انجیل

Gospel

مسیح پر ایمان رکھنے کا بیان

Meaning of Faith in Christ

Published in Nur-i-Afshan November 2, 1876
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Man Praying before Cross

ایمان کی خاصیت اور اُس  کی حد پاک کلام کے ہر ایک ورق میں عمدہ علامت ایمان کی بیان  کی گئی ہیں اور  جو تا شیرات اُس کی گروہا گر وہ خلقت نے بیان کی ہیں وے سب بجا ہیں ۔ لیکن جب بیان بیبل کے جب تک مسیح پر ایمان نہ ہو تب تک فی الحقیقت اِنسان خدا کے غضب میں مبتلا رہتا ہے۔ اِسی واسطے ہر ایک آدمی کو مناسب ہے کہ پاک کلام میں تلاش کرے کہ ایمان کی خاصّیت کیا ہے اور حد اُس کی کہاں تک ہے۔ اِس کی خاصّیت کا بیان اِسطرح پر ہے  کہ انجیل مقدّس  میں خداوند مسیح نےبعضے شخصوں کے ایمان کی تعریف کی اور بعضوں کو بے ایمانی تنبیہ۔ جب یے دونوں باتیں اِنسان کی سمجھ میں بخوبی آجاویں تو ایمان کی خاصیّت اور بے ایمانوں کی غلطیوں سے بخوبی آگاہ ہو جاویگا اور بہت سے تردد اور بدعات جن کی بابت جھگڑے واقع ہوتے ہیں بالکل رفع ہوجاوینگے۔  پہلی مثل جو ہم اِس وقت انجیل میں سے تمھارے فایدے کے لیے زکر کرتےہیں وہ صوبہ دار کی حکایت متی کی آٹھویں باب میں سے ہے۔ اِس صوبہ دار کے گھر میں اُس کے نوکروں میں سے ایک شخص بیمار تھا اُس نے اُس کی بیماری پر رحم کر کے بطور غمخواری مسیح کی خدمت میں آکے اِلتجا کی کہ آپ میرے نوکر پر رحم کریں  اور میں اُسکو ادھرنگ کی بیماری میں تڑپتا  چھوڑ کر آیا  ہوں۔  اِس صوبہ  دار کے دل   میں   مسیح کی قوّتِ شفا بخشی اور رحم  پر ایسا ایمان   تھا  جس سے محروم ہونے کی شک بالکل دل میں نہیں تھی اور مسیح کے ہمنشین بالکل اِن باتوں سے ناواقف تھے۔ خداوند مسیح نے اُس کو فرمایا کہ چل میں آکر اُسے آرام دیتا ہوں  اِس ایماندار کے لحاظ نے منظور نہ کیا  کی ایسا بڑا آدمی اُس کے غریبخانہ میں آوے اور ایسی تکلیف فضول اپنے آپ پر اآٹھاوے اِس واسطے عرض کی کہ اے خداوند یہیں پر زرہ  زبان سے کہہ دے کہ میرا نوکر اچھا ہو جاوے اور مجھ کو تیری قوّت شفا   بخشی  پر اِس قدر یقین ہے جس قدر اپنے سپاہیوں پر حکم کر کے اپنے کام  بے روک ٹوک لے نیکا اختیار ہے۔ جب یسوع نے اُسکی یہہ باتیں سُنیں تو تعجب ہو کر  اُس رومی صوبہ دار  کے ایمان کی تعریف  کی ۔ باوجودیکہ وہ یہودیوں کی نظر میں نہایت حقیر تھا اُس کے ایمان کی  بڑائی سب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے اور نجات کا مقدّمہ  میں اُس فضل کو قیام  بخشنے کے لیے یسوع  نے اپنے شاگردوں کو  کی طرف متوجہ ہو کے کہا کہ میں تمھیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسا بڑا ایمان میں نے اسرائیلیوں میں بھی نہیں پایا۔ میں تمھیں کہتا ہوں  کہ بہت لوگ   پورب  اور پچھم سے ایسے ہی ایمان کے زریعے سے آوینگے اور ابراہام اور اِسحاق اور یعقوب کی گود میں آسمانی  بادشاہت میں بیٹھینگے ۔ اب خیال کرو کہ اِس صوبہ دار کے ایمان کی خاصیّت کیا تھی اصل میں اتنی ہی بات ہے  کہ اُس نے اپنے  دل میں یقین کیا کہ قوّت اور بھلائی مسیح کی ایسی بے حد ہے جس  پر توکلّ  کرنے سے ہر کام میں امداد اور ہر بلا سے رہائی حاصل ہوتی ہے ۔ پس سچےّ ایمان کے یہی معنے ہیں کہ مسیح کی قدرت اور اُسکے منصب پر واسطے مدد اور نجات  روحانی موت کے بھرسا رکھے۔ یہی مسئلہ ایک دوسری مثل  سے بھی  ثابت ہوتا  ہے کہ ایک عورت زات کی کنعانی اپنے شاگرد نوح میں مسیح کے آنے کی خبرسُنکر دوڑ کر اُس کے پاس  آئی اور چلا کے بولی کہ اے خداوند داؤد کے بیٹے مجھ پر رحم کر میری بیٹی دیو کے آئسیب سے تکلیف شدید میں پڑی  ہے۔  مسیح نے اُس کے چلاّنے پر جواب نہ دیا  بلکہ کہا   کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی چھینکر کتّوں کو ڈالو کیونکہ سارے یہودی لوگ بُت پرستوں کو خدا  کی نظر میں ناپاک جانکر کتُے سے بھی حقیر  سمجھتے تھے۔ اُس عورت  نے تس  پر بھی  مسیح کا کہنا  قبول کیا اور  کہا کہ ہاں خداوند سچ ہے لیکن کتّا بھی جو اُس کے مالک کے دسترخوان سے ٹکرے  کرتے ہیں کھاتا ہے مجھ پر  نو ویسا ہی  رحم کر جیسے کتّے اپنے مالک کے ہاتھ سے دیکھتے ہیں۔ فیاضی کے ہزاروں معجزے  تو یہودیوں میں دکھلائے ہیں اُسی میں سے مجھ کمترین پر بھی زرہ عنایت فرما ۔ تب مسیح نے جواب دیا  کہ اے عورت تیرا ایمان بڑا ہے جیسا تو چاہتی ہے تیرے  لیے ویسا ہی ہوگا  یہہ حال متی کے پندرھویں باب میں لکھا ہے ۔ اِس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ توکلّ میں پائیداری اور مدد رہائی کیواسطے  مسیح پر پکا  بھروسا  ہی کا میاب  ہے۔  دیکھئےکسِ قدر  یاس اورنا اُمید ی کی حالت اُس عورت  پر گزری۔تس  پر بھی  صبر کر کے اپنی درخواست سے باز نہ آئی بلکہ رہائی کی اُمیدکو قایم رکھا  کیونکہ اپنے دل میں جانتی تھی  مسیح میں قوّت اور رحم کثرت سے ہے غرض  جیسےپہلی حکایت سے مسیح پر ایمان  رکھنے کی خاصیت معلوم ہوئی  ایسے ہی اِس ماجرا سے ظاہر ہوتا ہے کہ واسطے مدد اور رہائی کے اُسی پر توکلّ  بھی ہو۔ یہی ایمان اور یہی سچائی اچھی طرح اُن  نقصوں  سے ثابت ہوتی ہے جو مسیح نے اُن  لوگوں کو جن کے ایمان میں قصور پایا دکھلائے  اور تنبیہ دی۔

۲ ۔پہلے ایمان کی تعریف بیان ہوئی تھی اب بے ایمانی کی تنبیہ کا زکر ہے۔  لوقا کے آٹھویں باب میں مرقوم ہے کہپِھر ایک دِن اَیسا ہُؤا کہ وہ اور اُس کے شاگِرد کشتی میں سوار ہُوئے اور اُس نے اُن سے کہا آؤ جِھیل کے پار چلیں۔ پس وہ روانہ ہُوئے۔ مگر جب کشتی چلی جاتی تھی تو وہ سو گیا اور جِھیل پر بڑی آندھی آئی اور کشتی پانی سے بھری جاتی تھی اور وہ خطرہ میں تھے۔  اُنہوں نے پاس آ کر اُسے جگایا اور کہا کہ صاحِب صاحِب ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں! اُس نے اُٹھ کر ہوا کو اور پانی کے زور شور کو جِھڑکا اور دونوں تھم گئے اور امن ہو گیا۔ اُس نے اُن سے کہا تُمہارا اِیمان کہاں گیا؟اِس  مقدمہ سے تم کو معلوم ہوگا  کہ اُن کے دلوں میں قّلت اُس توکلّ کی تھی جس کی تعریف وہ آگے کر چکا تھا ایمؔاندارونکو چاہئے کہ جب کوئی صدمہ یا بلائے عظیم یہانتک بھی غلبہ پاوئے کہ اپنے بچنے کی اُمید باقی بہ دیکھیں تو بھی خدا کی قدرت اور رحم سے ہرگز نامید نہ ہوویں ایسی نامیدی بے ایمانکا پھل ہے ۔ حقیقت میں یہہ بے ایمانی اُن شاگردوں میں تھی کیونکہ اُنھوں مسیح کے معجزے بھی  بہت دیکھے تھے اور اُس قوّت اور  بھلائی سے بھی واقف تھے یہہ کونسی بڑی بلا تھی جس سے باوجود ہونے مسیح کے اُسی کشتی پر اُنھوں نے  اعتماد   بچاؤ نہ کیا ۔ تمھاری ملالت کے خوف سے میں صرف ایک ہی اور مثال لاتا ہو ں جو مرقس کے نویں باب میں لکھی ہے۔ کسی لڑکے کا باپ اپنے بیٹے کو بیماری کی شدّت میں لیکر مسیح کے شاگردوں کے پاس آیا اور وے اُس کو اچھا نہ کر سکے تب وہ دل میں نامید ہوکر بحالت شک کے مسیح کے پاس آ کر یوں کہنے لگا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو ہمپر رحم کر۔ مسیح نے کہا اگر تو ایمان لاسکے تو کامل ایمان سے سب کچھ ہو سکتا ہے یعنے اگر تیرے  دل میں میری قدرت اور رحم  پر ُمستقل توکلّ ہو تو تیرا بیٹا اچھا ہو سکتا ہے اُسی وقت اُس شخص نے چلا کر کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں میری بے ایمانیکوں معاف کر۔ بہت مثالیں اِس قسم کی انجیل میں موجود ہیں لیکن جن چار کو ہمنے دونوں باتوں میں بیان کیا ہے اُن سے صاف معلوم ہوگا کہ مسیح قوّت پر تو کلّ کرنا ایمان ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ وہ صوبہ دار اور کنعانی عورت واسطے دنیاوی فوائید کے ایمان رکھتے تھے اور نجات ِروحانی چیز ہے ان دونوں کا مقابلہ ہر گز نہیں ہو سکتا  تو غور سے معلوم کرے کہ اگرچہ فوائید روحانی اور جسمانی الگ الگ ہیں پر دونوں کے لیے ایمان کی حدّ اور خاصیت  ایک ہی ہے۔ اِس قسم کے ایمان سے نوح نے کشتی بنائی ابراہیم اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوا اور موسیٰ نے مصر کی دولت اور حشمت سے خدا کے لوگونکے ساتھ مفلس رہنا بہتر سمجھا ۔ اگرچہ نتیجے اُن کے الگ الگ ہیں پر اصل ایمان ایک ہی ہے خواہ مسیح پر اِس نیت سے توکلّ رکھیں کہ دنیاوی بلیاّت سے مخلصی بخشنے خواہ بدیں مراد کہ روحانی اعدا یعنے شیؔطان  دنؔیا نفؔس دوؔذخ  غؔضب ِآلؔہیٰ  سے نجات دیوے۔ فی الحقیقت  حد ایمان کی ہماری  حاجت پر موقوف ہے۔ جس قدر ہماری حاجت ہوں اُسی قدر ایمان کی کثرت ہمارے دلوں میں ہونی  چایئے۔ پہلے ہم اپنے اعمال کو ساتھ قانون  فرض کے معلوم کریں اور ہر ایک حکم کو جو روحانی طرح پر ہے سمجھ لیں جیسے کہ مسیح نے متی کے پانچویں باب اور  چھٹے اور ساتویں باب  میں تشریح کی ہے۔ خدا ہمارے دلوں   میں یہہ خیال ڈالتا ہے کہ گناہ صرف نسیان سے ہی نہیں بلکہ بہتیرے سے گناہ ہم جان بوجھکے اور بہتیرے روشنی باطن کے برخلاف مغرور  ہو کے ازروئے سر کشی کے برعکس خدا کے کرتے ہیں ۔ اِن گناہوں  سے رہائی پانے کی اُمید میں مسیح پر توکلّ واجب ہے جیسے کہ بیان ہوا ۔ اُس کے کفارہ خون  پر جسے خدا نے ہماری مغفرت کے واسطے معّین کیا با لکل بھروسا کرنا اور ایسی استعمال توکلّ کفارہ کی عدل کی گرفتاری اور قادر مطلق کے غصب سے ہم کو چُھڑا سکتی ہے۔ جب کبھی ہمارا دل گناہونکے ڈر سے گھبرا وے تو مسیح کے کفارہ پر غمگینی کے ساتھ توکلّ کرنا واجب ہے۔ اپنی نیکی سے آنکھیں بند کر کے اُسی کی راستبازی سے مدد کا خواہان ہونا چاہیئے۔

ہماری سمجھ بھی بگڑ گئی جس سے شریعت کا سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہوا ۔ کیونکہ دل تاریک ہے اُس تاریکی کو ہٹانے اور سخت دل کو نادانی اور سرکشی سے باز لانے کے واسطے روشنی آلہی درکار  اِس کے لیے بھی  خداوند مسیح پر اُسی طرح توکلّ ضرورہے کیونکہ اُسمیں طاقت ہے اور وہ چاہتا بھی ہے کہ ایمان داروں کے دلوں کو روشن کرے اور اُن کو روحانی  سمجھ بخشنے اور اُن غلطیوں  کو جو خیالی ہیں بنیاد اُن کی خدا کے کلام میں نہیں  ا ور صرف  اِنسان نے اپنے خام خیالوں سے پیدا کی ہیں صحیح کرے۔ تمھیں چاہیئے  کہ اِسی طرح متوکلّ ہو کر اُس سے درخواست کرو کہ موت کی  ملالت اور گناہ  کی جہالت سے تمھیں رہائی عطا کرے  لڑکے کی طرح  اُس کے قدموں کے تلے بیٹھکر سیکھنے کی اِلتجا  رکھو ور اُس کی پروردگاری ور بندوبست سے بیدل نہ ہو۔نجات  کیواسطے جو کچھ مسیح نے سکھلایا  اور جو روح قدّس کی ہدایت سے تمھیں معلوم ہوا بالکل  اُسی پر بھروسا رکھ کے  یہہ دعا حح     کرو کہ تم قوّت اور استعداد سیکھنے کی بخشے۔ جیسا اچھا طالب علم اپنے اُستاد کی نصیحتوں کو سیکھتا ہے اعتراض نہیں کرتا تم بھی ویسا ہی کرو ۔ تم اپنے دل سے جانتے ہو کہ تم کمزور ہو فرمان برادری کی طاقت تم میں بالکل نہیں تمھاری جسمانی خاصیت ہمیشہ بُرائی کی طرف متوجہّ ہے۔ ہزاروں اِمتحان اِس دنیا میں موجود جو تمھیں خدا کی طرف سے ہٹانے پر مستعد  ہیں اور مایوس کرنے کو ہمیشہ آمادہ۔ اِس حالت میں اُسی کی امداد کے شایق ہو کے روحانی  احکام کے ماننے میں توکلّ رکھو۔ جتنی اخلاق اور روحانی خوبیاں تم میں تھیں اور جس قدر خدا اور عاقبت سے جدا  ہو کر دنیا اور نفس اور شیطان کیطرف  پھر گئی ہیں اُن سب کو پھر لاٹا کے خدا کی راہ  پر لانا اپنی خوشی اور بہبودی کے لیے نہایت مطلوب ہے۔   پر اپنی طاقت سے تم یہہ کام نہیں کر سکتے اور گناہونسے پاکیزگی کی طرف وہ دلی بازگشت  جو خدا چاہتا ہے تمھاری طاقت سے بعید اور خدا کے فضل سے ممکن۔ اِس نعمت کیواسطے بھی توکلّ ہی درکار ہے۔ غرض ایمان لانا مسیح پر یہی ہے کہ سب روحانی برکتوں  کے لیے جیسا کہ خدا  نے مقرّر  کیا ہے اُسی پر مدار چاہیئے اور ہر وقت اُس کی عادت ڈالنی واجب ہے یعنے ہر دم اپنے نفس کا انکار کرنا اور اپنی طبیعت کے برخلاف چالنا اور خدا کے فرمان کے مطابق عمل کرنا اور امداد صرف مسیح کی کامل تصوّرکرنی  لازم ہے ۔ اُنکے اِستعمال میں سُست ہونا نہ چاہیئے۔ کیونکہ فوج دشمنوں کی غالب ہے اور تم  میں جرات نہیں۔ اگر ثابت قدم رہوگے تو قادر ِمطلق تمھیں طاقت اور فتح دونوں بخشیگا۔

۳۔ میں نے خاصیت اور حدایمان کی بیانی کر دی کہ واسطے بخشش گناہ کے توکلّ ِ مسیح اور اُس کی امداد  پر ہے جس سے تم گناہ کی پابندی سے چھوٹو ۔ لیکن ایک امر باقی ہے کہ سکونت ہماری اِس دنیا میں چند روزہ ہے یہہ زندگی جلدی ختم  ہونیوالی  ہے اور ایک نئی فی الفور شروع  ہونیکو جس کا انتہا  کوئی نہیں جانتا  اُس میں  نامعافی گناہوں کی سزا ہمیشہ کے لیے سہنی پڑیگی اور ضروری خوشیوں ور خدا  کی محبت  کو دل میں دخل  نہ ہوگا۔ پس حد ایمان کی گویا یہانتک پہنچتی ہے اور بڑا درجہ  رکھتی ہے کیونکہ ابد تک پہنچتی اور ہمیشہ کی خوشی اِسی ایمان  اِسی ایمان اور توکلّ پر موقوف  ہے۔ یہہ ہمیشہ کی خوشی اور قوتّ اور خدا کی محّبت اُسوقت میں بھی تمھیں تسلی اور تشفیٰ بخشیگی جس وقت اِس دنیا   کی چیزیں اور اِس جہان کی مدد تمھارے لیے کام نہ آویگی ۔  جو کہ صاحب ایمان خدا کے کلام پر بھی توکلّ  رکھتا ہے اور یقین جانتا ہے کہ ارواح  ہر گز  مجرّو نہیں  چھوڑی جاویگی اور اعضا اگرچہ قبر میں مٹی ہو جاتے ہیں لیکن وہ بھی پھر کسی وقت دوبارہ قایم کئے جاوینگے  اور جلالی بدن میں جی اُٹھینگے اور اُس  مبارک بادشاہت میں جو حکیم بر حق اور قادرِمطلق نے خوشی و وام خواص اپنی کے لیے مہیا کی دخل پاوینگے ۔ اِس دائمی زندگی کی اُمید پر بھی توکلّ کرنا ِسی ایمان کا پھل ہے جس سے ہم جانتے ہیں خداوند یسوع مسیح آپ آسمان پر عروج کر کے ہمارے لیے رہنما ہوا ہے اور ہم بھی اُس کےپیچھے پیچھے  جانے والے ہیں۔ یہہ تشریح ایمان کی جو ہمنے اِسوقت بیان کی اور جس کا منشا توکلّ ہے واسطے نجات اور افضال متعّلقہ  اُس کے کے کافی ہے۔ اُس کا سمجھنا بہت آسان بلکہ اِسقدر آسان ہے کہ جاہل مطلق جن کو زرہ بھی علم نہ ہو سمجھ لوینگے کیونکہ ایمان کی بابت علما میں بہت تکرار پہلے بھی ہوتے آئے ہیں اور اب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہہ صاف اور سیدھا مسئلہ ہے کہ ایمانداروں کو اچھی طرح معلوم ہے اور ساری تسلّی اِسی پر موقوف ہے اور لازم ہے کہ یہہ مسئلہ سب مسائل میں صاف ہووے  کیونکہ جس پر روح کی نجات موقوف ہو اُس کا سمجھنا عام اور خاص کو ضروری ہوتا ہے۔ بھلا اُس کو کون نہیں سمجھتا کہ ایمان اِن چیزوں پر توکلّ ہے یعنے دؔانائی راسؔتبازی یسؔوع مسیح کی نجات ۔  کیا اِس دنیا  میں مفلس اور جاہل مرد مال اور علم کے لیےاُن  تو نگروں اور عالموں پر توکلّ نہیں کرتے جن کی دولت اور علم پر اُن کو اعتبار ہے ۔ یہہ کسی آدمی کی سمجھ یا دانائی اُس سے کیا کم ہوگئی کہ وہ اپنے اُستاد کے کہنے پر ایمان نہ رکھے خصوصاً جب اُستاد سب طرح  کی دانائی اور راستی میں مشہور ہو اگر ایسا اعتقاد نہ رکھیں  تو اِستفا دہ کب ہو سکتا ہے اور بڑوں سے اِمداد کب مل سکتی ہے ۔ قرضدار جب اَداےقرض کی اپنے آپ میں طاقت نہیں دیکھتا تو ضرور ضامن کا آسرا تکتا ہے پھر یہہ کیا مشکل ہے کہ آدمی جو جاہل اور ناچار اور گناہوں کے قرض  سے دبا ہوا ہے شیطان سے دشمنی کے ظلم اور اپنی بدطبعی کیسے مُغنویکے اغوا سے رہائی پانے کے لیے مسیح پر توکلّ رکھے۔ پس اگر اِن باتوں کو جو روزمرّہ اِنسان کے جسم میں ہو رہی ہیں فواید روحانی کے لیے ایک مسیح پر ہی ڈالیں تو نہایت آسانی ہے اور اِس سے روز بروز اعتبار واسطے مدد کےاور شکر واسطے فواید کے بڑھتا ہے۔

۴۔ ہم ایمان کی خاصیت اور اُس کی حد مطابق مثالہائےمندرج کُتِب مقدّس جن میں کثرت ِ ایمان کی تعریف اور قلت کی سرزنش  ہوئی  ہو بیان کر چکے کہ اُسکی مراد واسطے دانائی اور راستبازی اور پاکیزگی اور نجات کے مسیح پر پختہ  تاکلّ ہے۔ اب ہم اِس کے فواید کا زکر کرتے ہیں۔ بسبب ناواقفی تاشیرات ایمان کے کئی بدعات اور خرابیاں واقع ہوئی ہیں  اور  اِنسان  نے بباعث خود پسندی کے جھوٹے ایمان کا لباس پہنکر اپنے آپ کو ایماندار تصور کریا اور اپنے آپ کو فریب دیا اور دوسروں کو بھی غلطی میں ڈالا۔ مثلاً خواندہ آدمیوں نے اُن پیشین گوئیاں کو جو نبیوں کتابوں میں بحق ِ مسیح مندرج ہیں پڑھکے اور جیسے کہ وہ ہو بہو وقوع میں آئی ہیں اُن پر لحاظ کر کے اور اُن معجزات کو جو مسیح نے دکھلائے بطور دلیل کافی کے سمجھ کے واسطے پرانے بے ایمانوں کے ایک ہتھیار جانا اور جو لوگ  کہ انجیل کے ُمنکر  تھے اُن کے ساتھ بحث کرنے کے لایق ہوئے اور ایسے علم کو ایمان کی جگہ تصوّر کر کے اپنے آپ ایماندار مشہور کیا اور اپنے ایمان کو کامل جانکر کسی بات کا قصور نہ سمجھے۔ باوجودیکہ اُن کے عمل اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں بالکل ایمان کی تاثیر نہیں ایسے لوگوں کو اِس بات کا قایل کرنا نہایت مشکل ہے کہ وے ایماندار نہیں ہیں  اور جو ایمان برائے نام رکھتے ہیں سو صرف ایک خیالی امر ہے کیونکہ مسیح مذہب کے مسایل سے واقف ہو نا اور مسیح کی تواریخ سے بخوبی آگاہی حاصل کرنی اور قواعد ِ نجات کو جو مسیح کی موت کے زریعہ سے اِنجیل میں ظاہر ہوئے ہیں استعمال میں لانا ایمان نہیں  نئے امور صرف بحث اور مجلسی گفتگو کے لایق ہیں روح کو  اُنسے کچھ فایدٔہ نہیں پہنچتا۔ اور اِس قسم کا علم نہ گناہونسے نفرت دیتا ہے اور نہ اُن کا قایل کرتا ہے اور نہ اُن کو ترک کراسکتا ہے اور نہ دل میں پاک ہونے کا شوق پیدا کرتا ہے ۔ پہلے پہل غیر قوموں میں بھی جہاں مسیح کی منادی  اوّل ہوئی تھی اِسی خیال نے رواج پایا  اور اُنھوں  نے سمجھا کہ مسیحی مذہب میں راستبازی کی کچھ ضرورت نہیں۔ نجات صرف ایمان سے ہی ہےدل کی تبدیل اور فرماں برداری اور توکلّ جو ایمان کے ساتھ متعلق ہیں  اُنھوں  نے کچھ چیز نہ سمجھی ور وے اپنے باطل بھروسے پر یہہ کہتے رہے کہ مسیح کی راستبازی ہماری راستبازی ور مسیح کی پاکیزگی ہماری پاکیزگی ہے۔ اُنھوں نے اعمال کی پیروی کرنی چھوڑ دی ور حکموں کو متروک کر دیا۔ جہاں کہیں سّچے ایمان کی خاصیت اور حد نہ پہچانی جاوے وہاں ایسی ایسی بدعات ضرور ظہور پکڑتی ہیں۔ اِس مقدمہ میں پؔولوس  پطؔرس  یوؔحنا  یعؔقوب رسولوں کے مکتوبات پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ایمان بے عمل نکلا ہے بلکہ ایمان کا ہونا ایمانداروں کے نیک عملوں سے ثابت ہوتا ہے۔ انگلستان اور جرمن میں اگلے زمانے کے بہت لوگ یہی خیال رکھتے تھے کہ نجات صرف ایمان ہی سے ہے۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہے پر عمل کو بالکل ناچیز جاننا بڑی غلطی ہے۔ ایمان ضرور مسیح پر توکلّ ہے جیسے کہ بیان ہوا ہے اور یہہ توکلّ واسطے نجات روح کے آخرت میں دوذخ سے ہے۔ لیکن ویسا ہی توکلّ واسطے نجات کے شوق گناہ اور شہوت ا ور نفس کی سرکشی سے بھی ضروری ہے۔ یہہ کیسا ہو سکتا ہے کہ آدمی گناہ کے نتیجے سے نجات چاہے اور گناہ کی پلیدی سے نہ بچے ور تمنّا کرے کہ باپ  فرشتوں کی صحبت اور زندگی دوام کے آرام سے حصّہ پاؤں پر جو دلی پاکیزگی اُس صحبت کے لایق ہے اور جسپر سب فرحتیں عاقبت کی موقوف ہیں زندگی میں حاصل نہ کرے ۔ توکلّ خود چاہتی ہے کہ شب و روز اُس خداوند کا خیال دل میں رہے تاکہ مدداور نجا ت اُس سے ملے ۔ لیکن جب گناہ کے خیال اورشوق دل میں بھرے رہیں  توخدا اور خداوند مسیح کے خیال نے کب دخل پایا۔ آدمی جس گناہ سے بچنے کے لیے مسیح کے پاس آیا اُسی گناہ کو کس طرح دل سے پیار کریگا۔ غرض  ایسا مرُدہ ایمان جس میں پاکیزگی کی زندگی نہ ہو ایمان نہیں ہوتا۔

۵۔ ایک خرابی اور بھی پھیلی ہے اور وہ یہہ ہے کہ لوگ یہ سبب تعلیم خوردسالی کے چند عادات مذہبی اختیار  کر لیتے ہیں اور اُنھیں کو ایمان کی جگہ میں نجات کے لیے کافی سمجھکر اوقات بسر کرتے ہیں۔ مثلاً گرجا میں جا کے دعائیں مانگنے اور مذہبی کتابوں کے پڑھنے اور مفلسوں پر سخاوت کرنے اور اپنے مذہب کے مقدمہ میں کُمک دینے اور اپنا نام مذہبی لوگوں کے ساتھ لینے اور جہاں کہیں مذہب کے تزکرہ کے لیے جماعت اکھٹی ہو وہاں پر حاضر ہو نے کو ایمان تصور کرتے ہیں۔ لیکن سچےّ ایمان سے جو توکلّ مسیح پر واسطے راستبازی اور پاکیزگی  اور نجات کے ہے محض بے بہرہ ہیں ایسے ظاہر پرستوں کو مناسب ہے کہ اپنے خیالات اور سچےّ ایمان سے  بے بہرگی کو سمجھکے معلوم کریں کہ اُن کا ایمان اُس بنیاد پر قایم ہے کہ نہیں  جو مواخزہ میں ہر گز جنبش نہ کرے اور ثابت کریں  کہ ایمان صرف خیالی ہی تو نہیں بلکہ تقینّ واسطے  نجات کے ہے۔ اگر آدمی ایسی نیک چال بھی رکھیں کہ لوگونکی  نظر میں کبھی برُے معلوم نہ دیویں اور خدا کی رحمت پر بھی ایسا تکیہ ہو کہ وہ کمزور یٔوں  کی حالت میں مدد کرے تسِ پر اگر ایمان اِنجیل  کے مطابق نہ ہو تو وہ ایمان کسی کام کا نہیں ۔ اِن باتوں سے تصّور  اقسام ایمان کے بخوبی آسکتے ہیں بجا کونسا ہے اور غلط کون۔

۶۔  ایک اور غلطی یہہ ہے کہ بعضے آدمی بغیر تلاوت کلام  رباّنی اور بدون صحت خیال ایمانی کے کہتے ہیں کہ ایمان نے ہمارے دلوں میں ایسا غلبہ کیا ہے کہ سب امور مذہبی ہمارے دل پر کھل گئے ہیں اور وجد کی حالت میں آکر اپنے آپ کو سّچا ایماندار گنتے ہیں اور گناہ کی مغفرت  اور پاکیزگی کی بنیاد اِسی اندرونی خیال سے تصدیق کر لیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیئے کہ انہوں نے گناہ سے توبہ اور مسیح پر توکلّ جس پر عفو گناہ کے وعدے کئے گئے ہیں اپنے دل کے تجربہ میں پائی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگرچہ خدا نے بعض اوقات اپنی کمال رحمت سے بعض اشخاص پر اپنی محبت  کا پر  تو آسمانی طریقہ سے روشن کیا ہے لیکن نجات اور فضل ِ رباّنی واسطے عفو گناہ عوام  کے اِس طریق پر ظاہر نہیں ہوئے۔ انبیاؔ اور شہدا نے بحالت ِ وجد آگ کے شعلوں میں بھی شکر گزاری کے را گ گائے ہیں اور بہت تکلیف کی موت میں بھی انتقام کی طبع پر غالب آکے اپنے دشمنونکے لیے دعائیں مانگی ہیں۔لیکن عوام کو یہہ برکات میسرنہیں ہیں ۔ ہر ایک اِنسان کو نہیں چاہیئے کہ ایسی آسمانی ناگہانی برکت حاصل کرنے کی گمانی التجا رکھے۔ وجد میں آکر خدا کی رحمت پر اِس قدر خوش ہونا کہ اپنے ظاہری کاموں سے بالکل بیخود ہو جائے  اور شے ہے  اور مسیح پر واسطے نجات ِ دوذخ اور رہائی گناہ اور مخلصی شیطانی اِمتحان کے توکلّ رکھنا اور شے اِن دونوں میں زمین اور آسمان کا تفاوت ہے بخشش کی گواہی اپنی طبیعت کے وجد سے سمجھ لینی ایک  واسطے عفو گناہ کے مسیح پر توکل کرنیکا سبب ۔ اُس خدا نے جسنے  اِبتدا  میں طریقہ مغفرت کا مسیح پر ایمان لانے سے ظاہر کیا خواص اور جلال اُس بچانیوالے کے بھی پاک کتاب میں مندرج کئے جس سے ایماندارونکے  دل میں بنیاد توکلّ کے سبب قومی پیدا ہوں ۔ یہی خدا کی گواہی مسیح کے جلال ور عظمت پر یسوعی ایمان کی بنیاد ہے۔ اور نجات کی باتیں ایسی صاف اور باقاعدہ معلوم ہیں  کہ کسی جگہ اُن میں  اشتباہ کی گنجایش نہیں جس دن سے گناہ نے دنیا میں دخل پایا اور اِنسان اپنے خالق کی نظر میں خطا کار اور غضب کا سزا وار ٹھہرا اُسی دن سے نجات کا وسیلہ بھی خدا نے ایسا ظاہر کیا جس سے آدم اور اُسکی اولاد اُسکی رحمت سے نامید اور ہراساں نہ ہووے۔ بیبل کے مضمون سے معلوم ہوتا  ہے کہ خداوند یسوع مسیح صرف اِنسان ہی نہ تھا بلکہ الوہیت بھی اُس میں تھی جو کلام ابتدا میں تھا وہ کلاِم خدا تھا  اور ساری چیزیں اُس سے بنیں اور جو بنیں بغیر اُسکے زریعہ کے نہیں بنیں۔ بسبب  اِس اصلی الوہیت کے جب خدا وند یسوع مسیح زمین پر واسطے فدیہ گنہگاروں کے پیدا ہوا اگر چہ وہ اور طفلونکی طرح صرف ایک طفل تھا  اور مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا اور بعد پیدایش طویل میں رکھا گیا لیکن اُسوقت خدا  باپ نے فرشتوں کو فرمایا کہ اُس کی پرستش کریں ا ور سارے فرشتوں نے یوں پکارا کہ خدا  کو آسمان  پر جلال اور زمین پر امن اور اِنسان  کو رضامند ی ۔ پھر پیدایش خداوند مسیح کی خبر پر والوں کو دی کہ خدا ہمارے  ساتھ ہوا اِسی واسطے عمنوئیل نام رکھا گیا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح میں الوہیت بھی تھی اور اِسی واسطے نجات  کے لیے اُسپر توکلّ سارے   نایب ایمانداروں کے دلوں میں مستقیم ہے اورہے اور سب نبیوں نے مثل اشعیا اوردانیال کی بابت الوہیت مسیح کے خبر دی ور اُس کے کفارہ میں جان دنیے پر یہہ بڑائی کی کہ اُس نے گناہ کو ختم کیا اور  اِنسان کو رہائی بخشی ۔ اور یسوع مسیح کی الوہیت واسطے کفارہ گناہ کے توکلّ کی پکی بنیاد ہے  کیونکہ اگر وہ خدا نہ ہوتا تو گناہ بخشنےکا اِقتدار  ہر گز نہ رکھتا ۔اِس مقدّمہ میں خدا نے خود فرمایا ہے کہ خدا نے دنیا پر ایسا  پیار کیا کہ اپنا اکلوتا پیارا بیتا بخشا تاکہ جو کوئی اُسپر ایمان لاوے ہمیشہ کی زندگی پاوے فقط وہ خدا کا برہّ ہے جو جہان کے گناہ لیے جاتا ہے اُسنے ہمارے گناہ  اُٹھالیے۔ کیونکہ وہ خدا بھی اور اِنسان بھی تھا غور کرو کہ اگر خدا ایسے شخص کو جیسا  مسیح ہے مقرر کر کے صرف آسمان پر رکھ کے گنہگاروں کو اطلاع دیتا کہ اُسپر ایمان لاؤ گے تو تمھارا شفیع ہوگا اور اُس کی شفاعت گناہ کی مغفرت کے لیے مقبول ہوگی تو بھی ہر ایک کو لانک ہوتا کہ اُسپر ایمان لاوے۔ خدا  نے اُسے صرف مقرر ہی نہیں کیا  بلکہ زمین پر بھیجا اور اپنارحم اور عدل دونوں ایک جگہ میں ظاہر کئے۔ اگر مسیح صرف اِنسان ہی ہوتا اُس کا کفارہ معافی کل جہان کے لیے کافی نہ ہوتا۔ اور اگر وہ صرف الوہیت میں لوگوں پر خدا کی رحمت ظاہر کرتا تو عدل پورا نہ ہو سکتا ۔ اسی واسطے خدا اور اِنسان کا متوسط ہوا جیسا کلام میں تزکرہ  ہوا ہے کہ خداوند مسیح میں الوہیت تھی جسے آسمان کے فرشتے پر ستش کرتے تھے یہہ بھی لکھا ہے کہ اِنسان گمراہ کے بچانیکے لیے اُس نے آکے جاندی۔ مسیح کی پیدا  یش سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُس میں ضرور الوہیت تھی کیونکہ اُس میں لکھا ہے کہ اُسنے فرشتہ کی صورت نہ پکڑی بلکہ ابراہیم کی اولاد میں پیدا ہوا تاکہ گنہگاروں  کا نجات دہندہ ہووے ۔ اِن دونوں خاصیت کا ہونا  مسیح میں ضرور تھا تاکہ وہ خدا کے ہو خدا کا حق پہچانے اور اِنسان  ہو کے اِنسان کی کمزوری پر رحم لاوے۔ اور یہی دونوں خاصّیت واسطے تقویت ِ بنیاد توکلّ کے پاک  کتابوں میں زکر ہوئی ہیں اِس جگہ میں لکھنا اُن کا ضرور ی نہیں ۔ کلام کے پڑھنیوالوں کو آپ ہی معلوم ہو گا کہ مسیح میں یہہ دونوں خاصیّت موجود  تھیں ا  ور اِسی  واسطے وہ ہمارے لیے نجات دہندہ کامل ا  ور واسطے  عفو گناہ کے توکلّ  اُسپر بخوبی ہو سکتا ہے۔ یہودیوں نے مسیح کے حق میں یہہ غلطی کی کہ وے اُسکو بادشاہ صاحب جلال الوہیت سے پر اُن کو دشمنوں سے چھڑا نیوالا شجاعت میں بہادر انتظار کرتے تھے۔ اور مسیح برعکس خیال اُن کے کے مفلس آدمیوں کی صورت میں پیدا ہوا ور ہر ایک قسم کی تکلیف میں اُس نے اپنے آپ کو ڈالا۔ سامھنے پلاطوس  کے حاضر ہوا گویا ساری دنیا کا منصف یعنے مسیح اُس بُت پرست حاکم کئے سامھنے اِنصاف کے لیے لایا گیا کیونکہ خدا نے ہماری گناہ اُسپر ڈالے تھے ۔ جب دوسرے گنہگار واجب القتل نے پلاطوس کے ہاتھ  سے رہائی پائی تو اُس نے مسیح کے حق میں  صلیب کا فتویٰ دیا۔ یہہ سخت سزا جو مسیح پر وار ہوئی ہمارے گناہوں کے سبب تھی ۔ فی الحقیقت عدول حکمی ایسی ہی سزا کا تقاضاکرتی ہے جس سے ساری دنیا غازت ہووے  اور یقیناً مسیح نے ایسی ہی سزا ُٹھائی جس سے ساری دنیا کو نجات ملے سزا کا بوجھ  جو مسیح نے اُٹھایا ایسا سُبک نہیں تھا کہ صرف اِنسانیت اُسے اُٹھا  سکتی عدول حکمی کی سزا اُن فرشتوں سے بھی اُٹھائی نہیں گئی جو اِنسانسے طاقت اور لیاقت کئی درجہ زیادہ رکھتے تھے اُسی سزا میں وہ فرشتے عمدہ آرام ِ آسمانی سے شیطان کی  طرح دوزخ کے لایق ہوئے۔ پر خدا وند مسیح نے اپنے جسم میں بسبب سنبھالنے اور تھامنے الوہیت کے وہ آسمانی غضب  اُٹھایا اور خوشی سے اُس کو سہا لیکن تو بھی بوجھ اِس غضب کا اُسکے اِنسانی جسم پر بخوبی معلوم ہوا اور ایک بات سے جو ساری تکلیفوں سے زیادہ  تر قوی تھی وہ گھبرایا ۔ دیکھو اُسنے پلاطوس کے آگے واسطے رحم کے کچھ درخواست نہ کی اور جب یروسلم کی عورتیں اُسپر رونے لگیں تو اُس نے حلم سے اُن  کو کہا کہ اپنے فرزندوں کے لیے رؤ اور پھر بخوشی خود صلیب کو قبول کیا  اور جیسے بھیڑ ی بال کترنے والوں کے آگے چپ رہتی ہے ویسے ہی سارے دُکھ سہتا رہا۔ لیکن جب خدا کا غضب اُسپر نازل ہوا اور خدا نے اپنی الوہیت کا چہرہ اُس سے جدا کر لیا تب مسیح چلاّیا کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں ترک کیا ۔ اِس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح گنہگاروں کی نجات دینے میں کامل اور توکلّ اُس پر بجا اِس قدر صاحب جلال ہو کے ایسا پست بنا اور خدا کی رحمت سے یہہ بھی آشکار ا ہے کہ اُس خدا نے ہمپر ایسا پیار کیا کہ اپنے اِکلوتے اور پیارے  بیٹے کو بھیجا تاکہ گنہگار اُسکے وسیلے سے نجات پوویں پس  اُس کلام پر تکیہ نہ کرنا نہایت گناہ ہے اگرچہ تمہارے گناہ شمار میں بے حّد ہیں تو بھی مسیح سے بخشش کے اُمید وار ہو سکتے ہو۔ کیونکہ کوئی گناہ ایسا نہیں  جسکو اُس کا خون صاف نہ کر سکے اور کوئی گناہ ایسا نہیں جسکا بدلہ اُسنے نہ دیا ہو اور کوئی سزا  گناہ کی ایسی نہیں جو اُسنے نہ اُٹھائی ہو اور اُسکی نجات خدا کی مقرر کی ہوئی ہے۔ پس توکلّ کروکہ اُسنے عدل کو پورا کیا اور شریعت کو عزت دی اور رحم کو ظہور میں لایا   اور گناہوں  کی سزا   اپنے آپ پر  اب ہم مدد جو مسیح  سے حاصل ہوتی ہے اور وہ چُھٹکارا   جو مسیح بخشتا ہے اور وہ قہر اور غضب شریعت کا جو اُسنے ہمارے لیے اُٹھایا  اور وہ روشنی فہم کو جو اپنے کلام کے زریعہ سے  ہم کو عطا کی ہے بیان کر چُکے لیکن ایک اور بات باقی ہے جس کا زکر اب کرنا چاہتے ہیں اور وہ نجات کے لیے لازم ہے۔ یعنے آدمی بزاتہ دنیا کا غلام ہے اور دنیاوی شہوتونکا لالچ اور عاداتِ طفلانہ اور حسد اور تکبرّ اُس کے دل میں موجود ہیں۔ یہی نہیں کہ اُن چیزوں کو صرف رغبت سے استعمال ہی میں لاتا ہو بلکہ اُس کے کاموں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِن شہوتوں کے قبضہ میں ایسا آرہا  ہے جس سے چھوٹنے کا اِرادہ رکھتا اور جب تک اپنی طاقت سے چھوٹنے کا اِرادہ رکھتا ہے تب تک ہر گز چھوٹ بھی نہیں سکتا ۔ ہر ایک اِمتحان میں جس کا وہ  مغلوب ہوتا ہے یہی بات اُس کو سچ معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ  اپنی ناتوانی کا اِقرار کرنے میں ظاہر اً مذامت ہے لیکن بچنے کی راہ کی تلاش نہ کرنی عین حماقت ہے۔ بعضوں کو بزاتہ اور بعضوں  کو تعلیم  سے کچھ کچھ نیک عادتیں حاصل بھی ہیں مگر اندرونی بد اخلاقی تسِ پر بھی وقتا ً فوقتاً  اُن کے علم کے برخلاف غالب ہو جاتی ہے اور طبیعت  کو بالکل پراگندہ اور تلخ بناتی ہے ۔ یہہ غلامی زیادہ تر غم  افزا ور برداشت  سے باہر ہوتی ہے۔ جس قدر خدا کے اِنصاف ا  ور گناہ  کی حالت سے اِنسان واقف ہوتا ہے  اُسی قدر اُس کو اِس غلامی سے چُھڑانے پر مسیح قادر ہے۔ اِس مخلصی کے لیے بھی خدا کا یہہ حکم ہے کہ مسیح پر توکلّ  کرو اور اُسی  کی قوت پر بھروسا رکھو ۔ اگلے زمانے کے نبیوں نے بھی مسیح کی خاصیّت کو اِسی طرح بیان کیا ہے کہ وہ گناہ  سے چھڑانے پر قادر اور شیطان کی جنگ میں بہادر ہے اور اُس کے قبضہ سے پھر کوئی نہیں چُھڑا  سکتا۔ مسیح کی ظاہری پست حالی پر خیال کر کے کوئی یہہ نہ سمجھے کہ گناہ کی غلامی سے چھڑانے پر اُس کو  قوّت کم ہے کیونکہ انجیل کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے گنگے کو زبان دی ا ور بہرے کو کان اور لنگڑے کو پانوُعطا  کئے اور اندھے کو آنکھیں  اور مرُدہ کو زندگی  بخشی اور آندھی اور دریا  نے اُس کا حکم  مانا اور دریا کی موجیں اُس کے خوف سے  تھم گئیں ۔ آندھی میں اگرچہ دوذخ کی قّوت ہے اور اِنسان پر غالب ہے لیکن مسیح پر غالب نہیں اُس کی قدرت اِن سب چیزونپر فایق ہے۔ ہمارے ایمان اور توکلّ اور اُمید کی تقویت کے واسطے پاک کلام میں بارہا مزکور ہوا ہے مسیح ہم کو گناہ کی غلامی  سے آزاد کرانیوالا ہے۔ خراج  لینیو الوں کو جو گنہگار وں میں بڑے شمار ہوتے تھے  اور زنانہ فحبہ جو عورت  ِفاحشہ گنی جاتی تھیں مسیح کی قوّت نے شہوتوں سے رہائی دی ۔ غرض گنہگاروں کو گناہ سے رہائی بخشنے کی قوّت  جو مسیح میں ہے  اُسکا تزکرہ میں کہاں تک کروں سب کلام  رباّنی اِنہیں  باتونکی تواریخ ہے اور سارے مسیح لوگ اِس کلام کے گواہ ہیں دیکھواُس خونی جو مسیح  کے ساتھ مصلوب ہوا تھا مسیح نے کہا کہ تو آج  ہمارے ساتھ فردوس میں ہوگا۔ یعنے میں تجھے بہشت میں اِس امر کی علامت کر کے لیجاؤنگا کہ ہم شیطان پر غالب ہوئے۔ ایسا ہی جو لوگ کہ مسیح  پر ایمان لاتے ہیں اور دنیا ور نفس اور گناہ  پر غالب ہوتے ہیں قوت مسیح  کی علامت ہیں گویا کہ اُس نے اُن کو شیطان کے ہاتھوں سے چھڑادیا  اور جل نے  تنکے کو  آگ  سے بچا لیا ہر ایک دل  جو مسیح کی قوّت سے صاف ہوتا ہے اور ہر ایک طبع جو گناہ سے پھر کے خدا کی طرف رجوع ہوتی ہے اور ہر ایک گنہگار جو گناہ سے توبہ کر کے شیطان کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے اور مسیح کا سپاہی کہلاتا ہے مسیح کی قوّت کا نشان ہے۔ یہہ خاصیت مسیح کےبھی بیبل میں اُس کے لقب کے مطابق ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ فتحمنداور  دشمن پر غالب ہوگا جھوٹھہ کو کچلیگا ور راستی کو قایم کریگا۔ اگر کوئی کہے کہ مسیح کی موت ور قبر اُس کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے کیونکہ تو یہہ پاک کتابوں کی ناواقفی سے ہے کہ کیونکہ مسیح قبر میں اِسواسطے نہیں گیا کہ قبر  کا پابند ہو بلکہ فتحمند کی مانند تھا۔ اِسواسطے قبر کی بند کو اور موت کی سلطنت کو توڑ  کے اُن دونوں پر غالب آیا اور مر کے تیسرے دن جی اُٹھا  پس اُس پر توکلّ کرنا ہمیشہ کی موت سے  چھٹکاراہے  یہہ مر کے جی اُٹھنا اُس کا قوتّ الہیٰ   ہے ۔ جسنے نبیوں کے کلام کو پوراکیا اور تمام آدمیوں کی اُمید کا پہلا  سبب ہوا اور ظاہر کر دیا کہ ساری خلق مر کے پھر جی اُٹھیگی جیسے کہ لکھا  ہے کہ جاگ ا ور  گا  اے  تو جو خاک میں بستی ہے تیری  شبنم اور تیری سبزیاں قایم ہیں کہ زمین اپنے مردوں اپنے مردوں کو نکال دیویگی۔  باب ۷۶ آیت ۱۱۹  شعبا نبی کی۔ پس اِن کاموں سے مسیح کی قوّت صاف ظاہر ہے اور ہماری توکلّ کی بنیاد وہ ہم کو صرف گناہ کی سزا  ہی سے نہیں چھڑاتا بلکہ گناہ کی قوّت سے بھی چھڑاہے۔ پولوس حواری نے بھی لکھا  ہے کہ وہ صاحب نجات جو اپنے نام پر توکل رکھینوالوں کو نجات کے دشمنوں سے رہائی دیتا ہے ہمارے  میانجی منصب   میں یہہ اقتدار  رکھنا ہے اور ہمارے سارے دشمنوںپر ایسی حکومت کرنا  ہے کہ جب تک مخالفت گناہ اور شیطان اور خدا کی موقوف  نہ ہووے تب تک اِسی میانجی کے تخت  پر بیٹھیگا اور وہ خدا کے دہنے ہاتھ پر  بیٹھا تاکہ تمام قوتیں اور ساری ریاستیں نہ صرف دنیاوی جو موجود ہیں بلکہ  عقبیٰ کی بھی اُس کے قدم تلے کی جاویں اور کلیسیا کی ساری چیزوں پر مختار رہیگا ۔ اِمتحان کی تعداد اور قوّت کتنی ہے تصوّر کرواور اِنسان کی کمزوریوں اور بدعادتوں ور شیطانی فریبوں کو کتنا ہی خیال کرو سب مسیح کی قوّت  کے نیچے ہیں وہ اپنے لوگوں کو پاک کریگا اور خاص  قوم بنا کر خدا کے حضور میں  پہنچائیگا مسیح ایمانداروں کا بادشاہ ہے کہ سب روحانی ظلموں اور ناپاک  شہوتونسے  رہائی بخشتا ہے اگر کوئی شخص حلم اور پایداری سے مسیح کو قوّت پرتو کلّ کرے تو تجربہ سے معلوم کریگا کہ یہہ سدا ہی خوبیاں اُس میں ہیں اور گناہ کی بلا میں ہرگز گرفتار نہ رہیگا  مسیح پر توکلّ کرنیوالے  گناہ پر ضرور فتح پاوینگے ورنہ اُن کو خدا کے کلام میں شک ہوگا۔ جس قدر اِس باب میں کہا گیا اِسی قدر ایمان میں تقویت پیدا کرنے اور مسیح پر توکلّ کی بنیاد مضبوط کرنے کو کفایت کرتا ہے کہ وہ بچانیوالا  واسطے دانائی ور راستبازی ا ور پاکیزگی   کے کافی ہے۔ 

مسیح  گنہگاروں کاکفارہ

Christ's Atonement for Sinners

Published in Nur-i-Afshan November 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Three Crosses at Sunset

پرچہ  ہائے گزشتہ اخبار میں مسح کی الوہیت اور انسانیت کا بیا ن ہوا ۔ اب اُس کے کفارہ ہونے کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے ۔  (ا) نبیوں کی کلام میں مسیح   جابجا  کفارہ کے طور پر بیا  ن ہوا  ہے خاص  کر یسعیا نبی کی کتاب  میں  دیکھو ۵۳ باب  اور اُسکی  ۴۔ ۵۔ ۶۔ ۸۔ آیت اِسمیں یوں بیان ہے یقیناً       اُسنے  یعنی مسیح نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں  ۔ اور ہمارے غمونکا  بوجھ اپنے اوپر چڑھایا  ۔ پر ہم نے اُنکا یہ حال  سمجھا کہ وہ  خدا  کا مارا کؤتا  اور ستایا ہوا ہے پر وہ ہمارے گناہونکے سبب گھایل کیا گیا اور ہماری بدکاریونکے سبب کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لیے اُسپرسیاست ہوئی تاکہ اُسکے مار کھانے سے ہم  چنگے ہوویں  ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے اور ہم  میں سے ہر ایک  اپنی  راہ سے پھرا  اور خداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری  اُسپر کادی  ایزا دیکے اور اُسپرحکم کر کے دے  اُسے لیگئے۔ پر کون اُسکے زمانہ کا بیان کریگا    کہ وہ زندونکی  زمین سے کاٹ ڈالا گیا میرے گروہ کے گناہونکے سبب  اُسپر  مار پڑی اُسکی   قبر بھی شریرونکے درمیان ٹھہرائی  گئی تھی  پر اپنے مرنیکے بعد  دولتمندو نکے  ساتھ وہ ہوا کیونکہ اُس نے  کسی طرحکا ظلم نہ کیا  اور اُس کے منہ میں کسی طرح کا  چھل نہ تھا لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے   کچلے اُسنے اُسے غمگینکیا جب اُسکی   جان گناہ  کے لیے گزرانی  جاوے  تو   وہ اپنی نسل  کو دیکھیگا    اور اُسکی  عمر    دراز ہو گی۔  اور  خدا کی مرضی  اُسکے ہاتھ کے وسیلے برآویگی اپنی جان کا دُکھ اُٹھا کے وہ  اُسے  دیکھیگا اور سیرہو گا ۔  اپنی ہی  پہچان  میرا صادق  بندہ  بہتوں  کو راستباز  ٹھہراویگا  کیونکہ وہ  اُنکی  بدکاریاں اپنے  اوپر اُٹھا لیگا۔

اور دانیال نبی ۶ باب میں پیدایش مسیح سے چار سو نوے برس  پیشتر یوں کہتا ہے کہ بدّکاری کی بابت کفارہ کیا جاویگا  اور مسیح قتل کیا جاویگا   پر نہ اپنے لیے ۔

مسیح کے کفارہ ہونیکا زکر انجیل میں بہت جگہ ہے چنانچہ نیچے اِسکی چند آیتیں بیان کی جاتی ہیں افسیوں کا خط ۵ باب ۲ آیت  جس میں پولوس  رسول  یوں لکھتا ہے تم   محبت سے چلو جیسا مسیح نے ہم سے محبت کی اور خوشبو  کے لیے ہمارے عوض میں اپنے تئیں خدا  کے آگے نزر اور قربا ن کیا۔  پہلا قرنتیوں کا  خط  ۱۵ باب  ۳ آیت   مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے موا۔ پہلا پطرس دوسرا باب ۲۴ آیت ۔  وہ یعنی مسیح آپ ہمارے گناہونکو اپنے بدن پر اُٹھا کے صلیب پر چھڑہ گیا ۔ تاکہ ہم گناہوں کے حق میں مر کے راستبازی  میں چلیں۔  اُن کوڑونکے سبب جو اسپر پڑے تم  چنگے ہوئے  پہلا خط  یوّحنا ۲باب ۲ آیت  اور وہ یعنی مسیح ہمارے گناہونکا کفارہ ہے پر فقط ہمارے گناہونکا نہیں  بلکہ تمام دنیا کے گناہونکا بھی ،  ۲قرنتیون کا  خط  ۵ باب ۲۱ آیت اُسنے یعنی خدا  نے اُسکو جو گناہ سے نا واقف  تھا ہما رے بدلے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں شامل ہو کے آلہی راستبازی ٹھہریں۔ رومیوں کا خط ۵ باب  ۱۰ آیت خدا نے اپنے بیٹے کی موت کے سبب ہم سے ہم سے میل کیا ، مکاشفات  ۵ باب ۹ آیت تو نے اپنے لہو سے ہمکو ہر ایک فرقہ اور اہل زبان اور امت اور قوم میں سے مول لیا۔ 

اور خداوند یسوع مسیح خود فرماتا ہے کہ  میں اپنی جان اپنی بھیڑوں  کے لیے دیتا ہوں باپ مجھے اس لیے پیار کرتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ میں اُسے پھیر لوں کوئی شخص اُسے مجھے لیتا  پر میں اُسے آپ دیتا ہوں میرا اختیار ہے کہ اُسےدوں ۔ اور میرا اختیار ہے کہ اُسے پھیر لوں یہ حکم میں نے باپ سے پایا ہے ۔ اِسطرح بائیبل میں جابجا زکر ہے کہ مسیح گناہ کا کفارہ  ہے۔

میں تعجب کرتا ہوں کہ باوصف اِسکے ملک شاہ صاحب کسطرح سے فرماتے ہیں کہ با ئیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں ۔ ہر ایک شخص اِن آیتیوں سے معلوم کر سکتا ہے کہ بائیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت ہے اور نیز  اِن آیتیوں کی کسی اور طرح تفسیر نہیں  ہوسکتی جس سے اِسکے خلاف خیال دوڑ سکے اس لیے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب اِن پر غور فرماکریہ الزام عیسائیوں پر سے اٹھا لیویں کہ بائیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں ۔

ملک شاہ صاحب کیواسطےتو اتنی دلایل کافی ہیں لیکن اس لیے کہ لوگوں کو کفارہ کے معنے اور خاصیت معلوم  نہیں میں اُسکی نسبت بیان کرتا ہوں اور چند دلایل دیتا ہوں ۔ مسیح کے کفارہ کے معنے اور خاصیت سمجھنےکے لیے پہلے اِن باتوں پر غور کرنا  واجب ہے جسکا زکر زیل میں کیا جاتا ہے۔ (۱) سارے انسان گنہگار ہیں کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں سب گمراہ  ہیں کوئی  نیکوکار نہیں ایک بھی نہیں ۔اِس کلام میں کل انسان شامل ہیں ازنٰی جعلیٰ فقیر امیر پیر پیغمبر بنی مرسل غرض کہ یہ کلام     ہر فرد بشر پر محیط ہے ۔

اور یاد رہے کہ گنہ دو قسم کے ہیں ایک عملی دوسرا خیالی ، عملی گناہ تو ہیں جو ظاہری عمل اور کام و کاج میں ظاہر ہوتے ہیں اور جسکو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے اور خیالی وہ ہیں جو صرف خیال سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف انسان کے دلمیں وسوسہ انداز ہوتے ہیں جیسا کہ لالچ ، غصہّ، طبح خیالات فاسد اور دیگر امورات مزموم معلوم رہے کہ خدا دل اور گردوں کا جا نچنےوالا ہے اور اُسکے ساھمنےخیالی گناہ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ عملی اوریہ دونو اُسکے حضورہم پلہ ہیں اگر  اِن معنوں کو انسان مدنظر رکھے تو کسکو اِس سے یا رائے انکار  نہیں کہ کوئی شخص گناہ  سے بری  ہے کیونکہ اگر ظاہر گناہ سےاحتراز بھی کیا جاوے تاہم ایسا کوئی فرد بشر نہیں جو خیالی گناہسے بچ جاوےپس انجیل کا وہ کلام کہ سارے انسان گنہگارہیں عین سچ ہیں۔ 

(۲)خدا ہمارا خالق مالک اور پر وردگار ہے اُسنے ہمیں بتایا اور پیدا  کیا اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اُسکا ہے اسی واسطے ہمپر فرض ہے کہ ہم  اُسکی  بندگی اور فرمانبرداری کریں اور اُسکی  تابعداری  بجالاویں اور اُس  سےدل و جان سے محبت رکھیں اور اُسکی مرضی پورا کرنیکے لیے کوشش کریں اگر ہم  یہ فرض ادا  نکریں تو ہم  اُسکے قصور وار اور گہنگار اور فرض کے قرضدار ٹھہرتے ہیں اور سزا کے لائق ہوتے اسواسطے ہر ایک گنہگار اُسکے حضور فرض اور فرمانبرداری کا دیندار ہے او رسزاکا سزاوار ہے۔

(۳)یہ فرض کا دین انسان تو یہ کے وسیلے سے ادا نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ تو یہ ہماری   طرف سے خدا کی طرف  واجب کو ادا کریں تو پچھلا دیں ساقط نہیں ہوتا  تو یہ پچھلی چیزوں پر اثر نہیں کر سکتی یہ صرف آیندہ سے تعلق  رکھتی ہے مثلاً  ایک قرضدار قرض اُٹھانے سے توبہ کرے اور آیندہ   کو نقد سودا لیتا  رہتا ہے تو اس سے اُسکا پچھلا قرض جاتا نہیں رہتا ۔

بلکہ قائم رہتا ہے  ہاں آئیندہ کو وہ اَس بوجھ سے سبکدوش رہتا ہے ایسا ہی اگر کوئی شخص بیوقوفی سے اپنے کسی عضو کو کاٹ ڈالے اور آئیندہ کو ایسے کام کرنسیے توبہ کرے اور احتیاط عمل  میں لاوے  تو اِس توبہ کرنیسے وہ  اُسکا عضو درست نہیں ہوجاہیگا  گو آئیندہ کو اُسکے دوسرے عضو  سلامت اور محفوظ رہیں اسی طرح انسان گنہگارجب اپنے گناہوں سے پرہیز اور کنارہ کر کےخدا کیطرف متوجہ ہوتا ہے تو اِس سے اُسکے گناہ سابقہ زایل نہیں ہوجاتے ہاں اُسکی  توبہ کا اثر اُسکی آئیندہ  زندگی پر ضرور پر پہنچتا ہے اُسکے سابقہ گناہونکی معافی کے لیے کو ئی اور طریق یا کوئی اور وسیلہ ضرور ہے لیکن تو بہ علاج ناکارہ ہے۔

(۴)ایک اور سبب ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گناہ توبہ سے معاف  نہیں ہوسکتا وہ یہ ہے کہ خدا عادل اور منصف ہے اور اُسکی عدالت اُسکے ہر ایک کام میں ظاہر ہوتی ہے عدالت اُسکی زات کا ایک حصّہ ہے اور اُسکے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا اور ہر ایک امر میں  اُسکو ملحوظ رکھتا ہے عدالت اِس امر کی مقتضی ہے کہ ہر ایک گنہگار گنہ کے عوض میں سزاپاوے اور  ہر ایک خطا اور غفلت کے عوض میں اُسپر سزا کا فتویٰ     کیا جاوے اور وہ کسی شخص کو بری الزمہ  نہیں کرتے جب تک کہ وہ فرمانبرداری  اور اطاعت ( جو اُسپر واجب ہے) خدا کی طرف  ادا   نہویٰ ہووے البتہ  یہ ضروری ہے کہ خدا   بڑا  رحیم ہے اور رحیمی کی صفت اُس میں  موجود ہے  لیکن یہ رحم اُسکا  اُسکے عدل کے ساتھ ملا ہوا اور جب تک اُسکی عدالت کا حق پورا نہو تب تک وہ رحم گنہگار ونکی بخشش اور نجات میں ظاہر نہیں ہوتا ۔ پس پھر کیونکہ تو بے گناہونکی معافی کا وسیلہ ہوسکتی ہے۔

(۵)بصورتہاےمسبوق الدّکر یعنے  جبکہ خدا کی بندگی اور پرمانبرداری   اور اُسکے احکام اور شریعت کی اطاعت ہم پر فر ض اور واجب ہے اور ہم  بالخلقت گنہگاراور معصیت پروردہ ہیں اور کسی صورت سے ہم اُسکے قرض کو ادا نہیں   کر سکتے اور توبہ ہماری نجات  کا وسیلہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہمارے پچھلے گناہونکو معدوم کر سکتی  ہے اور اُسکی  عدالت ہماری  نسبت سزا کا فتویٰ سادر کرتی ہے اور ہمارے لیے کوئی صورت  پریت کی نہیں  اور ہم نہایت ناامیدی  اور پاس   کی حالتمیں ہیں  تو ضرور تھا کہ کوئی  اور طریق جاری نجات کا ہوتا جس سے خدا کا رحم بھی ظاہر ہوتا  اور اُسکا عدل  بھی قائم اور برقرار رہتا۔

پس خدا نے ایسے بے حد رحم کو کام  میں لاکر اپنی  لاتعداد حکمت سے ہمارے لیے ایک طریقہ نجات  کانکالا جس سےاُس کی عدالت  میں بھی کچھ فرق نہیں  آیا  وہ یہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح کو (جو ابن اﷲ تھا) اِس دنیا  میں بھیجا  اور اُس نے پیراوان مت میں آکر ۳۳ برس  تک دنیا  میں زندگانی بسر کی اور آخر کو  اُس  نے گنہگارونکا ضامن بنکے اور اُنکے عوض میں آپ سزا  اُٹھا کے خدا کی شریعت کو پورا کیااور سارا حق اُسکی عدالت کا پہنچایا۔ یعنے وہ پوری اور کامل فرمانبرداری جو انسان پر خدا کی طرف واجب تھی یسوع مسیح نے انسان کا ضامن ہو کر پوری کی  اور آخرش اُسنے اپنی جان انسان کے عوض میں صلیب پر دی اور آپ بےگناہ ہو کر اُسنے گنہگار ونکی سزا اپنے سر پر اُٹھائی۔

اور یہی امر یعنے (یسوع کا انسان کے عوض میں خدا کی فرمانبرداری اُٹھانا اور گنہ کی سزا کا اپنے اوپر برداشت کرنا) کفارہ کہلاتا ہے جو شخص اِس کفارہ پر ایمان  لاتا ہے وہ گناہ کی سزا سے بچ جاتا ہے کیونکہ وہ سزا اور سیاست جو اُسپر واجب تھی مسیح نے اُٹھائی اور جو کچھ شریعت کی اطاعت اُسپر لازم تھی اُسنے پوری کی ۔

اب عدالت بھی برقرار رہی اور اُسکا رحم بھی بظہورآگیا اور انسان نجات کی اُمید ہوگئی یہی ایک طریقہ نجات کاہے جسکا زکر اوپر ہوا اور جو انجیل سے ظاہر ہے۔

اب واضح  رائے زرینناظرین ہووے کہ اس طریقہ نجات (یعنےکفارہ پر) وہ اعتراض  لازم آتے ہیں ۔

(اول یہ) کہ ایک آدمی کی موت سے کسطرح بہتوں کی معافی ہوسکتی ہے خداوند یسوع مسیح اکیلا گنہگارونکے عوض میں صلیبی موت اُٹھاکر کفارہ ہوااِس ایک کفارہ سے ساری دنیا کی نجات کسطرح ہوسکتی ہے ایک آدمی کے عوض میں ایک ہی بچ سکتا ہے نہ کہ کلُ دنیا۔

اسکا جواب یہ کہ خداوند یسوع مسیح عام  انسانوں کے موافق انسان نہیں تھا بلکہ اُسمیں الوہیت تھی

(یعنے  زات و صفات  خدا)موجود تھی اور اِس الوہیت کے سبب جو کچھ کام  و کاج اُسنے جائے انسانی میں کیا اُسمیں الوہیت کا اثر پہنچا اور اُسکے  درجہ اور صفت نے اُسمیں   تاثیر کیا اس لیے جب مسیح نے انسان کے عوض میں  فرمانبرداری اور موت اٹھائی تب اُسکے اسکام  میں بھی درجہ الوہیت کا پہنچا ۔ اسلیے مسیح کی راستبازی  بیحد راستبازی  تھی اُسکی  موت کا اثر بھی بیحد ہی وہ پورا اور کامل اور بے نقص  اور سب سے بڑھکر انسان تھا یا یہ کہیں کہ وہ ایک بڑی قدر ومنزلت کا انسان تھا اور اُسمیں الوہیت بھی موجود تھی اسلئےاُسکی جان گرامی ساری دنیا  کا کفارہ ہوسکتی ہے اور اُسکی ایک جان تمام جہان کے عوض کافی خیال کیجا سکتی ہے بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ اُس کی قیمت اُس سے بڑھکر ہے کیونکہ اُسکا مرتبہ بیحدہے۔

(دوسرا اعتراض ) اِس بیان سے بے انصافی ظاہر ہوتی ہے کہ گناہ اور انسانوں نے کیا اور سزا مسیح نے اُٹھائی ۔ اِس سے خدا کا انصاف قائم نہیں رہتا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔

اِسکا  پہلا جواب یوں ہے اس سے خدا کی بے انصافی ظاہرنہیں  ہوتی کیونکہ مسیح نے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے یہ سزا  بعوض گنہگارونکے اپنے اوپر اُٹھائی دیکھو  یوحنا ّ  کی انجیل جسمیں مسیح خداوند خود فرماتے ہے کہ میں اپنی  جان  بھیڑوں کےلیے دیتا ہوں میں اپنی خوشی سے اُسے دیتا ہوں کوئی  اُسے مجھے نہیں لیتا مجھ کو اختیار ہے کہ میں اُسے دوں   یا پھیر لوں  وہ آپ  انسان پر رحم  کھا کر گنہگارونکا  ضامن بنا   اور اُنکے عوض میں  اُس نے خود  گنہ  کی سزا اپنے سر پر اُٹھای  اِس حال  میں کیونکر خدبے انصاف ہو سکتا ہے ۔

(۲جواب) یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کے عوض  میں دوسرا  سزا کا سزاوار ہووے دیکھو  یہ  دنیا  کا عام  و تیرہ ہی کہ ضامن اپنے اصل مجرم کے عوض میں لاخوز کیا جاتا ہے اور خدا کے انتظام میں تو یہ عام ہے اور اُسکی پروردگاری  کے کام میں اکثر دیکھتے ہیں  کہ ایک شخص  دوسرے کے عوض  جس سے اُسکا  کچھ تعلق  ہوسزا اُٹھاتا  ہے دیکھو باپ حرامکاری کرتا  ہے اور اُسکی بیماری کا اثر بیٹے پر پہچنتاہے اور وہ  آلشک کی بیماری سے مرتا  اور جلتا ہے باپ بدکاری میں اپنے جسم کو کمزور کرتا ہے اور اُسکا  عزاب  اُسکی نسل پر پڑتا ہے ۔

دیکھو گناہ  آدم   سے بظہور آیا  اُسکے عوض میں اُسکی تمام نسل کو بہشت سے محروم رکھاگیا  تاہم  ہم خدا کو بے انصاف  نہیں کہ سکتے یہ سب پروردگار کا  انتظام ہیں اُسمیں ہم نقص نہیں نکال سکتے پس جب اِسمیں  نقص نہیں نکال سکتے تو ہم   پر واجب ہے کہ ہم نجات کے کام  میں بھی نقص  نہ نکالیں بلکہ ہمیں واجب ہے کہ ہم اُسکو مطابق پروردگار ی کے کاموں کے قبول کر لیں ۔

Pages