پانچواں باب
اس کے کام کے حصے
ہمارے خداوند کا کام قریباً تین برس کے عرصے میں ختم ہوا اور ان میںسے ہر ایک سال اپنی اپنی خصوصیتیں رکھتا ہے۔ مثلاً پہلے سال اس کو بہت شہر ت حاصل نہ ہوئی ، اور چونکہ اس سال کے حالات مفصل قلمبند نہیں اور نیز وہ اس سال کے اندر رفتہ رفتہ لوگوں کے سامنے آیا ، لہذا ان دونوں باتوں کی وجہ سے ہم اس سال کو گمنامی کا سال کہیں گے۔ اس سال کا زیادہ حصہ یہودیہ میں صرف ہوا۔ دوسرے سال کو قبول عام کا سال کہہ سکتے ہیں۔ اس سال کے اندر اس کی شہرت تمام ملک میں پھیل گئی اور وہ شب و روز اپنے کام میں مصروف رہا ، یہاں تک کہ سب چھوٹے بڑے اس کے نام سے واقف ہو گئے۔ یہ سال گلیل میں صرف ہوا۔ تیسرے سال کو ہم مخالفت کا سال کہہ سکتے ہیں۔ اس سال کے دور میں عوام کی مہرو محبت کا فور ہو گئی۔ اور اس کے دشمن بڑے زور سے اس پر حملہ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ اسے جان سے مار ڈالا۔ اس آخر ی سال کے پہلے چھ مہینے گلیل میں صرف ہوئے اور باقی چھ مہینے ملک کے دیگر حصوں میں کٹے۔
جب ہم اس تقسیم پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمین معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خداوند کی زندگی اپنی ظاہر ی شکل کے اعتبار سے بڑے بڑے مصلحوں اور خیر خواہان بنی آدم کی زندگی سے بہت مشابہت رکھتی تھی۔ عموماً اس قسم کی زندگی ایسے وقت سے شروع ہوتی ہے۔ جبہ مصلح رفتہ رفتہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مائل کرنے لگتا ہے۔ اورپھر ایس زمانہ آتا ہے کہ اس کی تعلیم اور اصلاح شہرت کے وسیلہ سے ملک کے ہر کونے اور ہر گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔ اور آخر کار وہ دن آتے ہیں۔ جبکہ لوگوں کے تعصبات جن پر اس نے حملہ کیا تھا ازسر نو صف آرا ہوتے اور عوام کے جذبات کی تازہ جمعیت سے مسلح ہو کر اس پر ایسا حملہ کرتے ہیں۔ کہ اپنی نفرت کی دھن میں اسے چکنا چور کر ڈالتے ہیں۔
گمنامی کا سال
اس سال کی نسبت جو تحریری حالات ہم تک پہنچے ہیں وہ بہت ہی نامکمل ہیں مثلاً ان میں صرف دو یا تین واقعات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اور اس جگہ ان کا بیان انسب معلو م ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ مسیح کے آئندہ کام کی گویا ایک فہرست ہے۔
جب مسیح اپنی آزمائش کے چالیس دن پورے کر کے اور اپنے کام کی اس تجویز کو جو آزمائش کے وسیلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ اور اس تحریک کو جو بپتسمہ کے وقت سے اب تک اس کے سینہ میںجوش زن تھی۔ اپنے ساتھ لے کر بیابان سے واپس آیا تو ایک مرتبہ پھر یردن کے کنارے پر نمودار ہوا اور یوحنا نے گواہی دی۔ کہ یہی وہ میرا جانشین ہے جس کی بابت میں بار بار لوگوں کو خبر دے چکا ہوں۔ یوحنا نے اپنے کئی عمدہ شاگردوں سے اس کی ملاقات کر وائی اور انہوںنے اسی وقت سے اس کی پیروی اختیار کی۔ اغلب ہے کہ اس کے شاگردوں میں سے جو شخص سب سے پہلے مسیح سے دو چار ہوا، وہ یوحنا تھا۔ جو بعد میں مسیح کا سب سے پیارا شاگرد نکلا اور جس نے اس کی زندگی اور سیرت کی الٰہی تصو یر دنیا کے حوالے کی۔ یوحنا ہی نے اس پہلی ملاقات اور مکالمے کا بیان قلمبند کیا ہے۔ اور جو اثر مسیح کی عظمت اور پاکیزگی نے اس کے تایثر پذیروں پر ڈالا وہ اب تک تازگی کے ساتھ اس بیان سے مترشح ہے۔ دوسرے نوجوان جنہوں نے اسی وقت اس کی پیروی اختیار کی ، اندریاس ، پطرس، فیلبوس ، اور نتھایل تھے۔ یہ سبب نوجوان یوحنا بپتسمہ دینے والے کے وسیلے سے اس نئے استاد کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار کئے گئے اور گو انہوں نے اس موقعہ پر اپنے کام کاج کو ترک کرکے اس کی ایسی پیروی اختیار نہ کی جیسے کہ کچھ دن بعد کی تو بھی اس پہلی ملاقات میں ایسی تاثیریں ان پر طاری ہوئیں جو ان کی بعد کی زندگی کے لئے نئے سانچے کا کام کر گئیں۔ یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ آیا بپتسمہ دینے والے کے تمام شاگرد یکبار گی مسیح کے پیرو بن گئے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ جو سب سے اچھے تھے وہ ایک دم اس کے پیچھے ہولئے۔ تعبض مفسدوں نے بپتسمہ دینے والے کے دل میں بھی آتش حسد بھڑ کانی چاہی۔ چنانچہ اس نے کہا کہ ایک اور شخص تیری عزت اور مقدرت کی متاع کو لوٹ رہا ہے۔ لیکن وہ اس بزرگ آدمی کی خاصیت کو بخوبی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی اعلیٰ درجہ کی فرونتی ہی اس کی اعلیٰ درجہ کی بزرگی تھی۔ سو اس نے ان کو جواب دیا کہ میری خوشی یہی ہے۔ کہ میں گھٹوں ں اور وہ بڑھے اور بتایا کہ مسیح ہی وہ دلھا ہے۔ جو دلھن کو اپنے ساتھ بہشت میں لے جائے گا۔ میں تو فقط ضیافت کی خوشی کا تاج اسی کے سر پر سجا ہوا دیکھوں۔
اب یسوع اپنے ان نئے پیرووں کو ساتھ لے کر اور اس جگہ کو چھوڑ کر جہاں یوحنا کام کرتا تھا۔ شمال کی جانب قانائے گلیل کو روانہ ہواجہاں ایک شادی کی تقریب پر اسے جانا تھا کیونکہ وہاں جانے کے لئے اسے دعوت دی گئی تھی۔ وہاں اس نے پانی کو مے بنا کر اس معجزے کی قوت کو ظاہر کیا جو اسے دی گئی تھی۔ یہ معجزہ گویا اس کے جلال کا اظہار تھا۔ جو بالخصوص اس کے شاگردوں کے لئے جلوہ نما ہوا اور ہم پڑھتے ہیں کہ وہ اس وقت سے اس پر ایمان لائے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے اب پورے طور پر مان لیا ہے کہ یہی مسیح ہے علاوہ بریں اس معجزہ کا یہ بھی مقصد تھا۔ کہ وہ اس کے وسیلے سے اپنی خدمت کا اصل مطلب ظاہر کرے ،اور دکھائے کہ اس کا کام یوحنا بپتسمہ دینے والے کے کام سے بالکل مختلف ہے۔ یوحنا ایک گوشہ نشین اور صاحب ریاضت شخص تھا جو بنی آدم کی رہائش گاہوں اور مسکنوں سے قطع تعلق کرکے صحرا نشینی پسند کرتا تھا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحرا ہی میں اس نے اپنے سامعین کو جمع کیا لیکن مسیح کا یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کے گھروں میں خوشی کی خبرلائے۔ ہاں اسے ان کے عام کاروبار میں ان کے شامل حال ہو کر ان کے حالات کو خوشحالی کے نئے قالب میں ڈھالنا تھا۔ اور یہ تبدیلی گویا ایسی تھی جیسی کہ مے بنانے کی تبدیلی ہوتی ہے۔
اس معجزے کے بعد وہ عید فسح میں شامل ہونے کے بعد یہودیہ کو واپس آیا اور یہاں پہنچ کر ایک اور بھی زیادہ پُر تایثر ثبوت اس بشاش اور پر جوش طبیعت کا دیا جو ان دنوں اسے حاصل تھی یعنی ہیکل سے صرافوں اور اور بھیڑ بکری وغیرہ بیچنے والوں کو جنہوں نے اس کے صحن میں تجارت جاری کررکھی تھی۔ نکال کر اسے پاک صاف کیا۔ ان لوگوں کو اس ناجائز تجارت کی اجازت اس لئے دی گئی تھی۔ کہ اجنیوں کی ضرورتیں رفع کی جائیں۔ یعنی یہ سوداگر مسافروں کے پاس ایسے ذبیحوں کو فروخت کریں جو وہ غیر ملکوں سے اپنے ساتھ نہیں لا سکتے تھے اور نیز ان کو غیر ملکوں کے سکوں کے تبادلہ میںوہ یہودی سکے دیں۔جن میں انہیںہیکل کے نذرانے ادا کرنے پڑتے تھے۔لیکن جو کام بظاہر نیک صورت سے شروع کیا گیا تھا۔ وہ آخر کار عبادت میں ایک سخت رخنہ اندازی کا باعث اور نو مریدوں کوا س جگہ سے نکالنے کا موجب ہوا جو خدا نے انہیںاپنے گھر میں عطا کی تھی۔ یسوع نے اس شرم ناک حالت کو اپنے یروشلیم میں آنے کے موقع پر غالباً کئی بار غیرت کی نظر سے دیکھا ہو گا۔ مگر اب جبکہ وہ بپتسمہ پا کر نبیوں کی سی سرگرمی اور جوش سے معمور ہورہا تھا۔ اس نے علانیہ رواج پر حملہ کیا اور اس وقت بھی کچھ کچھ وہی شاہانہ دبدبہ اور الٰہی پاکیز گی اس کے چہر ے سے عیاں ہوئی ہو گی۔ جو اس وقت نمودار ہوئی تھی جبکہ وہ یوحنا سے بپتسمہ کا ملتجی ہوا اور وہ اس کی صورت کو دیکھ کر بالکل حیران سارہ گیاتھا۔ اس دبدبہ کے سبب سے اس نا ہنجار گروہ میں سے کسی نے اس کے برخلاف چوں تک نہ کی اور دیکھنے والوں نے اس کی صورت میں ان قدیم نبیوں کے آثار دیکھے جن کے سامنے کیا بادشاہ اور کیا غریب سب دم بخود ہو جاتے تھے۔اس کا یہ جعل گویا اس کے مصلحانہ کام کا آغاز تھا جس کا بیڑ ااس نے ان دینی خرابیوں کی اصلاح کے لئے اٹھایا تھا۔ جو اس وقت مروج تھیں۔
اس عید کے موقع پر اس نے کئی معجزے دکھائے جن سے ان اجنبیوں کے درمیان جو مختلف ملکوں سے اس شہر میں جمع ہو رہے تھے۔ اس کا چرچا پھیلا دیا ہو گا۔ ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس کے پاس ایک رات کو وہ عزت دار اور فکر کا شکار متلاشی آیا جس کے روبرو اس نے نئی بادشاہی کی خاصیت اور اس میں داخل ہونے کی شرائط پر وہ تقریر کی جو یوحنا کی انجیل کے تیسرے باب میں مرقوم ہے۔ قوم کے سرداروں میں سے ایک سردار کا کمال فروتنی کی روح سے اس کے پاس آنا گویا اس ی کامیابی کا ایک پرُ امید نشان تھا۔ لیکن نیکو دیمس ہی فقط اس زمرے میںسے تھا۔ جس پر مسیح کی قدرت کے ابتدائی اظہار نے دار الخلافہ میںگہرا اثر پیدا کیا۔
اس جگہ تک تو ہم مسیح کے کام کے شروع کا کسی قدر مفصل حال پاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد اس کے کام کے پہلے سال کا مفصل بیان یک بیک قطع ہو جاتا ہے۔ اور آئندہ آٹھ ماہ کی نسبت صرف اتنا پتہ ملتا ہے۔ کہ وہ یہودیہ میں بپتسمہ دیتا تھا۔ ”اگرچہ یسوع آپ نہیں بلکہ اس کے شاگرد بپتسمہ دیتے تھے“۔ اور یہ کہ وہ یوحنا کی نسبت زیادہ لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور شاگرد بناتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو کچھ ہمیں اس سال کے نسبت معلوم ہے وہ صرف چوتھی انجیل سے معلوم ہوا ہے۔ پہلی تین انجیلیں بالکل اس سا ل کے حالات کو بیان نہیں کرتیں۔ وہ گلیل کے کام سے شروع ہوتی ہےں۔ البتہ ان سے اتنا اشارہ ملتا ہے۔ کہ گلیل میں کام کرنے سے پہلے یہودیہ میں بھی اس نے کام کیا تھا۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ خاموشی کیوں اختیار کی گئی اور اس سال کے مفصل حالات کیوں درج نہیں کئے گئے ؟ اس کا جواب دینا ذرا مشکل کام ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوحنا جو یہاں تک واقعات کو بالتفصیل بیان کرتا آیا ہے آن آٹھ ماہ کے واقعات سے ناواقف نہ تھا۔ لہذا اس کی خاموشی کا کوئی اور ہی سبب ہو گا۔ مگر وہ کونسا سبب ہے ؟ شاید ہم اس مشکل کا حل کسی قدر یوحنا کے اس اشارہ میں پاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کےلئے مسیح نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا کام اختیار کیا یعنی وہ اپنے شاگردوں کے وسیلے سے بپتسمہ دیتا اور یوحنا سے بھی زیادہ شاگرد بنا تا رہا۔ اب کیا اس کایہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اس نے یہ جان کر کہ عید فسح کے موقع پر میرے اظہارات نے جو اثر پیدا کیا اس سے عیاں ہے کہ میری قوم ابھی مجھ کو مسیح سمجھ کر قبول کرنے کو تیار نہیں ؟ پس انسب ہے کہ جو کام تو بہ اور بپتسمہ کے وسیلے سے اس قوم کو تیار کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ وہ بھی جاری رہے؟ پس اس بات کو اپنے دل میں جگہ دے کر اس نے ایک مدت کے لئے اپنی اعلیٰ ذات اور عہدہ کو چھپایا اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ہم خدمت بننا مناسب سمجھا۔
پہلی تین انجیلوں میں جو خاموشی اس عرصہ کے متعلق پائی جاتی اور نیز اس بات کے متعلق کہ وہ اس کے بعد مسیح کے یروشلیم آنے کا حال بھی رقم نہیں کرتیں اس کی یہ شرح پیش کی جاتی ہے کہ مسیح پہلے یہودی قوم کے پاس آیا جس کے بااختیار پیشوا یروشلیم میں موجود تھے اور وہ وہی مسیح تھا جس کا وعدہ ان کے باپ دادوں سے کیا گیا اور جس میں ان کی تاریخ اپنے کمال کوپہنچنے والی تھیں اس میں شک نہیں کہ اس کا کام تمام دنیا میں پھیلنے کو تھا مگر ضرور تھا کہ وہ اسے یہودیوں سے شروع کرے لیکن اس قوم نے اپنے سرداروں کے وسیلے سے اسے رد کر دیا۔ لہذا وہ مجبور ہوا کہ اپنی جماعت کسی اور مرکز پر جمع کرے اور چونکہ یہ نکتہ اس وقت جبکہ اناجیل تحریر ہوئیں بخوبی صاف ہو گیا تھا۔ پس پہلے تین حواریوں نے اس کام کو نظر انداز کر دیا۔ جو قوم کے دارالخلافہ اور دیگر بڑی بڑی جگہوںمیں کیا گیا تھا کیونکہ اس سے کوئی بڑے نتائج پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اور اپنی توجہ اس زمانہ پر لگائی جبکہ اس نے ایمانداروں کی جماعت کو فراہم کیا تاکہ اپنی کلیسیاءکی بنیاد ڈالے۔ یہ خیا ل صحیح ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات میں شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ مسیح کے پہلے ہی سال کے کام کے آخر میں یہودیہ اور یروشلیم پر اس خوفناک واقعہ کا سایہ پڑگیا جو کچھ عرصہ کے بعد وجود میں آنے والا تھا یا یوں کہیں کہ اس بدترین قومی جرم کر سایہ پڑگیا جس کی مانند دنیا میں اور کوئی قبیح جرم سرزد نہیں ہو ااور وہ جرم یہ تھا۔ کہ یہودیوں نے اپنے مسیح کو رد کیا اور صلیب پر چڑھا یا۔