حیات المسیح

پہلا باب ۔ آمد آمد کی خبر

جہاں کو روشن کرنے والے سورج نے ابھی رات کی تاریکی کو اپنی کرنوں سے دور نہیں کیا تھا ۔ کہ ہیکل کے کار گذار اپنے اپنے کام میں مصروف ہونے کی تیاری کرنے لگے ۔ وہ اپنے دستور کے مطابق ہر صبح ایک مکان می جمع ہوا کرتے تھے۔ تاکہ ان میں سے ہر کاہن قرعہ کے وسیلے سے دن بھر کے لئے اپنی خاص خدمت پر مقرر کیا جائے ۔ یہ طریقہ اس واسطے اختیار کیاگیا تھا۔ کہ وہ حسد کی آگ سے محفوظ رہیں اور چھٹائی بڑائی کا خیال ان کی یگانگی میں رخنہ ڈالنے پائے۔ قرعہ چار مرتبہ ڈالا جاتا تھا۔ دو دفعہ ہیکل کا دروازہ کھلنے سے پیشتر اور دو دفعہ دروازہ کھلنے کے بعد، پہلا قرعہ ڈالنے کے وقت وہ آگ کا شعلہ اپنی روشنی دیا کرتا تھا۔ جو چراغ سحر ی کی طر ح مذبح پر جلتا ہوا اپنی کرنیں چاروں طرف پھیلاتا تھا۔ دوسرا قرعہ اس وقت ڈالا جا تا تھا۔ جبکہ صبح صادق رات کی تاریکی کا پردہ اٹھا کر اپنے جمال جہاں آراسے دنیا کو روشن کرتی تھی۔ اس موقع پر وہ لوگ اپنی اپنی خدمت پر مقرر ہوتے تھے۔ جو قربانی چڑھانے اور سونے کے شمعدان کے آراستہ کرنے اور بخور کے مذبح کے سنوارنے میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد برہ لایا جاتا تھا۔ تاکہ بڑے غور سے دیکھا جائے کہ آیا وہ قربانی کے لائق ہے۔ یا نہیں اور اگر اس میں ضروری صفتیں پائی جاتی تھیں ۔ تو اس پر سونے کے پیالے سے پانی ڈال کر اور اس کا منہ مغرب کی جانب کرکے اسے مذبح کے شمالی حصے پر باندھ کر رکھ دیتے تھے۔ اس پر راز طریقے کی نسبت یہ روایت جاتی تھی۔ کہ ابرہام نے بھی اضحاق کو اسی طرح قربان کرنے کے لئے باندھا تھا۔ د

اور پھر جب قربانی مذبح کے لئے تیا رکی جاتی تھی۔ تو اس عرصہ میں مقرری کاہن پاک جگہ کو آراستہ کر دیتے تھے۔ تاکہ وہاں بخور جلایا جائے جو کہ اسرائیل کی قبول کی ہوئی دعاو ں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس موقع پر تیسری دفعہ چٹھی ڈالی جاتی تھی اور اس کا یہ مقصد ہوتا تھا۔ کہ اس کے وسیلے سے وہ شحض چنا جائے جو بخور جلانے کی خدمت کو انجام دے ۔ یہ کام عمر بھی میں صرف ایک مرتبہ نصیب ہوا کرتا تھا۔ اس وقت تمام کاہن دعا مانگتے اور اپنے عقیدے کا اقرار کیا کرتے تھے۔ جس دن کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔ اس دن چٹھی ایک ایسے کاہن کے نام نکلی جو اس دنیا کے سفر کی کم ازکم ساٹھ منزلیں طے کر چکا تھا۔وہ زکریا ہ کاہن تھا۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے کبھی بخور جلانے کی خدمت کے لئے منتخب نہیں ہواتھا۔ تو بھی ہیکل کے خادم اس سے ناآشنا نہ تھے۔ کیونکہ کاہنوں کا ہر گروہ سال میں دو دفعہ ہییکل کی خدمات میں مصروف ہوا کرتا تھا۔اور کاہن لادیوں کی طرح بڑھاپے کے سبب سے معزول نہیں کئے جاتے تھے۔ پھر بھی کئی باتوں کے سبب سے اس مین اور دیگر کاہنوں میں بڑا فرقپایا جاتا تھا۔ مثلاً اس کا گھر ان بڑے بڑ ے شہروں میں نہ تھا۔ جو کاہنوں کی سکونت گاہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا تھا جو اس کی کوہستانی علاقے میں آباد تھے۔ جو یروشلیم کے جنوب میں واقع تھا۔مگر وہ ہر طرح سے عزت کے لائق تھا۔ کیونکہ اوّل تو کاہن ہونا ہی بڑے فخر کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ اور پھر جب کوئی کاہن کسی دوسرے کاہن کی لڑکی سے شادی کر لیتا تھا۔تواس کی عزت اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ لوقا ١:٥٨-٥٩-١-٦-٦٥-٦٦، سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ زکریاہ اپنے علاقہ میں نزدیک ودور خوب مشہور تھا۔ اس کے پڑوسی اس کے معاملات میں دلچسپی لیتے اور اس کے ساتھ کمال تعظیم سے پیش آتے تھے۔ وہ اور اس کی بیوی الیشبع ان احکام اور فرائض کے بجا لانے میں دل و جان سے کوشاں تھے۔ جن کا بجا لانا ان پر فرض تھا۔

لیکن زکریاہ لا ولد تھا۔ کیونکہ اس کی بیو ی بانجھ تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے اس معاملے میں کئی سال تک دست دعا دراز کیا ہو گا۔ اور الیشبع نے اپنی بے اولادی سے بار ہا غم کھا یا ہو گا۔ کیونکہ عورت کے رحم کا بند ہو نا ان دنوں بڑی بے حرمتی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ ہر خاتون یہ امید رکھتی تھی کہ شاید میرے ہی بطن سے مسیح پیداہو اور اسرائیل کی امیدیں برآئیں۔

لیکن اس وقت زکریا ہ کے دل میں اولاد کا خیال نہ تھا۔ بلکہ اس وعظیم خدمت کے خیال میں جو اس کے سپردکی گئی تھی محور ہو گا۔ اسے بخور جلانا تھا۔ او ر اس وقت وہ اسی کے دھیان میں مگن تھا۔ مگر بخور جلانے سے پہلے سے اپنے دوستوں یا عزیزوں میں سے دو اور شخصوں کو مد د کے لئے چننا تھا۔ ان میں سے ایک کا کام یہ تھا۔ کہ وہ بخور کے مذبح کو صاف کر کے یایو ں کہیں کہ گذشتہ شام سے جو کچھ مذبح پر بچ رہا تھا۔ اسے ہٹا کر اور سجدہ کرکے چلا جائے اور دوسرا سوختنی قربنی کے مذبح پر سے وہکتے ہوئے کوئلے لے کر ان کو بخور کے مذبح پر بچھا ئے اور پھر وہ بھی سجدہ کرکے نکل جائے۔

یہ دونوں شخص اپنا اپنا کام کرکے چلے گئے ۔ اب زکریاہ اکیلا سونے کا بخور د ان ہاتھ میں لئے پاک جگہ میں کھڑا تھا جو سات شاخوں والے شمعدان کی روشنی سے نورانی ہو رہی تھی۔ اس کے سامنے اور اس پردے کے پاس جو پاک ترین جگہ کے سامنے لٹک رہاتھا۔ سونے کا مذبح رکھا تھا۔ جس پر دہکتے ہوئے کوئلے چمک رہے تھے۔ اس کی دہنی طرف نذر کی روٹیوں کی میز پڑی تھی۔ اور اس کی بائیں جانب سونے کا شمعدان دھرا تھا۔ اب زکریاہ خاموش کھڑا اس اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔ جو یہ خبر دیا کر تا تھا۔ کہ مذبح پر بخور ڈالنے کا وقت آگیا ہے ۔ کاہن اور دیگر اشخاص مذبح سے الگ ہو کر اور اوندھے منہ گر کر چپ چاپ دعا مانگ رہے تھے۔ اور جب تک بخور کو آگ نہ لگی ، زکریاہ وہیں کھڑا رہا اور اگر ایک رویا اس پر ظاہر نہ ہوتی تو وہ بھی سجدہ کرکے نکل آتا مگر اس عجیب رویا کے سبب سے وہیں کھڑا رہا اور وہ رویا یہ تھی ۔ کہ اس نے سونے کے مذبح اور شمعدان کے درمیان ایک فرشتے کو دیکھا۔ آگے کبھی کسی کاہن کو بخور جلاتے وقت اس قسم کی رویا کا نظارہ نصیب نہیں ہواتھا۔ تو بھی جس وقت کوئی کاہن خدا کے حضور جایا کرتا تھا۔ تو لوگوں کے دل خوف سے کانپ اٹھتے تھے۔ اور اگر اس کے آنے میں ذرا دیرہو جاتی تھی۔ تو وہ اور بھی گھبرانے لگ جاتے تھے۔

زکریاہ یہ رویادیکھ کر ڈر گیا اور جب فرشتے نے اسے اس کی دعائیں اور امیدیں یاد دلائیں ، اور کہا کہ وہ اب پوری ہوں گی ۔ تو وہ حیرت کا پتلابن گیا ۔ اسے بتایا گیا کہ جو لڑکا اس کے ہاں پیدا ہوگا، اس کا نام یوحنا ، خدا مہربان ہے۔ رکھا جائے گا اور اس کے سبب سے نہ صرف ماں باپ بلکہ غیروں کے دل بھی شادمان ہوں گے۔ وہ خدا کے حضور میں بزرگ اور سمسن اور سیموایل کی طرح عمر بھر کے واسطے خدا کا نذیر ہو گا اور ماں کےپیت ہی سے الہی خدمت کے لئے مخصوص کیا جائےگا۔ وہ ایک طرح سے سمسون اور سیموایل سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ کیونکہ اس میں خدا کی قدرت بیرونی اور باطنی ہر دو صورت میں نمایاں ہو گی کیونکہ وہ اسی وقت سے جبکہ زندگی کا دم اس میں پھونکا جائے گا روح القدس سے بھر جائے گا۔

سمسمون کی طرح خدا کی قدرت سے مامور ہو کر ان درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھے گا۔ جن کی بیخ کنی خدا کو منظور ہے اور سیموایل کی طرح بہت سے بنی اسرائیل کو خدا کی طرف رجوع کرے گا اور یوں ان دونوں بزرگوں کی خوبیوں سے بہرہ و ر ہو کر جیسا کہ الیاس کو ہ کرمل پر ان سے مامور ہوا وہ بنوت کے مطابق الیاس کی طاقت کے ساتھ مسیح کے ظاہر ہونے سے پہلے نمودار ہو گا اور الیاس کے دوبارہ آنے کے علامتی معنوں کو پورا کرنے گا اور اس صورت میں یہ نیا الیاس خداوند کے لئے ایک گروہ تیار کرے گا۔

اب جس طرح وہ فرشتے کی شکل دیکھ کر دریائے حیرت میں ڈوب رہا تھا۔ اسی طرح اس کے الفاظ سن کر تعجب سے بھر گیا اور کچھ مدت تک ان کا مطلب سمجھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ البتہ ایک خیال جو مدت سے اس کے دل میں جا گز ین تھا۔اب پھر دل میں کھٹک رہا تھا۔ اور وہ بیٹے کا خیال تھا۔ وہ سوچتا تھاکہ اس بڑھاپے میں یہ کہاں ممکن ہے؟ پس اس کم اعتقادی کے باعث اس نے جو کچھ فرشتے سے سنا تھا۔ اس کا نشان مانگا، اس کو یہ نشان دیا گیا کہ وہ گونگاہو گیا پر چونکہ یہ نشان بے اعتقادی کی دعا کا نتیجہ تھا اس لئے اس اسے ایک طرح زکریاہ کی سزا سمجھنا چاہےے ۔ پر وہ ایک دوسرے معنی میں اس جماعت کے لئے جو ہیکل میں منتظر کھڑی تھی اور الیشبع کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو زکریاہ سے واقف تھے اور خود زکریاہ کاہن کے لئے بھی اسکی نوماہ کی تنہائی اور گوشہ نشینی میں ایک حقیقی نشان تھا۔ ہاں ایک ایسا نشان تھاجو اس وقت جب کہ اس کی زبان کھولی گئی آگ کے شعلے کی طرح چمک اٹھا۔ زکریاہ کو ہیکل میں معمول کے برخلاف زیادہ دیر لگی۔ لوگ دعا مانگ چکے تھے اور اب پاک جگہ کی طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آخر کار زکریاہ پاک جگہ سے باہر آیا اور ان سیڑھیوں پر کھڑا ہوا جو ہیکل کے اسارے سے کاہنوں کے صحن کی طرف جاتی تھیں۔ اور وہاں کاہنی برکت کے کلمات ادا کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ پہلے وہ برکت دی جاتی تھی۔ جو گنتی ٦:24-2٦، میں قلمبند ہے اور پھر نذر کی قربانی چڑھائی جاتی تھی۔ اور تپاون کے ساتھ حمد و ستائش کے مزا میر خوش آواز ی سے شروع کئے جاتے تھے۔ قربانیوں کے ٹکڑے مذبحے پر حسب ترتیب چنے گئے تھے۔ اور کاہن سیڑھیوں پر صف باندھے تھے ۔ نیز عابدوں کی جماعت منتظر کھڑی تھی ۔ زکریاہ بولنا چاہتا تھا ، پر بول نہیں سکتا تھا کیونکہ ابھی اس نے محسوس نہیں کیا تھا۔ کہ گویائی کی طاقت مجھ سے بالکل جاتی رہی ہے۔ لیکن لوگوں نے اسکی خاموشی سے جان لیا کہ اس نے ہیکل میں کوئی رویا دیکھی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کاہن اور دیگر اشخاص تتر پتر ہوگئے ۔ بعض عفل کو اور بعض یریحو کو اور بعض اپنے اپنے گاؤں کی طرف چلے گئے،مگر خدا نے اپنے وعدہ کو جو فرشتے کے وسیلے سے کیا تھا۔ وقت معینہ پر پورا کیا۔

اب الیشبع کو حاملہ ہوئے قریباً پانچ ماہ گذر گئے تھے۔ کہ ایک اجنبی قاصد اس کی رشتہ دار مریم کے پاس جو ملک گلیل میں رہا کرتی تھی۔ ایک عجیب پیغام کے ساتھ آیا ۔ وہ قاصد جبرئیل تھا۔ اس وقت وہ سونے کے مذبح اور شمعدان کے درمیان جہاں شوکت اور جلال بڑی سنجیدگی سے اپنا جلوہ دکھاتے تھے ۔ نمودار نہ ہوا بلکہ شہر ناصرت میں ایک غریب شخص کی جھونپڑی میں ظاہر ہوا۔ اس غیر معمولی نظارے کو دیکھ کر مریم پر خوف چھا گیا ہوگا پر وہ اس عجیب قاصد کی صورت سے اس قدر متحیر نہیں ہوئی جس قدر اس کلام سے جو اس قاصد کے منہ سے نکلا ، اور جس کے وسیلے سے ایسی بے نظیر برکت کی خبر اس کو دی گئی جو کبھی اس کے خواب و خیال میں نہ آئی تھی ۔ ”سلام تجھ کو “ البتہ یہ الفاظ تو کچھ غیر معمولی نہ تھے کیونکہ سلام کرتے وقت عموماً یہی الفاظ استعمال کئے جاتے تھے۔ اور نہ کوئی ایسی عجیب بات الفاظ ”خداوند تیر ے ساتھ ہے“ سے ظاہر ہوتی تھی کیونکہ اس سے ان چھٹکاروں کا سماں جو زمانہ ماضی میں فرشتے کی امداد سے وقوع میں آئے تھے۔ آنکھوں میں پھر جاتا تھا۔ مگر یہ کہنا کہ خدا کی طرف تجھ پر فضل ہوا ہے ۔ کسی بہت ہی بڑی نعمت کی خبر دیتا تھا۔ اور اسی خیال نے اسے حیرانی میں ڈال دیا پر یہ حیرت غالباً اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ اپنے افلاس کو دیکھ کر یہ کہتی تھی۔ کہ مجھ ایسی بے بس و بے کس کو کب ایسی برکت مل سکتی ہے ۔ بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی ذاتی اور اندرونی غریبی کو فروتنی سے محسوس کر رہی تھی۔ جب وہ اس حیرت افزاءکلام کو جو فضل الٰہی کا پتہ دیتا تھا۔ سن کر حیران ہوئی تو فرشتے نے اس فضل کی تفصیل بیان کی اور بتایا کہ وہ کس طرح حاملہ ہو گی ۔ اور اس لڑکے کا نام جو اس سے پیدا ہو گا کیا رکھا جائے گا اور کہ وہ نام کس طرح اس کے کام پر دلالت کریگا۔ فرشتے نے اس کی لا محدود عظمت کو بھی اس پر ظاہر کیااور بتایا کہ وہ خدا بیٹا کہلائے گا اور اس میں وہ امید برآئے گی جس کا وعدہ[١] ، داؤد کے ساتھ کیاگیا تھا یعنی اُس میں داؤد کے خاندان کی بادشاہی ہمیشہ تک قائم رہیگی اوراُس کی کوئی انتہا نہ ہوگی ، یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس کو تسلیم کرنا ناممکن ہوتا کیونکہ جو لوگ اسرائیل کی عظیم اُمید کے برآنے کی راہ دیکھ رہے تھے وہ اُسی قسم کے نادر اظہار کےمنتظر تھے، اورنہ نام کے پیش ازقت بتلائے جانے میں کوئی انہونی بات پائی جاتی تھی کیونکہ مریم جانتی تھی کہ کئی بزرگوں کا نام اُن کی پیدائش سے پہلے بتلایا گیا ہے اوراُسی طرح مسیح موعود کا نام بھی پہلے ہی سے بتلایا جائےگا۔ اُس کے دل میں بے اعتقادی کی روح نہ تھی۔ وہ خدا کے وعدوں کوسچا جانتی تھی اوراگر اُس نے فرشتے سے سوال کیا تواس خیال سے کہ وہ اپنے آپ کو ہیچ اورناچیز سمجھتی تھی اور چاہتی تھی کہ اس کو زیادہ ہدایت کی جائے کہ وہ کس طرح سے پورے طور پر اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں سونپ دے۔ فرشتے نے خدا کی برکت کے وعدہ کاباقی حصہ بھی اُس پر ظاہر کیا اور روح القدس کے نازل ہونے اوراُس پر سایہ کرنے کی بشارت اُس کودی۔ یہ بات اُس کے لئے غیر مانوس نہ تھی کیونکہ یہودی اُس بات کےقائل تھے کہ بڑے بڑے واقعات میں روح القدس کاکام کرتاہے گویہ ممکن ہے کہ وہ اُس کے تشخص کے بھید کوپورے طورپر نہیں سمجھتے تھے، پر وہ یہ بھی مانتے تھے کہ روح القدس کی مدد اور طاقت صرف بزرگوں اوراہل علم وفضل کوحاصل ہوتی ہے، پھر جبرئیل نے اس فضل کاجومریم ہونے والا تھا اُس کو یہ نشان دیا کہ جو کچھ خدا نے اپنی رحمت سے الیشبع کے حق میں کیاتھا وہ سب کچھ اُس کوخود بخود بتادیا۔

یہ نشان ایک طورپر اُس کے لئے رہنمائی کاکام کرگیا یعنی شروع ہی سے اُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ بڑھتا گیا کہ میں اُس عورت کےپاس جاؤں جوہر بات میں میرے ساتھ طبیعت اور مزاج میں روحانی یگانگی رکھتی ہے اوراُسے اپنا حال سناکر اپنے دل کو ٹھنڈا کروں اوراُس سے برکت آمیز کلمات سنوں۔ پس اُس کا اٹھنا اورجلدی سے اپنے رشتہ دار کے پاس جانا بہت موزوں تھا۔

الیشبع نے اُس کنواری ماں کو بڑے تپاک سے قبول کیا ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ الیشبع نے وہ تمام باتیں جو اُس کے بیٹے کی پیدائش اوراُس کے کام سے علاقہ رکھتی تھیں اپنے شوہر سے معلوم کی ہونگی۔ پس وہ جانتی تھی کہ مسیح اب آنے والا ہے کیونکہ یوحنا جس کی خبر زکریاہ کو دی گئی تھی اُس کا پیش رو تھا ، پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کب آئے گا اور کس کے گھر پیدا ہوگا لیکن جونہی اُس نے مریم کے سلام آواز سنی ، بچہ اُس کے پیٹ میں اچھل پڑا۔ بچہ کا پیٹ میں اچھلنا ایک نشان تھا جس سے سب یہودی خوب واقف تھے اورجب یہ نشان وجود میں آیا تو الیشبع نے فوراً پہچان لیا کہ یہی مریم جو میرے نزدیکی رشتہ داروں میں سے ہے خداوند کی ماں ہے ، وہ روح القدس سے بھر گئی اور بآواز بلند بول اٹھی " تو عورتوں میں مبارک اور تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہو"۔ یہ وہ دعائے خیر تھی جو بچوں والیاں بچوں والیوں کو دیاکرتی تھیں اور یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ راستہ تیار کرنے والے کی ماں اُس کی ماں کو جس کے لئے راستہ تیار کیا جانا تھا دعا دیتی تھی۔

تین ماہ تک مریم الیشبع کے یہاں رہی مگر جب الیشبع کے د ن نزدیک آئے تو اس نے دیکھا کہ اب الیشبع کے پڑوسی اور رشتہ دار اس کے پاس آئیں گے اور اس کی خوشی میں شامل ہوں گے مگر ایسے مجمعومیں حاضر ہونا میرے لئے زیبا نہیں ،اگر چہ وہ خوب جانتی تھی کہ جوکچھ میرے ساتھ ہو اہے اس کا کیا مطلب ہے تو بھی جب اس نے یوسف کے پاس اس ماجرے کا ذکر کیا ہو گا تو یہ تذکرہ اس کے لئے گویا اس تلوارکا پہلا زخم ہو ا ہوگا جس کی نبوت شمعون نے بعد میں اس طرح کی ”بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھد جائے گی اور ہم دیکھتے ہیں کہ یوسف کے دل سے اس وقت تک بد گمانی دور نہ ہوئی جب تک خدا نے اس کو نہ بتایا کہ جو مریم کے رحم میں ہے وہ روح القدس سے ہے ۔اس آگاہی سے پہلے وہ حیران و پریشان نظر آتا تھا اور کبھی مریم کو چھوڑ دینے کا ارادہ کرتا تھا مگر اس کے پورا کرنے میں لجلدی بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔ کبھی کہتا تھا کہ اگر اس سے قطع تعلق کرنا چاہوں تو مجھے دستور کے مطابق طلاق دنیی پڑے گی اوراگر مجھے ایسا کرنا ہی پڑا توچپکے سے دو گواہوں کے سامنے طلاق نامہ اس کے حوا لہ کردوں گا ، لیکن اس کو دنیا کی انگشت نمائی کا نشانہ بناوں گا ۔ جس طریقہ سے وہ الہٰی ارادوںسے آگا ہ کیا گیا اس کی امید اس کو مطلق نہ تھی ۔ چنانچہ خواب کے وسیلے سے خدا نے اس کو ساری باتیں بتا دی ۔ اس کے بعد تمام شکوک کا غبار یک بارگی اسکے دل سے دور ہوا گیا ۔ کیونکہ جب یہ آواز اس کے کان میں آئی ”ائے یوسف ابن داود “تو و فرشتہ کے پیغام کے لئے تیار ہو گیا اور پھر جب مسیح کا نام پیشتر سے بتایا گیا تو اس نے اس خبر کو بھی خیالات مروجہ کے عین مطابق پایا اور پھر یسوع نام کی یہ تشریح کہ وہ اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچائے گا ، مسیح موعود کے اصل کا م پر دلالت کرتی ہوئی معلوم ہوئی اور چونکہ یہ خبر اس کو خواب میں ملی تھی لہذا اس نے اسے بے تامل قبول کر لیا ۔تین چیزیں تھیں جو کہ خدا کی خاص رحمت کا نشان سمجھی جاتی تھیں اور ان میں سے ایک اچھا خواب تھا ۔ اب جب اس خواب کے وسیلے سے یوسف کے دل کی تمام کدورت دور ہو گئی اور اس نے محسوس کیا کہ پیدا ہونے والے یسوع اور اس کی کنواری ماں کے متعلق اب میرا فرض یہ ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے میں مریم سے نکا ح کر لو ں جس سے نہ صرف ظاہری نیک نامی بنی رہے گی بلکہ ہم دونوں کی اخلاقی محافظت بھی ہو گی ۔

اسی اثنا میں زکریا ہ کے گھر میں وہ عجیب واقعہ ہو ا جس کی راہ مدت سے دیکھی جارہی تھی یعنی یوحنا پیدا ہو ا ۔ یہودی خاندانوں میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور سب سے زیادہ خوشی کا موقع وہ ہو تا تھا جبکہ لڑکے کا ختنہ کیا جاتا تھا ۔ اس رسم کے وسیلے سے شریعت کا جوا بچے کے کندھے پر آپڑتا تھا اور وہ ان تمام فرائض کا ذمہ داراور حقوق کا مستحق ٹھہرتا تھا جس پر یہ ضابطہ دلالت کرتا تھا ۔ راوایت تھی کہ جب یہ رسم وقوع میں آتی ہے تو باپ سردار کا ہن کی جگہ لے کر خو د اپنے بچے کو خدا کے حضور شکر گزاری اور محبت کی راہ سے نذر کرتاہے ۔یوحنا کا ختنہ حسب معمول آٹھویں دن کیا گیا اور جب نام رکھنے کا وقت آیا تو زکریا ہ اور الیشبع کے دوستوں اور عزیزوں نے اس کو اس کا باپ کا نام دنیا چاہا ۔اس موقع پر لڑکے کی ماں نے کہا کہ اس کا نام زکریا ہ نہیں بلکہ یوحنا رکھا جائے گا ۔

واضح ہو کہ ختنے سے پہلے کلمات دعائیہ استعمال کئے جاتے تھے اور جب ختنہ ہو چکا ہو چکا چکتا تھا تو پھر مے کے پیالے پر برکت مانگی جاتی تھی اور دعا کے ساتھ لڑکے کا نام رکھا جاتا تھا اورجو دعا اس وقت مانگی گئی وہ کچھ اسی قسم کی ہوگی جو اب بھی یہودیوں میں مانگی جاتی ہے ”ہمارا خدا اور ہمارے باپ دادوں کا خدااس بچے کو اس کواس کے باپ کے لئے برپا کرئے اور وہ اسرائیل میں زکریا ہ ابن زکریاہ کہلائے ۔زکریاہ اس وقت خاموش بیٹھا تھا کیونکہ بول نہیں سکتا تھا پر وہ اس نشان کو پورا ہوتے دیکھ رہا تھا جو ہیکل میں اس کو دیا گیا تھا اور جب اس سے لڑکے کے نام کی بابت پوچھا گیا تو اس نے بھی تختی منگا کر وہی نام بتایا جوا لیشبع نے بتا یا تھا ۔ اس بات کودیکھکر حاضرین متعجب ہو ئے ، مگر اس ست بھی زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ اسی دم اس کی زبان کھل گئی اور وہ بولنے اور خدا کی حمد کرنے لگا ۔

ہیکل میں اس کے الفاظ سے بے اعتقادی پائی جاتی تھی مگر اب جب اس کی زبان کھلی تو وہ حمد و توصیف کے گیت گانے لگا اور جوکلمات اب اس کی زبان سے برآمد ہوئے وہ یقین اور ایمان سے معمور تھے ۔ ان باتوں کو دیکھ کر آس پاس کے رہنےوالوں پر دہشت چھا گئی اور یہودیہ کے تمام ملک میں ان باتوں کا چرچا پھیل گیا اور سب سننے والوں نے دل میں سوچ کر کہا ،۔

”پھر یہ لڑکا کیسا ہونے والا ہے“


[١] جو لوگ مسیحی نہیں وہ مسیح کے مجسم ہونے اور اس دنیا میں معجزانہ طور پر آنے سے ہمیشہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور چونکہ ہمیں امید ہے کہ کتاب حیات المسیح ہمارے داو ¿د کے ساتھ کیا گیا تھا یعنی اس میں داؤد کے خاندان کی بادشاہی ہمیشہ تک قائم رہیگی ۔ اور اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی، یہ کوئی ایسی بات نہ تھی۔ ہندو بھائیوں اور مسلمان دوستوں کے مطالعہ سے بھی گذرے گی لہذا ہم ان کے لئے چند سطور اس امر پر تحریر کرنا چاہتے ہیں۔ گو ایک ایسی لائف آف کراسٹ میں جس کا مقصد فقط یہ ہے کہ خداوند مسیح کی انسانی زندگی کے واقعات کو ترتیب وقت کے مطابق ناظرین کے سامنے رکھے تاکہ وہ اس کے مطالعہ سے فائدہ اٹھائیں۔ اس قسم کی بحث کے لئے جگہ نہیں ، پر ہم مختصر طور پر چند خیالات ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ مفصل بحث کے لئے جرمنی کے مشہور عالم نیا نڈر صاحب کی ”لائف آف کراسٹ کا ملاحظہ کرنا چاہےے جو سٹراس وغیرہ معترضوں کے جواب میں تحریر کی گئی ہے“۔

اگر ہم مسیح کی پیدائش اور تجسم کے اصل مقصدکو سمجھ لیں جو یہ تھا کہ بنی انسان میں اخلاقی تبدیلی پیدا ہوا اور بنی آدم کی ترقی کا ایک نیا سلسلہ جاری ہو تو خدا کا مجسم ہونا اور معجزانہ طور پر اس دنیا میں آنا خلاف عقل معلوم نہ ہوگا۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح کی انسانی زندگی تاریخی واقعات کے سلسلہ میں منسلک ہے بلکہ ہم یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ تمام تاریخ منشائے الٰہی کے مطابق اس طورپر مرتب کی گئی تھی۔ کہ یہ عجیب و غریب واقعہ جب سر زد ہوا اس وقت اس میں اپنی مقرر ی جگہ لے۔ تاہم یاد رکھنا چاہےے کہ یہ عدم المثل واقعہ دنیوی تاریخ میں سے پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ ایک اعلیٰ عنصر ہے جو دنیا کی اصلاح اور درستی کے لئے ہے۔

وہ اوپر سے داخل ہوا جو شے انسان کے فطر ی سلسلہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ ضرور ہے کہ انسانیت کے نفض اور خرابیوں سے بھی حصہ لے اور اس پر اس کے عیوب کی مہر لگی ہوئی ہو۔ پس یہ نا ممکن ہے کہ وہ شخص جو انسانیت کی ایک نئی نسل پیدا کرنے کو مقرر ہوا ہے اور جو دوسرا آدم بننے والا ہے۔ وہ خود انہی گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو جن سے نجات سے دینے کے لئے وہ نمودار ہواہے۔ پس اگر ہم مسیح کو بنی آدم میںسے ایک عام آدمی نہ سمجھیں بلکہ ایک نئی نسل کا بانی تصور کریں تو اس کا تجسم نا ممکن معلوم نہ ہوگا ۔ یہ عقل کی گواہی ہے اور جب ہم حقیقی واقعات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو خیال ہم کوعقلاً صحیح معلوم ہوتاہے۔ اس کے وقوع میں آنے پر تاریخ بھی گواہی دیتی ہے مثلاً متی اور لوقا کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ خداوند مسیح پیدائش کے معمولی قواعد کے مطابق اس دنیا میںنہیں آیا ۔ اب جو لوگ اس توار یخی گواہی کو ردکرتے ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ دو دعووؤں میں سے ایک دعولےٰ کو اختیار کریں ۔ایک یہ ہے کہ متی اور لوقا کا بیان بالکل بناوٹی ہے اور دوسرا یہ کہ کوئی نہ کوئی بات اس کی جڑیں ضرور ہو گی پر جس پر مسیحی مورخوں نے مسیح کے معجزانہ طور پر پیدا ہونے کا دعویٰ قائم کر لیا۔

جو لوگ پہلا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب مسیح کے شاگردوں نے اس کی نادر سیرت اور اس کی عجیب تعلیم کو دیکھا اور سنا تو اس کے بعد اس فکر میں میں لگے کہ اس کی پیدائش کا ایک ایسا فوق العادت بیان تجویز کریں جو اس کی عظمت کے شایاں ہو مگر یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ وہ عبارتیں جو اس بیان کو پیش کرتی ہیں۔ بالکل سادہ اور ہر طرح کے تصنع سے پاک ہیں اور پھر یوسف کی پریشانی اور اس کی دلی حالت کا وہ نقشہ جو متی کے بیان میں پایا جاتا ہے۔ اس خیال کا سخت مخالف ہے وہ نقشہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ اس وقت کھنچا جاتا ہے جب انسانی غیرت مشتعل ہوتی ہے۔

اور دوسرا دعویٰ کرنے والے لوگ کوئی اصلی واقعہ جس کی بناءپر انجیلی بیان رقم کیا گیا پیش نہیں کر سکتے ۔ بجز اس کے جو ایک گندے اور ناقص خیال پر مبنی ہے اور جس سے دینی خیالات کی جڑ کٹتی اور الٰہی پرور گار ی کی بیخ کنی ہو جاتی ہے ۔ علاوہ بریں اس قسم کی بناوٹ یہودیوں میں نہ پیدا ہو سکتی تھی۔ اور نہ ان کے درمیان رواج پا سکتی تھی۔ اگر ہنددوؤں کے درمیان اس قسم کی کہانی گھڑی جاتی توناممکن نہ تھا۔ لیکن پھر بھی طرز بیان کی وہ صورت نہ ہوتی جو کہ ہم انجیلوں میں پاتے ہیں۔ ہندو طرز اپنی مصنوعی خاصیت کو فوراً ظاہر کر دیتی ہے۔ مگر یہودیوں کے درمیان اس قسم کی کہانی کا دخل پانا بالکل ناممکن تھا۔ مثلاً و حدت الٰہی کی تعلیم جس کے وہ دل و جان سے پابند تھے اس کی مانع تھی پھر یہودی بیاہ کے بیاہ کے رشتہ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ اور عورت کے تنہا رہنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے نہ وہ مسیح کی الوہیت کو بخوبی سمجھتے تھے۔ پس یہ تمام باتیں مانع تھیں ۔ کہ اس قسم کی کوئی بات یہودیوں کے وہم سے پیدا ہو یا ان کے قلم سے نکلے تاوقتیکہ فی الحقیقت واقع نہ ہوئی ہو۔

اور نہ اضحاق اور سمسون اور سموئیل کی نظریں پیش کرکے یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ مسیح کی پیدائش کا حال بھی کچھ کچھ ان بزرگوں کی پیدائش کے حال کی مانند ہو گا یا ان کی پیدا ئش کے بیان نے انجیل نویسوں کے ذہن کو ایک نئے بیان کے اختراع کرنے میں مدد دی کیونکہ یہودی تاریخ میں ان بزرگوں کی تاریخ کا حال بالکل مختلف صورت رکھتا ہے۔ ان کی مائیں بانجھ تھیں مگر مریم بانجھ نہ تھی اور نہ ان بزرگوں کی پیدائش ان کو قانون قدرت سے مستثنیٰ ٹھہراتی ۔

بعض دفعہ یہ اعتراض کیا جاتاہے ۔ کہ اگروہ معجزانہ طور پر پیدا ہوا تھا۔ تو اس کے نزدیکی رشتہ دار اس پر ایمان کیوں نہ لائے ۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ تعجب نہیں کہ شروع میں اس کے تمام رشتہ دار اس واقعہ کو برحق سمجھ کر اس سے بڑ ی بڑی باتوں کی امید رکھتے ہو ں گے۔ مگر چونکہ تیس برس کا عرصہ گذر گیا اور انہوں نے کوئی عجائبات اس سے نہ دیکھے اور جب وہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے لگا تو اس وقت بھی وہ ایس مسیح ثابت نہ ہوا جیسا وہ اپنے ذہن میں سمجھے بیٹھے تھے تو انہوں نے اس کو قبول نہ کیا مگر اس کی ماں اس کی فو ق العادت پیدا ئش کے سبب اس پر ایمان رکھتی تھی اور یہ اس موقعہ سے بخوبی ثابت ہے جبکہ اس نے قانائے گلیل میں اس سے معجزہ دکھانے کی درخواست کی حالانکہ اب تک اس نے کو ئی معجزہ نہ دکھایا تھا ۔ اگر و ہ اس کی معجزانہ قدرت کی قائل نہ ہوتی تو کبھی ایسی درخواست نہ کرتی ۔واضح ہو کہ اس معجزے کے لئے مریم کی درخواست کا ذکر وہ انجیل نویس کرتا ہے جو اس کے معجزانہ طور پر پیداہوانے کا مطلق ذکر نہیں کرتا ۔

اسی جگہ ایک اور بات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ معترض یہ بھی کہا کرتے ہں کہ یوحنا نے اس کی غیر معمولی پیدائش کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ اس کے جواب میں پہلے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس رسول کواپنی انجیل میں یہ دکھانامنظو ر تھا کہ مسیح جو مجسم ہو کر اس دنیا میں آیا اس کی انسانی زاندگی میں کوئی کس طرح باپ کے اکلوتے کا جلال ظاہر ہوا ۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی انجیل میں کو ئی بات نہیں پائی جاتی جو اس واقعہ کے بر خلاف ہو بلکہ اشارے ملتے ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں مثلاًوہ تعلیم جو کلمے کے متعلق اس کی انجیل میں پائی جاتی ہے کہ یوحنا اس کی معجزانہ پیدائش کا قائل ہے اور پھر ہم لدیکھتے ہیں کہ اسی کی انجیل میں مسیح یہ کہتا ہے کہ ”جو جسم سے پیدا ہواہے وہ جسم ہے “۔

پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسیح کے روبرواس کے مخالف کہا کرتے تھے ”کیا یہ یوسف اور مریم کا بیٹا نہیں “؟اس بات کوسن کر مسیح نےاپنے فوق العادت پیدائش کا دعوے کیوں نہ کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے دعووں کا ثبوت میں ایک ایسا واقعہ پیش نہیںکرنا چاہتا تھا جو گزر چکا تھا اور جس کا ثابت کرنا مشکل بلکہ نا ممکن تھا ۔ پس وہ اس واقعہ کی طرف اشارہکرنے کی جگہ یہ بہتر سمجتا تھا کہ ’لوگ اس کے کامو ں اور اس کی تعلیم سے جن کو وہ دیکھنے سے جن کو وہ دیکھنے اور سنتے تھے قائل کئے جائیں پس وہ ایک ایسے واقعہ کاحوالہ نہیں دینا چاہتا تھا جس کو وہ دیکھ نہیں سکتے تھے ۔

پھر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اکثر غیر قوموں لہ میتھیالوجی (علم الاصنام )سے نظریں ڈھونڈلاتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ ان قصوں نے انجیل نویسوں کو مسیح کی معجزانہ پیدائش کا حال گھڑنے میں مدد دی ہوگی ۔

ہم اوپر دکھا چکے ہیں کہ اس قسم کے قصہ کہانیاں یہودی دماغ میں راہ نہیں ؛پا سکتے سکتے تھے پر ہم یہا ں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ میتھولاجیکل اور انجیل بیان میںجو مشابہت پائی جاتی ہے اس کے اصل حل تک پہنچنے کے لئے اس رشتے پر غور کرنا چاہیے کہ جو کہ متھیالوجی کے نیچرل مذہب اور انجیلوں کے الہامی اور تواریخی مذہب میں پایا جاتا ہے ۔ متھیالوجی میں دیوتاوں کے بیٹوں اور ان کے پیدا ہو نے کا خیال اور اس ادراک سے پیدا ہوتا ہے جوبت پرستی کی بطالت سے ناقص ہوجاتا ہے۔مگر ساتھ ہی اس خیال کا بھی محکوم ہو تا ہے پر انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہی خیال تواریخی صداقت پر مبنی اور سادگی سے ملبس ہے اور بڑی وضاحت اور صفائی کے ساتھ اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے ۔

اب جو بات بت پرست قصوں کی تہ میں نہاں ہے وہ یہ ہے کہ انسان میںایک زبردست خواہش پائی جاتی ہے جسے وہ اپنی روح سے جدا نہیں کر سکتا وہ خدا کی صحبت اور اس کے وصل کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اس کی روح اور خدا کے بابین جو بعد پاجا تا ہے و ہ دور ہو جائے اور ایسا اتصال ذات الہٰی کے ساتھ حاصل ہو کر اس کی زندگی بالکل تبدیل ہو جائے ۔ مسیحی مذہب انسانیت کے اور الوہیت کا ایسا میل مسیح میں دکھاتا ہے اب اگر اس حقیقت کے اشتیاق میں پرانے مذہبوں نے وہ قصے اور کہانیاں گھڑلیں جو انجیل بیان کے ساتھ نہایت ہی خفیف سی مشابہت رکھتی ہیں تو کچھ تعجب نہیں ۔

پر یہ بات یاد رکھنے کے قائل ہے کہ انجیلوں کے بیان اور پرانے بت پرست مذاہب کے بیان میں بڑافرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بت پرست مذاہب کے بیان خدا کے ساتھ نیچرل اسباب کو بھی عجیب واقعات کے برپا کرنے میں شامل کرتے ہیں اور یوں وہ طری طاقتوں کو خدا کا ہم پلہ بنا دیتے ہیں اور اسی لئے ان کی شرح بھی نیچرل اصول کی بنا پر ہو سکتی ہے مگر مسیحی مذہب جب مسیح کی معجزانہ پیدائش کا ذکر کرتا ہے تو نیچرل اسباب کو دخل نہیں دیتا بلکہ سب کچھ براہ راست خدا کی مرضی اورقدرت سے منسو ب کرتا ہے ۔