۲۷
مرحلہ نمبر ١: خدا کا پچھلا پروگرام
خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٤٣ )

خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٤٣ )۔

چند منٹ پہلے میرے لیپ ٹاپ کی بیٹری تقریباً ختم ہو گئ تھی۔ لیکن اب اُس میں نئی زندگی بھری جا رہی ہے۔ اُس کے مرنے کے عمل کا رُخ کیسے موڑ دیا گیا ہے؟

مَیں نے اُس کا پلگ بجلی کے ساکٹ میں لگا دیا ہے۔ لیپ ٹاپ، موبائل فون یا ٹارچ ہو، ایسے سب آلات کی بیٹریاں یا سیل مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں یعنی اُن کی طاقت کم  ہوتی رہتی ہے اور بالکل  ختم ہو جاتی ہے۔ پھر اُنہیں کسی اعلی' منبع یا سرچشمہ سے دوبارہ چارج کرنا پڑتا ہے۔

آدم کی اولاد بھی اِن مرتی ہوئ بیٹریوں کی مانند ہے۔ ہم اُسی لمحے مرنا شروع ہو گۓ تھے جب ماں کے پیٹ میں پڑے تھے۔

گناہ کی لعنت کا رُخ پلٹنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

ہم سفر کا آخری حصہ شروع کرنے کو ہیں۔ اِس موقع پر مَیں آپ کو ایک فرانسیسی شخص کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کو مستقبل کے بارے میں کوئی اُمید نہ تھی۔ اُس کا حال بھی اُن بیٹریوں جیسا تھا جن کا چارج ختم ہو رہا ہو— جو لمحہ بہ لمحہ مر رہی ہوں۔

مصیبت زدہ   (Le Misérable)

چھبیس سالہ برونو سے میری ملاقات مارچ ١٩٨٧ ء میں ہوئ۔

چند سالوں سے یہ جوان زندگی کے مقصد پر غور کر رہا تھا۔ وہ باطن میں خالی محسوس کرتا تھا۔ اِس خالی پن کو نہ تو اُس کی رومن کیتھولک گھرانے میں پرورش اور نہ دنیاوی خوشیاں پُر کر سکی تھیں۔

لڑکپن میں برونو نے دیکھا کہ جو لوگ مجھے خدا کے بارے میں سکھاتے ہیں وہ خود اُن باتوں پر عمل نہیں کرتے جن کی منادی کرتے ہیں۔ اُسے دنیا میں ہر طرف ناانصافی اور حق تلفی دکھائی دیتی تھی۔ نوعمر بچے اکثر باغی ہوتے ہیں۔ برونو اُٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ اب اُس کا واحد مقصد یہ تھا کہ ہفتہ کے آخری دو دنوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، شراب خانوں میں جانا، شراب پینا اور نشہ میں دُھت ہو کر اپنے دکھوں کو بھول جانا۔ اُنہی دنوں اُس کی محبوبہ کار کے حادثے میں جاں بحق ہو گئی۔ برونو کا دردِ  دل اَور بڑھ گیا۔ اب وہ سارا غصہ خدا پر اُتارتا تھا۔

برونو نے بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔ اُس کا خیال تھا کہ وہاں کے بہت سے مذاہب میں سے شاید کسی مذہب میں زندگی کے معنی اور مقصد کا پتا چل جاۓ۔ خشکی کے راستے نہایت مشکل سفر کے بعد ہندوستان کے ایک بہت گنجان آباد شہر میں پہنچا۔ اُس شہر میں اِنتہا کا مذہبی جوش و خروش تھا مگر انسانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ برونو کے اپنے الفاظ میں — ”مَیں نے لوگ دیکھے، جو مذہبی جوش اور ایمان کے باوجود مجھ سے بھی زیادہ مصیبت زدہ اور خستہ حال تھے۔“

ہندوستان میں تقریباً ایک سال رہنے کے بعد برونو اِس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مجھ پر قطعی اور حتمی سچائی کا انکشاف ہو سکتا ہے تو صرف خدا ہی اِسے منکشف کرے گا۔ اور اُس نے اپنے خالق سے یہ سادہ سی دعا مانگی— ”اگر تُو موجود ہے تو اپنے آپ کو مجھ پر ظاہر کر!“

ایک دن برونو کلکتہ کی سڑکوں پر  گشت کر رہا تھا کہ اُس کی نظر ایک دکان پر پڑی جہاں ”بائبل ہاؤس“ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اُسے کچھ تحریک ہوئی اور وہ دکان میں داخل ہو گیا اور وہاں موجود آدمی سے پوچھا ”کیا آپ کے پاس فرانسیسی زبان میں بائبل ہے؟“ اُن کے پاس ایک جلد تھی۔

اُس نے وہ بائبل مقدس خرید لی اور پڑھنے لگا۔

بہت سی باتوں پر اُسے حیرانی ہوئی۔ مثال کے طور پر وہ دس حکموں میں سے پہلے اور دوسرے حکم سے بہت متاثر ہوا جن میں خدا کہتا ہے کہ ”میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا ۔۔۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا“ (خروج ٢٠ : ٣۔ ٥)۔ مگر برونو کو اپنے اِرد گرد مندر نظر آ رہے تھے جہاں لوگ بتوں کو سجدے کر رہے تھے اور اُن کی عبادت کر رہے تھے۔ اور جب اُس نے اُس مذہب کے بارے میں سوچا جس میں اُس کی پرورش ہوئ تھی تو اُسے احساس ہوا کہ وہ مذہبی یا دیندار لوگ بھی جنہیں مَیں جانتا ہوں خدا کے حکموں کی نافرمانی کرتے ہیں کہ مقدسہ مریم کے بُت اور دوسرے مقدسین کے بتوں کے سامنے جھکتے اور سجدے کرتے ہیں۔

برونو اِس آیت سے بھی بہت متاثر ہوا ”شریعت کی یہ کتاب تیرے منہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اِسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو احتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اقبال مندی کی راہ نصیب ہو گی اور تُو خوب کامیاب ہو گا“ (یشوع ١: ٨)۔

وہ قائل ہو گیا کہ جس سچائی کی مجھے تلاش ہے وہ صرف بائبل مقدس میں مل سکتی ہے۔ برونو  ہندوستان سے روانہ ہو کر واپس فرانس آ گیا، مگر بائبل مقدس کو پڑھنے کے بجاۓ اُسے الماری میں رکھ دیا اور پھر کام کرنے اور دوستوں کے ساتھ پارٹیاں کرنے میں لگ گیا۔ لیکن اِس طرزِ زندگی سے اُسے تلخی اور دل میں ایک خلا کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

چار سال گزر گئے۔

ایک دن برونو اپنی بے مقصد اور بے معنی زندگی پر سوچ رہا تھا کہ اُسے بائبل مقدس کی ایک آیت یاد آئی جس میں خدا وعدہ کرتا ہے ”۔۔۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور پاؤ گے جب پورے دل سے میرے طالب ہو گے“ (یرمیاہ ٢٩ : ١٣)۔ برونو نے دعا مانگی کہ ”اے خدا! ٹھیک ہے، مَیں پورے دل سے تیرا طالب ہوں گا۔ پورے دل سے تجھے ڈھونڈوں گا اور دیکھوں گا کہ تیرا وعدہ سچا ہے یا نہیں۔“

اپنے گھر کے ماحول اور اثر سے دُور رہنے کی خاطر برونو نے پھر سفر کی ٹھانی۔ اِس دفعہ وہ افریقہ چلا گیا۔ وہ خشکی کے راستے سفر کے دوران بائبل مقدس پڑھتا اور دعا کرتا رہا ”اے خدا، مجھے اپنی سچائ کی راہ پر لے چل اور جھوٹ سے بچاۓ رکھ۔“ صحراۓ اعظم کو پار کرنے کے بعد وہ شمالی سینیگال میں پہنچا۔ اُس نے پہلی رات اُسی شہر میں بسر کی جہاں مَیں اور میرا خاندان رہتے تھے۔

اگلی صبح برونو شہر میں گھومنے پھرنے کو نکلا۔ کلکتہ کی طرح یہاں بھی ایک دروازے پر لگے ہوۓ بورڈ نے اُسے متوجہ کر لیا۔ اُس پر لکھا تھا

Ecutez! Car L'eternel Dieu A Parle!

(”سنو! خداوند خدا نے فرمایا ہے!“)

وہ اندر داخل ہوا۔

یہ میرا دفتر تھا۔ مَیں نے کام سے نظر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک گھنی داڑھی والا آدمی کھڑا تھا۔ ہاتھ میں نیلے رنگ کی چھوٹی سی، خوب استعمال شدہ کتاب تھی — وہ بائبل مقدس تھی جو اُس نے بھارت میں خریدی تھی۔ اُس کا پہلا سوال آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے:

”آپ کون ہیں — کیتھولک یا پروٹسٹنٹ؟“

مَیں نے جواب دیا ” مَیں صرف ایک مسیحی ہوں— مسیح کا پیرو۔“ برونو اِس جواب سے حیران ہوا اور خوش بھی ہوا کیونکہ اُس نے بائبل مقدس پڑھتے ہوۓ دیکھا تھا کہ یہ کیتھولک یا پروٹسٹنٹ کا کوئی ذکر نہیں کرتی۔ البتہ مسیحیوں کا، مسیح پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر کرتی ہے۔ بعد میں برونو نے مجھے بتایا کہ اگر مَیں جواب دیتا کہ ” مَیں کیتھولک ہوں“ یا ”مَیں پروٹسٹنٹ ہوں“ تو اُلٹے قدموں واپس چلا جاتا۔ وہ مذہب پرستی سے تنگ آ چکا تھا۔ وہ صرف سچائی کا متلاشی اور خواہاں تھا۔ اگلے چند دنوں کے دوران برونو نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ جاری رکھی۔ مَیں اُسے بائبل مقدس میں خدا کے جوابوں کی طرف متوجہ کرتا تھا۔ سفر پر روانہ ہونے سے ایک دن پہلے (اُس نے جنوبی افریقہ جانے کا انتظام کر رکھا تھا) مَیں نے اُسے چیلنج کیا ”بائبل مقدس کو دوبارہ پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا نے آپ کے لئے کیا کیا ہے۔“

چھے ہفتوں بعد ہمیں برونو کی چٹھی موصول ہوئ۔ اُس نے لکھا تھا کہ مَیں نے مچھیروں کے ایک نزدیکی گاؤں میں ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا ہے۔ اور مَیں نے پوری بائبل مقدس پڑھ لی ہے اور پرانے عہدنامے اور نۓ عہدنامے کا موازنہ کرتا رہا ہوں۔

اُسے پوری کتابِ مقدس میں مسیح ہی نظر آیا تھا۔

برونو کے اپنے الفاظ میں — ”ایک رات جب مَیں باہر اکیلا تھا تو یسوع کا یہ وعدہ پوری قوت سے میرے دل میں آیا 'اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوۓ لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دوں گا' (متی ١١: ٢٨ )۔ مَیں نے اپنی زندگی پر، زندگی کی ساری ناکامیوں، تلخی اور  پشیمانیوں پر نظر ڈالی تو میرے دل میں سخت کش مکش ہونے لگی۔ مَیں جانتا تھا کہ اگر مَیں یسوع کی پیروی کرتا ہوں تو مَیں اپنی خواہشوں اور مشاغل کو پورا نہیں کر سکتا۔ مَیں ایسا آزاد نہیں رہ سکتا— آخرکار مَیں نے ہار مان لی۔ خدا نے میری آنکھیں کھولیں۔ مَیں نے یقین کیا اور ایمان لے آیا کہ مسیح نے میری خاطر صلیب پر خون بہایا اور میری خاطر پھر جی اُٹھا۔ میری روح اور میرے دل میں اطمینان کا گویا سیلاب اُمڈ آیا۔ مَیں رونے لگا اور آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ گناہ کا بھاری بوجھ جاتا رہا تھا۔ اور برونو نے مزید لکھا تھا:

”مختصر یہ کہ مَیں نۓ سرے سے پیدا ہوا ہوں۔“

برونو کو جس چیز کی تلاش تھی وہ اُسے مل گئی تھی یعنی — پاک صاف دل اور ضمیر، اپنے خالق کے ساتھ تعلق اور رفاقت اور ہمیشہ کی زندگی۔ اب اُس کی سمجھ میں آ گیا کہ مَیں اِس دنیا میں کیوں آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔

اُس کی تلاش ختم ہو گئی۔

بائبل مقدس کہتی ہے:

”۔۔۔ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو، وہ نئی ہو گئیں“ (٢۔کرنتھیوں ٥: ١٧ )۔

برونو کی زندگی فوراً بدلنے لگی — چھوٹی اور بڑی تبدیلیاں آتی گئیں۔ وہ گیارہ برس کی عمر سے سگریٹ نوشی کر رہا تھا۔ خداوند نے اُسے اِس عادت سے رہائی دی۔ اُس کی حال مست، نشہ باز اور بدکردار زندگی اب ماضی کی شرم ناک یاد بن کر رہ گئی۔ اب پاک صحائف اُس کی سمجھ میں آنے لگے اور دعا ایسا فطری عمل بن گئی جیسے سانس لیںا۔

میری اور برونو کی پہلی ملاقات سے اب تک بیس سال ہو گۓ، مگر ہم ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ آج کل ”نیا“ برونو فرانس میں رہتا ہے۔ وہ اور اُس کی بیوی خدا کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے چار بچوں کو خداوند کے عرفان اور فضل میں پروان چڑھا رہے ہیں۔

کیا اِس کا مطلب ہے کہ برونو کی زندگی کش مکش، درد اور دُکھوں سے آزاد ہو گئی ہے؟ نہیں۔ اُسے اور اُس کے خاندان کو آج بھی آزمائشوں اور امتحانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب وہ اکیلے نہیں ہیں۔

خداوند خود اُن کے ساتھ ہے!

خدا کا تین مرحلوں کا پروگرام

شاید کوئی شخص سوچتا ہو کہ ”ذرا  ٹھہرو۔ اگر یسوع نے ہماری خاطر شیطان، گناہ اور موت کو شکست دے دی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو ، جن میں مسیح پر ایمان رکھنے والے بھی شامل ہیں، کئی طریقوں سے محنت، کوشش اور جدوجہد کرنے پڑتی ہے؟ ہماری دنیا میں بُرائی اور لڑائ جھگڑے کیوں ہیں؟ خدا نے جس رہائی اور کاملیت کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہے؟“

اِس کا جواب اِس حقیقت میں ہے کہ خدا نے انسانی تاریخ میں مداخلت کرنے کا جو منصوبہ قدیم سے بنایا تھا اُس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ : خدا اپنے لوگوں کو گناہ کی سزا سے رہائی دے گا۔

دوسرا مرحلہ: خدا اپنے لوگوں کو گناہ کے اختیار سے رہائی دے گا۔

تیسرا مرحلہ: خدا اپنے لوگوں کو گناہ کی موجودگی سے رہائی دے گا۔

نئے عہدنامے کا یہ حوالہ اِس پروگرام کے تیںوں مرحلوں کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ اِس پروگرام میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں شامل ہیں۔

”اُسی (یعنی خدا) نے ہم کو ایسی بڑی ہلاکت سے چھڑایا (مرحلہ نمبر ١) اور چھڑاۓ گا (مرحلہ نمبر ٢ ) اور ہم کو اُس سے یہ اُمید ہے کہ آگے کو بھی چھڑاتا رہے گا( مرحلہ نمبر ٣)“ (٢۔کرنتھیوں ١: ١٠ )۔

ہم پاک کلام میں سے ہو کر گزرنے کے اپنے باقی کے سفر میں اِس پروگرام کے تینوں مرحلوں پر غور کریں گے جن سے خدا شیطان، گناہ اور موت کے اثرات کو ہمیشہ کے لئے باطل اور ختم کر دے گا۔ ہمارے سفر کا بالکل آخری حصہ غیر معمولی طور پر خوش منظر اور قابلِ دید ہو گا کیونکہ اِس میں ہم بہشت کی ایک جھلک دیکھیں گے۔

لعنت کو منسوخ کرنا: مرحلہ نمبر ١

آدم اور حوا نے شیطان کی بات مانی تو  وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ دوستی اور رفاقت کے حق سے محروم ہو گئے اور اپنے اور اپنی ساری نسل پر گناہ کی لعنت لے آۓ۔ اصل اور کامل دنیا یک دم  بدل گئی اور ایسی جگہ بن گئی جہاں انسان اپنے آپ کو اپنے طریقے سے خدا سے چھپانے  کی کوشش کرتا ہے۔ رنج و غم، دکھ درد، بیماریاں، بدشکلی، افلاس اور بھوک، اُداسی اور کش مکش، بڑھاپا اور موت اِس دنیا کی خصوصیات بن گئیں۔

گناہ کے باعث لعنت آئی۔ لیکن خدا کے وعدے کے مطابق مقررہ وقت پر خدا کا ازلی بیٹا عورت کی نسل بن کر آسمان سے زمین پر آ گیا تاکہ آدم کی نسل کو شیطان، گناہ اور موت سے چھڑا لے۔

”اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کۓ۔ وہ اُس کے جلال کا  پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دھو کر عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا“ (عبرانیوں ١: ١۔ ٣)۔

خداوند یسوع کی ذات میں گناہ نہیں تھا۔

اُس نے مخلوقات کی ایک ایک چیز پر، ایک ایک عضو پر اپںا کامل اختیار دکھایا۔ اپنے منہ کے ایک لفظ سے یا اپنے ہاتھ سے ایک دفعہ چھو کر اُس نے بدروحوں کو بھگا دیا، اندھی آنکھوں کو بینائی دی، کوڑھیوں کو پاک صاف کیا اور مُردوں کو زندہ کیا۔ وہ پانی پر چلا، طوفانوں کو تھما دیا، روٹیوں کو بڑھا کر بھوکوں کو سیر کیا۔ اُس نے گناہ معاف کیا اور دکھی دلوں کو دلاسا اور اطمینان بخشا۔

اور پھر اُس نے وہ کام کیا جو کرنے آیا تھا۔

اُس نے اپنے باپ کے جلال کی خاطر، پاک صحیفوں کو پورا کرنے کی خاطر اور جو اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن کی مخلصی کی خاطر دُکھ اُٹھایا، مر گیا اور پھر زندہ ہوا۔

”مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے تاکہ مسیح یسوع میں ابرہام کی برکت غیر قوموں تک بھی پہنچے اور ہم ایمان کے وسیلہ سے اُس روح کو حاصل کریں جس کا وعدہ ہوا ہے“ (گلتیوں ٣: ١٣ ۔١٤ ؛ استثنا ٢١: ٢٣ )۔

کسی نہ کسی طرح بائبل مقدس کا ہر حصہ اِن تینوں میں سے کسی ایک موضوع سے ضرور تعلق رکھتا ہے:

١۔ جو کچھ خدا نے کیا ہے۔

٢۔ جو کچھ خدا کر رہا ہے۔

٣۔ جو کچھ خدا آئندہ کرے گا۔

علمِ الہیات کی اصطلاحات میں اِن تینوں کو یوں بیان کیا جاتا ہے:

١۔ تصدیق: صادق ٹھہرانا، راست باز ٹھہرانا، جب آپ انجیل پر ایمان لاتے ہیں تو خدا آپ کو کامل راست باز ٹھہراتا ہے، آپ کو کامل راست باز کا درجہ دیتا ہے (رومیوں ابواب ٣۔ ٥ )۔

٢۔ تقدیس: مقدس ٹھہرانا، پاک ٹھہراںا، آپ ایمان لے آتے ہیں تو خدا آپ کی مدد کرتا ہے کہ اپنے کاموں (اعمال) میں راست زندگی گزاریں۔

٣۔ تجلیل: جلال دینا، فردوس میں آپ اپنی حیثیت اور عمل دونوں میں کامل راست باز ہوں گے (مکاشفہ باب ٢١ اور ٢٢ )۔

حیرت انگیز فضل

شریعت کامل فرماں برداری کا تقاضا کرتی ہے۔ یسوع نے شریعت کے نافرمانوں کو ”شریعت کی لعنت سے چھڑایا“۔ اور اِس مقصد کی خاطر وہ ”ہمارے لئے لعنتی بنا“ (گلتیوں ٣: ١٣ )۔ یسوع نے وہ سزا خوشی سے برداشت کی جس کے ہم حق دار تھے تاکہ ہمیں ابدی سزا سے چھڑا لے۔

جب یسوع صلیب پر دُکھ اُٹھا رہا تھا تو اُس نے عملاً اپنا مقصد ظاہر کیا یعنی گناہ کی لعنت کو پلٹ دیا۔

یسوع کو دو ڈاکوؤں کے درمیان صلیب دی گئی تھی جنہیں بغاوت، چوری اور قتل کے جرم میں سزا ہوئ تھی۔ آئیے ہم صلیب پر لٹکے ہوۓ اِن دو گنہگاروں اور خداوند کی گفتگو سنیں۔ شروع میں تو دونوں ڈاکو بھی ”یسوع پر لعن طعن کرتے تھے“ (متی ٢٧ : ٤٤ )، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد اُن میں سے ایک ڈاکو نے توبہ کر لی۔

”پھر جو بدکار صلیب پر لٹکاۓ گۓ تھے اُن میں سے ایک اُسے یوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسیح نہیں ؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔ مگر دوسرے نے اُسے جھڑک کر جواب دیا کہ کیا تُو خدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرفتار ہے؟ اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئ بے جا کام نہیں کیا۔ پھر اُس نے کہا اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آۓ تو مجھے یاد کرنا۔ اُس نے اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٣٩ ۔ ٤٣ )۔

یہ دو باغی مرنے اور جہنم میں جانے کو تھے۔ پھر اِن آخری گھڑیوں میں اُن میں سے ایک نے خدا کے سامنے اپنے گناہ کا اِقرار کیا اور بے گناہ نجات دہندہ پر ایمان لے آیا اور اُس پر توکل کیا جو درمیان والی صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔

یسوع نے اُس کے ساتھ وعدہ کر لیا:

”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔“

اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کے لۓ تیار کۓ گئے جہنم میں ابدیت گزارنے کے بجاۓ یہ تائب  اور معافی یافتہ باغی ڈاکو ابدیت اپنے خالق اور فدیہ دینے والے کے ساتھ گزارے گا۔

کیسی بڑی تبدیلی ہے!

وہ خدا کے برّے پر ایمان لایا جو اُس وقت گناہ کی سزا برداشت کرنے کے لئے اپنا خون بہا رہا تھا۔ اِسی ایمان کی بنیاد پر خدا نے اپنی کتاب سے اُس کے گناہ مٹا دیئے۔ یسوع کی راست بازی اُس کے کھاتے میں لکھ دی اور اُس کا نام برّے کی کتابِ حیات میں درج کر دیا جس میں اُن سب کے نام لکھے ہوۓ ہیں جنہوں نے ایمان کے وسیلے سے معافی، راست بازی اور ابدی زندگی حاصل کی ہے۔

اِس بے بس گنہگار کے لئے گناہ کی لعنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔

کیا قاتلوں کو معافی مل سکتی ہے؟

ایک استفسار کرنے والے کی طرف سے یہ ای میل موصول ہوئ:

ای میل

”آپ کہتے ہیں کہ یسوع (علیہ السلام) ہمارے گناہوں کی خاطر ہمارے عوض مرا۔ مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ اِس بیان کی روشنی میں آپ 'عدل' کی کیا تشریح کریں گے؟ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں نے ساری عمر جتنے بھی گناہ اور غلط کام کئے ہیں مجھے اُن کا حساب نہیں دینا پڑے گا؟ مجھے اُن کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاۓ گا؟ جو قاتل اِس دنیا میں یہاں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے بچ گیا اور اُسے سزا نہیں ملی اُسے اگلے جہان میں بھی بری کر دیا جاۓ گا کیونکہ یسوع نے اُس کے گناہوں کی قیمت ادا کر دی ہے؟۔۔۔ مَیں تو یہ نظریہ قبول نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم سب کو ہدایت نصیب ہو!“

کیا گنہگاروں کے عوض یسوع کی صلیب پر موت ”عدل“ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ کیا خدا قاتل کو بھی معاف کر سکتا ہے؟ آیئے پہلے ہم آخری سوال پر توجہ دیں اور  اِس سلسلے میں چند ”قاتلوں“ کی گواہیاں دیکھیں جن کو معافی ملی اور جن کی زندگیاں بدل گئیں۔

آدم خور

ڈان رچرڈسن بائبل مقدس کے مترجم اور علم البشر کے ماہر ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”دنیا کے سردار“ (Lords of the Earth ) میں یالی لوگوں کا بیان کرتے ہیں۔ یہ اِرئین یایا، انڈونیشیا کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والے نہایت بے رحم اور وحشی لوگ ہیں۔ صدیوں سے وہ آس پاس کے علاقوں اور دیہات سے اپنے دشمنوں کو پکڑتے، اُنہیں اذیتیں دیتے اور — ہاں ۔۔۔ کھا جاتے تھے۔ خوف اور انتقام اُن کی زندگی کا ”معمول“ تھے۔

پھر انجیل کا پیغام اُن تک پہنچا۔

یالی اور پڑوسی قبیلوں نے مسیح کے وسیلے سے گناہ کی معافی اور نئی زندگی کی خوش خبری سنی۔ بہت سے لوگ ایمان لے آۓ۔ اُن کی سوچ اور زندگی کے انداز بدل گۓ۔ نئی پیدائش سے وہ خدا کے فرزند بن گۓ تو اُن کے ”معمول“ کا معیار بھی بدل گیا۔ جو پہلے ایک دوسرے سے ڈرتے اور عداوت رکھتے تھے اب وہ بھائی بن گۓ۔ اُنہوں نے یالی دیہات کو ملانے کے لئے بہتر راستے بناۓ۔

یہ سابق قاتل آج اُن لوگوں سے محبت اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں جو اُنہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ خدا کے روح نے اُن کے دلوں کو تبدیل کر دیا ہے اور سکھایا ہے کہ ”ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کۓ تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو“ (افسیوں ٤: ٣٢ )۔

ایک نہایت مایوس لڑکی

سنگاپور میں ایما (Emma) کی پرورش ایک کٹر مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔ ماں باپ کی طلاق اور  خاندان میں لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر ایما نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس کی عمر سولہ برس تھی۔ اُس نے اپنے دس منزلہ مکان کی بالکنی سے کود جانے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن یہ اِقدام کرنے سے ذرا پہلے وہ جس خدا کو جانتی نہیں تھی اُس کے سامنے غصے اور مایوسی سے چلائی، ”اگر تُو واقعی ہے تو کسی طرح مجھے بتا۔“

وہ بالکنی میں جانے کے لئے سیڑھیاں اُتر رہی تھی تو ایک سیڑھی پر بائبل مقدس پڑی نظر آئی۔ ایما نے وہ بائبل مقدس اُٹھائی اور جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور کھولی تو یہ الفاظ سامنے تھے:

”خداوند میرا چوپان ہے، مجھے کمی نہ ہو گی۔ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے، بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو مَیں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔ تُو  میرے دشمنوں کے رُوبرو میرے آگے دسترخوان بچھاتا ہے۔ تُو نے میرے سر پر تیل ملا ہے۔ میرا پیالہ لبریز ہوتا ہے۔ یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی۔اور مَیں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔“ (زبور  ٢٣ )

ایما نے یہ زبور پڑھا تو اُسے خدا کی حقیقت اور اُس کی محبت کا گہرا احساس ہوا۔ اور اِس کے جلد ہی بعد ایما خداوند یسوع پر توکل کرنے لگی جس نے فرمایا ہے کہ ”اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ١١ )۔

وہ اُس کی ”بھیڑ“ بن گئی۔

اب ایما کے دل سے خود کشی کا خیال نکل گیا۔ اب وہ خوش باش بیوی اور پانچ بچوں کی ماں ہے۔ اب اُسے دوسروں کی مدد کرنے کا شوق اور جوش ہے۔ اُسے مسیح میں خدا کی باافراط محبت مل گئی ہے۔

جب مَیں نے ایما کو یہ تحریر بھیجی کہ اُسے چیک کرے کہ سب واقعات بالکل درست ہیں تو اُس نے ای۔ میل سے جواب میں خدا کی محبت کے بارے میں الفاظ بڑے حروف میں لکھ بھیجے۔ (اُردو میں بڑے حروف نہیں ہیں۔ جس بات کو نمایاں کرنا ہو وہ جلی حروف میں لکھی جاتی ہے)۔  دنیا بھر میں عورتوں کو دباؤ اور چیلنجوں کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایما کو خداوند کی حیرت انگیز محبت اور نگہبانی میں ہر روز طاقت اور خوشی ملتی رہتی ہے۔

ایک تند مزاج آدمی

اور آخری ترسیس کے ساؤل پر غور کریں۔ وہ نہایت دین دار (مذہب پرست) اور مذہب کے معاملے میں بہت جوشیلا آدمی تھا اور خدا کے نام سے لوگوں کو قتل کرتا تھا۔

ساؤل مسیح کے زمانے میں ایشیاۓ کوچک (موجودہ ترکی) کے شہر ترسیس میں پیدا ہوا۔ ساؤل یسوع کو مسایاح اور خدا کا بیٹا نہیں مانتا تھا۔ یسوع کے آسمان پر چلے جانے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہودیوں کی صدر عدالت (ہائ کورٹ) نے ساؤل کو اجازت نامہ دیا کہ یسوع کے پیروؤں کو گرفتار کرے، عدالت میں پیش کرے اور مروا ڈالے۔ اُس کو یقین تھا کہ جو یہودی یسوع پر ایمان لاۓ ہیں اُنہیں قید کرنے، کوڑے لگانے اور قتل کرنے  سے مَیں خدا کی خدمت کر رہا ہوں۔ لیکن ایک دن اُس کو کیا واقعہ پیش آیا؟ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہودی مسیحیوں کو گرفتار کرنے کے مشن پر جا رہا تھا۔

”جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ یکایک آسمان سے ایک نور اُس کے گردا گرد آ چمکا اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اے ساؤل! اے ساؤل! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ اُس نے پوچھا اے خداوند! تُو کون ہے؟ اُس نے کہا مَیں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔ پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لۓ مشکل ہے، — مگر اُٹھ، شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جاۓ گا“ (اعمال ٩:٣ ۔ ٦ ؛ ٢٦ : ١٤)۔

اور ساؤل نے حیرت سے کانپتے ہوۓ پوچھا کہ ”اے خداوند! کیا کروں؟“ (اعمال ٢٢: ١٠ — مزید دیکھئے اعمال ٢٦ :٩ ۔ ١١ ؛ ٧: ٥٨ ۔ ٦٠ ؛ ٨: ١۔ ٣ ؛ ١:٩، ٢)۔

خدا کے بارے میں ساؤل کا نقطہ نظر بالکل بدل گیا۔ وہ پرانے عہدنامے کے صحیفوں کا عالم تھا۔ اب اُس کی سمجھ میں آیا کہ یسوع ہی مسایاح ہے جس کی بابت سارے ںبیوں نے لکھا ہے۔

زبردست مخالف زبردست حامی بن گیا (اعمال ٩: ١۔ ٣١۔ مزید دیکھئے اعمال ابواب ١١، ١٣ ، ١٤ ؛ ١٦ ۔٢٨ )۔ اعمال باب ٢٢ اور ٢٦ میں پولس اپنی تبدیلی کا واقعہ بیان کرتا ہے— مزید دیکھئے گلتیوں ١: ١٣ ، ٢٣ ؛ فلپیوں ٣:٦ ؛ ١۔کرنتھیوں ١٥ : ٦۔ ٨ ۔

ساؤل (معنی بڑا) نے اپنا نام بدل کر پولس (معنی چھوٹا) رکھ لیا۔ وہ گواہی دیتا ہے:

”اگرچہ مَیں پہلے کفر بکنے والا اور ستانے والا اور بے عزت کرنے والا تھا تو بھی مجھ پر رحم ہوا اِس واسطےکہ مَیں نے بے ایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کۓ تھے، اور ہمارے خداوند کا فضل اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوع میں ہے بہت زیادہ ہوا۔ یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کے لۓ دنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا مَیں ہوں“ (١۔تیمتھیس١: ١٣۔ ١٥ )۔

مسیح کی خصوصیت

کیا خدا گنہگاروں کو بھی معاف اور تبدیل کر سکتا ہے؟

اِرئین کے آدم خوروں، سنگاپور کی ایما اور ترسیس کے ساؤل کے ساتھ بالکل یہی ہوا ہے۔ یسوع کی قریبی صلیب پر لٹکے ہوۓ تائب قاتل کے ساتھ یہی ہوا۔ اور آج ساری دنیا میں — قیدخانوں کے اندر اور باہر — گنہگاروں کے ساتھ بھی جب وہ خدا کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں یہی ہو رہا ہے۔

بدترین اور ”بہترین“ گنہگاروں کے دلوں کو تبدیل کرنا اور مخلصی دینا یسوع کی خصوصیت ہے۔ یہی ہے خدا کی رحمت اور فضل۔

بے شک، گناہ کے نتائج ہوتے ہیں۔ صلیب پر لٹکے ہوۓ ڈاکو نے اپنے جرائم کی سزا پھر بھی برداشت کی۔ ساری زندگی اُسے اُس اطمینان اور خوشی کا تجربہ نہ ہوا جو خداوند کو جاننے اور دوسروں کو اُس کے بارے میں بتانے سے ہوتا ہے۔ تاہم جس طریقے سے گنہگاروں کو معافی ملتی ہے اور وہ خدا کے حضور راست باز ٹھہراۓ جاتے ہیں وہ طریقہ ہمیشہ ایک ہی ہے — اپنے گناہ اور گناہ آلود حالت کا اِقرار کرنا اور خدا کے نجات کے انتظام کو قبول کرنا اور اُس پر توکل کرنا۔

رحم اور عدل کا ملاپ

چند صفحات پہلے مَیں نے ایک ای میل بھیجنے والے دوست کا ذکر کیا تھا جس نے پوچھا تھا کہ آپ اِس بیان کی روشنی میں ”عدل“ کی کیا وضاحت کرتے ہیں کہ ”ہمارے گناہوں کی خاطر یسوع ہمارے واسطے موا؟“ اِس سے پہلے احمد نے بھی یہی سوال اُٹھایا تھا:

ای میل

”کیا خدا اِتنا بڑا اور قادِر نہیں ہے کہ اپنے پیارے بیٹے کو اذیت دیئے اور قربان کۓ بغیر انسانوں سے کہہ سکے کہ مَیں کیا چاہتا ہوں اور پھر اُن کے گناہ مٹا دے؟“

ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ چونکہ خدا — عدل اور وفاداری میں — بڑا ہے اِس لئے وہ انسانوں کے گناہ اُس وقت تک مٹا نہیں سکتا جب تک اُن گناہوں کی مناسب عدالت نہ ہو اور مناسب سزا نہ دی جاۓ۔

باب ١٣ میں اُس جج کی مثال کو یاد کریں جس نے پوری عدالت کی خفگی اور ناپسندیدگی مول لی کیونکہ اُس نے مجرم کے نیک کاموں کی بنیاد پر اُسے بری کرنے کا فیصلہ سنایا ۔

خدا اُس من موجی جج کی مانند نہیں۔ اُس کی ذات یا شہرت پر خاک کے ذرہ برابر بھی داغ نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی عدل کو بالاۓ طاق رکھ کر رحم نہیں کرتا۔ وہ عدل پر ہرگز حرف نہیں آنے دیتا۔ اِسی لۓ اُس نے اپنی بے نہایت محبت کے باعث آسمان سے بیٹے کو اِس دنیا میں بھیجا کہ وہ کیلوں سے صلیب پر جڑ دیا جاۓ اور وہاں خدا کے رحم اور سچائی کا کامل ملاپ ظاہر کرے۔

”شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے۔ راستی زمین سے نکلتی ہے اور صداقت آسمان پر سے جھانکتی ہے“ (زبور ٨٥ : ١٠، ١١ )۔

چونکہ یسوع نے ہماری خاطر خدا کا قہر اور غضب برداشت کیا اِس لئے خدا ”آسمان سے جھانک“ سکتا ہے اور ہمیں معافی، کاملیت اور ہمیشہ کی زندگی بخش سکتا ہے۔ ہمارا عوضی ہو کر خداوند یسوع نے خدا کا عدل، شفقت (رحم) اور فضل دکھایا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا:

عدل یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار ہیں وہ ہمیں ملے۔

رحم یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار ہیں وہ ہمیں نہ ملے۔

فضل یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار نہیں ہیں وہ ہمیں ملے۔

جتنے لوگ مسیح پر بھروسا رکھتے ہیں اُنہیں وہ ملتا ہے جس کا کوئی بھی حق دار نہیں، یعنی گناہوں کی معافی، مسیح کی اپنی راست بازی، خدا کے خاندان میں شمولیت اور ہمیشہ کی زندگی۔

جو لوگ مسیح کو رد یا نظر انداز کرتے ہیں اُنہیں وہ ملے گا جس کے سب حق دار ہیں یعنی ابدی سزا۔

مسیح کے اِس دنیا میں آنے سے صدیوں پہلے میکاہ نبی نے فرمایا:

”وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں“ (میکاہ ٥: ١ )۔

ساری دنیا کا منصف انسانی بدن میں دنیا میں آیا تاکہ ناشکرے گنہگاروں کے ہاتھوں قتل کیا جاۓ — وہ چھڑانے اور بچانے آیا تھا۔

”۔۔۔ جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر موا۔ کسی راست باز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا، مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا“ (رومیوں ٥: ٦۔ ٨ )۔

عادل اور راست باز ٹھہرانے والا

اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے میں خدا نے ایک راہ نکالی جس سے وہ اپنے کامل معیار کو نیچا کۓ بغیر گنہگاروں کو معاف کر سکے۔ ”وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لاۓ اُس کو بھی راست باز ٹھہرانے والا ہو۔“ (رومیوں ٣: ٢٦ )

خدا عادل رہا کیونکہ اُس نے گناہ کی کافی اور مناسب سزا دے دی۔

اور وہ اُن سب کو راست باز ٹھہرانے والا ہے جو اُس کے بھیجے ہوۓ نجات دہندہ پر ایمان لاتے ہیں۔

جونہی مَیں اپنی کوششوں پر انحصار کرنا چھوڑ کر مسیح پر توکل کرتا اور ایمان رکھتا ہوں کہ وہ میری خاطر موا اور جی اُٹھا اُسی وقت عادل منصف اپنی روئیداد کی کتاب میں سے میرے سارے قصوروں پر قلم پھیر دیتا ہے:

راست باز ٹھہرایا گیا!

راست باز ٹھہراۓ جانے کا مطلب ہے کہ خدا نے عدالتی کارروائی سے ہمارے راست باز ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں راست باز قرار دے دیا ہے۔ وہ میرا ریکارڈ — میرے خلاف جو کچھ لکھا گیا تھا — منسوخ اور صاف کر کے مجھے راست باز قرار دیتا ہے۔

وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟

وہ ایسا اِس لئے کر سکتا ہے کیونکہ اُس نے صلیب پر میرے گناہ کی سزا برداشت کی۔

جب آدم نے گناہ کیا تو خدا نے ساری انسانی نسل کو ناراست (گنہگار) ٹھہرا دیا۔ لیکن چونکہ یسوع مر گیا اور پھر جی اُٹھا اِس لئے خدا اُن سب کو راست باز ٹھہراتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔

”کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سے بہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے“ (رومیوں ٥: ١٩ )۔

جس طرح آدم کے گناہ سے آلودگی (نجاست) اور موت پیدا ہوئ اُسی طرح مسیح کی موت اور قیامت (جی اُٹھنے) سے پاکیزگی اور زندگی مہیا ہوئی۔

”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کۓ جائیں گے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢ )۔

وہ عادل منصف آسمان سے نیچے دیکھتا ہے تو کیا وہ آپ کو آدم اور اُس کی گندی ناراستی میں دیکھتا ہے؟ یا خدا آپ کو مسیح اور اُس کی راست بازی میں دیکھتا ہے؟

آسمان کی عدالت میں کوئی تیسری صورتِ حال نہیں۔

انسان کا دُہرا مسئلہ

ہم نے پیدائش کی کتاب کے تیسرے باب میں دیکھا کہ آدم اور حوا نے اپنے خالق کی نافرمانی کی تو اپنے لئے گناہ اور شرم کا دُہرا مسئلہ پیدا کر لیا۔

اُن کے گناہ نے اُنہیں چھپنے پر مجبور کر دیا۔

اُن کی شرم نے اُنہیں اپنی برہنگی ڈھانکنے کی ترغیب دی۔

خدا نے اپنے عدل کے باعث اُن کے انجیر کے پتوں کے خود ساختہ سترپوش رد کر دیۓ، مگر اپنی رحمت کے باعث اُنہیں قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے کپڑے پہناۓ۔ جانوروں کا خون اُس چیز کی علامت تھا جو گناہ کو ڈھانکنے کے لئے ضروری تھی اور جانوروں کی کھالیں اُس چیز کی علامت تھیں جو اُن کی شرم (شرمندگی) کو ڈھانکنے کے لئے ضروری تھی۔

ہم اپنے اِن اجداد کے گناہ اور شرمندگی میں شریک ہیں۔ خدا کی نظروں میں ہم گھنونے گنہگار اور روحانی لحاظ سے ننگے ہیں۔ ہم شرم ناک طور پر کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں۔

ہماری دہری مصیبت کا خلاصہ دو سوالوں میں کیا جا سکتا ہے:

١۔ ہم اپنے گناہ سے جس نے ہمیں اپنے خالق سے جدا کر دیا ہے کیسے پاک صاف ہو سکتے ہیں؟

٢۔ ہم کاملیت سے کیسے ملبس ہو سکتے ہیں تاکہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہ سکیں۔

خدا کا دُہرا علاج

انسان کی گناہ آلودگی اور راست بازی کا علاج صرف خدا کے پاس ہے۔ جب بے گناہ بیٹے یسوع نے صلیب پر اپنا خون بہایا تو اُس نے ہماری سزا اپنے اوپر لے لی۔ اور اُس نے موت پر فتح پائ تو ہمیں اپنی راست بازی پیش کرتا ہے۔

”ہمارے لۓ بھی ۔۔۔ ایمان راست بازی گنا جاۓ گا، اِس واسطے کہ ہم اُس پر ایمان لاۓ ہیں جس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کو مُردوں میں سے جِلایا“ (رومیوں ٤: ٢٤ ، ٢٥ )۔

”۔۔۔ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں اور سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں جس نے مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کر لیا ۔۔۔ جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ (کی قربانی) ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راست بازی ہو جائیں“ (٢۔کرنتھیوں ٥: ١٧ ، ١٨ ، ٢١ )۔

جونہی آپ اپنے آپ پر اور اپنی دین داری پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی اُمید مسیح اور اُس کے بہاۓ گۓ کامل خون سے وابستہ کرتے ہیں، اُسی وقت:

١۔ وہ آپ کو گناہ کی نجاست سے پاک کرتا ہے۔

٢۔ وہ آپ کو اپنی کامل راست بازی سے ڈھانکتا ہے۔

آپ کے گناہ اور شرم کے لئے خدا کے پاس کوئی دوسرا علاج نہیں ہے۔

خدا کا ادل بدل کا پروگرام

اپنی موت اور قیامت (جی اُٹھنے) کے وسیلہ سے خداوند یسوع مسیح نے ہمارا گناہ خود لے لیا اور  اِس کے بدلے وہ ہمیں راست بازی دیتا ہے۔ یہ خدا کا ادل بدل کا عظیم پروگرام ہے — میرے گناہ کے بدلے میں اُس کی راست بازی۔

کوئی شخص ایسی بلند پایہ اور حیرت انگیز پیش کش کو کیوں رد کرے گا؟

المناک حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت خدا کے اِس انتظام بلکہ اہتمام کو رد کرتی ہے۔ تاہم اُس کی پیش کش موجود ہے۔ جو لوگ خدا کی نجات کی بخشش کو قبول کرتے ہیں وہ سب راست باز ٹھہراۓ جاتے ہیں۔ جو لوگ اِس کا انکار کرتے ہیں اُنہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ کسی خیال اور عارضی اعراف (برزخ) میں نہیں بلکہ ابدی جہنم میں جو شیطان اور اُس کے فرشتوں (شیاطین/بدروحوں) کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

بہت سے مذہبی لوگ اِصرار کے ساتھ کہتے ہیں ”ہر ایک شخص کو اپنے گناہوں کی سزا برداشت کرنی پڑے گی“۔ ایک مفہوم میں یہ درست ہے کہ جو لوگ خدا کی معافی اور راست بازی کی بخشش کو رد کرتے ہیں اُنہیں یہ سزا واقعی برداشت کرنی پڑے گی۔ تاہم اُن کا گناہ کا قرض کبھی بے باق نہیں ہو گا، اِس لۓ کہ یہ دائمی قرض ہے۔ علاوہ ازیں گمراہ گنہگار اگرچہ آگ کی جھیل میں اپنے گناہ کا قرض چکاتے رہیں گے، لیکن وہ مطلوبہ راست بازی ہرگز حاصل نہ کر سکیں گے جو بہشت میں جانے کے لئے ضروری ہے۔ صرف خدا ہی وہ معافی اور راست بازی عطا کر سکتا ہے جو اُس کے ساتھ رہنے کے لئے ضروری ہے۔

نجات دہندہ کے آنے سے سات سو سال پیشتر یسعیاہ نبی نے خدا کے ادل بدل کے عظیم پروگرام کے بارے میں لکھا:

”ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے۔۔۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گۓ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔۔۔ مَیں خداوند سے بہت شادمان ہوں گا۔ میری جان میرے خدا میں مسرور ہو گی کیونکہ اُس نے مجھے نجات کے کپڑے پہناۓ۔ اُس نے راست بازی کے خلعت سے مجھے ملبس کیا“ (یسعیاہ ٦٤ : ٦ ؛ ٥٣ :٦ ؛ ٦١ :١٠ )۔

کیا آپ خدا کے حضور میں ابھی تک ناپاک لباس کی مانند ہیں؟ یا کیا آپ مسیح کے خون سے دُھل کر صاف ہو گۓ ہیں؟ کیا آپ اپنی راست بازی کا لباس پہنے ہوۓ ہیں یا اُس کی راست بازی کے خلعت سے ملبس ہیں؟

ساری بات ایک سوال پر ختم ہوتی ہے:

”ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟“

کیا آپ خدا کے پیغام پر ایمان لاۓ ہیں؟ کیا  آپ نے صرف اُس کی صداقت پر بھروسا کیا ہے اور باقی سب باتیں چھوڑ دی ہیں؟

”کہ تمہیں معلوم ہو“

خدا کا پاک کلام کہتا ہے: ” مَیں نے تم کو جو خدا کے بیٹے پر ایمان لاۓ ہو یہ باتیں اِس لئے لکھیں کہ تمہیں معلوم ہو کہ ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہو۔“ (١۔یوحنا ٥: ١٣ )

چند سال ہوۓ مَیں نے ایک بہت دین دار (مذہبی) خاتون سے ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو مسیحی کہتی تھی مگر وہ خدا کے مسیح کے وسیلے سے نجات کے اِنتظام پر توکل نہیں رکھتی تھی۔

جب مَیں نے اُس سے کہا ”مَیں جانتا ہوں کہ مرنے کے بعد مَیں بہشت میں جاؤں گا“ تو اُس نے قدرے بیزاری سے جواب دیا، ”اوہ! تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اِتنے نیک ہیں کہ سیدھے بہشت میں جائیں گے— ہے ناں؟“

مَیں نے جواب دیا ”بات یہ نہیں کہ مَیں “اِتنا نیک' ہوں بلکہ یہ کہ خدا اتنا نیک ہے، بھلا ہے۔ اُسی نے ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم اُس پر اور جو کچھ اُس نے کیا ہے اُس پر ایمان رکھیں تو ”ہم ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہیں'۔“

”کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے“ (رومیوں ٦: ٢٣ )۔

علی کو کیسے معلوم ہوا

اِس کتاب کے پہلے باب میں مَیں نے علی کا ذکر کیا تھا جسے خاندان والوں نے گھر سے نکال دیا تھا، کیونکہ وہ خدا کے پیغام پر ایمان لے آیا تھا۔

برونو کی طرح علی بھی چھبیس سال کا تھا جب میری اُس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ مگر وہ برونو کی طرح عیش و عشرت کا دلدادہ نہیں تھا، بلکہ اپنے مذہب کے شعائر پر خلوصِ دل سے عمل کرتا تھا— مقررہ طریقے سے ہر روز نمازیں پڑھنا، مہینہ بھر سالانہ روزے رکھنا اور دوسرے لوگوں سے نیک سلوک کرنے کی کوشش کرنا وغیرہ — لیکن اُسے باطنی تسلی اور اطمینان حاصل نہیں تھا۔ اور یہ احساس اُسے کھاۓ جاتا تھا۔

علی رات کو بستر پر پڑا جاگتا اور سوچتا رہتا تھا ” مَیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرتا ہوں پھر مجھے ابدیت کا اِتنا خوف کیوں ہے؟ اے اللہ! کیا کوئی طریقہ نہیں کہ مجھے معلوم ہو جاۓ کہ مرنے کے بعد مَیں کہاں جاؤں گا؟“

علی نے اپنا سوال اپنے باپ اور مقامی مذہبی راہنماؤں کے سامنے رکھا ”مجھے کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ خدا مجھے بہشت میں رکھے گا؟“ ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا ”تم نہیں جان سکتے۔ کوئی بھی اپنے مقدر کو نہیں جا سکتا۔ یہ صرف خدا ہی جانتا ہے۔“

لیکن اُن کے جواب سے علی کی تسلی نہ ہوئ۔

گھر میں اور سکول میں علی کو سکھایا گیا تھا کہ قرآن شریف بتاتا ہے کہ عیسی' ابنِ مریم صادق نبی تھے۔ آپ ایک کنواری سے پیدا ہوۓ۔ علی نے یہ بھی سیکھا تھا کہ عیسی' بہت معجزے کرتے تھے۔ اور آپ کے لقب ”المسیح (مسایاح)، کلمتہ اللہ اور روح اللہ“ ہیں۔ علی سوچنے لگا کہ شاید عیسی' وہ نبی ہے جو میرے سوال کا جواب دے سکتا ہے جو مَیں تلاش کر رہا ہوں۔

علی نے یسوع کے بارے میں کوئی کتاب تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے ہماری ملاقات ہو گئی۔ مَیں نے اُسے بائبل مقدس دی اور وہ بڑے شوق سے اُس کا مطالعہ کرنے لگا۔ کوئی سال بھر بائبل مقدس کا مطالعہ کرنے کے بعد علی کو جو کچھ معلوم ہوا وہ ہم اُسی کی زبانی پیش کرتے ہیں:

”مجھے معلوم ہوا کہ سارے نبی یسوع کی خبر دیتے ہیں۔ مَیں نے وہ حصہ پڑھا جہاں یسوع نے خود فرمایا کہ 'راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔۔۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے' “ (یوحنا ١٤ : ٦ ؛ ٥: ٢٤ )۔

” اِن آیتوں اور دوسری آیتوں سے مجھے یسوع کو قبول کرنے اور سمجھنے میں مدد ملی کہ وہ کون ہے — واحد نجات دہندہ جس نے نجات کو یقینی بنانے کے لئے اپنا خون بہایا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ مَیں اُس پر اور اِس حقیقت پر ایمان لایا کہ اُس نے میرے عوض میرے گناہوں کی خاطر دکھ اُٹھایا اور موا۔“

” جونہی مَیں ایمان لایا مَیں نے وہ باطنی تسلی اور اطمینان محسوس کیا جو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیسی زبردست تبدیلی آئی! اب مجھے اپنی ابدی منزل، اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں رہی کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ خداوند نے میرے گناہوں کی پوری سزا اُٹھا لی ہے۔ اب مَیں جانتا ہوں کہ مَیں جنت میں جاؤں گا مگر اِس لۓ نہیں کہ مَیں نیک ہوں بلکہ اُس فضل کی وجہ سے جو خدا نے یسوع مسیح کے وسیلے سے کیا۔ اب مَیں سب باتوں میں خدا کو پسند آنا چاہتا ہوں، اپنی نجات کمانے کے لئے نہیں بلکہ اِس لئے کہ خدا نے مجھے نجات بخشی ہے اور مجھے نیا دل عطا کیا ہے۔“

علی کے لئے گناہ کی لعنت پلٹ دی گئی ہے۔ آج وہ، اُس کی بیوی اور اُن کے بیٹے جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اِس دنیا میں کیوں موجود ہیں — تاکہ اپنے خالق اور مخلصی دینے والے کو جانیں، اُس سے محبت رکھیں اُس کی عبادت اور خدمت کریں اور دوسروں کی راہنمائی کریں کہ وہ اُسے جان لیں۔

موت — ایمان دار کی خادمہ

گناہ کی لعنت کو پلٹنے یعنی منسوخ کرنے کے لئے خدا نے سہ مرحلہ منصوبہ بنایا تھا۔ اِس دنیا میں اپنی پہلی آمد پر مسیح نے اِس منصوبے کا پہلا حصہ پورا کر دیا۔ اپنی زندگی، موت ، دفن اور جی اُٹھنے سے یسوع نے گناہ اور موت کی وہ دیوار ڈھا دی جس میں سوراخ کرنا بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ صلیب پر لٹکنے والا ڈاکو، آدم خور قبیلے کے لوگ، ایما، ساؤل، علی، برونو اور جو لوگ خدا کے پیغام کو سچا مان کر قبول کرتے ہیں وہ سب اُس سے فیض یاب ہیں۔

بے رحم، بے درد، ظالم موت کو مسیح میں ایمان داروں کے لئے ایک نیا منصب، ایک نئی نوکری دی گئی ہے۔ اِسے ایک ادنی' خادمہ بنا دیا گیا ہے کہ خدا کے حکم سے اُن (ایمان داروں) کے لۓ فردوس کا دروازہ کھولا کرے، جیسا کہ پاک کلام کہتا ہے، ”خداوند کی نگاہ میں اُس کے مقدسوں کی موت گراں قدر ہے۔“ (زبور  ١١٦ : ١٥ )

بائبل مقدس کی اصطلاح میں ”مقدس“ وہ شخص ہے جسے خدا نے ”الگ کیا ہے“، جسے اُس نے مخصوص کیا ہے، جسے خدا نے راست باز ٹھہرایا ہے کیونکہ وہ خدا کے معاف کرنے اور راست باز ٹھہرانے کے طریقے پر ایمان لایا ہے اور اُس پر توکل رکھتا ہے۔ کسی مرحوم (مر گۓ) شخص کو ”مقدس“ قرار دینے کی انساںوں کی بنائی ہوئ روایت بائبل مقدس کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے (دیکھئے استثنا ٣٣: ٢، ٣ ؛ امثال ٢: ٨ ؛ دانی ایل ٧: ٢١ ۔ ٢٧ ؛ متی ٢٧ : ٥٢ ؛ اعمال ٢٦ :١٠ ؛ افسیوں ١: ١ ؛ ٢: ١٩ )۔

کیا کسی کو کبھی خواب میں بھی خیال آیا تھا کہ ”موت“ کو بھی ”گراں قدر“ قرار دیا جا سکتا ہے؟ خدا کا شکر ہو کہ سارے ایمان داروں کے لئے ایسا ہے۔

”اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟۔۔۔مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ :٥٥ ۔ ٥٧ )۔

گناہ کی ماضی کی لعنت پلٹ گئی، منسوخ ہو گئی۔