے تلے چھپا رکھا اور کا ہنوں سے پتہ لے کر کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہو گا ان پر دیسیوں کووہاں جانے کی ترغیب دی اور کہا کہ لوٹتے وقت ضرو ر مجھے وہ گھر بتاتے جانا جہاں وہ نیا بادشاہ سکونت پذیر ہے ۔ وہ اپنے خیال میں یہ سمجھے ہوئے تھا کہ میں اسے ایک ہی ضرب سے چکنا چور کر ڈالوں گا لیکن اس کے تمام خیا لات بیکار نکلے کیونکہ مجوسی خدا سے آگہی پا کر دوسری راہ سے وطن کو روانہ ہو ئے اور پھر کبھی ہیرودیس کے پاس واپس نہ آے ۔ یہ دیکھ کر ہیرودیس کے غضب کی آگ بھڑک اٹھی ۔ اور اس نے اپنے سپاہیوں کوا روانہ کیا کہ جا کر تمام بچوں کو جو دوبرس[٥] سے نیچے تھے ،ہلاک کر ڈالیں پر اگر وہ پہاڑی چٹان کو ہوائی ضربوں سے چکنا چور کر سکتا تو خدا کے ارادوں کو بھی کاٹ ڈالتا ۔ اس نے مر غ بلند پر وار کو شکار کرنے کے لئے اپنی تلوار گھونسلے ؛پر چلائی ، پر وہ پہلے ہی سے لڑ کے اڑگیا تھا یعنی لکو یوسف مصر لے گی ااور ہیرودیس کی موت تک وہیں رہا جب ہیرودیس ملک عدم کو روانہ ہو اتو و ہ ناصرت کو واپس آیا اور وہاں رہنے لگا کیونکہ بیت لہم لجانے سے خدا نے اس کو روک دیا تھا وجہ یہ تھی کہ بیت لحم ہیرودیس کے بیٹے ارخلاوس کی حددو میں واقع تھا جو اپنے قاتل باپ کا ہم مزاج اور ہم طبع بیٹا رتھا ۔ ہیرودیس کی خوبی آنکھوں کا اس بچے کی؛ طرف دیکھنا اس بات کی افسوس ناک نبوت تھی کہ دنیا کی طاقیتں اسے ستایئں گی اور اس کی زندگی کے درخت کو باغ عالم سے کاٹ ڈالیں گی ۔

ناصرت میں خاموش زندگی ۔مسیح کی پیدا ئش سے لے کر مصر جانے تک جو واقعات سر زد ہوئے وہ تو مفصل طور پر انجیلوں میں قلمبند ہیں لیکن ناصرت ست واپس آنے کے بعد اس تفصیل کا سلسلہ کٹ جاتا ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہی کہ اس کی عام خدکے آغازا تک جو کچھ واقع ہو ا اس پر ایک پردہ سا پڑا ہے جو صرف ایک ہی مرتبہ اٹھایا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ ہمارے دل تو یہ چاہتے ہیں کہ؛ جس طرح ولسبط کے ساتھ مصر ست واپس آنے تک اس کی زندگی کے واقعات کا سلسلہ چلا آیا تھ اسی طرح اس کی پبلک خدمت کے شروع تک برابرچلا جاتا اور وقائع نویس خاموش نہ ہو تے کیو نکہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں جو سوانح عمریاں تحریر کی جاتی ہیں ان میں بچپن کے زمانہ کی دلچسپ حرکا ت و سکنات کو ابھری ہو ئی جگہ دی جاتی ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ جو واقعات اس عرصہ میں سر زد ہو تے ہیں وہ گویا اس بات کی نبوت کرتے ہیں کہ؛ جس شخص کی زندگی سے وہ علاقہ رکھتے ہیں وہ آیندہ کیا ہوگا اور کیا کر یگا یا یوں کہیں کہ چھٹپن کے واقعات ہو نار برواکے چکنے چکنے پات ہوتے ہیں پس اگر کوئی ہم کو یہ بتا دے کہ مسیح کی زندگی کے اس عرصہ میں اس کی ایسی عادتیں تھیں ،ایسے ایسے اس کے دوست تھے تو شاید اس علم کے لئے اس کے خیالات اور الفاظ اور کام تھے تو شاید اس علم کے لئے ہم اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جاہیں لین ان تمام باتوں پر مہر لگی ہو ئی ہے اور خاموشی کی دیوار پر سے جو اس چمنستان کو چاروں طرف دامن اشتیاق میں پھنیکا جاتا ہے جوا اپنے رنگ و بوسے مشتے نمونہ از خروارے کا کام کرکے ہمیں اور بھی اس خواہش سے بھرجاتا ہے کہ اگر ممکن ہوتو کل باغ کی سیر کریں ۔لیکن خدا کو پسند آیا کہ اس باغ کے دروازے بند رہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی خاموشی اس کے بولنے سے کچھ کم عجیب نہیں ہوتی ۔

لیکن یہ بات انسان کی ذات میں داخل ہے کہ جب خدا کسی بات کو چھپاتا ہے اور آدمی اسے جاننا چاہتا ہے تو اس کی قوت واہمہ اپنا کا م وع کردیتی ہے او ر تھوڑے عرصہ میں خالی صفحہ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے قیاسوں سے بھر دیتی ہے اسی طرح کلیسیاکے ابتدائی زمانہ میں ہوا کہ جعلی انجیلں شائع کی گیئں تا کہ جس زامانہ کی نسبت اصل انجیلں خاموش ہیں اس کے واقعات کی کیفیت رقم کریں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں مسیح کی طفولیت کی باتیں اور کام کثرت سے قلمبند ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ایسے بڑے کا م کو انجام دینے کے لئے انسا ن کی قوت متخیلہ کا فی نہیں اور جب ہم ان انجیلوں کو موجودہ اناجیل کے مقابل رکھ کر دوانوں کا ملاحظ کرتے ہیں صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ایک کا م البتہ وہ انجیلیں کرتی ہیں اور وہ یہکہ جس جعل اور بناوٹ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جھوٹی اور مروجہ اناجیل صحیح ہین ۔ ان سے معلوم ہو تا ہے کہ گویا مسیح ادنے قسم کی کرامات اور غیر ضروری اچنھبے دکھاتا پھرتا ہے ۔کہیں دکھا تا پھرتا ہے کہیں مٹی کے جانور بنا کر ہو ا میں اڑاتا ؛ہے اور کہیں اپنے ہم جولیو ں کو بکری کے بچوں میں تبدیل کر کے حاضرین کوتماشہ دکھا تا ہے ۔ غرضیکہ یہ قیاسی انجیلیں نکمی باتوں بلکہ کنر آمیز کا طومار ہیں ۔

اور اس انسانی ناکامی سے ہم کویہ نصیحت ملتی ؛ہے کہ اس مقدس جگہ کے اند ر واہمہ کی رسائی نہیں اور اکہ ہمارے لئے فقط اتنا جاننا کا فی ہے کہ مسیح دانا ئی اور قدوقامت میں خدا اورانسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ ہوا کا پتلا نہ تھا بلکہ واقعی ایک حقیقی بچہ اور حقیقی لڑکا تھا اور نشوونما کے قدرتی قوانین کے مطابق بڑھتا اور سیاناہوتا گیا ۔ جسم اور دماغ معمول کے مطابق برابر برابر ترقی کرتے گئے ،۔جسم نے نشوونما پا کر جوانمردی کا پھل دیا اور دماغ کے شگوفہ میں حکمت ار دانائی کا میوہ لگااس کی خصلت کے ابتدائی حسن و جمال نے شروع ہی سے دیکھنے والوں کو اپنی خوبی اور پاکیزگی کا گرویدہ بنالیا ۔

اب اگر چہ یہ صحیح ہے کہ اس معاملہ میں اپنی قوت واہمہ کو حدا اعتدال سے باہر نہ جانے دینا چاہیے تو بھی ہمیں اس بات کی ممانعت نہیں بلکہ یہ ہمارا عین فرض ہے کہ ہم اس زمانے کے او ٓضاع واطوار اور رسم و رواج کو مدنظر رکھ کر یا ان واقعات سے جو بعد میں اس کی زندگی میں سر زد ہ؛وئاےا مدد پا کر اس کے زمانہ طفلی کو اس کے عرصہ خدامت سے ربط دیں ۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ ہم کسی قدر اس بات کا پتہ لگ جائے کہ اس کی طولیت کا عالم اوع شباب کا زمانہ کیسا تھا۔ اور کہ وہ کیسے تاثیرات کے درمیان اتنے برسوں تک خاموشی میں ترقی کر تا گیا۔

ہم جانتے ہیں کہ جن خانگی تاثرات کے درمیان اس نے پرورش پائی وہ کیسے تھے۔ اس کا گھر ان گھروں میں سے تھا۔ جنہیں ملک کا فخر سمجھا چاہےے ۔ یا یوں کہیں کہ اس کا مسکن خداپرست اور خرد مند اور مخت کش لوگوں کا گھر تھا۔ یوسف جو اس گھرانے کا سرگروہ تھا نہایت دیندار اور بڑا بافراست آدمی تھا۔ مگر چونکہ اس کا ذکر خداوند مسیح کی سوانح عمری کے آخری ابواب مین بہت کم آتا ہے۔ اس لئے لوگ خیال کرتے ہیں۔ کہ وہ کانگی ذمہ داری کابوجھ مسیح پر چھوڑ کر راہی ملک بقا ہو گیا تھا۔ پس گمان غالب ہے کہ جن خارجی تاثیرات نے مسیح کی نشوونما میں حصہ لیا وہ بیشتر اس کی ماں کی طرف سے آئی تھیں ۔اس کی عظمت کا موازنہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ دنیا کی عورتوں میں سے وہی انتخاب کی گئی کہ مسیح کی ماں بننے کے عالی رتبہ سے ممتاز کی جائے جو گیت اس نے اپنی اس خدا داد عزت اور مقدرت پر گا یا اس سے عیاں ہے کہ وہ بڑی پارسا عورت تھی جو شاعرانہ طبیعت اور حب الوحنی کی صفت سے بہرہ ور تھی ۔ اسی گیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاک نوشتوں کا مطالعہ کرنے والی اورپرانے عہد کی دیندار عورتوں کی خصلت پر غور کرنے والی عورت تھی۔ کیونکہ یہ گیت عہد عتیق کے خیالات سے پُر اور حنہ کے گیت کے تصورات سے مملوہے۔ ہاں وہ ایسی عورت تھی۔ جوایک طرف زیور حلم سے آراستہ تھی۔ اور دوسری جانب یہ لیاقت بھی رکھتی تھی۔ کہ اس عزت جو اسے بخشی گئی تھی۔ بخوبی محسوس کرے پر وہ آسمان کی ملکہ نہ تھی۔ جیسا کہ باطل پرستی نے اسے بنانے کی کوشش کیہے بلکہ وہ ایک پاک اور مقدس اور پُر محبت اور بلند مزاج عورت تھی۔ اور کیا ان حمیدہ صفات کا ہالہ کافی نہیں؟ مسیح نے اس کی محبت کے زیر سایہ پر ورش پائی اور اس محبت کا جواب فرزندانہ محبت میں ادا کیا۔

لیکن اس گھر میں اور بھی کئی لوگ رہتے تھے۔ اس کے کئی بھائی اور کئی بہنیں تھیں ۔ا ن میں سے دو یعنی یعقوب اور یہوادہ کے خطوط نئے عہد نامہ میں مندرج ہیں۔ اور ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ لوگ کس خصلت کے آدمی تھے۔ شاہد کہنا گستاخی نہ ہو گا کہ ان کے خطوط میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ایمان لانے سے پہلے وہ سخت گیر اور ہمدردی میں قاصر تھے۔ بہر حال یہ ثابت ہے کہ وہ اس کے جیتے جی اس پر ایمان نہ لائےاور غالباً ناصرت میں کبھی اس کے ساتھ شیر وہ شکر نہیں ہوئے تھے۔ وہ غالباً بیشتر تنہائی میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اور اس کا وہ اندو ہناک نالہ جو ان الفاظ سے ٹپکتا ہے۔ کہ بنی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا اور کسی جگہ بے عزت نہیں ہوتا ۔ نہ صرف اس بدسلوکی کی خبر دیتا ہے۔ جو اسے اپنے ایام خدمت میںپیش آئی بلکہ اس زمانے کی سرد مہری پر بھی اشارہ کرتا ہے۔

اس نے اسی مکتب میں او شاید اسی فقہ سے تعلیم پائی ہوگی جو اس گاوں کے عبادت خانہ سے علاقہ رکھتا تھا۔ اس کی علمی استعداد بظاہر ایک غریب آدمی کی تعلیم سے زیادہ نہ تھی اور اسی واسطے فقیہ طنز اً کہا کرتے تھے۔ کہ وہ کچھ نہیں جانتا پر گو اس نے کسی کالج میں تربیت نہیں پائی تھی۔ تو بھی شروع ہی سے علم کی محبت اس کے دل میں پید ا ہو گئی تھی۔ اور وہ ہر روز گہری سوچ اور فرحت بخش خیالات کی لذت سے محظوظ ہوتا تھا۔ حقیقی علم کے دروازے کی کلید اس کے ہاتھ میں تھی یعنی وہ ایک وسیع دماغ اور محبت سے بھر ہوا دل رکھتا تھا۔ اور تین بڑ ی بڑی کتابیں ہر وقت اس کے سامنے کھلی رہتی تھیں یعنی بائبل ، انسان اور کائنات ۔

وہ بڑی سرگرمی کے ساتھ پرانے عہد نامہ کی تلاوت کیا کرتا ہو گا۔ اس کا کلام جو پرانے عہد نامے کے اقتباسوں سے بھرا ہوا ہے۔ ثابت کرتا ہے کہ یہ پاک نوشتے اس کی روح کی غذا اور اس کے دل کی تسلی کا باعث تھے۔ نے شروع جوانی میں جو مطالعہ کیا وہ بعد میں بہت کام آیا ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑی آسانی اور سرعت سے اس کلام کا کام میں لاتا ہے۔ تاکہ اپنی منادی کو اس سے زیب دے اور اپنی تعلیمات کو اس کے وسیلے سے تقویت بخشے اور اپنے دشمنوں کا منہ اس کی شہادت سے بند کرے اور شیطان کی آزمائشوں پر اس کے زور سے غالب آئے ۔ اس کے اقتباسوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ ان نوشتوں کی اصل عبرانی میں پڑھا کرتا تھا۔ نہ کہ یونانی ترجمہ جو اس وقت عموماً استعمال کیا جاتا تھا۔ البتہ اس وقت عبرانی زبان کا رواج ملک فلسطین سے بھی اٹھ گیا تھا۔ اور جس طرح اب ملک اٹلی میں لاطینی یا ہندوستان میں سنسکرت مردہ زبانوں کے زمرے میںشامل ہے اسی طرح مسیح کے زمانے میں عبرانی تھی پر تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ اس کی دلی آرزو یہی ہو گی کہ وہ کلام اﷲ کو اصل زبان میں پڑھے جن لوگوں کو وسیع تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ شروع میں نہیں ملا اور جنہوں نے خود باد جود طرح طرح کی مشکلات کے یونانی سمجھنے کی استعد اد بہم پہنچائی ہے۔ تاکہ نئے عہد نامہ کو اصل زبان میں پڑھ سکیں ۔ وہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس نے کس طرح ایک گاو ں میں رہ کر اس قدیم زبان کو سمجھنے کا ملکہ پیدا کیا ہو گا اور کیسے ذوق و شوق کے ساتھ عبادتخانہ کے طوماروں کو لے کر یا اس نسخہ کو جو اس کے پاس ہو تا ہوگا ۔ کھول کر مقدس نوشتوں کی تلاوت کی ہو گی ۔ لجس زبان کو وہ عموماً سوچتے اور بولتے وقت کام میں لاتا تھا۔ وہ ارمنی تھی اور جو اسی قدیم زبان کی شاخ تھی۔ جس کی ایک شاخ عبرانی بھی ہے۔ اس کے جو الفاظ اس زمانہ تک پہنچے ہیں۔ ان میں کہیں کہیں اس زبان کے بعض جملے موجود ہیں مثلاً ”تالیتا قومی “اور ”ایلی ایلی لما سبقتنی “ وغیر ہ اور یونانی سیکھنے کا موقع اسی طرح اسے بھی حاصل تھا جس طرح سکاٹ لینڈ ہائی لینڈز کو انگریزمی یا پنجابیوں کو اردو سےکھنے کا حاصل ہے۔ غیرقوموں کا جلیل اس وقت یونانی بولنے والوں سے پُر تھا ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ تین زبانوں سے بخوبی واقف تھا جن میں سے ایک عبرانی تھی جسے مذہبی معاملات کے اعتبار سے دنیا کی زبانوں میںدینی زبان کہنا چاہےے ، اس کے نوشتوں سے وہ بخوبی ماہر تھا۔ اوردوسری یونانی تھی۔ جو دنیاوی علوم و فنون کے خیالات کو ادا کرنے میں اپنا ثانی نہیں کررکھتی تھی۔ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ یونان کے بڑے بڑے مصنفوں کی تصانیف سے بھی واقف تھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور تیسری ارمنی تھی جو عام لوگوں کی زبان تھی۔ جسے اس نے اپنے وعظ و نصیحت کے کام میں زیادہ استعمال کیا ۔

انسانی طبیعت کا علم اور کسی جگہ ایسی اچھی طرح حاصل نہیں ہوتا جیسا کہ دیہات میں ہوتا ہے ۔ ایک چھوٹے سے گاوں میں ہم پانے ہمسایوں کے مفصل حالات سے بلکہ ہر شخص کی زندگی کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں ہم زیادہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں بہت تھوڑوں سے اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیںکیونکہ شہروں میں صرف زندگی کی سطح دکھائی دیتی ہے۔ لیکن گاو ں میں سطح کا دکھاوا بہت گم ہوتا ہے۔ اور وہ باتیں جو دل کی تہ سے نکلتی ہیں ریا کاری کی ملمع سازی سے بری ہوتی ہیں۔ ناصرت بُر ے باشندوں کے لئے مشہور تھا جیسا کہ اس ضرب المثل سوال سے سے متر شح ہے۔ کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے۔ مسیح کی ذات میں گناہ کا تخم نہ تھا پر اس قصبہ میں رہنے سے اس نے گناہ کی گرم بازاری کو خوب دیکھا یا یوں کہ جس بات سے اسے عمر بھر لڑنا تھا۔ اس کے زور شور کو اچھی طرح محسو س کیا اور پھر اپنے پیشے کے وسیلے سے بھی اسے انسانی خصلت کو معائنہ کرنے کا موقع ملا ۔ وہ یوسف کی دکان میں بڑھئی کا کام کیا کرتاتھا۔ اور اس کی عجیب منادی سے متحیرہو کر کہتے ہیں۔ کیا یہ بڑھئی نہیں ہے۔ پر اس بات کی خوبی اور مطلب کی تہ تک پہنچنا کہ کیوں خدا نے سب بڑے بڑ ے عہدوں کو چھوڑ کر اپنے بیٹے کے لئے ایک پست کا م منتخب کیا آسان نہیں ہے؟ اتنا صاف ظاہر ہے کہ اس سے انسانی محنت اور مشقت کے سر پر ابدی شرافت کا تاج رکھا گیا ۔ اس سے مسیح نے سینکڑوں لوگوں کے دلی خیالات سے واقفیت حاصل کی اور جانا کہ انسان میں کیا ہے بعد میں اس کے حق میں کہا گیا کہ وہ انسان سے ایسا واقف تھا کہ اس بات کا محتاج نہ تھا ۔ کہ کوئی اس فن میں اسے درس دے۔

سیدنا مسیح کا بڑھئی کی دکان میں بیٹھ کر کام کرنا کئی نصیحت خیز اور حوصلہ افزاءباتیں ہمیں سکھاتا ہے۔

ہماری خوش قسمتی سے مرقس کی انجیل میں وہ الفاظ محفوظ ہیںجو اس کے مخالف طنزاً کہا کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی بڑھئی نہیں؟ یہ الفاظ جیسا ہم نے اوپر کہا بنی آدم کی محنتوں کو وہی زیب دیتے ہیں۔ جو بادشاہو ں کو افسر شاہانہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے افلا س کے زخموں کے لئے مرہم کا کام دیا ۔ غریب مزدور کے حوصلے بڑھائے اور سب سے بڑھ کر بنی آدم کو یہ سبق دیا کہ انسانیت میں ایک جو ہر ہے۔ جو آپ ہی آپ اپنی جھلک دکھا تا ہے۔ اور اس بات کا محتاج نہیں کہ سونا چاندی اس کی رونق کو دوبالا کرے ۔

(۱)اب لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ہمارا خداوند شروع ہی سے ایک غریب آدمی تھا۔ نہ صرف منادی کے تین سال میں وہ بے زر معلوم ہوتا ہے بلکہ بچپن ہی سے دنیوی عیش و عشر ت کے سازوسامان سے ناآشنا تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں تو غالباً یونانی بڑھئی کام کیا کرتے تھے۔ اور وہ اپنے فن میں ماہر و مشتاق ہونے کے سبب سے فارغ البالی اور چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن یوسف فلسطین کے ایک قصبے کا بڑھئی تھا اور اگر روایت صحیح ہے تو اپنے کام مین پوری پوری مہارت بھی نہیں رکھتا تھا۔ سو وہ ایک عام درجہ کا آدمی تھا۔ جس کی آمدنی فقط خانگی ضروریات کے لئے کافی ہوتی ہو گی ، ایک ہر زمانہ میں دولت کے نہ ہونے سے بے چینی میں تڑپتے ہیں۔ اور جن کو س دنیا کا مال نصیب ہو جاتا ہے۔ ان کو دنیا کے لوگ خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ ہم خوشی کو دولت کی باندی سمجھتے ہیں۔ پر اس غلط فہمی سے طرح طرح کی فکر اور قسم قسم کے حاسدانہ خیالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی لئے مسیح نے قصداً غریبی کی حالت اختیار کی پر اس کی غریبی وہ غریبی نہ تھی۔ جو آدمی کو افکا ر کی چکی میں پیس ڈالتی ہے۔ اور اس کے خیال کو ہر وقت کھانے اور کپڑے کی دھن میں لگائے رکھتی ہے اور آخر کار اسے شرافت کے پایہ سے گرا کر رذیل اور پست ہمت بنا دیتی ہے ۔ اس کی غریبی ایسی غریبی تھی ۔ جو اس دنیا میں بہت لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔ اس قسم کی غریبی میں البتہ عیاشی کی جگہ نہیں ملتی مگر زندگی کی تمام سادہ ضروریات بخوبی رفع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ ادومی خاندان جو اب داو د کے تخت و تاج کا وارث بنا ہوا تھا۔ ان عیاشوں اور اوباشیوں میں ڈوبا ہوا ہو گا۔ جو دولت کی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں مگر مسیح ان سے بری تھا اور زیبا بھی یہی تھا۔ کہ وہ جو تمام بنی آدم کا ہمدرد دوست اور نجات دہندہ اور بادشاہ بن کر آیا تھا۔ ایسی حالت اختیار کرتا جو بہت لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ اور ہمیشہ آتی رہے گی۔

(۲)اور پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کی طبیعت ہمیشہ سستی کی طرف مائل ہے۔ وہ آرام طلبی کو امیری کا لازمی جزو یا خاصہ سمجھتا ہے۔ محنت و مشقت کو کم درجہ اشخاص کا حصہ جانتا ہے۔ بلکہ ہر طرح کی محنت پر حقارت اور ذلت کا داغ لگاتا ہے۔ لیکن یسوع یہ دکھانا چاہتا تھا۔ کہ جو محنت دیانت داری سے کی جاتی ہے ۔ وہ انسان کے فخر کا باعث ہے۔ وہی زندگی کا نمک اور مردمی کا کمر بند ہے کیونکہ اسی کے طفیل سے انسان بے جانزاکتوں سے بچتا اور اسی کی بدولت اس کی روح ناپاک خیالات میں ڈوبنے سے محفوظ رہتی ہے یہی سبب تھا کہ مسیح نے محنت کش زندگی اختیار کی اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنا، ہل بنایا اور جوئے تیار کرنا روا رکھا۔ اس کے مخالف اس کی پست حالی کو ٹھٹھوں میں اڑایا کرتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ ناممکن ہے کہ دنیا کا نجات دہندہ ایسے خاندان میں پیدا ہو یا ایسا تنگ دست ہو کہ اپنی روزی کمانے کے لئے نیچ لوگوں کی طرح اپنے ہاتھ سے کام کرے ، پر ہم دیکھتے ہیںکہ سوسائٹی کو نئے سانچے میں ڈھالنے اور پرانی باتوں کو نئی بنانے کے لئے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ جوان تبدیلیوں کو وجود میں لانے والا تھا۔ خود حقیقی خاکساری اور فروتنی کا نمونہ ہے۔

(۳)پھر مسیح کی زندگی کا وہ زمانہ جو گمنامی میں کٹا، جس کا حال انجیلوں میں قلمبند نہیں اور جس میں شاید بہت بڑے بڑے واقعا ت بھی سرزد نہ ہوئے ایک اور سبق ہمارے لئے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ خدا ہماری زندگی کی اندرونی حالت پر نگاہ کرتاہے نہ کہ ظاہر ی شان و شوکت اور خارجی سازو سامان پر ، دنیا اپنی آنکھ ان لوگوں پر لگاتی ہے جو شجاعت میں نام پیدا کرتے ، جو علم و ہنر میں یکتائے زمانہ سمجھے جاتے اور عرصہ دار گیر میں سکندر کے ہم پلہ ہوتے اور حکمت و دانائی میں افلاطون وارسطو پر سبقت لے جاتے ہیں مگر ایسے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ گویا سمندر میں سے ایک قطرہ اورپھر مرنے کے بعد صفحہ ہستی سے ایسے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ کہ فقط کسی کسی کتاب کے چند اوراق کے سوا اور کسی جگہ ان کا پتہ نہیں ملتا۔ ہاں چند دن کے بعد ان کتبوں کو بھی جو ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ان کی تربتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ کیڑا کھا جاتا ہے اور اگر بالفرض حروف نہ بھی مٹیں تو بھی کون ان میں سے جو قبرستان میں آتے ہیں ان کے کارناموں کو یاد کرکے ان پر آنسو بہاتے ہیں؟ لیکن خدا کی نظر میں نہ صرف وہی شخص پسندیدہ ہے جس کی زندگی اس دریا کی طرح ہے جو چٹانوں میں سے گزرتے وقت پتھروں سے ٹکرکھا کر شور مچاتا ہے۔ بلکہ وہ بھی جس کی زندگی ایسی خاموش ہے کہ آس پاس کے لوگ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ذرا تحریک نہیں پاتے مگر خدا اس شخص کی اندرونی زندگی کی حقیقی خوبی سے واقف ہے۔

(۴)ہم دیکھتے ہیں کہ بے قدری کی جاتی ہے ۔ تو وہ خود اپنے آپ کو ناچیز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں۔ کہ ہم جو ایک زرہ بے مقدار سے بھی حیثیت میں کم ہیں ۔ اس دنیا میں مصرف کے نہیں۔ پس وہ کھانے پینے اور مرجانے ہی کو سب کچھ جانتے ہیں ۔ مگر یسوع نے غریبوں کے طرز زندگی کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ ممکن ہے کہ جو زندگی بظاہر ناچیز سمجھی جاتی ہے۔ وہی دنیا کی تاریخ میں انقلاب پیدا کرنے والی ہو اس نے ظاہر کر دیا کہ سچی اور صادق زندگی ہمیشہ بڑے بڑے واقعات کے شور و غل اور بڑی بڑی کا میابیوں کے مغوں سے ممتاز نہیں ہوتی بلکہ خدا کے بے شمار پیارے ان لوگوں میںبھی پائے جاتے ہیں جن کو دنیا ناچیز اور حقیر سمجھتی ہے پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند کی زندگی کے وہ سال جو بڑھئی کے کام میں صرف ہوئے اگرچہ خاموشی میں گزرے تو بھی حقیقی خوشی سے لبالب بھرے تھے۔ جب اس نے منادی کا کام شروع کیا اور لوگوں کی بے پروائی اور سخت دلی کے معائنہ سے غمگین ہوا اس وقت بھی وہ خوشی اور تروتازگی جو اسے ان دنوں حاصل تھی اپنا جلوہ دکھا جاتی تھی۔

شائقین سیرو سیاحت بتاتے ہیں کہ جس جگہ مسیح نے پرورش پائی وہ ان جگہوں میں سے ہے جو دنیا میں اپنی خوبصورتی کے سبب بے مثال ہیں۔ ناصرت کوہستان زبلون کی ایک وادی میں واقع ہے جو اپنے نظاروں کا جو بن دکھا رہی اسی جگہ زبلون کا پہاڑ گویا اپنی بلندی سے نیچے اتر کر اسدرلان کے میدان سے ہاتھ ملاتا ہے۔ ناصرت کے سفید گھر جن کی دیواروں سے تاک کی ٹہنیاں بغل گیر ہوتی ہیں۔ زیتون اور انجیر اور نارنج اور انار کے پُر بہار جھرمٹوں میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کھیتوں کو تھوہر کی باڑیں جدا کرتی ہیں اور جا بجا رنگار رنگ پھولوں کی رنگینی ان کی خوش نمائی کو دوبالا کرتی ہے۔ گاوں کے پیچھے ایک پہاڑی کھڑی ہے جو قریباً پانسو فیٹ اونچی ہے۔ اس کی چوٹی پر سے دنیا کا عجیب نظارہ آنکھوں کو نصیب ہوتا ہے۔ شمال کی طرف گلیل کے پہاڑ جن میں برفانی ہرمون بھی شامل ہے۔ آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ کرمل کی چوٹی ،صور کا کنارہ ، بحیرہ اعظم کا چمکتا ہوا پانی مغرب کی جانب دکھائی دیتا ہے۔ اور مشرق کی جانب کوہ تیبور اپنے جنگلات کے ساتھ مخروطی شکل اختیار کرتا ہوا سر بلند ہوتا ہے۔ جنوب میں اسدرلان کا میدان پھیل رہا ہے جس کی دوسری طرف کوہستان افرائیم کا سلسلہ موجود ہے۔ خداوند مسیح کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اس قدرتی خوبصورتی سے کیا حظ اٹھا یا اور موسموں کی تبدیلی کو کس آنکھ سے دیکھا ۔ معلوم ہو تا ہے کہ اس نے اپنے لڑکپن میں انہیں کھیتوں کی سیر کرتے کرتے ان قدرتی خوبصورتیوں کا سرمایہ جمع کیا جو آگے چل کر تمثیلوں اور درسوں کو سجانے کے کام آیا ۔ اسی پہاڑی پر آنے جانے کی عادت سے پہاڑو ں میں جا کر رات رات بھر دعا مانگنے کی وہ عادت پختہ ہوئی جو اس کی زندگی میں جا بجا جلوہ نما ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہےے کہ جو تعلیم وہ دیا کرتا تھا۔ وہ اس کے ذہن میں اتفاقیہ طور پر نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس کی تعلیمات کو ایک دریا کہنا چاہےے جس کا پانی کئی سال تک جمع ہو تا رہا اور جب وقت آیا تو بہہ نکلا۔ ہاں اس نے انہیں کھتیوں کے گوشو ں اور انہیں پہاڑوں کے کناروں پر ان تعلیمات کو اپنی دعا اور دھیا ن کے زمانہ میں سوچا ہو گا۔

ایک اور بات کا ذکر باقی ہے جس نے اس کی تعلیم میں بڑا حصہ لیا ۔ بارہ برس کی عمر کو پہنچ کر وہ ہر سال اپنے ماں باپ کے ساتھ عید فسح کے موقع پر یروشلیم جانے لگا۔ ہماری خوش قسمتی سے پہلی مرتبہ کا حال انجیل میں قلمبند ہے اور یہی وہ موقع ہے جبکہ تیس برس کے عرصہ پر سے ایک دفعہ پردہ اٹھا یا جا تا ہے۔ جو لوگ اس وقت کو یاد رکھتے ہیں جبکہ وہ پہلی مرتبہ اپنے گاوں سے اپنے ملک کے دارالخلافہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ قیاس کر سکتے ہیں کہ یسوع اس موقعہ پر کیسے جوش و خروش سے پرُکر ہو گا۔ اسے اسی میل کا سفر کرنا تھا۔ اور ایسے ملک میں سے گزرنا تھا ۔ جس کا ہر میل تاریخی واقعا ت اور جو ش انگیز یاد گاروں سے پرُتھا۔ علاوہ اس کے وہ ایسے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوا جو قدم قدم پر ایسے مسافروں کے شمار سے بڑھتا جاتا تھا۔ جو بڑی عید کے سبب سے مذہبی جو ش اور سرگرمی سے معمور تھے۔ اور جس شہر کو وہ جا رہے تھے۔ وہ ایسا شہر تھا،جسے ہر یہودی دل وجان سے پیار کرتا تھا۔ اور اتنا کہ اور کسی دارالخلافہ سے کبھی نہیں کیا گیا ۔ یہ شہر ایسی چیزوں اور یادگاروں سے پرُتھا۔ جو اس کے دل میں ہر قسم کی تحریک اور دلچسپی پیدا کر سکتی تھیں۔ عید فسح کے موقع پر کم ازکم پچاس ممالک سے یہودی مختلف بولیاں بولتے اور مختلف لباس پہنے ہوئے آتے اور یروشلیم میں جمع ہوتے تھے۔پس تعجب نہیں کہ وہ نئی نئی دلچسپ باتوں کے خیال میں ایسا مگن ہوا کہ جب واپس لوٹنے کا دن آیا تو مقررہ وقت اور جگہ تھی جس پر وہ فریفتہ ہو گیا ۔ اور وہ ہیکل تھی اورخصوصاً اس کا وہ حصہ جہاں اصحاب علم و حکمت لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس کے دل میں بے شمار سوالات جوش زن تھے ۔ جن کا جواب وہ ان حکما ءسے مطلب کرنا چاہتا تھا۔ یو یوں کہیں تحصیل علم کی پیاس کو جو اس کے دل میں چمک رہی تھی ۔ اب آسودہ ہونے کا موقع ملا ۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں اس کے فکر مند ماں باپ نے اسے پایا جب کہ وہ اس کی تلاش میںیہ سمجھ کر یروشلیم کی طرف لوٹے کہ وہ کھو گیا ہے اور جب یہاں آئے تو دیکھا کہ بڑی توجہ کے ساتھ اس زمانہ کی حکمت کی باتیں سن رہا ہے اور وہ الفاظ جو اس نے اپنی ماں کے ملامت آمیز سوال کے جواب میں بیان فریائے اس کے دل پر سے پردہ اٹھا دیتے ہیں اور ہمیں تھوڑی سی دیر کے لئے اجازت ملتی ہے کہ ان خیالات کو ایک نظر دیکھ لیں جو ناصرت کے کھتیوں میں اس کے دل کو معمور کیا کرتے تھے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ ابھی بچہ ہی تھا تو بھی ان لاکھوں آدمیوں پر سبقت لے گیا تھا۔ جو زندگی کی راہ سے ہر روز گزرتے ہیں پر ایک لمحہ کے لئے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ زندگی کا کیا مطلب اور کیا مقصد ہے ، پروہ اسی وقت سے جانتا تھا ۔ کہ مجھے اپنی زندگی کے ایاّم میں اس کام کو انجام دینا ہے ۔ جو خدا نے میرے لئے مقرر کیا ہے ۔ اور میرے جینے کا یہی مدعا ہے کہ میں اسے پورا کروں ، چنانچہ یہ پرُجوش خیال تما م عمر اس کے دل میں جاگزیں رہا ۔ یہی خیال ہر فردوبشر کی زندگی کا اوّل اور آخر خیال ہونا چاہےے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خیال بار بار بعد اس کی باتوں میں ظاہر ہوا اور آخر کار اس کی زمینی زندگی کے خاتمہ پر ان الفاظ میں گونج اٹھا کہ پورا ہوا۔

اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا یسوع شروع ہی سے جانتا تھا۔ کہ میں مسیح ہوں اور نجات کے کام کے لئے مقرر کیا گیا ہوں ۔ اگر ایسا نہیںتو کب اور کس طرح یہ علم اس کو حاصل ہوا؟ کیا یہ خیال اس وقت اس اس کے دل میں پیدا ہوا جبکہ اس نے اپنی ماں سے اپنی معجزانہ پیدائش کا حال سنایا خود بخود اس کے دل میں روشن ہو گیا؟ پھر کیا یہ خیال یکبارگی یا رفتہ رفتہ رونما ہوا؟ اس نے کب اپنے کام کا وہ نقشہ تیارکیا جس کے مطابق وہ اپنی خدمت کے شروع سے آخر تک بے ہچکچائے کام کرتا رہا؟ وہ کئی سال کے گیان دھیان کے بعد رفتہ رفتہ اس اس کے خیال میں آیا یا یکبارگی اس کی نظر سے گذر گیا؟ ان سوالات پر بڑے بڑے مسیحی علماءنے غور کیا ہے۔ اور مختلف جواب دینے ہیں پر اگر ہم اس کے جواب کو جو اس نے اپنی ماں کو دیا نظر اندازنہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا۔ کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا۔ جبکہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ میں کس کام کے لئے آیا ہوں۔

ضرور ہے کہ یروشلیم میں بار بار آنے نے اس کی عارضی نشوونما پر بڑا اثر ڈالا ہو۔ اور اگر وہ ہیکل کے مکتبوں میں اکثر آیا جایا کرتا تھا۔ تو اس نے بہت جلد دریافتکر لیا ہو گا کہ ربیوں کی مشہور حکمت کیسی تنگ ہے۔ غالباً انہیں سالانہ موقعوں پر اس نے معلوم کیا کہ مذہب کی حالت ردی ہو رہی ہے۔ تعلیم اور تعمیل دونوں کامل صلاح کی محتاج ہیں اور یہیں اس نے ان رسموں اور ان شخصوں کو دیکھا ہو گا جن پر کچھ عرصہ کے بعد اس نے پاک غیرت سے معمو ر ہو کر سخت حملہ کیا ۔

اب ہم ان خارجی اسباب کو دیکھ چکے ہیں ۔ جن کے درمیان مسیح نے پرورش پائی اور جوانی کی طرف قدم اٹھایا ۔ اس تاثیر کی نسبت مبالغہ کرنا جو ان اسباب نے اس کی نشوونما میں کی بڑا آسان کام ہے۔ پر یاد رکھنا چاہےے کہ جس قدر کسی شخص کی طبیعت زیادہ اعلیٰ اور خود رو ہوتی ہے۔ اسی قدر وہ اپنی نشوونما میں خارجی اسباب و شرائط پر کم انحصار رکھتا ہے۔ اس کی ذات ان اندرونی چشموں سے سیرا ب ہوتی ہے۔ جو اس کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور اس میں وہ لیاقت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ جو اس کی ذات کے مطابق خود پھوٹ کر پھول جاتی اور بیرونی اسباب کی پر واہ نہیں کرتی ۔ پس یسوع خواہ کسی حالت میں رکھا جاتا بہرحال اپنی بڑی بڑی خاصیتوں کے سبب سے ویسا ہی شخص بنتا جیسا کہ ناصرت میں رہ کر بنا۔

 

[١] لوقاصرف ہم کو یہ بتا یا ہے کہ ”قیصر اگستس کی طرف سے حکم جاری ہو ا کہ ساری دینا کے لو گوں کے نام لکھے جائیں ۔ یہ پہلی اسم نویسی شام کے حاکم کورنیس کے عہد میں ہو ئی “۔وہ یہ نہیں بتایا کہ کو ن سے سال اور کو ن سے مہینے میں ہو ئی اور اس کی انجام دہی میں کو ن سے طریقے اختیار کئے گئے اور نہ یہ بتایا ہے کہ اس اسم نویسی کیا مقصد تھا آیا یہ صرف لوگوں کے شمار سے واقفیت پیدا کی جائے یا ا س کے ساتھ ان کی جائداد اور ملکیت کا بھی تخمینہ معلوم ہو تا کہ پھر ان پر ٹیکس لگا یا جائے ۔ وہ ان باتوں کا اس لئے کچھ ذکر نہیں کرتا کیونکہ اسے ان باتوں سے کچھ سروکا ر نہ تھا ۔ وہ صرفیہ بتا نا چاہتا ہے کہ یوسف اور مریم کس طرح بیت الحم میں آئے جہاں مسیح پیدا ہو ۔ ہم اس بحث کو لوقا کے اس مقام سے علاقہ رکھتی ہے ۔ بقیہ نوٹ صفحہ (٢١) درج نہیں کرسکتے کیونکہ جگہ کی قلت ہم کو اجازت نہیں دیتی ۔ پر ہم یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ اگر کو ئی دلچسپ بحث کو دیکھنا چاہے تو انڈریوزلالف آف کرسٹ کو پڑ ھے یا عمدہ تفسیروں کا ملا حظ کرے۔ انڈریوز صاحب اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ پر غور کرتے ہیں و ہ حصے یہ ہیں ۔

(١) اس اسم نویسی کی کیا غرض تھی اور کہاں کہاں وقوع میں آئی ۔

(٢) اس بات کا ثبوت کہ یہ اسم نویسی فی الحقیقت لوقا کے بیان کے مطابق وقوع میں آئی اور ۔

(٣) کہ کورنیس کے ساتھ اس کا کیا تعلق تھا ۔

[٣] دیکھئے لوقا کیسی سادگی سے دنیا کے نجات دہندے کی پیدائش کا بیان کر تا ہے۔ ایک لفظ بھی اس کے بیان میں یسا نہیں پایا جاتا جس سے اس قسم کی کوشش ظاہر ہوکہ گویا وہ مسیح کی پست حالی کو خارجی اچنبھوں اور عجیب نظاروں سے ملبس کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے زمانوں کو کے غیر الہامی اور غیر مستند ا حوال بھی موجود ہیں جن کو اپا کر فل کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اگر اس بیان کا مقابلہ کیا جائے۔ تو فوراً معلوم ہو جائے گا۔ کہ اس میں اور ان میں آسمان و زمین کا فرق ہے بے شک ان کو جن کے دل منور نہیں یہ بات ناممکن معلوم ہوتی ہے۔ کہ مسیح جو ابن خدا تھا دنیا میں آئے اور اس کی پیدائش کےوقت نیچر تہ وبالا نہ ہو اور جابجا جبنش نہ آئے ۔ فیر ر صاحب ایک کتاب کا جو مقدس یعقوب کی انجیل کہلاتی ہے۔اور اپا کر فل کتابوں میں شامل ہے ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک باب ہے جس میں مسیح کی پیدائش کے متعلق کئی عجیب باتیں قلمبند ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب وہ پیدا ہوا تو قطب آسمانی بے حس و حرکت ہو گیا اور تمام جانور خاموش ہو گئے۔ بھیڑیں ہو گئے۔ بھیڑیں جو تتر بتر ہو رہی تھیں۔ جہاں تھیں ، وہیں کھڑی ہو گئیں ۔ گڈریے نے انہیں مارنے کو اپنا ہاتھ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ وہیں رہ گیا ۔ بروں نے ندی پر پانی پینے کے لئے سر جھکا یا پر نہ پیا ، کیونکہ بے حرکت ہو گئے۔ غرضیکہ جو شے آگے بڑھ رہی تھی ا س کی رفتار آنا ً فاناً رُک گئی۔ مگر الہامی انجیلوں میں نیچر کے عمل کے دفعتہ ساکن ہو جانے کا کوئی اشارہ نہیں پایا اور نہ ان میں یہ بتا یا گیا ہے۔ کہ سورج کے آس پاس عجیب قسم کے روشنی نمودار ہوئی اور نہ یہ کہ دنیا میں کئی جگہ پر راز جلوہ نما ہوا اور مریم دروازہ سے بالکل آزاد ہی اور بیل اور گدھے نے جھک کر یسوع کو سجدہ کیا جبکہ وہ چرنی میں پڑا ہوا تھا۔ اور اس پیدا ہونے کے بعد اپنی ماں سے کہا کہ میں خدا بیٹا ہوں وغیرہ۔ ہماری انجیلوں کا ان فضول باتوںسے محفوظ رہنا ان کی سچائی اور ان کے مصنفوں کی کی دیانتداری کا پکا ثبوت ہے۔

[٤] اس ستار ے کی نسبت جو کچھ مشہور منجم کپلر نے کہاہے۔ اس سے زیادیہ واقف ہونے کے لئے فیرر اور انڈریور صاحبان کی کتابوں کو دیکھنا چاہےے۔ ان میں یہ مفصل ذکر پایا جاتا ہے۔ کہ کس طرح کپلر نے 1603ءاور 1604ءکے دور میں پہلے زحل اور مشتری کا قرآن معلوم کیا اور پھر یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد مریخ بھی ان سے آ ملا اور پھر زحلاور مشتری کے درمیان ایک نیا ستارہ دیکھا جو اپنی چمک دمک میں زہرہ سے بھی کہیں بڑھ کر تھا ۔ یہ قرآن قریباً آٹھ سو سال کے بعد وقوع میں آتا ہے اور حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جن دنوں ہمارا خداوند پیدا ہوا ان دنوں یہ قرآن واقع ہوا تھا۔ اور یہ ستارہ بھی جو کپلر نے زحل اور مشتری کے مابین دیکھا اس وقت غالباً دکھائی دیا ہو گا۔ مجوسیوں کے ستارے کی نسبت تین رائیں مروج ہیں۔ اوّ ل یہ کہ اس ستارے سے وہ قرآن مراد ہے۔ جو کپلر صاحب کے حساب کے مطابق مسیح کی پیدائش سے ذرا پہلے واقع ہوا ۔ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں فقط دو سیارے ایک دوسرے کے نزدیک آجاتے ہیں۔ مگر مل کرایک نہیں ہوتے۔ اس کے جواب میں وہ لوگ جو قرآن والی تھیوری کو مانتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ، کہ یونانی لفظ ستارے کے لئے بھی آتا ہے ۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ وہ ستارہ وہی تھا۔جو زحل اور مشتری کے درمیان دکھائی دیا اور تیسرا یہ ہے کہ وہ بالکل ایک نیا ستارہ تھا جو خدا نے اپنی قدرت سے انہیں دنو ں معجزانہ طور پر خلق کرکے سطح آسمان پر ظاہر فرمایا ۔ ڈاکٹر سٹاکر کی رائے جو متن میں درج ہے۔ زیادہ صاف اور مشکلا ت سے بری معلوم ہوتی ہے۔

[٥] اس ظالمانہ واقعہ کے بارے میں بعض لوگ اعتراض کرتے ہی کہ یہ واقع سرزد نہیں ہو ا کیونکہ یہودی مورخ جو سیفس اس کا ذکر اپنی کتابوں میں نہیں کرتا اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ ہیرودیس نے طرح طرح کے ظلم کئے جن کا شمار کرنا آسان نہیں ۔ پس اگر اس کی بے شمار ظالمانہ حرکا ت میں سے جوسیفس نے بعض کا ذکر نہ کیا تو کچھ تعجب کی بات نہیں اور یہ جواب تسلی بخش معلوم ہو تا ہے ۔اصل میں متی کے الفاظ ”دو دو برس کے یا ان سے چھوٹے “پڑھنے والے کو کسی قدر حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے قتال کئے گئے تھے ان کی بے شمارکو پیش کرتے ہیں اور ان کے قتل کئے جانے کی خبر جا بجا پھیل گئی ہو گی پر ہم بعض علما ءکے قیاسوں کو پیش کرتے ہیں جن کے مطابق لڑکو ن کا شمار بہت قلیل نظر آتا ہے ۔ انڈر یوز صاحب ایک شخص کی رائے اسی کے لفظوں میں اس طرح رم کرتے ہیں ”صرف وہی لڑکے اس شمار میں داخل تھے جہنوں نے دوسراسال شروع کیا تھا “‘اور ایک اور عالم یہ کہتا ہے کہ فقط وہی لڑکے مراد ہیں جوتیرہ مہنے کے تھے بعض علما نے حساب لگا کر یہ رائے دی ہے کہ بیت الحم کے باشندئے ٥٠٠٠٠ ہزار کے قریب تھے لہذا وہ لڑکے جو قتل کئے گئے ٩٠ سے زیادہ نہ ہوں گے او ر بعضوں نے بیت لحم کے باشندوں کی تعداد ٢٠٠٠ بتائی ہے اور مقتول لڑکوں کی تعداد ٥٠ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا شمار دس یا پندرہ سے زیادہ نہ ہوگا جو سیفیں ہیرودیس کی نسبت تحریر کرتے ہوءے یو ں کہتا ہے ”وہ (یعنی ہیرودیس )سب بنی آدم پر ظلم کرتارہا تھا اور انسانیت سے بالکل بے بہرہ تھا “۔ پس جس شخصنے اپنی بیوی کو قتل کیا اور اپنے بچوں کا خون پینے سے دریغ نہ کیا اور مرتے دم بھی غضبناک ہو کر یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کے تمام امرا ءقتل کئے جائیں تا کہ ان کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے اٹھے اگر ایسا شخص چند بچوں کو مروا ڈالتا تو یہ ان لوگوں کے لئے (بقیہ نوٹ صفحہ ۱۹)جوا اس کی طالمانہ طیعبت سے بخوبی واقف تھے تعجب کا باعث نہ ہو تا پس ممکن ہے کہ یہودی مورخ جوسیفس جوا س واقعہ سے نہت مدت بعد لکھنے لگا اس سے واقف نہ تھا اور اگر تھا تو بھی لازام نہ تھا کہ وہ اس کو ضرور لکھتا ۔بعض اشخاص نے اس کی خاموشی کےیہ بواعث پیش کئے ہیں ۔

اوًل ۔ کہ وہ ان باتوں کوجو سچی امیدوں سے واسبتہ تھیں ظاہر کرنا چاہتا ۔

دوئم ۔ یہ کہ وہ کو ئی ایسی بات اپنی تحریر میں درج کرنا نہیں چاہتا تھا جس سے مسیحی مذہب کی طرف توجہ کھینچی جائے ۔غالبا ً کہ یہ وجوہات صحیح ہیں اور اگر نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بھی کچھ ہرج نہیں کیونکہ ہم متی کے بیان کو رد نہیں کر سکتے ۔ صرف وہی لوگ اس کی معتبر ی پر شک لاتے ہیں جو ہر واقعہ کے ثبوت میں یہودی یا غیر قوموں کی تواریخ سے تائید طلب کرتے ہیں ۔

غیر قوم مورخوں نے بھی اس کا ذکر اپنی کتابوں میں نہیں کیا اور اس کی وجہ غالباًیہ تھی کہ ان کی دانست میں یہودیہ رومی مقبوضات میںایک ادنی درجہ کا ملک تھا ، اور اس کے بعض واقعات کو غیر وں کے لئے کچھ دلچسپی نہیں رکھتے تھے رقم کرنا انہیں بہت ضروری معلوم نہ ہو ا ۔ اس شخص نے جس کا نام مکروبی اس تھا اور مسیحی نہ تھا یہ لکھا ہے کہ جب اگتس (شہنشاروم ) نے سنا کہ آراوم کے ان دو دو برس کے لڑکو ں میں جن لکے قتل کرنے کا حکم ہیرودیس نے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیرودیس کا بھی ایک لڑکا تھا تو اس نے کہا کہ ہیرودیس کا بیٹا بننے کی نسبت اس کے سوارو ں میں شامل ہو نا بہتر ہے۔