چھٹا باب

دوسرا سال ،قبول عام

ہمارے خداوند نے جنوبی اطراف یعنی (یہودیہ ) میں سال بھرکام کرنے کے بعد پھر شمال کا رخ کیا۔ کیونکہ گلیل کے رہنے والوں میں نہ تو وہ تعصبات پائے جاتے تھے۔ جو باشندگان یہودیہ میں تھے۔اور نہ ان میں وہ بے جا فخر موجود تھا۔ جو یہودیہ کے رہنے والوں میں پایا جا تا تھا۔ لہذا اس کو یہ امید تھی کہ میں گلیل میں ایسے لوگوں سے دو چار ہو ں گا۔ ججو ان عیوب سے پاک ہیں۔ علاوہ بریں اس نے یہ بھی سوچا ہو گا۔ کہ گوگلیل اس جگہ سے جو قوم کے کے پیشواوں کا مرکز ہے۔ بہت دور ہے تو بھی تو میری تعلیم اور میرے نمونہ کی تاثیر ملک کے ایک حصہ میں بخوبی جڑپکڑ گئی تو میں قومی امداد پر تکیہ کرکے جنوب کی طرف پھر جاونگا۔ اور ہر طرح کے کے تعصب کو بیخ و بن سے اڑا دوں گا۔

گلیل صوبہ گلیل جس میںآئندہ اٹھارہ ماہ تک ہمارے خداوند نے کام کیا ایک چھوٹا سا علاقہ تھا بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ تما م فلسطین ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ چنانچہ اس کا طول سکاٹ لینڈ کے طول سے قریباً سو میل کم تھا۔اور اسی طرح اس کا عرض بھی سکاٹ لینڈ کے عام عرض سے بہت تھوڑا تھا۔ ہماری رائے میں اس بات سے واقف ہونا بہت ضروری امر ہے کیونکہ اس سے اس تیزی کا حال بخوبی کھل جا تا جس سے وہ تما م ملک کا دورہ کیا کرتا تھا۔ اور جگہ جگہ کے لوگ اس کا کلام سننے کے لئے اس کے پس جمع ہو جایا کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ بتانا بھی خالی از فائد ہ نہیں کہ جن لوگوں نے تہذیب کو ترقی دی ہے۔ وہ اپنی حقیقی عظمت کے ایاّم میں چھوٹی چھوٹی جگہوں سے وابستہ تھے۔ مثلاً روم ایک اکیلا شہر اور یونان ایک چھوٹا سا ملک تھا۔

ملک فلسطین چار حصوں میں منقسم اور ان میں سے گلیل سب سے شمال میں واقع تھا۔ یہ صوبہ ساٹھ میل لمبا اور تیس میل چوڑا تھا۔ اس کی زمین بیشتر مرتفع تھی۔ اور بے ترتیب پہاڑوں کی مداخلت سے کہیں اونچی اور کہیں نیچی تھی۔ مشرقی سرحد پر ایک نشیب واقع تھا جس کے بیچ میں سے دریائے یردن گرزرتا تھا۔ اور جس کے وسط میں جھیل گلیل بحیرہ اعظم کی سطح سے قریباً ٥٠٠ فٹ نیچے بربط کی طرح واقع تھی۔ تمام ملک زرخیزی اور زرریزی سے مالا مال تھا۔ جابجا دیہات اور شہر آباد تھے۔وسعت کے مقابلے میں آبادی بہت زیادہ تھی۔ جھیل کے کنارے پر ہر قسم کے کار بار کا بازار گرم تھا۔ یہ جھیل تیرہ میل لمبی اور چھ میل چوڑی تھی۔ اس کے مشرقی ساحل کے گرد ایک سبز قطعہ ١/٤ میل وسیع اس طرح واقع تھا۔ کہ گویا چاندی کی چادر پر سبز مخمل کی مغزی لگی ہے۔ اس کی دوسری جانب بڑے بڑے پہاڑ کھڑے تھے۔جن کی سطح پر سبزے اور گھاس کا نام ونشان نہ تھا۔ بلکہ جابجا وہ نالیاں جو ندی نالوں کے بہاو سے پیدا ہو گئی تھی۔ دکھائی دیتی تھی مگر مغربی ساحل کے نزدیک یہ پہاڑکسی قدر ہموار ہو گئے تھے۔ لہذا جا بجا کا شت اور سبزے سے ملبس دکھائی دیتے تھے۔ کھیتوں سے ہر طرح کا اناج پیدا ہوتا تھا۔ اور جھیل کا کنارہ جو دامن کوہ سے لگا ہوا تھا۔ زیتون اور نارنگی اور انجیر کے خوبصورت درختوں سے پرُ بہار تھا۔ شمالی سرحد کا نقشہ کچھ اور ہی تھا۔ وہاں جھیل اور پہاڑوں کے درمیان جو جگہ واقع تھی۔ وہ دریا کے ڈیلٹا ، کے سبب سے ایک وسیع میدان کی شکل رکھتی تھی۔ اور ان ندی نالوں سے سیراب ہوتی تھی۔ جو پہاڑوں سے نکلتے تھے۔ یہ جگہ گنیسرت کا میدان کہلاتی تھی۔ اور اپنی خوش نمائی اور زرخیری کے باعث باغ ارم کا مقابلہ کرتی تھی۔ اب بھی جبکہ جھیل کے طاس کا باقی حصہ ویرانہ سا پڑا ہے جہاں کہیں اہل زراعت کا ہاتھ پہنچتا ہے وہاں یہ جگہ خوبصورت کھیتوں سے لہلہاتی ہے اور جہاں زراعت نہیںہوتی وہاں خاردار جھاڑیوں کے جنگل کھڑے ہیں۔ ہمارے خداوند کے زمانہ میں کفر نحوم ، بیت صیدا اور قرازین بڑے بڑے شہر آبادتھے۔ مگر چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاوں سے جھیل کا ساحل بھرا پڑا تھا۔ اور بے شمار لوگ اس جگہ ہر وقت موجود رہتے تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں کثرت سے دستیاب ہوتی تھیں۔ کھیتوں اور باغوں سے ہر طرح کا اناج اور پھل برآمد ہوتا تھا۔ جھیل میں اس قدر مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔کہ ہزار ہا ماہی گیر انہیں سے روزی کماتے تھے اور علاوہ بریں وہ راستے جو مصر اور دمشق ، فنیکی اور فرات کے درمیان واقع تھے۔ وہ بھی اسی جگہ سے گزرتے تھے اور ان کے سبب سے یہ جگہ تجارت کی منڈی بن گئی تھی۔ جھیل کی سطح پر ہزاروں کشتیاں دکھائی دیتی تھیں۔ کئی ماہی گیری کی غرض سے اور کئی مال اسباب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے اور کئی تفریخ طبع کے واسطے استعمال کی جاتی تھیں۔ غرضیکہ یہ علاقہ کام اور رونق کے اعتبار سے زندگی اور اقبال مندی کا مرکز تھا۔

جو معجزات ہمارے خدا وند نے یروشلیم میں دکھائے ان کی خبر ان لوگوں کے وسیلے سے جو عید سے واپس آئے گلیل میںپہنچ گئی تھی۔ اور اغلب ہے کہ اس کی منادی اور بپتسمہ کا چرچا بھی اس کے وراد ہونے سے پہلے گلیل میں شروع ہو گیا تھا۔ پہلے پہل تو وہ ناصرت کی طرف روانہ ہو ا جہاں اس نے پرورش پائی تھی۔ اور وہاں سبت کے روز عبادت خانہ میں داخل ہوا۔ وہا ںاس سے درخواست کی گئی کہ کلام الٰہی پڑھے اور حاضرین کو پندو نصیحت سے بہرہ ور فرمائے کیونکہ اس کی منادی کی شہرت بھی جا بجا پھیل گئی تھی۔ اس موقع پر مسیح نے یسعیاہ بنی کی کتاب سے ایک جگہ جس میں مسیح کی آمد اور کام کا بہت عمدہ بیان پایا جاتا ہے پڑھ کر سنائی۔ خداوند کی روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبرسناوں۔ کچلے ہووں کو آزاد کروں او ر خداوند کے سا ل مقبول کی منادی کروں۔ جب اس نے ان آیات کا مطلب سمجھانا اور مسیح کے زمانے کی خصوصیتوں کی تصویر کھینچنا شروع کیا۔ یعنی جب غلاموں کی آزادی اور غریبوں کی دولت مندی اور مریضوں کی سفا یابی کا راز ظاہر فرمایا تو سامعین کے دل میں جن کے درمیان اس نوجوان واعظ نے پرورش پائی تھی۔ یہ شوق پیدا ہوا کہ اس کی باتیں کان لگا کر سنیں۔ چنانچہ کچھ مدت کے لئے سب ہمہ تن گوش معلوم ہوتے تھے۔ اور سب طرف سے تحسین و آفرین کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ ان دنوں یہودی عبادت خانوں میں تحسین و آفرین کے کلمات کا استعمال بیجا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آن کی آن میںیہ نقشہ بالکل بدل گیا اور لوگوں نے کانا پھوسی شروع کی۔ کوئی کہتا تھا ”کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو ہمارے یہاں کام کیا کرتا تھا“؟کوئی بول اٹھا ”کیا اس کے ماں باپ اسی جگہ کے رہنے والے نہیں “؟ کوئی پوچھتا تھا ”کیا اس کی بہنوں کی شادی اسی شہر میں نہیں ہوئی “؟ غرضیکہ آتش حسد بھڑک اٹھی اور جب اس نے یہ بتا یا کہ جو نبوت اس وقت پڑھی گئی ہے۔

وہ مجھ میں پوری ہوئی تو وہ لوگ سخت غصے سے بھر گئے اور کہا کہ جیسے نشان تو نے یروشلیم میں دکھائے ہیں۔ ویسے ہی یہاںبھی دکھا لیکن اس نے انہیںجواب دیا کہ میں بے ایمانوں کے درمیان کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ یہ سن کر انہوں نے بڑے غضب کے ساتھ حملہ کیا اور اسے عبادت خانہ سے نکال کر فوراً شہر کے پچھواڑے ایک ٹیلے پر لے گئے تاکہ وہاں سے سر کے بل گرادیں۔ اور اگر کوئی معجزانہ طور پر غائب نہ ہو جاتاتو گراہی دیتے اور اپنی ضرب المثل شرارت پر مسیح کے قاتل ہونے کی شہرت کو اضافہ کرتے جو بعد میں یروشلیم کے حصہ میں آئی۔

اس موقع کے بعد اس نے ناصرت کو بالکل چھوڑ دیا۔ البتہ ایک مرتبہ پھر پرانے واقفوں کی محبت کے باعث وہاں گیا مگر اس وقت بھی کوئی تسلی بخش نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ پھجر اس نے کفر نحوم میں جو بحیرہ گلیل کے شمال مغربی ساحل پر واقع تھا۔ رہنا اختیا ر کیا۔ یہ شہراب بالکل معدوم ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ کون سی جگہ آباد تھا اور شاید یہی سبب ہے کہ ہمیں اس شہر اور مسیح کی زندگی میں ایسا ربط محسوس نہیں ہوتا جیسا دیگر مقاموں کی کی بابت ہوتا ہے۔ مثلاً بیت لحم جہاں وہ پیدا ہوا۔ ناصرت جہاں اس نے پرورش پائی اور یروشلیم جہاں وہ مصلوب ہوا ہماری یادداشت میں ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ لیکن انسب ہے کہ ان جگہوں کے ساتھ ہم کفر نحوم کو بھی اپنے حافظہ میں جگہ دیں کیونکہ آئندہ اٹھارہ ماہ کے لئے( یہ عرصہ اس کی زندگی کا ایک افضل حصہ تھا ) یہی جگہ اس کا گھر یا مسکن تھی۔ یہ جگہ اس کا شہر کہلاتی تھیاور اسی کا باشندہ ہونے کے سبب اسے جزیہ بھی دینا پڑا۔ کفر نحوم گلیل میںکام کرنے کے لئے ایک عمدہ مرکز تھا کیونکہ جس قدر کارروائی جھیل گلیل کے قرب و جوار میں ہوتی تھی۔ اس کا مرکز یہ شہر تھا۔ مزید برآں کفر نحوم سے صوبہ گلیل کے دیگر حصوں میں بآسانی جاسکتے تھے۔ اور جو کچھ اس شہر میںسرزد ہوتا تھا۔ اس کی خبر بھی بہت جلد دوسرے علاقوں میں پھیل جاتی تھی۔

اب اس نے کفر نحوم میں کام شروع کیا۔ اور کئی ماہ تک یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس جگہ کو اپنی خاص قیام کی جگہ بنایا اور یہاں سے ہر طرف دورہ کرنا اور گلیل کے قصبوں اور گاوں میں منادی کرنا شروع کیا۔ کبھی کبھی مغرب کی جانب ملک کی اندرونی اطراف کو جاتا ہو گا۔ اور کبھی ان گاوں کا دورہ کرتا ہو گا جو جھیل کے کنارے پر واقع تھے اور کبھی اس ملک کو تشریف لے جا تا ہو گا۔ جو مشرقی ساحل پر واقع تھا۔ ایک کشتی ہر وقت تیار رہتی تھی۔ تاکہ جہاں کہیں وہ جانا چاہے بآسانی جا سکے۔ دورہ کرنے کے بعد کفر نحوم کو واپس آجاتا ہو گا اور وہاں کبھی ایک دن کبھی ایک ہفتہ اور کبھی دو ہفتہ کے لئے قیام کرتا ہو گا۔

چند ہفتوں کے عرصہ میں اس کا نام تما م ملک میں مشہور ہو گیا۔ جدھر دیکھو اُدھر اسی کا چرچا ہوتا تھا۔ کشیتوں میں لوگ اسی کی باتیں کرتے تھے اور گھر گھر میں اسی کے نام کا ورد ہوتا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں عجیب قسم کی تحریک پیدا ہو رہی تھی۔ جسے دیکھو وہی اس سے دیدار کا مشتاق تھا۔ ہزاروں لوگ اس کے پاس جمع رہتے تھے۔ اور روز بروز ان کا شمار بڑھتا جاتا تھا۔ جہاں کہیں وہ جاتا تھا۔ کے پیچھے جاتے تھے۔ یوں تھوڑے سے عرصہ میں اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور بے شمار لوگ یروشلیم ، یہودیہ ، اور پیریا سے آنے لگے بلکہ ادومیہ سے بھی جو کہ جنوب میں واقع تھا اور اسی طرح صور اور صیدا سے جو شمال میں واقع تھے۔ ہزارہا آدمی آتے تھے۔ اور کبھی کبھی اس کثرت سے جمع ہوتے تھے کہ جگہ چھوڑنی پڑتی تھی کیونکہ لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ ایسے ایسے موقعوں پر میدانوں اور بیابانوں میں لوگوں کو لے جانا پڑتا تھا ، غرضیکہ تمام ملک ایک سرے سے دوسرے سرے تک حرکت میں آیا ہوتا تھا اور گلیل میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں لوگ اس کے نام سے واقف نہ تھے۔

اب یہ سوال پیش کرآتا ہے کہ مسیح نے کونسا طریقہ اختیار کیا جو تما م ملک میں ایسی حرکت پیدا ہو گئی ؟ واضح ہو کہ یہ تحریک اس دعویٰ کا نتیجہ نہ تھی کہ یسوع ناصر ی مسیح موعود ہے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ دعویٰ تما م ملک کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک عجیب جوش سے بھر سکتا تھا۔ مگر مسیح نے ابھی اس دعویٰ پر بہت زور دینا شروع نہیں کیا تھا۔ البتہ کبھی کبھی اشارتاً جتا دیا کرتا تھا۔ کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کی راہ تم دیکھ رہے ہو جیسا کہ اس نے ناصرت کے عبادت خانے میں کیا۔ مگر متواتر یا پے در پے اسی دعویٰ کو پیش نہیں کیا کرتا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ گلیل کے لوگ ایسے تھے جو جلد متاثر ہو کر جوش میں آ جانے والے تھے۔ علاوہ بریں وہ مسیح کی بادشاہی کی دینوی شان وشوکت کے نہایت دلدادہ تھے پس اگر ان کے سامنے یہ دعویٰ بار بار کیا جاتا تو ممکن ہے کہ وہ رومی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے بغاوت پر آمادہ ہو جاتے اور اس ناسزا حرکت کا یہ نتیجہ ہوتا کہ لوگوں کے دل مسیح سے منحرف ہو جاتے اور وہ رومی تلوار کا شکار بن جاتا اور اگر یہ دعویٰ یروشلیم میںکیا جاتا تو وہاں بھی یہی خطرہ تھا۔ کہ یہودی اس کے برخلاف اٹھ کر اس کا کام تمام کر ڈالتے۔ پس ہر طرح کی خلل اندازی سے بچنے کے لئے اس نے یہی بہتر سمجھا کہ میرے ذات اور عہدے کی حقیقت کچھ عرصہ کے لئے منکشف نہ ہو اور لوگوں کے دل تیار کئے جائیں۔ تاکہ جب اظہار و انکشاف کا وقت آئے تو میری بادشاہی کو جلد قبول کر لیں مگر فی الحال یہی بہتر ہے کہ میری سیرت اور کام کو دیکھ کر وہ آپ ہی نتیجہ نکالیں کہ میں کون ہوں۔ پس وہ وسیلے جو اس نے آپ کام میں استعمال کئے اور جن کی وجہ سے لوگ اس قدر جوش وخروش سے بھر گئے اور اس کی طرف راغب ہوئے وہ ہی تھے۔ یعنی اس کی منادی اور اس کے معجزات تھے۔

مسیح کے معجزات :شاید اور سب باتوں کی نسبت اس کے معجزات نے لوگوں کو زیادہ تر اس کی طرف راغب کیا۔ انجیل کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کفرنحوم میںجو معجزہ اس نے پہلے پہل دکھا یا اس کی خبر پھول کی خوشبو کی طرح تمام شہر میں پھیل گئی اور ہزاروںاشخاص اس گھر پر جہاںوہ رہتا تھا۔ جمع ہو گئے اور جب کبھی وہ کوئی عجیب قسم کا معجزہ دکھا تا تھا۔ تو لوگوں کا جوش اور بھی دوبالا ہو جاتا تھا اور اس کی خبر ہر جگہ پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً جب اس نے پہلی دفعہ کوڑھ کی بیماری کو دور کیا تو لوگ حیرت سے بھر گئے اور یہی حال اس وقت ہوا جب اس نے پہلی دفعہ ایک دیو کو نکا لا اور جب اس نے ایک بیوہ کے لڑکے کو شہر نائن میں زندہ کیا تو پہلے سب لوگوں پر خوف چھا گیا پھر سب کے سب خوشی سے بھرگئے اور حیرت اور تعجب سے معمور ہو کر اس عجیب واقعہ کی بابت آپس میں گفتگو کرنے لگے۔تمام گلیل میں عجیب قسم کی حرکت پیدا رہوگئی۔ ہزار ہا بیمار جو چل سکتے تھے۔ یا گرتے پڑتے اس کے پاس آسکتے تھے، آتے تھے اور جو آپ نہیں چل سکتے تھے۔ انہیں ان کے دوست چار پائیوں پر اٹھا کر اس کے پاس لاتے تھے۔ غرضیکہ شہروں اور گاوں کی گلیاں جدھر سے اس کا گزر ہوتا تھا۔ بیماروں سے بھر جاتی تھیں اور کبھی کبھی شمار اس قدر بڑھ جاتاتھا کہ اسے کھا نا کھانے تک کی بھی مہلت نہیں تھی چنانچہ ایک دفعہ وہ اس محبت بھرے کام میںایسا ستغرق ہوا اور لوگوں کے دکھوں کو دیکھ کر ایسا جو ش میں آیا کہ اس کے رشتہ دار اسی رقت کو دیکھ کرنا مناسب مداخلت پر آمادہ ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ وہ بیخود ہوگیا ہے۔

ہمارے خداوند کے معجزات دو قسم کے تھے یعنی اوّل وہ جن سے بیمار چنگے کئے گئے اور دوم وہ جو فطرت کی طاقتوں پر غالب آئے۔ مثلاً پانی کومے بنانا، طوفان کو تھما دینا اور روٹیوں کے شمار کو بڑھانا۔ لیکن پہلی قسم کے معجزے دوسری قسم کے معجزوں سے شمار میں بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اس نے طرح طرح کی بیماریوں کو اپنی معجزانہ قدرت سے دور کیا۔ لنگڑوں کو چلنے، اندھوں کو دیکھنے اور بہروں کو سننے کی طاقت عطا فرمائی اور مغلوجوں کو چنگا اور کوڑھیوں کو پاک صاف کیا۔ وہ ان میں طرح طرح کے طریقے کام میں لاتا تھا۔ لیکن ہم کو یہ وجہ معلوم نہیں کہ وہ کیوں ایسا کرتا تھا۔ کبھی تو وہ بیمار کو چھوتا تھاکبھی گیلی مٹی آنکھ پر لگا تا تھا اور کبھی مریض کو غسل کرنے کا حکم دیتا تھا۔ اور بسا اوقات بلاوسائل بھی مریض کو چنگا کر دیتا تھا۔ بلکہ کبھی کبھی بیمار کو دیکھتا بھی نہ تھا اور ہی سے کہہ دیتا تھا۔ اور وہ چنگا ہو جاتا تھا جسمانی امراض کے علاوہ وہ عقلی امراض کو بھی اپنی معجزانہ قوت سے دور کر دیا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے زمانے میں عقلی امراض کثرت پھیل گئے تھے۔ اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک طرح اسی زمانہ کے ساتھ مخصوص تھے۔ لوگ ان سے بہت ڈرتے تھے اور خیال کرتے تھے۔ کہ یہ امراض بدروحوں کے داخل ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ خیال ان کا بالکل صحیح تھا۔ وہ شخص جسے مسیح نے گدرینیوں ملک میں قبروں کے درمیان چنگا کیا اس ہولناک مرض کا ایک عجیب نمونہ ہے۔ اس کا کپڑے پہن کر اور شفا پا کر مسیح کے پاوں کے پاس بیٹھنا ظاہر کر تا ہے۔ کہ مسیح کی پرُ محبت اور تسلی بخش اور شاہانہ حضوری ان لوگوں کے دلوں پر جن کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ عجیب قسم کا اثر رکھتی تھی۔ لیکن مسیح کے معجزات میں سے سے مردوں کو زندہ کرنے کے معجزات سب سے زیادہ حیرت انگیز تھے گو وہ باربار وقوع میں نہیں آتے تھے۔ تو لوگوں کو حیرت کا پتلا بنا دیتے تھے۔ دوسری قسم کے معجزے بھی یعنی وہ جو دائرہ فطرت میں نمودار ہوئے اسی طرح بیان سے باہر ہیں۔ اگر وہ فقط عقلی امراض کو چنگا کرتا تو شائد لوگ یہ کہتے کہ اس کی زور آور طبیعت کے اثر نے عقلی نقصوں کو دور کر دیا۔ اور بعض جسمانی امراض کی مدافعت کی نسبت بھی یہ کہا جا سکتا تھا۔ کہ وہ ایک پرُزور مرضی کی تایثر کے وسیلے سے دور کئے گئے ، لیکن موج مارتے سمندر کی سطح پر چلنا ہر طرح کی تفسیر کے دائرہ سے باہر ہے۔

اب یہ سوال پیش کرتا ہے کہ مسیح نے کس لئے اپنے کام میں معجزات کو ایک وسیلہ بنایا ؟ اس سوال کے کئی جواب دیئے جا سکتے ہیں۔

(۱)اس نے یہ معجزات اس لئے دکھائے کہ اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو۔ گویا معجزات وہ ”نشانات “تھے جو اس کی رسالت کو ثابت کرتے تھے۔ پرانے عہد کے کئی نبیوں کو اس سے پہلے معجزات دکھانے کی قدرت عطا کی گئی تاکہ ان کی رسالت پایہ ثبوت کو پہنچے اور گو یوحنا بپتسمہ دینے والے نے جو مدت دراز کے بعد عہدہ نبوت کو تازہ کرنیوالا شخص تھا کوئی معجزہ نہ دکھایا جیسا کہ ہم اناجیل کے سادے اور سچے بیان سے معلوم کرتے ہیں۔ تو بھی مسیح کے لئے جو بزرگ سے بزرگ نبی سے بھی بزرگتر تھا۔ معجزات کی نفی زیبانہ تھی بلکہ ضرور تھا۔ کہ وہ گذشتہ نبیوں کے معجزات سے بڑے بڑے معجزات دکھا کر اپنی رسالت کو ثابت کرے۔ اس کا یہ دعویٰ کہ میں مسیح ہوں ایک عظیم دعویٰ تھا اور وہ لوگ جو رسالت کے ثبوت میں معجزات دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ اس کے ایسے دعویٰ کو ہرگز قبول نہ کرتے اگر وہ کوئی معجزانہ نشانات نہ دکھاتا۔

(۲)پھر مسیح کے معجزات اس الٰہی بھر پوری یا الوہیت کے کمال کا جو اس میں مجسم ہو رہا تھا۔ لازمی اظہار تھے وہ خدا کا مظہر تھا اور اس کی انسانیت روح القدس کی بے قیاس قدرت سے مالا مال تھی۔ پس یہ بات قواعدفطرت کے عین مطابق تھی۔کہ جب ایسا شخص دنیا میں آئے تو عجیب قسم کے کام اس سے سرزد ہوں۔ وہ وہ بذات خود ایک عجیب معجزہ تھا اور اس کے دیگر معجزات اس بڑے معجزے کی کرنیں تھے۔ اس کا اس دنیا میں قدم رکھنا بذات خود قانون قدرت کی ترتیب کے برعکس تھا یا یوں کہیں کہ اس کا اس دنیا میں آنا گویا انتظام موجوادت میں ایک نئے عنصر کا داخل ہونا تھا۔ تاکہ دنیا کو اپنی حضوری کی برکتوں سے مالا مال کرے اور جب وہ داخل ہوا تو اس کے ساتھ اس کے معجزے بھی داخل ہوئے نہ اس لئے کہ ترتیب میں فتور پیدا ہو بلکہ اس لئے کہ جو خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی اصلاح کی جائے لہذا اس کے تمام معجزات نہ صرف اس کی الٰہی قدرت کا اظہار تھے۔ بلکہ اس کی پاکیزگی اور حکمت اور محبت کو بھی ظاہر کرتے تھے۔ یہودی اکثر اس سے بڑے بڑے اچنبھے طلب کیا کرتے تھے۔ تاکہ عجائبات دیکھنے والی ہوس کو پورا کریں مگر وہ کبھی ان کو کہنا نہیں مانتا تھا۔ اور صرف اسی قسم کے معجزے دکھایا کرتا تھا۔ جو ایمان کو تقویت دینے کے لئے ضروری شرط تھا۔ غرضیکہ وہ نہ کبھی لوگوں کے شوق کو پورا کرنے کے لئے اور نہ کبھی ان بے ایمانوں منہ بند کرنے کے لئے معجزے دکھا تا تھا جو اکثر اوقات اس سے معجزے طلب کیا کرتے تھے۔ اس کے معجزات پر یہ خاصیت انہیں ان اچنبھوں سے جدا کرتی ہے۔ جو قدیم اچنبھے دکھانے والوں یا رومن کتیھلک درویشوں سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ مسیح کے معجزات پر سنجیدگی اور رحم اور محبت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی سیرت کا اظہار تھے۔

(۳) اس کے معجزات اس کے روحانی اورنجات بخش کام کی علامتیں ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر غورکریں تو آپ قائل ہو جائیں گے کہ اس کے معجزات دنیا کی خرابی اور تکلیف پر فتح پانے کا نشان تھے۔ بنی آدم کئی قسم کی خرابیوں کا شکارہو گئے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ تمام فطرت کے ڈھانچے میں وہ آثار ہو گئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ تمام فطرت کے ڈھانچے میں وہ آثار پائے جاتے ہیں جو کسی گزری ہوئی تباہی پر دلالت کرتے ہیں۔ ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردزہ میں پڑی تڑپتی ہے“۔

موجودات کی یہ بے قیاس ابتر ی اور خرابی بنی آدم کے لئے گناہ کا نتیجہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک بیماری یا نقصان کسی خاص گناہ سے علاقہ رکھنا ہے۔ گو بہت سی بیماریوں او نقصانات ضرور خاص خاص گناہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ او گذشتہ گناہ کے نتائج تمام بنی آدم میں عموماً بٹے ہوئے ہیں، پھر بھی دنیاکی خرابی گویا اس کے گناہ کا سایہ ہے۔ اور چونکہ مادی اور اخلاقی خرابیاں ایک دوسری سے علاقہ رکھتی ہےں۔ لہذا ایک سے دوسری کا حال کھل جاتا ہے۔ پس جب اس نے جسمانی پن کو دور کیا تو یہ فعل گویا باطنی بصیرت کو بحال کرنے کی علامت ٹھہرا۔ اسی طرح جب اس نے مردوں کو زندہ کیا کہ روحانی دنیا میں بھی میں ہی زندگی اور قیامت ہوں۔ جب اس کے کوڑھ دور کیا تو گویا یہ پتہ دیاکہ میں ہی گناہ کا کوڑھ بھی دور کر سکتا ہوں۔ جب اس نے روٹیوں کو معجزانہ طور پر چڑھایا تو گویا اس معجزے سے زندگی کی روٹی پر بھی تقریر کی اور اس کا طوفان کو بند کرنا یہ دلالت کرتا تھا۔ وہ پریشان ضمیر کو بھی اطمینا ن اور سکون عطاکر سکتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ مسیح کے معجزات اس کے کام کا ضروری اور لازمی حصہ اور اسے قوم میں مشہور کرنے کا ایک عمدہ وسیلہ تھے۔اس کے علاوہ وہ لوگ جو شفا یاب ہوتے تھے۔ وہ شکر گذاری کے رشتہ سے اس کے ساتھ جکڑے جاتے تھے۔اور اس میں شک نہیں کہ جو پہلے اس کے معجزات پر ایمان لائے ان میں سے کئی بعد میں ایمان کی اعلیٰ منز ل تک پہنچے مثلاً مریم مگدلینی کو جس میں سے اس نے ساتھ دیو نکالے تھے۔ اسی قسم کا تجربہ نصیب ہوا۔

اور اگر اس کی نسبت سوچاجائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے اس کا م سے کبھی بہت دکھ اور کبھی بڑی خوشی ہوتی ہو گی۔ طرح طرح کی بیماریوں اور گناہ کے اندو ہناک نتیجوں کو دیکھ کر اس کا پرُمحبت اور ہمدرد دل جس کی نرمی کبھی کم نہیں ہوتی تھی۔ زخمی ہو جاتا ہوگا،مگر اس کی عظیم محبت کا مسکن ایسی ہی جگہوں میں ہونا چاہےے جہاں مد د کی ضرورت تھی اور طرح طرح کی برکتوں کو ہر طرف تقیسم کرنا اور گناہ کے داغوں کو جابجا مٹانا اس کے لئے بڑی فرحت کا باعث ہوا ہو گا۔ اس کے معجزانہ چھونے سے صحت کا لوٹ آنا ، بند آنکھوں کو خوشی اور شکر گذاری کے ساتھ کھلتے دیکھنا ، ماو ¿ں اور بہنوں کی دعائے خیر کو اس وقت جبکہ وہ ان کے عزیزوں کو چنگا کرکے ان کے حوالے کرتا تھا۔ سننا،شہروں اور گاو ¿ں میں داخل ہوتے وقت غریبوں کے چہروں پر محبت اور تعظیم کے آثار کو دیکھنا اس کے دل کو خوشی سے بھر دیتا ہو گا۔ غرضیکہ وہ اس چشمہ سے جو بھلائی کا منبع ہے خوب سیر ہو چکا تھااور چاہتا تھا ، اور اب چاہتا ہے کہ اس کے شاگرد بھی اس سے سیر ہوں۔

مسیح کی تعلیم اور اس کی تاثیر

ہمیں یقین ہے کہ اوپر کے بیان سے ہمارے ناظرین پر بخوبی واضح ہوگیا ہو گا۔ کہ مسیح کے کام میں معجزات کیا جگہ رکھتے ہیں۔ اب ہم اس کی منادی یا تعلیم کی نسبت چند خیالاتپیش کرنا چاہتے ہیں۔اس کی تعلیم اس کے معجزات سے بڑا رتبہ رکھتی ہے۔ اس کے معجزات گھنٹے کی طرح لوگوں کو اس کے پاس بلانے کا کام دیتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کے حضور فراہم ہو کر اس کے کلام کو سنیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے معجزات کے سبب سے اس کا نام نزدیک اور دور سب جگہ مشہور ہو گیا مگر اس کی تعلیم بھی اس کی شہرت کا سبب تھی۔ فصاحت وہ جادو ہے جو لوگوں کو ایک دم میں حیرت کا پتلا بناکر مسخر کر لیتی ہے۔ ہر قوم اس جادو متاثر ہوتی آئی ہے۔ بربری ہمہ تن گوش ہو کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کے افسانے اور کہانیاں سنتے تھے۔ مہذب یونانی اپنے معلموں کے ایک ایک لفظ کی قدر کرتے تھے۔ اور اہل روم بھی جو زندگی کے معمولی کار وربار کے سا اور کسی کام سے سر و کار نہیں رکھتے تھے۔ اس جادو کے اثر اور قوت کے قائل تھے۔ یہودی تو اس کے ایسے عاشق تھے کہ اور کسی چیز پر ایسے فریفتہ نہ تھے جیسے فصاحت و بلاغت پر ، ان کے بزرگوں میں کوئی ایسا فصیح نہ تھا۔ جیسے ان کے بنی جنہوں نے آسمانی صداقت کو فصاحت کا لباس پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اگرچہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کبھی کوئی معجزہ نہیں دکھا یا تھا۔ تو بھی لوگ اس کی باتوں کے سننے کے لئے ہر طرف سے کثرت سے جمع ہوتے تھے۔ کیونکہ اس کے کلام میںنبیوں کی فصاحت کی قدرت رعد کی طرح کڑ کتی تھی۔ اور لوگوں نے اس عجیب قدرت کو جس کا نظارہ ایک مدت سے نصیب نہیں ہوا تھا ،اس کے پرُزور الفاظ میں محسوس کیا اور اس طرح اس کے پاس جمع ہوئے جس طرح چشمہ شیریں پر چیونٹیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اور چونکہ مسیح بھی بنی تھا لہذا اس کی منادی کا شہرہ ہر جگہ پھیل گیا۔ ”اور وہ ان کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اس کی بڑائی کرتے رہے“۔ لوگ اس کی باتوں کو بڑی حیرت سے سنتے تھے۔ کبھی کبھی ایسا بڑا مجمع ہو جاتا تھا۔ کہ اسے جھیل کا کنارا چھوڑ کر کشتی پر سوار ہونا اور وہاں سے ان کی طرف مخاطب ہو کر اپنی زبان حقیقت بیا ن کو کھولنا پڑتا تھا۔ اس کے کلام میں کچھ ایسی تاثیر تھی۔ کہ اس کے مخالفوں کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ” انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں گیا “۔ اگرچہ اس کے الفاظ جو قلمبند ہو کر ہمارے زمانے تک پہنچے ہیں۔ بہت ہی تھوڑے ہیں تاہم ان سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے۔ کہ آیا اس کے مخالفوں کی یہ رائے جواوپر بیان ہوئی صحیح ہے۔ یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کا کلام سامعین پر کیسا اثر ڈالتا تھا۔ اس کی پُر تاثیر تقریروں کا خلاصہ جو انجیلوں میں محفوظ ہے۔ اگر الگ کرکے چھایہ جائے تو معمولی قسم کے چھ سرمنوں سے زیادہ جگہ نہ لے گا۔ تاہم یہ کہنا بے جانہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی علمی خزانہ بنی آدم کے ورثہ میں نہیں آیا۔ جس طرح اس کے معجزے اس کی ذات مبارک کا اظہار تھے۔ اسی طرح اس کا کلام اس کی ذات کا مظہر تھا۔ چنانچہ اس کے ایک ایک لفظ اس کی سیرت کا جلا ل چمک رہاہے۔

اس کی منادی کا طریقہ اس کی قوم کے بزرگوں کے طرز تقریر کی مانند تھا۔ اس امر میں اہل مشرق اور اہل مغرب میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً مغربی ممالک کے باشندے جب کسی بات پر غور کرتے یا کسی خیال کو الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ تو عبارت کی روانی اور تشریح و تفسیر کو مد نظر رکھتے اور اپنے خیالات کو منطقی ترتیب اور سلسلے کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ پس جس طرز سخن پر اہل یورپ فریفتہ ہیں وہ یہ ہے کہ بولنے والاایک عمدہ مضمون انتخاب کرکے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرے اور پھر ایک ایک حصے پر سلسلہ وار اپنے خیالات ظاہر کرے اور یوں ایک حصے کو دوسرے حصے سے ربط دیتا ہوا اپنی تقریر کو ایسی رقت انگیز اپیل سے ختم کرے کہ سامعین کے دل اس کے ہاتھ میں آجائیں۔ اور جو کام ان سے کرانا چاہے کر اے لیکن برعکس اس کے اہل مشرق کا یہ طریق ہے۔ کہ وہ ایک نکتہ کو لے کر اسی کی دھن میں لگے رہتے ہیںاسی کے نشیب و فراز پر غور کرتے اور جو صداقتیں اس کے متعلق ذہن نشین ہوتی ہیں، انہیں ایک جگہ جمع کرکے چند جان گداز اور قابل یا د الفاظ میں ادا کر دیتے ہیں۔ وہ اختصار کو پسند کرتے اور دل میں کھب جانے والے محاورات کا م میں لاتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اہل مغرب اپنی تقریر کو بڑی ترکیب اور مناسبت سے مرتبت کرتے ہیں چنانچہ ان کی تقریرمیں زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک خیال دوسرے سے وابستہ ہوتا ہے لیکن اہل مشرق کی تقریر اور تحریر تاروں بھری رات کی مانند ہوتی ہے۔ جس طرح رات کے وقت سیا ہ یا نیلگوں آسمان کی سطح پر تارے چمکتے ہیں۔ اسی طرح ان کی تحریر میں نورانی نکات کے جواہر جگمگاتے ہیں۔

مسیح اس قسم کے طرز سخن کو کام میں لا یا۔ اس کے کلام میں بیشمار الفاظ اور محاورات ایسے موجود ہیں کہ ان میں سے ایک ایک ”کوزہ میں دریا بند “ کو مصداق ہے یعنی بڑی بڑی گہری حقیقتیں چھوٹے چھوٹے جملوں میں ادا گئی ہیں اور ایسی پُر تاثیر صورت میں کہ تیر کی طرح دل میں کھب جاتی ہیں۔اگر آپ ان الفاظ کو جو اس سے منسوب کئے جاتے ہیں اور جو انجیلوں میںقلمبند ہیں پڑھیں اور ان پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے ہر ایک لفظ دل کو کھینچ لیتا ہے۔ اور ایسے عمیق معانی رکھتا ہے کہ بہ سبب لطافت اور حلاوت کے دل سیر نہیں ہوتا اور پھر یہ بھی دیکھیں گے کہ باوجود اس کے اس کلام میں کچھ ایسی خاصیت پائی جاتی ہے۔ کہ ا س کی باتیں جلد حفظ ہو جاتی ہیں۔ چنا نچہ وہ اس کی امت کے حافظہ میں پتھر پر کی لکیر کی طرح قائم ہیں۔ہا ں ان کی یہ عجیب خاصیت ہے کہہ دماغ ابھی ان کے معانی کو سمجھنے نہیں پاتا کہ وہ پہلے ہی سے امثال کی طرح ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔

علاوہ بریں اس کی تعلیم کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی صنعتوں اور تشبیہوں سے پُر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قوت متخیلہ خیال کے عوض تشبیہات کے ذریعے سے اپنا کام کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ فطرت کی گو ناگوں صنعتوں کو بڑے شوق سے ملا حظہ کیا کرتا تھا۔ پھولوں کے رنگ پرندوں کے ڈھنگ ، درختوں کا بڑھنا موسموں کا بدلنا اس کی حقیقت شناس چشم سے پوشیدہ نہ تھا۔ اور اسی طرح وہ بنی آدم کی زندگی کی ہر رہگذر سے بخوبی تھا۔ چنانچہ وہ جانتا تھا کہ مذہبی امور اور کاروبار ار خانگی تعلقات میں انسان کیا ہے۔ لہذا وہ کسی نہ کسی فطرتی تشبیہ کو کام میں لائے بغیر نہیں بول سکتا تھا۔ اور نہ بغیر اس کے غور کر سکتا تھا۔ پس ہم دیکھتے ہیں۔ کہ اس کاکلام طرح طرح کی تشبیہوں سے پُر ہے۔ جن کے سبب سے ایک قسم کی بوقلمونی اور حرکت اس سے ہویدا ہے، وہ قیاسی قضیئے اور وہمی دعویٰ پیش نہیں کرتا بلکہ حقیقتوں کا فوٹو کھینچ دیتا ہے۔ اور اس کے الفاظ سے ملک کی خصوصیات اور زمانہ کے حالات اس طرح ٹپکتے ہیں جس طرح تصویر سے ٹپکا کرتے ہیں۔کہیں سوسن کی پھواڑیا ںجن کے حسن خدا داد کی دید سے اس کی آنکھیں ترو تازہ ہوتی تھیں۔ ، سرسبز کھیتوں میں لہلہارہی ہیں۔ کہیںبھیڑیں اپنے چوپان کے پیچھے پیچھے جارہی ہیں۔ کہیں شہروں کے تنگ اور کشادہ دروازے نظر آتے ہیں۔ کہیں کنواریوں کے مشعل جو دولھا کی منتظر کھڑی ہیں اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ اگر ہیکل میں ایک طرف فریسی پاک نوشتوں کی آیات ماتھے اور بازوں پر لگائے کھڑا ہے تو دوسری طرف ایک محصول لینے والا گردن جھکائے دعا مانگ رہا ہے۔ اگر ایک دولتمند اپنے محل میں بیٹھا ضیافت کے مزے اڑا رہا ہے۔ تو ایک مصیبت زدہ غریب جس کے زخموں کو کتے چاٹ رہے ہیں۔ اس کے دروازے پرپڑا کر اہ رہا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے اور سینکڑوں دلچسپ فوٹو اس کے کلام میں بکثرت موجود ہیں۔ اور ان کے وسیلے سے اس زمانے کے اوضاع و اطوار اور طرز معاشرت کے اندرونی اور جزوی حالات کھل جاتے ہیں۔ جن کا ذکر عام تاریخی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر ا س کے کلام کا یہ خاصہ تھا کہ اس میں تمثیلات کا استعمال بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس میں وہ دونوں باتیں جن کا ذکر اوپر ہوا مل جاتی ہیں۔ یا یوں کہیں کہ تمثیل مختصر بیان اور تشبیہی کلام کی ترکیب سے پیدا ہوتی ہے۔ تمثیل زندگی کے عام واقعات میں سے کسی واقعہ کو چن لیتی اور اس کی ایک چمکتی دمکتی تصو یر بنا کر اسے اپنے کام میں لاتی ہے اور اس کے وسیلے کسی روحانی بھیدکو جو اس سے مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے۔ ظاہرکرتی ہے اظہار حقائق کے لئے یہ طریقہ قوم یہود کے درمیان عام تھا۔ مگر مسیح نے اس کو خوب جلا دی اور کمال تک پہنچایا۔ اس کی باتیں جو اب تک محفوظ ہیں ایک تہائی کے قریب تمثیلوں پر مشتمل ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ کس طرح سامعین کے حافظہ پر جم جاتی تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ منادوں کے سرمنوں سے چند سال کے بعد فقط وہی مثالیں یاد رہتی ہیںجو وہ تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمثیلیں اس وقت سے لے کر اس وقت تک پشت در پشت مسیحیوں کے حافظہ میں محفوظ چلی آئی ہیں۔ مسرف بیٹا بیج بولنے والا ، دس کنواریا ں نیک سامری اور دیگر تمثیلیںلاکھوں لوگوں کے دلوں میں گویا خوبصورت تصویروں کی طرح لٹک رہی ہیں۔ کیا دنیا کے بڑے بڑے شاعروں یا نثر نویسوں کے کلام میں مثلاً سعدی ، ابوالفضل ، ظہوری اور فردوسی وغیرہ کے کلام میں کوئی ایسے حصے یا ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے مسیح کی تمثیلوں کی مانند بنی آدم کے دل پر گرفت پیدا کی ہو؟ مسیح کو مثالوں کی تلاش میں دور نہیں جانا پڑتا تھا۔ جس طرح ایک ماہر اور مشاق کی تلاش مصور کھڑ یا مٹی کی ڈلی یا ایک بجھا ہوا کوئلہ لے کر ایک ایسی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ کہ اسے دیکھ کر یا تو ہنسی کے مارے کلیجہ تھامنا پڑتا یا آنسووں کے دریا جاری ہو جاتے ہیں یاد دیکھنے والا نقش بردیوار سارہ جاتا ہے۔ اسی طرح مسیح بھی زندگی کے عام واقعات کو چن لیتا ہے مثلاً نئے جامے پر نئے پارچے کا پیوند لگانا۔ پرانی مشکوں کا نئی مے کے سبب سے پھٹ جانا۔ لڑکوں کا بازاروں میں کھڑے ہو کر شادی اور ماتم کے کھیل کھیلنا۔ کسی جھونپڑی کا طوفان کے تھپیڑے کھا کر گر پڑنا وغیرہ عام واقعات ہیں اور وہ انہیں چن کر اپنے بینظیر فن سے ایسے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کہ وہ دائمی حقیقتوں اور آسمانی رازوں کو روز روشن کی طرح آشکارا کر دیتے ہیں۔ پس تعجب کی بات نہیں کہ ہزارہا لوگ اس کے پاس جمع رہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے کلام کی تہ تک پہنچنے کے لئے صد ہا سال کی غور فکر کی ضرورت تھی تاہم سادہ سے سادہ اور جاہل سے جاہل سننے والا بھی اس کی مثالوں کو سن کر محفوظ ہو جاتا ہو گا۔ اور ان الفاظ کو جن کے وسیلے سے وہ اپنے خیالات ادا کیا کرتا تھا۔ عمر بھر کے لئے اپنے ساتھ لے جاتا ہو گا۔ پس یہ کہنا بے جا نہیں کہ اس کے کلام کی مانند اور کوئی کلام نہیں کیونکہ جس قدر وہ سادہ ہے۔ اسی قدر گہرا بھی ہے ، جس قدر صنعتوں سے پُر ہے اسی قدر صداقت اور راستی سے بھی معمور ہے۔

یہ تو اس کے کلام کی خاصیتیں ہیں۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے دکھائیں گے کہ اس لاثانی مناد کی منادی میں کون کون سی خاص باتیں توجہ طلب ہیں۔ ان کا ذکر اس کے سامعین کی نکتہ چینی میں موجود ہے۔ اور نیز ان تقریروں سے ان کا پتہ ملتا ہے جو انجیلوں میں قلمبندہیں۔

ان میں جو سب سے بڑھ کر ہے ، وہ اختیار ہے۔ جو لکھا ہے کہ ”بھیڑ اس کی تعلیم سے حیران ہوئی کیونکہ وہ ان کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحب اختیار کی طرح انہیں تعلیم دیتا تھا“۔پس پہلی بات جسے اس کے سامعین نے محسوس کیا ، وہ فرق تھا جو اس کے کلام میں اور فقیہوں کی اس منادی میں پایا جاتا تھا۔ جو وہ عبادت خانوں میں کیا کرتے تھے۔ یہ فقیہہ ایسے مردہ اور خشک مسائل کی منادی کرتے تھے۔ کہ ان سے بڑھ کر بے تاثیر اور بے جان مسائل اور کسی جگہ نہیں ملتے۔ اگر وہ ان پاک نوشتوں میں سے جو ان کے پاس موجود تھے لوگوں کو نصیحت کرتے اور ان کے مطالب کھول کر بتاتے تو اس سے ان کے کلام کو ایک طرح کی طاقت اور تازگی حاصل ہوتی مگر وہ مفسروں کے کہنہ خیالات کی خوردہ فروشی میں لگے رہتے تھے۔ اور کوئی ایسی رائے پیش نہیں کرتے تھے۔ جو کسی ربی کی سند پر مبنی نہ ہو۔ وہ انصاف اور رحم ، محبت اور خدا کے متعلق لوگو ں کو تعلیم دینے کی جگہ پاک نوشتوں کو ایک رسوم نامہ کی صورت دے کر ادنیٰ باتوں کی منادی کرنے لگ گئے مثلاً لوگوںکو صرف ایسی ایسی باتیں بتانے لگ گئے کہ جو آیات ماتھے اور بازو ¿وں پر لگانی چاہئیں۔ دعا کے وقت کس طرح بیٹھنا یا کھڑا ہونا چاہےے۔ روزہ کتنی دیر تک رکھنا چاہےے اور سبت اور دن کتنا فاصلہ طے کرنا چاہےے وغیرہ۔ انہی باتوں پر اس زمانے کا مذہب منحصر تھا۔ اور جس طرز کی منادی اس زمانے میں مروج تھی اگر ہم اس کا نمونہ جدید زمانوں میں دیکھنا چاہیں تو ہمیں ریفارمیشن کے زمانے پر نظر ڈالنا چاہےے۔ جس شخص نے سکاٹ لینڈ کے مصلح ناکس کے سوانح عمری تحریر کئے ہیں۔ بتا تا ہے کہ ریفارمیشن کے ایاّم میں رومن کیتھلک درویشوں کی تقریریں بالکل بے مغز بے لطف اور ناقص ہوتی تھیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ”ایسی کہانیا ں جو کسی رومن کتیھلک مذہبی فرقہ کے بانی سے منسوب کی جاتی تھیں۔ یعنی دہ معجزے جو ان کے خیال میں اس نے دکھائے وہ لڑائیاں جو اس نے شیطان کے ساتھ کیں، اس کی دعائیں اس کے روزے اس کا اپنے آپ کو کوڑوں سے مارنا وغیرہ وہ مضامین تھے جن پر منادی کی جاتی تھی۔ یا مقدس پانی اور مقدس تیل کی تاثیر یا اپنے بدن پر صلیب کا نشان بنانے اور کلام کے وسیلے سے آسیب دور کرنے کی خوبیوں کا راگ الاپاکرتے تھے۔ یا پر گیٹوری (اعراف ) کے شدید عذاب کا خاکہ کھینچا کرتے تھے۔ اور بتایا کرتے تھے کہ کتنے اس عذاب سے فلاں صاحب کرامت دلی کی سفارشی دعاوں کے وسیلے سے چھوٹ گئے ہیں۔ یا فضول ہزلیات اور یا وہ گوئی میں اپنا وقت خراب کیا کرتے تھے۔ غرضیکہ بائبل کی پاک اور فائدہ بخش اور بلند پایہ تعلیمات کے عوض میں اس قسم کی باتوں سے لوگوںکو آسودہ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ”مسیح کی منادی سے لوگوں کے دل پر کچھ اسی قسم کا اثر پیدا ہو گا۔ جیسا ریفارمشن کے زمانے میں اہل سکاٹ لینڈ پر و شرٹ اور ناکس کی منادی سے پیدا ہوا۔ مسیح ربیوں اور مفسروں کے مختلف خیالات سے کچھ سرو کار نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ اس طرح تقریر کرتا تھا۔ کہ گویا اس نے ازلی اور ابدی حقیقتوں کو بچشم خود دیکھا ہے۔ وہ اس بات کا محتاج نہ تھا کہ کوئی اور اس کی خدا اور انسان کی نسبت سکھائے کیونکہ وہ خود دونوں سے بخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا، کہ میں ایک خاص کام کے لئے آیا ہوں اور یہ خیال اسے اس کے کام میں لگائے اور اس کے ہر لفظ اور حرکت کو سر گرمی سے معمور رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے اور جو باتیں میں بیان کرتا ہوں میری نہیں بلکہ خدا کی ہیں۔ پس وہ ان کو جو اس کی بات نہیں سنتے تھے۔ بے تامل کہہ دیتا تھا۔ کہ قیامت کے دن تم پر نینوہ کے لوگ فتویٰ لگائیںگے اور سبا کی ملکہ تمہیں مجرم ٹھہرائے گی۔ کیونکہ اہل نینوہ نے یوناہ کی باتوں پر کان لگایا اور سبا کی ملکہ نے سلیمان کے حکمت آمیز کلمات کو سنا مگر تم اس کی جو نبیوں سے بڑا اور پرانے بادشاہوں سے بزرگ اترہے۔ نہیں سنتے ،اس نے ان کو خوب آگاہ کر دیا کہ جو پیغام میں لایا ہوں اس کے قبول کرنے یا رد کرنے پر تمہاری آئندہ بہبودی یا خرابی منحصر ہے۔ یہی وہ سرگرمی اور شاہانہ دبدبہ اور اختیار تھا۔ جو سننے والوں کو ہلا دیتا تھا۔

 

ایک اور صفت جو لوگوں نے اس کی تعلیم یا منادی میں پائی دلیری تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے۔ ”دیکھو دیہ صاف کہتا ہے“۔ اور یہ بات اس لئے نہایت عجیب معلوم ہوتی تھی۔ کہ وہ تعلیم یافتہ آدمی ہ تھا۔ کیونکہ نہ اس نے یروشلیم کے مشہور مدارس میں کبھی تحصیل علم کے لئے قدم رکھا تھا۔ اور نہ کسی دارا لعلوم سے سند حاصل کی تھی۔ لہذا وہ تعجب کرتے تھے۔ کہ یہ دلیر ی اس میں کہاں سے آگئی۔ معلوم ہو کہ یہ صفت اسی چشمہ سے برآمد ہوئی جس سے اس کے شاہانہ اختیار کی عجیب صفت پیدا ہوئی تھی۔ بزدلی عموماً ا س وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ مناد اپنے پیغام کی نسبت اپنی طرف زیادہ تر دیکھتا ہے۔ جو مناد حاضرین سے ڈرتا اور عالموں اور فاضلوں کو دیکھ کر گھبرا جا تا ہے وہ محض اس خیال میں مستغرق ہوتا ہے کہ لوگ میری لیاقت اور میرے کلام کی نسبت کیا کہیں گے۔ لیکن جو شخص یہ محسوس کرتا ہے۔ کہ میں ایک الٰہی پیغام لے کر آیا ہوں جس کو ادا کرنا میرامقد م فرض ہے وہ صرف اپنے پیغام کی دھن میں لگا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے پیغام کے سننے والے عالم ہوں۔ یا جاہل ، امیر ہوں یا غریب سب یکساں ہوتے ہیں۔ مسیح کی آنکھ روحانی اور جاو دانی صداقتوں پر لگی ہوئی تھی۔ ان کی عظمت اس کے دل پر نقش تھی۔ لہذا انسانی علم و فضل کا خیال ان باتوں کے رو برو ناچیز تھا۔ ہر رتبہ کا آدمی اس کے سامنے عام آدمیوں کی طرح تھا۔ اور چونکہ وہ اپنے کام کے خیال میں محو رہتا تھا۔ اس لئے کسی ذاتی یا شخصی خیال سے نہیں ڈرتا تھا۔ اگر ہم اس کی دلیری دیکھنا چاہیں تو ان حملا ت کو دیکھیں جو اس نے ان خرابیوں پر کئے جنہیں لوگ اس وقت عمدہ سمجھتے تھے۔ یہ خیال کرنا کہ اس میں نرمی اور فر وتنی کے سوا اور کچھ نہیں پایا جاتا تھا۔ بڑی غلطی ہے کیونکہ اس کے الفاظ میں کئی جگہ ایک قسم کی تندی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زمانہ ملمع سازی کا زمانہ تھا۔ جتنے بڑے بڑے مراتب اور مناصب تھے۔ ان سب پر ملمع پھرا ہوا تھا۔

سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں میں علم و فضل کے بلند مرتبوں میں اور مذہب کے ہر پہلو میں گندم نمائی اور جو فروشی کام کر رہی تھی۔ غرضیکہ ریا کاری ایسی عالمگیر ہو گئی تھی۔ کہ لوگ ریا کاری کو ریاکاری نہیں سمجھتے تھے۔ اور جن باتوں کی تقلید اور پیروی کی جاتی تھی۔ وہ نہایت نکمی اور ناقص تھیں۔ مسیح کے الفاظ کو پڑھنے والے بآسانی اس بات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کہ اوّل سے آخر تک اس کے کلام میں ان خرابیوں کے برخلاف ایک قسم کا غصہ پا یا جاتا ہے جو ناصرت کے حالات کے مشاہدے سے شروع ہوا اور جوں جوں مسیح کاعلم حالات زمانہ کے بارے میں ترقی کرتا گیا اسی قدر وہ بھی بڑھتا گیا۔ جن باتوں کو لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ وہ ان کی نسبت کہتا تھا۔ کہ یہ باتیں خدا کی نظر میں نہایت مکروہ ہیں۔ تاریخ کی زبان میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے کلام میں پائے جاتے ہیں اوریہ حملات اس نے ان لوگوں پر کئے جن کے سامنے اس کی منادی سے پہلے سرتسلیم خم کئے جاتے تھے۔ اور وہ لوگ فقیہ اور فریسی اور کاہن اور لاوی تھے۔

ایک اور وصف اس کے کلام میں یہ تھا۔ کہ وہ قدرت سے ملبس تھا چنانچہ لوگ حیران ہوتے تھے۔ کہ وہ قدر ت سے کلام کرتا ہے اور یہ قدرت روح پاک کے اس مسیح کا پھل تھی جس کی امداد کے بغیر بڑی بڑی سچائیاں دل پر کچھ اثر نہیں کرتی ہیں۔ وہ روح پاک سے معمور تھا۔ لہذا سچائی سے معمور تھا اور اس سچائی کو جو اس کے دل میں جو ش زن تھی دوسروںکے دلوں تک پہنچا دیتا تھا۔ وہ روح پاک ایسے قلیل یا محدود اندازہ میں نہیں رکھتا تھا۔ کہ مشکل سے اسی کے لئے کافی ہو بلکہ اس کثرت سے رکھتا تھا۔ کہ اوروں کو بھی افراط سے دے سکتا تھا۔ لہذا روح کی تاثیر اس کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی تھی۔ اور سننے والوں کے دل و دماغ کو جو ش سے بھر دیتی تھی۔

چوتھی صفت کو جو اس کے کلام میں پائی جاتی تھی۔ رحم و فضل کہنا چاہےے ، لوگ ” ان پرُ فضل باتوں سے جو اس کے منہ سے نکلتی تھیں تعجب کرتے تھے“۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود دبد بے اور اختیار کے اور باوجود ان سخت حملوں کے جو اس نے زمانہ کی خرابیوں پر کئے اس کا کلام رحم اور محبت سے پرُتھا۔ اس صفت کے وسیلے سے اس کی اصل سیرت کا پتہ ملتا ہے۔ وہ جو محبت مجسم تھا۔ کس طرح اس آسمانی آگ کی تیزی اور روشنی کو جو اس کے دل میں بھڑک رہی تھی۔لفظوں میں چمکنے سے روک سکتا تھا؟ فقیہ بڑے سخت اور مغرور اور بے مہر لوگ تھے وہ دولت مندوں کی خوشامد اور عالموں کی عزت کیا کرتے تھے۔ مگر عوام کی نسبت کہا کرتے تھے۔ ”یہ عام لوگ جو شریعت سے ناواقف ہیں لعنتی ہیں“۔ لیکن یسو ع کے نزدیک ہر روح ایسی بیش قیمت تھی کہ کوئی اس کی وقعت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اگر وہ میلے کچیلے کپڑوں میں چھپی ہوئی ہوتی تھی۔ یا کسی اور نقص کے تلے دبی ہوئی ہوتی تھی۔ تو اس کی آنکھ وہا ں بھی اس موتی کو دیکھ لیتی تھی۔ اگر اس پر گناہ کی نجاست کا انبار لگا ہو ا ہوتا تھا۔ تو وہ بھی اسے اس کی نظر سے نہیں چھپا سکتا تھا۔ لہذا وہ اپنے سننے والوں میںسے ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتا تھا۔ کیا جب ہم لوقا کے 15باب کی تمثیلوں کو پڑھتے ہیں تویہ معلوم نہیں ہوتا کہ گویا الٰہی محبت خدا کے دل سے نکل کر ان تمثیلوں کے وسیلے سے اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے۔

ایک اور صفت بیان کرنے کے لائق ہے جسے سب صفات کی جامع اور اور اس کی تقریر کی جان سمجھنا چاہےے۔ اس صفت کی طرف اوپر کہیں کہیں اشارہ ہو چکا ہے۔ مگر اس جگہ اس کا کچھ مفصل ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مسیح جب لوگو ں کی طر ف مخاطب ہو کر کلام کیا کرتا تھا۔ تویہ خیال نہیں کرتا تھا۔ کہ میں کس درجہ اور کس لیاقت کے لوگوں سے متکلم ہوں ، بلکہ سب کو یکساں سمجھ کر ان سے مخاطب ہوا کرتا تھا۔ دولت اور عزت اور علم جو بھی آدم میں فرق ڈالتے ہیں بالائی یا خارجی اسباب ہیں۔ جو ہم کو انسانی زندگی کی سطح پر ملتے ہیں۔مگر ذہنی قوتیں ، دلی جذبات اور ضمیر کی حقیقتیں وہ باطنی اور گہری خاصیتیں ہیں جو تما م بنی آدم میں مشترک ہیں۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ یہ صفتیں سب میںیکساں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ، کہ کسی میں زیادہ اور کسی میں کم ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اور باتوں کی نسبت یہی سب میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اور جو شخص ان صفتوں کی طرف مخاطب ہوتا ہے۔ وہ گویا اپنے سننے والوں کی زندگی کے سب سے اصلی اور گہرے حصوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور سب اس کی بات کو سمجھتے ہیں۔ ہر ایک شخص اپنا اپنا حصہ پاتا ہے۔ یعنی جس قدر کم فہم آدمی کی سمجھ میں سمائی ہوتی ہےوہ اس سمائی کے مطابق اس چشمہ سے لیتا ہے۔ اور جس قدر وسیع خیال آدمی کے ذہن میں وسعت ہوتی ہے۔ وہ اس وسعت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسیح کا کلام آب رواں کی طرح ہر وقت ترو تازہ رہتا ہے۔ وہ ہر زمانہ اور ہر قسم کے لوگوںکے لئے ہے۔ وہ آج بنی نوع انسان کو انگلستان اور چین اور ہندوستان میں اسی طرح موثر کرتا ہے۔ جس طرح فلسطین میں مسیح کے زمانہ میں کیا کرتا تھا۔

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس کی تعلیم کے نفس مضمون پر غور کریں گے۔ جب ہم اس بات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ خیال دل میں پیدا ہو تا ہے۔ کہ جس طرح اس زمانے کے لکچرار مسیحی مذہب کی تعلیمات اور مسائل پر درس دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح شائد وہ بھی دیا کرتا تھا۔ لیکن جب ہم اناجیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو بالکل اور ہی حالت نظر آتی ہے۔ البتہ وہ سب باتیں جو ہم سوال و جواب کی کتابوں یا عقائد نامہ میں مسیحی مسائل اور تعلیمات کے متعلق پاتے ہیں۔ وہ اس کے ذہن میں موجود تھیں مگر وہ انہیں اپنی منادی کے وسیلے سے بہت ظاہر نہیں کیا کرتا تھا۔ نہ وہ علم الٰہی کی اصطلاحات کو استعمال میں لایا کرتا تھا۔ مثلاً الفاظ تثلیث ، تقدیر ، برگزیدگی اور موثر بلاہٹ جو مسیحی علوم الہٰیہ کی اصطلاحات میں داخل ہیں۔ اس کی منادی میں نظر نہیں آتے ہیں گو وہ صداقتیں جو ان اصطلاحی الفاظ سے مفہوم ہوتی ہیں۔ اس کے کلام کی تہ میںپائی جاتی ہیں مگر انہیں ظاہر کرنا یا اصطلاحی طو ر پر پیش کرنا سائنس کا کام تھا۔ وہ فقط زندگی کے معمولی تعلقات پر بولا کرتا تھا۔ اور چند دل گداز باتوں کو اپنی تقریر کا مرکز بنا کر دل اور ضمیر کو چھید ڈالتا تھا۔

اس کی منادی کا عطر یہ الفاظ تھے” خداکی بادشاہی “۔اس چیز یا اس چیز کی مانند ہے۔ ایک مرتبہ اس نے یہ بھی فرمایا کہ ” مجھے اور شہروں میں بھی خد اکی بادشاہی کی منادی کرنا ضرور ہے“۔ اس سے اس نے یہ ظاہر کیا کہ میری منادی کا مضمون خدا کی بادشاہی ہے اور یہی بات اس کے رسولوں کے حق میں لکھی ہے کہ اس نے انہیں بھی اسی لئے بھیجا کہ ”خدا کی بادشاہی کی منادی کریں“۔ مگر یہ الفاظ اس کے ایجاد کردہ نہ تھے۔ یہ خیال پرانے زمانوں سے چلا آتا تھا۔ اور اس کے زمانے کے لوگ اس دینی محاورے سے بخوبی واقف تھے چنانچہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ان الفاظ کو کثرت سے اپنی منادی میںاستعمال کیا چنانچہ ”خدا کی بادشاہی نزدیک ہے“۔ ہم باربار اس کے منہ سے سنتے ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟ یہ الفاظ اس نئے زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جس کی خبر نبوت کی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔اور جس کی راہ خدا کے مقدس بندے مدت سے دیکھ رہے تھے۔ خداوند مسیح نے اپنی منادی کے وسیلے سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ زمانہ اب آگیا ہے۔ اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں۔ انتظاری کا وقت تما م ہو چکا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے ہمعصروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کئی بنی اور کئی برگزیدہ اشخاص یہ آرزو رکھتے تھے۔ کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو دیکھیں۔ مگر انہیں دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ پھر ایک مرتبہ اس نے یہ بھی کہا کہ اس نئے زمانے کا جلا ل اور رونق اور حقوق ایسے بے بہا ہیں کہ جو ان سے بہرہ ور ہیں۔ان میں سے وہ جو سب سے چھوٹا ہے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے افضل ہے۔ حالانکہ وہ پرانے عہد کے بزرگوں میں سب سے بڑا ہے۔

ان باتوں کاماننا اس کے معاصرین کے لئے کچھ مشکل نہ ہوتا اگر وہ اس بات کو بھی مان لیتے کہ خد ا کی بادشاہی فی الحقیقت آگئی ہے کیونکہ وہ ان سے سب باتوں کے قائل تھے۔ البتہ انہوںنے مسیح کے ان دعووں کو سن کر ذرا سی دیر کے لئے کروٹ بدلی اور آنکھ اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا لیکن جب اس کا کوئی ظاہر ی نشان نہ پایا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ نیاز زمانہ کہاں ہے جس کا آمد کا ذکر یسوع ناصری کرتا ہے؟ اور اسی بات کے سمجھنے میں وہ مسیح سے اختلاف رکھتے تھے۔ وہ ”خد ا کی بادشاہی “ کے آخر ی لفظ ”بادشاہی “ پر زور دیتے تھے مگر یسوع پہلے لفظ ” خدا “ پر زور دیتا تھا۔ انہیں یہ امید تھی کہ نیاز مانہ شاہانہ کر و فر اور دنیوی شان و شوکت کے ساتھ نمودار ہو گا۔ بے شک وہ یہ مانتے تھے۔ کہ اس بادشاہی میں خدا ہی کے نام کا سکہ جاری ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی امید رکھتے تھے۔ کہ اس کا ظہور بے قیاس دولت و ثروت ، جنگی افواج کی حشمت و قدرت اور ایک عالم گیر حکومت و سلطنت سے ہو گا۔ لیکن برعکس اس کے خداوند مسیح نئے زمانے کا آغاز اس بات میں دیکھتا ہے۔ کہ خدا محبت کرنے والے دل اور اطاعت کرنے والی مرضی پر حکمران ہو گا۔ وہ اس نئے زمانے کو خارج میں تلاش کرتے تھے۔ مگر مسیح اسے باطن میں بتاتا تھا۔ وہ اسے دنیوی شان و شوکت میں ڈھونڈ ھتے تھے مگر مسیح اس نے اپنے پہاڑی وعظ میں اس نئے زمانے کو طرح طرح کی مبارک بادیوں سے ظاہر فرمایا اور ہم دیکھتے ہیں۔ کہ وہ مبارک حالی جو ان سے متر شح ہے سراسر سیرت یا خصلت کی مبارک حالی ہے مگر جس سیرت کا نقشہ ان مبارک بادیوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ اس سیرت اس جس کی قدر ان دنوں کی جاتی تھی۔ اور جو اس زمانے میں حقیقی جلا ل اور خوشی کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ بالکل مختلف تھی ان دنوں مغرور فریسی یا دولتمند صدوقی یا عالم فقیہ کی سیرت نمونے کے لائق سمجھی جاتی تھی۔ مگر مسیح نے برعکس اس کے یہ سکھایا کہ جو دل کے غریب ہیں۔ جو غمگین ہیں ، جو حلیم ہیں، جو راست بازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں، جو رحمدل ہیں، جو پاک دل ہیں، جو صلح کرانے والے ہیں، اور جو راستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں وہ مبارک ہیں۔

پس مسیح کی منادی کا اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ جان جائیں کہ خدا کی بادشاہی کا کیا مطلب ہے اور کہ جو لوگ اس بادشاہی میں دخل پاتے ہیں ان کی سیرت کیسی ہوتی ہے۔ اور ان کو اپنے آسمانی باپ کی محبت اور قربت سے کیسی برکت ملتی ہے۔ اور آنے والی دنیا میں ان کے لئے کیسی خوشیاں موجود ہیں۔ اور اس نے یہ بھی دکھایا کہ جس مذہب کی میں تلقین کرتا ہوں اس میں اور تمہارے موجودہ مذہب میں کیا فرق ہے۔ تمہارے موجودہ مذہب میں روحانیت کا نام ونشان نہیں پایا جا تا اور سیرت کے عوض میں چند خارجی رسوم کی پیروی پر قناعت کی جاتی ہے۔ مسیح ہر رتبہ اور درجہ کے لوگوں کو اس بادشاہی میں شامل ہو نے کی دعوت دیتا تھا۔ دولتمندوں کو دعوت دیتے وقت یہ بتاتا تھا (جیسا کہ ”دولتمند اور لعاذر“کی تمثیل سے آشکار ا ہے) کہ دولت میںحقیقی آرام وراحت کو تلاش کرنا بطلان کی دلیل اور خطرہ کا موجب ہے اور جب تنگدست غریبوں کو بلاتا تھا۔ تو ا ن پر ان کے انسانی جوہر کی عظمت کو ظاہر کیا کرتا تھا۔ اور پرُمحبت اور پرُ تاثیر الفاظ سے ان کو سمجھایا کرتا تھا۔کہ جو حقیقی دولت ہے وہ سیرت کے خزانوں میں جمع ہے اور انہیں یقین دلاتاتھا۔ کہ اگر تم پہلے آسمان کی بادشاہی کو ڈھونڈ و تو تمہار ا آسمانی باپ جو ہوا کے پرندوں کو کھلاتا اور جنگلی سوسنوں کو پہناتا ہے۔ تمہیں کبھی محتاجی کی حالت میں نہ چھوڑے گا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی منادی کو مرکز اور اپنی تعلیم کی جان وہ آپ ہی تھا۔ جس نئے زمانے کا ذکر اوپر ہوا وہ اسی میں موجودتھا۔ وہ نہ فقط اس کی خبر دینے والا تھا۔ بلکہ اسے وجود میں لانے والا بھی تھا۔اور وہ سیرت جس کے سبب سے انسان اس بادشاہی میں داخل ہو سکتا اور اس کے حقوق میں شراکت پید اکرسکتا ہے۔ اسی سے ملتی ہے لہذا اس کی ہر نصیحت آمیز تقریر کا اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ اس کے پاس آئیں۔ اس سے سیکھیں اور اس کی پیروی اختیار کریں” اے تم لوگو! جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو میرے پاس آو “۔ اس کی نصیحتوں کا لب لباب اور اس کی تقریروں کا خلاصہ مطلب انہیں الفاظ میں جمع ہے۔

مسیح کی تقریروں کے ملاحظہ سے ایک بڑی غور طلب بات نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جن خاص مسیح مسائل کا ذکر پولوس سے خطوط میں پایا جاتا ہے اور جن کو آج خدا پرست اور روشن ضمیر مسیحی مان رہے ہیںوہ مسیح کی تقریروں میں صاف صاف دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ یہ کمی خصوصاً دو مسئلوں کے متعلق دیکھنے میں آتی ہے۔ اوّل۔اس تعلیم متعلق جس کی رو سے گنہگار خدا سے میل پیدا کرتا ہے۔ دوم۔ اس طریق کے بارے میں جس کے وسیلے معافی یافتہ انسان کے اندر وہ سیرت پیدا ہو تی ہے۔ جو مسیح کی سیرت کی مانند ہوتی اور باپ کو پسند آتی ہے۔ پر اس معاملے میں بڑی خبرداری سے کام لینا چاہےے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کمی کی نسبت ایسا مبالغہ کیا جائے کہ ہم کو مجبور ا ً یہ ماننا پڑے کہ ان تعلیمات کا نام و نشان بھی مسیح کی تقریروں میں نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پولوس رسول کسی مسئلہ یا تعلیم کو پیش کرتا جس کا تخم مسیح کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ پھر بھی یہ ماننا پڑتا ہے۔ کہ دونوں کے بیانوں میں ایسا فرق پا یا جاتا ہے۔ کہ مسیح کے بیان کے اختصا ر اور رسول کے بیان کی تفصیل کا مقابلہ کرکے بعض لوگ یہ کہہ اٹھتے ہیں۔ کہ جو تعلیمات تم اب مان رہے ہو ، وہ پولوس کی ساختہ ہیں، مسیح کے کلام میں نہیں پائی جاتی ہےں۔ لیکن اصل شرح اس معمے کی اور ہی ہے۔ مسیح محض معلم نہ تھا۔ اس کی سیرت اس کی تعلیم پر فوقیت رکھتی تھی۔ اور اسی طرح اس کا کام بھی اس کی تعلیم پر فائق تھا۔ اور اس کے کام کا سب سے بڑا حصہ یہ تھا۔ کہ وہ صلیب پر چڑھ کر دنیا کے گناہوں کا کفارہ دے، لیکن اس کے پیرو جو ہر دم اس کے ساتھ رہتے تھے۔ نہیں ماننا چاہتے تھے ، کہ اس کو مرنا پڑے گا۔ پس اس کے مرنے سے پہلے اس کی موت کا گہرا اور عمیق مطلب سمجھنا مشکل تھا۔ اب جن مسئلوں کو ذکر پولوس رسول کے خطوط میں پایا جاتا ہے۔ وہ صرف دو بڑے بڑے واقعات کی شرح ہیں ان میں سے ایک مسیح کی موت اور دوسرا سرفراز نجات دہندہ کی طرف سے روح القدس کا بھیجا جانا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ باتیں مسیح کے کلام میں بہت جگہ نہیں لے سکتی تھیں۔ کیونکہ وہ ابھی واقع نہ ہوئی تھیں۔ مگر ان کے الہامی مطالب کے اظہار کو دبانا گویا انجیل کے چراغ کو بجھانا اور مسیح کو اس کے اعلیٰ جلا ل سے محروم رکھنا ہے۔

جو لوگ مسیح کی باتیں سننے آتے تھے۔ وہ مختلف طبعیت اور مزاج کے لوگ تھے اور ان کا شمار کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا تھا۔ اور جس جگہ اس کو موقع ملتا تھا۔ وہیں ان کی طرف مخاطب ہو کر ان کو سکھلانے لگ جاتا تھا۔ کبھی پہاڑ پر چڑھ کر ، کبھی سمندر کے ساحل پر کھڑا ہو کر، کبھی راستہ میں، کبھی عبادت خانہ میں اور کبھی ہیکل کے صحن میں جاکر لوگوں کو تعلیم دیا کرتا تھا۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وہ نہ صرف بڑی بڑی جماعتوں کے سامنے بولا کر تا تھا۔ بلکہ اگر اس کو کسی جگہ ایک یا دو شخص مل جاتے تھے۔ توان کے ساتھ بھی اسی سرگرمی سے کلام کیا کرتا تھا۔ غرضیکہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک دفعہ بہت تھکا ہوا تھا۔ مگر پھر بھی سامریہ کے کنوئیں پر ایک عورت کو روحانی تعلیم دیتا رہا۔ اسی طرح نیکدیمس کو بھی جو اکیلا اس کے پاس آیا تھا۔ اپنی زبان معجزبیان سے روحا نی اسرارکی کی باتیں سنا تا رہا۔ مریم بھی کبھی کبھی اکیلی اس کے پاو ¿ں سے پاس بیٹھ کر اس کی زندگی بخش باتیں سنتی تھی۔ انجیل میں اس قسم کی تنہائی کی ملاقاتوں کا انیس مرتبہ ذکر آیا ہے۔ اور وہ اس کے شاگردوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ ہیں کیونکہ یہ طریقہ ان تمام طریقوں سے جو تعلیم دینے میں کام آتے ہیں۔ شاید سب سے زیادہ موثر اور کارگر ہوتا ہے اور نیز اس سے واعظ کی سرگرمی کاپتہ ملتاہے۔ کیونکہ جو شخص ہزاروں کے مجمع کے سامنے جوش اور سرگرمی سے کلام کرتا ہے۔ اور جب سامعین کا شمار کم ہو جاتا ہے۔ تو اس کے جو ش کی آگ بھی بجھ جاتی ہے۔ وہ محض اپنی فصاحت دکھانے کا شائق ہے لیکن جو شخص موقع ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ کہ جو کوئی اسے ملے اسی کو اس کی روح کی نجات کا مثردہ دے وہ در حقیقت روحوں کی بھلائی چاہتا ہے اور اس کے دل میں فی الحقیقت آسمانی جو ش کی آگ جل رہی ہے۔

اکثر اوقات اس کے کلام کو سننے کے لئے صرف اس کے شاگرد ہی جمع ہوتے تھے۔ لیکن اس کی منادی کا اثر سننے والوں پر یکساں نہیں ہوتا تھا۔ اس نے خود ” بیج بولنے والے “ اور ”کی تمثیلوں کے وسیلے سے بڑی صفائی سے ظاہر کر دیا کہ سننے والوں پر میرے کلام کا اثر مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ اس کی تقریر سن کر مطلق پروا نہیں کرتے تھے۔ اور بعض حیرت سے سنتے تھے۔ مگر ان کے دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ اور بعض کچھ عرصہ کے لئے متاثر ہوتے تھے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر پرانی عادتوں میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ اور جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خد ا بیٹے کے کلام کو سن کر بھی بہت تھوڑے لوگ ایمان لاتے تھے توایک ہیبت سی چھاجاتی ہے۔ جو لو گ اس کی منادی سن کر اس پر ایمان لاتے تھے۔ وہ اس کے شاگرد کہلاتے تھے۔ وہ اکثر اس کا کلام سننے کو اس کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ اور وہ بار بار ان کے ساتھ خلو ت و جلوت میں ہمکلام ہوا کرتا تھا۔ وہ پانچ سوشاگرد جنہوں نے اس کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد دیکھا ، غالباً مریم مگدلینی اور یوانہ اور سوسنا ہ جو اپنے مال سے اس کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ وہ عوام کی نسبت ان شاگردوں کو خاص طور پر اپنی تعلیمات سے آگاہ کیا کرتا تھا۔ مثلاً جو کچھ اس کی پبلک تقریروں میں بعید الفہم معلوم ہو تا تھا۔ وہ اسے خلوت میں ان سب کے سامنے حل کر دیا کرتا تھا۔ کئی دفعہ اس نے یہ کہا کہ میں تمثیلوں میں اس لئے بولتا ہوں کہ لوگ سنیں پر نہ سمجھیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ اس سچائی سے جو وہ بیان کیا کرتا تھا۔ کچھ دلچسپی نہ رکھتے تھے۔ وہ اس کی بات کو تو سنتے تھے۔ مگر صرف ایک خوبصورت چھلکا ان کے ہاتھ آتا تھا۔ مگر مغز سے محروم رہتے تھے۔ یہی رازداری جو بے پرواوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیتی تھی۔ ایمان داروں کے لئے مزید تحقیق کا باعث ٹھہرتی تھی اور جس طرح کسی خوبصورت چہرہ کو جس کا نصف حصہ نقاب کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ دیکھنے کی آرزو از حد دامن گیر ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا تھا۔ کہ جن باتوں پر بھید کا نقاب پڑا ہوا ہے۔ ان کا مطلب ان پر صاف صاف کھل جائے ارو وہ ان لوگوں کو جو معرفت کا ایسا اشتیاق رکھتے تھے۔ ان کے پوشیدہ معنی سے واقف کر دیتا تھا۔ جب قوم اس کو رد کر بیٹھی اور اس بات میں قاصر نکلی کہ مسیح کے کام اور تعلیم کی تاثیرات کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے تو یہی لوگ اس روحانی سوسائٹی کی بنیادبنے جو ملکی قیود اور خاندانی اور قومی امتیازات کے بندھنوں سے آزاد تھی۔ اور جس کے وسیلے سے مسیح کی روح اور تعلیم کو دنیا میں پھیلنا اور قائم رہنا تھا۔

رسولوں کی جماعت

شاید یہ بہتر ہو گا کہ ہم رسولوں کے چننے کا ذکر مسیح کے معجزات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ یہیں کر دیں کیونکہ ہم رسولی عہدے کے تقرر کو وہ تیسرا طریقہ قرار دے سکتے ہیںجس کے وسیلے سے اس نے اپنے کام کو انجام دیا۔ وہ بارہ اشخاص جو اس عہدے پر سرفراز ہوئے شروع میں عام شاگردوں کے زمرہ میں شامل تھے۔ اور جن لوگوں نے اس کے کام کے پہلے سال میں اس کی پیروی اختیار کی وہ بھی شاگرد کہلاتے تھے۔ لیکن جب اس نے اپنا کام گلیل میں شروع کیا تو ان بارہ آدمیوں کو ایک خاص قسم کی قربت سے سرفراز فرمایا، یعنی انہوں نے اپنے معمولی کاروبار کو چھوڑ ہر دم اس کی صحبت میں رہنا اختیار کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ مسیحی قربت اپنی تیسری اور آخری منزل پر جا پہنچی یعنی وہ لوگ رسولی عہدے سے ممتاز کئے گئے۔

جب اس نے دیکھا کہ میرا کام بڑھتا جاتا ہے۔ اور اسے پورا کرنا لازمی امر ہے۔ لیکن میں اکیلا اسے کر نہیں سکتا تو اس نے ان لوگوں کو رسالت کے عہدے پر سرفراز فرماکر اپنا مد د گار بنایا اور انہیں بھیجا کہ جاکر اس کی تعلیم کی سادہ سادہ باتیں لوگوں کو سکھائیں اور اس کام کی انجام دہی کے لئے ان کو وہی معجزانہ طاقت مرحمت فرمائی جس سے خود مالا مال تھا۔ اس طرح کئی جگہ جہاں وہ عدم فرصتی کے سبب خود نہیں جا سکتا تھا۔ انجیل کی منادی کی گئی اور کئی بیمار جو اس کے پاس نہیں آسکتے تھے۔ شفا یاب ہوئے۔ لیکن ان لوگوں کے چننے میں اس سے بھی گہرے مقاصد اور وسیع نتائج مدنظر تھے۔ اس کا کام سب زمانوں اور تمام دنیا کے لئے تھا لہذا وہ ایک شخص کی مدت عمر میں پورا نہیں ہو سکتا تھا اور اس نے اس بات کو پہلے ہی سے دیکھ لیا ، لہذ اان لوگوں کو چن کر اس بات کا انتظام کی کیا کہ وہ اس کے بعد اس کی تجاویز کی پیروی کریں اور اس کے کام اور تعلیم کی تاثیرات کو دنیا کے ہر کونے اور ہر گوشے تک پہنچائیں۔ اس نے اپنے دست مبارک سے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ ناممکن نہیں کہ ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر وہ اپنے خیالات کو خود رقم کرتا اس کے نام اور کام کو بقائے دوام حاصل ہوتی اور دنیا کے ہاتھ میں اس کی ایک کامل تصو یر آجاتی اور شاید ہم اس بات کو سوچ کر شوق سے بھر جاتے اور بے ساختہ بول اٹھتے کہ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا رسالہ ہمارے لئے بے قیاس دولت کا خزانہ ہوتا۔ لیکن اس بے نظیر حکیم نے اس قسم کے کام میں ہاتھ لگانا مناسب نہ جانا بلکہ یہ بہتر سمجھا کہ اپنے مرنے کے بعد اپنی تصنیف کردہ کتابوں کے عوض میں برگزیدہ اشخاص کی زندگیوں میں جیتا رہے لیکن جب ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جنہیں اس نے ایسے بڑے کام کے لئے چنا تو ہم کو حیرت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ عالی خاندان ہونے کا فخر نہ رکھتے تھے۔ اور نہ سرمایہ علم سے بہرہ در تھے۔ لازم تھا، کہ قوم کے رہبر اور پیشوا اپنے مسیح کی خدمت میں کام آتے پر انہوںنے اپنی سخت دلی کے وسیلے سے ظاہر کر دیا کہ ہم اس خدمت کے لائق نہیں۔ لیکن وہ ان کی مد د کا طالب نہ تھا۔ اور چونکہ وہ ہمیشہ سیرت کی کی خوبیوں سے کام لیاکرتا تھا۔ اور سیرت دنیوی جاہ جلال اور علمی لیاقت اور کمال کی مقید نہیں ہوتی لہذا اس نے بے ہچکچاہٹ اپنا سارا کام بارہ سیدھے سادے اشخاص کے ہاتھ میں سونپ دیا جنہیں نہ خاندانی فخر اور نہ علمی لیاقت کا ناز تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ انتخاب کئی دنوں کی سوچ اور فکر اور رات بھر کی دعا مناجات کے بعد کیا تھا۔ اور اس انتخاب نے بعد میں ثابت کر دیاکہ اس نے اس امر میں ایسی باریک بینی سے کام لیا جو سیرت انسانی کی تہ کو پہنچ جاتی ہے۔ چناچہجس مقصد کے پورا کرنے واسطے یہ لوگ چنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہایت موزوں نکلے اور ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کم ازکم یعنی یوحنا اور پطرس (کیونکہ ان کا کسی قدر مفصل حال ہمارے پاس موجود ہے) اعلیٰ قسم کی لیاقتوں کے آدمی ثابت ہوئے۔ ان بارہ میں سے ایک بے وفا نکلا۔ اس کے انتخاب کے بارے میں طرح طرح کی تشریحیں پیش کی گئی ہیں۔ پر یہ ایک ایسا عقدہ ہے جو پورے طور پر حل نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔ لیکن یہ کہنا عین انصاف ہے کہ ایسے اشخاص کو جو شروع میں بالکل نالائق معلوم ہوتے تھے۔ بعد میں کامیابی کے تاج سے تاجدار ہوئے۔چن لینا ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ بادشاہی ستونوں کی طرح اس بات پر شہادت دیتا رہے گا۔ کہ مسیح لکیر کا فقیر نہ تھا۔ بلکہ ساری باتیں ایسی تازگی اور نئے پن سے کرتا تھا۔ کہ ان میں ذرا بوسیدگی کی بوُنہیں آتی۔

اب اگر ہم صرف یہی بتا کر خاموش ہو جائیں کہ مسیح نے اپنی باریک بینی سے جان لیا کہ یہ لوگ کچھ عرصہ کے بعد میرے کام کو بخوبی انجام دیں گے تو اس رشتہ کاجو وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ رکھتا تھا۔ پورا پورا حال نہ کھلے گا۔ پس چند اور باتوں کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے مسیح کلیسیاو ¿ں کے قائم کرنے میں گویا ایک ایسے کام کو پورا کیاجس کی عظمت کا اندازہ لگانا انسان کے وہم سے بعید ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں۔ (گویا خیال ان کے دل میںکبھی نہ آیا ہو) کہ وہ تختوں پر بیٹھے موجودہ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ جب ہم لوٹ کر دیکھتے ہیں۔ تو وہ ہمیں ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ کہ گویا عالی شان ستونوں کی قطار کی طرح آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ پر وہ نور جس سے ملبس ہو کر یہ عظیم الشان ستون چمک رہے ہیں۔اسی چشمہ نور سے نکلتا ہے جس سے انہیں چنا تھا۔ اسی نے ان کو وہ عظمت بخشی جو دنیا کے داناوں کو حیران کرتی ہے۔ اور ان کی عظمت اسی کی عظمت کو ثابت کرتی ہے۔ کیا ان کو دیکھ کر یہ خیال نہیں آتا کہ وہ جس نے ان لوگوں کو ایسی خوبصورت اور مضبوط سیرت عطا فرمائی اور ایسے جلیل القدر کام کے لائق بنا دیا ، خوو د کیا ہو گا ؟ شروع میں وہ حد درجہ کے گنوار اور جسمانی مزاج کے آدمی تھے۔ کیا ان سے اس بات کی کوئی امیدکی جا سکتی تھی۔ کہ وہ کبھی اس کی الٰہی تجویزوں کی خوبی کو پہچان سکیں گے یا اس کے کام کو اس کے بعد انجام دیں گے۔ اور اس کی سیرت کا ایک سچا فوٹو آنے والی پشتوں کے حوالے کریں گے لیکن اس نے محبت بھر ی برداشت کے ساتھ ان کی تربیت کی۔بڑی بردباری سے ان کی دنیوی امیدوں کی اصلاح اور ان غلط فہمیوں کی جو اس کے کلام کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی تھی۔ تصحیح کی اور چونکہ وہ جانتا تھا۔ کہ ان لوگوں کو آئندہ بڑی بڑی مہمات کو طے کرنا اور اہم خدماتت کو انجام دنیا ہے اس لئے وہ انہیں دم بھر بھی اپنے سے جدا نہ کرتا تھا۔ بلکہ ہروقت ان کی تربیت میں لگا رہتا تھا۔ چنانچہ باقی شاگردوں کی نسبت یہ لوگ زیادہ اس کی صحبت میں رہتے تھے۔ اور جو کچھ وہ کرتا تھا۔ اسے دیکھتے تھے اور جو کچھ وہ کہتا تھا۔ اسے سنتے تھے۔ بعض اوقات وہ صرف انہیں سے ہمکلام ہوا کرتا تھا۔ اور آسمانی صداقتوں کے بھید اور جلال کو ان پر ظاہر اور سچائی کا تخم ان کے دلوں میں بویا کر تا تھا۔ جو وقت اور تجربہ کی مدد سے اپنے وقت پر بہت سا پھل لایا۔ لیکن جو بات ان کی تربیت میں بہت کام آئی وہ یہ تھی۔ کہ اس کی سیرت کا اثر ان پر نادیدنی اور خاموش طور پر پڑتا رہا۔ گو اس وقت کسی نے اس بات کو محسوس نہ کیا پر اس میں شک نہیںکہ اس سے بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوئے۔ اس اثر نے ان کو رفتہ رفتہ اس کی صورت میں تبدیل کر دیا۔ یہی وہ بات تھی جس نے ان کو ایسا مقدس بنا یا جیسے وہ اب نظر آتے ہیں اور اگر اس کو پیار کرنے والے ان بزرگ رسولوں کو کسی بات کے سبب رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ ان کو اس کی سیرت کا جمال دیکھنے موقع نہیں ملا۔ ہم اس کی بے نظیر سیرت کی خوبیوں کو دور ہی سے دیکھ کر ان پر قربان ہو تے اور گرگر کر سجدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ نزدیک سے دیکھتے تھے اور انہیں اس کی زندگی میں گندھی ہوئی دیکھنا اور کئی سال تک ان کے زور اور اثر کو محسوس کرنا واقعی عجیب لطف رکھتا ہو گا۔ کیا ہمیں اس نادر سیرت کے خدوخال یا دہیں۔ جس کے جلا ل کو ان رسولوں نے دیکھا اور جس کی قدرت نے ان کی سیرت کو عجیب سانچے میں ڈھالا۔

مسیح کی سیرت

ہم نے اوپر دکھا دیا کہ مسیح میں بہ حیثیت معلم ہونے کے کون کون سی صفتیں پائی جاتی تھیں۔ اب ہم اس کی انسانی سیرت پر چند سطور ہدیہ ناظرین کریں گے ، اور پہلی بات جو اس کے متعلق بہت عیاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مقصد کو خوب پہچانتا تھا۔ یہ شناخت یا احساس جا بجا اس کے کلام اور کام سے ٹپکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ، کہ گویا اس کی زندگی کا مقصد جو ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے چمکتا تھا۔ ہر فعل میں اس کی رہنمائی کرتا اور ہر مہم کو ہاتھ لگانے میں اسے عجیب قدرت اور طاقت بخشتا تھا۔ دنیا میں بے شمار زندگیاں بے مقصد اور بے مصرف نظر آتی ہیں۔ وہ مختلف کیفیتوں سے پُر ہوتی ہیں۔ اور طبعی خواہشات کے اثر سے متاثرہو کر حرکت میں آتی ہیں یا سوسائٹی کی چند روزہ لہروں سے ہم کنار ہو کر بہ جاتی ہیں۔ لیکن مسیح ایک خاص غرض اور خاص مقصد کے لئے آیا تھا۔ اور وہ مقصد رنج اور و راحت میں برابر اس کی آنکھوں کے سامنے چمکتا رہتا تھا۔ مثلاوہ اکثر کہا کرتا تھا ”میرا وقت ابھی نہیں آیا “۔ گویا اس سے یہ پتہ دیتا تھا۔ کہ میری زندگی کے ہر لمحہ میں ہونا چاہےے۔ اس وقت کی پابندی سے دو باتیں پیدا ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر کام سر گرمی سے کیا کرتا تھا۔ اور دوسری یہ کہ اس کی انجام دہی کو کبھی ٹال مٹول میں نہیں ڈالا کرتا تھا۔ اور پھر ان عادت سے نتیجہ بھی پیدا ہوا کہ اس کی قوت کبھی منتشر نہیں ہونے پاتی تھی۔ اور نہ وہ اس غفلت میں گرفتا ر ہوتا تھا۔ جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو فضول سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔ پس اس مقصد شناسی کی وجہ سے اس کی زندگی کے مختلف کاموں میں ایک قسم کا اتحاد پایا جاتا تھا۔

ایک اور صفت جو اس کی کثرت سے پائی جاتی تھی اور صفت مذکورہ بالا سے ایک گہرا رشتہ رکھتی تھی۔ یہ تھی ، کہ اسے اپنی کامیابی کا پورا پورا یقین تھا ، اس لئے نہ تو وہ وسائل کی چنداں فکر کرتا تھا۔ اور نہ مخالفت سے ڈرتا تھا۔ اگر ہم ذرا غور کرکے دیکھیں کہ اسے ایک عظیم کام کو انجام دینا تھا۔ اور اپنی قوم کی اصلاح کرنا اور ایک ایسی مذہبی تحریک کو وجود میں لانا تھا۔ جو گویا ہمیشہ تک قائم رہنے اور دنیا کے کناروں تک پہنچنے والی تھی۔ پھر اگر اسی طرح ہم اس مخالفت پر بھی نظر ڈالیں۔ جو اس کے مذہب کی ترقی کی ہر منزل پر برپا ہونے کو تھی۔ اور اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ انسان ہونے کے اعتبار ہونے کو تھی اور اس بات کو بھی یاد دیکھیں کہ انسان ہونے کے اعتبار سے وہ کسی طرح کی غیر معمولی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ وہ محض ایک ان پڑھ آدمی تھا۔ ہاں اگر ہم ان سے باتوں پر نظر ڈالیں تو اس کا بھروسہ جس میں بے چینی اور ڈانو انڈ ولی کو بالکل جگہ نہ تھی۔ ایک نہایت حیرت خیز بات معلوم ہو گی اگر اس سے بھی زیادہ حیرت خیز کوئی بات ہے تو اس کی کامیابی ہے۔ انجیلوں کے پڑھنے کے بعد ہم متعجب ہر کر پوچھتے ہیں کہ اس میں کیا تھا۔ اور اس نے کیا کیا جو تمام دنیا اس سے مغلوب ہو رہی ہے۔اس نے اس نتیجہ کو پیدا کرنے کے لئے کوئی بھاری تیاری نہیں کی تھی۔ ہم جانتے ہیںکہ وہ اپنے کام کی انجام دہی میں اس بات کا محتاج نہ تھا۔ کہ پہلے عزت اور علم اور دولت اور اختیاروالوں کو اپنا معتقد بنائے اور پھر ان کے وسیلے سے دنیا کو فتح کرے۔ یہ سچ ہے کہ اس نے اس کلیسیا ءکو اپنی عین حیات میں قائم کر دیا تھا۔ مگر یہ بھی سچ ہے۔ کہ اس نے اس کلیسیاءکی خاصیت اور انتظام کے متعلق بہت کچھ نہیں بتایا تھا۔ ہاں اس نے کوئی ایسی تیاریاں نہیں کی تھیں۔ جیسی اکثر وہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ جو مشکل خدمات اور اہم مہات کو ہاتھ لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بھر وہ سے اور خاص ایمان سے کام کیا کرتا تھا۔ نہ تدبیروں کے ادھیڑ بن میں پھنستا اور نہ ساز و سامان کی تیاریوں کی الجھنوں میں گرفتار ہوتا تھا۔ بلکہ ہمت مردانہ کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کو ہاتھ لگا تا تھا۔ یہی وہ صفت تھی جس کی نسبت اس نے کہا کہ وہ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا سکتی ہے۔ یہی وہ ”منادی کی بیوقوفی “ تھی جس پر پولوس فخر کرتا تھا۔ جس کی ظاہری بے سرو سامانی کو لوگ مضحکہ میں اڑاتے تھے۔ لیکن اسی کے حصہ میں یہ بات آئی تھی۔ کہ یونانی اور رومی دنیا کو فتح کرے۔

ایک اور صفت اس میں یہ تھی کہ وہ تازہ خیال اور تازہ بیا ن آدمی تھی، انگریزی میں اس صفت کو ارجنا لیٹی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ذیل کے بیان سے بخوبی ظاہر ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ ان حالات اور واقعات کی پیدائش ہیں جن کا دورہ دورہ ان کے زمانے میں ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ان بے شمار لوگوں کی جو ان کے زمانے میں ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ان بے شمار لوگوں کی جو ان کے زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس کی عا دتیں اوراس کی رسمیں ، جس پشت سے ہم علاقہ رکھتے ہیں۔ اس کے مذاق اور اس کے فیشن ، جو تعلیم ہم نے حاصل کی ہے اس کی روئتیں ، جس جماعت سے ہم وابستہ ہیں، اس کے تعصبات اور جس فرقے کے ہم پیرو ہیں اس کے خیالات ، یہ سب باتیں مل کر ہمیں اپنے سانچے میں ڈھا لتی ہیں۔ہم وہی کام کرتے ہیں، اس کے تعصبات اور جس فرقے کے ہم پیرو ہیں۔ اس کے خیالات ، یہ سب باتیں مل کر ہمیں اپنے سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ ہم وہی کام کرتے ہیں۔ جو اتفاقی واقعات یا موجودہ حالات کی کیفیتیں ہمارے لئے تجویز کرتی ہیں۔ ہم جن باتوں کو مانتے ہیں انہیں سے لئے مانتے ہیں کہ خارخی باتوں کا زور اور لحاظ ہمیں مجبو رکرتا ہے۔ کہ ہم انہیں مانیں، نہ اس لئے کہ باطن میں ان کی حقیقت ہم پر درخشاں ہوتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ رائیں جنہیں ہم اپنی بتاتے ہیں ان کے ٹکڑے ہوا کے ہر جھونکے میں اڑتے ہوئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم انہیں لے کر اپنی رائیں بناتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یسوع مسیح کو کن حالات نے ایسا انسان بنا یا جیسا کہ وہ تھا۔ جس زمانہ میں وہ موجود تھا۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی زمانہ خشک اور بنجر نہ تھا۔ وہ اس نخل کی طرح تھا۔ جو ریگستا ن میں تنہا دکھائی دیتا ہے۔ ناصرت کے ناچیز باشندوں میں کون سی ایسی چیز تھی۔ جو ایسی عظیم الشان سیرت پیدا کرتی ؟ کس طرح وہ جو بدی کے لئے ضرب المثل تھی۔ ایسی مجسم پاکیزگی دنیا کے نمونہ کے لئے پیدا کر سکتی تھی؟ ممکن ہے کہ کسی فقیہ نے اسے معرفت کی ابجد بتائی ہو، مگر اس کی تعلیم فقیہوں کی تعلیم کے بالکل برعکس تھی۔ اور اس کی آزاد روح کبھی مختلف فرقوں کے خیالات کے پنجہ میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ اس شور میں غل کے درمیان جس نے اس زمانے کے کان بھر رکھے تھے اس نے کس طرح سچائی کی آواز کو سنا جو ان صداوں سے جو چاروں طرف سے اٹھ رہی تھیں۔ بالکل مختلف تھی؟پس جو باتیں اس کے زمانے میں پائی جاتی تھیں۔ ان میں سے کسی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلا ں بات نے یسوع کو ایسا بنا یا جیسا کہ وہ تھا۔ بلکہ ہم اس کی حقیقت کو اپنی زبان میں اچھی طرح بیان بھی نہیں کر سکتے جس طرح چھوٹا پودا باطن سے باہر کی طرف اگتا یا پھوٹ نکلتا ہے۔ اسی طرح اس کی اندرونی طاقتوں سے نے بیرونی اظہاروں میں اپنا جلوہ دکھایا۔ وہ آپ اپنی آنکھ سے فطرت اور زندگی کے نظاروں پر غور کیا کرتا تھا۔ اور کبھی اپنی باریک بین نگاہ کو دوسروں کی اصلاح اور اصلاح پر نہیں چھوڑتا تھا اور جیسی رعایت سچائی کی اپنی تحقیقات میں کیا کرتا تھا۔ ویسی ہی اس کی پاسداری اپنے بیان میں بھی کیا کرتا تھا۔

چنانچہ وہ بڑی دلیری اور جرا ت سے ان باتوں کو جنہوں راست سمجھتا تھا بیان کر دیا کرتا تھا۔ خواہ ان کے وسیلے سے موجودہ دستوروں اور عقیدوں اور رسموں کی بنیادیں ہلیں ، اور وہ خیالات جنبش میں آئیں ، جو عام لوگوں کے دلوں میں جمع ہوئے ہوئے تھے۔ا س کی قوم ایسی بنجر اور شورخوردہ زمین کی مانند تھی جس سے کسی طرح کے سبزے کی امید نہیں ہوتی مگر وہ موسیٰ اور نبیوں کے صحائف کی طرف متوجہ ہو کر اپنے خیالات کو تروتازہ کرتا تھا۔ مگر اس میں شک نہیں کو گو وہ ان بزرگوں کی بڑی قدر کر تا اور بڑے ادب اور عزت سے ان کی مطالب بیا ن کیا کرتا تھا۔ چنانچہ وہ ان خیالات کو جو بیج کی طرح ان کے کلام میں پوشیدہ تھے۔ کھول کر ایک مکمل صورت میں پیش کر دیا کرتا تھا مثلاً دیکھئے کہ پرانے عہد کے خدا اور اس آسمانی باپ میں جسے اس نے ظاہر کیا تکمیل مکاشفہ کے اعتبار سے کیسا فرق ہے اور اسی طرح ہیکل اور اس کے کاہنوں اور خون آلودہ قربانیوں میں اور اس عبادت میں جس کی ہدایت اس نے اس طرح کی کہ وہ روح اور راستی سے ہونی چاہےے کیسا عجیب مقابلہ پایا جاتا ہے۔ اور شریعت کی وہ قومی اور رسمی نیکی جس پر یہودی فدا تھے۔ اس نیکی سے جو ضمیر اور دل سے برآمد ہوتی ہے۔ کیسی دور ہے پس یسوع اپنی ارجنا لیٹی کے اعتبار سے موسیٰ اور الیاس اور یسعیا ہ پر بھی فائق تھا۔

پھر اس کی سیرت کی ایک جلالی خاصیت یہ بھی تھی۔ کہ وہ بنی آدم کو پیار کیا کرتا تھا۔ ہم اوپر ایک جگہ بتا آئے ہیں کہ ایک بڑ ا مقصد اس کے دل میں تھا۔ پر یاد رکھنا چاہےے کہ زندگی کے مقصد کی تہ میں ہمیشہ ایک بڑ ا جذبہ جو اس کے مقصد اور غرض کو ہمیشہ برقرار رکھتا تھا۔ یہی تھا کہ وہ انسان سے محبت رکھتا تھا۔ اس بات کی خبر تو ہم کو نہیں دی گئی کہ کس طرح ناصرت کی تنہائی میں یہ محبت اس کے رگ و ریشے میں ایسی سموئی ہوئی تھی۔ کہ اسے اپنی بہتر ی اور بچاو کی مطلق فکر نہ تھی۔ بلکہ مصیبت زدوں سے ہمددری کرنے کے خیال میں سراسر ڈوبا ہوا تھا۔ یہی سبب تھا، کہ اس نے کبھی لوٹ کر نہ دیکھا بلکہ جس کام کو ہاتھ لگایا اس کے آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ ہم عام طور پر یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ انسانی محبت غالباً اس تصور سے تقویت پاتی رہی ہو گی جو وہ انسانی روح کی بیش بہا قیمت کے متعلق رکھتا تھا۔ اور یہی باعث تھا کہ اس کی محبت ان تمام حدود سے تجاوز کر گئی جو اکثر لوگوں کی ہمدردی اور سخاوت کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ کیسا اوقات ذات پات یا قومی امتیاز کے خیالات ہم کو ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں، کہ قریباً تمام ممالک میں دشمنوں سے نفرت سے کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ اور قریباً سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ جو اشخاص تہذیب کا ستیاناس کرتے ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہےے ، پر یسوع ان باتوں کی پروا نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ اس کو وہ بیش قیمت شے جو اسے دشمن اور اجنبی اور مردوں لوگوں میں برابر نظرآتی تھی۔ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ پس یہی محبت وہ شے تھی جس سے اس کی زندگی کا مقصد پیدا ہوا تھا۔ یہی سبب تھا، کہ وہ ہر طرح کے درد اور دکھ میں مد د دینے کے لئے ہمیشہ تیار تھا۔ یہی وہ خاص وجہ تھی جس کے سبب سے اس نے شفا بخشنے کے کام کو اختیارکیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں مد د کی ضرورت ہوتی تھی اس کا محبت بھرا دل اس کو وہاں کھینچ لے جاتا تھا۔ پر اس کی پُر جوش محبت خاص کر اس بات میں نظر آئی کہ وہ روحوں کے بچانے کی بڑی کوشش کیا کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ یہی وہ موتی ہے جس کے بچانے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرنا چاہےے کیونکہ اس کے دکھوں سے بڑھ کر اور کوئی دکھ ناقابل برداشت نہیں لوگ اکثر اوروں سے تو محبت رکھتے ہیں۔ پر ان کی روحوں کی نسبت کبھی خیال نہیں کرتے لیکن اس کی حکمت نے اس کی حکمت نے اس کی محبت پر ظاہر کر دیا جن سے محبت کی جاتی ہے ان کی اصل بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ان کی روحیں بچائی جائیں۔ پس وہ محسوس کرتا تھا کہ اگر میں لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچاوں تو ان کی اصل اور حقیقی بہتری وجود میں آئے گی۔

لیکن اس کی انسانی سیرت کے متعلق جو صفت سب کی سرتاج ہے یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت رکھتا تھا۔ خدا کے ساتھ خواہش اور خیال اور ارادہ میں موافقت پیدا کرنا سب خوبیوں سے بڑی خوبی ہے ، مسیح میں یہ خوبی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ ہمارے لئے خدا کو محسوس کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے اور عام لوگوں میں تو ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کبھی اس کی نسبت سوچتے ہی نہیں بلکہ دیندار بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے دل اور دماغ کی سخت تربیت کرنی پڑتی ہے۔ اور کیا یہ یہ ٹھیک نہیں کہ جب کبھی ہم خدا کو یاد کرتے ہیں تو ہمارے دل چھد جاتے ہیں۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ہم میں ہے وہ اس سے جو خدا میں پایا جاتا ہے۔ بالکل مختلف ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ جب ہم اس کی حضوری میں جاتے ہیں تو چند لمحوں کے بعد ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ہمارے خیالات اس کے خیالات نہیں اور ہماری راہیں اس کی راہیں نہیں لیکن یسوع کا یہ حال نہ تھا۔ اس کے دل میں خدا کا خیال اور عرفان ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ اس کی زندگی میں نہ کوئی ایسا لمحہ تھا اور نہ کوئی ایسا کام جس میں خدا کا خیال نہ ہو۔ جس طرح وہ ہوا جو سانس کے وسیلے سے اندر آتی جاتی تھی۔ یا جس طرح سورج کی وہ روشنی جو اس کو منور کرتی اور اسے چاروں طرف سے گھیرے تھی اسی طرح خدا بھی اس کی ہستی کے ہر جانب موجود تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ میرے خیالات خدا کے خیالات ہیں اور میری خواہش خدا کی خواہش سے متفق ہے۔ اور جو مقصد میرا ہے وہی میرے خدا کا ہے۔ اب سوال پیش آتا ہے۔ کہ یہ اتحاد جو اس میں اور خدا میں پایا جاتا تھا کس طرح پیدا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت کچھ تو یہ اتحاد اس کامل اتحاد سے پیدا ہوا ہو گا جو اس کی ذات کی مختلف طاقتوں میں پایا جاتا تھا۔ اور پھر کسی حد تک انہیں وسائل کے ذریعے سے بھی دستیاب ہوا ہوگا۔ جن کے ذریعے سے ہم اس کی تلاش کیا کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ وہ خدا کے خیالات اور ارادوں سے کلام اﷲ کے وسیلے سے واقف ہوا جس کا مطالعہ بچپن ہی سے اس کی خوشی کا باعث تھا۔ اور اسی طرح دعا نے بھی اس کو خدا کا ہم خیال بنا یا ، کیونکہ وہ دعا کا ایسا قائل تھا کہ اگر کھانا کھانے کو وقت نہ ملے تو نہ ملے لیکن دعا کے لئے ضرور وقت نکال لیتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی تھی۔ جس نے اس کے اور خدا کے خیالوں میں موافقت پیدا کر دی تھی، اور وہ یہ تھی۔ کہ وہ ان آزمائشوں کا مقابلہ کیا کرتا تھا، جو ایسے خیالات اس کے دل میں ڈالنا چاہتی تھی۔ جو خدا کے خیالوں کے مخالف ہوتے تھے۔

یہی وہ بات تھی۔ جس کے سبب سے وہ اپنے کام کو بڑے اعتقاد اور دلیری سے کرتا رہتا۔ وہ جانتا تھا ، کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس کے لئے خدا نے مجھے بلایا ہے۔ اور جب تک اسے پورا نہ کر لوں تب تک کوئی میرا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔ یہی عرفان وہ چیز تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی خوبیوں اور لیاقتوں کو جانتا ہوا فروتنی اور فرمانبرداری کا نمونہ بنا رہا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے خیال اور خواہش کو خدا کی مرضی سے کے تابع رکھتا تھا یہی اس پرُ شان اطمینان کا راز تھا۔ جو سخت سے سخت موقعوں پر بھی اس کی سیرت کو نورانی زینت سے سجائے رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ بڑی سے بڑی مشکل جو مجھ پر آسکتی ہے۔ وہی ہے جو میرے باپ نے میرے لئے تجویز کی ہے ، پس اس بڑھ کر اب اور کون سی تکلیف آئے گی۔ سو وہ ہمیشہ کامل آرام اور خاموشی اور خوشی کا سرچشمہ اپنے نزدیک پاتا تھا۔ جس میں ادھر اُدھر کے شور غل اور ابتری سے پناہ پاتا تھا۔ یہی وہ بیش بہا خزانہ ہے جو اس نے جانے سے پہلے شاگردوں کو میراث کے طور پر عطا فرمایا جس وقت یہ کہا ” میں تمہیں اطمینا ن دیئے جاتا ہوں اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں “۔

اکثر مسیح کی بے گناہی بھی اس کی سیرت کی اعلیٰ خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ اور واقعی اس کی یہ صفت نہایت توجہ طلب ہے۔ ابرہام اور موسیٰ جیسے خدا پر ست بزرگوں کے گناہ بڑی سچائی اور صفائی کے ساتھ نوشتوں میں قلمبند ہیںلیکن مسیح کی کوئی کمزوری ان میںرقم نہیں۔ پرانے زمانے کے خدا ترس بندوں کی دینداری کا سب سے اعلیٰ خاصہ یہی تھا۔ کہ وہ بار بار اپنے گناہوں کو یاد کرکے پچھتاتے اور توبہ کیا کرتے تھے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ جس قدر دینداری کی اعلیٰ منز ل تک پہنچے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی قدر اپنی گناہ آلودگی کو دیکھ کر زیادہ آنسو بہاتے اور غمناک نالے بلند کیا کرتے تھے۔ لیکن مسیح کے حق میںیہ نہیں کہا جا سکتا ، حالانکہ سب لوگ مقفق ہیں۔ کہ وہی اکیلا دین کی تاریخ میں ایک لاثانی آدمی ہے تو بھی اس کی زندگی میں وہ توبہ جو دینداری کی جان سمجھی جاتی ہے دکھائی نہیں دیتی کیا اس کا یہی سبب نہیں کہ اس سے کبھی کہ اس سے کبھی کوئی گناہ سر زد نہ ہوا جس سے توبہ سے کرنے کی ضرورت ہوتی ؟

اب یہ تو بالکل صحیح ہے کہ وہ بے گناہ تھا پر سوال برپا ہوتا ہے۔ کہ کیوں اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ محبت مجسم تھا۔ خدا کے برخلاف گناہ کرنا خدا سے محبت نہ سے رکھنے کی وجہ سے ہے اور اسی طرح انسان کا قصووار ہونا انسان سے محبت نہ رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔ اب وہ شخص جو خدا اور انسان دونوں کی محبت سے معمور تھا۔ نہ خدا کا اور نہ انسان کا گناہ کر سکتا تھا۔ پس اسی محبت میں جو وہ اپنے باپ اور بنی آدم کے ساتھ پورے طور پر رکھتا تھا، اس کی سیرت کے کمال کا اصل راز تھا۔

سیدنا مسیح کے شاگردوں میں جو خوبیاں اور لیاقتیں پیدا ہوئیں ، ان کا اصل منبع وہی اثر تھا۔جس کا پر تو اس کے وسیلے سے ان پر پڑتا رہا۔ پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے وہ صداقت کب پہچاننی شروع کی جو مسیحی مذہب کی جان ہے۔ اور جس کی منادی انہوں نے مسیح کے بعد دنیا میں جا بجا کی اور یہ بتایا کہ اس کی انسانی سیرت کی نرمی اور تحمل کے پیچھے ایک اور ذات بھی نہاں تھی۔ جو اس کی سب صفتوں سے افضل اور بزرگ تر تھی۔ یا یو ں کہیں کہ نہیں جانتے کہ کس طرح انہوں نے معلوم کیا کہ اس میں کامل انسانیت کے ساتھ کامل الوہیت بھی مل ہوئی تھی۔ البتہ ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ جو کچھ اس نے ان پر اپنی نسبت ظاہر فرمایا اس کا یہی مطلب تھا کہ وہ اس عجیب راز سے واقف ہوں لیکن اس کی صلیب کے وقت تک ان کا خیال اس کی شخصیت کی نسبت پورے طور پر قائم نہیں ہوا تھا۔ گو کئی بار پہلے انہوں نے اس کی عجیب شخصیت کے بارے میںبڑے بڑے اقرار بھی کئے تھے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھید ان پر اس وقت ظاہر ہوا جب وہ مردوں میں سے جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا یا یوں کہیں کہ جب یہ واقعات ظہور میں آئے تب وہ اعتقادات جو اس کی شخص کی نسبت ان کے دل میں رقیق چیز کی طرح حرکت کر تے تھے۔ بلو ر کی طرح ایک جا منجمد ہو گئے اور وہ یہ ماننے لگے۔ کہ جس کے ساتھ ہم کو اتنے دن تک رہنے سہنے کا موقعہ ملا وہ خدا ئے مجسم تھا۔