انجیل

Gospel

نجات کیسے ملتی ہے

How to be Saved?

Published in Nur-i-Afshan August 18, 1881
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

خداوند عیسیٰ مسیح پر ایمان لا کر تو اور تیرا گھرانہ نجات پاویگا
انجیل شریف: کتاب اعمالرسل  ۱۶۔۳۱

مسیح پر ایمان لانا کیا ہے۔ میں کس طرح سے اُسپر ایمان لاؤں ۔ نجات کس طرح سے حاصل ہوتی ہے۔ اِنکے برابر کوئی سوال ہے ہی نہیں اور وہ علم یا دانائی جو اِنکا  لایق ٹھیک جواب دے سب سے عمدہ اور پسند یدہ ہے کیونکہ ایسے ایسے سوالات کے جواب مین پر انسان کی ابدی نیک بختی و بہبودی موقوف ہے۔

خدا رحیم کے فضل سے اِنکا جواب ملیگا بشرطیکہ سچےّ اور سادہ دلسے اِ س بھارے معاملہ میں کوشش و محنت کریں۔ ہاں تم آسانی سے طریق الحیات کو جان سکتے ہو راہِ زندگی میں قدم بڑھانا مشکل نہیں بلکہ مسافر اگرچہ ناواقف ہو ویں اُسمیں گمراہ نہونگے۔

جب تم ایمان کے ساتھ نجات لینے کے واسطے مسیح پاس آتے ہو تو تمھارا ویسا حال ہو گا جیسا اُس لڑکے کا جو آم یا امرود لینے کو اپنے باپ  پاس دوڑتا  ہے پہلے پہل وہ باپ کی طرف دیکھتا اُسپر جو اُسکے ہاتھ میں ہے سوچتا ہی سوچتا ہی اُس چیز کے حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے لینے کا قصد کر کے وہ فوراً جاتا اور اُس  میوہ کو اپنا کر لیتا ہے بس۔ اُس فعل یا  امر میں اگرچہ کہ ایک پل  ہاٹے بھر کا اِمر نہیں یا تینوں الگ الگ فعل موجود ہیں یعنے سوچ ارادہ  اور لینیے کا قصد ۔ اِسیطرح سے یہہ بات سچ ہے کہ نہ کبھی کو ئی مسیح پر ایمان لایا یا راہِ زندگی میں ایک قدم بھی بڑھایا ہو جب تک کہ مسیح کی خوبیوں پر دل نہ لگایا اور نجات لینے کی خواہش پر عمل  کیا ہو۔ پس اِس بھاری معاملے مین پہلی بات یہہ ہے مسیح  کی طرف دیکھنا نجات  کے تحفے کی طرف رجوع ہونا کیونکہ اگر مسیح اور اُسکی نجات خیال سے دور ہو تو اُن کے لیے خواہش یا ارادہ رکھنا  کہاں۔ اور جس حال میں کہ خواہش نہو لینے کا قصد اور حاصل کرنا کہیں دور ہی  یہہ خوب سمجھنا چاہیے، کہ مسیح اور نجات کے تحفے پر خیال کر کے اُنکے لیے ارادہ ہی رکھتا بس نہیں  بلکہ تعبیر لینے کا قصد یعنے ہاتھ بڑھانا اور سچ مچ لے لینا باطل  دعا اصل ہے  مثلاً اگر لڑکا مذکورہ  آم کی طرف رجوع ہو کے بڑی آرزو کے ساتھ اُسے دیکھا کرتا تھا بس کیا فایدٔہ ۔ وہ کب ہاتھ آتا جو پاس نہ جاتا اور لے لیتا ۔ قید خانہ کے داروغہ پر زرا غور کرؤ۔ اُسکو نجات کی بڑی خواہش و خاطر تھی۔ اِسمیں کچھ شک و شبہ نہیں اور یہہ بھی ظاہر ہے کہ اگر وہ مسیح کی طرف رجوع  نہوتا اُسپر کچھ  سوچ و خیال نہ کرتا  کہ مجھے بذدات گنہگار کو نجات ضرور ہے اور مسیح ہی کے وسلیے سے ممکن بھی ہے تو ارادہ نجات کا   اُسکو نہ ہوتا۔ پھر اگر وہ صرف مسیح پر سوچا کرتا اور نجات کا ارادہ رکھتا تو وہ کبھی نہیں بچتا یہہ اُسنے کیا بے شک اور یہانتک اچھا بلکہ اُسنے اور کچھ بھی کیا فوراً اپنا ارادہ نجات کا عمل مین لایا اور تبھی مسیح کی نجات اُسکی ہوئی وہ بچیگا۔ یہہ نہیں کہا کہ تب مسیح پاس جاؤں جب میرے دل مین ارادہ پختہ و پکا  اور اُسکی مرضی کے مطابق ہو۔ یہہ بھی سوچنا چاہیے کہ اُس گھڑی تک وہ عیسائی مذہب سے کم واقف تھا یہانتک کہ اُنہوں نے یعنے پولوس اور سیلات اُسکو خداوند کا کلام سُنایا یا جو کچھ مسیح نے گناہ اور اُس سے رہائی پانے کی بابت کہا تھا اُسے بتایا لیکن سمجھانے سکھانے مین بہت وقت صرف ہوا کیونکہ لکھا ہے کہ اُس نے رات  اُسی گھڑی اُنہیں لیکے اُنکے ذخم دھوئے اور وہیں اُسنے اور سب نے جو اُسکے تھے بپتمسا پایا۔ مسیح کی تعلیم پانا اُسپر ایمان لانا اُسکا  اِقرار کر کے بپتمسا لینا خدا کے بندونکی پرُ تسّلی اور محبت آمیز خدمت کرنا یہہ سب رات کی اُسی گھڑی کے عرصہ میں واقع ہوا سو بھی ہر کسی گنہگار کے حق میں جو کچھ نجات حاصل کرنے کے لیے درکار ہے اِس  گھڑی میں ہو سکتا ہے۔

اگر خدا کا کلام  کی اچھائی تمھارے تمھارے زہن پر ظاہر و روشن ہوئی۔ ہو کہ تم لاچار نکمے گنہگار ہو اپنے آپ کو  بچا نہیں سکتے اور مسیح عیسیٰ تمھارے بچانے پر قادر و راضی ہے بلکہ ہر کسی کو جو چاہتا نجات  دینا ہے اور اگر تمھیں اِسیطور سے بجات پانے کی خواہش ہو تو اِس عمدگی خواہش پر عمل کرنے میں دیری نہ کر و بلکہ اِسی دم مفت میں لے لو بہت لوگ نجات حاصل  کرنے کی تیاری  میں  وقت صرف  کرتے ہیں ۔ مسیح کی طرف رجوع توہیں لیکن ابتسلک اُسپر ایمان نہیں لائے برعکس اُسکے دے ایمان لانے کی فکر و تیاری  میں مشغول  ہو رہے ہیں۔ اُنکو ہر وہ جاننا چاہیے کہ مسیح کی طرف مایل ہونا نجات یا گناہ سے مخلصی اور حیات  ابدی پانے کا ارادہ رکھنا کافی نہیں اُس ارادہ پر عمل کرنا یا اُس خواہش  کی جو کہ مسیح پر دنیا کرنے سے پیدا ہوئی ہے گو کہ پیروی یہہ نجات کے لیے ضرور ہے کلام الہی میں اِس امر کے طرح طرح کے نام ہیں مثلاً مسیح کے پاس آنا اُسکی طرف دیکھنا اُسپر بھروسا رکھنا اپنے آپکو  اُسکے سپرد کر دینا  اُسے اپنا نجات دہندہ جان کے اُسے قبول کرنا۔

پھر وہ مسیح پر تکیہ کرنا اُسمیں آڑلینا کہلاتا ہے ۔ پرُانے عہد نامہ میں وہ ایسے ایسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے مثلاً  پناہ لینا آڑ کے واسطے کسی کے پاس بھاگناوغیرہ چنانچہ داؤد اپنے تجربہسے اسبات  کا شال دیتا ہے۔ اُسکی یہہ عادت تھی کہ اپنے دشمنوں کی سختی و زبردستی سے پہاڑوں کے کھوہ یا گپھے میں پناہ  لیوے اُنمیں بھاگکر وہ بیخوف و خطر ساتا اور تکیہ کرتا  رہا۔

اسی طرح سے بطور تمثیل کے وہ کھوہ خدا کے بندونکی  سچی پناہ گاہ جو خدا ہی ہے نبگئی چنانچہ ۵۷ زبور مین جسوقت کی داؤد ساؤل کے آگے مغارے میں بھاگے  گیا تھا اُسنے کہا کہ اے خدا مجھ پر رحم کر کیونکہ میری جان کو تیرا بھروسا ہے ہاں میں تیرے پردنکے سائے تلے پناہ لیا رہونگا جب تک یہہ آفتیں ٹل نہ جائیں موسیٰ کے مانند اُس نے یقیناً جانا کہ ابدی خدا تیری پناہ ہے اور اُسکے ابدی بازو تیرے نیچے ہیں ۔ اُسنے اپنے آپکو خدا کے سپرد کردیا اور تب خوشی سے خدا کے ابدی بازو ہر تکیہ کیا۔

نئے عہد نامے میں جو لفظ اِس بھاری مقدمہ کے حقمین اِستعمال آتا ہے۔ اُس سے یہہ معنے نکلتے ہیں مسیح کی خاطر جمعی اُسکی ترغیب کی کوشش کے سبب اپنے تئیں اُسکے ہاتھ میںسونپا جس امر سے (تم یہہ بات یقیناً جانتے ہو) کہ مسیح تمہارا نجات دینیوالا ہونے چاہتا ہے اور تمکو ترغیب دیتا ہے کہ نجات اُس سے قبول کرے۔

اور یہہ وہی بات ہے جسکا زکر اوپر ہوا یعنے مسیح پاس آنا اور اُسپر نجات کے لیے تکیہ کرنا۔ پس ایمان مسیح پر دو طرحسے بیان ہوتا ہے۔ ۱۔ مسیح کے کلام کو یقین کرنا اُسپر بھروسا رکھنا ۔ ۲۔ اپنی دلجمعی کے لیے مسیح پر تکیہ  کرنا  اور اِنکا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ۔ مثلاً جب  کبھی تم زمین پر قدم رکھتے یا پانوں پانوں چلتے ہو تو یہہ دونوں  کام تمسے ہوتے ہیں پہلے تم اپنے کو کسی مضبوط پودھے تک بڑھاتے ہو اور تب اُسپر اپنا سارا دباؤ چھوڑ  دیتے ہو بس یہہ ایک قدم ہے۔اگر پانو بڑھاتے کچھ لیکن اُسے پھیر لیتے اور زمین پر رکھنے نہیں دیتے ہو یا اُسپر تکیہ کر کے اپنے کو اُسپر نہ چھوڑتے تو قدم رکھتا کہاں اسیطرح سے تمہارا دل ایمان کا قدم رکھتا ہے۔

جب تم ایمان کے ساتھ مسیح پاس آتے تو تمہارے دل کا ایسا حال ہو گا جیسا اُس شخص کا جو دوڑ  دھوپ کا ستایا ہو ا تھکے ماندے۔ کسی برقرار  و پائدار چٹانکے پاس ہی جگہ پاکے آرام لیتا ہے اور اُسپر تکیہ کر کے سوجانا۔ اُسکے چٹان کے پاس آنے کا ارادہ آرام نہیں اُس سے کچھ بھی تسلّی دولاسے نہیں ہے پاس آنا ضرور ہے بلکہ وہاں تکیہ بھی کرنا چاہیے ۔ سوبھی وہی جو مسیح پاس آکے اُسے قبول کرتا اور اُسے دلی آرام گاہ جانکے اُسپر ٹکتا یا تکیہ کرتا  سچّا آرام ابدی خوشی اور اپنی جان کی نجات  پاتا ہے۔

اِس سے ساف و صریح ہے کہ مسیح پر ایمان لانے کی دو خاص باتیں ہیں۔ ۱۔اُسے قبول کرنا۔ ۲۔ اُسپر بھروسا رکھنا اُسمیں تکیہ کرنا۔ سو پہلی بات پر غور کریں۔ مگر میں اپنی تجربہکاری سے تمکو اُس خاص کام بافعل جو ایمان ظہور میں آتا ہے بتلانے یا ساتوں مین گو کہ مسیح سے ایسی ایسی باتیں کہتے اِس باتکو تمپر ظاہر کرنے۔ اسے خداوند میں اپنی جان کی نجات تیرے ہی سپرد کر دیتا ہوں چونکہ تو مجھے بچانے چاہتا میں تجھے اور تیری نعمت و بخشش کو بدل و جان قبول کرتا ہوں ۔ میں تیری منوتی و منہائی کے سامھنے کرنے سے باز  آتا اور میری یہہ چاہ دارودہ ہے کہ تو ہی میرے دل میں سکونت و حکومت کر اور اپنے طریقے پر مجھ کم بخت و لاچار کو بچا لے۔اِن باتوں میں نجات کی خواہش پر عمل کرنا ہے ۔ میں مقرر اپنے دل میں ٹھانتا ہوں کہ مسیح میرا  ہے اور میں اُسکا  میں اُسیکو نجات دہندا ماننے پر راضی و خوش ہوں۔  اب مجھ سے ایک خاص کام آیا  مسیح سے قول و قرار (جو زبان سے نہیں تو ضرور دلسے) آیا اُسکی طرف بڑی آرزو کے ساتھ نظر اُٹھانا ہوا ہے جس سے میرے دل کا ارادہ و منصوبہ  آشکار ہوتا ہے۔ چاہے یہی باتیں اِستعمال میں لاؤں چاہے اور جو کچھ ہو شو ہو لیکن یہہ ضرور ہے کہ جو کام یا امر یا فعل اوپر بیان کیا گیا موجود ہو کیونکہ اُسکے بغیر میری نجات ناممکن ہے مجھ پر فرض ہے کہ کسی نہ کسی طور سے مسیح سے اور اُسکی نجات سے اپنی رجامندی طاہر کروں گویا اقرار نامہ  دستخط کرتا اُسپر قبولیت کی چھاپ لگانا جو کہ مسیح سے کہتا کہ میں  تجھ ہی کو اپنا نجات دہندہ مان کے اپنی جان بچانے  کے لیے تیرے سپرد کر دیتا ہوں ۔ جبتک یہہ قوی اقرار تم سے نہ ہوتا ہے دلکو  تسلّی و تشفی نہ ملیگی۔ مسیح سے آرام پانا یا اُسپر تکیہ کرنا اُسکے پاس آنے پر منحصر ہے۔ چنانچہ اُسنے خود کہا میرے پاس آؤ کہ تم کو آرام  ملیگا۔ پس پہلی بات یہہ ہے نجات کے تحفے حاصل کرنے کے واسطے اپنے کو  عیسیٰ مسیح کو سونپنا دوسری بات یعنے اُسپر ٹکنا اُسکے پاس آئے ہو تو اُسکی سچائی و دیانتداری پر کہ وہ ضرور اپنے کہے کے موافق ٹھیک کریگا بھروسا رکھو۔

کیا تمنے کبھی تیرنا سیکھا خیر اگر نہ سیکھا ہو تو کسی کو تیرتے دیکھا ہوگا۔

پس تیرنے والے پر  تو زرا سوچو۔ وہ کیا کیا کرتا ہے ۔ اوّل وہ اپنے کو پانی کی قوت پر سونپتا یا اُسکے حوالے کر دیتا ہے اور  بیحرکت و بیخطرہ  پانی کو اپنا تکیہ نباتا۔ اُسکو کچھ بھی فکر نہیں کہ کس طرحسے اپنے کو سبھالوں بلکہ وہ صرف اتنی کوشش کر رہا ہے کہ بغیر کسی طرح کی حرکت کے پانی پر لیٹا  رہوں تاکہ پانی خود مجھے سنبھالے اپنے سر کو پیچھے کر کے وہ آسمان کی طرف دیکھا کرتا ہے۔ بس ۔

یہی بات داؤد کے پہاڑی کھوہ میں پناہ  لینے میں ظاہر ہوتی اُسکا پکا بھروسا کھوہ   میں  پناہ لینے اور وہیں اطمینان کے ساتھ بیخوف و خطر رکھنے سے اِن دونوں باتوں سے ثابت ہوتا ہے۔

اُسکی سلامتی نہ سرف کھوہ میں پناہ لینے پر بلکہ اُسی میں سہنے پرع موقوف تھی۔ اور اگر دشمن سے محفوظ ہونے کے واسطے اُس میں بھاگنا ضرور تھا تو کتنا ہی زیادہ وہیں رہنا یا وہاں سے مطلق بھی نہ ہٹنا۔ اِسی طرحسے  تمھاری جان مسیح کے ابدی بازو کے نیچے پناہ لیےی ہے۔ تم اپنے کو نہ صرف اُسکے ہاتھ میں  سونپتے ہو بلکہ وہاں اپنے تئیں چھوڑ دیتے و جان کی اور فکر نہیں رہی۔

اور یہہ سونپنا یہہ سپرد کرنا یا حوالہ کر دینا لمحے بھر یا  ایک سال یا کئی  سال کے واسطے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اُس گُماشتہ سے کیا فائیدہ یا حاصل جسکی سپردگی مین تم آج اپنے سارے کاروبار  کارخانہ  کر دیتے ہو اور کل اُسی کے مقرری کام میں اپنا  ہاتھ ڈالنے لگے۔ تمثیلاً سمجھ کہ تمھارا باپ بشرطیکہ تم اپنا سارا حساب وغیرہ اُسکے دفتر کی میز پر رکھو تمہارے سارے قرض  کو ادا کرنیکا وعدہ کرتا  ہے اُس شرط کو بجا لاکے اگرچہ باپ کو اپنا وعدہ  پورا کرتے نہیں دیکھتے ہو تو بھی تمکو یقین کا مل  ہے۔ کہ ضرور پورا  کریگا پس تیرا اِسمیں ہاتھ ڈالنا بہت غیر مناسب ہوگا۔ اُسکی سچائی و وفاداری  پر بھروسا کر کے تم اُس قرص کا ادا کرنا خوشی سے اُسکے ہاتھ سونپ دیتے ہو پھر اُسکا کچھ خیال نہ کر کے تم اپنے معمولی کام میں                                                                                                                              

مشغول ہوتے ہو بس۔ اِسیطور پر تم اپنا مسیح پر  ایمان ظاہر کرتے ہو۔ دعا اور منت کے وسیلے سے تم اپنی جان کا بھاری قرض اور ضرورت اُسکے سامنھے پیش لاتے ہو اُسے کچھ کرتے نہیں دیکھتے ہو تو تم بھی یقیناً جانتے ہو کہ وہ مجھے یاد کیا کرتا اور اپنے وعدیسے نہ کبھی غافل رہیگا نہ اُسے بھولیگا پس اپنا سب کچھ اُسکے ہاتھ  میں سونپ کر اور اُس سے فضل پا کے شکر گزاری و فر مانبردرای  کے ساتھ اُسکی مرضی بجا لانے پر مُستعد ہو۔ اُسکا یہہ ارادہ  ہے کہ جو بھروسا تم کرتے  ہو سو تمہارا دل و جان و مال اسباب اُسی کے سپرد  کرنے سے ظاہر ہو شاید تم اُس سے کوئی کوئی نشان نئی  خوشی یس خاص ارادہ بطور ثبات کے تم  اُسکے ہوا اور اُسے قبول ہوئے ڈھونڈھتے ہو وہ ا،سکی یاد میں کہتا ہے اے جان خاطر جمع رکھو جس نے وعدہ کیا وفادار ہے  وہ اپنا پورا کریگا اُسکا کلام سچا ہے اور کبھی بدلنے کا نہیں ۔ اُسنے کہا ہے کہ جو کوئی نجات کے لیے مجھ پر بھروسا کرتا ہے میں ضرور اُسے بچاؤنگا۔ خدا کا کلام اُسکی زات و صفات  پر موقوف ہے۔ وہ ہمیشہ کا پس  اُسکا کلام ابدلا باد سچاّ ٹھریگا قادر مطلق پرُ رحیم و پُر دانا  خدا اپنے کو کبھی جھوٹا نہیں کر سکتا پس  اُس شخص کی وہ کیسے ہی لاچار نکما گنہگار  کیوں نہو جو مسیح عیسیٰ پاس آکے اُسپر تکیہ کرتا ہے ابدی نجات کی بابت  کچھ بھی  شک و شبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اِن باتوں  سے یہہ صحیح و صریح ہے کہ مسیح پر ایمان  ایسی کوئی پوشیدہ و پنہان  بات نہیں ہے جیسا بعض لوگ اپسے سمجھنے چاہتے ہیں لیکن ہر طرحسے صاف و صحیح بلکہ عقلی اور درست ہے جو معنے اِیمان  کے اوپر  دئے گئے   سو عام لوگون کی سمجھ میں آتے  ہیں۔ دنیاوی لین دین کاروبار مین اپسکے یہی معنے  ہیں۔ بلکہ یعنے کلام الہیٰ عام لفظوں کو اِستعمال  میں لاتا ہے تاکہ عام لوگ اپسکے معنے بخوبی سمجھیں لہذا جب خدا کاکلام فرماتا ہے کہ عیسیٰ مسیح پر ایمان لاؤ یا اُس پاس آنا اُسپر تکیہ کر کے آرام پاتا ہے کوئی کیسا ہی جاہل یا نا خواندہ کیوں نہ ہو اُسکے کہے کو سمجھ سکتا ہے اور ہر ایک ایماندار کو یقین ہے کہ وہ روح القدس کی تاثیر و قوت سے نجات بخش ایمان لاتا ہے۔ بے شک یہہ ہو سکتا ہے کہ کوئی دھوکھا کھا کے کسی بددیانت و بیوفا پر بھروسا کر کے بلکہ بہتوں نے ایسا ہی کیا تو اِس  بھاری معاملے میں ہوشیاری و تیزفہی چاہئے کہ بھول نہ جاویں کیونکہ پکے ایمان میں کچھ عیب یا نقص نہیں آیا جھوٹھے یا سچےّ پر  یا دیانتدار یا بددیانت ہو ایمان ایک ہے مثلاً دور بین آ یا لال  یا سفید تارے کی طرف  لگائی جائے ایک ہی ہے اُسکی زات ایک ہی سی  بنی رہتی ویسا ہی ایمان ہی میں کچھ ضل نہیں۔ ہمیں سچےّ اور جھوٹھے میں امتیاز کرنا ہے اور اِس امر میں خدا کے کلام پر پکا بھروسا کرنا۔ اُسکے وسیلے بشرطیکہ ہم روح کی ہدایت پاویں ساری مشکلات حل ہو جائینگی۔ آخرش اے پڑھنیوالے اپنے ایمان  پر نہیں لیکن مسیح عیسیٰ پر تکیہ کرتے رہو۔ روح القدس تمکو اِسبات میں ترغیب دینا ہے۔ مسیح پر ایمان کی آنکھ لگا جس طرحسے کہ لرکا مدد کے لیے اپنی ما کی طرف دیکھتا ہے۔ جس طرح  کہ سرخ روٹی کے لیے  وکیل  شفا  و صحت کیواسطے طبیب کو  اور ہدایت و راہبری کے لیے ہادی یا رہبر کو  اپنے تئیں سونپتے ہو اُسی طرح حیات ابدی یا اپنی جان کی بھلائی و چنگائی  و رہبری کے لیے اپنے کو مسیح عیسیٰ کے سپرد کر رکھو اور تم ہمیشہ کی زندگی پاؤ۔ 

آزادی اور قید

Freedom and Imprisonment

Published in Nur-i-Afshan January 8, 1885
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

ہر قسم کی قید سے انسان کو ایک طرح کی بیچینی اور تکلیف لاحق ہو تی ہے لڑکا کھیل کو د میں خوش ہے اِدھر سے اُدھر کو کودتا ہے اتنے میں مولوی صاحب نے آواز دی کہ پڑھنے آؤ کا رنگ فق ہو گیا ہاتھ پانؤں سُست پڑ گئے۔ اسکی کیا وجہ ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ وہ کھیلنا چاہتا ہے مگر مولوی صاحب کے آنے سے قید ہو گئی۔ اس قسم کی قید سے جو اضطراب ہو جاتا ہے اُس سے شائید ہر شخص واقف ہو گا۔ مگر اس قید پر کیا موقوف ہے۔ کسی قسم کی قید کیوں نہ ہو ایک بیقراری پیدا کرتی ہے۔ قیدی کو قید خانہ میں مریض کو پرہیز میں ۔ طالب علم کو موسم گرما میں پانچ بجے آنکھ ملتے ہوئے بیدار ہونے میں۔ جو بیچینی ہو تی ہے وہ ظاہر ہے۔ ان وجوہ سے ہر نوع انسان کو ہر قسم کی قید سے گریز ہے اور کامل آزادی کی جانب میلان ہے۔ مگر یہہ نہیں جانتے کہ انسان کیواسطے قید سے بالکل مبّرا ہونا ناممکن ۔ یہہ امر ممکن ہے کہ ایک قید سے جدا ہو۔ اور دوسری قید کو اختیار کرلے مگر قید خواہ مخواہ ہے۔ لوگونکا خیال ہے کہ راہ نیک میں بہت کچھ پابندی اور قید ہے۔ اور راہ ابد میں بہت آزادی ہے۔ نیک اور متقّی بزارہا قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں کو روکتا ہے۔ اور بد اطوار جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ جو خواہش پیدا ہوتی ہے اُسکو روکتا نہیں۔ زرا غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ یہہ کسقدر غلط خیال ہے۔ یہہ تو ہم پہلے ہی دن بیان کر چکے ہیں کہ آزادی مطلق انسان کو میسر نہیں ہو سکتی ہے۔ مگر زیادہ سے زیادہ آزادی جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ راہ نیک میں ہے اول تو جو قید اور پابندی کہ نیک اور متقّی کے واسطے ہو اُسکو وہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے۔ ایک شخص نے راست گوئی کو اپنا شعار بنایا ہے اسمیں ایک طرح کی قید بیشک ہے مگر وہ قید اُسنے خود اختیار کی ہے۔ کو ئی شخص اُسکو جھوٹ بولنے سے باز نہیں رہ سکتا کو ئی کہے کہ کبھی کبھی جھوٹ بالنے سے سزا یا بیعزتی کا خوف ہے اور یہہ خوف سچ بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر نہیں صرہا موقع ایسے ہیں کہ جہاں انسان ضھوٹ بول سکتا ہے۔ اُس جھوٹ سے نہ سزا ہو سکتی ہے اور نہ بیعزتی۔ بلکہ اُسکا افشاتک نہیں ہو سکتا غرضکہ یہہ صاف ظاہر کہ جس نے راستی اپنا شیوہ بنایا ہے اُسنے یہہ قید اپنی مرضی سے خودف اختیار کی ہے اور اسوجہ سے وہ قید کم ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ دوم یہہ کہ راہ نیک ارو روح انسانی میں ایک موافقت ہے جس طرح مچھلی کو پانی موافق ہے اُسیطرح روح انسان کو نیکی موافق ہے۔ اب اگرچہ مچھلی کو دریا میں ایک طرح کی قید ہے۔ دید کے باہر نکل کر خشکی میں نہین آسکتی مگر اس قید کو قید کہنا واجب نہیں۔ کیونکہ اُسمیں اُسکی بہبودی اور خوشی متصورر ہے۔ اور پھر اُس دریا کے چلنے پھرنے میں کوئی قید نہیں۔ علی ہذا القیاس راہ نیک میں بھی انسان کی اصلی خوشی متصور ہے اور راہ نیک میں بھی کچھ وسعت ہے۔ ہزارہا قسم کے افعال حسنہ ہیں۔ جس امر نیک میں طبیعت راغب ہو اختیار کر لے۔ مگر راہ نیک سے باہر آنا اُسیطرح نا مناسب ہے جسطرح مچھلی دریا سے باہر آنا۔ سوم یہہ ہے کہ نیک آدمی اپنے اوپر خود قید اختیار کرنے سے صد ہا قسم کی خارجی قیدوں سے بچتا ہے۔ جو کہ بد اطوار کو مجبوراً برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کا ایک کیئہ زر پر گزر ہوا جو اُسکا نہیں ہے طبیعت کیہ کے چورانے پر آمادہ ہوئی مگر اپس نے اپنی خواہش کو قید میں رکھا اور راہ نیک پر چابت قدم رہا تو اُسکو صرف ایک قید برداشت کرنی پڑی یعنے ایک مرتبہ اُسکی خواہش کے خلاف ہوا۔ برخلاف اُسکے اگر دوسرے شخص نے قید اور ضبط کو بہت برُا سمجھکر غیر شخص کے مال پر ہاتھ بڑھایا۔ اچھا ایک قید کو نہ اختیار کرنے سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ قید سے بالکل بچ جاتا ہے یا نہیں۔ لیجئیے کسی نے چوری کرتے دیکھ لیا۔ اب یہہ شخص ہزار دلسے چاہتا ہے کہ کو ئی شخص نہ دیکھتا اور سخت پیچ و تاب کھاتا ہے مگر اُس کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص جرم کو دیکھ چکا ۔ معاملہ لاعلاج ہوگیا۔ لاکھ سچ و تاب کھاتا ہے مگر اِس پیچ و تاب سے رہائی ممکن نہیں یہہ اول قید ہے۔ جو بداطوار کو ابتدا میں قید مناسب سے بھاگنے کی وجہ سے لاحق ہوئی۔

سب آدمی گنہگار ہیں

All Men are Sinners

Published in Nur-i-Afshan September 18, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

یہہ بات خوب ثابت ہے کہ ہم سب بنی آدم جو اِس دنیا میں ہیں ضرور  ضرور گنہگار اور عدالت  خداوندی کے قرضدار ہیں کوئی نہیں جو اس داغ  سے بیداغ  ہو اور صرف انسان ہو کر اُس گناہ سے جو اُسکی زات میں ہو ہر گز  بری نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا کی قدیم  اور معتبر تواریخ اگر ہم ڈھونڈتے ہیں تو سوائے توریت کے جو موسیٰ نبی کی لکھی ہو ئی ہے اور کو ئی معلوم نہیں ہوتی اور اُس سے پرانی اور کوئی تواریخ نہیں ملتی۔ ہاں  یونانی عالموں میں ہیرودیٔس کی تواریخ قدیم  ہے وہ حضرت ملاکی نبی کے زمانہ میں خداوند مسیح سے چار سو برس  پیشتر  تھا اور اپس سے قدیم ہو میرسؔ اوہیسٹید  شاعروں  کی تصانیف قرار دی گئی  ہے سو وہ بھی توریت  سے قدیم  نہیں  کیونکہ ہومیرؔس کو حضرت یسعیا نبی کا ہم عہد  بتلاتے  جو سنہ عیسوی سے  تخمیناً ساڑھے (۷۵۰)سات سو برس قبل گزرے۔ اور ہسیڈ کو حضرت الیاس کا ہمزمانہ ٹھہرایا ہے وہ سنہ عیسوی سے تقریباً نو سو برس (۹۰۰) پہلے ہوئے غرض توریت دنیا کی تواریخ قدیم ہے اُسمیں یوں مندرج   ہے کہ خدائے تعالیٰ نے زمیں کی خاک  سے آدم کو بنا کر اُسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا  اور جیتی جان ہوا اور ساری دنیا  کی اُسکو سرداری  بخشی اور باغ عدن کی نگہبانی اور باغ  بانی کے لیے سپرد  کر کے حکم دیا کہ ہر ایک درخت کا پھل کھانا لیکن نیک و بد کی شناخت کے درخت سے ہر گز  نکھانا جب تو کھائیگا  ضرور مرجائیگا مگر شیطان نے حوأ سے جو آدم  کی جورو تھی کہا کہ خدا جانتا ہے کہ تم ہر گز نہ مروگے بلکہ  تمہاری آنکھیں کھل جائینگی  سو ھو آنے آپ بھی کھایا اور آدم کو بھی کھلایا پس آدم اپنی اس عدول حکمی اور نافرمانبرداری کے سبب قربت الہیٰ سے خارج کیا گیا  اور اُسکی اولاد بھی اُسکے ساتھ اُس میراث کی جو کہ اُسکو شیطان کے ورغلانے سے حاصل ہوئی وارث  ٹھہری اور اگر کوئی کہے کہ آدم کے گناہ   میں کل آدم زاد کیوں نکر شامل ہیں تو  میں کہتا ہوں  کہ میں ایک درخت کا بیچ  بوویں اور اُسکے تخم سے اور درخت پیدا ہوں  تو کیا وے سب ایک ہی تاثیر کے اور ایک ہی سے نہوں گے پس ہم سب جو ایک اُسی آدم کی کو اوپر زکر ہو چکا پود ہیں تو کیوں نہیں ہم اُسکے گناہ  میں شامل ہیں بیشک اُسکی زاتی گناہ میں شریک ہیں اور کل بنی آدم گنہگار ہیں لیکن اکثر محمدی اسبات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو گنہگار  ہیں مگر ہمارے نبی گنہگار نہیں اسلئے وہ ہمارے خدا کے حضور  آخرت کے دن شفیع ہونگے اس دعوے کی انکشاف  حقیقت   کے لیے ضرور ہے کہ کچھ مختصر حال محمد صاحب کا جو  مسلمانوں کے نزدیک سب نبیوں کے سردار قرار دئیے  گئے ہیں  تحریر کیا جائے  کیونکہ  جب نبیوں  کا سردار  لے گناہ نہ ٹھہرے گا اوروں کا خاطی ماننا کچھ دشوار نہوگا۔

اب سنئے محمد صاحب کا حال دو قسم کی کتابوں میں مندرج ہے ایک قرآن جو خود محمد صاحب کی تصنیف  ہوے اور حدیث جو محمد صاحب  کی تصنیف  اور نہ اُنکے کسی صحابی کی بلکہ اُسکے مصنفوں نے تو محمد صاحب کا مُنہ بھی نہیں دیکھا قول اور فعل کا منضبط  کرنا تو کام رکھتا ہے کیونکہ محمد صاحب  کا انتقال سن ۱۱ ہجری میں ہو گیا اور پہلے امام مالک صاحب کی پیدائیش ۹۳ ہجری کی ہے اور دوم (۲) امام شافعی سن ۱۵۰ میں پیدا ہوئے تیسرے (۳) امام ابو محمد دارمی سن ۱۸۱ ہجری میں پیدا ہوئے  چوتھے (۴) امام احمد حنبل  سن  ا۶۴ ہجری مین پانچویں (۵) امام بخاری  سن ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے چھٹے (۶)امام مسلم بن حجاج سن ۳۰۴ ہجری  مین ساتویں(۷) امام ترندی سن۲۰۹ ھ میں ُآٹھویں (۸)  امام  ابو داؤد  سن  ۲۰۲ ھ میں نویں (۹) امام نسائی  سن ۲۱۴ ہجری   میں پیدا ہوئے دسویں (۱۰) امام ابن ماجہ  سن ۲۰۹ ہجری میں گیارھویں (۱۱) امام ابی الحسن دار قطنی سن ۳۰۶ ہجری میں بارھویں (۱۲) امام  یا بیہقی سن ۳۸۲ ہجری میں  پیدا ہوئے تیرھویں (۱۳)  امام ابی الحسن سنہ پیدائیش  یاد نہیں  رہا مگر یہہ معلوم ہے  کہ  سن ۵۲۰ ھ  میں انتقال کیا چودھویں امام  (۴) ابن  جورنی یہہ سن ۵۱۷ میں پیدا  ہوئے   پندرھویں  (۱۵) امام لوزی سن  ۶۳۱ ہجری مین پیدا ہوئے  اور سن ۶۷۷ ہجری میں مر گئے۔

پس جن کی پیدائیش محمد صاحب سے سو برس  سے چھہ سو برس  بعد تک ہواُنکا قول نبی صاحب  کے حق مٰن کیونکر صحیح ہو سکتا ہے اب ملاحظہ فرمایے کہ قرآن محمد صاحب کے لیے بے گناہ  ہونیکی بابت کیا کہتا ہے۔

دیکھو قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جو محمد صاحب کے گنہگار ہونے پر دال ہیں اگر سب کو مختصر پرچہ میں درج  کیا جاوے  تو سوائے نقصان اور کوئی فا ئدہ متصور نہیں اسلئے ہم صرف ایک سورہ مومن کے چھہ رکوع کی آیت لکھتے ہیں  اگر اس امر میں کسی صاھب کو زیادہ  تفتیش منظور ہو   تو ایک رسالہ موم بہ نبی معصوم  جو فی الحال مطبع نور افشان لودیانہ میں چھپ کر سائیع ہوا  ہے لیکر دیکھیے  اُسمیں سب نبیوں کی بے  گناہی کا مفصل حال درج ہے سورہ مومن ۶ رکوع  فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ  إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ  فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ  إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ترجمہ  پس صبر کر بے شک الله کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کی معافی مانگ اور شام اور صبح اپنے رب کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کر بے شک جو لوگ الله کی آیتوں میں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو جھگڑتے ہیں اور کچھ نہیں بس ان کے دل میں بڑائی ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں سو الله سے پناہ مانگو کیوں کہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ انتہٰی اگر محمد صاحب گنہگار نہ ہوتے تو معافی  مانگنے کا حکم نہوتا  اب محمد صاحب  کا گنہگار  ہونا تو  اس آیت سے ثابت  ہوا مگر یہہ ہے کہ جب وہ شخص جسپر محمدیوں  کی نجات کا مدار تھا محتاج   شفاعت  ہے  تو اب  کون  شخص ملے جسکے زریعہ سے نجات  حاصل ہو پس  کوئی نہیں مگر خداوند یسوع مسیح جو پکاُر پکار کر کہتا ہے کہ اے تھکے ماندو میرے پاس آؤ میں تمکو نجات دونگا۔ اور قرآن بھی اُسکی معصومیت کا قائل ہے۔

Pages