باب اول
الصلیب فی التاریخ
فصل اول
ازلیت صلیب
مسیحی علم الہیات میں ذات حق تعالیٰ کا مکاشفہ اور صلیب لازم وملزوم ہیں ۔مکاشفہ کا لفظ کشف سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں "کھولنا" ظاہر کرنا" یا معائنہ کرنا" مکاشفہ باب مُفاعلَہ پر ہے جس کا مفہوم ہے دو چیزوں کا ایک دوسری کوظاہر وباہر کرنا۔
کائنات وجود مجازی ہے اور وجود ظہور اور وجود وشعور لازم وملزوم ہیں کائنات کی ہر شے جووجود مجازی کی مصداق ہے اپنے ظہور وبروز کا تقاضا کرتی ہےاوراس تقاضے ظہور کی جہت ہی سے اس کا وجود وجود مجازی ہے اگر وجود مجازی کی یہ شان اور یہ خرابی ہے کہ وہ اپنے ظہور وبروز اپنے مکاشفہ کی متقضی ہو تو اللہ تعالیٰ جووجودحقیقی ہے افضل واکمل طورپر اپنے ظہور وبروز اوراپنے مکاشفہ کا متقاضی ہے۔
کائنات جووجود مجازی ہے وجود حقیقی کا کامل ظہور ومکاشفہ نہیں اللہ کی ذات وصفات کا یہ ظہور ومکاشفہ حادث وغیر کامل ومحدود وناقص ہے اس کا یہ مکاشفہ ۔مکاشفہ خارجی ہے اگرمکاشفہ خارجی کی حقیقت میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی تومکاشفہ باطنی وازلی اعلےٰ وارفع طورپر شکوک وظنون سے بالا تر ہے کیونکہ غیر ممکن ہے کہ اللہ ایک وقت مکاشفہ سے خالی ومحروم ہو اورپھر ایک وقت وہ مکاشفہ خارجی کا محتاج ومفتقر ہوجائے لہذا اللہ تعالیٰ کی کاملیت اس امر کی متقضی ہے کہ اس کا مکاشفہ ۔مکاشفہ ازلی وباطنی اورمکاشفہ خارجی اس کا ایک نتیجہ وثمرہ ہومکاشفہ ازلی اور محبت ازلی سے توقربانی ازل بھی ثابت ہے لیکن یہ سب بطون ذات میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا وجود ازلی اپنے کلام سے ازل ہی سے مختص وممتاز ہے کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت اورکسی آن علم وحکمت کے بغیر ہو اور اس کا علم وحکمت ازل ہی کلام ازلی ہے اوراس کا کلام ازل ہی ازل میں اس کاظہور مکاشفہ ہو اوراُسی نے ازل میں ذات اللہ کے بطون میں اسے ظاہر وباہر اوراس کا مکاشفہ کیا غیر ممکن ومحال ہے کہ اللہ کا وجود ازلی ہو اور حیات ازلیہ سے ممتاز ومختص نہ ہو کیونکہ وجود اور کلامِ حیات کے بغیر نہیں ہوسکتے ۔انجیل میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے جس طرح باپ(وجود ازلی ) اپنے آپ کو زندگی میں رکھتا ہے ۔اسی طرح اس نے اپنے بیٹے (کلام ازلی) کوبھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے(انجیلِ عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع 5آیت 26)۔ اسی لئے کہا گیا حیات ازلی یعنی روح القدس باپ بیٹے اور روح القدس سے صادر ہے۔
کلامِ ازلی نے علم وحکمت ہونے کی جہت سے ازل میں وجود ازلی (باپ) کو جانا اور تمام کائنات کواس کی تخلیق سے پیشتر جانااس لئے ازل میں وہ وجود ازلی کا مکاشفہ اوراس کوظاہر وکشف کرنے والااور تاریخ عالم میں اس کا ظہور اکمل اورمکاشفہ خارجی ٹھہرا۔
وجود ازلی اورکلام ازلی اورحیات کے سریان باہمی (Inter Penetiation) کی جہت سے اللہ محبت ہے اورمحبت قربانی پر دلات کرتی ہے ۔ازلی قربانی کا تقاضا توسریان باہمی سے ہوا لیکن اس ازلی قربانی کا اختصاص کلام ازلی سے ہوا توقربانی خارجی کا اختصاص بھی اسی سے ہوا قربانی خارجی اللہ کی محبت کا ثبوت اکمل ہے خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا پیارا بیٹا بخش دیا تاکہ جوکوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔(یوحنا 3باب آیت 16)۔
ازلی قربانی کے سلسلہ میں آیا ہے" اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اس برہ کی کتاب میں لکھے نہیں گئے جوبنائے عالم کے وقت سے ذبح ہواہے" (مکاشفہ 13باب 8آیت)۔ مذبوح ازلی کلام ازلی ہے کیونک مکاشفہ ازلی اورحکمت وعلم ازلی ہونے کی جہت سے قربانی خارجی کا ارادہ ازلی اور منصوبہ ازلی اسی میں کیا گیا یعنی کلام ازلی (بیٹے) کے خارجی قربانی اورمکاشفہ خارجی ہونے کاارادہ ازلی ہی قربانی ازلی ہے چنانچہ لکھا ہے " اس ازلی ارادہ کے مطابق جواس نے ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح میں کیاتھا"(خطِ ا فسیوں 3باب 11آیت)۔ اس نظریہ کی تشریح وتوضیح یوں بھی کی گئی ہے "تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ بُرے یعنی سیدنا مسیح کے بیش قیمت خون سے اس کا علم توبنائے عالم سے پیشتر تھا۔ مگر اس کاظہور اخیر زمانے میں تمہاری خاطر ہوا(1پطرس 1باب آیت 20)۔
فصل دوم
کائنات میں مکاشفہ وصلیب کی تجلیات
کائنات جوازلی کلمتہ اللہ یا ازلی کلام کے ذریعہ سے تخلیق کی گئی ازلی کلمتہ اللہ کی مظہر ہے وہ ازلی کلام کی ذات وصفات اور شیون وافعال کی تجلی گاہ ومظہر اورمکاشفہ ہے ۔ کس لئے کہ کائنات کی محدودیت کلمتہ اللہ کی لامحدودیت پر اوراس کا حدوث ازلی کلمتہ اللہ کے قدم پر اور ناقص وادنیٰ جمال وجلال ازلی کلمتہ کے کامل جمال وجلال پر اس کا تغیر ازلی کلمتہ اللہ کے عدم تغیر پر اور شمس وقمر اور ستاروں کا نور ازلی کلمتہ اللہ کے حقیقی اور افضل واکمل نور پر دلالت کرتاہے ظاہر ہے کہ تمام اشیائے کائنات قربانی کی جہت سے مکاشفہ ہیں اگر سورج اور چاند اور ستارے اپنا نور فضاؤں پر نچھاور نہ کریں تواُن کا ظہو ر وبروز کیسے ہو؟ اوراگر لالہ وگل اور نسیم سحر اپنی خوشبوئیں نہ پھیلائیں اوراپنی دلکش رعنائی دوسروں تک نہ پہنچائیں توازلی کلمتہ اللہ کے جمال اوراس کی پاکیزگی کا مکاشفہ کیسے ثابت ہوں۔
علاوہ ازیں کائنات جوازلی کلمتہ اللہ کا ادنیٰ وناقص مکاشفہ ہے اس کی بقا پر موقوف ہے غور کیجئے جمادات اپنی قوتیں اوراپنے جوہر نباتات پرقربان کرتی ہیں اورنباتات ۔حیوانات اور انسان کی غذا اورخوراک بنتی ہیں اورانسان حیوانات کورام کرکے ان سے کام لیتاہے اوران کاگوشت کھاتا اور زندگی حاصل کرتاہے۔
مانا کہ ازلی کلمتہ اللہ نے انسا کواپنی شکل وصورت پر پیدا کیا اوراس میں اپنا دم پھونکا اوراسے اپنی رفاقت وقربت کا اعزاز بخشا لیکن انسان اپنی آزاد مرضی اور خود مختاری سے گناہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا انسان کی شکل وصورت مسخ ہوگئی اس کی طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ ازلی کلمتہ اللہ کی رفاقت وقربت سے محروم ہوگیا۔
گناہ سے بیشتر توباغ عدن میں زندگی کے درخت تک جانے کے لئے ایک سیدھا راستہ تھا لیکن گناہ کے بعد اس راستہ پر کروبیوں اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کورکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں اوراسی طرح سے زندگی کے درخت تک والے سیدھے راستہ کوکاٹ دیا گیا جس سے چار راستے پیدا ہوگئے اور سیدھا راستہ۔ سیدھا راستہ نہ رہا یہ چار راستے صلیب پر دلالت کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی لاحق ہوئی کوئی ایسی شخصیت ہوجوکائنات سے اور بالا ئے کائنات ہو جو ناسوت دلاہوت جدوث وقدم کی جامع ہوصلیب پر مصلوب ہوکر وجود حقیقی کے بے حد انصاف جوگناہ آدم کے باعث موجزن ہو ا اور وجود حقیقی کی محبت کوظاہر کرکے اس کےجلال وجمال کا مکاشفہ بنے صلیب کی چاروں سمتیں اس امر پر دال ہیں کہ وہ تمام اکنافِ عالم کے لئے ہے صرف صلیب پر ہی متجسد کلمتہ اللہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر خدا اورانسان میں میل ملاپ کراسکتا تھا۔