انجیل

Gospel

دروازہ میں ہوں

اگر کو ئی شخص مجھ سے داخل ہو تو نجات پاویگا۔ ا ور اندر باہر آئے جائے گا۔
یوحنا ۱۰۔ ۹۔

I am the Door

John 10:9

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894

ایک عالم کا قول ہے کہ’’ بہشت کا دروازہ اتنا چوڑا  اور کشادہ ہے کہ اگرتمام دنیا کے آدمی ایک  دم سے اُس  میں داخل ہونا چاہیں۔ تو بلا تکلیف و کشمکش داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ اِس قدر تنگ بھی ہے۔ کہ کو ئی شخص ایک رتی بھر گناہ اپنے ساتھ لے کر اُس میں داخل نہیں ہو سکتا۔  یہ سچ ہے کہ  خداوند مسیح جو آسمان میں داخل  ہونے کا دروازہ  ہے۔ گنہگاروں کا دوست ہے۔ مگر گناہ کا دوست  ہر گز نہیں ہے۔ وہ یسؔوع یعنے اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے والا ہے۔ نہ کہ اُن کو  گناہوں  میں  بچانے  والا ہے۔ اکثر لوگ نادانی سے ایسا  سمجھتے  اور کہتے ہیں ۔ کہ درحالیکہ مسیح نے تمام  جہاں کے آدمیوں کے لئے۔ خصوصاً مسیحّیوں کے لئے اپنی جان کو کفاّرہ میں دیدیا ہے۔ تو اب وہ جو  چاہیں کریں۔ کیونکہ اُن کے گناہوں کا کفارہ تو ہو ہی چُکا ہے۔ اُن سے کچھ باز پرس نہوگی۔  لیکن ایسا غلط خیال کرنے والے  لوگ خداوند مسیح کے اپس فرمان سے ناواقف  معلوم ہوتے ہیں۔ جو اُس نے اپنے پیروؤں کی نسبت فرمایا ہے۔ کہ’’جہاں کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی  کرتا ہے۔ تاریکی میں نہ چلے گا۔ بلکہ زندگی کا نور  پاوے گا۔‘‘  یوحنا ۸ ۔ ۱۲۔

سند کی آیت  مندرجۂ بالا سے یہ  بھی معلوم  ہوتا ہے کہ نجات پانے اور آسمان  میں داخل ہونے کا صرف  یہی ایک طریقہ ہے کہ گنہگار  انسان توبہ کرے۔ اور خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاوے۔ اور اس طریقہ کے سوا أور  کو ئی  صورت نجات پانے اور آسمان میں داخل ہونے کی ہرگز نہیں ہے۔ ہاں ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ  ہے کہ  انسان اپنی پیدایش سے موت  تک کو ئی  گناہ عمداً و سہواً نہ کرے۔  اور خدا کے سارے اوامرا و نواہی کی تمام  و کمال  متابعت کرے۔  مگر ایسا کو ئی  فرد بشر  بنی  آدم  میں  بجز مسیح کے نہوا ہے۔ اور نہوگا۔  ہم نے بعض اشخاص کو اِس خیال میں ُمبتلا پایا۔ کہ وہ لاگ جو خدا  کے طالب ہیں۔ خواہ کسی مذہب میں رہیں۔ اُس  کے حضور میں ضرور  پہنچیں گے۔  اور نجات  و مقبولیت  حاصل  کریں گے۔ اور اپنے اِس خیال کی تائید میں مثالاً کہتے ہیں  کہ فرض  کرو کہ ایک  محصور شہر کے چاروں سمت کو بڑے دروازے موجود ہیں۔ اور لوگ ہر دروازہ سے داخل ہو کر بازار کے  چوک  میں ۔ جو صدر مقام  ہے پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کو یہ کہنا اور مجبور کرنا  کہ سب ایک ہی دروازہ  سے داخل ہوں۔ زبردستی کی بات معلوم ہوتی۔ یہ مثال بعض تیز طبع  اشخاص  نے  بوقت بازاری وعظ  کے ہمارے سامنے پیش بھی کی ہے۔ جس کا سادہ اور عام فہم یہ جواب اُن کو دیا گیا۔ کہ کسی شہر کے دروازہ اور آسمان کے دروازہ میں فرق عظیم یہ ہے کہ شہر کے ایک  دروازہ سے  چاروں سمت  کے دُنیوی  مسافروں  کا گزرنا  مشکل ہے۔ لیکن آسمانی مسافروں کے گزرنے کے لئے  بہشت  کا دروازہ دشوار  گزار اور تنگ  نہیں ہے۔ اور وہ سب کے سب بلا تکلیف  و کشمکش  اُس سے داخل  ہو سکتے ہیں۔ کسی زمینی شہر کے دروازہ کو آسمانی یروشلم  سے ہر گز  کچھ  مطابقت  و مناسبت  نہیں ہے۔ ہاں داخلہ کا ٹکٹ  ہر ایک آسمانی مسافر کے پاس ہونا ضرور  ہے۔ اور یہ ٹکٹ وہ صحیح  اور بے ریا ایمان  اُس  نجات دہندہ خداوند  پر رکھنا  ہے جس نے فرمایا کہ ’’دروازہ میں ہوں‘‘۔ اِس دروازہ  کو چھوڑ کر اگر کو ئی  شخص کسی دوسری راہ سے آسمان میں داخل حاصل  کرنا چاہے وہ یقیناً  چور اور بٹمار ہے۔ اور جو کچھ انجام ایسے شخص  کا ہوگا وہ معلوم۔

حِیَات ابدی

Eternal Life

Published in Nur-i-Afshan May 11, 1894

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے  اکیلا  سچّا خدا اور یسوع مسیح کو  جسے  تو نے  بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔ دارین میں حیات ابدی ایک ایسی چیز ہے جس کےبرابر کو ئی دینی و دنیوی نعمت ہو نہیں سکتی ۔ مگر افسوس ہے۔ کہ مغلوب المعصیت انسان اُس کے تلاش و حصول میں یا تو بالکل غافل و بے پروا پایا جاتا ہے۔ یا اگر اس کی کچھ خواہش ہے بھی تو اُن وسایل اور طریقوں سے اُس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جو محض انسانی ایجاد ہیں۔ انسانی روح کا یہ تقاضا کہ وہ حیات ابدی کو حاصل کو حاصل کرے۔ باوجود دنیوی آرایشوں میں مبتلا ہو جانے کے بالکل معدوم نہیں ہوا۔ بلکہ اِنسان کے ہر ایک خیال و قول و فعل سے ظاہر ہوتا کہ وہ حیات ابدی کا آرزو مند و محتاج ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب شے ہے کہ اگرچہ دنیا پرستوں کے نزدیک قابل مضحکہ اور صرف ایک خیال بے حقیقت ہے۔ مگر طالبان حق کے نزدیک دین و دنیا میں اور کو ئی شے اُس سے زیادہ مبارک۔ جلالی اور خوشی بخش نہیں ہے ۔ اسی لئے مرنے والے بنی آدم حیات ابدی حاصل کرنے کے لئے جہاں تک اُن کی دسترس ہے انواع کوششیں کرتے ہیں ۔ مگر نہیں جانتے کہ وہ ’’حیات ابدی یہ ہے‘‘۔ جیسا کہ دنیا کے مرشد کامل نے فرمایا کہ ’’ وہ تجھکو اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ اگر کو ئی انسان جو گناہ میں مردہ ہے اور اس دنیا میں گویا زندہ درگور ہے۔ حیات ابدی کا طالب ہو۔ تو وہ صرف اُس کرالم مجسمہ کے قدموں میں آئے۔ جس میں ’’زندگی تھی۔ اور وہ زندگی انسان کا نور تھی ۔ اور تب وہ مسیحی شاعر کے ہم آہنگ ہو کر بدل کہے گا کہ:۔

نہ علم ۔ نہ حکمت۔ نہ ہنُر سے پایا۔ حرفت سے مشُقت سے نیز پایا خم ہو کے جو دیکھا سوئے فردوسفیرہ سیدھا رستہ یسوع کے در سے پایا ۔

ہم کو تعجب معلوم  ہوتا کہ اکثر  ابدی زندگی کے لئے  آبحیات کے طالب  ہو کر مرنے والے ہمجنسوں کے چرن اَمرت۔ اور قدم شریف  کے پانی  سے اپنی سیاسن بجھانا چاہتے ہین۔ اور اُس چشمۂ آبحیات  کے پاس نہیں  آتے۔  جس کی مبارک شان میں مسیحی شاعر نے کہا ہے۔

’’زادی ابر رحمت نے کھڑا ہو کر یہ ہیکل میں۔‘‘

’’کہ آب زندگی دیتا ہوں آئے جس کا جی چاہئے‘‘۔ شاید کو ئی کہہ سکتا  کہ در حالیکہ ۔ مین موّحد ہوں۔

تہیٔسٹ۔ یونیٹیرین ۔ اور محمدی ہوں۔ اور خدا کو اکیلا سچّا خدا جانتا ہوں تو میرے لئے مسیح کے جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اس قدر جانتا ہوں۔ کہ وہ ایک نبی یا رسول  ایک معنے سے خدا کا بیٹا بھی۔ اور اپنی اُمت کا شفیع ہے۔ لیکن یہ علم نجات بخش نہیں ہو سکتا۔ تاوقتیکہ ہم اُس حقیقت  پر ایمان نہ لائیں۔ جس پر اسی رسول  نے شہادت دہ ہے۔ کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آیا۔ اور ہمیں یہ سمجھ بخشی۔ کہ اُس کو جو برحق ہے جانیں۔ سو ہم اُس میں جو برحق ہے رہتے  ہیں۔ یعنے اُس کے بیٹے یسوع مسیح  میں۔ خدائے برحق اور یہی حیات ابدی بھی ہے۔ فتامل۔ ۱۔ یوحنا ۵۔ ۲۰۔

نجات ایمان پر منحصر ہے نہ کہ اعمال پر

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Salvation depends on Faith, Not on Good Works

Published in Nur-i-Afshan October 22, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

جو ایمان سے راستباز ہوا وہی جئیگا۔ گلتیوں ۳ باب ۱۱ آیت۔

حسب وعدہ  جو پچھلے پر چے نور افشان میں کیا گیا تھا میں ناظرین کو دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات کے حاصل  کرنے کے لئے اعمال  پر بھروسا  رکھنا  بالکل  لاحاصل  ہے  اور کسی صورت سے گنہگار اعمال سے بچ نہیں سکتا اور  یہہ بھی دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات صرف ایمان سے  ہو سکتی ہے اور اُس ایمان کا بھی  مختصر  بیان کرونگا  تاکہ بکوبی روشن ہو جاوے کہ گنہگار کے بچنے کے لئے ایمان کیسا ضرور ی امر ہے۔ اگر گنہگار  بچے تو صرف اسی ہی سے بچ سکتا ہے ورنہ ہر گز نہیں ۔ پہلے میں کلام  الہیٰ سے وہ  آیتیں  نکال کر دکھلاؤنگا کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی رو سے تمام  آدمی گنہگار ٹھہر چکے ہیں۔ اور پھر آدمیوں  کے ظاہر حال پر گور کر کے دکھلاؤنگا کہ اس سے بھی ثابت  ہوتا ہے کہ سب آدمی گناہ  کی رغبت  زیادہ  رکھتے ہیں اور نیکی  کی بہت کم  اور نیکی کرنے میں بہت سُست بلکہ لاچار ہیں۔  اور اگر کچھ نیکی کرتے بھی ہین تو وہ بمنزل نیکی کے نہیں کیونکہ وہ بھی گناہ سے ملی ہوئی ہے۔

(۱)۔  کلام الہیٰ کی وہ آیتیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام آدمی  گنہگار ہیں  اور اعمال بد میں گرفتار  ہیں۔  مگر اگر کوئی کہے  کہ تم کو سب کا حال کس طرح معلوم ہوا۔ یہہ بات ٹھیک  ہے  آدمی  اپنے کئے ہوئے کاموں کو بھول  جاتا تو اورونکا حال کیونکر  جان سکتا ہے پر کل دنیا کے لوگوں کا حال  تو  خدا ہی جانتا ہے۔ اور جب وہ اپنے کلام میں ظاہر  کر دیوے کہ تمام بنی آدم  گنہگار ہیں تو پھر ایسا کہنے کی گنجائیش  نہیں  رہیگی  کہ بہت آدمی بے گنا ہ ہوں گے اور اپنے اعمالوں کے سبب سے بہشت میں جانے کے لائیق  ٹھہرینگے  اور اعمال  نیک سے بچ جائینگے۔ اسلئے ضرور ہے کہ کلام الہیٰ  سیکھا جاوے۔ لکھا ہے کہ کوئی  راستباز  نہیں ایک بھی نہیں۔  نامہ رومیونکو ۳ ۔ باب ۱۰۔ آیت ۔  چُنانچہ لِکھا ہے کہ کوئی راست باز نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔ زبور  ۱۴۳ ۔ آیت ۔ ۲۔ خداوند آسمان ہر سے بنی آدم  پر نگاہ  کرتا  تھا کہ دیکھے  کہ اُنمیں  کو ئی دانش والا خدا کا طالب  ہے یا نہیں  وے سب گمراہ ہوئے۔ وے سب کے سب بگڑ گئے۔ کو ئی نیکوکار نہین ایک بھی نہیں۔ زبور ۱۴۔ آیتیں ۲، ۳ ۔ اور  ۵۳۔ زبور ۲، ۳، آیتیں کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ  خدا کو پہچانا مگر تو بھی خدائی کے لائق اُسکی  بزرگی اور شکرگزاری نہ کی  بلکہ باطل خیالوں میں پڑگئے اور اُنکے  نافہم  دل تاریک  ہوگئے۔ رومیوں ۱۔ باب  ۲۱ آیت  اِن آیتوں  سے معلوم ہوتا ہے کہ سب گنہگار ہیں اور جب گنہگار ٹھہرے تو اعمال کہاں رہے اور اعمال سے بچنے کی امید بھی  جاتی رہی۔

(۲)۔ وے آیتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال سے آدمی  بچ  نہیں سکتا  یہہ ہیں۔ پس کو ئی آدمی  شریعت  پر عمل کرنے سے اُسکے سامنھے راستباز  نہ ٹھہرے گا۔ نامہ رومیونکو ۳۔  باب ۲۰ آیت ۔ کو ئی بشر شریعت کے کاموں سے راستباز گنا  نہ جائیگا۔  گلتیوں ۲۔ باب ۱۶۔ آیت اور دیکھو  ۳ ۔ باب  ۱۱۔ آیت اِن آیتوں سے صاف معلوم  ہوتا ہے کہ اعمال کی شریعت سے کوئی  خدا کے حضور راستباز  ٹھہر کے نجات کا مستحق  نہ ہوگا۔

(۲)۔ اب آدمیوں  کے ظاہر ہ حال  پر غور کر کے دیکھیں  کہ سچ مُچ  آدمی گنہگار ہیں کہ نہیں اور اپنے کاموں سے بچ سکتے ہیں کہ نہیں۔  اگر آدمزاد کے سارے کاموں  پر غور کیا جاوے تو فوراً  معلوم  ہو سکتا ہے  کہ آدمی کے سب کام  گناہ سے ملے ہوئے ہیں (۱)۔ اگر دنیوی کاروبار  پر خیال کیا جاوے تو دیکھا  جاتا ہے کہ ہر ایک کام میں اکثر  فریب اور دھوکا  پایا جاتا ہے اور دروغ گوئی  کا تو کچھ ٹھکانا  نہیں بلکہ یہہ بات مشہور ہے جو کاروباری لوگ  کہا کرتے  ہیں کہ ہم کیا کریں بغیر  جھوٹھ کے ہمارا کام نہیں  چلتا۔ اور علاوہ ازیں جو مغروری  اور غصہ اور غضب اور لالچ  وغیرہ  ہر ایک بشر میں پایا جاتا ہے اور دنیا کی محبت جو اعمال نیک  کی دشمن  ہے کسی کے دلمیں  جگہ  نہیں رکھتی ( ۲) دینی کام کی طرف غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ  تین بڑے  کام خاص  عبادت  کے رکن سمجھے جاتے ہیں  یعنے نماز روزہ اور زکوةٰ  لیکن  کو ئی شخص  اِن کو پورا نہین کر سکتا کوئی  پورا  پورا  نماز کا حق  اور روزے اور زکوةٰ  کا حق  جیسا کہ شریعت  چاہتی ہے ادا نہیں کر سکتا اور جیسا  چاہئے کسی سے بھی  کماحقہ اُنکی تعمیل نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وہ خصلت اور طبیعت موجود نہیں جن سے یہہ کارروائی  انجام پا سکتی ہے اور اگر کوئی انسان  شریعت کے پورا کرنے کے لئے انکا قصد بھی کرتا ہے تو معلوم ہوتا  ہے کہ نماز میں ریاکاری شامل ہوتی ہے اور اگر ریاکاری نہ ہو تو سُستی تو ضرور  پائی جاتی ہے اور  روزے مین بے اوتدالی بھری ہو ئی ہے اگر کھانے پینے میں کچھ کمیّ زیادتی ہو جاتی ہے مگر نفس امادہ تو ویسا ہی جوش  و خروش  میں رہتا ہے۔ اور سخاوت میں کنجوس پنا بھرا ہوا ہے اور اگرچہ  تھوڑا سا سخاوت  کا خیال  دلیمں  آگیا  تو کچھ کسی کودے ڈالا  ورنہ اپنی ہی آزمائیش کا خیال  ہر ایک نفس کو لگا ہوا ہے بلکہ عُجب  اور تکبر نے  ہر ایک  انسان کو اپنے  دام میں قابو کر رکھا ہے جن سے سارے نیک کام مردود ہو جاتے ہیں۔ اِن سب باتوں سے معلوم  ہوا کہ انسان  سچ مُچ  قولاً و فعلاً  گنہگار ہیں اور جب گنہگار  ٹھہر چکے تو پھر کس طرح بچینگے  اور اعمال سے بچنے کا فخر کہاں  رہا۔ اب میں اُن  آیتوں کو نکال کر دکھلاؤنگا جن سے معلوم ہوتا  ہے کہ گنہگار انسان صرف ایمان سے بچ سکتا ہے۔ کیونکہ تم فضل  کے سبب ایمان لاکے بچ گئے ہو اور یہہ تم  سے نہیں ۔ خدا کی بخشش ہے۔ خظ افسیونکا ۲۔ باب ۸ ۔ آیت جو اُسپر  (خداوند یسوع مسیح پر ) ایمان لاتا ہے ہمیشہ  کی زندگی اُس کی ہے۔ یوحنا ۵۔ باب ۲۴۔ آیت پر خداوند یسوع مسیح  کہتا ہے کہ  جس  نے مجھے بھیجا  ہے اُسکی مرضی یہہ ہے کہ ہر ایک جو بیٹے  کو دیکھے اور اُسپر  ایمان لاوے ہمیشہ کی زندگی پاوے اور میں اُسے آخری دن اُٹھاؤنگا۔  یوحنا ۶۔ باب ۴۰ ۔ آیت ۔ لیکن یہہ لکھے گئے تاکہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا  ہے اور تاکہ تم ایمان لاکے اُس کے نام سے زندگی پاؤ۔ یوحنا ۲۰۔ باب ۳۱۔ آیت اور ہم ایمان کے وسیلے خدا کی قدرت سے اُس نجات تک جو آخری وقت میں طاہر ہونے کو تیار ہے محفوظ  رہتے ہیں۔ ۱۔ پطرس۱۔ باب ۵۔ آیت جو ایمان سے راستباز ہوا سو ہی جئیگا۔ گلتیوں ۳۔ باب ۱۱۔ آیت راستباز ایمان سے جئیگا۔ عبرانیوں کا ۱۰۔ باب ۳۸۔ آیت اور فلپیون کا ۳ باب ۴ آیت  ۔ ایسی اور بہت آیتیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ  کی زندگی یعنے ابدی نجات  صرف  ایمان ہی سے حاصل  ہی سے حاصل ہو سکتی ہے پر اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہو۔

بعضوں نے اعتراض کیا ہے کہ بس  جب عیسایونکی نجات صرف ایمان پرہے  تو انکو کیا اندیشہ ہے جو چاہیں  برائی کریں کیونکہ  اُنہوں نے اعمال سے تو بچنا ہی نہیں اور اُنکے اعمال تو پوچھے ہی نہ جاوینگے ، ایسے لوگوں کا کہنا ان دو زیل باتوں سے ناواقف ہونیکے سبب سے ہے۔ اول وہ اُس ایمان  کو نہیں جانتے جسکو عیسائی اختیار کرتے ہیں اور دوسرا خداوند  یسوع مسیح کی تعلیم سے ناواقف ہیں جو اُس  نے اپنے  ایماندارونکے چال و چلن  کے لئے ٹھہرائی ہے جنکا میں مختصراً بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ۱۔ عیسائی ایمان کیا ہے۔ کلام الہیٰ میں لکھا ہے کہ اگر تو اپنی زبان سے خدا خداوند یسوع کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لاوے کہ خدا نے اُسے  پھر کے جلایا تو تو نجات پاویگا۔  نامہ رومیونکو  ۱۰۔ باب ۹ آیت اسکے سارتھ مقابلہ  کرو۔ متی ۱۰ باب ۳۳  آیت۔  و لوقا ۱۲ باب۸ آیت و  اعمال  ۸ باب ۳۸ آیت۔  اور جب کوئی اُس  ایمان پر کھڑا ہوتا ہے تو  وہ گناہ اور نجات  سے غسل دلایا جاتا ہے اور روح القدس کے بخشے جانے  سے وہ نیا مخلوق بنایا جاتا ہے۔ جیسا کہ لکھ ہے کہ اُس نے ہم کو راستبازی  کے کاموں سے نہیں  جو ہم نے  کئے  بلکہ اپنی رحمت کے سبب بئے  جنم  کے غسل اور روح القدس  کے سرنوبنانے  کے سبب  بچایا۔ طیطو ۳ ۔ باب  ۵ ۔ آیتْ  اور صرف  یہہ لفظی  ایمان نہیں  جیسا کہ  لوگ سمجھتے ہیں بلکہ  جہاں ایمان کا زکر ہے  وہاں اُسکے ساتھ  متعلقات یعنے اُن فرائیض کا بھی زکر ہے جو اگر عمل میں نہ لائے جاویں تو ایمان کی غرض پوری نہیں ہوگی۔مسیحی ایمان پر قائم  ہو کے  گنہگار کو جسم کی  رو سے مرنا اور نئی  اور روحانی زندگی کی رو سے جینا ضرور  ہے۔ اور پرُانی چال کو چھوڑ کر نئے طور پر چلنا اور سراسر نیا مخلوق بن جاتا ہے۔اور اگر یہہ وصف مسیح کے شاگردوں میں نہ ہوں تو اُسمیں  ایمان مطلق نہیں  ہاں البتہ مردہ ایمان ہوگا جو صرف خالی بات ہے ۔ اور جسکا انجام کچھ بھی نہیں۔  کیونکہ ایمان بغیر  عمل کے مردہ ہے۔  یعقوب کا خط  ۱۱۔ باب ۱۹ اور ۲۰ آیت  ۲۔ خداوند یسوع مسیح  کی تعلیم گنہگار کے واسطے جو اُسپر ایمان  لاتا ہے یہہ ہے۔ اور اُسنے سب سے کہا کہ اگر کو ئی چاہے  کہ میرے پیچھے آوے تو اپنا انکار کرے اور اپنی صلیب ہر روز اُٹھا کے میری  پیروی  کرے۔ لوقا ۹ باب ۲۳ آیت و متی ۱۰ باب ۳۸ آیت اور مرقس ۸ باب  ۳۴ آیت اور لوقا ۱۴ باب ۲۷ آیتیں اس پیروی کرنے کے یہہ معنے ہیں کہ خداوند مسیح جیسی چال و چلن اور خواور خصلت اور نشت و برخاست اور بول و چال ہووے اور ہر ایک کام میں پاکیزگی اور دینداری پائی  جاوے اور خدا کا سچا پرستار بنے۔ اور پھر لکھا ہے کیونکہ ہم اُسکی کاری گری ہیں اور مسیح یسوع میں ہو کے اچھے کامونکےواسطے  پیدا ہوئے جنکے لئے خدا نے آگے  ہمیں تیار کیا تھا تا کہ  ہم اُنہیں کیا کریں۔  افسنیونکا ۲ ۔ باب ۱۰ آیت ان سب آیتوں  سے معلوم ہوتا ہے کہ  خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاکر اُسکی پیروی  کرنے میں کمال  دینداری  نیکو کاری اور پرہیزگاری  شامل ہے نہ کہ جیسا آجکل بعض خیال کرتے ہیں۔ لیکن اسمیں ایک بات ہے کہ یہہ پیروی  اُس شریعت  کی پیروی  سے بالکل  فرق ہے۔ شریعت کی پیروی میں کسی کی مدد اور یادری نہیں ملتی اور وہ سخت  غلامی ہے لیکن یہہ پیروی  مسیحی خود بخود نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے بلکہ  اسمیں اُسکے ساتھ ایک مدد گار ہے جو  قدم  بقدم  اُسکے ساتھ چلتا ہے اور اُسے خود اِن  سب عمدہ راہوں  میں لئے پھرتے  ہے  جنمیں  یہہ خود  ہر گز  چل نہیں سکتا۔ کیونکہ بے کس لاچار گنہگار کو جب کچھ  طاقت ہی نیکی کی نہیں  رہی تو  پھر  کس طرح  سے یہہ کچھ نیکی کر  سکے۔ یہہ بات  تو صاف ہے کہ انسان بے کس لاچار کیونکی  نفس  اَمارہ اسپر ایسا  غالب آیا ہوا ہے کہ نیکی کی راہ میں اُسے  چلنے سے ہر وقت روکتا ہے اور بدی کو نیکی کی  صورت میں دکھلا کر ہزارہاکو  کفر کے راستےپر لئے چلا جاتا ہے۔ تو پھر کس طرح  یہہ انسان  پُر ازنسیان  اس سے خودبخود  چھوٹ سکتا ہے بغیر کسی مدد کے دنیا  کے  کاموں  میں دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک آدمی  لاچارگی سے جھوٹ جاتا ہے اور اسطعح بیکس  دوسرے  کسی کی مدد  سے بیکسی سے رہائی  پاتا ہے تو کتنا زیادہ  یہہ پھر جس طرح یہہ خودبخود  اس خطرناک حالت سے بیخ نکلیگا ہر گز یہہ بات نہین ہو سکتی سوا کسی مددگار اور معاون کے کسیطرح اس کمبختی کیحالت سے چھوٹ  نہیں سکتا الغرض انسان ازخود لاچار گنہگار ہو کر اپنے اعمالوں  سے کسی صورت  سے بچ نہیں سکتا تاوقتیکہ  کوئی دوسرا دستیگری  نہ کرے اور کہے کہ مجھپروں  بھروسہ  رکھ میں تیری  مدد کرتا ہوں۔

اب اے ناظرین تو کس بات کو اختیار  کئے ہوئے ہے اعمال کی شریعت کو یا ایمان  کی شریعت  کو۔ لیکن اگر تو نے اعمال کی شریعت  کے بھروسے پر آج تک اپنی عمر کو گزارا ہے تو آج یہہ خیال کر کہ اعمال تجھ کو ضرور آخری دن جاوینگے تو ضرور بہت تھوڑے  بلکہ اندیشہ ہے کہ کچھ  بھی نہ نکلینگے اور تب وہ کمتی کی صورت سے تو پوری نہ کر سکیگا اب شفیع خداوند یسوع مسیح ایمان پر اپنے عمل تجھ کو دینے پر تیار  ہے اُن کے ساتھ تو البتہ عدالت روز محشر میں  عدل کے ترازو میں پورا نکل سکتا ہے ورنہ  بالکل نہیں۔

راقم بندہ جمیل سنگہ از کھنہ

Pages