February 2014

۲۲
برہ
”خدا محبت ہے“ —(١۔یوحنا ٨:٤)۔
”خدا بزرگ ہے“ —(ایوب ٣٦: ٢٦ )۔

چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے وہ اپنے لوگوں کے ساتھ قریبی رشتہ رکھنا چاہتا ہے۔ خدا کی میل ملاقات رکھنے کی صفت بائبل مقدس کی پہلی کتاب کے پہلے باب میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اُس نے آدم اور حوا کو اپنی صورت پر بنایا تاکہ اُن کے ساتھ رفاقت سے خوش ہو (پیدائش ١: ٢٧ )  خداوند خدا کا ایک نام عمانوایل بھی ہے، جس کا مطلب ہے ”خدا ہمارے ساتھ“ (یسعیاہ ٧ :١٤ ؛ متی ١: ٢٣ )۔ خدا ہمارے ساتھ کا مضمون  خدا کی کتاب کے آخری باب تک چلتا ہے جب اُس کے فدیہ دے کر چھڑاۓ ہوۓ لوگ ”اُس کا منہ دیکھیں گے“ (مکاشفہ ٢٢: ٤ ) اور ابد تک اُس کے ساتھ رہیں گے۔ جس کسی کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی وہ بائبل مقدس کے مرکزی مضمون کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ چونکہ خدا بزرگ ہے اِس لئے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔

(نوٹ: روزمرہ زبان میں ”بزرگ“ کے معنی ”عمر رسیدہ“ سمجھے جاتے ہیں، مگر خدا کے بزرگ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ پوری قدرت، طاقت، حشمت ۔۔۔ کا مالک ہے۔)

” دیکھ، مَیں تمام بشر کا خدا ہوں۔ کیا میرے لئے کوئ کام دشوار ہے؟“ (یرمیاہ ٣٢ : ٢٧ )۔

کوئ بھی سچا توحید پرست یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر خدا بشر بننا چاہے تو نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی ایسی بات، ایسا کام ہو (سواۓ اپنا انکار کرنے کے) جو وہ قادرِ مطلق نہیں کر سکتا تو وہ خدا سے کوئ کمتر چیز ہو گا۔

سوال یہ نہیں کہ ”کیا خدا بشر بن سکتا ہے؟“

بلکہ سوال یہ ہے کہ ”خدا نے بشر بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟“

خدا کا حقیقی خیمہ

خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ ایک لاجواب خیمہ بناؤ تاکہ ”مَیں تمہارے درمیان سکونت کروں“ (خروج ٢٥ : ٨ )۔ اِس واقعہ کے تقریباً پندرہ سو سال بعد پاک کلام میں فرمایا گیا:

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال“ (یوحنا ١: ١، ١٤ )۔

جس لفظ کا ترجمہ ”سکونت کرنا“ کیا گیا ہے وہ یونانی زبان کے ایک لفظ سے آیا ہے  جس کا مطلب ہے تنبو یا خیمہ کھڑا کرنا۔ پاک کلام میں انسان کے بدن کو بھی ”خیمہ کا گھر، خیمہ اور  مقدس“کہا گیا ہے (٢۔کرنتھیوں ٥: ١، ٤ ؛ ١۔ کرنتھیوں ٦: ١٩ ؛ ٢۔پطرس ١: ١٣، ١٤ ؛ افسیوں ٢: ٢١ )۔

ہم نے باب ١٦  میں سیکھا تھا کہ خدا کا ازلی بیٹا ایک ننھے لڑکے کی صورت میں پیدا ہوا۔ اُس کا انسانی بدن وہ خیمہ تھا جس میں اُس نے سکونت کرنا پسند کیا۔

موسی' کے زماںے میں خیمہ اجتماع جس میں خدا نے اپنی حضوری کا ازلی اور قائم بالذات نور (جلال) رکھا وہ خیمہ جانوروں کی کھالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن یسوع میں خدا کا روشن اور ازلی جلال اور حضوری انسانی کھال میں سکونت کرتی تھی۔ اِس لئے اُس کے شاگرد کہہ سکتے تھے ”ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔“

پاک کلام نے یہ بھی کہا ہے کہ یسوع ”حقیقی خیمہ کا خادم ہے جسے خداوند نے کھڑا کیا ہے نہ کہ انسان نے“ (عبرانیوں ٨: ٢ )۔

موسی' کے زمانے میں خیمہ اجتماع اور بعد کے زمانے میں ہیکل وہ جگہ تھی جہاں گنہگار اپنے گناہ کو ڈھانکنے کے لئے جانوروں کی قربانیاں پیش کر سکتے تھے۔ یسوع اپنے لڑکپن میں اور جب جوان ہو گیا تو بہت دفعہ ہیکل میں جایا کرتا تھا۔ لیکن کہیں بیان نہیں ہوا کہ اُس نے اپنے گناہ کی قربانی چڑھائی۔ کیوں نہیں چڑھائ؟ اُس میں گناہ نہیں تھا۔ یسوع ”ظاہر ہوا تاکہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گناہ کو مٹا دے“ (عبرانیوں ٩: ٢٦ )۔ وہ قربانی بنا اور رومیوں کی صلیب قربان گاہ بنی۔

ساری علامات کے پیچھے یسوع حقیقت تھا۔

”وہ جو جسم میں ظاہر ہوا“ (١۔تیمتھیس ٣: ١٦ )۔

ایک دفعہ یسوع یروشلیم میں عظیم ہیکل کے پاس کھڑا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا ۔

”اِس مقدس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا۔ یہودیوں نے کہا چھیالیس برس میں یہ مقدس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مقدس کی بابت کہا تھا۔ پس جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اُس نے یہ کہا تھا اور اُنہوں نے کتابِ مقدس اور اُس قول کا جو یسوع نے کہا تھا یقین کیا“ (یوحنا ٢: ١٩ ۔ ٢٢ )۔

یہودی نہ سمجھے کہ جس ”مقدس“ کی بات یسوع کر رہا تھا وہ اُس کا اپنا بدن ہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ یروشلیم کے شاندار مقدس (ہیکل) کی بات کر رہا ہے۔ لیکن خدا کی حضوری کا جلال اور  نور اب اُن انسانوں کی بنائ ہوئ ہیکل کے پاک ترین مقام میں نہ تھا۔

اب وہ یسوع کے بدن کے ”مقدس“ میں تھا۔

اپنی زمینی خدمت کے آخری دنوں میں یسوع نے اپنے تین شاگردوں کو خدا کے اِس جلال کی آب و تاب دیکھنے کا موقع دیا۔

” ۔۔۔ یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور اُنہیں ایک اونچے پہاڑ پر الگ لے گیا اور اُن کے سامنے اُس کی صورت بدل گئی اور اُس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا اور اُس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہو گئی۔۔۔ دیکھو ایک نورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا اور دیکھو اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں، اِس کی سنو۔۔۔“ (متی ١٧ : ١۔ ٥ )۔

خدا کا چندھیا دینے والا ، آب و تاب سے چمکنے والا نور جس سے آسمان میں فرشتے اپنے چہرے چھپا لیتے ہیں وہ یسوع میں تھا (ہے)۔ جلالی حضوری  جو خیمہ اجتماع میں اور ہیکل میں سکونت کرتی تھی وہی یسوع میں سکونت کرتی تھی (یسوع خود وہ نور ہے،  یوحنا ٨: ١٢ )۔

وہ جلالی بادل جو کبھی خیمہ اجتماع کے اوپر چھایا رہتا تھا اب یسوع کے اوپر چھایا رہتا تھا۔

یسوع زمین پر خدا کی دیدنی حضوری تھا۔

خدا کے بیٹے کا یہ نورانی جلال اُس وقت بھی موجود تھا جب باپ نے آسمان سے فرمایا:

” یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں اِس کی سنو“ (متی ١٧ : ١۔٥ )۔

خدا اِس معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔

جب خدا کا بیٹا ”ابنِ آدم“ بنا تو اُس کے ابنِ آدم بننے سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے داؤد نے لکھا ”بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے“ (زبور ٢: ١٢ )۔

” بیٹے کو چومو“ کا مطلب ہے کہ بیٹے کی تعظیم کرو۔

ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے (اور آپ نے بھی دیکھا ہو گا) کہ لوگ مذہبی راہنماؤں اور پیروں وغیرہ کے ہاتھ چومتے ہیں (یا اُن کے گھٹنوں اور پیروں کو لگا کر اپنے ہاتھ چومتے ہیں) حالانکہ یہ پیر اور مذہبی راہنما ہاتھ چومنے والوں کی طرح بے بس گنہگار ہیں۔ یہی لوگ اُن آدمیوں کی تعظیم کرنے بھی جاتے ہیں جن کے بدن خاک میں مل کر خاک ہو چکے ہیں، جبکہ خدا نے ساری دنیا کے لئے اعلان کیا ہے کہ ”۔۔۔ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔۔۔“ کیونکہ ”باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے“ (یوحنا ٥: ٢٣ ، ٢٠ )۔

پیش رَو

دو ںبیوں نے خاص طور سے اُس پیش رَو کے بارے میں لکھا جو ”خداوند کی راہ درست“ کرے گا۔ اُن میں سے ایک یسعیاہ نبی تھا (یسعیاہ ٤٠ :٣ )۔ وہ پیش رو زکریاہ کا بیٹا یوحنا نبی تھا (یسعیاہ ٤٠ : ٣۔ ٩؛ ملاکی ٣: ١؛ لوقا باب١ ؛ یوحنا باب ١)۔ دوسرے نبی تو یہ اعلان کرتے تھے کہ ”خدا مسایاح کو دنیا میں بھیجے گا“ مگر یوحنا کو یہ نمایاں اعزاز ملا کہ اُس نے اعلان کیا کہ مسیحِ موعود، خود خداوند آ گیا ہے!

” اُن دنوں میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور یہودیہ کے بیابان میں یہ منادی کرنے لگا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ یہ وہی ہے جس کا ذکر یسعیاہ نبی کی معرفت یوں ہوا کہ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو۔ اُس کے راستے سیدھے بناؤ“ (متی ٣: ١ ۔ ٣ )۔

توبہ

خداوند کی آمد کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی خاطر  یوحنا کا پیغام سیدھا سادہ تھا:

” توبہ کرو!“

جس لفظ کا ترجمہ توبہ کیا گیا ہے، یونانی زبان میں اُس کے لئے لفظ میٹانوئیو ہے۔ اِس کے دو حصے ہیں۔ ایک 'میٹا' جس کا مطلب ہے 'حرکت' یا 'تبدیلی'۔ دوسرا حصہ دماغ کے خیالات کا مفہوم رکھتا ہے۔ چنانچہ 'توبہ' کا بنیادی مطلب ہے، ذہنی خیالات کی تبدیلی یعنی سوچ کی تبدیلی — غلط سوچ چھوڑ کر درست سوچ کی طرف آنا۔

روزاںہ معمولات کے تناظر میں ”توبہ“ کی وضاحت کچھ یوں ہو گی۔ فرض کریں کہ مَیں بس کے ذریعہ ایک شہر سے دوسرے شہر — مثلاً لاہور سے پشاور جانا چاہتا ہوں۔ مَیں ایک بس میں سوار ہو جاتا ہوں جو میرے خیال میں درست بس ہے یعنی پشاور جانے والی ہے۔ اور سیٹ پر بیٹھ کر آرام سے آنکھیں بند کر لیتا اور سو جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہوں کہ بس کا رُخ شمال میں پشاور کی طرف نہیں بلکہ جنوب میں ملتان کی طرف ہے۔ اب کیا کروں؟

میرے سامنے دو ہی انتخاب ہیں — دوہی فیصلے ہیں۔

اوّل: اپنے فخر اور انا کے باعث اپنی غلطی نہ مانوں کہ سب کے سامنے سُبکی ہو گی۔ اُسی بس میں بیٹھا رہوں اور غلط منزل پر جا پہنچوں۔

دوم: اپنی انا کو چھوڑوں یعنی اپنی سوچ کو بدلوں اور اپنی غلطی کا اِقرار کروں۔ اقرار کی سچائی اُس وقت ثابت ہو گی جب مَیں بس رُکوا کر یا اگلے سٹاپ پر غلط بس سے اُتر کر درست بس پر سوار ہوں گا۔

سچی توبہ یہ ہے کہ انسان جھوٹ کو چھوڑ کر سچائی پر ایمان لاۓ اور سچائی کی پیروی کرے۔ توبہ ایک سکے کی دو اطراف ، دو رُخوں کی مانند ہے۔

ایک رُخ کہتا ہے: توبہ کر!

دوسرا رُخ کہتا ہے: ایمان لا!

دونوں رُخ ایک ہی سچائی کا حصہ ہیں۔

” خدا کے سامنے توبہ کرنا اور ہمارے خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانا“ (اعمال ٢٠ : ٢١ )۔

 توبہ کا مطلب ہے کہ جس چیز پر آپ نجات کے لئے ایمان رکھتے ہیں اُس کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا۔

توبہ کے بغیر ایمان سچا نہیں ہو سکتا۔

اِسی لئے یوحنا نبی یہ پیغام دیتا تھا کہ اپنی غلط سوچ سے توبہ کرو۔ اقرار کرو کہ ہم  اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے۔ آسمان سے آنے والے مسایاح بادشاہ کو خوش آمدید کہو!وہ تمہیں تمہارے بد ترین دشمنوں سے چھڑانے آیا ہے بشرطیکہ تم اپنے آپ پر بھروسا کرنا چھوڑ کر اُس پر ایمان لاؤ اور اُسی پر بھروسا رکھو!

جو لوگ خدا کے سامنے اپنی گناہ آلود حالت کا اقرار کرتے تھے اُنہیں یوحنا دریاۓ یردن میں بپتسمہ دیتا تھا۔ اِسی لئے وہ ”یوحنا بپتسمہ دینے والا“ کے نام سے مشہور ہوا۔ پانی سے بپتسمہ لینے سے گناہ نہیں دُھل سکتے تھے اور نہ دُھل سکتے ہیں۔ دریا میں غوطہ لینے سے لوگ ظاہری طور پر اظہار کرتے تھے کہ ہم نے مسیحِ موعود کے بارے میں پیغام کو باطنی طور پر قبول کر لیا ہے کہ وہ ایمان لانے اور توبہ کرنے والے گنہگار کو گناہ کی غلاظت سے دھو کر پاک صاف کرنے کو آنے والا ہے۔

برگزیدہ

اپنی زمینی خدمت کے آغاز میں یسوع یوحنا کے پاس آیا تاکہ اُس سے

دریاۓ یردن میں بپتسمہ لے۔ مسیحِ موعود بے گناہ تھا اور اُسے بپتسمہ لینے کی ضرورت نہ تھی، لیکن بپتسمہ لینے سے اُس نے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے ساتھ ایک ظاہر کیا جنہیں چھڑانے وہ آیا تھا۔

یسوع کے بپتسمہ لینے کے بعد وہ منظر دکھائی دیا جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اِس میں ہمیں واحد حقیقی خدا کی پیچیدہ وحدت کی ایک اَور جھلک نظر آتی ہے۔

” یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اُس کے لئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خداوند کے روح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں“ (متی ٣: ١٦ ، ١٧ )۔

جس طرح تخلیقِ کائنات کے پہلے دن باپ، بیٹا اور روح القدس موجود تھے یہ بیان ظاہر  کرتا ہے کہ اِس موقع پر بھی وہ موجود تھے۔ البتہ تاریخ کے اِس کلیدی اور اہم ترین لمحہ پر خدا نے اپنی تکثیری وحدت بہت صاف طور سے ظاہر کی۔ پاک کلام میں سے گزرنے کے اِس سفر میں یہ ایک مقام ہے جہاں مسافر کو چاہئے کہ رُکے، چند تصویریں لے اور غور و خوض کرے۔

منظر یوں ہے — مطلع صاف ہے، آسمان گویا چمک رہا ہے۔ ایسے پُرفضا ماحول میں خدا کا بیٹا (وہ کلمہ جس نے آسمان اور زمین کو خلق کیا) دریا سے نکل کر اوپر آ رہا ہے۔ اُسی لمحے خدا کا روح (جو تخلیق کے پہلے دن پانیوں کی سطح پر جنبش کر رہا تھا) آسمان سے اُترتا ہے۔ وہ کبوتر کی مانند اُتر کر یسوع پر آ ٹھہرتا ہے اور آسمان سے خدا باپ کی آواز گونجتی ہے ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔“

گذشتہ سالوں میں یسوع پس منظر میں تھا۔ ناصرت کے ایک عام سے گھر میں ایک متوسط سے خاندان میں رہتا تھا۔ اگرچہ وہ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھا مگر باپ جو آسمان پر ہے اُس کی آنکھیں اپنے پیارے بیٹے پر لگی ہوئ تھیں۔ اور اب ہم یسوع کی زندگی کے بارے میں خدا کا فرمان سنتے ہیں کہ ”مَیں اُس سے خوش ہوں۔“

اِس دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوۓ اُن میں سے کسی کے لئے بھی خدا یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ صرف یسوع تھا جس نے ظاہر اور باطن میں ایک ایک بات میں اُسے (خدا کو) خوش کیا تھا۔ وہ آسمان سے آنے والا بیٹا تھا۔ وہ پاک اور بے داغ تھا اور جو کام کرنے آیا تھا اُسے کرنے کے لائق تھا۔ وہ مسایاح — ممسوح اور خدا کا برگزیدہ تھا۔ خدا نے اُسے مسح کیا، لیکن تیل سے نہیں (جیسا کہ کاہن اور بادشاہ کو کیا جاتا تھا) بلکہ روح القدس سے۔

” ۔۔۔ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے۔۔۔ مسح کیا“ (اعمال ١٠ : ٣٨ )۔

یسوع وہ ہستی ہے جس کے بارے میں سارے ںبیوں نے لکھا تھا۔

پرانے عہدنامے کے زمانے میں جب بھی خدا کسی کو کاہن یا بادشاہ ہونے کے لئے چنتا تھا تو کوئی بااختیار شخص مثلاً نبی اُسے تیل سے مسح کرتا تھا۔  اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خدا نے اُسے کسی خاص کام کے لئے چنا ہے۔ لیکن خدا نے اپنے بیٹے کو روح القدس سے مسح کیا۔ پاک کلام میں تیل کو اکثر روح القدس کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ نوٹ: جیسے تخلیق کے کام میں ذاتِ الہی کے تینوں اقانیم شامل تھے اِسی طرح باپ، بیٹا اور روح القدس انسانوں کی مخلصی کے کام میں شامل ہیں۔

خدا کا برہ

” دوسرے دن اُس (یوحنا) نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔“ (یوحنا ١: ٢٩ )

یوحنا نبی کا بیان بہت گہرے معانی رکھتا ہے۔

  • ”دیکھو! یہ خدا کا برہ ہے۔۔۔“
    یوحنا کے سامعین کسی حد تک ”برہ“ کے معنی سمجھتے تھے۔ جب سے گناہ دنیا میں داخل ہوا تب سے لوگ سوختنی قربانی کے لئے برہ لا رہے تھے۔ پندرہ صدیوں سے ہر روز صبح اور شام کو پیتل کے مذبح پر برے ذبح ہوتے آ رہے تھے۔ اور اب خدا کا اپنا برہ سامنے آ گیا تھا! دو ہزار سال پہلے ابرہام نے اضحاق سے کہا تھا ”خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لے گا“ (پیدائش ٢٢: ٨)۔ خدا نے ایک عوضی واقعی مہیا کر دیا تھا کہ ابرہام کے بیٹے کے بدلے مرے، لیکن وہ ”وہ برّہ“ نہیں تھا۔ وہ تو ”مینڈھا“ تھا (پیدائش ٢٢: ١٣ )۔ ابرہام کی نبوت میں ”برّہ“ خود مسایاح تھا۔ ابرہام کا اشارہ یسوع کی طرف تھا۔ اِسی لۓ یسوع نے کہا ”ابرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا“ (یوحنا ٨: ٥٦ )۔
  • ”۔۔۔ جو گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔۔۔“
    آدم کے دنوں سے لے کر بے گناہ جانوروں کا خون علامتی طور پر اُن لوگوں کا گناہ ڈھانپتا آ رہا تھا جو خدا اور اُس کے منصوبے پر ایمان لاتے تھے۔ لیکن جو کام یسوع کرنے آیا تھا وہ فرق تھا — وہ گناہوں کو اُٹھا لے جاۓ گا — مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے۔
  • ”۔۔۔ دنیا کا گناہ ۔۔۔“
    ماضی میں گناہ کی قربانیاں کسی ایک شخص، ایک خاندان یا ایک قوم کے لئے چڑھائ جاتی تھیں، لیکن یسوع کا خون ماضی، حال اور مستقبل کے سارے گناہ — ساری دنیا کے گناہ کے سارے قرض کی پوری اور قطعی ادائیگی مہیا کرے گا۔

”خدا کا برّہ جو دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے“ کیا اِس کا مطلب ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہر زمانے کے ہر ایک شخص کو خدا کی طرف سے خود بخود گناہ کی معافی مل جاتی ہے؟ نہیں! جس دن سے گناہ انسان کی نسل میں داخل ہوا اُس دن سے خدا کا تقاضا ہے کہ مجھ (خدا) پر اور میرے انتظام پر شخصی طور سے ایمان رکھو۔

” صادق اپنے ایمان سے زندہ رہے گا“ (حبقوق ٢: ٤ )۔ ”راست باز ایمان سے جیتا رہے“ (رومیوں ١: ١٧ )۔ جو قربانی یسوع نے دی وہ ”دنیا کا گناہ اُٹھا لے جانے“ کو کافی تھی۔ لیکن اِس کا فائدہ صرف اُن لوگوں کو ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں کہ قربانی میرے لئے تھی (ہے)۔ بہت سے لوگ اِس پیش کش کا فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ بنی آدم کے صرف چند فی صد لوگ اِسے قبول کرتے ہیں۔(دیکھئے لوقا ١٤ : ١٥ ۔ ٢٤ )

” وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا، لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُںہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں“ (یوحنا ١: ١١، ١٢ )۔

عکس اور علامات

گذشتہ زمانے میں گناہ کی قربانی کے لئے چڑھایا جانے والا ہر ایک بے گناہ اور بے داغ برّہ ”آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس“ تھا (عبرانیوں ١٠ :١ )۔

عکس کو اُس چیز سے گڈمڈ  نہیں کرنا چاہئے جس نے عکس پیدا کیا۔ آپ زمین کو دیکھ رہے ہوں اور آپ کا کوئی دوست آپ کی طرف آ رہا ہو، تو ممکن ہے کہ آپ اُس کا سایہ پہلے دیکھ لیں اور اُسے بعد میں۔ وہ آپ کے پاس آ کھڑا ہو تو اُس کے ساۓ سے نہیں بلکہ خود اُس سے بات کریں گے۔

[نوٹ: اردو زبان میں ”عکس“ اور ”سایہ“ کے مفہوم میں فرق ہے۔ ”عکس“ آئینہ یا پانی میں نظر آتا ہے۔ ”سایہ“ روشنی کے برخلاف جو چھاؤں سی بنتی ہے۔]

پرانے عہدنامے کی قربانیاں خدا کی طرف سے عکس تھیں جو آنے والے مسایاح کا خاکہ پیش کرتی تھیں اور اُس کی آمد کی خبر دیتی تھیں۔

خدا کا برہ یسوع وہ عکس ڈال رہا تھا۔

” ۔۔۔ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دُور کرے۔ اِسی لئے وہ (مسیح) دنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا۔ پوری سوختنی قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں سے تُو خوش نہ ہوا۔ اُس وقت مَیں (مسایاح) نے کہا کہ دیکھ! مَیں آیا ہوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہوا ہے) تاکہ اے خدا! تیری مرضی پوری کروں۔ ۔۔۔ غرض وہ پہلے کو (جانوروں کی قربانیوں کو) موقوف کرتا ہے تاکہ دوسرے کو (اپنی قربانی کو) قائم کرے۔ اُسی مرضی کے سبب سے ہم یسوع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کۓ گۓ ہیں۔“ (عبرانیوں ١٠: ٤۔ ٧ ، ٩ ، ١٠ )

جانوروں کی قربانیاں اُس چیز کی صرف علامت تھیں جو خدا فی الحقیقت طلب کرتا ہے۔ جانور خدا کی صورت اور شبیہ پر خلق نہیں کۓ گۓ تھے۔ ایک برّے کی قدر و قیمت ایک انسان کی قدر و قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح آپ کھلونا ماڈل کار دکاندار کے پاس لے جا کر اُسے ایک اصل کار کی قیمت کے طور پر نہیں دے دیتے اُسی طرح ایک برّے کا خون ایک انسان کے گناہ کا قرض ادا نہیں کر سکتا۔ اُسی قدر و قیمت یا اُس سے زیادہ قدر و قیمت کی قربانی درکار تھی۔

اور یسوع وہ قربانی مہیا کرنے آ گیا۔

ناقص منصوبہ بندی کرنے والا؟

چند سال ہوۓ ایک عالم سے میری خط و کتابت ہوتی رہی۔ اُس نے

فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ ”یسوع اِس لۓ آیا کہ دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاۓ“ اِس بیان کے جواب میں اُس نے لکھا:

ای میل

”دو ہزار سال ہوۓ کہ خدا نے یہ پہیلی جیسا افسانہ گھڑا۔ جو لوگ اِس سے پہلے پیدا ہوۓ اور مر گۓ اُن کا کیا ہو گا؟ معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کا خدا مناسب منصوبہ بندی نہیں کر سکتا اور سوچتا بھی کچھ کرنے کے بعد ہے کیونکہ انسان کے 'گناہ' معاف کرنے کا طریقہ وضع کرنے میں اُسے اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں سال لگ گۓ۔“

یہ عالم آدمی لاکھوں برّوں کی قربانیوں اور سینکڑوں پیش گوئیوں کے مفہوم اور مقصد کو نہ سمجھ سکا۔ یہ سب اُس دن کی طرف اشارہ کرتی تھیں جب مسایاح کل انسانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے سارے گناہوں کی سزا بھگتے گا۔ خدا کے مخلصی کے اِس منصوبے میں یہ بات شروع سے شامل تھی کہ ”جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے ۔۔۔ اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راست بازی ظاہر ہو“ (رومیوں ٣ :٢٥، ٢٦ )۔

یسوع مسیح کے زمانے کے گنہگاروں کو خدا نے اُسی بنیاد پر معاف کیا جس بنیاد پر آج معاف کرتا ہے_ خدا کے انتظام اور وعدوں پر ایمان کی بنیاد پر۔

بے شک ایک فرق بھی تھا۔

جو لوگ یسوع مسیح کے زمانے سے پہلے مر گۓ تھے اُن کے گناہ ڈھانکے گۓ تھے۔ یسوع کے خون بہانے اور موت پر فتح پانے کے بعد ہی کسی گنہگار کا گناہ کا قرض معاف ہو سکتا اور کتاب میں سے منسوخ ہو سکتا تھا۔

خدا کے برے یسوع کے دنیا میں آنے سے پہلے مذبح پر برّہ قربان کرنے والے شخص کا حال اُس سوداگر جیسا تھا جو اپنی خستہ مالی حالت کے باعث بینک سے قرض لیتا ہے۔ اُس کا ایک مال دار دوست بھی اُس کے ساتھ قرض کی دستاویز پر دستخط کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اگر یہ شخص قرض ادا نہ کر سکا تو مَیں ادا کروں گا۔ لیکن سال بہ سال وہ قرض ادا نہیں کر سکتا اور قرض کی رقم بڑھتی جاتی ہے۔ ہر سال اِس خستہ حال سوداگر کا دوست بینک کی دستاویز پر دستخط کرتا ہے کہ یہ قرض مَیں ادا کروں گا۔ اِس طرح وہ سوداگر دیوالیہ ہونے اور جیل جانے سے بچا رہتا ہے۔ اِس کے مال دار اور قابلِ اعتبار دوست کے ضمانت  نامے اُس کو ”ڈھانکے“ رہتے یا بچاۓ رکھتے ہیں۔

پرانے عہدنامہ کی قربانیاں گنہگار انسان کے ”ضمانت نامے“ تھیں۔ خدا نے اُنہیں عارضی طور پر  قبول کیا۔ کائنات کا ”کھاتے دار“ اپنی کتابوں میں بالکل درست اندراج کرتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ اُس نے گناہ کو ڈھانکنے کے لئے بے عیب جانوروں کا خون قبول کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن جانوروں کا خون سارے انسانوں کے گناہ کا مجتمع قرض ادا نہیں کر سکتا تھا ”بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دلاتی تھیں کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دُور کرے“ (عبرانیوں ١٠ : ٣، ٤)۔

گناہ بہت خطرناک اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اِس کو صرف خدا کے ازلی بیٹے کا خون بہانے ہی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ خدا کا برّہ یسوع بنی نوع انسان کے گناہ کا قرض چکانے اور بے باق کرنے آیا۔

آپ کا کیا خیال ہے؟

کیا خدا ناقص منصوبہ بندی کرنے والا اور بعد از وقت سوچنے والا خدا ہے؟ یا کیا یوحنا نبی اور اُس کے شاگردوں کے پاس کوئ معقول وجہ تھی جس سے اُنہوں نے یسوع ناصری کو پہچانا کہ ”جس کا ذکر موسی' نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے“ یہ وہی مسایاح ہے اور  ”خدا کا برّہ جو جہان کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے“ یہی ہے (یوحنا باب ١ )۔

خدا بہترین منصوبہ بندی کرنے والی ہستی ہے۔ اُس نے گناہ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کوئ اَور منصوبہ نہیں بنایا۔ اُس کے بے زمان تناظر میں اُس کا پیارا بیٹا ہمیشہ وہ برہ تھا اور ہمیشہ رہے گا جو

”بناۓ عالم کے وقت سے ذبح ہوا“ (مکاشفہ ١٣ : ٨ )۔

۲۳
پاک کلام کا پورا ہونا
عربی ضرب المثل ہے ” وعدہ بادل اور اُس کا پورا ہونا بارش ہے۔“

ہزاروں سال سے نبی اعلان کرتے آ رہے تھے کہ خدا کا منصوبہ ہے کہ نجات دہندے کو دنیا میں بھیجے:

” لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا“(گلتیوں٤:٤)۔

یسوع ناصری خدا کے وعدے کے پورا ہونے کی بارش تھا۔

خالق کا منصوبہ کوئی بعد از وقت کی سوچ نہیں تھا، بلکہ ” اُس نے پیشتر سے اپنے نبیوں کی معرفت کتابِ مقدس میں اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا۔۔۔“   (رومیوں ١: ٢، ٣ )۔

کتابِ مقدس کا پرانا عہدنامہ بادل ہیں اور مسایاح بارش ہے۔

گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہونا

مسایاح اپنے مشن کو جانتا تھا۔ اُس کی آمد سے پانچ سو سال پہلے زکریاہ نبی نے اُن بہت سے واقعات کے بارے میں لکھا جو اُس کے مصلوب ہونے سے پہلے ہوں گے۔

”۔۔۔ اے دُخترِ یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے“ (زکریاہ ٩:٩)۔

یہ نبوت یسوع میں پوری ہوئ۔ چاروں انجیلوں میں یہ واقعہ درج ہے۔ متی جو عینی گواہ اور یسوع کا شاگرد تھا وہ لکھتا ہے:

” ۔۔۔ جب وہ یروشلیم کے نزدیک پہنچے ۔۔۔ تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤ۔ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئ اور اُس کے ساتھ بچہ پاؤ گے۔ اُنہیں کھول کر میرے پاس لے آؤ۔ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خداوند کو اِن کی ضرورت ہے۔ وہ فی الفور اُنہیں بھیج دے گا۔ یہ اِس لئے ہوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ

'صیون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھو تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لادُو کے بچے پر“ (متی ٢١ : ١۔ ٥ )۔

یوں یسوع نے اپنے آپ کو  بادشاہ کی حیثیت سے قوم کو پیش کیا، تاکہ جیسا نبیوں نے پیش گوئ کی تھی وہ ردّ کیا جاۓ (یسعیاہ باب ٥٣ ؛ زبور ٢٢ ؛ مزید دیکھیں دانی ایل ٩: ٢٤ ۔ ٢٧ ۔ جہاں زمانوں کے لئے خدا کے منصوبے کا خاکہ دیا گیا ہے)۔ پورے منصوبے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ ” ۔۔۔ ممسوح قتل کیا جاۓ“ (دانی ایل ٩: ٢٢ )۔ لیکن خود اپنے لۓ قتل نہیں ہو گا۔

” اناجیل میں پوری تفصیل درج ہے کہ یسوع گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوا تو اُس کے بعد کیا کیا ہوا۔ وہ ہیکل میں گیا اور وہاں سے اُن سب کو ہانک کر نکال دیا جو اُسے پیسہ کمانے کے لۓ استعمال کر رہے تھے۔ وہاں کاروبار کرنے والے ہکا بکا رہ گۓ۔ یسوع نے اُن سے کہا “ لکھا ہے کہ میرا گھر دعا کا گھر کہلاۓ گا مگر تم اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو۔” اور اندھے اور لنگڑے ہیکل میں اُس کے پاس آۓ اور اُس نے اُنہیں اچھا کیا“ (متی ٢١ : ١٣، ١٤ )۔

اگلے چند دن یسوع ہیکل میں آ بیٹھتا تھا اور لوگوں کو خدا کی سچی باتیں سکھاتا تھا۔ اور مذہبی راہنما اِس کوشش میں لگے رہے کہ کسی چال سے اُس سے کوئی ایسی بات کہلوائیں جس سے اُس پر الزام لگا کر اُس کو قتل کریں، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

یسوع آسمانی حکمت سے اُن کے سوالوں کے جواب دیتا تھا اور سب لوگ تعجب کرتے تھے (متی ابواب ٢١ ۔ ٢٥ )۔

پھر وہ وقت آ گیا

وہ گھڑی آ پہنچی

یسوع واحد شخص ہے جو ٹھیک ٹھیک جانتا تھا کہ

مَیں کب مروں گا۔

مَیں کہاں مروں گا۔

مَیں کیسے مروں گا۔

مَیں کیوں مروں گا۔

” ۔۔۔ جب یسوع سب باتیں ختم کر چکا تو ایسا ہوا کہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا تم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد عیدِ فسح ہو گی اور ابنِ آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جاۓ گا۔ اُس وقت قوم کے بزرگ کائفا نام سردار کاہن کے دیوان خانہ میں جمع ہوۓ اور مشورہ کیا کہ یسوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کریں گے مگر کہتے تھے کہ عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلوا ہو جاۓ“ (متی ٢٦ : ١۔ ٥ )۔

اب مطلب پرست اور خود غرض مذہبی راہنما کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔ کئی موقعوں پر اُنہوں نے اُسے پکڑنے کی صلاح کی ” لیکن اِس لئے کہ اُس کا وقت ابھی نہیں آیا تھا کسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا“ (یوحنا ٧: ٣٠ )۔

پھر اُنہیں وہ موقع مل گیا جس کی تلاش تھی۔

یہوداہ جو دل سے نہیں بلکہ بظاہر یسوع کا شاگرد تھا وہ ہیکل کے کاہنوں کے پاس گیا اور پیش کش کی کہ مَیں فریب سے یسوع کو تمہارے ہاتھوں میں دے سکتا ہوں۔ کاہنوں نے اُسے چاندی کے تیس سکے دینا منظور کیا۔ غداری کے اِس فعل سے پرانے عہدنامے کی متعدد اور پیش گوئیاں پوری ہوئیں (زبور  ٤١ :٩ ؛ زکریاہ ١١: ١٢، ١٣ اور متی ٢٦ : ١٤ ۔١٦ ؛ ٢٥ : ٣۔ ١٠ )۔

یوں وہ دن آ گیا جب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ” وہ وقت آ گیا“ (یوحنا ١٢ : ٢٣ )۔

اب خدا کے برّے کے مرنے کا وقت آ گیا۔

عیدِ فسح کا ہفتہ

یروشلیم کی تنگ گلیوں میں مقامی اور باہر سے آۓ ہوۓ لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ برّوں، بکروں اور مینڈھوں کے ممیانے اور بیلوں اور بچھڑوں کے ڈکرانے کی آوازیں چاروں طرف سے آ رہی تھیں۔ خریدار مناسب جانوروں کی قیمت طے کرنے کے لئے سوداگروں سے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔ یہ عیدِ فسح کا ہفتہ تھا۔

عیدِ فسح سات دن کی عید تھی جو پندرہ صدیاں پہلے خدا نے مقرر کی تھی۔ اِس موقعے پر وہ ماضی کو یاد کرتے تھے کہ خدا نے اپنی قوم کو غلامی سے اور موت کی فیصلہ کن رات کو موت سے کیسے رہائ دلائی تھی جب اُن کے آباو اجداد نے اپنے دروازوں کی چوکھٹوں پر برّے کا خون لگایا تھا۔ خدا کے نقطہ نظر سے آگے کو یعنی مستقبل میں اُس دن کی طرف دیکھنے کا بھی موقع تھا جب مسایاح فسح کے گہرے معنی کو پورا کرے گا۔

لیکن شاید ہی کوئی تھا جس نے سمجھا ہو کہ یسوع ناصری فسح کے آخری برّے کی حیثیت سے اپنا خون بہاۓ گا اور اُن سارے برّوں کی علامت کو پورا کر دے گا جو موسی' کے زمانے سے ذبح ہوتے رہے تھے۔ موسی' کا مشن یہ تھا کہ اپنے لوگوں کو بیگار لینے والے انسانوں کے جسمانی ظلم و ستم سے رہائی دلاۓ۔ اِس کے برعکس مسایاح کا مشن یہ تھا کہ سارے لوگوں کو شیطان، گناہ اور موت کے روحانی ظلم و ستم سے رہائی دلائے۔

مذہبی راہنماؤں نے فیصلہ کر لیا کہ یسوع کو مار ڈالیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ” عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلوا ہو جاۓ“ (متی ٢٦ : ٥)۔ لیکن یسوع کا منصوبہ اُسی عید میں مرنے کا تھا! ضرور تھا کہ خدا کا برّہ عیدِ فسح پر ذبح کیا جاۓ۔ ہر بات اُسی طرح واقع ہونا تھی جیسے خدا نے انتظام کیا اور منصوبہ بنایا تھا۔

جب یہودی اپنی سالانہ عیدِ فسح منا رہے ہوں اُس وقت یسوع فسح کا کامل اور آخری برہ بنے اور ذبح ہو اور ایمان داروں کو گناہ کے خلاف خدا کے غضب سے رہائی دے۔ ” کیونکہ ہمارا  بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا“ (١۔کرنتھیوں ٥: ٧)۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ جو لوگ خدا کے منصوبے کو رد کر رہے تھے وہی اُسے پورا کرنے میں نمایاں اور بڑا کردار ادا کرنے کو تھے۔ اور شیطان کو بھی احساس تک نہ ہوا کہ مذہبی راہنماؤں کو یسوع کے قتل پر اُکسانے سے مَیں اپنی تباہی کا بندوبست کر رہا ہوں!  حالات اور واقعات کے اِس چکر کو پاک کلام نے ” خدا کی وہ پوشیدہ حکمت“ کہا ہے ” جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر۔۔۔ مقرر کی تھی، جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے“ (١۔کرنتھیوں ٢: ٧، ۸)۔

روٹی اور پیالہ

مقررہ شام کو یسوع اور اُس کے شاگرد ایک نجی بالاخانے میں جمع تھے۔ برّے کے گوشت اور کڑوے ساگ پات کا بنا ہوا کھانا کھاںے کے بعد خداوند نے ” روٹی لی اور شکر کر کے توڑی اور یہ کہہ کر اُن کو دی کہ  (لو کھاؤ) یہ میرا بدن ہے۔۔۔ میری یاد گاری کے لئے یہی کیا کرو“ (لوقا ٢٢: ١٩ )۔

وہ توڑی گئی روٹی یسوع کے بدن کی علامت تھی جو اُن کی خاطر زخمی کیا جاۓ گا اور سزا برداشت کرے گا۔

اِس کے بعد یسوع نے وہ پیالہ اُنہیں دیا جس میں مے تھی جو انگوروں کو نچوڑ کر  یا کچل کر نکالی گئ تھی۔ اُس نے اپنے شاگردوں سےکہا ” یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لئے گناہ کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے“ (متی ٢٦ :٢٨ )۔

پیالہ اُس خون کی علامت تھا جو یسوع نئے موعودہ عہد کا آغاز کرنے کے لئے بہانے کو تھا۔

یہ دو سادہ سی علامتیں خدا کے نبیوں کے اہم اور مرکزی پیغام کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارا خالق انسانی جسم (بدن) اِس لئے اختیار کرے گا کہ آدم کی گنہگار نسل کی خاطر دکھ سہے اور اپنا خون بہاۓ۔

بہت سے بے مثال، شاندار اور عجیب وعدوں اور سچائیوں سے اپنے شاگردوں کو تسلی اور اطمینان دینے کے بعد یسوع اُنہیں گتسمنی نام باغ میں لے گیا (یوحنا ابواب ١٣ ۔ ١٧ )۔ وہاں اُس کی جان نہایت غمگین تھی اور پسینہ بڑی بڑی بوندیں بن کر بہہ رہا تھا۔ اِس حالت میں اُس نے منہ کے بل گر کر دعا مانگی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جاۓ (متی ٢٦ : ٣٩ )۔

” یہ پیالہ“ کیا تھا جس سے یسوع خائف تھا؟ یہ گناہ کے لئے دکھ سہنے کا پیالہ تھا۔ یہ اپنے باپ سے جدائ تھی جو پہلے کبھی ہوئی نہ تھی اور جو وہ عنقریب برداشت کرنے کو تھا۔ اور پاتال میں اُترنے کا خوف تھا جو وہ میری اور آپ کی خاطر سہنے کو تھا۔

اُس نے یہ دعا تین دفعہ مانگی، مگر وہ اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے پر راضی اور آمادہ تھا۔ جیسا کہ داؤد نبی نے نبوت کی تھی مسایاح وہ حالت بحال کرے گا جسے اُس نے نہیں بگاڑا تھا ” ۔۔۔جو مَیں نے چھینا نہیں مجھے دینا پڑا۔“

(زبور ٦٩ :٤ )

یسوع گناہ کی پوری اور کامل قربانی بننے کو تھا۔

گرفتاری

یسوع نے اپنے باپ سے بات کرنا ختم کی ہی تھی کہ سپاہیوں کا ایک دستہ باغ میں داخل ہوا۔ اُن سپاہیوں کو سردار کاہنوں، فقیہوں اور قوم کے بزرگوں نے بھیجا تھا۔ وہ مشعلیں، ڈنڈے اور تلواریں لے کر اُس ہستی کو گرفتار کرنے آۓ تھے جس نے طوفانوں کو تھما دیا، بدروحوں کو نکال دیا اور مُردوں کو زندہ کر دیا تھا۔

” ۔۔۔ یسوع اُن سب باتوں کو جان کر جو اُس کے ساتھ ہونے والی تھیں باہر نکلا اور اُن سے کہنے لگا کہ کسے ڈھونڈتے ہو؟ اُنہوں نے اُسے جواب دیا یسوع ناصری کو۔ یسوع نے اُن سے کہا مَیں ہی ہوں۔۔۔ اُس کے یہ کہتے ہی وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے۔ پس اُس نے اُن سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ اُنہوں نے کہا یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا کہ مَیں تم سے کہہ تو چکا کہ مَیں ہی ہوں“ (یوحنا ١٨ :٤ ۔ ٨)۔

جو لوگ اُسے گرفتار کرنے آۓ تھے یسوع نے اُنہیں اپنی شناخت خدا کے اپنے نام ” مَیں ہوں“ سے کرائی۔

یسوع نے اپنے گرفتار کرنے والوں سے جو کہا وہ صرف ” مَیں ہوں“ تھا۔ جملہ کہ ” مَیں ہی ہوں“ اردو زبان کے اُسلوب کے تقاضے کے مطابق مترجمین نے استعمال کیا ہے۔ اصل متن یعنی یونانی زبان میں حرفِ تاکید ” ہی“ نہیں ہے۔ یسوع بتا رہا تھا کہ مَیں کون ہوں —ازلی قائم بالذات ” مَیں ہوں“ جو آسمان سے اُترا تھا۔ اِسی لئے یسوع کے ” مَیں ہوں“ کہنے سے مذہبی راہنما اور سپاہی ” پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے“ تھے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع گرفتار کرنے والوں کے ساتھ گیا تو اپنی مرضی سے گیا۔

سپاہیوں نے آگے بڑھ کر گھیرا ڈال لیا تو پطرس نے تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر کا کان اڑا دیا۔ یسوع نے بڑی شفقت سے اُس کا کان اچھا کر دیا اور پطرس سے کہا

 ” اپنی تلوار کو میان میں کر لے ۔۔۔ کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن ۱  سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے؟“(متی ٢٦ : ٥٢ ۔ ٥۴)

جو لوگ مذہب کے نام پر  ظلم اور قتل و غارت کرتے ہیں اُن کے مقابل یسوع کیسا خوش گوار اور تازگی بخش تقابل پیش کرتا ہے! یسوع جانتا تھا کہ لوگ مجھے ٹھٹھوں میں اڑائیں گے، مجھے اذیتیں دیں گے اور قتل کریں گے، تو بھی اُس نے اُنہیں نفرت اور انتقام کا رویہ نہیں دکھایا بلکہ صبر اور مہربانی کا رویہ دکھایا۔

نبیوں نے اِن باتوں کی پیش گوئی کی تھی۔

” اُسی گھڑی یسوع نے بھیڑ سے کہا کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟ مَیں ہر روز ہیکل میں بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا اور تم نے مجھے نہیں پکڑا“ ۔۔۔ اور پاک کلام یوں وضاحت کرتا ہے کہ

”مگر یہ سب کچھ اِس لئے ہوا کہ نبیوں کے نوشتے پورے ہوں۔
اِس پر سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گۓ۔
اور یسوع کو پکڑنے والے اُس کو کائفا نام سردار کاہن کے پاس لے گۓ جہاں فقیہ اور بزرگ جمع ہو گۓ تھے“ (متی ٢٦ : ٥٥ ۔ ٥٧ )۔

جو ہوا اور پانی اور طوفانوں پر اختیار رکھتا تھا اُس نے کیوں ہونے دیا کہ اُسے گرفتار کریں اور باندھ کر لے جائیں؟

اُس نے اپنے باپ سے محبت اور اُس کی فرماں برداری کی خاطر یہ سب کچھ ہونے دیا۔

اُس نے مجھے اور آپ کو ابدی غضب سے بچانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔

اُس نے یہ کیا تاکہ ” نبیوں کے نوشتے پورے ہوں۔“

سینکڑوں سال پہلے یسعیاہ نبی نے لکھا تھا ” جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں ۔۔۔ وہ اُسے لے گۓ“ (یسعیاہ ٥٣ : ٧، ٨ )۔

اور ابرہام نبی نے کہا تھا، ” خدا آپ ہی اپنی واسطے سوختنی قربانی کے لئے برّہ مہیا کر لے گا“ (پیدائش ٢٢: ٨)۔

اور موسی' نبی نے لکھا تھا ” ۔۔۔ اور کاہن نر برّوں میں سے ایک کو لے کر ۔۔۔ اُس جگہ ذبح کر ے جہاں خطا کی قربانی اور سوختنی قربانی کے جانور ذبح کۓ جاتے ہیں۔۔۔ “ (احبار ١٤ : ١٢ ۔ ١٣ )۔

ستم ظریفی ملاحظہ کریں!

جو کاہن برّوں کو ذبح کرنے اور ہیکل میں پیتل کے مذبح پر جلانے کے فرائض سرانجام دیتے تھے اُنہوں نے ہی یسوع کو گرفتار کیا تاکہ قتل کرا ڈالیں۔ لیکن اُنہیں گمان تک نہیں تھا کہ ہم اُس برّے کو ذبح کرنے والے ہیں جس کے بارے میں سارے نبیوں نے لکھا ہے۔

مذہبی لیڈروں نے سزاۓ موت سنائی

” پھر وہ یسوع کو سردار کاہن کے پاس لے گۓ اور سب سردار  کاہن اور بزرگ  اور فقیہ اُس کے ہاں جمع ہو گۓ۔۔۔“ (مرقس ١٤ : ٥٣ )۔

یہودیوں کے مذہبی راہنماؤں نے رات کے وقت ایک غیرقانونی مقدمہ چلاںے کا انتظام کیا تھا۔

” اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مارڈالنے کے لئے اُس کے خلاف گواہی “ ڈھونڈنے لگے مگر نہ پائ کیونکہ بہتیروں نے اُس پر جھوٹی گواہیاں تو دیں لیکن اُن کی گواہیاں متفق نہ تھیں۔۔۔

” ۔۔۔ پھر سردار کاہن نے بیج میں کھڑے ہو کر یسوع سے پوچھا کہ تُو کچھ جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ مگر وہ خاموش ہی رہا اور کچھ جواب نہ دیا۔ سردار کاہن نے اُس سے پھر سوال کیا اور کہا کیا تُو اُس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نے کہا ہاں مَیں ہوں اور تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا اَب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ تم نے یہ کفر سنا۔۔۔“ (مرقس ١٤ :٥٥ ، ٥٦ ، ٦٠ ۔ ٦٣ )

سردار کاہن کیوں غضب ناک ہوا؟ اُس نے کیوں اپنے کپڑے پھاڑے اور یسوع پر کفر کا الزام لگایا؟ اِس لئے کہ یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا اور ابنِ آدم کہا تھا — مسایاح، جس کی بابت سارے نبیوں نے لکھا تھا۔ اور یسوع نے اپنے آپ کو خدا کے ذاتی نام” مَیں ہوں“ سے پکارا تھا۔ اور اُس نے یہ بھی کہا ” تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔“ اور نبیوں کے صحائف سے اقتباس کر کے اپنے آپ کو دنیا کا منصف بتایا۔

” مَیں نے رات کو رَویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا۔۔۔“ (دانی ایل ٧: ١٣ )۔

[نوٹ: اپنے کپڑوں کو پھاڑنا انتہائ غصہ یا انتہائی غم ظاہر کرنے کا روایتی طریقہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا نے جو شریعت موسی' کو دی وہ کہتی ہے کہ ” ۔۔۔ جو اپنے بھائیوں کے درمیان سردار کاہن ہو۔۔۔ وہ ۔۔۔ اپنے کپڑے نہ پھاڑے“ (احبار  ٢١ : ١٠ )۔ ایسا کرنے سے (متی ٢٧ : ٦٥ ؛ مرقس ١٤ :٦٣) کائفا نے اپنے آپ کو سردار کاہن ہونے کا نااہل کر لیا۔ نیا ابدی سردار کاہن خود یسوع  ہے جو اپنے بدن کو قربانی کے لئے پیش  کرنے کو دنیا میں آیا۔ صرف وہی واحد ہستی ہے جو گنہگار انسان کا پاک خدا کے ساتھ میل ملاپ کرا سکتا ہے (عبرانیوں ٢: ١٧ ؛ ٣: ١؛ ٢: ١٤ ۔ ١٦ ؛ ٧: ٢٦ ؛ ٨: ١ ؛ ٩: ١١ ، ٢٥ ؛ ١٠ : ٢١ ۔ ٢٣ )۔]

چونکہ یسوع نے نبیوں کی باتوں کا اپنے اوپر اطلاق کیا اِس لئے سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑے اور کہا

” اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟تم نے یہ کفر سنا۔ اب تمہاری کیا راۓ ہے؟ اُن سب نے فتوی' دیا کہ وہ قتل کے لائق ہے۔

تب بعض اُس پر تھوکنے اور اُس کا منہ ڈھانپنے اور  اُس کے مکے مارنے اور اُس سے کہنے لگے نبوت کی باتیں سنا! اور پیادوں نے اُسے طمانچے مار مار کر اپنے قبضہ میں لیا“ (مرقس ١٤: ٦٣-٦٥)۔

اِس سے سات سو سال پہلے یسعیاہ نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح اپنی مرضی سے دکھ سہے گا ” مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کی۔ مَیں نے اپنا منہ رُسوائی اور تھوک سے نہیں چھپایا“ (یسعیاہ ٥٠ : ٦)۔

سیاسی لیڈروں نے سزاۓ موت سنائی

صبح ہوتے ہی کاہن اور مذہبی لیڈر یسوع کو یہودیہ کے رومی گورنر پنطس پیلاطس کے پاس لے گۓ اور مطالبہ کرنے لگے کہ پیلاطس یسوع کو مصلوب کرنے کی سزا دے۔ تاریخ کے اُس دَور میں یہودی لوگ رومی حکومت کے ماتحت تھے اور اُنہیں کسی مجرم کو سزاۓ موت دینے کا اختیار نہیں تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران پیلاطس نے تین بار علی الاعلان کہا کہ مَیں اِس میں کچھ قصور نہیں پاتا، لیکن شیطان نے کاہنوں کو اور کاہنوں نے بھیڑ کو اُکسایا اور بھیڑ چلا چلا کر کہنے لگی، ” اِسے لے جا! اسے صلیب دے! اِسے صلیب دے!“ (یوحنا ١٨ : ٣٨ ؛ ١٩ : ٤ ، ٦ ؛ ١٩ : ١٥ ؛ لوقا ٢٣ : ٢١ ؛ متی ٢٧ : ٢٢)۔

پیلاطس نے مذہبی لیڈروں کے دباؤ سے مغلوب ہو کر یسوع کو صلیب دینے کی سزا سنا دی۔ رومی قانون کے مطابق یہ انتہائ سزا تھی۔ مجرم کو وحشیانہ طریقے سے بے دردی سے کوڑے مارے جاتے تھے اور پھر اُسے صلیب پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

” ۔۔۔ اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا تاکہ صلیب دی جاۓ۔ اِس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اُس کے گرد جمع کی اور اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے قرمزی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا اُس کے دہنے ہاتھ میں دیا اور اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اُس پر تھوکا اور وہی سر کنڈا لے کر اُس کے سر پر مارنے لگے۔ اور جب اُس کا ٹھٹھا کر چکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہناۓ اور مصلوب کرنے کو لے گۓ“ (متی ٢٧ : ٢٦ ۔ ٣١ )۔

خداوند کا پہاڑ

یوں جلال کے بادشاہ کا پاک بدن خون سے تربتر ہوا۔ اُس کا گوشت جگہ جگہ سے پھٹا، کانٹے دار شاخوں کا تاج اُس کے سر پر تھا، اور اُس کے کندھے پر لکڑی کی بھاری صلیب لادی گئی۔ اور سپاہی اسے شہر سے باہر اُس پہاڑ کی طرف لے چلے جہاں تقریباً دو ہزار سال پہلے ابرہام نے پیش گوئی کی تھی کہ:

”۔۔۔ خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برّہ مہیا کر لے گا۔۔۔ خداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا جاۓ گا“ (پیدائش ٢٢ :٨، ١٤ )۔

سارے عناصر جمع ہو گۓ تھے — لوگوں کی بھیڑ، مقدمہ کی کارروائی، وہ خاص شخص، اور وہ جگہ — سب کچھ ویسے ہی ہو رہا تھا جیسے نبیوں نے پیش گوئ کی تھی۔

اب سارے زمانوں کی کارروائی کا وقت آ گیا تھا۔

(یعنی وہ کام جو نہ پہلے کسی زمانے میں ہوا تھا نہ بعد میں ہو گا)۔


١. ایک تُمن میں دس ہزار سپاہی ہوتے ہیں۔

۲۴
پوری ادائیگی

  صلیب دینا سزاۓ موت دینے کا سب سے ظالمانہ طریقہ ہے جو کسی حکومت یا مملکت نے کبھی وضع اور استعمال کیا ہو۔

ہمارا خالق ہم سے ملاقات کرنے آیا تو ہم نے اُس کے لئے ”تصلیب“ پسند کی — اُسے صلیب پر چڑھانا پسند کیا۔

ہو سکتا ہے میرا یہ بیان آپ کو کفر معلوم ہوا ہو۔ اگر ایسا ہے تو زیرِ نظر کتاب ”ایک خدا، ایک پیغام“ کے باب ٨، ٩ اور ١٦ ، ١٧ دوبارہ پڑھیں۔

کئی دفعہ لوگ طنزیہ انداز سے پوچھتے ہیں کہ جب خدا کنواری کے پیٹ میں تھا تو کائنات کا نظام کون چلا رہا تھا؟ یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ پاک صحیفوں کے بارے میں اور  انہیں دینے والے خدا کے بارے میں سوال کرنے والے کا نقطہ  نظر ناقص ہے — ”یسوع نے جواب میں اُن سے کہا تم گمراہ ہو اِس لئے کہ نہ کتابِ مقدس کو جانتے ہو نہ خدا کی قدرت کو“ (متی ٢٢: ٢٩ )۔ چونکہ خدا ہمیشہ سے پیچیدہ ثالوث ہے، اِس لئے اُس کے لئے بہ یک وقت آسمان پر اور زمین پر ہونا کوئ مسئلہ نہیں ہے۔ اگر سورج بہ یک وقت خلاۓ بسیط میں اور اُس کی روشنی اور حرارت زمین پر ہو سکتی ہے تو اِس سورج کا خالق بہ یک وقت آسمان پر اور زمین پر کیوں نہیں ہو سکتا؟

جب یسوع کو صلیب دینے لے چلے تو:

”۔۔۔ وہ دو اَور آدمیوں کو بھی جو بدکار تھے لۓ جاتے تھے کہ اُس کے ساتھ قتل کۓ جائیں۔ جب وہ اُس جگہ پہنچے جسے کھوپڑی کہتے ہیں تو وہاں اُسے مصلوب کیا اور بدکاروں کو بھی ایک کو دہنی طرف اور دوسرے کو بائیں طرف“ (لوقا ٢٣ : ٣٢ ، ٣٣ )۔

اردو میں جس جگہ کا نام ”کھوپڑی“ ترجمہ کیا گیا ہے، یونانی زبان میں اسے کلوری اور عبرانی میں گلگتا کہتے ہیں (متی ٢٧ : ٣٣ ؛ مرقس ١٥ :٢٢ یوحنا ١٩ : ١٧ )۔ یسوع کو اِس پہاڑی پر صلیب دی گئی۔ یہ پہاڑی پرانے یروشلیم کے باہر واقع ہے اور اِس کی شکل انسانی سر سے مشابہ ہے۔ یہ اُسی پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جہاں ابرہام نے اپنے بیٹے کے بدلے مینڈھا قربان کیا تھا۔

مصلوب کیا گیا!

سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کے لئے صلیب دینے کا طریقہ اِس لئے وضع کیا گیا اور اِس کا مقصد یہ ہے کہ ملزم کو انتہائ تکلیف اور اذیت ہو اور اُس کی انتہائ تذلیل ہو۔ مَیں نے کسی مصور کی کوئی ایسی تصویر یا کسی فلم ساز کی کوئی فلم دیکھی ہے اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں جس میں اُس نے صلیب پر یسوع کے درد اور شرمندگی کو کافی واضح طور سے دکھایا ہو۔ مثال کے طور پر مصور اور فلمساز اُسے ہمیشہ ایک لنگوٹی پہنے ہوۓ دکھاتے ہیں جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ رومی سپاہی مجرم کے سارے کپڑے اُتار کر اُسے الف ننگا کر دیتے تھے۔ پھر اُسے نہایت بے دردی اور بے رحمی سے درخت کے ساتھ یا صلیب پر دھم سے پٹک دیتے تھے اور اُس کی کلائیوں اور ایڑیوں میں میخیں ٹھونک دیتے تھے۔

صلیبی موت شرمںاک اور درد ناک ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ واقع ہوتی تھی۔

یسوع نے یہ سزا رضاکارانہ — اپنی مرضی سے برداشت کی۔ اُس نے یہ اذیت، یہ درد اور یہ شرمندگی اور ذلت میری اور آپ کی اور آدم کی ساری نسل کی خاطر برداشت کی۔ انتہائ اذیت اور عذاب جو یسوع پر ”لادا“ گیا اِس کا مقصد یہ تھا کہ ہم سمجھ لیں اور جان لیں کہ گناہ کی سزا کیسی سخت اور شدید ہے۔

رومیوں کے صلیب دینے کے طریقے کے وضع اور استعمال کرنے سے صدیوں پہلے داؤد نبی نے مسایاح کے صلیبی دکھوں کو بیان کیا۔

” ۔۔۔ بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہوۓ ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔۔۔ وہ منہ چڑاتے ، وہ سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں، اپنے کو خداوند کے سپرد کر دے۔ وہی اُسے چھڑاۓ، جبکہ وہ اُس سے خوش ہے تو وہی اُسے چھڑاۓ“ (زبور ٢٢ : ١٦ ۔ ١٨ ، ٨)۔

اور یسعیاہ نبی نے پیش گوئ کی ۔

”۔۔۔ اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی اور خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لۓ اور خطاکاروں کی شفاعت کی“ (یسعیاہ ٥٣ : ١٢ )۔

انجیل مقدس میں سے ذیل کے اقتباس دیکھیں اور بتائیں کہ جو نبوتیں یا پیش گوئیاں ہم نے ابھی ابھی پڑھی ہیں اُن میں سے کتنی پوری ہو گئ ہیں۔

”اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا اور بدکاروں کو بھی ایک کو دہنی اور دوسرے کو بائیں طرف ۔۔۔ اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔۔۔ اُںہوں نے اُس کے کپڑوں کے حصے کۓ اور اُن پر قرعہ ڈالا۔۔۔ اور لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ۔۔ سردار بھی ٹھٹھے مار مار کر کہتے تھے اِس نے اَوروں کو بچایا اگر یہ خدا کا مسیح اور برگزیدہ ہے تو اپنے آپ کو بچاۓ ۔۔۔ سپاہیوں نے بھی ۔۔۔ اُس پر ٹھٹھا مارا۔

” پھر جو بدکار صلیب پر لٹکاۓ گۓ تھے اُن میں سے ایک اُسے یوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسیح نہیں؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔ مگر دوسرے نے اُسے جھڑک کر کہا کیا تُو خدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرفتار ہے؟ اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔ پھر اُس نے کہا اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آۓ تو مجھے یاد کرنا۔ اُس نے اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔

” پھر دوپہر کے قریب سے تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور سورج کی روشنی جاتی رہی ۔۔۔“ (لوقا ٢٣: ٣٣ ۔ ٣٦ ، ٣٩ ۔ ٤٥ )۔

گذشتہ صدیوں کے دوران بے شمار مظلوموں نے صلیب کی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ ٧٠ ء میں یروشلیم کے زوال اور تباہی سے پہلے رومی سپاہی روز پانسو یہودیوں کو صلیب دیتے تھے۔

مشہور مورخ یوسیفس بیان کرتا ہے کہ ٧٠ ء میں یروشلیم  کے سقوط سے پہلے رومی سپاہی ”ہر روز پانچ سو یہودیوں کو ۔۔۔ بلکہ بعض دنوں میں اِس سے بھی زیادہ یہودیوں کو پکڑتے اور یہودیوں کے خلاف غصہ اور نفرت کے باعث، جنہیں پکڑتے تھے، تماشا اور دل لگی کے لئے، اُنہیں صلیبوں پر جڑ دیتے تھے، ایک کو ایک طریقے سے دوسرے کو دوسرے طریقے سے۔ اُن کی تعداد اِتنی زیادہ تھی کہ صلیبوں کے گاڑنے کے لئے جگہ کم پڑ گئی اور جسموں کے لئے صلیبیں کم پڑ گئیں“

یوسیفس نے یہ بھی لکھا ہے کہ صلیب دینے سے پہلے مظلوموں کو ”کوڑے مارے جاتے اور ہر طرح کے تشدد سے اذیتیں دی جاتی تھیں“ (صفحہ ٥٦٣ ١ :١١ Antiquities )

بعض مظلوم تو کئی کئی دن تک صلیبوں پر سسکتے اور گھلتے رہتے تھے۔ اُن کے مقابلے میں یسوع نے تو بہت تھوڑی دیر، صرف چھ گھنٹوں تک صلیب کا دکھ اُٹھایا اور جان دے دی، لیکن اُس کا دکھ اُٹھانا بے مثال تھا۔ کیوں؟

سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ نبیوں نے یسوع کے دکھوں اور موت کی پیش گوئیاں کی تھیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ بہتوں نے اپنا خون اُس وقت بہایا جب صلیب پر بے بس تھے اور اُن کا خون زرد ہو چکا تھا۔ صرف خداوند یسوع نے کامل خون بہایا۔ اور جو بیان ہم نے ابھی ابھی پڑھا ہے وہ یسوع کی موت کا ایک بالکل ہی بے مثال اور یکتا رُخ ظاہر کرتا ہے۔

”پھر دوپہر کے قریب سے تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا“ (لوقا ٢٣ : ٤٤)۔

وقت کے موجودہ نظام کے مطابق اُنہوں نے یسوع کو صبح تقریباً ٩ بجے مصلوب کیا (مرقس ١٥ : ٢٥ )۔ اور دوپہر بارہ بجے سے سہ پہر تین بجے تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا۔

یہ اندھیرا کیوں چھایا رہا؟ اِن تین گھنٹوں کے دوران، دنیا کی نظروں سے اوجھل، سارے زمانوں کی سب سے اہم کارروائ ہو رہی تھی۔ خدا زمان میں ہمارے گناہ کا ازالہ کر رہا تھا تاکہ ہمیں ابدیت میں اُس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔

فوق الفطرت تاریکی کی اِن گھڑیوں میں آسمان پر خدا نے ہمارے گناہوں کی مجموعی اور ہمیشہ کی سزا اپنے پیارے اور راست باز بیٹے پر ڈال دی۔ خدا کے بیٹے نے اِسی مقصد سے گوشت اور خون کا بدن اختیار کیا تھا۔

” ۔۔۔وہی (یسوع مسیح) ہمارے گناہوں کا کفارہ (خدا کا غضب ٹھنڈا کرنے کے لئے گناہ کی کافی قربانی) ہے اور نہ صرف ہمارے گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی“ (١۔یوحنا ٢:٢ )۔

اِس سے سات صدیاں پہلے یسعیاہ نبی نے اُس کارروائی کی خبر دی تھی جو نہ اُس سے پہلے کبھی ہوئ نہ بعد میں کبھی ہو گی۔

”وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔۔۔ خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔۔۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں ۔۔۔ وہ فتوی' لگا کر اُسے لے گۓ۔۔۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جاۓ گی۔۔۔ اپنی جان ہی کا دکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راست باز ٹھہراۓ گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا“ (یسعیاہ ٥٣ : ٥۔ ٧ ، ١٠، ١١)۔

صلیب پر اِن گھڑیوں کے دوران جب کہ کرہ ارض تاریکی میں لپٹا ہوا تھا خداوند خدا نے ہمارے گناہوں کی ناپاکی اور نجاست اور سزا اپنے رضامند اور بے گناہ بیٹے پر ڈالی۔ باپ اور بیٹے کے درمیان جو معاملہ طے ہوا ہم اُسے کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے۔ یہ سارے زمانوں کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔

اکیلا!

زمین پر گہری تاریکی چھائ ہوئی تھی۔ اِس کے دوران یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا ”ایلی۔ ایلی۔ لماشبقتنی؟ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ (متی ٢٧ : ٤٦ )۔

یسوع ایسے دل دوز طریقے سے کیوں پکار اُٹھا؟ وہ اِس لئے پکار اُٹھا کہ خدا نے اُسے گناہ کی سزا اُٹھانے کے لئے، گناہ کی قیمت چکانے کے لئے — اکیلا— چھوڑ دیا تھا۔

ہم سب کی خاطر یسوع نے گناہ کے سبب سے ہونے والی تین قسم کی جدائی برداشت کی:

  • اُسے روحانی موت کا تجربہ ہوا: آسمان پر خدا نے اپنا پاک چہرہ اپنے بیٹے کی طرف سے پھیر لیا جو زمین پر تھا— جس پر اُس نے بنی نوع انسان کی ساری بدکرداری لادی تھی۔
  • وہ جسمانی موت میں سے گزرا: جس لمحے یسوع نے بہ رضا و رغبت دم دیا، اُس کی جان اور روح نے اُس کے بدن کو چھوڑ دیا۔
  • اُس نے دوسری موت کا مزہ بھی چکھا: میری اور آپ کی خاطر اُس نے پاتال (عالمِ اَرواح) کا عذاب بھی برداشت کیا۔

یسوع عالمِ اَرواح میں عذاب جھیلنے گیا تھا یا قیدی روحوں میں منادی کرنے؟ وہ قیدیوں کو ساتھ لے گیا— (١۔پطرس ٣: ١٩ ؛ افسیوں ٤: ٨)۔

پاتال ایک خستہ حال جگہ ہے جہاں تاریکی اور تنہائی ہے۔ وہاں کوئی اچھی چیز ہے نہیں۔ آسمانی باپ کی محبت اور حضوری سے دُوری اور جدائی ہے۔ ابدیت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ صلیب پر لٹکے ہوۓ ازلی بیٹے کی اپنے ازلی باپ سے جدائی ہوئ۔ یسوع نے یہ ہولناک جدائی اِس لئے برداشت کی تاکہ ہمیں اِس کا کبھی تجربہ نہ ہو۔

خدا کا پاک برّہ ہمارا عوضی بن گیا اور ہمارے گناہ اُٹھا لۓ۔ اُس نے گناہ کی لعنت کا پورا وزن اُٹھا لیا اور شرمندگی، درد، کانٹے اور کیل برداشت کۓ۔ صلیب پر یسوع گناہ کی پوری، کامل، قطعی اور آخری ”سوختنی قربانی“ بن گیا (پیدائش ٨: ٢٠ ؛ ٢٢: ٢۔ ٨ ؛ خروج ٢٩ : ١٨ )۔ ”سوختنی قربانی“ کی اصطلاح پرانے عہدنامے میں ١٦٩  دفعہ استعمال ہوئ ہے۔ یسوع گناہ کی آخری سوختنی قربانی بن گیا (مرقس ١٢ : ٣٣ ؛ عبرانیوں ١٠ : ٦۔ ١٤ )۔

[نوٹ: خداوند یسوع صلیب پر لٹکا ہوا تھا کہ خدا نے اُس سے منہ موڑ لیا۔ اِس کی وجہ اور مطلب کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے پڑھیں یسعیاہ باب ٥٣ اور زبور  ٢٢ ۔ جس زبور میں داؤد نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح کہے گا ”اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ (زبور ٢٢: ١) اُسی میں وہ بتاتا ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے کو کیوں چھوڑ دیا، ”تُو قدوس ہے“ (زبور  ٢٢ :٣ )۔ خدا نے یسوع کو اِس لئے چھوڑ دیا کیونکہ وہ (خدا) بالکل پاک ہے اور ”بدی کو دیکھ نہیں سکتا“ (حبقوق ١: ١٣ )۔ اُن تاریک گھڑیوں میں بے گناہ ابنِ آدم بدکاروں کے بدلے دکھ اُٹھا رہا تھا اور خدا اُس کے خلاف ایسے طیش میں تھا گویا وہی گنہگار ہے۔ خدا کا پاک برّہ یسوع ”گناہ کو اُٹھانے والا“ بن گیا — لیکن خود گنہگار نہیں تھا۔

یہ بہت بڑا بھید ہے کہ وہ لافانی مر گیا۔ اِس عجیب بھید کو کون سمجھ سکتا ہے؟]

چند گھنٹوں میں دوزخ؟

یسوع نے ہمارا دوزخ اپنے اوپر لے لیا۔

ایک ہستی سارے انسانوں کی سزا کیسے اُٹھا سکتا ہے؟ سارے انسانوں کے گناہوں کی قیمت کیسے ادا کر سکتا ہے؟ یسوع چند گھنٹوں میں پوری ابدیت کی سزا کیسے اُٹھا سکتا تھا؟

جو وہ ہے اُس کے باعث — اپنی ذات کے باعث ایسا کر سکا۔

جو وہ ہے اُس کے باعث اُسے ضرورت نہ تھی کہ پوری ابدیت میں ہمارے گناہوں کی سزا بھگتتا رہتا، جیسے ہمیں بھگتنی تھی۔ وہ خدا کا بیٹا اور کلام ہے۔ اُس کا اپنے گناہ کا کوئ قرض نہ تھا جو اُسے ادا کرنا پڑا۔ اور نہ وہ وقت میں پابند تھا جیسے ہم ہیں۔ وہ لازمان ہے۔ وقت سے ماورا ہے۔

جو  وہ ہے، جو اُس کی ذات ہے، اُس کے باعث وہ اِس لائق تھا کہ محدود وقت میں ”ہر ایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے“ (عبرانیوں ٢: ٩)۔

جس طرح خداوند خدا کو یہ پیچیدہ دنیا خلق کرنے کے لئے وقت کی خاص میعاد کی ضرورت نہ تھی — اگرچہ اُس نے چھے دن کا عرصہ چنا — اِسی طرح اُسے صلیب پر بھی وقت کی خاص میعاد کی ضرورت نہ تھی جس میں کل انسانوں کا فدیہ دے کر اُنہیں چھڑاتا — اگرچہ اُس نے چھے گھنٹے کی میعاد چنی۔

خدا کے نزدیک وقت ناچیز ہے — یعنی 'ہے نہیں۔'

” ۔۔۔ ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔۔۔ تیری نظر میں ہزار برس ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گزر گیا اور جیسے رات کا ایک پہر“ (زبور ٩٠ : ٢، ٤ )۔

”پورا ہوا!“

” اِس کے بعد جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشہ پورا ہو تو کہا کہ مَیں پیاسا ہوں۔ وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس اُنہوں نے سرکہ میں بھگوۓ ہوۓ سپنچ کو زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے منہ سے لگایا۔ پس جب یسوع نے وہ سرکہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سر جھکا کر جان دے دی“ (یوحنا ١٩ : ٢٨ ۔ ٣٠ )۔

دم دینے سے پہلے یسوع نے ایک اعلان کیا:

”تمام ہوا!“

یہ جملہ یونانی کے صرف ایک لفظ  ” Tetelesai “  کا ترجمہ ہے۔ نوکر، خادم یا کارکن مطلوبہ کام پورا کرنے کے بعد اپنے بھیجنے والے کو خبر دینے کے لئے کہہ سکتا تھا  ” Tetelesai “  جس کا مطلب ہے

 ”تفویض کیا گیا کام مکمل ہوا!“

دوسرے سارے انجیل نویس بیان کرتے ہیں کہ ”یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا“ (متی ٢٧: ٥٠ ؛ مرقس ١٥ : ٣٦ ؛ لوقا ٢٣ : ٤٦ )۔

یہ فتح کا نعرہ تھا!

وہ نبوتیں، پیش گوئیاں اور علامتیں جو خدا کے قربانی کے برّہ کی طرف اشارہ کرتی تھیں پوری ہو چکی تھیں۔

یسوع نے لعنت کے سبب یعنی گناہ کا موثر ازالہ کر دیا تھا۔

اُس نے خدا کو پورا فدیہ ادا کر کے آدم کی نجس، باغی، سرکش اور ملعون نسل کو چھڑا لیا تھا۔ گناہ کے خلاف خدا کی راست اور صادق ذات اور غضب کا تقاضا بالکل پورا ہو گیا تھا۔ اُس کے احکام اور فرمانوں پر عمل درآمد ہو چکا تھا۔

تمام ہوا! پوری ادائیگی ہو گئ! پوری قیمت ادا ہو گئ! سونپا گیا کام مکمل ہوا!

”تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئ بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برّے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے۔ اُس کا علم تو بنایِ عالم سے پیشتر سے تھا مگر ظہور اخیر زمانہ میں تمہاری خاطر ہوا“ (١۔پطرس ١: ١٨ ۔ ٢٠ )۔

صدیوں تک قربانی کے لاکھوں بے عیب جانوروں کا خون بہتا رہا۔ لیکن اب یسوع کے بے گناہ بدن سے اُس کا اپنا خون بہایا گیا۔ یسوع کے نہایت ”بیش قیمت خون“ نے گناہ کو عارضی طور پر نہیں ڈھانکا بلکہ اُسے کتاب سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔

خدا کے پہلے عہد میں یہی بات پیشتر سے بتائی گئ تھی:

”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب مَیں ۔۔۔ نیا عہد باندھوں گا ۔۔۔ مَیں اُن کی بدکرداری کو بخش دوں گا اور اُن کے گناہ کو یاد نہ کروں گا“ (یرمیاہ٣١ :٣١ ، ٣٤ )۔

نیا عہد نامہ وضاحت کرتا ہے ”جب اُس نے نیا عہد کہا تو پہلے کو پرانا ٹھہرایا“ (عبرانیوں ٨: ١٣ )۔ اب گناہ کی قربانیوں کی کچھ حاجت نہ رہی۔ صلیب پر مسایاح کی موت نے قربان گاہ پر جانوروں کی قربانیاں منسوخ کر دیں۔

جس طرح خداوند خدا نے پہلی خون کی قربانی کی تھی (جس روز آدم اور حوا نے گناہ کیا)، اُسی طرح خود اُس نے آخری اور قابلِ قبول اور پسندیدہ خون کی قربانی مہیا کی ہے۔

ابرہام کی نبوت کے مطابق ”خدا نے آپ ہی اپنے واسطے ۔۔۔ قربانی کے لئے برّہ مہیا“ کر لیا (پیدائش ٢٢ : ٨)۔ خدا نے ابرہام کے بیٹے کو تو بچا لیا، اُس کا دریغ کیا، لیکن ”اپنے بیٹے کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا“ (رومیوں ٨: ٣٢ )۔

یسوع کے بہاۓ گۓ خون نے گناہ اور موت کے قانون کا تقاضا پورا کر دیا اور قربانی کے قانون (شریعت) کو پورا کیا۔

اِس لئے تعجب کیسا کہ اُس نے بلند آواز سے پکار کر کہا، ”تمام ہوا“۔

پردے کا پھٹنا

جب یسوع نے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ”تمام ہوا“ تو کیا واقعہ ہوا؟

”پھر یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا اور مقدِس کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا“ (مرقس ١٥ : ٣٧ ، ٣٨ )۔

قدیم مورخین بتاتے ہیں کہ ہیکل کا پردہ ہتھیلی کے برابر موٹا تھا اور اِسے کھینچنے یا حرکت دینے کے لئے تین سو آدمی درکار ہوتے تھے۔

کیا تھا جس نے اُس بھاری بھرکم اور بڑے پردے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کر دیا؟

اِسی کتاب کے باب ٢١ میں ہم نے سیکھا تھا کہ خدا نے اپنے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ خیمہ اجتماع میں اور بعد ازاں ہیکل میں ایک خاص پردہ لٹکائیں۔ اِس پردے نے انسان کو ”پاک ترین مقام“ سے خارج رکھا ہوا تھا۔ یہ اندرونی مقدس تھا جہاں خدا نے اپنی حضوری کا چندھیا دینے والا جلال رکھا تھا۔ اِس پردہ پر آسمانی، ارغوانی اور سرخ رنگوں کی کڑھائ کی گئی تھی۔ یہ پردہ خدا کے اپنے بیٹے کی علامت تھا جو آسمان سے زمین پر آۓ گا۔ اور یہ پردہ گنہگاروں کو اپنے پاک خالق سے جدائی کی بھی یاد دلاتا تھا۔ خدا کی ابدی سکونت گاہ میں داخل ہونے کی اجازت صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو اُس کی کامل راست بازی کے معیار پر پورے اُتریں گے۔

سال میں صرف ایک دفعہ کفارہ کے دن خاص طور سے مسح کئے ہوۓ سردار کاہن کو اجازت تھی کہ پردہ میں سے گزر کر پاک ترین مقام میں داخل ہو۔ اور خدا کی خاص حضوری میں داخل ہونے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ سردار کاہن برتن میں قربانی کے بکرے کا خون (جو یسوع کے بہاۓ گۓ خون کی علامت تھا) ساتھ لے کر جاۓ۔ یہ بھی ضروری تھا کہ وہ نفیس کتان کا چوغہ پہنے (یہ مسیح کی راست بازی کی علامت تھا)۔ پاک ترین مقام میں داخل ہو کر سردار کاہن عہد کے صندوق کی رحم گاہ (سرپوش) پر سات بار خون چھڑکتا تھا۔ عہد کے صندوق میں خدا کی شریعت تھی جو گنہگاروں کو موت کا سزاوار ٹھہراتی تھی۔ لیکن خدا نے گنہگاروں پر رحم کیا اور اجازت دی کہ اُن کے بدلے بے گناہ جانور ذبح کۓ جائیں۔

پندرہ صدیوں سے یہ پردہ گواہی دیتا آ رہا تھا کہ خدا نہایت پاک ہے اور مسیح کے بہاۓ گۓ خون کے بغیر گناہ کا ابدی کفارہ نہیں ہو سکتا۔ صرف خدا کا چنا ہوا، بے گناہ اور برگزیدہ شخص ہی گناہ کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ یہ پردہ اُسی کی علامت تھا۔ اِسی لۓ جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ خدا کے قوانین اور شریعت کی کامل فرماں برداری کرے اور پھر اپنی رضامندی سے آدم کی نافرمان اور شریعت کو توڑنے والی اولاد کے بدلے پوری سزا برداشت کر لے۔

چنانچہ کس نے ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھاڑ کر دو ٹکڑے کر دیا؟ خدا نے ایسا کیا۔ یہ بیٹے کے الفاظ ”تمام ہوا“ پر باپ کی طرف سے ”آمین“ تھی۔

یہ خدا کے سارے تقاضے پورے ہو گۓ تھے۔

اب گناہ کی کسی اَور قربانی کی حاجت نہ رہی تھی۔

گناہ کی قربانیاں ختم

صلیب پر یسوع کی قربانی سے پورا فدیہ (گناہ کی معافی اور خدا کے ساتھ میل ملاپ) ادا ہو  گیا۔ کامل عوضی نے اپنی خوشی سے جہان کے گناہ کے لئے اپنا خون بہا دیا تھا۔

اب خدا کے لوگوں کو ہر سال گناہ کی قربانی نہیں چڑھانی پڑے گی۔

اب خدا ہیکل کی رسومات کی ادائیگی یا سردار کاہنوں کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

ہمیشہ کے لئے ایک ہی قربانی چڑھائ جا چکی ہے۔ عکسوں اور علامتوں کے پیچھے جو ”حقیقت“ تھی اُس نے کہہ دیا ”تمام ہوا!“

جو ایمان لاتے ہیں اُن سب سے خدا کہتا ہے:

”اُن کے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یاد نہ کروں گا۔  اور جب اُن کی معافی ہو گئ ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔ پس اے بھائیو! چونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے جو اُس نے پردہ یعنی اپنے جسم میں سے ہو کر ہمارے واسطے مخصوص کی ہے اور چونکہ ہمارا ایسا بڑا کاہن ہے جو خدا کے گھر کا مختار ہے تو آؤ ہم سچے دل اور پورے ایمان کے ساتھ ۔۔۔ خدا کے پاس چلیں۔“ (عبرانیوں ١٠ : ١٧ ۔ ٢٢ )

عبرانیوں ٩ اور ١٠ باب پڑھیں جیسا کہ ہم نے باب ٢٢ میں بتایا تھا کہ خدا کا جلال جو خیمہ اجتماع اور بعد ازاں ہیکل میں سکونت کرتا تھا اب وہ پردوں کے پیچھے نہیں رہتا تھا۔ اب وہ یسوع میں تھا۔

مر گیا

جس وقت یسوع نے جان دی اُس وقت نہ صرف ہیکل کا پردہ پھٹ گیا بلکہ ”زمین لرزی اور چٹانیں تڑک گئیں ۔۔۔“ (متی ٢٨ : ٥١ )۔

”پس صوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یسوع کی نگہبانی کرتے تھے بھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بہت ہی ڈر  کر کہنے لگے کہ بے شک یہ خدا کا بیٹا تھا“ (متی ٢٧ : ٥٤ )۔

کچھ دیر  بعد یہ یقین کرنے کے لئے کہ یسوع واقعی مر گیا ہے ایک رومی سپاہی نے یسوع کی پسلی میں نیزہ مارا (یوحنا ١٩ : ٣٤ )۔ اور اُس کے پہلو سے خون اور پانی بہہ نکلا۔ یوں ایک طبی ثبوت مل گیا کہ یسوع واقعی مر گیا ہے۔ سپاہی کے اِس کام سے اَور  پیش گوئیاں بھی پوری ہوئیں (یوحنا ١٩ : ٣١ ۔ ٣٧ )۔

کفن دفن

” جب شام ہوئ تو یوسف نام ارمتیاہ کا ایک دولت مند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔ اِس پر پیلاطس نے دے دینے کا حکم دیا۔ اور یوسف نے لاش کو لے کر صاف مہین چادر میں لپیٹا اور اپنی نئی قبر میں جو اُس نے چٹان میں کھدوائی تھی رکھا۔ پھر وہ ایک بڑا پتھر قبر کے منہ پر لڑھکا کر چلا گیا“ (متی ٢٧ : ٥٧ ۔ ٦٠ )۔

یسعیاہ نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح کی قبر ”دولت مندوں کے ساتھ“ ہو گی (یسعیاہ ٥٣ :٩ )۔ خدا کے منصوبے کی ایک ایک تفصیل پوری ہو رہی تھی۔ مگر اِن باتوں کے باوجود یسوع کے شاگرد اس منصوبے کو نہ سمجھے۔ اُن کا یہ ایمان تو صحیح تھا کہ یسوع مسایاح ہے اور وہ دنیا میں اپنی بادشاہی قائم کرے گا، لیکن جب اُنہوں نے اُسے مرتے دیکھا تو اُن کی اُمیدیں دم توڑ گئیں۔ اُن کا معجزے کرنے والا اور سب سے پیارا دوست قتل ہو گیا اور دفن ہو چکا تھا۔

سب کچھ ختم ہو گیا— یا وہ ایسا سوچتے تھے۔

عجیب بات ہے کہ یسوع کے شاگرد اُس کا یہ وعدہ بھول گۓ تھے کہ مَیں تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھوں گا۔ لیکن مذہبی لیڈر جنہوں نے یسوع کو مروانے کی کارروائی کی تھی وہ اِس بات کو نہیں بھولے تھے۔

”۔۔۔ سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطس کے پاس جمع ہو کر کہا خداوند! ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا مَیں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا۔ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جاۓ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آ کر اُسے چرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ جی اُٹھا ہے اور یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بُرا ہو۔ پیلاطس نے اُن سے کہا تمہارے پاس پہرے والے ہیں۔ جاؤ جہاں تک تم سے ہو سکے اُس کی نگہبانی کرو۔ پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لے کر گۓ اور پتھر پر مہر کر کے قبر کی نگہبانی کی“متی ٢٧: ٦٢ ۔ ٦٧ )۔

جس قبر میں یسوع کی لاش تھی اُس کے منہ پر پتھر رکھ کر مہر کر دی گئی۔ خوب مسلح رومی سپاہی قبر کے اِرد گرد پہرہ دینے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اِس طرح یسوع ناصری کا قصہ ختم ہو جائے گا۔

اور اتوار کی صبح ہونے لگی۔

۲۵
موت کی شکست

آدم کے بارے میں پاک کلام کہتا ہے”۔۔۔ اور تب وہ مرا“ (پیدائش ٥:٥)۔ اور اِس بیان کے ساتھ ہی اِس دنیا میں آدم کی کہانی ختم ہو جاتی ہے۔

آدم کی اولاد کا حال بھی اُس سے فرق نہیں۔ پیدائش کی کتاب کے پانچویں باب میں اُن کے یاد گار کتبے درج ہیں:

” ۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ٨

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١١

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١٤

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١٧

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ٢٠“

یہ ہے گناہ سے متاثر مردوں اور عورتوں کی تاریخ — جیتے رہے، مر گۓ اور دفن کۓ گۓ، نسل در نسل، صدی در صدی۔

لیکن مسایاح کی تاریخ قبر میں ختم نہیں ہوتی۔

خالی قبر

”اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلےدن  پو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں۔ اور دیکھو ایک بڑا بھونچال آیا، کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتھر  کو لڑھکا دیا اور اُ س پر بیٹھ گیا۔ اُس کی صورت بجلی کی مانند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانند سفید تھی۔ اور اُس کے ڈر سے نگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔ فرشتہ نے عورتوں سے کہا تم نہ ڈرو۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے۔ آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑا تھا اور جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے۔ وہاں تم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تم سے کہہ دیا ہے۔ اور وہ خوف اور بڑی خوشی کے ساتھ قبر سے روانہ ہو کر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں۔ اور دیکھو یسوع اُن سے ملا اور اُس نے کہا سلام۔ اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سجدہ کیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائیوں کو خبر دو تاکہ گلیل کو چلے جائیں، وہاں مجھے دیکھیں گے“ (متی ٢٨ : ١۔ ١٠ )۔

موت مسایاح کو اپنے قبضے میں نہ رکھ سکی۔ چونکہ اُس کا اپنا کوئ گناہ نہ تھا اِس لئے خدا نے اُسے مُردوں میں سے زندہ کر دیا۔ اُس نے نہ صرف دنیا کے گناہ کی سزا بھگتی بلکہ اُس سزا پر غالب بھی آیا۔ اُس نے موت کو فتح کر لیا۔

شیطان اور اُس کی بدروحیں (شیاطین) کانپ اُٹھے ہوں گے۔

مذہبی راہنما غصے سے بدحواس ہو رہے تھے۔

”جب وہ (عورتیں جنہوں نے ابھی ابھی اپنے جی اُٹھے خداوند کو دیکھا تھا) جا رہی تھیں تو دیکھو پہرے والوں میں سے بعض نے آ کر تمام ماجرا سردار کاہنوں سے بیان کیا، اور اُنہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر فیصلہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر کہا یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے تو اُس کے شاگرد آ کر اُسے چرا لے گئے۔ اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اُسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچا لیں گے۔ پس اُنہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہی کیا اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے“(متی ٢٨ : ١١۔ ١٥ )۔

یسوع کے دشمن جانتے تھے کہ قبر خالی ہے۔ وہ سچائی کو چھپانے کی سر توڑ کوشش کرنے لگے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو خبر ہو کہ جس شخص کو ہم نے قتل کیا تھا وہ جی اُٹھا ہے۔

موت کی شکست

باغِ عدن میں خدا نے آدم کو خبردار کیا تھا کہ اگر تم نے اپنے خالق کا ایک حکم توڑا تو تُو ضرور مر جاۓ گا۔ شیطان نے اِس کا توڑ کرتے ہوۓ کہا تھا ”تم ہرگز نہ مرو گے!“ اور اُس نے آدم اور اُس کی ساری نسل کو موت، تباہی اور ہلاکت کی راہ پر ڈال دیا۔ ہزاروں سال سے موت مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنے بے رحم چنگل میں جکڑے ہوۓ تھی۔ خدا کے بیٹے نے موت کو للکارا، اُسے چیلنج کیا، اُسے شکست دی اور ابدی زندگی کا دروازہ کھول دیا۔

”۔۔۔ جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی سب مسیح میں زندہ کۓ جائیں گے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢ )۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری ایک عمر رسیدہ پڑوسن کہہ رہی تھی۔ مَیں زندگی میں ایک چیز سے ڈرتی ہوں اور وہ ہے موت۔ مَیں یہ موقع ملنے پر بہت خوش ہوا اور اُسے اُس ازلی و ابدی ہستی کے بارے میں بتایا جو موت میں سے گزرا اور زندہ ہوا اور دہشت ناک دشمن پر فتح پائی۔

”پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تاکہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے“ (عبرانیوں ٢: ١٤ ۔ ١٥ )۔

فرض کریں کہ یسوع ہمارے گناہوں کی خاطر مر جاتا، لیکن مُردوں میں سے جی نہ اُٹھتا۔ پھر تو موت اَور بھی زیادہ ہولناک اور ڈراؤنی چیزہوتی۔

موت پر فتح پانے سے یسوع نے ثابت کر دیا کہ مَیں شیطان کے سب سے بڑے ہتھیار سے اور انسان کے سب سے زیادہ ہولناک اور ڈراؤنے دشمن سے بھی بڑا ہوں۔ چونکہ یسوع موت پر فتح مند ہوا اِس لۓ جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں نہ اِس زندگی میں کسی چیز کا ڈر ہے نہ اگلی زندگی میں۔

خدا کا پیغام بے لاگ اور صاف ہے۔ اگر آپ اُس کے بیٹے پر ایمان رکھتے ہیں جس نے آپ کا عوضی ہو کر صلیب پر دکھ اُٹھایا، مر گیا، عالمِ اَرواح میں اُتر گیا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا تو وہ آپ کو گناہ کے پھندے سے رہائی دلاۓ گا اور ہمیشہ کی زندگی دے گا۔

یہ ساری دنیا کے لۓ پیغام ہے جو گناہ کی قید میں ہے:

”۔۔۔ مسیح کتابِ مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ مقدس کے مطابق جی اُٹھا“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٣، ٤)۔

مسیح یسوع سب ایمان لانے والوں سے کہتا ہے:

”چونکہ مَیں جیتا ہوں تم بھی جیتے رہو گے ۔۔۔ خوف نہ کر۔ مَیں اوّل اور آخر اور زندہ ہوں۔ مَیں مر گیا تھا اور دیکھو، ابدلآباد زندہ رہوں گا۔ اور موت اور عالمِ اَرواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں“ (یوحنا ١٤ : ١٩ ؛ مکاشفہ ١: ١٧ ، ١٨ )۔

شیطان کو شکست

جب یسوع موت کی قلمرو میں داخل ہوا اور تیسرے دن باہر نکل آیا، تو جنگی اِصطلاحات کے مطابق اُس نے میدان مار لیا اور برتر جگہ پر کھڑا ہو گیا جہاں سے کبھی نہیں ہٹے گا۔ شیطان ایک شکست خوردہ دشمن ہے۔ وہ اور اُس کے شیطان بے جگری سے لڑتے رہیں لیکن ہرگز جیت نہیں سکتے۔

کیا آپ نے دیکھا کہ خدا نے وہ پیش گوئی کیسے پوری کی جس کا اعلان اُس نے باغِ عدن میں اُس دن کیا تھا جب آدم اور حوا نے گناہ کیا تھا؟ اُس نے وعدہ کیا تھا کہ عورت کی نسل (یسوع) کو سانپ (شیطان) نے زخمی کیا ہے، مگر یہی زخم شیطان کے حشر پر مہر ہیں۔

”خدا کا بیٹا اِسی لۓ ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹاۓ“ (١۔یوحنا ٣: ٨ )۔

اپنی موت، دفن اور جی اُٹھنے سے یسوع نے گناہ کی لعنت پر فتح پائ جو کہتی تھی۔

”تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جاۓ گا“ (پیدائش ٣: ١٩ )۔

ہزاروں سال سے موت کا بدبودار عمل آدم کی اولاد کو گلا سڑا کر خاک میں ملا رہا تھا۔ لیکن اب ایک ہستی آ گئی جس کا بدن لوٹ کر خاک میں نہیں ملا۔

اُس کا جسم قبر میں کیوں نہ سڑا؟

موت کا اُس پر  کوئی اختیار نہ تھا کیونکہ وہ بے گناہ تھا۔ کوئی ایک ہزار سال پہلے داؤد نبی نے کہہ دیا تھا،

”تُو نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا، نہ اپنے مقدّس کو سڑنے دے گا“ (زبور  ١٦ : ١٠ )۔

اُس مقدس ہستی نے — ہمارے لۓ — شیطان اور موت پر فتح پائی۔

شہادتیں

یسوع کے جی اُٹھنے کی شہادتیں بہت سی ہیں اور یقینی ہیں:

(متی باب ٢٨ ، مرقس باب ١٦ ؛ لوقا باب ٢٤ ؛ یوحنا باب ٢٠، ٢١ ؛ ١۔کرنتھیوں باب ١٥ ۔)

قبر خالی تھی۔

لاش کہیں موجود نہ تھی۔

خالی قبر سب سے پہلے عورتوں نے دیکھی، فرشتوں کا اعلان سنا، یسوع کو زندہ دیکھا، اُسے چھوا اور اُس سے باتیں کیں۔ اگر اناجیل کا بیان جھوٹ اور من گھڑت ہوتا تو کیا آپ کے خیال میں چاروں آدمی جنہوں نے یہ روئیداد لکھی وہ ہر بات میں اوّل ہونے کا اعزاز عورتوں کو دیتے؟

جی اُٹھنے کے بعد یسوع کے ظہور  بہت سے ہیں اور اِن کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ آئندہ سالوں میں سینکڑوں معتبر گواہوں نے گواہی دی کہ وہ ہمارے ساتھ چلتا پھرتا رہا اور باتیں کیں۔

انجیل مقدس میں مذکور گواہوں کے علاوہ اَور بھی بہت سے گواہ ہیں۔ ان میں سے بہتوں نے یسوع کے جی اُٹھنے کو مَن گھڑت ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن بالآخر اِس کے ثبوت میں کتابیں لکھیں کیونکہ زبردست شہادتوں سے اِس کی سچائی کے قائل ہو گۓ تھے۔ مثال کے طور پر فرینک موریسن مصنف — پتھر کس نے لڑھکایا؟ ( Who    Moved    the   Stone) ، جوش میکڈوویل، مصنف — شہادت، جو فیصلہ کی متقاضی ہے ( Evidence    that    Demands    a    Verdict ) اور سٹروبل لی، مصنف — مسیح کے حق میں دلیل ( The    Case    for    Christ

یسوع کے شاگردوں نے اُسے دُکھ اُٹھاتے اور مرتے دیکھا تھا۔ وہ دل شکستہ ہو گۓ۔ اُن کی اُمیدیں خاک میں مل گئیں کیونکہ اُنہوں نے غلط سوچا تھا کہ مسایاح کبھی نہیں مرے گا۔ وہ بے دل اور خوف زدہ ہو کر اپنے گھروں کو واپس چلے گۓ۔لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اُنہوں نے یسوع کو زندہ دیکھا         اب اُنہیں یاد آیا کہ یسوع نے ہم سے کہا تھا کہ مَیں مصلوب ہوں گا مگر تیسرے دن جی اُٹھوں گا۔ آخرکار نبیوں کی باتیں اُن کی سمجھ میں آ گئیں۔

یسوع نے صرف یہی نہیں کہا تھا کہ وہ (یسوع) ”تیسرے دن جی اُٹھے گا“ (متی ١٦ : ٢١ )، بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ ”جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابنِ آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا“ (متی ١٢ : ٤٠ ) — بہت سے لوگ حجت کرتے اور دلیل دیتے ہیں کہ اگر یسوع کو جمعہ کی شام کو قبر میں رکھا گیا تھا اور صرف اتوار کی صبح تک قبر میں رہا تو یہ پورے دن نہیں بنتے۔ مگر بات یہ ہے کہ جتنا عرصہ یسوع کو قبر میں رہنا تھا وہ سالم اعداد میں بتایا گیا ہے کیونکہ یہودی بول چال کا یہی طریقہ تھا کہ وہ دن کے کسی حصے کو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، پورا دن شمار کرتے تھے (دیکھۓ متی ٢٧ : ٦٣ ، ٦٤ ؛ پیدائش ٤٢ : ١٧، ١٨ ؛ ١۔سموئیل ٣: ١٢، ١٣ ؛ آستر ٤: ١٦ ۔ ٥ : ١)۔

یسوع کی تصلیب اور موت کے بعد اُس کے شاگرد بہت خوف زدہ اور سہمے ہوۓ تھے، مگر اُسے زندہ دیکھنے کے بعد وہ اُس کے دلیر اور نڈر گواہ بن گۓ۔ وہی پطرس جو خوفزدہ اور پریشان تھا، تھوڑے ہی دنوں بعد اُس نے یروشلیم میں اُن کے سامنے نہایت دلیری سے گواہی دی جنہوں نے یسوع کو صلیب پر چڑھانے کی سازش اور تدبیریں کی تھیں:

”۔۔۔ تم نے اُس قدوس ۔۔۔ اور زندگی کے مالک کو قتل کیا جسے خدا نے مُردوں میں سے جلایا۔۔۔ اور اب اے بھائیو! مَیں جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا اور ایسا ہی تمہارے سرداروں نے بھی۔ مگر جن باتوں کی خدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خبر دی تھی کہ اُس کا مسیح دُکھ اُٹھاۓ گا وہ اُس نے اِسی طرح پوری کیں۔ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹاۓ جائیں“ (اعمال ٣: ١٤ ۔ ١٩ )۔

اب یسوع کے شاگردوں کو  اُس کی خاطر جس نے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشی کوئی مصیبت اور اذیت برداشت کرنا مشکل نہ رہا۔

مسیح کے شاگردوں کو (جو مسیحی بھی کہلاتے تھے، ہیں) ٹھٹھوں میں اُڑایا جاتا تھا، قید میں ڈالا جاتا تھا، بینت اور کوڑے لگاۓ جاتے تھے۔ بہتوں کو خداوند یسوع کی گواہی دینے کے باعث قتل کیا گیا۔ خود پطرس کو ایذائیں دی گئیں اور تاریخ کے مطابق آخرکار اُسے سر کے بل صلیب دی گئی۔ لیکن پطرس اور دوسرے شاگردوں نے ساری ایذاؤں کو خوشی سے قبول کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے منجی اور خداوند نے موت اور عالمِ اَرواح پر فتح پائی ہے (اعمال ١١: ٢٦ ؛ ٢٦ : ٢٢۔ ٢٨ ؛ ١۔پطرس ٤: ١٦ )۔ وہ جانتے تھے کہ خدا نے ہمیں معافی، راست بازی اور ہمیشہ کی زندگی عطا کی ہے۔ اب اُنہیں موت کا کوئی ڈر نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس لمحے یہ جسمانی بدن موا ہماری ابدی روح اور جان اُسی لمحے آسمان میں خداوند کے ساتھ ہو گی (٢۔ کرنتھیوں ٥: ٨)۔

اب کوئی چیز، کوئی حالات اُنہیں ڈرا نہیں سکتے تھے۔ اُن کے پاس اِس دنیا کے لئے ایک پیغام تھا۔ اور  یہ پیغام اُنہیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔

”۔۔۔ وہ عدالت سے اِس بات پر خوش ہو کر چلے گۓ کہ ہم اُس کی خاطر بے عزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے“ (اعمال ٥: ٤١ )۔

پطرس کو قید میں ڈالا اور پیٹا گیا (اعمال باب ٥ ، مزید دیکھئے اعمال باب ١٢)۔ یسوع نے بتا دیا تھا کہ پطرس شہادت کی موت پاۓ گا (یوحنا ٢١ : ١٨، ١٩ )۔

قدیم شہر اتھینے کے لوگ تشکیک پرست تھے۔ وہ ہر بات کی تحقیق کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک مسیحی وہاں پہنچا تو اُس کی باتیں سن کر وہ اُس کا مذاق اُڑانے لگے۔ دیکھئے کہ اُس نے اُنہیں پیغام دیتے ہوۓ کیا کہا:

”۔۔۔ پس خدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں کیونکہ اُس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اُس نے مقرر کیا ہے اور اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے“ (اعمال ١٧ : ٣٠، ٣١ )۔

اُس نے جو نتیجہ پیش کیا وہ سیدھا اور صاف تھا— توبہ کرو! مت سوچو کہ تم اپنے آپ کو خدا کی یقینی عدالت سے بچا سکتے ہو! بلکہ اُس منجی پر کامل بھروسا رکھو جس نے تمہارے گناہوں کی خاطر اپنا خون بہایا اور  مُردوں میں سے جی اُٹھا۔

مثبت ثبوت

ہم کس طرح یقین کر سکتے ہیں کہ یسوع دنیا کا منجی اور منصف ہے؟ ہم نے اِس کا جواب ابھی ابھی پڑھا ہے۔ خدا نے ”اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔“

اَور کیا ثبوت چاہئے کہ یسوع ہی واحد منجی ہے؟ ہم اپنا ابدی انجام، اپنی آخرت کسی دوسرے کے حوالے کیوں کریں؟ اِس کے لئے کسی دوسرے پر ایمان کیوں رکھیں؟

کیسا المیہ ہے کہ دنیا اُن مردہ انسانوں کی تعظیم کرتی ہے جو زندگی بھر خدا کے بیان اور پیغام کی تردید کرتے رہے۔ جب یسوع نے موت کو مغلوب کر لیا ہے اور نبیوں کی باتوں کو پورا کر دیا ہے تو پھر کوئی شخص کیوں یہ پسند اور فیصلہ کرے کہ مَیں کسی ایسے انسان پر بھروسا رکھوں جو موت پر فتح نہیں پا سکا اور جو ساری عمر خدا کے کلام کی تکذیب اور تردید کرتا رہا؟

جیسے خدا پوری ہو چکی نبوت اور پیش گوئی سے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتا ہے کہ بائبل مقدس خدا کا کلام ہے اُسی طرح یسوع کا تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھنا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ صرف وہی ہمیں ابدی موت سے بچا کر ابدی زندگی دے سکتا ہے۔

ساری قوموں کا منجی

پاک صحائف بالکل واضح اور صاف ہیں کہ یسوع کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا پیغام ”ساری دنیا اور سارے لوگوں“ کے لئے ہے۔ اِس حقیقت پر زور دینا چاہئے کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یسوع صرف  یہودیوں کے لئے آیا۔ یہ بات قطعی جھوٹ ہے۔

بعض لوگ مثال دیتے ہیں کہ یسوع نے ایک غیر یہودی عورت سے کہا کہ ”مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا“ (متی ١٥ : ٢٤ )۔ لیکن وہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ یسوع نے اُس عورت کی بیٹی کو شفا بھی دی۔ غیر یہودیوں کے لئے یسوع کے ترس اور رحم اور اُن کے لئے اُس کی خدمت کی مثالوں کے لئے دیکھئے متی ١٢ : ٤١، ٤٢؛ ٢١ : ٢٣ ۔ ٤٣ ؛ لوقا ٩: ٥١ ؛ ١٠ : ٣٠ ۔ ٣٤ ؛ ١٧ : ١١۔ ١٩ ؛ یوحنا باب ٤ ؛ ١۔یوحنا ٢: ١، ٢ ؛ لوقا ٢٤ : ٤٥ ۔ ٤٨ ۔

یہ بات درست ہے کہ مسایاح کی زمینی خدمت کا مرکز یہودی تھے، لیکن اُس کا اُس قوم کے پاس آنے کا مقصد ساری دنیا کو نجات مہیا کرنا تھا۔ اِس سے سات سو سال پہلے یسعیاہ نے وہ وعدہ قلم بند کیا جو خدا نے اپنے بیٹے سے کیا تھا ”۔۔۔ مَیں تجھ کو قوموں کے لئے نور بناؤں گا کہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے“ (یسعیاہ ٤٩ : ٦)۔

مسیح اِس دنیا میں آیا تو جانتا تھا کہ یہودی راہنما مجھے اپنا بادشاہ ماننے سے انکار کریں گے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُن کے اِس طرح رد کرنے کے ذریعے سے مَیں گناہ کی سزا اُٹھاؤں گا، اِس کی قیمت ادا کروں گا اور ساری دنیا کو نجات پیش کروں گا۔

”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔ وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا“ (یوحنا ١: ١٠، ١٢ )۔

میرے دوستو! خدا آپ سے محبت رکھتا ہے اور وہ آپ کو اِس لائق، اِتنا قیمتی سمجھتا ہے کہ اپنے بیٹے کی جان آپ کے لئے قربان کرے۔ تاہم ۔۔۔ وہ آپ کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرے گا۔

اُس نے یہ انتخاب — یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔

”۔۔۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئ اُس پر ایمان لاۓ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ“ (یوحنا ٣: ١٦ )۔

ساری غلط فہمیاں ختم

جس دن یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا اُسی دن وہ دو شاگردوں کے ہمراہ چلا اور اُن سے گفتگو کی۔ وہ شاگرد ابھی تک حیران اور پریشان تھے کیونکہ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مسایاح کے لئے کیوں ضروری تھا کہ اپنا خون بہاۓ اور پھر جی اُٹھے۔ یسوع نے اُن سے کہا کہ:

”اے نادانو اور نبیوں کی سب باتوں کو ماننے میں سست اعتقادو! کیا مسیح کو یہ دُکھ اُٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟ پھر موسی' سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں“ (لوقا ٢٤ : ٢٥ ۔ ٢٧ )۔

آخرکار اُن کی اُلجھن دُور ہوئ۔ معاملہ سمجھ میں آ گیا۔ مسایاح دنیاوی سیاسی دشمنوں کو زیر کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ اُن سے بڑے اور ظالم اور سنگدل دشمنوں — شیطان، گناہ، موت اور دوزخ کی سرکوبی کرنے آیا تھا!

اُسی دن رات کو یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا جب وہ یروشلیم میں اُس بالاخانے میں بیٹھے ہوۓ تھے جہاں اُن کی رہائش تھی۔ اُس نے اُنہیں اپنے چھدے ہوۓ ہاتھ اور پاؤں دکھاۓ۔ اُن کے سامنے کچھ کھایا اور پھر اُن سے کہا:

”یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسی' کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں وہ پوری ہوں۔ پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا کہ کتابِ مقدس کو سمجھیں اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دکھ اُٹھاۓ گا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جاۓ گی۔ تم اِن باتوں کے گواہ ہو“ (لوقا ٢٤ : ٤٤ ۔ ٤٨ )۔

یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ تم ساری قوموں کے لئے ”اِن باتوں کے گواہ ہو۔“ اُن کا پیغام سیدھا اور صاف تھا کہ خداوند نے آسمان سے آ کر سارے زمانوں کے سارے انسانوں کے گناہ کی سزا برداشت کی، گناہ کی قیمت ادا کر دی اور سب کے لئے موت پر فتح پائی۔ جہاں بھی توبہ ہوتی ہے اور اُس کے ساتھ مسیح اور اُس کے فدیے کے کام پر ایمان لایا جاتا ہے وہاں خدا کامل معافی اور سچا اطمینان عطا کرتا ہے۔

آرام کی دعوت

تخلیق کے کام کے ساتویں دن کو ایک دفعہ پھر یاد کریں۔

اُس دن خداوند خدا نے کیا کیا؟ اُس نے آرام کیا (خروج ٣١ : ١٧ )۔

اُس نے کیوں آرام کیا؟ اُس نے اِس لئے آرام کیا کہ اُس کا کام ”پورا / مکمل“ ہو گیا تھا۔ ”۔۔۔ خداوند اپنے کام سے جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن فارغ ہوا“ (پیدائش ٢: ٢، ٣ )۔

خدا کے تخلیق کے کام میں کسی اضافے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کام ”پورا / مکمل“ ہو گیا تھا۔ اِسی طرح خدا کے فدیے کے کام میں بھی کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔ وہ مکمل ہو چکا ہے۔

خدا نے کائنات بنانے کا کام پورا کیا تو وہ خوش ہوا اور اُس نے آرام کیا۔ اب وہ آپ کو اور مجھے دعوت دیتا ہے کہ اُس کے نجات کے پورے کۓ ہوۓ کام سے خوش ہوں، آرام کریں ”کیونکہ جو اُس کے آرام میں داخل ہوا اُس نے بھی خدا کی طرح اپنے کاموں کو پورا کر کے آرام کیا“ (عبرانیوں ٤: ١٠ )۔

دنیا بھر کے لاکھوں مذہب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ”کچھ بھی پورا نہیں ہوا، سب کچھ ادھورا ہے۔ یہ کرو، وہ کرو۔ اَور زیادہ کوشش کرو۔“ مگر یسوع کہتا ہے ”اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوۓ لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دوں گا“ (متی ١١: ٢٨ )۔

جو کچھ خدا نے آپ کے لئے کیا ہے کیا آپ اُس میں آرام پاتے اور خوش ہوتے ہیں؟

خداوند کے ساتھ چالیس دن

مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد خداوند یسوع چالیس دن تک اپنے شاگردوں کے ساتھ رہا۔ اُس نے اُنہیں خدا کی بادشاہی کے بارے میں بہت سی باتیں سکھائیں۔ وہ اُسے غور سے دیکھتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کے جی اُٹھے بدن کو چھوا— ہمیشہ رہنے والا جلالی بدن جو زمان و مکان کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ ایسا ہی بدن ایک دن سارے ایمان داروں کو ملے گا۔

شاگرد یسوع کے ساتھ چلے پھرے، اُس کے ساتھ کھانا کھایا اور باتیں کیں۔ اُس نے اُنہیں یاد دلایا کہ بہت جلد مَیں تمہارے پاس سے چلا جاؤں گا، لیکن میرا باپ روح القدس کو بھیجے گا۔ وہ تمہارے اندر سکونت کرے گا۔ اُس کا روح تمہاری راہنمائی کرے گا، تمہیں طاقت اور توفیق دے گا کہ ساری قوموں کو میری گواہی دے سکو۔ پھر ایک دن مَیں — یسوع — زمین پر واپس آؤں گا اور کامل راستی سے دنیا کی عدالت کروں گا۔

جی اُٹھنے کے بعد چالیسویں دن یسوع زیتون کے پہاڑ پر اپنے شاگردوں سے ملا۔ یہ پہاڑ یروشلیم کے مشرق میں ہے۔ اب وہ دن آ گیا تھا کہ یسوع ”اپنے باپ کے گھر“ کو واپس جاۓ (یوحنا ١٤ :٢ )۔

آسمان پر جانا

” یسوع نے اُن سے مل کر اُن کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو کیونکہ یوحنا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا،  مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔۔۔ جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔ یہ کہہ کر وہ اُن کے دیکھتے دیکھتے اوپر اُٹھا لیا گیا اور ایک بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چھپا لیا۔ اور اُس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہوۓ۔ اور کہنے لگے اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آۓ گا جس طرح تم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے“ (اعمال ١: ٤۔ ١١ )۔

آسمان پر فتح کا جشن

جیسے نبیوں نے پیش گوئ کی تھی خدا کے بیٹے نے ”عالمِ بالا کو صعود فرمایا“ (زبور ٦٨ : ١٨ ؛ ١١٠ :١ ؛ زبور ٢٤ )۔ وہ ہستی جس نے کوئی تینتیس سال پہلے آسمان کے فرشتوں کی حمد و ثنا کے بدلے انسانوں کے ٹھٹھوں کو بخوشی قبول کیا تھا اب وہ واپس اپنے گھر جا رہا تھا! لیکن اب بات بالکل فرق تھی۔ وہ جس نے انسان کو اپنی صورت اور شبیہ پر پیدا کیا تھا اب وہ خود انسان کی صورت اور شبیہ پر تھا۔

پاک کلام نے یسوع کے آسمان پر جانے کے بارے میں کوئ تفصیلات نہیں دی ہیں۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ پُر جلال واپسی تھی۔

ہم تصور کر سکتے ہیں کہ فرشتوں کا بے شمار لشکر پرے باندھے کھڑا ہے، آدم کی نسل سے مخلصی یافتہ انسان قطاروں میں کھڑے ہیں۔ سب دم بخود ہیں کیونکہ خداوند آسمان کے پھاٹک سے داخل ہونے کو ہے۔ وہ اُسے خدا کا بیٹا اور جلال کا خداوند کی حیثیت سے تو اچھی طرح جانتے تھے، لیکن آج اُس سے ابنِ آدم اور خدا کے برّے کی حیثیت سے ملاقات ہو گی۔

سارا آسمان خاموش ہے!

پھر نرسنگوں کی ہم آہنگ آواز سے خاموشی یک دم ٹوٹتی ہے اور ایک فرشتہ بلند آواز سے اعلان کرتا ہے ”اے پھاٹکو! اپنے سربلند کرو۔ اے ابدی دروازو! اونچے ہو جاؤ اور جلال کا بادشاہ داخل ہو گا“ (زبور ٢٤ : ٧)۔

پھاٹک پورے کھل جاتے ہیں اور فاتح، خدا کا اپنا بیٹا، کلمہ، برّہ، لڑائی میں زخم خوردہ ابنِ آدم، یسوع داخل ہوتا ہے۔ ثنا خوان ہجوم میں سے گزرتا ہوا باپ کے تخت کے پاس آتا ہے۔ مڑ کر آدم کی نسل کے مخلصی یافتہ اَن گنت ہجوم کو دیکھتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔

یسوع ”عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف بیٹھا“ کیونکہ اُس نے خود ”ہمارے گناہوں کو دھو“ ڈالا ہے (عبرانیوں ١: ٣)۔ ”۔۔۔ ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گزرانتا ہے جو ہرگز گناہوں کو دُور نہیں کر سکتیں، لیکن یہ شخص ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گزران کر خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔۔۔“ (عبرانیوں ١٠ : ١١، ١٢ ؛ مزید دیکھئے عبرانیوں ٨: ١ ؛ ١٢ : ٢ ؛ مکاشفہ ٣: ٢١ )۔

کام (مشن) پورا ہوا۔

مخلصی یافتہ لوگوں کا ہجوم اُسے سجدہ کر کے اور ہم آواز ہو کر کہتا ہے،

 ”ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت۔۔۔ تمجید اور حمد کے لائق ہے۔“ (مکاشفہ ٥: ١٢)

کیسا بڑا اور شاندار جشن ہوا! اور ہو رہا ہے! اور ابد تک ہوتا رہے گا!

۲۶
دین دار مگر خدا سے دُور
 

آپ نے یہ ضرب المثل تو سنی ہو گی:

پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بصارت ہمیشہ ٢٠/٢٠ ہوتی ہے۔ بصارت ناپنے کے پیمانے کے مطابق ٢٠/ ٢٠ کا مطلب ہے کہ بصارت بالکل درست ہے اور آپ کو عینک کی ضرورت نہیں۔

پیچھے مڑ کر دیکھنے کا مطلب ہے اُن باتوں کو دیکھنا جو (ماضی میں) ہو چکی ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے میں وہ طریقہ کار دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں یا کسی دوسرے کو اختیار کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ سانپ نکل گیا لکیر پیٹنے سے کیا حاصل!

لیکن جب معاملہ ہو اُن باتوں اور  پیغام کو سمجھنے کا جو خدا نے صدیوں میں ظاہر کیا تو مُڑ کر دیکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی رکاوٹوں پر غالب آنے میں مدد ملتی ہے۔ سچائی اور جھوٹ میں، صحیح اور غلط میں اِمتیاز کر سکتے ہیں۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:

”۔۔۔ مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اِس لئے کہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اِس لئے کہ  سنتے ہیں کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راست بازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سنتے ہو سنیں مگر نہ سنیں“ (متی ١٣: ١٦، ١٧ )۔

ہم جو مسایاح کی پہلی آمد کے بعد کے زمانہ میں پیدا ہوۓ مبارک ہیں کیونکہ ہم پیچھے مڑ کر تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں اور مکمل ہوۓ صحائف (بائبل مقدس) کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور خدا کے کامل منصوبے کو صفائی سے دیکھ سکتے ہیں۔

اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ اور اِس سفر کے دوران ہم نے پاک صحیفوں میں سے جو کچھ دیکھا اور سیکھا ہے اُسے یاد رکھتے ہوۓ آیئے ہم ایک دفعہ پھر ”شروعات کی کتاب“ (پیدائش کی کتاب کی طرف رجوع ہوں)۔

قائن اور ہابل کے واقعہ پر دوبارہ غور

پیدائش کی کتاب کا چوتھا باب بالکل صاف اور واضح ہے۔ قائن اور ہابل دونوں گناہ کے مسئلے کے ساتھ پیدا ہوۓ تھے۔ وہ جوان ہوۓ تو ہر ایک نے خدا کی پرستش کرنے کی کوشش کی لیکن صرف ایک ہی مقبول ٹھہرا۔

”خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا“ (پیدائش ٤:٤)۔

ہم نے گنہگاروں کے نجات دہندہ یسوع کے بارے میں سن لیا ہے۔ اِس لئے اب بائبل مقدس کے مطابق پیچھے مڑ کر دیکھنے سے یہ سمجھنا آسان ہو جاۓ گا کہ ہزاروں سال پہلے خدا نے کیوں ”ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا“ اور خدا نے کیوں ”قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

ہابل کا ذبح کیا ہوا برّہ خدا کے برّے کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو گنہگاروں کی خاطر اپنا خون بہاۓ گا۔ قائن کے کھیت کے پھل یسوع کی طرف اشارہ نہیں کر رہے تھے۔

ہابل آگے کو (مستقبل) دیکھتا تھا کہ جو کچھ ہو گا۔ آج ہم پیچھے کو دیکھتے ہیں جو کام یسوع نے اپنے مرنے اور جی اُٹھنے سے ہمارے لئے پورا کر دیا ہے۔

”۔۔۔ یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے“ (١۔یوحنا ١: ٧)۔

نجات بخش ایمان

خدا نے ہابل کو بھی اُسی طرح معاف کیا جس طرح آج گنہگاروں کو معاف کرتا ہے۔ جب بھی کوئی گنہگار اپنی ناراستی کا اِقرار کرتا ہے اور خداوند اور اُس کی نجات پر بھروسا کرتا ہے تو اُسے معافی ملتی ہے اور خدا کی راست بازی کی بخشش عطا ہوتی ہے۔ ہر زمانے کے نبیوں اور ایمان داروں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔

مثال کے طور پر جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے ”ابرہام خداوند پر ایمان لایا اور  اِسے اُس (خدا) نے اُس (ابرہام) کے حق میں راست بازی شمار کیا“ (پیدائش ١٥ :٦ )۔ ”ابرہام خدا پر ایمان لایا“ کا مطلب ہے کہ ابرہام کو یہ یقین اور اعتبار تھا کہ جو کچھ خدا نے کہا ہے وہ سچ ہے۔ ابرہام نے خدا کی بات کا یقین کیا۔ اُس کا ایمان صرف خدا پر تھا۔

ابرہام نبی کی طرح داؤد بادشاہ بھی خدا کے وعدوں پر ایمان رکھتا تھا۔ داؤد بڑی خوشی سے لکھتا ہے ”مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔ مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا“ (زبور ٣٢ : ١، ٢)۔ داؤد نے یہ بھی کہا ”یقینا بھلائ اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور مَیں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔“

(زبور ٢٣ :٦ )

جو لوگ یسوع کے اِس دنیا میں آنے سے پہلے ہو گزرے مثلاً ہابل ، ابرہام اور داؤد ، اُن کا گناہ ڈھانکا گیا کیونکہ وہ خداوند خدا اور اُس کے منصوبے پر ایمان لاۓ۔ اور جب یسوع موا تو اُن کے گناہ کا قرض حساب کی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے منسوخ کر دیا گیا۔

آج ہم یسوع کے دنیا میں آنے کے بعد کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ خدا کی خوش خبری یہ ہے کہ خداوند یسوع نے اپنی عوضی (کی) موت اور فاتحانہ جی اُٹھنے سے جو کچھ کیا اگر آپ اُس پر ایمان لاتے ہیں تو خدا اپنی حساب کی کتابوں سے آپ کے گناہ کا قرض مٹا دے گا۔ اور مسیح کی راست بازی آپ کے کھاتے میں لکھ دے گا اور ضمانت دے گا کہ آپ ”ہمیشہ خداوند کے گھر میں“ سکونت کریں گے۔

اگر آپ ایمان لائیں تو یہ سب کچھ __ اور اِس سے بھی زیادہ کچھ آپ کا ہو گا۔ یسوع پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ اُس پر اور جو کچھ اُس نے آپ کے لئے کہا ہے اُس پر پورا ایمان رکھنا۔ ایمان کے مطلب کو بہتر طور سے سمجھنے کے لئے تصور کریں کہ آپ ایک کمرہ میں داخل ہوتے ہیں جس میں بہت سی کرسیاں ہیں۔ کئی تو ٹوٹی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ بعض کمزور اور ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ بعض بہت اچھی نظر آ رہی ہیں۔ مگر اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد آپ کو پتا چلتا ہے کہ اُن میں بھی کمزوریاں ہیں اور قابِل اعتبار نہیں۔ اور آپ سوچتے ہیں کہ اِس کمرہ میں ایک بھی مضبوط کرسی نہیں ہے۔ عین اُسی وقت آپ کی نظر ایک کرسی پر پڑتی ہے جو صاف نظر آتی ہے کہ مضبوط ہے اور اچھی طرح بنائی گئی ہے۔ آپ آگے بڑھ کر اُس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ نے اُس کا بھروسا کیا اور اُس پر آرام کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کرسی میرا بوجھ برداشت کرے گی اور مجھے نہیں گراۓ گی۔ مجھے شرمندہ نہیں کرے گی۔

جو لوگ مسیح پر اور اُس کے مکمل کۓ ہوۓ کام پر بھروسا رکھتے ہیں وہ اُنہیں ہرگز مایوس اور شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔

مہلک ایمان

ہمارا ایمان اِتنا ہی اچھا ہے جتنی وہ چیز یا وہ شخص اچھا ہے جس پر ہم نے ایمان رکھا ہے۔ ایمان تو سب ہی رکھتے ہیں، لیکن سب ایک ہی پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہابل نے خدا پر، اور اُس کے معاف کرنے اور راست باز ٹھہرانے کے طریقہ پر ایمان رکھا۔ قائن نے اپنے خیال، اپنے منصوبے اور اپنی کوششوں پر ایمان رکھا۔

جو لوگ اپنے گناہ کے بارے میں خدا کی تشخیص اور طریقہ علاج کا انکار کرتے ہیں اُنہیں ہم اُس سپیرے سے تشبیہ دے سکتے ہیں جسے مَیں نے ٹی وی پر دیکھا۔ اُسے ایک ناگ نے ڈس لیا۔ لیکن اُس نے تریاق کا ٹیکہ لگوانے سے انکار کر دیا جس سے اُس کی جان بچ سکتی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ مَیں اِتنا طاقتور ہوں کہ سانپ کے زہر کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔

اُس کے انتخاب __ اُس کے فیصلے نے اُس کی جان لے لی۔

پاک کلام بالکل صاف اور واضح ہے۔ خدا کی نجات کے بجاۓ اپنی کوششوں پر بھروسا کرنا ”قائن کی راہ“ پر چلنا اور ”ابد تک تاریکی“ میں رہنا ہے (یہوداہ ١: ١١ ۔ ١٣ )۔ قائن کا یہ خیال کہ کوئ شخص اپنی کوشش سے خدا کا مقبول ہو سکتا ہے ہمیشہ ہی خدا کے مخلصی کے منصوبے کا مخالف رہا ہے۔ تاہم آج بھی بہت سے لوگ ”قائن کی راہ“ سے چمٹے ہوۓ ہیں۔

انسان کا معیار

ایک دن چند خدا پرست اور دین دار یہودیوں نے یسوع سے پوچھا ”ہم کیا کریں کہ خدا کے کام انجام دیں؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ“ (یوحنا ٦: ٢٨ ۔ ٢٩ )۔ یہ سوال پوچھنے والے لوگ ”کام کرنا“ چاہتے تھے۔ یسوع نے اُن سے کہا، ”اُس (مسیح) پر ایمان لاؤ۔“

جس اُلجھن اور کج فہمی کا اظہار اُن یہودیوں نے کیا وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ میری بہن اور اُس کا شوہر پپوا نیوگنی کے پہاڑی علاقہ میں رہتے ہیں۔ وہ اور اُس کے ہم خدمت آبادیوں سے دُور رہنے والے قبائلیوں کی عملی مدد کرتے ہیں اور اُنہیں واحد حقیقی خدا اور اُس کے ابدی زندگی کے پیغام کے بارے میں سکھاتے ہیں۔ اُن کے ایک ہم خدمت کی طرف سے مجھے ایک خط ملا جس میں اُس نے ایک قبائلی آدمی کے ساتھ گفتگو کا ذکر کیا۔  یہ آدمی ”خدا کی گفتگو“ سنتا رہا تھا۔ پپوا کے لوگ بائبل مقدس کو ”خدا کی گفتگو“ کہتے ہیں۔

یسوع ”زندگی کی روٹی“ کے موضوع پر پیغام سننے کے بعد اُس آدمی نے کہا، ”یہ تو بہت ہی آسان ہے۔ مَیں ساری عمر محنت کرتا رہا ہوں کہ بہشت میں جانے کا حق کمالوں اور خدا کی نظروں میں پاک ٹھہروں۔ اور اب آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ یسوع پر ایمان رکھیں؟“

مَیں نے اُس سے کہا کہ یسوع نے کیا کہا ہے،” مَیں زندگی کی روٹی ہوں“ (یوحنا ٦: ٢٥ )۔ پھر مَیں نے اُسے یوحنا ٦: ٢٩ دوبارہ پڑھنے کو کہا ”خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔“ اُس نے یوحنا ٣: ١٦ بھی پڑھا ”۔۔۔ جو کوئی اس پر ایمان لاۓ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ۔“ مَیں نے اُس سے پوچھا ”کیا خدا کو ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے__ گویا وہ ایسا قادر نہیں کہ ہمیں بچا سکے؟“

وہ ہنس کر کہنے لگا ”ہرگز نہیں! خدا کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں۔“

”اچھا، تو خدا کے کلام کے مطابق کیا ہمیں بہشت میں لے جانے کے لۓ خدا کو ہماری مدد کی ضرورت ہے؟“

اُس آدمی نے لمبا سانس لیا اور سوچتا ہوا چلا گیا۔

خدا کا پیغام بالکل واضح ہے۔ اِس کے باوجود دنیا بھر میں لوگ اِس تصور کو گلے سے لگاۓ ہوۓ ہیں کہ عدالت کے دن خدا ہمارے نیک اعمال اور بُرے اعمال کو بڑے سے ترازو کے پلڑوں میں ڈالے گا۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر نیکیوں والا پلڑا ذرا سا بھی جھک گیا مثلاً ٥١ فیصد یا زیادہ تو ہمیں بہشت میں خوش آمدید کہا جاۓ گا۔ لیکن اگر بُرے اعمال والا پلڑا ذرا سا بھی جھک گیا مثلاً ٥١ فیصد یا زیادہ تو ہمیں دوزخ میں بھیج دیا جاۓ گا۔

بُرے اعمال کے مقابلے میں نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہونے کا یہ نظام انسان کی زمینی عدالتوں میں تو کہیں استعمال نہیں ہوتا، اور خدا کی آسمانی عدالت میں بھی استعمال نہیں ہو گا۔

اِس پر غور کریں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کی ابدی منزل کا فیصلہ آپ کے نیک اعمال اور نیت کی بنیاد پر کرے؟

شکر ہے کہ یہ ”ترازو والا نظریہ“ خدا کی کتاب (بائبل مقدس) میں نہیں ہے۔

خدا کا معیار

خدا کاملیت کا تقاضا کرتا ہے۔

صرف وہی لوگ خدا کے ساتھ سکونت کر سکتے ہیں جو اُس کی راست بازی کی بخشش کو قبول کر لیتے ہیں۔ عدالت کے دن آپ کی حساب کی کتاب میں گناہ کا ایک ننھا سا دھبا بھی پایا گیا تو آپ بہشت میں داخل نہیں ہوں گے۔

خدا کے نزدیک گناہ ایسا ہی گھنونا اور کریہہ ہے جیسے ہمارے صحن میں کوئی گلتی سڑتی لاش ہمارے نزدیک گھنونی اور کریہہ ہوتی ہے۔ کیا لاش پر عطر چھڑکنے سے اُس کی بدبو اور گھن اور نجاست دُور ہو جاۓ گی؟ اِسی طرح ہم کتنی بھی مذہبی رسمیں ادا کریں ہماری نجاست اور ناپاکی دُور نہیں ہو گی۔ یہ ”نیکیاں“ ہمیں خدا کے نزدیک مقبول نہیں بنا سکتیں۔

فقط ایک گناہ خدا کو ایسا نامنظور اور ناقابل قبول ہے جیسے ہماری چاۓ کی پیالی میں ایک قطرہ زہر ہمیں نامنظور ہوتا ہے۔ کیا چاۓ میں اَور پانی ڈالنے سے اُس کی مار ڈالنے کی صلاحیت ختم ہو جاۓ گی؟ اِسی طرح ہمارے نیک اعمال کتنے ہی زیادہ ہوں وہ ہمیں پاک صاف کر کے ابدی عذاب سے نہیں بچا سکتے۔

جہاں تک ہمارے گناہ کے قرض کو بے باق کرنے کی یا اپنے آپ کو خدا کے حضور راست باز ثابت کرنے کی بات ہے تو ہم ناچار اور بے بس ہیں۔ لیکن خداوند کا شکر ہو کہ ہم بے اُمید نہیں ہیں۔ اُس نے وہ سب کچھ مہیا کر دیا ہے جو اُس کی پاک اور کامل حضوری میں رہنے کے لئے ہمیں درکار اور ضروری ہے۔

ایمان اور اعمال

یسوع مسیح نے گناہ کی پوری سزا برداشت کر لی ہے، گناہ کی پوری قیمت چکا دی ہے۔ اب جو لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں خدا اُن سے کہتا ہے ”۔۔۔ کیونکہ تم کو ایمان (جو کچھ مسیح نے ہمارے واسطے کر دیا ہے اُس کا یقین کرنا) کے وسیلے سے فضل (مہربانی اور رحمت جس کے ہم حق دار نہیں) ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے“  (افسیوں ٢: ٨، ٩)۔

بہشت میں کوئی ڈینگیں نہیں مارے گا۔

نجات ”فضل سے“ ہے۔ نجات ”خدا کی بخشش“ ہے۔ یہ بخشش ہے جس کے ہم حق دار نہیں۔ جسے شکرگزاری کے ساتھ قبول کرنا ہے۔ یہ کوئی اپنی کارکردگی سے جیتا ہوا تمغہ نہیں ”تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔“ لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت سے مذہب پرست لوگ اِس مسئلے کے بارے میں پریشان خیالی یا تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں، مشرقِ وسطی' کے اُس آدمی کی طرح جس نے یہ خط لکھا:

ای میل

”دین میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ واحد حقیقی خدا پر ایمان ہو، نیک اعمال کریں، برے کاموں سے بچیں۔ یہی ہماری نجات ہیں۔“

ابدی عذاب سے ہماری نجات اور خدا کے ساتھ سکونت کرنے کا حق اگر ہماری اپنی کوششوں پر موقوف ہے تو ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم نے کافی نیکیاں کر لی ہیں اور اپنے آپ کو کافی برے اعمال سے بچایا ہے جن سے ہم بہشت میں جگہ پانے کے حق دار ہو گۓ ہیں؟ ہمیں تو نجات کا کبھی یقین نہیں ہو سکتا۔

کوئی تین ہزار سال پہلے یوناہ نبی نے فرمایا تھا”نجات خداوند کی طرف سے ہے“ (یوناہ ٢: ٩)۔

اِس کے لئے خدا کی حمد ہو!

”۔۔۔ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے“ (افسیوں ٢: ٨، ٩ )۔

خدا کا کلام واضح ہے۔ اپنے آپ کو گناہ کی سزا سے بچانے کے لئے اپنے آپ پر اور اپنے اعمال پر بھروسا کرنا خدا کی نجات کی بخشش کو رد کرنا ہے۔

چنانچہ نیک اعمال کرنے اور گناہ سے بچنے کی کوشش کرنے کی کیا اہمیت ہے؟ اگلی آیت ہمیں بتاتی ہے

”کیونکہ ہم اُسی کی کاری گری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوۓ جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تیار کیا تھا“ (افسیوں ٢: ١٠ )۔

فرق بھی واضح ہے۔ ہمیں نیک اعمال کے سبب سے نجات نہیں ملتی، بلکہ نجات اِس لئے ملتی ہے کہ نیک اعمال کریں۔

”۔۔۔اپنے بزرگ خدا اور منجی ۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بے دینی سے چھڑا لے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایسی اُمت بناۓ جو نیک کاموں میں سرگرم ہو“ (ططس ٢: ١٣ ، ١٤ )۔

اِس کتاب کا دیباچہ ایک دیہاتی ایلڈر کے اِس بیان سے شروع ہوا تھا ”اپنے نیک کاموں کی وجہ سے آپ جنت میں جانے کے حق دار ہیں۔“

خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ اُس آدمی کی سوچ غلط ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے ”نیک اعمال“ کی بنیاد پر ”جنت میں جانے کا حق دار“ نہیں ہوتا۔ البتہ جن لوگوں نے خدا کی نجات کی بڑی بخشش کو قبول کر لیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہم بُرائیوں سے بچیں اور نیکی کریں تاکہ خدا کی تمجید ہو، خدا کا جلال ظاہر ہو اور دوسروں کو برکت ملے۔

پھل جڑ نہیں ہوتا

نجات ہرگز نیک کاموں سے مشروط نہیں بلکہ نیک کام نجات کا نتیجہ (پھل) ہونے چاہئیں۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ :

” مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو“ (یوحنا ١٣: ٣٤ ، ٣٥ )۔

جیسے یسوع لوگوں سے محبت رکھتا اور اُن کی فکر کرتا تھا کیا دوسرے سے ویسے ہی محبت رکھنا نجات کے لئے لازمی شرط ہے؟ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی جنت میں نہ جا سکتا کیونکہ یسوع واحد ہستی ہے جو دوسروں سے کامل اور دائمی محبت رکھتا ہے۔

کیا دوسروں سے محبت رکھنا اور اُن کی فکر کرنا سچے ایمان داروں کی زندگیوں میں محبت کا روز افزوں نتیجہ ہونا چاہۓ؟ جی ہاں، بالکل! ”اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“

خدا کے لوگ اپنے طرزِ زندگی سے اپنا ایمان دکھاتے ہیں (یعقوب ٢: ١٨ ؛ متی ٥: ١٣ ۔ ١٦ ؛ عبرانیوں باب ١١ )۔

نجات کی جڑ اور نجات کے پھل میں امتیاز کرنا بہت ضروری ہے۔ مسیح میں ایمان داروں کو شکرگزار ہونا چاہئے۔ اور نجات کی بخشش (جڑ) کے لئے شکر گزاری اور ممنونیت ظاہر کرنے کی خاطر اُن کو پاک،  محبت بھری، بے غرض اور باضابطہ زندگی (پھل) گزارنی چاہئے۔

خدا کے لوگ نیک کام اِس مقصد سے نہیں کرتے کہ اُس کی نظر میں مقبول ٹھہریں بلکہ اِس لئے کرتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں مقبول ٹھہرایا ہے حالانکہ وہ اِس کے حق دار نہیں تھے۔

جھوٹی دین داری

قائن ”خود کرو“ مذہب کا بانی ہے۔ قربانی کے برہ کے خون کے وسیلے سے خدا کے پاس جانے کے بجاۓ وہ اپنی سوچ، اپنے نظریے اور اپنی کوشش سے اُس کے پاس آیا۔ اِس لئے قائن کی دعائیں خدا کے نزدیک گھنونی اور کراہت انگیز تھیں۔

”جو کان پھیر لیتا ہے کہ شریر کو نہ سنے اُس کی دعا بھی نفرت انگیز ہے“ (امثال ٢٨ : ٩)۔

خدا کے قانون (شریعت) کا تقاضا ہے کہ برّہ یا کسی اَور جائز قربانی کے خون سے گناہ کو ڈھانکا جاۓ۔ چونکہ قائن نے خدا کے پاس آنے کا یہ تقاضا پورا نہ کیا اِس لئے اُس کی دعا بھی ”نفرت انگیز“ تھی۔ قائن کے پاس دین داری (مذہب) تھی لیکن وہ جھوٹی دین داری تھی۔ اُس کا نذرانہ موعودہ منجی اور صلیب پر اُس کی موت کی طرف اشارہ نہیں کرتا تھا، جس کے نتیجے میں:

”۔۔۔ خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ اِس لئے قائن نہایت غضب ناک ہوا اور اُس کا منہ بگڑا۔ اور خداوند نے قائن سے کہا تُو کیوں غضب ناک ہوا؟ اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہو گا؟“ (پیدائش ٤: ٤۔ ٧)۔

خداوند نے بڑی رحمت اور مہربانی سے قائن کے ساتھ بات کی۔ اُسے توبہ کرنے کا موقع دیا__ کہ اپنے ناراست کاموں سے باز آۓ اور خدا کے راست منصوبے کی اطاعت کرے۔ لیکن قائن غضب ناک ہی رہا۔ وہ اپنی کوشش والے دلکش مذہب کے بدلے برّے کے بھیانک خون کی طرف مائل ہونے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ خدا کا نام لے کر سب کچھ اپنے طریقے سے کرنا چاہتا تھا۔

اور یہ طریقہ اُسے کہاں لے گیا؟

عداوتی مذہب

”اور قائن نے اپنے بھائی ہابل کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قائن نے اپنے بھائی ہابل پر حملہ کیا اور اُسے قتل کر ڈالا“ (پیدائش ٤: ٨)۔

قائن نے مستقبل کے اُن مذاہب اور سیاسی نظاموں کے لئے سٹیج لگا دیا جو اُن لوگوں کا مذاق اُڑائیں گے، اُنہیں ایذائیں دیں گے، یہاں تک کہ قتل کر دیں گے جو اُن کے آئین و قوانین اور روایات کو نہیں مانیں گے اور اُن کی پابندی نہیں کریں گے۔

قائن کی طرح آج بھی دنیا بھر میں ایسے ”مذہبی“ لوگ ہیں جو اپنے مذہب کا دفاع کرنے کے لۓ ظلم و ستم اور جبر کرنے اور قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے کاموں سے وہ دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے ایمان میں کتنے غیر محفوظ ہیں اور اپنے خدا کے بارے میں یقین نہیں رکھتے کہ وہ سب کام اپنے طریقے سے کر سکتا ہے۔

ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں ایک آدمی رہتا ہے جس سے ای میل کے ذریعے میری اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ اُس نے لکھا:

ای میل

”آخری شخص جس نے میرے روبرو پاک نبی کے بارے میں کفر بکا اگلے ہی لمحے اُسے اپنے سامنے کے تین دانت نگلنے پڑے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اب وہ کفر بکے گا تو تتلا کر بولے گا۔

بے دین (کافر یعنی غیر مسلم) ایمان لائیں یا مریں!“

” لیکن مَیں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔ جو تمہاری بے عزتی کریں اُن کے لئے دعا کرو“ (لوقا ٦: ٢٧ ،٢٨ )۔ اور صلیب پر یسوع نے اپنے مصلوب کرنے والوں کے لئے دعا مانگی ”اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں“ (لوقا ٢٣ : ٣٤ )۔

خدا نے حکومتوں پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ اپنے لوگوں کی حفاظت کریں اور اُنہیں اختیار دیا ہے کہ ”خدا کا خادم“ ہونے کی حیثیت سے ”تلوار“ استعمال کریں، لیکن ذمہ داری کے ساتھ۔ اور جو بُرائی کرے اُسے ”خدا کے غضب کے موافق“ سزا دیں (دیکھئے رومیوں ١٣ : ١۔ ٤ ؛ پیدائش ٩: ٦)۔ لیکں خدا کی سچائی کو پھیلانے کے لئے ظلم اور جبر کا استعمال یسوع کے نمونے اور تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ اُس نے فرمایا کہ ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمںوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟“ (متی ٥: ٤٣ ۔ ٤٧ )۔

اِس کے برعکس قرآن شریف کہتا ہے کہ ”جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسول (صلعم) نے حرام قرار دیا ہے اُسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں“ (سورہ ٩: ٢٩ )۔

غیر تائب قائن

ہم قائن کے واقعہ کی طرف واپس آتے ہیں۔ اُس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ مگر خدا نے اُسے موقع دیا کہ توبہ کرے اور اپنی غلط سوچ اور بُری رَوش سے باز آۓ۔

”تب خداوند نے قائن سے کہا تیرا بھائی کہاں ہے؟ اُس نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ کیا مَیں اپنے بھائی کا محافظ ہوں؟ پھر اُس نے کہا تُو نے یہ کیا کیا؟ تیرے بھائ کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔ اور اب تُو زمین کی طرف سے لعنتی ہوا جس نے اپنا منہ پسارا کہ تیرے ہاتھ تیرے بھائ کا خون لے“(پیدائش ٤: ٩۔١١ )۔

”۔۔۔جو پیغام تم نے شروع سے سنا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں اور قائن کی مانند نہ بنیں جو اُس شریر سے تھا اور جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا۔ اور اُس نے کس واسطے اُسے قتل کیا؟ اِس واسطے کہ اُس کے کام بُرے تھے اور اُس کے بھائی کے کام راستی کے تھے“ (١۔یوحنا ٣: ١١، ١٢ )۔

تحریک دینے والی دو زبردست قوتیں تھیں جنہوں نے قائن کو ہابل کے قتل پر اُبھارا __ ابلیس اور حسد (متی ٢٧ : ١٨ سے موازنہ کریں)۔

قائن نے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے سے انکار کیا اور برّے کا خون لے کر حلیمی سے خدا کے پاس آنا منظور نہ کیا، بلکہ ”قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا“ (پیدائش ٤: ١٦ )۔

قائن نے کبھی توبہ نہ کی۔ خدا کے طریقہ کی اطاعت کرنے کے بجاۓ وہ اپنی روِش اور اپنے خیالات اور منصوبوں پر چلتا رہا۔ قائن نے ایک ترقی پذیر معاشرت کی بنیاد رکھی۔ لیکن یہ معاشرہ خدا کی سچی اطاعت گزاری سے دُور اور خالی تھا۔ قائن کی طرح اُس کی اولاد__ اُس کی نسل کے لوگ بھی خود پرستی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ انداز و اطوار اپنی تباہی و ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتے ہیں۔

تشکیک پرست ہمیشہ سے سوال کرتے آۓ ہیں ”قائن نے بیوی کہاں سے کی؟“ پیدائش کی کتاب باب ٥ اِس کا جواب دیتا ہے۔ آدم اور حوا کے ہاں اَور بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ قائن نے اپنی کسی بہن سے شادی کی۔ اُس وقت جینیات کے لحاظ سے اِس شادی سے کوئی نقصان دہ اثرات نہیں ہو سکتے تھے۔ بعد کے زمانے میں خدا نے نہایت قریبی رشتوں کے ساتھ ایسی شادیوں کی ممانعت کر دی۔

اور ہابل قتل ہو گیا تو اُس کا کیا ہوا؟ ہابل کا بدن واپس خاک میں لوٹ گیا۔ لیکن اُس کی جان اور روح بہشت میں گئی اِس لئے کہ اُس کے ایمان کے باعث خدا نے اُس کے گناہ معاف کر دیئے اور اُسے راست باز ٹھہرایا تھا(عبرانیوں١١:٤)۔

پیدائش کی کتاب کے چوتھے باب میں لمک کا حال درج ہے۔ وہ قائن سے چھٹی پشت میں تھا۔ اپنے جدِ امجد کی طرح لمک دغاباز، شہوت پرست، انتقام لینے والا اور قاتل تھا۔ اُس کے بیٹوں نے بہت سے سائنسی علوم اور فنونِ لطیفہ ایجاد کۓ اور اُنہیں ترقی دی۔ وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں علم رکھتے تھے، لیکن خدا کو نہیں جانتے تھے۔

لوگ نہ صرف خدا کی نجات کی راہ سے ہٹ گۓ تھے، بلکہ خدا کی طرزِ زندگی کی راہ سے بھی ہٹ گۓ تھے۔

غیر تائب بنی نوع انسان

قائن کی صرف نو پشتوں کے بعد خداوند نے بنی نوع انسان کے بارے میں یہ فتوی' دیا:

”۔۔۔ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں“ (پیدائش ٦: ٥ )۔

نوح نبی کے زمانے تک یہ حال ہو گیا تھا کہ زمین پر صرف نوح اور اُس کا خاندان ہی ایسے لوگ تھے جو اپنے خالق پر ایمان رکھتے تھے۔ انسان کے ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا کے کلام کو سننے اور اُس پر دھیان دینے سے انکار کرنے کے باعث ساری دنیا پر سیلاب آیا۔ اپنے فضل سے خدا نے بچ نکلنے کی ایک راہ مہیا کی،  لیکن صرف آٹھ افراد نے اِس سے فائدہ اُٹھایا۔ صرف نوح اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹے سم، حام اور یافت اور اُن تینوں کی بیویاں خدا کے پیغام پر ایمان لائیں (پیدائش باب ٦ تا ٨)۔

” ایمان ہی کے سبب سے نوح نے اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کے لئے کشتی بنائ جس سے اُس نے دنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اُس راست بازی کا وارث ہوا جو ایمان سے ہے“ (عبرانیوں ١١: ٧)۔

آج بہت سے سائنس دان بائبل مقدس کے اِس بیان کا مذاق اُڑاتے ہیں کہ ساری دنیا پر سیلاب آیا تھا۔ لیکن کوئی بھی اِس بات کا انکار نہیں کرتا کہ آج کی خشک زمین کسی زمانے میں پانی میں ڈوبی ہوئ تھی اور یہ بھی کہ دنیا کے بڑے بڑے ریگستانوں اور پہاڑی سلسلوں سے لاکھوں بحری فوصل دریافت ہوۓ ہیں۔ اور نہ کوئی دھنک (قوسِ قزح) کا انکار کر سکتا ہے جو کئی دفعہ زور دار بارش کے بعد بادلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ البتہ وہ اِس کی اہمیت اور معنی کا انکار کر سکتے ہیں کہ یہ خدا کے وعدہ کا نشان ہے کہ وہ پھر کبھی سیلاب سے ساری دنیا کو ہلاک نہیں کرے گا۔

باغی اور پریشان خیالی کا شکار

طوفانِ نوح کے بعد خدا نے نئے سرے سے آغاز کرنے کا فضل بخشا۔ مگر چند ہی پشتوں کے بعد لوگوں نے اپنے خالق اور مالک کے خلاف پھر بغاوت کی اور اپنے ہی منصوبوں اور تصورات کی پیروی کرنے لگے۔ مثال کے طور پر خدا نے انسانوں کو حکم دیا تھا کہ ”پھلو (بارور ہو) اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو“ (پیدائش ١: ٢٨ ؛ ٩: ١)۔ لیکن انسانوں نے کیا کرنے کا فیصلہ کیا؟ اُنہوں نے اِس کے بالکل اُلٹ کرنے کا فیصلہ کیا:

” ۔۔۔ پھر وہ کہنے لگے کہ آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک بُرج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں اور یہاں اپنا نام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام روۓ زمین پر پراگندہ ہو جائیں“ (پیدائش ١١: ٤)۔

خود پسندی، خود پرستی اور بغاوت کا جذبہ دیکھئے۔ اپنے واسطے خدا کی نیک اور کامل مرضی کی پیروی کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے اپنی عقل اور حکمت کی پیروی کرنے اور اپنے نام کی بزرگی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ شاید اُنہوں نے سوچا کہ ایسا بُرج بنانے سے ”جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے“ ہم کسی دوسرے ممکنہ سیلاب سے بچ جائیں گے۔ وہ اُن مذہب پرست لوگوں کی مانند تھے جو آج بھی اُمید لگاۓ بیٹھے ہیں کہ ہم اپنی کوشش سے خدا کے غضب سے بچ جائیں گے۔

خدا نے انسانوں کے ایک جگہ اکٹھے رہنے کے منصوبے کو باطل کر دیا۔ خدا جانتا تھا کہ اِس منصوبے سے بنی نوع انسان بہت جلد بگڑ جائیں گے اور تباہ ہو جائیں گے۔ یہ بات یاد رکھئے کہ انسانی تاریخ کے اِس مرحلے تک ”تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی“ (پیدائش ١١: ١ )۔ آئیے، دیکھیں کہ خدا نے کیا کیا۔

”۔۔۔ خداوند نے کہا دیکھو یہ لوگ سب ایک ہیں اور اِن سبھوں کی ایک ہی زبان ہے۔ وہ جو یہ کرنے لگے ہیں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ کریں اُن سے باقی نہ چھوٹے گا۔ سو آؤ ہم وہاں جا کر اُن کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہ سکیں۔ پس خداوند نے اُن کو وہاں سے تمام رویِ زمین میں پراگندہ کیا۔۔۔“ (پیدائش ١١: ٦۔ ٩ )۔

وہ لوگ ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے قابل نہ رہے۔ اِس لئے اُنہوں نے وہ بُرج ادھورا چھوڑ دیا اور ساری دنیا میں پراگندہ ہو گۓ، پھیل  گۓ جیسا کہ شروع سے خدا کا ارادہ تھا۔ اور زبان میں اختلاف کی وجہ سے اُس شہر کا نام بابل ہوا۔ ”بابل“ کا مطلب ہے ”مہمل گفتگو، شور و غوغا“۔

خدا کے منصوبے کو رد کرنے کا نتیجہ ہمیشہ ”ابتری یا اِنتشار“ ہوتا ہے۔

غلط فہم اکثریت

نوح کے زمانے کے لوگوں سے اور جن لوگوں نے بابل کا بُرج بنانے کی کوشش کی اُن سے ایک سبق حاصل ہوتا ہے کہ:

اکثریت غلطی پر تھی۔

اگرچہ گنہگار انسان اِس حقیقت سے مطمئن تھے کہ لاکھوں لوگ دنیا کے بارے میں ہمارے نظریے سے متفق ہیں تو بھی اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی اکثریت سوچتی ہے کہ خدا اور اُس کے بارے میں ہمارا نظریہ درست ہے کیونکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اِسی پر ایمان رکھتے ہیں۔

برطانیہ کے ایک آدمی نے یہ ای میل بھیجی:

ای میل

”اگر آپ دوزخ سے بچنا چاہتے ہیں تو دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہوۓ دین کو اختیار کریں۔“

اگر تیزی سے ترقی کرنا یا تعداد میں زیادہ ہونا سچائی کا ثبوت ہے تو پھر قائن کی نسل کے لوگ، نوح کے زمانے کے لوگ اور بابل کے رہنے والے بھی سب سچے تھے__ لیکن وہ سچے نہیں تھے، بالکل غلطی پر تھے۔

”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سُکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں“ (متی ٧: ١٣، ١٤ )۔

خدا کا نہ رُکنے والا منصوبہ

ہم پھر دنیا کے پہلے خاندان کے بارے میں بیان کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہابل کے قتل کے بعد کیا ہوا:

”اور آدم پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُس کے ایک اَور بیٹا ہوا اور اُس کا نام سیت رکھا اور کہنے لگی کہ خدا نے ہابل کے عوض جس کو قائن نے قتل کیا مجھے دوسرا فرزند دیا۔ اور سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اُس نے انوس رکھا۔ اُس وقت سے لوگ یہوواہ کا نام لے کر دعا کرنے لگے“(پیدائش ٤: ٢٥ ، ٢٦ )۔

خدا کی خواہش اور منصوبہ یہ تھا کہ ایسے لوگ ہوں جو مجھ پر بھروسا اور توکل رکھیں۔ اِس منصوبے کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔

”سیت“ نام کا مطلب ہے ”۔۔۔ کی جگہ مقرر کیا گیا“ یا ”عوضی“۔ حوا نے جان اور سمجھ لیا کہ خدا نے ہابل کے عوض جس کو قائن نے قتل کر دیا تھا میرے لئے ”ایک اور نسل“ مقرر کی ہے۔ اور سیت کی نسل سے ”عورت کی نسل“ پیدا ہو گا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

کنواری مریم جو یسوع کی ماں بنی وہ سیت کی نسل سے تھی اور خدا کے وعدہ کے مطابق وہ ابرہام اور داؤد کی نسل سے بھی تھی۔ شیطان خدا کے منصوبے کو خراب کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتا رہا، لیکن خدا کا منصوبہ جو ”بناۓ عالم سے پیشتر“ بن چکا تھا وہ آگے بڑھتا رہا۔

کوئی چیز یا کوئی ہستی اُسے روک نہیں سکتی ، نہ روک سکی۔

یہوواہ کا نام

ہابل کی طرح سیت نے بھی خدا پر اور اُس کے معافی کے طریقے پر توکل کیا  اور ”یہوواہ کا نام لے کر دعا کی“ (پیدائش ٤: ٢٦ )۔ دنیا میں ہر زمانے میں دو قسم کے لوگ ہوتے آۓ ہیں: ایک وہ جو بابل کے لوگوں کی طرح اپنا نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ہابل اور سیت کی طرح یہوواہ پر ایمان رکھتے اور اُس کے نام سے دعا کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے سو نام ہیں، لیکن ہمیں صرف ننانوے ناموں کا پتا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ اُن کی فہرست میں جو نام نہیں ہے یہی ہو کہ ”یہوواہ نجات دیتا ہے“؟

وہ نام کیا ہے؟

ہاں، وہ نام ”یسوع“ ہے!

اُس نام پر اور جو کچھ اُس نے کیا ہے اُس پر توکل نہ کرنا، اُس پر ایمان نہ رکھنا، خدا کی اطاعت سے انکار کرنا ہے، خدا سے سرکشی کرنا ہے۔

آیئے مقدس پولس رسول کی دعا سنیں جو اُس نے اپنے مذہب پرست اور باغی یہودی ہم وطنوں کے لئے مانگی:

” اے بھائیو! میرے دل کی آرزو اور اُن کے لئے خدا سے میری دعا یہ ہے کہ وہ نجات پائیں۔ کیونکہ مَیں اُن کا گواہ ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کے ساتھ نہیں، اِس لئے کہ وہ خدا کی راست بازی سے ناواقف ہو کر اور اپنی راست بازی قائم کرنے کی کوشش کر کے خدا کی راست بازی کے تابع نہ ہوۓ کیونکہ ہر ایک ایمان لانے والے کی راست بازی کے لئے مسیح شریعت کا انجام ہے۔۔۔ اگر تُو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اِقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لاۓ کہ خدا نے اُسے مُردوں میں سے جلایا تو نجات پاۓ گا۔۔۔ چنانچہ کتابِ مقدس یہ کہتی ہے کہ جو کوئ اُس پر ایمان لاۓ گا شرمندہ نہ ہو گا۔ کیونکہ یہودیوں اور یونانیوں میں کچھ فرق نہیں، اِس لئے کہ وہی سب کا خداوند ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے۔ کیونکہ جو  خداوند کا نام لے گا نجات پاۓ گا“ (رومیوں ١٠ : ١۔ ٤ ، ٩ ، ١١۔ ١٣  ؛ یوایل ٢: ٣٢ )۔

نالائق یا لائق؟

فرض کریں کہ مَیں آپ کے نام دس لاکھ روپے کا بینک کا چیک لکھتا ہوں۔ یہ چیک بہت اچھا لگے گا، لیکن بے کار ہو گا۔ کیوں؟

بینک میں میرے کھاتے میں اِتنی رقم ہی نہیں ہے۔

لیکن اگر دنیا کا امیر ترین آدمی جس کا بینک میں کھاتہ ہے وہ آپ کے نام دس لاکھ روپے کا چیک لکھے تو کیا ہو گا؟

کوئی مشکل، کوئی مسئلہ نہیں۔ اِس کے عوض پوری رقم ادا ہو گی!

جس بینک نے میرے نام کا چیک رد کیا، وہی بینک دولت مند آدمی کے نام کا چیک قبول کرے گا اور پوری رقم ادا کر دے گا!

ہماری دنیا ایسے انساںوں سے بھری پڑی ہے جو بہت سے ںاموں سے خدا کے پاس آنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاک خدا کے نزدیک جس نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ گناہ کا قرض چکا دے یہ نام لینے والے نالائق اور نااہل ہیں کیونکہ سچے دل سے نہیں لیتے۔ وہ گناہ آلود ہیں۔

جس طرح بینک میرے نام کے دس لاکھ روپے کے چیک کی ادائیگی نہیں کرے گا اُسی طرح خدا سواۓ یسوع کے نام سے اَور کسی نام سے معافی نہیں بخشے گا۔

”۔۔۔ کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں“(اعمال ٤: ١٢ )۔

کیا آپ  چاہتے ہیں کہ خدا کی حساب کی کتاب سے آپ کے نام گناہ کا قرض مٹا دیا جاۓ اور خدا کی راست بازی کی دولت وہاں لکھ دی جاۓ؟ کیا آپ گناہ کی لعنت پر غالب آنا اور ابد تک اپنے خالق کے ساتھ گہری رفاقت سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں؟

تو ایک ہی نام کافی ہے۔

”جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پاۓ گا“ (یوایل ٢: ٣١ )۔

”خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پاۓ گا۔“ (اعمال ١٦ : ٣١ )

کیا آپ دل سے ایمان رکھتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے آپ کے گناہ کی سزا اُٹھانے کی خاطر دُکھ سہا، وہ مر گیا اور جی اُٹھا؟ تو ”آپ نجات پائیں گے۔“

صرف دو مذہب

ہم نے یہ سفر اِس مشاہدے کے ساتھ شروع کیا تھا کہ اِس دنیا میں دس ہزار سے زیادہ مذہب ہیں۔

حقیقت میں صرف دو ہی مذہب ہیں۔

  • ایک انسانی طریقہ ہے جو کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو بچاؤ۔
  • دوسرا خدا کا منصوبہ ہے جو کہتا ہے کہ تمہیں ایک نجات دہندے کی ضرورت ہے۔

جب تک آپ اپنے  آپ کو بچانے کی خود کوشش کرتے رہیں گے تو کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی نام کافی ہو گا۔ لیکن ایک دفعہ جان اور مان لیں گے کہ آپ کو ایک نجات دہندے کی ضرورت ہے تو پھر صرف ایک ہی نام درکار ہو گا۔

اور وہ نام ہے ”یسوع“۔

”اِس شخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اُس پر ایمان لاۓ گا اُس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا“ (اعمال ١٠ : ٤٣ )۔

       
    تیسرا حصہ

سفر کا اختتام
 
       
    لعنت کو منسوخ کرنا  
       
  ۲۷ - مرحلہ نمبر ١ : خدا کا پچھلا پروگرام  
  ۲۸ - مرحلہ نمبر ٢ : خدا کا موجودہ پروگرام  
  ۲۹ - مرحلہ نمبر٣ : خدا کا مستقبل کا پروگرام  
  ۳۰ - بہشت کا پیشگی نظارہ  
    اِختتامیہ  
       
       
         
۲۷
مرحلہ نمبر ١: خدا کا پچھلا پروگرام
خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٤٣ )

خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٤٣ )۔

چند منٹ پہلے میرے لیپ ٹاپ کی بیٹری تقریباً ختم ہو گئ تھی۔ لیکن اب اُس میں نئی زندگی بھری جا رہی ہے۔ اُس کے مرنے کے عمل کا رُخ کیسے موڑ دیا گیا ہے؟

مَیں نے اُس کا پلگ بجلی کے ساکٹ میں لگا دیا ہے۔ لیپ ٹاپ، موبائل فون یا ٹارچ ہو، ایسے سب آلات کی بیٹریاں یا سیل مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں یعنی اُن کی طاقت کم  ہوتی رہتی ہے اور بالکل  ختم ہو جاتی ہے۔ پھر اُنہیں کسی اعلی' منبع یا سرچشمہ سے دوبارہ چارج کرنا پڑتا ہے۔

آدم کی اولاد بھی اِن مرتی ہوئ بیٹریوں کی مانند ہے۔ ہم اُسی لمحے مرنا شروع ہو گۓ تھے جب ماں کے پیٹ میں پڑے تھے۔

گناہ کی لعنت کا رُخ پلٹنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

ہم سفر کا آخری حصہ شروع کرنے کو ہیں۔ اِس موقع پر مَیں آپ کو ایک فرانسیسی شخص کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کو مستقبل کے بارے میں کوئی اُمید نہ تھی۔ اُس کا حال بھی اُن بیٹریوں جیسا تھا جن کا چارج ختم ہو رہا ہو— جو لمحہ بہ لمحہ مر رہی ہوں۔

مصیبت زدہ   (Le Misérable)

چھبیس سالہ برونو سے میری ملاقات مارچ ١٩٨٧ ء میں ہوئ۔

چند سالوں سے یہ جوان زندگی کے مقصد پر غور کر رہا تھا۔ وہ باطن میں خالی محسوس کرتا تھا۔ اِس خالی پن کو نہ تو اُس کی رومن کیتھولک گھرانے میں پرورش اور نہ دنیاوی خوشیاں پُر کر سکی تھیں۔

لڑکپن میں برونو نے دیکھا کہ جو لوگ مجھے خدا کے بارے میں سکھاتے ہیں وہ خود اُن باتوں پر عمل نہیں کرتے جن کی منادی کرتے ہیں۔ اُسے دنیا میں ہر طرف ناانصافی اور حق تلفی دکھائی دیتی تھی۔ نوعمر بچے اکثر باغی ہوتے ہیں۔ برونو اُٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ اب اُس کا واحد مقصد یہ تھا کہ ہفتہ کے آخری دو دنوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، شراب خانوں میں جانا، شراب پینا اور نشہ میں دُھت ہو کر اپنے دکھوں کو بھول جانا۔ اُنہی دنوں اُس کی محبوبہ کار کے حادثے میں جاں بحق ہو گئی۔ برونو کا دردِ  دل اَور بڑھ گیا۔ اب وہ سارا غصہ خدا پر اُتارتا تھا۔

برونو نے بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔ اُس کا خیال تھا کہ وہاں کے بہت سے مذاہب میں سے شاید کسی مذہب میں زندگی کے معنی اور مقصد کا پتا چل جاۓ۔ خشکی کے راستے نہایت مشکل سفر کے بعد ہندوستان کے ایک بہت گنجان آباد شہر میں پہنچا۔ اُس شہر میں اِنتہا کا مذہبی جوش و خروش تھا مگر انسانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ برونو کے اپنے الفاظ میں — ”مَیں نے لوگ دیکھے، جو مذہبی جوش اور ایمان کے باوجود مجھ سے بھی زیادہ مصیبت زدہ اور خستہ حال تھے۔“

ہندوستان میں تقریباً ایک سال رہنے کے بعد برونو اِس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مجھ پر قطعی اور حتمی سچائی کا انکشاف ہو سکتا ہے تو صرف خدا ہی اِسے منکشف کرے گا۔ اور اُس نے اپنے خالق سے یہ سادہ سی دعا مانگی— ”اگر تُو موجود ہے تو اپنے آپ کو مجھ پر ظاہر کر!“

ایک دن برونو کلکتہ کی سڑکوں پر  گشت کر رہا تھا کہ اُس کی نظر ایک دکان پر پڑی جہاں ”بائبل ہاؤس“ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اُسے کچھ تحریک ہوئی اور وہ دکان میں داخل ہو گیا اور وہاں موجود آدمی سے پوچھا ”کیا آپ کے پاس فرانسیسی زبان میں بائبل ہے؟“ اُن کے پاس ایک جلد تھی۔

اُس نے وہ بائبل مقدس خرید لی اور پڑھنے لگا۔

بہت سی باتوں پر اُسے حیرانی ہوئی۔ مثال کے طور پر وہ دس حکموں میں سے پہلے اور دوسرے حکم سے بہت متاثر ہوا جن میں خدا کہتا ہے کہ ”میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا ۔۔۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا“ (خروج ٢٠ : ٣۔ ٥)۔ مگر برونو کو اپنے اِرد گرد مندر نظر آ رہے تھے جہاں لوگ بتوں کو سجدے کر رہے تھے اور اُن کی عبادت کر رہے تھے۔ اور جب اُس نے اُس مذہب کے بارے میں سوچا جس میں اُس کی پرورش ہوئ تھی تو اُسے احساس ہوا کہ وہ مذہبی یا دیندار لوگ بھی جنہیں مَیں جانتا ہوں خدا کے حکموں کی نافرمانی کرتے ہیں کہ مقدسہ مریم کے بُت اور دوسرے مقدسین کے بتوں کے سامنے جھکتے اور سجدے کرتے ہیں۔

برونو اِس آیت سے بھی بہت متاثر ہوا ”شریعت کی یہ کتاب تیرے منہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اِسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو احتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اقبال مندی کی راہ نصیب ہو گی اور تُو خوب کامیاب ہو گا“ (یشوع ١: ٨)۔

وہ قائل ہو گیا کہ جس سچائی کی مجھے تلاش ہے وہ صرف بائبل مقدس میں مل سکتی ہے۔ برونو  ہندوستان سے روانہ ہو کر واپس فرانس آ گیا، مگر بائبل مقدس کو پڑھنے کے بجاۓ اُسے الماری میں رکھ دیا اور پھر کام کرنے اور دوستوں کے ساتھ پارٹیاں کرنے میں لگ گیا۔ لیکن اِس طرزِ زندگی سے اُسے تلخی اور دل میں ایک خلا کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

چار سال گزر گئے۔

ایک دن برونو اپنی بے مقصد اور بے معنی زندگی پر سوچ رہا تھا کہ اُسے بائبل مقدس کی ایک آیت یاد آئی جس میں خدا وعدہ کرتا ہے ”۔۔۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور پاؤ گے جب پورے دل سے میرے طالب ہو گے“ (یرمیاہ ٢٩ : ١٣)۔ برونو نے دعا مانگی کہ ”اے خدا! ٹھیک ہے، مَیں پورے دل سے تیرا طالب ہوں گا۔ پورے دل سے تجھے ڈھونڈوں گا اور دیکھوں گا کہ تیرا وعدہ سچا ہے یا نہیں۔“

اپنے گھر کے ماحول اور اثر سے دُور رہنے کی خاطر برونو نے پھر سفر کی ٹھانی۔ اِس دفعہ وہ افریقہ چلا گیا۔ وہ خشکی کے راستے سفر کے دوران بائبل مقدس پڑھتا اور دعا کرتا رہا ”اے خدا، مجھے اپنی سچائ کی راہ پر لے چل اور جھوٹ سے بچاۓ رکھ۔“ صحراۓ اعظم کو پار کرنے کے بعد وہ شمالی سینیگال میں پہنچا۔ اُس نے پہلی رات اُسی شہر میں بسر کی جہاں مَیں اور میرا خاندان رہتے تھے۔

اگلی صبح برونو شہر میں گھومنے پھرنے کو نکلا۔ کلکتہ کی طرح یہاں بھی ایک دروازے پر لگے ہوۓ بورڈ نے اُسے متوجہ کر لیا۔ اُس پر لکھا تھا

Ecutez! Car L'eternel Dieu A Parle!

(”سنو! خداوند خدا نے فرمایا ہے!“)

وہ اندر داخل ہوا۔

یہ میرا دفتر تھا۔ مَیں نے کام سے نظر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک گھنی داڑھی والا آدمی کھڑا تھا۔ ہاتھ میں نیلے رنگ کی چھوٹی سی، خوب استعمال شدہ کتاب تھی — وہ بائبل مقدس تھی جو اُس نے بھارت میں خریدی تھی۔ اُس کا پہلا سوال آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے:

”آپ کون ہیں — کیتھولک یا پروٹسٹنٹ؟“

مَیں نے جواب دیا ” مَیں صرف ایک مسیحی ہوں— مسیح کا پیرو۔“ برونو اِس جواب سے حیران ہوا اور خوش بھی ہوا کیونکہ اُس نے بائبل مقدس پڑھتے ہوۓ دیکھا تھا کہ یہ کیتھولک یا پروٹسٹنٹ کا کوئی ذکر نہیں کرتی۔ البتہ مسیحیوں کا، مسیح پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر کرتی ہے۔ بعد میں برونو نے مجھے بتایا کہ اگر مَیں جواب دیتا کہ ” مَیں کیتھولک ہوں“ یا ”مَیں پروٹسٹنٹ ہوں“ تو اُلٹے قدموں واپس چلا جاتا۔ وہ مذہب پرستی سے تنگ آ چکا تھا۔ وہ صرف سچائی کا متلاشی اور خواہاں تھا۔ اگلے چند دنوں کے دوران برونو نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ جاری رکھی۔ مَیں اُسے بائبل مقدس میں خدا کے جوابوں کی طرف متوجہ کرتا تھا۔ سفر پر روانہ ہونے سے ایک دن پہلے (اُس نے جنوبی افریقہ جانے کا انتظام کر رکھا تھا) مَیں نے اُسے چیلنج کیا ”بائبل مقدس کو دوبارہ پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا نے آپ کے لئے کیا کیا ہے۔“

چھے ہفتوں بعد ہمیں برونو کی چٹھی موصول ہوئ۔ اُس نے لکھا تھا کہ مَیں نے مچھیروں کے ایک نزدیکی گاؤں میں ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا ہے۔ اور مَیں نے پوری بائبل مقدس پڑھ لی ہے اور پرانے عہدنامے اور نۓ عہدنامے کا موازنہ کرتا رہا ہوں۔

اُسے پوری کتابِ مقدس میں مسیح ہی نظر آیا تھا۔

برونو کے اپنے الفاظ میں — ”ایک رات جب مَیں باہر اکیلا تھا تو یسوع کا یہ وعدہ پوری قوت سے میرے دل میں آیا 'اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوۓ لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دوں گا' (متی ١١: ٢٨ )۔ مَیں نے اپنی زندگی پر، زندگی کی ساری ناکامیوں، تلخی اور  پشیمانیوں پر نظر ڈالی تو میرے دل میں سخت کش مکش ہونے لگی۔ مَیں جانتا تھا کہ اگر مَیں یسوع کی پیروی کرتا ہوں تو مَیں اپنی خواہشوں اور مشاغل کو پورا نہیں کر سکتا۔ مَیں ایسا آزاد نہیں رہ سکتا— آخرکار مَیں نے ہار مان لی۔ خدا نے میری آنکھیں کھولیں۔ مَیں نے یقین کیا اور ایمان لے آیا کہ مسیح نے میری خاطر صلیب پر خون بہایا اور میری خاطر پھر جی اُٹھا۔ میری روح اور میرے دل میں اطمینان کا گویا سیلاب اُمڈ آیا۔ مَیں رونے لگا اور آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ گناہ کا بھاری بوجھ جاتا رہا تھا۔ اور برونو نے مزید لکھا تھا:

”مختصر یہ کہ مَیں نۓ سرے سے پیدا ہوا ہوں۔“

برونو کو جس چیز کی تلاش تھی وہ اُسے مل گئی تھی یعنی — پاک صاف دل اور ضمیر، اپنے خالق کے ساتھ تعلق اور رفاقت اور ہمیشہ کی زندگی۔ اب اُس کی سمجھ میں آ گیا کہ مَیں اِس دنیا میں کیوں آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔

اُس کی تلاش ختم ہو گئی۔

بائبل مقدس کہتی ہے:

”۔۔۔ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو، وہ نئی ہو گئیں“ (٢۔کرنتھیوں ٥: ١٧ )۔

برونو کی زندگی فوراً بدلنے لگی — چھوٹی اور بڑی تبدیلیاں آتی گئیں۔ وہ گیارہ برس کی عمر سے سگریٹ نوشی کر رہا تھا۔ خداوند نے اُسے اِس عادت سے رہائی دی۔ اُس کی حال مست، نشہ باز اور بدکردار زندگی اب ماضی کی شرم ناک یاد بن کر رہ گئی۔ اب پاک صحائف اُس کی سمجھ میں آنے لگے اور دعا ایسا فطری عمل بن گئی جیسے سانس لیںا۔

میری اور برونو کی پہلی ملاقات سے اب تک بیس سال ہو گۓ، مگر ہم ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ آج کل ”نیا“ برونو فرانس میں رہتا ہے۔ وہ اور اُس کی بیوی خدا کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے چار بچوں کو خداوند کے عرفان اور فضل میں پروان چڑھا رہے ہیں۔

کیا اِس کا مطلب ہے کہ برونو کی زندگی کش مکش، درد اور دُکھوں سے آزاد ہو گئی ہے؟ نہیں۔ اُسے اور اُس کے خاندان کو آج بھی آزمائشوں اور امتحانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب وہ اکیلے نہیں ہیں۔

خداوند خود اُن کے ساتھ ہے!

خدا کا تین مرحلوں کا پروگرام

شاید کوئی شخص سوچتا ہو کہ ”ذرا  ٹھہرو۔ اگر یسوع نے ہماری خاطر شیطان، گناہ اور موت کو شکست دے دی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو ، جن میں مسیح پر ایمان رکھنے والے بھی شامل ہیں، کئی طریقوں سے محنت، کوشش اور جدوجہد کرنے پڑتی ہے؟ ہماری دنیا میں بُرائی اور لڑائ جھگڑے کیوں ہیں؟ خدا نے جس رہائی اور کاملیت کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہے؟“

اِس کا جواب اِس حقیقت میں ہے کہ خدا نے انسانی تاریخ میں مداخلت کرنے کا جو منصوبہ قدیم سے بنایا تھا اُس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ : خدا اپنے لوگوں کو گناہ کی سزا سے رہائی دے گا۔

دوسرا مرحلہ: خدا اپنے لوگوں کو گناہ کے اختیار سے رہائی دے گا۔

تیسرا مرحلہ: خدا اپنے لوگوں کو گناہ کی موجودگی سے رہائی دے گا۔

نئے عہدنامے کا یہ حوالہ اِس پروگرام کے تیںوں مرحلوں کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ اِس پروگرام میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں شامل ہیں۔

”اُسی (یعنی خدا) نے ہم کو ایسی بڑی ہلاکت سے چھڑایا (مرحلہ نمبر ١) اور چھڑاۓ گا (مرحلہ نمبر ٢ ) اور ہم کو اُس سے یہ اُمید ہے کہ آگے کو بھی چھڑاتا رہے گا( مرحلہ نمبر ٣)“ (٢۔کرنتھیوں ١: ١٠ )۔

ہم پاک کلام میں سے ہو کر گزرنے کے اپنے باقی کے سفر میں اِس پروگرام کے تینوں مرحلوں پر غور کریں گے جن سے خدا شیطان، گناہ اور موت کے اثرات کو ہمیشہ کے لئے باطل اور ختم کر دے گا۔ ہمارے سفر کا بالکل آخری حصہ غیر معمولی طور پر خوش منظر اور قابلِ دید ہو گا کیونکہ اِس میں ہم بہشت کی ایک جھلک دیکھیں گے۔

لعنت کو منسوخ کرنا: مرحلہ نمبر ١

آدم اور حوا نے شیطان کی بات مانی تو  وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ دوستی اور رفاقت کے حق سے محروم ہو گئے اور اپنے اور اپنی ساری نسل پر گناہ کی لعنت لے آۓ۔ اصل اور کامل دنیا یک دم  بدل گئی اور ایسی جگہ بن گئی جہاں انسان اپنے آپ کو اپنے طریقے سے خدا سے چھپانے  کی کوشش کرتا ہے۔ رنج و غم، دکھ درد، بیماریاں، بدشکلی، افلاس اور بھوک، اُداسی اور کش مکش، بڑھاپا اور موت اِس دنیا کی خصوصیات بن گئیں۔

گناہ کے باعث لعنت آئی۔ لیکن خدا کے وعدے کے مطابق مقررہ وقت پر خدا کا ازلی بیٹا عورت کی نسل بن کر آسمان سے زمین پر آ گیا تاکہ آدم کی نسل کو شیطان، گناہ اور موت سے چھڑا لے۔

”اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کۓ۔ وہ اُس کے جلال کا  پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دھو کر عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا“ (عبرانیوں ١: ١۔ ٣)۔

خداوند یسوع کی ذات میں گناہ نہیں تھا۔

اُس نے مخلوقات کی ایک ایک چیز پر، ایک ایک عضو پر اپںا کامل اختیار دکھایا۔ اپنے منہ کے ایک لفظ سے یا اپنے ہاتھ سے ایک دفعہ چھو کر اُس نے بدروحوں کو بھگا دیا، اندھی آنکھوں کو بینائی دی، کوڑھیوں کو پاک صاف کیا اور مُردوں کو زندہ کیا۔ وہ پانی پر چلا، طوفانوں کو تھما دیا، روٹیوں کو بڑھا کر بھوکوں کو سیر کیا۔ اُس نے گناہ معاف کیا اور دکھی دلوں کو دلاسا اور اطمینان بخشا۔

اور پھر اُس نے وہ کام کیا جو کرنے آیا تھا۔

اُس نے اپنے باپ کے جلال کی خاطر، پاک صحیفوں کو پورا کرنے کی خاطر اور جو اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن کی مخلصی کی خاطر دُکھ اُٹھایا، مر گیا اور پھر زندہ ہوا۔

”مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے تاکہ مسیح یسوع میں ابرہام کی برکت غیر قوموں تک بھی پہنچے اور ہم ایمان کے وسیلہ سے اُس روح کو حاصل کریں جس کا وعدہ ہوا ہے“ (گلتیوں ٣: ١٣ ۔١٤ ؛ استثنا ٢١: ٢٣ )۔

کسی نہ کسی طرح بائبل مقدس کا ہر حصہ اِن تینوں میں سے کسی ایک موضوع سے ضرور تعلق رکھتا ہے:

١۔ جو کچھ خدا نے کیا ہے۔

٢۔ جو کچھ خدا کر رہا ہے۔

٣۔ جو کچھ خدا آئندہ کرے گا۔

علمِ الہیات کی اصطلاحات میں اِن تینوں کو یوں بیان کیا جاتا ہے:

١۔ تصدیق: صادق ٹھہرانا، راست باز ٹھہرانا، جب آپ انجیل پر ایمان لاتے ہیں تو خدا آپ کو کامل راست باز ٹھہراتا ہے، آپ کو کامل راست باز کا درجہ دیتا ہے (رومیوں ابواب ٣۔ ٥ )۔

٢۔ تقدیس: مقدس ٹھہرانا، پاک ٹھہراںا، آپ ایمان لے آتے ہیں تو خدا آپ کی مدد کرتا ہے کہ اپنے کاموں (اعمال) میں راست زندگی گزاریں۔

٣۔ تجلیل: جلال دینا، فردوس میں آپ اپنی حیثیت اور عمل دونوں میں کامل راست باز ہوں گے (مکاشفہ باب ٢١ اور ٢٢ )۔

حیرت انگیز فضل

شریعت کامل فرماں برداری کا تقاضا کرتی ہے۔ یسوع نے شریعت کے نافرمانوں کو ”شریعت کی لعنت سے چھڑایا“۔ اور اِس مقصد کی خاطر وہ ”ہمارے لئے لعنتی بنا“ (گلتیوں ٣: ١٣ )۔ یسوع نے وہ سزا خوشی سے برداشت کی جس کے ہم حق دار تھے تاکہ ہمیں ابدی سزا سے چھڑا لے۔

جب یسوع صلیب پر دُکھ اُٹھا رہا تھا تو اُس نے عملاً اپنا مقصد ظاہر کیا یعنی گناہ کی لعنت کو پلٹ دیا۔

یسوع کو دو ڈاکوؤں کے درمیان صلیب دی گئی تھی جنہیں بغاوت، چوری اور قتل کے جرم میں سزا ہوئ تھی۔ آئیے ہم صلیب پر لٹکے ہوۓ اِن دو گنہگاروں اور خداوند کی گفتگو سنیں۔ شروع میں تو دونوں ڈاکو بھی ”یسوع پر لعن طعن کرتے تھے“ (متی ٢٧ : ٤٤ )، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد اُن میں سے ایک ڈاکو نے توبہ کر لی۔

”پھر جو بدکار صلیب پر لٹکاۓ گۓ تھے اُن میں سے ایک اُسے یوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسیح نہیں ؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔ مگر دوسرے نے اُسے جھڑک کر جواب دیا کہ کیا تُو خدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرفتار ہے؟ اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئ بے جا کام نہیں کیا۔ پھر اُس نے کہا اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آۓ تو مجھے یاد کرنا۔ اُس نے اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا“ (لوقا ٢٣ : ٣٩ ۔ ٤٣ )۔

یہ دو باغی مرنے اور جہنم میں جانے کو تھے۔ پھر اِن آخری گھڑیوں میں اُن میں سے ایک نے خدا کے سامنے اپنے گناہ کا اِقرار کیا اور بے گناہ نجات دہندہ پر ایمان لے آیا اور اُس پر توکل کیا جو درمیان والی صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔

یسوع نے اُس کے ساتھ وعدہ کر لیا:

”آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔“

اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کے لۓ تیار کۓ گئے جہنم میں ابدیت گزارنے کے بجاۓ یہ تائب  اور معافی یافتہ باغی ڈاکو ابدیت اپنے خالق اور فدیہ دینے والے کے ساتھ گزارے گا۔

کیسی بڑی تبدیلی ہے!

وہ خدا کے برّے پر ایمان لایا جو اُس وقت گناہ کی سزا برداشت کرنے کے لئے اپنا خون بہا رہا تھا۔ اِسی ایمان کی بنیاد پر خدا نے اپنی کتاب سے اُس کے گناہ مٹا دیئے۔ یسوع کی راست بازی اُس کے کھاتے میں لکھ دی اور اُس کا نام برّے کی کتابِ حیات میں درج کر دیا جس میں اُن سب کے نام لکھے ہوۓ ہیں جنہوں نے ایمان کے وسیلے سے معافی، راست بازی اور ابدی زندگی حاصل کی ہے۔

اِس بے بس گنہگار کے لئے گناہ کی لعنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔

کیا قاتلوں کو معافی مل سکتی ہے؟

ایک استفسار کرنے والے کی طرف سے یہ ای میل موصول ہوئ:

ای میل

”آپ کہتے ہیں کہ یسوع (علیہ السلام) ہمارے گناہوں کی خاطر ہمارے عوض مرا۔ مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ اِس بیان کی روشنی میں آپ 'عدل' کی کیا تشریح کریں گے؟ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں نے ساری عمر جتنے بھی گناہ اور غلط کام کئے ہیں مجھے اُن کا حساب نہیں دینا پڑے گا؟ مجھے اُن کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاۓ گا؟ جو قاتل اِس دنیا میں یہاں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے بچ گیا اور اُسے سزا نہیں ملی اُسے اگلے جہان میں بھی بری کر دیا جاۓ گا کیونکہ یسوع نے اُس کے گناہوں کی قیمت ادا کر دی ہے؟۔۔۔ مَیں تو یہ نظریہ قبول نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم سب کو ہدایت نصیب ہو!“

کیا گنہگاروں کے عوض یسوع کی صلیب پر موت ”عدل“ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ کیا خدا قاتل کو بھی معاف کر سکتا ہے؟ آیئے پہلے ہم آخری سوال پر توجہ دیں اور  اِس سلسلے میں چند ”قاتلوں“ کی گواہیاں دیکھیں جن کو معافی ملی اور جن کی زندگیاں بدل گئیں۔

آدم خور

ڈان رچرڈسن بائبل مقدس کے مترجم اور علم البشر کے ماہر ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”دنیا کے سردار“ (Lords of the Earth ) میں یالی لوگوں کا بیان کرتے ہیں۔ یہ اِرئین یایا، انڈونیشیا کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والے نہایت بے رحم اور وحشی لوگ ہیں۔ صدیوں سے وہ آس پاس کے علاقوں اور دیہات سے اپنے دشمنوں کو پکڑتے، اُنہیں اذیتیں دیتے اور — ہاں ۔۔۔ کھا جاتے تھے۔ خوف اور انتقام اُن کی زندگی کا ”معمول“ تھے۔

پھر انجیل کا پیغام اُن تک پہنچا۔

یالی اور پڑوسی قبیلوں نے مسیح کے وسیلے سے گناہ کی معافی اور نئی زندگی کی خوش خبری سنی۔ بہت سے لوگ ایمان لے آۓ۔ اُن کی سوچ اور زندگی کے انداز بدل گۓ۔ نئی پیدائش سے وہ خدا کے فرزند بن گۓ تو اُن کے ”معمول“ کا معیار بھی بدل گیا۔ جو پہلے ایک دوسرے سے ڈرتے اور عداوت رکھتے تھے اب وہ بھائی بن گۓ۔ اُنہوں نے یالی دیہات کو ملانے کے لئے بہتر راستے بناۓ۔

یہ سابق قاتل آج اُن لوگوں سے محبت اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں جو اُنہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ خدا کے روح نے اُن کے دلوں کو تبدیل کر دیا ہے اور سکھایا ہے کہ ”ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کۓ تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو“ (افسیوں ٤: ٣٢ )۔

ایک نہایت مایوس لڑکی

سنگاپور میں ایما (Emma) کی پرورش ایک کٹر مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔ ماں باپ کی طلاق اور  خاندان میں لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر ایما نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس کی عمر سولہ برس تھی۔ اُس نے اپنے دس منزلہ مکان کی بالکنی سے کود جانے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن یہ اِقدام کرنے سے ذرا پہلے وہ جس خدا کو جانتی نہیں تھی اُس کے سامنے غصے اور مایوسی سے چلائی، ”اگر تُو واقعی ہے تو کسی طرح مجھے بتا۔“

وہ بالکنی میں جانے کے لئے سیڑھیاں اُتر رہی تھی تو ایک سیڑھی پر بائبل مقدس پڑی نظر آئی۔ ایما نے وہ بائبل مقدس اُٹھائی اور جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور کھولی تو یہ الفاظ سامنے تھے:

”خداوند میرا چوپان ہے، مجھے کمی نہ ہو گی۔ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے، بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو مَیں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔ تُو  میرے دشمنوں کے رُوبرو میرے آگے دسترخوان بچھاتا ہے۔ تُو نے میرے سر پر تیل ملا ہے۔ میرا پیالہ لبریز ہوتا ہے۔ یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی۔اور مَیں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔“ (زبور  ٢٣ )

ایما نے یہ زبور پڑھا تو اُسے خدا کی حقیقت اور اُس کی محبت کا گہرا احساس ہوا۔ اور اِس کے جلد ہی بعد ایما خداوند یسوع پر توکل کرنے لگی جس نے فرمایا ہے کہ ”اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ١١ )۔

وہ اُس کی ”بھیڑ“ بن گئی۔

اب ایما کے دل سے خود کشی کا خیال نکل گیا۔ اب وہ خوش باش بیوی اور پانچ بچوں کی ماں ہے۔ اب اُسے دوسروں کی مدد کرنے کا شوق اور جوش ہے۔ اُسے مسیح میں خدا کی باافراط محبت مل گئی ہے۔

جب مَیں نے ایما کو یہ تحریر بھیجی کہ اُسے چیک کرے کہ سب واقعات بالکل درست ہیں تو اُس نے ای۔ میل سے جواب میں خدا کی محبت کے بارے میں الفاظ بڑے حروف میں لکھ بھیجے۔ (اُردو میں بڑے حروف نہیں ہیں۔ جس بات کو نمایاں کرنا ہو وہ جلی حروف میں لکھی جاتی ہے)۔  دنیا بھر میں عورتوں کو دباؤ اور چیلنجوں کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایما کو خداوند کی حیرت انگیز محبت اور نگہبانی میں ہر روز طاقت اور خوشی ملتی رہتی ہے۔

ایک تند مزاج آدمی

اور آخری ترسیس کے ساؤل پر غور کریں۔ وہ نہایت دین دار (مذہب پرست) اور مذہب کے معاملے میں بہت جوشیلا آدمی تھا اور خدا کے نام سے لوگوں کو قتل کرتا تھا۔

ساؤل مسیح کے زمانے میں ایشیاۓ کوچک (موجودہ ترکی) کے شہر ترسیس میں پیدا ہوا۔ ساؤل یسوع کو مسایاح اور خدا کا بیٹا نہیں مانتا تھا۔ یسوع کے آسمان پر چلے جانے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہودیوں کی صدر عدالت (ہائ کورٹ) نے ساؤل کو اجازت نامہ دیا کہ یسوع کے پیروؤں کو گرفتار کرے، عدالت میں پیش کرے اور مروا ڈالے۔ اُس کو یقین تھا کہ جو یہودی یسوع پر ایمان لاۓ ہیں اُنہیں قید کرنے، کوڑے لگانے اور قتل کرنے  سے مَیں خدا کی خدمت کر رہا ہوں۔ لیکن ایک دن اُس کو کیا واقعہ پیش آیا؟ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہودی مسیحیوں کو گرفتار کرنے کے مشن پر جا رہا تھا۔

”جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ یکایک آسمان سے ایک نور اُس کے گردا گرد آ چمکا اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اے ساؤل! اے ساؤل! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ اُس نے پوچھا اے خداوند! تُو کون ہے؟ اُس نے کہا مَیں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔ پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لۓ مشکل ہے، — مگر اُٹھ، شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جاۓ گا“ (اعمال ٩:٣ ۔ ٦ ؛ ٢٦ : ١٤)۔

اور ساؤل نے حیرت سے کانپتے ہوۓ پوچھا کہ ”اے خداوند! کیا کروں؟“ (اعمال ٢٢: ١٠ — مزید دیکھئے اعمال ٢٦ :٩ ۔ ١١ ؛ ٧: ٥٨ ۔ ٦٠ ؛ ٨: ١۔ ٣ ؛ ١:٩، ٢)۔

خدا کے بارے میں ساؤل کا نقطہ نظر بالکل بدل گیا۔ وہ پرانے عہدنامے کے صحیفوں کا عالم تھا۔ اب اُس کی سمجھ میں آیا کہ یسوع ہی مسایاح ہے جس کی بابت سارے ںبیوں نے لکھا ہے۔

زبردست مخالف زبردست حامی بن گیا (اعمال ٩: ١۔ ٣١۔ مزید دیکھئے اعمال ابواب ١١، ١٣ ، ١٤ ؛ ١٦ ۔٢٨ )۔ اعمال باب ٢٢ اور ٢٦ میں پولس اپنی تبدیلی کا واقعہ بیان کرتا ہے— مزید دیکھئے گلتیوں ١: ١٣ ، ٢٣ ؛ فلپیوں ٣:٦ ؛ ١۔کرنتھیوں ١٥ : ٦۔ ٨ ۔

ساؤل (معنی بڑا) نے اپنا نام بدل کر پولس (معنی چھوٹا) رکھ لیا۔ وہ گواہی دیتا ہے:

”اگرچہ مَیں پہلے کفر بکنے والا اور ستانے والا اور بے عزت کرنے والا تھا تو بھی مجھ پر رحم ہوا اِس واسطےکہ مَیں نے بے ایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کۓ تھے، اور ہمارے خداوند کا فضل اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوع میں ہے بہت زیادہ ہوا۔ یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کے لۓ دنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا مَیں ہوں“ (١۔تیمتھیس١: ١٣۔ ١٥ )۔

مسیح کی خصوصیت

کیا خدا گنہگاروں کو بھی معاف اور تبدیل کر سکتا ہے؟

اِرئین کے آدم خوروں، سنگاپور کی ایما اور ترسیس کے ساؤل کے ساتھ بالکل یہی ہوا ہے۔ یسوع کی قریبی صلیب پر لٹکے ہوۓ تائب قاتل کے ساتھ یہی ہوا۔ اور آج ساری دنیا میں — قیدخانوں کے اندر اور باہر — گنہگاروں کے ساتھ بھی جب وہ خدا کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں یہی ہو رہا ہے۔

بدترین اور ”بہترین“ گنہگاروں کے دلوں کو تبدیل کرنا اور مخلصی دینا یسوع کی خصوصیت ہے۔ یہی ہے خدا کی رحمت اور فضل۔

بے شک، گناہ کے نتائج ہوتے ہیں۔ صلیب پر لٹکے ہوۓ ڈاکو نے اپنے جرائم کی سزا پھر بھی برداشت کی۔ ساری زندگی اُسے اُس اطمینان اور خوشی کا تجربہ نہ ہوا جو خداوند کو جاننے اور دوسروں کو اُس کے بارے میں بتانے سے ہوتا ہے۔ تاہم جس طریقے سے گنہگاروں کو معافی ملتی ہے اور وہ خدا کے حضور راست باز ٹھہراۓ جاتے ہیں وہ طریقہ ہمیشہ ایک ہی ہے — اپنے گناہ اور گناہ آلود حالت کا اِقرار کرنا اور خدا کے نجات کے انتظام کو قبول کرنا اور اُس پر توکل کرنا۔

رحم اور عدل کا ملاپ

چند صفحات پہلے مَیں نے ایک ای میل بھیجنے والے دوست کا ذکر کیا تھا جس نے پوچھا تھا کہ آپ اِس بیان کی روشنی میں ”عدل“ کی کیا وضاحت کرتے ہیں کہ ”ہمارے گناہوں کی خاطر یسوع ہمارے واسطے موا؟“ اِس سے پہلے احمد نے بھی یہی سوال اُٹھایا تھا:

ای میل

”کیا خدا اِتنا بڑا اور قادِر نہیں ہے کہ اپنے پیارے بیٹے کو اذیت دیئے اور قربان کۓ بغیر انسانوں سے کہہ سکے کہ مَیں کیا چاہتا ہوں اور پھر اُن کے گناہ مٹا دے؟“

ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ چونکہ خدا — عدل اور وفاداری میں — بڑا ہے اِس لئے وہ انسانوں کے گناہ اُس وقت تک مٹا نہیں سکتا جب تک اُن گناہوں کی مناسب عدالت نہ ہو اور مناسب سزا نہ دی جاۓ۔

باب ١٣ میں اُس جج کی مثال کو یاد کریں جس نے پوری عدالت کی خفگی اور ناپسندیدگی مول لی کیونکہ اُس نے مجرم کے نیک کاموں کی بنیاد پر اُسے بری کرنے کا فیصلہ سنایا ۔

خدا اُس من موجی جج کی مانند نہیں۔ اُس کی ذات یا شہرت پر خاک کے ذرہ برابر بھی داغ نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی عدل کو بالاۓ طاق رکھ کر رحم نہیں کرتا۔ وہ عدل پر ہرگز حرف نہیں آنے دیتا۔ اِسی لۓ اُس نے اپنی بے نہایت محبت کے باعث آسمان سے بیٹے کو اِس دنیا میں بھیجا کہ وہ کیلوں سے صلیب پر جڑ دیا جاۓ اور وہاں خدا کے رحم اور سچائی کا کامل ملاپ ظاہر کرے۔

”شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے۔ راستی زمین سے نکلتی ہے اور صداقت آسمان پر سے جھانکتی ہے“ (زبور ٨٥ : ١٠، ١١ )۔

چونکہ یسوع نے ہماری خاطر خدا کا قہر اور غضب برداشت کیا اِس لئے خدا ”آسمان سے جھانک“ سکتا ہے اور ہمیں معافی، کاملیت اور ہمیشہ کی زندگی بخش سکتا ہے۔ ہمارا عوضی ہو کر خداوند یسوع نے خدا کا عدل، شفقت (رحم) اور فضل دکھایا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا:

عدل یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار ہیں وہ ہمیں ملے۔

رحم یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار ہیں وہ ہمیں نہ ملے۔

فضل یہ ہے کہ جس (سلوک) کے ہم حق دار نہیں ہیں وہ ہمیں ملے۔

جتنے لوگ مسیح پر بھروسا رکھتے ہیں اُنہیں وہ ملتا ہے جس کا کوئی بھی حق دار نہیں، یعنی گناہوں کی معافی، مسیح کی اپنی راست بازی، خدا کے خاندان میں شمولیت اور ہمیشہ کی زندگی۔

جو لوگ مسیح کو رد یا نظر انداز کرتے ہیں اُنہیں وہ ملے گا جس کے سب حق دار ہیں یعنی ابدی سزا۔

مسیح کے اِس دنیا میں آنے سے صدیوں پہلے میکاہ نبی نے فرمایا:

”وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں“ (میکاہ ٥: ١ )۔

ساری دنیا کا منصف انسانی بدن میں دنیا میں آیا تاکہ ناشکرے گنہگاروں کے ہاتھوں قتل کیا جاۓ — وہ چھڑانے اور بچانے آیا تھا۔

”۔۔۔ جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر موا۔ کسی راست باز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا، مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا“ (رومیوں ٥: ٦۔ ٨ )۔

عادل اور راست باز ٹھہرانے والا

اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے میں خدا نے ایک راہ نکالی جس سے وہ اپنے کامل معیار کو نیچا کۓ بغیر گنہگاروں کو معاف کر سکے۔ ”وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لاۓ اُس کو بھی راست باز ٹھہرانے والا ہو۔“ (رومیوں ٣: ٢٦ )

خدا عادل رہا کیونکہ اُس نے گناہ کی کافی اور مناسب سزا دے دی۔

اور وہ اُن سب کو راست باز ٹھہرانے والا ہے جو اُس کے بھیجے ہوۓ نجات دہندہ پر ایمان لاتے ہیں۔

جونہی مَیں اپنی کوششوں پر انحصار کرنا چھوڑ کر مسیح پر توکل کرتا اور ایمان رکھتا ہوں کہ وہ میری خاطر موا اور جی اُٹھا اُسی وقت عادل منصف اپنی روئیداد کی کتاب میں سے میرے سارے قصوروں پر قلم پھیر دیتا ہے:

راست باز ٹھہرایا گیا!

راست باز ٹھہراۓ جانے کا مطلب ہے کہ خدا نے عدالتی کارروائی سے ہمارے راست باز ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں راست باز قرار دے دیا ہے۔ وہ میرا ریکارڈ — میرے خلاف جو کچھ لکھا گیا تھا — منسوخ اور صاف کر کے مجھے راست باز قرار دیتا ہے۔

وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟

وہ ایسا اِس لئے کر سکتا ہے کیونکہ اُس نے صلیب پر میرے گناہ کی سزا برداشت کی۔

جب آدم نے گناہ کیا تو خدا نے ساری انسانی نسل کو ناراست (گنہگار) ٹھہرا دیا۔ لیکن چونکہ یسوع مر گیا اور پھر جی اُٹھا اِس لئے خدا اُن سب کو راست باز ٹھہراتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔

”کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سے بہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے“ (رومیوں ٥: ١٩ )۔

جس طرح آدم کے گناہ سے آلودگی (نجاست) اور موت پیدا ہوئ اُسی طرح مسیح کی موت اور قیامت (جی اُٹھنے) سے پاکیزگی اور زندگی مہیا ہوئی۔

”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کۓ جائیں گے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢ )۔

وہ عادل منصف آسمان سے نیچے دیکھتا ہے تو کیا وہ آپ کو آدم اور اُس کی گندی ناراستی میں دیکھتا ہے؟ یا خدا آپ کو مسیح اور اُس کی راست بازی میں دیکھتا ہے؟

آسمان کی عدالت میں کوئی تیسری صورتِ حال نہیں۔

انسان کا دُہرا مسئلہ

ہم نے پیدائش کی کتاب کے تیسرے باب میں دیکھا کہ آدم اور حوا نے اپنے خالق کی نافرمانی کی تو اپنے لئے گناہ اور شرم کا دُہرا مسئلہ پیدا کر لیا۔

اُن کے گناہ نے اُنہیں چھپنے پر مجبور کر دیا۔

اُن کی شرم نے اُنہیں اپنی برہنگی ڈھانکنے کی ترغیب دی۔

خدا نے اپنے عدل کے باعث اُن کے انجیر کے پتوں کے خود ساختہ سترپوش رد کر دیۓ، مگر اپنی رحمت کے باعث اُنہیں قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے کپڑے پہناۓ۔ جانوروں کا خون اُس چیز کی علامت تھا جو گناہ کو ڈھانکنے کے لئے ضروری تھی اور جانوروں کی کھالیں اُس چیز کی علامت تھیں جو اُن کی شرم (شرمندگی) کو ڈھانکنے کے لئے ضروری تھی۔

ہم اپنے اِن اجداد کے گناہ اور شرمندگی میں شریک ہیں۔ خدا کی نظروں میں ہم گھنونے گنہگار اور روحانی لحاظ سے ننگے ہیں۔ ہم شرم ناک طور پر کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں۔

ہماری دہری مصیبت کا خلاصہ دو سوالوں میں کیا جا سکتا ہے:

١۔ ہم اپنے گناہ سے جس نے ہمیں اپنے خالق سے جدا کر دیا ہے کیسے پاک صاف ہو سکتے ہیں؟

٢۔ ہم کاملیت سے کیسے ملبس ہو سکتے ہیں تاکہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہ سکیں۔

خدا کا دُہرا علاج

انسان کی گناہ آلودگی اور راست بازی کا علاج صرف خدا کے پاس ہے۔ جب بے گناہ بیٹے یسوع نے صلیب پر اپنا خون بہایا تو اُس نے ہماری سزا اپنے اوپر لے لی۔ اور اُس نے موت پر فتح پائ تو ہمیں اپنی راست بازی پیش کرتا ہے۔

”ہمارے لۓ بھی ۔۔۔ ایمان راست بازی گنا جاۓ گا، اِس واسطے کہ ہم اُس پر ایمان لاۓ ہیں جس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کو مُردوں میں سے جِلایا“ (رومیوں ٤: ٢٤ ، ٢٥ )۔

”۔۔۔ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں اور سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں جس نے مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کر لیا ۔۔۔ جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ (کی قربانی) ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راست بازی ہو جائیں“ (٢۔کرنتھیوں ٥: ١٧ ، ١٨ ، ٢١ )۔

جونہی آپ اپنے آپ پر اور اپنی دین داری پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی اُمید مسیح اور اُس کے بہاۓ گۓ کامل خون سے وابستہ کرتے ہیں، اُسی وقت:

١۔ وہ آپ کو گناہ کی نجاست سے پاک کرتا ہے۔

٢۔ وہ آپ کو اپنی کامل راست بازی سے ڈھانکتا ہے۔

آپ کے گناہ اور شرم کے لئے خدا کے پاس کوئی دوسرا علاج نہیں ہے۔

خدا کا ادل بدل کا پروگرام

اپنی موت اور قیامت (جی اُٹھنے) کے وسیلہ سے خداوند یسوع مسیح نے ہمارا گناہ خود لے لیا اور  اِس کے بدلے وہ ہمیں راست بازی دیتا ہے۔ یہ خدا کا ادل بدل کا عظیم پروگرام ہے — میرے گناہ کے بدلے میں اُس کی راست بازی۔

کوئی شخص ایسی بلند پایہ اور حیرت انگیز پیش کش کو کیوں رد کرے گا؟

المناک حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت خدا کے اِس انتظام بلکہ اہتمام کو رد کرتی ہے۔ تاہم اُس کی پیش کش موجود ہے۔ جو لوگ خدا کی نجات کی بخشش کو قبول کرتے ہیں وہ سب راست باز ٹھہراۓ جاتے ہیں۔ جو لوگ اِس کا انکار کرتے ہیں اُنہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ کسی خیال اور عارضی اعراف (برزخ) میں نہیں بلکہ ابدی جہنم میں جو شیطان اور اُس کے فرشتوں (شیاطین/بدروحوں) کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

بہت سے مذہبی لوگ اِصرار کے ساتھ کہتے ہیں ”ہر ایک شخص کو اپنے گناہوں کی سزا برداشت کرنی پڑے گی“۔ ایک مفہوم میں یہ درست ہے کہ جو لوگ خدا کی معافی اور راست بازی کی بخشش کو رد کرتے ہیں اُنہیں یہ سزا واقعی برداشت کرنی پڑے گی۔ تاہم اُن کا گناہ کا قرض کبھی بے باق نہیں ہو گا، اِس لۓ کہ یہ دائمی قرض ہے۔ علاوہ ازیں گمراہ گنہگار اگرچہ آگ کی جھیل میں اپنے گناہ کا قرض چکاتے رہیں گے، لیکن وہ مطلوبہ راست بازی ہرگز حاصل نہ کر سکیں گے جو بہشت میں جانے کے لئے ضروری ہے۔ صرف خدا ہی وہ معافی اور راست بازی عطا کر سکتا ہے جو اُس کے ساتھ رہنے کے لئے ضروری ہے۔

نجات دہندہ کے آنے سے سات سو سال پیشتر یسعیاہ نبی نے خدا کے ادل بدل کے عظیم پروگرام کے بارے میں لکھا:

”ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے۔۔۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گۓ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔۔۔ مَیں خداوند سے بہت شادمان ہوں گا۔ میری جان میرے خدا میں مسرور ہو گی کیونکہ اُس نے مجھے نجات کے کپڑے پہناۓ۔ اُس نے راست بازی کے خلعت سے مجھے ملبس کیا“ (یسعیاہ ٦٤ : ٦ ؛ ٥٣ :٦ ؛ ٦١ :١٠ )۔

کیا آپ خدا کے حضور میں ابھی تک ناپاک لباس کی مانند ہیں؟ یا کیا آپ مسیح کے خون سے دُھل کر صاف ہو گۓ ہیں؟ کیا آپ اپنی راست بازی کا لباس پہنے ہوۓ ہیں یا اُس کی راست بازی کے خلعت سے ملبس ہیں؟

ساری بات ایک سوال پر ختم ہوتی ہے:

”ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟“

کیا آپ خدا کے پیغام پر ایمان لاۓ ہیں؟ کیا  آپ نے صرف اُس کی صداقت پر بھروسا کیا ہے اور باقی سب باتیں چھوڑ دی ہیں؟

”کہ تمہیں معلوم ہو“

خدا کا پاک کلام کہتا ہے: ” مَیں نے تم کو جو خدا کے بیٹے پر ایمان لاۓ ہو یہ باتیں اِس لئے لکھیں کہ تمہیں معلوم ہو کہ ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہو۔“ (١۔یوحنا ٥: ١٣ )

چند سال ہوۓ مَیں نے ایک بہت دین دار (مذہبی) خاتون سے ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو مسیحی کہتی تھی مگر وہ خدا کے مسیح کے وسیلے سے نجات کے اِنتظام پر توکل نہیں رکھتی تھی۔

جب مَیں نے اُس سے کہا ”مَیں جانتا ہوں کہ مرنے کے بعد مَیں بہشت میں جاؤں گا“ تو اُس نے قدرے بیزاری سے جواب دیا، ”اوہ! تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اِتنے نیک ہیں کہ سیدھے بہشت میں جائیں گے— ہے ناں؟“

مَیں نے جواب دیا ”بات یہ نہیں کہ مَیں “اِتنا نیک' ہوں بلکہ یہ کہ خدا اتنا نیک ہے، بھلا ہے۔ اُسی نے ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم اُس پر اور جو کچھ اُس نے کیا ہے اُس پر ایمان رکھیں تو ”ہم ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہیں'۔“

”کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے“ (رومیوں ٦: ٢٣ )۔

علی کو کیسے معلوم ہوا

اِس کتاب کے پہلے باب میں مَیں نے علی کا ذکر کیا تھا جسے خاندان والوں نے گھر سے نکال دیا تھا، کیونکہ وہ خدا کے پیغام پر ایمان لے آیا تھا۔

برونو کی طرح علی بھی چھبیس سال کا تھا جب میری اُس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ مگر وہ برونو کی طرح عیش و عشرت کا دلدادہ نہیں تھا، بلکہ اپنے مذہب کے شعائر پر خلوصِ دل سے عمل کرتا تھا— مقررہ طریقے سے ہر روز نمازیں پڑھنا، مہینہ بھر سالانہ روزے رکھنا اور دوسرے لوگوں سے نیک سلوک کرنے کی کوشش کرنا وغیرہ — لیکن اُسے باطنی تسلی اور اطمینان حاصل نہیں تھا۔ اور یہ احساس اُسے کھاۓ جاتا تھا۔

علی رات کو بستر پر پڑا جاگتا اور سوچتا رہتا تھا ” مَیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرتا ہوں پھر مجھے ابدیت کا اِتنا خوف کیوں ہے؟ اے اللہ! کیا کوئی طریقہ نہیں کہ مجھے معلوم ہو جاۓ کہ مرنے کے بعد مَیں کہاں جاؤں گا؟“

علی نے اپنا سوال اپنے باپ اور مقامی مذہبی راہنماؤں کے سامنے رکھا ”مجھے کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ خدا مجھے بہشت میں رکھے گا؟“ ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا ”تم نہیں جان سکتے۔ کوئی بھی اپنے مقدر کو نہیں جا سکتا۔ یہ صرف خدا ہی جانتا ہے۔“

لیکن اُن کے جواب سے علی کی تسلی نہ ہوئ۔

گھر میں اور سکول میں علی کو سکھایا گیا تھا کہ قرآن شریف بتاتا ہے کہ عیسی' ابنِ مریم صادق نبی تھے۔ آپ ایک کنواری سے پیدا ہوۓ۔ علی نے یہ بھی سیکھا تھا کہ عیسی' بہت معجزے کرتے تھے۔ اور آپ کے لقب ”المسیح (مسایاح)، کلمتہ اللہ اور روح اللہ“ ہیں۔ علی سوچنے لگا کہ شاید عیسی' وہ نبی ہے جو میرے سوال کا جواب دے سکتا ہے جو مَیں تلاش کر رہا ہوں۔

علی نے یسوع کے بارے میں کوئی کتاب تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے ہماری ملاقات ہو گئی۔ مَیں نے اُسے بائبل مقدس دی اور وہ بڑے شوق سے اُس کا مطالعہ کرنے لگا۔ کوئی سال بھر بائبل مقدس کا مطالعہ کرنے کے بعد علی کو جو کچھ معلوم ہوا وہ ہم اُسی کی زبانی پیش کرتے ہیں:

”مجھے معلوم ہوا کہ سارے نبی یسوع کی خبر دیتے ہیں۔ مَیں نے وہ حصہ پڑھا جہاں یسوع نے خود فرمایا کہ 'راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔۔۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے' “ (یوحنا ١٤ : ٦ ؛ ٥: ٢٤ )۔

” اِن آیتوں اور دوسری آیتوں سے مجھے یسوع کو قبول کرنے اور سمجھنے میں مدد ملی کہ وہ کون ہے — واحد نجات دہندہ جس نے نجات کو یقینی بنانے کے لئے اپنا خون بہایا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ مَیں اُس پر اور اِس حقیقت پر ایمان لایا کہ اُس نے میرے عوض میرے گناہوں کی خاطر دکھ اُٹھایا اور موا۔“

” جونہی مَیں ایمان لایا مَیں نے وہ باطنی تسلی اور اطمینان محسوس کیا جو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیسی زبردست تبدیلی آئی! اب مجھے اپنی ابدی منزل، اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں رہی کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ خداوند نے میرے گناہوں کی پوری سزا اُٹھا لی ہے۔ اب مَیں جانتا ہوں کہ مَیں جنت میں جاؤں گا مگر اِس لۓ نہیں کہ مَیں نیک ہوں بلکہ اُس فضل کی وجہ سے جو خدا نے یسوع مسیح کے وسیلے سے کیا۔ اب مَیں سب باتوں میں خدا کو پسند آنا چاہتا ہوں، اپنی نجات کمانے کے لئے نہیں بلکہ اِس لئے کہ خدا نے مجھے نجات بخشی ہے اور مجھے نیا دل عطا کیا ہے۔“

علی کے لئے گناہ کی لعنت پلٹ دی گئی ہے۔ آج وہ، اُس کی بیوی اور اُن کے بیٹے جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اِس دنیا میں کیوں موجود ہیں — تاکہ اپنے خالق اور مخلصی دینے والے کو جانیں، اُس سے محبت رکھیں اُس کی عبادت اور خدمت کریں اور دوسروں کی راہنمائی کریں کہ وہ اُسے جان لیں۔

موت — ایمان دار کی خادمہ

گناہ کی لعنت کو پلٹنے یعنی منسوخ کرنے کے لئے خدا نے سہ مرحلہ منصوبہ بنایا تھا۔ اِس دنیا میں اپنی پہلی آمد پر مسیح نے اِس منصوبے کا پہلا حصہ پورا کر دیا۔ اپنی زندگی، موت ، دفن اور جی اُٹھنے سے یسوع نے گناہ اور موت کی وہ دیوار ڈھا دی جس میں سوراخ کرنا بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ صلیب پر لٹکنے والا ڈاکو، آدم خور قبیلے کے لوگ، ایما، ساؤل، علی، برونو اور جو لوگ خدا کے پیغام کو سچا مان کر قبول کرتے ہیں وہ سب اُس سے فیض یاب ہیں۔

بے رحم، بے درد، ظالم موت کو مسیح میں ایمان داروں کے لئے ایک نیا منصب، ایک نئی نوکری دی گئی ہے۔ اِسے ایک ادنی' خادمہ بنا دیا گیا ہے کہ خدا کے حکم سے اُن (ایمان داروں) کے لۓ فردوس کا دروازہ کھولا کرے، جیسا کہ پاک کلام کہتا ہے، ”خداوند کی نگاہ میں اُس کے مقدسوں کی موت گراں قدر ہے۔“ (زبور  ١١٦ : ١٥ )

بائبل مقدس کی اصطلاح میں ”مقدس“ وہ شخص ہے جسے خدا نے ”الگ کیا ہے“، جسے اُس نے مخصوص کیا ہے، جسے خدا نے راست باز ٹھہرایا ہے کیونکہ وہ خدا کے معاف کرنے اور راست باز ٹھہرانے کے طریقے پر ایمان لایا ہے اور اُس پر توکل رکھتا ہے۔ کسی مرحوم (مر گۓ) شخص کو ”مقدس“ قرار دینے کی انساںوں کی بنائی ہوئ روایت بائبل مقدس کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے (دیکھئے استثنا ٣٣: ٢، ٣ ؛ امثال ٢: ٨ ؛ دانی ایل ٧: ٢١ ۔ ٢٧ ؛ متی ٢٧ : ٥٢ ؛ اعمال ٢٦ :١٠ ؛ افسیوں ١: ١ ؛ ٢: ١٩ )۔

کیا کسی کو کبھی خواب میں بھی خیال آیا تھا کہ ”موت“ کو بھی ”گراں قدر“ قرار دیا جا سکتا ہے؟ خدا کا شکر ہو کہ سارے ایمان داروں کے لئے ایسا ہے۔

”اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟۔۔۔مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ :٥٥ ۔ ٥٧ )۔

گناہ کی ماضی کی لعنت پلٹ گئی، منسوخ ہو گئی۔

۲۸
مرحلہ نمبر ٢ : خدا کا موجودہ پروگرام
خداوند خدا نے فرمایا ”مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا“ —(یرمیاہ ٣١ :٣٣ )۔

بہت سے لوگ تو گناہ کی ہلاکت خیز لعنت پر سوچتے بھی نہیں اور انسانوں کی اکثریت روزانہ لعنتوں کے بندھن میں زندگی گزارتی ہے۔

دنیا کے بے شمار لوگ بدنصیبی، مصیبت، بیماری اور موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اِس فکر اور بے چینی میں رہتے ہیں کہ کھانا اور کپڑے خریدنے کے لئے ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے، یا قرض ادا کرنے کو ہمارے پلے کچھ نہیں ہے۔ کئی لوگوں کو بدقسمتی، کالے جادو یا بُری نظر لگ جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی خوشی کا برملا اور بلند آواز سے اظہار نہیں کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بدخواہ خبیث روح سن لے اور ہمیں خوش کرنے والی چیز یا شخص پر بدقسمتی لا ڈالے۔ بعض لوگ بدروحوں، اور آفتوں کا توڑ کرنے کے لئے خود اور اپنے بچوں کو تعویذ پہناۓ یا باندھے رکھتے ہیں اور اپنے گھروں میں بھی رکھتے ہیں۔ بعض لوگ پانی یا شربت وغیرہ پر دم کرا کے پیتے ہیں یا حفاظت کے لئے  منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہتے ہیں۔ اُنہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ حفاظت کی خاطر یہ طریقے استعمال کرنے سے ہم دشمن کا ساتھ دے رہے ہیں اور اُس کی مدد کر رہے ہیں (دیکھئے استثنا ١٨ : ١٠ ۔ ١٤ ؛ یسعیاہ ٤٧ : ١٣ ؛ اعمال ١٩ :١٩ ؛ گلتیوں ٥: ٢٠ )۔

خدا کا شکر ہے کہ جو لوگ اپنے خالق اور فدیہ دینے والے کو جانتے اور اُس پر توکل رکھتے ہیں اُنہیں ایسے حفاظتی اِقدامات کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ برائی کی ساری قوتوں سے بے انتہا بڑا اور قادر ہے— خواہ یہ قوتیں خیالی ہوں یا حقیقی۔ ایمان دار کو کچھ بھی ڈرا نہیں سکتا کیونکہ خداوند یسوع کو موت سمیت ہر چیز پر اختیار اور قدرت حاصل ہے۔

خداوند یسوع نہ صرف گناہ کی لعنت کے اُس اثر کو پلٹنے آیا تھا جو وہ ہماری ابدی منزل پر ڈالتی ہے بلکہ گناہ کی لعنت کے اُس اثر کو بھی پلٹنے آیا تھا جو وہ ہماری روزانہ زندگی پر ڈالتی ہے۔

لعنت کو منسوخ کرنا: مرحلہ نمبر ٢

پاک کلام کہتا ہے ”اے بچو! تم خدا سے ہو اور اُن (شیطانی قوتوں) پر غالب آ گۓ ہو کیونکہ جو تم میں ہے وہ اُس سے بڑا ہے جو دنیا میں ہے۔“ (١۔یوحنا ٤:٤)

یہ ”وہ “ کون ہے جو ایمان دار میں ہے؟

مصلوب ہونے سے پہلے کی رات کو یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:

”مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا روح جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا—

مَیں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ مَیں تمہارے پاس آؤں گا۔۔۔ مَیں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں، لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھاۓ گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلاۓ گا۔ مَیں تمہیں اطمینان دیۓ جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دل نہ گھبراۓ اور نہ ڈرے“ (یوحنا ١٤ :١٦ ۔ ١٨ ؛ ٢٥ ۔ ٢٧ )۔

دوسرا مددگار

یسوع نے اپنے شاگردوں سے وعدہ کیا کہ مَیں آسمان پر واپس جاؤں گا تو باپ تمہیں ”دوسرا مددگار بھیجے گا۔۔۔ یعنی سچائی کا روح“ — روح القدس۔

یونانی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ ”مددگار“ کیا گیا ہے وہ ہے ”فارقلیط“ جس کا مطلب ہے مددگار، تسلی دینے والا، شفیع، وکیل یا ایڈووکیٹ۔ پاک کلام میں لفظ فارقلیط خدا کا بیٹا اور خدا کا پاک روح دونوں کے لۓ استعمال ہوا ہے۔ جیسے بیٹا گنہگاروں کو گناہ کی سزا سے بچانے کے لئے آیا اِسی طرح روح القدس ایمان داروں کو گناہ کے اختیار سے چھڑانے کے لئے آیا۔

روح القدس ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ہے جیسے کہ بیٹا ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ہے۔ اِسی لۓ خدا کی کتاب (بائبل مقدس) کے شروع کے اعلان میں اُس کی پہچان ”خدا کی (کا) روح“ کہہ کر کرائ گئی ہے (پیدائش ١: ٢ )۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ”مددگار“  یعنی روح القدس ”جبرائیل فرشتہ ہے، یا کوئی نبی ہے جو بعد میں آنے والا تھا۔“ یہ کہنا نہ صرف نبیوں کے صحیفوں کی تردید ہے بلکہ جو کچھ یسوع نے کہا اور کیا اُس کے بھی بالکل خلاف ہے۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مَیں صلیب پر مروں گا اور جی اُٹھوں گا اور آسمان پر چڑھ جاؤں گا۔ اِس کے بعد روح القدس نازل ہو گا اور اُن سب کے دلوں میں سکونت کرے گا جو خدا کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں۔ بیٹا آسمان پر جاۓ گا اور روح القدس آسمان سے نازل ہو گا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ”میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر مَیں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آۓ گا۔ لیکن اگر جاؤں تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔“ (یوحنا ١٦ :٧ )

تاریخ میں اِس موقع تک روح القدس وقتاً فوقتاً ایمان داروں کے ساتھ ہوتا تھا، اُنہیں طاقت اور توفیق دیتا تھا، اُن کی راہنمائی کرتا اور اُنہیں برکت دیتا تھا۔ لیکن جب یسوع نے دنیا کے گناہ کا مسئلہ حل کر دیا تو اس کے بعد ہی یہ ہوا کہ روح القدس ایمان داروں کے اندر مستقل سکونت کرنے کے لۓ آ سکا۔

خداوند یسوع ایک بہت اہم اور خصوصی واقعہ کا اعلان کر رہا تھا ”سچائی کا روح ۔۔۔ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔“ (یوحنا ١٤ : ١٧ )

روح القدس کی آمد

پاک کلام بیان کرتا ہے کہ یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد:

یسوع نے ”اُن سے مل کر اُن کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پورا ہوںے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو، کیونکہ یوحنا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔۔۔ جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے“ (اعمال ١: ٤ ، ٥ ، ٨)۔

اور یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے پچاس دن بعد اور آسمان پر جانے کے دس دن بعد عیدِ پینتی کوست کے روز یہی واقعہ ہوا۔

پینتی کوست کا مطلب ہے ”پچاسواں“۔ یہ پرانے عہدنامے کے زمانے کی ایک عید ہے جس میں اسرائیلی خدا کی برکتوں کے لۓ اُس کی شکرگزاری کرتے ہیں (احبار ٢٣ : ١٦ )۔ شروع ہی سے خدا کا منصوبہ تھا کہ وہ آخری، قطعی اور اصل برکت— روح القدس — اِس دن نازل کرے گا۔

”جب عیدِ پینتی کوست کا دن آیا تو وہ سب (یسوع کے شاگرد) ایک جگہ جمع تھے کہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئ جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا اور اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گۓ۔۔۔“ (اعمال ٢: ١۔ ٤ )۔

نئے عہدنامے میں یہ حیرت انگیز واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے (دیکھئے اعمال باب ٢ )۔ روح القدس کی طاقت سے یسوع کے شاگرد بہت سی مختلف زبانوں میں خدا کا پیغام سنانے لگے۔ اُس وقت ایشیا، عرب اور دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت سے لوگ عیدِ پینتی کوست منانے کے لئے یروشلیم میں جمع تھے، جو یہ مختلف زبانیں بولتے تھے۔ جس روز روح القدس نازل ہوا تقریباً تین ہزار افراد خدا کے پیغام پر ایمان لاۓ اور اُنہوں نے ہمیشہ کی زندگی کی بخشش حاصل کی۔ ایمان داروں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی۔

اعمال کی کتاب میں مسیح پر ایمان لانے والے پہلے ایمان داروں کی تاریخ بیان کرتی  اور بتاتی ہے کہ جی اُٹھے مسیح کی خوش خبری کس طرح ساری رومی سلطنت میں پھیل گئ۔ تلوار کے زور پر نہیں بلکہ خدا کی محبت کے زور سے اور روح القدس کے وسیلہ سے۔

بلاۓ گۓ/ الگ کۓ گۓ

موجودہ دَور میں اِس دنیا میں خدا کا خاص پروگرام ہے کہ ”غیر قوموں میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے“ (اعمال ١٥ : ١٤ )۔

پینتی کوست کے دن روح القدس کے نزول نے ایمان داروں کے ایک خاص خاندان کو جنم دیا جسے کلیسیا کہتے ہیں۔ کلیسیا کے لئے اصل یونانی زبان میں لفظ ”اکلیسیا“ ہے جس کا مطلب ہے ”مجلس“ (اجتماع) یا ”۔۔۔ میں سے بلاۓ گئے“ یا ”الگ کۓ گۓ“۔ آج کل لفظ ”کلیسیا“ جو ”اکلیسیا“ کا مورّد ہے بہت سے غلط یا مبہم معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ مثلاً مسیحیوں کے کسی فرقہ، جماعت یا گروہ کو بھی ”کلسیا“ کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں وہ اپنے کردار اور اعمال سے مسیح کی کھلم کھلا بے عزتی کرتے ہیں۔ وہ ”مذہب“ کے پیروکار تو ہوتے ہیں، لیکن خدا کے ساتھ اصلی اور حقیقی رشتہ نہیں رکھتے۔ اُن کے گناہ یسوع کے خون کے وسیلہ سے کبھی دھوۓ نہیں گۓ۔

اچھی خبر یہ ہے کہ خدا ہر جگہ سارے لوگوں کو بلاتا ہے کہ میرے بیٹے پر ایمان لاؤ اور میرے خاص نۓ مخلوق بن جاؤ اور لے پالک بن کر میرے خاندان میں شامل ہو جاؤ جو ابد تک میرے ساتھ رہے گا۔

وہ سب لوگ جو یسوع کے اِس دنیا میں آنے سے پہلے (پرانے عہدنامے کے زمانے میں) خدا کے وعدوں پر ایمان لاۓ وہ خدا کے خاندان کا حصہ ہیں۔ لیکن جو لوگ یسوع کے دنیا کے آنے کے زمانے سے لے کر ایمان لاۓ ہیں صرف وہی اُس زندہ جماعت کا حصہ ہیں جسے کلیسیا کہا جاتا ہے۔ کلیسیا کو ”مسیح کا بدن“ اور  ”مسیح کی دلہن“ بھی کہا جاتا ہے (١۔کرنتھیوں ١٢ : ٢٧ ؛ افسیوں ٤: ٢١ : ٥: ٢٥ ۔ ٣٢ ؛ مکاشفہ ١٩ : ٧ ۔ ٩ ؛ ٢٢ : ١٧ ؛ یوحنا ٥: ٢٩ )۔

جو لوگ خداوند یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں کلام پاک اُن سب سے کہتا ہے کہ:

”تم ایک برگزیدہ نسل ہو۔۔۔ جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔ پہلے تم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو“ (١۔پطرس ٢: ٩ ، ١٠ )۔

بائبل مقدس کے پہلے دو  باب بیان کرتے ہیں کہ ابتدا میں خدا نے انسانوں کو اپنے خاص مخلوق بنایا۔ تیسرا باب بتاتا ہے کہ کس طرح آدم نے گناہ کیا اور اپنے آپ کو اور انسان کی ساری نسل کو خدا سے جدا کر دیا۔ اور بعد کے صحائف بتاتے ہیں کہ خدا نے انتظام کیا کہ ناپاک گنہگار دوبارہ اُس کی ”خاص اُمت“ بن جائیں۔

کیا آپ خدا کی ”خاص اُمت“ کا حصہ ہیں؟ اگر ہیں تو آپ لعنت کو پلٹنے کے خدا کے پروگرام کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

نجات یافتہ اور مہر بند

جو شخص خدا کی نجات کی بخشش کو قبول کر لیتا ہے روح القدس اُس کی زندگی میں پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اُسے نئی زندگی دیتا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ پر اور اپنی کوششوں پر بھروسا کرنا چھوڑ کر یسوع مسیح اور اُس کے مخلصی کے کام پر بھروسا رکھتے ہیں وہ روحانی طور سے روح القدس کے وسیلہ سے نئے سرے سے پیدا ہوتے ہیں۔

یسوع نے فرمایا ”جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا تمہیں نۓ سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔۔۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لاۓ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ“ (یوحنا ٣: ٦۔ ٧ ، ١٦ )۔

”نئے سرے سے پیدا ہونا“ کتنی عجیب اور اعلی' بات ہے! گنہگار کے لئے روحانی طور سے نئے سرے سے پیدا ہونا اپنی ساری پیچیدہ یکتائی کے ساتھ زندہ خدا کا کام ہے۔ نئی پیدائش اِس لئے ممکن ہوئ کہ باپ نے اپنے بیٹے کو بھیجا، بیٹے نے گناہ کی خاطر اپنا خون بہایا اور روح القدس ایمان دار میں نئی زندگی اُنڈیلتا ہے۔

روح القدس ہمیں نہ صرف نئی زندگی دیتا ہے بلکہ ہم پر ہمیشہ کے لئے مہر کر دیتا ہے— نشان لگا دیتا ہے کہ ہم خدا کی خاص ملکیت ہیں اور ہمارے اندر مستقل سکونت کرنے لگتا ہے۔ روح القدس یہ ضمانت بھی دیتا ہے کہ اِس دنیا سے رُخصت ہونے کی ہماری باری آۓ گی تو ہم سلامتی سے باپ کے گھر میں پہنچیں گے۔

”۔۔۔ اُسی میں تم پر بھی جب تم نے کلامِ حق کو سنا جو تمہاری نجات کی خوش خبری ہے اور اُس پر ایمان لاۓ پاک موعودہ روح کی مہر لگی۔ وہی خدا کی ملکیت کی مخلصی کے لۓ ہماری نجات کا بیعانہ ہے“ (افسیوں ١: ١٣ ۔ ١٤ )۔

کوئی چیز بھی وجہ نہیں بن سکتی جس سے ایمان دار اپنی ابدی زندگی سے محروم ہو جاۓ۔ ”روح القدس ۔۔۔ بیعانہ ہے۔“

کیا دوبارہ گناہ کرنے کی آزادی ہے؟

کئی دفعہ لوگ تُنک مزاجی سے کہتے ہیں ”ٹھیک ہے، مجھے یہ ضمانت (پکا یقین) حاصل کرنے کے لئے کہ فردوس میں میرے لۓ جگہ محفوظ ہے صرف یہی کرنا ہے کہ ایمان لے آؤں کہ یسوع میرے گناہوں کی خاطر مر گیا۔ یہ ضمانت مل گئ تو پھر جیسے چاہوں گناہ کرتا رہوں۔ ٹھیک ہے ناں؟“

اِسی منطق کے مطابق اگر آپ جنگل بیابان میں گم گۓ ہوں، راستہ ملنے کی اُمید نہ ہو اور کوئی شخص وہاں سے آپ کو نکال کر بچا لے تو کیا آپ اُس بچانے والے کو کہیں گے ”شکریہ! اب مَیں آزاد ہوں کہ دوبارہ وہیں گم ہو جاؤں، بھٹک جاؤں!“؟

یا قرض خواہ آپ کو ایک بڑی رقم معاف کر دے تو کیا آپ دیدہ دانستہ وہ کام کریں گے جس سے اُسے بُرا  لگے، جس سے وہ ناراض ہو؟

یا آپ صاف ستھرے اور خوب اِستری کۓ گۓ کپڑے پہن کر سوچیں گے ”بہت خوب! اب مَیں جا کر کیچڑ یا مٹی میں لوٹنیاں لگا سکتا ہوں“؟

ایسی ذہنیت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

لیکن جب گناہ اور اِس کے نتائج کا معاملہ ہو تو آدم کی اولاد کیوں ایسا سوچتے ہیں؟

جواب تو ظاہر ہے۔ ہمارے دل و دماغ پر گناہ کی گرفت بہت مضبوط ہے یہاں تک کہ ہم قائل ہو جاتے ہیں کہ گناہ ایک اچھی اور پسندیدہ چیز ہے۔ بے شک یہ نقطہ نظر نیا نہیں ہے۔ آدم اور حوا نے بھی گناہ کو —ممنوعہ پھل کھانے کے امکان کو ”عقل بخشنے کے لۓ خوب“ مان لیا تھا (پیدائش ٣: ٦)۔

سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ جس لمحے کوئی گنہگار خدا کے پیغام پر ایمان لے آتا ہے اُسی لمحے سے وہ گناہ کے ویران بیابان میں بھٹکا اور کھویا ہوا نہیں رہتا۔ اُس کا بھاری قرض پورا پورا چکا دیا جاتا ہے۔ اب ایمان دار مسیح کی کامل راست بازی سے ملبس ہو گیا ہے۔

روح القدس خدا کے اِس نومولود فرزند کے دل میں یہ پاکیزہ قائلیت پیدا کر دیتا ہے کہ گناہ کوئی اچھی چیز نہیں بلکہ بُری ہے۔ وہ خدا کے لوگوں کو طاقت اور توفیق عطا کرتا ہے کہ ایسی زندگیاں گزرایں جن سے خدا کی ذات اور صفات منعکس ہوں۔ آسمانی خاندان کا فرد ہونے کے باعث خدا کا نومولود فرزند ایسی زندگی گزارنے کا آرزو مند ہوتا ہے جس سے خاندان کی عزت اور وقار قائم رہے۔

ممکن ہے کہ ایمان دار روح القدس کو نظر انداز کریں اور اپنے طرزِ زندگی سے خداوند کو بے عزت کریں۔ لیکن یہ مہمان مسیح کے سارے سچے ایمان داروں کے اندر سکونت کرتا ہے۔ اِسی لۓ پاک کلام مسیح پر ایمان لانے والوں سے کہتا ہے:

”خدا کے پاک روح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دن کے لئے مُہر ہوئی“ (افسیوں ٤: ٣٠ )۔

خداوند یسوع پر ایمان رکھنے والے لوگ اپنی نجات سے کبھی محروم نہیں ہو سکتے جو اُنہوں نے ایمان سے حاصل کی ہے۔ لیکن وہ بے ایمانوں جیسے کام کرنے سے ”خدا کے پاک روح کو رنجیدہ“ کر سکتے ہیں۔ خدا کے لوگ اِس دنیا میں تو ہیں، لیکن ”جس طرح وہ (یسوع) دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ١٧ : ١٦ )

جس طرح خداوند یسوع اِس دنیا کے بے دینی کے کاموں سے نفرت کرتا ہے اُس کے شاگردوں کو بھی کرنی چاہۓ۔

”پس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو؟ ہرگز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اُس میں آئندہ کو زندگی گزاریں؟“ (رومیوں ٦ : ١، ٢)

”پس اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرام کاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بت پرستی کے برابر ہے کہ اُن ہی کے سبب سے خدا کا غضب نافرمانی کے فرزندوں پر نازل ہوتا ہے۔ اور تم بھی جس وقت اُن باتوں میں زندگی گزارتے تھے اُس وقت اُن ہی پر چلتے تھے۔ لیکن اب تم بھی اِن سب کو یعنی غصہ اور قہر اور بدخواہی اور بدگوئی اور منہ سے گالی بکنا چھوڑ دو، ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولو کیونکہ تم نے پرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار ڈالا اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہے جو معرفت حاصل کرنے کے لئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے“ (کلسیوں ٣: ٥۔ ١٠ )۔

ایمان دار میں خدا کی زندگی

جیسے خدا کا بیٹا ایمان لانے والے گنہگاروں کو گناہ کی سزا سے بچانے اور چھڑانے کو آیا ویسے ہی خدا کا روح ایمان داروں کو گناہ کے روزانہ اختیار سے بچانے اور چھڑانے آیا ہے۔

اور یہ کام اِس طرح ہوتا ہے:

جس لمحے کوئی شخص مسیح پر ایمان لاتا اور اُس پر بھروسا کرتا ہے اُسی لمحے خدا کا روح اُس شخص کے دل و جان میں آ کر اپنی بادشاہی قائم کر لیتا ہے۔ اور دل و جان ہی انسان کو اختیار میں رکھنے یعنی کنٹرول کرنے کا مرکز ہے۔ وہ ایمان دار کو نئی انسانیت (نئی طبیعت، نیا مزاج) عطا کرتا ہے جو خداوند کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس شخص کا خود غرض اور گناہ پر آمادہ مزاج جاتا رہتا یا ختم ہو جاتا ہے۔ پُرانی انسانیت (طبیعت، مزاج) تو اُس وقت مٹے گی اور ختم ہو گی جب ایمان دار جنت میں پہنچے گا۔ اِس دنیا میں ایمان دار کامل بے گںاہی کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے۔ تاہم جب کبھی وہ خداوند کو رنجیدہ یا ناخوش کریں اُنہیں بہت افسردہ اور غمگین ہونا چاہئے۔ (١۔یوحنا ١: ٨۔١٠ ؛ ٢: ١، ٢ ؛ رومیوں ابواب ٢۔ ٦ )

ہر سچے ایمان دار کی زندگی میں پرانی انسانیت (سرشت جو آدم سے ورثے میں ملی ہے) اور نئی انسانیت (جو روح القدس نے عطا کی ہے) کے درمیان ایک لڑائی جاری رہتی ہے۔ ایمان دار کے اندر سکونت کرنے والا مسیح کا روح اُس میں دلی آرزو پیدا کرتا ہے کہ مَیں خدا کو خوش کروں۔ وہ اپنے لوگوں کو سکھاتا ہے کہ گناہ صرف ”چند روزہ لطف“ (عبرانیوں ١١: ٢٥ ) مہیا کرتا ہے۔ اور ”اِن کا انجام تو موت ہے، مگر اب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تم کو اپنا پھل ملا“ (رومیوں ٦: ٢١ ۔ ٢٢ )۔ روح القدس ایمان دار کے اندر زبردست تبدیلی پیدا کرتا ہے۔

”۔۔۔ روح کا پھل

محبت، خوشی، اطمینان،

تحمل، مہربانی، نیکی،

ایمان داری، حلم، پرہیزگاری ہے۔

ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں“ (گلتیوں ٥: ٢٢)۔

اپنی کوششوں کو اہمیت دینے والے مذہب روحانی پھل پیدا نہیں کرتے۔ مذہبی قوانین اور احکام انسان کے ظاہری کردار اور رویے کو بہتر تو بنا سکتے ہیں، اِس کی اصلاح تو  کر سکتے ہیں، لیکن صرف روح القدس ہی اُس کی باطنی فطرت کو تبدیل کر سکتا ہے۔

خدا آپ کی  زندگی میں اپنا قانون نافذ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن قاںون قاعدوں یا حکموں کی ایک فہرست دینے کے بجاۓ وہ آپ کے وسیلے سے اور آپ میں اپنی زندگی گزارتا ہے تاکہ دوسرے لوگ برکت پائیں اور اُس کے ںام کا جلال ظاہر ہو۔

فہرستیں یا محبت؟

ایک آدمی کا واقعہ بتایا جاتا ہے کہ اُس کی بیوی فوت ہو گئی تو اُس نے ایک عورت کو نوکر رکھا کہ ہفتے میں تین دن اُس کے گھر کی صفائی کیا کرے اور کپڑے دھو دیا کرے۔ اُس نے ریفریجر یٹر پر اُن کاموں کی لسٹ لگا دی جو وہ اُس عورت سے کرانا چاہتا تھا۔ اور ہاں، وہ اُس کے کام کی اُجرت ادا کرتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس آدمی کو اُس عورت سے محبت ہو گئی اور اُس نے اُس عورت سے کہا کہ مجھ سے شادی کر لے۔ شادی ہو گئی تو اُس آدمی نے ریفریجریٹر سے وہ فہرست اُتار دی اور اُس کی تنخواہ بھی بند کر دی۔ کیوں؟ کیونکہ اب وہ نوکرانی اُس کی محبوب بیوی بن گئ تھی! اب وہ خوشی سے گھر کی صفائی کرتی، کپڑے دھوتی اور بہت سے وہ کام کرتی تھی جو فہرست میں نہیں ہوتے تھے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اُسے اپنے شوہر سے محبت تھی اور وہ اُس کی خدمت کرنا اور اُسے خوش رکھنا چاہتی تھی۔ کاموں اور حکموں کی فہرست اب ریفریجریٹر پر نہیں بلکہ اُس کے دل میں تھی۔

جو لوگ خدا کی ملکیت ہیں وہ اُن کے لئے ایسا ہی کرتا ہے:

”مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا“ (یرمیاہ ٣١: ٣٣ )۔

ریفریجریٹر پر لٹکی فہرست کی طرح انسان کا مذہب فرائض کی ایک فہرست پیش کرتا ہے جنہیں پورا کرنا ضروری ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اُمید ہے کہ عدالت کے دن اگر خدا کی مرضی ہوئی تو اِن کے لئے ”ادائیگی“ ہو جاۓ گی— یعنی اِن کاموں کا اجر مل جاۓ گا۔

فرائض کی ایک لمبی فہرست آپ پر ٹھونسنے کے بجاۓ خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہمیں یہ آرزو دے گا کہ ہم محبت بھرے دل سے اُس کی عبادت کریں اور اُسے خوش کریں۔

آئین و قوانین کی فہرستوں والے مذہب کی نسبت محبت کا رشتہ نیک کام کرنے کی بہتر تحریک پیدا کرتا ہے۔

”۔۔۔ محبت شریعت کی تعمیل ہے“ (رومیوں ١٣ :١٠ )۔

مذہب آپ سے نئی زندگی اور فردوس میں جگہ دینے کا وعدہ کرتا ہے، لیکن صرف روح القدس ہی یہ دے سکتا ہے۔ صرف وہی ہے جو آپ کو خدا کی محبت، خوشی، اطمینان اور ابدی محافظت سے معمور کر سکتا ہے۔

”۔۔۔ اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ روح القدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اُس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے“ (رومیوں ٥:٥ )۔

خوشیوں بھری فرماں برداری

یہ حقیقت ہے کہ ایمان داروں کے دل خدا کی محبت سے ایسے معمور ہیں کہ چھلک رہے ہیں۔ اور اسی محبت سے وہ خداوند کی عبادت کرتے اور لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُںہیں کوئی حکم نہیں دیئے گۓ جن کی پابندی کرنا لازم ہے۔ مثال کے طور پر آسمان پر جانے سے پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:

”آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں“ (متی ٢٨ : ١٨ ۔ ٢٠ )۔

یسوع نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ ”سب قوموں“ میں نجات کی خوش خبری کی منادی کرو۔ کوئی شخص خدا کی نجات کی بخشش کو قبول کر لے تو اِس کے بعد اُس کو بتاںا اور سکھانا ضروری ہے کہ ”اُن سب باتوں پر عمل کریں“ جن کا یسوع نے حکم دیا ہے۔ مثال کے طور پر یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور دلی خوشی سے سب کے خادم بنو۔ مسیح کے پیروکاروں کا شوق اور جذبہ یہ ہونا چاہئے کہ ساری دنیا واحد حقیقی خدا کو جانے، اُس پر توکل رکھے اور اُس کی حمد اور تعریف کرے۔

یسوع نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا کہ نۓ ایمان داروں کو” باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔“ غور کریں کہ ”نام“ واحد ہے۔ جمع کا صیغہ نہیں کہ ”ناموں سے بپتسمہ دو۔“

جو لوگ مانتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں اور یسوع کی زندگی، موت اور جی اُٹھنے پر  ایمان لاتے ہیں صرف وہی واحد حقیقی خدا کے ساتھ جو باپ، بیٹا اور روح القدس ہے ابدی رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔

جو لوگ خدا کے اِس پیغام پر ایمان لاتے ہیں اُنہیں کسی دریا یا پانی کے کسی اَور ذخیرے میں بپتسمہ لینے سے اِس ایمان کو ظاہر کرنا چاہئے۔

بپتسمہ کیوں؟

کیا ضروری ہے کہ گناہوں سے پاک صاف ہونے کے لئے ایمان دار کو غوطہ دیا جاۓ؟ نہیں جو کام یسوع نے اپنی موت اور جی اُٹھنے کے وسیلے سے کیا اُس کی وجہ سے خدا نے ایمان دار کو پہلے ہی پاک صاف کر دیا اور راست باز ٹھہرا دیا ہے۔ پانی کا بپتسمہ باطنی حقیقت کا ظاہری نشان یا علامت ہے۔ ہم نے ایک دفعہ خدا کے پیغام کا یقین کر لیا یعنی اُس پر ایمان لے آۓ تو ہمیں اپنے نجات دہندہ اور نئے مالک (یسوع) کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بپتسمہ لینا چاہئے۔ لیکن یہ بپتسمہ ہمیں بہشت کا اہل نہیں بناتا۔

جس وقت آپ اپنی غلط سوچ سے توبہ کرتے اور خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کے گناہوں کی خاطر موا اور زندہ ہوا اُسی وقت آپ ”مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ“ پا لیتے ہیں (رومیوں ٦: ٣)۔ یہ بپتسمہ پانی سے نہیں ہوتا (وہ تو بعد میں ہو گا) بلکہ روح القدس کا بپتسمہ ہے (رومیوں ٦: ١۔ ٥ ؛ اعمال ١: ٥ ؛ ١۔کرنتھیوں ١٢ ۔ ١٣ )۔ ”شامل ہونے کا بپتسمہ“ کا مطلب ہے ”۔۔۔کے ساتھ ایک ہونا۔۔۔ کے مشابہ ہونا۔۔۔ کے ساتھ پہچانا جانا۔“ جب کوئی ایمان لاتا ہے تو خدا کے اپنے خاندان کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ خاندان اُن سب سے مل کر بنا ہے جو خدا کے بے گناہ بیٹے ”کے ساتھ پیوستہ ہو گئے ہیں“ (رومیوں ٦: ٥ )۔ آپ کی نئی اور ابدی حیثیت ”مسیح میں“ ہے۔

چنانچہ پانی کے بپتسمہ کا مقام کیا ہے؟ یہ دیدنی علامت یا نشان ہے کہ ایمان دار خداوند یسوع کی موت، دفن اور جی اُٹھنے میں اُس (یسوع) کے ساتھ پیوستہ ہو گیا ہے، اُس کے مشابہ ہے۔ بپتسمہ تو ایک طریقہ ہے جس سے ایمان دار اظہار یا اعلان کرتے ہیں کہ ہم خدا کے مخلصی کے منصوبے پر ایمان رکھتے ہیں۔ پانی موت کی علامت ہے۔ جب کسی کو پانی میں غوطہ دیا جاتا ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ ”یسوع میرے گناہ کی خاطر موا اور دفن ہوا۔“ اور جب وہ پانی سے باہر آتا ہے تو ظاہر کرتا ہے کہ ”یسوع نے میرے لئے موت کو مغلوب کیا۔ میری خاطر یسوع کے مرنے، دفن ہونے اور جی اُٹھنے سے مَیں گناہ سے پاک صاف کیا گیا، راست باز ٹھہرایا گیا اور مجھے ہمیشہ کی زندگی بخشی گئی ہے۔“

اِس بات کو سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ خدا کے حضور گنہگار کی قبولیت کی بنیاد صرف یسوع مسیح کی راست بازی اور اُس کا پورا کیا ہوا کام ہے۔ مَیں معافی یافتہ ہونے کی حیثت سے جانتا ہوں کہ مَیں ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہوں گا، لیکن اِس لئے نہیں کہ مَیں نیک ہوں بلکہ اِس لۓ کہ مَیں ”اُس میں پایا گیا ہوں۔ نہ اپنی اُس راست بازی کے ساتھ جو شریعت کی طرف سے ہے بلکہ اُس راست بازی کے ساتھ جو مسیح پر ایمان لانے کے سبب سے ہے اور خدا کی طرف سے ایمان پر ملتی ہے“ (فلپیوں ٣: ٩)۔

انسانی مذہب سکھاتے ہیں کہ اپنے آپ سے اور اپنے کاموں سے اُمید رکھو۔ خدا کی انجیل سکھاتی ہے کہ مسیح اور اُس کی بے عیب راست بازی سے اُمید رکھو۔

کیا ایمان داروں کی عدالت نہیں ہو گی؟

گنہگاروں کو ابدی ہلاکت سے بچانے کے لئے جو کچھ ضروری تھا وہ سب کر دیا گیا ہے۔ اِس حقیقت سے ذہنوں میں ایک اَور سوال اُبھرتا ہے جو ایک ای میل بھیجنے والے شخص نے بھی پوچھا تھا:

ای میل

” اگر یسوع نے گنہگاروں کو ابدی ہلاکت سے بچانے کے لئے صلیب پر اپنی جان دے دی ہے تو  کیا اِس سے عدالت کے دن کا مقصد مفقود ہو گیا ہے؟ “

نہیں، ہمارے گناہوں کی خاطر یسوع کا صلیب پر خون بہانا اِس حقیقت کی نفی نہیں کرتا کہ ایمان داروں کو بھی خدا کے حضور حساب دینا پڑے گا۔ بائبل مقدس کہتی ہے ”وہ وقت آ پہنچا ہے کہ خدا کے گھر سے عدالت شروع ہو اور جب ہم ہی سے شروع ہو گی تو اُن کا کیا انجام ہو گا جو خدا کی خوش خبری کو نہیں مانتے ؟“ (١۔پطرس ٤: ١٧ )

عدالت کے دو دن

بائبل مقدس صاف صاف بتاتی ہے کہ عدالت کے بالکل الگ الگ دو دن ہوں گے۔ پہلے راست بازوں کی قیامت اور  عدالت ہو گی اور آخر میں ناراستوں کی قیامت اور عدالت ہو گی (٢۔کرنتھیوں ٥: ١٠ — مزید دیکھئے اعمال ٢٤ : ١٥ ؛ لوقا ١٤:١٤ ؛ یوحنا ٥: ٢٨ ۔ ٢٩ ؛ دانی ایل ١٢ :٢ ؛ مکاشفہ ٢٠ :٦، ١١۔ ١٥ ؛ ٢٢ :١٢ )۔

بائبل مقدس پانچ تاجوں (اجر) کا ذکر کرتی ہے جو ایمان داروں کو ملیں گے (١۔کرنتھیوں ٩: ٢٥۔ ٢٧ ؛ ١۔پطرس ٥:٤ ؛ یعقوب ١: ١٢ ؛ ١۔تھسلنیکیوں ٢: ١٩، ٢٠ ؛ ٢۔ تیمتھیس)۔ یہ تاج ہماری اپنی عزت اور شان کے لئے نہیں ہیں بلکہ مسیح یسوع کے جلال کے لئے ہیں (مکاشفہ ٤: ١٠ )۔ خدا کے مخلصی یافتہ لوگوں نے اُس کے نام سے اور اُس کے جلال کی خاطر جو نیک کام کۓ ہیں وہ اُن میں سے ایک کو بھی نہیں بھولے گا (متی ١٠: ٤١ ، ٤٢ ؛ عبرانیوں ٦: ١٠ )۔

  • راست بازوں کی عدالت:ہم عدالت کے اِس دن میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مسیح کے اِس تختِ عدالت کے سامنے یہ سوال نہیں ہو گا کہ حاضرین کو جنت میں بھیجا جاۓیا جہنم میں۔ وہ پہلے ہی اِس بنیاد پر جنت میں ہوں گے کہ اپنی زمینی زندگی کے دوران اُنہوں نے خدا کی راست بازی کی بخشش قبول کر لی تھی۔ تاہم خدا اُن کے کاموں کے پیچھے اُن کی نیت اور کاموں کی قدر و قیمت کا جائزہ لے گا۔ اِس کی بنیاد پر اُن کو اجر ملے گا یا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ وہ ایمان دار جس نے خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزاری، فروتنی سے دوسروں کی خدمت کی، آزمایشوں میں خدا پر بھروسا رکھا، اُس کے کلام سے محبت رکھی اور اُسے پھیلایا، اُس کی منادی کی اور صبر اور توقع کے ساتھ خداوند کی واپسی (دوسری آمد) کا انتظار کرتا رہا اُسے تو اجر ملے گا، لیکن خود پرست ایمان دار ”خود (تو) بچ جاۓ گا ، مگر جلتے جلتے“ (١۔کرنتھیوں ٣: ١١۔ ١٥ )۔ بائبل مقدس پانچ مختلف ”تاجوں“ کا ذکر کرتی ہے جو ایمان داروں کو ملیں گے اور جنہیں وہ شکر گزاری کے ساتھ سجدہ کرتے ہوۓ خداوند کے قدموں میں رکھ دیں گے (مکاشفہ ٤: ١٠ )۔ ”ہم تو سب خدا کے تختِ عدالت کے آگے کھڑے ہوں گے۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا“ (رومیوں ١٤ : ١٠، ١٢ )۔
  • ناراستوں کی عدالت:ہم اِس ہولناک عدالت میں شامل نہیں ہونا چاہتے جو بڑے سفید تختِ عدالت کے سامنے ہو گی۔ یہ دہشت ناک واقعہ اُن سب کے لئے ہو گا جو اپنے گناہوں میں مرے کیونکہ اپنی زمینی زندگی کے دوران خدا کے نجات کے انتظام کو قبول نہ کیا۔ کوئی سوال نہیں ہو گا کہ وہ جنت میں جائیں گے یا جہنم میں۔ وہ سب آگ کی جھیل میں ڈالے جائیں گی، البتہ ہر ایک کو فرق فرق سزا ملے گی۔ سزا اِس اندازے کے مطابق ہو گی کہ جو سچائی اُن کے پاس  تھی اُس کے ساتھ کیا کیا — ”اُن کے اعمال کے مطابق مُردوں کا انصاف کیا گیا۔۔۔ پھر موت اور عالمِ اَرواح آگ کی جھیل میں ڈالے گۓ۔ یہ آگ کی جھیل دوسری موت ہے اور جس کسی کا ںام کتابِ حیات میں لکھا ہوا نہ ملا وہ آگ کی جھیل میں ڈالا گیا“ (دیکھئے مکاشفہ ٢٠: ١٢ ۔ ١٥ )۔

خوش خبری یہ ہے کہ اِن الفاظ کو پڑھنے والوں میں سے کسی کو ہلاک ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ خداوند یسوع سب کو گناہ کی سزا سے آزاد ہونے کی دعوت دیتا ہے۔

خدا کے فرزند

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ جونہی آپ خداوند یسوع مسیح پر اور اُس کے پورے کۓ گۓ کام پر ایمان لاتے اور اُس پر توکل کرتے ہیں اُسی وقت آپ خدا کے خاندان کا فرد بن جاتے ہیں۔

اب اُنہیں خدا کہیں دُور محسوس نہیں ہوتا۔

وہ آپ کا باپ بن گیا ہے۔

”۔۔۔ جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں“ (یوحنا ١: ١٢ )۔

”چونکہ تم بیٹے ہو اِس لئے خدا نے اپنے بیٹے کا روح ہمارے دلوں میں بھیجا جو ابا یعنی اے باپ! کہہ کر پکارتا ہے“ (گلتیوں ٤: ٦)۔

دنیا میں بہت سے مذہب ہیں جو بتاتے ہیں کہ خدا کہیں بہت دُور ہے۔ وہ انسانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ مذہبی رسمیں ادا کریں اور اپنے ساتھ شخصی تعلق قائم کرنے نہیں دیتا۔ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ خدا نے اپنے بیٹے کو اِس زمین پر، اِس دنیا میں بھیجا اور ظاہر کیا کہ مَیں آسمانی باپ ہوں اور گنہگاروں سے محبت رکھتا ہوں۔ اُس نے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ میرے بیٹے یسوع مسیح کو قبول کرتے ہیں مَیں اُن سب کو پاک صاف کروں گا، مسیح کی کاملیت سے ملبس کروں گا اور اپنا روح القدس اُن کے دلوں میں ڈالوں گا۔

پاکستان کی بلقیس شیخ اپنی کتاب ”I Dared To Call Him Father“ میں واحد حقیقی خدا کے پیغام کو تلاش کرنے کے سلسلے میں اپنے تجربات بیان کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کئی مہینوں تک بائبل کا موازنہ اُس مذہب کی کتاب سے کرتی رہی جس میں میری پرورش ہوئی تھی۔ مَیں خدا کو پکارتی تھی کہ مجھے سچائی دکھاۓ۔ ایسی ہی پکار کرنے کے دوران مجھے ایک تجربہ ہوا:

مَیں نے دونوں کتابوں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا۔ اُنہیں اوپر اُٹھایا اور کہا ”اے باپ! کون سی؟ — کون سی کتاب تیری ہے؟“ پھر ایک قابلِ ذکر بات ہوئی۔ میری ساری زندگی میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ مَیں نے اپنے اندر — اپنے وجود میں ایک آواز سنی، وہ ایسے صاف طور  سے بول رہی تھی جیسے مَیں اپنے تحت الشعور میں الفاظ دہرا رہی ہوں۔ وہ الفاظ تازگی بخش، واضح، اور نہایت ملائم تھے، لیکن ساتھ ہی بہت اختیار رکھتے تھے۔

'کون سی کتاب میں تم مجھ سے ایسے ملتی ہو جیسے باپ سے؟'

مَیں نے خود کو یہ جواب دیتے ہوۓ پایا — 'بائبل میں'۔

بس اِتنے ہی سے۔۔۔“

جیسے اِس پاکستانی خاتون کا ویسے ہی خدا میرا بھی باپ ہے۔ جس دن مَیں خدا کے پیغام پر ایمان لایا اُسی دن روحانی طور پر نۓ سرے سے پیدا ہوا۔ اب کوئی چیز مجھے خدا کے خاندان کا فرد ہونے سے محروم نہیں کر سکتی۔ یسوع نے کہا ”میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور مَیں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔“ (یوحنا ١٠ : ٢٧ ، ٢٨ )۔

تعلق اور رفاقت

چنانچہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ کیا اِس وجہ سے اُس کی خدا سے دوبارہ جدائی ہو جاتی ہے؟

اگر بیٹا اپنے دنیوی باپ کی نافرمانی کرے تو کیا وہ خاندان کا فرد نہیں رہتا؟ ایسا تو نہیں ہوتا۔ بیٹے کی نافرمانی اُسے ”نازائیدہ“ — جو پیدا نہیں ہوا— تو نہیں بنا دیتی۔ اپنے جسمانی والدین سے اُس کے تعلق — بندھن— کو توڑا تو نہیں جا سکتا۔ خدا کے ساتھ روحانی تعلق کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی چیز آپ کی اِس حیثیت کو ختم نہیں کر سکتی کہ آپ نۓ سرے سے پیدا ہو کر خدا کے فرزند بن گۓ ہیں۔ جتنے لوگ ایمان لاۓ ہیں وہ سب ”فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی تخم سے خدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے نئے سرے سے پیدا ہوۓ“ ہیں (١۔پطرس ١: ٢٣ )۔ خدا آپ کا آسمانی باپ ہے۔ مسیح کی راست بازی جس سے آپ ملبس ہوۓ ہیں وہ کبھی آپ سے ہٹائی نہیں جا سکتی، آپ سے دُور نہیں کی جا سکتی۔ روح القدس آپ کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑے گا۔

اب ابد تک محفوظ ہیں!

”مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی ۔۔۔ نہ کوئی اَور مخلوق“ (رومیوں ٨: ٣٨ ۔ ٣٩ )۔

میری طرف سے کوئی بھی کارروائی (عمل) اُس ابدی تعلق کو پلٹ نہیں سکتی، منسوخ نہیں کر سکتی جو خدا نے  میرے باطن میں قائم کیا ہے۔ البتہ گناہ خدا کے ساتھ میری روزانہ رفاقت پر اثر انداز  ہو سکتا ہے۔

حیثیت اور حالت

فرض کریں کہ باپ اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ جا باغ میں کام کر، لیکن بیٹا باغ میں جانے کے بجاۓ دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے چلا جاتا ہے۔ اُس بچے کی باپ کا بیٹا ہونے کی حیثیت پر تو کچھ اثر نہیں ہو گا، مگر باپ کے ساتھ رفاقت کی حالت پر یقیناً اثر ہو گا۔ بچہ گھر واپس آۓ گا تو اُس سے پوچھا جاۓ گا۔ کچھ سخت باتیں کہی جائیں گی اور مناسب تا دیبی کارروائی بھی ہو گی۔ لازم ہے کہ بچہ اپنی نافرمانی کا اقرار کرے تاکہ باپ کے ساتھ گہری رفاقت سے دوبارہ لطف اندوز ہو سکے۔ خدا کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔ خدا کے فرزند گناہ کریں تو وہ اُن کو سرزنش کرتا اور سزا بھی دیتا ہے۔

”اے میرے بیٹے خداوند کی تنبیہ کو حقیر نہ جان
اور اُس کی ملامت سے بیزار نہ ہو۔
کیونکہ خداوند اُسی کو ملامت کرتا ہے جس سے اُسے محبت ہے۔
جیسے باپ اُس بیٹے کو جس سے وہ خوش ہے“ (اَمثال ٣: ١١، ١٢ )۔

خدا کے ساتھ ہماری روزانہ رفاقت کے بارے میں بائبل مقدس کہتی ہے:

”اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے۔۔۔ اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے“ (١۔یوحنا ١: ٦، ٨، ۹)۔

اندر سکونت کرنے والا روح القدس خدا کے فرزندوں کو سکھاتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ سے نفرت کریں، گھن کھائیں، خواہ وہ کتنا ہی ”چھوٹا“ ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایسے گناہوں کے لئے بھی حساس ہوں جن کو دوسرے لوگ شاید گناہ نہیں کہتے۔

مثال کے طور پر اگر مَیں اپنی بیوی سے بدتمیزی سے بات کرتا ہوں، یا کسی شخص سے محبت نہیں رکھتا کیونکہ اُس نے مجھ سے کچھ بے انصافی کی، یا مَیں کوئی بات کہتا ہوں جو پورے طور سے سچی نہیں تو روح القدس مجھے قصوروار ٹھہراتا ہے۔ اِس کا علاج یہ ہے کہ مَیں خداوند کے سامنے اپنے ”گناہوں کا اِقرار کروں“ اور جس شخص کو ناراض کیا ہے اُس سے معافی مانگوں۔ یہ کر لیا تو پھر اپنے خداوند کے ساتھ گہری اور میٹھی رفاقت کا لطف اُٹھاؤں گا۔

کیا آپ نے فرق ملاحظہ کیا؟

مسیح کے وسیلے سے خدا کے حضور میری حیثیت کاملیت کی ہے، لیکن میری روزانہ زندگی میں میری حالت کامل نہیں۔ اِس میں کمی ہے۔

اُس نے میرے لئے نجات کا کام ہمیشہ کے لئے پورا کر دیا ہے، لیکن میرے اندر اُس کا کام اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک مَیں فردوس میں اُس کے پاس نہیں پہنچتا۔

مخلصی کا مقصد

مسیح کا روح چاہتا ہے کہ خدا کے لوگ اپنا کردار، اپنی گفتار اور اپنی سوچ کو بدلیں۔ وہ فرماتا ہے:

”پاک ہو اِس لئے کہ مَیں پاک ہوں“ (١۔پطرس ١:١٦ )۔

وہ اپنے لوگوں سے یہ بھی کہتا ہے ”۔۔۔ نادان نہ بنو بلکہ خداوند کی مرضی کو سمجھو کہ کیا ہے۔ اور شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے بلکہ روح سے معمور ہوتے جاؤ“ (افسیوں ٥: ١٧، ١٨ )۔

روح القدس ہماری شخصیت کو دباتا نہیں بلکہ ہمیں آزاد کرتا ہے کہ روز بروز ایسی راست اور فتح مند زندگیاں گزاریں جیسے خدا چاہتا ہے۔ خدا نے ہمیں کسی مقصد کے لئے نجات دی ہے کہ ہم اپنی سوچ، اپنے کاموں اور اپنی گفتگو سے اُس کی بزرگی کریں۔

”کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا بدن روح القدس کا مقدِس ہے جو تم میں بسا ہوا ہے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا ہے؟ اور تم اپنے نہیں، کیونکہ قیمت سے خریدے گۓ ہو۔ پس اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کرو“ (١۔کرنتھیوں ٦: ١٩،٢٠)۔

جو لوگ انجیل پر ایمان لاتے ہیں اُن کے لئے یہ زندگی کو تبدیل کرنے والی کیسی بڑی سچائی ہے! خدا کی اپنی حضوری ہمارے اندر، ہمارے دلوں میں سکونت کرتی ہے! اور ہم اُس کی اطاعت کرتے ہیں تو ہماری زندگیوں سے اُس کے نام کی تمجید اور تعریف ہوتی ہے اور دوسرے لوگ برکت پاتے ہیں۔ روح القدس ہمیں تسلی اور اطمینان دیتا ہے، ہمیں طاقت اور توفیق عطا کرتا ہے، ہماری ہدایت اور راہنمائی کرتا ہے، ہمارے دل کی آنکھیں روشن کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے۔ وہ پاک صحائف کے سمجھنے میں ایمان داروں کی مدد کرتا ہے (١۔یوحنا ٢: ٢٧ ؛ یوحنا ٤: ١٤ ؛ ١٤ :٢٦ ؛ ١٦ : ١٣ ؛ یرمیاہ ٣١ :٣٣ ، ٣٤ ؛ افسیوں ٤: ٢١ )۔

” وہ ایمان داروں کو ایسے دعا کرنے کی توفیق دیتا ہے کہ خدا کے ساتھ تعلق اور رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ غور کریں کہ میکانکی انداز میں دعاؤں کو دہراتے رہنے میں اور دعا کے وسیلے سے خدا کے ساتھ واقعی رابطہ ہونے اور اُس سے دعاؤں کا جواب ملنے میں بہت بڑا فرق ہے (رومیوں ٨: ٢٦ ، ٢٧ ؛ افسیوں ٨: ١٨ ؛ ١۔یوحنا ٥: ١٤، ١٥ ؛ یوحنا ١٤ : ١٣، ١٤ ؛ ١٥ :٧ ؛ فلپیوں ٤: ٦۔ ٩ )۔

روح القدس اپنے لوگوں کو خاص نعمتیں اور لیاقتیں عطا کرتا ہے جن کے وسیلے سے وہ دوسروں کی مدد اور ترقی کر سکتے ہیں (رومیوں  باب ١٢ ؛ ١۔کرنتھیوں باب ١٢ ؛ افسیوں باب ٤ )۔

وہ مسیح کے پیروکاروں کو کام کرنے اور اُس کی گواہی دینے کی توفیق دیتا ہے اور حالات کیسے ہی ناموافق ہوں وہ گواہی دیتے ہیں۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:

”دیکھو مَیں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور  کبوتروں کی مانند بے آزار ہو۔ مگر آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور عبادت خانوں میں تم کو کوڑے ماریں گے۔۔۔ لیکن جب وہ تم کو پکڑوائیں تو فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہو گا اُسی گھڑی تم کو بتایا جاۓ گا کیونکہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا روح ہے جو تم میں بولتا ہے“ (متی ١٠ : ١٦ ۔ ٢٠ )۔

اُس کے ہم شکل

مختصراً  یہ کہ روح القدس خدا کے لوگوں کے لئے ممکن کر دیتا ہے کہ وہ خدا کے اصل مقصد کو پورا کریں اور مقصد یہ ہے کہ وہ واحد حقیقی خدا کی شبیہ کو منعکس کریں اور ہمیشہ تک اُس کے ساتھ گہری رفاقت میں خوش رہیں۔

”۔۔۔ روح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے ۔۔۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلاۓ گۓ۔ کیونکہ جن کو اُس نے پہلے سے بلایا اُن کو پہلے سے مقرر بھی کیا کہ اُس کے بیٹے کے ہم شکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے“ (رومیوں ٨: ٢٦ ، ٢٨ ۔ ٢٩ )۔

خدا اپنے لوگوں کی زندگیوں کے ہر واقعہ اور ہر آزمائش کو استعمال کر رہا ہے تاکہ وہ دوبارہ ”اُس کے بیٹے کے ہم شکل“ بن جائیں۔

خدا کی پہلی کتاب کا پہلا باب بیان کرتا ہے کہ پہلا آدمی اور پہلی عورت کو خدا نے ”اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنایا۔“ انسان نے گناہ کیا تو اپنے خالق کی شبیہ کو قطعی طور پر بگاڑ دیا۔ مگر جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے جلالی اور کامل بیٹے کو اِس دنیا میں بھیجا۔

خدا کا اِرادہ اور منصوبہ یہ تھا کہ گناہ سے ہونے والی خرابی کو درست کیا جاۓ اور یسوع کی راست زندگی، موت اور قیامت اس پروگرام کو پورا کرنے کا پہلا مرحلہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اِس باب میں دیکھا اِس منصوبے یا پروگرام میں اَور بھی بہت کچھ ہے۔

میرے اور آپ جیسے بے بس گنہگار جس وقت خدا کی نجات کی خوش خبری کو قبول کر لیتے ہیں وہ اُسی وقت اُنہیں اپنا روح القدس عطا کرتا ہے جو ہمیں پھر سے اُس کی صورت اور شبیہ کے موافق بنانے کا عمل شروع کر دیتا ہے تاکہ ہم سوچ، نیت، باتوں اور کاموں میں اُس کے مشابہ ہو جائیں۔ یہ خدا کے گناہ کی لعنت کو پلٹنے کے پروگرام کا دوسرا مرحلہ ہے۔

خدا چاہتا ہے کہ میرے فرزند مسیح کی ذات اور کردار کو منعکس کریں۔ لفظ ”مسیحی“ میں یہ مفہوم اور معنی مضمر ہیں، مگر روح القدس کا ہمیں مسیح کی صورت کے موافق بنانے کا کام ایک جاری عمل ہے۔ اور اُس وقت پورا ہو گا جب ہم اُسے رُوبرو دیکھیں گے۔

”دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلاۓ اور ہم ہیں بھی۔ دنیا ہمیں اِس لۓ نہیں جانتی کہ اُس نے اُسے بھی نہیں جانا۔ عزیزو! ہم اِس وقت خدا کے فرزند ہیں اور ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔ اِتنا جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اُس کی مانند ہوں گے کیونکہ اُس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے“ (١۔یوحنا ٣: ١، ٢ )۔

خدا کے بیٹے نے اُن سب کے لئے فدیہ دیا جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور خدا کا روح اُن سب کو تبدیل کرتا ہے جو اُس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اِن دونوں کے کاموں کی وجہ سے شیطان کی طاقت بے اثر ہوتی جا رہی ہے اور خدا کی محبت، خوشی اور سلامتی کی راست بادشاہی بحال ہو رہی ہے۔

ہم بامقصد زندگیوں اور بڑی توقع کے ساتھ خدا کے پروگرام کے آخری مرحلے کا انتظار کرتے ہیں جب وہ شیطان، گناہ اور موت کو ہمیشہ کے لئے دُور کر دے گا۔

یسوع دوبارہ آ رہا ہے۔

۲۹
مرحلہ نمبر٣ : خدا کا مستقبل کا پروگرام
”۔۔۔ خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے شیطان کو تمہارے پاؤں سے جلد کچلوا دے گا“ (رومیوں ١٦ : ٢٠ )

ایمان داروں کے ساتھ خدا کے اِس وعدے کی بنیاد وہ پہلی اور پُراسرار پیش گوئی ہے جو خدا نے اُس روز کی تھی جب گناہ نے انسان کی نسل کو گمراہ اور ناپاک کیا تھا۔ اُس نے فرمایا کہ عورت کی نسل سانپ کے سر کو کچلے گی۔

کائنات کا خالق اور مالک وہ سب کچھ کرے گا جس کا اُس نے وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ کرے گا اپنے ایجنڈے اور مقررہ وقت کے مطابق۔

لعنت کو منسوخ کرنا: مرحلہ نمبر ٣

اپنی پہلی آمد پر مسیحِ موعود نے گناہ کی پوری سزا برداشت کر کے، پوری قیمت ادا کر کے شیطان کو شکست دی۔ ایمان دار کے لئے جہنم کا کوئی خوف نہیں اور جنت اُس کے لئے ایک حقیقت ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان کا مقبول ہتھیار یعنی موت اپنا ڈنک کھو چکی ہے۔ گناہ کی سزا پلٹ دی گئی ہے، منسوخ ہو چکی ہے۔

خداوند یسوع نے آسمان پر جانے کے بعد اپنا روح القدس بھیجا۔ یہ ”مددگار“ ہے جو اپنے لوگوں کو روزانہ کی زندگی میں شیطان اور گناہ کے اثر و رسوخ پر غالب آنے کی توفیق اور طاقت دیتا ہے اور اُنہیں دوبارہ اپنی (خدا کی) صورت اور شبیہ پر ڈالتا ہے۔ گناہ کا اختیار پلٹتا جا رہا ہے یعنی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

مگر یہ کام صرف اُسی وقت پورا (مکمل) ہو گا جب یسوع دوبارہ زمین پر آۓ گا اور شیطان کو پورے طور پر کچلے گا اور اپنے لوگوں کو گناہ کی موجودگی سے آزاد کرے گا۔

آئندہ کی باتیں

جس طرح نبیوں نے مسیحِ موعود کی پہلی آمد کی پیش گوئیاں کی تھیں اُسی طرح اُنہوں نے اُس کی دوسری آمد کی بھی پیش گوئیاں کی ہیں۔ اور جیسے اُس کی پہلی آمد ہوئ اُسی طرح پیش گوئیوں کے مطابق دوسری آمد بھی ہو گی۔

چند صفحوں کے بعد ہم پرانے عہد نامے کی متعدد آیات پڑھیں گے جن میں نبیوں نے مسایاح کی اِس دنیا میں دوسری آمد کی پیش گوئیاں کی ہیں اور وہ واقعات بتاۓ ہیں جو دوسری آمد کے موقع پر ہوں گے۔ اِن  میں سے چند حوالے جن پر ہم غور کریں گے یہ ہیں: زکریاہ باب ١٤ ؛ دانی ایل ٧: ١٣، ١٤ ؛ زبور ٧٢ اور یسعیاہ ٩: ٦، ٧)

وہ دن آنے کو ہے جب آسمان سے یہ اعلان گونجے گا:

”دنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند اور اُس کے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کرے گا“ (مکاشفہ ١١: ١٥ )۔

جب یسوع دوبارہ اِس دنیا میں آۓ گا تو آدم کے بیٹے اُسے کانٹوں کا تاج نہیں پہنائیں گے اور نہ کیلوں کے ساتھ صلیب پر لٹکائیں گے۔ اور اُس کا نام بے فائدہ نہیں لیں گے اور نہ کہیں گے کہ وہ صرف ایک نبی ہے۔

اُس ”بادشاہ“ کے ساتھ ایسے ناروا اور غیر مہذب سلوک کرنے کا کسی کو اختیار ہی نہیں ہو گا اور نہ اِس کا امکان ہو گا۔

بائبل مقدس صاف صاف کہتی ہے کہ جب یسوع دوبارہ آۓ گا تو ”ہر ایک گھٹنا میرے (خداوند یسوع کے) حضور جھکے گا“ (یسعیاہ ٤٥ : ٢٣ )۔

یہ ہونے سے پہلے ثبوتوں کا ایک سلسلہ پورا ہونا ضرور ہے۔

آسمان پر خوشی

اِس سے پہلے کہ دنیا کی قوموں کا گھٹنا اپنے خالق اور مالک کے حضور جھکے ایک اَور واقعے کا ہونا ضرور ہے — کہ یسوع اِس دنیا کی فضا میں اُترے گا اور اپنے مخلصی یافتہ لوگوں کو آسمان پر لے جاۓ گا۔

”۔۔۔ خداوند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اُتر آۓ گا اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موۓ جی اُٹھیں گے۔ پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھاۓ جائیں گے تاکہ ہوا میں خداوند کا استقبال کریں اور اِس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے“ (١۔تھسلنیکیوں ٤: ١٦ ،١٧ )۔

یہ پوشیدہ،  غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہو گا تو اُن ایمان داروں کے بدن جن کی روحیں آسمان پر ہیں اور اُن ایمان داروں کے بدن جو اُس وقت زمین پر زندہ ہوں گے ”بادلوں پر اُٹھاۓ جائیں گے تاکہ ہوا میں خداوند کا استعمال کریں“ (١۔تھسلنیکیوں ٤: ١٣ ۔ ١٨ ؛ ١۔کرنتھیوں ١٥ : ٥١ ۔ ٥٨ )۔ مسیح پر ایمان رکھنے والے پلک جھپکتے میں بدل کر مسیح کے مشابہ ہو جائیں گے۔ اُن کو نۓ بدن ملیں گے جو ابدیت کے لۓ موزوں اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوں گے۔

بادلوں پر اُٹھاۓ جانے کے واقعہ کے بعد ایمان داروں کو فرداً فرداً  اُن کاموں کے اجر ملیں گے جو اُنہوں نے خدا کے جلال کے لئے اور دوسرے لوگوں کی برکت کے لئے اُس وقت بے غرضی سے کۓ تھے جب وہ زمین پر تھے (دیکھئے باب ٢٨ ضمنی عنوان ”عدالت کے دو دن“)۔ اُن کے بدن ہمیشہ کے لۓ ”پاک اور بے عیب“ ہوں گے اور وہ دُلھن کی طرح اپنے ازلی ”دُولھا“ کو پیش کۓ جائیں گے جس نے اُنہیں ابدی غضب سے بچانے کے لئے اپنی جان دی تھی (افسیوں ٥: ٢٦ ، ٢٧ )۔

اِس عظیم موضوع پر ”ایک خدا، ایک پیغام“ (زیرِ نظر کتاب) کے باب ١٠ میں بات کی گئی ہے۔ بائبل مقدس میں بہت دفعہ خداوند یسوع کو ”دولھا“ اور اُس کے لوگوں کو اُس کی ”دلھن“ کہا گیا ہے۔ اپنی مثالی اور اعلی ترین صورت میں ”شادی“ کی رسم مقرر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں کچھ تصور ہو کہ وہ نہایت قریبی اور گہرا روحانی رشتہ کیسا ہو گا جو خداوند خدا اپنے لوگوں کے ساتھ ابد تک قائم رکھے گا اور خوش ہو گا (دیکھئے یسعیاہ ٥٤: ٥ ؛ ٦٢ :٢ ؛ زبور ٤٥ ؛ سلیمان کی غزل الغزلات (پوری)، ہوسیع ٢: ١٦ ؛ ١٩، ٢٠ ؛ متی ٢٥ : ١۔ ١٣ ؛ یوحنا ٣: ٢٩ ؛ ٢۔کرنتھیوں ١١: ٢، ٣ ؛ افسیوں ٥: ٢٢ ، ٢٣ ؛ مکاشفہ ٢١ : ٢، ٩ ؛ ٢٢ : ١٧ )۔

”۔۔۔ آؤ ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں اور اُس کی تمجید کریں۔ اِس لۓ کہ برّہ کی شادی آ پہنچی اور اُس کی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا اور اُس کو چمک دار اور صاف مہین کتانی کپڑا پہننے کا اختیار دیا گیا کیونکہ مہیں کتانی کپڑے سے مقدس لوگوں کی راست بازی کے کام مراد ہیں۔ اور اُس نے مجھ سے کہا لکھ، مبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بلاۓ گے ہیں“ (مکاشفہ ١٩ : ٧ ۔٩)

جس قریبی تعلق اور رشتے سے ہم ابدیت میں لطف اندوز ہوں گے وہ اُس کسی بھی رِشتے سے بے انتہا اعلی' اور ارفع ہے جس کا ہمیں اِس دنیا میں کبھی بھی تجربہ ہوا ہو۔

زمین پر بڑی مصیبت

اِس دوران نیچے زمین پر ایسا وقت ہو گا جسے پاک کلام نے ”بڑی مصیبت“ کا نام دیا ہے (متی ٢٤ : ٢١ ؛ مکاشفہ ٧ :١٤ )۔ اِس بڑی مصیبت کا تفصیلی بیان مکاشفہ ابواب ٦ تا ١٩ میں پایا جاتا ہے۔

اُس وقت خدا اِس ضدی اور باغی دنیا پر اپنا قہر نازل کرے گا اور اپنے بیٹے کی دوسری آمد کی راہ تیار کرے گا۔ اِن ایام کو ”یعقوب کی مصیبت کا وقت“ بھی کہا گیا ہے (یرمیاہ ٣٠ :٧ )۔ اِس لئے کہ اِس کا مقصد ہے اسرائیل کی اُمت کو توبہ کی طرف لانا۔

اُس وقت دنیا میں ایک نہایت طاقتور اور زبردست حکمران برپا ہو گا۔ بائبل مقدس اُس کا بیان ”مخالفِ مسیح“ اور ”حیوان“ کے نام سے کرتی ہے (١۔یوحنا ٢: ١٨ ؛ مکاشفہ باب ١٣ )۔ ایک بڑی بھیڑ — بے شمار لوگ آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے اُس حیوان اور عجائب دکھانے والے اُس کے جھوٹے نبی کی پیروی کریں گے۔ زمین پر موجود ہر ایک کے لئے ضروری ہو گا کہ ”اپنے دہنے ہاتھ یا ماتھے پر ایک ایک چھاپ کراۓ تاکہ اُس کے سوا جس پر نشان یعنی اُس حیوان کا ںام یا اُس کے نام کا عدد ہو اَور کوئی خرید و فروخت نہ کر سکے۔۔۔“ (مکاشفہ ١٣ : ١٦ )۔

جو اُس کی اطاعت کرنے سے انکار کریں گے اُن کے سرقلم کر دیۓ جائیں گے۔ یہ جھوٹا مسیح اَمن و امان اور خوش حالی کا وعدہ کرے گا، لیکن اِس کے برعکس لوگوں کو فریب، بربادی اور موت کی راہ پر لے جاۓ گا۔

ہر مجدون

بائبل مقدس میں خدا کے اکثر نبیوں نے آخری عالمی جنگ کے بارے میں لکھا جو اُس وقت لڑی جا رہی ہو گی جب خداوند یسوع آسمان سے زمین پر اُترے گا۔ یہ زبردست جنگ اسدرلون کے میدان میں لڑی جاۓ گی۔ یہ وسیع و عریض خطہ دریاۓ یردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے۔ بائبل مقدس اِس قدیم زمانے کے اور مستقبل کے میدانِ جنگ کا بیان ”ہر مجدون“ کے نام سے بھی کرتی ہے۔ اِس لفظ کا مطلب ہے ”خوں ریزی کا پہاڑ“۔

”یہ شیاطین کی نشان دکھانے والی روحیں ہیں جو قادرِ مطلق خدا کے روزِ عظیم کی لڑائی کے واسطے جمع کرنے کے لئے ساری دنیا کے بادشاہوں کے پاس نکل کر جاتی ہیں۔ (دیکھو مَیں چور کی طرح آتا ہوں۔ مبارک وہ ہے جو جاگتا ہے اور اپنی پوشاک کی حفاظت کرتا ہے تاکہ ننگا نہ پھرے اور لوگ اُس کی برہنگی نہ دیکھیں)۔ اور اُنہوں نے اُن کو اُس جگہ جمع کیا جس کا نام عبرانی میں ہر مجدون ہے“ (مکاشفہ ١٦ : ١٤ ۔ ١٦ )۔

زکریاہ نبی نے بھی اُن حیرت انگیز ڈرامائی واقعات کا بیان کیا ہے جو مسایاح کی دوسری آمد پر وقوع پذیر ہوں گے۔

”دیکھ خداوند کا دن آتا ہے۔۔۔ کیونکہ مَیں سب قوموں کو فراہم کروں گا کہ یروشلیم سے جنگ کریں اور شہر لے لیا جاۓ گا اور گھر لُوٹے جائیں گے اور عورتیں بے حرمت کی جائیں گی اور آدھا شہر اسیری میں جاۓ گا، لیکن باقی لوگ شہر ہی میں رہیں گے“ (زکریاہ ١٤ : ١، ٢)۔

”سب قومیں“ یروشلیم کو گھیر لیں گی۔ یہ ایسی بڑی تباہی اور بربادی ہو گی جو پہلے کبھی سننے میں نہیں آئی۔

مسیحِ موعود کی واپسی

جب کوئی اُمید نہ رہے گی اور شہر کے باقی ماندہ باشندے دیکھیں گے کہ کہیں سے مدد نہیں مل سکتی تو رہائی کے لئے خداوند خدا کو پکاریں گے۔ تب وہ جس کے نام کا مطلب ہے ”خداوند خدا نجات دیتا ہے“ آسمان سے اُترے گا اور وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور ڈر جائیں گے کیونکہ وہ کوئی اَور نہیں بلکہ یسوع ہو گا جسے اُنہوں نے مصلوب کیا تھا۔ لیکن اب وہ دلی توبہ اور بڑے اِضطراب کے ساتھ اپنے بادشاہ کا استقبال کریں گے۔

”۔۔۔ مَیں داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح نازل کروں گا اور وہ اُس پر جس کو اُنہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اُس کے لئے ماتم کریں گے جیسا کوئی اپنے اکلوتے کے لۓ کرتا ہے“ (زکریاہ ١٢ : ١٠ )۔

آخر کار یہودی قوم کی روحانی لحاظ سے اندھی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ جانیں گے اور ایمان لائیں گے کہ یسوع ہی واحد مسیحِ موعود تھا اور ہے (دیکھئے رومیوں ١١: ٢٦ ، ٢٧ )۔

[نوٹ: اِس واقعہ کی پیشگی مثال پیدائش کی کتاب ابواب ٣٧ ۔ ٤٥ میں یوسف کے حالات ہیں۔ دونوں میں عجیب اور حیرت انگیز مشابہات پائی جاتی ہیں۔

اِس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا کی تاریخ میں جنگ وجدل کا نہایت نتیجہ خیز اور سبق آموز بیان ہے کہ یسوع یعنی کلمہ صرف اپنے منہ سے کہہ دے گا اور دشمن ”پگھل“ جائیں گے— فنا ہو جائیں گے۔

”تب خداوند خروج کرے گا اور اُن قوموں سے لڑے گا جیسے جنگ کے دن لڑا کرتا تھا اور اُس وقت کوہِ زیتون پر جو یروشلیم کے مشرق میں واقع ہے کھڑا ہو گا اور کوہِ زیتون بیچ سے پھٹ جاۓ گا اور اُس کے مشرق سے مغرب تک ایک بڑی وادی ہو جاۓ گی ۔۔۔“

” یہ آفت ہے جس سے خداوند خدا اُن ساری قوموں کو مارے گا جو یروشلیم کے خلاف جنگ کریں گی۔ کھڑے کھڑے ہی اُن کا گوشت سوکھ جاۓ گا اور اُن کی آنکھیں چشم خانوں میں گل جائیں گی اور اُن کی زبان اُن کے منہ میں سڑ جاۓ گی۔۔۔“

”۔۔۔ایک دن ایسا آۓ گا جو خداوند ہی کو معلوم ہے۔ وہ نہ دن ہو گا نہ رات لیکن شام کے وقت روشنی ہو گی۔۔۔“

”۔۔۔ اور خداوند ساری دنیا کا بادشاہ ہو گا۔ اُس روز ایک ہی خداوند ہو گا اور اُس کا نام 'واحد' ہو گا“ (زکریاہ ١٤ : ٢۔ ٤ ؛ ١٢ : ٧، ٩ )۔

بالآخر حقیقی خدا کی سچی حمد و ستائش اور بزرگی اور تعظیم ہو گی۔

سلطنت کی بحالی

زکریاہ کی نبوت (جو ہم نے ابھی ابھی پڑھی ہے) سے کئی دہائیاں پہلے خدا نے دانی ایل نبی کو اِسی طرح کا رَویا دیا تھا:

” مَیں نے رات کو رَویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیم الایام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لاۓ اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمتیں اور اہلِ لغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی“ (دانی ایل ٧: ١٣ ، ١٤ )۔

یہاں لفظ ”سلطنت“ تین دفعہ دہرایا گیا ہے۔

(سلطنت کا مطلب ہے حکمرانی یا اختیار)

جب خدا نے آدم اور حوا کو پیدا کیا تو اُن کو ”زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار“ دیا (پیدائش ١: ٢٦ ، ٢٨ )۔ جب آدم نے اپنے خالق کے خلاف بغاوت کی تو یہ اختیار اُس (آدم) نے شیطان کے حوالے کر دیا۔ لیکن اِس کرہ کی ”سلطنت، اختیار اور حکمرانی“ جس سے آدم— پہلا انسان، پہلا آدم — دست بردار ہو گیا یسوع یعنی ”پچھلا آدم“ (آدمِ ثانی) اُسے واپس لے لے گا اور بحال کرے گا۔

١۔کرنتھیوں ١٥ : ٤٥ ۔ ٤٧ ؛ رومیوں  ٥: ١٢ ۔ ٢١ — پہلا آدمی، پہلا آدم اور دوسرا آدمی، دوسرا آدم، پچھلا آدم — یہ یا اِن کے ہم معنی اصطلاحات زیرِ نظر کتاب ”ایک خدا، ایک پیغام“ کے باب ١٦ میں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ جیسے آدم کے گناہ کے سبب سے سارے انسان مرتے ہیں ویسے ہی یسوع کی راست بازی  اور اُس کا بہایا گیا خون سب ایمان لانے والوں کے لئے ابدی زندگی کو بحال کرتے ہیں۔ خدا نے یسوع کے ایک شاگرد یوحنا کو مزید ایک رَویا دکھایا جو زکریاہ اور دانی ایل کے رَویاؤں سے پوری مطابقت رکھتا ہے:

”۔۔۔ پھر مَیں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُس پر ایک سوار ہے جو سچا اور برحق کہلاتا ہے اور وہ راستی کے ساتھ انصاف اور لڑائی کرتا ہے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شعلے ہیں اور اُس کے سر پر بہت سے تاج ہیں اور اُس کا ایک نام لکھا ہوا ہے جسے اُس کے سوا اَور کوئی نہیں جانتا اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوۓ ہے۔ اور اُس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید مہین کتانی کپڑے پہنے ہوۓ اُس کے پیچھے پیچھے ہیں اور قوموں کے مارنے کے لۓ اُس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا اور قادرِ مطلق خدا کے سخت غضب کی مے کے حوض میں انگور روندے گا اور اُس کی پوشاک اور ران پر یہ نام لکھا ہوا ہے بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند“ (مکاشفہ ١٩ : ١١ ۔ ١٦ )۔

جب بادشاہوں کا بادشاہ دوبارہ آۓ گا تو ”آسمان کی فوجیں۔۔۔ سفید اور مہین کتانی کپڑے پہنے ہوۓ“ اُس کے پیچھے پیچھے ہوں گی۔ یہ فوجیں آسمان کے بے شمار فرشتوں اور آدم کی نسل کے مخلصی یافتہ لوگوں پر مشتمل ہوں گی (٢۔تھسلنیکیوں ١: ٧ ۔ ١٠ ؛ مکاشفہ ١٩ : ٦ ۔ ١٤ ؛ یہوداہ ١٤ ؛ زکریاہ ١٤ :٥ )۔

یسوع نے اپنی پہلی آمد پر بڑی مہربانی سے اپنی قدرت اور جلال کے جو منظر دکھاۓ تھے وہ اُس بے انتہا اور حیرت انگیز جلال کے مقابلے میں بے رونق اور پھیکے پڑ جائیں گے جو وہ اپنی دوسری آدم پر دکھاۓ گا۔

آسمان کی حکمرانی دلوں پر

اگر آپ جنگل میں سے اکیلے گزر رہے ہوں تو کس کے ساتھ سامنا ہونے کو ترجیح دیں گے — ببر شیر یا برّہ؟

مسیحِ موعود پہلی دفعہ اِس دنیا میں آیا تو ”برّہ“ کی حیثیت سے آیا تاکہ گنہگاروں کو نجات دے۔ لیکن جب دوبارہ آۓ گا تو گنہگاروں کی عدالت کرنے کے لۓ ”ببر شیر“ کی حیثیت سے آۓ گا (یسعیا ٥٣ : ٧ ؛ یوحنا ١: ٢٩ ؛ مکاشفہ ٥:٥ ؛ ٢۔تھسلنیکیوں ١: ٥ ۔ ١٠ ؛ یوحنا ٣: ١٧ ، ١٨ ؛ ١٢ : ٤٧ ؛ دانی ایل ٩: ٢٤ ۔ ٢٧ ؛ یسعیاہ باب ٥٣ کا موازنہ زکریاہ باب ١٤ سے کریں۔ اِس کے علاوہ ذیل کے حوالوں میں ”دکھوں“ اور ”جلال“ کے درمیان فرق پر غور کریں: لوقا ٢٤ : ٢٥، ٢٦ ؛ ١۔پطرس ١: ١٠ ۔ ١٢ ؛ عبرانیوں ٢: ٩ ؛ فلپیوں ٢: ٥۔ ١١ ؛ زبور  ٢٢ )۔

اپنی پہلی آمد پر یسوع نے یہ منادی کی کہ ”توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“ (متی ٤: ١٧ )۔ لیکن اپنی غلط سوچ اور نظریات سے توبہ کرنے کے بجاۓ یہودیوں اور غیر یہودیوں نے باہم گٹھ جوڑ کر کے اپنے بادشاہ کو مصلوب کر دیا۔ اور یوں نادانی سے خدا کے ازلی منصوبے کو پورا کیا کہ دنیا کے گناہ کا قرض چکانے کے لئے مسایاح اپنا خون بہاۓ گا۔

خوش خبری یہ ہے کہ جب بھی گنہگار لوگ خداوند یسوع اور اُس کے کام پر ایمان لاتے ہیں تو خدا اُن کے دلوں میں اپنی حکومت قائم کرتا ہے اور اُنہیں ہمیشہ کے لۓ اپنی رعیت بنا لیتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر ایک سچا ایمان دار مسیح میں آسمان (بہشت) کا درج شدہ شہری ہے؟

” مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے اور ہم ایک منجی یعنی خداوند یسوع مسیح کے وہاں سے آنے کے انتظار میں ہیں۔ وہ ۔۔۔ ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پر بناۓ گا“ (فلپیوں ٣: ٢٠ ۔ ٢١ )۔

آسمان کی حکمرانی زمین پر

یسوع زمین پر، اِس دنیا میں — دوبارہ آۓ گا تو یروشلیم میں اپنی بادشاہی قائم کرے گا جہاں سے وہ ہزار سال تک زمین پر حکومت کرے گا۔ آخر کار اُس کی بادشاہ آۓ گی اور ” اُس کی مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو گی“ (متی ٦: ١٠ )۔ پھر کسی بھی قوم میں بُرائی یا گناہ کو برداشت نہیں کیا جاۓ گا، کیونکہ وہ ”لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا“۔ (مکاشفہ ١٩ : ١٥ )

بہت سے لوگ یقین نہیں رکھتے کہ خدا کا بیٹا جسمانی طور سے دنیا میں واپس آۓ گا، مگر پاک کلام اِس نکتے پر صاف صاف بات کرتا ہے۔ جیسے اپنی پہلی آمد پر خدا کے بیٹے نے انسانی بدن اختیار کیا اور  جی اُٹھے، مادی اور تمام حدود و قیود سے آزاد بدن کے ساتھ آسمان پر گیا اُسی طرح وہ اُسی جسم کے ساتھ واپس آۓ گا۔ یہی بات فرشتوں نے اُس کے شاگردوں کو اُس روز بتائی تھی جب وہ آسمان پر واپس گیا تھا۔۔۔

”یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آۓ گا جس طرح تم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے“ (اعمال ١: ١١ )۔

شیطان کا باندھا جانا

کتابِ مقدس نے یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ ہم خاص واقعات مختصراً بیان کرتے ہیں:

یسوع کے اِس دنیا میں واپس آنے پر جو واقعات پہلے ہوں گے اُن میں سے ایک کا تعلق شیطان یعنی اُس پرانے ”سانپ“ سے ہے جس نے پہلے انسانی نسل کو ہلاکت کی راہ پر ڈالا تھا۔

”پھر مَیں نے ایک فرشتہ کو آسمان سے اُترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اتھاہ گڑھے کی کنجی اور ایک بڑی زنجیر تھی۔ اُس نے اُس اژدہا یعنی پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لۓ باندھا اور اُسے اتھاہ گڑھے میں ڈال کر بند کر دیا اور اُس پر مہر کر دی تاکہ وہ ہزار برس پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔ اِس کے بعد ضرور ہے کہ تھوڑے عرصہ کے لئے کھولا جاۓ“ (مکاشفہ ٢٠ : ١۔٣ )۔

شیطان کو باندھ دیا جاۓ گا اور ہزار برس کے پورے عرصے کے لئے قیدِ تنہائی میں رکھا جاۓ گا۔ وہ ”شریر“ قید میں ہو گا اور وہ ”صادق“ خود حکمرانی کرے گا تو کم سے کم اِتنے عرصے تک تو

”زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح“ ہو گی (لوقا ٢: ١٤ )۔

خدا کی راست حکمرانی جس کے لئے دنیا بڑی آرزو رکھتی ہے حقیقت بن جاۓ گی۔

”۔۔۔ آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو گی۔ اور وہی ابد تک قائم رہے گی“ (دانی ایل ٢: ٤٤ )۔

سچی اطاعت

تقریباً تین ہزار سال ہوۓ کہ سلیمان بادشاہ نے مسایاح کی آنے والی حکمرانی کے بارے میں لکھا کہ اُس وقت دنیا کی ہر ایک قوم اور ہر ایک شخص اُس کی اطاعت گزاری کریں گے۔

زبور ٧٢ کا سرنامہ ہے ”سلیمان کا مزمور۔“ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور سلیمان نے لکھا تھا، اگرچہ یہ اِن الفاظ کے ساتھ ختم ہوتا ہے کہ ”داؤد بن یسی کی دعائیں ختم ہوئیں“ (زبور ٧٢ : ٢٠ )۔ یہ آیت زبوروں کی پانچ کتابوں میں تقسیم میں سے دوسری کتاب کے اختتام کی بات کرتی ہے۔ زبور وں کے دوسرے حصے کا اہم اور بنیادی مصنف داؤد تھا۔

”اُس کے ایام میں صادق برومند ہوں گے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہے گا۔ اُس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریاۓ فرات سے زمین کی انتہا تک ہو گی۔ بیابان کے رہنے والے اُس کے آگے جھکیں گے۔ ترسیس کے (یورپی قومیں) اور جزیروں کے بادشاہ (دُور کے براعظموں کی قومیں) نذریں گزرانیں گے۔ سبا اور سیبا (افریقہ اور عرب) کے بادشاہ ہدۓ لائیں گے، بلکہ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہوں گے۔ “

” کُل قومیں اُس کی مطیع ہوں گی، کیونکہ وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے  اور غریب کو جس کا کوئی مددگار نہیں چھڑاۓ گا۔ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھاۓ گا اور محتاجوں کی جان پر ترس کھاۓ گا۔ وہ فدیہ لے کر اُن کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑاۓ گا اور اُن کا خون اُس کی نظر میں بیش قیمت ہو گا۔ وہ جیتے رہیں گے اور سبا کا سونا اُس کو دیا جاۓ گا۔ لوگ برابر اُس کے حق میں دعا کریں گے اور دن بھر اُسے دعا دیں گے۔ زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہو گی۔ اُن کا پھل لبنان کے درختوں کی طرح جھومے گا۔ اور شہر والے زمین کی گھاس کی مانند ہرے بھرے ہوں گے۔ اُس کا ںام ہمیشہ قائم رہے گا۔ جب تک سورج ہے اُس کا نام رہے گا اور لوگ اُس کے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔ سب قومیں اُسے خوش نصیب کہیں گی۔ خدا اسرائیل کا خدا مبارک ہو۔ وہی عجیب و غریب کام کرتا ہے۔ اُس کا جلیل نام ہمیشہ کے لئے مبارک ہو۔ اور ساری زمین اُس کے نام سے معمور ہو۔ آمین ثم آمین!“ (زبور  ٧٢ : ٧۔ ١٩ )۔

یہ زبور مسیح کی آنے والی بادشاہی کی واضح تصویر پیش کرتا اور اُس کے بارے میں بصیرت دیتا ہے۔ جب ”اُس کی سلطنت ۔۔۔ زمین کی انتہا تک ہو گی۔“

کامل نظامِ حکومت

”وہ غریب اور محتاج پر ترس کھاۓ گا اور محتاجوں کی جان کو بچاۓ گا“۔ مسایاح کی بادشاہی آج کی بگڑی ہوئ اور متلاطم دنیا سے بالکل فرق— اِس کے بالکل برعکس ہو گی۔  برگشتگی کے بعد پہلی دفعہ سب کو آزادی اور انصاف نصیب ہو گا۔ شیرخوار، بچہ، عورت اور مرد، ہر ایک کی جان نہایت قیمتی مانی جاۓ گی اور اُس کی عزت ہو گی۔ ”وہ فدیہ دے کر اُن کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑاۓ گا اور اُن کا خون اُس کی نظر میں بیش قیمت ہو گا۔“

ہمارے ذرائع ابلاغ آۓ روز سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں کہ وہ قیامِ امن  اور ہتھیاروں میں کمی کے لۓ مذاکرات اور سمجھوتے کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ مگر اپنی طاقت اور اختیارات کے محدود ہونے کے باعث اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔ لیکن جب ”وہ“ آۓ گا جس کا حکم ہوا اور پانی بھی مانتے ہیں تو یہ دنیا بالآخر حقیقی انصاف اور ”امن و سلامتی کی کثرت“ سے لطف اندوز ہو گی (یرمیاہ ٣٣: ٦)۔

صدیوں سے اِس دنیا کے بادشاہ اور حاکم پیدا ہوتے، زندگی گزارتے اور مرتے رہے ہیں، لیکن بادشاہوں کے بادشاہ یسوع کے بارے میں پاک کلام اعلان کرتا ہے کہ ”وہ جیتا رہے گا۔“ ابنِ آدم گناہ اور موت پر غالب آیا۔ اُس کے نظامِ حکومت کے تحت یہ زمین یہ دنیا ہزار سال تک بے مثال امن و امان، سلامتی اور خوش حالی سے بہرہ مند ہو گی۔

”۔۔۔ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہوں گے۔۔۔ اور لوگ اُس کے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔ سب قومیں اُسے خوش نصیب کہیں گی“ (زبور  ٧٢ : ١١ ۔ ١٧ )۔

اِس تھکی ماندہ دنیا کو خداوند خود وہ راست حکومت فراہم کرے گا جس کی کوئی مثال نہیں۔ وہ بنی آدم جن کا فدیہ دیا گیا ہے اور جو جلیل بدنوں اور پاکیزہ مزاج کے ابدی مالک بن گۓ ہیں صرف وہی خداوند کے ساتھ بادشاہی کریں گے۔

اُس کی بادشاہی ہر قسم کے بگاڑ، خرابی اور بدعنوانی سے مبرا ہو گی۔

”۔۔۔ مبارک اور مقدس وہ ہے جو پہلی قیامت میں شریک ہو۔ ایسوں پر دوسری موت کا کچھ اختیار نہیں، بلکہ وہ خداوند مسیح کے کاہن ہوں گے اور اُس کے ساتھ ہزار برس تک بادشاہی کریں گے“ (مکاشفہ ٢٠ :٦ )۔

شہنشاہیت، مطلق العنانیت یا ہمہ گیریت، جمہوریت یا دینی حکومت — ہر قسم کا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ لیکن مسایاح کی حکومت کبھی ناکام نہ ہو گی۔

یہ نظامِ حکومت ایسا کامل ہو گا جیسا کامل وہ خود ہے!

سلامتی کا شہزادہ

اِس سے پہلے ہم مسیح کی پہلی آمد کے بارے میں چند پیش گوئیوں پر غور کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر میکاہ نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح بیت لحم میں پیدا ہو گا۔ لیکن کیا آپ نے غور کیا کہ میکاہ نے یہ بھی کہا تھاکہ  ایک دن یہی مسایاح ساری دنیا پر سلطنت کرے گا؟

”لیکن اے بیت لحم افراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا۔ اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔۔۔ وہ اُس وقت انتہاۓ زمین تک بزرگ ہو گا اور وہی ہماری سلامتی ہو گا“ (میکاہ ٥: ٢، ٤ ،٥ )۔

میکاہ کے ہم عصر نبی یسعیاہ نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ ایک لڑکا تولد ہو گا اور ازلی بیٹا بخشا جاۓ گا۔ یسعیاہ کی پیش گوئی بھی آئندہ کے زمانے میں بیٹے کی ساری دنیا پر حکومت کا بیان کرتی ہے۔

”۔۔۔ اِس لۓ ہمارے لۓ ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب، مشیر ، خداۓ قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ ہو گا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہو گی۔ وہ داؤد کے تخت اور اُس کی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔۔۔“ (یسعیاہ ٩: ٦۔٧ )۔

آخرکار دنیا خدا کے بیٹے کو اُن ناموں سے پکارے گی جن کا وہ حق دار ہے۔” اُس کا نام ہو گا:

” عجیب

مشیر

خداۓ قادر

ابدیت کا باپ

سلامتی کا شہزادہ۔“

ساری قومیں اُس وقت ”آج سے ابد تک ۔۔۔ عدالت اور صداقت۔۔۔“ انصاف اور سلامتی کا لطف اُٹھاتی رہیں گی۔

خدا کی یہ خواہش کہ مَیں انسان کے ساتھ رہوں ایک حقیقت بن جاۓ گی — ہمیشہ کے لئے۔

”۔۔۔ اُس وقت بہت سی قومیں خداوند سے میل کریں گی اور میری اُمت ہوں گی اور مَیں تیرے اندر سکونت کروں گا“ (زکریاہ ٢: ١١ )۔

آج کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں خدا کا روح سکونت کرتا ہے وہ ابھی خدا کی حضوری اور سلامتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

لاعلمی نہ رہے گی۔

خداوند یسوع جب پہلی بار اِس دنیا میں آ کر  انسانوں کے درمیان رہا تو بہت سے لوگ اُسے پہچان نہ سکے کہ یہ کون ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ اُسے اپنا بادشاہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ سنہری زمانہ آ رہا ہے جب اِس دنیا کی ہر ایک روح تسلیم کرے گی کہ وہ وہی ہستی ہے جو کہتا ہے کہ مَیں ہوں۔

”اور یوں ہو گا خداوند فرماتا ہے کہ ایک نۓ چاند سے دوسرے تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے نکل کر میرے حضور آۓ گا“ (یسعیاہ ٦٦: ٢٣ )۔

اُس وقت یہ ہزاروں مذہب، فرقے اور مذہبی گروہ نہیں رہیں گے۔ اور نہ کسی کو اِس تاریخی حقیقت کا انکار کرنے کی جرات ہو گی کہ خدا کا بیٹا یسوع مسیح مصلوب ہوا، مر گیا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اگرچہ سارے لوگ تو اُس پر ایمان نہیں لائیں گے، لیکن سارے لوگ اُس کے اور اُس کے پیغام کے بارے میں حقیقت اور سچائی سے واقف ہوں گے:

”۔۔۔ کیونکہ جس طرح سمندر  پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند کے جلال کے عرفان سے معمور ہو گی“ (حبقوق ٢: ١٤ )۔

جنگ نہ رہے گی

خداوند زمین پر حکمران ہو گا تو شمال اور جنوب کے درمیان لڑائ، اور مشرق اور مغرب کے درمیان جنگ قصہ پارینہ بن جاۓ گی۔ اسرائیل اور  آس پاس کی قوموں کے درمیان لڑائی ختم ہو جاۓ گی۔ براعظم افریقہ کے ہولناک دُکھ اور تکالیف ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی اور دوسرے براعظموں میں بھی یہی صورتِ حال ہو گی۔ خانہ جنگی اور ظلم و تشدد کا خاتمہ ہو جاۓ گا۔ حقیقی صلح، امن و امان، خوش حالی اور مقصدیت کا ساری دنیا میں دَور دورہ ہو گا۔

”۔۔۔ بہت سی اُمتیں آئیں گی اور کہیں گی آؤ خداوند کے پہاڑ پر چڑھیں یعنی یعقوب کے خدا کے گھر میں داخل ہوں اور وہ اپنی راہیں ہم کو بتاۓ گا۔ اور ہم اُس کے راستوں پر چلیں گے۔۔۔ وہ قوموں کے درمیان عدالت کرے گا اور بہت سی اُمتوں کو ڈانٹے گا اور  وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالیں گے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلاۓ گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے“ (یسعیاہ ٢: ٣، ٤ )۔

لوگ واحد حقیقی خدا کو جان لیں گے اور اُسی کی عبادت کریں گے تو عالمگیر اتحاد، صلح اور امن و امان قائم ہو جاۓ گا۔

بابل کی ابتری، افراتفری اور غلط فہمی پلٹ جاۓ گی یعنی ختم ہو جاۓ گی اور ساری دنیا دوبارہ ایک ہی زبان بولنے لگے گی۔

” مَیں اُس وقت لوگوں کے ہونٹ پاک کر دوں گا تاکہ وہ سب خداوند سے دعا کریں اور ایک دل ہو کر اُس کی عبادت کریں“ (صفنیاہ ٣: ٩)۔

لعنت کا خاتمہ

اِس ہزار سالہ عرصے کی خوش حالی میں اضافہ کرنے کی خاطر خدا دنیا سے وہ لعنت اُٹھالے گا جو گناہ کے سبب سے پڑی تھی۔

جب یسوع اِس دنیا میں آیا تو اُس نے لعنت کو پلٹ دینے میں اپنا اختیار دکھایا۔ اُس نے بدروحوں کو نکالا، بیماریاں اور ناچاریاں دُور کیں، مُردوں کو زندہ کیا، بِھیڑ کو کھانا کھلایا اور فطرت کے عناصر پر کامل اختیار دکھایا۔ اِن کاموں سے اُس نے ناقابلِ تردید ثبوت دیۓ کہ مَیں ہی مسیحِ موعود اور بادشاہ ہوں۔

اپنی پہلی آمد کے وقت یسوع نے یہ باتیں نمونے کے طور پر پیش کیں اور دوسری آمد پر  یہ سب کچھ عالم گیر سطح اور پیمانے پر دکھاۓ گا۔

وہ شیطان اور اُس کی بدروحوں کو باندھ دے گا، وہ فطری اسباب سے پیدا ہونے والی بیماریوں، بدشکلی اور موت کا خاتمہ کر دے گا۔ پھر زمین کانٹے اور اونٹ کٹارے نہ اُگاۓ گی۔ کسان اور کاشت کار اتنی افراط سے فصلیں جمع کریں گے کہ پہلے کبھی نہ کی تھیں۔ ”افلاس“ اور ”بھوک“ متروک الفاظ بن جائیں گے۔

دنیا کی تاریخ کے اِس سنہری دَور سے ساری قومیں فیض یاب ہوں گی۔

یسوع کی پہلی آمد پر اِس دنیا کے شہریوں نے آسمان کی بادشاہی کو رد کر دیا تھا۔ لیکن اُس کی دوسری آمد پر یہ بادشاہی ساری زمین پر قائم ہو گی۔

”اُس وقت اندھوں کی آنکھیں وا کی جائیں گی اور بہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھریں گے اور گونگے کی زبان گاۓ گی کیونکہ بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلیں گی۔۔۔

۔۔۔ بھیڑیا اور برّہ اکٹھے چریں گے اور شیرِ ببر بیل کی مانند بھوسا کھاۓ گا اور سانپ کی خوراک خاک ہو گی۔ وہ میرے تمام کوہِ مقدس پر نہ ضرر پہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے۔ خداوند فرماتا ہے“ (یسعیاہ ٣٥ : ٥، ٦ ؛ ٦٥ : ٢٥ )۔

دیکھئے کہ حیوانات اور درندے بھی انسانوں کے ساتھ اَمن اور سکون کے ساتھ رہیں گے اور عدن کی وہ حالت بحال ہو جاۓ گی جو گناہ کے آنے سے پہلے تھی اور سارے جاندار  گھاس پات اور سبزی کھاتے تھے۔

اِس کے باوجود مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے دوران پیدا ہونے والوں کے دلوں میں گناہ کی جڑ موجود ہو گی۔ ہر زمانے اور  دَور کی طرح اُس دَور میں بھی آدم کی اولاد کے لۓ ضروری ہو گا کہ خدا کے نجات کے انتظام پر ایمان لا کر معافی کی بخشش حاصل کریں۔

کیا آپ نے غور کیا کہ جو آخری آیت ہم نے پڑھی وہ سانپ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ ”۔۔۔سانپ کی خوراک خاک ہو گی۔“ ہزار سالہ دَور میں بھی سانپ پیٹ کے بل رینگا کریں گے۔ اُن کا زمین  پر رینگنا اور سرکنا اِس بات کی یاددہانی ہو گا کہ خدا کے منصوبے کے تیسرے اور آخری مرحلے میں ابھی ایک اَور حیرت انگیز اور ڈرامائی واقعہ رونما ہونا باقی ہے۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد گناہ کے باعث پڑنے والی لعنت بالکل منسوخ اور ختم ہو جاۓ گی۔

گںاہ کا آخری ہلہ

ہم نے پہلے سیکھا تھا کہ مسیح کے ہزار سالہ دورِ حکومت میں ”پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے باندھ کر اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا جاۓ گا تاکہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔ اِس کے بعد ضرور ہے کہ تھوڑے عرصے کے لئے کھولا جاۓ“ (مکاشفہ ٢٠ : ٢، ٣)۔

خدا شیطان کو دوبارہ کیوں کھولے گا؟ اُسے بند کیوں نہیں رکھے گا؟

خداوند اپنی بے انتہا حکمت کے مطابق یہ کرے گا کہ گناہ کا قطعی خاتمہ کرنے سے پہلے انسان کے گناہ آلود اور برگشتہ دل کو ایک دفعہ پھر بدی کے خطرے میں ڈالے۔ بنی نوع انسان وقت یا زمان سے نکل کر بے زمانی میں داخل ہوں گے تو یہ سچائی بالکل واضح ہو جاۓ گی کہ آدم کی اولاد اپنی برگشتہ فطرت کو مغلوب کرنے میں بالکل بے بس اور  ناچار ہے۔ صرف خداوند خدا ہی گنہگاروں کو راست باز بنا سکتا اور اُن کے سرکش دلوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔

” دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟ مَیں خداوند دل و دماغ کو جانچتا اور آزماتا ہوں تاکہ ہر ایک آدمی کو اُس کی چال کے موافق اور اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ دوں“ (یرمیاہ ١٧: ٩۔١٠ )۔

انسان کا دل کیسا ”لاعلاج طور پر شریر“ ہے؟ ہزار سال تک کامل ماحول میں، کامل بادشاہ کے ماتحت کامل نظامِ حکومت میں رہنے کے باوجود بھی وہ نہیں بدلیں گے۔ جونہی شیطان آزاد ہو گا، اِن ہزار سالوں کے دوران پیدا ہونے والوں میں سے ایک جمِ غفیر اُس کے جھوٹ کا یقین کرے گا اور اُس کے پیچھے ہو لے گا! وہ اپنے خالق کے خلاف اُس کے مخالف اور باغی کا ساتھ دیں گے جیسا کہ اُن کے اوّلین ماں باپ نے عدن میں کیا تھا۔

یہ گناہ کا آخری ہلّہ ہو گا۔

شیطان کا آخری حملہ

”اور  جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جاۓ گا۔ اور اُن قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی یعنی جوج اور ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکرگاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازل ہو کر اُنہیں کھا جاۓ گی“ (مکاشفہ ٢٠ : ٧۔ ٩ )۔

شیطان کا لشکر باغی انسانوں پر مشتمل ہو گا۔ خداوند خدا اُنہیں یروشلیم کو چاروں طرف سے گھیر لینے دے گا۔ لیکن جونہی وہ جمع ہوں گے تو آسمان سے آگ نازل ہو کر اُنہیں بھسم کر دے گی۔ شیطان اور اُس کے حامی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔

سانپ کچلا جاتا ہے۔

اِس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ تاریخ کا سب سے سنجیدہ واقعہ ہے۔

” پھر اُس نے ایک بڑا سفید تخت اور اُس کو جو اُس پر بیٹھا ہوا تھا دیکھا جس کے سامنے سے زمین اور آسمان بھاگ گۓ اور اُنہیں کہیں جگہ نہ ملی۔ پھر مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو اُس تخت کے سامنے کھڑے ہوۓ دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اَور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِ حیات اور جس طرح اُن کتابوں میں لکھا ہوا تھا اُن کے اعمال کے مطابق مُردوں کا انصاف کیا گیا اور سمندر نے اپنے اندر  کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِ اَرواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اُس کا انصاف کیا گیا۔ پھر موت اور عالمِ ارواح آگ کی جھیل میں ڈالے گۓ۔ یہ آگ کی جھیل دوسری موت ہے۔ اور جس کسی کا نام کتابِ حیات میں لکھا ہوا نہ ملا وہ آگ کی جھیل میں ڈالا گیا“ (مکاشفہ ٢٠: ١١ ۔ ١٥ )۔

اب زمانوں کی ساری کش مکش ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاۓ گی۔

بڑے سفید تخت کی عدالت کے بعد گناہ کی لعنت تاریخ کا حصہ بن کے رہ جاۓ گی۔ لیکن خدا بُرائی کی جو عدالت کرے گا اُس سے حاصل ہونے والے سبق کبھی فراموش نہ ہوں گے۔ ساری کائنات گناہ کے گھنونے پن اور کراہت کی اور خدا کی راستی کی گواہ ہو گی۔

آخرِکار سانپ کا سرکچلا جا چکا ہو گا۔

شیطان اور اُس کے سارے پیروکار اُس آگ میں ڈال دیۓ جائیں گے ”جو ابلیس اور اُس کے فرشتوں کے لۓ تیار کی گئی ہے“ (متی ٢٥ : ٤١ )۔ وہاں سے نکلنے کا کوئی اِمکان نہیں۔ سزا یافتہ لوگ اِس دائمی قیدخانے سے کبھی نہ نکلیں گے۔ وہ اپنی سزا کے لئے خدا کو الزام نہیں دے سکیں گے کیونکہ اُنہیں کامل بادشاہ کے ماتحت ایک کامل زمین پر ہزار سال کا موقع دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اِس مبارک حالی کا فائدہ نہ اُٹھایا بلکہ اپنے خالق مالک کے خلاف بغاوت کرنا پسند کیا۔

اِنسان کے پاس کوئی بہانہ، کوئی عذر نہ ہو گا۔

واحد حقیقی خدا کی نیک نامی اور اُس کا پیغام ہمیشہ کے لئے راست ٹھہرے گا۔

جن کے نام کتابِ حیات میں لکھے گۓ ہیں وہ سب ہمیشہ تک خداوند کے ساتھ رہیں گے ”مگر بزدلوں اور بے ایمانوں اور گھنونے لوگوں اور خونیوں اور حرام کاروں اور جادو گروں اور بت پرستوں اور سب جھوٹوں کا حصہ آگ اور گندھک سے جلنے والی جھیل میں ہو گا۔ یہ دوسری موت ہے“ (مکاشفہ ٢١ : ٨)۔

کون ہمیشہ کی سزا پائیں گے؟” بزدل اور بے ایمان۔۔۔“ یعنی وہ جو خدا کے پیغام پر ایمان نہ لاۓ کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ ہمارا خاندان یا ہمارے دوست کیا کہیں گے۔ یسوع اِس دنیا میں تھا تو اُس نے اپنے سننے والوں کو صاف صاف خبردار کیا کہ ”جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے اُن سے نہ ڈرو بلکہ اُسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔۔۔ یہ نہ سمجھو کہ مَیں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ کیونکہ مَیں اِس لۓ آیا ہوں کہ آدمی کو اُس کے باپ سے اور بیٹی کو اُس کی ماں سے اور بہو کو اُس کی ساس سے جدا کر دوں۔ اور آدمی کے دشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں“ (متی ١٠ : ٢٨ ، ٣٤ ۔ ٣٧ )۔

اِس کے بعد گناہ، شرارت یا بدی اپنا بدصورت سر پھر کبھی نہ اُٹھا سکے گی۔ ساری کائنات واحد حقیقی خدا کے تابع اور مطیع ہو گی۔

ہمیشہ اُس کے ساتھ!

اِس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ اِتنا شاندار اور عجیب ہو گا کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

”پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہو گا اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و  نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اُس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔۔۔“ (مکاشفہ ٢١ : ٣۔ ٥ )۔

جس طرح پرانے عہدنامے کے پہلے دو باب خدا کی پہلی تخلیق کا بیان کرتے ہیں اُسی طرح نئے عہدنامے کے آخری دو باب اُس کی نئی تخلیق کا بیان کرتے ہیں۔ شیطان، گناہ اور موت کے نکال دیۓ جانے پر سب کچھ خالق کی پاک ذات کے ساتھ پھر کامل طور سے ہم آہنگ ہو جاۓ گا۔ اِس کے بعد انسان یا فرشتے پھر کبھی گناہ کا شکار نہ ہوں گے۔ ضرور سبق سیکھا جا چکے گا اور ”خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہو گا۔“

خدا کا پروگرام صرف آدم کے گناہ کے اثرات دُور کرنے تک محدود نہیں بلکہ اِس میں ”سب چیزوں کو نیا بنا دینا“ بھی شامل ہے۔ خداوند کے لوگ اپنے جلالی بدنوں سے لطف اندوز ہوں گے کیونکہ یہ بدن خدا کی خِیرہ کن حضوری میں رہنے کے لائق ہوں گے۔ ہر قوم اور ہر زمانے کی فدیہ دے کر چھڑائی ہوئی روحیں پوری ابدیت میں خدا کے پُرجلال، حیرت انگیز اور بے زمان منصوبے میں شریک ہوں گی۔ ہمیں یہ خوشی اور اعزاز نصیب ہو گا کہ ہمیشہ تک اُس کے ساتھ رہیں گے اور وہ خوش ہو گا کہ میرے لوگ میرے ساتھ ہیں۔

”خدا ہمارے ساتھ“ کا مضمون ہمہ وقت کی حقیقت بن جاۓ گا۔

اُس کے ہم شکل!

فدیہ دینے والے اور اُس کے لوگوں کی باہمی رفاقت کبھی ختم نہ ہو گی۔ جو کچھ آدم نے زمینی جنت میں کھو دیا تھا وہ آسمانی جنت میں نہ صرف بحال ہو گا بلکہ اُس سے اعلی' درجہ کا ہو گا۔

جب خدا پہلے آدمی اور عورت کو پیدا کرنے کو تھا تو اُس نے کہا:

”ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں“ (پیدائش ١: ٢٦ )۔

ساری چیزیں بالکل ویسی ہو جائیں گی جیسا اُس (خدا) نے منصوبہ بنایا تھا۔ فردوس اُن مردوں اور عورتوں سے بھرا ہو گا جو کردار اور عمل میں خدا کی صورت پر اور اُس کی شبیہ پر ہوں گے۔ گناہ کا کوئی اِمکان نہ رہے گا۔ خدا کے لوگ راست بازی میں مہر بند ہوں گے۔ داؤد نبی نے پیش بینی سے یہ لکھا ”۔۔۔ مَیں تو صداقت میں تیرا دیدار حاصل کروں گا۔ مَیں جب جاگوں گا تو تیری شباہت سے سیر ہوں گا“ (زبور ١٧ : ١٥ )۔

مخلصی یافتہ مرد، عورتیں اور بچے ”خدا کے بیٹے کے ہم شکل ہو کر“ اُس کی نئی کائنات میں ہمیشہ تک محفوظ رہیں گے (رومیوں ٨: ٢٩ )۔

”۔۔۔ ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔ اِتنا جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اُس کی مانند ہوں گے کیونکہ اُس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے“ (١۔یوحنا ٣: ٢ )۔

اُس کے اپنے لۓ!

ابتدا ہی سے خدا کا ارادہ اور مقصد یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان اپنی بادشاہی اِس طرح سے قائم کرے کہ ہم اُس کے جلال ، پاکیزگی، محبت، عدل، رحم اور فضل کو جان سکیں اور اِن کی قدر کریں۔

شیطان کے خلاف طویل جنگ کے دوران خدا کا مںصوبہ ہمیشہ یہ تھا کہ ”۔۔۔غیر قوموں پر توجہ (کرے) اور اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے“ (اعمال ١٥ : ١٤ ) اور خداوند وہ لے لے گا جسے جیتنے کی خاطر وہ اِس دنیا میں آیا تھا_ یعنی مخلصی یافتہ اُمت جو اُس کی صورت اور شبیہ پر ہو گی اور شکرگزاری کے ساتھ اُس سے محبت رکھے گی اور اُس کی حمد و ستائش کرے گی اور ہمیشہ تک اُس کے ساتھ شادمان رہے گی۔

لعنت کو پلٹنے اور منسوخ کرنے کے خدا کے منصوبے کا تیسرا اور آخری مرحلہ کسی وقت بھی شروع ہو سکتا ہے۔

کیا آپ تیار ہیں؟

مسیح کے دوبارہ آنے کے خیال سے آپ خوش ہوتے ہیں یا خوف زدہ؟

بائبل مقدس اخیر زمانے کے بارے میں ہمیں بہت سی اَور بھی گہری باتیں بتاتی ہے۔ لیکن پاک کلام میں سے اِس سفر میں ہمارے پاس اِن سب پر غور کرنے کا وقت نہیں ہے۔ فی الحال یہی جان لیںا کافی ہے کہ ہمارا قابلِ اعتماد خالق اُس چھوٹی سی نبوت کو پورا کرے گا جو اُس کی کتاب کے آخری باب میں دبی پڑی ہے:

”پھر لعنت نہ ہو گی“ (مکاشفہ ٢٢ :٣ )۔

۳۰
بہشت کا پیشگی نظارہ

دنیا کے بے شمار لوگ گناہ کے بارے میں اُوٹ پٹانگ نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم اِس کی وضاحت چین کے فلسفہ یِین یانگ ( yin-yang ) کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ یِین ( yin ) کا مطلب ہے ”سایہ دار“ اور یانگ ( yang ) کا مطلب ہے ”دھوپ والا“ (جہاں دھوپ ہو)۔ اِس فلسفے کا نشان ایک دائرہ ہے جس میں کالے اور سفید کی عجیب سی آمیزش کا رنگ ہے۔ اِس قدیم چینی فلسفے میں سچائی تو ہے لیکن اِس میں نیکی اور بدی، غلط اور صحیح، زندگی اور موت کے درمیان فرق یا امتیاز کو دُھندلا کر دیا گیا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق نیکی اور بدی انسان کے وجود کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی فطری خصوصیت ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ بائبل مقدس نیکی اور بدی کا بالکل مختلف تجزیہ پیش کرتی ہے۔ وہ اِس نظریے کی حمایت نہیں کرتی کہ رنج و غم اور اُداسی کائنات کا لازمی حصہ ہے — ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا۔ پاک کلام بالکل واضح ہے کہ وہ دن آ رہا ہے جب بدی، دکھ درد اور موت (سٹیج کے اداکاروں کی طرح) آخری بار جھکیں گے اور تاریخ کی سٹیج سے ہمیشہ کے لۓ غائب ہو جائیں گے۔

مندرجہ ذیل خاکہ خدا کے لاتبدیل پروگرام کو ظاہر کرتا ہے:

ابدیت [ زمان/ وقت ] ابدیت
کامل اچھی [ ںیکی/ بدی ] کامل اچھی

حالیہ نیکی اور بدی کو قوسین میں رکھا گیا ہے۔ یہ ہمیشہ تک موجود نہیں رہیں گی (دیکھئے متی ١٣ : ٢٤ ۔ ٣٠ )۔ اِس تمثیل سے یسوع نے بتایا ہے کہ نیکی اور بدی کا آمیزہ عارضی اور محدود عرصے کے لۓ ہے۔

بائبل مقدس کے پہلے دو اور آخری دو باب گناہ سے مبرا— گناہ سے خالی دنیا پیش کرتے ہیں— وہ دنیا جس میں خدا کے ساتھ صحیح محبت رکھی جاتی ہے اور اُسے صحیح طور سے بزرگی دی جاتی ہے، اُس کی مناسب طور سے تمجید کی جاتی ہے۔ اِن پہلے اور آخری ابواب کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ خدا گناہ اور اِس کے باعث لعنت کے بارے میں اپنے پروگرام پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ اور فدیہ دے کر وہ اُمت تیار کر رہا ہے جو اُسے جانتی ہے، اُس سے محبت رکھتی ہے اور ابد تک اُس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

ہر اچھی کہانی کی طرح خدا کی فدیہ دینے کی تاریخ کا شروع، درمیان اور اخیر ہے۔

شروع: پیدائش کی کتاب باب ١ اور ٢

گناہ کے داخل ہونے سے پہلے — کامل دنیا

درمیان: پیدائش باب ٣ تا مکاشفہ باب ٢٠

برگشتہ، بگڑی ہوئی دنیا — خدا کی مداخلت

اخیر: مکاشفہ باب ٢١ اور ٢٢

گناہ کے قلع قمع کے بعد — کامل دنیا

اِختتامات کی کتاب

جیسے بائبل مقدس کی پہلی کتاب ”شروعات“ کی کتاب ہے اِسی طرح بائبل مقدس کی آخری کتاب ”اِختتامات“ کی کتاب ہے۔

پیدائش بمقابلہ مکاشفہ

پیدائش مکاشفہ
◊   سب چیزوں کا شروع √   سب چیزوں کا کمال کو پہنچنا
◊   آسمان اور زمین کی تخلیق √   نۓ آسمان اور نئی زمین کی تخلیق
◊   خدا زمین کے لئے سورج پیدا کرتا ہے۔ √   خدا فردوس کا نور ہے۔
◊   شیطان کی طرف سے انسان کی پہلی آزمائش √   شیطان کی طرف سے انسان کی آخری آزمائش
◊   خدا کی پہلی آفتیں √   خدا کی آخری آفتیں
◊   گناہ اور موت کا داخلہ √   گناہ اور موت کا قلع قمع
◊   "پہلا آدم" حکمرانی کھو دیتا ہے۔ √   "پچھلا آدم" حکمرانی بحال کرتا ہے۔
◊   خدا شیطان کو کچلنے کا وعدہ کرتا ہے۔ √   شیطان کو آگ کی جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔
◊   پہلا برّہ قربان کیا جاتا ہے۔ √   خدا کا برّہ جلال پاتا ہے۔
◊   انسان زمینی بہشت سے نکال دیا جاتا ہے۔ √   انسان آسمانی بہشت میں داخل ہوتا ہے۔
◊   انسان حیات کے درخت سے دُور کر دیا جاتا ہے۔ √   انسان حیات کے درخت سے کھاتا ہے۔
◊   بنی نوع انسان کا خدا سے رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ √   مخلصی یافتہ انسان ہمیشہ کے لئے خدا کے ساتھ۔

یہ فہرست اَور بھی طویل ہو سکتی ہے، لیکن اِتنے ہی سے خاص بات آپ کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

مکاشفہ

ہمارا یہ ایک ساتھ سفر ختم ہونے کو ہے۔ہم خدا کی کہانی کے ”اختتام“ پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اختتام دراصل ایک نۓ آغاز یا شروع کا افتتاح ہے۔

بائبل مقدس کی آخری کتاب اِن الفاظ سے شروع ہوتی ہے:

” یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اُسے خدا کی طرف سے اِس لۓ ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھاۓ جن کا جلد ہونا ضرور ہے اور اُس نے اپنے فرشتہ کو بھیج کر اُس کی معرفت اُنہیں اپنے بندہ یوحنا پر ظاہر کیا جس نے خدا کے کلام اور یسوع مسیح کی گواہی کی یعنی اُن سب چیزوں کی جو اُس نے دیکھی تھیں شہادت دی۔ اِس نبوت کی کتاب کا پڑھنے والا اور اُس کے سننے والے اور جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں کیونکہ وقت نزدیک ہے۔۔۔ جس نے اپنے خون کے وسیلہ سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی۔۔۔ اُس کا جلال اور سلطنت ابدلآباد رہے۔ آمین! دیکھو، وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمین کے سبب قبیلے اُس کے سبب سے چھاتی پیٹیں گے۔ بے شک۔ آمین!

” خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں الفا اور اومیگا ہوں (یونانی حروفِ تہجی کا پہلا اور آخری حرف — مطلب یہ ہے کہ مَیں شروع اور آخر ہوں)“ (مکاشفہ ١: ١ ۔ ٣ ، ٥۔ ٨ )۔

مکاشفہ کی کتاب کے پہلے باب کا بقیہ حصہ خداوند یسوع کی ذات کا ایسا رعب دار اور حیرت افزا بیان کرتا ہے جو اُس کے بارے میں کتابوں، فلموں اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں نہایت فرق اور چونکا دینے والا بیان ہے۔

خدا نے یہ باتیں ”اپنے بندہ یوحنا“ کو بتائیں۔ یوحنا اُن بارہ شاگردوں میں شامل تھا جو یسوع کی زمینی خدمت کے دوران اُس کے ساتھ ساتھ رہے (مرقس ٣: ١٤ ۔ ١٩ ؛ یوحنا ١٩ :٢٦ ،٢٧ )۔ خداوند کے آسمان پر واپس جانے کے ساٹھ سال بعد اُس کے روح القدس نے یوحنا کو تحریک دی، الہام دیا اور اُس نے خدا کے مجموعہ کتب (لائبریری) کی یہ آخری کتاب لکھی۔ اِس کے علاوہ اُس نے یہ کتابیں بھی قلم بند کیں: یوحنا کی انجیل، یوحنا کا پہلا، دوسرا اور تیسرا خط۔ یہ ساری کتابیں بائبل مقدس میں موجود ہیں۔

”مکاشفہ“ کا مطلب ہے” اِنکشاف“، ”ظاہر کرنا“ ، ”نقاب کشائی“۔ یہ مسحور کن کتاب اُن واقعات کا انکشاف کرتی ہے جو کسی انسان کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ یہ کتاب مختصراً بیان کرتی ہے کہ خداوند یسوع اپنے نام کو کس طرح تمام الزامات سے پاک ثابت کرے گا اور اُس حکمرانی اور اختیار کو بحال کرے گا جسے انسان نے گناہ کے باعث کھو دیا۔ یہ کتاب فردوس کا پیشگی نظارہ بھی کراتی ہے۔

بڑا سفید تخت

خدا کے چند برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو خدا کی سکونت گاہ کی جھلک دکھائی گئی، لیکن ایسا صاف اور تفصیلی نظارہ کسی کو نہیں کرایا گیا جیسا یوحنا رسول کو۔ یوحنا لکھتا ہے:

”اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اور جس کو مَیں نے پیشتر نرسنگے کی سی آواز سے اپنے ساتھ باتیں کرتے سنا تھا وہی فرماتا ہے کہ یہاں اوپر آ جا، مَیں تجھے وہ باتیں دکھاؤں گا جن کا اِن باتوں کے بعد ہونا ضرور ہے۔ فوراً مَیں روح میں آ گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ایک تخت رکھا ہے اور اُس تخت پر کوئی بیٹھا ہے اور جو اُس پر بیٹھا ہے وہ سنگِ یشب اور عقیق سا معلوم ہوتا ہے اور اُس تخت کے گرد زمرد کی سی ایک دھنک معلوم ہوتی ہے“ (مکاشفہ ٤ : ١۔ ٣ )۔

[سنگِ یشب اور عقیق دو قیمتی پتھر ہیں۔ سنگِ یشب کئی رنگوں میں ملتا ہے۔ عقیق عموماً شفاف یا نیم شفاف سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ روشنی پڑنے پر اس کا رنگ گہرا اور جاذبِ نظر ہو جاتا ہے۔]

یوحنا آسمان کی تخت گاہ کا بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ناقابلِ بیان حد تک شاندار اور پُرشکوہ ہے۔ خدا کے تخت کے اِرد گرد فرشتگان اُڑتے پھرتے ہیں اور لگاتار پکارتے رہتے ہیں ”قدوس، قدوس، قدوس۔ خداوند خدا قادرِ مطلق جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے“ (مکاشفہ ٤: ٨ )۔

یوحنا نے جو کچھ دیکھا اُسے وہ صرف اُن چیزوں کے حوالے سے بیان کر سکتا ہے جو اُس نے زمین پر دیکھی ہیں اور اُن آسمانی چیزوں سے تھوڑی بہت مشابہت رکھتی ہیں۔ مگر وہاں کی ہر چیز بے انتہا خوبصورت اور خوش نما ہے۔ وہ چندھیا دینے والی روشنی اور فوق الفطرت رنگوں سے مزین جگہ کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اُس نے بادلوں کی گرج جیسی آوازیں اور بے شمار دوسری آوازیں سنیں جو نہایت خوشی سے حمد و ثنا کر رہی تھیں۔ لیکن جس نے یوحنا کو سب سے زیادہ متوجہ اور مسحور کیا وہ تخت پر بیٹھا ہوا شخص تھا۔

[غور کریں تخت پر کون ہے۔ یسعیاہ باب ٦ کا موازنہ یوحنا ١٢ : ٣٦ ۔ ٤١ سے کریں۔ یسعیاہ باب ٦ والا رَویا اِس کتاب کے باب ١٥ میں بھی زیرِ غور آیا تھا۔]

تجسس آمیز جوش

اِس دنیا کے مذہب بہشت کی کئی مختلف تصویریں پیش کرتے ہیں۔

اِن میں سے بعض تصویریں تو بالکل اُکتا دینے اور بیزار کرنے والی ہیں۔ شاید آپ نے کارٹون دیکھے ہوں کہ لوگ بادلوں پر بیٹھے ہیں اور بڑی فرض شناسی سے بربطیں بجا رہے ہیں۔ لیکن بائبل مقدس خدا کی شاہانہ سکونت گاہ کی ایسی تصویر پیش نہیں کرتی۔

کئی لوگ جنت کو ایک باغ کی صورت میں پیش کرتے ہیں جہاں مردوں کو مرکزیت حاصل ہے اور وہ لگاتار نفسانی اور شہوانی لذت اُٹھانے میں مصروف ہیں۔ یہ تصور بھی غلط ہے۔ جب خداوند اِس دنیا میں تھا تو اُس نے سکھایا کہ بہشت میں مخلصی یافتہ لوگوں میں ”بیاہ شادی نہ ہو گی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہوں گے“ (متی ٢٢ : ٣٠ )۔

فردوس وہ جگہ ہے جہاں خدا کو مرکزیت، سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اور بے کراں محبت اور حکمت کی حضوری میں رہنے کی خوشی اور جوش ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ فردوس وہ جگہ ہے جہاں باہمی تعلقات ایسی ارفع و اعلی' سطح پر ہیں جس کا زمین پر کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ خدا نے زمین پر بیاہ شادی کے رواج سے اُس اعلی' اور جلالی تعلق کا ایک ہلکا سا تصور دیا جو خدا اور اُس کے مخلصی یافتہ لوگوں کے درمیان ابد تک رہے گا۔ بلکہ یہ زمینی شادی بھی اُس زبردست خوشی اور پاکیزہ تعلق کی وضاحت کرنے اور پوری تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے جو مسیح کے ساتھ پیوستہ لوگوں کو حاصل ہو گی۔ پاک کلام میں اِسے ”بڑا بھید“ کہا گیا ہے (افسیوں ٥: ٣٢ )۔ کلام مزید کہتا ہے کہ ”مبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بلاۓ گۓ ہیں!“ (مکاشفہ ١٩ :٩ )۔

خداوند کے ساتھ رہنا ہی فردوس ہے!

فرشتے جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے پیدا کۓ گۓ تھے وہ ہمیشہ کی نسبت آج خدا کی حضوری سے زیادہ ہیبت زدہ ہیں۔ یہی حال آدم کی مخلصی یافتہ اولاد کا ہو گا!

خداوند اپنے خدا کے جلال، حکمت اور کاملیت کو سمجھنے میں، اُس کا ادراک کرنے میں پوری ابدیت درکار ہو گی:

”اے خدا! تیرے خیال میرے لۓ کیسے بیش بہا ہیں۔
اُن کا مجموعہ کیسا بڑا ہے!
اگر مَیں اُن کو گنوں تو وہ شمار میں ریت سے بھی زیادہ ہیں۔
جاگ اُٹھتے ہی مَیں تجھے اپنے ساتھ پاتا ہوں“ (زبور ١٣٩ : ١٧ ، ١٨ )۔

خداوند کے ساتھ ہونے کی خوشی اور شادمانی کبھی دھیمی نہ پڑے گی، کبھی پرانی نہ ہو گی۔ سوال یہ نہیں کہ کیا ہم اِس سے کبھی اُکتا جائیں گے، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنی نظریں اُس (خدا) سے ہٹا پائیں گے؟

”تیرے حضور کامل شادمانی ہے تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے“ (زبور  ١٦ : ١١ )۔

بڑا ہجوم

یوحنا رسول نے نہ صرف تخت پر بیٹھے ہوۓ خداوند کی جھلک دیکھی بلکہ اُس نے مخلصی یافتہ لوگوں کی بہت بڑی بھیڑ بھی دیکھی۔

” اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے ۔۔۔ تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے اور بڑی آواز سے چلّا چلّا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے“ (مکاشفہ ٧: ٩، ١٠ )۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ خدا نے وعدہ کیا تھا کہ ساری قومیں اُس منجی کے وسیلے سے برکت پائیں گی جو ابرہام، اضحاق اور یعقوب کی نسل سے ہو گا (پیدائش ١٢ : ٢، ٣ ؛ متی باب ١ )؟ ابرہام کے ساتھ وعدوں کے بارے میں ”ایک خدا، ایک پیغام“ کا باب ٢٠ دوبارہ ملاحظہ کریں۔

خدا نے یوحنا رسول کو اعزاز بخشا کہ مستقبل پر نگاہ ڈالے اور اُس (خدا) کے وعدہ کو پورا ہو چکا دیکھے۔

زمین کے ہر قبیلہ، ہر قوم اور اہلِ لغت میں سے لوگ خدا کے تخت کے آگے کھڑے ہوں گے۔ مخلصی یافتہ گنہگاروں کی بھیڑ اِتنی بڑی ہو گی کہ کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ وہ سب شکرگزاری اور خوشی کے ساتھ بلند آواز سے برّہ کی حمد اور تعریف کرتے رہیں گے جس نے اُنہیں ابدی موت سے چھڑانے اور ہمیشہ کی زندگی دینے کے لۓ اپنا خون بہایا۔

” اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی ۔۔۔ لائق ہے ۔۔۔ کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زبان اور اُمت اور قوم میں سے خدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا اور اُن کو ہمارے خدا کے لئے ایک بادشاہی اور کاہن بنا دیا اور وہ زمین پر بادشاہی کرتے ہیں۔ اور جب مَیں نے نگاہ کی تو اُس تخت اور اُن جانداروں اور بزرگوں کے گردا گرد بہت سے فرشتوں کی آواز سنی جن کا شمار لاکھوں اور کروڑوں تھا اور وہ بلند آواز سے کہتے تھے کہ ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت اور دولت اور حکمت اور طاقت اور عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے۔“ (مکاشفہ ٥: ٩ ۔ ١٢ )

میرا مخلصی دینے والا

چار ہزار سال پیشتر ایوب نبی نے شادمانی کا اظہار کیا تھا:

”۔۔۔ مَیں جانتا ہوں کہ میرا مخلصی دینے والا زندہ ہے۔ اور آخرکار وہ زمین پر کھڑا ہو گا۔ اور اپنی کھال کے اِس طرح برباد ہو جانے کے بعد بھی مَیں اپنے اِس جسم میں سے خدا کو دیکھوں گا۔ جسے مَیں خود دیکھوں گا اور میری ہی آنکھیں دیکھیں گی نہ کہ بیگانہ کی۔ میرے گُردے میرے اندار فنا ہو گۓ ہیں“ (ایوب ١٩ : ٢٥ ۔ ٢٧ )۔[ آخری جملے کا مطلب ہے کہ میرا دل بے حد مشتاق ہے۔ میرے دل میں بڑی آرزو ہے۔]

ایوب کے دل کی طرح کیا آپ کے دل میں بھی ”خدا کو دیکھنے“ کی بڑی آرزو ہے؟ کیا آپ اُسے مخلصی دینے والے کی حیثیت سے جانتے ہیں؟

سارے ایمان دار ایوب کی یقینی اُمید میں شریک ہیں۔ میرے دوست! مَیں آپ کے لۓ تو بول نہیں سکتا، لیکن مَیں جانتا ہوں کہ مَیں اپنے مخلصی دینے والے کو روبرو دیکھوں گا! ”خدا کا بیٹا۔۔۔ جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لۓ موت کے حوالہ کر دیا“ (گلتیوں ٢: ٢٠ ) مَیں اُس کے ساتھ چلوں پھروں گا اور باتیں کروں گا۔

ہاں، مَیں اُس شاندار وقت کا انتظار کرتا ہوں جب ہر زمانے کے خدا کے لوگوں اور خاندان اور دوستوں کے ساتھ جو خداوند کے پاس پہنچ چکے ہیں میری ملاقات اور رفاقت ہو گی۔ اور مَیں اپنے پورے دل سے اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی اُن میں شامل ہوں گے۔ لیکن سب سے بڑھ کر مَیں یسوع کو دیکھنا چاہتا ہوں!

اُس نے میری خاطر میرا جہنم اُٹھا لیا

بے شک سب سے حیرت انگیز سچائی جس پر میرا دل و دماغ غور کر سکتا ہے یہ ہے کہ:

یسوع چاہتا ہے کہ مَیں ابدیت میں اُس کے ساتھ رہوں!

جس رات یسوع پکڑوایا گیا کہ اُس پر الزام لگا کر مصلوب کیا جاۓ اُس نے فرمایا:

”اے باپ! مَیں چاہتا ہوں کہ جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے جہاں مَیں ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہو ں تاکہ میرے اُس جلال کو دیکھیں جو تُو نے مجھے دیا ہے، کیونکہ تُو نے بناۓ عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی“ (یوحنا ١٧ : ٢٤ )۔

یہ خدا کے پیغام کا مرکزی نکتہ ہے۔ اُس کا ارادہ اور منصوبہ تھا کہ انسان میرے ساتھ رہیں۔ لیکن وہ آپ سے زبردستی ایسا نہیں کراۓ گا۔

اُس نے اِنتخاب آپ پر چھوڑ رکھا ہے۔

” جو غالب آۓ مَیں اُسے اُس زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا“ (مکاشفہ ٢: ٧ )۔

” دنیا کا مغلوب کرنے والا کون ہے سِوا اُس شخص کے جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے؟“ (١۔یوحنا ٥: ٥)۔

کامل گھر

بائبل مقدس کے آخری دو ابواب ابدی گھر کی اُس جھلک کا بیان کرتے ہیں جو مقدس یوحنا نے دیکھی — وہ مقام جہاں ہر دَور کے ایمان دار اپنے خالق اور مخلصی دینے والے کے ساتھ رہیں گے اور اُن ساری چیزوں میں شریک ہوں گے جو اُس نے اپنے لوگوں کے لۓ تیار کی ہیں۔

”پھر مَیں نے ایک نۓ آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔ پھر مَیں نے شہر مقدس نۓ یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا“ (مکاشفہ ٢١ : ١، ٢)۔

یہ جلالی شہر ”آسمان پر  سے خدا کے پاس سے“ اُترے گا اور ہمارے نۓ تخلیق شدہ کرہ ارض سے پیوستہ ہو گا۔ نئی زمین پر ”سمندر بھی نہیں رہے گا“ اور برِاعظم ایک دوسرے سے جدا اور دُور دُور نہیں ہوں گے۔

”اور وہ (خدا) اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں“ (مکاشفہ ٢١ : ٤)۔

سب کچھ کامل ہو گا۔ وہ آسمانی شہر اِتنا جلالی اور شاندار ہو گا کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مقدس یوحنا کو اِس کا بیان کرنا مشکل لگا:

” ۔۔۔ وہ شہر چوکور واقع ہوا تھا اور اُس کی لمبائی چوڑائ کے برابر تھی۔ اُس نے اُس شہر کو اُس گز سے ناپا تو بارہ ہزار فرلانگ (٢٤٠٠ کلو میٹر) نکلا۔ اُس کی لمبائی اور چوڑائ اور اونچائی برابر تھی۔ اور اُس نے اُس کی شہر پناہ کو آدمی کی یعنی فرشتہ کی پیمائش کے مطابق ناپا تو ایک سو چوالیس ہاتھ نکلی اور اُس کی شہر پناہ کی تعمیر یشب کی تھی اور شہر ایسے خالص سونے کا تھا جو شفاف شیشہ کی مانند ہو اور اُس شہر کی شہرپناہ کی بنیادیں ہر طرح کے جواہر سے آراستہ تھیں۔۔۔ اور بارہ دروازے بارہ موتیوں کے تھے۔ ہر دروازہ ایک موتی کا تھا۔ اور شہر کی سڑک شفاف شیشہ کی مانند خالص سونے کی تھی۔ اور مَیں نے اُس میں کوئی مقدِس نہ دیکھا اِس لۓ کہ خداوند خدا قادرِ مطلق اور برّہ اُس کا مقدِس ہیں۔ اور اُس شہر میں سورج یا چاند کی روشنی کی کچھ حاجت نہیں کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے اور برّہ اُس کا چراغ ہے اور قومیں اُس کی روشنی میں چلیں پھریں گی۔۔۔ اور اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا مگر وہی جن کے نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں“ (مکاشفہ ٢١ :١٦ -٢٤ ، ٢٧ )۔

اِس نہایت وسیع و عریض شہر کا ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا حصہ نہایت شاندار اور جلالی ہے، یہاں تک کہ اِس کی سڑکیں بھی شیشے کی طرح شفاف ”خالص سونے“ کی ہیں۔ اِس کا ایک ایک پتھر  اور اِس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ایک ایک چیز ایسے بنائی گئ ہے کہ خداوند کا جلال منعکس کرتی ہے۔

اِس شہر میں نہ مقدِس ہے اور نہ سورج، اِس لۓ کہ خداوند خود اِس شہر کی عبادت کا مرکز اور روشنی کا سرچشمہ ہے۔ ”برّہ اِس کا چراغ ہے۔“

فردوس اُسی ہستی سے منور ہو گا جس نے تخلیق کے پہلے دن کہا تھا کہ ”روشنی ہو جا۔“ اِس شہر کی روشنی وہی چندھیا دینے والی تابانی (درخشانی، جلال) ہو گی جو خیمہ اجتماع اور ہیکل کے پاک ترین مقام میں سکونت کرتی تھی یعنی خود یسوع جس نے فرمایا ” مَیں دنیا کا نور ہوں“ (یوحنا ٨: ١٢ )۔

یہ آسمانی شہر کامل مکعب کی شکل کا ہو گا جیسے خیمہ اجتماع یا ہیکل میں پاک ترین مقام تھا اور جو فردوس کی علامت تھا۔ اِس شہر کی لمبائی اور چوڑائی ہر طرف سے ٢٢٠٠ کلو میٹر ہے اور اِس کی اونچائی بھی اِتنی ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر بلندی میں اِس زمین کے کرہ قائمہ سے بھی بہت اوپر خلا تک پہنچے گا۔

اِس شاندار جلالی گھر میں سارے لوگوں کے لۓ، ایک ایک شخص کے لۓ جو کبھی بھی پیدا ہوا جگہ ہو گی۔ تاہم سارے لوگ وہاں نہیں ہوں گے بلکہ صرف ”وہی جن کے ںام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں۔“ صرف وہی جنہوں نے اپنی زمینی زندگی کے دوران واحد حقیقی خدا اور اُس کی نجات (یسوع) پر ایمان رکھا اور توکل کیا، وہاں ہوں گے۔

بائبل مقدس کا آخری باب اُس باغ کا نقشہ کھینچتا ہے جو اُس آسمانی شہر میں واقع ہے:

”پھر اُس نے مجھے بلور کی طرح چمکتا ہوا آبِ حیات کا ایک دریا دکھایا جو خدا اور برّہ کے تخت سے نکل کر اُس شہر کی سڑک کے بیچ میں بہتا تھا۔ اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت تھا۔ ۔۔ اور پھر لعنت نہ ہو گی اور خدا اور برہ کا تخت اُس شہر میں ہو گا اور اُس کے بندے اُس کی عبادت کریں گے اور وہ اُس کا منہ دیکھیں گے اور اُس کا نام اُن کے ماتھوں پر لکھا ہوا ہو گا ۔۔۔ اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریں گے“ (مکاشفہ ٢٢: ١۔ ٥ )۔

لاجواب اور کامل کہانی

خدا کی کہانی نے پورا چکر مکمل کر لیا ہے!

اِس شہر کے بیچ میں دریا اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت ہے۔ جو بات ایک خوبصورت اور خوش منظر باغ میں شروع ہوئ تھی اُس کا اختتام ایک نہایت نادر ، آراستہ پیراستہ شہر کے رفیع الشان باغ میں ہوتا ہے۔ عدن کے برعکس آسمانی فردوس میں نیک و بد کی پہچان کا درخت نہیں ہو گا بلکہ اُس میں ”زندگی کا درخت“ ہو گا جس سے آدم اور حوا کو دُور کر دیا گیا تھا جب اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔ آسمانی شہر میں کامل پاکیزگی اور دائمی زندگی ہی واحد انتخاب ہو گا۔

آزمائش یا جانچ پرکھ کا زمانہ اور ایمان سے جیتا رہنا تاریخ پارینہ بن جائیں گے۔

”خدا اور برّہ کا تخت اُس شہر میں ہو گا اور اُس کے بندے اُس کی عبادت کریں گے اور وہ اُس کا منہ دیکھیں گے۔۔۔ اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریں گے“ (مکاشفہ ٢٢ : ٣ ۔ ٥ )۔

وہاں کی دائمی خصوصیت یہ ہے کہ خداوند کے درمیان نہایت شیرین اور نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہو گا۔ خدا ہمارے ساتھ اور ہم خدا کے ساتھ رہیں گے۔ یہ حالت اُس بات سے بھی زیادہ دلکش اور عجیب ہو گی جو آدم اور حوا کو کبھی میسر  آتی اگر وہ گناہ نہ کرتے۔

یہ زیادہ دلکش اور عجیب کیوں ہو گی؟

اِس کا جواب لفظ مخلصی (فدیہ) میں ہے۔

” اُسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے“ (کلسیوں ١: ١٣ ، ١٤ )۔

شریعت کی نافرمانی کرنے پر انسان کو گناہ اور موت کی تاریک کوٹھڑی میں رہنے کی سزا ہو چکی تھی، لیکن اُنہیں وہاں سے نکال کر خدا کی نور اور محبت کی بادشاہی کے مقبول شہری بنا دیا گیا۔ اِس سے زیادہ شاندار اور عجیب بات کیا ہو سکتی ہے؟

یہ کام ہے جو ہمارے خالق اور مخلصی دینے والے نے اُن سب کے لئے کیا ہے جو نجات کے لۓ صرف اُسی پر ایمان اور توکل رکھتے ہیں۔ اپنی بے انتہا محبت کے باعث اور اپنے بیش قیمت خون کے وسیلے سے اُس نے ناچار اور بے بس گنہگاروں کو جہنم سے چھڑا کر بہشت کے لائق بنا دیا ہے۔

یہ ہے کامل کہانی — فدیہ اور مخلصی کی کہانی جس پر پوری ابدیت میں غور کیا جاتا رہے گا اور جس کی تعریف کی جاۓ گی۔

”اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے اور کھجور کی ڈالیاں اپنے ہاتھوں میں لۓ ہوۓ تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے اور بڑی آواز سے چلّا چلّا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے“ (مکاشفہ ٧: ٩ ، ١٠ )۔

”اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی ۔۔۔ لائق ہے کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زبان اور اُمت اور قوم میں سے خدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا۔۔۔ جو تخت پر بیٹھا ہے اُس کی اور برّہ کی حمد اور عزت اور تمجید اور سلطنت ابدالآباد رہے“ (مکاشفہ ٥: ٩ ، ١٣ )۔

اِس کے بعد ہمیشہ خوشی و خرمی

ساری دنیا میں لوگ رومان اور شجاعت اور کسی کو دوسروں کے قبضے سے چھڑانے کی داستانیں اور کہانیاں پسند کرتے ہیں کیونکہ اُن کا اختتام خوشی و خرمی کی حالت پر ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر سنڈریلا کی دیومالائی کہانی جو سب سے پہلے چین میں کہی گئ۔ اِس کے تراجم یورپ، امریکہ، ایران، عراق، مصر، کوریا، برِصغیر پاک و ہند کی زباںوں میں ہوۓ۔ اِس کے علاوہ ہر ملک یا خطے کی اپنی اپنی رومانی داستانیں بھی ہیں مگر سب کا موضوع ایک ہی ہے، یعنی کسی گرفتارِ بلا کو چھڑانا اور رہائی دلانا۔ گناہ سے رہائی اور ہمیشہ کی زندگی کی آرزو دنیا بھر کے اور ہر زمانے کے لوگوں کے دلوں میں جاگزین رہی ہے۔ حضرت سلیمان نے لکھا ہے ”اُس نے ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کیا ہے اِس لۓ کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا“ (واعظ ٣: ١١ )۔

خواہ گاؤں کی چوپال میں الاؤ کے گرد بیٹھے ہوۓ لوگوں کو کوئی داستان ڈرامائی انداز میں کوئی قصہ سنا رہا ہو، یا والدین سونے سے پہلے بچوں کو کوئی کہانی پڑھ کر سنا رہے ہوں، مگر ہر کہانی یا داستان کا پلاٹ کم و بیش ایک ساہی اور کچھ یوں ہوتا ہے:

ایک خوبصورت جوان لڑکی یا شہزادی مصیبت میں پھنس جاتی ہے۔ کوئی بدقماش شخص یا جن اُسے قید کر لیتا ہے۔ کوئی ہیرو اُسے چھڑانے نکلتا ہے۔ اُسے غیبی اور فوق الفطرت مدد  حاصل ہو جاتی ہے اور انوکھے واقعات اُس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور بانکا سجیلا ہیرو اُسے رہائی دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور ایک شاندار مکان میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

دیکھا، کہانی کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟

۔۔۔ اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے!

لوگ ایسی کہانیاں کیوں سناتے ہیں؟

اِس لۓ سناتے ہیں کہ خدا نے انسان کے دل و جان میں یہ آرزو جاگزین کر رکھی ہے کہ ہم بدی اور گناہ سے چھٹکارا پائیں۔ ہم سے محبت رکھی جاۓ اور ہم ہمیشہ تک خوش و خرم رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے بوڑھے سب ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔

لیکن خدا کی کہانی کوئی خیالی افسانہ نہیں ہے۔

خیالی باتوں کی جڑیں تاریخ میں نہیں ہوتیں اور نہ آثارِ قدیمہ اُن کی تصدیق کرتے ہیں۔ من گھڑت کہانی پندرہ صدیوں کے دوران درجنوں افراد نہیں لکھتے اور نہ اُس کی تفاصیل کے لئے سینکڑوں پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔ افسانوی ہیرو یسوع جیسی آسمانی حکمت سے باتیں نہیں کر سکتا۔ اور جن کو بچانے آیا ہے اُن سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ”دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور جتنی باتیں نبیوں کی معرفت لکھی گئی ہیں ابنِ آدم کے حق میں پوری ہوں گی کیونکہ ۔۔۔ لوگ اُس کو ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے اور بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے اور اُس کو کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا“ (لوقا ١٨ : ٣١ ۔ ٣٣ )۔ افسانوی یا خیالی باتیں دوزخی گنہگاروں کو پاک صاف ضمیر اور ہمیشہ کی زندگی مہیا نہیں کر سکتا۔ سرابِ خیال ہمارے خالق کے ساتھ ہمارا شخصی تعلق قائم نہیں کر سکتا اور نہ ہمارے گناہ آلود اور خود غرض اور مطلب پرست دلوں کو بدل کر اُن میں خدا کی تمجید کرنے اور دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔

صرف خدا کی کہانی ایسا کر سکتی ہے!

کیونکہ یہ حقیقی چیز ہے۔

مختصراً  یہ کہ واحد حقیقی خدا کی کہانی اور پیغام اپنے ازلی بیٹے کے بارے میں ہے جو بشر بنا، جس نے کامل زندگی گزاری، اپنا کامل اور بے عیب خون بہایا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا، بے بس اور مجبور گنہگاروں کو شیطان، گناہ، موت اور جہنم سے چھڑایا تاکہ جو لوگ ایمان لائیں اُنہیں اپنے باپ کے گھر کی دائمی حکمت، محبت اور جلال کی ابدی خوشیوں میں شریک کرے۔

یہ ہے مصیبت زدہ دنیا کے لئے خدا کی خوش خبری۔

جو کچھ اُس نے ہماری خاطر کیا ہے اُسی سے ہم ہمیشہ تک ہنسی خوشی جی سکتے ہیں۔

”مجھ کو یقین ہے کہ سب کچھ جو خدا کرتا ہے ہمیشہ کے لئے ہے“ (واعظ ٣: ١٤ )۔

دعوت اور اِنتباہ

خدا کی کتاب کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے:

”مجھ یسوع نے اپنا فرشتہ اِس لۓ بھیجا ۔۔۔ کہ تمہارے آگے اِن باتوں کی گواہی دے ۔۔۔ میں الفا اور اومیگا۔ اوّل اور آخر۔ ابتدا و انتہا ہوں“ (مکاشفہ ٢٢: ١٣ ، ١٦ )۔

”اور روح اور دُلھن (مخلصی یافتہ گنہگار) کہتی ہیں آ اور سننے والا بھی کہے آ۔ اور جو پیاسا ہو وہ آۓ اور جو کوئی چاہے آبِ حیات مفت لے۔

مَیں ہر ایک آدمی کے آگے جو کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اِن میں کچھ بڑھاۓ تو خدا اِس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا۔ اور اگر کوئی اِس نبوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خدا اُس زندگی کے درخت اور مقدس شہر میں سے جن کا اِس کتاب میں ذکر ہے اُس کا حصہ نکال ڈالے گا۔

جو اِن باتوں کی گواہی دیتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ بے شک مَیں جلد آنے والا ہوں۔ آمین۔ اے خداوند یسوع آ۔

خداوند یسوع کا فضل مقدسوں کے ساتھ رہے۔ آمین!“ (مکاشفہ ٢٢ : ١٧ ۔ ٢١ )

کتاب کا مصنف جو بے زمان ہے اِس آخری ”آمین“ کے ساتھ کتاب کو ختم کرتا ہے۔ ”آمین“ کا مطلب ہے” معتبر اور سچا“۔

خدا اور انسان اکٹھے

باغِ عدن میں خدا نے آدم کو پکارا اور پوچھا ”تُو کہاں ہے؟“ کیا آپ کو یاد ہے کہ آدم نے کیا جواب دیا تھا؟

آدم نے بڑی شرمندگی کے ساتھ جواب دیا تھا۔

” مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا“ (پیدائش ٣: ١٠ )۔

آدم اور حوا نے اپنے خالق سے چھپنے کی کوشش کی کیونکہ اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔

لیکن اب تاریخ کے اختتام پر ایمان دار مردوں، عورتوں اور بچوں کا اپنے خالق اور فدیہ دینے والے کے اِس وعدے پر کیا ردِ عمل ہے کہ مَیں آؤں گا اور تمہیں ساتھ لے جاؤں گا تاکہ ہمیشہ تک میرے ساتھ رہو۔

وہ خوشی اور شادمانی کے ساتھ جواب دیتے ہیں:

”آمین! — ایسا ہی ہو — اے خداوند یسوع آ“ (مکاشفہ ٢٢: ٢٠)

یہ تبدیلی کیونکر آئی؟ کیا وجہ ہے کہ اب آدم کی اولاد میں سے بہت سے لوگ اپنے خداوند سے چھپنا نہیں چاہتے؟ بلکہ اِس وجہ سے وہ خوشی اور جوش کا اظہار کیوں کرتے ہیں کہ اُسے رُوبرو دیکھیں گے؟

جواب واحد حقیقی خدا کے اِس پیغام میں ملتا ہے کہ

” خدا نے “ ہمیں نجات دی اور پاک بلاوے سے بلایا، ہمارے کاموں کے موافق نہیں بلکہ اپنے خاص ارادہ اور اُس فضل کے موافق جو مسیح یسوع سے ہم پر ازل سے ہوا، مگر اب ہمارے منجی مسیح یسوع کے ظہور سے ظاہر ہوا جس نے موت کو نیست اور زندگی اور بقا کو اُس خوش خبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا“ (٢۔تیمتھیُس ١: ٩، ١٠ )۔

ایک ہی حکم

زمین پر  فردوس (باغِ عدن) میں خدا نے آدم کو ایک واضح حکم دیا تھا۔ اُسی طرح فردوس کے آسمانی شہر کے بارے میں بھی اُس نے آدم کی اولاد پر ایک حکم واضح کر دیا ہے:

”اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا، مگر وہی جن کے نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں“ (مکاشفہ ٢١ : ٢٧ )۔

کیا آپ کا نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھا ہوا ہے؟ اگر ہے تو اُس کی طرف سے خاص آپ کے لۓ اُس کا ذاتی پیغام یہ ہے:

” تمہارا دل نہ گھبراۓ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو مَیں تم سے کہہ دیتا کیونکہ مَیں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لۓ جگہ تیار کروں۔ اور اگر مَیں جا کر تمہارے لۓجگہ تیار کروں تو پھر آ کر تمہیں ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں تم بھی ہو۔۔۔“ (یوحنا ١٤ : ١ ۔ ٣ )۔

” راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا“ (یوحنا ١٤ : ٦ )۔

Pages