فصل چہارم
الکتاب کے عہدِ عتیق میں مکاشفہ وصلیب
عہدِ عتیق میں مرقوم ہے خدا نے آدم سے کہا خدا نے نوح کو کہا۔ خدا ابراہیم پرظاہر ہوا خدا کافرشتہ دوفرشتوں کے ہمراہ ابراہیم کے پاس آیا ۔خدا نے ابراہیم اور اسحاق ویعقوب سے وعدہ کیاکہ دنیا کی تمام اقوام تمہاری نسل سے برکت پائیں گی۔ یعقوب نے بہ حالتِ مسافت خواب میں ایک سیڑھی دیکھی جوآسمان وزمین کوملاتی تھی یہ سیڑھی ازلی کلمتہ اللہ کے تجسم اس کی کامل بشریت اورکامل الوہیت اوراس کے درمیانی ہونے کا مکاشفہ تھی۔
وادی مدیاں میں موسیٰ پر ازلی کلمتہ اللہ آگ کی جلتی ہوئی جھاڑی میں ظہور پذیر ہوا یشوع پر دریائے یردن پر ازلی کلمتہ اللہ کا جلالی فرشتہ کی صورت میں مکاشفہ ہوا اوریسعیاہ اور حزقی ایل نے کلمتہ اللہ کوآدم زاد کی صورت میں دیکھا جس کے جلال کی کتاب نہ لاتے ہوئے فرشتوں نے اپنے چہرے اپنے پروں سے چھپا رکھے تھے۔ یہ سبھی امور مکاشفات ہیں۔
عہدِ عتیق میں کلمتہ اللہ کے مکاشفہ کے ساتھ ساتھ صلیب کی تجلیات بکثرت آتی ہیں ازلی کلمتہ اللہ کی خلاف ورزی اورحکم عدولی پر یعنی آدم وحوا سے گناہ سرزد ہونے پر اُنہوں نے اپنے آپ کو ننگا اور عریاں معلوم ومحسوس کیا تواُنہوں نے اپنی برہنگی کو چھپانے کے لئے درختوں کے پتوں سے لباس تیار کئے ۔ لیکن درختوں کے پتوں سے تیار شدہ لباس اس کی برہنگی کوچھپانہ سکتے تھے اس لئے کلمتہ اللہ نے ان کے لئے درختوں کے پتوں سے تیار شدہ لباس کے بجائے جانور کی کھال کے لباس تیار کئے گویا باغ عدن میں جب آدم وحوا اپنی برہنگی کوچھپا نہ سکے توکلمتہ اللہ نے ان کی برہنگی کو چھپانے کے لئے بے گناہ ومعصوم جانور کا خون بہایا ۔ آدم وحوا کی برہنگی کوچھپانے کے لئے بے گناہ ومعصوم جانور کا خون بہانا کوہ کلوری کی صلیب پر بہائے جانے والے خون کی طرف ایک اشارہ لطیف تھا۔
آدم وحوا کے بیٹے قائن کی قربانی مقبول نہ ہوسکی کیونکہ اس نے اپنے کھیت کی کاشت کردہ اشیادہ کا ہدیہ کلمتہ اللہ کوپیش کیا ۔یہ ہدیہ کلمتہ اللہ کی خارجی قربانی سے انکار کے مترادف تھا۔لیکن ہابیل نے کلمتہ اللہ کی ظہور پذیر ہونے والی قربانی پر ایمان کا اظہار اپنے گلہ کے بے عیب اور صحت مند برہ کی قربانی سے کیا جومقبول درگاہ الہٰی ہوا۔
حضرت نوح اپنے زمانہ کے لوگوں سے روحانی واخلاقی اعتبار سے اعلےٰ وافضل تھے۔ خدا نے ان پر ظاہرہوکر ایک مہیب وخطرناک طوفان آب سے آگاہ کیا اورایک کشتی اپنی حفاظت کے لئے بنانے کوکہا حضرت نوح نے لوگوں کوآنے والے خطرناک سیلاب سے بچنے کے لیۓ توبہ ومعافی کی تلقین کوتولوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اوراُن سے تمسخر کیا پھر سیلاب کے خطرناک ومہلک پانیوں نے آلیا باد تیزو تند نے اُنہیں سراسیمہ وپریشان کیا اورخوفناک لہریں اور اژدھوں کی مانند ان کی جانب لپکیں لوگوں کا تمسخر اورسیلاب کی تباہ کاریاں ۔لہروں کا سراسیمہ کرنے والا شور وغوغانی مخالفت کی ان تیز وتند ہواؤں کا آئینہ دار وپیش خیمہ تھا جس سے تاریخ کے ایک بھرنے والے موڑ پر کلمتہ اللہ کودوچار ہونا پڑا یہاں تیز ہواؤں اور موجزن پانیوں کا جوش وخروش تھا تووہاں اہلِ یہود کے انبوہ کثیر کا یہ شوروغوغا تھا اسے صلیب دے صلیب۔
حضرت ابراہیم نے کلمتہ اللہ کی عالمگیر قربانی جومذبح صلیب پر پیش کی گئی اورنجات کے ازلی منصور پر ایمان کا اظہار اپنے بیٹے اضحاق کوقربانی سے کیا۔ پیدائش ٢٢باب ٢آیت میں آیاہے ۔ تب خدا نے ابراہام کوکہا کہ تواپنے بیٹے اضحاق کوجوتیرا اکلوتا بیٹا ہے اورجسے توپیار کرتا ہے اپنے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اوروہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا(کوہ کلوری) سوختنی قربانی کے طورپر چڑھا ۔۔۔۔اورابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی تاکہ اپنے بیٹے (اضحاق) کو ذبح کرے تب خداوند کے فرشتہ (کلمتہ اللہ) نے پکارا کہ اے ابراہام !اے ابراہام اس نے کہا میں حاضر ہوں پھر کہا کہ تواپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اورنہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا ہو ں کہ توخدا سے ڈرتا ہے۔ اس لئے کہ تونے اپنے بیٹے کو بھی جوتیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا اورابراہام نے نگاہ کی اوراپنے پیچھے ایک مینڈھا (برہ) جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے دیکھا تب ابراہام نے جاکر اس مینڈھے کو پکڑا اوراپنے بیٹے کوبدلے سوختنی قربانی طور پر چڑھایا پیدائش ٢٢باب ١١سے ١٢آیت ۔ اورخدا کے فرشتہ (کلمتہ اللہ) نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کوپکارا اورکہا کہ خدا فرماتاہے کہ چونکہ تونے یہ کام کیا اوراپنے بیٹے کوبھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھااس لئے۔۔۔۔۔ تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی"۔
١۔آیاتِ مندرجہ بالا سے یہ حقائق آشکارا ہیں کہ کلمتہ اللہ نے اضحاق کوقربان نہ ہونے دیا۔ کیونکہ وہ اس زمانہ کی بُت پرست اقوام پر یہ حقیقت واضح کرنا چاہتا تھا کہ تم جو اپنے پہلوٹھوں کواپنے گناہوں کی معافی کی خاطر یا اپنے دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی نظر سے قربان کرتے ہوتو گویا فعل بے سود کے مرتکب ہوتے ہو کیونکہ تمہارے پہلوٹھے جنہیں تم قربان کرنے کے لئے پیش کرسکتے ہو حتیٰ کہ تمہارے پہلوٹھے اورتمہاری محبوب ترین چیزیں تمہاری اپنی نہیں مزید براں یہ کہ خوشنودی ورضامندی میری ہی مقصود نظرہونا چاہیے نہ کہ دیوی دیوتاؤں کی تمہاری محبوب ترین چیزوں اور پہلوٹھوں کی قربانی شعور واطاعت وخود انکاری اورخود نثاری سے خالی ہیں اس لئے تمہاری قربانیاں قربانیا نہیں ہیں تم اپنے پاس سے اپنے گناہوں کے عوضانہ وفدیہ میں کچھ بھی نہیں دے سکتے لہذا یہ فضول وبے سود رسم قربانی میں متداول ہے منسوخ ومقوف ہونا چاہیے۔
٢۔خدا نے اضحاق کی قربانی کے بجائے مینڈھے یا برہ کی قربانی ومنظور کی مراد یہ کہ برہ کی قربانی اضحاق کی قربانی کا فدیہ وعوضانہ تھا اسی طرح تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کی سزا کا فدیہ کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کی عالمگیر قربانی ہے جو کوہ کلوری پر جوموریاہ کے پہاڑوں میں ہے وقوع پذیر ہونے کوتھی۔
٣۔ حضرت ابراہیم اضحاق کی قربانی پیش کرنے کا ارادہ کرچکے توایک اعتبار سے اُنہوں نے قربانی پیش کردی کیونکہ اُنہوں نے خدا کی محبت واطاعت کی خاطر اپنا دل اضحاق کی محبت سے خالی کردیا اوربیٹے کے مقابلہ میں اللہ کو محبوب تر گردانا اسی وجہ سے آپ خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست کہلائے اُنہیں ایمانداروں کا باپ کہا گیا کیونکہ اُن کا ایمان یہاں تک مضبوط ومستحکم تھا کہ وہ اللہ جوبڑھاپے میں جب اس کی جسمانی قوت وزورناپید ہوچکا تھا بیٹا دے سکتاہےاوروہی اللہ جس نے تاریکی سے روشنی کواورنیستی سے ہستی کوخلعت وجودبخشی وہی اللہ قربان شدہ بیٹے کو ازسرنو زندہ بھی کرسکتا ہے علاوہ ازیں حضرت ابراہیم نے نگاہ الہام سے کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کودیکھا اور آپ پر ایمان لائے کلمتہ اللہ سیدنا مسیح نے اپنی حیاتِ ارضی کے دوران اہل یہود کوکہا تمہارا باپ میرا دن دیکھنے کا آرزومند تھا۔ چنانچہ اس نے دیکھا اورخوش ہوا۔
حضرت اضحاق کومسیح مصلوب کا پیش رو اس اعتبار سے کہا کہ آپ نے برضا ورغبت قربان ہونا منظور کیا۔ چنانچہ آپ شاداں وفرماں اپنے باپ ابراہیم کی معیت میں اپنی نشست پر قربان گاہ کی لکڑیاں اٹھائے کوہ موریاہ کی جانب چل پڑے کلمتہ اللہ سیدنا مسیح نے بھی برضا ورغبت مصلوب ہونا پسند کیا اوراپنی صلیب خود پشت پر اٹھائے کوہ کلوری کی جانب گامزن ہوئے۔
حضرت ابراہیم نے جس طرح میسوپتامیہ کے چار بادشاہوں پر فتح حاصل کی اسی طرح مصلوب نے شیطان وگناہ اور موت وقبر پرفتح عظیم حاصل کی۔
حضرت یعقوب کو عیساؤکے ڈر سے اپنا ملک چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا اور مسافرت کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کوہیرودیس کے ڈر سے ملک فلسطین چھوڑ کر مصر جانا اور سفر کی تکالیف ومصائب کوبرداشت کرنا پڑا۔ حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں نے ستایا اور مصر میں تیس روپوں کے عوض فروخت ہوئے کلمتہ اللہ بھی تیس روپوں کے عوض دشمنوں کے حوالہ کئے گئے۔ حضرت اسحاق ویوسف کا موت سے گذر کر زندگی میں داخل ہونا سیدنا مسیح کی فتح موت وقید کے نشان ہیں۔
ملک مصر میں بنی اسرائیل نے اپنے اپنے خاندانوں میں برہ کی قربانی کے ذریعہ سے غلامی سے رہائی حاصل کی ان کے گھروں کے دروازوں کی چاروں چوکھٹوں پر برہ کے خون سے لگائے ہوئے نشان صلیب کے آئینہ دار تھے موت کے فرشتہ نے جنہیں دیکھ کر بنی اسرائیل کے پہلوٹھوں کو نہ مارا معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں بھی صلیب کے باعث بنی اسرائیل کے پہلوٹھوں نے موت سے رہائی اور زندگی حاصل کی فراغنہ کی غلامی ہے آزادی حاصل کی روشنی کا وہ ستون جوتاریکی شب میں بنی اسرائیل کی راہوں کوروشن ومنور کرتا اور دن کوبادلوں کا ستون بن کر انہیں تمازت آفتاب سے محفوظ رکھتے ہوئے ملک کنعان میں لے گیا کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کی صلیب کا پیش خیمہ تھا صحرا کی خلوتوں میں جومن بنی اسرائیل پر برسا کلمتہ اللہ کے نزول اور وہ چٹان جس سے ضرب کلیمی کے باعث پانی کا چشمہ بہ نکلا کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کے پہلوئے مبارک کے چھیدے جانے کی عکاسی کرتا تھا۔
دورانِ سفر ایک وادی میں جب بنی اسرائیل سانپوں کے ڈر سے مرنے لگے توخدا نے حضرت موسیٰ پر ظاہر ہو کر کہا کہ وہ ایک پیتل کا سانپ بناکر اسے اونچے پر چڑھائیں جومارگزیدہ اس پیتل کے سانپ کی جانب نگاہ کرے گا بچ جائے گا۔
مسیحی الہیات کے ماہرین نے وادی صحرا میں پیتل کے سانپ کے اونچے چڑھائے جانے کو صلیب کا مثیل قرار دیا ہے ظاہر ہے اونچے پر چڑھایا ہوا پیتل کا سانپ بے جان ومردہ تھا اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کی صلیبی موت۔موت کی موت ہے کلمتہ اللہ سیدنا مسیح نے فرمایا اورجس طرح موسیٰ نے سانپ بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اسی طرح ضرور ہے کہ ابن آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جوکوئی ایمان لائے اس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔(انجیلِ عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع ٣آیت ١٤تا ١٥)۔
توریت کے مقابلہ میں زبور واضح ترانداز میں کلمتہ اللہ کی صلیبی دکھوں اور صلیبی موت اورتمام واردات صلیب کوپیش گوئیوں کے طورپر پیش کرتا ہے ۔ چنانچہ اس حقیقت کی توضیح کے لئے زبور ٢٢ کوپیش کیا جاسکتاہے ۔ اس زبور میں کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کے مصلوب کرنے والوں کے ہجوم ان کی دشمنی وکینہ پروری۔ آپ کے کپڑوں پرقرعہ اندازی آپ کے ٹھٹھوں میں اڑائے جانے آپ کے ہاتھوں کے چھیدے جانے اور نیزے سے دل کے پھٹنے کی جامع ومکمل تصویر جسے مصور الہام نے نہایت غم انگیز وحسرتناک انداز میں پیشا کیا ہے نظر آتی ہے۔
یوناہ نبی جو تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے تواس الہامی وتاریخی واقعہ نے اس حقیقت کو ظاہر واضح کردیا کہ مسیح مصلوب بھی تین دن تک قبر میں رہیں گے۔
الغرض عہدِ عتیق کے بیشمار واقعات اور آیات اس حقیقت کوظاہر وباہر کرتے ہیں کہ عہدِ عتیق میں بھی مکاشفہ وصلیب ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ وپیوستہ تھے۔