مقدمہ
تمام حمدوثنا آسمانی باپ کوسزاوار ہے۔ جس کی ذات محبت ہے اور جس نے اپنی لازوال اورابدی محبت کو ہم عاصیوں پر ظاہر کرنے کے لئے اپنے ابن کو بھیجا جو تمام خاتم المرسلین شفیع المذنبیں اور منجئی عالمین ہوکر اس دنیا میں آئے تاکہ جو کوئی اس پرایمان لائے ۔ ابدی زندگی پائے۔
ناظرین کرام پر مخفی نہیں کہ علم کی روشنی کے پھیلنے سے سائنس نے ہمارے ہم وطنوں پر قدرت کے چند راز منکشف کئے ہیں اوراب بعض اطراف سے یہ صد آنی شروع ہوگئی ہے کہ کتاب مقدس اور سائنس کے نتائج میں مناقضت اور مغائرت ہے۔ یہ آواز انہی اصحاب کے منہ سے سنائی دیتی ہے ۔ جوکتاب مقدس اور سائنس دونو ں سے گہری واقفت نہیں رکھتے اور بمصداق نیم ملا خطرہ ایمان خود تذبذب میں پڑجاتے ہیں۔ اور دوسروں کوبھی گرداب ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں ۔ پس خاکسار نے ان حالات کومدِ نظر رکھ کر اس رسالہ کوتحریر کیا ہے اورہرچند میں اس موضوع پر قلم اٹھانے کا اہل نہیں ہوں لیکن جب دیکھتاہوں کہ قابل اصحاب بوجوہ چند درچندا جن میں عدم واقفیت زبان ایک ہے )اس سے احتراز کرتے ہیں۔ تومجبور ہوکر میں نے اس کام کو اپنے ذمہ لیا ہے۔
احعقر العباد برکت اللہ
باب اول
نزاع مسیحیت وسائینس
فصل اول ۔تصادم
قرونِ وسطی (۱۰۰۰ء تا ۱۵۰۰ء ) میں یورپ میں مغربی کلیسیا کے پوپ صاحب کا بڑا اقتدار تھا۔ پوپ صاحب اپنے آپ کو سیدنا مسیح کے جانشین اور خلیفتہ اللہ خیال کرتے تھے۔ لہذا روم میں اپنے تخت سے کل مغربی دنیا پر حکمران تھے۔ ان احکام کے آگے بڑے بڑے گردن فراز شاہنشاہ سرتسلیم ختم کرتے تھے پوپ صاحب اپنے آپ کو جامع علوم دینی ودینوی خیال کرتے تھے۔ اورہر قسم کی غلطی سے مبرا جانتے تھے۔ پس مغرب میں وہی علوم رائج تھے۔ جن پر جناب پوپ صاحب کی مہر تصدیق ثبت تھی۔ اورکسی عالم کو یہ جرات نہیں تھی کہ اِ ن مروجہ علوم سے بال بھر بھی تجاوز کرے یا ان کا انکار کرے یا کسی علم کی نئی شاخ کی تفتیش میں لگے ۔ یا کسی نئے خیال کا موجد یا مقلد ہو۔ جس کسی ایسے شخص نے ایسا کیا۔ اُس کی آفت آگئی۔ ایسے شخص کوہزاروں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اوربالعموم اس کوحق اورعلم کی خاطر اپنی جان قربانی کرنی پڑتی تھی۔
١
جناب پوپ صاحب نے جامع علوم اورمنزہ عن الخطا ہونے کی حیثیت سے یہ نادری حکم صادر فرمایا تھاکہ مسیحیت کے قیام کے لئے ہئیت داں ٹولومی (بطلیموس) کا یہ نظریہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے کہ ہماری دنیا نظام عالم کا مرکز ہے جس کے گرد تمام آسمانی اجسام گردش کرتے ہیں۔ خلقت کا مقصد مدعا اور علتِ غائی ہماری دنیا ہی ہے۔ اورخالق نے اس دنیا اورمافہیا کو انسان کی خاطر پیدا کیا۔ مثلاً آفتاب کوخدا نے اس واسطے پیدا کیاکہ دن کے وقت انسان کو روشنی دے اور ماہتاب کواس واسطے پیدا کیاکہ رات کی تاریکی کوہمارے لئے دور کرے۔ الغرض خلقت کی علت غائی یہی تھی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے پیدا ہو۔ اوراس کی خاطر نظام عالم کو پیدا کیا گیا۔
یہ نظریہ وہی ہے۔ جس کو ان دنوں میں بھی عوام الناس مانتے ہیں اور اپنے عقائد کواس پر مبنی کرتے ہیں۔ ہمارے طالب علمی کے زمانہ میں ہمارے استاد ہم کوایک نظم زبانی یاد کرواتے تھے جس میں یہی نظریہ تھا۔ اس کے چند اشعار یاد ہیں۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمین بنائی کیسا آسماں بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تونے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تونے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھامکاں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تونے
چڑھنے کو میرے گھوڑا حوش غناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجھ کو کیا قدرداں بنایا
جنا ب پوپ صاحب نے بدقسمتی سے ہئیت دان ٹومی (بطلیموس ) کےنظریہ کو مسیحیت کا جزو قرار دے دیا۔ لیکن باوجود پوپ صاحب کے غیظ وغضب کے چند ایک ہئیت دان ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اس نظریہ کوپہلے درپردہ اور بعد میں علانیہ رد کردیا ١٥٤٣ءمیں کوپرینکس ١ نے نئے اور موجودہ علم ہئیت کی بنیاد ڈالی اور ٹولومی کے نظریہ کی دھجیاں اڑادیں۔ لیکن پوپ صاحب کے ماتحوں نے اس غریب کی زندگی تلخ کر دی اور حق اورعلم کی خاطر اس کو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ اس کے شاگرد چھپتے پھرتے تھے تاکہ پوپ صاحب کا غضب ان پر اوران کے لواحقین پر نازل نہ ہو۔ چنانچہ گلیلیو ٢ نے اگست ١٥٩٧ء میں کپلر ٣ کو لکھا " یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ طالبان حق کی تعداد بہت کم ہے۔ بہت سال ہوئے میں نے کوپرینکس کے خیالات کواختیار کیا۔۔۔۔۔ میں نے چند کتب بھی تحریر کی ہیں لیکن جب مجھے اپنے استاد کو پرینکس کی قسمت یاد آتی ہے توان کو ظاہر کرنے کی جرات نہیں پڑتی اس میں کچھ شک نہیں کہ چند علماء کے حلقہ میں اس کو غیر فانی شہرت حاصل ہوگئی ہے ۔ لیکن عوام میں (جن میں بے وقوفوں کی ایک بڑی تعداد ہے) اس کی تضحیک اور ہنسی ہی ہوتی رہی"۔ اس خط کے لکھنے کے تیرہ سال بعد جب اس نے علانیہ ان خیالات کوظاہر کیا تواس کی ایذارسانی شروع ہوئی ۔ پرانے نظریہ کے مقلدین نے اس کی دور بین میں سے دیکھنے سے بھی انکار کردیاکہ مبادا ان کے خیالات میں بھی تبدیلی آجائے ۔ گلیلیو نے کیا اچھا کہا کہ اگرستارے خود آسمان سے اگر کر شہادت دیں توبھی اس کے مخالفین ہرگز ان کا یقین نہ کریں گے ۔ پوپ صاحب نے اس کی کتب کوفہرست کتب ممنوعہ میں شامل کردیا"۔ "انکویئز یشن " یعنی محکمہ احتسابِ عقائد نے گلیلیو کو پکڑلیا اوراس پر اس دینی عدالت نے یہ الزام لگایا کہ اس نے آفتاب کے گرد زمین کے گھومنے کاد عوی کیا ہے جوکتب مقدسہ کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے ۔ اس "مقدس" عدالت کے صدر نشین نے یہ فیصلہ صادر کیاکہ ملزم نے جرم الحاد وزندقہ کے مرتکب ہونے سے اپنے آپ کو اس جرم کی تغریرات کا مستوجب قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ امر پائہ ثبوت کو نہیں پہنچا لیکن کہا جاتاہے کہ اس کو شکنجہ میں بند کرکے ایذا د ی گئی ۔ بہر حال اس کو اتنا تنگ کیا گیا کہ اس غریب کو بلآخر ١٦٣٣ء میں اپنے زانوؤں پر گرکے اپنے خیالات کو ان الفاظ میں ترک کرنا پڑا"۔ میں گلیلیو اس غلط نظریہ کو ترک کرتاہوں کہ آفتاب اس عالم کا مرکز ہے اور وہ غیرت محرک ہے اور کہ ہماری زمین نظام عالم کا مرکز نہیں اور محرک ہے"۔اوراس کو حلفیہ وعدہ کرنا پڑا کہ آئندہ وہ اپنی تقریر وتحریر میں کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جس سے یہ تعلیم مستنبط ہو سکے اور اگر اس کو کوئی بدعتی شخص یا ایسا شخص ملے جس پر بدعت کا شک بھی کیا جاسکے تووہ اس کی اطلاع دے گا"۔ آخری عمر اس نے ننگ وافلاس میں کاٹی اوربلاآخر اندھا بھی ہوگیا ۔ جب اس کا انتقال ہوا تواسکی لاش تک کو مسیحی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا گیا اصول حرکت زمین کے انکار کرنیکے بعد بھی پوپ صاحب کے ماتحتوں نے اس پر ہمیشہ اپنی نظر عنایت رکھی لیکن اس نے اپنی کتاب ملک ہالینڈ میں چھپوانے کوبھیج دی اور یہ کتاب موجودہ سائینس کی بنیاد ثابت ہوئی ۔
اسی طرح جنا ب پوپ صاحب کے ماتحوں نے حکیم برونو ٤ کو ایذا دی ۔ اور وہ پوپ شاہی کے ہاتھوں ملک بہ ملک اور دربدر مارا پھرتا رہا۔ بلآخر ١٦٠٠ء میں پکڑا گیا اور نئے خیالات اورنئی سائنس کی وجہ سے اس الزام کی پاداش میں کہ وہ ملحد ہی نہیں بلکہ راس الملاحدہ ہے ۔ دینی عدالت کے قید خانے میں ڈالا گیا۔ سب سے بڑا الزام اس پر یہ تھا کہ وہ تعداد عوالم جیسے "ناپاک" مسئلہ کا قائل ہے جوکتب مقدس سے تناقض کلی رکھتاہے۔ دوسال قید کاٹنے کے بعد وہ عدالت کے روبرو حاضر کیا گیا اورمقدمہ کی سماعت کے بعد اس" مقدس" دینی عدالت نے اس سفارش کے ساتھ اُسے دینوی حکام کے سپرد کردیاکہ " اسے نہایت نرمی سے سزا دی جائے اوریہ خیال رکھا جائے کہ اس کے خون کا ایک قطرہ بھی گرنے نہ پائے "۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اسکو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے۔ یہ سزا جس کے خیال سے ہی بدن کا نپ اٹھتا ہے۔ پوپ شاہی کے نزدیک نرم تھی۔ اگر آگ میں جلا دینا نرم سزا تھی ۔ توان اشخاص کا کیا حال ہوتا ہوگا جن کے ساتھ سختی کی جاتی تھی اورتعجب تویہ ہے کہ ایسی سزائیں اس شخص کے تابعین دیتے تھے۔ جواپنے آپ کو اس پاک ہستی کا جانشین کہتا تھا۔ جس نے اپنے مذہب کی بنیاد محبت کے اصول پر رکھی ہے۔
پرانے نظریہ کے مطابق خدا نے تمام نظام شمسی ہماری دنیا کی خاطر اوردنیا اور مافہیا کوانسان کی خاطر خلق کیا تھا۔ پس نظام عالم کا مرکز دنیا اوردنیا کا مرکز انسان ہوا۔ نئے علم ہئیت کے مطابق ہماری زمین صرف ایک چھوٹا سیارہ ہے جودیگر بڑے سیاروں کی طرح آفتاب کے گرد چکر لگاتاہے۔آفتاب کے متعلق نظامِ شمسی ہے۔ جس کارشتہ ہمارے آفتاب کے ساتھ ہے ۔جوبجائے خود محض ایک ستارہ ہے اورایک ارب کے قریب چھوٹے اور بڑے ستاروں میں سے ایک ہے۔اگرہم اس آفتاب کا دوسرے ستاروں کے حجم کے ساتھ مقابلہ کریں تووہ ضغیر ترین ستاروں میں سے نکلتا ہے پچھلی تین صدیوں میں علم ہئیت نے ایسی حیرت انگیز ترقی کی ہے جہاں آگے صرف ہماری دنیا ہی عالم موجودات سمجھی جاتی تھی اب عالم موجودات کی حدود ووہم وگمان اور خیال میں بھی نہیں بندھ سکتیں۔ اِ ن ان گنت دنیاؤں کی پہنائی کا اندازہ کرتے ہوئے دماغ دیوانہ ہوجاتاہے ۔اورہم مزمور نویس کے ہم آ واز ہوکر نظام عالم کووسیع پیمانہ پر محسوس کرکے کہہ سکتے ہیں " جب میں تیرے آسمانوں پر جو تیری دستکاریاں ہیں۔ دھیان کرتاہوں اورچاند ستاروں پر جو تونے بنائے توانسان کیا ہے کہ تواس کی یاد کرے اور آدمزاد کیا کہ تو اس کی خبر لے"(زبو ٨:٣ -٤)۔
آج کل اس نئی تعلیم کوپانچویں جماعت کا لڑکا بھی مانتاہے۔لیکن اس زمانہ میں سوائے چند ذی علم اصحاب کے کوئی بھی اس کو نہ مانتا تھا۔ جناب پوپ صاحب نے اس کو جوروظلم اور استنبداد کے ذریعہ مٹانا چاہا ۔کیونکہ آزادی خیالات پوپ شاہی کے لئے سمِ قاتل کا اثر رکھتی تھی۔ سولھویں صدی کے دیگر مذہبی پیشواؤں اورمصلحین نے بھی اس کو مسیحیت کے متناقض اور منافی قرار دے کر ردکردیا مسیحی بزرگان دین بھی اس غلط عقیدے کے قائل تھے کہ یہودی کتب مقدسہ جملہ علوم وفنون کی مخزن ہیں۔ لہذا اُنہوں نے روایت کودرایت پر ترجیح دی۔ پوپ صاحب کے مقلدان نئے ہئیت دانوں کوکہتے تھے کہ تمہاری کلیسیائی تعلیم کے منافی ہے ۔ مصلحین ان کو کہتے تھے کہ تمہاری تعلیم کتاب مقدس کے خلاف ہے۔ مثلاً لوتھ ٥ ر کوپرینکس کی نسبت کہتاہے کہ وہ بے وقوف ہے جو " کل ہئیت دان" ہے۔ اورجواپنے خیالات کومقدس کتابوں سے زیادہ مستند خیال کرتاہے"۔کیلون ٢ ٦ نے تواپنے زعم میں اس جھگڑے کوہی یہ کہکر ختم کردیا کہ " کسی شخص کویہ جرات ہوسکتی ہے کہ کوپرینکس کی سند کو روح القدس سے بہتر جانے"۔
لیکن پوپ صاحب کے اقتدار تعدی اور مصلحین اور دیگر مذہبی پیشواؤں کی مخالف کےباوجود علم ہئیت کی نئی تعلیم جڑ پکڑ گئی ١٦٣٢ءمیں گلیلیو کو قیداور اذیت کے سبب یہ کہنا پڑا تھا"میں گلیلیو جواب اپنے ستروہویں سال میں ہوں۔۔۔۔۔ زمین کی حرکت کی بدعت اور غلطی کوترک کرتاہوں اس سے نفرت کرتاہوں اورایسی تعلیم پر لعنت بھیجتاہوں "۔ پچاس سال کے اندر اندر نیوٹن ٧ نے قوانین کشش ثقل کودریافت کرکے علم ہئت کی بنیاد ایک مضبوط چٹان پررکھ دی۔ اور اب ابتدائی سکولوں کے طلبا بھی اس کو مانتے ہیں۔ حق وباطل کی جنگ میں حق بلآخر فاتح ہوتاہے۔ علم ہیت جیت گیا لیکن پوپ صاحب نے اس کی مکتوب کو ١٨٣٥ء تک اپنی فہرست کتب ممنوعہ میں رکھا۔
٢
مذہب اور سائنس میں پھر دوسری دفعہ اٹھارہویں صدی میں سخت جنگ چھڑی پہلی دفعہ میدان جنگ علم ہیت تھااور سوال زیربحث یہ تھاکہ آیا" مکان" کی قیود ایسی ہی سخت ہیں جیسی رومی کلیسیا اور ٹولومی (بطلیموس) کے مقلد بتاتے تھے اس جنگ میں علم ہیت جیت گیا اور"مکان" کی قیود کو توڑ کر اس کی حدود کواب اتنا وسیع کردیاگیا کہ اس کی حدود تک اب قوت متخیلہ بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ اب کی دفعہ میدان جنگ علم طبقات الارض بنا اور سوال زیر بحث یہ ہواکہ" زمان" کی قیود کیا ہیں۔ اٹھارہویں صدی تک یہ خیال رائج تھاکہ دنیا کی خلقت کوچھ سات ہزار سال ہوئے ہیں۔ یہ ایک پُرانا یہودی خیال تھا لیکن مسیحیوں نے اس کو بھی مسیحیت کا جزوبنالیا تھا ۔ چنانچہ پوپ اربن ٨ ہشتم نے ١٦٤٠ء میں جامع علوم اور منزہ عن الخطا ہونے کی حیثیت سے یہ فتویٰ دیا کہ انسان سیدنا مسیح سے پانچ ہزار ایک سو ننانوے برس قبل پیدا کیا گیا تھا۔ اسقف اعظم اشرصاحب ٩ نے عہد عتیق کے اعداد کوجمع کرکے یہ فتویٰ دیاکہ دنیا نیست سے ہست کی گئی تھی اور سیدنا مسیح سے قبل چار ہزار سال یہ دنیا خلق ہوئی ڈاکٹر جان لایٹ فٹ ١٠ نے (جوکیمبرج یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے) اعداد کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ یہ نظام عالم سیدنا مسیح سے قبل چار ہزار سال ماہ اکتوبر میں خلق کیا گیا اور آدم کواسی ماہ اکتوبر کی ٢٣تاریخ کوصبح ٩ بجے خدا نے پیدا کیا۔ جوں جوں علم طبقات الارض ترقی کرتا گیا یہ امر واضح ہوگیاکہ کتاب پیدائش میں خلقت کا بیان غلط ہے۔اور زمین کوبنے لاکھوں سال ہوگئے ہیں۔ اس طرح "زمان" کی قیود کوبھی اڑادیا گیا۔ اب معلوم ہواکہ نظام عالم کی عمر میں چھ سات ہزار سال ایسے ہی جیسے گھڑی کی ایک ٹک ۔ ہماری زمین کے بننے میں ہی لاکھوں سال لگ گۓ ہیں۔ اورجو ہم کو علم ہئت بتاتاہے کہ ہماری زمین ہمارے آفتاب سے تیرہ لاکھ گنا چھوٹی ہے اورہمارا آفتاب عالم کے صغیر ترین ستاروں میں سے ہے تواب ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ہماری دنیا کے بننے میں لاکھوں سال لگ گئے توباقی نظام عالم کی عمر کیا ہوگی اس طرح" زمان" کی حدودوگمان اوروہم سے بھی پرے چلی جاتی ہیں اورہماری قوت متخیلہ" زمان" کی حدود کو پہنچنے میں ناکام رہتی ہے۔
اٹھارہویں صدی کے درمیان فرانسیسی عالم بفون ١١ نے ان خیالات کوایک کتاب کی صورت میں شائع کیا لیکن ساربون ١٢ کے کیتھلک علما نے اس پر یہاں تک حیر کیاکہ اس نے ان سب خیالات کوترک کرنے کا ا قرار کیا"جوموسیٰ کے بیان کے مخالف ہوں"۔ اصلاح یافتہ فرقوں کے مذہبی پیشواؤں نے بھی اس جدید سائنس کی سخت مخالفت کی کیونکہ اس طورپر ہم چار یا پانچ ہزار سال کی قلیل مدت سے قرنوں اورجگوں پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن ایک طرف تومحض یہودی روایات تھیں اوربالمقابل عقل پر ا باندھے تھی حق وباطل کی جنگ میں علم طبقات الارض کو فتح حاصل ہوئی۔لیکن اس بحث میں فریقین نے غیر معمولی اعتدال سے کام لیا اور جس معاندانہ اور منتقمانہ طورپر علم ہئت کی مخالفت کی گئی تھی علم طبقات الارض کو اس سے سابقہ نہ پڑا۔
٣
مذہب اور سائنس میں تیسری بار ١٨٩٥ء میں جنگ چھڑی ۔ یہ جنگ نہایت خوفناک اور پہلی لڑائیوں سے زیادہ زبردست اور وسیع پیمانہ پر ہوئی اس سال ڈارون ١٣ نے ایک کتاب"اصل انواع " شائع کی۔ ڈارون کی تحقیقات سے پہلے عوام الناس کا یہ عقیدہ تھا کہ بنی نوع انسان کی ابتدا آدم اورحوا سے ہوئی۔ جن کو قادر مطلق نے معجزانہ طورپر خلق کیا تھا۔ یہ دونوں ابتدا میں دیگر حیوانات سے علیحدہ ہی تھے حتیٰ کہ دونوں کا آپس میں کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا۔ ان حیوانات کی مختلف انواع کوبھی خدا نے معجزانہ طورپر جدا جدا پیدا کیا اور ان کا بھی آپس میں کوئی رشتہ یا تعلق نہیں تھا۔ خلقت کی اشیاء ایک دوسرے سے علیحدہٰ اور جداگانہ خلق کی گئی تھیں ۔ پس جمادات کا نباتات سے اورنباتات کا حیوانات سے اور حیوانات کا انسان سے کوئی تعلق رشتہ یا واسطہ نہیں تھا۔ ڈارون کی تحقیقات نے ہم پر یہ راز منکشف کردیاکہ مختلف انواع ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ایک ہی سلسلہ میں منسلک ہیں۔ جس طرح ڈارون سے پیشتر سائنس نے عالم جمادات کو قوانین قدرت کے ماتحت کردیا تھا۔ اسی طرح اب ڈارون نے حیوانات اورانسانوں کو قوانین قدرت کے ماتحت اورایک ہی سلسلہ میں منسلک کر کے انواع کی خوارق عادت خلقت اورانسانات کی اعجازی خلقت کے خیال کوہرروشن دماغ انسان کی عقل سے بھگادیا اور ثابت کردیاکہ انواع کی ابتدا حالات گردوپیش کے تاثرات پر موقوف ہے یعنی ذی حیات موجودات ماحول کو بدلنے کی وجہ سے خود تبدیل ہوتے رہتے ہیں اوریہ تبدیلی ماحول میں موثر ہوکر اس ماحول کوبھی بدل دیتی ہے۔ جب اس تاثیر وتاثر کے باعث موجودات اوراُن کے ماحولات آپس میں غیر موافق ہوجاتے ہیں تویاذی حیات اشیا جہت للبقا کے اصول کے موافق فنا ہوجاتی ہیں۔ یا اپنی کل طاقتوں کا استعمال کرکے اپنے ماحول سے مطابق ہوجاتی ہیں۔ اس دنیا میں مختلف انواع کے افراد کوزندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اوراس جہدوجہد میں دیگر افراد کے ساتھ دھینگا مشتی کرنی پڑتی ہے۔ جوافراد اس جدوجہد میں ناکام رہتے ہیں وہ مرجاتے ہیں اور رفتہ رفتہ اُن کی نوع مٹ جاتی ہے لیکن جو افراد اس میں کامیاب ہوتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ بقائے اصلح کی نوع قائم ہوکر خود دوسری شکل اختیار کرلیتی ہے۔اور یوں مختلف انواع ایک دوسرے کے ساتھ غیر منقطع طورپر وابستہ ہیں اور اسی اصول سے انسان بھی بوزنہ کی نوع سے صفحہ ہستی پر نمودار ہوا۔
ڈارون کے مسئلہ ارتقا نے دنیا کی کایا پلٹ دی۔ حکمتی طریق استقرارء سے اس نے اپنے نظریہ کوثابت کیا ۔ اوراپنے خیالات کو ١٨٥٩ء میں ایک کتاب کی صورت میں دنیا پر ظاہر کیا۔ اس کتاب کی تمام جلدیں اشاعت کے دن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئیں۔ اوراس نے مذہبی دنیا میں ایسی ہلچل مچادی کہ الآمان ۔ لوگوں کے اعتقاد جڑ بنیاد سے ہل گئے ۔ ہادیان مذہب نے اپنا پرا جمایا۔ اوراس جدید تحقیق کی مخالفت پر کمر باندھی ۔ پوپ پالیس نہم نے جامع علوم اور منزہ عن الخطا ہونے کی حیثیت سے اس کورد کیا اور فتویٰ دیاکہ " یہ تعلیم تواریخ کے اور کل بنی نوع انسان کی روایات کے اور خود سائنس کے اورکوائف اور عقل کے منافی ہے" اسقف ولبرفورس نے آکسفورڈ میں ڈارون پر سخت حملات کئے۔ ڈاکٹر پسی جیسے عالم نے بھی یہی روش اختیار کی اورکہاکہ " غیر ذی عقل حیوان کا ذی عقل انسان بن جانا اورایک نفر انگیز شے سے ایک ایسے وجود کا صفحہ ہستی پر آنا جو خدا کی صورت پر بنا ہو ایک مضحکہ خیز نظریہ ہے جس کے ثبوت میں شہادت کا نشان تک نہیں ملتا اور نہ ہی ایسے لغو نظریہ کا سائنس کے ساتھ تعلق ہوسکتاہے "۔ ڈارون نے اس کے جواب میں لکھا " ڈاکٹر پسی کے حملہ سے مسئلہ ارتقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ اورنہ ہی وہ اس کی ترقی اور مقبولیت میں سد راہ ہوسکتاہے ۔ جس طرح علم الارض پر پچاس سال ہوئے ہادیان دین نے سخت حملے کئے تھے اورجس طرح کیتھلک کلیسیانے گلیلیو پر حملے کئے تھے لیکن وہ سائنس کے نتائج کی مقبولیت میں سد راہ نہیں ہوئے تھے۔ عوام الناس سائنس کے معاملات میں صرف سائنس دانوں پر ہی اعتماد کرسکتے ہیں بالخصوص جب وہ کسی ایک بات پر متفق الرائے ہوں"۔ لازم تو یہ تھاکہ پیشوا یانِ مذہب اس وقت تک خاموش رہتے جب تک مختلف سائنس دان اس نظریہ کے مختلف پہلوؤں پر غورکرکے متفق نہ ہوجاتے اوراس اثنا میں وہ اس امر پر سوچ بچار کرتے کہ مسئلہ ارتقا سے مسیحیت پر کیا اثر ہوتاہے۔لیکن اس کی بجائے ہادیان مذہب نے اس میں مفردیکھا کہ واقعات سے آنکھیں بند کرکے ڈارون کے جملہ ودعاوی سے انکار کیا جائے ۔ لیکن حق وباطل کی لڑائی میں بطالت کی ہمیشہ ہزیمت ہوتی ہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایا ہے کہ " راہ۔ حق اور زندگی میں ہوں" اس کے پیروؤں کو حق سے خوف سے نہیں کھنا چاہیے تھا۔ ڈارون کے نظریہ میں چند اصول حق بجانب تھے اور چند اصول غلط تھے۔ اب ان غلط اصول کو چھوڑ کر ہادیان مذہب نے مسئلہ ارتقا کوقبول کرکے اپنے آقا ومولا اورمنجی کے حقیقی پیرو ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ مسئلہ ارتقا نے اب خدا انسان ۔طریق خلقت اورمسیحی ایمان پر نئی روشنی ڈالی ہے۔ اور اب اس مسئلہ ارتقا کی روشنی میں ہم کتب مقدسہ کوبہتر طورپر سمجھ سکتے ہیں۔ مسیحی ایمان اس سے پیشتر چند غلطیوں اورتوہمات میں پھنسا تھا لیکن مسئلہ ارتقا نے ہمارے ایمان کو ان توہمات اور مغالطات سےآزاد کردیا ہے کیا سیدنا مسیح نے خود نہیں فرمایاکہ " سچائی تم کو آزاد کرے گی"؟
٤
بعض دوراندیش ہادیان مذہب ن جب دیکھاکہ جدید سائنس کے نتائج عقل اور شہادت پر مبنی ہیں اور ان کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں تو اُنہوں نے یہ امید ظاہر کی کہ سائنس اور حقائق الہامی آپس میں بظاہر مغائر ہیں اورکہ اس مغائرت اور منافقت کی شافی تاویل ہو سکتی ہے۔ پس اُنہوں نے کتاب مقدس اور اکتشافاتِ سائنس میں مطابقت دکھانے کی کوشش کی ۔ پس کتاب مقدس اور علم ہئت علم طبقات الارض علم الحیات اور دیگر علوم میں اس طورپر مطابقت دکھائی کہ آیات شریفہ کو ادھر اُدھر سے اپنے سیاق وسباق سے علیحدہٰ کرکے جمع کیا اوران کو مروڑ تروڑ کر ایسے معنی ان پر چسپاں کئے جو اُن آیات کے لکھنے والوں کے خوب خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے ۔ ان آیات کی تاویلات کے ذریعہ سائنس اور کتب مقدسہ میں مطابقت ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی آیات عہد عتیق سے علم تاریخ علم جغرافیہ ۔ علم ہئت ۔علم طبقات الارض۔ علم الانسان علم الحیات وغیرہ کے ایسے ایسے خیالی نکات کا استخراج کیا کہ ہم ان کی رائگا اور بے سود کوشش کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اگرہم توافق اورمطابقت پیدا کرنے کی کوششوں کا معائنہ کریں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ ان اصحاب کی نیت تونیک تھی لیکن وہ سائنس کی معلومات سے عاری تھے۔ مرحومہ اکبر الہٰہ آبادی کا شعر ان پر صادق آتاہے"۔
کچھ شک نہیں کہ حضرات ۔واعظ ہیں خوب شخص یہ اور بات ہے کہ ذرا بے وقوف ہیں۔ اہل سائنس نے بغیر کسی تکلیف کے ثابت کردیا کہ یہ پادر ہوا تاویلات سمئی باطل ہیں۔ توافق ومطابقت ثابت کرنیکی کوششوں کوشکست فاش نصیب ہوئی۔ چونکہ حق وباطل کی جنگ میں حق کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہو گیاکہ مطابقت دینے کی کوشش حق بجانب نہیں بلکہ باطل تھی۔
فصل دوم
تنقیدِ اصول سائنس
١
سائنس نے جب مذہب کو متواتر شکستیں دیں اور ہرصدی میں اور ہر کار زار میں اس کو فتح پر فتح نصیب ہوئی تواس کا دیگر فاتحوں کی طرح دماغ پھر گیا اور " ہمچو مادیگرے نسیت" کا خبط اس کے سرمیں سماگیا۔ اب اس نے اپنے دعاوی بڑھانے شروع کئے اور میدان صاف پاکر نظام عالم کی ہر شاخ پر قبضہ جمالیا اور کل جہان کو اور علم کی تمام شاخوں کوقوانین قدرت کے ماتحت کردیا ۔ اور محض قوانین قدرت کے ذریعے عالم اور نظام عالم کے محنفی رازوں کو جاننا چاہا۔ اصول توحدِ فطرت اور کلیہ تعلق علت ومعلول کے ذریعے اس نے انیسویں صدی کے آخری میں تمام " اشیاء " کی حقیقت سے واقف ہوناچاہا اور" اشیاء" فہرست میں ایک اور معلوم شئے کو داخل کرلیا۔ یعنی آفتاب ماہتاب ستارے پہاڑ دریا میدان سمندر نباتات حیوانات انسان اقوام لغت تاریخ فلسفہ نفسیات اقتصادیات خدا مذاہب تمدن عقل وغیرہ وغیرہ تمام عالم خالقِ عالم اور نظامِ عالم کو ان قوانین کے ذریعے سمجھنا چاہا۔خدا کو سائنس کی فرعونیت نے "نامعلوم خدا" بنا کے بالائے طاق رکھ دیا اور اس کی جگہ قوانین قدرت نے غضب کرلی جواد مطلق کا سرئے سے انکار کرکے روح اور روحانی عالم کا اور حیات بعد ازممات کا انکار کردیا اور دعویٰ کیا کہ عالم میں امکان خود بخود قوانین قدرت کے ذریعے ہست ہوا ہے۔جس کی ہستی میں کوئی علت غائی نہیں ہے۔مادی ذرات کے عمل کے سے تمام اشیاء ظہور پذیر ہوتی ہیں روح کوئی شئے نہیں بلکہ لطیف مادہ کا نام ہی روح ہے اور یوں نفسیات کو طبعیات میں مبدل کردیا ۔ اس طرح مادیت الحاد اور تجربیت نے مذہب کو اورجن امور کا اس سے تعلق ہے۔ یعنی خدا اورروح کو محض تحکم کی وجہ سے صفحہ ہستی سے خارج کرکے توہمات کے زمرہ میں داخل کردیا ۔لیکن حق وباطل کی جنگ میں حق ہی فاتح ہوتاہے ۔ اس دفعہ فرعون مزاج سائنس کوزبردست شکست نصیب ہوئی اور سچائی نے ہم کو اس کے باطل ودعاوی کے پھندوں سے آزاد کردیا ہے۔ اکبر مرحوم کیا خوب فرماگئے ہیں۔
نہیں سائنس واقف کاردیں سے
خدا باہر ہے حدِ دور میں سے
٢
اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں جب اہل نظر نے سائنس کی بنیادوں پر اوراس کے فرعون صفت دعاوی پر غور کیا تومذکورہ بالا افراط تفریط اور مبالغہ آمیزی سے دنیا نے نجات پائی ۔ پروفیسر ارنسٹ ماچ ١٤ نے جو علم طبیعات کے پروفیسر تھے ۔ اہل الرائے پر ظاہر کردیا کہ ہر سائنس اشیاء کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت کو چن کر اس پر رائے زنی کرتی ہے۔ پس سائنس کا تعلق خود اشیاء کی ذات سے نہیں۔ بلکہ صرف ان کی ظاہری صورت سے ہی ہے۔ سائنس طریق تجرید سے اپنے نتائج تک پہنچتی ہے اوراگرچہ یہ طریقہ اشیا کو جاننے کے لئے ضروری ہے ۔ لیکن اس طریقہ سے ہم اشیاء کی ماہیت کونہیں پہنچ سکتے۔
اس نظریہ کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قوانین قدرت کی اہمیت کم ہوگئی ۔ ان کواس بلند پایہ سے معزول کردیا گیا جہاں سائنس نےان کو پچھلی صدی میں پہنچایا تھا ۔ انگلستان میں کارل پیرسن ١٥ اور جیمس وارڈ ١٦ وغیرہ نے اور فرانس میں پوان کارے ١٧ بوٹرو ١٨ برگسن ١٩ وغیرہ نے سائنس کے اس پہلو پر زور دے کر ثابت کردیا کہ عالم امکان کی حقیقت اور کنہ تک پہنچنے سے سائنس قاصر ہے۔ اس تنقید کی روشنی میں اب ہم جان سکتے ہیں کہ عالم کوسمجھنے کے لئے کس طرح اور کس قدر مدد ہم کو سائنس دے سکتی ہے۔ سائنس کی تحقیقات اوراس کے نتائج صرف عالم صورت کے مشاہدات اور تجربات کا صحیح بیان اور تفصیل ہیں۔ لیکن ان سے زیادہ سائنس ہم کو کچھ نہیں بتاسکتی ۔ وہ ہم کو ان اشیاء کی نسبت جن کا تعلق مشاہدہ اور تجربہ سے نہیں کچھ نہیں بتاسکتی اور نہ ہی عالم صورت کے علاوہ کسی موضوع پر بحث کرسکتی ہے اور عالم صورت کی نسبت بھی ہمیں صرف نہایت سطحی طورپر خبردے سکتی ہے ۔ اوراگر کوئی شخص سائنس کے اس سطحی طریقہ سے عالم امکان کی تشریح کرنا چاہتاہے تو وہ صرف تحکم اور ادعا سے کام لیتا ہے اس کی باتیں اہل الرائے کے نزدیک ایک مجذوب کی بڑسے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں ۔
انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے کوشش کی تھی کہ مادہ کے ذریعہ عالم امکان کی تشریح بالتفصیل کردیں۔لیکن اب علم طبعیات کی جدید انکشافات نے ہی اس نظریہ کا خاتمہ کردیا ہے۔
ہر کس از دست غیر مے نالد
سعدی ازدست خویشتن فریاد
اب نظریہ سالمات کی عمارت جس کو انیسویں صدی کے آخر میں بڑی جانفشانی سے سائنس دانوں نے مادیت پر قائم کیا تھا جدید تحقیقات کے زلزلے نے گرادی ہے اور وہ سب محنت رائگاں ثابت ہوئی۔ اب پروفیسر ٹیٹ ٢٠ جیسے ماہر سائنس فرماتے ہیں " ہم نہیں جانتے کہ مادہ کیا ہے ۔ اور غالباً اس کی ماہیت کوکبھی نہیں جان سکیں گے "۔ مسٹر بالفور ٢١ بھی فرماتے ہیں " اب ہم مادیت پر اعتقاد نہیں رکھ سکتے کیونکہ ہم اب مادہ کوبہتر طورپر پہنچانتے ہیں" پس مادیت کے سجدہ گاہ کا سب سے بڑا اور مضبوط ستون گر پڑا ہے اور باقی ستون بھی روبہ زمین ہیں۔
قوانین بقائے قوت وبقائے مقدار مادہ بھی تنقید کی نظر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ چنانچہ پروفیسر ڈنکن ٢٢ صاحب فرماتے ہیں کہ " کیا قانون تحفظ مقدار مادہ حق مطلق کا مظہر ہے ۔ ایسا معلوم نہیں ہوتا " (نیا علم صفحہ ٢٤٩)۔ اور لی بان ٢٣ صاحب کہتے ہیں " جس طرح مادہ تباہ ہوسکتا ہے اسی طرح قوت بھی تباہ ہوسکتی ہے جو اس میں سے نکلتی ہے"(ارتقائے قوت صفحہ ١٦)۔پس سائنس کے دوعالمگیر قوانین (کانسرویشن آف انرجی " اور کانسرویشن آف ماس) کا دیوالہ نکل گیا۔ اوراس کے ساتھ ہی الحاد اورمادیت کا جنازہ سائنس دانوں نے خود ہی نکال دیا ۔
ع اے روشنی طبع توبرمن بلاشدی
علم الارض کے انکشافات نے جیسا ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ مذہبی دنیا میں قیامت برپا کردی تھی۔ لیکن اب علم الارض کے ماہرین ببانگ دہل پکار پکار کے مذہب کے تصدیق کررہے ہیں ۔ مثلاً برٹش ایسوسی ایشن کے صیغہ علم الارض کے جلسہ کے پریذیڈنٹ پروفیسر ۔ ڈبلیو ۔ اے پارکس صاحب اپنی افتتاحیہ تقریر میں یوں رطلب اللساں ہیں" علم الارض کے مطالعہ سے میں خدا کی ہستی کا قائل ہوگیا ہوں۔ میرا یہ ایمان ہے کہ مادیت علم الارض کے حیرت انگیز عجائبات کی تشریح کرنے سے عاجز ہے" وہی سائنس جوچند سال پیشتر مذہب کی علانیہ دشمن تھی اب اس کے پیروؤں میں شمار ہورہی ہے۔
علم الحیات نے جوترقی کی ہے اس سے بھی یہی مستنبط ہوتاہے کہ مادی نظریہ زندگی کی تشریح نہیں کرسکتا ۔چنانچہ پروفیسر ہلڈین ٢٤ فرماتے ہیں " جوحقیقت اظہر من الشمس ہے وہ یہ ہے کہ نظام عالم کی ہم مادی نظریہ سے تشریح نہیں کرسکتے۔ یہ نظریہ زندگی کی حقیقت کی تشریح کے لئے بالکل ناکافی ہے"۔ اختصار کی خاطر میں اقتباسات سے پرہیزکرتا ہوں لیکن ماہر ان علم الحیات نے اس امر کو تسلیم کرلیاہے۔ پروفیسر ڈریش ٢٥ اور پروفیسر جے ۔ اے ٹامسن ٢٦ نے اپنی تصنیفات میں اس امر پر واضح کردیاہے۔
گذشتہ صدی میں سائنس نے روح کے وجود کا انکار کرکے نفسیات کوطبعیات کی ایک شاخ بنادیا تھا۔ لیکن اب جس شخص کونفسیات سے ذرا بھی مس ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ پُرانا نظریہ کس قدر غلط تھا۔ اوراب کوئی شخص بھی ایسے نظریہ کی تائید کرکے علما اور اہل الرائے کے نزدیک بیوقوف بننا نہیں چاہتا۔
٢
پس اب سائنس کے سر میں ہمہ دانی کا جنون نکلتا جارہاہے ۔ جس طرح ہادیان مذہب کے سرسے یہ جنون نکل گیا ہے ۔ جب حق وباطل کی قوتیں برسر پیکار ہوتی ہیں۔ توگوکبھی کبھی بطالت کو تسلط وغلبہ حاصل ہوجاتاہے ۔ لیکن یہ حق الامر ہے کہ اس کا غلبہ ہمیشہ عارضی اورناپائدار ثابت ہوتاہے۔اورانجام کار فتح وکامرانی کا سہرا سچائی کے ہی سر رہتا ہے۔ اب رفتہ رفتہ سائنس اپنے حدود کو اور مذہب اپنے حدود کو جاننے لگ گئے ہیں۔ جب مذہب اپنی سرحد سے قدم باہر رکھ کر ہمہ دانی کا دعویٰ کرتاہے توسائنس براہین قاطع سے اس کو شکست دیتی ہے ۔ اورجب سائنس اپنی حدود سے قدم نکال کر عالم امکان کے متعلق ہمہ دانی کا دعویٰ کرتی ہے۔ توقواعد حکمت وفلسفہ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھاتی ہے اورخود اس کے اپنے بیگانے ہوجاتے ہیں دونوں اپنے اپنے حدود کے اندر رہ کر حق کی پہچان میں مدد یتے ہیں۔ اب سائنس کا شیر مذہب کے برے کے ساتھ ایک ہی جگہ خدا کی معرفت کے گھاٹ سے پانی پر علم کی پیاس کو بجھاتے ہیں ۔
سائنس اور مذہب اپنے پُرانے قصے اور عداوتوں کو بھلا رہے ہیں اور دو روٹھے ہوئے بھائیوں کی طرح پُرانے جھگڑوں اور تنازعوں کوختم کرکے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر کہتے ہیں ۔
من وتوہر دوخواجہ تاشا نیم
بندہ بارگاہ سلطا نیم
باب دوم
بچھڑے ہوؤں کی ملاقات
فصل اول فساد کی جڑ
سائنس اورمسیحیت میں جنگ اس واسطے چھڑی تھی کہ ہادیانِ مذہب نے غلط راہ اختیار کیاکہ اخلاق حسنہ اورنجات اخروی کی تعلیم دیتے دیتے اُنہوں نے ان باتوں میں بھی دخل دینا شروع کردیا تھا۔ جن سے اُن امور کا کوئی تعلق نہ تھا۔وہ دینیات کے علاوہ علم وحکمت کے بھی مخزن بن بیٹھے اور سائنس کے مسائل پر بھی ملہم من الہٰی کی حیثیت سے حکم صادر کرنے لگے ۔ اُنہوں نے بطلیموس کے نظریہ یہودی روایات وخیالات افلاطون ارسطو اوران کے تابعین کے فلسفہ اورحکمت کوخالص مسیحیت کا جزو لاینفک قرار دیا۔اس خلط مبحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقائق فطرت کے متعلق جب انسان کو صحیح صحیح علم حاصل ہوا تو ان کے دعاوی جنہیں الہام سے کوئی لگاؤ نہ تھا باطل ثابت ہوگئے ۔ اوراُن کے پیروان کوتمام امور میں جھوٹا سمجھ کر الحاد ۔ دہریت ۔ مادیت اورکفر کی جانب جھک پڑے پس سارے فتنہ کی جڑ یہ تھی کہ ہادیانِ مسیحیت نے اُن امور پر فتاویٰ صادر کرنے شروع کئے۔ جن کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ لازم تویہ تھا کہ وہ علوم دینوی کی نسبت خاموش رہتے۔ کیونکہ وہ ان کی دسترس سے باہر تھے اورنہ ہی وہ ان علوم پر حکم صادر کرنے کے اہل تھے ۔ لیکن اس کی بجائے وہ الٹا اہل سائنس پر ارتداد وکفر کے فتوے لگانے لگ گئے اورایک ایسا فتنہ برپاد کردیا جواب تک نہیں مٹا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ" مذہب انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لہذا وہ انسان کے ساتھ اس وقت سے ہے جب سے اس نے ہوش سنبھالا اورجبکہ سائنس کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ اس لئے مذہب کو روحانیت کے علاوہ دیگر تمام علوم کا کام بھی کرنا پڑا۔ پس ابتدا میں مذہب روحانی۔ اخلاقی ۔ معاشرتی ۔ سیاسی ۔ علمی غرضیکہ تمام انسانی شعبوں پر حکمران رہا اور ہادیانِ مذہب نہ صرف پیشوائے مذہب ہی تھے بلکہ وہ معلم بھی تھے۔ فلاسفر بھی تھے۔طبیب بھی تھے ۔ اورحاکم بھی تھے جب انسان نے ترقی کرنی شروع کی اوراس کی قوت مشاہدہ تجربہ اور تمدن زیادہ وسیع ہوتا گیا توہرشعبہ مذہب سے علیحدہٰ ہونا شروع ہوگیا۔ جوامور ابدان وصحت کے متعلق تھے وہ علم طب نے سبنھال لئے۔جوملکی تھے وہ علم سیاست نے لے لئے اور یوں علم جغرافیہ علم ہئت ۔علم طبقات الارض وغیرہ موجود میں آئے ہادیانِ دین نے جب یہ دیکھا تواُنہیں یہ امرناگوار گذرا"۔ وہ اپنی پُرانی باتوں پر جمے رہے۔ سائنس وعلوم کی ترقی کومسیحیت کی مخالفت اور استیصال کا باعث خیال کرتے رہے۔ لیکن درحقیقت ان امور کو نہ پہلے مسیحیت سے تعلق تھا اورنہ ہی اب ہے۔ اورنہ ہی سائنس کی ترقی مسیحیت کے راستہ میں حائل ہوسکتی ہے اگرہم سائنس اورمسیحیت کی بنیادوں پر نظر کریں تویہ امر بخوبی واضح ہوجاتاہے ۔ وہ بنیادیں کیا ہیں؟
فصل دوم ۔ اساسِ سائنس ومسیحیت
اب لازم ہے کہ ہم سائنس اورمسیحیت کی بنیادوں پر غور کرکے ان سوالات کا جواب دیں کہ سائنس کیا ہے؟ اوراُس کا تعلق کن اشیا ء سے ہے؟ اورکتاب مقدس کا مقصد کیا ہے۔ اوراس کا تعلق کس شئے سے ہے۔ اوروہ ہم کو کیوں عنایت ہوئی ہے؟ کیا دونوں میں کوئی رشتہ ہے اگر ہے توکس قسم کا ہے؟
سائنس کیا ہے؟ سائنس کا تعلق مشاہدہ اور تجربہ سے ہے۔ سائنس اُن اشیاء کوجوبذریعہ حواس خمسہ ہمارے مشاہدہ اورتجربہ میں آتی ہیں ترتیب دیتی ہے۔ اوراُن کے قوانین کوہم پر ظاہر کرتی ہے۔ پس وہ اشیاء جوہم اپنے حوا س سے محسوس کرسکتے ہیں ۔ سائنس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔مثلاً علم طبقات الارض۔ علم النفس ۔ علم الاحساب ۔ علم طبعیات وغیرہ۔ ان تمام کی بناء مشاہدہ اور تجربہ پر ہے۔ لہذا یہ علوم سائنس کی شاخیں ہیں۔
اب ہم کتاب مقدس کی طرف غور کریں ہمیں کتاب مقدس کیا تعلیم دیتی ہے اورکس مضمون پر دیتی ہے؟ کیا اس کا نفس مضمون بیرونی اشیاء سے تعلق رکھتاہے۔ کیا ان بیرونی اشیاء کے قوانین کتاب مقدس میں منضبط ہیں کیا ہم کوکسی جگہ بھی علم طبقات الارض یا علم ہئیت یا کسی اور علم کے قوانین ملتے ہیں؟ اگرہیں تو کتاب اورباب اورآیت پیش کی جائے ۔ اگر نہیں توثابت ہوگیا کہ سائنس کا نفس مضمون اورہے اور کتاب مقدس کا اور ۔
اگرچہ کتاب مقدس میں بیرونی اشیا کے قوانین مندرج نہیں ۔ تاہم ان اشیاء کا ذکر اکثر اوقات آتاہے۔ دریا۔ پہاڑ ۔سمندر ۔ سورج ۔ چاند ۔ستارے نباتات ۔حیوانات ۔ مختلف اقوام اور ممالک کی تواریخ اوران کے نام وغیرہ کتاب مقدس میں پائے جاتے ہیں ۔لیکن اُن کے قدرتی قوانین کا ذکر تک بھی کہیں نہیں ۔مثلاً زمین کا ذکر بیسیوں مرتبہ بائبل میں آیا ہے۔ لیکن علم الارض کا ایک قانون بھی نہیں ملتا۔اسی طرح سورج ۔چاند۔اور ستاروں کا ذکر ہے ۔ لیکن علوم النجوم کے قوانین کتاب مقدس میں نہیں ملیں گے۔اقوام کی تاریخ ہے۔ لیکن علوم التواریخ کے قوانین کہیں نہیں۔ روح کا ذکر بائبل شریف میں لاکھوں جگہ ہے۔ لیکن اس کے ورق چھان مارو پیدایش سے مکاشفات تک پڑھ لوکہیں بھی علم النفس کے قوانین نہیں ملیں گے زندگی اور حیات کا ذکر سینکڑوں مرتبہ انجیل جلیل میں آیا ہے لیکن علم الحیات کے قوانین کا ذکر اس میں نہیں پایا جاتا ۔
اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا سبب یہ ہے کہ سائنس اورکتاب مقدس ان اشیاء کو ایک ہی نقطہ خیال سے نہیں دیکھتیں۔ سائنس کا پہلو اور ہے۔ بائبل شریف کا پہلو اور ہے۔ سائنس ان اشیاء پر اس لئے غور کرتی ہے کہ ان میں ترتیب ونظام دے کر ان کے آئین اور قوانین دریافت کرے۔ لیکن کتاب مقدس کا نقطہ خیال یہ نہیں۔ کتاب مقدس ہرشے میں خدا کا جلال اوراُس کی عظمت ومحبت دکھاتی ہے۔ ہر شے میں خواہ اجرام فلکی ہوں خواہ ارضی خدا کا ظہور دکھاتی ہے۔ اختصار کی خاطر مثال کے طور پر ہم صرف اجرام فلکی کولیں۔
علم النجوم سیاروں کی حرکت کا مشاہدہ کرتاہے اس علم کا ایک قانون یہ ہے کہ سیارے آفتاب کے گرد چکر لگاتے ہیں اور اس قانون کی بناء پر چند اور قوانین مرتب ہیں۔ مثلاً زمین کے اپنے گردگھومنے سے دن اور رات بنتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کتاب مقدس ان اجرام فلکی پر بالکل اور ہی پہلو سے نظر کرتی ہے"۔ آسمان خدا کا جلال بیان کرتے ہیں۔ اور فضا اس کی دستکاری دکھلاتی ہے۔ ایک دن دوسرے دن سے باتیں کرتاہے۔ اورایک رات دوسری رات کو معرفت بخشتی ہے۔ ان کی کوئی لغت اور زبان نہیں ان کی آواز سنی نہیں جاتی ۔ پر ساری زمین میں ان کی تارگونجتی ہے اور دنیا کے کناروں تک اُن کا کلام پہنچاہے۔ ان اُس نے آفتاب کےلئے خیمہ کھڑا کیاہے جودلہے کی مانند خلوت خانے سے نکل آ تاہے۔ اورپہلوان کی طرح میدان میں دوڑنے سے خوش ہوتاہے ۔افلاک کے کنارے سے اس کی برآمد ہے اوراسکی گردش ان کے دوسرے کنارے تک ہوتی ہے"۔(زبور ١٩: ١سے ٧)۔"خداوند کے لئے گا اے ساری زمین خداوند کےلئے گاؤ ۔ اوراس کے نام کومبارک کہو۔۔۔ کیونکہ خداوند بزرگ ہے اورنہایت ستائش کے لائق ہے۔۔۔ آسمانوں کا بنانے والا خدا ہے۔ عظمت اورحشمت اس کے آگے ہیں۔ توانائی اورجمال اس کے مقدس میں ہیں۔۔۔۔ آسمان خوشی کریں اور زمین شادیانہ بجائے۔ سمندر اس کی ساری معموری شورکریں۔ میدان اس سب سمیت جو اِن میں ہے باغ باغ ہوئیں۔ بن کے سارے درخت لہلہا ئیں خداوند کے آگے کیونکہ وہ آتاہے"(زبور ٩٦)۔
"خداوند کی ستائش کرو۔۔۔۔ اے سورج اوراے چاند اس کی ستائش کرو۔ اے پانیو جو آسمانوں کے اوپر ہو اُس کی ستائش کرو۔ وہ خداوند کے نام کی ستائش کریں کہ اس نے حکم دیا اور وہ موجودہوگئے اس نے اُن کو ابدی پائداری بخشی۔ اس نے ایک تقدیر مقرر کی جو ٹل نہیں سکتی ۔ اے گہراؤ زمین پر سے خداوند کی ستائش کرو آگ اور اولے۔ برف اور زور کی آندھی جو اس کےحکم کوبجالاتے ہیں۔ پہاڑ اور سارے ٹیلے میوہ دار درخت اورسارے دیودار جنگلی جانور اور سارے مویشی کیڑے مکوڑے اور پرندے ۔ شاہانِ زمین اور ساری اُمتیں ۔ ۔۔۔۔خداوند کے نام کی ستائش کریں کہ اس کا نام اکیلا عالیشان ہے ۔ اُسی کا جلال زمین اور آسمان پر پھیلا ہے"(زبور ١٤٨)۔
مذکورہ بالاآیات سے ثابت ہوتاہے کہ کتاب مقدس ان قدرتی اشیاء ۔سورج ۔ چاند۔ ستارے آسمان ۔ زمین ۔پہاڑ ۔ دریا۔ آگ۔ برف ۔آندھی ۔ نباتات ۔ مویشی پرندے کیڑے مکوڑے وغیرہ کو سائنس کے نقطہ خیال سے نہیں دیکھتی ۔ لیکن ہر شئے میں خدا کا جلوہ اور اُس کی قدرت کا ظہور دیکھتی ہے۔ قوانین قدرت میں بھی خدا ہی کا ظہور ہے"۔ اُس نے ایک تقدیر مقررہ کی جوٹل نہیں سکتی(زبور ١٤٨: ٦)۔
" اُس نے مینہ کےلئے ایک قانون کیا اور برق اور رعد کے لئے ایک راہ ٹھہرائی "(ایوب ٢٨: ٦)۔سائنس ہم کو بتاتی ہے کہ دنیا کی خلقت کس طرح ہوئی ۔ کتاب مقدس ہم کو بتاتی ہے کہ دنیا کس نے خلق کی"۔ خدا نے آسمان وزمین کو پیدا ۔"(پیدائش ١: ١)۔پیدائش کی کتاب کا مدعا یہ نہیں کہ خلقت کا طریقہ ہم ہر ظاہر کرے ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ خالق کو ہم پر ظاہر کرے اوریہ ثابت کرے کہ خلقت کا ہرایک حصہ خدا نے خلق کیا ہے۔کہ آسمان اور زمین اجالا اور فضا ۔ سمندر اور خشکی۔نباتات اور جمادات آفتاب اورمہتاب ۔دن اور رات انسان اور حیوان ۔چرندے اور پرندے وغیرہ تمام خدا ہی نے پیدا کئے ہیں۔ اس کتاب میں ہر جگہ خداہی کا ذکر ہے ۔ خلقت کی ابتدا خدا ہے ۔ خلقت کی انتہا خدا ہے۔ سب اشیاء کی علت خدا ہے۔ ہر شے میں خدا ہی کا ظہور ہے اور ہر چیز میں اُسی کا ہاتھ دکھائی دیتاہے۔
ہمیں اس واضح حقیقت کوہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ پیدائش کی کتاب سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ کتاب مقدس ہم کو سائنس کی باتیں سکھانے یا کہیں دعویٰ نہیں کرتی ۔ بعض اصحاب کا خیال ہے کہ پیدائش کی کتاب میں ہم کو سائنس کا علم ملنا چاہیے لیکن کتاب مقدس ایسے خیالات کی نہ ہی موید ہے۔ اورنہ ہی ہم کو اس میں سائنس کے نتائج دئیے گئے ہیں۔پس ہم کو اس میں سائنس کے نتائج ہرگز نہیں ڈھونڈنے چاہئیں۔ سائنس کا نقطہ خیال پیدائش کی کتاب کے نقطہ خیال سے مختلف ہے ہم کو ان مختلف پہلوؤں میں ہمیشہ امتیاز کرنی چاہیے ۔ سائنس بیرونی اشیاء کی نسبت یہ سوال کرتی ہے کہ یہ بیرونی اشیاء کس طرح کہاں اورکب وجود میں آئیں ان سوالات کا تعلق تجربہ ۔مشاہدہ اور حواس خمسہ سے ہے۔ لیکن کتاب مقدس کے سوالات مختلف ہیں۔ بیرونی اشیاء کیوں وجود میں آئیں اوران کا مبدااور انتہا۔ اول اور آخر کیا ہے۔ اوریہ ظاہے کہ ان سوالات کا تعلق حواس خمسہ اورمشاہدہ سے نہیں یہ سوالات سائنس کے سوالات سے زیادہ عمیق ہیں۔ سائنس ان کی تہ کو نہ پہنچ سکتی ہے اورنہ ہی پہنچنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر ہم اشیاء کی حقیقت کوکامل طورپر سمجھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ ہم دونوں پہلو جانیں۔ یعنی ہم نہ صرف یہ جانیں کہ اشیاء کس طرح وجود میں آئیں لیکن یہ بھی کہ کس نے خلق کیں۔ پس دونوں سوالات ایک دوسرے کے متضاد نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کو کامل کرتے ہیں ۔ سائنس کے جوابات بغیر کتاب مقدس کے جوابات کے غیر مکمل اور ادھورے رہ جاتے ہیں ۔ پس وہ شخص جویہ دعویٰ کرتا ہے کہ سائنس اور پیدائش کی کتاب میں تناقض ہے۔ سائنس کے مقصد اور پیدائش کی کتاب کے مدعا سے بالکل بے بہرہ ہے جیسا اوپر ذکر ہوچکاہے۔ ۔سائنس کا پہلو اور ہے کتاب مقدس کا پہلو اور ہے۔ اور ایک پہلو دوسرے پہلو کے بغیر نامکمل ہے اور دونوں پہلو مل کر اشیاء کی حقیقت کو ہم پر بخوبی واضح کردیتے ہیں ۔ پس جب دونوں پہلو ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو سائنس اور پیدائش کی کتاب میں تضاد کہاں رہا۔ تضاد توتب ہو جب پیدائش کی کتاب کا اور سائنس کا نقطہ خیال ایک ہی ہو۔لیکن جہاں نقطہ خیال ایک نہیں وہاں تضاد اور نقص کی گنجائش نہیں۔پس جب سائنس کا نقطہ خیال کتاب مقدس کے نقطہ خیال سے کلیتہً مختلف ہے اور ان میں تناقض نہ رہا۔ توہم سائنس کے نتائج اورکتاب مقدس دونوں کو مان سکتے ہیں ہم علم الارض ۔ علم النجوم۔ علم الطبعیات وغیرہ سے خلقت کی نسبت اورکتاب مقدس سے خالق کی نسبت سیکھ سکتے ہیں۔سائنس اپنی جگہ راستی پر ہے اور کتاب مقدس اُسی راستی کو دوسرے پہلو سے ہم پر ظاہر کرتی ہے ۔ اورایک دوسرے کی تکذیب نہیں کرتی۔ کتاب مقدس سائنس کوکاذب نہیں ٹھہراتی۔ اورنہ ہی سائنس بائبل شریف کی تردید کرتی ہے۔ ایک استدلال عقلی اور اسقترا کے رستہ اپنی منزل مقصود کوپہنچتاہے ۔ دوسرا جذبات اور روحانی تجربات کی راہ سے ۔لیکن کسی کو حق نہیں کہ دوسرے کو خارج کردے ۔ مشہور ومعروف سائنس دان ہکسلے نے کیا خوب کہاہے"۔ درحقیقت سائنس اورمذہب دوتوام ہمشیریں ہیں۔ ایک کی موت دوسرے کےلئے پیغام اجل ہے۔" سائنس اور بائبل دومختلف طریقے ہیں ۔ جن کے وسیلہ سے خدا اپنا علم اورمکاشفہ ہم کو عطا فرماتاہے ۔
پس ثابت ہوا کہ وہ شخص غلطی پر ہے جوبائبل شریف کو اس واسطے نہیں مانتا کہ اس میں سائنس کے اصول موجود نہیں۔ اسی طرح وہ شخص بھی غلطی پر ہے جو سائنس کو اس وجہ سے نہیں مانتا کہ اس میں کتاب مقدس کے خیالات پائے نہیں جاتے۔ہم اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ ان کا اختلاف دراصل اختلافات نقطہ خیال ہے۔لہذا ان میں کوئی تناقض یا تضاد نہیں ۔ ان میں مطابقت دکھانا ۔تصنیع اوقات اور سعی رائگاں ہے۔ کیا ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہے کہ سیدنا مسیح اوراُن کی انجیل پر بغیر سائنس کے سہارے قائم نہیں رہ سکتا ۔ جوصاحبان ایسا کرتے ہیں وہ گویا قبول کر لیتے ہیں کہ سائنس کے ثبوت روح القدس کی شہادت کے مقابلہ میں زیادہ قوی اور مضبوط ہیں جب کوئی سائنس دان بائبل شریف کی تائید میں چند کلمات زبان سے نکال دیتاہے تووہ اس کے اقوال ہر وعظ اور تقریر میں بڑے جوش وخروش سے پڑھ سناتے ہیں۔ سائنس اور بائبل میں مطابقت دکھانے کا جنوں ایسا زبردست ہوتاہے کہ وہ کتاب مقدس کے الفاظ اورمعانی کو تروڑ مروڑ کر کسی طرح اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے بائبل شریف کی آیات پر جبر عظیم کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کا اصلی مفہوم مفقود ہوجاتاہے چند ایام ہوئے میرے ہاتھ میں ایک کتاب آئی جس کے مصنف کامقصد یہ تھا کہ بائبل شریف سے ثابت کرے کہ زمین گول ہے۔ اس غرض سے اس نے زبور ١٠٣: ١٢ کولیا" مشرق مغرب سے جتنا دُور ہے اُتنی دور تک اُس نے ہماری خطاؤں کو ہم سے جدا کردیا"۔ اس کاطریقہ استدلال یہ تھاکہ کلام اللہ کو یہاں سب سے بڑا فاصلہ جتانا منظور تھا اور صرف ایک دائرہ ہی میں یہ شرط پوری ہوسکتی تھی۔ اس لئے یہ الفاظ الہام کے ذریعہ مزمور نویس کے دل میں ڈالے گئے تھے۔ اس دلیل میں نہ صرف منطق ہی خام ہے بلکہ ایک نہایت اعلیٰ شیرین خوش گوار اور تسلی بخش آیت کا اصل مفہوم زایل کردیا گیا ہے۔ تمام دلائل جن کا مقصد بائبل شریف اور سائنس میں مطابقت دکھانا ہے۔ ایسی ہی باطل اورلایعنی ہیں۔
حق تویہ ہے کہ کتاب مقدس اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی مطلقاً ضرور ت نہیں ۔ دونں کا نفس مضمون مختلف ہے۔ سائنس کا مقصد اور ہے کتاب مقدس کا مقصد اور۔اور ان مقاصد کا آپس میں کچھ تعلق نہیں۔ سائنس کے سوالات کا جواب کتاب مقدس میں نہیں مل سکتا اورکتاب مقدس کے سوالات کوسائنس حل کرنے سے قاصر ہے۔سائنس صدہا سال سے برابر ترقی کرتا چلا آتاہے ۔ لیکن وہ مسیحیت کی بنیاد نہ ہلاسکا۔ اس لئے کہ جس شے پر مسیحیت کی بنیاد ہے وہ سائنس کی دسترس سے باہر ہے ۔ مسیحیت غیر محدود کے محسوس کرنے کی قوت کا نام ہے۔ سائنس محدود ہے اور اس سے معرفت ممکن نہیں۔
عقل خود محدود ہے اور سائنس جس کی بنیاد اس پر ہے اور بھی محدود ہے۔اسے غیر محدود کا علم یا معرفت کیسے ہوسکتی ہے وہ مادی کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کا تعلق بیرونی مشاہدہ سے ہے۔ بائبل شریف کا تعلق اندرونی تجربہ سے ہے۔ سائنس عالم امکان کی اشیاء کے قوانین کومشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ سے مرتب کرتی ہے ۔ لیکن کتاب مقدس اس عالم صورت میں واجب الوجود کی شان اوراس کا جلال دیکھتی ہے ۔ پس سائنس اور بائبل شریف میں درحقیقت کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا موضوع ایک نہیں اورچونکہ موضوع ایک نہیں ازورئے قوانین منطق ان میں تناقض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
فصل سوم
امتیاز مابین سائنس ومسیحیت اوراہل علم کے خیالات
اس امتیاز کونظر انداز کرنے کی وجہ سے مسیحیت کے ہادیوں نے اہل سائنس سے بار بار شکست کھائی۔ لیکن اس نظر اندازی کی وجہ بے خبری اور لاعلمی نہ تھی۔ گلیلیو پر جب بدعت الحاد اور زندقہ کا الزام لگایا گیا تواس نے اپنی معذرت میں ایک طویل خط لکھا ۔ جس میں اس نے یہ ظاہر کیاکہ کتب مقدسہ کے نازل ہونے کا یہ منشا نہیں ہے۔ کہ علمی مسائل میں ان سے سند لی جائے بلکہ ان کا مقصد انسان کی اخلاقی رہبری اورنجات کا رستہ دکھاناہے۔ اسی طرح برونو حکم نے بھی اپنی کتاب میں اس بات پر زور دیا تھا کہ الہامی کتب کا مقصد سائنس کی تعلیم ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے محض اخلاق کی ہدایت مقصود ہے ۔انجیل مقدسہ ہئیت یا طبعیات کے مسائل کے متعلق ذریعہ اسناد نہیں ہوسکتیں۔ قرون وسطی میں ایک مستند عالم پطر لمبارد نے یوں لکھا ہے" انسان نے گناہ کرنے سے قدرتی اشیاء کا علم نہیں کھویا تھا اس لئے خدا نے یہ علم کتاب میں کو عنایت نہیں کیا۔ لیکن اس نے گناہ کرنے سے اپنی روح کھوئی تھی۔ پس خدا نے اس میں ہم کو روح کا علم عنایت فرمایاہے"۔ اطالوی عالم زیویرس پطرنیزی لکھتاہے "سائنس اور بائبل میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ کتاب مقدس کا موضوع سائنس نہیں ہے اوراس کا مقصد یہ نہیں کہ سائنس کے سوال پر روشنی ڈالے"۔
کارڈینل نیومین صاحب لکھتے ہیں ۔ " علم الہٰی اور سائنس کے حدود علیحدہٰ ہیں پس ہم دونوں سے بیرونی عالم کی نسبت سیکھ سکتے ہیں قادر مطلق سائنس کے حقائق کوکتاب مقدس میں الہام کرسکتا تھا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا"۔ کتاب مقدس ہم کو اس لئے نہیں عنایت ہوئی کہ ہم اس میں علم النجوم یا علم الارض یا کسی اور سائنس کے نتائج ڈھونڈیں۔ بلکہ اس لئے کہ ہم روحانی حقائق دیکھیں اوراپنی خراب زندگیوں کوسدھاریں۔
انگلستان کے مشہور معروف سائنس دان ہکسلے صاحب فرماتے ہیں "ہم ان دنوں میں بہت سنتے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں تناقض اور تضاد ہے ۔لیکن سچ پوچھو تو یہ تناقض محض من گھڑت ہے اورایک طرف ان تنگ خیال مذہب کے ( )کی ایجاد ہے جوسائنس کی شاخ علم الہٰی اور مذہب میں تمیز نہیں کرسکتے اور دوسری طرف اُن کو تاہ بین سائنس دانوں سے مخصوص ہے جو یہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس کا موضوع صرف وہی اشیاء ہوسکتی ہیں ۔ جوادراک اورفہم میں بخوبی آسکیں اوران حدود کے باہر سائنس اور ادراک اورفکر کا تعلق نہیں بلکہ تخیل اُمید اورجہالت کا تعلق ہے۔مسیح سے پیشتر آٹھ سو سال عبرانی نبیوں نے بت پرست اورمشرک دنیا میں ایسے مذہب کی تلقین کی جوارسطو کے فلسفہ اور فیڈیس کی صنعت کاری کی مانند عجیب ہے۔ اورخداوند تجھ سے اور کیا چاہتاہے مگر یہ کہ توانصاف کرے اور رحم دلی کو پیار کرے اوراپنے خدا کے ساتھ فروتنی سے چلے"(میکاہ ٦: ٨) اگر کوئی نام نہاد مذہب میکاہ کی اس خوبصورت آیت کی قدر کو گھٹانے کی کوشش کرے تواس پر جبر کرتاہے۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی سائنس اس آیت کے مفہوم کو رد کرسکتی ہے۔۔۔ لیکن اگر کوئی عالم میکاہ سے پوچھتا ہے کہ کیا خدا بھی چاہتاہے کہ ہم پیدائش کی کتاب پر لفظ بالفظ ایمان رکھیں تونہایت اغلب ہے کہ نبی کا عصا اس عالم کے سر سے واقفیت پیدا کرتا(سائنس اور عبرانی روایات مصنفہ ہکسلے(صفحہ ١٦٠۔ ١٦١)۔
دورِ حاضرہ میں ڈاکٹر جے ۔ اے ٹامسن صاحب اہل سائنس میں ممتاز شخصیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی جدید کتاب" سائنس اورمذہب" میں فرماتے ہیں کہ " سائنس ظاہری اشیاء کو بالتفصیل بیان کرتی ہے۔ پر مسیحیت ان اشیاء کی تاویل اور تعبیر کرتی ہے اور خدا کے پاس لانے کے لئے ایک ترجمان کا فرض ادا کرتی ہے۔ سائنس کا طریقہ کارتجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے۔ مسیحیت کا طریقہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اوراس کی بنا شخصیت پر قائم ہے۔سائنس مسیحیت کو نہیں پہنچ سکتی کیونکہ" وہ روحانی طورپر پرکھی جاتی ہے" خدا کا نظارہ سائنس کی حدود سے بلند وبرتر ہے۔ اس کوصرف باطنی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس مسیحیت کے اصول کودرست اور صحیح ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن باوجود اس کے وہ مسیحی زندگی کی ممدو معاون ہے کیونکہ وہ اپنی حدود کے اندر خدا تعالیٰ کی قدرت اورعظمت کوہم پر ظاہر کرتی ہے اور خلقت کی وسعت ۔ترتیب۔ اتحاد وامتزاج اور پیوستگی کودکھاتی ہے"۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ عالمان علم الہٰی اوراہل سائنس دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ سائنس اورمذہب کے حدود جدا ہیں اورن کا آپس میں کچھ تعلق نہیں کیونکہ سائنس کا پہلو اور ہے اور کتاب مقدس کا پہلو اور۔لیکن باجوود اس کے بائبل شریف کے چند نادان دوست اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ سا ئنس کے مقدمات اور کتاب مقدس کے بیانات میں مطابقت کردکھائیں جس کا نتیجہ بعض اوقات نہایت مضحکہ خیز ہوتاہے۔
پس ہمیں لازم ہے کہ ہم ہمیشہ کتاب مقدس اور سائنس کے نقطہ خیال میں تمیز کریں۔ اگرہم اس اختلاف پہلو کو مدنظر رکھیں توہم سائنس کے مقدمات کوبھی مان سکتے ہیں۔ اورکتاب مقدس کےبیانات پر بھی ایمان رکھ سکتے ہیں۔ بائبل شریف کہیں سائنس کے قوانین اور حقائق بیان کرنے کا دعویٰ نہیں کرتی ۔ پس ہم کو ن ہیں کہ کتاب مقدس کو حکم دیں کہ ہم کو سائنس کے اصول کی تعلیم دے۔ ورنہ ہم تجھ پر ایمان نہیں رکھیں گے کیا خداوند پر ایمان لانے کے لئے سائنس کا سہارا لازمی ہے؟ کیا بائبل شریف کہیں بھی اپنی صداقت اور صحت کی بنیاد سائنس کے اصول پر قائم کرتی ہے ۔ اگر نہیں توہمیں کیا حق ہے کہ ہم الہامی کتب میں سائنس کے انکشافات کوڈھونڈیں اوراُن سے نجات کے علاوہ دیگر امور کی نسبت خبر طلب کریں خدا نے انسان کو عقل عطا کی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ ان امور کی نسبت علم حاصل کرے۔ پس وہ مافوق العادت ذرائع سے ان کا علم ہم کو عطا نہیں کرتا۔ کتب مقدسہ اس مقصد کے لئے الہام نہیں کی گئیں کہ انسانی عقل دینوی علوم کی تلاش وتجسس کی تکلیف سے آ زاد ہوجائے۔ بلکہ ان کے الہام کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان گناہ کے پنجہ سے آزاد ہوکر" ابدی نجات " حاصل کریں"۔
نتیجہ
اگرہم اس اختلاف پہلو کو مدنظر رکھیں توکتاب مقدس اور سائنس میں تضاد اور تناقض کی گنجائش نہیں رہتی۔ سائنس ہم کو ایک نقطہ خیال سے تعلیم دیتی ہے اور بائبل دوسرے نقطہ خیال سے اور دونو پہلوؤں میں بعد المشرقین ہے۔ لہذا مسیحیوں کوسائنس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر زمین گردش کرتی ہے تواور اگر آسمان پھرتاہے تومسیحیت کواس سے کیا تعلق ؟ اگر کوئی نیا ستارہ دریافت ہو تو ہماری نجات پر اس کا کیا اثر اگر زمین کے اندر سے نئے آثار نکلیں جن سے دنیا اور انسان کی قدامت پر روشنی پڑے تومسیحیت کواس سے ڈرنے کی کیا وجہ ؟ اگر کشش ثقل نے سائنس میں انقلاب پیدا کیا تو بہت مبارک ۔ مسیحی اس سے کیوں خائف ہوں اور کلیسیا اس سے کیوں گھبرائے پس خواہ سائنس کہے کہ سورج زمین کے گردگھومتاہے یا زمین سورج کے گردگھومتی ہے۔ خواہ سائنس کا تازہ ترین نظریہ مانا جائے جس کے مطابق یہ دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہیں۔ کتاب مقدس کو اس سے کوئی علاقہ نہیں خواہ سائنس مسئلہ ارتقا کی تعلیم دے خواہ سائنس دان چند صدیوں بعد کوئی اور نظریہ پیش کریں۔ بائبل شریف کا ان امور کے ساتھ کوئی واسطہ اور تعلق نہیں سائنس کے نظریہ تغیر پذیر ہیں لیکن خدا کا کلام لاتبدیل اور ابدی ہے۔ اگرہم اپنے ایمان کی بنیاد سائنس پر قائم کرینگے توہم اس بیوقوف آدمی کی مانند ہونگے "جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اوراس گھر کوصدمہ پہنچا اور وہ گرگیا اور بالکل برباد ہوگیا"۔ لیکن اگر ہمارا ایمان مسیح کی چٹان پر ہے تومعرضِ خطر میں نہ ہوگا۔
سلسلہ تیغ وسپر عیسوی
جس طرح زمانہ کا رخ بدلتا جاتاہے ۔ غیر مسیحی حملوں کا طرزانداز بھی بدلتا جاتاہے۔ اس لئے ضرورت لاحق ہوئی کہ ان کی نئے طورپر مدافعت بھی کی جائے اور نئے آلات حرب کا استعمال کیا جائے اور نئے آلاتِ حرب کا استعمال کیا جائے جوجارحانہ اور مدافعانہ ہوں ۔لہذا یہ سلسلہ تیغ وسپر عیسوی اسی مقصد کے انجام دینے کے لئے شروع کیا گیا ہے تاکہ ہندوستانی مسیحی" شرارت کی روحانی افواج" کا مقابلہ کرسکیں اور"ایمان کی سپر" اور " روح کی تلوار" سے خداوند اوراُس کی قدرت کے زور میں مضبوط "ہوکر" ابلیس کے منصوبوں کے مقابلے میں قائم "رہیں۔
مجوزہ کتب سلسلہ تیغ وسپر عیسوی
ذیل میں زیر تجویز کتب کی فہرست دی جاتی ہے۔ باقی کتب کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
١۔ مسیحیت اور سائنس ۔
٢ ۔سائنس اورمعجزات مسیح ۔
٣ ۔سیدنا مسیح کی اعجازی پیدائش ۔
٤ ۔کتاب مقدس اور ادعائے محمد ۔
٥۔ فلسفہ مسیحیت ۔
المعلن
برکت اللہ