انجیل

Gospel

خَراب دُنیا

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Sinner World

Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894
By Jameel Singh

خداوند  کا رسول  پولس اہل گلا تیہ کو خط لکھئے وقت اُس کط کے دیباجہ میں ہمارے  مضمون کے عنوان کے الفاظ  لکھتا ہے ۔ دیکھو  نامہ گلتیوں کو ۱:۵ ۔ اور اگر ناظرین ذرا سا بھی اِس پر غور و فکر کریں  تو یہ نہایت ہی سچ اور درست معلوم  ہو گی۔ اور کسی کو بھی اس میں کلام نہ ہوگا۔

یہ بات صریح ظاہر ہے کہ جس قدر کاریگر  زیادہ  دانا اور وقلمند ہوتا ہے۔ اُسی قدر اس کی کاریگری بھی عمدہ  اور مضبوط ہوتی ہے۔ اور صنعت اپنے صانع کی قدر اور عظمت ظاہر و آشکار  کرتی ہے  ۔ جتنی صنعتیں ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں  دو طرح کی ہیں ۔ اوّل قدرتی ۔ دوم مصنوعی ۔  یہ دنیا کہ جس پر ہم  آباد  ہیں اِن  دو قسم کی کاریگریوں  سے آراستہ اور  پیراستہ  ہے۔ قدرتی  یعنے آسمان و زمین۔ سورجاور چاند۔ دریا۔ و سمندر ۔ حیوانات اور انسان۔ یہ سب قدرتی ہیں۔ اور صنعتی جیسا کہ مکانات ۔ کنوئے۔ سڑکیں۔ پل۔ اور تمام سامان جو انسانوں  کے لئے کار آمد  ہے۔ اور پھر اُن کی تقسیم یوں بھی ہے۔اوّل وہ چیزیں جو آسمانی  ہیں۔ اور دویم وہ چیزیں جو زمیّنی ہیں۔ قدرتی چیزوں کا خالق خدا ہے۔ اور مصنوعی چیزوں کا بنانے والا خاکی  کوتاہ اندیش۔ اور پُراز سہو و خطا  آدمی ہے۔ خالق عالم نے اپنی بےحد حکمت اور دانائی سے کو ئی  شے خراب نہیں بنائی۔ کیونکہ اُس کے کسی  کام میں نقص پایا  نہیں جا سکتا۔ اور جو خراب اور ناقص شے ہے اُسکو خالق کا بنایا ہوا تصور  کرنا آدمی جسیے زی عقل مخلوق  کے لئے بعید از عقل ہے۔ خالقِ مطلق نے پیدایش  کے وقت جب سب کچھ نیست سے ہست کیا آپ  کہا کہ’’ سب بہت اچھا ہے‘‘ تو کیونکر ہوا کہ یہ دنیا جو کالق نے اچھی بنائی تھی اب خراب  ہو گئی؟ اِس کاجاننا آدمی کے لئے ضرور ہے۔

اگر کوئی عام انسان دنیا کو خراب کہے۔ تو اُسکی بات دفعتاً یقین کے لایق نہیں ہو سکتی۔ لیکن جبکہ کلام مقدس بئیبل میں خالق اپنے بندے کی معرفت اِس امر کا اظہار کرے۔ تو یہ بات ضرور قابل تسلیم ہے۔ رسول دنیا کو خراب کہتا ہے۔ تو آسمانی چیزیں اس سے مراد نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عزازیل  فرشتہ بھی تو آسمانی مکانون کا ساکن تھا۔ اور وہاں بھی خرابی ہوئی۔  تو اُس کاجواب یہ ہے کہ شیطان نے جو نہی  مغروری  اور سر کشی کی وہ وہیں آسمان پر سے گرایا گیا۔ کیونکہ کو ئی ناپاک  چیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی۔ اِس لئے وہ وہاں نہ رہ سکا پر زمین پر گرایا  گیا۔ جب کہ دنیا ایک ایسے بڑے دانا  اور عطیم  الشّان خدا سے بنائی گئی۔ پھر وہ کیونکر خراب ہو گئی؟  اِس کا زکر توریت میں صاف صاف  بیان ہوا ہے۔ اِس کی پہلی خرابی  کا سبب انسان کی پہلی  حکم عدولی ہوئی تھی۔جو پہلے انسان یعنے بابا آدم نے باغ عدن میں کی۔ جس سبب سے وہ وہاں سے نکالا  گیا۔ اور قسم قسم کی خرابی اپنے اور اپنی اولاد پر لایا۔ جس کےسبب سے فرمان الہیٰ جاری  ہوا اپنی اولاد  پر لایا۔  جس کے سبب سے فرمان الہیٰ جاری ہوا زمین ’’  تیرے سبب سے لعنتی ہوئی‘‘۔ پیدایش  ۳: ۱۷۔ اب اس سے صاف  ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی خرابی کا سبب آدم کا گناہ ہے۔ اور پھر تمام دنیا کے آدمزاد  کے بے شمار  گناہ ہیں جو اُس وقت سے اب تک ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔

گناہ کا اثرمثل زہر قاتل کے انسان کے دلپر ہو ا ہے۔  اور دل کے ناپاک اور نجس  ہونے سے انسان کے تمام  کام خالق  کی نظر میں بطالت کے ہیں۔ اور نہایت نفرتی اور ناکارہ ہیں۔  اگر کوئی ساحب عقل و فہم سچائی  سے اپنے دل کا  حال  لکھے۔ تو وہ ضرور اُس مضمون  کا عنوان ’’ میرا بُرا دل‘‘ رکھے گا۔ واعظ  نے سچ لکھا ہے ’’ بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے۔ اور جب تک وہ جیتے ہین ھماقت اُسن کے دل مین رہتی ہے۔ اور بعد اس کے مرُدوں میں شامل ہوتے ہیں۔ واعظ ۹: ۳۔

یہ دنیا امورات زیل کے سبب سے خراب ہے۔

پھلا امر۔ کہ شیطان کی جائے سکونت ہو گئی ہے۔ جس  نے آدم اور حوّا کو نیکی اور مبارک حالت سے گرا کر قہر الہیٰ  اور سزا و عتاب  کا مستحق بنایا۔ اور نہ صرف  اُن  کی بربادی کا سبب ٹھہرا۔ بلکہ  تمام آدمزاد کی۔ اور اس پر اکتفا نہ کر کے  ڈھونڈ ہتا پھرتا ہے۔ کہ کسی کو غافل پاوے۔ اور پہاڑ سے  اور خدا کی فرمانبرداری سے منحرف کر کے اپنے موافق ملعون بناوے۔

دوسرا امر : بُرے آدمیون سے بھر گئی ہے۔ جو بھلوں کو ہر طرح سے تکلیف دیتے ۔ اور ہر قسم کا گناہ کرتے  اور دوسروں کو برائی  کی ترغیب دیتے اور شیطان کے مددگار بنکر خدا کے دشمن ہیں۔ اِس سے ایمانداروں  کو آزمایش  کا برا خطرہ ہے۔

تیسرا امر۔ کہ گناہ کی شدّت اور اُس  کی برُائیوں  کے سبب سے یہ دنیا خراب ہو گئی ہے۔ گناہ انسان کی طبیعت اور خصلت میں آگیا ہے۔ اور اس سبب سے کوئی بشر دنیا میں پیدا ہو کر گناہ سے خالی نہیں رہ سکتا۔

چوتھا امر۔ گناہ کے نتیجے  جو گناہ یا نا فرمانی کے سبب نکلے ہیں۔ مثلاً دُکھ۔ بیماری۔ رنج و فکر۔ اور محنت اور مشقت  اور موت  و غیرہ۔

لیکن شکر کا مقام  ہے۔ کہ اس خراب  دنیا سے چھڑانے  والا جس کا نام اسم  عمانوئیل ہے۔ یعنے نجات دینے والا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ نجات دینے والا ربنّا  یسوع المسیح  اِس دنیا میں آیا۔  اور اب اُس کی بشارت عام دی جاتی ہے۔  اور جو چاہے مفت مین نجات حاصل کرے۔

الراقم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمیل سنگہ ۔ از کہنہ 

وہ نجات پائیں

رومیوں ۱۰باب ۱۱

Salvation

Romans 10:11

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Kidarnath

پوری آیت اس طرح پر ہے۔’’ اے بھائیو۔ میری دلکی خواہش ۔ اور خدا سے میری دعا اسرائیل کی بابت یہ ہے۔ کہ وے نجات پاویں‘‘

ناظرین  نورافشاں کو معلوم ہوا۔ کہ ہم مسیحیوں میں یہ دستور العمل ہے۔ کہ نئے سال کے شروع میں  بماہ جنوری ایک ہفتہ برابر مختلف مقاصد و  مطالب پر خدا سےدُعا مانگیں ۔ مثلاً اپنے گناہوں کا اقرار۔ ‘‘ ’’خدا کی نعمتوں کا شکریہ‘‘ ’’روح القدس  کی بھرپوری‘‘ اُس کے کلام کے پھیلائے  جانے کی خواہش‘‘  ’’ حاکموں پر برکت‘‘۔ ہندو مسلمانوں کی نجات وغیرہ‘‘ اسی سلسلہ میں خدا  کی برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کے واسطے بھی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔ چنانچہ  ہمارے یہاں فرخ آباد کے گرجہ گھر میں بھی بتاریخ  دہم ماہ جنوری سن ۹۵ء یہ قرار  پایا۔ کہ یہودیوں  کے واسطے  دعا  و مناجات کی جاوے۔  اور تاریخ  مندرجہ  صدر کے واسطے  بندہ قرار  پایا تھا۔  لہذا ۴ بجے شام کو مندرجہ عنوان آیت  پر کچھ  تھوڑی  دیر تک بیان ہوا۔ اور خط  روم ۹ باب پڑھا  گیا۔ اس باب کو پہلی آیت سے پڑھتے ہوئےجب  ۵ویں آیت کے اس آخری فقرہ  پر۔ کہ ’’ جو سب کا خدا ہمیشہ‘‘ ’’ مبارک  ہے‘‘  پہنچا۔ تب بندہ کو خیال ہوا۔ کہ رسول کا اس فقرہ سے کیا مطلب ہے۔ اور خیال  پیدا ہونیکا  سبب یہ تھا۔ کہ عرصہ سے باوقات  مختلف ایک رسالہ  موسومہ الوہیت مسیح معنوتہ و مولفہ مسٹر اکبر مسیح مختار  باندہ بندہ  کے زیر نظر رہتا ہے۔ رسالہ ٔ مذکور میں  بھی صفحہ  ۹۷ پر اسی فقرہ کی بابت کچھ بحث ہے۔ چونکہ مختار صاحب  الوہیت مسیح کے منکر ہیں۔ لہذا اُنہوں  نے اپنے خیال  کی تائید میں پولوس رسول کی  افضل  التفضیل دلیل کو۔ جو بنی اسرائیل  کی فضیلت  اَور  دنیا کی تمام اقوام پر ثابت  کرتی  ہے۔ بحث کی صورت  میں لانا  اپنا فرض سمجھا۔ آپ کی مثال  وہی  ہے جو ایک حکیم  سے نکلی ؟  کہ جس نے بغیر پڑھے اور تعلیم  حاصل  کئے چندجہلا دیہات کو دھوکھا دے رکھا تھا۔ ایک مرتبہ کا زکر  ہے۔ کہ حکومت موصوف کے پاس ایک ایسا مریض لایا گیا۔ جس کی دوا آپ کے زہن شریف میں نہ آسکی۔ اور نہ مرض کی تشخیص  ہوسکی۔  اب  اگر کہتے ہیں۔ کہ اَور حکیم کے پاس جاؤ۔ تو پیٹ کا دھندھا  جاتا ہے ۔ بدنامی ہوتی ہے۔ لوگ کہینگے ۔ کہ پورے حکیم نہیں ہیں۔ پس کچھ سوچ ساچ کر آئیں بائیں  شائیں  تین پڑیاں خاک دُھول  بلا کی بنا کر مریض  کے حوالہ کیں۔ اور فرمایا ۔ کہ ۔ اِن پڑیوں کو استعمال  کرتے ہوئے۔ اونٹ کا خیال نکرنا۔  مطلب یہ۔ کہ اگر مریض  نے کبھی اونٹ دیکھا بھی نہو۔ تو بھی جب ان پڑیوں کے کھانے ا رادہ  کریگا۔ فوراً اونٹ کا خیال پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اُن پڑیوں سے مریض کو فائدہ نہوا۔ اس لئے۔ کہ مریض اونٹ کے خیال کواپنے دماغ سے باہر نکر سکا۔ یہی سبب تھا۔ کہ بندہ کو دردپڑھتے ہوئے نھی مختار ساحب  کی دلیل نہ بھولی ۔ بلکہ خود بخود  خیال  سب آموجود ہوئے۔ اور اچھا ہوا۔ کہ ایسے وقت میں خیال پیدا ہوا۔ کیونکہ چند سببوں کا بیان کرنا ضروری تھا۔ تاکہ کل شرکاء ربادت کے دل اس بات پر متوجہ ہوجائیں۔ کہ کیوں بنی اسرائیل کے واسطے  آج دُعا مانگنا چاہئے۔ منجملہ اُن اسباب کے پہلا سبب قوی یہ ہے۔ کہ وے اسرائیلی ہیں۔ اور فرزندی۔ اور جلال۔ اور عیدیں۔ اور شریعت۔ اور عبادت کی رسمیں۔ اور وعدے اُن ہی کے ہیں۔ اور دوسرا سبب یہ ہے۔  کہ باپ دادے اُن ہی میں کے ہیں۔  اور تیسرا سبب یہ ہے۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُنہیں مین سے ہوا۔ لیکن اس تیسرے سبب پر ہم کو اعتراض  ہے۔ اگر جسم کے معنے کچھ اور نہوں۔ اس واسطے۔ کہ باپ دادے۔ یعنے ابراہام ۔ اصحاق۔ یعقوب وغیرہ کیا  جسم نہیں  رکھتے تھے۔ پھر مسیح کو باپ دادوں  سے علیحدہ کر کے بیان کرنے میں رسول کا کیا مطلب ہے؟ مختار صاحب ہم کو سمجھا دیں۔ آیا وہی مطلب ہے۔ جو قرآن کی سورہ انا انزلنا کے اس فقرہ میں ہے ’’ تنزلُ المکایکتہ  والروح‘‘ ( اُترتے ہیں فرشتےؔ اور روؔح) اگر روح سے روح القدس خدا مراد نہیں تو کیا ؟ اگر جبرائیل کا نام روؔح  ہے۔ تو کیا جبرائیل فرشتہ نہیں ہے؟ اور فرشتوں کے اترنے میں جبرائیل  کو اُترا ہوا نہیں سمجہینگے؟ یا اس کا  وہ مطلب ہے۔ جو قرآن  کی ان آیتوں میں ہے۔ فَارَسَلَنا اِلَیھٰارُوحَنا۔ فتضخنا فیھا میں روحنِاَ۔ پس بھیجا ہمنے اُس کی طرف اپنی روح کو۔( پس پھونک دی ہم نے اُس میں اپنی روح میں سے) کیا یہاں ان دونون روحوں میں کچھ مغائرت ہے۔ یا نہیں؟ اگر ہے ۔ تو قرآن  سے خدا کی روح کی شخصیت ثابت ہوگئی۔ اور اگر مغائرت نہیں ہے۔ تو کیا جبرائیل نے جبرائیل  کو پھونک دیا؟ یہ کیسی بات ہے!  ناظرین ناراض نہوں۔ اور نہ کہیں۔ کہ انجیل سے مسیح کی الوہیت کی بحث  میں قرآنی  دلائل ۔ اور خاصکر  روح القدس  کی الوہیت  کا بیان  پیش کرنا چہ معنی؟ جناب من بےمعنی نہیں۔ بلکہ یہ دکھانا چاہا ہے۔ کہ یونی ٹیرین دلایل محمدی دلایل کے سگے بھائی ہیں۔ جو وہاں ہے۔ سو یہاں ہے۔ جو یہاں ہے، سو وہاں ہے۔ لیکن ہمارے اعتراض کا جواب خود پولوس رسول سے ہمکو یہ ملتا ہے۔ کہ پیارے بھائی۔ اگرچہ خداوند مسیح جسم کی نسبت باپ دادوں سے کسچ بھی مغائرت نہیں رکھتا۔ ( اور میرے دوسرے سبب ہی میں یہ تیسرا سبب بھی مل جاتا ہے) پر تو بھی زمانہ آیندہ میں مسیح  کےمخالف کے اُٹھینگے اور لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا کیا کریں گے۔ اس واسطے میں نے تم کو صاف بتا دیا۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا۔ جو سب کا خدا ہمیشہ  مبارک ہے۔ مطلب یہ کہ مسیح خداوند  جب مجسم ہوا۔ تب غیر اقوام  میں نہیں۔ بلکہ خدا کی بر گزیدہ قوم اسرائیل میں۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ اور اگر زیادہ اطمینان خاطر منظور ہو۔ تو مرقس  کی انجیل میں سردار کاہن سے دریافت کرو۔  وہ تمہیں بتادیگا کیونکہ ۱۴۔ ۱۶ میں پھر سردار کاہن نے اُس سے پوچھا۔ کہ کیا تو مسیح اُس مبارک کا بیٹا ہے؟  تب ۶۲ ویں آیت  میں یسوع نے اُس سے کہا۔’’میں وہی ہوں۔‘‘ مختار صاحب  اگر مسیح میں اُلوہیت نہ تھی۔ تو باپ دادوں سے بلاوجہ  موجہ علیٰحدہ کرنا خلل دماغ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ملہم شخص کی بابت ایسا بدگمان  نہ تو آپ کر سکتے ہیں۔ اور نہ میں۔ پھر آپکی یہ دلیل ۔ کہ ’’مقدس پولوس نے کس ایک جگہ بھی مسیح کے حق میں یہ خطاب استعمال  نہیں کیا ہے۔ اگر دوسری جگہ بھی انہی  الفاظ  کو استعمال  کرتا۔ تب آپ کیا کہتے؟ اور تیسری جگہ بھی استعمال  کرتا۔ اور چوتھی جگہ بھی استعمال  کرتا۔ تو آپ کیا کہتے؟ پہر آپ ہی تو کہتے ہیں۔ کہ بجنسہ یہ وہی فقرہ ہے۔ جو روم ۱۔۲۵ میں ہے۔ اور کالق کی نسبت لکھا ہے۔ واہ جناب یہی تو دلیل ہے۔  کہ کدا کے کلام میں مسیح کے حق میں اکثر ایسے خطاب پائے جاتے ہیں۔ جو خدا کی نسبت ہیں۔ پس باوجود اُن صفات کے جو کدا کے معُروف ہیں۔ مسیح کی اُلوہیت کو رد کرنا کس قانون کے رو سے درست ہے؟ اب آخری فیصلہ سنئے خدا باپ کی اُلوہیت  کے آپ  بھی قایل ہیں۔ اور روح القدس کی اُلوہیت قرآن سے ظاہر ہو چکی ہے۔ اور مسیح کی الوہیت اس افضل التفضیل دلیل پولوس سے آپ کو دکھائی گئی۔ براہ مہربانی تثلیث  کی پہر  تتفیح فرمائے۔ اور اپنے رسالہ کا جواب جلد چھپوائے۔زیادہ نیاز۔

راقم احقر العباد۔۔۔۔ کیدار ناتھ از فرخ آباد 

سلامتی

یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔

My Peace I Give Unto You

John 14:27

Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894

سلا متی تم لوگوں کے لئے چھوڑ کر جاتا ہوں ۔ اپنی سلامتی میں تمہیں دیتا ہوں۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ درے۔ یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔

اِ س لفظ سلام  یا سلامتی کا ترجمہ بعض مترجموّں نے  صلح۔ یا اِطمینان  کیا ہے۔ لیکن اِس سے مطلب مین کچھ فرق نہین پڑتا۔ کیونکہ اِن لفظوں  کےمعنے قریب قریب یکساں۔ اور ایک ہی مطلب اُن  سے حاصل ہوتا ہے۔  یعنے یہ کہ خداوند مسیح  نے اپنے رسولوں کو اُن سے جدُا ہونے سے پیشتر اپنی سلامتی بخشی ۔ جبکہ  وہ نہایت مضطرب  اور گھبرائے ہوئے تھے۔  کیونکہ اُنہوں نے خداوند سے سنُا تھا، کہ اُن میں سے ایک  اُسے قتل کے لئے حوالہ کریگا۔ اور ایک اُس کا انکار کریگا۔ اور وہ سب اُس کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اِس لئے خداوند مسیح  نے یہ تسلی آمیز باتیں اُن سے کہین۔ جو یوحنا کی انجیل کے چودہویں باب سے لے کر سولھویں باب  کے آخر تک مرقوم ہیں۔ اُس نے اپنے آسمان  پر جانے۔ تسلّی دینے والے روح القدّس  کے بھیجنے اور اپنے پھر دنیا میں آنے کا اُن سے وعدہ کیا۔ باپ  سے اُن کے لئے نہایت  دلسوزی کے ساتھ دعا مانگی۔ اُس کے نام کی خاطر جو مصائب  اور تکلیفات اُن  پر گزرنے والی تھیں۔  اُن سے اُنہیں آگاہ کیا۔ اور فرمایا کہ’’ یہ باتیں مینے تمہیں کہیں۔ تاکہ تم  مجھ مین اطمینان پاؤ۔ تم دنیا میں مصیبت اُٹھاؤ گے۔ لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ ‘‘ یہ وہ  خاص اطمینان  و سلامتی تھی۔ جو مسیح خداوند نے اپنے مومنوں کے لئے اپنے بیش قیمت کفاّرہ سے حاصل کی۔ اور جس پر ایمان لانے کے سبب راستباز ٹھہر کر اُن میں اور خدا میں  یسوع مسیح  کے وسیلہ  صلح اور میل  قایم  ہو گیا۔ مسیح نے نہ  صرف  صلح یا سلامتی کا لفظ  سنُایا۔ مگر فی الحقیقت صلح و سلامتی اُنہیں بخش دی۔ کیونکہ یہ اُس  نے اپنی کمائی سے پیدا کی تھی۔  اور یہ صرف مسیح ہی دے سکتا ہے۔ اور کوئی  نہیں دے سکتا۔  دنیا کی کسی فانی چیز۔ دولت۔ عزت۔ علم۔ حکمرانی۔ اقبالمندی وغیرہ سے انسان کے دل کو ہر گز سلامتی و اطمینان حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور  نہ کسی عمل نیک سے یہ مل سکتی ہے۔ کتنا ہی عبادت و ریاضت ۔ خیر و خیرات  تیرتھ و زیارت  کچھ ہی کرے۔ لیکن کامل اطمینان ۔ اور خدائے  عادل و قدوس کے ساتھ صلح اور میل حاصل ہو جانے۔ اور اپنے کسی عمل سے بھی اُس کے حضور  میں مقبول و راستباز  ٹھہرنے  کا یقین دل میں پیدا ہونا بالکل  محال  ہے۔ ہم نے ایک ہندو بنگالی  عورت کو جو عمر رسیدہ تھی۔  پُشکر  کے میلہ میں جو ہندوؤں کی بڑی تیرتھ  گاہ ہے دیکھا۔  کہ وہ صعوبت مسافت ست تھکی  ہوئی  مشن سکول کے چبوترہ پر بیٹھی  تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا۔  کہ وہ ہندوستان میں  جتنے ہندوؤں  کے تیرتھ  اور مقدّس  مقام  ہیں  سب میں  ہوآئی تھی۔ اور پُشکر  میں اَشنان  کرنا گویا اُس کے لئے سب تیرتھوں  پر تکمیل کی مہرُ تھا۔  جب اُس  سے سوال کیا گیا۔ کہ کیا اب تمھارے دل میں پورا یقین  اور اطمینان  ہے کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے۔  اور خدا کے اور تمہارے درمیان صلح ہو گئی ہے ؟  تو اُس نے مایوسانہ یہ جواب دیا کہ ’’ایشور جانے‘‘! اب  یہ امر قابل غور ہے۔ کہ باوجود اِس  قدر اپنے مذہبی  فرائض ادا کرنے۔  اور تیرتھ  و  یاترا  کرنے کے بھی اُس کے دل میں اطمینان  اور صُلح و سلامتی  کا کچھ اثر نہ تھا۔  ورنہ وہ یہ ہر گز  نہ  کہتی۔ کہ ’’ ایشور جانے‘‘  کیا کوئی مسیحی جس کو خدواند  مسیح  نے یہ صُلح  و سلامتی بخش  دی ہو  ایسے  سوال کے جواب میں یہ کہ سکتا ہے ؟  ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ بلا پس  و پیش ظاہر کرے گا۔  کہ میں جو آگے دور تھا مسیح کے لہو کے سبب نزدیک ہو گیا ہوں ۔ کیونکہ وہی میری صلح ہے  جس نے  دو کو ایک  کیا۔  اور اُس دیوار کو جو درمیان  تھی ڈھا دیا ہے۔  اور اگر کوئی  اُس صُلح  و سلامتی  کو جو صرف مسیح سے ہی مل سکتی ہے لینا منظور نہ کرے۔  اور نہ اُس کو اپنے دل میں جگہ دے۔ تو یہ اُسی  کا قصور  ہے۔ کہ وہ بغیر سلامتی رہے گا اور ہمیشہ مضطرب و ملول رہ کر کفِ افسوس ملے گا۔ مگر پھر کچھ اِس سے حاصل نہو گا۔آج مقبولیت کا وقت اور آج ہی نجات کا دن ہے۔ اور بس۔ 

Pages