انجیل

Gospel
Men visiting in Swat Valley, Pakistan

قرآن سے انجیل کی قدامت اور اصلیت

The Authenticity of the Gospel

According to the Koran

Published in Nur-i-Afshan April 25, 1889
By Kidarnath

کیدارناتھ

واضح ہو کہ عیسائی عُلما نے  کماینبغی تحقیقات کر کے  بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ انجیل مروجہ  حال وہی انجیل ہے جو  سن ۹۶ء تک تصنیف ہو کر تمام و کمال شائع ہو چکی تھی چنانچہ  قدیم تراجم  سردنی  دانگلو ساکن وغیرہ  اور پرانے قلمی نسخجات الگزنڈریہُ روم اس ثبوت کے وسائل موجود ہیں۔ حاجت نہیں کہ نکرکہ اُنکی  تکرار  کیجائے مگر زمانہ حال کےمحمدی اکثر یہہ حلبہ پیش کرتے ہیں کہ یہ انجیل وہ انجیل نہیں ہے۔ جوزمانہ قدیم حضرات  حواریوں میں تھی۔

لہذا اب میں خاص اُنہیں کے اطمینان  کیواسطے چند ثبوت جو کہ میرے ہی ذہن  ناقص  میں تخیل  ہیں بیان کرتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ میں اپنے دلائل میں صرف اسی پر اکتفا کرونگا کہ انجیل موجودہ  حال  کی موجودگی  زمانہ محمد میں چابت ہو جائے اور بس معلوم ہونا چاہئے کہ انجیل کیا ہے۔ انجیل کے معنی لغت میں خوشخبری  اور اصلاح میں اُس کتاب کو کہتے ہیں جو خداوند  یسوع مسیح کے حالات پر مشتمل  ہے۔ اور وہ چار حصوں میں محدود  ہے۔ پہلے میں چاروں انجیلیں ۔ دوسرے  میں اعمال  الرسل۔ تیسرے میں خطوط ۔ چوتھے میں مکاشفات۔

مکاشفات نبوت کی کتاب ہے۔ خطوط تعلیمات عیسوی  کے مفسرہیں ۔  اعمال میں رسولوں  کی کار گزاری  ہے۔ انجیلوں  میں مسیح  کی سوانح عمری  گویا  وہ بیچ جو کشت زاد انجیل  میں  بویا گیا۔ بہ آبیاری اعمال نہال سر سبز نظر آیا۔ خطوط میں اُسکے پھول خوشبو پہنچاتے ہیں۔ پھر مکاشفات میں پھل لگے ہوئے پاتے ہیں۔

پس اس سلسلہ  متناسبہ پر غور کت نیسے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر چار حصص  آپس میں کیسا علاقہ متحدہ  رکھتے جس میں نہ افراط  کو داخل  ہے اور نہ تفریط  کو گنجائش  حسب الحکم  مکاشفات  ۲۲ ب ۱۸، ۱۹ ۔ آیات۔

اب ساری انجیل کا لُب ّ لباب زیل میں درج کیا جاتا ہے۔

خداوند مسیح  کی معجزانہ  پیدائش ۔ اُسکی تعلیمات  اور معجزات موت اور جی اُٹھنا۔ آسمان پر تشریف  لیجانا۔ وحدت فی التثلیث انبیت کفارہ۔ مسیح عدالت کریگا۔ اسی کی قدامت اور اصلیت  ثابت کرنا ہمارا مدعا ہے۔

محمدی ان تمام باتوں سے انکار نہیں  کرتے۔ صرف  تثلیث  اور انبیت اور مسیح کی موت اور جی اُٹھنے  اور کفارہ اور عدالت  سے ۔ اور انہیں باتوں  کو انجیل  میں پڑھ کر وہ گھبرا جاتے اور  بیبا کا نہ کہہ بیٹھتے  ہیں کہ جس  انجیل پر ایمان  لانیکو ہمیں  قرآن  حکم دیتا ہے وہ انجیل  اور ہے اور یہہ اور ہے۔ اور اُنکا یہہ دعویٰ  دہمی قرآن سے علاقہ رکھتا ہے جو اُنکے  گمان میں  ۱۳۰۰ برس سے ہے اور محمد  کے روبرو لکھ جا چُکا تھا۔ پس مجھے  حق پہنچتا  ہے کہ اگر میں آیات متنازعہ فیہ کو صرف قرآن ہی سے ثابت کردوں تو محمدیوں سے کہون کہ یہہ وہی انجیل ہے جسے تم قدیمی خیال کرتے ہو۔

تثلیث اور ابنیت مسیح کے بیان میں

دیکھیں قرآن میں سورۃ النسا کی آیت ۱۷۱ میں یوں مرقوم ہے يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ترجمہ: اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اور کا کلمہٴ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اوراس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔ہم اس آیت پر کچھ اعتراض نہیں کرتے ہمارا مطلب یہ ہے کہ محمد کے زمانہ کی انجیل میں بھی تثلیث اور ابنیت درج تھی اور اب کی انجیل میں بھی درج ہے۔ اگر عیسائیوں نے اب درج کرلی ہوتی اور قدیم انجیل میں نہ ہوتی تو محمدصاحب کیوں پیش از وقت قرآن میں تثلیث اور ابنیت سے انکار کرتے پس معلوم ہوا کہ محمد صاحب کے وقت میں بھی جسکو ۱۳۰۰ برس گذرے یہی انجیل تھی جو اب ہے ۔

صلیب کی بابت

دیکھیں سورہ نسا ء آیت ۱۵۷ میں کچھ یوں مرقوم ہے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ترجمہ: اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے (خدا نے ان کو معلون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی"۔ اس نفی سے بھی یہی اثبات حاصل ہوتا ہے کہ محمدی عہد کی انجیل میں بھی واقعہ صلیب اسی صورت سے مندرج تھا جس طرح حال کی انجیل شریف میں مرقوم ہے۔ اورجس شمعون کرینی نے محمد کو شبہ میں ڈالا ۔ وہی شمعون کرینی اب بھی محمدیوں کو دھوکے میں ڈالتاہے۔

انجیل کی قدامت واصلیت روح القدس کے حق میں

دیکھو قرآن میں ہوں الصف کی یہہ آیت وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ۔ معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے اس آیت میں پہلا حصہّ متی ۵ باب ۱۸ سے نقل کر لیا ہے جس میں ہمارے خداوند نے فرمایا کہ ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹیگا جبتک سب کچھ پورا نہ ہو دوسرے حّصہ کی نسبت تمام محمدی علما متفق ہیں کہ یوحنا کے ۱۶ ب ۷ سے یہہ نبوت محمد کے حق میں بزبان خداوند مسیح منقول ہوئی ہے۔ اگر چہ ہمارے خداوند کی مراد اس سے روح القدس ہے۔ پر تو بھی ہم محمد کے اس دعوے باطلہ سے ایک صداقت حاصل کر سکتے ہیں کہ گویا محمدیوں نے خود مان گیا کہ وہ آیت جس پر محمد نے ۱۳۰۰ بر ہو ئے اشارد کیا اب بھی تمام انجیلوں میں یخسہ موجود ہے۔ یہاںاس ایک دلیل سے دو دلیلیں ہاتھ آتی ہیں اول یہہ کہ اِس آیت کی قدامت سن ۳۳ء تک منتہی ہے دوم کہ اگر عیسائی محمد کی نبوتکو پوشیدہ کرنا چاہتے یا اُنہین پاک کلام میں کچھ دست اندازی کا موقعہ ملتا تو سب سے پہلے وہ اسی آیت کو نکالڈالتے اور آج محمدی اتنے کہنے کا موقعہ نپاتے کہ انجیل میں محمد کی خبر ہے مگر اس سے ثابت ہو گیا کہ انجیل نویسوں یا عیسائیوں نے کبھی ایسے کافرانہ کام کا ارادہ نہیں کیا انجیل جیسی کی تیسی موجود ہے۔

کفارہ کی بابت

صرف یہی کہنا کافی ہو گا کہ جب واقعہ  صلیب چابت ہوا تو  کفارہ اُسکا ضروری نتیجہ خود بخود ہے۔

مسیح سب کی عدالت کریگا

اسکی نسبت قرآن میں ظاہر ا کسی خصوصیّت کے ساتھ انجیل سے اعراج نہیں کیا گیا اس لئے وہ اِس امر کا شاہد نہین ہو سکتا کہ محمدی اس سے منکر ہین تاہممعنوی طور پر قرآن کی آیت زیل میں غور کرنے سے یہہ اقتباس ہو سکتا ہے دیکھو سورہ قلم کی یہہ آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ یعنی جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدہ کرنے کو بلائے جائیں گے تو وہ نہ کر سکیں گے۔ درحقیقت اِس آیت کو ابن آدم سے بہت کچھ علاقہ ہے۔ دراں حالیکہ محمدی خدا کے مجسم ہونے سے سخت انکار کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے اگرچہ اس اقتباس میں دھوکا کھایا اور تخصیص پنڈلی سے وہ پاک کلام کی تعلیم سے بہت دور جا پڑا لیکن اسقدر رو ضرورت ثابت ہوتا ہے۔ کہ خدا کے مجسم ہو نیکا خیال اُس کے دماغ میں اسی انجیل کے معائنہ سے آگیا۔ پس اِس سے بھی چابت ہو گیا کہ یہہ انجیل اُسی انجیل کی نقل ہے جو محمد کے زمانہ میں موجود تھی اور جساک اسلی مطلب یہہ ہے کہ ۔۔

کہ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اُسنے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اُسپر ایمان لائےہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا ۳باب ۱۶)

قرضداروں کا شہر

The City of Debtors

Published in Nur-i-Afshan October 23, 188
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

بہت بر س گزرے  ایسا واقع  ہو کہ میں  سیر کرتے  ہوئے  ایک  شہر کے نزدیک پہنچا  کہ  ایسا  بڑا شہر  جسمیں اتنے  لوگ  آباد  ہوں کبھی  نہیں دیکھا  تھا وہاں  ہر طرح کے کام اور پیشے  اور کاریگریاں جاری   تھیں اور جیسا  اور شہروں  میں  لاگ خرید و فروخت اور جعل و فریب اور لڑائی جھگڑے کرتے ہیں  ویسا ہی وہاں  بھی کرتے تھے۔ اور سب اور شہروں کے موافق وہاں بھی خوشی  اور غم  اور لین ارو دین اور محنت  و  سستی اور نیکی اور بدی ہوتی تھی۔ اُسمیں  مدرسہ  اور گرجے بھی بنے تھے اور امیروں کے محل اور غریبوں کے  جھونپڑے اور تماشہ گاہ اور بازار بھی تھے اورشہر کے سب باشندے اپنے اپنے دل کی مرضی کے مطابق اوقت بسر کرتے تھے۔ لیکن اُس شہر کی ایک عجیب خاصیت یہہ تھی کہ اُسکے سب باشندے مرد عورت بوڑھے جوان قرضدار تھے اور ایک بھی ایسا نہ تھا  جو اپنا قرض ادا کر سکے۔ اسبات میں سب سے غنی امیر ۔ اور سب سے غریب فقیر برابر تھے۔ کسی کا قرض زیادہ  تھا اور کسی کا کم لیکن  اِن سب ہزاروں  میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اپنا قرض ادا کرے یا رسید حاصل کرے۔

مثل مشہور ہے کہ قرضدار  ہے وہ خطرہ میں ہے ۔ چنانچہ اُن میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ میں خطرہ میں ہوں اور کسی کو معلوم  نہ تھا کہ میں کو نسی گھڑی پکڑا اور جیل خانہ میں ڈالا جاؤنگا۔ لیکن عجیب بات یہہ تھی کہ وہ سب کے سب اپنے کاموں میں لگے رہتے  اور اپنے عیش و عشرت کی پیروی کرتے اور زرہ بھی  اپنی برُی  حالت کا خیال  نہ کرتے ۔ اور نہ اپنے خطروں سے بچنے کی تدبیر کرتے تھے اور کسی کا یہہ دستور نہ تھا کہ سال کے آخر میں اپنا حساب درست کر کے دریافت کرے کہ سال بھر میں قرض کسقدر بڑھتا  یا گھٹتا  ہے شائد تم کہو گے کہ وہ سب کے سب پاگل تھے اور حقیقت  میں ایسا ہی معلوم  ہوتا  تھا لیکن شہر کے اکثر لوگ اپنے کو بڑا ہی عقلمند  سمجھتے تھے اور قرض کے سوا وہ اور سب باتوں میں ایسے معلوم ہوتے   تھے  کہ اگر تم اور کسی بات کی بابت گفتگو کرتے تو اُنہیں بہت ہوشیار اور چالاک  لوگ سمجھتے لیکن جب اُنکے قرض یا خطرونکا زکر جو قرض  کے سبب سے ہوتے ہیں کیا جاتا تھا تب ایک بھی اچھا جواب نہ دیتا تھا ٍ کیونکہ کو ئی طرح طرحکا بہانہ اور کو ئی یہہ وعدہ کرتا  تھا کہ میں کسی وقت اسبات کا چرچا کرونگا۔

ایسا نادانی کا زکر سنکت تم تعجب کروگے لیکن  مینے اُنکے حق میں کسی معتبر شخص سے ایک اور بات سنُی  جو زیادہ عجیب نظر آتی ہے کیونکہ اُس زمانہ میں ایک بادشاہ ایسا  تھا کہ   جسکے برابر  دانش اور بزرگی اور مہربانی میں دنیا میں کہیں کو ئی نہ پایا گیا۔ اُسکا بیٹا جو سلطنت  کا وارث اور سب صفتوں میں باپ کے موافق  تھا اُس شہر میں پہنچا کیونکہ اُن کے باشندوں کے قرضوں اور اُنکی ناچاری کا بیان سُنکر اُسکے دلمیں رحم آیا اور بغیر شان و شوکت کے وہ جلد وہاں گیا اور اس رحمت کا مل کا اشتہار سنایا  کہ جو کائی  میرے پاس آوے  اُسکے سارے قرضوں کو کتنے ہی کیوں نہ ہوں ادا کروں گا  اور سب خطروں اور سزاؤں سے اُنہیں بچاؤنگا۔ اس شرط پر کہ وہ اپنے گڑ بڑ حسابونکو میرے ہاتھ میں چھوڑ دے اور رہائی اور بھرپور پکا  پورا بھروسہ مجھپر رکھے اور آئیندہ کو میرے  نمونہ کے موافق چلے تو مناسب تھا کہ شہر بھر کے لوگ فوراً  اُسکے پاس شاہانہ بخشش  پانے کے لیے دوڑے جاتے اور اُسکے نیک نمونہ  کوا ختیار  کرتے  کیونکہ اُس سے اچھا نمونہ  کہیں نہ تھا لیکن یہہ عجیب بات  ہے کہ  باشندوں نے اکثر اس مہربانی کا زرا بھی خیال نہ کیا بلکہ اپنے اپنے کام کاج اور خرید و فروخت اور لڑائی  جھگڑے اور ناچ تماشہ میں اسیطرح لگے رہے کہ گویا اُنکے شہر میں کو ئی نہ آیا اور نہ  اُنپر رحم دکھلایا۔ وہ گھر وں اور بازاروں میں اور سب چیزوں کا چرچا کرتے اور طرح طرحکی باتوں میں مشغول رہتے تھے لیکن شاہزادہ کی مہربانی اور قرضوں کی معافی اور خطروں کی رہائی یہہ باتیں اُنیک گفتگو میں نہ آئیں۔

تب شاہزادہ نے اپنی بے بیان رحمت سے اپنے  بہت ایلچیوں اور   کارندوں کو ہر کہیں روانہ کیا کہ لوگوں کو اُسکا وعدہ یاد دلائیں  اور اُنکو یہہ سمجھائیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہے اور کرنے پر مستعد بھی ہے چنانچہ یہہ لوگ ہر کہیں بازاروں اور مدرسوں اور گرجوں وغیرہ مین جاتے اور سنایا کرتے تھے اور شہر کے باشندے کچھ ظاہری  طور پر کچھ  سنتے بھی تھے لیکن پیچھے اُنکے چال و چلن سے ظاہر ہوا کہ وہ لوگ نہ سنانے والوں پر اور نہ  اُنکے پیغام  پر دل لگاتے تھے کیونکہ وہ نہ کبھی  اپنے گڑ بڑ حساب لیکے شہزادہ کے پاس گئے نہ اُسکے وعدہ کے موافق اُس سے منت کی کہ ّپ ہماری ضمانت کریں۔ لیکن یہہ نہ سمجھے کہ تمام شہر کے لوگ اپنی بھلائی سے  ایسے غافل رہے کیونکہ بعض ایسے بھی تھے جو ایلچیوں اور کارندوں کی باتیں سنکے قبول کرتے تھے اور جو لوگ  تمسک اور اقرار نامہ ادانکر سکے اور  رہتا مراد نہ کر اُس کے اپنے ساتھ لیکے شہزادہ کے پاس گئے اور اُسکی  مہربانی سے ہمیشہ کے لیے آزاد اور بے اندیشہ کئے گئے کیونکر شہزادہ نے نہ صرف  سبہوں کو  تمسکوں اور اقرار ناموں  سے آزاد کیا بلکہ یہہ بھی وعدہ کیا کہ اگر تم دانائی  اور نیکی سے میری  روش پر چلو گے تو میں تمہارے سارے آئیندہ کے قرضوں کا بھی ضامن ہونگا۔

اشخاص مزکورہ میں سے شہر میں کوئی غنی اور کوئی غریب تھا لیکن اُسروز سے ہر ایک کو شہر کے اور باشندوں کی  بہ نسبت یہہ بڑا فائدہ ہوا کہ اُنکے کام کاج یا خوشی کے بیچ میں یہہ خطرہ نہ ہوتا  تھا کہ شائد آج ہم قرض  کے سبب پکڑے اور قید خانہ میں ڈالے جائینگے اور اگرچہ وہ تو تھے لیکن اپنے قرضوں کے دیکھنے سے ڈرتے نہ تھے یہہ جانتے تھے کہ اُسکا بندوبست کر دیا جائیگا۔ کیا تم یہہ نہیں  سوچتے کہ ایسے فائیدے کے لیے بہت محنت کرنی لاسزم تھی  لیکن اُسکے لیے اتنی محنت بھی کرنی پڑے  جتنی اور لوگ کسی چھوٹی نوکریا  عہدہ کے لیے  کرتے تھے جسکے حاصل کرنے سے بھی اُنکے قرض ادا نہ ہو سکتے بلکہ اور بڑھ جاتے تھے۔ یہہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی ہے  گر اگرچہ وہ لوگ جو شہزادہ کے وعدہ پر بھروسہ رکھ کے بڑی خوشی حاصل کرتے اور اپنی آزادی اور سلامتی کے لیے  بڑی شکرگزاری اور ہر کہیں شہزادہ کی تعریف بجا لانے پر تیار  تھے لیکن اُنکے رشتہ دار اور گھرانے کے لوگ بھی اسبات کو خیال میں نہ لاتے تھے اور نہ اُنکے فائیدہ  کو دریافت  کرتے تھے۔

اب اے پیارو تم اُس پاگل شہر کو کیا  سمجھتے ہو کیا اُسکا نام کلکتہ ۔ یا بمبئی۔ یا لکھنؤ۔ یا الہ با د تھا  ہاں یہہ بات اُن سب کی نسبت بلکہ دنیا  کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے حق میں سچ اور درست ہے کیونکہ تمام جہان کے لوگ  گناہ کے بھاری قرض میں گرفتار ہیں اور اسیواسطے ضرور ہے کہ ہم سب کو ئی ہر روز خدا سے منت کریں کہ ہمارے قرضوں کو معاف کر اور وہ کو ن شہزادہ تھا جسنے اُس شہر میں آکے اُسکے باشندوں کے سب قرضوں کو اپنے اُوپر اُٹھا لیا۔ وہ ۔ سلامتی کا شہزادہ القادر کا بیٹا خداوند عیسیٰ مسیح  بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندونکا  خدا وند  تھا  جو بے انتہا سلطنت کا وارث ہے۔ اُسکا آنا مشرقی مجوسیوں  کو آگے سے بتلایا گیاتھا اور بیت الحم کے چرواہوں کو آسمانی فرشتے نظر آئے   اور اُسکی  آمد کی خبردیکے یوں بولے کہ خدا کو آسمان پر تعریف اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں سے رضا مندی ہو۔

یہہ قصّہ جو میں ابھی سنا  چکا کوئی  نیا نہیں ہے بلکہ تمام  دنیا کی تواریخ میں سب سے سچا  اور سب سے مفید اور سب سے عجیب ہے کیونکہ ہر ایک شخص کا اُسمیں حصّہ ہے اور مبارک وہ قرضدار ہے جو اُس رحیم شہزادہ کو پہچانے اور اُسپر بھروسہ رکھے ۔ از فخراں المسیحی

Pages