February 2014

۴
سائنس اور بائبل مقدّس
ایوب نبی نے فرمایا ” وہ (خدا) زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے۔ “ — ایوب ٢٦ :٧

چند سال ہوۓ مَیں اور میری اہلیہ زمین کی گہرائ میں ایک غار کے اندر گۓ۔ ہماری گائیڈ خاتون ہمیں غار کے فرش سے اوپر کو اُٹھتی ہوئ چٹانیں اور غار کی چھت سے نیچے کو لٹکتی ہوئ چٹانیں دکھا رہی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ ” یہ سب کچھ پانی کی ایک بوند سے شروع ہوا۔ ٣٣٠ ملین سال ہوۓ اِس جگہ پر سمندر کی ایک کھاڑی تھی۔ کیچڑ کی تہ پر تہ جمتی گئ اور چونا پتھر کی یہ چٹانیں بن گئیں ۔۔۔ “

یہ بالکل سائنسی بات معلوم ہوتی ہے۔ گویا انسان ایک مشاہدہ کرنے والے کی حیثیت سے وہاں موجود تھا اور شروع سے سارا عمل دیکھ رہا تھا۔ اُس خاتون کی بات سن کر میرے ذہن میں خدا کی وہ بات گونجنے لگی جو اُس نے ایوب نبی سے کہی تھی، ” تُو کہاں تھا جب مَیں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟ تُو دانش مند ہے تو بتا “ (ایوب ٣٨ : ٤)۔ اِس تفریحی دَورے کے بعد مَیں نے اپنی گائید کا شکریہ ادا کیا اور اُس سے پوچھا ” ماہرینِ ارضیات کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ غار اتنے ملین سال پرانی ہے؟ “ اُس خاتون نے اقرار کیا کہ ” دراصل اُنہیں علم نہیں __ لیکن مَیں نے آپ کو وہی کچھ بتایا جس کی مجھے تربیت دی گئ ہے۔ “

اصلی سائنس

لفظ سائنس لاطینی کے لفظ سائنشا ( scientia ) سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے جاننا یا علم __ ایسا علم جس میں کوئ شک نہ ہو۔ کوئ سائنس دان چاہے تو کسی مفروضے یا نظریے کو ” سائنس “ کا نام دے دے، لیکن اِس طرح وہ مفروضہ سائنس تو نہیں بن جاتا۔

١٩٧٠ ء کی دہائ میں شاہ فیصل کے ذاتی معالج (فرانس کے شہری) مورس بُکئیل نے ” بائبل، قرآن اور سائنس “ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اسلامی دنیا کی ساری کتابوں کی دکانوں اور مسجدوں میں نمایاں جگہ پر رکھی جاتی ہے۔ یہ کتاب وثوق سے کہتی ہے کہ بائبل جدید سائنس کی تردید کرتی ہے۔ بُکئیل راۓ زنی کرتا ہے کہ بائبل مقدس کے پہلے باب میں مرقوم تخلیقِ کائنات کا بیان غالباً کسی خیالی قصے سے ترجمہ کر کے (بائبل میں) لکھا گیا ہے، اِس لۓ کہ یہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں انسانوں کے ہمیشہ بدلتے رہتے نظریات کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ بہت سے دوسرے مفکرین کی طرح بُکئیل نے بھی وہی غلطی کی ہے کہ نظریہ ارتقاء کو اصل سائنس کے برابر  قرار دیا ہے۔

ڈارون کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق مادہ نے اربوں کھربوں سالوں میں رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے کائ کی صورت اختیار کی اور مزید اربوں سالوں کے بعد ابیبا بنا اور اِسی طرح ابیبا سے بندر اور بندر سے انسان بنا۔ اِس نظریہ کے مطابق انسان، بندر، سیم باہمی (ایک قسم کی مچھلی) کی اصل ایک ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس نہ تو اتفاقی ارتقاء اور نہ بامقصد تخلیق کو ثابت کر سکی ہے۔ دونوں کے لۓ ایمان کی ضرورت ہے۔

یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پاک نوشتے طبعی سائنس سکھانے کے لۓ نہیں دیۓ گۓ بلکہ روحانی سائنس کو ظاہر کرنے کے لۓ دیۓ گۓ ہیں۔ خدا نے ہمیں اپنی کتاب دی تاکہ دکھاۓ کہ مَیں (خدا) کون ہوں اور کیسا اور کس کی مانند ہوں اور مَیں نے تمہارے لۓ کیا کیا ہے۔ اور یہ کتاب اِس لۓ دی کہ ہمیں بتاۓ کہ ہم کہاں سے آۓ ہیں، ہم اِس دنیا میں کیوں ہیں اور ہمارا انجام کیا ہو گا۔ یہ معلومات کسی تحقیقی تجربہ گاہ میں دریافت نہیں ہو سکتی نہ اِس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ بائبل مقدس زندگی کے ہر ایک پہلو پر بات کرتی ہے اِس لۓ حیرت نہیں ہونی چاہۓ کہ اِس میں طبعی دنیا کے بارے میں بھی مکمل معلومات موجود ہیں جن سے انسان اُس وقت ناواقف تھا جب یہ نوشتے لکھے گۓ۔

خدا نے پہلے فرمایا تھا

آیۓ ہم سات مثالیں دیکھتے ہیں جہاں خدا کی کتاب نے صدیوں پہلے وہ معلومات ریکارڈ کر دی تھیں جو جدید دَور کے سائنس دانوں نے دریافت کی ہیں۔ بعدازاں جب ہم پاک صحیفوں پر غور کریں گے تو بائبل مقدس میں سائنس کی اَور بھی حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں گی۔

١۔ گول زمین

تاریخ کی کتابیں کہتی ہیں کہ ٥٠٠ ق م میں سب سے پہلے یونانیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین گول ہے۔ یونانی فلسفیوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ زمین ایک کرہ ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ اُن کی راۓ میں کرہ ہی ” مکمل ترین “ وضع یا شکل و صورت ہوتی ہے۔ لیکن اِس سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایوب نبی نے علی الاعلان کہہ دیا تھا کہ جو خدا “ زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے “ اُسی نے ” روشنی اور اندھیرے کے ملنے کی جگہ تک پانی کی سطح پر حد باندھ دی ہے “ (لغوی معنی ہیں ” پانی کی سطح پر دائرہ کھینچا ہے “ __ دیکھۓ کیتھولک ترجمہ)۔ اور یونانیوں سے ٤٠٠ سال پہلے سلیمان نبی نے بیان کیا کہ خدا نے ” سمندر کی سطح پر دائرہ کھینچا “ (امثال ٨ : ٢٧ )۔ اور ٧٠٠ ق م میں یعنی یونانی فلسفیوں کے وارد ہونے سے ٢٠٠ سال پہلے یسعیاہ نبی نے فرمایا کہ ” وہ (خدا) محیط زمین (محیط= دائرہ کا گول خط) پر بیٹھا ہے “ (یسعیاہ ٤٠ : ٢٢ )۔ عبرانی زبان میں ” دائرہ “ کے لۓ جو لفظ ہے اُس کا ترجمہ ” کرہ “ یا ” گولائ “ بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کون ہے جس نے پہلے زمین کی گول شکل و صورت کا ذکر کیا؟ یونانی یا خدا؟ بے شک خدا ہے جو زمین کا معمار  یا بنانے والا ہے۔

٢۔ پانی کا چکر

ایوب کی کتاب آبی چکر کا بھی ذکر کرتی ہے، ” وہ پانی کے قطروں کو اوپر کھینچتا ہے جو اُسی کے ابخرات سے مینہ کی صورت میں ٹپکتے ہیں۔ جن کو افلاک اُنڈیلتے اور انسان پر کثرت سے برساتے ہیں۔ بلکہ کیا کوئ بادلوں کے پھیلاؤ اور اُس کے شامیانہ کی گرجوں کو سمجھ سکتا ہے؟ “ (ایوب ٣٦ : ٢٧ ۔ ٢٩ )۔ اِس طرح بائبل مقدس بارش کے چکر کا بیان کرتی ہے۔ پہلے بخارات بنتے ہیں۔ وہ اوپر ہوا میں جا کر ٹھنڈ سے منجمد ہو کر ننھے ننھے قطرے بنتے اور بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر یہ قطرے باہم مل کر اتنی بڑی بڑی بوندیں بن جاتے ہیں کہ اوپر کو اُٹھنے والی ہوا اُن کا بوجھ سہار نہیں سکتی اور وہ نیچے ٹپک پڑتے ہیں۔ ایوب پانی کی ناقابلِ یقین مقدار کا بھی ذکر کرتا ہے جو منجمد شکل میں بادلوں کی صورت میں ٹھہری رہ سکتی ہے۔ ” وہ اپنے دَلدار بادلوں میں پانی کو باندھ دیتا ہے اور بادل اُس کے بوجھ سے پھٹتا نہیں “ (ایوب ٢٦: ٨ )۔  آبی چکر کی توثیق کرنے والی دیگر آیات بھی دیکھیں: زبور ١٣٥ : ٧ ؛ یرمیاہ ١٠ : ١٣ ؛ واعظ ١ : ٧ ؛ یسعیاہ ٥٥ : ١٠ ۔

٣۔ ایک ہی اَصل

ساڑھے تین ہزار سال پہلے موسی' نبی نے لکھا تھا ” آدم نے اپنی بیوی کا نام حوا رکھا اِس لۓ کہ وہ سب زندوں کی ماں ہے “ (پیدائش ٣ : ٢٠ )۔ بائبل مقدس کے مطابق سارے انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ نظریہ اِرتقا کے ماننے والے سائنس دان ١٩٨١ ء تک اِس حقیقت کے قائل نہیں تھے۔ خیطی ذرات کے ڈی۔ این۔ اے (انسان کی توالدی خصوصیات کو ماں سے بچے  میں منتقل کرنے کا ضابطہ) کے وسیع اور بے شمار  تجزئیوں اور تحقیق کے بعد یہ سائنس دان اِس نتیجے پر پہنچے کہ سارے انسانوں کی ” اصل ایک ہی مادہ / عورت ہے۔ “ مذکورہ ذرات دنیا بھر کے مختلف علاقوں سے آنولوں سے حاصل کۓ گۓ تھے۔ مزید مطالعہ کے نتیجے میں چند سالوں کے بعد یہ حقیقت بھی معلوم ہوئ کہ سارے انسان ایک ہی ” نر “ والد کی اصل سے ہیں۔

ٹائم میگزین کے ٤ دسمبر ١٩٥٥ ء کے شمارہ میں اِسی موضوع پر ایک مضمون میں کہا گیا کہ سارے انسانوں کا ایک ہی مورثِ اعلی' ” آدم “ تھا جس کے کروموسوم کا توالدی مواد ساری دنیا کے ہر مرد میں ایک ہی ہے۔ سائنس دانوں کا دعوی' ہے کہ ہمارا ” نر “ (مرد) مشترک جدِ امجد اُتنا قدیم نہیں جتنی ہماری ” مادہ “ (عورت) مشترک جدِامجد قدیم ہے۔ اُن کا دعوی' بائبل مقدس سے موافقت رکھتا ہے جو بیان کرتی ہے کہ ہم سب نوح کی اصل نسل سے ہیں، لیکن ہماری مشترک ماں حوا ہے۔ اِس لۓ کہ نوح کے تین بیٹے اور تین بہوئیں اور آج کی دنیا کے سارے لوگ اُن کی اولاد ہیں۔

اِن تحقیق کرنے والوں کو بالکل خبر نہ تھی کہ ہماری ساری محنت ، کاوش اور اخراجات بائبل مقدس کی صحت کی تصدیق کریں گے۔

٤۔ خون ہی زندگی ہے۔

موسی' نے بھی بیان کیا تھا کہ ” جسم کی جان خون میں ہے “ (احبار ١٧ : ١١)۔ طبی افراد اِس حقیقت کو حال ہی میں سمجھے ہیں، جبکہ انیسویں صدی تک وہ کئ امراض کا علاج ” فصدِخون “ یعنی رَگ کھول کر خون بہانے سے کرتے تھے۔

٥۔ زمین بتدریج معدوم ہو جاۓ گی۔

تین ہزار سال پہلے داؤد نبی نے لکھا تھا کہ ایک دن آۓ گا کہ زمین ” نیست “ اور ” پوشاک کی مانند “ پرانی ہو جاۓ گی (زبور  ١٠٢ :٢٥، ٢٦ )۔ جدید سائنس اِس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ زمین رفتہ رفتہ معدوم ہو رہی ہے۔ زمین کا مقناطیسی میدان بوسیدہ اور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اِسے محفوظ رکھنے والی اوزون کی تہہ پتلی ہوتی جا رہی ہے۔

٦۔ بحری جغرافیہ

داؤد نے ” سمندر کے راستوں “ کے بارے میں بھی لکھا ہے (زبور ٨:٨ )۔ یہی چند الفاظ تھے جنہوں نے ایڈمرل میتھیوفانٹین ماری (١٨٠٦ – ١٨٧٣ ء) کو تحریک دی اور اُس نے اپنی زندگی سمندر کی رؤوں کی تحقیق کرنے اور اُن کے بارے میں لکھنے کے لۓ وقف کر دی۔ اُس نے سوچا کہ خدا نے سمندر کے ” راستوں “ کا ذکر کیا ہے تو مجھے توفیق ہونی چاہۓ کہ اُن کا نقشہ بنا دوں۔ ماری نے یہ کارنامہ کر دیا اور ” باباۓ بحری جغرافیہ “ کا لقب پایا۔

ماری نے دریافت کیا کہ سمندروں کے راستےایسے  متعین اور مستقل ہیں کہ جہازران لغوی معنی میں سمندروں پر اپنے راستے کا ببانگِ دہل ” چرچا “ کر سکتا ہے (مرقس ١ : ٤٥ )۔

جس زمانے میں داؤد نے ” سمندروں کے راستوں “ کے بارے میں لکھا تو اُسے اور اُس کے لوگوں کو صرف بحیرہ روم، گلیل کی جھیل اور بحیرہ احمر کا علم تھا۔ ان بحیروں میں ” راستے “ یعنی بڑی اور مشاہدہ میں آ سکنے والی رَویں نہیں چلتی تھیں۔

٧۔ علم الافلاک

تقریباً ٢٠٠٠  سال پہلے مقدس پولس نے لکھا ” آفتاب کا جلال اَور ہے مہتاب کا جلال اَور۔ ستاروں کا جلال اَور کیوںکہ ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے “ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٤١ )۔ ننگی آنکھ سے سارے ستارے ایک سے نظر آتے ہیں، لیکن آج طاقتور دُوربینوں  اور روشنی  کی شعاعوں کے تجزیے سے علم الافلاک کے ماہرین نے تصدیق کر دی ہے کہ ” رنگ اور چمک دمک کے لحاظ سے ستاروں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بعض ستارے سورج کی طرح زرد دکھائ دیتے اور بعض نیلے یا سرخ نظر آتے ہیں۔ فرداً فرداً ہر ایک ستارہ بے مثل اور نادر ہے “

تاریک اور صاف رات کو ننگی آنکھ سے چند ہزار ستارے دکھائ دیتے ہیں۔ طاقتور دُوربین سے اِتنے ستارے نظر آتے ہیں کہ ہم اُنہیں گننے کی اُمید بھی نہیں کر سکتے۔ اگرچہ ہر ایک ستارہ بے مثل ہے، تاہم سارے ستاروں میں کئ باتیں مشترک بھی ہیں۔ بائبل مقدس بھی کہتی ہے کہ ستاروں کا شمار  کرنا ممکن نہیں (پیدائش ١٥ : ٥ ؛ ٢٢ : ١٧ )۔ پولس کو پہلی صدی عیسوی میں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہوا؟

اندھا ایمان؟

” بائبل مقدس میں سائنس “ کی کئ اَور  مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر اِن سات مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بائبل مقدس اگرچہ سائنس کی نصابی کتاب نہیں ہے، مگر جب بھی سائنس کی بات کرتی ہے تو بالکل درست اور سچی ہوتی ہے۔

بعض لوگ بائبل مقدس پر ایمان کو ” اندھا ایمان “ کہتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے یا یہ شعور اور سمجھ کے ساتھ ایمان ہے جس کی جڑیں مسلمہ اور ناقابلِ تردید شہادت میں ہیں؟ چونکہ یہ معلومات ہمیشہ اور تسلسل سے بائبل مقدس کی باتوں کے مطابق ہیں تو کیا اِن نوشتوں کو سچا ماننے میں ہم بے وقوفی کرتے ہیں یا عقل مندی؟ حالانکہ اِن میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کی ہم پورے طور سے وضاحت نہیں کر سکتے اور نہ اُنہیں ثابت کر سکتے ہیں۔

خدا ہم سے یہ نہیں کہتا کہ ہم عقل کے لحاظ سے خود کشی کر لیں۔ اُس نے ہمیں بہت سے قطعی اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کر دیۓ ہیں (اعمال ١ : ٣) جو اُس کی کتاب کے معتبر ہونے کی توثیق کرتے ہیں۔

تاریخ، جغرافیہ، علمِ آثارِ قدیمہ

گذشتہ باب میں ہم نے چند شہادتوں کا جائزہ لیا تھا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نیا عہد نامہ قدیم زمانے کی سب سے زیادہ محفوظ رکھی گئ کتاب ہے۔ لیکن اِن نوشتوں میں موجود معلومات کے بارے میں کیا راۓ ہے؟ کیا اِس کا یقین کیا جا سکتا ہے؟

بائبل مقدس علما اور تشکیک پرستوں کو ہزاروں مواقع فراہم کرتی ہے کہ اِس کی صحت کا جائزہ لیں۔ اِس کے تقریباً ہر صفحے پر کسی تاریخی شخصیت یا جگہ کا نام یا تاریخی واقعہ کا بیان درج ہے۔

تاریخ، جغرافیہ اور آثارِ قدیمہ کیا کرتے ہیں؟

صدیوں سے بہت سے لوگ کوشش کرتے آ رہے ہیں کہ بائبل مقدس کی تواریخی صحت کے بارے میں بداعتمادی اور بے یقینی پیدا کریں اور اِسے بدنام کریں۔ ایک ایسا ہی تشکیک پرست سر والٹر رمزے (١٨٥١ ۔ ١٩٣٩ء ) تھا۔ وہ ایک مانا ہوا ماہر آثارِ قدیمہ تھا۔ اُس نے ١٩٠٤ ء میں علمِ کیمیا میں نوبل انعام بھی جیتا تھا۔ جوانی کے دنوں میں رمزے اِس بات کا قائل تھا کہ بائبل کو معتبر نہیں مانا جا سکتا۔ لیکن اُس کی دریافتوں نے اُس کی سوچ بدل دی اور اُسے یہ بات لکھنے پر مجبور کر دیا کہ ” لوقا اوّل درجے کا مورخ ہے۔ نہ صرف حقائق کے بیان معتبر ہیں۔۔۔ اِس مورخ کو عظیم ترین مورخوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہۓ۔ “

لوقا ایک طبیب، مورخ اور یسوع کا پیروکار تھا۔ وہ لوقا کی معرفت انجیل اور رسولوں کے اعمال کا مصنف ہے۔ یہ دونوں کتابیں مجموعی طور پر پچانوے جغرافیائ مقامات کا ذکر کرتی ہیں__ ٣٢ ممالک، ٥٤ شہر اور  ٩ جزیرے۔ اِن کے علاوہ بہت سی تواریخی شخصیات اور واقعات کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ تنقید نگاروں نے بہت کوشش کی ہے کہ لوقا کے مندرجات اور آثارِ قدیمہ، جغرافیہ اور بائبل مقدس سے باہر کے تاریخی بیان میں عدمِ موافقت ڈھونڈ نکالیں۔ اُنہیں ناکامی اور مایوسی ہوئ ہے۔ مقدّس لوقا کی تحریریں ہر لحاظ سے باکل صحیح ثابت ہوئ ہیں۔

مثال کے طور پر ہم مقدس لوقا کی انجیل سے ایک فقرہ دیکھتے ہیں۔ اِس کا مقصد یسوع ناصری کی دنیاوی خدمت کے لۓ تواریخی زمانے کا تعین کرنا ہے:

” تبریُس قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس جب پُنطیُس پیلاطُس یہودیہ کا حاکم تھا اور ہیرودیس گلیل کا اور اُس کا بھائ فلپُس اِتوریہ اور ترخونی تِس کا اور لِسانیاس اِبلینے کا حاکم تھا، اور حناہ اور کائفا سردار کاہن تھے اُس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریاہ کے بیٹے یوحنا پر نازل ہوا “ (لوقا ٣ : ١، ٢ )۔

کیا لوقا درست کہتا ہے؟

اتنے ناموں اور تفصیل کے باعث ہم فطری طور پر پوچھتے ہیں ” کیا لوقا درست کہتا ہے؟ کیا اُس کی ساری باتیں صحیح ہیں؟ اِمتحان کی خاطر ہم چار اشخاص کا جائزہ لیتے ہیں جن کے نام اوپر کے اقتباس میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

مقدس لوقا نے سب سے پہلے ” تبریُس قیصر “ کا نام لیا ہے اور اُس کے ساتھ پنطیُس پیلاطس کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہودیہ کا گورنر تھا۔ کیا یہ تواریخی شخصیات ہیں؟ کیا وہ ایک ہی وقت میں حکمران تھے؟ ١٩٦١ ء میں قیصریہ میں اُس جگہ کو بحال کیا گیا جہاں ہیرودیس کا تھیٹر تھا (مقدس لوقا نے اعمال ١٢ : ١٩ ۔ ٢٤ میں اِس کا ذکر  کیاہے)۔ کام کے دوران ایک پتھر دریافت ہوا جس کی اونچائ ایک میٹر ہے۔ اِس پر کندہ عبارت نے تصدیق کر دی ہے کہ پنطیُس پیلاطس واقعی اُن دنوں گورنر تھا جب تبریُس قیصر بادشاہ تھا۔ غیربائبلی مورخ یوسیفس (٣٧ _١٠١ ء) نے بھی اِن اشخاص، مقامات اور واقعات کے بارے میں لکھا ہے۔ اُس کی کتاب ١٩٨٨ ء میں شائع ہوئ۔ اِس کتاب میں ہیرودیس کے تھیٹر، مذکورہ پتھر اور عبارت کی تصویریں بھی شامل ہیں۔

لوقا نے درست کہا ہے۔

لوقا نے بیان کیا ہے کہ لسانیاس ابلینے کا حاکم تھا۔ ابلینے سیریا (عراق) کا ایک صوبہ تھا اور لسانیاس اُس کے چوتھائ حصے کا گورنر تھا۔ کئ سالوں تک علما حقائق سے متعلق اِس ” غلطی “ کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ لوقا کا بیان غلط ہے کیونکہ مورخین کو صرف ایک ہی لسانیاس کا علم تھا جو یونان میں (Chalsis ) کا حاکم تھا اور جس دَور (تقریباً ٢٧ ء) کی بات مقدّس لوقا کرتا ہے یہ لسانیاس اُس سے تقریباً ساٹھ سال پہلے مارا گیا تھا۔ مورخین کو ابلینے کے چوتھائ ملک کے حاکم لسانیاس کا کچھ علم نہ تھا۔ اِس کا علم اُنہیں ١٤ ء اور   ٢٩ ء کے درمیانی عرصے میں ہوا جب دمشق کے نواح میں پتھر کا ایک کتبہ ملا جس پر یہ عبارت کندہ ہے: ” لسانیاس چوتھائ ملک کا حاکم “ ۔ لہذا تاریخ میں دو افراد ہیں جن کا نام ” لسانیاس “ تھا۔

لوقا نے یہ بھی درست کہا ہے۔

لوقا نے کیفا کا بھی ذکر کیا ہے جو یسوع کی دنیاوی زندگی کے ایام میں یہودی ہیکل میں سردار کاہن تھا (دوسرا سردار کاہن حناہ تھا)۔ دسمبر ١٩٩٠ ء میں مزدور پرانے یروشلیم کے جنوب میں ایک سڑک بنا رہے تھے کہ اتفاقاً اُنہیں کیفا کے خاندان کا مزار مل گیا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کو موقعے پر بلایا گیا۔ اُس مزار میں بارہ ہڈیاں رکھنے کے برتن تھے۔ اُن میں سے ایک پر بہت خوبصورت نقش و نگار تھے اور یہ نام کندہ تھا ” یوسف بن کیفا “ ۔ یہ اُس سردار کاہن کا پورا نام تھا جس نے یسوع کو گرفتار کیا تھا اور تابوت کے اندر ایک ساٹھ سالہ مرد کی باقیات تھیں۔ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اُس کیفا کی باقیات ہیں جس کا ذکر نۓ عہدنامے میں آیا ہے۔

لوقا نے یہ بھی درست کہا ہے۔

نامور ماہر آثارِ قدیمہ نیلسن گلوئک کہتا ہے، ” بڑی وضاحت سے اور قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آثارِ قدیمہ کی کسی دریافت نے بائبل کی کسی بھی بات کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ آثارِ قدیمہ کی درجنوں دریافتیں ایسی ہیں جو واضح خاکوں سے اور تفصیلی طور سے تاریخ سے متعلق بائبل کے بیابات کی  تصدیق کرتی ہیں۔ دوسری مذہبی کتابوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ مثال کے طور پر آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ مورمن کی کتاب تاریخ اور جغرافیہ سے کوئ مطابقت نہیں رکھتی۔ “

مارمن ازم ایک مذہب ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اِس کے پیرو ہیں۔ جوزف سمتھ نامی ایک شخص نے ١٨٣٠ ء میں امریکہ میں یہ مذہب شروع کیا تھا۔ یہ فرقہ بائبل مقدس کے علاوہ ” مارمن کی کتاب “ کو بھی مانتا ہے۔ آثارِ قدیمہ کی دریافتوں سے اِس کتاب کی تصدیق نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کے سمتھ سونیئن اِنسٹی چیوشن ( Smithsonian Institution ) کا بیان ہے کہ ” سمتھ سونیئن کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو نئ دنیا (امریکہ) کے علمِ آثارِ قدیمہ اور مارمن کی کتاب کے مندرجات میں کوئ تعلق نظر نہیں آتا “ ۔

وہیٹن کالج کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے چیئرمین اور ماہرِ آثارِ قدیمہ جوزف فری اپنی تصنیف ” آثارِ قدیمہ اور تاریخ بائبل “ کے آخر میں کہتے ہیں ” مَیں نے پیدائش کی کتاب کا ایک ایک صفحہ دیکھا کہ اِس کے پچاس ابواب ہیں اور ہر ایک باب آثارِ قدیمہ کی کسی نہ کسی دریافت کو منور کرتا ہے یا اُس کی تصدیق کرتا ہے۔ بائبل کے پرانے اور نۓ دونوں عہدناموں کے اکثر باقی ابواب کے بارے میں بھی یہ بات سچ ہے “ ۔

سائنس کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی

آثارِ قدیمہ کی مستند معلومات ایک تسلسل سے تصدیق کرتی ہیں کہ بالکل درست تاریخی دستاویز  کی حیثیت سے بائبل مقدس معتبر کتاب ہے، مگر علمِ آثارِ قدیمہ الہی الہام کو ثابت نہیں کر سکتے۔ بائبل مقدس میں قابلِ توجہ اور اثرانگیز سائنسی بیانات موجود ہیں، مگر سائنس ثابت نہیں کر سکتی کہ کوئ ایک کتاب خدا کا سچا اور برحق کلام ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اِس لۓ ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہماری مذہبی یا مقدس کتاب خدا کے الہام سے ہے کیونکہ اِس میں کئ سائنسی بیانات موجود ہیں۔

روحانی صداقت سائنسی دریافتوں سے ثابت نہیں کی جا سکتی، اور نہ سائنسی حقائق کا کسی کتاب میں موجود ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے ملی ہے۔ شیطان جو شروع ہی سے دنیا میں موجود ہے وہ بھی سائنس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ پاک صحائف میں سے سفر  کرنے کے دوران ہماری اُس کے ساتھ ملاقات ہو گی جو پہلے آسمان میں فرشتہ تھا، اب شیطان اور ابلیس کہلاتا ہے کیونکہ خدا کا حریف بن گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ شیطان نہایت عقل مند اور ذہن ہے اور انسانوں کو نہایت اثر انگیز اور مرعوب کرنے والی باتیں لکھنے پر اُبھارتا ہے۔

دانی ایل نبی بہت عقل مند اور زیرک شخص تھا۔ خدا نے اُس سے ایک ایسی کتاب لکھوائ جو پاک صحائف (بائبل) کی بہت گہری کتاب مانی جاتی ہے۔ مگر جب طبعی استعداد اور لیاقت کی بات ہو تو شیطان یعنی خدا کی سچائ کی مخالفت کرنے والی روح ” دانی ایل سے زیادہ دانش مند “ ثابت ہوتی ہے (حزقی ایل ٢٨ : ٣ )۔ ہر جھوٹے مذہب کے پیچھے شیطان ہی کا دماغ کارفرما ہوتا ہے۔ ایسی ماہر منصوبہ بندی وہی کرتا ہے، اُسے دھوکے اور فریب کے فن میں کمال حاصل ہے۔ لفظ ابلیس کا مطلب ہے ” الزام دینے والا “ یا ” تہمت لگانے والا۔ “

ایک عربی ضرب المثل اِس خطرے کا چند لفظوں میں بیان کرتی ہے ” خبردار ! بعض جھوٹے سچ بولتے ہیں۔ “

شاعری کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی

بعض مذاہب کہتے ہیں کہ ہماری کتاب کا خدا کی طرف سے ہونا اِس لۓ ثابت ہے کیونکہ اِس کا اندازِ تحریر ایسا اعلی' ہے کہ کوئ انسان ایسا انداز وضع نہیں کر سکتا۔

مسلمان اور مارمن دونوں ہی اپنی اپنی مذہبی کتاب کے بارے میں دعوی' کرتے ہیں کہ ہماری مقدس کتاب کے خدا کی طرف سے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اِس کا ادبی طرزِ تحریر ہے۔ ایک مسلم ویب سائٹ پر یہ کہا گیا ہے، ” قرآن پاک ۔۔۔ کا سب سے بڑا چیلنج ۔۔۔ چودہ صدیوں سے، جب قرآن شریف نازل ہوا تھا ۔۔۔ کوئی شخص ایک بھی آیت نہیں لکھ سکا جو اپنی خوبصورتی، فصاحت اور شکوہ میں قرآن شریف کی آیات جیسی ہو “ مارمن ویب سائٹ پر بھی اِسی قسم کا دعوی' کیا گیا ہے۔ ” مارمن کی کتاب کا چیلنج ۔۔۔ تمہیں اپنا ریکارڈ قدیم عبرانی شاعری اور متعدد طرزہاۓ تحریر کے انداز میں لکھنا ہو گا، جو تمہارا ریکارڈ شائع ہونے کے بہت سالوں کے بعد دوبارہ دریافت کر کے انگریزی بولنے والوں کو بتایا جاۓ گا۔ “

اِسی طرح احمد نے بھی اپنی ای میل میں لکھا :

ای میل

” قرآن شریف سب سے بڑا معجزہ ہے جو کبھی کسی نبی پر اُتارا گیا! ٹھیک ہے، صرف ایک آیت وضع کر کے دکھاؤ جو قرآن شریف کی کسی آیت جیسی ہو یا اِس سے قریب ہو۔ تم بلند پایہ عربی میں کیسے بھی خوش گفتار ہو تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔ دُنیا میں کوئی چیز نہیں جو قرآن شریف کی عظمت کو چھو بھی سکے۔۔۔ اگر تم اِس کے برعکس ثابت کر سکتے ہو تو کرو۔ “

احمد کا چیلنج قرآن شریف کی سورہ  ٢ کی آیت ٢٣ پر مبنی ہے: ” اور اگر تم کو اِس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اِسی طرح کی ایک صورت تم بھی بنا لاؤ۔۔۔ “

اِس دعوے کے بارے میں مشکل یہ ہے کہ اِسے سچا یا جھوٹا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

ہم وضاحت کے لۓ مثال پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ مَیں مصوری کا مقابلہ منعقد کراتا ہوں۔ اُس میں اپنی بنائ ہوئ تصویر رکھتا ہوں۔ خود ہی منصف ہوں۔ مَیں اپنے آپ کو فاتح قرار دیتا ہوں اور پھر دوسرے مصوروں کو چیلنج کرتا ہوں کہ کوئ بھی میری طرح کی تصویر نہیں بنا سکتا۔ اگر تمہیں شک ہے کہ مَیں دنیا کا عظیم ترین مصور ہوں تو میری تصویر جیسی تصویر بنا کر دکھاؤ!

کیا اِس طرح ثابت ہو جاۓ گا کہ میری بنائ ہوئ تصویر بہترین ہے؟  اور مَیں دنیا کا سب سے بڑا مصور ہوں؟ __ نہیں __ مگر کوئ یہ بھی ثابت نہ کر پاۓ گا کہ میرا دعوی' غلط ہے۔ کیوں نہیں؟ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ یہی حال لکیروں کے توازن کی خوبصورتی اور کسی ادب پارہ کی خوبصورتی کا ہے۔ حُسن فنکار کی ذات کا مظہر ہوتا ہے۔

بائبل مقدس بلند پایہ عبرانی شاعری اور اعداد کی ترتیبوں کا حیرت انگیز خزانہ ہے۔ اِن پر غور کریں تو دماغ چکرا جاتا ہے۔ زبور  ١١٩ کی مثال لے لیں۔ یہ بائبل مقدس کا سب سے لمبا باب ہے۔ اِس میں حیرت ناک ادبی ساختیں موجود ہیں۔ یہ زبور صنعتِ توشیح کا اعلی' نمونہ ہے۔ عبرانی میں حروفِ ابجد کی تعداد ٢٢ ہے۔ اِس زبور کے بھی ٢٢ حصے ہیں۔ ہر حصہ بالترتیب عبرانی کے ایک حرف سے نامزد ہے اور ٨ آیات پر مشتمل ہے اور ہر ایک آیت اُسی حرف سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً پہلا حصہ ” الف “ (عبرانی ابجد کا پہلا حرف) ہے اور اِس کی ہر ایک آیت الف سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ بیتھ، (عبرانی ابجد کا دوسرا حرف) ہے اور اِس کی ہر ایک آیت بیتھ سے شروع ہوتی ہے۔ علی' ہذالقیاس عبرانی ابجد کے آخری حرف تاوتک۔ اِس کی ہو بہو نقل کرنے کی کوشش کریں۔ نہیں، رہنے دیں۔ اور زبور ١١٩ میں غوطہ لگائیں اور  اِس کے الفاظ میں ڈوب جائیں اور  اِن کی قوت اور تاثیر کے مزے لیں۔ لیکن خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم اِس کلام کی ادبی فصاحت و بلاغت کے باعث اِس کا یقین کریں۔

جس طرح سائنس کسی کتاب کا الہامی ہونا ثابت نہیں کر سکتی اُسی طرح خوبصورت اور دل آویز نثر بھی کسی کتاب کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت نہیں کر سکتی۔

دانائ اور عقل مندی یہی ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ شیطان بہت بڑا نقال ہے۔ وہ بھی سحرانگیز شاعری کرنے اور ” بڑے بول “ (یہوداہ آیت ١٦ ) بولنے کی ” آمد “ عطا کر سکتا ہے۔ پاک کلام ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ” چکنی چپڑی باتوں سے جو سادہ دلوں کو بہکاتی ہیں “ فریب نہ کھائیں (رومیوں ١٦ : ١٨ )۔ خاص کر جب یہ باتیں خالق کے منصوبے اور پیغام کی تردید کرتی ہیں جس کا علم ابتداۓ زمانہ سے دیا گیا ہے۔

سائنس، آثارِ قدیمہ یا شاعری کسی بھی کتاب کو خدا کا سچا کلام ثابت نہیں کر سکتی۔ لازم ہے کہ الہی الہام کا ثبوت کسی اعلی' تر عدالت کے فیصلے پر مبنی ہو، کسی ناقابلِ تردید اور مسلمہ شہادت پر مبنی ہو۔

اب ہم اِسی شہادت پر غور کریں گے۔

٣
تحریف شدہ یا اصل حالت میں محفوظ؟
”ہاں گھاس مرجھاتی ہے۔ پھول کملاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے“
— یسعیاہ  ٤٠ : ٨

دنیا کے چار مختلف حصوں سے آنے والی ذیل کی ای میلیں دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں:

ای میل

ہم سارے الہامی نوشتوں پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اُن کی اصل صورت میں۔

ای میل

یہ مت بھولو کہ تمہارے پاس وہ پرانا عہدنامہ اور نیا عہدنامہ ہیں جن میں الفاظ بدلے ہوۓ ہیں۔ قرآن پاک کے الفاظ برسوں سے جوں کے تُوں ہیں۔

ای میل

تمہاری بائبل کا متن محرف ہے جو دوبارہ لکھا گیا ہے، اِس میں اضافے کۓ گۓ ہیں اور دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔ تم نے اِسے اپنے غلط اعتقادات کے مطابق ڈھالنے کے لۓ شروع سے آخر تک بدل دیا ہے۔

ای میل

ہم سارے الہامی نوشتوں پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اُن کی اصل صورت میں۔

ای میل

مجھے یقین ہے کہ بائبل میں صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے تحریف کی گئ۔ اور نیا عہدنامہ اگر سارا نہیں تو اِس کا بیشتر حصہ بالکل سوروں کا کھاجا ہے جو پولس نامی جھوٹے نبی نے گھڑا ہے۔ اِس وجہ سے میرے لۓ بائبل میں سے اِقتباس کرنا وقت اور محنت ضائع کرنے کے برابر ہے۔

کیا یہ اعتراض اور الزام درست اور بجا ہیں؟ کیا لامحدود خدا نے محدود انسان کو چھوٹ دے دی کہ اُن نوشتوں میں اَدل بدل کر کے بگاڑ دے جو اُس نے قدیم سے اپنے نبیوں کو الہام سے عطا کۓ تھے؟

مسلمانوں سے ایک ذاتی بات

یہاں مَیں اپنے معزز مسلمان قاری سے براہِ راست مخاطب ہونا چاہتا ہوں:

آپ خود جانتے ہوں گے کہ قرآن شریف واضح طور سے کہتا ہے کہ بائبل مقدس کے صحیفے یعنی تورات (توریت)، زبور اور انجیل خدا نے ”ہدایت اور روشنی “ کے لۓ دیۓ (سورہ ٥ : ٤٣ ۔٤٦ )۔ اور قرآن شریف یہ بھی کہتا ہے ”اور (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔۔۔ “ (سورہ ٥: ٤٨ )۔

اور یہ بھی کہتا ہے کہ ”اور اے نبی تم سے پہلے بھی ہم نے اِنسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھو “ (سورہ ٢١ آیت ٧)۔ قرآن شریف یہ تنبیہ بھی کرتا ہے ”یہ لوگ جو اِس کتاب (بائبل مقدّس) کو اور اُن ساری کتابوں کو جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں۔۔۔ دوزخ کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے “ (سورہ ٤٠ آیت ٧٠ ۔ ٧٢ )۔

قرآن شریف بار بار کہتا ہے کہ بائبل کی کتابیں خدا کے الہام سے ہیں اور جو لوگ اِنہیں رد کرتے (جھٹلاتے) ہیں وہ دوزخ میں جھونک دیۓ جائیں گے۔ دیکھۓ قرآن شریف میں یہ حوالے: سورہ ٢: ٨٧ ۔ ٩١، ١٠١ ، ١٣٦، ٢٨٥ ؛ ٣: ٣۔٤ ؛ ٤ : ٤٧ ، ٥٤، ١٣٦، ١٦٣ ؛ ٥: ٤٣۔٦٨ ؛ ٦: ٩٢ ؛ ١٠ :٩٤ ؛ ٢٠ : ١٣٣ ؛ ٢١ : ١٠٥ ؛ ٢٨ : ٤٣ ؛ ٢٩ : ٤٦ ؛ ٣٢ :٢٣ ؛ ٤٠ :٥٣، ٥٤، ٧٠ ۔ ٧٢؛ ٤٥: ١٦ ؛ ٤٦: ١٢ ؛ ٥٧ : ٢٧۔  اِن حوالوں میں قرآن شریف مسلمانوں سے کہتا ہے کہ بائبل مقدس کے صحیفے خدا کے الہام سے ہیں۔

اور قرآن شریف کے یہ اعلانات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لۓ بڑی اُلجھن پیدا کۓ ہوۓ ہیں کیونکہ خدا کی ذات اور بنی نوع انسان کے لۓ اُس کے مقصد اور منصوبے کے بارے میں بائبل مقدس اور قرآن شریف ایک دوسرے سے بالکل ہی فرق پیغام دیتے ہیں۔

اِسی وجہ سے مسلمان یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بائبل مقدس کے نوشتوں میں تحریف کی گئ ہے۔ مندرجہ ذیل سوالوں سے بہت سے لوگوں کو شوق ہوا ہے کہ مذکورہ نتیجے کے بارے میں سوچیں:

مسلمانوں کے لۓ خاص سوالات

  •   کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خدا اپنے صحیفوں کی حفاظت کر سکتا ہے؟
  •   اگر کر سکتا ہے تو کیا وہ اُن کی حفاظت کرنے پر آمادہ ہے؟
  •   اگر آپ کو یقین ہے کہ نبیوں کے صحیفوں میں تحریف کی گئ ہے تو:
    • الف۔ اُن میں تحریف کب کی گئ؟
    • ب۔ اُن میں تحریف کہاں کی گئ؟ (یعنی دنیا کے کس خطے میں)
    • ج۔ یہ تحریف کس نے کی؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ مسیحیوں یا یہودیوں نے ان صحیفوں میں تحریف کی تو بتائیں کہ وہ مقدس نوشتوں میں تحریف کیوں کرتے جن کی حفاظت کے لۓ بہتوں نے بخوشی اپنی جانیں قربان کر دیں؟
    • د۔ آپ کیا ثبوت پیش کر سکتے ہیں؟
    • ہ۔ خدا نے فانی انسانوں کو ایسا کیوں کرنے دیا کہ بنی نوع انسان کے لۓ اُس (خدا) کے تحریری کلام اور مکاشفہ (الہام) میں تحریف کریں؟
  • اگر خدا نے انسانوں کو چھوٹ دے دی کہ وہ مقدس موسی' اور داؤد جیسے نبیوں کی کتابوں میں تحریف کر لیں تو آپ کیسے جانتے ہیں کہ جس کتاب پر آپ کا ایمان ہے وہ اِس بدسلوکی سے بچی ہوئ ہے؟

  اِن سوالوں سے ہمارا مقصد کسی کو پریشان یا مغلوب کرنا نہیں ہے۔ لیکن چونکہ بہت سے لوگ اِس ”تحریف کے الزام “ کو درست مانتے ہیں اور یہ مسئلہ ابدی اہمیت اور نتیجے کا حامل ہے اِس لۓ ہم صرف ایک اَور سوال پوچھتے ہیں۔

  • بائبل مقدس کے صحیفوں میں یہ تحریف قرآن شریف کے نزول سے پہلے ہوئ یا بعد میں؟

اِس سوال پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم تاریخ کی اِس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ پرانا عہدنامہ بنیادی طور سے یہودیوں کی مقدس دینی کتاب ہے۔ وہ صدیوں سے پوری غیرت اور جاں فشانی سے اِس کی حفاظت کرتے آۓ ہیں۔ کیا وہ برداشت کر سکتے تھے کہ کوئ شخص اُن کے پاک صحیفوں میں شوشہ بھر بھی بڑھاۓ یا گھٹاۓ؟ تاریخ میں کوئ دوسری مثال نہیں ملتی کہ کسی مذہبی جماعت (مسیحیوں) نے اپنے ایمان کی بنیاد اُس کتاب کو بنایا ہو جسے کوئ دوسری مذہبی جماعت (یہودی) معظم و مکرم مانتی اور دل و جان سے حفاظت کرتی ہو۔ کیا صرف ایک یہ حقیقت اِس بات کو عملاً ناممکن نہیں بنا دیتی کہ کوئ پرانے عہدنامے کے صحیفوں میں تحریف کرے؟

اب ہم اِس سوال پر بات کرتے ہیں کہ بائبل میں تحریف قرآن شریف کے نزول سے پہلے ہوئ یا بعد میں؟

پہلے؟

اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ بائبل مقدس کے متن میں تحریف قرآن شریف کے تحریر ہونے سے پہلے ہوئ تو قرآن شریف کیوں اعلان کرتا ہے کہ یہ نوشتے انسانوں کی ”ہدایت اور نصیحت “ کے لۓ ہیں اور فریب یا گمراہی نہیں ہیں، اور یہ نوشتے ”روشنی “ ہیں اور تاریکی نہیں ہیں؟ قرآن شریف کیوں کہتا ہے کہ ”اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اِس میں نازل کیا ہے “ (سورہ ٥ :٤٦ ،٤٧ )۔ اور پھر یہ کیوں کہتا ہے کہ ”اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں “ (سورہ ١٠ : ٦٤ )۔

اگر بائبل مقدس کے نوشتوں کو غیر معتبر مانا گیا تھا تو قرآن شریف نے کیوں حکم دیا کہ ”اب اگر تجھے اِس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں “ (سورہ ١٠ آیت ٩٤ )؟ اور یہ بھی کہ ” اگر تم (اپنے اعتراض میں) سچے ہو تو لاؤ توراۃ اور پیش کرو اُس کی کوئی عبارت “ (سورہ ٣ آیت ٩٣ )؟

بعد میں؟

اِس کے برعکس اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ بائبل مقدس کے متن میں تحریف قرآن شریف کے تحریر میں آنے کے بعد ہوئ تو آپ کی توجہ اِس حقیقت کی طرف دلانے کی ضرورت ہے کہ بائبل مقدس کے جو نسخے آج کل رائج ہیں اُن کے ترجمے قدیم نسخوں سے ہوۓ جو قرآن مجید سے صدیوں پرانے ہیں۔

جس زمانے میں قرآن شریف پہلے پہل حفاظ کے ذریعے سے سنایا جانے لگا بائبل مقدس اُس سے پہلے یورپ، ایشیا اور افریقہ میں پہنچ چکی تھی اور اِس کے ترجمے بہت سی زبانوں میں ہو چکے تھے مثلاً لاطینی، سریانی، قبطی، گاتھی، ایتھوپیائ اور آرمینی زبانیں۔

ذرا غور فرمائیں چند لوگ ایسی شہرت کی حامل کتابوں میں ” تحریف “ کیسے داخل کر سکتے ہیں جن کا ترجمہ اِتنی زیادہ زبانوں میں ہو چکا تھا اور ہزاروں لاکھوں نسخے موجود تھے اور اُس وقت کی معلومہ دنیا میں تیزی سے تقسیم ہو چکے تھے؟ یہ بھی تصور کریں کہ اصل زبان کے نسخوں اور بے شمار تراجم جمع کرنا اور ایک ایک نسخے کو تبدیل کرنا تاکہ سب میں یکسانیت اور تطابق ہو جو ہمیں اِن تراجم میں نظر آتا ہے، کیا یہ ناممکن کام نہیں؟

نتیجہ صاف ظاہر ہے:

٭ یہ دعوی' کہ بائبل مقدس میں تحریف قرآن شریف کے تحریر ہونے سے پہلے ہوئ خود قرآن شریف کی درجنوں آیات کو جھٹلانا ہے۔ یہ آیات ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔

٭ یہ دعوی' کہ بائبل مقدس میں تحریف قرآن شریف کے تحریر ہونے کے بعد ہوئ اُن تواریخی اور آثارِ قدیمہ کی شہادتوں کو جھٹلانا ہے جن کی حمایت ہزاروں قدیم قلمی نسخوں سے ہوئ ہے۔

مذکورہ نتیجہ سے چند اَور سوال پیدا ہوتے ہیں:

بائبل مقدس کے یہ ہزاروں قلمی نسخے اور تراجم کہاں سے آۓ؟

اصل نوشتے اب کہاں ہیں؟

اصل نسخے اور  اُن کے ” اَخلاف “

یہ حقیقت ہے کہ کتابوں سمیت اِس دنیا کی ساری چیزیں بتدریج جواب دے جاتی اور محو اور معدوم ہو جاتی ہیں۔ بائبل مقدس کے اصل قلمی نسخے (جنہیں ” اصل مسودات “ بھی کہتے ہیں) اِس قانونِ فطرت کا شکار ہوۓ اور اب دست یاب نہیں ہیں۔ مگر دنیا بھر کے عجائب گھروں اور یونیورسٹیوں میں وہ ہزاروں قدیمی نسخے موجود ہیں جو نبیوں کے لکھے ہوۓ اصل نسخوں کے ” اخلاف “ ہیں یعنی براہِ راست اصل نسخوں سے نقل کۓ گۓ تھے۔

خواہ توریت، اناجیل، فلسفی ارسطو، مورخ فلاویس یوسیفس کی بات کریں خواہ مقابلتاً بعد کے دَور کے قرآن شریف کی بات کریں، سارے اصل نسخے یا تحریریں معدوم ہیں۔

قرآنِ مجید کا کوئی نسخہ یا اِس سے متعلہ کوئی اسلامی دستاویز یا تحریر موجود نہیں جو ٧٥٠ ء (حضرت محمد صلعم کے وصال کے ١٠٠ سال بعد سے زیادہ عرصہ) سے پہلے کی ہو۔ یہی حال ساری قدیم کتابوں کا ہے۔ صرف اصل کے ” اخلاف “ باقی ہیں۔

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح سینیگال میں بھی بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ بائبل مقدس میں بہت زیادہ تحریف ہو چکی ہے۔ وہ اِس کتاب کا یقین نہیں کرتے۔ اِس کے برعکس وہ اپنے ” راویوں “ (راوی= روایت کرنے والا، سن کر کہنے والا) کا یقین کرتے ہیں۔ راوی وہ شخص ہوتا ہے جو تاریخ زبانی سناتا ہے۔ راوی کا خاص اور اہم کام یہ ہوتا ہے کہ اپنے خاندان یا کنبے کا نسب نامہ اور اپنے گاؤں کی تاریخ زبانی یاد (حفظ) کر کے اگلی نسل کو سناۓ اور منتقل کرے۔ راویوں کی خاندان کے بارے میں تفصیلی معلومات یاد کرنے اور یاد رکھنے اور معقول حد تک درستی سے سنانے اور آگے منتقل کرنے کی صلاحیت یا استعداد قابلِ تحسین اور حیرت انگیز ہے۔ [جو لوگ قرآن شریف زبانی یاد کر لیتے ہیں اُنہیں حفاظ (واحد حافظ) کہتے ہیں]۔ یہ راوی اپنے فن میں بے حد ماہر سہی تو بھی وقت گزرنے کے ساتھ صحت (بالکل صحیح ہونا) اور تفاصیل باقی نہیں رہتیں۔ صحت کے معاملے میں سچائ اور زبانی یاد رکھنے کا طریقہ تحریر کرنے کے طریقے کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔

بہت سے لوگ انساںوں کی زبانی گواہی یا شہادت کا تو فوراً یقین کر لیتے ہیں، لیکن خدا کی تحریری گواہی کا یقین کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ عقل مندی ہے؟

” جب ہم آدمیوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خدا کی گواہی تو اُس سے بڑھ کر ہے جس نے خدا کا یقین نہیں کیا اُس نے اُسے جھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے ایمان نہیں لایا “ (١۔یوحنا ٥ :٩۔١٠ )۔

طومار اور فقیہ

پاک صحائف بہت قدیم زمانے میں لکھے گۓ تھے۔ ابھی کاغذ، چھاپہ خانہ اور کمپیوٹر ایجاد نہیں ہوۓ تھے۔ نبی خدا کی باتوں کو طوماروں پر لکھتے تھے جو جانوروں کی کھالوں یا پاپائرس (ایک قسم کا نرسل) سے بناۓ جاتے تھے۔ (کھال سے بناۓ گۓ طومار کو رَق کہتے ہیں)۔ فقیہ ہاتھ سے لکھ کر اُن اصل طوماروں کی نقلیں یعنی مزید نسخے تیار کرتے تھے۔ فقیہ قدیم دنیا کے ممتاز پیشہ ور افراد تھے جو سرکاری یا قانونی دستاویزات پڑھ سکتے، لکھے سکتے اور اُن کی تصریح کر سکتے تھے۔ بعض فقیہ بائبل مقدس کے متن کی نقول تیار کرتے تھے۔ وہ پوری توجہ دیتے اور دھیان رکھتے تھے کہ نقول بالکل صحیح ہوں، شوشہ بھر بھی فرق نہ ہو۔ بعض کتابوں کے آخر میں فقیہ کتاب کے سارے لفظوں کا میزان درج کرتے تھے اور لکھتے تھے کہ درمیانی لفظ کون سا ہے تاکہ بعد کے دنوں کے فقیہ دونوں طرف کو شمار کر سکیں اور یقین کر لیں کہ کوئ حرف رہ نہیں گیا۔

اِس انتہائ احتیاط کے باوجود چھوٹے چھوٹے اختلافات ان نسخوں میں راہ پا گۓ۔ کہیں کوئ حرف، کوئ لفظ، کوئ جملہ یا پیراگراف چھوٹ گیا یا کوئ عدد غلط نقل ہو گیا ۔ (اِس قسم کے اختلاف کو ” سہوِ کاتب “ کہا جاتا ہے)۔

قدیم نسخوں یا مسودات میں اِس قسم کے اختلافات کی ایک مثال پرانے عہدنامے میں ملتی ہے۔ ٢۔ سلاطین ٢٤ : ٨ میں ہم پڑھتے ہیں ” یہویاکین جب سلطنت کرنے لگا تو اٹھارہ برس کا تھا “ جبکہ ٢۔تواریخ ٣٦ : ٩ میں لکھا ہے ” یہویاکین آٹھ برس کا تھا جب وہ سلطنت کرنے لگا۔ “ ایسے اختلافات کی کیا توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟ بعض علما کی راۓ یہ ہے کہ یہویاکین آٹھ برس کا تھا جب اُس کے باپ نے اُسے سلطنت میں شریک کر لیا اور  اِس کے دس سال بعد یعنی اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ بادشاہی کرنے لگا۔ اور یہ بات ممکن ہے۔ مگر ایک اَور ممکنہ  توجیہ یہ ہے کہ یہ عددی اختلاف اِس بات کا نتیجہ ہے کہ ابتدائ صدی کے کسی کاتب نے سہواً ١٨ کے بجاۓ ٨ نقل کر دیا۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ غلط عدد اُس کاتب کے نسخے کے سارے ” اخلاف “ میں نقل ہوتا گیا۔ بہرصورت ایسے اختلافات خدا کے پیغام کو نہ تو کسی طرح متاثر کرتے ہیں نہ اُسے تبدیل کرتے ہیں۔ بائبل مقدس کے قدیم قلمی نسخوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ علما اِن کا باہمی موازنہ کر کے آسانی سے صحیح ترجمہ کا تعین کر لیتے ہیں۔ قدیم مسودوں میں اِن اختلافات سے بنیادی سچائ پر کوئ اثر نہیں پڑتا۔

مذہبی یا غیر مذہبی قدیم متون یعنی منقول نسخوں میں کتابت کی اِن معمولی غلطیوں سے علما کو کبھی کوئ مشکل پیش نہیں آئ۔ قلمی نسخوں میں اِن اختلافات کا باقی رہنا اِس حقیقت کی زبردست حمایت کرتا ہے کہ پاک صحائف میں کوئ دست اندازی (تحریف) نہیں ہوئ۔ بائبل مقدس کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے ” ایک بالکل صحیح اور مسلّم نسخہ “ مرتب کرنے اور پھر باقی سارے مسودات کو جلا دینے کی کوشش کی ہو۔

حدیث میں مذکور ہے ” تب حضرت عثمان (رض) نے زید بن ثابت (رض)، عبداللہ بن الزبیر (رض) سعید بن العاص (رض) اور عبدالرحمان بن ہاشمی (رض) کو حکم دیا کہ ان مسودوں کی بالکل صحیح نقول لکھیں۔۔۔ اُنہوں نے بہت سی نقول لکھ لیں تو عثمان (رض) نے اصل مسودے حضرت حفصہ کو لوٹا دیۓ۔ حضرت عثمان (رض) نے اُن کی تیار کردہ ایک ایک نقل ہر ایک مسلم صوبہ میں بھیج دی اور حکم دیا کہ دوسرا سارا قرآنی مواد خواہ وہ جزوی مسودے ہوں خواہ مکمل نقول جلا دیا جاۓ۔ “ (حدیث صحیح بخاری جلد ٦، نمبر ٥١٠ )۔

خدا نے اپنا پیغام (کلام) ہمارے لۓ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ آج جو صحیفے ہمارے پاس ہیں بالکل وہی ہیں جو نبیوں اور رسولوں نے لکھے تھے؟

بحیرہ مردار کے طومار

آج سے نصف صدی پیشتر تک پرانے عہدنامے کے نوشتوں (جو نبیوں نے ١٥٠٠ ق م اور   ٤٠٠ ق م کے دوران لکھے) کی معلومہ نقول ٩٠٠ ق م تک کی تحریر  شدہ تھیں۔ چونکہ اصل مسودات اور نقول کے درمیان طویل عرصہ گزر گیا تھا اِس لۓ نقاد دعوی' کرتے تھے کہ ان صدیوں کے دوران کی نقل در نقل ہوتی رہی ہے، اِس لۓ یقین سے جانںا ممکن نہیں کہ نبیوں نے کیا لکھا تھا۔

بحیرہ مردار کے طوماروں کی دریافت سے پہلے بھی پاک صحیفوں کی توثیق کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ موجودہ پرانے عہدنامے کا موازنہ ہفتادی ترجمے سے کیا جاۓ (ہفتادی ترجمہ پرانے عہد نامے کا یونانی زبان میں ترجمہ ہے جو تقریباً ٢٧٠ ق م میں مکمل ہوا تھا)۔ ہفتادی ترجمہ اِس دعوے کو ثابت کرتا ہے کہ پرانے عہدنامے کے صحیفے غیر محرف اور محفوظ ہیں۔

ایک وقت آیا کہ بحیرہ مردار کے طومار دریافت ہوۓ۔

کب؟ ١٩٤٧ ء میں۔

کہاں سے؟ بحیرہ مردار کے قریب قمران کے کھنڈرات سے۔

کیسے؟ دو بدو چرواہے (قاموس الکتاب صفحہ ١٤٠ ” دو چرواہے “ ) اپنی بھٹکی ہوئ بکری کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھر رہے تھے کہ اتفاقاً ایک غار میں چلے گۓ۔ وہاں اُنہیں مٹی کے چند مرتبان ملے جن میں عبرانی، ارامی اور یونانی زبانوں میں لکھے ہوۓ قدیم طومار تھے۔ وہ طومار اُنہوں نے بیت لحم کے ایک پرانی چیزوں کے تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیۓ۔ بالآخر یہ طومار اُن علما کے پاس پہنچے جنہیں اُن کی صحیح قدر و قیمت معلوم تھی۔

١٩٤٧ ء اور ١٩٥٦ ء کے درمیان گیارہ غاروں سے بائبل مقدس کے ٢٢٥ سے زائد قلمی نسخے دریافت ہوۓ۔ علما کے مطابق یہ طومار ٢٥٠ ق م سے ٦٨ ء کے درمیانی عرصے میں لکھے گۓ تھے۔ اِن میں سے اکثر طومار ٢٠٠٠  سال سے بھی زیادہ پرانے تھے۔ کیسی زبردست اور خوب دریافت ہے!

یہ طومار قمران کی غاروں میں ٧٠ ء (جس سال رومیوں نے یروشلیم کو ملیا میٹ کیا تھا) میں یہودیوں کی اسینی جماعت کے لوگوں نے چھپاۓ تھے۔ اُن لوگوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ ذاتی طور سے ہم پر کچھ بھی اُفتاد پڑے مگر اِن صحیفوں کو آئندہ نسلوں کے لۓ محفوظ رہنا چاہۓ۔ اِس جماعت کے یہودی قتل ہوۓ یا دوسری قوموں میں منتشر ہو گۓ مگر یہ طومار محفوظ رہے۔

اِن قدیم نوشتوں کی دریافت کی خبر دنیا بھر میں پہنچی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اِن میں ہزار سال بعد کے موجودہ نسخوں کے مقابلے میں زیادہ اہم اور نمایاں اختلافات موجود ہوں گے اور ہمارا یہ دعوی' ثابت ہو جاۓ گا کہ بائبل میں تحریف کر کے اِسے بدل دیا گیا ہے۔

مگر اُن شک پرست لوگوں کو سخت مایوسی ہوئ، کیونکہ اُن میں صرف ہجا اور گرامر کے معمولی اختلافات ملے۔ اِن قدیم قلمی نسخوں میں بھی وہی الفاظ اور پیغام ہے جو ہماری موجودہ بائبل ہے۔

  بحیرہ مردار کے طومار:
٢۵٠ ق م تا ۶٨ ء
  گذشتہ معلومہ قلمی:
نسخہ جات ٩٠٠ ء
  بائبل موجودہ زمانے میں:
لاتبدیل

 بحیرہ مردار کے طوماروں کے علما کا اِس معاملے میں باقاعدہ فیصلہ کیا ہے کہ اِن صحائف میں رد و بدل اور تحریف کی گئ ہے؟ ” اب تک کی شہادت یہی کہتی ہے کہ کوئ تحریف یا رد و بدل نہیں ہوا “۔

تاریخ کی محفوظ ترین کتاب

جہاں تک نۓ عہدنامے کا تعلق ہے ہمارے پاس کم سے کم ٢٤٠٠٠ قلمی نسخے موجود ہیں جن میں سے ٥٣٠٠ اصل یونانی زبان میں ہیں اور ان میں سے ٢٣٠ نسخے چھٹی صدی سے پہلے کے ہیں۔ یہ حتمی طور سے ثابت کرتے ہیں کہ نیا عہدنامہ مستند طور پر دنیا کا محفوظ ترین متن (کتاب) ہے ۔

تقابل اور موازنے کے لۓ یونانی فلسفی ارسطو کی تحریروں کو دیکھیں۔ یہ فلسفی ٣٨٤ ق م سے ٣٢٢ ق م میں ہوا۔ ارسطو ہر زمانے کا سب سے زیادہ بااثر فلسفی ہے۔ تاہم اُس کے فلسفے اور منطق کے بارے میں ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں وہ معدودے چند قلمی نسخوں سے حاصل ہوا ہے جن میں سے قدیم ترین نسخے ١١٠٠ ءکے ہیں۔ اِس طرح اصل نسخوں اور موجودہ نسخوں کے درمیان تقریباً ١٤٠٠ کے عرصے کا فرق ہے۔ اِس کے باوجود ارسطو کی باتوں اور نظریات کی سند اور محافظت پر کوئ شخص اعتراض نہیں کرتا۔

نۓ عہدنامے کے اِن ہزاروں قلمی نسخوں کے علاوہ ٣٢٥ ق م (مکمل نۓ عہدنامے کے قدیم ترین محفوظ قلمی نسخے کی تاریخ) سے پہلے کی غیر بائبلی تحریروں میں نۓ عہدنامے سے ہزاروں اقتباس بھی ملے ہیں۔ یہ اقتباسات اِتنے وسیع ہیں کہ صرف اِن ہی سے پورا نیا عہدنامہ دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔

اِن شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نیا عہدنامہ قدیم زمانے کا سب سے زیادہ محفوظ رکھا گیا متن (کتاب) ہے۔

مختلف بائبلوں کا معاملہ

آپ نے کسی کو کہتے سنا ہو گا کہ ” لیکن اِتنی بہت سی مختلف بائبلیں ہیں! کون سا ترجمہ درست ہے؟ “

بائبل مقدس کے قدیم قلمی نسخوں اور اِن نسخوں کے مختلف تراجم میں فرق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ قلمی نسخے عرصہ دراز پہلے فقیہوں (کاتبوں) نے نقل کۓ۔ یہ قرآن شریف کے تحریری صورت میں آنے سے صدیوں پہلے کی بات ہے۔ آج کل چھپی ہوئ بائبلیں اِن ہی قدیم متون سے ترجمہ شدہ ہیں۔ مکمل بائبل ہو یا اِس کا کوئ حصہ، اِس کا ترجمہ اصل زبانوں (عبرانی، ارامی اور یونانی) سے ٢٤٠٠ سے زیادہ زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اِن ہی میں سے ایک زبان اُردو ہے۔

برِ صغیر پاک و ہند کی مختلف زبانوں میں بائبل مقدّس کے ترجمے اور اشاعت کی تفصیل کے لئے دیکھئے ” قاموس الکتاب “ صفحہ نمبر ١٢٧ تا ١٣٣۔

برِصغیر پاک و ہند میں انگریزی خواں طبقہ انگریزی زبان کی بائبل مقدس اور  اِس کے مختلف تراجم (ورژن versions ) سےبخوبی واقف ہے۔ انگریزی کا ہر ورژن دوسروں سے قدرے فرق ہے۔ جب الفاظ کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ مختلف مترجمین کے چنے ہوۓ الفاظ فرق فرق ہو سکتے ہیں، مگر خلوصِ نیت سے کۓ گۓ تراجم کا مطلب اور پیغام ایک ہی رہتا ہے، وہ نہیں بدلتا۔

اِس وقت پاکستان میں بائبل مقدّس کے دو تراجم رائج ہیں: کیتھولک ترجمہ اور پروٹسٹنٹ ترجمہ۔ لیکن اِس کتاب میں پروٹسٹنٹ ترجمہ استعمال کیا گیا ہے۔  ہم اِن دونوں تراجم میں سے ایک آیت مثال کے طور پر  پیش کرتے ہیں (متی ٦: ١٦):

پروٹسٹنٹ اُردو ترجمہ یوں ہے:

” اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ “

کیتھولک اُردو ترجمہ یوں ہے: 

” اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی مانند اپنا چہرہ اُداس نہ بناؤ کیونکہ وہ منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر  پا چکے۔ “

اگرچہ الفاظ میں معمولی سا اختلاف ہے، مگر مطلب ایک ہی ہے۔

خدا بہت بڑا ہے

لوگ عام طور سے الزام لگاتے ہیں کہ انسانوں نے خدا کے تحریری کلام میں رد و بدل کر ڈالا ہے۔ لیکن حسن اتفاق ہے کہ اِس الزام کی زبردست تردید دنیا بھر کی مساجد سے سارا دن بآوازِ بلند سنائ جاتی ہے۔ مَیں نے آج صبح بھی یہ تردید سنی:

اللہ اکبر!     اللہ اکبر!

خدا بہت بڑا ہے!   خدا بہت بڑا ہے!

بے شک، خدا بہت بڑا ہے۔ خدا انسان سے اور زمانے (وقت) کے نہایت لمبے لمبے اَدوار سے بھی بہت بڑا ہے۔ ساری قوموں کی برکت اور فیض کے لۓ اور خود اپنے نام کی ساکھ کی خاطر سچے اور زندہ خدا نے ہر پشت اور ہر دَور میں اپنے کلام کو محفوظ رکھا ہے۔

خدا اِس دنیا کا نہ صرف خالق اور سنبھالنے والا ہے، بلکہ اپنے کلام کا بانی اور محافظ بھی ہے

” اے خداوند! تیرا کلام آسمان پر ابد تک قائم ہے “ (زبور ١١٩ :٨٩ )۔

بے شمار رکاوٹیں

اِس موقع پر یہ سوچنا اچھا ہو گا کہ  جتنے لوگ اِس سفر کی تیاری کر رہے ہیں اُن سب نے اُن ساری رکاوٹوں پر قابو پا لیا ہے جو اُنہیں خدا کا کلام سننے سے روکتی ہیں۔ مگر تجربہ اِس کے برعکس ظاہر کرتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لۓ کوئ نئ سے نئ رکاوٹ حائل ہوتی ہے کہ سچائ کی راہ پر نہ چل سکیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران کئ کتابیں شائع ہوئ ہیں اور فلمیں بنائ گئ ہیں جن کا سوچا سمجھا مقصد بائبل مقدس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ بعض معترضین اور تنقید نگار ” متبادل اناجیل “ کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو بائبل مقدس کی تردید کرتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ اِس قسم کی ساری ” اناجیل “ مسیحِ موعود کی زمینی زندگی کے بہت عرصہ بعد لکھی گئ تھیں اور تاریخ اِن کی توثیق و تصدیق نہیں کرتی۔

حال ہی میں مجھے یہ ای میل موصول ہوئ: /p>

ای میل

آپ کی طرف سے جواب ملے، شکریہ۔ مجھے یاد آتا ہے کہ کسی جگہ خدا نے کہا ہے کہ ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔' مَیں ہمیشہ سوچتا اور حیران ہوتا ہوں کہ 'ہم' کس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا بائبل کے مختلف تراجم موجود نہیں؟ کون سا ترجمہ بالکل صحیح ہے؟ کیا بہت سے مذاہب نہیں ہیں؟ اگر یہ مذاہب نہ ہوتے تو کیا جڑواں مینار ( Twin Towers ) موجود ہوتے؟ کیا مسیحیت بہت سی اموات کی ذمہ دار نہیں ہے؟ اور آپ کو اپنے ایمان اور عقیدے کے بارے میں یقین کیوں ہے؟ کیوں، کیوں، کیوں، کیوں؟ ہم کسی بھی فرضی کہانی پر اعتراض کر سکتے ہیں، بلکہ اعتراضات کی بھرمار کر سکتے ہیں اور جوابات گھڑ سکتے ہیں۔ جیسا کہ بہت سے مبلغین کرتے ہیں تاکہ اُنہیں پیسہ ملتا رہے۔ اور خدا کو کس نے خلق کیا تھا؟ مَیں بھول گیا ہوں __ آپ کا شکریہ۔ “

خدا کی کتاب اِس آدمی کے سوالوں کے جواب مہیا کرتی ہے۔ تاہم جو لوگ قبر میں اُترنے سے پہلے ازل و ابدی سچائ کو دریافت کرنا چاہتے ہیں اُنہیں چاہۓ کہ انسان کی اِس کیوں، کیوں سے توجہ ہٹا کر خدا کے کلام پر، خدا کی باتوں پر غور کریں۔

لوگ کیوں بائبل پر غور نہیں کرتے

بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ لوگ خدا کی سچائ کو کیوں رد کر دیتے ہیں۔

ہم تین وجواہات بیان کرتے ہیں۔

١۔ دل کا بگاڑ

بعض لوگ پاک نوشتوں پر کبھی غور نہیں کرتے۔ اِس کی سیدھی سادی

وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کو جاننا نہیں چاہتے۔

انسانی دل (گوشت پوست کا لوتھڑا نہیں جو دورانِ خون کو جاری رکھتا ہے بلکہ کنٹرول کا باطنی مرکز ہے) کا جائزہ لیتے اور تشخیص کرتے ہوۓ پاک کلام کہتا ہے:

” وہ بگڑ گۓ ۔۔۔ خداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئ دانش مند، کوئ خدا کا طالب ہے یا نہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوۓ “ (زبور ١٤ : ١۔ ٣)۔

لوگوں کے بائبل مقدس کو رد کرنے کا اِس کے محرف ہونے سے کوئ تعلق نہیں۔ اصل وجہ ہے ” بگڑے ہوۓ اور گمراہ دل۔ “

سلیمان بادشاہ لکھتا ہے ” خدا نے انسان کو راست بنایا پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں “ (واعظ ٧ : ٢٩ )۔

ہمارا طبعی رجحان اور فطری میلان یہی ہے کہ ہم اپنی روشیں خود متعین کریں۔ اپنے لۓ سب کچھ خود تجویز کریں اور اپنے آباو اجداد کے مذہب پر چلیں اور مر جائیں۔ فی الحقیقت ہم خدا کو نہ جاننے کے لئے دلیلیں اور اسباب تلاش کرتے ہیں۔ پاک کلام میں سے گزرنے کا سفر شروع کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں معلوم ہو جاۓ گا کہ ہم کیوں ایسے ہیں۔ فی الحال اِتنا ہی جان لیں اور یاد رکھیں کہ معقول وجہ ہے کہ پاک کلام بار بار آگاہ کرتا ہے کہ ” جس کے کان ہوں وہ سن لے “ (متی ١٣ : ٩ __ مزید دیکھیں متی ١١: ١٥ ؛ ١٣ : ٤٣ ؛ مرقس ٤ : ٩ ، ٤٣ ؛ ٧: ١٦ ؛ لوقا ٨ : ٨ ؛ ١٤ : ٣٥ ؛ مکاشفہ ٢ : ٧ ، ١١ ، ٢٩ ؛ ٣: ٦، ١٣ ، ٢٢ ، ١٣ : ٩)۔

٢۔ فکریں اور دولت

بعض لوگ خدا کی کتاب کا مطالعہ اِس لۓ نہیں کرتے کہ اُن کی ساری

توجہ اِس موجودہ جہان پر لگی رہتی ہے۔ ” دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اُس کلام کو دبا دیتا ہے “ (متی ١٣ : ٢٢)۔

یسوع ناصری نے ایک دولت مند آدمی کی تمثیل سنائ۔ اُس نے ساری زندگی نبیوں کے صحیفوں پر کوئ دھیان نہ دیا۔ شاید وہ بھی اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لۓ کہتا تھا کہ یہ نوشتے قابلِ اعتبار نہیں۔ کچھ بھی ہو، آخرکار وہ آدمی مر گیا اور دوزخ میں پہنچا۔ زندہ انسانوں کی آگاہی کے لۓ اور اُنہیں خبردار کرنے کی خاطر خدا نے اُس آدمی کو موقع دیا کہ ابرہام نبی سے جو جنت میں ہیں گفتگو کر لے۔ اُس دولت مند آدمی نے ایک بوند پانی مانگا تاکہ اپنی زبان تر کر  سکے، لیکن اُسے وہ بھی نہ ملا۔ اُس نے جان لیا کہ میرے لۓ ابد تک کوئ اُمید نہیں تو اُس نے ابرہام سے کہا کہ دنیا میں میرے پانچ بھائ باقی ہیں اور درخواست کی کہ مُردوں میں سے کسی کو اُن کے پاس بھیج کہ اُنہیں خبردار کرے تاکہ ” ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ “

ابرہام کا جواب بالکل صاف تھا:

 اُن کے پاس موسی' اور انبیا (کے صحیفے) تو ہیں۔ اُن کی سنیں۔ ” اُس نے کہا، “ نہیں اے باپ ابرہام! ہاں اگر کوئ مُردوں میں سے اُن کے پاس جاۓ تو وہ توبہ کریں گے۔ “ اُس نے اُس سے کہا ” جب وہ موسی' اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئ جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے “ (لوقا ١٦ : ١٩ _٣١)۔

خدا نے واضح طور سے بتا دیا ہے کہ میرا تحریری کلام معجزوں، نشانوں، عجائب سے بڑھ کر میری سچائ کی تصدیق کرتا اور قائل کرتا ہے۔ خدا نے اپنے نبیوں کے صحیفے ہمیں عطا کۓ اور اُنہیں محفوظ رکھا ہے۔ وہ چاہتا  اور توقع کرتا ہے کہ ہم ” اُن کی سنیں۔ “

٣۔ انسانوں کا خوف

بعض لوگ بائبل مقدس کا مطالعہ نہیں کرتے کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے رد عمل اور باتوں سے ڈرتے ہیں۔

ایک دفعہ میرے ایک پڑوسی نے مجھے بتایا، ” اگر مجھے خاندان والوں کا ڈر نہ ہوتا تو مَیں ضرور بائبل پڑھتا۔ مجھے تو بائبل مقدس بتاتی ہے کہ “ انسان کا ڈر پھندا ہے، لیکن جو کوئ خداوند پر  توکل کرتا ہے محفوظ رہے گا “ (اَمثال ٢٩ :٢٥)۔

آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ بھی ڈرتے ہیں کہ خاندان کے افراد اور یار دوست کیا کہیں گے؟ یا اگر اُنہوں نے آپ کو اُن نبیوں کے نوشتے پڑھتے ہوۓ دیکھ لیا جن کی خود تعظیم کرنے کا دعوی' کرتے ہیں تو آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟

ہرگز نہ ڈریں کیونکہ ” جو کوئ خداوند پر توکل کرتا ہے محفوظ رہے گا۔ “

خدا کے نقطہ نظر سے کوئ معقول وجہ  نہیں کہ اُس کے پیغام کو نظرانداز کیا جاۓ۔

۵
خدا کے دستخط
” تمام قومیں فراہم کی جائیں ۔۔۔ اور لوگ سنیں اور کہیں کہ یہ سچ ہے “ — (یسعیاہ ٤٣ : ٩ )

سرکاری اور قانونی دستاویز پر کسی اعلی' افسر کے دستخط ہونا لازمی ہے۔ پرانے اور نۓ عہدنامے کے صحیفے دعوی' کرتے ہیں کہ ہم خدا کی مستند روئیداد اور عہد ہیں۔ اِن پر بھی دستخط کۓ گۓ ہیں لیکن روشنائ اور قلم سے نہیں بلکہ بالکل واضح اور نمایاں انداز سے جسے ” پوری ہو چکی پیش گوئ یا نبوت “ کہا جاتا ہے۔

 ” خداوند ۔۔۔ یوں فرماتا ہے کہ مَیں ہی اوّل اور مَیں ہی آخر ہوں اور میرے سوا کوئ خدا نہیں اور جب سے مَیں نے قدیم لوگوں کی بنیاد ڈالی کون میری طرح بلاۓ گا اور اُس کو بیان کر کے میرے لۓ ترتیب دے گا؟ ہاں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اُس کا بیان کریں ۔۔۔ کس نے قدیم ہی سے یہ ظاہر کیا؟ کس نے قدیم ایام میں اِس کی خبر پہلے ہی سے دی ہے؟ کیا مَیں خداوند ہی نے یہ نہیں کیا؟ “ (یسعیاہ ٤٤ : ٦ ، ٧ ؛ ٤٥ : ٢١ )۔

ہمیں خدا کی منطق، خدا کی دلیل کو سمجھنا چاہۓ۔

بائبل مقدس میں بے شمار تفصیلی پیش گوئیاں ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔ اِس سے ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ یہ ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کہتی ہے ہم اُس کا یقین کر سکتے ہیں۔

حتمی اور صریح ثبوت

صرف وہ ہستی جو  لازمان ہے، ازلی و ابدی ہے تاریخ کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِسے بیان اور تحریر کر سکتی ہے۔

فانی انسان نے کئ دفعہ جچے تُلے اور سوچے سمجھے اندازے لگاۓ ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ لیکن صرف خدا ہی مستقبل کو ایسے دیکھتا ہے گویا وہ ہو چکا ہے۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ آج سے ہزار سال بعد کیا ہو گا۔ خدا کی طرف سے مکاشفہ کے بغیر نہ کوئ انسان، نہ فرشتہ، نہ شیطان، نہ بد روح قطعی اور صریح طور سے مستقبل کے بارے میں بتا سکتی ہے۔

بعض لوگ پوچھیں گے کہ روحانی عاملوں، جادو گروں، ٹونے سے علاج کرنے والوں اور قسمت کا حال بتانے والوں کے بارے میں کیا کہتے ہو جو مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔

اوّل: یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ شیطان ان لوگوں کو غیر ارضی علم دے سکتا ہے جن کو اُس نے اپنے پھندے میں پھنسا رکھا ہے تاکہ اُس کی مرضی پوری کریں (٢۔تیمتھیس ٢ :٢٦ )۔

دوم: شیطان بہت بڑا بہروپیا اور ماہر نفسیات ہے۔ وہ ہزاروں سالوں سے انسانی تاریخ کو بغور دیکھ رہا ہے۔ وہ خدا کے جعلی ” دستخط “ کرنے کا ماہر ہے۔

سوم: اگرچہ شیطان بڑی حد تک پہلے سے یہ بتانے کا ماہر ہے کہ بعض واقعات کیا رُخ اختیار کریں گے مگر وہ مستقبل کو نہیں جانتا۔ اُس کی ” پیش گوئیاں “ اکثر غلط ثابت ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ مبہم اور غیر واضح ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئ قسمت کا حال بتانے والا کسی جوان لڑکی سے کہتا ہے ” بس ایک دو سال میں تمہاری شادی ہو جاۓ گی اور تمہیں سچی محبت ملے گی۔ “ مَیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ امکان بہت ہے اور ایسی ” پیش گوئ “ پوری ہو ہی جاتی ہے۔ جب ہم بائبل مقدس کی پوری ہو چکی پیش گوئیوں کی بات کرتے ہیں تو اِس قسم کی مبہم پیش گوئیوں کی بات نہیں ہوتی۔

ہم بائبل مقدس سے پیش گوئیوں میں سے تین مثالیں پیش کرتے ہیں ۔۔۔ ایک جگہ، ایک قوم اور ایک شخص کے بارے میں۔

ایک جگہ کے بارے میں پیش گوئیاں

تقریباً ٦٠٠ ق م میں مقدس حزقی ایل نبی نے فینیکے کے قدیم صور کے خلاف پیش گوئ کی تھی۔ لبنان کے ساحل پر واقع صور شہر دو ہزار سال سے زیادہ عرصے تک عالمی اہمیت کا شہر رہا۔ اِسے ” سمندروں کی ملکہ “ کہا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ طاقت اور شہرت کی انتہائ بلندی پر تھا تو خدا نے حزقی ایل کو حکم دیا کہ اِس شہر کی بدی، تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اِس پر آنے والی بربادی اور تباہی کا حال تفصیل سے لکھے۔

حزقی ایل نبی نے پیش گوئ کی:

  1. بہت سی قومیں صور  پر  چڑھائ کریں گی  (حزقی ایل ٢٦ : ٣)۔
  2. بادشاہ نبوکدرضر/ نبوکدنضر کے ماتحت بابل سب سے پہلا حملہ آور ہو گا۔ (آیت ٧)
  3. صور  کی شہر پناہ اور اُس کے برج ڈھا دیۓ جائیں گے (آیت ٤، ٩ )۔
  4. صور کے باشندے تلوار سے قتل ہوں گے (آیت ١١ )۔
  5. شہر کا ملبہ اور مٹی سمندر میں پھینکی جاۓ گی (آیت ١٢ )۔
  6. اسے کھرچ کر ” صاف چٹان “ بنا دیا جاۓ گا (آیت ٤)۔
  7. وہ ماہی گیروں کے ” جال پھیلانے کی جگہ “ بن جاۓ گا ۔ (آیت ٥، ١٤ )
  8. صور کا بڑا شہر پھر تعمیر نہ کیا جاۓ گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے (آیت ١٤ )۔

غیر مذہبی تاریخ بیان کرتی ہے کہ یہ آٹھوں پیش گوئیاں پوری ہوئ ہیں۔

  1. صور  پر بہت سی قوموں نے چڑھائ کی۔
  2. سب سے پہلا حملہ آور بابل تھا جس کی قیادت نبوکدنضر نے کی۔
  3. تیرہ سال (٥٨٥ _ ٥٧٢ ق م) کے محاصرے کے بعد ساحل پر واقع صور کی فصیلیں اور برج ڈھا دیۓ گۓ اور حزقی ایل کی پہلی پیش گوئی پوری ہوئ۔
  4. صور کے جو باشندے پناہ کے لۓ جزیرے پر واقع قلعے میں نہ جا سکے نبوکدنضر نے اُن سب کو قتل کر دیا۔ مذکورہ قلعہ بحیرہ روم میں تقریباً ایک میل دُور جزیرے پر تھا۔
  5. غیر مذہبی تاریخ میں لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم پہلا فاتح تھا جس نے ٣٣٢ ق م میں صور کا اندرونی حصہ فتح کیا۔ اِس کامیابی کے لۓ اُس نے شہر کا ساحلی حصہ تباہ و برباد کیا اور اُس کے ملبے سے جزیرے تک سڑک بنائ۔ اِس طرح انجانے میں اُس پیش گوئ کا ایک اَور حصہ پورا کر دیا کہ تباہ شدہ شہر کا ملبہ سمندر میں ڈال دیا۔ سکندرِ  اعظم کی فتح
    نے فینیکی سلطنت کا ہمیشہ کے لۓ خاتمہ کر دیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ٣٣٢ ق م میں سکندرِ اعظم نے نوماہ کے محاصرے کے بعد شہر پر
    قبضہ کر لیا۔ اگرچہ اُس نے شہر کو پورے طور پر تباہ نہ کیا تو بھی صور اِس چوٹ سے سنبھل نہ سکا۔
  6. شہر کو کھرچ کر ” صاف چٹان “ بنا دیا گیا۔
  7. یہ ” جال پھیلانے کی جگہ “ بن گیا۔
  8. بعد کے سالوں میں اِس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی بار بار کوشش کی گئ، مگر یہ ہر بار تباہ ہوا۔ آج کے لبنان میں ” صور “ نام کا ایک جدید شہر موجود ہے۔ لیکن فینیکے کا وہ قدیم شہر جس کے خلاف حزقی ایل نے نبوت کی تھی وہ دوبارہ کبھی تعمیر اور بحال نہیں ہوا۔ نیشنل جیوگرافک میگزین نے اگست ١٩٧٤ ء کے شمارے کے صفحہ ١٦٥ پر پتھر کے ایک چبوترے کی تصویر شائع کی جس کے نیچے لکھا ہوا ہے ” آج کے فینیکی، اِس کے نیچے بڑے رومی شہر کے فرشی پتھر اور ستون دبے پڑے ہیں۔ تھوڑی سی کھدائ سے فینیکیوں کی گم شدہ دنیا میں پہنچ سکتے ہیں۔ “

کیا ممکن ہے کہ حزقی ایل بہ حیثیت انسان اپنے زمانے میں صور شہر کو دیکھ کر اپنی عقل اور حکمت سے یہ آٹھ پیش گوئیاں کر سکتا ؟

چونکہ تاریخ کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے صرف خدا ہی دیکھ سکتا ہے اِس لۓ صرف وہی حزقی ایل کو یہ معلومات دے سکتا تھا۔

ایک قوم کے بارے میں پیش گوئیاں

بائبل مقدس میں کئ لوگوں اور قوموں کے بارے میں بالکل صحیح پیش گوئیاں موجود ہیں۔ اِن میں مصر، ایتھوپیا (حبشہ)، عرب، فارس (ایران)، روس، اسرائیل اور کئ اَور اقوام شامل ہیں۔

اِس سے پہلے کہ ہم پوری ہو چکی اگلی پیش گوئ کی مثال دیں، ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی سیاسی یا مذہبی ایجنڈے کو فروغ دینا یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرنا نہیں۔ ہمارا کام کلام کی باتیں اور پیغام سیکھنا (اور سکھانا) ہے۔

یہاں ہم ایک قوم کے بارے میں پوری ہو چکی پیش گوئ کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اِس کی تشریح آسان ہے لیکن بہتوں کے لۓ اِسے مانںا اور قبول کرنا مشکل ہے۔

تقریباً ١٩٢٠ ق م میں خدا نے ابرہام سے وعدہ کیا کہ یہی ملک مَیں تیری نسل کو دوں گا (پیدائش ١٢ : ٧)۔

اور بعد میں خدا نے یہی وعدہ اضحاق اور یعقوب کے ساتھ دہرایا (پیدائش ٢٦ : ٣ ؛ ٢٨ : ١٥ )۔ خدا نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب سے پیدا ہونے والی قوم کو جو ملک دینے کا وعدہ کیا وہ تجارتی اور جنگی لحاظ سے بالکل مرکزی جگہ ” قوموں اور مملکتوں کے درمیان “ واقع تھا اور ہے (حزقی ایل ٥:٥ مزید دیکھۓ اعمال ١ : ٨ ؛ ٢ : ٥۔١١ )۔

ابرہام، اضحاق اور یعقوب کی نسل کے لوگ پہلے عبرانی کہلاتے تھے، بعد میں اسرائیلی اور مزید کچھ عرصے بعد یہودی کہلانے لگے۔ اور اب تک اِن ہی دو ناموں سے کہلاتے ہیں۔

سینکڑوں سال بعد خدا نے موسی' کو بتایا کہ اگر اِن لوگوں نے مجھ (خدا) پر ایمان رکھنا اور میرے حکموں کی پیروی کرنا چھوڑ دیا تو اِن کا کیا حشر ہو گا۔

” مَیں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دوں گا اور تمہارے پیچھے پیچھے تلوار کھینچے رہوں گا، اور تمہارا ملک سُونا ہو جاۓ گا اور تمہارے شہر ویرانہ بن جائیں گے “ (احبار ٢٦ : ٣٣ )۔

” اُن سب قوموں میں جہاں جہاں خداوند تجھ کو پہنچاۓ گا تُو باعثِ حیرت اور ضرب المثل اور انگشت نما بنے گا ۔۔۔ اُن قوموں کے بیچ تجھ کو چین نصیب نہ ہو گا اور نہ تیرے پاؤں کے تلوے کو آرام ملے گا بلکہ خداوند تجھ کو وہاں دل لرزاں اور آنکھوں کی دھندلاہٹ اور جی کی کڑھن دے گا “ (استثنا ٢٨ : ٣٧ ، ٦٥ )۔

پرانے عہدنامے میں ایسی بیسیوں پیش گوئیاں موجود ہیں۔

تقریباً ٣٠ ء میں نبیوں کی باتوں (کلام) کی تصدیق کرتے ہوۓ یسوع ناصری نے یروشلیم کی بربادی کی پیش گوئ کی: ” جب (یسوع نے) نزدیک آ کر (یروشلیم کو) دیکھا تو اُس پر رویا اور کہا ۔۔۔ وہ دن تجھ پر آئیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے۔۔۔ کیونکہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگاہ کی گئ “ (لوقا ١٩ : ٤١ ۔ ٤٤ )۔ اور ہیکل کی بات کرتے ہوۓ یسوع نے پیش گوئ کی کہ ” وہ دن آئیں گے کہ ۔۔۔ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا “ (لوقا ٢١ : ٦)۔

اِس کے چالیس سال بعد یہ واقعات ہو گۓ۔

مورخ فلاویُس یوسیفس جو ٣٧ ء میں پیدا ہوا تھا اُس نے آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا ہے۔ ٧٠ ء میں رومی افواج نے یروشلیم کو گھیر لیا، شہر کے اِرد گرد دمدمہ باندھا اور تین سال کے محاصرے کے بعد شہر کو مسمار کر دیا۔ اگرچہ قیصر نے خود حکم دیا تھا کہ بڑے عبادت خانہ (ہیکل) کو محفوظ رکھنا تو بھی بپھرے ہوۓ رومی فوجیوں نے اُسے آگ لگا دی۔ اُس کے اندر پناہ لینے والے یہودیوں کو قتل کر دیا۔ ہیکل کا سونا اور چاندی پگھل کر پتھروں کے درمیان بہنے لگا۔ ہیکل مسمار کر دی گئ۔ سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسا یسوع نے کہا تھا ” پتھر پر پتھر باقی نہ رہا۔ “ اور جیسا موسی' اور نبیوں نے کہا تھا یہودی ساری دنیا میں پراگندہ ہو گۓ۔ اگلی دو صدیوں کے دوران تاریخ ان پیش گوئیوں کو پورا ہوتا دیکھتی رہی ہے کیونکہ یہ پراگندہ اور بے گھر یہودی ” ساری قوموں میں باعثِ حیرت اور ضرب المثل اور انگشت نما “ بنے رہے اور اُنہیں کہیں ” آرام نہ ملا۔ “

ہمارے ذاتی احساسات کچھ بھی ہوں مگر بائبل مقدس کی اس پیش گوئ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کا کوئ شخص بھی انکار نہیں کر سکتا۔ خدا نے نبیوں کو بتایا تھا کہ ہر قسم کے مخالف حالات کے باوجود یہودی ساری قوموں کے درمیان محفوظ اور نمایاں رہیں گے اور ایک وقت آۓ گا کہ اُس ملک میں واپس آئیں گے جو خدا نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب کو دیا تھا۔

موسی' نے بنی اسرائیل کو نبوت سے بتایا تھا کہ ” وہ تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا “ (استثنا ٣٠ : ٣) اور عاموس نے کہا تھا ” مَیں (خدا) بنی اسرائیل اپنے لوگوں کو اسیری سے واپس لاؤں گا۔ وہ اُجڑے شہروں کو تعمیر کر کے اُن میں بود و باش کریں گے۔ کیونکہ مَیں اُن کو اُن کے ملک میں قائم کروں گا اور وہ پھر کبھی اپنے وطن سے جو مَیں نے اُن کو بخشا ہے نکالے نہ جائیں گے ۔۔۔ “ (عاموس ٩: ١٤، ١۵)

دنیا بھر کے خبررساں ادارے اِن واقعات کے پورا ہونے کی خبریں دیتے ہیں۔

عبرانی قوم پر جو کچھ گزرا ہے وہ عالمی تاریخ میں بے مثال ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ قانونِ انضمام کے خلاف ہے۔ اِس قانون نے عملاً  ثابت کیا ہے کہ جب کوئ قوم کسی قوم کو فتح اور مغلوب کر لیتی ہے تو مفتوح قوم کے بچ نکلنے والے لوگ چند پشتوں کے بعد اُن قوموں میں ضم ہو جاتے ہیں۔ وہ اُن کے ساتھ بیاہ شادیاں کرتے ہیں، اُن کی زبان اور تہذیب کو اپنا لیتے ہیں اور اپنی قومی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہودیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اگرچہ لاکھوں یہودیوں نے بے حد کوشش کی کہ ہم اُن میں گھل مل جائیں، ضم اور جذب ہو جائیں، لیکن نہ ہو سکے۔

مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ہٹلر کے جرمنی میں رہنے والے بے شمار یہودی چاہتے تھے کہ ہمیں یہودی نہ سمجھا جاۓ اور لوگ ہمیں بہ حیثیت یہودی شناخت نہ کریں۔ وہ جرمن زبان بولتے تھے، جرمنی کے ٹیکس ادا کرتے تھے اور پہلی جنگ میں جرمنی کے لۓ لڑتے رہے تھے۔ تو بھی نازی اصرار کر کے کہتے تھے ” نہیں! تم یہودی ہو! “ چند ہی سالوں کے اندر ساٹھ لاکھ یہودی موت کے کیمپوں میں قید کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیۓ گۓ۔

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بہت سے لوگ اِن دردناک باتوں کو قبول نہیں کرتے۔ حال ہی میں ایک دوست نے لبنان سے خط لکھا، ” جہاں تک اِس پیش گوئ (خدا کا پکا عہد کہ مَیں یہودیوں کو اُن کے وطن میں واپس لاؤں گا) کا تعلق ہے مَیں اِس کا یقین کرنے میں اُن پیچیدگیوں یا مضمرات کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو مجھے پیش آ رہی ہیں۔ اِسے قبول کرنا میرے معاملے اور مفاد کے لۓ نقصان دہ ہے۔ “

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے یہودیوں کی بقا، بحالی اور ازسرِ نو آباد کاری کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اُس لبنانی دوست کے جذبات کو سمجھتے ہیں اور اُس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اُس کی والدہ کا خاندان اور بہت سے پڑوسی ١٩٤٨ ء میں اپنے گھروں سے نکال دیۓ گۓ تھے۔ اُن کا کوئ پُرسانِ حال نہ تھا۔ اُس کے ملک نے بہت دکھ اور مصائب جھیلے ہیں۔ لیکن یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بائبل مقدس کے نبیوں کی باتیں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے یہودی اُن نبیوں کے پیغام کو نہیں مانتے جن کی تعظیم کرنے کا دعوی' کرتے ہیں۔ یہ بھی نوشتوں کے پورا ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ روحانی طور پر اندھے ہیں۔ ” مگر آج تک جب کبھی موسی' کی کتاب (توریت) پڑھی جاتی ہے تو اُن کے دلوں پر پردہ پڑا رہتا ہے “ (٢۔کرنتھیوں ٣: ١٥ )۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ اُس وقت تک خدا کی حقیقی برکتوں میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ دن نہ آۓ جب وہ توبہ کریں گے (یعنی اُن کا دل و دماغ یکسر تبدیل ہو گا) اور خدا کے اِس قدیمی پیغام کا یقین کریں گے (دیکھۓ یسعیاہ ٤٤ : ١٨ ؛ یرمیاہ ٥ : ٢١ ؛ ٢۔کرنتھیوں ٣ : ١٢ ۔ ١٦ ؛ رومیوں ٩: ١١)۔ غور کریں کہ تقریباً  ٢٦٠٠ سال ہوۓ کہ خدا نے حزقی ایل پر ظاہر کیا کہ اسرائیل کا نیا جنم تین واضح مراحل میں ہو گا۔ اُس نے اسرائیل کو سوکھی ہڈیوں سے بھری ہوئ وادی سے تشبیہ دی۔ وہ سب باہم مل کر ایک بدن بن جائیں گی اور بالآخر اُن میں زندگی کا دم پھونکا جاۓ گا (حزقی ایل ٣٧ : ١۔١٤ )۔

پاک نوشتوں میں سے اپنے سفر کے اختتام کے قریب ہم دیکھیں گے کہ یہ واقعات کس طرح آخری زمانے کے لۓ خدا کے پروگرام میں بالکل ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اور ہم اُن پیش گوئیوں  پر بھی نظر ڈالیں گے جن میں مشرقِ وسطی' اور ساری دنیا کو برکات دینے کے وعدے موجود ہیں۔

” مَیں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات بُرائ کے نہیں تاکہ مَیں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں “ (یرمیاہ ٢٩ : ١١)۔

ایک شخص کے بارے میں پیش گوئیاں

پرانے عہدنامے میں شروع سے آخر تک ایک مسایاح (مسیح موعود) یعنی چھڑانے والے، نجات دینے والے کے بارے میں بہت سی پیش گوئیاں موجود ہیں، جس کو دنیا میں بھیجنے کا وعدہ خدا نے کیا۔ بحیرہ مردار کے طومار تصدیق کرتے ہیں کہ یہ نوشتے مسیح موعود کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے لکھے گۓ تھے۔ ہم نمونے کے طور پر اُن میں سے چند پیش گوئیاں پیش کرتے ہیں۔

  •   ابرہام کے ساتھ وعدہ ( ١٩٠٠  ق م)۔ وہ مسایاح یعنی مسیحِ موعود ابرہام اور اضحاق کے نسب سے دنیا میں آۓ گا (پیدائش ١٢ : ٢، ٣ ؛ ٢٢ : ١ ۔١٨ __ تکمیل متی باب ١ )۔
  •   یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ کنواری سے پیدا ہو گا۔ اُس کا کوئ دنیاوی باپ نہیں (یسعیاہ ٧: ١٤ ؛ ٩ : ٦، تکمیل لوقا ١ : ٢٦ ۔ ٢٨ ؛ متی ١ : ١٨ ۔ ٢٥ )۔
  • میکاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ بیت لحم میں پیدا ہو گا (میکاہ ٥ : ٢ ، تکمیل لوقا ٢ : ١ ۔٢٠ ؛ متی ٢ : ١ ۔ ١٢ )۔
  • ہوسیع کی پیش گوئ (٧٠٠  ق م)۔ اُسے مصر سے بلایا جاۓ گا (ہوسیع ١١ : ١ ، تکمیل متی ٢: ١٣ ۔ ١٥ )۔
  • ملاکی کی پیش گوئ (٤٠٠ ق م)۔ مسایاح سے پہلے اُس کا پیش رَو آۓ گا (ملاکی ٣ :١ ؛ یسعیاہ ٤٠ : ٣۔ ١١ ، تکمیل لوقا ١: ١١ ۔ ١٧ ؛ متی ٣ : ١ ۔ ١٢ )۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ اندھوں کو بینائ، بہروں کو سننے کی طاقت، لنگڑوں کو چلنے کی طاقت دے گا اور غریبوں کو خوش خبری سناۓ گا (یسعیاہ ٣٥ :٥، ٦ ، تکمیل لوقا ٧ : ٢٢ ؛ متی باب ٩ وغیرہ)۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ اُس کے اپنے لوگ اُسے رد کریں گے (یسعیاہ ٥٣ : ٢، ٣؛ ٤٩ : ٥ ۔٧ اور زبور ١١٨ : ٢١ ، ٢٢، تکمیل یوحنا ١ : ١١ ، مرقس ٦ :٣ ؛ متی ٢١ : ٤٢ ۔ ٤٦ وغیرہ)۔
  • زکریاہ کی پیش گوئ (٥٠٠ ق م)۔ وہ  چاندی کے ٣٠سکوں کے عوض دھوکے سے پکڑوایا جاۓ گا۔ پھر اُس رقم سے ایک کھیت خریدا جاۓ گا (زکریاہ ١١ : ١٢، ١٣ ، تکمیل متی ٢٦ : ١٤۔ ١٦ ؛ ٢٧ : ٣ ۔ ١٠ )۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ مسیحِ موعود کو رد کیا جاۓ گا، اُس پر جھوٹا الزام لگایا جاۓ گا، اُس پر مقدمہ چلے گا اور یہودی اور غیر یہودی اُسے مار ڈالیں گے (یسعیاہ ٥٠ : ٦ ؛ ٥٣ : ١ ۔ ١٢ اور زبور ٢ : ٢٢ ؛ زکریاہ ١٢ : ١٠ __ تکمیل یوحنا ١ : ١ ۔١١ ؛ ١١ : ٤٥ ۔ ٥٧ ؛ مرقس ١٠ : ٣٢ ۔ ٣٤ ؛ متی ابواب ٢٦  اور ٢٧ )۔
  • داؤد کی پیش گوئ (١٠٠٠ ق م)۔ اُس کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے جائیں گے، تماشائ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے، اُس کی پوشاک پر قرعہ ڈالا جاۓ گا وغیرہ (زبور  ٢٢ : ١٦، ٨ ، ١٨ __ تکمیل لوقا ٢٣ : ٣٣ ؛ ٢٤ : ٣٩ __ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ پیش گوئیاں اُس زمانے سے مدتوں پہلے کی گئ تھیں جب سزائے موت دینے کے لۓ صلیب ایجاد ہوئ۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ بدترین مجرم کی طرح مارا جاۓ گا، لیکن ایک دولت مند آدمی کی قبر میں دفن کیا جاۓ گا (یسعیاہ ٥٣ : ٨ __ تکمیل متی ٢٧ : ٥٧ ۔ ٦٠ )۔
  • داؤد کی پیش گوئ (١٠٠٠ ق م)۔ مسایاح کا بدن قبر میں گلنے سڑنے نہیں پاۓ گا۔ وہ موت پر فتح مند ہو گا (زبور  ١٦ : ٩ ۔ ١١ __ مزید دیکھۓ متی ١٦ : ٢١ ۔ ٢٣ ؛ ١٧ : ٢٢، ٢٣ ؛ ٢٠ : ١٧ ۔ ١٩ وغیرہ __ تکمیل لوقا باب ٢٤ ، اعمال ابواب ١ اور ٢ )۔

قانونِ امکانات ثابت کرتا ہے کہ ” ناممکن “ ہے کہ کوئ شخص اِن واضح، صریح اور قابلِ تصدیق پیش گوئیوں کو پورا کرے۔

لیکن ہوا بالکل یہی۔

ہو سکتا ہے کہ آپ بعد میں پھر اِس فہرست کی طرف رجوع کرنا چاہیں، بائبل مقدس پکڑیں اور پرانے عہدنامے کی ایک ایک پیش گوئ اور نۓ عہدنامے میں مرقوم تکمیل پڑھیں۔

نبوتی علامات اور نشان

پرانے عہدنامے کے صحیفوں میں بکھری ہوئ سینکڑوں پیش گوئیوں کے علاوہ سینکڑوں علامات اور نشان بھی موجود ہیں (اِن کو مثیل، عکس، تصویر، پیش بینی، خاکہ یا توضیح بھی کہتے ہیں)۔ خدا نے یہ بصری امداد اِس لۓ وضع کی کہ دنیا کو اپنے بارے میں اور بنی نوع انسان کے لۓ اپنے منصوبے کے بارے میں بتاۓ اور سکھاۓ۔

پاک صحائف میں سے ہمارے سفر کے دوران بہت سی علامات اور تصویریں ہمارے سامنے آئیں گی۔ مثال کے طور پر سب سے نمایاں علامت ” ذبح کیا ہوا برہ “ ہے۔ اِس کی مفصل تشریح زیرِ نظر کتاب کے ابواب ١٩ تا ٢٦ میں کی گئ ہے۔

باب ٢١ میں ہم ایک خاص خیمے کے بارے میں سیکھیں گے جسے خیمہ اجتماع کا نام دیا گیا تھا۔ خدا نے حکم دیا تھا کہ یہ خیمہ اُس نمونے کے مطابق بنایا جاۓ جو اُس نے موسی' کو دکھایا تھا۔ خیمہ اجتماع اور اُس کا سارا ساز و سامان زبردست بصری معاونت ہے جس سے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کیسا ہے اور گنہگاروں کو کیسے معافی ملتی ہے تاکہ وہ ابد تک خدا کے ساتھ رہنے کے لائق ہو جائیں۔

یعقوب کے بیٹے یوسف اور یسوع ناصری کی زندگیوں کا تقابلی مطالعہ پاک کلام میں پائ جانے والی علامتوں اور عکسوں کی بہت عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ یوسف کی زندگی اور یسوع کی زندگی میں سو سے زیادہ مشابہات پائ جاتی ہیں۔ خدا نے یوسف کی زندگی سے یسوع کی زندگی کی تصویر کھینچ دی جسے ١٧٠٠  سال بعد دنیا میں آنا تھا۔

پیدائش ابواب ٣٧ ۔ ٥٠ کا موازنہ اناجیل سے کریں۔

اِن عکسوں اور مثالوں کی صرف ایک ہی معقول تشریح اور توجیہ ہے اور وہ ہے __ خدا۔

پیش گوئ کا مقصد

اپنی زمینی زندگی کے دوران مسیحِ موعود (مسایاح) نے کہا:

” مَیں اُس کے ہونے سے پہلے تم کو جتاۓ دیتا ہوں تاکہ جب ہو جاۓ تو تم ایمان لاؤ کہ مَیں وہی ہوں “ (یوحنا ١٣ : ١٩ )۔

 مستقبل کے واقعات کی پیش گوئ اور بعد میں اُن کا وقوع پذیر ہونا یا عمل میں آنا، یہ ایک طریقہ ہے جس سے خدا نے اپنے پیغمبروں اور اُن کے پیغام کو سچا اور  معتبر ثابت کیا ہے۔ اپنے کلام پر ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کی خاطر حقیقی اور زندہ خدا ” ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا (ہے) ہوں اور ایامِ قدیم سے وہ باتیں جو اَب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا (ہے) ہوں اور کہتا (ہے) ہوں کہ میری مصلحت قائم رہے گی ۔۔۔ “ (یسعیاہ ٤٦ : ١٠ )۔

پاک صحائف میں سے ہمارا مجوزہ سفر بائبل مقدس کی پہلی کتاب ” پیدائش “ سے شروع ہو گا جس میں بیان ہوا ہے کہ یہ دنیا کیسے شروع ہوئ۔ اور ہمارا سفر بائبل مقدس کی آخری کتاب ” مکاشفہ “ پر ختم ہو گا جو پیشگی بتاتی ہے کہ دنیا کی تاریخ کے اختتامی واقعات کیا ہوں گے۔

ماضی ناقابلِ توثیق ہے اور  مستقبل کو دیکھنا ممکن نہیں۔ اِس لۓ ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ اِن کے بارے میں بائبل مقدس کے بیانات درست اور سچے ہیں؟ ہم یقین کرنے کے لۓ وہی منطق استعمال کر سکتے ہیں جس سے ہمیں یقین ہے کہ کل سورج طلوع ہو گا۔ ہمارے نظامِ شمسی کا ہزاروں سالوں کا ریکارڈ بالکل درست اور کامل ہے۔ زمین نے گردش کرنے میں کبھی ناغہ نہیں کیا۔ سورج باقاعدگی سے طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ یہی حال بائبل مقدس کی نبوت یا پیش گوئ کا ہے۔ جن باتوں کی تصدیق ہو سکتی ہے اُن میں خدا کی کتاب کا ریکارڈ بالکل درست ، معتبر اور کامل ہے۔

خدا کا چیلنج

بعض مذاہب کے لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری مقدس کتاب میں بھی پیش گوئیاں موجود ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔ اگر کوئ شخص آپ کے سامنے یہ دعوی' کرے تو بڑے تحمل اور تمیز سے اُس سے کہیں کہ اپنی مقدس کتاب سے تین یا چار نہایت قائل کرنے والی ایسی پیش گوئیاں پیش کرے۔ اوّل تو وہ شخص ایسا کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اگر وہ کچھ بتاۓ تو پہلے آپ تصدیق کریں کہ وہ اُن واقعات سے پہلے لکھی گئ تھیں جن کی پیش گوئ کرتی ہیں۔ دوسرے، عالمی تاریخ سے موازنہ کر کے اُن کے پورا ہونے کی تصدیق کریں۔ میرے تجربے کے مطابق ایسی دو چار پیش گوئیاں اگر ہیں تو مبہم اور غیر واضح ہیں۔

خاص اور اچھی وجہ سے سچا اور زندہ خدا سارے مذاہب اور فرضی خداؤں کو یہ چیلنج کرتا ہے:

” خداوند فرماتا ہے اپںا دعوی' پیش کرو ۔۔۔ اپنی مضبوط دلیلیں لاؤ۔ وہ اُن (اپنے بتوں) کو حاضر کریں تاکہ وہ ہم کو ہونے والی چیزوں (واقعات) کی خبر دیں۔ ہم سے اگلی (گزری ہوئ) باتیں بیان کرو کہ کیا تھیں تاکہ ہم اُن پر سوچیں اور اُن کے انجام کو سمجھیں یا آئندہ کو ہونے والی باتوں سے ہم کو آگاہ کرو۔ بتاؤ آگے کو کیا ہو گا تاکہ ہم جانیں کہ تم اِلہ ہو۔ ہاں بھلایا بُرا کچھ تو کرو تاکہ ہم متعجب ہوں اور باہم اُسے دیکھیں۔ دیکھو تم ہیچ اور بیکار ہو۔ تم کو پسند کرنے والا مکروہ ہے “ (یسعیاہ ٤١ : ٢١ ۔ ٢٤ )۔

جب کثیر العناصر اور تفصیلی پیش گوئیوں کی بات ہو جو ٹھیک ٹھیک پوری ہو چکی ہیں تو بائبل مقدس بے مثل کتا ب ہے۔

حقیقی اور زندہ خدا نے تاریخ کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِسے لکھ کر اپنے پیغام کی سچائ کی تصدیق کر دی ہے۔

پوری ہو چکی پیش گوئ اُس کے دستخط ہیں۔

۶
مستحکم گواہ
” اگر جاننا چاہتے ہو کہ پانی کیسا یا کس کی مانند ہے تو مچھلیوں سے مت پوچھو “ — (چینی کہاوت)

 ذرا تصور کریں کہ آپ دریا کے کنارے کنارے چل رہے ہیں۔ سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ آپ دریا میں نہانے اور تیرنے کا سوچتے ہیں، مگر ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ یہ پانی میری پسند کے مطابق ہے یا نہیں؟ بہاؤ بہت تیز تو نہیں؟ پانی بہت ٹھنڈا تو نہیں؟ کیا حالات موافق ہیں؟ چینی کہاوت صلاح دیتی ہے ” مچھلیوں سے مت پوچھو۔ “

اُس پانی میں رہنے والی مچھلیاں آپ کو بتانے کے قابل کیوں نہیں کہ پانی کیسا ہے؟ (قطع نظر اِس حقیقت کے کہ وہ آپ کی زبان نہیں بولتیں)۔ مچھلیاں آپ کو یہ معلومات اِس سادہ سی وجہ کے باعث نہیں دے سکتیں کہ اُن کے پاس پانی میں رہنے کے علاوہ اَور کوئ حوالہ نہیں۔ وہ صرف اِسی محدود اور دُھندلی سی دنیا سے واقف ہیں۔

اِسی طرح اگر ہم اِس دنیا کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں ہیں تو یہ معلومات انسان کی محدود دنیا اور اُس کے بارے میں خود ساختہ نظریے کے باہر سے آنی چاہئیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ آسمان کے خدا نے انسان کے لئے یہ معلومات فراہم کر دی ہیں:

” ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راست بازی میں تربیت کرنے کے لۓ فائدہ مند بھی ہے “ (٢۔تیمتھیُس٣ : ١٦ )۔

ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ بائبل مقدس کے صحائف ” خدا کے الہام سے “ ہیں؟ گذشتہ باب میں ہم نے دیکھا تھا کہ خالق نے بائبل مقدس میں سینکڑوں پیش گوئیاں رکھی ہیں جو پوری ہو چکی ہیں اور اِس طرح اِس کے متعبر اور مستند ہونے پر  مُہر لگا دی ہے۔

صرف خدا ہی دُور کے مستقبل کا بار بار سو فیصد درست بیان کر سکتا ہے۔ اپنے مکاشفے کو معتبر ثابت کرنے کے لۓ خدا نے دوسرا طریقہ یہ استعمال کیا ہے کہ اِسے کئ صدیوں میں بہت سے نبیوں پر ظاہر کیا ہے۔

ایک گواہ کافی نہیں ہوتا

خدا نے موسی' سے کہا ” کسی شخص کے خلاف اُس کی کسی بدکاری یا گناہ کے بارے میں جو اُس سے سرزد ہو ایک ہی گواہ بس نہیں بلکہ دو گواہوں یا تین گواہوں کے کہنے سے بات پکی سمجھی جاۓ “ (استثنا ١٩ : ١٥ )۔

یہ اصول ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی عدالت میں سچائ کو ماننے کے لۓ ایک سے زیادہ گواہ درکار ہوتے ہیں۔ کسی بیان کو سچا اور درست قرار دینے کے لۓ بہت سے معتبر ذرائع اور ثبوت پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اپنی سچائ کو ظاہر کرنے میں خدا نے اپنے قانون کو نظرانداز نہیں کیا جو کہتا ہے کہ ” ایک ہی گواہ بس نہیں “ ۔ پاک صحائف کہتے ہیں ” زندہ خدا ۔۔۔ جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا، اُس نے اگلے زمانہ میں سب قوموں کو اپنی اپنی راہ چلنے دیا۔ تَو بھی اُس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔۔۔ “ (اعمال ١٤ : ١٥ ۔ ١٧)۔

یہاں تک کہ دنیا میں الگ تھلگ رہنے والے قبیلوں کے پاس بھی کائنات کی خارجی گواہی موجود ہے کہ وہ اپنے خالق کی پیدا کی ہوئ چیزیں دیکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ضمیر کی باطنی گواہی موجود ہے یعنی اچھے اور بُرے اور ابدیت کا پیدائشی احساس۔ دنیا کے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ روشنی __ تھوڑی بہت سچائ عطا کی گئ ہے۔ اِس لۓ خدا کہتا ہے انسانوں کے پاس ” کچھ عذر باقی نہیں۔ “

” جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔ اِس لۓ کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا کیونکہ اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائ ہوئ چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں “ (رومیوں ١: ١٨ ۔ ٢٠ )۔ یہاں تک کہ جن قوموں کے پاس پاک صحائف نہیں ہیں وہ ” اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لۓ خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئ دکھاتی ہیں “ (رومیوں ٢ : ١٤ ،١٥ )۔ تو بھی سچائ کے زیادہ طالب ہونے کے بجاۓ بہت سے لوگ جھوٹ اور بطالت کی پیروی کرتے ہیں۔ مگر خدا وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ اپنے خالق کو تلاش کرنے اور جاننے کے لۓ جاں فشانی کرتے ہیں مَیں (خدا) اُنہیں مزید روشنی عطا کروں گا۔

مسلسل گواہی

خدا نے اپنے آپ کو کبھی بے گواہ نہیں چھوڑا۔

انسانی تاریخ کے پہلے ایک ہزار سالوں میں خدا لوگوں سے یا تو براہِ راست کلام کرتا تھا یا اوّلین انسانوں (آدم اور حوا) کی زبانی گواہی کے وسیلے سے اپنی سچائ ظاہر کرتا تھا۔ پہلا انسان یعنی آدم ٩٣٠ سال تک جیتا رہا۔ جو لوگ انسانی تاریخ کے پہلے ہزار سالوں کے دوران ہوۓ اُن کے پاس اپنے خالق اور مالک کے بارے میں سچائ کو نہ جاننے کا کوئ عذر نہ تھا کیونکہ وہ اصل گواہوں یعنی آدم اور حوا سے روبرو گفتگو کر سکتے ہیں۔

بائبل مقدس میں درج نسب ناموں میں مرقوم عمروں کا حساب لگانے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب آدم فوت ہوا تو نوح کا باپ (آدم کے بعد نویں پشت) ٥٠ سال سے زیادہ عمر کا تھا (دیکھۓ پیدائش باب ٥ )۔ اوّلین انسانوں کی درازیِ عمر آج کل کی درازیِ عمر سے گیارہ گنا تھی۔ بعد میں خدا نے ” عمر کی میعاد ستر برس ۔۔۔ یا قوت ہو تو اَسی برس “ کر دی (زبور ٩٠ :١٠ )۔

تقریباً ١٩٢٠ ق م میں خدا نے ایک عمر رسیدہ آدمی کو چن لیا اور اُس کا نام 'ابرہام' رکھا، خدا نے ابرہام سے وعدہ کیا کہ مَیں تجھے ایک قوم بناؤں گا اور اُس قوم کے وسیلہ سے دنیا کی قوموں کو اپنی ذات اور بنی نوع انسان کے لۓ اپنے منصوبے کے بارے میں ضروری باتیں سکھاؤں گا۔ مزید یہ کہ اُسی برگزیدہ قوم سے انبیا برپا کروں گا اور نوشتے دوں گا اور مسایاح (مسیحِ موعود) کو دنیا میں بھیجوں گا۔ تقریباً ١٤٩٠ ق م میں خدا نے اُسی قوم سے ایک آدمی کو بلا کر  اپنا ترجمان مقرر کیا۔ اُس کا نام موسی' تھا۔

تحریری گواہ

خدا نے موسی' کو تحریک دی کہ پاک صحائف کا پہلا حصہ یعنی توریت لکھے۔ آسمان اور زمین کے خالق کا ارادہ اور مقصد یہ تھا کہ مستقبل کی پشتوں کے لۓ اور زمانوں کے آخر تک کے لۓ تحریری شکل میں کلام مہیا کیا جاۓ۔ خدا نے وہ الفاظ موسی' کے ذہن میں ڈالے جو لکھے جانے تھے اور وہ لکھے گۓ۔ خدا نے موسی' کے وسیلے سے بڑے بڑے معجزے دکھا کر ساری قوموں کے لۓ اپنے کلام کے متعبر ہونے کی تصدیق کر دی۔ خدا نے مستقبل میں ہونے والے واقعات بھی ظاہر کر دیۓ اور موسی' نے مصریوں اور اسرائیلیوں کو وہ واقعات بتا دیۓ۔ سب کچھ بالکل ویسے ہی ہوا جیسے موسی' نے پیش گوئ سے بتایا تھا۔ خدا نے شک کی کوئ معقول وجہ نہ چھوڑی۔ یہاں تک کہ نہایت ہٹ دھرم تشکیک پرستوں کو بھی مانںا پڑا کہ جو خدا موسی' کی معرفت کلام کرتا ہے وہ حقیقی اور زندہ خدا ہے۔ ” تب جادو گروں نے فرعون سے کہا کہ یہ خدا کا کام ہے “ (خروج ٨: ١٩ مزید دیکھۓ ١٢ : ٣٠ ۔٣٣ ۔ پوری کہانی کے لۓ دیکھۓ خروج ابواب ٥ ۔ ١٤ )۔

اِن نبیوں کی لمبی قطار میں  موسی' پہلا شخص تھا جنہوں نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے کے دوران خدا کا کلام قلم بند کیا۔ یہ نبی فرق فرق پس منظر سے برپا ہوۓ۔ بعض نے باقاعدہ تعلیم بھی نہیں پائ تھی۔ وہ الگ الگ پشتوں میں برپا ہوۓ۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ شروع سے آخر تک ایک ہی پیغام ہے۔

خدا نے موسی' ، داؤد، سلیمان اور تقریباً تیس دوسرے آدمیوں کو چنا کہ پرانے عہدنامے کے صحائف لکھیں۔ اُس نے معجزوں اور عجیب کاموں کے ذریعے سے اور اپنے وعدے اور پیش گوئیاں پوری کر کے اپنے کام کو سچا ثابت کیا۔

متی، مرقس، لوقا اور یوحنا __ اِن چار اشخاص نے نۓ عہدنامے میں مسیحِ موعود کا حسب نسب، زندگی، کلام، موت اور جی اُٹھنے کا حال قلم بند کیا ہے۔ اُن کی تحریر کردہ کتابوں کو اناجیل (واحد، انجیل معنی خوش خبری) کہتے ہیں۔ اِس طرح اُنہوں نے دنیا کو چار الگ الگ گواہیاں پیش کی ہیں۔ خدا نے پطرس (ایک ماہی گیر)، یعقوب اور یہوداہ (یسوع کا نیم سگا بھائ) اور پولس (ایک عالم، پہلے وہ مسیحیوں کو ستایا کرتا تھا) کو بھی تحریک دی کہ اپنے لوگوں کے لۓ خدا کے موجودہ اور آئندہ کے لۓ شاندار اور حتمی ارادے اور مقصد کی تفصیل بیان کریں۔ مقدس یوحنا رسول نے بائبل مقدس کی آخری کتاب لکھی جس میں واقع ہونے سے پہلے دنیا کی تاریخ کی واضح تصویر پیش کر دی ہے اور بتا دیا ہے کہ خاتمہ کیسے ہو گا۔

مستعد گواہ

مجموعی طور پر خدا نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے کے دوران تقریباً چالیس آدمیوں کے وسیلے سے نوع انسان کے لۓ اپنا مکاشفہ لکھوایا۔ اِن گواہوں میں سے اکثر ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے تو بھی جو کچھ اُنہوں نے لکھا ایک دوسرے سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور حتمی پیغام ہے۔

جو ہستی زمان و مکان سے ماورا ہے، جو مخصوص اور مقررہ عمر کی زنجیروں سے بندھا ہوا نہیں، اُس کے سوا کون ہے جو اِس ثابت اور یکساں بیان کو آگے مستقل کر سکتا؟

” کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے “ (٢۔پطرس ١: ١ ٢)۔

صدیوں سے بہت سے لوگ نۓ عہدنامے کے مصنفین اور اُن کے پیغام کو غیر متعبر ثابت کرنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ خاص طور سے مقدس پولس رسول کے نوشتوں پر حملے کۓ جاتے ہیں۔ بعض لوگ تو ہمیں بھی جو بائبل مقدس پر ایمان رکھتے ہیں ” پَولُسی “ کہتے ہیں، اِس لۓ کہ ہم پاک کلام کی پوری کتاب کو مانتے ہیں جس میں وہ نوشتے بھی شامل ہیں جو الہام سے مقدس پولس پر ظاہر کۓ گۓ۔

مقدس پطرس رسول ہمیں ہدایت اور تاکید کرتا ہے کہ ہم مقدس پولس کے نوشتوں کو سنجیدگی سے قبول کریں۔ ” ہمارے پیارے بھائ پولس نے بھی اُس حکمت کے موافق جو اُسے عنایت ہوئ تمہیں یہی لکھا ہے اور اپنے سب خطوں میں اِن باتوں کا ذکر کیا ہے جن میں بعض باتیں ایسی ہیں جن کا سمجھںا مشکل ہے اور جاہل اور بے قیام لوگ اُن کے معنوں کو بھی اَور صحیفوں کی طرح کھینچ تان کر اپنے لۓ ہلاکت پیدا کرتے ہیں “ (٢۔پطرس ٣ : ١٥ ،١٦ )۔

جو کچھ مقدس پولس نے لکھا وہ سب کا سب نبیوں کے نوشتوں سے پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔ مقدس پولس نے خود بھی تصدیق کی ہے ” ۔۔۔ خدا کی مدد سے مَیں آج تک قائم ہوں اور چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دیتا ہوں اور اُن باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتا جن کی پیش گوئی نبیوں اور موسی' نے بھی کی ہے ۔۔۔ اے اگرپا بادشاہ کیا تُو نبیوں کا یقین کرتا ہے۔۔۔ “ (اعمال ٢٦ : ٢٢، ٢٧ )۔

معتبر یا غیر معتبر؟

کسی گواہ کے معتبر ہونے کی کسوٹی یہ نہیں کہ اُس شخص کی گواہی میں سچ کی مقدار کتنی ہے بلکہ یہ کہ ” تضاد بیانی “ کا فقدان کتنا ہے۔ اِس کی وضاحت ذیل کے لطیفہ سے ہوتی ہے:

ایک دن موسم بہت خوش گوار تھا۔ ہائ سکول کے چار لڑکے جماعت سے غیر حاضر رہنے کی آزمائش کا شکار ہو گۓ۔ اگلے دن اُنہوں نے اپنی اُستانی کو یہ وضاحت پیش کی کہ ہم اِس لۓ غیر حاضر رہے کیونکہ ہماری کار کا ٹائر پھٹ گیا تھا۔ اُنہیں تسلی ہو گئ کیونکہ اُستانی نے مسکراتے ہوۓ کہا کہ ” کوئ بات نہیں مگر کل تم ایک ضروری ٹیسٹ دینے سے رہ گۓ۔ خیر، بیٹھ جاؤ۔ کاغذ پنسل نکالو۔ مَیں ابھی ٹیسٹ لے لیتی ہوں۔ پہلا سوال ہے کون سا ٹائر پھٹ گیا تھا؟ “ لڑکوں کے متضاد جوابوں نے سارا پول کھول دیا۔

ان چار لڑکوں کی گواہی تو متضاد اور غیر معتبر تھی۔ اِس کے برعکس خدا کی گواہی متعبر ہے۔ بے شمار پشتوں کے عرصے میں درجنوں گواہوں اور لکھنے والوں کے وسیلہ سے ہمارے خالق نے اپنی ذات اور اپنا منصوبہ بے خطا استحکام اور تسلسل سے ظاہر کیا ہے۔

انسانوں کے متضاد مذاہب اور فلسفوں کے طوفانی سمندر میں خدا نے ہمیں مضبوط اور غیر متزلزل چٹان مہیا کی اور محفوظ رکھی ہے جس پر ہماری روحیں آرام اور سکون پاتی ہیں۔

یہ چٹان اُس کا کلام ہے۔

” ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔۔۔ اور جس طرح اُس اُمت میں جھوٹے نبی بھی تھے اُسی طرح تم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے۔۔۔ اور بہتیرے اُن کی شہوت پرستی کی پیروی کریں گے جن کے سبب سے راہِ حق کی بدنامی ہو گی اور وہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔۔۔ “ (٢۔پطرس ١: ١٩ _٢ :٣)۔

جھوٹے نبی

خدا کے کلام نے لالچی، مطلب پرست نبیوں اور اُستادوں کے خلاف خبردار کر دیا ہے۔ ” وہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔ “ بائبل مقدس ایسے کئ آدمیوں کا ذکر کرتی ہے جو دعوے کرتے تھے کہ ہم خدا کی طرف سے بولتے ہیں، حالانکہ اُن کا پیغام ” جھوٹ بولنے والی روح “ کی تحریک سے ہوتا تھا (١۔سلاطین ٢٢ : ٢٢ )۔

پاک کلام میں اسرائیلی قوم کی تاریخ کے ایک دَور کا ذکر ہے جب اُن میں ٨٥٠ نبی تھے لیکن سچا نبی صرف ایک ہی تھا __ ایلیاہ۔ جبکہ ٧٠٠٠ اسرائیلی واحد حقیقی خدا کے وفادار رہے مگر دوسرے لاکھوں لوگ مطلب پرست جھوٹے گواہوں کا یقین کرنا پسند کرتے تھے (١۔سلاطین باب ١٨ ؛ ١۔سلاطین ١٩ : ١٨ ؛ رومیوں ١١ : ١٤ )۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ” خدا اِن جھوٹے نبیوں کو کیوں موقع دیتا ہے جو گمراہ اور برگشتہ کرنے والے پیغاموں کی منادی کرتے ہیں؟ “ مقدس موسی' نے اِس سوال کا جواب توریت میں دیا ہے، ” اگر تیرے درمیان کوئ نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تجھ کو کسی نشان یا عجیب کام کی خبر دے اور وہ نشان یا عجیب بات جس کی اُس نے تجھ کو خبر دی وقوع میں آۓ اور وہ تجھ سے کہے کہ آ ہم اور معبودوں کی جن سے تُو واقف نہیں پیروی کر کے اُن کی پوجا کریں تو تُو ہرگز اُس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات کو نہ سننا کیونکہ خداوند تمہارا خدا تم کو آزماۓ گا تاکہ جان لے کہ تم خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے محبت رکھتے ہو یا نہیں “ (اِستثنا ١٣ : ١ ۔٣)۔

خدا کا ایک اَور وفادار نبی میکاہ لکھتا ہے:

” اُن نبیوں کے حق میں جو میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جو لقمہ پا کر سلامتی پکارتے ہیں لیکن اگر کوئی کھانے کو نہ دے تو اُس سے لڑنے کو تیار ہوتے ہیں ۔۔۔ “ (میکاہ ٣ : ٥ )۔

تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اِسی لۓ خداوند یسوع نے خبردار کیا کہ:

” تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔

جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اِسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے “ (متی ٧ : ١٣ ۔١٧ )۔

گذشتہ صدیوں میں بے شمار جھوٹے نبی اور اُستاد آۓ اور لد گۓ۔ اُن میں سے بعض نے ہزاروں اور لاکھوں کو متاثر کیا اور بعض کروڑوں کو اُس راہ پر لے چلے ” جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے۔ “

اگر آپ اُن ” بہتیروں “ میں شامل ہونے سے بچنا چاہتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے کسی جھوٹے نبی کے پیچھے ” ہلاکت “ کی طرف چل پڑتے ہیں تو اُس شخص کی تعلیم کو اِس چھلنی سے چھانیں، اِس کسوٹی پر پرکھیں۔

سچے نبی کا پیغام ہمیشہ مسلمہ پاک نوشتوں کے عین مطابق ہوتا ہے جو اُس سے پہلے آۓ۔

مندرجہ ذیل تین آدمیوں پر غور کریں جنہوں نے نبی ہونے کا دعوی' کیا۔ کیا وہ سچے نبی تھے یا جھوٹے نبی؟

مثال نمبر ١ :  مدفون مسیحِ موعود

تاریخ نے درجنوں ایسے افراد کے حالات قلم بند کۓ ہیں جنہوں نے یسوع مسیح کی زمینی زندگی کے بعد مسیحِ موعود ہونے کا دعوی' کیا۔ اُن میں سے ایک ابو عیسی' تھا۔

ابو عیسی' فارس (موجودہ ایران) کا باشندہ تھا۔ وہ ساتویں صدی کے اواخر میں منظرِ عام پر آیا۔ اُس کے پیروکار اُسے مسیحِ موعود مانتے تھے کیونکہ وہ کہتا تھا مَیں تمہیں کامیابی اور فتح دلاؤں گا۔ اگرچہ وہ اَن پڑھ تھا تو بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے کتابیں لکھیں۔ لیکن اُس کا پیغام پاک نوشتوں سے کچھ بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا، بلکہ اُن کی تردید کرتا تھا۔

ابوعیسی' اپنے پیروکاروں کو تعلیم دیتا تھا کہ دن میں سات بار نماز پڑھو، جنگ میں میرے ساتھ چلو۔ وہ اُن سے الہی محافظت کا وعدہ کرتا تھا۔ لیکن وہ جنگ میں مارا گیا اور دفن کیا گیا لیکن دوبارہ زندہ نہ ہوا۔ اُس کے پیروکاروں کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ مسیحِ موعود نہیں تھا۔

ابو عیسی' کے زمانے سے بہت پہلے خداوند یسوع نے اپنے سننے والوں کو خبردار کر دیا تھا:

” ۔۔۔ جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ دیکھو مَیں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے “ (متی ٢٤ : ٢٤ ، ٢٥ )۔

مثال نمبر ٢ : خود کش ” نبی “

جِم جونز نے ایک مذہب کی بنیاد ڈالی اور اُس کے پیروکاروں کو  ( People's Temple ) (معبدِ عوام) کا نام دیا۔ ١٩٧٠  عیسوی   کے اوائل میں جم سانفرانسسکو ، کیلیفورنیا میں مقبول عام مبلغ تھا۔ وہ اپنی اِس لیاقت اور استعداد کے لئے مشہور تھا کہ ہزاروں لوگوں کو اُبھار سکتا اور قائل کر سکتا تھا کہ سیاست میں اور غریبوں کی مدد کرنے کے منصوبوں میں حصہ لیں۔ وہ کہتا تھا کہ مَیں ” وہ نبی “ ہوں اور دعوی' کرتا تھا کہ مَیں سرطان کے مریضوں کو شفا دے سکتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں۔

بالآخر جم جونز نے اپنے پیروکاروں میں سے ایک ہزار سے زائد افراد کو قائل کر لیا کہ میرے ساتھ جنوبی امریکہ میں گوآنا کے صوبے میں واقع ” جونز ٹاؤن چلو “ ۔ ” جم نبی “ نے وعدہ کیا کہ اِس نئے معاشرے میں تمہیں امن، چین، سلامتی اور خوشی حاصل رہے گی۔ لیکن سب باتیں ایک بڑا جھوٹ ثابت ہوئیں۔

جم بھیڑ کے بھیس میں حریص بھیڑیا تھا۔ ١٨  نومبر ١٩٧٨ عیسوی کو سانفرانسسکو کرانیکل نے یہ رپورٹ شائع کی کہ جونز اپنے گلے کو حکم دیتا ہے کہ سنکھیا کھا کر مر جائیں۔ جو انکار کرتے تھے اُن کو یہ زہر زبردستی کھلایا جاتا تھا۔ بچوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر ہلاک کیا جاتا تھا۔ بالآخر جونز ٹاؤن سے ٩١٤ لاشیں ملیں۔ اُن میں خود جونز کی لاش بھی تھی۔

مثال نمبر ٣ :  غیر مصدقہ ” پاک کتاب “

جوزف سمتھ ١٨٠٥ عیسوی میں شمالی امریکہ میں پیدا ہوا۔ اُس کی پرورش غربت میں ہوئ۔ اُن کے معاشرے میں توہم پرستی انتہا کو پہنچی ہوئ تھی۔ وہ جوان ہوا تو لوگوں کو بتاتا تھا کہ مَیں نبی ہوں۔ اُس کا دعوی' تھا کہ رُویاؤں میں مورونی ( Moroni ) نام ایک فرشتے کے وسیلے سے خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

جوزف لکھتا ہے ” کسی طاقت نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر پورے طور سے حاوی ہو گئی، اور مجھ پر ایسا عجیب اثر کیا کہ میری زبان بند ہو گئی اور مَیں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے گرد گہری تاریکی نے گھیرا ڈال لیا اور تھوڑی دیر تک تو یہ محسوس ہوا کہ مَیں یک دم ہلاک ہو جاؤں گا۔ پھر روشنی کا ایک مینار میرے سر کے اوپر ظاہر ہوا۔ اُس کی چمک سورج سے بڑھ کر تھی۔ رفتہ رفتہ وہ نیچے آیا اور مجھ پر گر گیا۔ “ اِس کے بعد جوزف نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھ پر ایک نئی پاک کتاب منکشف کی ہے __ ” مارمن کی کتاب “ ۔ وہ اپنے پیروکاروں سے یہ بھی کہتا تھا کہ بائبل مقدس خدا نے دی ہے لیکن یہ نئی کتاب خدا کا تازہ ترین مکاشفہ ہے۔ جوزف لوگوں کو یہ تعلیم دیتا تھا کہ دعائیں پڑھو، روزے رکھو، خیرات دو، نیک اعمال کرو اور مجھے نبی مانو۔ وہ خود مطلب پرستی، شہوانی اور لذت کوشی کی زندگی بسر کرتا اور اِسے جائز قرار دیتا تھا۔

اگرچہ جوزف سمتھ کے ” رُویاؤں “ کی دیگر گواہوں نے تصدیق نہیں کی تھی، لیکن وہ دعوی' کرتا تھا کہ اُس کے تین گواہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اُس کی کتاب بائبل مقدس کی تردید کرتی اور اُسے باطل ٹھہراتی ہے اور تاریخ اور آثارِ قدیمہ کی شہادتوں کو بھی جھوٹا ٹھہراتی ہے۔ اِس کے باوجود لاکھوں لوگ مورمنیت کے معتقد ہیں۔ (دیکھئے صفحہ ٥٩ پر سائنس کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی)۔ مورمن فرقہ بہت مالدار ہے۔ وہ ساری دنیا میں اپنے مشنری بھیجتے ہیں اور دنیا میں روزانہ سینکڑوں لوگ مورمن ہو رہے ہیں (وہ ” آخری زمانے کے مقدسین “ بھی کہلاتے ہیں)۔ مورمن لوگ مخلص، سچے اور باوقار لوگ ہیں۔ لیکن ” جوزف نبی “ کے پیغام کا بائبل مقدس کے نبیوں کی تعلیم اور نوشتوں سے موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ دونوں پیغام ایک دوسرے سے انتہائ فرق ہیں۔ اِن میں کوئی مطابقت نہیں ۔

کوئ خودساختہ نبی کتنا بھی ذہین اور خوش گفتار کیوں نہ ہو تو بھی اُس کے غیر مصدقہ  اور متضاد پیغام سے اپنی ابدیت کو وابستہ کرنا اور داؤ پر لگانا عقل مندی نہیں ” کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔ “ (٢۔کرنتھیوں ١١ :١٤ )

بائبل مقدس تو تواریخی اور آثارِ قدیمہ کے شواہد کی بنا پر مصدقہ کتاب ہے، جبکہ مورمن کی کتاب کسی طرح بھی مصدقہ نہیں۔ ٹامس سٹوارٹ فرگوسن وہ پروفیسر ہے جس نے مورمنیت کی اپنی برگھم ینگ یونیورسٹی میں آثارِ قدیمہ کا شعبہ قائم کیا۔ اِس کا واحد مقصد و مدعا یہ تھا کہ ایسی شہادتیں ڈھونڈی جائیں جو اُن کی ” پاک کتاب “ کو مصدقہ اور مسلمہ ثابت کریں۔ ٢٥ سال کی مخلصانہ تحقیق کے بعد بھی اِس شعبے کو کچھ نہ ملا جس سے 'مورمن کی کتاب' میں مذکور نباتات (درخت، پودے، پھل)، حیوانات، علاقے کے زمینی خط و خال، جغرافیہ، قوموں، سکوں، شہروں اور قصبوں کی تصدیق ہوتی۔ چنانچہ فرگوسن اِس نتیجے پر پہنچا کہ مورمن کی کتاب کا جغرافیہ ” فرضی “ ہے ” افسانہ “ ہے۔

مصدقہ پیغام

اِس اُلجھی ہوئی اور پریشان حال دنیا میں بے شمار لوگوں نے ” خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا “ ہے (رومیوں ١: ٢٥ )۔ مگر واحد حقیقی خدا نے سچائی کو بے شمار مخالف آوازوں سے واضح طور پر نمایاں اور ممتاز کیا ہے۔

اپنے پیغام کو مصدقہ اور معتبر ثابت کرنے کے لۓ خدا نے ایک یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔ اِسے رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ اور کمال استواری اور رابطہ کے ساتھ کئی پشتوں میں اپنے بہت سے نبیوں پر منکشف کیا ہے۔ صرف وہی واحد بانی اور سرچشمہ جو زمان و مکان سے ماورا ہے ایسا الہام اور مکاشفہ عطا کر سکتا ہے۔       

 

 اِس تصویر میں یہ چالیس آدمی ان پیغمبروں کو  پیش کرتے ہیں جنہوں نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے میں خدا کے معتبر، مستقیم اور مصدقہ پیغام کو پاک صحائف میں قلم بند کیا۔

 

  اکیلا  آدمی اُن  پیغمبروں  کی  ںمائںدگی  کرتا ہے جو کہیں بعد میں غیر مصدقہ، اختلافی اور متصادم پیغام لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

گذشتہ چند ابواب میں ہم نے بہت سے ثبوتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ بائبل مقدس خدا کا کلام ہے۔ مگر یہ ثبوت اور دوسری شہادتیں کتنی ہی قابلِ یقین اور قائل کرنے والی کیوں نہ ہوں، لیکن خدا کے کلام کی سب سے زبردست تصدیق اور سند صرف اِسے سننے، سمجھنے اور قبول کرنے میں ہے۔

خدا کی کتاب کے مناظر جوں جوں سامنے آتے اور کھلتے ہیں تو اُس واحد ہستی کو ظاہر کرتے ہیں جو ہماری سوچنے اور تصور کرنے کی استعداد سے بے انتہا بلند اور ماورا ہے۔ یہ کتاب ہمارے خالق کی جلالی اور کامل طور سے متوازن ذات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کتاب انسانوں کو موت کے خوف سے آزاد کرتی اور ہمیشہ کی زندگی کی پکی اُمید دیتی ہے۔ یہ کتاب انسان کے کردار اور عمل کو بدل دیتی ہے اور واحد حقیقی خدا کے پاس لاتی ہے۔

کوئی انسان یا شیطان ایسا پیغام وضع نہیں کر سکتا۔ مگر اِس معاملے میں آپ میری بات پر نہ جائیں بلکہ

” سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو “ (١۔تھسلنیکیوں ٥ : ٢١ )۔

۷
بنیاد
” عقل مند آدمی نے ۔۔۔ چٹان پر اپنا گھر بنایا “ — (متی ٧: ٢٤)

یسوع ناصری نے پہاڑی وعظ کا اختتام اِن الفاظ سے کیا:

” پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے وہ اُس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور  آندھیاں چلیں اور اُس گھر پر ٹکریں لگیں، لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ اور جو کوئی یہ باتیں سنتا ہے اور اُن پر عمل نہیں کرتا وہ اُس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور اُس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا “ (متی ٧ : ٢٤ ۔٢٧)۔

جس گھر نے طوفانِ باد و باراں کا مقابلہ کیا اور قائم رہا اور جو گھر برباد ہو گیا اِن میں کیا فرق تھا؟

بنیاد کا!

عقل مند آدمی نے اپنا گھر ٹھوس چٹان پر بنایا۔ بے وقوف آدمی نے اپنا گھر بے قیام ریت پر بنایا۔ پاک صحائف میں خدا نے اپنے پیغام کے لئے چٹان جیسی ٹھوس بنیاد ڈالی ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہر شخص اس پیغام کو سمجھے اور اس کا یقین کرے۔ یہ بنیاد ہے توریت ۔

شروعات کی کتاب

موسی' کی توریت میں بائبل مقدس کی پہلی پانچ کتابیں شامل ہیں۔ پہلی

یا افتتاحی کتاب کا نام ہے ” پیدائش “ (کیتھولک ترجمہ ” تکوین “ ) جس کا مطلب ہے اصل، ابتدا، شروع یا وجود میں آنا۔ پیدائش کی کتاب ” شروعات “ کی کتاب ہے جس میں خدا نے کئ باتوں کی شروعات بیان کی ہیں مثلاً زمین، حیات، انسان، بیاہ، خاندان، گھرانے، قبیلے، معاشرے، قومیں اور زبانیں۔ پیدائش کی کتاب زندگی کے بہت بڑے بڑے رازوں کا جواب دیتی ہے۔ خدا کیسا یا کس کی مانند ہے؟ انسان دکھ کیوں اُٹھاتا ہے؟ کامل خدا ناقص انسانوں کو کیسے قبول کرتا ہے؟

اِن اہم سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جوابات کی تفصیل تو بائبل مقدس بعد میں دیتی ہے، مگر پیدائش کی کتاب میں خالق نے اپنے جوابات کی بنیاد رکھ دی ہے۔ بائبل مقدس کی پہلی کتاب بعد میں آنے والی ساری باتوں کی بنیاد ہے۔

خدا کا پیغام

بائبل مقدس میں سینکڑوں واقعات کا بیان ہے جو ہزاروں سال کے عرصے میں وقوع پذیر ہوۓ۔ یہ سارے بیان مل کر ایک ہی کہانی بن جاتے ہیں، جو سارے زمانوں کی بہترین کہانی ہے۔ اِسی کہانی میں خدا نے ایک بڑا پیغام دیا ہے __ بہترین خوش خبری جس کا کبھی اعلان کیا گیا ہو۔

خدا کی اِس ڈرامائی کہانی میں بہت سے نقطہ ہاۓ عروج ہیں۔ ہم پاک نوشتوں میں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو انجیل میں مرقوم ایک بلند چوٹی سامنے آتی ہے۔ ایک اَور حیرت انگیز نقطہ عروج بائبل مقدس کی آخری کتاب بعنوان ” مکاشفہ “ میں اچانک ہمارے سامنے آئے گا۔ ” مکاشفہ “ کا مطلب ہے ” نقاب اُٹھانا “ یا ” پردہ اُٹھانا “ یعنی چھپی ہوئی چیز کو ظاہر کرنا۔

اِس حقیقت کے باوجود کہ خدا نے اپنے منصوبے پر سے پردہ اُٹھا دیا ہے بہت سے لوگوں کے لۓ انسان کے بارے میں اُس کا منصوبہ ایک راز ہی ہے۔

اوّلین باتیں اوّل

بائبل مقدس میں ٦٦ کتابیں  ہیں __ ٣٩ پرانے عہدنامے میں اور ٢٧ نئے عہدنامے میں۔ تاریخ کے کسی بعد کے زمانے میں رومن کیتھولک فرقے نے (چند دوسرے پروٹسٹنٹ فرقوں کی طرح جو کلیسیا کی روایات کو خدا کے کلام سے بلند تر درجہ اور اعزاز دیتے ہیں) پرانے اور نئے عہد ناموں کے درمیان ١١ کتابوں کا اضافہ کیا۔ اِن کتابوں کو اپاکرفا ( Apocrypha )  یعنی غیر مستند یا مستند درجہ دوم مانا جاتا ہے۔ یہ کتابیں پرانے عہدنامے اور نئے عہدنامے کے درمیانی زمانے میں لکھی گئیں۔ اِن میں دلچسپ اور اہم تواریخی اور داستانوی معلومات مرقوم ہیں۔ عبرانی ایمان داروں نے انہیں کبھی بھی الہامی نوشتے تسلیم نہیں کیا۔ ١٩٤٧ عیسوی میں بحیرہ مردار سے جو طومار دریافت ہوئے اُن میں سے بیشتر طومار تفسیریں ہیں۔ مگر اِن میں بھی صرف پرانے عہدنامے کی ٣٩ کتابوں کی تفسیر کی گئی ہے۔ اِن غیرالہامی کتابوں کی کوئی تفسیر نہیں۔ مسیحِ موعود نے اپنی زمینی زندگی کے دوران کئی دفعہ پرانے عہدنامے سے اقتباس کیا، لیکن اِن غیر الہامی کتابوں سے کبھی کوئی اقتباس نہیں کیا۔ نئے عہدنامے میں اپاکرفا (غیرالہامی کتب) سے کوئی اقتباس نہیں کیا گیا۔ پرانے عہدنامے میں شامل ٣٩ کتابیں اُن نبیوں نے لکھیں جن سے خدا براہِ راست کلام کرتا تھا اور جن سے اپنے کلام کی تصدیق کرتا تھا ، اور ” نشانوں اور عجیب کاموں اور طرح طرح کے معجزوں اور روح القدس کی نعمتوں کے ذریعہ سے اُس (کلام) کی گواہی دیتا “ تھا (عبرانیوں ٢ : ٤)۔ اور جہاں تک نئے عہدنامے کا معاملہ ہے تو ایمان دار جو مسیح کی زندگی کے فوری بعد کے دنوں میں حیات تھے اُنہوں نے رسول کے اختیار  اور سند کو قبول کیا اور نئے عہدنامے کے نوشتوں کو پرانے عہدنامے کے نبیوں اور نوشتوں کے برابر قرار دیا اور مانا۔ مگر اپاکرفا کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ بائبل مقدس کے ١١٨٩ ابواب ہیں۔ ان میں سے ٥٠ باب پیدائش کی کتاب میں ہیں۔ پوری بائبل مقدس کو بے رُکے پڑھنے میں تین دن اور تین راتیں لگ سکتی ہیں۔

اپنے مجوزہ سفر کے دوران ہم بہت سے واقعات پر دھیان نہیں دیں گے۔ لیکن اُن کلاسک اور کلیدی واقعات پر ضرور غور کریں گے جو بنی نوع انسان کے لئے خدا کے حیرت ناک منصوبے کی ” بڑی تصویر “ بناتے ہیں۔ ہمارے سفر کا بہت زیادہ وقت بائبل مقدس کے پہلے چار ابواب کے مطالعہ میں گزرے گا، اِس لئے کہ اِن شروع کے اوراق میں اُن عظیم سچائیوں کا انکشاف ہوتا ہے جن کا ذکر خدا کے کلام میں دوسری جگہوں پر بھی آتا ہے۔

بائبل مقدس کے پہلے چار ابواب کی اہمیت اور معنویت کسی طرح بھی کم نہیں۔

ہم کسی بچے کو کہانی ستاتے ہیں تو کہاں سے شروع کرتے ہیں؟ کیا کہیں درمیان سے شروع کرتے ہیں اور کود کر اختتام پر آ جاتے ہیں اور آخر کے دوچار جملے سنا دیتے ہیں؟ نہیں، بلکہ ہم شروع سے شروع کرتے ہیں۔ مگر جب پاک صحائف یعنی بائبل مقدس کا معاملہ ہوتا ہے تو بہت سے قارئین صرف چیدہ چیدہ حصے پڑھتے ہیں۔ کیا یہی وجہ نہیں کہ اُن کے لئے خدا کی کہانی ایک راز بنی رہتی ہے کہ وہ خدا کی کتاب کے ابتدائی صفحات پر نظر نہیں ڈالتے؟ اِس لۓ کوئ تعجب کی بات نہیں کہ لوگ احمد سے مطابقت رکھتے ہیں جس نے اپنی ای میل میں لکھا ” یہ سارے گنہگاروں کا معاملہ میرے نزدیک بے معنی ہے “ (باب ١)

اگر ہم خدا کی کہانی کی شروعات سے ناواقف ہیں تو باقی کہانی کو سمجھنا اور اُس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ لیکن پہلے چند ابواب کو ایک دفعہ سمجھ لیا تو باقی باتیں بھی سمجھ سکیں گے اور سمجھیں گے تو دم بخود رہ جائیں گے۔

بیج کی مثال

گندم کے صرف ایک دانے کا تصور کریں۔ یہ کوئی بڑی چیز معلوم نہیں ہوتا، لیکن اِس معمولی نظر آنے والے بیج کے اندر وہ مکمل اور پیچیدہ اشارے اور قواعد اور قوت چھپی ہوئی ہے جو دانوں سے بھرا ہوا پورا، مکمل پودا پیدا کرنے کے لئے درکار ہے۔ بائبل مقدس اِس عمل کی وضاحت کرتی ہے۔

” زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے۔ پہلے پتی، پھر بالیں، پھر بالوں میں تیار دانے۔۔۔ “ (مرقس ٤: ٢٨ )۔

خدا نے پھل اور سبزیاں ایسے نہیں بنائیں کہ فوراً پک جائیں اور نہ اُس نے اپنی کہانی ایسے مرتب کی ہے کہ پورا پیغام یک دم ظاہر ہو جائے۔ خدا نے انسان کے بدن کو خوراک مہیا کرنے کے لئے پودوں کا نظام وضع کیا جو بتدریج بڑھتے ہیں۔ اِسی طرح انسان کو روحانی خوراک مہیا کرنے کے لئے سچائی کو تبدریج ظاہر کرنے کا طریقہ پسند کیا۔

” ۔۔۔ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون ہے۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں “ (یسعیاہ ٢٨: ١٠ )۔

پیدائش کی کتاب زمین کے ایک زرخیز قطعے کی مانند ہے جس میں خدا نے نفاست کے ساتھ سچائی کے ” بیج “ بو دیئے ہیں۔ اِن بیجوں سے اُس کی سچائی پھوٹتی ہے اور بائبل مقدس کی دوسری کتابوں میں بڑھتی اور کمال کو پہنچتی ہے اور دنیا کو تازگی اور زندگی پیش کرتی ہے۔

ایک جنین

جدید ٹیکنالوجی کا شکریہ۔ پہلے جو باتیں چھپی ہوئی اور راز تھیں اب دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل ہم ماں کے پیٹ میں نشو و نما پاتے ہوئے انسانی جنین کے واضح نقوش دیکھ سکتے ہیں۔ حیرت انگیز! ایک بارور انڈا ماں کے رحم میں آٹھ ہفتوں کی نشوو نما کے بعد مونگ پھلی کے برابر بچہ بن جاتا ہے۔ اُس کی آنکھیں، کان، ناک، منہ، بازو، ہاتھ ٹانگیں اور پاؤں سب کچھ مکمل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کی اُنگلیوں کے منفرد نشان بھی ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ پورے طور پر نہیں بنا ہوتا لیکن اُس کے سارے اعضا ہوتے ہیں۔

اِسی طرح ہم جانتے ہیں کہ خدا کی اپنے بارے میں اور انسانوں کے لئے اُس کے منصوبے کی ہر ایک ضروری اور بنیادی سچائی جنینی حالت میں پیدائش کی کتاب میں ملتی ہے۔ مگر ” خدا کا پوشیدہ مطلب “ __ مکاشفہ ١٠ :٧ __ دوسرے مکمل شدہ نوشتوں میں بڑھ کر کاملیت کو پہنچتا ہے۔

خدا کی ذات اور اُس کے مقاصد آج تک بہت سے لوگوں کے لئے ایک راز ہیں، حالانکہ اِس کی ضرورت نہیں اِس لئے کہ ” وہ بھید جو تمام زمانوں اور پُشتوں سے پوشیدہ رہا اب اُس کے مقدسوں پر ظاہر ہوا “ (کلسیوں ١: ٢٦ )۔

خدا دعوت دیتا ہے کہ ہم اُس کے بھید کو سمجھیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اِسے سمجھنا چاہیں۔

چیدہ چیدہ حصے

بائبل مقدس کسی حد تک ایک آڑاکٹا معما ( jigsaw puzzle

اِس کے بعض ٹکڑے کہاں اور کیسے فٹ ہوتے ہیں وہ تو واضح ہے، لیکن بعض ٹکڑے ایسے واضح نہیں ہیں۔ اُن کے لئے صبر اور استقلال کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح وقت صرف کر کے خدا کے کلام پر غور و خوض کرنے سے اُلجھنیں اور غلط فہمیاں دُور ہوں گی اور خدا کا مربوط اور یک رنگ منصوبہ نظر آۓگا۔

حال ہی میں مجھے لبنان کے ایک ہونہار صحافی سے خط و کتابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ تاحال ہماری ملاقات نہیں ہوئ مگر ہم دوست بن گئے ہیں۔ اُس نے اپنی پہلی ای میل میں مجھے لکھا:

ای میل

” مَیں یہ نہیں مانتا کہ قطعی سچائی کے بارے میں کسی حتمی فیصلے پر پہنچنا ممکن ہے۔ “

مَیں نے اُسے ترغیب دی اور تاکید کی کہ اپنے پہلے سے قائم کئے ہوئے نظریات اور تعصبات کو ایک طرف رکھ کر بائبل مقدس کا خود مطالعہ کرے۔ بائبل مقدس کو خود اپنے لئے بولنے دے۔ وہ ایسا کر رہا ہے جیسا کہ اُس کی اِس ای میل سے ثابت ہوتا ہے:

ای میل

” مَیں نے عربی زبان میں نیاعہدنامہ پڑھ لیا ہے اور اب پرانا عہدنامہ پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ پہلے مَیں نے صرف کہیں کہیں سے پڑھا تھا۔ مَیں نے جو بہت سے سوال پوچھے تھے اَب اُن کے جواب سامنے آ رہے ہیں۔ اِس دفعہ پڑھنے سے کیا فائدہ ہوا ہے؟ بائبل مقدس کے پیغام کے لۓ گہری عزت۔ اب مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ انسان کی زندگی کو بدلنے والی قوت ہے۔ یہ کوئی سخت اور بے لچک فرائض کا مجموعہ نہیں جو ادا تو کئے جاتے ہیں لیکن کسی کو بدلتے نہیں۔ مَیں نے دریافت کیا ہے کہ جو کچھ ہمارے ہاتھوں میں ہے اُس کے بارے میں یقین کرنے کا ایک طریقہ، ایک راستہ ہے۔ “

حال ہی میں اُس دوست نے اِس رائے کا اظہار کیا ہے:

ای میل

” مَیں نے وہ قدم اُٹھایا ہے جو مجھے بہت عرصہ پہلے اُٹھانا چاہئے تھا۔ مجھے احساس ہوا ہے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں  'مَیں نے بائبل پڑھی ہے۔' یہ ایسی کتاب ہے جسے مسلسل پڑھتے رہنا چاہئے۔ حیرت کی بات ہے کہ میرے بہت سے سوال اِس کتاب کے سایہ میں غائب ہو گئے ہیں۔ “

اُس آدمی کے لئے خدا کا پیغام اُبھرنا اور ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔

ہمارا عنقریب شروع ہونے والا سفر تاریخ کے عظیم معمے کے اہم ٹکڑوں کو اکٹھا کرے گا اور خدا کی حیرت انگیز کہانی اور پیغام صاف اور واضح ہو جائے گا۔

ہم خود بائبل مقدس کو ” مسلسل پڑھتے “ رہیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دوسرے ” ٹکڑے اور اجزا “ کہاں کہاں فٹ ہوتے ہیں۔

محبت نامے

ایک سپاہی کی کہانی سنائی جاتی ہے جسے ایک خاتون سے محبت تھی۔ اُسے اُس خاتون سے گہرا عشق تھا۔ مگر اُس خاتون کے اُس سپاہی کے بارے میں احساسات کیا تھے، یہ واضح نہیں۔ ایک وقت آیا اُس سپاہی کو کسی دُور کے ملک میں بھیج دیا گیا۔ وہ وفاداری کے ساتھ اُس خاتون کو خط لکھتا رہا، مگر وہ اُسے کبھی خط نہ لکھتی تھی۔

آخرکار اُس سپاہی کی واپسی کا دن آ گیا۔ واپسی پر وہ سیدھا اپنی محبوبہ کے ہاں پہنچا۔ وہ گھر پر ہی تھی اور اُس نے سپاہی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ وہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور کمرے میں ایک کونے میں پڑا گرد و غبار سے اَٹا ہوا ایک بکس اُس عورت کے دل کی اصل کیفیت کو ظاہر کر رہا تھا۔ وہ اُس سپاہی کے خطوط سے بھرا ہوا تھا __ اور ایک بھی خط کھلا نہ تھا!

آسمان سے زمین

پاک صحیفے خدا کی طرف سے آپ کے نام خطوط ہیں۔ اِن نوشتوں سے آسمان اور زمین کا خالق اور مالک آپ سے اپنا تعارف کرا رہا ہے۔ وہ اپنی محبت دکھا رہا ہے اور آپ کو بتا رہا ہے کہ آپ کس طرح اُس کے ابدی گھر میں خوشی اور جلال کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

ہم ایک ” خط “ کا اقتباس پیش کرتے ہیں جو خدا نے تقریباً ٢٧٠٠ سال پہلے اِس زمین کے باشندوں کو بھیجا:

” اے سب پیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔ آؤ مول لو اور کھاؤ۔ پاس آؤ! مَے اور دودھ بے زر اور قیمت خریدو۔ تم کس لئے اپنا پیسہ اُس چیز کے لئے جو روٹی نہیں اور اپنی محنت اُس چیز کے واسطے جو آسودہ نہیں کرتی خرچ کرتے ہو؟ تم غور سے میری سنو اور وہ چیز جو اچھی ہے کھاؤ اور تمہاری جان فربہی سے لذت اُٹھائے گی۔ کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ۔ سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اور مَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔ ۔۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں “ (یسعیاہ ٥٥ :١۔٣، ٩ ) ۔

بہت بہت پیار

” تمہارا خالق “

کیا آپ نے وہ خط کھولے ہیں جو اُس نے آپ کو بھیجے ہیں؟

کیا آپ نے وہ خط پڑھے ہیں؟

کیا آپ نے اُسے جواب دیا ہے؟ کوئی ردِ عمل دکھایا ہے؟

آیئے، سفر شروع کریں!

         
    حصہ دوم

سفر
بھید کی دریافت
 
  ۸ – خدا کس کی مانند ہے ۱۸ – خدا کا ازلی منصوبہ
  ۹ – بے مثال ہستی ۱۹ – قربانی کا قانون
  ۱۰ – خاص الخاص مخلوق ۲۰ – ایک عظیم قربانی
  ۱۱ – گناہ کا داخلہ ۲۱ – اَور بھی خون بہایا گیا
  ۱۲ – گناہ اور موت کا قانون ۲۲ – برہ
  ۱۳ – رحم اور عدل ۲۳ – پاک کلام کا پورا ہونا
  ۱۴ – لعنت ۲۴ – پوری ادائیگی
  ۱۵ – دُہری مشکل ۲۵ – موت کی شکست
  ۱۶ – عورت کی نسل ۲۶ – دین دار مگر خدا سے دُور
  ۱۷ – یہ کون ہے؟    
         
٨
خدا کس کی مانند ہے
 

ہمارا  سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے خدا کی کتاب شروع ہوتی ہے۔ تمام زمانوں کے سب سے بڑے اعلان کے ساتھ:

” خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا “ (پیدائش ١:١)۔

خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی کوئ کوشش نہیں کی گئی۔ وہ عیاں

بالذات ہے — خود ہی ظاہر ہے۔

اگر آپ کسی ویران اور سنسان ساحل پر چل رہے ہوں اور کسی جگہ آپ کو قدموں کے تازہ تازہ نشان نظر آئیں تو آپ جبلی طور پر یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ مَیں اکیلا نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ یکساں فاصلوں پر بنے ہوۓ قدموں کے نشان خود بخود پیدا نہیں ہوۓ یا اُنہوں نے خود کو پیدا نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اُنہیں ہوا اور پانی نے نہیں بنایا۔ یہ نقشِ پا کسی ” شخص “ نے بناۓ ہیں۔

آپ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔

اِس کے باوجود بہت سے لوگ حُجت کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ ریت جس پر پاؤں کے نشان بنے اور وہ انسان جس کے ذریعے سے یہ نشان بنے اُنہیں بھی کسی ” ہستی “ نے بنایا ہے۔ کسی خالق کے بغیر کائنات کی تخلیق کی وضاحت کرنے کی کوشش میں انسان نے بہت سے دقیق اور  پیچیدہ نظریے وضع کر لئے ہیں۔ بعض نے ” علل “ (واحد علت معنی سبب، وجہ) کا ایک طویل سلسلہ پیش کیا ہے جو اربوں کھربوں سال پیچھے یعنی ماضی میں پہنچتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس نقطے پر پہنچتے ہیں جسے وہ ” شروع “ (ابتدا) کہتے ہیں تو بھی اِس اصل سوال کا جواب دینے کے قریب نہیں پہنچتے کہ ” یہ کس نے کیا؟ “

بائبل مقدس کہتی ہے ” ۔۔۔ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔ اِس لئے کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا، کیونکہ اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں، یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں “ (رومیوں ١: ١٩ ، ٢٠ )۔

یہ دلیل اور منطق بالکل سادہ اور اساسی ہے — نقش کے لئے نقاش، صنعت کے لئے صانع — ایجاد کے لئے موجد کا ہونا لازم ہے۔

جس طرح یہ بات انسان کی بنائی ہوئ چیزوں مثلاً نقشِ پا، کاروں اور کمپیوٹروں کے لئے سچ ہے اُسی طرح میکانیہ یعنی پُرزہ کاری مثلاً پاؤں ، خلئے اور کہکہشاؤں کے لئے بھی سچ ہے۔ ننگی آنکھ سے دیکھیں یا خردبین یا دُور بین سے دیکھیں تو بھی کائنات کی اَن حل پیچیدگی اور پیچ در پیچ ترتیب اور بناوٹ تقاضا کرتی ہے کہ اِس کا خالق اور سنبھالنے والا کوئی ہے۔

جس طرح نقشِ پا کے لۓ نقش بنانے والا ہونا ضروری ہے اُسی طرح کائنات کے لئے کائنات کا بنانے والا ہونا ضروری ہے۔

علمِ کائنات کے ماہرین نے کائنات کی تاریخ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی ساری کوششیں ” مجموعی طور پر مشاہدات اور نظریات “ پر مبنی ہیں۔ اِن دنیاوی عالموں کے علم کی بنیاد مشاہدہ اور نظریہ ہے جبکہ بائبل مقدس کو ماننے والوں کے علم کی بنیاد مشاہدہ اور مکاشفہ ہے — وہ مکاشفہ جس پر الہی دستخط ثبت ہیں۔ اِس نکتے کا مطالعہ ہم نے زیرِ نظر کتاب ” ایک خدا، ایک پیغام “ کے باب ٥ اور ٦ میں کیا ہے۔ خدا نے اپنی سچائی کا انکشاف اِس طریقے سے کیا ہے کہ ہم جان سکتے ہیں کہ یہ سچ اور حقیقت ہے۔

” آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دست کاری دکھاتی ہے “ (زبور ١٩ : ١)۔

چنانچہ یہ کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ کس کی مانند ہے؟ ہم جان سکتے ہیں کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے۔

ازلی اور اَبدی

ہم نے پہلے ایک ای میل پڑھی تھی جس میں ایل میل بھیجنے والے نے طنزاً پوچھا ” خدا کو کس نے پیدا کیا؟ مَیں بھول گیا ہوں۔ “ جواب یہ ہے — کسی نے نہیں کیونکہ خدا ازلی ہے — ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یہ الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارا خالق کسی کی مانند نہیں — اور بس۔

” اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دنیا کو تُو نے بنایا ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے “ (زبور ٩٠ :٢ )۔

ماضی، حال اور مستقبل خدا کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ ” کچھ نہ “ ہیں۔ ” خداوند خدا قادرِ مطلق جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے “ (مکاشفہ ٤: ٨ )۔

وہ ازلی و ابدی اور بعید از فہم ہے۔

کوئ مخلوق ہستی خدا کے بارے میں سب کچھ ہرگز نہ جان سکے گی، ” کیونکہ وہ ۔۔۔ عالی اور بلند ہے اور ابدلآباد تک قائم ہے “ (یسعیاہ ٥٧ : ١٥ )۔

وہ لاتبدیل ہے ” پر تُو لاتبدیل ہے اور تیرے برس لاانتہا ہیں “ (زبور ١٠٢ :٢٧ )۔

بڑا اور عالی تر

ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ خدا کتنا بڑا ہے، وہ ہمارے تصور میں آ سکنے والی ہر چیز سے بڑا اور عالی تر ہے۔

اُس ازلی ہستی نے جیسے اپنے موجود ہونے یا اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ عیاں بالذات ہے، اُسی طرح وہ اپنے وجود کی وضاحت کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ذہن محدود ہیں اور ہم زمان و مکان اور مادہ سے ہٹ کر کسی چیز کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت یا استعداد ہی نہیں رکھتے۔

مجھے یاد ہے کہ لڑکپن میں مَیں آسمان کو غور سے دیکھا کرتا اور سوچا کرتا تھا کہ اگر مَیں اِتنی بلندیوں اور اِتنی دُور تک سفر کر سکوں تو بالآخر ایک چھت تک اور کائنات کی آخری حد تک پہنچ جاؤں گا۔ مَیں یہ سوچ اور سمجھ نہیں سکتا تھا کہ میرے تصور میں جو چھت ہے اُس سے آگے لامحدود خلا ہے!

بعض باتیں صرف اِس صورت میں سمجھ میں آ سکتی ہیں کہ جو کچھ خدا نے منکشف کر دیا ہے اُس کا یقین کریں، اُس پر ایمان رکھیں۔

خدا کے مسلمہ اور لاتبدیل کلام پر ایمان ہی اعلی' ترین حکمت اور عرفان کی کلید ہے۔

” ۔۔۔ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔۔۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہے “ (عبرانیوں ١١ : ٣ ، ٦)۔

جدید سائنس تصدیق کرتی ہے کہ ” جو کچھ نظر آتا ہے وہ ظاہری چیزوں سے بنا ہے “ ۔ علمِ طبیعیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ مادہ نادیدنی ایٹموں سے بنا ہے۔ یہ ایٹم الیکٹرونز سے بنا ہے جو ایک مرکزہ کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ مرکزہ پروٹونز اور نیوٹرونز  سے بنتا ہے، جو قوارکس ( quarks ) سے بنتے ہیں جو ۔۔۔ بنی نوع انسان نے بہت کچھ دریافت کر لیا ہے، تو بھی ہم بہت ہی تھوڑا علم رکھتے ہیں۔ دانا لوگ جانتے ہیں کہ انسان کی ذہنی استعداد کتنی محدود ہے۔

ایک بات ہے جسے سائنس نہ صحیح ثابت کر سکتی ہے نہ باطل — کہ ” عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ “ ہم یہ بات اپنی خداداد چھٹی حس ہی سے جان سکتے ہیں۔ اِس کی وجہ صاف ظاہر ہے:

” خدا انسان سے بڑا ہے “ (ایوب ٣٣ :١٢ )۔

اُس عظیم ہستی نے اپنے بارے میں اَور کیا کچھ منکشف کیا ہے؟

لامحدود — لااِنتہا

وہ قادرِ مطلق ہے۔ ” آہ اے خداوند خدا! دیکھ تُو نے اپنی عظیم  قدرت اور  اپنے بلند بازو سے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور تیرے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے “ (یرمیاہ ٣٢: ١٧ )۔ خالق اپنی تخلیق سے فائق ہوتا ہے۔ وہ ہمارے تصور سے پرے اور ماورا ہے۔

وہ عالمِ کل ہے۔ ” تُو میرا اُٹھنا بیٹھنا جانتا ہے۔ تُو میرے خیال کو دُور سے سمجھ لیتا ہے “ (زبور ١٣٩ : ٢)۔ وہ خالق ماضی، حال اور مستقبل کی ہر ایک بات جانتا ہے۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ عاقل نہیں بنتا۔ ” اُس کے فہم کی انتہا نہیں “ (زبور ١٤٧ : ٥)۔

وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ ” مَیں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ “ (زبور ١٣٩: ٧ )۔ وہ لامحدود بیک وقت آپ کے ساتھ بھی ہے اور میرے ساتھ بھی۔ اور جب وہ زمین پر انسانوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے تو اُسی لمحے آسمان پر فرشتوں کے ساتھ بھی بات کر رہا ہوتا ہے۔

وہ لامحدود — بے انتہا ہے۔

رُوح

اِس لامحدود ہستی کے بارے میں ایک اَور اہم معلومات بھی ہے۔

” خدا روح ہے “ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

خدا نادیدنی، لامحدود اور اپنی ذات میں روح ہے جو بیک وقت ساری جگہوں پر موجود ہے۔ اگرچہ اُسے جسم کی ضرورت نہیں مگر وہ خود مختار اور قادر ہے کہ جیسے چاہے اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ پاک صحائف میں کئی مواقع کا ذکر ہے جب خدا مردوں اور عورتوں پر نادر، بے مثال اور دیدنی طور پر ظاہر ہوا “ ۔۔۔ جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُوبرو ہو کر موسی' سے باتیں کرتا تھا “ (خروج ٣٣ : ١١)۔

خدا جو اعلی' ترین روح (پرماتما) ہے چاہتا ہے کہ میری تخلیق کردہ روحانی ہستیاں مجھے جانیں، مجھ پر بھروسا رکھیں اور میری پرستش کریں کیونکہ مَیں نے اُنہیں اِسی مقصد سے خلق کیا ہے۔

” ... باپ اپنے لۓ ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائ سے پرستش کریں “ (یوحنا ٤ :٢٣ ، ٢٤ )۔

روحوں کا باپ

خدا کا ایک صفاتی نام ” روحوں کا باپ “ ہے (عبرانیوں ١٢ :٩ )۔

زمین کو خلق کرنے سے پہلے خدا نے بے شمار اربوں کھربوں طاقتور، پرشکوہ اور عالی شان ہستیاں خلق کیں جن کو ” فرشتے “ کہا جاتا ہے تاکہ وہ اُس کے آسمانی مسکن میں اُس کے ساتھ رہیں۔ ” فرشتہ “ کا مطلب ہے ” قاصد “ یا ” خادم “ ۔ خدا کا مقصد تھا کہ محبت کرنے والی رعیت ہو جو ابدیت میں شریک ہو۔ اُس نے روحیں خلق کیں تاکہ وہ اُسے جانیں، اُس کی پرستش کریں، اُس کی فرماں برداری کریں، اُس کی خدمت کریں اور ہمیشہ تک اُس سے لطف اندوز ہوں۔

ایوب کی کتاب ٣٨ : ٦ ، ٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا نے زمین کو خلق کیا تو فرشتے دیکھتے تھے اور خوشی سے للکارتے تھے۔ ایوب شاعری کی کتاب ہے اِس میں فرشتوں کو ” صبح کے ستارے “ اور ” خدا کے بیٹے “ کہا گیا ہے۔ اِن دو تراکیب سے الگ الگ اور فرق فرق ہستیاں مراد نہیں۔ یہ دہرا بیان ” متوازیت یا تماثل “ کا نمونہ ہے جو عبرانی شاعری کی ایک خصوصیت ہے۔ (مزید دیکھئے ایوب ١: ٦؛ ٢ :١ )۔

” مَیں نے ۔۔۔ اُس تخت ۔۔۔ کے گردا گرد بہت سے فرشتوں کی آواز سنی جن کا شمار لاکھوں اور کروڑوں تھا “ (مکاشفہ ٥ : ١١ )۔

ابتدا ہی میں خدا نے اُتنے فرشتے خلق کئے جتنے وہ چاہتا تھا، اِس لئے کہ اُن میں نسل پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ فرشتے کسی لحاظ سے بھی خدا کے برابر نہیں البتہ اپنے خالق کے ساتھ چند مشابہات رکھتے ہیں۔ خدا نے اُنہیں جذبات، ارادہ اور اپنے (خدا کے) ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ اپنے خالق کی طرح فرشتے بھی انسانوں کو نظرنہیں آ سکتے، البتہ جب اُنہیں کسی مقصد کے تحت بھیجا جاتا ہے تو وہ دکھائی دیتے ہیں۔

بائبل مقدس کی ٦٦ میں سے آدھی سے زیادہ کتابیں فرشتوں کا ذکر کرتی ہیں۔ چند حوالے پیشِ خدمت ہیں: پیدائش ٣: ٢٥ ؛ ١٦ : ٧ ۔١١ ؛ ١٨ : ١؛ ١۔سلاطین ١٩ :٥۔٧ ؛ زبور ١٠٣ : ٢٠، ٢١ ؛ ١٠٤ :٤ ؛ دانی ایل ٦: ٢٢ ؛ عبرانیوں ١: ٤۔٧ ،١٤ ؛ ١٢ : ٢٢ ؛ متی ١: ٢٠ ؛ ٢ :١٣ ، ١٩ ، ٢٠ ؛ ٢٢ :٣٠ ؛ ٢٦ : ٥٣ ؛ لوقا باب ١ اور ٢؛ ٢،تھسلنیکیوں ١: ٧ ؛ مکاشفہ ٥: ١١ ؛ ١٨ : ١ ؛ ٢٢ : ٦۔ ١٦ (مکاشفہ کی کتاب میں لفظ ” فرشتہ “ ، فرشتے فرشتوں ٧٠ سے زیادہ بار آیا ہے)۔

خدا کی خلق کردہ روحانی ہستیوں کی بادشاہی میں صرف خدا ہی قائم بالذات، لامحدود، قادرِ مطلق، عالمِ کل اور بے پایاں روح ہے۔

سب کے اوپر

” ۔۔۔ایک ہی روح ہے ۔۔۔ ایک ہی خداوند ہے ۔۔۔ خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر ۔۔۔ ہے “ (افسیوں ٤: ٤۔٦ )۔

اگرچہ وہ ” ایک “ جو ” سب سے اوپر “ ہے زمان و مکان سے ماورا ہے، تاہم کائنات میں ایک حقیقی جگہ ہے جہاں وہ سکونت کرتا اور سلطنت کرتا ہے۔ ” خداوند نے اپنا تخت آسمان پر قائم کیا ہے اور اُس کی سلطنت سب پر مسلط ہے “ (زبور ١٠٣ : ١٩ )۔ خدا کی عظمت اور قُربت پر غور کرتے ہوئے سلیمان بادشاہ نے دعا میں اپنے خالق کے لئے یہ الفاظ کہے:

” ۔۔۔ کیا خدا فی الحقیقت زمین پر سکونت کرے گا؟ دیکھ، آسمان بلکہ آسمانوں کے آسمان میں بھی تُو سما نہیں سکتا “ (١۔سلاطین ٨: ٢٧ )۔

بائبل مقدس تین مختلف آسمانوں کا ذکر کرتی ہے۔ دو دیدنی ہیں، ایک دیدنی نہیں۔ ایک تو فضا یا فضائی آسمان ہے یعنی ہمارے سروں کے اوپر نیلا آسمان۔

ایک بین النجوم یا فضائے بسیط کا آسمان ہے یعنی وہ تاریک یا بے روشنی خلا جس میں خدا نے ستارے، سیارے اور کرے چھوڑ رکھے ہیں۔

اور پھر آسمانوں کا آسمان ہے۔ وہ روشن اور درخشاں کرہ جہاں خدا سکونت کرتا ہے۔ ہمارے خالق کا یہ آسمانی گھر اور فرشتوں کا علاقہ بلند ترین آسمان، تیسرا آسمان، باپ کا گھر، خدا کی سکونت گاہ، خدا کا مسکن، فردوس، بہشت (سورگ)، آسمان، آسمانوں کا آسمان بھی کہلاتا ہے (استثنا ١٠ : ١٤ ؛ ٢۔کرنتھیوں ١٢: ٢،٤؛ یوحنا ١٤ : ٢؛ زبور ٣٣ :١٣ ؛ ١١٥: ٣ ؛ ١۔سلاطین ٨: ٣٩ )۔

” خداوند آسمان پر سے دیکھتا ہے۔ سب بنی آدم پر اُس کی نگاہ ہے۔ اپنی سکونت گاہ سے وہ زمین کے سب باشندوں کو دیکھتا ہے۔ وہی ہے جو اُن سب کے دلوں کو بناتا اور اُن کے سب کاموں کا خیال رکھتا ہے “ (زبور ٣٣ : ١٣ ۔ ١٥ )۔

خدا واحد ہے۔

بائبل مقدس کی پہلی آیت تصدیق کرتی ہے کہ خدا صرف ایک ہی ہے۔ ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ پرانے اور نئے عہدنامے دونوں کے صحائف علی الاعلان کہتے ہیں ” خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے “ (استثنا ٦ : ٤ )۔ ” ایک ہی خدا ہے “ (رومیوں ٣: ١٣ )۔

خدا واحد ہے۔

اُس کا کوئی مقابل نہیں۔ اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔

علمِ الہیات کی اصطلاح میں اِسے وحدانیت یا توحید کہتے ہیں یعنی خدا کو صرف ایک ماننا۔ وحدانیت کثرت پرستی (شرک — ایک سے زیادہ خداؤں، کو ماننا) کے بالکل برعکس ہے۔ اور وحدت الوجود کے عقیدہ (یہ عقیدہ کہ ہر چیز خدا ہے اور خدا ہر چیز ہے۔ اِسے ” ہمہ اُوست “ کا عقیدہ بھی کہتے ہیں) کی بھی کامل ضد ہے۔ کثرت پرست، وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے خالق اور اُس کی مخلوق میں امتیاز کو دھندلا یا گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ اِس حقیقت کا انکار کرتے ہیں کہ خدا ایک شخصیت ہے اور ممتاز شخصی خصائص رکھتا ہے۔

خدا پیچیدہ ہے۔

” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یہ بنیادی اور تمہیدی سچائ ہے، لیکن یہ سادہ سچائی نہیں ہے۔ وہ لامحدود ہستی سادہ نہیں۔ وہ پیچیدہ ہے۔ اُس کی یکتائی (وحدت) کثیرالعباد یکتائی ہے۔

” خدا “ کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” الوہیم “ استعمال ہوا ہے۔ یہ اسم مذکر ہے اور صیغہ جمع ہے۔ (عبرانی زبان میں اِسم کے لئے واحد (ایک)، تثنیہ (صرف دو) اور جمع (تین یا زیادہ) کے صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ ” الوہیم “ گرامر کے لحاظ سے جمع اور معنی کے لحاظ سے واحد ہے۔

واحد حقیقی خدا اپنی صفات کے لحاظ سے پیچیدہ ہے۔ بائبل مقدس کے پہلے تین فقرے بیان کرتے ہیں:

خدا (اسم، جمع کا صیغہ) نے  ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا (فعل، گردان میں واحد) اور زمین ویران و سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی “ (پیدائش ١: ١۔٣ )۔

یوں خدا کی کتاب کا اِفتتاحی بیان ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو تخلیق کرنے کا کام کیسے سرانجام دیا۔ اُس نے یہ کام اپنی روح اور اپنے کلام سے کیا۔

پہلے تو خدا کی اپنی روح نیچے بھیجی گئی کہ خدا کے حکموں کی تعمیل کرے۔ جیسے فاختہ اپنے گھونسلے کے اوپر منڈلاتی ہے اُسی طرح نومولود دنیا کے اوپر ” خدا کی روح جنبش کرتی تھی۔ “ روح کے لئے عبرانی کا لفظ ” رُؤاخ “ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب روح، سانس یا توانائی ہے۔ ” خدا کی یہ روح “ توانائی دینے والی خدا کی اپنی حضوری ہے۔

” تُو اپنی روح (رُؤاخ) بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں “ (زبور ١٠٤ : ٣٠ )۔

 دوسرے، خدا بولا، خدا نے کلام کیا۔ پیدائش کے پہلے باب میں ” خدا نے کہا۔۔۔ “ دس دفعہ استعمال ہوا ہے۔ اور جب خدا بولا تو اُس نے جو حکم دیا وہ ہو گیا۔

” آسمان خداوند کے کلام سے اور اُس کا سارا لشکر اُس کے منہ کے دَم (رُؤاخ) سے بنا “ (زبور ٣٣ : ٦)۔

خدا نے دنیا کو اپنے کلام اور اپنی روح سے خلق کیا۔

وہ ابلاغ کرتا ہے۔

خدا نے ساری چیزیں بولنے (کلام کرنے) سے بنائیں۔ یہ حقیقت ہمیں خدا کے بارے میں کچھ اَور بھی سکھاتی ہے۔

وہ ابلاغ کرتا ہے یعنی بول کر اطلاع، معلومات، آگہی دیتا ہے۔

تخلیق سے پہلے ابلاغ تھا۔

” اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا “ (یوحنا ١:١ ۔٢)۔

” کلام “ یا ” کلمہ “ یونانی زبان کے لفظ ” لوگوس “ ( Logos ) کا ترجمہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے ” خیال یا سوچ کا اظہار “ ۔ بائبل مقدس میں ” لوگوس “ خدا کا ایک لقب (ممیزی نام) یا عرف (ذاتی نام) ہے۔ کلمہ کامل طور سے خدا کے ساتھ ایک ہے۔ ساری چیزیں کلمہ / کلام کے وسیلے سے خلق کی گئیں۔

خدا تو صرف سوچتا ہے کہ دنیا کا وجود ہو تو دَم بھر میں دنیا موجود ہو جاتی اور عمل کرنے لگتی، مگر خدا نے ایسے نہیں کیا۔ اُس نے اپنے خیالات، اپنی سوچ کا اظہار کیا۔ وہ بولا، اُس نے کلام کیا۔

کلمہ بول کر ترتیب وار چھے دنوں میں دنیا کو وجود میں لایا۔

کیا قادرِ مطلق کو یہ کام پورا کرنے کے لئے چھے دن درکار تھے؟

نہیں۔ اُس لازمان ہستی کو وقت کے کسی عرصے کی ضرورت نہ تھی۔ تاہم اُس نے ہماری دنیا اِسی طریقے سے خلق کی۔ خدا نے نہ صرف سات دنوں کا ہفتہ مقرر کیا بلکہ اُس نے اپنی ذات اور صفات کے بارے میں ہمیں بصیرت بھی عطا کی۔ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ نامعلوم خدا پر  نہ ایمان لایا جا سکتا ہے، نہ اُس کی فرماں برداری کی جا سکتی ہے اور نہ اُس کی پرستش کی جا سکتی ہے۔

خدا کے تخلیق کے چھے دنوں اور آرام کے ایک دن سے انسانوں کے لئے خدا کے ٹھہرائے ہوئے وقت کا ایک چکر مقرر ہو گیا جس پر آج بھی ساری دنیا میں عمل کیا جاتا ہے۔ دن، مہینے اور سال اجرامِ فلکی کے علم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن کے برعکس ” ہفتہ “ کا اِس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔

خدا نے تخلیق کے کوائف خود بیان کئے ہیں۔ آئیے، ہم اِن کوائف کو دیکھیں، اِن کی سنیں اور ان سے سیکھیں۔

پہلا دن — روشنی اور وقت — خدا پاک ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات اور شام ہوئ اور صبح ہوئی۔ سو پہلا دن ہوا “ (پیدائش ١: ٣ ۔ ٥ )۔

پہلے دن خدا روشنی کو تخلیق کے منظر عام پر لایا۔ اُس نے وقت (زمان) کو بھی قائم کیا اور زمین کو اپنی چوبیس گھنٹے کی گردش شروع کرائی۔ یہ فلکیاتی گھڑی ہے جو دن اور رات کو باقاعدہ رکھتی ہے۔ مگر خدا نے سورج، چاند اور ستاروں کا خلق کرنا چوتھے دن تک التوا میں رکھا۔ ایک وقت تھا جب سائنسدان اِصرار کے ساتھ کہتے تھے کہ سورج کے وجود سے پہلے وقت (زمان) کا وجود سائنسی لحاظ سے غلط ہے۔ مگر اب یہ بات نہیں رہی۔ جو سائنس دان تخلیق کے بارے میں بائبل مقدس کے بیان اور کوائف کو نہیں مانتے وہ بھی وثوق سے کہتے ہیں کہ زمین کے سورج کے بغیر اور اُس سے بے نیاز بھی روشنی موجود تھی۔

” عظیم دھماکا “ کے بے دلیل نظریے کے حامی یہ قیاسی نظریہ پیش کرتے ہیں کہ سورج اور زمین کے وجود میں آنے سے ٠٠٠، ٠٠٠ ، ٠٠٠ ، ٩ (نو ارب) سال پہلے روشنی موجود تھی۔

زمین کے نیر خلق کرنے (چوتھا دن) سے پہلے روشنی مہیا کرنے (پہلا دن) سے وہ خالق ثابت کر رہا تھا کہ مَیں — روحانی اور جسمانی — روشنی کا ازلی اور قائم بالذات سرچشمہ ہوں۔ اُس کے بغیر صرف تاریکی ہے۔

ہم پاک صحائف میں جوں جوں آگے بڑھیں گے تو روشنی کے مبدا سے لگاتار ملاقات ہوتی رہے گی۔ اِس کا نقطہ عروج فردوس میں ہو گا جہاں خدا کے لوگ ” چراغ اور سورج کی روشنی کے محتاج نہ ہوں گے کیونکہ خداوند خدا دن کو روشن کرے گا “ (مکاشفہ ٢٢ : ٥ )۔

اعلی' ترین دماغوں کے لئے بھی روشنی ایک معما اور راز ہے۔ علمِ طبیعیات کے ماہرین تھوڑا بہت یہ تو جانتے ہیں کہ روشنی کرتی کیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ ہے کیا! سائںس میں روشنی ایک ” مطلق “ (از خود موجود) چیز ہے۔ یہ ٠٠٠، ٠٠، ٣ (تین لاکھ) کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ البرٹ آئنسٹائین نے طبیعیات میں جب کلیہ² E=mc2 (توانائی= کمیت × روشنی کی رفتار کا مربع) دریافت کیا تو توانائی کا خوف ناک زمانہ شروع ہو گیا۔ روشنی اپنے ماحول سے بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ یہ بدبودار کوڑے کے ڈھیر پر بھی چمکتی ہے لیکن خود بالکل خالص رہتی ہے۔

روشنی تاریکی کے ساتھ ہم وجود نہیں ہو سکتی۔ روشنی تاریکی کو دُور کر دیتی ہے۔

خدا جو روشنی کا مبدا ہے، وہ قطعی مطلق یعنی قطعی واجب الوجود ہے۔ اُس کی درخشانی ایسی رعب دار اور ہیبت ناک ہے کہ کوئی ذی نفس برداشت نہیں کر سکتا تاوقت یہ کہ وہ اُس کی حضوری میں کھڑا ہونے کے لئے آراستہ نہ ہو۔

خدا پاک اور قدوس ہے۔

لفظ ” قدوس “ کا مطلب ہے علیحدہ کیا گیا یا ” اپنی نوع میں منفرد، خاص الخاص، نہایت پاک۔ خدا وہ ذات ہے کہ اُس کی مانند اَور کوئی نہیں۔ آسمان میں اُس کے جلالی تخت کے چاروں طرف کھڑے سرافیم (واحد سراف معنی فرشتہ— سرافیم اعلی' طبقہ کے فرشتے ہیں) لگاتار پکارتے رہتے ہیں “ قدوس، قدوس، قدوس رب الافواج ” (یسعیاہ ٦: ٣)۔ قدوسیت خدا کی واحد صفت ہے جو اہمیت یا زور دینے کے لئے بائبل مقدس میں تین تین کے مجموعے میں دہرائی گئی ہے۔ “ وہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی “ (١۔تیمتھیس ٦: ١٦ )۔

خدا بدی کے ساتھ ہم وجود نہیں ہو سکتا۔ اُس نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ صرف پاک اور راست باز ہستیاں ہی اُس کے ساتھ سکونت کر سکتی ہیں۔

” خدا نور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت (رفاقت) ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے “ (١۔یوحنا ١: ٥، ٦ )۔

تخلیق کا پہلا دن اعلان کرتا ہے کہ خدا پاک (قدوس) ہے۔

دوسرا دن — ہوا اور پانی — خدا قادرِ مطلق ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جدا ہو جائے ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اور خدا نے فضا کو آسمان کہا اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔ سو دوسرا دن ہوا “ (پیدائش ١: ٦ ۔٨ )۔

تخلیق کا دوسرا دن دو عناصر پر توجہ مرکوز کرتا ہے جن پر سارے ذی حیات اَجسام کا دار و مدار ہوتا تھا۔ یہ ہیں ہوا اور پانی۔

” فضا “ کے لئے عبرانی زبان کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، اُس سے مراد وہ نہایت وسیع اور بڑی محراب ہے جو  ہمارے سروں کے اوپر ہے۔ اِسی میں کرہ ہوا اور بادل رکھے گئے ہیں اور اِسی میں تارے اور ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا غور کریں آکسیجن، نائٹروجن، دوسری گیسوں، آبی ابخرات، کاربن ڈائ آکسائیڈ، اوزون وغیرہ کا کیسا متوازن مرکب ہے۔ اِس میں معمولی سی تبدیلی کر دیں تو ہم سب مر جائیں گے۔ خدا جانتا تھا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔

اُس کھربوں ٹن پانی کا تصور کریں جو ہماری فضا میں معلق ہے۔ ہوا اور پانی کے اِتنے صحیح مرکب کو تیار کرنے اور قائم رکھنے کے لئے کیسی حکمت اور قدرت درکار تھی — جو صرف بولنے سے عمل میں آئی!

” اُس نے فرمایا اور ہو گیا۔ اُس نے حکم دیا اور واقع ہوا۔ “ (زبور ٣٣: ٩)

تخلیق کے ہر  دن کی طرح دوسرا دن بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا خالق قادرِ مطلق ہے۔

تیسرا دن — زمین اور نباتات — خدا بھلا ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خشکی نظر آۓ اور ایسا ہی ہوا۔ اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جو پانی جمع ہو گیا تھا اُس کو سمندر، اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیچ دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہوا ۔۔۔ اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٩ ۔١٢ )۔

تیسرے دن خدا نے زمین اور سمندر کو الگ الگ کیا اور بول کر ہر قسم کی نباتات کو وجود بخشا۔ ” اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ “ اُس نے ہمارے کرہ ارض پر بالکل صحیح مقدار میں مائع پانی رکھا۔ اُس روز سے آج تک اُسے اِس میں کمی بیشی نہیں کرنی پڑی۔

اگلی دفعہ آپ پانی پئیں تو اپنے خالق سے کہیں ” شکریہ “ ۔ یہ پانی جس کا سائنسی فارمولا H2O دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن) ہے ہماری پیاس بجھاتا اور ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ اِس حقیقت کے علاوہ بھی پانی ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ پانی وہ واحد مائع ہے جو ٹھنڈ سے جمنے پر پھیلتا ہے۔ اِس طرح اِس کی کثافت کم ہو جاتی ہے اور تیر سکتا ہے۔ اگر پانی دوسرے مادے کی طرح عمل کرتا اور جم کر کثیف ہو جاتا تو سمندروں، بحیروں، جھیلوں، دریاؤں وغیرہ کی تہ میں جا بیٹھتا۔ اِس کا بہت بڑا حصہ دوبارہ نہ پگھلتا اور بالآخر ہمارا تازہ پانی ” مقفل “ ہو کر رہ جاتا۔ کیا خوب ہے کہ ہمارے خالق نے اِس کا بھی دھیان رکھا!

خدا نے ہر ایک پودے اور درخت کو ایسا بنایا کہ ” اپنی اپنی جنس کے موافق بیج رکھیں “ اور  مزید پودے اور درخت پیدا کریں۔ خدا نے یہ کھانے کی ساری اشیا کیوں بنائیں؟ کیونکہ ” اُس نے زمین بنائی اور تیار کی ۔۔۔ اور اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کیا “ (یسعیاہ ٤٥ : ١٨ )۔ ہمارے نظامِ شمسی میں زمین بالکل یکتا اور بے مثال ہے۔ یہ واحد کرہ ہے جو اِس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ یہاں زندگی قائم رہے اور پھلے پھولے۔

مثال کے طور پر اُن فوائد کے بارے میں سوچیں جو ہمیں پودوں، زندگی بخش آکسیجن، مقوی اور نشو و نما دینے والی سبزیوں اور نباتات، لذیذ پھلوں، تازگی بخش چھاؤں، کارآمد لکڑی، ضروری ادویات، خوش بودار پھولوں اور خوش نما مناظر سے حاصل ہوتے ہیں۔

خوراک کا معاملہ دیکھیں تو خدا ہمارے کھانے کے لئے صرف تھوڑی سی چیزیں بنا سکتا تھا مثلاً کیلا، دالیں اور چاول۔ ہم اِنہی پر زندہ رہ سکتے تھے۔ لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جانوروں کے چارے اور انسانوں کے کھانے کے لئے ہماری زمین پر بیس لاکھ سے زیادہ قسم کے پودے ہیں۔

پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں اپنی تخلیق کے بارے میں خدا سات بار اعلان کرتا ہے کہ ” اچھا “ ہے۔ سات کا عدد کاملیت کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کامل طور پر اچھی ہے۔

اِس لئے کہ وہ خود پورے اور کامل طور سے اچھا ہے:

” ۔۔۔وہ ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے “ (١۔تیمتھیُس ٦: ١٧ )۔

چوتھا دن — آسمانی اَنوار — خدا وفادار ہے

” اور خدا نے کہا کہ فلک پر نیر ہوں کہ دن کو رات سے الگ  کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے امتیاز کے لئے ہوں ۔۔۔ سو خدا نے دو بڑے نیر بناۓ۔ ایک نیر اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا “ (پیدائش ١: ١٤ ۔١٦ )۔

چوتھا دن ” ترتیب کے خدا “ ، ” نظام کے خدا “ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہی ہے ” جس نے دن کی روشنی کے لئے سورج کو مقرر کیا اور جس نے رات کی روشنی کے لئے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کیا “ (یرمیاہ ٣١ :٣٥ )۔ رات کے وقت ستاروں کا مقررہ اور  مستحکم نظام زمین اور سمندر کے مسافروں کو قابلِ اعتماد  نقشہ فراہم کرتا ہے۔ دن کے وقت سورج قابلِ اعتماد طریقہ سے دنوں اور سالوں کا حساب بتاتا ہے۔ چاند باقاعدگی سے مدو جزر اُٹھاتا ہے اور قمری مہینوں کو مرتب کرتا ہے۔

سورج اور ستاروں کی طرح زمین کا چاند بھی مسلسل اور مستقل گواہی دیتا ہے کہ جس ہستی نے مجھے بنایا ہے وہ قابل اعتماد، معتبر اور قابلِ انحصار ہے۔ خدا نے چاند کو ” آسمان کا سچا گواہ “ کہا ہے (زبور ٨٩ : ٣٧ )۔ زمین پر ہر جگہ سے کرہ قمر مستقل طور پر زمین کی طرف چہرہ کئے رہتا ہے۔ اپنی پُشت کبھی نہیں دکھاتا۔

چاند کی تاریک سطح کو سب سے پہلے تین انسانوں نے ٢٤ دسمبر ١٩٦٨ عیسوی کو دیکھا تھا جب خلائی جہاز اپالو ہشتم نے چاند کے گرد چکر لگایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلا بازوں نے اُس دن پیدائش کی کتاب کا پہلا باب پڑھا جو بین النجوم خلا سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔

یہ چاند نہایت صحت اور پابندی کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ چاند وفادار ہے کیونکہ اُس کو بنانے والی ہستی (خدا) وفادار ہے۔

چونکہ خدا وفادار ہے اِس لئے ایک بات ہے جو وہ نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی ذات کا انکار نہیں کر سکتا اور نہ اپنے قوانین کو نظر انداز کر سکتا ہے:  ” ۔۔۔ وہ وفادار رہے گا کیونکہ وہ آپ اپنا انکار نہیں کر سکتا “ (٢۔تیمتھیُس ٢: ١٣ )۔ ” خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں “ (عبرانیوں ٦: ١٨ )۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خدا اِتنا بڑا اور قادر ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات کے خلاف کام بھی کر سکتا ہے یا اپنی بات سے پھر سکتا ہے۔ خدا کے ” عظیم “ یا ” بڑا “ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں۔

متلون مزاجی خدا کی ذات و صفات کا حصہ نہیں — وفاداری اور استحکام ہے۔ سیاروں اور کہکشاؤں کے معین اور مستحکم نظام کی طرح ہمارا خالق بھی مستحکم اور معتبر ہے۔

آپ اُس پر بھروسا رکھ سکتے ہیں:

” ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے “ (یعقوب ١: ١٧ )۔

تخلیق کا چوتھا دن گواہی دیتا ہے کہ خدا وفادار ہے۔

پانچواں دن — مچھلیاں اور پرندے — خدا زندگی ہے

پانچویں دن خدا نے اپنی لامحدود حکمت اور قدرت سے ہر قسم کے جاندار خلق کئے کہ سمندر میں اور فضا میں بسیں۔ اُس نے اُنہیں آراستہ کیا یعنی صلاحیتیں عطا کیں کہ اپنے اپنے منفرد ماحول میں مہارت سے چلیں پھریں اور اُڑیں۔ پانی میں مچھلیوں کو گلپھڑے اور خاص قسم کے پَر، ہوا میں پرندوں کو ہلکی پھلکی ہڈیاں اور پَر عطا کئے۔

” اور خدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اوپر فضا میں اُڑیں۔ اور خدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پیدا ہوئے تھے اُن کی جنس کے موافق اور ہر قسم کے پرندوں کو اُن کی جنس کے موافق پیدا کیا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٢٠، ٢١ )۔

الفاظ پر غور کریں ” پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے .“ ” بکثرت “ کا مطلب ہے بہتات، افراط، شمار میں بہت زیادہ — خرد حیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ جوہڑ کے پانی کے ایک قطرے میں لاکھوں خردبینی جرثومے ہو سکتے ہیں۔ تاہم بڑے جانور بھی لاتعداد ہیں۔ سمندری جانوروں کے ناقابلِ یقین اژدحام میں سب سے بڑا جانور نیلی وہیل ہے۔ یہ نہایت ہی چھوٹے چھوٹے پودے اور جانور جو سمندر کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں کھاتی ہے۔

سمندر خدا کے زندہ معجزوں کا ایک بہت ہی بڑا مجموعہ یا انبار ہے۔

یہی بات آسمان کی وسعتوں میں اُڑنے والے قسم قسم کے حیرت انگیز   پرندوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔

یہاں بھی ان الفاظ پر غور کریں کہ ” اُن کی جنس کے موافق “ ۔ پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں یہ جملہ یا الفاظ کا مجموعہ دس بار دہرایا گیا ہے اور یوں ہر قسم کے جاندار کے اِستقرار یا قیام پذیر ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ زندگی کے سرچشمہ، زندگی کے بانی نے فیصلہ صادر کر دیا کہ ہر ایک پودا اور ہر ایک جاندار ” اپنی اپنی جنس کے موافق “ نسل پیدا کریں۔ انسانوں کا قیاسی نظریہ ارتقا فطرت کے اِس لاتبدیل قانون کی ضد ہے۔ اپنی اپنی قسم (جنس) کے اندر تبدلِ صورت، شکل و  صورت میں ترمیم اور ماحول کے ساتھ مطابقت پذیری ایسے عمل تو ہو سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی جاندار خدا کی مقرر کردہ اِن واضح حدود سے بڑھ کر ” ارتقا “ نہیں کر سکتا۔ فوسل (حیوانات اور نباتات کی وہ باقیات جو مرورِ زمانہ سے پتھر بن گئیں، یا اُن کے پتھرائے ہوئے نقوش) اِس حقیقت کے بولتے ہوئے گواہ ہیں۔

صرف خدا ہی اُس بے مثال توانائی کا پانی اور قائم رکھنے والا ہے جسے زندگی یا جان کہا جاتا ہے۔ اُس کے بغیر صرف موت ہے۔

” سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئ “ (یوحنا ١: ٣)۔

پانچویں دن کثرت سے خلق کئے گئے جاندار ہمیں سکھاتے ہیں کہ خدا زندگی ہے۔

چھٹا دن —جانور اور انسان — خدا محبت ہے

چھٹے دن کے آغاز میں خدا نے ہزاروں لاکھوں سحر آفریں اور دلکش چوپائے، رینگنے والے جاندار اور کیڑے مکوڑے پیدا کئے۔ 

” ۔۔۔اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جنس کے موافق بنایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٢٥ )۔

خدا نے اِن سب کو بنایا — بعض بڑے بعض چھوٹے — اور ہر ایک کو وہ جبلت اور علم عنایت کیا جو زندہ رہنے اور طبعی دنیا میں اپنا حصہ ڈالنے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے درکار تھا، اور ہر ایک کو اپنی جنس کے موافق اولاد پیدا کرنے اور اُس اولاد کی پرورش کرنے کی جبلت اور ادراک عطا کیا۔

جب خدا نے حیوانی دنیا پیدا کی تو سب کچھ ” اچھا تھا “ ۔ کوئی بدی، بُرائی، خوں ریزی ابھی اِس منظر میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ حیوانات اِس طرح بنائے گئے تھے کہ نباتاتی خوراک کھائیں۔ خدا نے کہا کہ ” ۔۔۔ زمین کے کُل جانوروں کے لئے اور ہوا کے کُل پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہے کُل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہوں ۔۔۔ “ (پیدائش ١: ٣٠ )۔ جاندار کے جاندار کو کھانے کا کوئی سلسلہ نہیں۔ دشمنی اور خوف کا وجود نہ تھا۔ خدا کی مہربانی اور شفقت ہر چیز  سے منعکس ہوتی تھی۔ شیر ببر برہ کے ساتھ گھاس چرتا تھا اور بلی اور پرندہ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے اور آپس کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ دنیا کامل امن و امان کا گہوارہ تھی۔

خدا حیوانات کو خلق کر چکا تو وقت آ گیا کہ وہ اپنا شہکار — مرد اور عورت خلق کرے۔ خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ بنی نوع انسان محبت کی ایک لازوال، شاندار اور مسرت سے بھری مملکت میں اُس کی جاں نثار اور مخلص رعایا ہوں۔

ہمارا خالق جو کچھ کرتا ہے اُس کے لئے وہ محبت نہیں، یعنی اُس کے کام محبت نہیں، وہ خود محبت ہے۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨)۔

خدا کے چھٹے دن کے تخلیقی کام اعلان کرتے ہیں کہ وہ محبت ہے۔

” ہم۔۔۔بنائیں “

چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے اُس نے انسانوں کے لئے خوبصورت دنیا بنائی تاکہ یہ انسان اُس کی محبت  کا مرکز ہوں اور وہ اُن سے محبت کرے۔ اور چھٹے ہی دن یہ بھی ہوا کہ

” ... پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔۔۔ “ (پیدائش ١: ٢٦ )۔

ذرا ٹھرئیے۔ ذرا رُکئے! کیا خدا نے واقعی کہا کہ ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں “ ؟

خدا تو ” ایک “ ہے پھر یہ ” ہم “ اور ” ہماری “ (اپنی) کیا ہیں؟

خدا یہ کس سے کہہ رہا تھا؟

۹
بے مثال ہستی
موسی نبی کہتا ہے ” خدا الہوں کا الہ، خداوندوں کا خداوند ہے۔ وہ بزرگوار اور قادر اور مہیب خدا ہے۔۔۔ “ (استثنا ۱٠ : ۱۷ )۔

خبردار ! اِس سفر کا اگلا مرحلہ مسافروں کو اُن کے آرام دہ علاقے سے باہر لے جائے گا۔ اُن کی عقل سمجھ کو زور لگا کر پھیلنا پڑے گا اور اُن کے دلوں کا امتحان ہو گا۔ مگر جو لوگ اِس حصے میں سے گزر جائیں گے وہ آگے آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے خوب تیار اور آراستہ ہو جائیں گے۔

خدا خدا ہے۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ عقیدہ اور ایمان رکھتے ہیں کہ ہم خدا کو جو کچھ تصور کر سکتے ہیں وہ اُس سے بہت بڑا ہے۔

ہمارے ایمان کے اخلاص کا امتحان ہونے کو ہے۔

چھٹے دن جب خدا حیوانات بنا چکا تو اُس نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں “ (پیدائش ١: ٢٦ )۔

اگلے باب میں ہم چند اُن طریقوں پر غور کریں گے جن سے پہلا انسان اور پہلی عورت اِس انداز سے بنائے گئے کہ خدا کی ذات اور شباہت کو منعکس کریں۔ لیکن اِس سے پہلے ایک اَور سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔

خدا تو ” ایک “ ہے، پھر اُس نے کیوں کہا ” ہم ۔۔۔ بنائیں “ ؟ اُس نے یہ کیوں نہ کہا کہ مَیں انسان کو (میری) اپنی صورت پر (میری) اپنی شبیہ پر بناؤں گا؟ خدا اپنے لئے ” ہم، ہمارا، ہمیں “ کیوں استعمال کرتا ہے؟

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ خدا جو ” ہم “ اور ” ہمیں“ استعمال کرتا ہے تو یہ ” شاہی عظمت و جلالت“ کا جمع صیغہ ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنے لئے ” ہم“ کہہ کر بات کرتا ہے۔ بے شک خدا کی شاہانہ قدرت، جلال، شان اور عظمت بے مثل ہے، مگر عبرانی زبان کی گرامر ” شاہی عظمت و جلال“ کی وضاحت کی کوئ ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتی۔

بعض دوسرے لوگ وثوق سے کہتے ہیں کہ جب خدا نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں“ تو وہ فرشتوں سے مخاطب تھا حالانکہ متن میں فرشتوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اور انسان فرشتوں کی صورت اور شبیہ پر بنایا بھی نہیں گیا۔

پاک کلام کو سیدھے سادے انداز میں پڑھنے اور اصل زبان (عبرانی) کی گرامر کو کھنگالنے سے جو بات واضح ہوتی ہے یہ ہے کہ ہمارے خالق نے پسند کیا کہ اپنا ذکر صیغہ جمع میں مگر واحد انداز میں کرے۔

صیغہ جمع — ... خدا نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں“ ۔

صیغہ واحد — ” ۔۔۔اور خدا نے انسان کو اپنی (واحد اسمِ ضمیر) صورت پر پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٦ ، ٢٧ )۔

خدا نے اپنے لئے ” ہم“ یا ” ہمیں“ استعمال کیا ہے۔ (بائبل مقدس میں اِس کی مزید مثالیں دیکھئے پیدائش ٣: ٢٢ ؛ ١١: ٧ ؛ یسعیاہ ٦: ٨ )۔

[نوٹ: قرآن شریف میں ” اللہ“ اپنے لئے مستقلاً ” ہم “ استعمال کرتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ” ایک خدا، ایک پیغام “ کے باب ٣ میں اقتباس کی گئی قرآنی آیات ملاحظہ کیجئے]۔

خدا کا اپنے آپ کو جمع اور واحد دونوں طرح سے بیان کرنا اُس کی ذات اور ہستی کے بالکل مطابق ہے۔

خدا کی یکتائی کی پیچیدگی اور تہوں کی ضخامت اور عظمت عام لوگوں کی ” ایک “ یا ” واحد “ کی تشریحات سے بہت آگے اور ماورا ہے۔ وہ ” لامحدود “ اور ” لاانتہا “ انسان کے خود ساختہ سانچے میں نہیں سما سکتا۔

خدا ، خدا ہے۔

” ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے “ (زبور ٩٠ : ٢)۔

خدا کی پیچیدہ / تہہ در تہہ وحدت

خدا کی کتاب ، بائبل مقدس کے ابتدائی الفاظ یہی ہیں:

” خدا (الوہیم، مذکر اسم۔ جمع کا صیغہ) نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ “ ( اردو ترجمے سے قطع نظر، اصل زبان میں گردان کے مطابق فعل ” پیدا کیا “ واحد ہے۔)۔۔۔ ” اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی “ (پیدائش ١:١ ۔٣ )۔

پیدائش کی کتاب کے افتتاحی حصے میں خدا کے واحد فی التثلیث ہونے کی وضاحت موجود نہیں۔ لیکن جس انداز سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اُن تفہیمات (واضح معانی) کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہیں جو بائبل مقدس میں بعد میں سامنے آتی ہیں۔ بائبل مقدس بالکل صفائی سے بیان کرتی ہے کہ ذاتِ الہی کے تینوں اقانیم نے تخلیق کا کام کیا۔

خدا نے ساری چیزیں اپنے کلام اور اپنی روح کے وسیلے سے خلق کیں۔

” آسمان خداوند کے کلام سے اور اُس کا سارا لشکر اُس کے منہ کے دم سے بنا “ (زبور ٣٣: ٦)۔

خدا کا کلام

جو لوگ اپنے پیچیدہ خالق کے بارے میں جانںا اور سیکھنا چاہتے ہیں اُن سب کے لئے بائبل مقدس نے کافی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر مقدس یوحنا کی معرفت انجیل کے ابتدائی الفاظ یوں ہیں کہ

” ابتدا میں کلام تھا
اور کلام خدا کے ساتھ تھا
اور کلام خدا تھا۔
یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔
سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں۔۔۔ “
(یوحنا ١: ١۔٣)۔

جیسا کہ ہم نے گذشتہ باب میں دیکھا ” کلام “ یا ” کلمہ “ خدا کے باطنی خیالات کا خارجی ظہور ہے۔ جیسے آپ اپنے خیالات اور الفاظ کے ساتھ ایک ہیں، اُسی طرح خدا اپنے کلام /کلمہ کے ساتھ ” ایک “ ہے۔ کلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ” خدا کے ساتھ “ (اُس سے ممیز) اور ” خدا “ (اُس کے ساتھ ایک) ہے۔

یہ دیکھنے سے بھی نکتہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ” کلام “ کا ذکر کرنے کے لئے شخصی یا ذاتی اسمِ ضمیر ” وہ “ اور ” اُس “ استعمال کئے گئے ہیں۔

نوٹ: اردو زبان میں اَسمائے ضمیر کے استعمال میں یہ تخصیص بسا اوقات واضح نہیں ہوتی۔

خدا کا / کی روح

جیسے خدا نے اپنے کلام کا بیان شخصی انداز میں کیا ہے اُسی طرح وہ اپنے روح کا اظہار بھی شخصی انداز سے کرتا ہے۔

” تُو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رُوۓ زمین کو بنا دیتا ہے “ (زبور ١٠٤ : ٣٠ )۔

” اُس کے دم (روح) سے آسمان آراستہ ہوتا ہے “ (ایوب ٢٦ : ١٣ )۔

” مَیں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ “ (زبور ١٣٩ : ٧)۔

” روح القدس ۔۔۔ تمہیں سب باتیں سکھائے گا “ (یوحنا ١٤ : ٢٦ )۔

(نوٹ: بائبل مقدس کے نئے عہدنامے کے اردو ترجمے میں یہ اہتمام رکھا گیا ہے کہ جہاں ” روح “ سے مراد ” روح القدس “ ہے وہاں اِسے مذکر استعمال کیا گیا ہے — مترجم)۔

خدا کے روح کا ذکر کرتے ہوئے بائبل مقدس شخصی اسمائے ضمیر استعمال کرتی ہے۔ لیکن اردو ترجمے میں بسا اوقات یہ تخصیص واضح نہیں ہوتی کیونکہ جاندار اور بے جان دونوں کے لئے ایک سے لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی یہ، وہ، اِس کا، وغیرہ۔ کلام (جس نے بول کر خلق کیا) اور روح القدس (جس نے کلام کے حکموں کی تعمیل کی) ازلی و ابدی ممیز روح ہے، تاہم خدا کے ساتھ ” ایک “ ہے۔

خدا بزرگ / عظیم ہے۔

” ۔۔۔تُو اے خداوند خدا بزرگ ہے کیونکہ جیسا ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے اُس کے مطابق کوئی تیری مانند نہیں اور تیرے سوا کوئی خدا نہیں “ (٢۔سموئیل ٧: ٢٢ )۔

یہ الفاظ مقدس داؤد نبی کی ایک دعا کا حصہ ہے۔ اکثر توحید پرستوں کو مندرجہ بالا بیان سے اتفاق کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ بات تو فوراً مان لیتے ہیں کہ " خدا بزرگ / عظیم ہے! خدا ہی خدا ہے، کوئی اُس کی مانند نہیں! لیکن وہ خدا کے اُس مکاشفے کو فوراً رد کر دیتے ہیں جو اُس نے اپنی ذات میں کثرت فی التوحید کے بارے میں دیا ہے۔

چونکہ " کوئی اُس کی مانند نہیں “ تو کیا ہمیں حیران ہونا چاہئے کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس سے بھی زیادہ بڑا اور پیچیدہ ظاہر کیا ہے جتنا ہم فطری طور پر تصور کر سکتے ہیں؟ خدا ترغیب دیتا ہے کہ ہم اُس کے حق میں صحیح تصورات سوچیں۔

” تُو نے گمان کیا کہ مَیں بالکل تجھ ہی سا ہوں، لیکن مَیں تجھے ملامت کروں گا “ (زبور ٥٠ : ٢١ )۔

خدا واحد ہے۔

راسخ العقیدہ یہودی ایک دعا کا ورد کرتے ہیں جسے عبرانی زبان میں ” شما “ کہتے ہیں۔ اِس کے الفاظ ہیں ” ادونائی الوہینو، ادونائی اکد “ (  Adonai   eloheynu,  Adonai  echad  ) جس کا مطلب ہے ” خداوند ہمارا خدا، خداوند ایک (ہی) ہے۔ “ یہ دعا تورات میں سے ہے:

” سُن اے اسرائیل! خداوند (یہوہ) ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے “ (استثنا ٦: ٤)۔

خدا کی یکتائی کو بیان کرنے کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” اِکد “ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ اکثر کثیرالعناصر وحدت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلاً انگوروں کا گچھا۔ بائبل مقدس میں دوسری جگہ جہاں کماندار اور اُس کے سپاہیوں کا ذکر آتا ہے وہاں 'اکد' کا ترجمہ ” ایک دستہ “ کیا گیا ہے۔ جب مقدس داؤد اسرائیل کا بادشاہ بنا تو بائبل مقدس کہتی ہے ” ۔۔۔ اور بنی بنیمین ابنیر کے پیچھے اکٹھے ہوئے اور ایک دستہ (اکد) بن گئے “ (٢۔سموئیل ٢: ٢٥ )۔ یہی لفظ اِس حقیقت کا بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا کہ ” خداوند ایک ہے۔ “ پھر یہی لفظ سامنے آتا ہے جب پہلا آدمی اور اُس کی بیوی ” ایک تن “ ہو گئے (پیدائش ٢: ٢٤ )۔ دوسری آیات جن میں عبرانی زبان کا یہی لفظ استعمال ہوا اُنہیں دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اپنی وحدت بیان کرنے کے لئے خدا جو لفظ استعمال کرتا ہے اُس میں ایک سے زیادہ ہستیاں (وجود) شامل ہو سکتے ہیں۔

پرانے عہدنامے میں بیسیوں آیات ہیں جو خدا کی وحدت فی التکثیر کا بیان اور توثیق کرتی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے:

” ۔۔۔جس وقت سے کہ وہ تھا مَیں وہیں تھا اور اب خداوند خدا نے اور اُس کی روح نے مجھ کو بھیجا ہے “ (یسعیاہ ٤٨ : ١٦ )۔

پرانے عہدنامے کی دوسری آیات جو خدا کی پیچیدہ یا تہہ در تہہ وحدت کی تصدیق کرتی ہیں یہ ہیں: پیدائش ١٧ : ١۔٣ ؛ ١٨ : ١۔١٣ ۔ ابرہام پر خدا جسمانی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ رُویا یا خواب نہیں تھے بلکہ رُوبرو ملاقاتیں تھیں: پیدائش ٣٥ : ٩ ۔١٥ ؛ خروج ٣: ١۔٦؛ ٢:٦، ٣ ؛ ٢٤ : ٩ ۔١١ ؛ ٣٣: ١٠ ، ١١؛ خروج ٣٣ :١١ کا موازنہ ٣٣: ٢٠ سے کریں۔ موسی' ذاتِ خدا کے ایک اقنوم (بیٹے) سے روبرو باتیں کیا کرتا تھا۔ لیکن اُسے ذاتِ خدا کے دوسرے اقںوم (باپ) کا چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ ملی۔ پیچیدہ اور ادق بات ہے؟ جی ہاں۔ خدا، خدا ہے، دیکھئے یوحنا ١: ١۔ ١٨ ۔ ہم پرانے عہدنامے کی مزید آیات پیش کرتے ہیں جن کو خدا کی وحدت فی التکثیر کے عقیدے اور تصور کے بغیر نہیں سمجھ سکتے، زبور ٢؛ ١٠١ :١ (موازنہ کریں متی ٢٢ : ٤١ ۔ ٤٦ کے ساتھ)، امثال ٣٠ :٤ ؛ یسعیاہ ٤٣ :١٠ ، ١١ (یوحنا ١٢: ٤١ سے موازنہ کریں)؛ یسعیاہ ٢٦ : ٣، ٤ ؛ ٤٠ : ٣۔ ١١ ؛ ٤٣: ١٠ ۔ ١٣ (یسعیاہ ٧ : ١٤ ؛ ٧:٦، ٩)؛ یسعیاہ ٤٨ :١٦ ؛ ٦٣ : ١۔٧ ؛ یرمیاہ ٢٣ : ٥، ٦ ؛ دانی ایل ٧: ١٣، ١٤ ؛ ہوسیع ١٢ : ٣۔٥ ؛ میکاہ ٣: ١ ۔٢ ۔۔۔وغیرہ۔

یہ خداوند خدا کون ہے؟

اُس کی روح کون ہے؟

یہ ” مَیں “ اور ” مجھ “ کون ہے جسے خدا اور اُس کی روح نے بھیجا ہے؟ خدا کے کلام کو پڑھتے اور اُس پر غور کرتے ہوۓ آگے بڑھیں گے تو اِن سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

سہ عنصری اکائیاں

ہماری اردو زبان کا لفظ ” یکتا، یکتائ “ فارسی کے لفظ ” یک “ سے مشتق ہیں جس کا مطلب ہے ” ایک۔ “ اِسی طری ” واحد “ ، واحدیت، اور ” وحدانیت “ عربی زبان کے لفظ ہیں جن کا مادہ ” احد “ (اکائی، ایک) ہے۔

بہت سے لوگ خدا کے بارے میں " ازلی تثلیث فی التوحید (توحید فی التثلیث) کے نظریے یا تصور کو رد کرتے ہیں، لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں پائی جانے والی بے شمار " ایک میں تین " اکائیوں کا انکار کرنے یا انہیں رد کرنے اور باطل قرار دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

مثال کے طور پر وقت یا زمان ایک قسم کی سہ عنصری اکائی ہے جو ماضی، حال اور مستقبل پر مشتمل ہے۔ دوسری ایسی اکائی مکان (جگہ) ہے جو ابعادِ ثلاثہ یعنی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی پر مشتمل ہے۔

انسان، روح، جان اور جسم سے مل کر بنا ہے۔

ایک ہی آدمی باپ اور بیٹا ہو سکتا ہے۔

سورج بھی ایک سہ عنصری اکائی ہے:

آسمانی جسم — سورج

اُس کا نور، اُس کی روشنی — سورج

اُس کی دھوپ یا حرارت — سورج

کیا یہ تین سورج ہیں؟ سورج تین نہیں بلکہ ایک ہے۔ سورج کے ایک ہونے اور سہ عنصری اکائی میں کوئی فرق کوئی تضاد نہیں۔ یہی حال خدا کا ہے۔ جس طرح روشنی اور حرارت سورج سے صادر ہوتی ہیں، اُسی طرح خدا کا کلام اور خدا کا روح خدا سے صادر ہیں۔ تو بھی وہ ایک ہیں جیسے سورج ایک ہے۔

یہ سچ ہے کہ اِس سلسلے میں ساری دنیوی اور زمینی مثالیں ادھوری اور ناقص ہیں اور واحد حقیقی خدا کی پیچیدہ ذات کی وضاحت نہیں کر سکتیں۔ خدا سورج کی مانند نہیں ہے۔ وہ تو ایک شخصی، محبت کرنے والی ہستی ہے جسے انسان جان سکتا ہے۔ تو بھی یہ مثالیں ہمیں ایک مشترکہ بنیاد کی طرف لا سکتی ہیں اِس لئے کہ سارے لوگ متفق ہیں کہ کائنات میں سہ عنصری اکائیاں موجود ہیں اور ایک اکثریت متفق ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے ماورا ہے۔

” ... گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے “ (عبرانیوں ٣:٣، ٤ )۔

اگر خدا کی کائنات پیچیدہ اکائیوں سے بھری پڑی ہے تو کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ خود خدا ایک پیچیدہ اکائی ہے؟ جب ہم اپنے سارے سائنسی علم کے ساتھ بھی دنیا کی تشریح اور وضاحت نہیں کر سکتے جس میں ہم رہتے اور موجود ہیں تو اُس ہستی کی کیا وضاحت اور تشریح کریں گے جس نے اِسے خلق کیا ہے؟
خدا، خدا ہے۔

” کیا تُو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادرِ مطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟ اُس کی ناپ زمین سے لمبی اور سمندر سے چوڑی ہے “ (ایوب ١١: ٧۔٩ )۔

" ہم " خدا کے بھید “ کی تلاش کریں گے، اُس کا کھوج لگائیں گے تو ہمیں یہ اعزاز حاصل ہو گا کہ اُس کی ازلی و ابدی ذات کی ایک نہایت عجیب اور حیرت افزا صفت کا علم اور تجربہ حاصل ہو گا۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨ )۔

خدا نے کس سے محبت رکھی

خدا کی محبت ایک ناقابلِ فہم گہری کیفیت ہے جو اُس کے باپ جیسے دل سے جاری ہوتی ہے اور عملی طریقوں سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے اُس کی محبت اُسے پانے والے (محبوب) کے حسن و جمال سے مشروط نہیں ہے۔

” دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے “ (١۔یوحنا ١:٣ )۔

یہ نکتہ قابلِ غور ہے۔ محبت کو کوئی چاہئے جو اُسے پاۓ — مختصراً محبت کو محبوب چاہئے۔ کوئی بھی صرف یہ نہیں کہتا کہ ” مَیں محبت کرتا ہوں “ بلکہ یہ کہتا ہے کہ ” مَیں اپنی / اپنے فلاں (بیوی، بچوں، پڑوسی۔۔۔ علی' ہذالقیاس) سے محبت کرتا ہوں۔ “
محبت مفعول کا تقاضا کرتی ہے۔

خدا نے خاص جاندار ہستیاں بنائیں تاکہ اُن سے محبت کر سکے۔ لیکن اُن کو پیدا کرنے سے پہلے وہ کس سے محبت رکھتا تھا؟ کیا اُسے فرشتوں اور انسانوں کو خلق کرنے کی ضرورت تھی؟ نہیں، ہمارا خالق بے نیاز اور نامحتاج ہے۔ اُس نے روحانی ہستیاں اور انسان خلق کۓ اِس لئے نہیں کہ اُسے اِن کی ضرورت تھی بلکہ اِس لئے کہ وہ انہیں چاہتا تھا۔ یہ فرق بہت اہم ہے۔

ہم نے پہلے سیکھا ہے کہ خدا بولتا، کلام کرتا ہے۔

بولنا یا کلام کرنا اُسی صورت میں بامعنی یا بامقصد ہو سکتا ہے کہ کوئی رشتہ یا تعلق موجود ہو۔ فرشتوں اور انسانوں کو خلق کرنے سے پہلے خدا کس سے کلام کرتا تھا؟ کیا اُسے کوئی دوسری ہستیاں پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ کوئی ہو جو اُس کی باتیں سمجھ سکے؟ نہیں۔ خدا کی ساری ” ضروریات “ اُس کی ذات میں پوری ہو جاتی ہیں۔ اُسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ خدا نامحتاج اور مطمئن بالذات ہے۔ لیکن اُس کی ذات میں شامل ہے کہ وہ بولے اور کوئی اُس سے بولے، وہ محبت کرے اور کوئی اُس سے محبت کرے۔

اِس طرح ہم ایک اَور سچائی کی طرف بڑھتے ہیں — خدا تعلقات کا خدا ہے۔

محبت اور گفتگو صرف اُسی صورت میں بامقصد اور بامعنی ہو سکتے ہیں جب کوئی یگانگت یا رشتہ ہو۔ دوسری ہستیوں کو پیدا کرنے سے پہلے خدا کس کے ساتھ یگانگت رکھتا اور لطف اندوز ہوتا تھا؟ اِس کا جواب خدا کی پیچیدہ وحدت میں وجود ہے۔

فرشتوں یا انساںوں کو خلق کرنے سے پہلے ابدیت میں ہمارے تعلقات کا خدا خود اپنے آپ کے ساتھ محبت اور گفتگو کے بے تکلف اور اطمینان بخش رشتے سے لطف اندوز ہوتا تھا — یعنی اپنے شخصی کلام اور اپنے شخصی روح کے ساتھ۔

تہیں کھولنا

خدا کی ذات میں کثرت کے بارے میں ایسے گہرے خیالات کے جواب میں ایک صاحب نے یہ ای میل بھیجی:

ای میل

” خدا نے انبیا بھیجے کہ ہمیں بتائیں کہ وہ (خدا) واحد اور اکیلا ہے۔ تو اُس کا کلام کیوں نہیں سنتے اور قبول کرتے؟ تمہیں کیوں ضرورت ہے کہ ایک ایک تہہ کھولو اور اُس کی شناخت اور وضاحت کرو جبکہ تم اُن سب کو ایک ہی تہہ کی صورت میں اکٹھا کر سکتے ہو؟ “

بے شک یہ بات سچ ہے کہ اپنے لامحدود خالق کے بارے میں وہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے جو جاننے کی ضرورت ہے، لیکن خدا نے انبیا کے صحیفوں میں اپنے بارے میں اِتنی بہت سی سچائیاں ظاہر کر دی ہیں تو کیا ہمیں اِن سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے؟ اگر ہمیں خدا کی ذات کے بارے میں سوچنا ہے تو بالکل درستی سے اور صحیح طریقے سے سوچنا واجب ہے۔

لوگوں کی اکثریت اتفاق کرتی اور مانتی ہے کہ خدا ” اَحد “ ہے۔ لیکن اِس ” احد خدا “ نے اپنے بارے میں کیا ظاہر کیا ہے؟ ہم ایک ایک تہہ کھولتے ہیں تو بائبل مقدس میں خدا کے بارے میں کیا معلوم کرتے ہیں؟

ہماری ملاقات شخصی، قابلِ ادراک اور متعبر خدا سے ہوتی ہے جو اپنے کلام اور اپنے روح کے ساتھ ” ایک “ ہے۔

اپنی لاانتہا عظمت کے وسیلے سے خدا نے اپنی شناخت باپ کے طور پر، اپنے کلام کی شناخت بیٹے کے طور پر اور اپنے روح کی شناخت روح القدس کے طور پر کرائی ہے۔ ایک حقیقی خدا میں یہ تین شخصی اِمتیاز ہیں۔

آیۓ بائبل مقدس سے چند حوالے دیکھیں جو اِس سچائی کی تہیں کھولتے ہیں:

خدا کا بیٹا

پاک صحائف پوری پوری وضاحت کرتے ہیں کہ جو کلام ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا وہی خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا ۔۔۔ خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا، اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا ۔۔۔ جو اُس پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اِس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا “ (یوحنا ١:١ ، ١٨ ؛ ٣: ١٨ )۔

ہمارے مسلمان بھائی ” خدا کا بیٹا “ سن کر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے اور ” استغفراللہ “ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ عربی زبان کے اِس کلمے کا مطلب ہے ” مَیں اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں “ یا ” اللہ آپ کو یہ کفر کہنے پر معاف فرمائے “ (کفر سے مراد ہے خدا کی تضحیک یا توہین)۔ اُن کے اِس طرح جھڑکنے پر مَیں کئی دفعہ اُن ہی کی ایک ضرب المثل سے جواب دیتا ہوں، ” چرواہے کے منہ پر تھپڑ مارنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ وہ کس لئے سیٹی بجا رہا ہے “ ۔ ” خدا کا بیٹا “ کی اصطلاح کو رد کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ خدا نے اِس کے بارے میں کیا کہا ہے۔

بائبل مقدس میں سو سے زیادہ آیات ہیں جو براہِ راست خدا کے ” بیٹے “ کا ذکر کرتی ہیں۔ لیکن اِن میں سے کسی ایک میں بھی ” ایک سے زیادہ خدا “ کا مفہوم مضمر نہیں اور نہ اِن میں یہ اشارہ ہے کہ ” خدا نے بیوی کی اور اُس کے بیٹا ہوا۔ “ تاہم بہت سے لوگ اِس اصطلاح کی یہی تشریح کرتے ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف کفر ہے بلکہ ثابت کرتی ہے کہ ایسا کہنے والا پاک کلام کو صرف سطحی طور سے سمجھتا ہے۔

زبور ٢ پڑھیں جس میں داؤد نبی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ بیٹے کے دوسرے ناموں اور القابات پر بھی غور کریں۔ اُسے ” دروازہ “ بھی کہا گیا (یوحنا باب ١٠ )۔ لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ لکڑی یا دھات کا دروازہ ہے۔ اُسے ” زندگی کی روٹی “ بھی کہا گیا ہے (یوحنا باب ٦ )۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آٹے یا میدے کی روٹی ہے۔ اِسی طرح ” خدا کا بیٹا “ کا یہ مطلب نہیں کہ خدا نے بیوی کی اور اُس کے بیٹا ہوا۔ یوحنا ابواب ١، ٣ اور ٥ بغور پڑھیں۔

خدا چاہتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ ہم اُس کی سوچ سوچیں:

” کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں “ (یسعیاہ ٥٥ : ٩ )۔

چند سال ہوئے سینیگال کا ایک مشہور تاجر کار کے حادثے میں جان بحق ہو گیا۔ سینیگال کے قومی اخبار نے اُس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے دو ہزار ملازمین کو ” اپنے بیٹوں جیسا “ سمجھتا تھا۔ اور اُسے ” سینیگال کا عظیم سپوت “ قرار دیتے ہوئے اُس کی بڑی قصیدہ خوانی کی۔ کیا اِس کا مطلب ہے کہ سینیگال کے ملک نے کسی عورت کے ساتھ شادی کی تھی اور اُس کے بیٹا پیدا ہوا تھا؟ ہرگز نہیں۔ سینیگال کے لوگوں کو ملک کے کسی محبوب شہری کو یہ لقب دے کر اُس کی عزت افزائی کرنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ جانتے ہیں کہ ” سینیگال کا سپوت “ کا مطلب کیا ہے، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس کا کیا مطلب نہیں ہے۔

" بیٹا " کی اصطلاح کئی معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً جب قرآن شریف اور عربی لوگ کسی راہ گیر یا پیدل سفر کرنے والے کو راستے کا بیٹا " (اِبن السبیل) کہتے ہیں (سورہ ٢: ١٧٧ ، ٢١٥ ) تو ہم جانتے ہیں کہ اِس کا کیا مطلب ہے۔ اِسی طرح جب قادرِ مطلق خدا اپنے کلام کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اِس کا مطلب کیا ہے۔

جن القاب اور اصطلاحات کو ہمارا خالق بزرگی اور عزت دیتا ہے ہمیں اُن کا مذاق نہیں اُڑانا چاہئے۔

” اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے۔ وہ اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے “ (عبرانیوں ١:١ ۔ ٣)۔

خدا چاہتا ہے کہ ہم جانیں کہ اُس نے ” ہم سے (اپنے) بیٹے کی معرفت کلام کیا “ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم یہ بھی جانیں اور سمجھیں کہ اُس کا بیٹا ہی وہ کلام ہے جس کے وسیلے سے آسمان اور زمین کی کل چیزیں خلق کی گئیں او ر قائم ہیں۔ بائبل مقدس کے عربی زبان کے ترجمے میں بیٹے کے لقب ” خدا کا کلام “ کا ترجمہ ” کلمتہ اللہ “ کیا گیا ہے۔ قرآن شریف اور بائبل مقدس دونوں ہی اِس لقب کو مسیحِ موعود سے منسوب کرتے ہیں۔ اِس سفر میں آگے چل کر ہم اِس نکتے پر تفصیلی غور کریں گے۔

خدا کا روح

جس طرح خدا اپنے ” کلام بیٹا “ کے ساتھ ایک ہے اُسی طرح وہ اپنے روح القدس کے ساتھ ایک ہے۔

خدا کا پاک روح دنیا کو تخلیق کرنے اور خدا کے تحریری کلام کی تحریک دینے دونوں کاموں میں شریک تھا۔ بائبل مقدس کا دوسرا فقرہ کہتا ہے کہ ” خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی “ (پیدائش ١: ٢ )۔ اور بائبل مقدس یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ” ۔۔۔ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے بولتے تھے “ (٢۔پطرس ١: ٢١ )۔

بعض لوگ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل فرشتہ ہے۔ کئی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کا روح ایک نبی ہے۔ یہ نتائج یا امور نبیوں کے صحیفوں سے اخذ نہیں کئے گئے۔ فرشتے اور انسان خلق کی گئی ہستیاں ہیں۔ روح القدس قائم بالذات ” ازلی روح “ ہے۔

خدا کی ذات کی طرح ہم روح القدس کو بھی اپنے پہلے سے سوچے ہوئے سانچے میں نہیں ڈال سکتے۔ خدا کا ایک نبی تھا جسے آسمان کی جھلک دکھائی گئی۔ اُس نے روح القدس کو دیکھا اور بتایا کہ وہ ” تخت کے سامنے (جلتے ہوئے) سات چراغ ۔۔۔ ہیں۔ یہ خدا کی سات روحیں ہیں “ (مکاشفہ ٤ : ٥)۔ ایک اَور نبی نے اِس کا بیان یوں کیا ہے کہ روح القدس وہ ہستی ہے جو سات خوبیاں عطا کرتا ہے جو صرف خدا سے آتی ہیں، ” خداوند کی روح ۔۔۔حکمت اور خرد کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح “ (یسعیاہ ١١ : ٢)۔

روح القدس ” سچائی کا روح “ ہے (یوحنا ١٤ : ١٧ ) جس کے وسیلے سے خدا دنیا میں اپنے اِرادے پورے کرتا ہے۔ وہ ” مددگار “ (وکیل، شفیع) ہے (یوحنا ١٤ : ١٦ )۔ جو خدا کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں اُن سب پر وہ خدا کو قریبی طور سے ظاہر کرتا اور خدا کا تجربہ عطا کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں بہت سے خدا کو نہیں جانتے صرف اُس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ایسا علم نہ خدا کو مطمئن اور آسودہ کرتا ہے نہ انسان کو۔ صرف روح القدس ہے جو یہ ممکن کرتا ہے کہ انسان خدا کے ساتھ ذاتی اور شخصی تعلق سے شادمان ہوں۔ اِس کتاب میں آگے چل کر ہم خدا کے عجیب روح القدس کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔

اپنی زمینی زندگی کے دوران خدا کے بیٹے نے اپنے شاگردوں سے وعدہ کیا، ” لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا “ (یوحنا ١٤ : ٢٦ )۔ یہ الفاظ اُس کامل یگانگت کو ظاہر کرتے ہیں جو باپ، بیٹے اور روح القدس میں ازل سے ہے۔ باپ اور بیٹے کی طرح روح القدس بھی ایک شخصیت ہے۔ اُس کے لئے شخصی اسمِ ضمیر ” وہ “ ( He ) استعمال ہوتا ہے۔ روح القدس کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ابواب ١٦ ، ٢٢ اور ٢٨ پڑھیں۔ اِس کے علاوہ بائبل مقدس میں خطوط اور اعمال کی کتاب پڑھیں اور روح القدس کے کردار پر خاص توجہ دیں۔

یہ سفر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ قدرے بوجھل؟ یہ آسانی سے سمجھ میں آنے والے خیالات نہیں ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب اور خدا کی ذات کے بارے میں ہمارا بیان درست ہے کیونکہ ” بہت آسان اور سیدھا سادہ ہے “ ۔ خدا کے بارے میں اُن کا بیان تو آسان اور سیدھا سادہ ہو سکتا ہے، مگر خدا سادہ نہیں ہے۔

” میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں “ (یسعیاہ ٥٥: ٨ )۔

ہمیشہ ” واحد “

پاک صحائف بالکل واضح اور صاف ہیں۔ تمام ازل و ابد میں کوئی ایسا وقت نہیں ہوا جب خدا موجود نہ تھا۔

انجیل میں مرقوم ہے کہ بیٹا باپ سے کہہ رہا ہے ” ۔۔۔ جلال سے جو مَیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا۔۔۔ “ اور بیٹا یہ بھی کہتا ہے ” ۔۔۔ اے باپ ۔۔۔تُو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی “ (یوحنا ١٧ : ٥، ٢٤ ۔ مزید دیکھئے میکاہ ٩ : ٦)۔ اور جہاں تک روح القدس کی بات ہے تو اُس کا ایک نام ” ازلی روح “ ہے (عبرانیوں ٩ : ١٤ )۔

وہ ہمیشہ سے ” ایک “ ہیں۔ انسانی تاریخ کے تناظر میں بائبل مقدس کہتی ہے کہ باپ آسمان سے کلام کرتا ہے، بیٹا زمین پر کلام کرتا ہے اور روح القدس دل سے کلام کرتا ہے (خروج ٢٠ :٢٢ ؛ عبرانیوں ١٢ :٢٥ ؛ لوقا ٣: ٢٢ ؛ ٥: ٢٤ ؛ یوحنا ١: ١ ۔١٨ ؛ ٣: ١٦ ۔ ١٩ ؛ ١٧ : ٢٢ ؛ اعمال ٣:٥ ؛ ٧: ٥١ ؛ گلتیوں ٤ :٦ وغیرہ)۔ ہر ایک کا کردار یا کام الگ الگ ہے لیکن وہ ” ایک “ ہیں۔

جب انسان خدا کے اپنے بارے میں مکاشفے میں ترقی کرتے ہیں تو وہ اُس ہستی کی فراوانی سے شادمان ہوتے ہیں جو محبت ہے اور جو اپنی لامحدود محبت عملی طریقوں سے دکھاتا ہے۔

محبت صرف اِسی صورت میں بامقصد اور بامعنی ہو سکتی ہے کہ کوئی رشتہ یا تعلق ہو۔ باپ، بیٹا اور روح القدس ہمیشہ محبت اور یکتائی کے باہمی فعال رشتے سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ بائبل مقدس میں ایک جگہ مرقوم ہے کہ بیٹا کہتا ہے ” مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں “ ، ” باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے “ (یوحنا ١٤ : ٣١ ؛ ٥: ٢٠ — اور پاک کلام کہتا ہے ” روح کا پھل محبت ہے “ (گلتیوں ٥: ٢٢ )۔

بہترین انسانی رشتہ — مثلاً مرد اور اُس کی بیوی کا ایک ہونا، یا باپ، ماں اور بچے کے درمیان لگاؤ اور بندھن — خدا کی ذات سے صادر ہوتا ہے۔ یہ زمینی رشتے اپنی بہترین حالت میں خدا کی حیرت انگیز یکتائی اور محبت کے ہلکے سے عکس ہیں۔ ہمارا خالق ہر اچھی چیز کا اصل، منبع، نمونہ اور مقصد ہے۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨ )۔

” خدا محبت ہے “ کا بہترین عمل یہ ہے کہ وہ آپ کو اور مجھے بلاتا اور دعوت دیتا ہے کہ اُس کے ساتھ قریبی اور گہرے رشتے کا ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہیں۔ اُس میں شادمان رہیں۔ وہ صرف ہمارا اعتماد چاہتا ہے، حالانکہ اُس کی ذات کی پوری وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

خدا قابلِ اعتماد ہے۔

ہم نے تخلیق کے چھے دنوں کے مطالعہ کے دوران خدا کے بارے میں جو کچھ دیکھا اور سمجھا ہے اُس پر دوبارہ غور کریں۔ ریاضی کی مساوات کی شکل میں یہ یوں نظر آتا ہے:

پہلا دن:   خدا پاک ہے

+    دوسرا دن:   خدا قادرِ مطلق ہے

+    تیسرا دن:   خدا بھلا ہے

+    چوتھا دن:   خدا وفادار ہے

+    پانچواں دن:   خدا زندگی ہے

+    چھٹا دن:   خدا محبت ہے


=     قابلِ اعتماد خدا

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم اُن لوگوں پر تو جلدی سے اعتماد کر لیتے ہیں جن میں یہ خوبیاں نہیں ہوتیں، لیکن اُس ہستی پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس میں یہ خوبیاں درجہ کمال تک ہیں؟

مَیں لیٹر بکس میں چٹھی ڈالتا ہوں تو اعتماد اور یقین رکھتا ہوں کہ محکمہ ڈاک یہ چٹھی مطلوبہ پتے پر پہنچا دے گا۔ تو مجھے کتنا زیادہ اُس پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہئے جو کائنات کا خالق، سنبھالنے والا، قائم رکھنے والا اور مالک ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گا!

” جب ہم آدمیوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خدا کی گواہی تو اُس سے بڑھ کر ہے ۔۔۔ جس نے خدا کا یقین نہیں کیا اُس نے اُسے جھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے ایمان نہیں لایا “ (١۔یوحنا ٥: ٩ ، ١٠ )۔

خدا کا ذاتی نام

خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں، اُس پر بھروسا رکھیں اور اُس کے نام کے طالب ہوں، اُس کا نام لیں۔

” وہ جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کریں گے، کیونکہ اے خداوند! تُو نے اپنے طالبوں کو ترک نہیں کیا ہے “ (زبور ٩ :١٠ )۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کا نام صرف ” خدا “ ہے یا الوہیم (عبرانی) یا اللہ (عربی) یا الہ (ارامی) یا ڈِیو (فرانسیسی) یا ڈِیوَس (ہسپانوی) یا گُوٹ (جرمن)۔ یا کسی بھی زبان میں جو کوئی بولتا ہے خدا کے لئے مستعمل لفظ یا اصطلاح یا نام۔ عربی زبان میں لفظ ” اللہ “ اپنے اصل معنی میں اردو زبان میں ” خدا “ کا مترادف ہے۔ جیسے پرانے عہدنامے میں پیدائش ١:١ کی طرح ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یا نئے عہدنامے میں یوحنا ١:١ کی طرح ” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا “ — عربی زبان میں خدا کے لئے خاص یا اصل لفظ ” اللہ “ ہے جس کا مطلب ہے ” اعلی' ترین ہستی، الاعلی یا ہستئی برتر۔ “ یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اُس ” اعلی ترین ہستی “ کے ذاتی اور شخصی نام بھی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ انسان مجھے اِن ناموں سے جانیں۔ ” اللہ “ خدا کا اسمِ خاص اور ذاتی نام نہیں ہے حالانکہ بہت سے لوگ اِسے خاص نام ہی سمجھتے ہیں۔ اِسی طرح ” خدا “ اُس کا اسمِ خاص یا ذاتی نام نہیں ہے حالانکہ بہت سے لوگ اِسے بھی خاص نام مانتے ہیں۔

بے شک خدا خدا (ہستی مطلق، ہستی برتر، فائق ہستی) ہے، لیکن کیا ” خدا “ اُس کا ںام ہے؟ کیا یہ ایسا نہیں جیسے مَیں کہوں کہ میرا نام ” انسان “ ہے؟ مَیں انسان تو ہوں، لیکن میرا ایک اپنا، ذاتی نام بھی ہے۔ خدا خدا تو ہے لیکن اُس کے اپنے نام بھی ہیں جن سے اُس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے۔ اور وہ دعوت دیتا ہے کہ ہم ان ناموں سے اُسے ایک ہستی کے طور پر مخاطب کریں:

بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا ناقابلِ ادراک توانائی کا سرچشمہ ہے جیسے کششِ ثقل اور ہوا یا آندھی یا اُس قسم کی قوت جو سائنس پر مبنی فلموں میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ خدا کے بارے میں بائبلی تصور نہیں ہے۔

خدا ” ہستی مطلق “ — اصل شخصیت ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اُسے شخصی طور پر جانیں۔ خدا کے ایک شخصیت ہونے کا تصور نہ صرف بائبلی تصور ہے بلکہ منطقی بھی ہے۔ جس طرح انسان فقط کائناتی توانائی نہیں ہیں اِسی طرح ساری چیزوں کا خالق بھی فقط کوئی توانائی نہیں ہے۔ وہ ” شخصی ہستی “ ہے اور اُس کا نام بھی ہے۔

خدا کا اصل شخصی نام پہلی دفعہ پیدائش کے دوسرے باب میں بتایا گیا ہے:

” یہ ہے آسمان اور زمین کی پیدائش جب وہ خلق ہوئے جس دن خداوند خدا نے زمین اور آسمان کو بنایا “ (پیدائش ٢: ٤)۔

کیا آپ نے توجہ کی کہ خدا نے اپنا ذکر کس نام سے کیا ہے؟

اُس کا نام ہے ” خداوند “ — یا کم سے کم اردو زبان میں اِس کا یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ شکر کرنا چاہئے کہ خدا ساری زبانیں پورے طور سے جانتا ہے اور یہ تقاضا نہیں کرتا کہ اُسے کسی خاص ایک زبان میں مخاطب کیا جائے۔ وہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی اپنی مادری زبان میں مخاطب ہوں۔ ہم کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی طرف رُخ کر کے اپنی پسندیدہ یا دلی زبان میں اُس سے بات کر سکتے ہیں۔

مَیں ہوں

عبرانی زبان میں خدا کا اصل ذاتی نام ” خداوند “ چار حروف صحیحہ ” ے ہ وہ “ سے لکھا جاتا ہے۔ جب اِن میں حروفِ علت لگاتے جاتے ہیں تو یہ ” ے الف ہ و ے ہ “ (یاہ ویہ) یا ” یہوواہ “ بن جاتا ہے۔ یہ نام مصدر ” ہونا “ سے مشتق ہے اور لغوی معنی ہیں ” مَیں ہوں “ یا ” وہ ہے “ ۔ اِس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ خدا ازلی قائم بالذات (خود موجود) ہے۔ پرانے عہدنامے میں خدا کا یہ ذاتی نام ٥٠٠ ، ٦ سے زیادہ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ خدا کا کوئی دوسرا نام اِتنی دفعہ استعمال نہیں ہوا۔ (اُردو میں اِس کا ترجمہ ” خداوند “ کیا گیا ہے)۔

موسی' کی پرورش مصر میں ہوئی تھی جہاں لوگ بہت سے خداؤں اور دیوتاؤں کو مانتے تھے۔ خدا موسی' پر ظاہر ہوا تو اُس نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے اپنا نام بتا۔ سنئے کہ خدا نے کیا فرمایا:

” خدا نے موسی' سے کہا، مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں۔' سو تُو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہوں، نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے “ (خروج ٣: ١٤ )۔

صرف شخصی ہستی ہی ” مَیں ہوں “ کہہ سکتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم جانیں کہ وہ ” ہستی مطلق “ ہے۔ وہی ہے جو ” ہے “ ۔

ماضی، حال اور مستقبل اُس کے لئے کچھ نہیں ہیں۔ اُس کی ہستی، اُس کا موجود ہونا زمان اور مکان سے ماورا ہے۔

آپ کو اور مجھے زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی، خوراک، نیند، مکان اور دوسری چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن خدا کو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو اپنی قدرت سے موجود ہے۔ وہ عظیم ” مَیں ہوں — خداوند “ ہے۔

نوٹ: انگریزی زبان کی بائبل مقدس میں جب بھی خداوند بڑے حروف ( LORD ) میں لکھا جاتا ہے تو اصل زبان عبرانی میں لفظ یہوہ ( YHWH ) ہے جس کا مطلب ہے ” ازلی قائم بالذات ہستی “ ۔

خدا نے یہ بات انسان پر نہیں چھوڑی کہ اُس کی ذات کی وضاحت کرے۔ وہ اپنے بارے میں خود بتاتا ہے۔

سینکڑوں نام

باپ، بیٹا اور روح القدس کی حیثیت سے اپنے ازلی وجود میں ” خداوند (یہوواہ) “ کے سینکڑوں نام اور القاب ہیں۔ خدا کے نام اُس کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہر صفاتی نام کا مقصد یہ ہے کہ ہم بہتر سمجھ سکیں کہ خدا کون ہے اور کس کی مانند ہے۔ مثال کے طور پر اُس کے چند نام یہ ہیں:

آسمان اور زمین کا خالق، زندگی کا بانی، تعالی، حقیقی نور ، پاک (ہستی)، عادل منصف، یہوواہ یری (جو مہیا کرتا ہے)، یہوواہ شافی (جو شفا دیتا ہے)، یہوواہ نسی (میرا جھنڈا)، ہماری صداقت، خداوند ہمارا اطمینان، خداوند میرا چوپان، تسلی اور محبت کا خدا، فضل کا خدا، ابدی نجات کا بانی، خدا جو نزدیک ہے، یہوواہ سلوم (سلامتی) ، رب الافواج۔۔۔

ہم اپنے خالق کو جو کچھ بھی سمجھتے ہوں، مگر ہم میں سے ہر ایک کو فروتنی اور انکساری سے اقرار کرنا چاہئے کہ وہ خدا ہے اور دوسرا کوئی اُس کی مانند نہیں ہے۔ اگرچہ نہ اُس کی پوری وضاحت ہو سکتی ہے نہ اُسے پورے طور سے سمجھ سکتے ہیں تو بھی وہ چاہتا ہے کہ ہمیں اُس کا نام معلوم ہو، اُس پر توکل اور بھروسا رکھیں، اُس سے محبت رکھیں اور ہمیشہ اُس کے ساتھ رہیں۔ اِسی مقصد سے خدا نے فرمایا:

” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔ “ (پیدائش ١: ٢٦)

اِس کا کیا مطلب تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ دیدنی انسان نادیدنی خدا کی صورت اور شبیہ پر ہو؟

۱۰
خاص الخاص مخلوق

اِس کتاب میں دو باب پیچھے ہم نے سب زمانوں کے عظیم ترین اعلان پر غور کیا تھا کہ ” خدا نے ابتدا میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا “ (پیدائش ١:١)۔ اب ایک اَور اعلان سامنے آتا ہے:

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٧ )۔

خدا نے انسان کو اپنی ساری مخلوقات کا ” تاج “ یا ” اشرف المخلوقات “ بنایا۔

خدا کی صورت پر

” پھر خدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نروناری اُن کو پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٦، ٢٧ )۔

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ “ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلے انسان ہر لحاظ سے خدا کی مانند تھے۔ خدا کا کوئی ثانی نہیں۔

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا “ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی صفات میں شریک ہیں۔ انسان کو اِس مقصد سے خلق کیا گیا کہ وہ خدا کی صفات کو منعکس کرے۔ خدا نے پہلے مرد اور پہلی عورت کو وہ خصوصیات عطا کیں جن کے باعث وہ خدا کے ساتھ بامعنی اور بامقصد رشتے سے لطف اندوز ہو سکیں۔

خدا نے انسان کو عقل عطا کی اور استعداد بخشی کہ وہ بڑے بڑے سوال پوچھے، منطقی استدلال کر سکے، عقلی دلیلیں دے سکے اور اپنے خالق کے بارے میں گہری سچائیوں کو سمجھ سکے۔ خدا نے انسان کو محسوسات بخشے اور شعور دیا کہ وہ خوشی اور ہم آہنگی اور ہمدردی جیسے احساسات کا تجربہ حاصل کرے۔

خدا نے انسان کو (قوتِ ارادی) بھی عطا کی، جس میں ازلی نتائج کے حامل فیصلے کرنے کی آزادی اور ذمہ داری دونوں شامل ہیں۔

اِن کے علاوہ اُس نے انسان کو ابلاغ کی صلاحیت عطا کی جس میں بولنا، اشارے کرنا اور گانا وغیرہ شامل ہیں۔ اُس نے اُنہیں طویل المدت منصوبے بنانے اور حیرت ناک تخلیقی عمل کے ساتھ اُنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی لیاقت اور قابلیت بھی بخشی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اُس نے انسان کو ابدی جان اور روح عطا کی کہ وہ ہمیشہ تک اپنے خالق کی پرستش کریں اور اُس (خالق) سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

یہ قابلیت اور استعداد انسان کو دنیائے حیوانات سے الگ اور ممیز کرتی ہے۔

خدا نے انسان کو اپنی خاطر، اپنے لئے خلق کیا تھا۔ خدا جو ” محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨) اُس نے مرد اور عورت کو خلق کیا، اِس لئے نہیں کہ اُسے (خدا کو) اُن کی ضرورت تھی بلکہ اِس لئے کہ وہ اُنہیں چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مَیں انسان سےمحبت کروں اور وہ میری محبت کو منعکس کریں۔

انسان کا بدن

پیدائش کی کتاب کا پہلا باب بڑے اختصار سے بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا کیسے خلق کی اور دوسرا باب تفاصیل مہیا کرتا ہے، اور خاص طور سے انسان کی

تخلیق کا حال تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

” اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو اِنسان جیتی جان ہوا “ (پیدائش ٢: ٧)۔

خدا نے آسمان اور زمین تو عدم (کچھ نہ) سے بنائے تھے، مگر اُس نے پہلے انسان (آدمی) کو مٹی سے بنانا پسند کیا۔ موجودہ دَور میں حیاتیات کے عالم تصدیق کرتے ہیں: ” ایک لحاظ سے بدن توجہ طلب نہیں ہے۔ وہ عام سے بیس عناصر جن سے بدن بنا ہے، وہ سب زمین کی سوکھی مٹی میں موجود ہیں۔ “

بے شک انسانی جسم ایسے معمولی عناصر سے مل کر بنا ہے، مگر صنعت اور کاریگری کا معجز نما شاہکار ہے، جس میں تقریباً سات نیل پچاس کھرب (۰۰۰، ٠٠۰ ، ٠٠۰ ، ٠۰٠ ، ٠٠۰ ، ٥۰٠ ، ٧) زندہ خلیے ہیں اور ہر ایک خلیہ اپنا الگ اور مخصوص کام کر رہا ہے۔

خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ خلیہ اِتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف بہت طاقتور خردبین ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اِس میں کام کرنے والے لاکھوں حصے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خلیے میں ڈی این اے کا دو میٹر لمبا مڑا تُڑا دھاگا ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اے کسی بھی شخص کے بنیادی خدوخال کا مجموعہ قوانین ( code ) ہوتا ہے۔

بِل گیٹس کمپیوٹر کے پروگراموں ( software ) کا گرو مانا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی خلیہ کمپیوٹر کے پروگرام کی مانند ہے لیکن اِس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ پروگرام ( tissues ) ہے جو کبھی پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی بدن میں کم سے کم ٢٠٠ سے زیادہ اقسام کے خلیے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے کچھ مائع تیار کرتے ہیں مثلاً خون، دوسرے خلیے بافتیں، ریشے اور اعضا تیار کرتے ہیں۔ اور بعض خلیے جسم کے افعال کو منظم کرتے اور منظم رکھتے ہیں مثلاً نظامِ ہضم اور نظامِ تولید۔

ایک عظیم روحانی سچائی کو سمجھانے کے لئے بائبل مقدس انسانی نظام کے ہم آہنگ نظام کی مثال دیتی ہے: ” ۔۔۔ سارا بدن ہر ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہو کر اور گٹھ کر اُس تاثیر کے موافق جو بقدر ہر حصہ ہوتی ہے اپنے آپ کو بڑھاتا ہے ۔۔۔ “ (افسیوں ٤ : ١٦ )۔

اپنے جسم کی ساخت اور کام کرنے والے حصوں پر غور کریں۔ ہمارا پنجر جس میں ٢٠٦ ہڈیاں ہیں وہ رباط (ریشہ دار پٹیوں)، عضلات (نسوں)، پٹھوں، چمڑی اور بالوں سے آراستہ پیراستہ ہے۔ اور ہمارا دورانِ خون کا نظام خون، شریانوں اور رگوں پر مشتمل ہے۔ رگیں اور شریانیں زندگی کے ضروری اجزا کو جسم کے ایک ایک حصے تک پہنچاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ  معدہ ، انتڑیاں، گُردے اور جگر ۔۔۔ وغیرہ ہیں۔ اور نہایت پیچیدہ طور سے مرتب کیا گیا اعصابی نظام ہے جو دماغ سے منسلک ہے۔ اور اُس دیانت دار اور باوفا پمپ کو نہ بھولیں جسے دل کہتے ہیں۔ اور خدا نے آپ کو آنکھیں، کان، ناک، منہ اور زبان دی ہے، اِ س کے ساتھ حنجرہ، آواز پیدا کرنے والے غدود، ذائقہ محسوس کرنے کے اعضا اور دانت دیئے ہیں! اور یہ ہاتھ اور پاؤں کیسے کارآمد ہیں! کیا آپ نے کبھی خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ اُس نے آپ کو انگوٹھے دیئے ہیں؟ انگوٹھے کے بغیر جھاڑُو اور ہتھوڑی استعمال کرنے کی کوشش تو کریں! اور انگلیوں کے ناخن کیا کم کارآمد ہیں!۔۔۔

چنانچہ تعجب کیسا کہ داؤد نبی لکھتا ہے:

” مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب و غریب طور سے بنا ہوں۔ تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے “ (زبور ١٣٩ : ١٤ )۔

جان اور روح

انسانی جسم بے شک حیرت افزا ہے، لیکن صرف جسم ہی انسان کو ” خاص “ نہیں بنا دیتا۔ حیوانات، پرندگان اور مچھلیاں وغیرہ سب کے بدن حیرت افزا ہیں۔ انسان کی بے مثالیت اُس کی جان اور ابدی روح کے باعث ہے۔ جان اور روح ہیں جنہوں نے پہلے آدمی اور پہلی عورت کو ” خدا کی صورت “ پر ہونے کا اعزاز بخشا اور وہ ” خاص ہستیاں “ بنے۔

خدا نے مٹی سے انسان کا بدن بنانے کا کام پورا کر لیا تو اُس نے ” اُس کے نتھںوں میں زندگی کا دم پھونکا اور انسان جیتی جان ہوا “ (پیدائش ٢: ٧)۔ خدا نے آدم کے لئے جو بدن بنایا وہ صرف ایک مکان یا خیمہ تھا جس میں خدا نے آدم کی ابدی روح اور جان رکھی۔

خدا نے انسان کو بدن اِس لئے دیا کہ وہ اپنے اِرد گرد کی دنیا سے واقف ہو سکے، اُس کا ادراک کر سکے، اور جان اِس لئے دی کہ انسان اپنے باطن، اپنے اندرون کو جان سکے اور روح اِس لئے دی کہ وہ خدا کو جان سکے، خدا کا ادراک کر سکے۔

بدن پر جان نے حکمرانی کرنی تھی،

جان پر روح نے حکمرانی کرنی تھی،

اور روح پر خود خدا نے حکمرانی کرنی تھی۔

پاک کلام روح، جان اور بدن میں امتیاز اور فرق کرتا ہے (دیکھئے  ١۔تھسلنیکیوں ٥: ٢٣ ؛ عبرانیوں ٤: ١٢ ، ١٣ ؛ یوحنا ٤: ٢٤ )۔

” خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں “ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

خاص مقصد کے لئے خلق کئے گئے

ماہر کاری گر (خدا) نے انسان کو ایک قسم کا ” ثالوث “ بنایا جس میں ” روح ، جان اور بدن “ (١۔تھسلنیکیوں ٥ : ٢٣ ) ایک ساتھ رکھے اور انساںوں کے لئے ممکن کیا کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ گہری رفاقت کا لطف اُٹھائیں۔ خدا نے انسان کو زندگی دی اور اب یہ انسان کا ممتاز اور اعزازی حق ہے کہ وہ اپنے خالق مالک کی خوشنودی اور حمد و ستائش کے لئے زندگی بسر کرے۔

” ہر  ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کیا۔۔۔ مَیں نے اُن لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں “ (یسعیاہ ٤٣ :٧ ، ۲۱)۔

انسان خدا کی تمجید اور اُس کے جلال کے لئے خلق کئے گئے۔

یہ زمین انسانوں کے لئے بنائی گئی، لیکن انسان خدا کے لئے بنائے گئے۔ خالق کا ارادہ اور مقصد یہ تھا کہ پہلے انسان مجھے (خدا کو) جانیں، اُس کی رفاقت میں خوش رہیں اور اُس سے ہمیشہ محبت رکھیں۔ میرے اور آپ کے لئے بھی اُس کا یہی ارادہ اور مقصد ہے۔

” تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ “ (مرقس ١٢ : ٣٠ )۔

عمدہ ترین ماحول

آدم کو خلق کرنے کے بعد خدا نے ایک پُرتکلف اور خوبصورت باغ لگایا جسے عدن کا نام دیا گیا۔

” اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔ اور خداوند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوش نما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔ اور عدن سے ایک دریا باغ کو سیراب کرنے کو نکلا اور وہاں سے چار ندیوں میں تقسیم ہوا “ (پیدائش ٢: ٨ ۔١٠ )۔

عدن غالباً اُس ملک میں واقع تھا جسے آج کل عراق کہتے ہیں۔ عدن کے عراق میں واقع ہونے کا تصورِ  بائبل مقدس ٢: ١٣، ١٤ میں دی گئی معلومات پر مبنی ہے۔ بعض لوگ عدن کے باغ کو جنت کہتے ہیں حالانکہ بائبل مقدس ایسا نہیں کہتی۔ زمینی عدن کو آسمانی فردوس کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہئے۔

باغ عدن بے انتہا اور لامحدودخوشیوں، خوشنما مناظر، دلفریب آوازوں اور روح افزا خوشبوؤں سے بھرا ہوا وسیع و عریض باغ تھا۔ ایک چمکتا ہوا دریا اُسے سیراب کرتا تھا۔ اُس دریا کے کناروں پر لذیذ اور رسیلے پھلوں کے درخت  تھے۔ بےشمار قسموں کے پھل اور میوے تھے۔ بھینی بھینی خوشبوؤں والے پھول تھے، بلند قامت درخت تھے اور سرسبزو شاداب وادیاں تھیں کہ بس دیکھتے رہو۔ جنگلی جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑے تھے کہ اُن کا مطالعہ کرو، پُراسرار جنگل تھے کہ کھوج لگاتے رہو، سونا اور قیمتی پتھر اور جواہر تھے کہ دریافت کرتے رہو۔ واقعی خدا نے آدم کو ” لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے “ دی تھیں (١۔تیمتھیُس ٦: ١٧ )۔

خدا نے باغ کے بیچ میں دو خاص درخت بھی لگائے۔ ایک حیات کا درخت اور دوسرا نیک و بدن کی پہچان کا درخت۔

عدن کا لفظی مطلب ہے 'شادمانی'۔ خدا نے یہ حیرت انگیز گھر انسان کی خوشی اور لطف اندوزی کے لئے بنایا تھا۔ لیکن انسان کے لئے سب سے بڑی خوشی اور مسرت یہ ہو گی کہ وہ اپنے خالق کی رفاقت سے خوش اور شادمان ہو!

سب سے بڑی خوشی اور شادمانی یہ ہے کہ انسان خدا کو ذاتی طور پر جانے اور اُس کے ساتھ رہے۔ ” تیرے حضور میں کامل شادمانی ہے۔ تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے “ (زبور ١٦ : ١١)۔

تسکین بخش کام

باغ تیار ہو گیا تو خداوند نے انسان کو اُس میں رکھا۔ خدا نے آدم سے نہیں پوچھا کہ تُو وہاں رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔ خدا انسان کا ” بنانے والا “ تھا، اِس لئے اُس کا مالک تھا۔ خداوند جانتا ہے کہ انسان کے لئے کیا بہتر ہے اور جو کچھ خدا کرتا ہے اُس کے لئے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔

” اور خداوند خدا نے آدم کو لے کر باغِ عدن میں رکھا کہ اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے “ (پیدائش ٢: ١٥ )۔

پہلے اُسے ” باغبانی کرنا “ تھی، لیکن پسینے، محنت مشقت اور تھکاوٹ کے بغیر۔ یہ کامل طور سے دل پسند اور پُرلطف کام ہونا تھا، اِس لئے کہ سب کچھ ” اچھا “ تھا۔ وہاں نہ کانٹے تھے کہ چبھ جاتے، نہ جڑی بوٹیاں تھیں کہ اُکھاڑنی پڑتیں۔

دوسرے اُسے باغ کی ” نگہبانی کرنا “ تھی۔ کیا اِن الفاظ میں کوئی اِمکان نظر آتا ہے کہ کائنات میں کوئ ضرر رساں، خطرناک چیز چھپی ہوئ تھی، تاک میں بیٹھی ہوئی تھی؟

اِس سوال کا جواب تھوڑی ہی دیر میں دیا جائے گا۔

ایک سیدھا سادہ قانون

چونکہ انسان کوئی کٹھ پتلی نہیں تھا بلکہ ایک شخص تھا اِس لئے خدا نے اُسے ایک سیدھا سادہ اور صاف حکم دیا جسے انسان کو ماننا تھا۔

” اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٦ ۔ ١٧ )۔

خدا نے عورت (حوا) کو خلق کرنے سے پہلے آدم کو یہ حکم دیا۔ خدا نے آدم کو انسانی نسل کا سردار مقرر کر دیا تھا اور اُسے اِس قاںون کو بحال رکھنے کا ذمہ دار بنایا تھا۔

پہلی عورت

اِس کے بعد خدا نے عورت کو خلق کیا، اور وہ بے حد خاص مخلوق تھی!

” اور خداوند خدا نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بناؤں گا ۔۔۔ اور خداوند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا۔ اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا۔ اور خداوند خدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیوںکہ وہ نر سے نکالی گئی۔ اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔ اور آدم اور اُس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے “ (پیدائش ٢: ١٨ ؛ ٢١ ۔ ٢٥ )۔

یوں خدا نے پہلا آپریشن کیا۔ آدم کے پہلو سے ایک خوبصورت اور حسین بیوی بنائی اور خود اُسے آدم کو پیش کیا۔

آدم ایسی قریبی اور محبت کرنے والی رفیقہ اور ” مددگار “ سے کیسا خوش ہوا ہو گا جو خدا نے اُسے مہیا کی تھی! بائبل مقدس کے مرحوم عالم میتھیو ہنری نے لکھا ہے ” عورت آدم کے پہلو سے بنائی گئی۔ اُس کے سر سے نہیں بنائی گئی تاکہ اُس پر حکمرانی نہ کرے، نہ اُس کے پاؤں سے بنائ گئی کہ آدم اُسے اپنے پاؤں تلے نہ رَوندے، بلکہ اُس کے پہلو سے بنائی گئی تاکہ اُس کے برابر ہو، اُس کے بازو کے نیچے رہے تاکہ اُس کی محافظت میں ہو۔ اور اُس کے دل کے نزدیک سے بنائی گئی تاکہ اُس سے محبت رکھی جائے۔ “

آدمی کی طرح عورت بھی خدا کی صورت اور شبیہ پر بنائی گئی تاکہ وہ (عورت) خدا کی صفات کو منعکس کر ے اور  اُس کے ساتھ روحانی یکتائی کا ابد تک لطف اُٹھاتی رہے۔ خالق نے مرد اور عورت کے لئے الگ الگ اور واضح فرائض (کام) مقرر کئے، مگر بتا دیا کہ وہ قدر و قیمت اور اہمیت میں برابر ہیں۔

آج بہت سے معاشروں میں خدا کے ارادے کے برعکس عورت کے ساتھ ایک ٹھیکرے جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اُسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو خوشیاں اور جشن مناۓ جاتے ہیں اور جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض آدمی اور معاشرے کے بعض طبقے اپنی بیوی کے مقابلے میں اپنے مال مویشی کی زیادہ قدر اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور چند ایک معاشرے دوسری انتہا تک چلے گئے ہیں اور عورت کو بہت اونچا مقام دیتے ہیں۔ وہ اِس بات کی پروا نہیں کرتے کہ خدا نے مرد اور عورت کو الگ الگ اور واضح طور سے فرق فرق فرائض سونپے ہیں۔ دونوں انتہائیں عورت کی تذلیل کرتی ہیں۔

پہلی شادی

غور کریں کہ پہلی شادی کی رسم کس نے ادا کی تھی۔ نکاح کس نے پڑھا تھا؟ خداوند خدا نے — بائبل مقدس کہتی ہے ” وہ (خداوند) عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا۔ “ شروع ہی سے خالق اپنے بندوں کی زندگیوں میں براہِ راست شامل تھا، جنہیں اُس نے اپنے لئے خلق کیا تھا۔ وہی یہ اعلان کرتا ہے کہ ” مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے“۔ ”ایک “ کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” ایکاد “ استعمال ہوا ہے جو یکتائی، اکائی یا اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا نے پہلے جوڑے کو اِس انداز سے بنایا کہ وہ ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں اور ایک دوسرے کی خدمت کریں اور خدا سے لطف اندوز ہوں اور اُس کی پرستش کریں اور کامل ہم آہنگی ہمیشہ تک قائم رہے۔ وہ چاہتا تھا کہ مرد اور عورت فرداً فرداً اور اجتماعی طور سے اپنے خالق اور مالک کو اپنی زندگیوں کا مرکز اور محور بنائے رکھیں۔

المیہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بہت سے لوگ شادی کے لئے خدا کے بنائے ہوئے اصل خاکے کو بھلاۓ بیٹھے ہیں۔ اُس کی پروا نہیں کرتے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا، اُنہیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ جوں جوں سال گزرتے جاتے ہیں ایک مرد اور ایک عورت کا رشتہ کس طرح زیادہ پُرکشش اور پُرلطف بنتا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اُس محبت بھرے، مخلص،  باوفا اور بے لوث رشتے کو منعکس کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو خدا نے شروع سے میاں بیوی کے لئے بنایا تھا۔

مرد اور عورت کے مابین شادی کا بانی خالق ہے، اور اِس سے خدا کا بے انتہا محبت بھرا دل نظر آتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ شادی کا بندھن اُس روحانی تعلق کا نمونہ ہو جس کے لئے وہ انسانوں کو بلاتا اور دعوت دیتا ہے کہ میرے ساتھ قائم کرو اور اُس میں بڑھتے اور مضبوط ہوتے جاؤ، اور ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہو۔

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ شادی کا بانی شادی کی کیا تعریف اور وضاحت کرتا ہے؟ ” اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے “ ۔ اور  اِس کے ساتھ ہی پاک کلام کہتا ہے ” اور آدم اور اُس کی بیوی ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے۔ “

شادی کے لئے خدا کا منصوبہ یا مقصد یہ ہے کہ جوڑی بدن اور غرض و غایت میں ایک ہوں اور شرمائیں نہیں۔ اِس سے اعلی' اور بلند تر سطح پر انسان کے لئے خدا کا مقصد یہ تھا کہ وہ بے جھجک ہو کر اُس (خدا) کے ساتھ روحانی طور سے ایک ہو کر ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہیں۔

بنی نوع انسان کو فرمانروائی بخشی گئی

خدا عورت کو مرد (آدم) کے پاس لے آیا اور اُسے دے دی تو وہ اُن دونوں سے براہِ راست اور روبرو باتیں کیا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اُن پر دیدنی طور سے ظاہر ہوتا تھا کیونکہ بائبل مقدس کہتی ہے کہ خداوند خدا ” باغ میں پھرتا تھا “ (پیدائش ٣: ٨ )۔

اب تصور کریں کہ خدا آدم اور اُس کی بیوی کو ایک اونچے پہاڑ پر لے گیا جہاں سے وہ اپنے خالق کی کائنات کو اپنی اصل (بگاڑ سے پہلے کی) اور شاندار صورت میں دیکھ سکتے تھے۔

” اور خدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔ اور خدا نے کہا کہ دیکھو مَیں تمام رُوئے زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُس کا بیج دار پھل ہو تم کو دیتا ہوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں “ (پیدائش ١: ٢٨ ، ٢٩ )۔

  آدم (اَدمہ) انسان یا آدمی کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کے لغوی معنی ہیں ” لال مٹی “ اِس لئے کہ وہ مٹی سے بنایا گیا تھا۔ ” حوا “ کا مطلب ہے ” زندگی “ کیونکہ وہ سب زندوں کی ماں ہے (پیدائش ٣: ١٩ ۔ ٢٠ )۔

خدا نے آدم اور حوا کو اور اُن کی نسل کو اپنی مخلوقات کا نگران بنا دیا۔ اُس نے اُنہیں انسانی نسل کا ” آغاز کار جوڑا “ ہونے کا اعزاز اور ذمہ داری عطا کی۔ اُس نے اُنہیں کُل مخلوقات پر حکمرانی دی۔ حکمرانی کا مطلب ہے ” اختیار “ یا تسلط۔ آدم اور حوا اور اُن کی اولاد کو زمین سے استفادہ کرنا، اُس کی نگہداشت کرنا، اُس سے خوشی حاصل کرنا اور اُس پر حکمران ہونا تھا۔ اُنہیں زمین کو استعمال کرنا تھا۔ اُسے ناجائز یا غلط استعمال نہیں کرنا تھا۔

خالق کا ایک مقصد تھا اور اُس نے کائنات اِس طرح بنائی کہ انسانوں کے ساتھ ہم آہنگ رہے۔ شروع میں زمین تعاون کرتی تھی اور جو کچھ انسان چاہتا تھا یا جس کی اُسے ضرورت ہوتی تھی وہ مہیا کرتی تھی۔ آدم اور حوا کو کبھی فکر نہیں ہوتی تھی کہ ہمارا اگلے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا۔ بس اِتنا ہی کرنا ہوتا تھا کہ بے شمار قسموں کے پھلوں کے درختوں میں سے کسی کی طرف ہاتھ بڑھا کر کوئی لذیذ اور رسیلا پھل توڑیں اور کھا لیں۔ سخت زمین، جڑی بوٹیوں، کانٹوں، بیماری اور موت کا نام و نشان نہ تھا۔ کائنات کا کونا کونا آدم اور حوا کے ماتحت تھا۔ انسان کو تسلط حاصل تھا۔

کائنات اُس وقت تک آدم (انسان) کی اطاعت گزار رہتی جب تک آدم خدا کا اطاعت گزار رہتا۔

خدا اور آدم (انسان) کا ساتھ

شروع ہی سے خدا چاہتا تھا کہ انسان میرے ساتھ گہری اور میٹھی رفاقت رکھیں۔ اِسی لئے اُس نے آدم اور حوا کو دماغ اور دل (عقل اور جذبات) دیئے جن سے وہ اُسے جانیں اور سمجھیں اور اُس سے محبت رکھیں۔ اور انتخاب اور فیصلہ کرنے کی اِستعداد دی جس سے وہ فیصلہ کرے کہ وہ اُس (خدا) پر توکل رکھے گا یا نہیں اور اُس (خدا) کی فرماں برداری کرے گا یا نہیں۔ انتخاب کا عنصر نہایت ہی ضروری تھا اِس لئے کہ سچی محبت اور وفاداری جبراً حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کل اختیار کا مالک خداوند آدم اور حوا کو اپنے انتخاب، اپنے چناؤ کا ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہرانا چاہتا تھا۔

آپ یہ بات سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ اگرچہ کائنات کے خالق اور مالک کو کسی چیز کی ضرورت نہیں، تاہم وہ قطعی طور پر رشتے اور تعلق کا خدا ہے۔

جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں جانیں اور ہم سے محبت رکھیں اُسی طرح خدا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کو مَیں نے خود خلق کیا ہے وہ مجھے جانیں اور مجھ سے محبت رکھیں۔ یہ خواہش اُس کی ازلی ذات کا حصہ ہے کہ جن کو اُس نے ” اپنی صورت پر “ بنایا ہے اُن کے ساتھ دلی لگاؤ اور دلی دوستی ہو۔

مَیں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ” مَیں خدا کا غلام (بندہ) ہوں اِس کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ “ ہم مانتے ہیں کہ جیسے کوئی مستعد نوکر اپنے مالک کی خدمت کرتا ہے ویسے ہی اپنے خدا کی خدمت اور عبادت کرنا بہت بڑا اعزاز ہے۔ مگر پاک کلام واضح کرتا ہے کہ خدا کا ہرگز ارادہ نہ تھا (نہ ہے) کہ انسان اُس کا غلام ہو، بلکہ یہ کہ اُس کا بیٹا ہو۔ ” ۔۔۔اب تُو غلام نہیں بلکہ بیٹا ہے “ (گلتیوں ٧:٤ )۔ ” ۔۔۔غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا، بیٹا ابد تک رہتا ہے “ (یوحنا ٨: ٣٥)۔ خدا انسانی الفاظ اور انداز سے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جو اُس پر توکل رکھتے ہیں اُن سب کے لئے اُس کا کیا منصوبہ ہے:

” مَیں تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے “ (٢۔کرنتھیوں ٦: ١٨ )۔

صرف اِتنا ہی نہیں کہ خدا ہمارے لئے اپنی محبت کو اُس محبت کے مشابہ ٹھہراتا ہے جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے بلکہ ہمارا خالق ایک اَور سطح کی تشبیہ استعمال کرتا ہے۔ وہ انسانوں کے لئے اپنی محبت کو اُس محبت کے مشابہ ٹھہراتا ہے جو شوہر کو اپنی محبوب دُلھن سے ہوتی ہے۔

” ۔۔۔خداوند فرماتا ہے تب وہ مجھے اِیشی (میرا شوہر) کہے گی اور پھر بعلی (میرا مالک) نہ کہے گی ۔۔۔ اور تجھے اپنی ابدی نامزد کروں گا۔ ہاں، تجھے صداقت اور عدالت اور شفقت و رحمت سے اپنی نامزد (منگیتر) کروں گا۔ مَیں تجھے وفاداری سے اپنی نامزد بناؤں گا اور تُو خداوند کو پہچانے گی “ (ہوسیع ٢: ١٦ ، ١٩، ٢٠ )۔

آپ اِس دنیا میں دو افراد کے درمیان نہایت آسودگی بخش رشتے کا تصور کریں اور پھر اِس بات پر غور کریں۔ خدا اپنے ساتھ جو رشتہ قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے وہ اِس دنیا میں انساںوں کے درمیان ممکنہ طور سے کسی بھی بہترین رشتے سے زیادہ اور بے انتہا دلکش ہے۔

خدا کے ساتھ ذاتی اور شخصی رشتہ قائم کئے بغیر آپ کی زندگی ادھوری، نامکمل اور بے سکون رہے گی۔ دنیاوی دولت کے انبار، دنیاوی عیش و عشرت، جاہ و مرتبہ، ناموری، دوست احباب یا دعائیں آپ کی روح کے خلا کو پُر نہیں کر سکتے۔ آپ کے دل کے خالی کمرے کو جسے خدا نے اپنے لئے بنایا ہے صرف خدا ہی آباد کر سکتا ہے۔

” کیونکہ وہ ترستی جان کو سیر کرتا ہے اور بھوکی جان کو نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے “ (زبور ١٠٧ : ٩)۔

یہ نکتہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واحد حقیقی خدا مذہبی رسومات سے خوش نہیں ہوتا بلکہ اُن لوگوں کے ساتھ سچے رشتے سے خوش ہوتا ہے جو اُس پر ایمان اور بھروسا رکھتے ہیں۔

مختلف سطحوں پر خدا جن رشتوں سے راضی اور خوش ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا وہ ہے اُس کا

  • خود اپنے ساتھ رشتہ: ازل سے ابد تک ازلی باپ، ازلی بیٹا اور ازلی روح القدس باہمی رشتے اور  محبت میں منسلک ہیں۔ مثال کے طور پر پاک صحائف میں بیان ہوا ہے کہ بیٹا باپ سے کہتا ہے ” ۔۔۔ تُو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی “ (یوحنا ١٧ : ٢٤ )۔
  • فرشتوں کے ساتھ رشتہ: اُس نے فرشتے خلق کئے تاکہ اُسے جانیں، اُس سے محبت رکھیں اور اُس کے مہیب جلال کی ہمیشہ تعریف و تحسین کرتے رہیں۔ ” خدا کے سب فرشتے اُسے سجدہ کریں “ (عبرانیوں ١: ٦)۔
  • انسانوں سے محبت : خدا نے انسانوں کو خلق کیا تاکہ کسی دن اپنے خالق سے فرشتوں سے بھی زیادہ قریبی رفاقت رکھیں۔ داؤد بادشاہ لکھتا ہے ” جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دست کاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تُو نے مقرر کیا غور کرتا ہوں تو پھر انسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے اور آدم زاد کیا ہے کہ تُو اُس کی خبر لے؟ کیونکہ تُو نے اُسے خدا سے کچھ ہی کمتر بنایا اور جلال اور شوکت سے اُسے تاجدار کرتا ہے “ (زبور ٨: ٣ ۔٥ )۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہے۔ لیکن ضرور تھا کہ پہلے انسان آزمایا جائے۔

ساتواں دن — کائنات کی تخلیق کا کام پورا ہوا

تخلیقِ کائنات کا بیان ایک اہم معلومات کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے:

” ... اور خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے اور شام ہوئی اور صبح ہوئ۔ سو چھٹا دن ہوا۔ سو آسمان اور زمین اور اُن کے کل لشکر کا بنانا ختم ہوا۔ اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن فارغ ہوا “ (پیدائش ١: ٣١؛ ٢ : ١، ٢)۔

خدا کا خلق کرنے کا کام پورا ہوا۔ اب وقت تھا کہ جو کچھ اُس نے بنایا، اُس پر خوش ہو۔ خدا نے ساتویں دن آرام کیا (عبرانیوں ٤:٤ ) لیکن اِس لئے نہیں کہ وہ تھک گیا تھا۔ وہ قائم بالذات جس کا نام ” مَیں ہوں “ ہے کبھی نہیں تھکتا (یسعیاہ ٤٠ :٢٨ )۔ خدا نے آرام کیا یعنی کام کرنا بند کر دیا کیونکہ اُس کا تخلیق کا کام مکمل ہو گیا تھا۔ خداوند خدا مطمئن ہو گیا، کیونکہ ہر ایک چیز کامل تھی۔

ایک کامل دنیا کا تصور کریں جس میں دو کامل انسان رہتے تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا تھا کہ اپنے کامل خالق کے ساتھ روز افزوں دوستی سے لطف اندوز  ہوں۔ شروع میں ہمارے کرہ ارضی کا یہ حال تھا، یہ کیفیت تھی!

واۓ افسوس! کہ یہ قدیم زمین آج کامل نہیں رہی۔ بُرائی اور بداخلاقی، دکھ درد اور غم، مفلسی اور بھوک، نفرت و عداوت، ظلم و تشدد، بیماری اور موت کی بھرمار ہے۔

خدا کی کامل دنیا کو کیا ہوا؟ یہ کہانی کے اگلے حصے میں بتایا جاۓ گا۔

۱۱
گناہ کا داخلہ

داؤد بادشاہ کہتا ہے:

” اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر ... اے خداوندکے فرشتو! اُس کو مبارک کہو۔ تم جو زور میں بڑھ کر ہو اور اُس کے کلام کی آواز سن کر اُس پر عمل کرتے ہو۔ اے خداوند کے لشکرو! سب اُس کو مبارک کہو۔ تم جو اُس کے خادم ہو اور اُس کی مرضی بجا لاتے ہو۔ اے خداوند کی مخلوقات! سب اُس کو مبارک کہو، تم جو اُس کے تسلط کے سب مقاموں میں ہو... “ (زبور ١٠٣ : ٢، ٢٠ ۔ ٢٢ )۔

انسانوں کو بنانے سے پہلے خدا نے روحانی ہستیوں کا بے شمار لشکر خلق کیا تھا جنہیں ” فرشتے “ کہا جاتا ہے۔ خدا نے اُنہیں اپنی حمدوستائش کرنے کے لئے بنایا تھا۔ یہ سب اُس کے ” آسمانی لشکر “ ہیں۔ وہ اِس مقصد سے بنائے گئے کہ اپنے خالق اور مالک کو جانیں، اُس سے شادمان ہوں، ہمیشہ تک اُس کی خدمت اور عبادت کریں اور اُس کی ستائش کریں۔ خدا نے فرشتوں کو اِس لئے خلق نہیں کیا کہ وہ جانوروں کی طرح ہوں جو اپنی جبلت کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں۔ جیسے انسانوں کو ویسے ہی فرشتوں کو بھی خدا نے اخلاقی ذمہ داری کا احساس بخشا کہ وہ اپنے لئے فیصلہ کریں کہ ہم خدا کے حکم کی تعمیل کریں گے یا نہیں، اُس کی مرضی بجا لائیں گے یا نہیں اور اُس کی حمد و ستائش کریں گے یا نہیں۔

روشن ہستی

سب سے طاقتور اور معزز روحانی ہستی کا نام ” لوسیفر “ تھا۔  اِس نام کا مطلب ہے ” روشن یا چمک دار۔ “ اِس چمک دار فرشتے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ” خاتم الکمال، دانش سے معمور اور حسن میں کامل ہے “(حزقی ایل ٢٨ : ١٢ )۔ اور یہ بھی کہ ” اے صبح کے روشن ستارے تُو کیونکر آسمان پر سے گر پڑا! اےقوموں کو پست کرنے والے تُو کیونکر زمین پر پٹکا گیا؟ “ (یسعیاہ ١٤ : ١٢ )۔

عبرانی متن میں یہ نام ” لوسیفر “ جس کا مطلب ہے ” روشنی کا حامل “ موجود نہیں ہے۔ یہ عبرانی زبان کے لفظ ” ہلیل “ ( helel ) کا لاطینی میں ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے ” چمک دار ہستی “ ۔ یسعیاہ باب ١٤ اور حزقی ایل باب ٢٨ دہری وضاحت کے اصول کی مثال پیش کرتے ہیں۔ سطحی طور پر تو یہ عبارتیں دنیاوی بادشاہوں کا بیان کرتی ہیں۔ یسعیاہ کا اشارہ ” بابل کے بادشاہ “ کی  طرف ہے اور حزقی ایل ” صور کے حکمران “ کی بات کرتا ہے۔ تاہم دونوں عبارتوں میں ایسے بیانات موجود ہیں جن کا اطلاق محض انسانوں پر نہیں ہو سکتا۔ انہیں پاک کلام کے دوسرے حوالوں کی روشنی میں دیکھا جائے (لوقا ١٠ : ١٨ ؛ ایوب ١: ٦ ۔ ١٢ ؛ مکاشفہ ١٢ : ١٠ ؛ ١۔پطرس ٥ : ٨ وغیرہ) تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عبارتیں شیطان کے تنزل یعنی گرائے جانے کی تفصیل بیان کرتی ہیں، جس نے اِن شریر بادشاہوں کو اُکسایا اور اُبھارا۔

خدا  نے پوری تفصیل تو ظاہر نہیں کی مگر یہ معلوم ہو گیا ہے کہ شرارت، بُرائی یا گناہ اور ادھورا پن اِسی شاندار ملکوتی ہستی (فرشتہ) کے ذریعے سے کائنات میں داخل ہوا تھا۔

خدا لوسیفر کے بارے میں کہتا ہے:

        ” تُو اپنی پیدائش ہی کے روز سے اپنی راہ و رسم میں کامل تھا جب تک کہ تجھ میں ناراستی نہ پائی گئی ... تیرا دل تیرے حسن پر گھمنڈ کرتا تھا ... “ (حزقی ایل ٢٨ : ١٥ ، ١٧ )۔ ” تُو تو اپنے دل میں کہتا تھا

مَیں آسمان پر چڑھ جاؤں گا۔

مَیں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اونچا کروں گا اور

مَیں شمالی اطراف میں جماعت کے پہاڑ پر بیٹھوں گا۔

مَیں بادلوں سے بھی اوپر چڑھ جاؤں گا۔

مَیں خدا تعالی' کی مانند ہوں گا “ (یسعیاہ ١٤ : ١٣ ،١٤ )۔

خدا کی حمد و ستائش اور فرماں برداری کرنے کی بجاۓ لوسیفر نے پانچ بار کہا ” مَیں ... گا۔ “ وہ خدا تعالی' کی مانند ہونا چاہتا تھا۔

اُس کے حسن و جمال اور ذہانت اور عقل نے اُسے اندھا کر دیا۔ وہ بھول گیا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ سب کچھ دینے والا ” کون “ ہے۔ یہ فرشتہ خود فریبی میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ مَیں خدا سے زیادہ عقل مند ہوں۔ وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں کا لشکر خدا کے بجائے میری حمد و ستائش کرے، حالانکہ حمد و ستائش کے لائق  اور اِس کا حق دار صرف خدا ہے۔

لوسیفر نے آسمان کے ایک تہائی فرشتوں کو بھی قائل کر لیا کہ اِس بغاوت میں اُس کے ساتھ شامل ہو جائیں (مکاشفہ ١٢ :٤ )۔

اِس چمک دار (روشن) ہستی نے منصوبہ بنایا کہ خدا کے تسلط کو اُلٹ کر آسمان کے تخت پر خود بیٹھ جاۓ۔

یوں گناہ خدا کی کائنات میں داخل ہو گیا۔

گناہ کیا ہے؟

پاک کلام نے گناہ کا بیان یوں کیا ہے:

  • ” گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے “ (١۔یوحنا ٣: ٤)۔
  • ” ہر طرح کی ناراستی گناہ ہے “ (١۔یوحنا ٥: ١٧ )۔
  •   بھلائی کو جاننا ... مگر بھلائی نہ کرنا گناہ ہے۔ (یعقوب ٤: ١٧ )۔
  •   گناہ ہر طرح کا لالچ یعنی بُری خواہشیں پیدا کرتا ہے (رومیوں ٧: ٨ )۔
  • خدا کے جلال سے محروم ہونا گناہ ہے (رومیوں ٣: ٢٣ )۔

” خدا کے جلال “ سے مراد ہے اُس کی کامل پاکیزگی، قدوسیت اور بے نقص کاملیت۔ ” محروم ہونا “ کا مطلب ہے ” نشانہ خطا ہونا، راست بازی کے مطلوبہ معیار تک نہ پہنچنا۔

خدا کی مقدّس ذات اور کامل مرضی کے مطابق زندگی بسر نہ کرنا گناہ ہے۔

جب بھی کوئی ابدی ہستی، کوئی فرشتہ یا انسان، اپنے آپ کو بڑا بناتا ہے اور خدا کو بزرگی دینے اور اُس کی راہ پر چلنے کے بجاۓ ” اپنی راہ کو پھرتا “ ہے (یسعیاہ ٥٣ : ٦) تو یہ گناہ کی خالص اور صاف شکل ہوتی ہے۔

خدا کے بغیر، خدا سے ہٹ کر سوچنا اور عمل کرنا گناہ ہے۔

یہ راستہ تھا جو لوسیفر اور اُس کے حمایتی فرشتوں نے چنا۔ اپنے خالق پر انحصار کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے اپنے دل میں غرور کیا اور اپنی ہی راہ کو پھرے۔

” ہر ایک سے جس کے دل میں غرور ہے خداوند کو نفرت ہے۔ یقیناً وہ بے سزا نہ چھوٹے گا “ (امثال ١٦ : ٥ )۔

  نفرت بڑا سخت لفظ ہے۔ اِس کا مطلب گھن، کراہت، حد درجہ کی نفرت، بیزاری، وہ شدید منفی احساس جو خدا کو بت پرستی کے خلاف ہوتا ہے۔ خدا کو خود پرستی سے نفرت ہے۔

خدا کے حضور میں گناہ ایسی بدبو ہے جس سے متلی ہونے لگتی ہے، بالکل اُسی طرح جیسے گلی سڑی لاش کی بدبو آپ کو محسوس ہوتی ہے۔ خدا کو فقط ایک گناہ ایسا ناقابلِ قبول ہوتا ہے جیسے آپ کو اپنی چاۓ کی پیالی میں ایک بوند زہر۔ ہم اپنے گھر میں گلی سڑی لاش یا اپنی چاۓ میں ایک بوند زہر کو برداشت نہیں کر سکتے؟

ایسی چیزیں ہماری طبیعت، ہمارے مزاج، ہماری فطرت کے خلاف ہیں۔

گناہ خدا کی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہے۔

” اے خداوند میرے خدا! اے میرے قدوس! کیا تُو ازل سے نہیں ہے؟ ... تیری آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ تُو بدی کو دیکھ نہیں سکتا اور کج رفتاری پر نگاہ نہیں کر سکتا... “ (حبقوق ١: ١٢، ١٣ )۔

شیطان، شیاطین (بدروحیں) اور جہنم

چونکہ لوسیفر نے خدا کے جلال پر ڈاکا ڈالنا اور اُس کے اختیار پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہا اِس لئے خدا نے اُسے آسمانوں کے آسمان میں اُس کی جگہ سے نکال دیا۔ اُس کے ساتھ اُن فرشتوں کو بھی نکال دیا جو اُس کا ساتھ دے رہے تھے۔ لوسیفر کا نام بدل کر شیطان رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے ” مخالف “ یا ” حریف “ ۔ اُس کا نام ابلیس بھی ہے جس کا مطلب ہے ” الزام لگانے والا “ ۔ گنہگار فرشتے یعنی جو فرشتے گراۓ گۓ تھے وہ ” بدروحیں “ یا ” شیاطین “ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں یہ نام سیدھا سادہ مفہوم رکھتے ہیں، لیکن اصل زبان یعنی عبرانی میں جو نام استعمال ہوا ہے اُس کے ایک معنی ہیں ” جاننے والے “ ۔

ابلیس اور اُس کے ساتھی شیاطین جانتے ہیں کہ خدا کون ہے اور اُس کے سامنے کانپتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ اُسے نیچا دکھانے اور شکست دینے کی پوری پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔

لیکن وہ ہرگز کامیاب نہ ہوں گے۔

بائبل مقدس نے بتا دیا ہے کہ خدا نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے جب شیطان اور اُس کے ساتھی شیاطین ” ہمیشہ کی آگ میں “ ڈالے جائیں گے جو ” اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے “ (متی ٢٥ : ٤١ )۔ یہ ” ہمیشہ کی آگ “ ایک اصلی جگہ ہے جہاں خدا اُن ساری چیزوں کو جو اُس کی پاک ذات کے ساتھ موافقت نہیں رکھتیں ہمیشہ کے لئے بند کر دے گا۔

نئے عہدنامے میں یونانی زبان کا ایک لفظ ہے جو سزا کی اُس جگہ کا بیان کرتا ہے جہاں شیطان کا ساتھ دینے والوں کو ڈال دیا جائے گا۔ یہ لفظ ہے جی ہِنّا ( gehenna )  جس کا ترجمہ جہنم کہا جاتا ہے (متی ٥: ٢٩ ؛ ١٠ : ٢٨ ؛ ٢٣ : ٣٣ ؛ مرقس ٩ : ٤٣ ۔ ٤٥ )۔ اِس لفظ کے لغوی معنی ہیں ” کوڑے کا جلتا ہوا ڈھیر۔ “

سینیگال میں ہماری رہائش گاہ کے قریب ہی کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ تھی۔ وہاں کوڑے کا ڈھیر اکثر سُلگتا اور جلتا رہتا تھا کیونکہ آس پاس رہنے والے لوگ بدبو اور تعفن سے بچنے کے لئے آگ لگا دیتے تھے کہ سب کچھ جل جائے۔ ہر نکمی اور بے کار چیز آگ میں پھینک دی جاتی تھی۔

” جہنم “ خدا کی کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ ہے۔ خدا نے اُن مُردوں کو جو اپنے گناہوں میں مرتے ہیں فی الحال وہاں رکھا ہوا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب شیطان، اُس کے شیاطین (فرشتے) اور جہنم میں رکھے ہوئے سب لوگ عذاب کی آخری جگہ میں ڈالے جائیں گے۔ یہ جگہ ہے ” آگ اور گندھک کی جھیل “ (مکاشفہ ٢٠ : ١٠ ۔١٥ )۔

گناہ  خدا کی کائنات کو ہمیشہ تک خراب اور گندہ نہیں کرتا رہے گا۔

شیطان کا نصب العین

شیطان اور اُس کے شیاطین (بدروحیں) فی الحال آگ کی جھیل میں نہیں ہیں، بلکہ وہ اِس دنیا میں اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ بائبل مقدس شیطان کا بیان یوں کرتی ہے کہ وہ ” ہوا کی عمل داری کا حاکم ہے۔ “ وہ ایک ” روح ہے جو اَب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے “ (افسیوں ٢:٢)۔

یہ بات سمجھنا اور یاد رکھنا ضروری ہے کہ شیطان اگرچہ طاقتور ہے، لیکن وہ لامحدود طاقت نہیں رکھتا۔ وہ مخلوق ہستی اور مزید یہ کہ وہ برگشتہ ہے۔ شیطان کا خداوند خدا سے کوئ مقابلہ نہیں۔ شیطان کو ” اِس جہان کا خدا “ کہا گیا ہے۔ اُس کا نصب العین یہ ہے کہ لوگوں کو واحد حقیقی خدا کو جاننے سے روکے اور وہ مقصد پورا نہ کرنے دے جس کے لئے وہ خلق کئے گئے ہیں۔

” اگر ہماری خوش خبری (نجات کے لئے خدا کی اچھی خبر) پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے، یعنی اُن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اِس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوش خبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے “ (٢۔کرنتھیوں ٤: ٣، ٤ )۔

شیطان کا نصب العین کیا ہے؟ وہ عقلوں کو اندھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ خدا کا پیغام سن اور سمجھ نہ سکیں۔ وہ خدا کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ شیطان یہ جنگ جیت نہیں سکتا، مگر وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ جتنے لوگوں کو ممکن ہو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے۔ وہ اُمید رکھتا ہے کہ آپ کو بھی اُن میں شامل کر لے گا۔

شیطان جانتا تھا کہ آدم اور حوا کو خدا کا جلال ظاہر کرنے اور خوشی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اِس لئے شیطان نے اُس رفاقت کو بگاڑنے اور ختم کرنے کی سازش کی جو خدا اور انسان کے درمیان موجود تھی۔ بے شک خداوند خدا ” دلوں کے بھید جانتا ہے “ (زبور ٤٤ : ٢١ )۔ وہ ابلیس کے سارے منصوبے اور چالوں کو جانتا تھا اور یہ بھی کہ کیا ہونے والا ہے۔

خدا کا اپنا بھی ایک منصوبہ تھا۔

ایک اُصول

خدا نے انسان کو آزادی دی تھی کہ چاہے تو اپنے خالق سے محبت رکھے یا نہ رکھے، اُس کی حمد و ستائش کرے یا نہ کرے، اُس کا حکم مانے یا نہ مانے۔ سچی محبت جبراً نہیں کرائی جا سکتی، نہ مشین کے پُرزے کی طرح پہلے سے دل میں ڈالی جا سکتی ہے۔ محبت میں انسان کی عقل، دل اور مرضی شامل ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ خدا اپنی پوری کائنات کا مطلق العنان بادشاہ ہے، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اُس نے انسان کو ابدی نتائج کی حامل باتوں کے انتخاب کا بھی ذمہ دار بنایا ہے۔

عورت کو پیدا کرنے سے پہلے خدا نے آدم (مرد) کو ایک حکم دیا تھا۔ چونکہ آدم (مرد) کو انسانی نسل کا سردار ہونا تھا اِس لئے خدا نے اُس کے سامنے ایک آزمائش رکھی۔

” ... اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٦ ، ١٧ )۔

غور کریں کہ خدا کی ہدایات بالکل سادہ اور صاف تھیں۔ آدم باغ کے سارے درختوں کے لذیذ پھل بے روک ٹوک کھا سکتا تھا، سوائے ایک درخت کے۔ خدا نے آدم کو بتا دیا کہ نافرمانی کرے گا تو کیا ہو گا، ” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔ “

اِس لکیر، اِس حد سے آگے بڑھنا، اِسے پار کرنا خلاف ورزی ہو گا۔ اِسی کو گناہ کہتے ہیں۔ خلاف ورزی ” گناہ “ کے لئے ایک اَور اصطلاح یا لفظ ہے۔ جہاں تک لوسیفر کا معاملہ ہے، کائنات کے خداوند کے خلاف بغاوت کرنے کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔

پہلا انسان (آدم) اگرچہ کامل تھا لیکن وہ کامل طور سے بالغ نہ تھا۔ اِس ایک اصول کے ساتھ انسان (آدم) کو موقع دیا گیا کہ اپنے خالق کے ساتھ رفاقت اور رشتے میں ترقی کرے۔ خدا چاہتا تھا کہ آدم ایک شکرگزار اور محبت بھرے دل سے میرا حکم مانے، میری فرماں برداری کرنے کا فیصلہ کرے۔ خدا نے انسان کے لئے جو کچھ کیا تھا اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا، یہ حکم ماننا آسان ہونا چاہئے تھا۔

ذرا غور کریں۔ خدا نے آدم کو بدن، جان اور روح دیئے تھے۔ اُس نے آدم کو یہ برکت دی تھی کہ اپنے خالق کی پاک اور محبت بھری ذات کو منعکس کرے۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ خدا نے اُسے ایک شاندار باغ میں رکھا تھا اور اُسے ہر سہولت فراہم کر دی تھی کہ اُس کی زندگی سراپا خوشی اور آسودگی ہو۔ خدا نے اُسے ذمہ دارانہ انتخاب کرنے کی استعداد اور آزادی بھی عطا کی تھی۔ خدا نے اُسے ایک دلربا اور خوبصورت بیوی بھی دی تھی اور اِس دنیا کی نگہداشت بھی اُن کو سونپ دی تھی۔ سب سے اعلی' بات یہ تھی کہ خدا خود باغ میں آتا تھا اور آدم اور حوا کے ساتھ سیر کرتا اور باتیں کرتا تھا۔ خدا نے اُنہیں موقع دیا تھا کہ اپنے خالق اور مالک کو جانیں — دنیا ہر لحاظ سے کامل تھی۔

پھر ایک دن سانپ نے آ شکل دکھائی۔

” کیا واقعی خدا نے کہا ہے؟ “

پیدائش کی کتاب کے تیسرے باب میں انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ المناک اور دُور رس نتائج کا حامل واقعہ درج ہے۔

ایک دن جب آدم اور حوا ممنوعہ درخت کے آس پاس ہی تھے کہ شیطان سانپ کے مکار بھیس میں اُن کو دکھائی دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ شیطان ہی تھا کیونکہ ایک موقعے پر بائبل مقدس نے اُس کی شناخت کرائی ہے ” ...وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے... “ (مکاشفہ ١٢ : ٩)۔

خدا نے بنی نوع انسان کے لئے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اِسی طرح شیطان نے بھی ایک منصوبہ بنایا۔

” اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا۔ اور اُس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ “ (پیدائش ٣: ١)۔

شیطان نے مرد سے نہیں بلکہ عورت سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا آپ نے غور کیا کہ اُس نے عورت سے پہلے کیا بات کہی؟

            ” کیا واقعی خدا نے کہا ہے...؟ “

شیطان چاہتا تھا کہ حوا خدا کی بات کا یقین نہ کرے۔ وہ چاہتا تھا کہ حوا خدا کی حکمت اور اُس کے اختیار پر اعتراض کرے۔ اُس نے حوا کا حوصلہ بڑھایا کہ اپنے خالق کو چیلنج کرے جیسے خود اُسے لوسیفر نے کہا تھا۔ آج تک ابلیس سچائی کے خلاف لڑ رہا ہے کیونکہ سچائی اُس نہتا کر دیتی ہے۔ اُسے غیر معتبر ثابت کرتی ہے اور سچائی سے اُس کی بدنامی اور رُسوائی ہوتی ہے۔ جیسے روشنی تاریکی کو دُور کر دیتی ہے، اُسی طرح خدا کا کلام شیطان کے فریب کو ظاہر اور دُور کر دیتا ہے۔

شیطان نے حوا کے دل میں خدا کی بھلائی اور نیکی کے بارے میں شک پیدا کر کے خدا کی ذات اور صفات پر بھی حملہ کیا۔

            ” کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ “

شیطان نے خدا کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ خدا کی بات کا مطلب بدل دیا۔ گویا اُن کا فراخ دل اور فیاض خالق جس نے اُنہیں زندگی دی اور سوائے ایک درخت کے سارے درختوں کے پھل کھانے کی آزادی دی وہ اُنہیں قطعی اور انتہائی بھلائی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔

” تم ہرگز نہ مرو گے! “

” عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں، پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤ گے۔ “

” تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے، بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے “ (پیدائش ٣: ٢۔ ٥)۔

شیطان چاہتا تھا کہ حوا صرف خدا کی بات پر  ہی شک نہ کرے بلکہ خدا کی راستی پر بھی شک کرے اور سوچے کہ اگر مَیں نے ممنوعہ پھل کھا لیا تو خدا واقعی سزائے موت نہیں دے دے گا۔

خدا نے تو بالکل واضح کر دیا تھا:

” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا! “ (پیدائش ٢: ١٧ )

شیطان نے اُس کی تردید کی اور کہا ” تم ہرگز نہ مرو گے۔ “

شیطان کا بنیادی طریقہ کار نہیں بدلا ہے۔ وہ خدا کے پیغام کو توڑتا مروڑتا اور اِس کی تردید کرتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کے کلام، اُس کی بھلائی اور راستی پر شک کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کا بالکل اعتبار نہ کریں، اور سمجھیں کہ خدا وہ ہے ہی نہیں جو ہونے کا دعوی' کرتا ہے۔

نہایت مذہب پرست ابلیس

شیطان کو دین دار یا مذہب پرست بننا بہت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دس ہزار سے زیادہ مختلف مذاہب ہیں۔ غور کریں کہ شیطان خدا کی طرف سے بولنے کا کیسا فریب کرتا ہے اور حوا سے کہتا ہے ” خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔ “

شیطان خدا کا بہروپ بھرنا بھی بہت پسند کرتا ہے۔ وہ خدا کی سچائی میں اپنے جھوٹ کی ملاوٹ کرنے کا ماہر ہے۔ وہ زبردست جعل ساز، بہروپیا اور نقال ہے۔ اِس دنیا میں جو نہایت بے تکے اور اُوٹ پٹانگ عقیدے یا مذہبی نظام ہیں اُن میں بھی سچائی کا تھوڑا سا رنگ موجود ہے، اِسی لئے تو لوگ اُن پر ایمان لے آتے ہیں۔ ہم عربی کی ضرب المثل پھر یاد دلاتے ہیں، ” خبردار بعض جھوٹے بھی سچ بولتے ہیں۔ “

ایک جعلی مذہب شروع کرنے کی اپںی پہلی کوشش میں شیطان نے حوا سے کہا ” تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے “ تو اُس نے جھوٹ بولا کیونکہ جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ خدا کی مانند نہیں بلکہ شیطان کی مانند بن جاتا ہے جو خدا کے اختیار کو غصب کرنا چاہتا ہے۔ البتہ جب شیطان نے کہا ” تم نیک و بد کو جاننے والے بن جاؤ گے “ تو یہ سچ بولا، لیکن اُس نے اُنہیں اُس تلخی، دکھ اور موت کے بارے میں نہ بتایا جو اِس علم کے ساتھ ساتھ آئیں گے۔

غور کریں کہ شیطان نے ” خداوند “ کے بارے میں بات کرتے ہوئے خدا کا اصل یا ذاتی نام استعمال کیا۔ شیطان اِس بات سے بہت راضی رہتا ہے کہ آپ واحد خدا پر ایمان تو رکھیں، لیکن اُسے کہیں دُور اور ناقابلِ ادراک مانیں۔

” تُو اِس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔ خیر، اچھا کرتا ہے۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں “ (یعقوب ٢: ١٩ )۔

ابلیس اور اُس کے شیاطین (فرشتے) سب توحید پرست ہیں اور قادرِ مطلق خدا کے حضور تھرتھراتے ہیں۔ اِس نکتے پر تفصیلی بات چند ابواب کے بعد ہو گی اور آپ ہکا بکا رہ جائیں گے۔ شیطان اور برگشتہ فرشتے جانتے ہیں کہ حقیقی خدا صرف ایک ہی ہے، لیکن، وائے افسوس کہ اُس سے سخت عداوت رکھتے اور نفرت کرتے ہیں!

وہ نہیں چاہتے کہ آپ اپنے خالق مالک کو جانیں، اُس سے محبت رکھیں، اُسے سجدہ کریں، اُس کی عبادت کریں اور اُس کی فرماں برداری کریں۔

فیصلہ

اب وہ لمحہ آ گیا تھا کہ آدم اور حوا فیصلہ کریں کہ ہم اپنے محبت کرنے والے خداوند کی بات مانیں یا اپنے سب سے بڑے اور جانی دشمن کی بات مانیں۔

فتح پانے کا گُر تو سامنے تھا — خالق کی حکمت پر اعتماد کریں۔ کیسا آسان! آدم اور حوا کو صرف اِتنا ہی کرنا تھا کہ اپنے خدا کے الہامی اور بے خطا کلام کو دہرا دیتے اور کہتے ” خداوند خدا نے ہمیں حکم دیا ہے 'تُو ... نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا'۔ ہم اِس کا پھل نہیں کھائیں گے۔ “ بس!

آدم اور حوا اپنے خدا کی بے تبدیل بات — بے تبدیل کلام — پر ثابت قدم رہتے تو آزمانے والا بھاگ جاتا۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔

” عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا ہے اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا “ (پیدائش ٣: ٦)۔

            عورت نے کھایا — مرد نے کھایا۔

اپنے پاک اور محبت کرنے والے خالق کی مرضی اور حکم کی اطاعت کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے خدا کے دشمن کی اطاعت کی۔ وہ خلاف ورزی کر کے ممنوعہ علاقے میں چلے گۓ۔

آدم نے ممنوعہ پھل چکھا تو نتائج فوراً سامنے آ گۓ۔

” تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُن کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں۔ اور اُنہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی۔ اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا “ (پیدائش ٣: ٧ ، ٨)۔

اب فرق ملاحظہ کریں۔ جب خداوند اُن سے ملنے آیا تو خوش ہونے کے بجائے اُن پر خوف اور شرمندگی طاری ہو گئی۔

یہ انسان جو خدا سے گہرا تعلق اور بے تکلف رفاقت رکھتے تھے کس بات نے اُنہیں مجبور کیا کہ اپنے محبت کرنے والے خداوند سے دُور بھاگیں؟ اُنہوں نے کیوں سوچا اور تصور کیا کہ ہم اپنے سب کچھ دیکھنے والے خالق سے چھپ سکتے ہیں؟ ہمارے پہلے والدین نے کیوں محسوس کیا کہ ہمیں اپنے بدنوں کو پتوں سے ڈھانپنے اور چھپانے کی ضرورت ہے؟

اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔

Pages