February 2014

۱۲
گناہ اور موت کا قانون
یسوع ناصری نے فرمایا ” جو کوئی گناہ کرتا ہے گناہ کا غلام ہے “ (یوحنا ٨: ٣٤ )

آدم اور حوا نے اپنے خالق و مالک کی حکم عدولی کی۔ جیسے خدا کے ساتھ شیطان کا رشتہ ٹوٹ گیا تھا اُسی طرح خدا کے ساتھ اُن دونوں کا رشتہ بھی ٹوٹ گیا اور وہ گناہ کے غلام ہو گئے۔ اُن بچوں کی طرح جنہوں نے اپنے باپ کے واضح حکم کو نہ مانا اُسی طرح اب آدم اور حوا اُس ہستی کے پاس نہیں آنا چاہتے جو اُن سے محبت رکھتا تھا اور اُن کی نگہداشت اور پرورش کرتا تھا۔ خوشی اور اعتماد کے جذبے کی جگہ خوف، ڈر، گندگی، پلیدی اور شرمندگی کا جذبہ اُبھر آیا تھا۔

” ... اُںہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا “ (پیدائش ٣: ٨ )۔

گناہ نے آدم اور حوا کو اب گندہ اور نجس کر دیا تھا اِس وجہ سے وہ اپنے خالق اور مالک سے چھپنا چاہتے تھے۔ اُن کے ابھی بیدار ہونے والے شعور یا ضمیر نے اُنہیں نیک اور بد کا احساس دیا تھا۔ اُنہوں نے جبلی طور سے سیکھ لیا کہ صرف پاک لوگ ہی پاک خدا کی حضوری میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ آدم اور حوا اب خدا کے سامنے پاک نہیں رہے تھے، اور وہ اِس بات کو جانتے تھے۔ خدا اور انسان کے درمیان قریبی بندھن ٹوٹ گیا تھا۔

باہمی رشتہ مر گیا تھا۔

ٹوٹی ہوئی ٹہنی

ایک دن مَیں ایک مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے چند آدمیوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ہماری گفتگو کا رُخ گناہ اور موت کے موضوع کی طرف مڑ گیا۔

مَیں نے درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اُن سے پوچھا ” کیا ٹہنی زندہ ہے یا مر گئی ہے؟ “ ایک آدمی نے جواب دیا ” یہ مر رہی ہے۔ “

دوسرے آدمی نے کہا ” یہ مر گئی ہے۔ “

مَیں نے ذرا خفگی سے کہا ” آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مر گئی ہے؟ دیکھو، کیسی ہری اور شاداب ہے! “ اُس نے جواب دیا، ” یہ زندہ دکھائی دیتی ہے، لیکن مر گئی ہے کیونکہ اپنی زندگی کے سرچشمے سے الگ ہو گئی ہے۔ “

مَیں نے جواب دیا، ” بالکل درست! آپ نے موت کا بالکل صحیح بیان کیا جو بائبل مقدس  سے مطابقت رکھتا ہے۔ “ موت، فنا یا نیستی نہیں ہے، بلکہ زندگی کے سرچشمے سے علیحدگی یا جدائی ہے۔ اِسی لئے جب کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو اُس کا بدن دفن کرنے سے پہلے ہی ہم کہتے ہیں ” وہ چلا گیا/ گئی ہے، وہ اِس جہان سے رُخصت ہو گیا / گئی ہے۔ “ ہم یہ بات اِس وجہ سے کہتے ہیں کہ اُس کی روح اُس کے بدن کو چھوڑ گئی ہے، اُس کے بدن سے الگ، دُور ہو گئی ہے۔ موت کا مطلب ہے جدائی، علیحدگی۔

اِس کے بعد مَیں نے اُن آدمیوں کو وہ حکم تفصیل سے بتایا جو خدا نے آدم کو دیا تھا۔ پھر مَیں نے اُن سے پوچھا ” خدا نے آدم سے کیا کہا تھا کہ اگر وہ گناہ کرے گا تو کیا ہو گا؟ کیا اُس نے آدم کو کہا تھا کہ اگر تُو نے ممنوعہ پھل کھایا تو مذہبی رسوم ادا کرنا، دعائیں مانگںا، نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، خیرات دینا اور مسجد یا گرجے میں حاضر ہوا کرنا؟ “

اُنہوں نے جواب دیا، ” نہیں۔ خدا نے کہا تھا کہ آدم مر جائے گا۔ “

” درست، خدا نے واضح کر دیا تھا کہ گناہ کی سزا موت ہو گی۔ مگر آپ بتائیں کہ جب آدم اور حوا نے خدا کی حکم عدولی کی اور ممنوعہ پھل کھایا تو کیا وہ اُسی روز گر پڑے اور مر گئے؟ “

اُنہوں نے جواب دیا ” نہیں “۔

” اچھا، تو خدا نے آدم سے جو کہا تھا ' جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا' تو اِس کا مطلب کیا تھا؟ “

اب مَیں نے اُن لوگوں کو بتایا کہ ” موت “ سے خدا کی کیا مراد ہے۔ انسان نے اپنے خالق کی نافرمانی کرنے کا چناؤ کیا۔ اِس نافرمانی سے سہ رُخی جدائی پیدا ہوئی۔

گناہ کے باعث سہ رُخی جدائی

١۔   روحانی موت: انسان کی روح اور جان کی خدا سے جدائی۔

جس روز آدم اور حوا نے پہلی دفعہ خدا کے خلاف گناہ کیا اُن کی روحانی موت واقع ہو گئی۔ درخت سے ٹوٹی ہوئی ٹہنی (شاخ) کی طرح آدم اور حوا کا خداوند خدا کے ساتھ قریبی اور گہرا رشتہ مر گیا۔ معاملہ اِس سے بھی بدتر ہے۔ آدم اور حوا کی پوری نسل اِس روحانی طور سے مردہ ٹہنی کا حصہ ہیں، اِس میں شامل ہیں۔

” ...آدم میں سب مرتے ہیں... “ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢)۔

سارے لوگ اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کُل بنی نوع انسان آدم کی اولاد یا نسل ہیں۔ مگر بہت سے لوگ پاک صحیفوں کی واضح اور صاف تعلیم کے باوجود اِصرار کرتے ہیں کہ نومولود بچے معصوم یعنی بے گناہ ہوتے ہیں۔

کٹی ہوئی ٹہنی پر ایک دفعہ پھر غور کریں۔

درخت سے جدا ہونے کے نتیجے میں اُس کا کون سا حصہ ” مردہ “ ہے؟ پوری کی پوری ٹہنی مُردہ ہے۔ آخری نوک پر تازہ پھوٹی ہوئ بالکل ننھی سی پتی سمیت — ساری شاخ مُردہ ہے۔ اگر یہ نئی پھوٹی ہوئ ننھی شاخیں، پتیاں اور پتے بول سکتے تو شاید کچھ یوں کہتے: ” ذرا ٹھہریں، ہمارا کوئی قصور نہیں کہ ٹہنی درخت سے ٹوٹ گئ یا توڑی گئی! جو کچھ کسی دوسرے نے کیا اُس سے ہم متاثر نہیں ہوۓ! “ مگر وہ متاثر تو ضرور ہوئے ہیں۔ اِسی طرح خدا کا کلام اعلان کرتا اور کہتا ہے کہ پوری انسانی نسل ” آدم میں “ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اُس جدا ہو چکی اور برگشتہ ” شاخ “ کا حصہ ہے اور ہم سب اِس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ آپ بُرا مانیں یا اچھا مانیں حقیقت یہ ہے کہ آدم نے گناہ کیا تو اُس نے اپنے آپ کو اور آنے والے اپنے پورے خاندان کو آلودہ کر دیا۔

مَیں جس گاؤں میں بیٹھا لکھ رہا ہوں، اُس کو پانی دریاۓ سینیگال سے فراہم کیا جاتا ہے جو کئی کلومیٹر دُور ہے۔ اِس گاؤں میں ایک کنواں بھی ہے، لیکن کوئی شخص اُس کا پانی نہیں پیتا۔ یہ کنواں ” آلودہ “ ہے۔ اِس کا پانی کھارا ہے۔ اِس سے نکالے ہوئے پانی کا ایک ایک قطرہ ” نمک “ سے آلودہ ہے۔ ایک قطرہ بھی خالص نہیں۔

اِسی طرح آدم سے پیدا ہونے والا، اُس کی نسل کا ایک ایک فرد گناہ سے آلودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی طبعی یا فطری طور پر گناہ کرتے ہیں، گناہ اُن کی فطرت کا حصہ ہے۔ اچھا یا نیک بننے کے لئے شعوری کوشش اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے، جبکہ خود غرض، مطلبی اور ضرر رساں بننے کے لئے کوئی خاص کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقدس داؤد نبی واضح کرتا ہے کہ ہم جبلی طور پر گناہ کرتے ہیں:

” دیکھ! مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور مَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا “ (زبور  ٥١ :٥ )۔ ” شریر پیدائش ہی سے کج رَوی اختیار  کرتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی جھوٹ بول کر گمراہ ہو جاتے ہیں “ (زبور ٥٨ :٣)۔ ” وہ سب کے سب گمراہ ہوئے۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں “ (زبور ١٤ :٣ )۔

سینیگال کے وُلوف لوگوں کے پاس کئی بہت اچھی ضرب الامثال ہیں جن سے کئی لوگوں کو یہ سچائی سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ایک کہاوت ہے ” چوہا ایسا بچہ پیدا نہیں کرتا جو مٹی (بل) نہ کھودتا ہو۔ “ اِسی طرح گناہ آلود آدم کوئی بچہ پیدا نہ کر سکا (نہ کر سکتا ہے) جو گناہ نہ کرتا ہو۔

ایک اور ضرب المثل ہے ” وبا خود کو اُسی تک محدود نہیں رکھتی جس نے اُسے شروع کیا۔ “ یہ بات المناک ہے مگر ہے سچی۔ موروثی اور پیدائشی نقص یا وبائی مرض کی طرح آدم کی گناہ کی فطرت ہم سب میں اور ہماری اولاد اور ہماری نسل میں پھیل گئی ہے۔

” پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا “ (رومیوں ٥: ١٢ )۔

شروع کے جملے پر غور کریں ” ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ “ اور پھر آخری جملے کو دیکھیں ” سب نے گناہ کیا۔ “ ہم میں سے ہر ایک پیدائشی گنہگار ہے اور عملاً گنہگار ہے۔ ہم اپنے گناہوں کے لئے آدم کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ پاک کلام کہتا ہے:

” تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کیا “ (یسعیاہ ٥٩ : ٢)۔

جب انسان کی عمر اِتنی ہو جاتی ہے کہ وہ نیکی اور بُرائی میں، درست اور غلط میں امتیاز کر  سکے تو خدا اُسے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتا ہے۔

شیرخوار اور چھوٹے بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ عادل منصف (خدا) اِس کے بارے میں کیا کرے گا (پیدائش ١٨ : ٢٥ )؟ خدا کسی کو اُس بات کے لئے الزام نہیں دیتا جسے وہ شخص سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ لوگوں کو اُس بات کے لئے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتا ہے جسے وہ جانتے ہیں یا خدا کی سچائی کو جاننے کی کوشش کریں تو جان سکتے ہیں (رومیوں ٢: ١١ ۔١٥ ؛ زبور ٣٤ :١٠ ؛ یسعیاہ ٥٥: ٦)۔ انسان خدا کے سامنے اس وقت جواب دہ ہوتا ہے جب وہ اِتنا بالغ اور سمجھ دار ہو جاتا ہے کہ اخلاقی فیصلے یا چناؤ کر سکے (استثنا ١: ٣٩ ؛ یسعیاہ ٧: ١٦ ؛ ٢ ۔سموئیل ١٣ : ٢٣ ؛ متی ٨: ١٠ ؛ ٢۔تیمتھیُس ٣: ١٤ ۔ ١٧ )۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کوئی شخص کس عمر میں اپنے گناہوں اور فیصلوں کے لئے جواب دہ ہوتا ہے۔ کچھ بھی ہو ہم سب کے لئے خدا کا پیغام یہ ہے کہ ” دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے۔ دیکھو یہ نجات کا دن ہے “ (٢۔کرنتھیوں ٦: ٢)۔

بنی نوع انسان کی پوری نسل اپنے خالق سے جدا ہو چکی ہے۔ انسان روحانی لحاظ سے ” قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مُردہ “ ہے (افسیوں ٢: ١)۔

٢۔   جسمانی موت: انسان کی جان اور روح کی اُس کے بدن سے جدائی۔

آدم اور حوا نے گناہ کیا تو وہ نہ صرف روحانی طور سے بلکہ جسمانی طور سے بھی مر گئے۔ جیسے ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے پتے یک دم نہیں سوکھ جاتے اُسی طرح آدم اور حوا کےبدن اُسی روز مر کر نہ گر پڑے جب اُنہوں نے گناہ کیا۔ تاہم اُن کے گوشت پوست پر موت نے چڑھائ کر دی تھی۔ وہ اِس دشمن سے بچ کر بھاگ نہیں سکتے تھے۔
اب جسمانی موت کسی بھی وقت آ کر آدم اور حوا کو پکڑ سکتی تھی۔ عربی زبان کی کہاوت ہے کہ ” موت تیز رفتار ناقہ پر سوار ہوتی ہے۔ “ موت سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ خدا کا کلام اِسے یوں بیان کرتا ہے:

” آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا اور اُس کے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے “ (عبرانیوں ٩: ٢٧ )۔

٣۔   ابدی موت: انسان کی روح، جان اور بدن کی خدا سے ہمیشہ کی جدائی۔

زندہ ٹہنی کا مقصد  پتے، پھول اور پھل پیدا کرنا ہے۔ سوکھی ٹہنیاں جمع کر کے جلا دی جاتی ہیں۔ آدم نے خدا کے خلاف گناہ کیا تو وہ اُس حق اور اعزاز سے محروم ہو گیا جس کے واسطے پیدا کیا گیا تھا — کہ خدا کی تمجید کرے اور ابد تک اُس کے ساتھ رہے — انسان کو ابد تک زندہ اور موجود رہنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ لیکن اُس نے اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی کی۔ اِس کی سزا خدا سے ہمیشہ کی جدائ تھی (ہے)۔

اگر خداوند اپنی رحمت اور ترس سے آدم اور حوا کے گناہ کا مداوا نہ کرتا تو اُن کے بدنوں کے مرنے کے بعد اُنہیں ہمیشہ کے لئے کوڑے کے اس ” خوف ناک انبار “ پر پھینک دیا جاتا جو ابلیس اور اُس کے شیاطین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ بائبل مقدس اِسے ” دوسری موت “ کہتی ہے (مکاشفہ ٢: ١١ ؛ ٢٠ : ١٤، ١٥ ؛ ٢١: ٦) کیونکہ یہ جسمانی موت کے بعد واقع ہوتی ہے۔ اسے ” ہمیشہ کی سزا “ بھی کہا گیا ہے (متی ٢٥ : ٤٦ )۔ اعراف یا برزخ (وہ مقام جہاں بدن کے مرنے کے بعد روحیں عارضی طور پر رہیں گی اور گناہوں کی سزا بھگت کر فردوس میں آ جائیں گی) کا تصور یا نظریہ انسان کی اختراع ہے۔

اگر کوئی سوچتا ہے کہ ” ہمیشہ کی سزا “ بے انصافی یا غیر معقول ہے تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص خدا کی ذات، گناہ کی سنگینی اور ابدیت کے مفہوم کو نہیں سمجھتا۔

آگے چل کر ہم خدا کی پاکیزگی اور قدوسیت اور گناہ کی ناپاکی اور پلیدی پر غور کریں گے۔

جہاں تک ابدیت کے تصور کا تعلق ہے تو ہمیں مان لیںا چاہئے کہ ” ابد “ اور ” ابدیت “ کا مفہوم ہماری عقلی اور ذہنی استعداد سے باہر ہے کیونکہ ہم 'وقت' یا 'زمان' کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

اَبد یا ابدیت بے زمان ہے۔

اگر ہم تصور کرتے ہیں کہ کوئ شخص کروڑوں اربوں سال جہنم میں گزارے گا تو ہمارا تصور اور ہماری سوچ بالکل غلط ہے۔ ابدیت سالوں سے تشکیل نہیں پاتی۔ یہ ازلی و ابدی ” اب “ (زمانہ حال) ہے۔ جب انسان اس ناگزیر حلقے میں داخل ہوں گے تو اِس کی سنجیدہ منطق اور حقیقت کو سمجھیں گے۔ کیا آپ کو اُس امیر آدمی کی کہانی یاد ہے جو مرنے کے بعد دوزخ میں پہنچا (باب ٣)؟ وہ ابھی تک وہیں ہے۔

خدا نے واضح کر دیا ہے کہ فردوس میں داخل ہونے کی شرائط کیا ہیں۔

” ... اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا “ (مکاشفہ ٢١ : ٢٧ )۔

اِس بات پر کوئی مفاہمت نہ ہو گی، کوئی سمجھوتا نہ ہو گا۔ جس طرح خدا کے طبعی قوانین درخت سے کٹی یا ٹوٹی ہوئی ٹہنی کو سکھا دیتے ہیں اور وہ مر جاتی ہے، اُسی طرح خدا کے روحانی قوانین گناہ کو روحانی، جسمانی اور ابدی جدائی کی سزا دیتے ہیں۔

گناہ اور شرم

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آدم اور حوا کی طرف پھر متوجہ ہوں۔ ہم نے اُنہیں اُس موقعے پر چھوڑا تھا جب وہ خدا سے باغ کے درختوں میں چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔

گناہ کرنے سے پہلے آدم اور حوا خدا کے جلال اور اُس کی کاملیت کے گھیرے میں تھے۔ وہ اپنے خالق کی حضوری میں بالکل پُرسکون ہوتے تھے، پریشانی کا نام و نشان نہیں ہوتا تھا۔ مگر جس لمحے اُنہوں نے خدا کا قانوں توڑا وہ اپنے آپ کو بالکل فرق انداز سے دیکھنے لگے۔ اب وہ بے سکون اور پریشان ہو گئے — صرف اپنے جسمانی ننگے پن کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے روحانی ننگے پن کی وجہ سے بھی۔

حکم کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے آدم اور حوا کو خدا کا شعور تھا اور ” وہ شرماتے نہ تھے “ (پیدائش ٢: ٢٥ )۔ اب وہ غیر فطری طور پر خود شعور (خود آگاہ) ہو گئے اور پاک خدا کے سامنے اپنے آپ کو ناپاک محسوس کرنے لگے۔ آدم اور حوا اپنے خدا کے متضاد بن گئے۔ اب وہ ناپاک تھے۔ اب وہ خدا کی حضوری کی پاکیزگی اور تابانی میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ جیسے روشنی ہوتے ہی لال بیگ چھپنے کو بھاگتے ہیں اُسی طرح اب آدم اور حوا نے ” تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا، اِس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے “ (یوحنا ٣: ١٩، ٢٠ )۔

آدم اور حوا بے نقاب ہو چکے تھے۔ وہ کامل باغ میں خود کو غیر جگہ پر محسوس کرتے تھے۔ وہ پریشان تھے۔ خدا کی آواز نے اُن پر ہیبت طاری کر دی۔ اب وہ اپنے آپ، محبت بھرے خالق کے پاس بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ تو بھی اُنہیں ڈھونڈنے خدا خود باغ میں آ گیا۔

خدا کی ذات کا خاصہ ہے کہ ” کھوۓ ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے “ (لوقا ١٩: ١٠ ) آ جاتا ہے۔

خدا انسانوں کو ڈھونڈتا ہے۔

” تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور کہا تُو کہاں ہے؟ اُس نے کہا مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا کیونکہ مَیں ننگا تھا اور مَیں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ اُس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تُو ننگا ہے؟ کیا تُو نے اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟ “ (پیدائش ٣: ٩ ۔١١ )

خدا نے انسان سے جو پہلا سوال پوچھا اُس پر غور کریں۔

” تُو کہاں ہے؟ “

اِس چبھتے ہوئے مگر محبت بھرے سوال سے خدا نے آدم کو احساس دلایا کہ گناہ نے اُس کا اور اُس کی بیوی کا کیا حال کر دیا ہے۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ دونوں مانیں کہ ہم نے خلاف ورزی کی ہے، قصور کیا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ آدم اور حوا جان اور سمجھ لیں کہ گناہ ہمارے اور ہمارے پاک خداوند کے درمیان حائل ہو گیا ہے۔

اُن کی پریشانی اور خطرناک صورتِ حال کا سبب اُن کا گناہ تھا۔ گناہ ہی کے سبب سے وہ شرم محسوس کرنے لگے اور درختوں میں اور انجیر کے پتوں میں چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن آدم اور حوا خدا سے چھپ نہیں سکتے تھے اور نہ اُس عالمِ کل کے راست غضب سے بچ سکتے تھے۔

گناہ کی مزدوری موت ہے۔

خدا نے آدم سے کہا ” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٧ )۔ خدا نے مذاق نہیں کیا تھا۔ ہم اپنے دلوں میں جانتے ہیں کہ جو اپنے خالق کے خلاف بغاوت کرتے ہیں وہ سزاوار ہیں کہ اُس خالق سے جدا کر دیئے جائیں۔ ہم فلموں اور ڈراموں میں اکثر دیکھتے ہیں کہ ” بُرے لوگ “ جنہیں ہم وِلن (بدمعاش) کہتے ہیں مارے جاتے ہیں اور ” اچھے لوگ “ جنہیں ہم ہیرو کہتے ہیں کامیاب اور فتح مند ہوتے ہیں۔ کیا ہم ” بُرے لوگوں “ کے لئے افسوس کرتے ہیں؟ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں وہ اِسی لائق تھے۔ سنجیدہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کی ساری نسل خدا کی نظروں میں ” بُرے لوگ “ (ولن) ہے۔

” وہ سب کے سب گمراہ ہوئے۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں “ (زبور ١٤ : ٣ )۔

خالق کے عدل کے معیار کے مطابق ہم سب موت کی سزا کے حق دار ہیں۔ خدا کی کتاب بائبل مقدس اِس کا بیان یوں کرتی ہے:

” گناہ اور موت کی شریعت “ (رومیوں ٨: ٢)۔

گناہ اور موت کی شریعت کا تقاضا ہے کہ خدا کی نافرمانی کے ہر کام کی سزا خدا سے جدائی ہے۔ اِس سے کوئی مستثنی' نہیں۔ گناہ موت لاتا ہے۔

خدا اپنی پاک اور وفادار ذات کے باعث اِس قانوں کو برقرار رکھتا ہے۔ ہمارے اصل اور پہلے والدین نے گناہ کی ایک ہی حرکت سے اپنے آپ کو خدا کی بادشاہی، راست بازی اور زندگی سے جدا کر لیا اور شیطان کی گناہ اور موت کی بادشاہی میں داخل ہو گئے۔

درخت سے کٹی ہوئی ٹہنی کی طرح وہ اُسی لمحے مر گئے۔ خدا کے ساتھ رشتہ مر گیا۔

مرجھاتی ہوئی ٹہنی کی طرح وہ جسمانی طور پر بھی مرنے لگے۔ اب تھوڑے ہی وقت کی بات تھی کہ اُن کے بدن مٹی میں واپس چلے گئے۔

سب سے بُری بات یہ تھی کہ اگر خداوند خدا اُن کے گناہ اور شرم کا مداوا نہ کرتا تو اُنہیں ابدی موت کی ہولناک کیفیت کا بھی سامںا تھا — اور خدا سے جدا ہو کر اُس ہمیشہ کی آگ میں رہنا تھا جو ابلییس اور اُس کے شیاطین کے لئے تیار کی گئی تھی۔

پاک کلام صاف صاف کہتا ہے!

” جو جان گںاہ کرتی ہے وہی مرے گی “ (حزقی ایل ١٨ : ٢٠ )۔

” کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے “ (رومیوں ٦: ٢٣ )۔

” ... اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے “ (یعقوب ١: ١٥ )۔

خاص اور اچھی وجہ ہے کہ خدا اِس سنجیدہ حقیقت کو ” گناہ اور موت کی شریعت “ کہتا ہے۔ یہ ” شریعت “ —قانون، اٹل اصول ہے۔

گناہ کی سزا پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔

اِس پر عمل درآمد ضرور ہو گا۔

۱۳
رحم اور عدل
انسان کیا کر سکتا ہے جو خدا نہیں کر سکتا؟

بائبل مقدس اِس معمے، اِس پہیلی کا جواب دیتی ہے:

” خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے، اور ںہ وہ آدم زا د ہے کہ اپنا ارادہ بدلے۔ کیا جو کچھ اُس نے کہا اُسے نہ کرے؟ یا جو فرمایا ہے اُسے پورا نہ کرے؟“ (گنتی ٢٣ : ١٩ )۔

لوگ ہر روز جھوٹ بولتے ہیں، اپنے ارادے بدل لیتے ہیں اور وعدے توڑتے ہیں۔ خدا یہ کام نہیں کر سکتا۔ وہ جو انتہائی کامل ہے اپنی ذات و صفات کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔

” وہ آپ اپنا انکار نہیں کر سکتا“ (٢۔تیمتھیس ٢: ١٣ )۔

کچھ عرصہ ہوا مجھے یہ ای میل ملی:

ای میل

”آپ کہتے ہیں کہ اللہ من مانے طور سے معاف نہیں کر سکتا۔ آپ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ اُس کے اپنے ہی قوانین سے بندھے ہوئے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا 'خدا سب کچھ کر سکتا ہے لیکن اپنے آپ کا انکار نہیں کر سکتا اور اپنے قوانین سے درگزر نہیں کر سکتا۔' ہمارا نہایت رحیم خالق اپنے آپ کو یہ استعداد دینے سے کیوں محروم رکھے گا کہ اپنے بندوں کو جو معافی مانگتے ہیں معاف کر سکے؟ وہ اپنے رحم پر ایسی قدغن کیوں لگائے گا؟... کیا آپ دیکھ نہیں سکتے کہ اِس میں کوئی معقولیت نہیں ہے؟

اگر وہ ایسا قانون بنا بھی لیتا تو اُسے فوراً توڑ سکتا ہے کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے! یہ دلیل دینا ہی غیر معقول اور غیر منطقی ہے کہ اپنی قدرتِ کاملہ کے باوجود اللہ کسی طرح محدود ہے۔ اگر وہ چاہے تو ہم سب کو جہنم کی آگ میں پھینک دے، لیکن وہ نہایت رحیم ہے اور ہر وقت اپنے بندوں کو معاف کرنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ جب اُن کی عدالت ہو تو وہ کامیاب ہو جائیں۔ دعا ہے کہ جس روز ہم سب اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک ایک شخص عدالت کے لئے اکیلا کھڑا ہو گا تو اللہ ہم پر رحم کرے اور سب کو معافی عطا فرمائے!“

جن باتوں پر ہم نے گذشتہ باب میں غور کیا اُن کی روشنی میں کیا اِس آدمی کی دلیلوں میں کچھ مشکل ہے؟ کیا ہمارا خالق آزاد ہے کہ اپنے مقرر کردہ قوانین کو نظرانداز کر دے اور اپنی پاک ذات کا انکار کرے؟

عدل کے بغیر رحم

اِس کمرہ عدالت کا تصور کریں:

جج عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ اُس کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہے جو بینک لوٹنے اور وحشت ناک قتل کا مجرم ہے۔ کمرہ عدالت گواہوں سے بھرا ہوا ہے۔ مقتول کی بیوی اور خاندان کے دیگر افراد موجود ہیں۔ بینک کے ملازمین بھی حاضر ہیں۔ اخبار نویس موجود ہیں جو ساری کارروائی قلم بند کر لیں گے۔

اِس قاتل کے بارے میں عدالت کیا فیصلہ صادر کرے گی؟ سزائے موت؟ عمر قید اور ضمانت پر رہائی؟

کمرہ عدالت میں حاضرین کو کہا جاتا ہے کہ کھڑے ہو جائیں۔

مجرم کی طرف دیکھتے ہوئے جج کہتا ہے ”مجھے معلوم ہوا تم باقاعدگی سے دعائیں نمازیں پڑھتے اور خیرات دیتے ہو۔ تم جس طرح تسبیح کے دانوں پر انگلیاں چلاتے ہو بہت متاثر کرتے ہو۔ مَیں نے سنا ہے کہ تم بہت مہمان نواز اور مسافر پرور بھی ہو۔ فرق تو بہت تھوڑا ہے لیکن تمہارے نیک کام تمہارے بُرے کاموں سے زیادہ ہیں۔ مَیں تمہاری رحم کی اپیل منظور کرتا ہوں۔ تمہیں معاف کیا جاتا ہو۔ تم آزاد ہو۔ جا سکتے ہو۔“

منصف ہتھوڑا اُٹھا کر میز پر مارتا ہے۔

چاروں طرف سے غصیلی بڑبڑاہٹ اور لمبے سانس کھینچنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں ... کمرہ عدالت میں ایسے منظر کے بارے میں شاید ہی کبھی سنا ہو گا۔ کمرہ عدالت میں ایک طرف ترازو لٹکا نظر آتا ہے۔ یہ علامت ہے کہ ساری شہادتوں کو جانچا پرکھا جاتا ہے۔ لیکن جب کسی شخص کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو مناسب سزا سنانا ضروری ہوتا ہے۔ مجرم نے ”نیک کام“ کئے ہوں یا نہ، اِس کا عدالتی فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم سب اِس بات سے واقف ہیں۔

نیک کاموں کا بُرے کاموں سے زیادہ ہونے کا نظام اگر دنیاوی عدالت کے کمرے میں کبھی استعمال ہوا بھی ہو، تو کیا ایسا بے انصافی کا طریقہ خدا کے آسمانی کمرہ عدالت میں استعمال ہو گا؟

عادل منصف

خدا ہماری خیالی کہانی کے جج کی مانند نہیں ہے۔ اُس کا ایک صفاتی نام ”عادل منصف“ ہے (٢۔تیمتھیس ٤: ٨ )۔ چار ہزار سال ہوئے ابرہام نبی نے یہ سوال پوچھا تھا ”...کیا تمام دنیا کا انصاف کرںے والا انصاف نہ کرے گا؟“

(پیدائش ١٨ : ٢٥ )

خدا رحم کرنے کے لئے عدل و انصاف کو بالائے طاق نہیں رکھ دیتا __ ہرگز نہیں۔ ایسا کرنے سے اُس کے راست تخت کی بنیادیں اُکھڑ جائیں گی اور اُس کے پاک نام پر دھبا لگ جائے گا۔

” صداقت اور عدل تیرے تخت کی بنیاد ہیں۔ شفقت اور وفاداری تیرے آگے آگے چلتی ہیں“ (زبور ٨٩ : ١٤ )۔

ہمارے ای میل بھیجنے والے دوست کی طرح یہ فرض کرنا ہی غلط ہے کہ خدا اپنی ”قدرت کاملہ“ کا استعمال کرتے ہوۓ اپنے ہی قوانین کی پروا نہیں کرے گا، کیونکہ اِس مفروضے میں یہ بات مضمر ہے کہ ”تمام دنیا کا انصاف کرنے والا“ اُن گنہگاروں سے کم راست ہے جن کی وہ عدالت کرے گا۔

ہم انسانوں میں جبلی طور سے انصاف کی سمجھ اور احساس موجود ہے۔ اِس لئے بہت عجیب بات ہے کہ ہم اِس کھلی حقیقت اور سچائی کی مزاحمت کریں کہ ہمارے خالق میں بھی عدل و انصاف کا وہی شعور موجود ہے۔ ہم اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ جو جج بُرائی کی سزا دینے میں ناکام رہتا ہے اُس میں کوئی ”بڑائ یا عظمت“ نہیں ہے۔

یرمیاہ نبی لکھتا ہے:

” ... تیری وفاداری عظیم ہے۔ میری جان نے کہا میرا بخرہ خداوند ہے اِس لئے میری اُمید اُسی سے ہے“ (نوحہ ٣: ٢٣ ، ٢٤ )۔

غور کریں کہ نبی نے یہ نہیں کہا کہ

”تیرا ناقابلِ پیش گوئی ہونا عظیم ہے“ یا ”تیری متلون مزاجی عظیم ہے۔“ ہم کسی من موجی دیوتا سے کیا اُمید رکھ سکتے ہیں؟ خدا وفاداری میں عظیم ہے۔ بہت سے لوگ جو اُسے ”الرحیم اور الرحمن“ کہہ کر پکارتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ وہ ”سچا اور عادل“ بھی ہے (١۔یوحنا ١: ٩ )۔

یک رُخی تناظر سے خدا کے بارے میں نظریہ بھی بگڑ جاتا ہے۔

خدا کی متوازن ذات

پرندے کو اُڑنے کے قابل ہونے کے لئے کون سا پر (پنکھ، بازو) ضروری ہے، دایاں یا بایاں؟

سب کو معلوم ہے کہ پرندے کو اُڑنے کے لئے دونوں پروں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر کوئی سوچتا ہے کہ پرندہ ایک پر سے اُڑ سکتا ہے وہ پرندوں کی فطرت اور کششِ ثقل اور ہوا میں حرکت کرنے کے قوانین سے ناواقف ہے یا اُنہیں نظرانداز کر رہا ہے۔

اِسی طرح جو کوئ کہتا ہے کہ خدا عدل کو برقرار رکھے بغیر رحم کر سکتا ہے وہ خدا کی ذات اور گناہ اور موت کی شریعت کو نظر انداز کر رہا ہے۔

خدا کا رحم اور عدل ہمیشہ کامل طور سے متوازن رہتے ہیں۔ داؤد بادشاہ لکھتا ہے:

” مَیں شفقت اور عدل کا گیت گاؤں گا۔ اے خداوند! مَیں تیری مدح سرائی کروں گا“ (زبور ١٠١ : ١ )۔

داؤد نے چند قبیح گناہ کئے تھے اور جانتا تھا کہ مَیں خدا کی رحمت اور شفقت کا حق دار نہیں۔ معنی اور صراحت کے مطابق رحمت یا شفقت ہوتی ہی بلا استحقاق ہے۔

واجب سزا دینا (اور پانا) عدل ہے۔

واجب سزا نہ دینا رحمت یا شفقت ہے۔ آسان لفظوں میں سزا معاف

کر دینا، رحمت یا شفقت ہے۔

داؤد کے خدا کی حمد اور ستائش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ خدا نے عدل کو بالائے طاق رکھے بغیر غیر مستحق گنہگاروں پر رحم کرنے کی ایک راہ نکالی ہے۔ اِسی لئے داؤد ”شفقت اور عدل“ کا گیت گا سکتا تھا۔

پاک خدا کے لئے گناہ معاف کرنا کوئی سادہ اور آسان معاملہ نہیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ گناہ اور قصور کی سزا دی جاۓ۔ خدا یہ تقاضا پورا کئے بغیر کسی گنہگار کو ہرگز معاف نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص ہمارا قصور کرتا ہے تو ہم بہ حیثیت انسان اُسے کہہ سکتے ہیں، چلو کوئی بات نہیں۔ بس بھول جاؤ، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ہم بڑی مہربانی سے کسی شخص کو معاف کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن بے انتہا پاک منصف ایسا نہیں کر سکتا۔

خدا کی رحمت یا خدا کا فضل خدا کے عدل کی ہرگز نفی نہیں کرتا۔ خدا کبھی نہیں کہتا کہ ” مَیں تجھ سے محبت رکھتا ہوں اِس لئے تیرے گناہ کی عدالت نہیں کرتا، تیرے گناہ کی سزا نہیں دیتا۔“ خدا یہ بھی نہیں کہتا کہ چونکہ تُو نے گناہ کیا ہے اِس لئے مَیں تجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ خدا گنہگاروں سے محبت رکھتا ہے، لیکن ضرور ہے کہ وہ اُن کے گناہوں کی سزا دے اور اُنہیں گناہ کرنے سے روکے۔

اگر خدا ایسا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ گنہگاروں پر رحم کرے؟

رحم کے ساتھ عدل

آدم اور حوا کی صورتِ حال پر پھر غور کریں۔

چونکہ خدا محبت کرنے والا اور رحیم خدا ہے، اِس لئے وہ نہیں چاہتا تھا کہ آدم اور حوا مجھ سے جدا اور دُور ہو جائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں اور ہمیشہ کی آگ میں نہ پڑیں۔

” خداوند کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا“ (٢۔پطرس ٣: ٩)۔

لیکن چونکہ خداوند عادل اور منصف ہے اِس لئے وہ آدم اور حوا کے گناہ سے درگزر نہیں کر سکتا تھا۔ اُسے اُن کو ضرور سزا دینا تھی۔

” تیری آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ تُو بدی کو دیکھ نہیں سکتا۔“

(حبقوق ١: ١٣ )

چنانچہ خدا کیا کرتا؟ کیا کوئی طریقہ تھا کہ گنہگار کو سزا دیئے بغیر گناہ کو سزا دی جا سکتی؟ گناہ کی نجاست اور پلیدی کیسے دُور کی جاتی اور کامل پاکیزگی کیسے بحال کی جاتی؟ کیا ایوب نبی کے اِس سوال کا کوئی جواب ہے کہ ”...انسان خدا کے حضور کیسے راست باز ٹھہر سکتا ہے؟“ (ایوب ٩: ٢ )۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک طریقہ ہے!

پاک صحائف انکشاف کرتے ہیں کہ عادل منصف نے کیا کیا کہ وہ ”عادل“ بھی رہے اور آدم اور حوا اور میرے اور آپ جیسے گنہگاروں کو ”راست باز ٹھہرانے والا بھی ہو“ (رومیوں ٣: ٢٦ )۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس نے کیا کیا کہ وہ ہم پر رحم اور فضل بھی کرے اور اپنے عدل کو بھی قائم رکھے؟

اِس کا جواب آگے ملے گا۔ سفر جاری رکھیں۔

میرا کچھ قصور نہیں

اب ذرا وہ گفتگو سنیں جو ہمارے نجس اور ناپاک پہلے والدین اور اُن کے خالق کے درمیان ہوئی۔ اب یہ خالق اُن کا منصف تھا۔

” تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اُس سے کہا تُو کہاں ہے؟ ... اور ... اُس (آدم) نے کہا مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا کیونکہ مَیں ننگا تھا اور مَیں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ اُس (خداوند) نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تُو ننگا ہے؟ کیا تُو نے اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟ آدم نے کہا کہ جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور مَیں نے کھایا۔ تب خداوند خدا نے عورت سے کہا کہ تُو نے یہ کیا کیا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھے بہکایا تو مَیں نے کھایا“ (پیدائش ٣: ٩ ۔١٣ )۔

خداوند خدا نے آدم اور حوا سے کیوں استفسار کیا؟

اُس نے اُسی طرح سے استفسار کیا جس طرح سے باپ یا ماں نافرمان بچے سے استفسار کرتے ہیں حالانکہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ بچے نے کیا کیا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ آدم اور حوا اپنے گناہ اور قصور کو جانیں اور تسلیم کریں۔ لیکن اپنے گناہ کو تسلیم کرنے کے بجائے ہر ایک نے دوسرے پر الزام لگانے کی کوشش کی۔

آدم نے خدا اور حوا پر الزام دھرا۔ میرا کوئی قصور نہیں! جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا، اُس کا قصور ہے۔

حوا نے سانپ کو جواب دہ ٹھہرایا، ”سانپ نے مجھے بہکایا۔“

چونکہ وہ پہلے سے پروگرام کئے گئے روبوٹ نہیں تھے اِس لئے خدا نے ہر ایک کو اِس فیصلے کا جواب دہ ٹھہرایا جو اُس نے کیا تھا۔ ہر ایک خود ذمہ دار تھا، کسی دوسرے کو الزام نہیں دے سکتا تھا۔

” جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں، ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے“ (یعقوب ١: ١٣ ۔ ١٥ )۔

اپنے خالق کے منصوبے کو چھوڑ کر آدم اور حوا نے ”اپنی ہی خواہشوں“ کی پیروی کی جو اُنہیں گناہ اور موت کی راہ پر لے چلیں۔

حوا کو تو سانپ نے ورغلایا اور فریب دیا تھا اور آدم __ جسے خدا نے حکم دیا تھا کہ تُو نیک و بد کے درخت کا پھل نہ کھایا__ اُس نے جان بوجھ کر، اپنے ارادے سے اپنے خالق کی نافرمانی کی۔

” آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی“

(١۔تیمتھیس ٢ : ١٤ )۔

جان بوجھ کر یا فریب کھا کر، دونوں ہی قصوروار تھے۔ لیکن پاک کلام کہتا ہے آدم کے ممنوعہ پھل کھانے کے بعد یہ ہوا کہ ”تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں“ (پیدائش ٣: ٧)۔

خدا نے حوا کو نہیں بلکہ آدم کو اِس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ بنی نوع انسان کو راستی اور زندگی کی بادشاہی سے نکال کر گناہ اور موت کی مملکت میں لے گیا۔ خدا نے آدم کو پوری نسلِ انسانی کا ”سر“ ہونے کا اعزاز بخشا تھا، لیکن اِس بڑے اعزاز کے ساتھ ذمہ داری بھی تھی۔

آدم کے گناہ نے ہم سب کو آلودہ کر دیا ہے۔ لیکن جو فیصلے اور چناؤ ہم کرتے ہیں اُن کے لئے آدم کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔

” ... ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپںا حساب دے گا“(رومیوں١٤ :١٢ )۔

۱۴
لعنت

اب بات چھپانے اور بہانے بنانے کا وقت گزر چکا تھا۔

آدم نے اپنی راہ چن لی تھی، لیکن اُسے اِس راہ کے نتائج چننے کا اختیار نہ تھا۔ پوری کائنات خاموش رہے گی اور عادل منصف وہ لعنتیں اور نتائج سنائے گا جو انسان کے گناہ نے پیدا کر دیئے ہیں۔

سانپ

خدا نے پہلے ”اُس سانپ“ کو سزا سنائی کہ اُس کا حشر کیا ہو گا۔

” ... خداوند خدا نے سانپ سے کہا اِس لئے کہ تُو نے یہ کیا تُو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٤، ١٥ )۔

   یہ سانپ کون تھا جس سے خدا بات کر رہا تھا؟ کیا خالق ایک رینگنے والے جانور پر غصے ہو رہا تھا؟

پاک کلام میں درج خدا کی باتوں میں اور خاص کر تمثیلوں اور پیش گوئیوں میں دُہرا پیغام ہوتا ہے۔ ایک تو واضح اور سامنے کا ہوتا ہے اور دوسرا زیادہ گہرا اور کم نمایاں ہوتا ہے۔ اِس اعلان میں بھی یہی بات ہے۔

سانپ پر جو لعنت بھیجی گئی اُس کے دو پہلو ہیں۔ اُس کی دو سطحیں ہیں۔

پہلا پہلو — دائمی مثال

سانپ کو فیصلہ سنانے اور اُس پر لعنت کرنے سے خداوند خدا بنی آدم کو ایک دائمی سبق سکھانا چاہتا تھا۔ جس رینگنے والے جانور کو شیطان نے انسان کو گناہ کرنے کی آزمائش میں ڈالنے کے لئے استعمال کیا تھا اب سے وہ زمین پر سرک سرک کر چلا کرے۔ سارے سانپوں کی یہی خصلت ہو گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم اور حوا کے گناہ کرنے سے پہلے سانپوں کی بھی ٹانگیں ہوتی تھیں جیسے دوسرے پیٹ کے بل چلنے والے جانوروں کی ہیں۔ مثلاً سانپ کی قسم کے بعض جانور جیسے اژدہا اور اجگر میں ٹانگ کے بالائی حصوں کی ہڈیوں کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

اژدہا اور اجگر کی کھال کے نیچے آگے کو نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہے جن کی شکل بند مُٹھی سے ملتی جلتی ہے اور ان سے آگے تقریباً  آدھا انچ لمبے مُڑے ہوئے ناخن ہوتے ہیں جو مقعد کے قریب پیٹ کے پاس چھپے ہوتے ہیں۔ بند مٹھی جیسی یہ ہڈیاں ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ ٹانگوں کے بالائی حصے کی ہڈیوں کی باقیات ہیں۔ نر سانپ اب بھی ایڑیوں کو استعمال کرتے ہیں، لیکن صرف مادہ سے میل کرنے اور لڑنے کے موقع پر، چلنے کے لئے نہیں۔ دوسری قسموں کے سانپوں کی ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ بعض لوگ اِس حقیقت کی تشریح کر کے نظریہ ارتقا کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گناہ نے قصوروار اور بے قصور دونوں کے لئے دُور رَس نتائج پیدا کر دیئے ہیں۔ گناہ ہی کے باعث ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے“ (رومیوں ٨: ٢٢)۔ یہاں تک کہ بے گناہ حیوانات بھی اِس سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہی معقول وجہ ہے کہ انسان کے گناہ کرنے کے فیصلے کو ”ہبوطِ آدم“ یعنی ”آدم کا گرنا“ کہتے ہیں۔

دوسرا پہلو — شیطان کا ناگزیر حشر

بائبل مقدس کہتی ہے ”کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں“ (٢۔پطرس ١: ٢٠ )۔ کلام ہی کلام کی تاویل یا تفسیر کرتا ہے۔ ”اُس سانپ“ پر لعنت کے دوسرے حصے میں خدا نے جو فرمایا وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ پاک کلام کی گہرائی میں اُتریں۔

” ... مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٥ )۔

   یہ سانپ کون ہے جس سے خدا نے بات کی؟ بائبل مقدّس اِس کی نشان دہی کرتی ہے کہ وہ وہی متکبر فرشتہ تھا جو”آسمان پر سے گر پڑا“ یسعیاہ ١٤ : ١٢ )۔ وہ وہی ”پرانا سانپ (ہے) جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے“ (مکاشفہ ١٢ : ٩ ۔ مزید دیکھئے مکاشفہ ٢٠ : ٢ ؛ لوقا ١٠ : ١٨ اور ٢۔کرنتھیوں ١١: ١٣ ، ١٤)۔ سانپ نے اپنی دغابازی اور مکاری سے حوا کو فریب دیا۔ اِسی طرح ”شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتے کا ہم شکل بنا لیتا ہے۔“

وہ سانپ شیطان کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

خداوند نے وہی زبان استعمال کی جو سانپ کے لائق تھی اور ابلیس اور اُس کی پیروی کرنے والے سب لوگوں کے حشر کا اعلان کیا۔ شیطان کی نسل (اولاد) اور عورت کی نسل (آنے والی پشتوں) کے درمیان ”عداوت“ (ناقابلِ مصالحت دشمنی) ہو گی۔ انجامِ کار ”عورت کی نسل“ سانپ کے ”سر“ کو کچل دے گی۔

یہ سب کچھ خدا کے مقررہ نظامِ اوقات کے مطابق پورا ہو گا۔

دو نسلیں

یہ دو نسلیں کیا ہیں؟ سانپ کی نسل اور عورت کی نسل میں کیا اشارہ ہے؟ اِن اصطلاحات کا مطلب کیا ہے؟

سانپ کی نسل سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو شیطان کی طرح خدا سے بغاوت کرتے ہیں۔ جو لوگ شیطان کی جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں روحانی معنوں میں وہ ابلیس کے فرزند ہیں۔

” ... تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے“ (یوحنا ٨: ٤٤)۔

پھر یہ عورت کی نسل کون ہے؟

یہ ایک بے مثال تصور ہے۔ بائبل مقدس کی پوری تاریخ میں انسان کی نسل عورت سے نہیں بلکہ مرد سے منسوب ہوتی ہے۔ لیکن جب گناہ دنیا میں داخل ہو گیا تو خدا نے عورت کی نسل کی بات کی۔ کیوں؟

خدا کا یہ اعلان پہلی پیش گوئی ہے جو ”مسایاح“ یعنی مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے مرد سے نہیں بلکہ عورت سے پیدا ہونا تھا۔ ”مسایاح یا مسیح“ کا لفظی مطلب ہے مسح کیا ہوا یا چنا ہوا۔ بائبل مقدس کے زمانے میں جب خدا کسی شخص کو چنتا تھا کہ قوم کا لیڈر یا مقتدر آدمی ہو مثلاً کوئی نبی تو اُس کے سر پر تیل اُنڈیل کر مسح کیا جاتا تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خدا نے اُس شخص کو کسی خاص کام کے لئے چنا ہے (خروج ٢٩ :٧؛ ١۔سموئیل١٠: ١ ؛ ٢۔تواریخ٩:٦؛زبور  ٤٥ :٧ )۔

مگر مسیحِ موعود کو باقی سب سے فرق ہونا تھا۔ ہسٹری کے خاص اور صحیح لمحے  پر اُس ”خدا کے ممسوح“، ”خدا کے چنے ہوئے“ کو دنیا میں آنا تھا تاکہ ”جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے“ (عبرانیوں ٢: ١٥ )۔

خدا نے اپنا پورا منصوبہ اُسی دن ظاہر نہیں کر دیا تھا جب گناہ انسانی نسل میں داخل ہوا تھا۔ خدا کا یہ کہنا گویا پیش گوئی کا ایک ہیولی تھا، مگر اِس سے آدم اور حوا اور اُن کی نسل کو اُمید کی ایک جھلک نظر آنے لگی۔ اِس ابتدائی وعدے میں بہت سی بنیادی سچائیاں مضمر ہیں جنہیں خدا کے نبی بعد میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

زیرِ نظر کتاب کے باب ١٨ میں تین وجوہات بیان کی جائیں گی کہ خدا نے اپنے مںصوبے کو رمزیہ انداز میں کیوں بیان کیا۔ بائبل مقدس کو تاریخی ترتیب سے پڑھنے میں ایک لطف یہ ہے کہ انسان کو شیطان، گناہ اور موت سے چھڑانے کا خدا کا منصوبہ ایک ڈرامے کی طرح سامنے آتا ہے۔ خدا نے اپنی حکمت سے اِس منصوبے کو بتدریج ظاہر کیا۔ ”حکم پر حکم ... تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں“ (یسعیاہ ٢٨ : ١٠ )۔

خاص لعنت

خدا نے بتایا کہ عورت کی نسل سانپ کے سر کو کچلے گی۔ اِس پیش گوئی کو بیان کرنے کے لئے خدا نے الفاظ کا چناؤ بڑی احتیاط سے کیا اور آدم اور حوا پر واضح کر دیا کہ اُن کے گناہ کے عملی نتائج کیا ہوں گے۔ اِن نتائج کو ”لعنت“ کہا گیا ہے۔

” ... اُس نے عورت سے کہا کہ مَیں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ اور آدم سے اُس نے کہا چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اُس کی پیداوار کھاۓ گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگاۓ گی اور تُو کھیت کی سبزی کھاۓ گا۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھاۓ گا جب تک کہ زمین میں تُو لوٹ نہ جاۓ اِس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جاۓ گا“ (پیدائش ٣: ١٦ ۔ ١٩ )۔

   آدم اور حوا نے اپنے خالق کے خلاف بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا اور اُنہیں اِس کی ہولناک قیمت ادا کرنی پڑی۔

اب ایک خاندان بنانے کی خوشیوں کے ساتھ درد اور مصیبت اور تکلیف شامل ہو گی اور زمین اناج، پھل اور سبزیاں قدرتی طور پر پیدا کرنے کے بجاۓ جڑی بوٹیاں، کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگاۓ گی۔ آرام اور شادمانی اور لطف کے بجاۓ مشقت اور محنت ہو گی۔ اِس سے بھی بدتر یہ کہ انسان کی اِس عارضی زندگی پر موت نامی ظالم عفریت کا سایہ منڈلاتا رہے گا۔

انسان غلبہ اور فرمان روائی کھو بیٹھا۔ گناہ لعنت لے آیا۔

کیا موت معمول کی چیز ہے؟

جو لوگ پاک صحیفوں کو نہیں مانتے وہ تنگی، مصیبت، نقصان، محرومی، ٹوٹے رشتوں، بیماری، بڑھاپے اور موت کو فطری اور معمول کی بات قرار دیتے ہیں۔ گناہ کی لعنت کے بارے میں سچائی یا حقیقت کو سمجھنا یہ سمجھنے کی کلید ہے کہ ہمارے کراہتے ہوئے کرہ ارض پر جو حالات ہیں وہ ایسے کیوں ہیں۔ بہت سے سمجھ دار اور عقل مند لوگ بنی نوع انسان کی قابلِ رحم حالت کو اِس بات کا ثبوت قرار دیتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ایسی دلیلیں اِس لئے دیتے ہیں کیونکہ گناہ کے دنیا میں داخل ہونے اور اِس کے اثرات کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کیا بوڑھا ہونے کا عمل سلیقہ اور توقیر کے ساتھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جھریاں پڑنے اور کمزور اور خستہ حال ہونے کے بجائے شاعرانہ انداز سے بتدریج ختم نہ ہو سکتے تھے۔ چونکہ کوئی عقل مند کاری گر (خدا) ہے ہی نہیں اِس لئے ایسا نہیں ہوتا۔ اور چونکہ یہ جاندار نہایت بھونڈے طریقے سے مرتب ہوئے ہیں اِس لئے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسانوں نے خود ہی غلط انا کے باعث ”عقل مند کاری گر“ (خدا) کا تصور گھڑ لیا ہے۔

سینیگال میں لوگ (خاص کر جنازے کے وقت) کہتے ہیں ”خدا نے زندگی پیدا کرنے سے پہلے موت پیدا کی تھی“۔ بہت سے لوگوں کو اِس فلسفے سے تسلی ملتی ہے۔ یہ سوچ کر منطق اور پاک صحائف دونوں کی تردید کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت ”سب سے پچھلا دشمن ہے جو نیست کیا جاۓ گا“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٦ )۔

بدی، رنج و غم، مصیبت، مشقت، غربت اور موت معمول کی چیزیں معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ حملہ آور عناصر اِس دنیا کے لئے فطری یا طبعی چیزیں نہیں ہیں، جیسے کہ سرطان کے جراثیم صحت مند شخص کے بدن کے لئے فطری یا طبعی چیز نہیں ہیں۔

خوشبودار گلاب کے پودے پر کانٹے، فصل پیدا کرنے کے لئے محنت مشقت، خوبصورت اور دلکش بچے میں ضد، شوہر کا اپنی حسین بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرنا، وضع حمل کے دل پسند عمل کے ساتھ شدید درد، جسم کے صحت مند نظام پر حملہ آور ہوںے والی بیماریاں، بڑھاپے کا عذاب، موت کی ناگوار اور کرخت حقیقت، ہمارے جسموں کا مٹی میں لوٹ جانا — یہ خدا کے اصل منصوبے کا حصہ نہ تھے۔

خدا نے مخلوقات کو ایسا نہیں بنایا تھا کہ اپنے ہی خلاف لڑتی رہے۔

گناہ کے دنیا میں داخل ہونے سے پہلے آدمی کو ساری مخلوقات پر اختیار اور تسلط حاصل تھا، ساری چیزیں پورے طور پر آدم اور حوا کی مطیع تھیں۔ دنیا راستی اور سلامتی سے معمور تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے پہلے والدین گناہ اور موت کی راہ پر ہو لئے اور اُن کے ساتھ گناہ آلود اور مرتی ہوئی پوری انسانی نسل بھی آ گئی۔

کل مخلوقات متاثر ہوئی

کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ تو انصاف نہیں ہے! ایک شخص کے گناہ کی خاطر کوئی دوسرا کیوں دُکھ اُٹھاۓ؟

ہم میں سے ہر شخص اپنے لئے فیصلے کرتا ہے اور اِن فیصلوں کے لئے خدا ہمیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہم ایک لعنتی دنیا میں رہتے ہیں۔ وُلوف لوگوں کی ضرب المثل کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ صاف ظاہر ہے ”وبا خود کو اُسی تک محدود نہیں رکھتی جس نے اُسے شروع کیا۔“

گناہ کی نوعیت اور فطرت بھی ایسی ہی ہے۔ اب زندگی دلکش اور خوش گوار نہیں رہی۔ آدم کے گناہ کے نتیجہ میں ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے“ (رومیوں ٨: ٢٢ )۔ گناہ کی لعنت سے سب متاثر ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ابتدا ہی سے چھڑانے کا واضح منصوبہ بنا رکھا تھا، جیسے گھڑی ساز گھڑی کے اندر ایسے پرزے لگا دیتا ہے کہ اگر وقت آگے پیچھے ہو جاۓ تو ان پرزوں کی مدد سے اِس خرابی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس کو میکانکی نظام کہتے ہیں۔ اِسی طرح کائنات بنانے والے نے بھی اپنی دنیا میں ایک میکانکی نظام رکھا ہے جس سے وہ شیطان، گناہ اور موت کی تباہ کن قوتوں کا ازالہ کر کے توازن قائم رکھتا ہے۔ شروع ہی سے خدا کا کوئی مقصد تھا کہ اُس نے گناہ کو دنیا میں آنے دیا اور اِس گناہ کی لعنت کو ختم کرنے کا اور جو اُس (خدا) پر ایمان لائیں اُن کے لئے اپنا فضل ظاہر کرنے کا منصوبہ بھی خدا نے شروع ہی سے بنا رکھا تھا۔

خدا کی کہانی کے شروع میں غم و اندوہ، دکھ درد اور موت کا کوئی وجود نہ تھا اور جب کہانی ختم ہو گی تب بھی یہ چیزیں باقی نہ رہیں گی۔ ایک دن گناہ اور اُس کی لعنت موقوف اور معدوم کر دی جاۓ گی۔ “... وہ (خدا) اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں... اور پھر لعنت نہ ہو گی“ (مکاشفہ ٢١ :٤ ؛ ٢٢ :٣)۔ ہم اپنے سفر کے اختتام کے قریب اِس شاندار مستقبل کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔

خدا کا فضل

کیا آپ کو یاد ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کے بعد آدم اور حوا نے کیا کیا تھا؟

اُنہوں نے اپنے لئے انجیر کے پتوں سے لنگیاں بنائ تھیں۔ یہ اپنے گناہ اور شرمندگی کو ڈھانپنے اور چھپانے کی انسان کی پہلی کوشش تھی۔ خدا نے آدم اور حوا کی اپنی ذاتی کوشش کو قبول نہ کیا، بلکہ اُن کے لئے خدا نے خود ایک کام کیا۔

” ... خداوند خدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہناۓ“ (پیدائش ٣: ٢١ )۔

خدا نے آدم اور حوا کو جانوروں کی کھالوں کی بنی ہوئ پوشاک فراہم کی۔ ایسا کرنے کے لئے خون بہایا گیا۔

تصور کریں کہ خدا نے چند بھیڑیں یا کوئی اور موزوں جانور چنے، اُنہیں ذبح کیا اور آدم اور حوا کے لئے ”چمڑے کے کُرتے“ بنائے۔ خدا اُن دونوں کو گناہ کی قیمت کے بارے میں اور اپنی پاک ذات کے بارے میں اہم سبق سکھا رہا تھا اور سمجھا رہا تھا کہ شرم ناک طور پر نااہل اور نالائق گنہگار میرے حضور میں کیسے مقبول ٹھہر سکتے ہیں۔

آدم اور حوا کو یہ خاص پوشاکیں مہیا کرنے سے اُن کا خالق اُن پر اپنا فضل کر رہا تھا جنہوں نے ابھی ابھی اُس کے خلاف بغاوت کی تھی۔ وہ خدا کی مہربانی اور رحم کے حق دار نہ تھے — لیکن یہی تو فضل ہے — رحم جس کے ہم حق دار نہیں۔

جس کے ہم حق دار ہیں وہ ملنا عدل ہے (=ابدی سزا)

جس کے ہم حق دار ہیں وہ نہ ملنا رحم یا ترس ہے (= کوئی سزا نہیں)

جس کے ہم حق دار نہیں وہ ملنا فضل ہے (= ابدی زندگی)

خدا کی راست بازی

آدم اور حوا کے لئے جانور ذبح کرنے سے خدا کا مقصد یہ تھا کہ وہ جان لیں کہ وہ نہ صرف ”رحیم و کریم خدا“ ہے (زبور ٨٦ : ١٥ ) بلکہ ”خدای صادق“ (زبور ٧: ٩ ) بھی ہے۔ ضرور ہے کہ گناہ کی سزا موت سے دی جاۓ۔ جب آدم اور حوا نے اُن خوبصورت، بے زبان اور بے گناہ جانوروں کا اُبل اُبل کر نکلتا ہوا خون دیکھا تو اُن کی حالت کا تصور کیجئے۔ خدا نے اُنہیں واضح اور صاف نظر آنے والی مثال دی۔ گناہ کی سزا موت تھی (ہے)۔

خون کی پہلی قربانی خدا نے خود کی — بعد میں بے شمار قربانیاں ہوں گی۔

یہ بھی غور کریں کہ خداوند خدا ہی تھا جس نے اُنہیں ”کپڑے پہناۓ“ اور یہ کپڑے اُن کھالوں سے بناۓ جو اُس نے خود مہیا کی تھیں۔ آدم اور حوا نے تو اپنے گناہ اور برہنگی (شرمندگی) کو ڈھانپنے کی کوشش کی تھی، لیکن اُن کی کوششیں خدا کو مطمئن نہ کر سکتی تھیں۔ اُن کے گناہ کے مسئلے کا مداوا اور علاج صرف اُسی (خدا) کے پاس تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ اِس حقیقت کو سمجھیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی یہ بات سمجھیں۔

گنہگاروں کو نکال دیا گیا

پیدائش کی کتاب کا تیسرا باب یوں اختتام پذیر ہوتا ہے:

” ... خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھاۓ اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اِس لئے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن سے باہر کر دیا تاکہ وہ اُس زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھا کھیتی کرے۔ چنانچہ اُس نے آدم کو نکال دیا اور باغِ عدن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں“(پیدائش ٣: ٢٢ ۔٢٤ )۔

   جب لوسیفر اور گنہگار فرشتوں نے خدا کی مرضی کی جگہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہی تو اُنہیں آسمانی فردوس سے نکال دیا گیا تھا۔ اب آدم اور حوا نے خدا کی مرضی کی خلاف ورزی کی تو اُسی طرح اُنہیں زمینی فردوس سے نکال دیا گیا۔

اِس طرح آدم کو خدا کی پاک حضوری میں جانے اور حیات کے درخت (اِسے نیک و بد کی پہچان کے درخت کے ساتھ گڈمڈ نہ کریں) کے پاس جانے سے روک دیا گیا۔ پاک صحائف میں سے گزرنے کے سفر کے اختتام کے قریب ہم نیک و بد کی پہچان کے درخت کی ایک جھلک دیکھیں گے۔ حیات کا درخت ہمیشہ کی زندگی کی بخشش کی علامت ہے۔ یہ زندگی خدا اُن سب لوگوں کو بخشے گا جو اُس پر اور اُس کے منصوبہ پر ایمان لاتے ہیں۔

نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے آدم اور حوا نے ہمیشہ کی زندگی کا راستہ رد کر دیا اور ہمیشہ کی موت کا راستہ چن لیا۔ گناہ کے باعث آسمان اور زمین کے درمیان خوشگوار تعلق ٹوٹ گیا۔

آدم اور حوا کو بہت سنجیدہ اور خطرناک مسئلہ درپیش ہو گیا — اور ہمیں بھی اِسی کا سامنا ہے۔

۱۵
دُہری مشکل
 

”فرار ہونے والا مجرم ٣٨ سال کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔“

ٹیلی وژن، ریڈیو سے اِس قسم کی خبریں اکثر نشر ہوتی رہتی ہیں۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ سمتھ نامی ایک شخص ١٩٦٨ عیسوی میں کیلیفورنیا کے ایک قیدخانے سے فرار ہوا تھا جہاں وہ ڈاکا زنی کے جرم میں سزا کاٹ رہا تھا۔ وہ اپنی ماں کے کنوارپن کا نام استعمال کرتے ہوۓ ٣٨ سال تک جگہ جگہ پھرتا رہا۔ آخرکار وہ امریکہ کے وسطی حصے میں ایک گھنے جنگل کے علاقے میں ایک ٹریلر میں رہنے لگا۔ یہاں پولیس نے اُسے ڈھونڈ نکالا۔

کریک کاؤنٹی کے شیرف (ناظم) کے سراغ رساں نے بتایا، ”اُس نے ذرا زمین کی طرف دیکھا، پھر نظریں اُٹھا کر بولا، جی ہاں، مَیں ہی ہوں۔۔۔، اُسے خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ پولیس اِتنے طویل عرصے تک مجھے تلاش کرتی رہے گی“ (اے۔ بی۔ سی نیوز ٢٠ مئی ٢٠٠٦ عیسوی)۔

جیسے سمتھ قانون کا پیچھا نہ چھوڑنے والے ہاتھوں سے نہ بچ سکا اُسی طرح خدا کے قوانین کو توڑنے والا شخص راست قانون دینے والے صادق منصف کی لامحدود رسائی سے بچ نہیں سکتا۔

اور قاںون توڑنے والے کون ہیں؟

” جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے“ (١۔یوحنا ٣: ٤)۔

شرع کی مخالفت کرنا یا شرع یعنی قانون کو توڑنا ایک ہی بات ہے۔

جو کوئی خدا کے اچھے اور کامل قوانین (حکموں) کو توڑتا ہے وہ قانون شکن ہے۔ لوسیفر نے یہی کیا تھا۔ آدم اور حوا نے یہی کیا تھا۔ اور ہم نے بھی یہی کیا ہے۔

ہر ایک گناہ خدا کی مخالفت ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گناہ کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن خدا کی نظر میں سارے گنہگار جو توبہ نہیں کرتے اور معافی حاصل نہیں کرتے وہ باغی مجرم ہیں، خواہ وہ کتنے ہی ”نیک“ اور مذہب پرست کیوں نہ ہوں۔

سراب کے پیچھے بھاگنے والے یعنی رجائیت پرست

موسمی حالت کے باعث وسیع ریگستان میں ایسا نظر آتا ہے کہ دُور پانی بہہ رہا ہے۔ اِس کو سراب کہتے ہیں۔ یہ فقط نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔

جو شخص صرف روشن پہلو پر نظر رکھے اور اُمید لگائے رکھے اُس کو رجائی یا رجائیت پرست کہتے ہیں۔

کچھ عرصہ ہوا ایک پڑوسی نے مجھ سے کہا ” مَیں رجائیت پسند ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ مَیں جنت میں جاؤں گا۔“

جب عدالت کا وقت آۓ گا تو کیا اُس کی رجائیت اور اُس کی اپنی کوششیں اُسے ابدی سزا سے بچا سکیں گی؟

ایک دفعہ ہم کیلیفورنیا کی وادی موت (دنیا کا ایک گرم ترین صحرا) میں سے گزر رہے تھے، تو مَیں نے دیکھا کہ دُور ایک جھیل چمک رہی ہے۔ لیکن جب ہم نزدیک پہنچے تو ”جھیل“ غائب ہو گئی۔ مَیں نے دُور آگے دیکھا تو ویسی ہی ایک اَور ”جھیل“ تھی۔ وہ بھی غائب ہو گئی۔

یہ سراب تھا۔

روشنی کی کرنیں ہوا کی پرتوں یا تہوں میں سے گزرتی ہیں جن کا درجہ حرارت اور کثافت فرق فرق ہوتی ہے تو اُن کا راستہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اِس عمل سے سراب پیدا ہوتا ہے۔ سراب اصلی جھیل کی طرح نظر آتا ہے، لیکن یہ جھیل اصلی نہیں ہوتی۔ اِسی طرح کوئی گنہگار رجائیت پسند ہو سکتا ہے کہ مجھے جنت میں جانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن پاک صحائف سچائی کا انکار کرتے ہیں۔ آدم کی نسل یعنی سارے انسان اپنے آپ کو عدالت اور عدالت کی سزا سے بچانے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ ”کمزور“ (بلکہ بے زور) ہیں (رومیوں ٥: ٦)۔

جس طرح جھلستے ہوئے ریگستان میں کوئی شخص اپنی چھاگل سے پانی گرا دے اور راستہ کھو چکا ہو اُسی طرح بنی نوع انسان گناہ کے باعث اپنی کھوئی ہوئی ہمیشہ کی زندگی کو دوبارہ حاصل کرنے میں بے بس ہیں۔

”۔۔۔ہم سب کو مرنا ہے اور ہم زمین پر گرے ہوۓ پانی کی طرح ہو جاتے ہیں جو پھر جمع نہیں ہو سکتا“ (٢۔سموئیل ١٤:١٤ )۔

بھٹکے ہوئے آدمی کو کچھ نظر آتا ہے اور وہ سچے دل سے یقین کرتا ہے کہ نخلستان ہے جس سے میری جان بچ جاۓ گی۔ لیکن وہ ”نخلستان“ جھلس دینے والی گرمی کی لہریں ثابت ہوتا ہے۔ وہ پیاس کا مارا، جس کے جسم میں پانی بہت کم ہو گیا ہے، بوجھل قدموں سے چلتا ہوا ایک سراب سے دوسرے سراب کی طرف بڑھتا ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔

یہی حال گنہگار کی رجائیت پسندی، اخلاص اور اپنی کوشش سے جنت حاصل کرنے کی تعلیم دینے والے مذاہب کا ہے۔

” ایسی راہ بھی ہے جو انسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُس کی انتہا میں موت کی راہیں ہیں“ (امثال ١٤ : ١٢ )۔

اپنی گناہ آلودہ حالت کا کچھ ازالہ کرنے کی خاطر دنیا بھر میں کروڑوں لوگ آج بھی ایسی راہوں پر چل رہے ہیں جو اُنہیں درست اور سیدھی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ شرعی طریقوں سے اپنے بدنوں کو دھوتے ہیں، رٹی رٹائی دعائیں میکانکی انداز میں دہراتے ہیں، بعض قسم کے کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، خیرات کرتے ہیں، موم بتیاں اور دیئے جلاتے ہیں، تسبیح پر اُنگلیاں چلاتے ہیں، دیگر ورد زبانی یاد کر کے دہراتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ یہ ”نیک کام“ ہیں۔ بعض لوگ اپنے مذہبی لیڈروں کی اطاعت کرتے ہیں اور بعض لوگ اُمید رکھتے ہیں کہ اگر ہم کسی پاکیزہ اور سچے مقصد کی خاطر شہید ہوں گے تو جنت میں جائیں گے۔

کیا ممکن ہے کہ وہ کسی سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہوں؟

اپنے آپ کے بارے میں سچا نظریہ

ایک وُلوف ضرب المثل ہے کہ ”سچائی (تیز) کالی مرچ نہیں ہے۔“

سچائ اگرچہ ہمیں پریشان کرتی اور تکلیف دیتی ہے تو بھی خدا ہمارے بارے میں بے رحم سچائی بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم اپنے گناہ کے بارے میں اُس کے سامنے دیانت دار ہوں۔ اگر ہم دیانت دار نہیں تو ہم اُس سخت بیمار خاتون کی مانند ہیں جو ہماری پڑوسن تھی اور ہمارے اُس کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ مجھے کسی اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ وہ زور دے کر کہتی تھی کہ مَیں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ چند ہی ہفتوں بعد وہ فوت ہو گئی۔

اپنی زمینی زندگی کے دوران مسیح خداوند نے اپنے آپ کو راست باز اور نیکوکار سمجھنے والے مذہبی راہنماؤں کے ایک گروپ سے کہا:

” تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں“ (مرقس ٢: ١٧ )۔

پاک صحائف کے صاف صاف بیان کے باوجود ہر مذہب کے عبادت خاںوں میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ تم کافی نیک ہو، بس تھوڑی سی اَور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ خدا کی اصل اور خالص راست بازی کی تعلیم نہیں دیتے اور نہ گناہ کے ہولناک نتائج بتاتے ہیں۔

کینیڈا کے ایک عبادت خانہ کے دروازے پر مَیں نے یہ پیغام لکھا ہوا دیکھا:

”ہم ہر ایک کو قبول کرتے ہیں اور
کسی کو نہیں کہتے کہ تُو گنہگار ہے۔“

خدا نے فردوس کے پھاٹک پر فرق پیغام چسپاں کر رکھا ہے:

”کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا ہے ۔۔۔
ہر گز داخل نہ ہو گا۔“

(مکاشفہ ٢١ :٢٧ )

پاک کلام کہتا ہے ”سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں“ (رومیوں ٣: ٢٣ )۔ خدا کسی کو اُس کی خوبیوں (اچھے اعمال) کی بنیاد پر قبول نہیں کرتا۔ وہ سب کو کہتا ہے تم گنہگار ہو۔

فردوس میں صرف وہی داخل ہوں گے جو اُس طریقے سے دُھل کر صاف ہوں گے جو اُس (خدا) کے عدل اور پاکیزگی کے معیار کے مطابق ہے۔

خدا کے بارے میں درست نظریہ

ایک دن یسعیاہ نبی کو خدا کی کامل قدوسیت اور ہیبت ناک جلال کا رَویا دکھایا گیا۔ یسعیاہ نے لکھا ہے:

” جس سال عزیاہ بادشاہ نے وفات پائی مَیں نے خداوند کو ایک بڑی بلندی پر اونچے تخت پر بیٹھے دیکھا اور اُس کے لباس کے دامن سے ہیکل معمور ہو گئی۔ اُس کے آس پاس سرافیم کھڑے تھے جن میں سے ہر ایک کے چھ بازو تھے اور ہر ایک دو سے اپنا منہ ڈھانپے تھا اور دو سے پاؤں اور دو سے اُڑتا تھا۔ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قدوس قدوس قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے اور پکارنے والے کی آواز کے زور سے آستاںوں کی بنیادیں ہل گئیں اور مکان دھوئیں سے بھر گیا۔ تب مَیں بول اُٹھا کہ مجھ پر افسوس! مَیں تو برباد ہوا! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور نجس لب لوگوں میں بستا ہوں، کیونکہ میری آنکھوں نے بادشاہ رب الافواج کو دیکھا“ (یسعیاہ ٦: ١۔ ٥ )۔

آسمان پر خدا کے اِرد گرد آگ کی طرح روشن جلال اِتنا درخشاں ہے کہ کامل طور پر پاک فرشتے بھی اپنے چہرے اور پاؤں ڈھانپے رکھتے ہیں۔ اُن فرشتوں پر خدا کے قدس اور جلال کی ایسی ہیبت ہے کہ وہ اُس کی حضوری میں بیٹھ نہیں سکتے بلکہ وہ اُس کے تخت کے چاروں طرف اُڑتے اور پکارتے رہتے ہیں ”قدوس، قدوس، قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے۔“

کیا وجہ ہے کہ انسان گناہ کی اصلیت کو نہیں دیکھ سکتے؟

شاید اِس لئے کہ اُنہوں نے کبھی خدا کو نہیں دیکھا کہ وہ کون اور کیسا ہے۔ اُنہوں نے اُس کی جھلکتی بلکہ دہکتی ہوئی پاکیزگی (قدس) پر کبھی دھیان نہیں دیا، کبھی غور نہیں کیا۔ یسعیاہ خدا کا دین دار نبی تھا۔ تو بھی خداوند کے پاک جلال کی رَویا نے اُسے اُس کی اپنی ناپاکی، آلودگی اور گھنونے پن کا گہرا احساس دلایا۔ وہ پکار اُٹھا ”مجھ پر افسوس! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں!“

خداوند کے ساتھ موازنہ کرنے سے یسعیاہ جانتا تھا کہ مَیں اور اسرائیل کی ساری قوم کی حالت نہایت خستہ اور ناگفتہ بہ ہے!

بعد میں یسعیاہ نے لکھا ”ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا“ ۔۔۔ ”۔۔۔ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے“ (یسعیاہ ٥٣ : ٦ ؛ ٦٤: ٦)۔ یسعیاہ جانتا تھا کہ رسمی نہانا دھونا یا اپنی ساری کوششیں بھی مجھے خداوند کے حضور پاک نہیں ٹھہرا سکتیں۔ اپنے پاک خالق کی نظروں میں ”ہم سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز۔“

شرعی یا رسمی طور سے نہانا دھونا پرانے عہدنامے کی شریعت کا حصہ تھا (دیکھئے استثنا کی کتاب)۔ اِس کا مقصد گنہگاروں کو سکھانا تھا کہ تم خدا کے حضور روحانی طور سے ناپاک ہو۔ چونکہ خدا نے مسیحِ موعود کے وسیلے سے کامل پاکیزگی اور راست بازی مہیا کر دی ہے اِس لئے اب اِن رسموں کی کوئی ضرورت نہیں (پڑھیں اعمال باب ١٠ اور کلسیوں باب ٢ )۔ تاہم آج بھی بہت سے مذاہب ظاہری اور رسمی پاکیزگی اور نہانے دھونے پر بہت زور دیتے ہیں۔ مجھے لندن سے ایک مسلم شخص کی طرف سے یہ ای میل آئی: ”مسیحیوں سمیت سارے غیر مسلم گندے اور ناپاک ہیں۔ مسلمان بہت پاک صاف اور اللہ کے نزدیک ہیں کیونکہ وہ (شرع کے مطابق) نہاتے دھوتے اور وضو کرتے ہیں۔۔۔“

ایوب نبی نے انسان کی آلودہ اور نجس حالت کو سمجھا۔ اُس نے کہا ”۔۔۔ انسان خدا کے حضور کیسے راست باز ٹھہر سکتا ہے؟ ۔۔۔ اگر مَیں اپنے کو برف کے پانی سے دھوؤں اور اپنے ہاتھ کتنے ہی صاف کروں تو بھی تُو مجھے کھائی میں غوطہ دے گا اور میرے ہی کپڑے مجھ سے گھن کھائیں گے“ (ایوب ٩: ٢ ، ٣٠ ، ٣١ )۔ اور یرمیاہ نبی نے خدا کی یہ بات لکھی ”ہر چند تُو اپنے آپ کو سجی (سوڈا) سے دھوۓ اور بہت سا صابون استعمال کرے تو بھی خداوند خدا فرماتا ہے تیری شرارت کا داغ میرے حضور عیاں ہے“ (یرمیاہ ٢: ٢٢ )۔

خدا کے بارے میں درست نظریے سے اپنے بارے میں درست نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے خالق کے بارے میں ناقص سوچ کے باعث ہمارے اپنے بارے میں غرور اور خود پسندی کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔

کوئی شخص جو نہایت گندے، غلیظ اور بیماری کے جراثیم سے لت پت چیتھڑے پہنے ہو تصور کر سکتا ہے کہ مَیں بالکل صاف ستھرا اور قابل قبول ہوں، لیکن یہ سوچ اُسے ایسا تو نہیں بنا دے گی۔

خدا کے جلال اور اُس کی راست بازی کے مقابلے میں ہماری بہترین کوششیں بھی ”ناپاک لباس“ (گندی دھجیوں) کی مانند ہیں۔

سب کے لئے سبق

بنی اسرائیل کی قوم بنانے اور تیار کرنے میں خدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ ساری قوموں کو چند اہم سبق سکھائے۔ بے شک خداوند خدا اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ وفادار تھا (اور ہے)۔ لیکن اسرائیلی خدا سے لگاتار بے وفائی کرتے رہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُن سے سبق سیکھیں۔ ”یہ باتیں ہمارے واسطے عبرت ٹھہریں تاکہ ہم بُری چیزوں کی خواہش نہ کریں جیسے اُنہوں نے کی“ (١۔کرنتھیوں ١٠ : ٦)۔

توریت کی دوسری کتاب بنام ”خروج“ میں موسی' نے لکھا ہے کہ اسرائیلی گناہ کو ویسا نہیں دیکھتے تھے جیسا خدا دیکھتا ہے۔ اسرائیلی صدیوں سے مصر کی غلامی میں تھے۔ خدا اپنے زور آور بازو سے، اپنی قدرت اور طاقت سے اُنہیں غلامی کے گھر سے نکال لایا۔ لیکن وہ خداوند خدا اور اُس کی ذات اور صفات کے بارے میں اب تک بہت کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ ہم بہت فرماں بردار ہیں اور خدا کے غضب سے بچ جائیں گے۔

” بنی اسرائیل کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھا کہ اُنہوں نے موسی' سے کہا جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے“ (خروج ١٩ :٨ )۔

وہ اپنے آپ کو بے بس گنہگار نہیں سمجھتے تھے اور نہ جانتے تھے کہ کامل راست بازی کے لئے خدا کا تقاضا کیا ہے۔وہ بھول گئے تھے کہ صرف ایک ہی گناہ نے آدم اور حوا کو اپنے خالق (خدا) سے جدا کر دیا تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اپنے گناہ کو دیکھیں اور شرم محسوس کریں۔ یہ دیکھنے اور سمجھنے میں اُن کی مدد کرنے کے لئے خدا نے اُنہیں دس نکاتی اِمتحانی پرچہ دیا۔ اُن دس نکات سے وہ اپنے آپ کو جانچ پرکھ سکتے تھے۔

بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ خداوند خدا اپنی پوری قدرت اور جلال کے ساتھ کوہِ سینا پر اُترا ”۔۔۔ بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کانپ گئے“ (خروج ١٩ :١٦ )۔ اُس وقت خدا نے بلند آواز سے دس احکام اُنہیں سنائے۔

خدا نے سارے حکم زبانی سنائے (خروج باب ٢٠ )۔ اِس کے بعد خدا نے موسی' کو پہاڑ پر بلایا اور اُسے پتھر کی دو لوحیں دیں جن پر یہ احکام کندہ تھے (خروج ٢٤ : ١٢ ؛ ٣١ : ١٨ ) — ”۔۔۔ وہ لوحیں خدا ہی کی بنائی ہوئی تھیں اور جو لکھا ہوا تھا وہ بھی خدا ہی کا لکھا اور اُن پر کندہ کیا ہوا تھا“ (خروج ٣٢ : ١٦ )۔

دس حکم

١۔ میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔

اپنی زندگی کے ایک ایک دن میں اپنے پورے دل ، اپنی پوری عقل اور اپنی پوری طاقت سے خدا کو نہ ماننا، گناہ ہے (خروج باب ٢٠ )۔

٢۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا ۔۔۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔

یہ حکم کسی بت یا مورت یا کسی بھی چیز کے آگے جھکنے اور اُسے سجدہ کرنے اور اُس کی تعظیم کرنے تک محدود نہیں۔ کسی بھی چیز (خواہش، رویہ، عادت) کو خدا کی جگہ دینا اِس حکم (قانون) کی خلاف ورزی ہے۔

٣۔ تُو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔

اگر آپ واحد حقیقی خدا کی اطاعت کرنے کا دعوی' کرتے ہیں، لیکن اُسے جاننے اور اُس کے کلام (کلمہ) کی فرماں برداری کرنے کے طالب نہیں ہوتے تو آپ خداوند کا نام بے فائدہ لیتے ہیں۔

٤۔یاد کر کے تُو سبت کا دن پاک ماننا ۔۔۔اُس میں نہ تُو کوئی کام کرے نہ ۔۔۔

خدا کا تقاضا تھا کہ میری (خدا کی) تعظیم کی خاطر اسرائیلی ساتویں دن کوئی کام نہ کریں۔

٥۔ تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔

کامل فرماں برداری میں ذرا بھی کسر ہو تو گناہ ہے۔ جو بچہ والدین کی عزت نہیں کرتا یا اُن کے ساتھ بُرا رویہ رکھتا ہے وہ اِس حکم کی خلافی ورزی کرتا ہے۔

٦۔ تُو خون نہ کرنا۔

خدا نے یہ بھی فرمایا ہے ”جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے“ (١۔یوحنا ٣: ١٥ )۔ عداوت، قتل کے برابر ہے۔ خدا دلوں کو دیکھتا ہے اور سارا وقت بے لوث، بے غرض محبت کا تقاضا کرتا ہے۔

٧۔ تُو زنا نہ کرنا۔

یہ حکم نہ صرف جسم کے غیر اخلاقی استعمال سے منع کرتا ہے بلکہ دل و دماغ میں ناپاک خیالات لانے سے بھی منع کرتا ہے۔ ”جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا۔“ (متی ٥: ٢٨ )

٨۔ تُو چوری نہ کرنا۔

اپنے جائز حصے یا حق سے زیادہ لے لینا، ٹیکس میں ڈنڈی مارنا، امتحان میں نقل کرنا یا اپنے مالک کے لئے دیانت داری سے کام نہ کرنا، یہ سب چوری کرنے کی مختلف شکلیں ہیں۔

٩۔ تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔

کسی شخصی، کسی چیز یا کسی واقعہ کے بارے میں کوئی ایسا بیان دینا یا بات کرنا جو پورا سچ نہ ہو، گناہ ہے۔

١٠۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔

جو چیز کسی دوسرے کی ملکیت ہے اُس کی طلب رکھنا گناہ ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرنی چاہئے۔

قصور وار !

خداوند خدا اِن دس حکموں کا اعلان کر چکا تو کیا ہوا؟ پاک کلام بیان کرتا ہے کہ ”سب لوگوں نے بادل گرجتے اور بجلی چمکتے اور قرنا کی آواز ہوتے اور پہاڑ سے دھواں اُٹھتے دیکھا اور جب لوگوں نے یہ دیکھا تو کانپ اُٹھے اور دُور کھڑے ہو گئے۔“ (خروج ٢٠ : ١٨ )

اب وہ ڈینگیں نہیں مار رہے تھے کہ ”جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔“

وہ امتحان میں ناکام ہو گئے تھے۔

آپ کا کیا حال ہے؟ آپ امتحان میں کیسے رہے؟

اگر آپ نے دسوں حکموں میں سو فیصد (اِس کا مطلب ہے کہ اپنی پیدائش سے لے کر اِس لمحے تک ہر روز ٢٤ گھنٹے، ہفتے میں ٧ دن) سے کم نمبر لئے ہیں تو آپ بنی اسرائیل کی مانند، اور میری مانند امتحان میں ناکام ہو گئے ہیں۔

”کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی وہ سب باتوں میں قصوروار ٹھہرا“ (یعقوب ٢: ١٠ )۔

اِس کتاب کے پہلے باب میں ہم نے دیکھا تھا کہ بائبل مقدس نہ صرف دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ کترائی جانے والی کتاب بھی ہے۔ اِس کے اِتنی نامقبول ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے گناہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور ہمارے غرور کو تار تار کر دیتی ہے۔ یہ ہمیں کہتی ہے ”تُو کہتا ہے کہ مَیں دولت مند ہوں اور مال دار بن گیا ہوں اور کسی چیز کا محتاج نہیں اور یہ نہیں جانتا کہ تُو کم بخت اور خوار اور غریب اور اندھا اور ننگا ہے“ (مکاشفہ ٣: ١٧ )۔ بائبل مقدس یہ بھی کہتی ہے ”۔۔۔ زمین پر کوئی ایسا راست باز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے“ (واعظ ٧: ٢٠ )۔

خدا کی شریعت ہمیں اپنے بارے میں کچھ اچھا احساس نہیں دلاتی۔

دس حکم کیوں؟

اِن حکموں کا مقصد کیا ہے؟ اگر کوئی انسان خدا کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتا تو خدا نے یہ معیار بتایا ہی کیوں؟

واضح وجہ تو یہ ہے کہ خدا نے یہ دس حکم اِس لئے دیئے کہ بنی نوع انسان کو ایک واضح اور صاف اخلاقی معیار مہیا ہوتا کہ معاشرے میں نظم اور باقاعدگی قائم رہے۔ جس ثقافت یا تہذیب میں اتفاق رائے نہ ہو کہ کیا غلط اور کیا درست ہے، وہاں طوائف الملوکی، لاقانونیت اور ظلم و جبر کا دور دَورہ ہوتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن خدا نے جو دس حکم دیئے تو چند مزید اہم اور ضروری وجوہات بھی تھیں۔

”۔۔۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راست باز نہیں ٹھہرے گا اِس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے“ (رومیوں ٣: ١٩ ۔ ٢٠ )۔

دس حکموں کے تین کام

١۔ خدا کی شریعت خود کو راست باز ٹھہرانے والوں کا منہ بند کر دیتی ہے۔ ”۔۔۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جاۓ اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے“ (رومیوں ٣: ١٩ )۔ دس حکم ہم پر واضح کرتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو کتنا ہی نیک کیوں نہ سمجھتے ہوں مگر خدا کی کامل راست بازی کے معیار پر کبھی پورا نہیں اُتر سکتے، اُس کے معیار کا تقاضا پورا نہیں کر سکتے۔ آپ شریعت کو توڑنے کے مجرم ہیں۔ فخر کرنا اور ڈینگیں مارنا چھوڑ دو (دیکھئے لوقا ١٨ : ٩ ۔ ١٤ ؛ افسیوں ٢: ٨،٩)۔

٢۔ خدا کی شریعت ہمارا گناہ ظاہر کر دیتی ہے، کیونکہ شریعت گناہ کی پہچان کراتی ہے۔ شریعت ایکس رے کی طرح ہے۔ ایکس رے کی تصویر ٹوٹی ہوئ ہڈی تو دکھا دیتی ہے، لیکن اُسے جوڑ نہیں سکتی۔ اِسی طرح ”شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راست باز نہ ٹھہرے گا“ یعنی اِتنا نیک ثابت نہیں ہو گا کہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ۔ دس حکم آئینے کی مانند ہیں جو انسان کو اُس کا گندہ چہرہ دکھا دیتا ہے، لیکن میل کچیل کو دھو کر دُور نہیں کر سکتا۔

چند سال ہوۓ مَیں نے سینیگال میں رومن کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے مڈل سکول کے ایک ریاضی کے اُستاد کو خدا کی شریعت کے مقصد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ یہ اُس کے لئے ایک حیرت ناک اور چونکا دینے والا انکشاف تھا۔ اُس نے حسرت بھری آواز سے کہا، ” ٹھیک ہے، دس حکم ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم خدا کے حضور بے بس گنہگار ہیں۔ وہ پاک ہے اور ضرور ہے کہ گناہ کی عدالت کرے اور ہم اپنے نیک اعمال یا دعاؤں یا روزوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے۔ تو پھر ہم خدا کے حضور کیسے قابلِ قبول ٹھہر سکتے ہیں؟ حل کیا ہے؟“

٣۔ خدا کی شریعت ہمیں خدا کا حل بتاتی ہے۔ جس طرح ہسپتال میں ایکسرے لینے والا ٹوٹی ہوئی ٹانگ والے شخص کو بتاتا ہے کہ فلاں مانے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاؤ وہ ٹوٹی ہڈیاں جوڑ سکتا ہے، اِسی طرح شریعت اور انبیا ہمیں اُس واحد ”معالج“ کے پاس جانے کی ہدایت کرتے ہیں جو ”شریعت کی لعنت سے چھڑا“ سکتا ہے (گلتیوں ٣: ١٣ )۔ تھوڑی دیر بعد ہم اِس نکتے پر مزید بات کریں گے۔

مسیحِ موعود واحد ہستی ہے جس نے خدا کے سارے حکموں پر پورا پورا عمل کیا۔ صرف وہی کہہ سکتا ہے ”اے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے، بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے“ (زبور ٤٠ : ٨ )۔ شریعت اُسی کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے ”شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں“ (گلتیوں ٣: ٢٤ )۔ انسان کے گناہ کے لئے خدا کے حل کا پورا خاکہ رومیوں ٣: ٢٠ ۔ ٢٧ میں پیش کیا گیا ہے۔

بچاؤ !

اگر آپ ڈوب رہے ہوں اور کوئ نزدیک ہو جو آپ کو بچا سکتا ہو تو کیا آپ اِتنا غرور کریں گے کہ اُسے نہ پکاریں؟

یہ تسلیم کرنا شکست کی بات نہیں ہے کہ مَیں اپنے آپ کو گناہ کی سزا سے جو موت ہے بچا نہیں سکتا۔ یہ فتح کی طرف پہلا قدم ہے۔ انسان کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد صرف خدا مہیا کر سکتا ہے۔

بہت مشہور کہاوت ہے کہ ”ہمتِ مرداں مددِ خدا“ یعنی انسان ہمت کرے تو خدا بھی مدد کرتا ہے۔ بے شک یہ کہاوت زندگی کے کئی شعبوں پر اطلاق کرتی ہے۔ لیکن جب ہماری گناہ سے آلودہ اور مُردہ روحانی حالت کی بات ہو تو اِس کے بالکل اُلٹ بات صادق آتی ہے۔ خدا اُن کی مدد کرتا ہے جو جانتے اور مانتے ہیں کہ ہم اپنی مدد نہیں کر سکتے۔

خدا اُن کی مدد کرتا ہے جو مانتے ہیں کہ ہمیں نجات دہندہ، چھڑانے اور بچانے والے کی ضرورت ہے۔

ایک عام افریقی ضرب المثل ہے کہ لکڑی کا لٹھا مدتوں پانی میں پڑا رہے لیکن مگر مچھ نہیں بنے گا۔ اِسی طرح انسان بھی اپنی نجس اور گھنونی فطرت کو بدل کر راست باز نہیں بن سکتا۔

نجس ہو گیا

پھر آدم کو یاد کریں۔ خدا نے اُسے ایک حکم دیا تھا۔

”نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا۔“

اگر آدم اور حوا اپنے خالق کا حکم مانتے تو وہ ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے تھے اور اُس کے ساتھ اُن کا خوش گوار رشتہ اور گہرا ہو سکتا تھا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

ہمارے اوّلین والدین نے حکم عدولی کی اور خدا کے ساتھ اُن کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب گنہگار ہو گئے اور اپنے آپ کو خدا سے چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ اُنہیں شرم محسوس ہو رہی تھی۔ اُنہوں نے اپنا ننگا پن انجیر کے پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ لیکن خدا نے اُنہیں ڈھونڈ نکالا۔ اُس نے اُنہیں اپنے عدل اور رحم کی جھلک دکھائی اور پھر اپنی حضوری سے نکال دیا۔ وہ (خدا) واپسی کا راستہ مہیا نہ کرتا تو وہ ہمیشہ تک باہر (فردوس بدر) رہتے۔ وہ اپنے پاک اور قدوس خالق اور منصف کے حضور میں نجس اور ملعون تھے۔

یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے۔ آدم اور حوا کو کتنے گناہ کرنے تھے جن کے بعد خدا اُنہیں باغِ عدن سے نکال دیتا؟

صرف ایک گناہ سے یہ کام ہو گیا۔

اُنہوں نے ماضی میں کتنے بھی ”نیک اعمال“ کۓ ہوتے یا بعد میں کتنی بھی کوشش کرتے، تو بھی اُس صرف ایک گناہ کے نتائج کو باطل نہیں کر سکتے تھے۔

”نیک ہونا“ خدا کا معمول کا معیار ہے۔ جب آدم نے گناہ کیا تو وہ خدا کے معیار کے مطابق ”نیک“ نہ رہا۔ وہ خالص پانی سے بھرے ہوئے گلاس کی مانند ہو گا جس میں کوئ ایک قطرہ سنکھیا ڈال دے۔ اگر گلاس میں زہریلا پانی ہو، اور اُس میں اور خالص پانی ڈالیں تو کیا اُس کا زہر نکل جاۓ گا؟ نہیں۔ اِسی طرح ہم کتنے بھی نیک کام کریں گناہ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ گناہ کا نتیجہ موقوف نہیں ہو گا۔ لیکن اگر نیک اعمال گناہ کو دُور کر بھی سکتے تو بھی ہمارے پاس ”خالص پانی“ نہیں ہے۔ صحیح معنوں میں نیک اعمال ہیں نہیں جو اپنی گناہ آلود سرشت میں ڈال سکیں۔

ہماری بڑی بڑی کوششیں خدا کی نظر میں آلودہ اور نجس ہیں۔

آدم کی روح گناہ سے آلودہ ہو چکی تھی — اور حوا کی بھی اور ہماری بھی۔ ہم سب اُسی آلودہ سرچشمہ سے نکلے ہیں۔ داؤد نبی ہمیں خدا کا فیصلہ سناتا ہے:

” خداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئ دانش مند، کوئی خدا کا طالب ہے یا نہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوۓ۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں“ (زبور ١٤ : ٢، ٣)۔

ہمارا دُہرا مسئلہ

ایک سو سال پرانا واقعہ سنایا جاتا ہے کہ برطانوی جیل میں ایک آدمی قید تھا۔ اُسے سزاۓ موت ہو چکی تھی۔ ایک دن اُن کی کالی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور جیلر اندر آیا اور بولا ”خوش ہو جاؤ! ملکہ معظمہ نے تمہاری سزا معاف کر دی ہے۔“

جیلر کو سخت حیرت ہوئ کیونکہ اُس آدمی نے کوئی ردِ عمل نہ دکھایا۔

جیلر نے دستاویز کو اُس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوۓ کہا، ”میاں، خوش ہو جاؤ۔ یہ ہے معافی نامہ، ملکہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔“

اب اُس نے اپنی قمیص اُٹھائ اور ایک خوف ناک سی رسولی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہنے لگا، ”مجھے سرطان ہے۔ یہ چند دنوں یا ہفتوں میں مجھے مار ڈالے گا۔ اگر ملکہ اِسے نہیں نکالتی تو میرے لئے معافی بے کار ہے۔“

وہ شخص جانتا تھا کہ مجھے جرائم کی معافی سے زیادہ کوئی چیز چاہئے— اُسے نئ زندگی چاہئے تھی۔

آدم کی نسل کا ہر شخص اُس آدمی جیسا ہے جسے سزاۓ موت ہو چکی تھی۔ ہم پیدائشی گنہگار ہیں اور اپنی مرضی، اپنے چناؤ سے بھی گنہگار ہیں۔ ہم دُہرے مخمصے میں ، دُہری مصیبت میں پھنسے ہوۓ ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ خدا کے خلاف جرائم کی معافی ملے اور ہمیں ضرورت ہے کہ خدا سے راست باز اور ابدی زندگی ملے جس سے ہم خدا کی پاک حضوری میں رہنے کے قابل ہو جائیں۔ ہماری دُہری مصیبت یہ ہے:

  • گناہ: ہم گنہگار ہیں۔ صرف خدا ہی ہمیں گناہ سے پاک صاف کر سکتا اور ہمیں ابدی سزا سے چھڑا سکتا ہے۔
         ہمیں خدا کی معافی کی ضرورت ہے۔
  • شرمندگی: ہم روحانی طور سے ننگے ہیں۔ صرف خدا ہی ہمیں اپنی راست بازی سے ملبس کر سکتا ہے اور اپنی ابدی زندگی دے سکتا ہے۔
         ہمیں خدا کی کاملیت کی ضرورت ہے۔

ہمارے گناہ اور شرمندگی کو دُہرے علاج کی ضرورت ہے جو ہم مہیا نہیں کر سکتے ہیں۔

خوش خبری یہ ہے کہ خدا نے یہ دُہرا علاج مہیا کر دیا ہے۔

۱۶
عورت کی نسل
 

سردیوں کا موسم تھا۔ رات کا وقت تھا۔ دھند چھائی ہوئی تھی۔ اتفاق سے دو چھوٹے بچے ڈھلوان اور پھلسنے گڑھے میں گر گئے۔ دونوں کے چوٹیں آئیں۔ وہ خوف زدہ اور بے بس تھے۔ وہ ایک دوسرے کو بچا نہیں سکتے تھے کیونکہ دوںوں ایک ہی مصیبت میں پھنسے ہوۓ تھے۔ اگر گڑھے کے باہر سے مدد نہ پہنچتی تو دونوں کی موت یقینی تھی۔ کچھ دیر بعد تین آدمیوں نے اُنہیں ڈھونڈ لیا۔ رسے کی مدد سے ایک آدمی کو  اُس تاریخ اور دلدلی گڑھے میں اُتارا گیا ۔۔۔ بچوں کو رسے کی مدد سے کھینچ کر نکال لیا گیا۔

اُن کی رہائی اوپر سے آئی۔

آدم اور حوا نے جس روز پہلی دفعہ گناہ کیا وہ اُن دو بچوں جیسے ہو گئے۔ وہ گناہ کے گڑھے میں گر گۓ۔ وہ اپنے آپ کو اُس گڑھے سے نکال نہیں سکتے تھے۔ اگر اُنہیں ابدی موت سے رہائی پانا تھی تو اُس رہائی کا برگشتہ یا گناہ میں گری ہوئ انسانی نسل کے باہر سے __ اوپر سے آنا ضرور تھا۔ اِس سلسلے میں کوئی غلطی نہ کریں۔ انسان کی حالت نازک اور خطرناک ہے۔ انسان اپنا علاج نہیں کر سکتا۔ اُس کے پاس کوئی مداوا نہیں ہے۔

صدیوں سے آدم کی اولاد __ مرد اور عورت سے پیدا ہونے والی نسل __ گناہ کی سرشت ورثے میں لے کر پیدا ہو رہی ہے۔ سب کے سب گناہ کی لعنت کے تحت پیدا ہوۓ ہیں۔

گنہگاروں کو گناہ کی لعنت اور اِس کے نتائج سے چھڑانے کے لئے خدا نے ایک بے گناہ آدم کو دنیا میں لانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ آدم اُن سب کو رہائی دے گا جو گناہ کے گڑھے سے رہائی پانا چاہیں گے۔

خدا یہ کام کیسے کرے گا؟ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آدم کے گناہ کی سرشت ورثے میں لئے بغیر انسانی خاندان میں پیدا ہو؟ خدا نے پہلا اشارہ اُسی دن دے دیا تھا جب انسانی نسل گناہ سے آلودہ ہوئی تھی۔

خدا نے سانپ یعنی شیطان کو اُسی وقت آگاہ کر دیا تھا:

” مَیں تیری اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں  گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائس ٣: ١٥ )۔

”عورت کی نسل“ کہہ کر خداوند خدا نے پہلے ہی بتا دیا کہ عورت سے ایک لڑکا پیدا ہو گا، اُس کے وسیلے سے مَیں (خدا) گنہگاروں کو رہائی دوں گا اور بالآخر شیطان کو کچل ڈالوں گا۔ اور بدی (گناہ) کا خاتمہ کروں گا۔ یہ پہلی پیش گوئ تھی جس کے بعد سینکڑوں پیش گوئیاں ہونی تھیں۔ اور ہر پیش گوئ کو مزید وضاحت اور صفائی سے تاریخ کے اُس لمحے کے بارے میں بتانا تھا جب اُس نجات دہندہ، اُس منجی مسیحِ موعود کو دنیا میں آنا تھا۔

”عورت کی نسل“ کیوں؟

وہ مسایاح __ وہ منجی ”عورت کی نسل“ سے کیوں آۓ گا؟ کیوں ضروری تھا کہ وہ ”عورت کی نسل سے پیدا ہو“ مگر آدمی کی نسل سے نہ ہو (گلتیوں ٤:٤ )؟

اِس کا جواب یہ ہے۔ اگرچہ نجات دہندے کو آدم کی گنہگار نسل کے پاس ایک انسان بن کر آنا تھا، مگر ضرور تھا کہ وہ گناہ کے گڑھے کے باہر سے آۓ۔ وہ اوپر سے اُترے۔

خدا نے ”عورت کی نسل“ کے بارے میں بتا دیا۔ یہ پہلی پیش گوئ تھی۔ اِس کے بہت عرصے بعد یسعیاہ نبی کی معرفت فرمایا گیا:

” ۔۔۔ خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو، ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمانوایل رکھے گی“ جس کا مطلب ہے ” خدا ہمارے ساتھ“ (یسعیاہ ٧: ١٤ )۔

نجات دہندہ ایک ایسی جوان خاتون کے رِحم سے انسانی نسل میں آۓ گا جس کا کسی مرد سے جسمانی تعلق ہرگز نہیں ہوا۔ اِس طرح مسایاح آدم کی گناہ آلود سرشت ورثے میں لئے بغیر آدم کی برگشتہ نسل (گناہ میں گرے ہوۓ انسانوں) کے پاس آۓ گا۔

لیکن ذرا ٹھہریں۔ کوئ شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ عورتیں بھی تو گنہگار ہیں۔ اگر مسایاح (مسیحِ موعود) بے مثال طریقے سے صرف عورت سے پیدا ہو تو کیا وہ اپنی ماں کی گناہ آلودہ سرشت سے آلودہ نہ ہو گا؟

چند صفحات آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ کس طرح خدا کے پاک روح کے وسیلے سے یہ پاک بچہ معجزانہ طور سے ماں کے پیٹ میں پڑا۔ لیکن پہلے ہم خدا کے منصوبے کے چند عناصر پر غور کریں گے کہ وہ اپنے بے گناہ بیٹے کو ایک کنواری کے رِحم کے وسیلے سے دنیا میں لایا تو یہ مسایاح (مسیحِ موعود) گناہ کے اثر سے محفوظ رہا جو آدم کی نسل میں پھیل گیا تھا۔

گناہ سے بے داغ

ہم نے باب ١٣ میں سیکھا تھا کہ خدا نے آدم کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ انسانی نسل کو شیطان کی گناہ اور موت کی مملکت میں لے گیا۔ حوا نے فریب کھایا، آدم نے نہیں۔ مردوں کی طرح عورتیں بھی گناہ آلودہ سرشت کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم پاک کلام بالکل واضح کر دیتا ہے کہ آدم کے ساتھ ہمارا تعلق ہی وجہ ہے کہ ہم گناہ آلودہ سرشت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

عبرانی زبان میں آدم (اَدمہ) کا لغوی مطلب ہے ”سرخ مٹی“۔ خدا نے آدم کا بدن زمین کی مٹی سے بنایا تھا۔ آدم کے گناہ کرنے پر خدا نے اُس سے کہا ”۔۔۔ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جاۓ گا“ (پیدائش ٣: ١٩ )۔

”۔۔۔ جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢ ۔ مزید پڑھیں رومیوں باب ٥ ؛ گلتیوں ٤: ٤ ، ٥)۔ اِس کے برعکس ”حوا“ کا مطلب ہے ”زندگی“ ، ”اِس لئے کہ وہ سب زندوں کی ماں ہے“ (پیدائش ٣: ٢٠ )۔ جس دن گناہ دنیا میں داخل ہوا اُسی دن خدا نے اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا کہ وہ ”عورت کی نسل“ کے وسیلے سے ہمارے گناہ کا ازالہ کرے گا اور دنیا کے لئے ابدی زندگی مہیا کرے گا (پیدائش ٣: ١٥ )۔

اگرچہ مسیحِ موعود گوشت اور خون کا بدن اختیار کرے گا، مگر اُس کی اصل آدم کی گناہ آلودہ نسل کے خون سے نہ ہو گی۔ وہ گناہ سے بے داغ اور مبرا ہو گا۔

اتفاق کی بات ہے کہ علمِ حیاتیات کے مطابق بچے کی جنس (نر یا مادہ) کا تعین باپ کے ”بیج“ (نطفہ) سے ہوتا ہے، ماں کے ”بیج“ (انڈا) سے نہیں ہوتا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ حمل ٹھہرنے کے ساتھ ہی ماں کے رِحم میں بچے میں دورانِ خون کا نظام موجود ہوتا ہے، جو اُس کی ماں کے نظام سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ طبی سائنس کہتی ہے کہ ”آنول“ ایک بے مثال رکاوٹ بن جاتی ہے جو ماں کے خون کو علیحدہ رکھتی ہے جبکہ خوراک اور آکسیجن کو جنین (رِحم کے اندر بچہ) تک پہنچاتی ہے۔

پہلے انسان کو خلق کرنے سے پہلے ہی خدا نے مسیحِ  موعود  کے دنیا میں آنے کی ہر ایک تفصیل مرتب کر لی تھی۔

ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی مثال کو یاد کریں۔ اُس علیحدہ ہو چکی مُردہ ٹہنی کی طرح انسانی خاندان، انسانی نسل بھی مُردہ ہے، کیونکہ زندگی کے منبع سے کٹ گئی ہے۔ اگر نجات دہندے کو آدم کے گناہ آلودہ  اور روحانی طور پر مُردہ خاندان کے درمیان رہنا تھا تو بھی اُسے آدم کی نسل سے نہیں آنا تھا۔ وہ خود ”انگور کا حقیقی درخت“ ہے (یوحنا ١٥: ١ )۔ یعنی زندگی کا سرچشمہ، زندگی کا بانی ہے۔

وہ کامل ہو گا۔

کامل کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کے بدن پر کوئی خراش ، پھنسی یا زخم نہیں آۓ گا۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے کردار اور عمل میں کامل ہو گا۔ اُس کی سرشت کامل ہو گی۔ اُس کی ذات کامل ہو گی۔ وہ خدا کی شریعت کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ وہ ”پاک اور بے ریا اور بے داغ اور گنہگاروں سے جدا اور آسمانوں سے بلند“ ہو گا (عبرانیوں ٧: ٢٦ )۔

کیا کوئ تعجب کی بات ہے کہ مسیحِ موعود کو ”پچھلا آدم“ اور ”دوسرا آدمی“ کہا گیا ہے؟ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٤٦ ، ٤٧ )۔

دوسرا آدمی

۔۔۔ چنانچہ لکھا بھی ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم زندہ نفس بنا۔ پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔ لیکن روحانی پہلے نہ تھا بلکہ نفسانی تھا۔ اِس کے بعد روحانی ہوا۔ پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔ دوسرا آدمی آسمانی ہے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٤٥ ۔ ٤٧ )۔

جس طرح ”پہلا آدمی“ سارے انسانوں کو شیطان کی نجاست اور موت کی تاریک بادشاہی میں لے گیا اُسی طرح ”دوسرا آدمی“ بہت سے انساںوں کو شیطان کی بادشاہی سے نکال کر خدا کی راست بازی اور زندگی کی شاندار اور جلالی بادشاہی میں لے جاۓ گا۔ یہی وجہ ہے کہ جس روز گناہ نے انسانی نسل کو آلودہ اور نجس کیا اُسی دن خداوند خدا نے شیطان کو نوٹس دے دیا یعنی آگاہ کر دیا کہ ایک دن ”عورت کی نسل“ سے ایک شخص دنیا میں آۓ گا جو تجھے زخمی کرے گا اور بالآخر کچل ڈالے گا۔

اِس منجیِ موعود کے بارے میں میکاہ نبی لکھتا ہے:

” ۔۔۔ اے بیت لحم افراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔۔۔ وہ اُس وقت انتہایِ زمین تک بزرگ ہو گا اور وہی ہماری سلامتی ہو گا“ (میکاہ ٥: ٢ ، ٤، ٥)۔

میکاہ نبی نے نہ صرف یہ بتایا کہ مسیحِ موعود بیت لحم کے قصبے میں پیدا ہو گا بلکہ اُس نے اُس کے ازل سے موجود ہونے کا بھی اعلان کیا کہ وہ ”قدیم الایام ہے، وہ ہمیشہ سے ہے۔“ یہ ”قدیم الایام“ ابد (ابدیت) سے زمان (وقت) میں قدم رکھے گا۔

بیت لحم افراتاہ بیت لحم کا پرانا نام تھا۔ یہ قصبہ یروشلیم کے جنوب میں واقع ہے (پیدائش ٣٥ : ١٦ ۔ ١٩ ؛ ٤٨ :٧ )۔ داؤد بادشاہ بیت لحم میں پیدا ہوا تھا (١۔سموئیل ١٩: ١ ، ١٨ ،١٩ ؛ ١٧ : ١٢ ) اور وہ مسایاح کا جدِ امجد تھا (متی ٢: ١۔ ٦ ؛ لوقا ٢: ١۔ ١٢ )۔ یسوع کے زمینی زندگی کے زمانے کے یہودی اُس کے بارے میں اُلجھن میں رہے کیونکہ وہ گلیل کے ناصرت میں پلا بڑھا تھا (یوحنا ٧: ١٢ )۔

نبیوں کی پیش گوئیاں

نبیوں نے پیش گوئیوں سے بتا دیا کہ مسایاح (مسیحِ موعود) ایک کنواری کے بطن سے اور بیت لحم میں پیدا ہو گا۔ اِسی طرح اُنہوں نے یہ بھی پہلے سے بتا دیا کہ اُس سے پہلے ایک پیشرو آۓ گا جو اُس کی آمد کی خبر دے گا۔ نبیوں نے لکھا کہ خدا کے برگزیدہ کے لقب خدا کا بیٹا (ابن اللہ) اور ابنِ آدم ہوں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اندھوں کو بینائ، بہروں کو سماعت اور لنگڑوں کو چلنے کی صلاحیت عطا کرے گا۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوگا۔ اُس کے اپنے لوگ اُسے رد کریں گے۔ لوگ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے، اُس پر تھوکیں گے۔ اُسے کوڑے لگا کر مصلوب کیا جائے گا۔ اُس کا اپنا کوئی گناہ نہ ہو گا، لیکن وہ دوسروں کے گناہوں کے لئے مرے گا۔ وہ ایک امیر آدمی کی قبر میں دفن کیا جاۓ گا۔ لیکن وہ موت پر فتح پاۓ گا، زندہ ہو کر دکھائی دے گا اور آسمان پر چلا جاۓ گا جہاں سے آیا تھا۔ بائبل مقدس کے حوالوں کے لئے باب ٥ میں پیش گوئیوں کی فہرست دیکھیں۔

تاریخ میں کون سا شخص اُس  خاکے پر پورا اُترتا ہے جو نبیوں نے قلم بند کیا تھا؟

اُس کا نام ہے __ یسوع۔

خدا اپنا وعدہ پورا کرتا ہے

صدیوں سے خدا وعدہ کرتا آیا تھا کہ مَیں نجات دہندے کو دنیا میں بھیجوں گا۔ وہ ابرہام، اِضحاق، یعقوب ، یہوداہ، داؤد اور سلیمان کے خاندان سے ہو گا۔ چنانچہ نۓ عہدنامے میں پہلی کتاب متی کی انجیل (خوش خبری) اِن لفظوں سے شروع ہوتی ہے:

”یسوع مسیح ابنِ داؤد ابنِ ابرہام کا نسب نامہ ابرہام سے اضحاق پیدا ہوا اور اضحاق سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یہوداہ۔۔۔ “

اِس کے بعد ناموں کی لمبی فہرست ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”داؤد سے سلیمان ۔۔۔ پیدا ہوا۔“ اور اخیر میں یوں مرکوز ہے ”۔۔۔یوسف پیدا ہوا۔ یہ اُس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے“ (متی ١:١ ،٢، ١٦ )۔

”مسیح“ عبرانی کے لفظ ”مسایاح“ کے لئے یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کا مطلب ہے ممسوح یا مسح کیا ہوا (چنا ہوا یا برگزیدہ)۔ ”مسایاح“ کے معنوں پر تفصیلی بیان کے لئے دیکھئے باب ١٤ ، ذیلی عنوان ”دو نسلیں“۔

یہ نسب نامے قانونی دستاویزات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ یسوع داؤد کے تخت کا جائز اور قانونی حق دار ہے اور ثابت کرتی ہیں کہ یسوع ابرہام، اضحاق اور یعقوب کا حقیقی جانشین ہے جن کے وسیلے سے خدا نے زمین کی ساری قوموں کو برکت دینے کا وعدہ کیا تھا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ خدا اپنے رہائی دینے کے منصوبے پر عمل درآمد کرے ”جس کا اُس نے پیشتر سے اپنے ںبیوں کی معرفت کتابِ مقدس میں اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا ۔۔۔“ (رومیوں ١: ٢)۔

خدا تعالی' کا بیٹا

لوقا کی انجیل کے باب ۱ میں وہ دلکش واقعہ درج ہے جب جبرائیل فرشتہ زکریاہ کے پاس آیا۔ زکریاہ یروشلیم کی ہیکل میں بخور جلانے کی خدمت کر رہا تھا۔ زکریاہ اور اُس کی بیوی الیشبع بہت بُوڑھے تھے اور اب اُن کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی تھی۔ تو بھی فرشتے نے اُسے بتایا کہ تیری بیوی کے بیٹا ہو گا تُو اُس کا نام ”یوحنا“ رکھنا۔ یہ یوحنا مسایاح (مسیحِ موعود) کا پیشرو ہو گا۔

اِس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ جبرائیل فرشتہ ایک دیندار جوان خاتون کے پاس بھیجا گیا۔ اُس خاتون کا نام ”مریم“ تھا۔

۔۔۔ جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اُس کنواری کا نام مریم تھا۔ اور فرشتہ نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اِس کلام سے بہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔ فرشتہ نے اُس سے کہا اے مریم! خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تُو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالی' کا بیٹا کہلاۓ گا اور خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا۔۔۔ اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہو گا۔ مریم نے فرشتہ سے کہا یہ کیونکر ہو گا جبکہ مَیں مرد کو نہیں جانتی؟ اور فرشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالی' کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔۔۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہرگز بے تاثیر نہ ہو گا“ (لوقا ١: ٢٦ ۔ ٣٨ )۔

گنہگاروں کا نجات دہندہ

چند مہینوں بعد یوسف کو معلوم ہوا کہ میری منگیتر مریم حاملہ ہے۔ اُس نے ظاہر کے مطابق فرض کر لیا کہ مریم نے بے وفائی کی ہے اور اُس نے فیصلہ کیا کہ عنقریب ہونے والی شادی منسوخ کر دے۔

پس اُس کے شوہر یوسف نے جو راست باز  (آدمی) تھا اور اُسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اُسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔ وہ اِن باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اُسے خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابنِ داؤد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس سے ہے۔ اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا ںام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا“ (متی ١: ١٩ ۔٢١ )۔

پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں دکھایا گیا ہے کہ روح القدس خدا خود ہے (پیدائش ٢: ١)۔

خدا نے فوق الفطرت طریقے سے اپنا روح القدس مریم کے رِحم میں ڈال دیا تھا۔

خدا کے روح القدس کو جبرائیل فرشتے کے  ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہئے۔ جبرائیل فرشتہ ایک مخلوق ہستی ہے۔ روح القدس مخلوق نہیں بلکہ خود خدا کا روح ہے جو ازل سے فعال ہے (مزید دیکھیں باب ٩ اور ٢٨)۔

”یسوع“ نام یونانی نام ( Iesous ) کی عبرانی نقلِ حرفی ہے۔ یہ عبرانی نام ( Yehoshua ) کی مختصر شکل ”یشوع“ سے مشتق ہے۔

اِس نام کا مطلب ہے ”خداوند نجات دیتا ہے۔“

”یہ سب کچھ اِس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ ”دیکھو، ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عمانوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے 'خدا ہمارے ساتھ'۔““

پس یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا خداوند کے فرشتے نے اُس کو حکم دیا تھا اور اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا اور اُس کو نہ جانا جب تک اُس کے بیٹا نہ ہوا اور  اُس کا نام یسوع رکھا“ (متی ١: ٢١ ۔ ٢٥ )۔

   یسوع کی پیدائش کے بعد مریم اپنے شوہر  یوسف کے ساتھ رہنے لگی اور اُنہوں نے عام میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کی اور اُن کے بیٹے بیٹیاں پیدا ہوۓ۔ (متی ١٣ :٥٥ ، ٥٦ ؛ لوقا ٨: ١٩ ؛ یوحنا ٧: ٣ ۔١٠ )

خدا کا وعدہ پورا ہوا

خدا اُس منصوبے کو پورا کر رہا تھا جو اُس نے اُس روز ظاہر کرنا شروع کیا تھا جب گناہ دنیا میں داخل ہوا تھا۔ ”عورت کی نسل“ پیدا ہونے کو تھی۔

چند صفحے پیچھے ہم نے میکاہ نبی کی پیش گوئ پڑھی تھی کہ مسایاح (مسیحِ موعود) کہاں پیدا ہو گا۔ خداوند خدا نے پیشگی بتا دیا تھا کہ وہ داؤد بادشاہ کے آبائ قصبے بیت لحم میں پیدا ہو گا۔

لیکن ایک مشکل تھی۔

مریم اور یوسف ناصرت میں رہتے تھے، جو بیت لحم سے کئی دن کی مسافت پر تھا۔

میکاہ نبی کی پیش گوئی کیسے پوری ہو گی؟

کوئی مسئلہ نہیں!

خدا رومی سلطنت کو حرکت میں لاۓ گا کہ اِس پیش گوئی کو پورا کرنے میں مدد کرے۔

اُن دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستُس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورنیُس کے عہد میں ہوئ۔ اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔ پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرت سے داؤد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے، اِس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اولاد سے تھا تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔ جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اُس کے وضعِ حمل کا وقت آ پہنچا اور اُس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی“  (لوقا ٢: ١۔ ٧)۔

   مسیحِ موعود کسی شاندار اور آرام محل میں پیدا نہیں ہوا بلکہ ایک معمولی سی سرائے میں پیدا ہوا اور اُسے مویشیوں کی چرنی میں لٹایا گیا۔ وہ دنیا میں اِس طرح سے آیا کہ نہایت غریب اور معمولی لوگ بھی اُس کے پاس آتے ہوئے نہ ڈریں، نہ جھجکیں۔

فرشتے کا شاہی اعلان

” اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔ اور خداوند کا فرشتہ اُن کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال اُن کے گرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔ مگر فرشتہ نے اُن سے کہا ڈرو مت، کیونکہ دیکھو مَیں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمت کے واسطے ہو گی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔ اور اِس کا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاؤ گے“ (لوقا ٢: ٨ ۔ ١٢ )۔

یہ انسانی تاریخ کی عظیم اور وقیع رات تھی۔

طویل انتظار ختم ہو گیا۔

” ۔۔۔ اور اُس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا“ (لوقا ٢: ٧ )۔

”عورت کی نسل“ آ پہنچی تھی۔

ساری باتیں اُسی طرح واقع ہو رہی تھیں جیسے نبیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں __ خدا کے طریقے سے اور خدا کے مقررہ وقت پر!

نبیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں کہ مسیحِ موعود ایک کنواری سے پیدا ہو گا (یسعیاہ ٧: ١٤)۔ وہ ابرہام، اضحاق، یعقوب اور یہوداہ کے گھرانے سے ہو گا (پیدائش ١٧ : ١٨ ۔ ٢١ ؛ ٢٦ : ٣، ٤ ؛ ٢٨ : ١٣ ، ١٤ ؛ ٤٩ : ٨ ۔ ١٠ )، وہ داؤد کی شاہی نسل ہو گا (٢۔سموئیل ٧: ١٦ )، وہ بیت لحم میں پیدا ہو گا (میکاہ ٥: ٢)۔

یسوع کی پیدائش کا اعلان کرنے اور خوشی منانے کے لئے خدا نے نہ صرف فرشتوں کو بھیجا بلکہ اِس پُرمسرت واقع کی تعظیم کے لئے اُس نے آسمان پر ایک خاص ستارہ نمودار کیا۔ مشرق کے رہنے والے چند ماہرینِ فلکیات اور دولت مند دانش وروں نے وہ ستارہ دیکھا اور اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مسیحِ موعود کے پیدا ہونے کا نشان ہے۔ دور دراز فارس سے صبر آزما اور طویل سفر کر کے یہ ممتاز اور معزز آدمی یروشلیم میں ہیرودیس بادشاہ کے پاس پہنچے۔ اُنہیں، یہ پوچھنا تھا کہ :

” یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ کیونکہ پورب (مشرق) میں اُس کا ستارہ دیکھ کر ہم اُسے سجدہ کرنے آۓ ہیں“ (متی ٢: ٢ )۔

متی کی انجیل باب ٢ __ ہیرودیس بادشاہ کسی دوسرے ”بادشاہ“ کے پیدا ہونے کے خیال ہی سے گھبرا گیا۔ حسد اور رقابت کے مارے اُس نے یسوع کو ہلاک کرنے کی کوشش کی اور بیت لحم اور اُس کے اِرد گرد کے سارے علاقہ میں دو سال یا اِس سے چھوٹی عمر کے سارے لڑکوں کو قتل کرا دیا۔ اِس ساری کارروائی کے پیچھے شیطان تھا۔ اُس کا مقصد ”عورت کی نسل“ کو ہلاک کرنا تھا جس نے ”اُس (شیطان) کی مملکت“ پر چڑھائی کی تھی۔ مگر خدا نے پہلے ہی کارروائی کر کے شیطان کی کوشش ناکام کر دی۔ خدا نے یوسف کو خبردار کر دیا اور اُسے حکم دیا کہ مریم اور بچے یسوع کو لے کر مصر میں جا پناہ لے۔ نبیوں نے اِن واقعات کی بھی پیش گوئی کی تھی (میکاہ ٥: ٢؛ ہوسیع ١١ : ١؛ یرمیاہ ٣١ : ١٥ )۔ ہیرودیس بادشاہ کی وفات کے بعد یوسف، مریم اور یسوع واپس آۓ اور ناصرت میں رہنے لگے۔ یسوع ناصرت ہی میں پلا بڑھا اور جوان ہوا۔

بچے کی صورت میں شخصیت

یہ ننھا لڑکا کون تھا جو ایک مویشی خانے میں پیدا ہوا، چرنی میں لٹایا گیا، جس کے بارے میں ںبیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں، جس کی پیدائش کی خبر فرشتوں نے دی تھی، جسے چرواہے سجدہ کرنے آۓ تھے، جس کی ایک ستارے نے تعظیم کی اور دانش وروں (مجوسیوں) نے سجدہ کیا تھا؟

وہ اعلان دوبارہ سنیں جو فرشتے نے چرواہوں کو سنایا تھا:

” ڈرومت، کیونکہ دیکھو مَیں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمت کے واسطے ہو گی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند“ (لوقا ٢: ١٠، ١١ )۔

اُس ںو زائیدہ بچے کے رُوپ میں خداوند خود موجود تھا۔

۱۷
یہ کون ہے؟
”قلانچیں بھرنے والے غزال بھٹوں میں رہنے والی اولاد پیدا نہیں کرتے“ (بھٹ= زمین میں کھودا ہوا گڑھا یا سوراخ)۔
—(ولُوف ضرب المثل)

جس طرح غزال، غزال والی خصلتیں رکھنے والے بچے پیدا کرتے ہیں اُسی طرح گنہگار، گنہگاروں والی خصلتیں رکھنے والی نسل پیدا کرتے ہیں۔ انسان اپنے آپ سے گناہ کا یہ چکر توڑ کر باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ بات صاف نظر آتی ہے۔

گنہگار اںسان

امریکہ کی فلمی صنعت پر غور کریں۔ ہر سال ہالی وڈ (بالی وڈ اور جَولی وڈ بھی) بہت اثر انگیز اور دھماکا خیز فلمیں بناتا اور برآمد کرتا ہے جن میں ہیرو اور ہیروئنیں مطلب پرستی، خود غرضی، بدچلنی، فحاشی، گندی زبان، ظلم و تشدد، انتقام اور دھوکے فریب کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ فلم نویس جان بوجھ کر اپنے ”اچھے کرداروں“ میں گناہ آلود خصوصیات شامل کرتے اور اُن کی نمائش کرتے ہیں؟ ایسی فلمیں کیوں نہیں بناتے جن میں ہیرو نیکوکار، ہمدرد، بے غرض، معاف کرنے والے اور دیانت دار دکھائے جائیں؟ انسان کے بہترین فرضی کردار بھی ”آلودہ“ یا بگڑے ہوۓ ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نسل گناہ آلود ہے، گناہ کی وبا میں مبتلا ہے۔

انسان کی گناہ کا رجحان رکھنے والی سرشت بے شمار عیارانہ طریقوں سے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر آپ عرب ممالک کے رہنے والے ہیں تو آپ کہانیوں اور افسانوں کی صدیوں پرانی شخصیت ”جُوہا“ سے ضرور واقف ہوں گے۔ اِس ہوشیار اور چالاک کردار کے بارے میں بے شمار لطیفے لکھے گۓ ہیں۔ اُس کی باتوں اور حرکتوں سے تیز فہمی اور ظرافت جھلکتی ہے، لیکن بسا اوقات اُس کی خود غرضی، خود پرستی، ہتک آمیز باتیں، ناپاک سوچ، انتقامی جذبہ، مکاری، فریب اور وعدہ خلافی نمایاں ہوتی ہے۔ غور فرمائیں۔ ہمارے تخلیق کردہ مقبولِ عام کردار بھی آلودہ، ناخالص اور بگڑے ہوۓ ہوتے ہیں۔ ہم جوہا کے کردار کی ایک مثال، ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک دوست اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا ”آپ نے مجھے کچھ رقم ادھار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مَیں حاضر ہوا ہوں۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔“

جوہا بولا ”دوست، مَیں کسی کو کبھی ادھار نہیں دیتا، لیکن مجھ سے دل بھر کے وعدے لے لو۔“

ہم بھی اِس فرضی کردار ”جوہا“ سے کم نہیں کیونکہ ہم نے بہت سے وعدے کئے ہیں جنہیں پورا کرنے کا کوئی اِرادہ نہیں رکھتے۔ ہم اپنی برگشتہ انسانی فطرت میں بالکل جوہا کی مانند ہیں۔

مگر تاریخ میں ایک شخص ہے جس نے اپنے سارے وعدے پورے کۓ۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا، اُس نے کبھی دھوکا فریب نہیں کیا، کسی کی توہین یا بے عزتی نہیں کی، نہ کبھی کسی کو دھمکایا اور انتقام لیا۔

اُس کا نام ہے ”یسوع۔“

” ۔۔۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا۔۔۔“ (١۔پطرس ٢: ٢٢، ٢٣)۔

یہ تو ہے اُس کے بارے میں بائبل مقدس کی گواہی۔ لیکن بہت سے قدیم، غیر بائبلی تاریخی مصنفین بھی ہیں جنہوں نے یسوع ناصری کے بارے میں کچھ نہ کچھ ذکر کیا ہے۔ اُن میں سے چند ایک یہ ہیں: (١) رومی مورخ ٹیکیٹُس ( Tacitus ، ٥٥۔٢٠ عیسوی تصنیف ٹیکیٹُس ١٥ : ٤٤ ) (٢ ) یہودی مورخ یوسیفس (٣٧ ۔ ١٠١ عیسوی تصنیف Antiquities ، ١٨ : ٣)۔ (٣ ) ربیوں کی مرتب کردہ ”تالمود“ جو توریت کی تفسیر ہے (بابلی تالمود، ٤٣ الف)۔ (٤) یونانی عالم لُوسیان (The Death of Pereguire ساماسوٹاکی تحریروں میں صفحات ١١ ۔ ١٣ — ترجمہ از ایچ۔ ڈبلیو فاؤلر اور ایف جی فاؤلر، ٤ جلدیں، آکسفورڈ کلیرڈن پریس ١٩٤٩ عیسوی)۔ (٥) سوٹونیُس ( ١١٧ ۔ ١٣٨ عیسوی) شہنشاہ ہیڈرئین کا چیف سیکرٹری کلودیئس ۔ ٢٥ )۔ جے ۔ آسولڈ سینڈرز لکھتا ہے” یہ حجت کرنا کہ بائبل کا مسیح صرف انسانی تصور کی پیداوار ہے اور تواریخی حقیقت نہیں ہے اناجیل کو ادب کی دنیا میں اتنا بڑا معجزہ بنا دیتی ہے جتنا بڑا زندہ مسیح تاریخ میں ہے۔“ ارنسٹ رینان کہتا ہے کہ کسی یسوع کو اختراع کرنے کے لئے یسوع ہی درکار ہے۔ جے۔ جے روسو دلیل دیتا ہے کہ کسی شخص کا تاریخ کا موضوع بن جانا تو ناقابل فہم ہے لیکن متعدد افراد کا ایسی تاریخ لکھنے پر متفق ہونا خلافِ قیاس اور بعید از فہم ہے۔

بے گناہ ہستی

دنیا کی گناہ سے لتھڑی ہوئی ثقافتوں کے مقابلے میں یسوع کی زندگی بالکل الگ اور فرق نظر آتی ہے۔ وہ دنیا میں بے گناہ اور منزہ پیدا ہونے والی واحد ہستی ہے۔ ”۔۔۔ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا“ (عبرانیوں ٤: ١٥ )۔ کوئی ناپاک خیال اُس کے دل میں کبھی نہیں آیا۔ کوئ سخت یا کڑوی بات اُس کے ہونٹوں پر کبھی نہیں آئی۔ وہ ناصرت کے ایک معمولی سے گھر میں اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پا رہا تھا تو فطری طور سے ظاہر اور باطن میں خدا کے اِن دس حکموں اور دوسرے سارے حکموں کی تعمیل کرتا تھا (متی ١٣ : ٥٥ ۔ ٥٦ )۔ یسوع ناصرت میں پلا بڑھا (متی ٢: ٢٢ ۔ ٣٣ ؛ لوقا ٢: ٥١ ، ٥٢ )۔ وہ اپنے شرعی باپ یسوع کے ساتھ بڑھئ کا کام کرتا تھا (مرقس ٦: ٣)۔ یسوع کی فروتنی سے وہ لوگ ناخوش اور بیزار تھے جو حلیم اور فروتن خادم نہیں بلکہ فاتح ہیرو چاہتے تھے۔

” ۔۔۔ وہ اِس لئے ظاہر ہوا کہ گناہوں کو اُٹھا لے جاۓ اور اُس کی ذات میں گناہ نہیں“ (١۔یوحنا ٣: ٥)۔

تیس سال کی عمر میں یسوع نے اِس دنیا میں اپنا باقاعدہ کام شروع کیا۔

”جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو قریبا“ تیس برس کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتا تھا) یوسف کا بیٹا تھا (لوقا ٣: ٢٣ )۔ خدا اور شیطان کے درمیان جنگ میں تیزی آنے کو تھی۔ شیطان جانتا تھا کہ خدا کا بیٹا مجھے کچلنے کو آ گیا ہے، لیکن اُسے معلوم نہ تھا کہ یسوع کا منصوبہ کیا ہے۔

جس طرح شیطان نے پہلے کامل آدمی کو آزمایا تھا کہ خدا کی شریعت کی نافرمانی کرے، اب وہ دوسرے آدم کو بھی آزمانے کی کوشش کرے گا کہ خدا کے حکموں کی خلاف ورزی کراۓ۔

”پھر یسوع ۔۔۔ چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا اور ابلیس اُسے آزماتا رہا۔ اُن دنوں میں اُس نے کچھ نہ کھایا اور جب وہ دن پورے ہو گۓ تو اُسے بھوک لگی، اور ابلیس نے اُس سے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اِس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جاۓ۔ یسوع نے اُس کو جواب دیا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے“ (لوقا ٤: ١ ۔٤ ؛ متی ٤: ١۔٤ )۔

غور کریں کہ شیطان یسوع سے کوئی ”بُرائ“ کرانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ ابلیس کا مقصد یہ تھا کہ یہ بے گناہ آدم (جو ”میرے“ علاقہ پر حملہ آور ہوا ہے) آسمان میں خدا باپ سے الگ ہو کر اپنے طور پر آزادانہ کام کرے۔ جیسا کہ ہم نے باب ١١ میں دیکھا خدا سے الگ ہو کر آزادانہ سوچنا اور کام کرنا گناہ ہے۔

نکتہ یہ ہے کہ اگر مسیحِ موعود صرف ایک ہی گناہ کر لیتا تو وہ آدم کی ملعون نسل کو گناہ اور موت کی شریعت سے چھڑانے کا مشن پورا نہ کر سکتا۔

جس طرح کوئی ایسا شخص جو خود بھاری قرض تلے دبا ہوا ہے کسی دوسرے کا فرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا اُسی طرح کوئی گنہگار شخص دوسروں کے گناہوں کا فدیہ دینے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ لیکن خدا کا بیٹا جو ابنِ آدم بن گیا اُس پر اپنے گناہ کا کوئی قرض نہ تھا۔ وہ موت سے بالکل بچا رہ سکتا تھا اِس لئے کہ وہ بے گناہ تھا۔ لیکن ہم دیکھیں گے کہ خدا کا منصوبہ یہ نہیں تھا۔

یسوع نے بہت دفعہ اپنے آپ کو ”ابنِ آدم“ کہا۔ یہ مسیح موعود کا ایک لقب ہے جس کا مطلب ہے ”بنی نوع انسان کا بیٹا / انسانیت کا بیٹا“ (یونانی، اینتھروپوس Anthropos )۔ کیا خوب لقب ہے! ہم پسند کریں یا ناپسند، مگر ہم سب آدم زاد یعنی ”انسانیت کے بیٹے“ ہیں۔ لیکن جہاں تک ممتاز اور سرفراز ”خدا کا بیٹا“ کی بات ہے تو اُس نے ”ابنِ آدم“ بننے کا انتخاب کیا۔ وہ اپنی مرضی سے ”ابنِ آدم“ بنا (پسرِ آدم یا ولدِ آدم نہیں) تاکہ انسانی نسل کے مشابہ ہو جاۓ! یہ لقب یسوع کی الوہیت کو بھی ویسے ہی ظاہر کرتا ہے جیسے اُس کی بشریت کو، کیونکہ یہ انسانیت میں خدا کی شخصی مداخلت کا بیان کرتا ہے (دیکھئے دانی ایل ٧: ١٣، ١٤ ؛ متی ٨: ٢٠ ؛ لوقا ٥: ١٤ ؛ ٢٢ : ٦٩ ۔ ٧٠ ؛ یوحنا ٥: ٢٧ ؛ ١٣ : ٣١ ؛ مکاشفہ ١: ١٣ ۔ ١٨ ؛ ٤: ١٤ )۔

(نوٹ: مداخلت کا مفہوم اکثر منفی سمجھا جاتا ہے، لیکن خدا کی مداخلت کا مقصد یہ تھا کہ شفاعت اور وسیلہ مہیا کیا جاۓ— مترجم)۔

یسوع چالیس دن بیابان میں رہا۔ اِس دوران شیطان اُسے گناہ کرنے کی ترغیب دیتا رہا کہ وہ خدا کے کامل منصوبے کو چھوڑ کر خود آزادانہ کام کرے۔ ابلیس کو جواب دینے کے لئے یسوع نے ہر دفعہ پاک صحائف سے اقتباس کیا۔ مثلاً: لوقا ٤:٤ میں یسوع کے الفاظ موسی' کی توریت کی کتاب استثنا ٨: ٣ کا اقتباس ہیں۔

” ۔۔۔ اور ابلیس نے اُسے اونچے پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں اور اُس سے کہا کہ یہ سارا اختیار اور اُن کی شان و شوکت مَیں تجھے دے دوں گا کیونکہ یہ میرے سپرد ہے اور جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ پس اگر تُو میرے آگے سجدہ کرے تو یہ سب تیرا ہو گا۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔۔۔“ (لوقا ٤: ٥ ۔٨ )۔

جس طرح خدا نے آدم کو ساری مخلوقات پر اختیار اور فرماں روائی دی تھی اُسی طرح اب شیطان یسوع کو فرماں روائی اور ”اختیار“ کی پیش کش کر رہا تھا، جو اُس نے اُس وقت غصب کیا تھا جب آدم نے اُس (شیطان) کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انسان کے گناہ کی وجہ سے شیطان واقعی ”اِس دنیا کا سردار“ اور ” ہوا کی عمل داری کا حاکم یعنی وہ روح “بن گیا تھا” جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے“ (یوحنا ٢١: ٣١ ؛ افسیوں ٢:٢ )۔ خدا کا بیٹا اِس لئے آیا تھا کہ انسان کی کھوئی ہوئ عمل داری اور اختیار کو بحال کرے۔ مگر یہ کام اُس نے شیطان کے طریقے سے نہیں بلکہ خدا کے طریقے سے کیا ہے۔

آدم کے برعکس یسوع نے شیطان کی بات نہ مانی۔

خدا کا کلمہ مجسم ہوا تھا۔

یسوع کے پیروکار

اپنا خاص کام شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں یسوع نے بارہ آدمی چن لئے جو ہر وقت ہر جگہ جہاں وہ جاۓ اُس کے ساتھ رہیں۔ بہت سی عورتیں بھی اُس کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں۔ یہ آدمی اور عورتیں یسوع کے کاموں اور اُس کی باتوں کے عینی گواہ ہیں۔

” ۔۔۔ وہ منادی کرتا اور خدا کی بادشاہی کی خوش خبری سناتا ہوا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرنے لگا اور وہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔ اور بعض عورتیں جنہوں نے بُری روحوں اور بیماریوں سے شفا پائی تھی ۔۔۔ اور بہتیری اَور عورتیں بھی تھیں جو اپنے مال سے اُن کی خدمت کرتی تھیں“ (لوقا ٨: ١۔ ٣)۔

یسوع مردوں، عورتوں اور بچوں کی یکساں عزت کرتا تھا۔ اناجیل میں بہت سے واقعات مرقوم ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ عورتوں سے عزت اور مہربانی کرتا تھا۔ یہ رویہ اُس زمانے کی یہودی اور رومی ثقافت اور رواج سے بہت ارفع و اعلی' تھا۔

یسوع دنیا کے ہر ایک شخص کو بے حد قیمتی اور قابلِ قدر سمجھتا تھا، لیکن اُس نے کسی کو مجبور نہیں کیا کہ میری سنو، میرا یقین کرو، مجھ پر ایمان لاؤ اور میری پیروی کرو۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند کرتا تھا جو سچائی کو سننے اور قبول کرنے کو تیار ہوتے تھے، خواہ اُنہیں اِس کی کتنی ہی قیمت ادا کرنی پڑے۔

ایک کلیدی سوال

بہت سے عام لوگ تو یسوع پر ایمان لے آۓ تھے اور اُس کی پیروی کرتے تھے، لیکن یہودی مذہبی راہنما (فقیہ، فریسی) ایمان نہ لاۓ۔ایک دن یسوع نے اُن سے ایک فیصلہ کن سوال پوچھا:

” تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟“ (متی ٢٢: ٤٢ )۔

اُنہوں نے جواب میں کہا کہ مسیحِ موعود داؤد بادشاہ کی نسل سے ہو گا۔ یسوع نے اُنہیں یاد دلایا کہ داؤد نے پیش گوئی کی تھی کہ موعودہ نجات دہندہ داؤد کا دنیوی بیٹا اور خدا کا آسمانی بیٹا دونوں ہو گا (زبور ٢ اور ١١٠ ؛ متی ٢١ : ٤١ ۔ ٤٦ )۔ اِس سے چند دن پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے بھی ایسا ہی سوال پوچھا تھا:

” لوگ ابنِ آدم کو کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا ۔۔۔ یا نبیوں میں سے کوئ۔ اُس نے اُن سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟ شمعون پطرس نے جواب میں کہا تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا مبارک ہے تُو شمعون بریوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے“ (متی ١٦ : ١٣ ۔ ١٧ )۔

جلد یا بدیر ہم سب کو اِس سوال کا جواب دینا ہو گا۔

تم یسوع کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟

بعض لوگ کیا کہتے ہیں؟

مغربی دنیا میں بعض لوگ یسوع کو ایک افسانوی کردار یا زیادہ سے زیادہ کوئی تواریخی شخص سمجھتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اخلاقیات کا بڑا اُستاد تھا، اور بس۔

راسخ العقیدہ یہودی تو یسوع کا نام لینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اُس کا ذکر کرنا پڑ جاۓ تو ”وہ آدمی“ کہہ کر بات کرتے ہیں۔

ہندو اپنے بہت سے دیوی دیوتاؤں کی طرح یسوع کو بھی بھگوان (خدا) کا ایک اوتار مانتے ہیں۔

ہمارے مسلمان دوست کہتے ہیں کہ ہم یسوع کو ایک نبی مانتے ہیں اور اُس کی تعظیم کرتے ہیں، لیکن وہ خدا کا بیٹا نہیں۔

ایک آدمی نے ای میل میں یوں لکھا:

ای میل

”مَیں سعودی عرب میں رہتا ہوں۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع صرف ایک نبی ہے اور خدا کا بیٹا نہیں۔ یسوع کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔ وہ دوبارہ آئیں گے اور سب لوگ دیکھیں گے کہ وہ کس کی طرف ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ کے جیتے جی ایسا ہو جاۓ تاکہ آپ ہمارے شاندار مذہب میں شامل ہو جائیں اور حقیقی روشنی دیکھیں۔“

ملائشیا سے ایک صاحب نے لکھا:

ای میل

” مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ خدا واحد ہے۔ وہ نہ کبھی انسان بنا اور نہ انسان جیسا نظر آیا ۔۔۔ اگر کوئی شخص سوچتا ہے کہ خدا انسانی صورت میں موجود ہے تو وہ بڑا کافر ہے۔“

یسوع کے بارے میں مسلمانوں کے یہ نظریات قرآن شریف کی تعلیم پر مبنی ہیں۔

قرآن شریف کیا کہتا ہے؟

قرآن شریف میں متعدد بار آیا ہے کہ ”مسیح ابنِ مریم اِس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا“ (سورہ ٤: ١٧١ ۔ ١٧٣ ؛ ٥: ٧٥ ؛ ٢: ١٣٦ )۔ تاہم قرآن شریف یہ بھی کہتا ہے کہ یسوع نبیوں میں یکتا ہے اِس لئے کہ اُس کا کوئی جسمانی باپ نہ تھا۔ قرآن شریف اُسے عیسی' ابنِ مریم کہتا ہے (سورہ ١٩ : ٣٤ )۔ قرآن شریف نبیوں اور پیغمبروں کے گناہوں کا ذکر کرتا ہے، لیکن یسوع سے کوئی گناہ منسوب نہیں کرتا۔ اُسے ”پاکیزہ لڑکا“ کہا گیا ہے (سورہ ١٩ :١٩ ۔ مقابلہ کریں سورہ ٤٨ :٢ اور ٤٧ : ١٩ سے)۔ قرآن شریف اُس کو واحد نبی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جس میں زندگی پیدا کرنے کی، اندھوں کو بینائی دینے کی، کوڑھیوں کو شفا دینے کی اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت ہے (سورہ ١٩: ١٩ ؛ ٣: ٤٥ ۔ ٥١ ' ٥: ١١٠ ۔ ١١٢ )۔ صرف یسوع ہے جس سے قرآن شریف اعلی' و ارفع القاب منسوب کرتا ہے مثلاً ”المسیح“، روح اللہ (خدا کا روح) اور کلمۃ اللہ (خدا کا کلمہ) (سورہ ٤: ١٧١ )۔

یسوع کے بے مثال ہونے کی قرآنی تصدیق دیکھنے کے بعد کہ قرآن اُسے ”مسیح ابنِ مریم“ تو کہتا ہے لیکن اُس کی شخصیت کا جو بیان کرتا ہے وہ بائبل مقدس کے بیان سے قطعاً فرق ہے۔ مندرجہ بالا آیت جو اُس سے اعلی' ارفع القابات منسوب کرتی ہے یہ بھی کہتی ہے ” مسیح عیسی' ابنِ مریم اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رِحم میں بچے کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ “تین”ہیں۔ باز آ جاؤ یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے، اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ پاک ہے، اِس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو“(سورہ٤: ١٧١ )۔

سینیگال میں بچے اور بڑے سب فوراً کہتے ہیں ”یسوع خدا کا بیٹا نہیں ہے! خدا کا کوئی بیٹا!“ اور پورے یقین سے یہ بھی کہتے ہیں ”یسوع کو صلیب نہیں دی گئی تھی!“

یہ بات بھی قرآن شریف سے آئی ہے جو کہتا ہے ”پھر (یہودی) اپنے کفر میں اِتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسی' ابنِ مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع اُنہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ اُن کے لئے مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اِس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں۔ اُن کے پاس اِس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔ اُنہوں نے مسیح کو یقیناً قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اُس کو اپنی طرف اُٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔“ (سورہ ٤: ١٥٦ ۔ ١٥٨ )

بائبل مقدس کیا کہتی ہے؟

قرآن شریف کے ضبطِ تحریر میں آنے سے صدیوں پہلے، چالیس نبیوں اور رسولوں نے جنہوں نے پرانے اور نئے عہدنامے کے صحائف لکھے، مسیحِ موعود اور اُس کے مشن کی ایک بالکل فرق تصویر پیش کی ہے۔

مقدس یوحنا جو تین سال سے زیادہ عرصے تک مسیح کے ساتھ چلتا پھرتا اور گفتگو کرتا رہا اُس نے یسوع کے لقب ”خدا کا بیٹا“ کے بارے میں گواہی دی:

” ۔۔۔ یسوع نے اَور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دکھاۓ جو اِس کتاب میں لکھے نہیں گۓ۔ لیکن اِس لئے لکھے گۓ کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ“ (یوحنا ٢٠ : ٣٠، ٣١ )۔

یوحنا رسول نے یہ بھی لکھا:

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئ چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئ۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال ۔۔۔“ (یوحنا ١:١ ۔ ٣ ، ١٤ )۔

چند سال ہوۓ کہ ایک مسلمان دوست نے مجھ پر بھروسا کرتے ہوۓ کہا کہ قرآن شریف نے یسوع کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کے القاب دیئے ہیں، اگر یسوع خدا کا کلمہ اور روح ہے تو وہ خدا ہے۔ بعد میں ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے میرے اُس دوست پر کفر اور شرک کا الزام لگایا۔ اِسلام میں شرک قطعی گناہ ہے۔ خیر گزری کہ ہمارا یہ دوست اچھے لوگوں کے درمیان تھا۔ یسوع کی زمینی زندگی کے دوران یہودی مذہبی لیڈروں نے یسوع پر بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا۔

یسوع نے کہا، ” مَیں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے پتھر اُٹھاۓ۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں۔ اُن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟ یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ٣٠ ۔ ٣٣)۔

یہودیوں نے یسوع پر اُسی بات کا الزام لگایا جو لوسیفر نے کرنے کی کوشش کی تھی— خدا کی یکتا، بے مثال اور اعلی' اور ارفع حیثیت پر غاصبانہ قبضہ کرنا — اُنہوں نے یسوع پر الزام لگایا کہ تُو اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔

لیکن وہ اُلٹی بات کر رہے تھے۔

خدا بننا نہیں، بلکہ تجسم

نہ یسوع نے اور نہ نبیوں نے کبھی تعلیم دی کہ انسان خدا بن سکتا ہے، البتہ

صحائف نے واضح طور سے بتایا ہے کہ خدا انسان بنے گا۔ مثال کے طور پر مسیح موعود کی پیدائش سے تقریباً ٧٠٠ سال پہلے یسعیاہ نبی نے لکھا کہ:

” ۔۔۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نور چمکا ۔۔۔ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب، مشیر، خداۓ قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ ہو گا“ (یسعیاہ ٩: ٢، ٦ )۔

مسیحِ موعود سے منسوب القابات پر غور کریں:

عجیب : یہ لقب صرف خدا کے لئے مخصوص ہے۔ اِس کا مطلب ہے 'غیر معمولی'۔

مشیر: مسیحِ موعود متشخص اور متجسم حکمت ہو گا۔

خداۓ قادر: خدا خود انسانی جسم اختیار کرے گا۔

ابدیت کا باپ: وہ ابد کا مالک ہے۔

سلامتی کا شہزادہ: وہ گنہگاروں کا خدا سے میل ملاپ کراۓ گا، باطنی اطمینان عطا کرے گا اور کامل عالمی امن و امان بحال کرے گا۔

یسعیاہ نے آنے والے مسیحِ موعود کے بارے میں یہ بھی لکھا:

” اے صیون کو خوش خبری سنانے والی ۔۔۔ زور سے اپنی آواز بلند کر! خوب پکار اور مت ڈر۔ یہوداہ کی بستیوں سے کہہ دیکھو اپنا خدا!“ (یسعیاہ ٤٠ :٩ )۔

مجسم ہونا خدا کے منصوبے میں ازل سے شامل تھا، لیکن یہ نہیں تھا کہ کوئی انسان خدا بن بیٹھے۔ یہ کہنا کہ ایک انسان خدا بن گیا تھا کفر ہے، لیکن یہ ماننا اور تسلیم کرنا کہ ازلی کلمہ انسان بن گیا خدا کے قدیم منصوبے کو قبول کرنا ہے۔

تحریر سے یا رُوبرو

اگر آپ کسی شخص کو جاننا چاہتے ہیں تو کون سا طریقہ بہترین ہے؟

  • اپنا رابطہ تحریری خطوط تک محدود رکھیں۔ یا
  • کچھ عرصے تک خط و کتابت کرنے کے بعد اُس شخص سے رُوبرو ملاقات

کریں اور کچھ وقت اُس کے ساتھ رہیں۔

بائبل مقدس بہت حیرت انگیز ہے۔ خدا آدم اور حوا کے ساتھ چلتا پھرتا اور باتیں کیا کرتا تھا۔ اُس کا منصوبہ تھا کہ اُن کی اولاد، اُن کی نسلیں مجھے ذاتی اور شخصی طور سے جانیں۔ اُس کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ یہ رابطہ یا تعلق صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہے۔ خداوند خدا صدیوں تک اپنا کلام اپنے نبیوں سے پاپائرس کے طوماروں اور جانوروں کی کھالوں پر لکھواتا رہا۔ اُس نے وعدہ کیا کہ مَیں اپنے آپ کو انسانی شکل میں انسانوں پر ظاہر کروں گا۔ خدا نے نہ صرف یہ انتظام کیا کہ اپنی باتیں ایک کتاب میں ہم تک پہنچاۓ بلکہ یہ بھی کہ ایک بدن میں اپنا کلام ہمیں مہیا کرے۔

” ۔۔۔وہ دنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا“ (عبرانیوں ١٠ :٥)۔

”۔۔۔ اِس میں کلام نہیں کہ دین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جہنم میں ظاہر ہوا۔۔۔“ (١۔تیمتھیُس ٣: ١٦ )۔

داؤد نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ خداوند (خدا) خود زمین پر آۓ گا ”دیکھ! مَیں آیا ہوں، کتاب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے“ (زبور ٤٠ : ٧ )۔ ملاکی نبی نے پیش گوئ کی کہ خدا ایک پیشرو کو بھیجے گا جو خداوند (خدا) کی آمد کے لئے لوگوں کو تیار کرے گا (ملاکی ٣: ١)۔

شان کے ناشایان؟

خدا نے اپنے اِس منصوبے کا بار بار اعلان کیا کہ مَیں انسانوں کے ساتھ سکونت کروں گا۔ اِس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات خدا کی لامحدود اور بعیداز فہم شان کے خلاف ہے کہ وہ انسان بنے۔

بے شک تجسم کا تصور عقل کو چکرا دیتا ہے، لیکن کیا واقعی یہ خدا کی شان کے خلاف ہے؟ یا یہ خدا کی ذات کا حصہ ہے اور اُس کے ارادے اور منصوبے کا حصہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ قریبی اور گہرا رشتہ قائم کرے کیونکہ انسانوں کو اُس نے اپنے لئے خلق کیا ہے؟

زندگی میں ہم خود کو اُن لوگوں کو نہایت قریب محسوس کرتے ہیں جن کو ہمارے جیسا تجربہ ہوا تھا۔ تسلی دینے اور مدد کرنے کے لئے وہی لوگ زیادہ قابل ہوتے ہیں جو اُسی قسم کے دکھوں اور مشکلات میں سے گزرے ہوں۔ ہمارا خالق قطعی تسلی دینے والا ہے، وہ مطلق مددگار ہے۔

”۔۔۔ پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا ۔۔۔ کیونکہ جس صور ت میں اُس نے خود ہی آزمائش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جن کی آزمائش ہوتی ہے۔۔۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا“ (عبرانیوں ٢: ١٤ ، ١٨ ؛ ٤: ١٥ )۔

ازل ہی سے خدا کا منصوبہ تھا کہ مَیں جسم کی کمزوریاں، مجبوریاں اور تکلیفیں اپنے اوپر لُوں، ہاتھ پاؤں گرد آلود کروں، بھوک پیاس برداشت کروں، دکھ اُٹھاؤں، انسانوں کے سے تجربے میں سے گزروں۔ جو لوگ اِس کے اُلٹ تعلیم دیتے ہیں وہ نہ صرف خدا کے منصوبے اور نبیوں کو رد کرتے ہیں بلکہ خدا کی ذات اور صفات کو بھی رد کرتے ہیں۔ اور اِس حقیقت کو بھی رد کرتے ہیں کہ خدا نے ظاہر کیا ہے کہ مَیں وفادار اور محبت کرنے والا خالق ہوں اور چاہتا ہوں کہ انسان مجھے ذاتی طور سے جائیں۔ وہ خدا کو بعید از فہم، ناقابلِ ادراک سمجھتے ہیں جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دوسروں کی خدمت کرنے اور اُنہیں برکت دینے کے لئے اُن کے برابر، نیچے کی سطح پر آمادہ نہ ہونے میں کوئ ”شان“ نہیں ہوتی۔ ہمارے خالق نے ہماری سطح پر نیچے آنے کو کبھی حقیر نہیں سمجھا۔ ایسا کرنا اُس کا اپنا ارادہ، اپنا منصوبہ اور اپنی خوشی تھی۔

کیا خدا کا ہماری سطح پر نیچے آنا اُس کی شان اور عظمت کے خلاف ہے؟ تصور کریں کہ آپ اور آپ کا دوست دو نہایت نامور اور معزز مذہبی راہنماؤں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک راہنما کا نام عمر اور دوسرے کا نام ہارون ہے۔ آپ کا دوست کہتا ہے ہارون کھلونا کاروں کے ساتھ کھیلتا ہے لیکن عمر نہیں کھیلتا۔ آپ کے دل میں ہارون کے لئے بہت عزت ہے اور آپ جواب دیتے ہیں ”ہرگز نہیں! خدا نہ کرے کہ ہارون صاحب کاروں سے کھیلیں!“ یہ ردِ عمل بالکل معقول اور درست ہے۔ لیکن بات آگے چلتی ہے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عمر اور ہارون دونوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کو بہت پسند ہے کہ ہمارے باپ فرش پر آ کر ہمارے ساتھ کھیلیں۔ کیا ہوا اگر ہمیں پتا چلا کہ ہارون اپنے بیٹوں کے ساتھ اِس طرح کھیل کر بہت خوش ہوتا ہے، جبکہ عمر اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ فرش پر نیچے اُترنا میری عزت اور مرتبے کے شایاں نہیں۔ اُن میں سے آپ کسے بہتر باپ، انسان اور لیڈر قرار دیں گے؟ عمر کو یا ہارون کو؟ اِسی طرح جب لوگ کہتے ہیں کہ ”یہ بات قادرِ مطلق کی شان اور عظمت کے منافی ہے کہ وہ انسانی روپ میں دنیا میں ظاہر ہو“ تو اُن کی نیت بے شک نیک ہوتی ہے لیکن وہ خدا کے جلال اور عظمت کی تعریف کرنے کے بجاۓ اِس کے الٹ کرتے ہیں۔

” ۔۔۔ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اُس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہو جاؤ“ (٢۔کرنتھیوں ٨: ٩ )۔

آپ کی اور میری خاطر وہ ازلی کلمہ خود ہمارے کرہ ارض پر آ گیا۔ کائنات کا خالق جو جلال اور عظمت میں ”دولت مند“ تھا وہ ”غریب بن گیا“ اور خادم کی جگہ لی تاکہ ہم دولت مند ہو جائیں، مادی اور دنیوی مال سے نہیں بلکہ روحانی نعمتوں اور برکتوں سے — مثلاً معافی، راست بازی، ہمیشہ کی زندگی اور محبت، خوشی، اطمینان اور پاکیزہ خواہشات سے معمور دل کے ساتھ۔

عظمت کی وضاحت

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ خدا اتنا عظیم اور بزرگ ہے کہ وہ گوشت اور خون کے جسم میں ہو کر زمین پر نہیں آ سکتا۔ کیا اِس کی وجہ یہ تو نہیں کہ عظمت اور بزرگی کے بارے میں اُن کا نظریہ اور تعریف یا توضیح خدا کے نظریے سے بالکل فرق ہے؟

یسوع نے عظمت کی وضاحت کرتے ہوۓ اپنے شاگردوں سے کہا ”۔۔۔ تم جانتے ہو کہ جو غیر قوموں کے سردار سمجھے جاتے ہیں وہ اُن پر حکومت چلاتے ہیں اور اُن کے امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ مگر تم میں ایسا نہیں ہے بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے اور جو تم میں اوّل ہونا چاہے وہ سب کا غلام بنے کیونکہ ابنِ آدم بھی اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے“ (مرقس ١٠ : ٤٢ ۔ ٤٥ )۔

سب سے بڑا شخص وہ ہے جو نہایت فروتن بنتا ہے اور دل و جان سے دوسروں کی بہترین خدمت کرتا ہے۔

یوحنا باب ١٣ میں بیان ہوا ہے کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوۓ جو کہ ایک غلام یا نوکر کا کام تھا۔ اناجیل کو پڑھنے سے ہماری ملاقات کامل خادم، خود خداوند سے ہوتی ہے۔

اور ہمارا خالق ہمارے واسطے خادم بن گیا۔

آندھی اور لہروں کا مالک

ایک دن یسوع گلیل کی جھیل پر اپنے شاگردوں کی کشتی میں سوار تھا۔

”اور دیکھو جھیل میں ایسا بڑا طوفان آیا کہ کشتی لہروں میں چھپ گئی مگر وہ سوتا تھا۔ اُنہوں نے پاس آ کر اُسے جگایا اور کہا اے خداوند ہمیں بچا! ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا اے کم اعتقادو! ڈرتے کیوں ہو؟ تب اُس نے اُٹھ کر ہوا اور پانی کو ڈانٹا اور بڑا امن ہو گیا۔ اور لوگ تعجب کر کے کہنے لگے یہ کس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اِس کا حکم مانتے ہیں؟“ (متی ٨: ٢٤ ۔ ٢٧ )۔

آپ اُن شاگردوں کے سوال کا کیا جواب دیں گے؟

”یہ کون ہے؟“

یہ تو ظاہر تھا کہ یسوع ایک بشر ہے۔ وہ کشتی میں سو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تھکن، بھوک اور پیاس کیا ہوتی ہے۔ لیکن پھر اُس نے کھڑے ہو کر طوفان کو ڈانٹا۔ تیز آندھی فوراً تھم گئی اور موجیں مارتی جھیل پُرسکون ہو گئی۔

کوئی تعجب کی بات نہیں کہ شاگردوں نے پوچھا ”یہ کس طرح کا آدمی ہے؟“

یہ ہے کون؟ تقریباً ہزار سال پہلے زبور نویس نے لکھا تھا کہ:

”اے خداوند لشکروں کے خدا! اے یاہ! تجھ سا زبردست کون ہے؟ ۔۔۔ سمندر کے جوش و خروش پر تُو حکمرانی کرتا ہے۔ تُو اُس کی اُٹھتی لہروں کو تھما دیتا ہے“ (زبور ٨٩ : ٨، ٩ )۔

یہ کون ہے؟ یہ کس طرح کا آدمی ہے؟ انجیل مقدس یسوع کے پانی پر چلنے کا بھی بیان کرتی ہے (متی باب ١٤ ، مرقس باب ٦ ؛ یوحنا باب ٦ )۔ اِس موقع پر بھی شاگردوں نے تعجب کیا اور ”اپنے دل میں نہایت حیران ہوۓ“ (مرقس ٦: ٥١ )۔ لیکن یسوع اِس لئے جھیل پر نہیں چلا تھا کہ لوگ حیران ہوں، بلکہ اِس لئے کہ اُن کی مدد ہو اور وہ سمجھیں کہ وہ کون ہے۔

اِس سے دو ہزار سال پہلے ایوب نبی نے خدا کے بارے میں کہا تھا کہ

”وہ آسمانوں کو اکیلا تان دیتا ہے اور سمندر کی لہروں پر چلتا ہے“(ایوب٩: ٨)۔

یہ کون ہے؟ خدا ہمیں دعوت ہےدیتا کہ نقطوں کو ملائیں اور سمجھیں کہ یسوع کون تھا اور ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سمجھنا نہیں چاہتے۔

”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئ اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا“ (یوحنا ١: ١٠ )۔

” یہ کون ہے؟“ ایک دن یسوع نے غصے سے بھرے ہوۓ دیندار لوگوں کے گروہ سے باتیں کرتے ہوۓ اِس سوال کا خود جواب دیا۔

”مَیں ہوں“

”یسوع نے پھر اُن سے مخاطب ہو کر کہا “دنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیری میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پاۓ گا۔۔۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئ شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو اَبد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا اب ہم نے جان لیا کہ تجھ میں بدروح ہے۔ ہمارا باپ ابرہام مر گیا اور نبی مر گئے مگر تُو کہتا ہے کہ اگر کوئی میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کا مزہ نہ چکھے گا۔ ہمارا باپ ابرہام جو مر گیا کیا تُو اُس سے بڑا ہے؟ اَور نبی بھی مر گئے۔ تُو اپنے آپ کو کیا ٹھہراتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا ۔۔۔ تمہارا باپ ابرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا۔ چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی نہیں پھر کیا تُو نے ابرہام کو دیکھا ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اِس سے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔

”پس اُنہوں نے اُسے مارنے کو پھر پتھر اُٹھاۓ مگر یسوع چھپ کر ہیکل سے نکل گیا“ (یوحنا ٨: ١٢ ؛ ٥١ ۔ ٥٣ ؛ ٥٦ ۔ ٥٩ )۔

یہودیوں نے یسوع کو سنگسار کرنے کی کوشش کیوں کی؟ اِس لئے کہ اُس نے کہا کہ ”اگر کوئی شخص میرے حکموں پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا“ اور ”پیشتر اِس سے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔“ یسوع نے نہ صرف موت پر اپنے اختیار کا اور موسی' سے بڑا ہونے کا دعوی' کیا (ابرہام تو ١٩٠٠ سال پیشتر مر چکا تھا)، بلکہ اُس نے خدا کا ذاتی نام ”مَیں ہوں“ اپنے لۓ استعمال کیا۔ اگر یسوع نے کہنا ہوتا کہ مَیں ابرہام سے پہلے موجود تھا تو وہ کہتا کہ اِس سے پیشتر کہ ابرہام پیدا ہوا 'مَیں تھا'۔ لیکن اُس نے کہا کہ اِس سے پیشتر کہ ابرہام پیدا ہوا ”مَیں ہوں“ (مزید دیکھئے باب ٩ میں یاہ وے ( YHWH ) — خروج ٣: ١٤ )۔

یسوع کے سامعین سمجھتے تھے کہ اُس کا مطلب کیا ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا اور اُسے سنگسار کرنے کو پتھر اُٹھاۓ۔

صرف خدا کی عبادت کرو

یسوع ہمیشہ یہی تعلیم دیتا تھا کہ صرف خدا ہی ہماری عبادت اور سجدے کے لائق ہے۔ اِسی لۓ اُس نے کہا ”۔۔۔ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر“ (متی ٤: ١٠ )۔ مگر اناجیل میں کم سے کم دس موقعوں کا ذکر ہے جب لوگوں نے جھک کر یسوع کو سجدہ کیا۔ لوگوں کے یسوع کو ”سجدہ' کرنے کے لئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہی ہے جو خدا کو سجدہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ متی ٨: ٢ کا موازنہ مکاشفہ ٧: ١١ سے کریں۔ دونوں جگہ ”سجدہ“ کے لئے یونانی زبان کا لفظ ”پروسکنیو “( proskneo ) استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے عزت و احترام کرنے کے لئے اوندھے منہ زمین پر گرنا یا لیٹنا، سجدہ کرنا۔

ایک دن ”ایک کوڑھی نے پاس آ کر اُسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اُس (یسوع) نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چھوا اور کہا مَیں چاہتا ہوں تُو پاک صاف ہو جا۔ وہ فوراً کوڑھ سے پاک صاف ہو گیا“ (متی ٨: ٢ ، ٣ )۔ کیا یسوع نے کوڑھی کو جھڑکا کہ مجھے کیوں سجدہ کیا ہے؟

نہیں — بلکہ اُسے چھو کر شفا دی۔

یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے ایک شاگرد تُوما نے یسوع کے آگے گر کر یعنی سجدہ کر کے کہا ” اے میرے خداوند! اے میرے خدا!“ کیا یسوع نے اُسے اِس کفر پر جھڑکا؟

نہیں۔ اُس نے صرف یہ کہا ”تُو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے، مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاۓ“ (یوحنا ٢٠ : ٢٨ ۔ ٢٩ )۔

یہ واقعہ کیا سکھاتا ہے کہ یسوع کون ہے؟

آپ خود فیصلہ کریں

ہم میں سے ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ مَیں یسوع کے بارے میں کیا ایمان رکھتا ہوں، یا مجھے کیا ایمان رکھنا چاہئے۔ لیکن ضرور ہے کہ اُس کے بارے میں کوئی متناقض بالذات (جو خود اپنی تردید کرے) نظریہ قبول نہ کریں۔ جیسا کہ ہمارے دوست کہتے ہیں اگر یسوع ایک ”بڑا رسول“ تھا تو پھر اُس نے جو ہونے کا دعوی' کیا وہ بھی تھا یعنی ازلی کلمہ اور خدا کا بیٹا۔ یہ کہنا کہ وہ ”ایک نبی سے زیادہ کچھ نہیں تھا“ یسوع کی اپنی گواہی اور نبیوں کے پیغام دونوں کا انکار ہے۔

اگر آپ اب بھی اِس غیر مصدقہ (بے ثبوت) عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو باب ٩ بعنوان ”محرف یا اصل حالت میں محفوظ“ دوبارہ پڑھیں۔

سی۔ ایس۔ لوئیس بیسویں صدی کا ایک بڑا دانشور اور متشکک تھا۔ بعد میں وہ ایمان لے آیا۔ وہ یسوع کے بارے میں لکھتا ہے کہ

”یہاں مَیں ہر کسی کو وہ نہایت فضول اور بے وقوفی کی بات کہنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں جو کئی لوگ یسوع کے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ مَیں یسوع کو ایک بڑا اخلاقی معلم ماننے کو تو تیار ہوں لیکن مَیں اُس کے خدا ہونے کے دعوے کو قبول نہیں کر سکتا۔ ایک یہ بات ہے جو ہمیں ہرگز نہیں کہںا چاہئے۔ جو شخص محض انسان ہو اور اُس قسم کی باتیں کہے جو یسوع نے کہیں وہ بڑا اخلاقی معلم نہیں ہو سکتا۔ وہ پاگل ہے یا جہنمی ابلیس۔ آپ کو اپنے لئے فیصلہ کر لینا چاہئے۔ یا تو یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا، اور ہے، اگر نہیں تو پاگل یا اِس سے بھی گیا گزرا ہے۔ آپ اِس بے وقوف آدمی کو کہیں قید کر دیں، اُس پر تھوکیں اور اُسے بدروح مان کر قتل کر دیں — ورنہ اُس کے پاؤں میں گر کر سجدہ کریں اور کہیں، 'اے میرے خداوند! اے میرے خدا!' لیکن ہم سر پرستانہ، مہمل اور لغو بات نہ کہیں کہ وہ ایک عظیم اُستاد ہے۔ اُس نے یہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی، اور نہ چھوڑنے کا ارادہ تھا۔“

”ہم سے صاف کہہ دے“

کئی دفعہ لوگ مجھے کہتے ہیں ہمیں بائبل مقدس میں دکھا کہ یسوع نے کہاں کہا تھا کہ ” مَیں خدا ہوں!“ یسوع کے زمانے کے مذہبی لیڈر بھی اُسے مجبور کرتے تھے کہ اِسی قسم کی بات کہے۔

”یسوع نے کہا، ۔۔۔ دروازہ مَیں ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پاۓ گا۔۔۔ پس یہودیوں نے اُس کے گرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تُو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تو تمہیں کہہ دیا، مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔ ۔۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے بھی پتھر اُٹھاۓ۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا مَیں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھا کام دکھائے ہیں۔ اُن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟ یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ٩ ، ٢٤ ، ٢٥ ، ٣٠ ۔ ٣٣ )۔

یہ دین دار مذہبی لوگ اُسے کیوں سنگسار کرنا چاہتے تھے؟

وجہ یہ تھی کہ یسوع نے کہا تھا کہ ” مَیں اور باپ ایک ہیں۔“ اُن کے خیال کے مطابق یسوع کا خدا کے ساتھ ایک ہونے کا دعوی' کفر تھا۔ مگر یہی یہودی خدا پر اپنے ایمان کا اِقرار کرنے کے لئے باقاعدگی سے کہتے تھے Adonai Eloheynu Adonai echad جس کا مطلب ہے خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ یہاں ”ایک“ کے لئے جو لفظ echad استعمال ہوا ہے اُس میں ایک میں کثرت کے معنی ہیں۔ یسوع نے واضح طور سے کہا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں اور ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ایک ہوں۔ اِسی وجہ سے یہودیوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا۔

خدا کی پیچیدہ وحدت کا دوبارہ مطالعہ کرنے کے لئے باب ٩ پڑھیں۔ خدا کا بیٹا اور کلمہ کی حیثیت سے اپنے ازلی وجود کے بارے میں یسوع نے خودنمائی کے انداز سے کبھی بات نہیں کی۔ وہ یہ نہیں کہتا پھرتا کہ ” مَیں خدا ہوں! مَیں خدا ہوں!“ بلکہ وہ دنیا میں ایسے رہا جیسے وہ چاہتا ہے کہ سارے انسان رہیں — کامل فروتنی اور انکساری اور دل سے خدا کی اطاعت گزاری کے ساتھ۔

یسوع ہی واحد ہستی ہے جو کہہ سکتا تھا کہ ” مَیں آسمان سے اِس لئے نہیں اُترا ہوں کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اِس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں“ (یوحنا ٦: ٣٨ )۔ یسوع کی زندگی کی شان و عظمت یہ تھی کہ وہ خدا کا سرفراز بیٹا تھا اور وہ ابنِ آدم بننے کے لئے فروتن ہو گیا۔ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے کہ مَیں کون ہوں یسوع نے عاجزانہ مگر زبردست اثر انگیز طریقے اختیار کئے۔

ایک دفعہ ایک دولت مند آدمی یسوع کے پاس آیا اور اُسے ”اے نیک اُستاد!“ کہہ کر مخاطب ہوا۔ یسوع نے اُس سے کہا ”تُو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا “ (لوقا ١٨ : ١٩ )۔ یہ دولت مند آدمی ایمان نہیں رکھتا تھا کہ یسوع خدا ہے۔ لیکن یسوع جو مجسم خدا کی نیک ذات ہے، اُس نے اِس آدمی کی راہنمائی کی کہ معمے کے ٹکڑے باہم جوڑے اور سمجھے کہ وہ (یسوع) کون ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی یہ سمجھیں۔

دولت مند آدمی اور یسوع کے اِس واقعہ کے ایک اَور پہلو سے بہت سے لوگ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ وہ شخص دوڑتا ہوا یسوع کے پاس آیا ۔۔۔ اور پوچھنے لگا ”اے نیک اُستاد، مَیں کیا (کون سی نیکی) کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟“ (متی ١٩ : ١٦ ؛ مرقس ١٠ : ١٧ ؛ لوقا ١٠ : ٢٥ )۔ بھیڑ کو اُس نوجوان کا سوال اچھا معلوم ہوا، لیکن خداوند کے نزدیک اچھا نہیں تھا۔ یسوع جانتا تھا کہ اُس دین دار مذہبی آدمی کو ابھی تک خدا کی لامحدود پاکیزگی اور انسان کی قطعی گنہگاری کے بارے میں بنیادی اور اہم سچائیوں کی کچھ سمجھ نہیں۔ اپنے آپ کو راست باز سمجھنے والا یہ آدمی گمان کرتا ہے کہ مَیں اپنے اعمال سے بہشت میں جانے کا حق دار بن سکتا ہوں یعنی کسی نہ کسی طرح اِتنا ”نیک“ بن سکتا ہوں کہ بہشت میں جا سکوں۔ وہ اُس بچے کی مانند تھا جو اپنے گندے ہاتھ میں چند سکے لئے دنیا کے امیر ترین آدمی کے سامنے کھڑا ہو اور پوچھ رہا ہو کہ مَیں کتنے سکے آپ کو دے دوں تاکہ آپ کی جاگیر کا وارث بن سکوں؟ یسوع نے اُس آدمی کو کیا جواب دیا؟ اُس کی توجہ دوبارہ توریت اور دس حکموں کی طرف پھیری تاکہ اُسے سمجھا دے کہ مَیں اپنی طاقت سے خدا کے کامل راست بازی کے معیار پر کبھی پورا نہیں اُتر سکتا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ”نیک کام“ کر کے ”ہمیشہ کی زندگی“ کے حق دار بن سکتے ہیں اُن کو یہ زندگی ہرگز نہیں مل سکتی۔

یسوع نے یہ بھی فرمایا کہ ”تمہارا دل نہ گھبراۓ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو ۔۔۔ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا ۔۔۔ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ ۔۔۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو“ (یوحنا ١٤ : ١ ، ٦ ، ٩، ١١)۔

بات کو پورا کر دکھانا

یسوع نے بے شمار زبردست معجزے کئے جو ثابت کرتے ہیں کہ اُسے اِس برگشتہ اور گناہ کی لعنت میں مبتلا دنیا کے ہر ایک عنصر پر اختیار اور قدرت ہے۔ وہ لوگوں کے دل کے خیالوں کو جانتا تھا، گناہ معاف کرتا تھا، روٹیاں اور مچھلیاں بڑھا کر ہزاروں کو کھلاتا تھا، طوفانوں کو تھما دیتا تھا اور اپنے حکم سے بدروحوں کو نکال دیتا تھا، بیماروں کو شفا دیتا تھا، لنگڑوں کو ٹانگیں، اندھوں کو بینائ، بہروں کو سماعت عطا کرتا تھا، اور مُردوں کو زندہ کرتا تھا۔ نبیوں کی نبوتوں اور پیش گوئیوں کے مطابق مسیحِ موعود اِس دنیا میں ”خداوند کا بازو“ تھا (یسعیاہ ٥٣ : ١ ؛ یوحنا ١٢: ٢٨ ؛ لوقا ١: ٥١ — مزید دیکھئے یسعیاہ ١٠ : ١٠ ، ١١، ٥١ : ٥؛ ٥٢ : ١٠ ؛ ٥٩ : ١٦ ؛ ٦٣ :٥ ؛ یرمیاہ ٣٢: ١٧ )۔

یسوع کا اعلی' و ارفع جلال اُس کی ہستی کے ہر حصے سے نمایاں اور ظاہر تھا بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں ہوں۔ اُس کے کام اُس کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے تھوڑی دیر پہلے پڑھا کہ یسوع نے دعوی' کیا کہ ”زندگی مَیں ہوں۔“ اُس نے اپنے اِس دعوے کی تصدیق کیسے کی؟ اُس نے مُردوں کو پھر زندہ ہونے کا حکم دیا اور وہ زندہ ہوۓ۔

ایک موقع پر خداوند یسوع لعزر کی قبر پر آیا۔ لعزر کو مرے ہوۓ چار دن ہو گۓ تھے۔ اُس کی لاش ایک غار میں دفنائ گئی تھی۔ یسوع نے اُس مرحوم آدمی کی روتی ہوئ بہن سے کہا کہ تمہارا بھائی جی اُٹھے گا۔

اُس بہن نے یسوع کو جواب دیا ” مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھے گا۔“ یسوع نے اُس سے کہا کہ ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جاۓ تو بھی زندہ رہے گا“ (یوحنا ١١ : ٢٤ ، ٢٥ )۔

اور اپنے دعوے کی تصدیق کرنے کے لئے یسوع نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ اور جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوۓ نکل آیا اور اُس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔

پس بہتیرے یہودی ۔۔۔ جنہوں نے یسوع کا یہ کام دیکھا اُس پر ایمان لاۓ۔ مگر اُن میں سے بعض نے فریسیوں کے پاس جا کر اُنہیں یسوع کے کاموں کی خبر دی ۔۔۔ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے ۔۔۔ سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعزر کو بھی مار ڈالیں کیونکہ اُس کے باعث بہت سے یہودی چلے گۓ اور یسوع پر ایمان لاۓ“ (یوحنا ١١: ٤٣۔٤٦ ، ٥٣ ؛ ١٢ : ١٠، ١١ )۔

خدا نے نبیوں (ایلیاہ اور الیشع) کو بھی مُردے کو زندہ کرنے کی قدرت بخشی، لیکن کسی نبی نے یہ دعوی' نہیں کیا کہ مَیں زندگی کا بانی ہوں۔ صرف یسوع ہی یہ دعوی' کر سکتا تھا کہ ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔“

مگر انسان کا دل کیسا سخت ہے!

سخت دلی

یسوع کے دعوے سن کر اور اُس کی بڑھتی ہوئ مقبولیت کو دیکھ کر یہودیوں کے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کا جذبہ انتقام بھڑک اُٹھا۔ اِس یسوع کو خاموش کرنا چاہئے! — کوئ وجہ — کوئی بھی بہانہ ڈھونڈو، جس سے اُس پر الزام لگایا جا سکے کہ وہ واجب القتل ہے! لیکن تاریخ کے واحد کامل آدمی پر کیسے الزام لگایا جا سکتا ہے؟

ایک سبت کے دن یسوع عبادت خانے میں تعلیم دے رہا تھا کہ ۔۔۔

”۔۔۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ اور وہ اُس کی تاک میں رہے کہ اگر وہ اُسے سبت کے دن اچھا کرے تو اُس پر الزام لگائیں۔ اُس نے اُس آدمی سے جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا کہا بیچ میں کھڑا ہو۔ اور اُن سے کہا سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟

وہ چپ رہ گئے۔ “

” اُس نے اُن کی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصے سے نظر کر کے اُس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھا دیا اور اُس کا ہاتھ درست ہو گیا۔ “

” پھر فریسی (ایک مذہبی گروہ) فی الفور باہر جا کر ہیرودیوں (ایک سیاسی گروہ) کے ساتھ اُس کے خلاف مشورہ کرنے لگے کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں۔

اور یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ جھیل کی طرف چلا گیا۔ اور ۔۔۔ ایک بڑی بھیڑ ۔۔۔ اُس کے پاس آئی۔۔۔ کیونکہ اُس نے بہت لوگوں کو اچھا کیا تھا۔ چنانچہ جتنے لوگ سخت بیماریوں میں گرفتار تھے اُس پر گرے پڑتے تھے کہ اُسے چھو لیں۔ “

” اور ناپاک روحیں جب اُسے دیکھتی تھیں اُس کے آگے گر پڑتی اور پکار کر کہتی تھیں کہ تُو خدا کا بیٹا ہے“ (مرقس ٣: ١۔ ١١ )۔

شیاطین کی بصیرت

شیاطین (اصل زبان کے لفظ کا مطلب ہے” جاننے والی ہستیاں“) جانتے تھے کہ شفا دینے والا یہ شخص کون ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اُسے صحیح لقب سے مخاطب کیا اور پکار کر کہا ”تُو خدا کا بیٹا ہے!“

برگشتہ فرشتے جو آسمان پر سے گرا دیئے گئے، یسوع کی پچھلی تاریخ سے واقف ہیں۔

ہزاروں سال پہلے اِن برگشتہ فرشتوں نے یسوع کی حیرت انگیز قدرت اور بے انتہا حکمت دیکھی تھی جب اُس نے صرف کہہ کر آسمان اور زمین پیدا کئے تھے — اُنہیں عدم سے موجود کر دیا تھا۔ وہ اُس دن کو یاد کر کے تھرتھراتے تھے جب اُس نے اپنے جائز قہر میں اُنہیں آسمان سے نکال دیا تھا کیونکہ اُنہوں نے بغاوت میں شیطان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔(زمین پر آنے سے پہلے مسیحِ موعود آسمان پر تھا۔ جب لوسیفر کو گرایا گیا تو وہ وہیں تھا۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ” مَیں شیطان کو بجلی طرح آسمان سے گرا ہوا دیکھ رہا تھا“ لوقا ١٠ : ١٨ )۔ اور اب وہ زمین پر اُن کے درمیان موجود تھا!

اب نوشتہ دیوار سامنے تھا۔

اُن کے آقا (ابلیس) کا اِختیار زمین بوس ہوتا نظر آ رہا تھا۔

گناہ کی لعنت ختم ہونا شروع ہو گئی تھی۔

ازلی بیٹا — عورت کی نسل— اُن کی عمل داری پر چڑھ آیا تھا۔ اِسی لۓ بدروحیں یا ناپاک روحیں (شیاطین) اُسے دیکھتی تھیں تو اُس کے آگے گر پڑتی اور پکار کر کہتی تھیں ”تُو خدا کا بیٹا ہے۔“

اور مذہبی راہنما تھے کہ سازش کر رہے تھے کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں!

ایک دفعہ مَیں نے یہ واقعہ اپنے چند مہمانوں کو سنایا، تو اُن میں سے ایک آدمی کہنے لگا ”کیسی حیرت انگیز بات ہے! مذہبی لیڈروں سے شیاطین یسوع کی زیادہ عزت کرتے ہیں!“

ناقابلِ یقین حد تک حیرت انگیز! لیکن حقیقت ہے!

۱۸
خدا کا ازلی منصوبہ
”خدا ازل سے اپنے سب کاموں کو جانتا ہے“ —(یسعیاہ ٤٥ : ٢١ )
”یہ وہی خداوند فرماتا ہے جو دنیا کے شروع سے اِن باتوں کی خبر دیتا آیا ہے“ —(اعمال ١٥ : ١٩ )

وقت شروع ہونے سے پہلے — ازل ہی سے خدا نے انسانوں کے لئے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ جس دن گناہ نے انسانی خاندان یعنی بنی آدم کو آلودہ کیا خدا نے اُسی دن سے یہ منصوبہ بتانا شروع کر دیا — لیکن اشاری اور رمزی زبان میں ۔ پاک کلام اِس منصوبے کو ”خدا کا پوشیدہ مطلب“ کہتا ہے (مکاشفہ ١٠ :٧ )۔

بنی نوع انسان کے لئے خدا کا یہ منصوبہ اور مقصد آج بھی بہت سے لوگوں کے لئے ایک راز ہے، لیکن بلاوجہ، کیونکہ جو بھید ”تمام زمانوں اور پشتوں سے پوشیدہ رہا “ اب وہ ”ظاہر ہوا“ ہے (کلسیوں ١: ٢٦ )۔

نبیوں سے زیادہ اعزاز پانے والے

یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ جہاں تک خدا کے منصوبے اور پیغام کو سمجھنے کا تعلق ہے ہمیں اُن نبیوں سے زیادہ اعزاز ملا ہے جنہوں نے یہ صحیفے لکھے تھے۔

ہمیں خدا کا پورا مکاشفہ عطا ہوا ہے، اُن کو عطا نہیں ہوا تھا۔

ہم خدا کی کتاب کا آخری حصہ پڑھ سکتے ہیں، وہ نہیں پڑھ سکتے تھے۔

” اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تم پر ظاہر ہونے کو تھا نبوت کی۔ اُنہوں نے اِس بات کی تحقیق کی کہ مسیح کا روح جو اُن میں تھا اور پیشتر سے مسیح کے دُکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دیتا تھا وہ کون سے اور کیسے وقت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اُن پر یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ نہ اپنی بلکہ تمہاری خدمت کے لئے یہ باتیں کہا کرتے تھے جن کی خبر اب تم کو اُن کی معرفت ملی جنہوں نے روح القدس کے وسیلہ سے جو آسمان سے بھیجا گیا تم کو خوش خبری دی اور فرشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مشتاق ہیں“ (١۔پطرس ١: ١٠ ۔ ١٢ )۔

خدا نے اپنا منصوبہ رَمز میں کیوں بتایا

کئی لوگ پوچھتے ہیں خدا نے برگشتہ انسانوں کو اُسی وقت کیوں نہ بتا دیا کہ مَیں نے کیا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے؟ اُس نے اپنے پیغام پر، راز  پر پردہ کیوں ڈالا؟

یہ حقیقت ہے کہ کائنات کا خدا ہمارے سامنے وضاحتیں کرنے کا پابند نہیں ہے۔ لیکن اپنی شفقت اور مہربانی سے اُس نے ہمیں کچھ بصیرت، کچھ اِدراک دیا ہے کہ مَیں نے بنی نوع انسان کے لئے اپنا مںصوبہ رَمزیہ زبان میں کیوں بتایا ہے۔ تین وجوہات ہیں کہ خدا نے یہ منصوبہ بتدریج اور احتیاط سے کیوں بتایا۔

اوّل، ابواب پانچ اور چھے میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ اپنے منصوبے کو بتدریج ظاہر کرنے سے خدا نے بنی نوع انسان کو تصدیق کرنے والی بے شمار نبوتیں، پیش گوئیاں اور نشان دیئے۔ علاوہ ازیں تصدیق کرنے کے لئے بہت سے گواہ بھی دیئے تاکہ بعد میں آنے والی پشتیں واحد حقیقی خدا کے پیغام کو یقیینی طور سے جان لیں۔

دوم، خدا نے اپنی سچائی اِس طریقے سے ظاہر کی کہ صرف وہی لوگ اِسے سمجھ سکیں جو جاں فشانی اور سرگرمی سے تحقیق کریں۔ ”خدا کا جلال راز داری میں ہے، لیکن بادشاہوں کا جلال معاملات کی تفتیش میں“ (اَمثال ٢٥ : ٢)۔ بہت سے لوگ اِسی طرح سچائی کو نہیں ڈھونڈ سکتے جیسے ایک چور پولیس کے سپاہی کو تلاش نہیں کر سکتا — وہ چاہتے نہیں (عبراںیوں ١١: ٦ ؛ یرمیاہ ٢٩ : ١٣ ؛ یسعیاہ ٢٩ : ١١ ؛ متی ١١: ٢٥ ؛ ١٣ : ١٣ ، ١٤ ؛ لوقا ٨: ٤۔ ١٥ ؛ یوحنا باب ٦ )۔ خدا کی بہت سی سچائیاں جان بوجھ کر مبہم انداز میں ظاہر کی گئی ہیں تاکہ صرف وہی لوگ سمجھ سکیں جو تحقیق و تفتیش کریں۔ خدا لوگوں کو سننے، سمجھنے اور ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جو ارادہ رکھتے اور آمادہ ہوتے ہیں وہ سچائی کو پالیں گے۔ جو جان بوجھ کر اندھے بن جائیں، اُنہیں کچھ نہیں ملے گا۔

سوم، خدا نے اپنا منصوبہ اِس لئے رَمزیہ انداز میں بیان کیا تاکہ شیطان اور اُس کے پیروکاروں سے پوشیدہ رہے۔

”۔۔۔ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے“ (١۔کرنتھیوں ٢: ٧، ٨)۔

اگر شیطان اور اُس کے حمایتی اور ساتھی خدا کے مکمل منصوبے کو جان اور سمجھ لیتے جو اُنہیں شکست دینے اور مغلوب کرنے کے لئے تھا تو وہ تدبیر اور کام نہ کرتے جو اُنہوں نے کیا۔ خدا نے اپنا منصوبہ اِس طرح تیار کیا کہ جو اُسے ناکام کرنے کی تجویزیں کریں وہی اُسے پورا کر دیں۔

اور وہ منصوبہ کیا تھا؟

فدیہ!

خدا نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں عورت کی نسل سے ایک بے گناہ چھڑاںے والا بھیجوں گا جو آدم کی سرکش، قاںون شکن اور شریعت کی نافرمان اولاد کو ابدی ہلاکت کی سزا سے چھڑاۓ گا۔ انسانی تاریخ کے بالکل موزوں وقت پر خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

”۔۔۔ جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھڑا لے ۔۔۔“ (گلتیوں ٤: ٤ ، ٥)۔

فدیہ دینے کا مطلب ہے مطلوبہ قیمت ادا کر کے واپس خرید لینا۔

میری پرورش کیلیفورنیا میں ہوئی۔ وہاں میرے پاس ایک کتیا تھی۔ مَیں اُسے کھانا کھلاتا، اُس کی نگہداشت کرتا اور اُس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی تھی۔ مَیں سکول سے واپس آتا تو بہت خوش ہوتی تھی۔ لیکن اُس میں ایک خامی تھی۔ وہ محلے میں گھومتی پھرتی تھی۔ لیکن ہمیشہ گھر واپس آ جاتی تھی — مگر ایک دن:

مَیں سکول سے واپس آیا ۔۔۔ لیکن میری کتیا اِستقبال کرنے کو موجود نہ تھی۔ شام اور پھر رات ہو گئی۔ سونے کا وقت ہو گیا، لیکن اُس کا کہیں پتا نہ تھا۔ اگلے دن والد صاحب نے صلاح دی کہ مقامی مال خانہ (جہاں آوارہ پالتو جانوروں اور مویشیوں کو محدود وقت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے — جن جانوروں کا کوئی دعوے دار نہ ہو اُنہیں ٹیکہ لگا کر مار دیا جاتا ہے) سے پتا کروں۔ مَیں نے فون کیا تو وہاں ایک کتیا موجود تھی جس کا حلیہ میرے بیان کے مطابق تھا۔ اُسے ”آوارہ کتے پکڑنے والا“ پکڑ کر لے گیا تھا۔ میری کتیا اپنے آپ کو بچانے اور چھڑانے میں بے بس تھی۔ اگر کوئی اُسے چھڑانے کو نہ پہنچتا  تو اُسے اپنی آوارگی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑتی۔

مَیں مال خانے پہنچا۔ مجھے میری کتیا واپس ملنے کو تھی! لیکن دفتر میں موجود افسر نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اپنی کتیا واپس لینی ہے تو مجھے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ کتوں کا گلیوں میں آوارہ گھومنا خلافِ قانون تھا (ہے)۔ مَیں نے مطلوبہ تاوان ادا کیا اور میری کتیا آزاد کر دی گئی۔ وہ اُس خوف ناک پنجرے سے نکل کر اور اپنے نگہداشت اور پرورش کرنے والے مالک کے پاس آ کر کتنی خوش تھی! اُس کا فدیہ دیا گیا تھا!

مَیں نے اپنی سرکش کتیا کو خرید کر واپس لیا۔ لڑکپن کا یہ تجربہ ہمیں ہماری اپنی حالت کی کچھ تصویر دکھاتا ہے۔ ہم سرکش گنہگار ہیں۔ ہمارے خلاف سزاۓ موت کا حکم ہو چکا ہے اور ہم کسی طرح اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتے۔ خدا نے اپنے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ فدیے کی مطلوبہ قیمت ادا کر کے ہماری خلاصی کراۓ، کیونکہ قیمت اِتنی زیادہ تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی ادا نہ کر سکتا تھا۔

”اُن میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا، نہ خدا کو اُس کا معاوضہ دے سکتا ہے، کیونکہ اُن کی جان کا فدیہ گراں بہا ہے۔۔۔ لیکن خدا میری جان کو پاتال کے اختیار سے چھڑا لے گا۔۔۔“ (زبور ٤٩ : ٧، ١٥ )۔

چنانچہ ہمارے فدیے کی قیمت کیا تھی؟

نبیوں نے اِس کا اعلان کیا

پیدائش کی کتاب کے باب ٣ میں ہم نے خدا کی رَمزیہ پیش گوئ کو اُس کی نہایت ابتدائی شکل میں دیکھا کہ شیطان کے چنگل سے چھڑانے کے لئے اُس کا منصوبہ کیا ہے۔ آئیے ، دوبارہ سنیں کہ خدا نے شیطان سے کیا کہا:

” مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٥ )۔

اِن لفظوں کے ساتھ خدا نے اپنے پُراسرار، پوشیدہ اور باقاعدہ منصوبے کا خاکہ بتا دیا کہ وہ شیطان اور گناہ سے ایسے نمٹے گا جو اُس کی پاک ذات و صفات کے مطابق ہو گا۔ خداوند خدا نے واضح کر دیا کہ مَیں ایک فدیہ دینے والا مسایاح بھیجوں گا۔ وہ شیطان کا سرکچل کر اُسے شکست دے گا۔ اور نبوت نے پہلے سے یہ بھی بتا دیا کہ شیطان مسیحِ موعود کی ”ایڑی“ پر کاٹے گا۔

”وہ (مسایاح) تیرے (شیطان کے) سر کو کچلے گا اور تُو (شیطان) اُس (مسایاح) کی ایڑی پر کاٹے گا“۔

عورت کی نسل شیطان کے سر کو کس طرح ”کچلے گی“؟ عبرانی کے جس لفظ کا ترجمہ ”کچلنا“ کیا گیا ہے اُس کا مطلب ہے ” خراش ڈالنا، توڑنا، زخمی کرنا، کوٹنا/چُورا کرنا۔ کچلنا۔“ اِس اوّلین پیش گوئی کے مطابق شیطان اور مسایاح دونوں ہی ”کچلے جائیں گے۔“ لیکن دونوں میں سے صرف ایک زخم لازماً مہلک ہو گا۔ کچلا ہوا سر مہلک ہوتا ہے کچلی ہوئ ایڑی مہلک نہیں ہوتی۔

خدا نے پہلے سے بتا دیا کہ اِس حقیقت کے باوجود کہ شیطان اور اُس کے چیلے چانٹے مسایاح کو زخمی کریں گے، مگر بالاخر وہ ہی شیطان پر فتح مند ہو گا۔

بعد کے زمانے میں خدا نے داؤد نبی کو الہام دیا کہ وہ مسایاح کے بارے میں یہ لکھے کہ

” وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں“ (زبور ٢٢: ١٦ )۔

داؤد نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ اگرچہ مسایاح جان سے مارا جاۓ گا لیکن اُس کی لاش قبر میں گلنے سڑنے نہیں پاۓ گی۔

” تُو ۔۔۔ نہ اپنے مقدّس کو سڑنے دے گا“ (زبور  ١٦ : ١٠ )۔

موعودہ نجات دہندہ موت پر فتح پاۓ گا۔

مقدّس یسعیاہ نبی نے مسایاح کے دُکھوں، موت اور جی اُٹھنے کا مقصد بتایا ہے۔

”۔۔۔ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔۔۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جاۓ گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمردراز ہو گی اور خداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پوری ہو گی“ (یسعیاہ ٥٣ : ٥، ١٠ )۔

کیا آپ نے غور کیا کہ کتنی پیش گوئیاں فعل ماضی میں لکھی گئی ہیں حالانکہ وہ متعلقہ واقعہ سے سینکڑوں سال پہلے لکھی گئی تھیں؟ خدا کے منصوبوں کے پورا ہونے میں کچھ بھی حائل نہیں ہو سکتا۔ وہ اٹل ہیں۔ جب وہ خالق کہتا ہے کہ یہ واقعہ ہو گا تو وہ ایسا ہے جیسے ہو چکا۔ اِسی لۓ مسایاح کو  ”بناۓ عالم کے وقت سے ذبح ہوا“ برّہ کہا گیا ہے (مکاشفہ ١٣: ٨)۔

اگرچہ شیطان لوگوں کو اُبھارے گا کہ خدا کے بھیجے ہوۓ مسایاح کو اذیتیں دیں اور قتل کر ڈالیں، مگر سب کچھ اُس منصوبے کے مطابق ہو گا جو نبیوں کی معرفت بتایا گیا۔ آخری اور قطعی نتیجہ خداوںد اور اُس کے مسیح کی کامل اور قطعی فتح ہو گا۔

حکمت اور آگاہی کی باتیں

مسیح کی پیدائش سے ہزار سال پہلے مقدّس داؤد نے لکھا:

” قومیں کس لئے طیش میں ہیں اور لوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں؟ خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکم آپس میں مشورہ کر کے کہتے ہیں ۔۔۔ وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گا۔ خداوند اُن کا مضحکہ اُڑاۓ گا۔ تب وہ اپنے غضب میں اُن سے کلام کرے گا اور اپنے قہرِشدید میں اُن کو پریشان کرے گا۔۔۔ پس اے بادشاہو! دانش مند بنو۔ اے زمین کے عدالت کرنے والو، تربیت پاؤ۔ ڈرتے ہوۓ خداوند کی عبادت کرو۔ کانپتے ہوۓ خوشی مناؤ۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُن پر ہے“ (زبور ٢: ١، ٢ ، ٤۔ ٦ ، ١٠ ۔ ١٢ )۔

سینیگال میں کُشتی کرنا (پہلوانی) روایتی قومی کھیل ہے۔ اُن کی ایک ضرب المثل ہے:

” انڈے کو پتھر سے کُشتی نہیں لڑنی چاہئے۔“

انڈے کو پتھر سے کُشتی کیوں نہیں لڑنی چاہئے؟ کیونکہ انڈا اتفاق سے بھی کُشتی نہیں جیت سکتا! اِس کا سرے سے اِمکان ہی نہیں۔

اِسی طرح ”جو خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف صف آرائی کرتے ہیں“ اُن میں سے کوئی بھی — ایک بھی — کامیاب نہیں ہو گا۔ خدا کے منصوبے کی مخالفت کرنا ”باطل خیال باندھنا“ ہے (زبور  ٢ )۔

دانی ایل ٢: ٣٤ ، ٣٥ میں مسیحِ موعود کو ایک بہت بڑے آسمانی پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جو (دوسری آمد پر ) اُن سب کو کچل ڈالے گا جو خدا کے مخلصی کے منصوبے کی اطاعت نہیں کریں گے (مزید دیکھئے متی ٢١: ٤٢ ۔٤٤ )۔

سینیگال کے لوگوں کی ایک اور ضرب المثل ہے:

” کوئی لکڑہارا جان بوجھ کر چوپال کا درخت نہیں کاٹتا۔“

(چوپال— گاؤں کی کھلی نشست گاہ جہاں لوگ بیٹھتے ہیں اور پنچایت کے اجلاس ہوتے ہیں۔ وہاں اکثر بڑیا پیپل کا بڑا سایہ دار درخت ہوتا ہے۔ لوگ دوپہر کی جھلسا دینے والی دوپہر کو وہاں بیٹھتے ہیں، آرام کرتے ہیں، حقہ گڑگڑاتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں۔ اگر کوئ لکڑہارا اس درخت پر کلہاڑا چلانے لگے تو گاؤں والوں کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ برہم ہو کر اُسے فوراً نہیں روک دیں گے؟)

جو لوگ خدا کے مخلصی کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُس لکڑہارے جیسے ہیں جو گاؤں والوں کے پسندیدہ درخت کو کاٹتا ہے۔

وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔

”پس اے بادشاہو! دانش مند بنو۔۔۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے“ (زبور ٢: ١٠ ، ١٢ )۔

خدا کے منصوبے سے بے خبر

اپنی زمینی خدمت کے آخری ہفتوں کے دوران یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مذہبی اور سیاسی راہنما مجھے اپنا بادشاہ ماننے کے بجاۓ میرے قتل کا مطالبہ کریں گے۔ جن لوگوں نے یسوع کو مروا ڈالنے کی سازش اور منصوبہ بنایا اُن کو احساس تک نہیں تھا کہ ہم وہ بات پوری کرنے میں شریک ہو گۓ ہیں جو نبیوں نے پیش گوئی سے بتائی تھی کہ مسایاح کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے جائیں گے۔ یہ آدم کی سرکش مگر بے بس نسل کو شیطان کی گرفت سے چھڑانے کے خدا کے منصوبے کا ایک حصہ تھا۔

”اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جاۓ اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھاۓ اور قتل کیا جاۓ اور تیسرے دن جی اُٹھے۔ اِس پر پطرس اُسے الگ لے جا کر ملامت کرنے لگا کہ اے خداوند، خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔ اُس نے پھر کر پطرس سے کہا اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔۔۔“ (متی ١٦ : ٢١ ۔ ٢٣ )۔

پطرس کی سوچ اُس نامی گرامی مناظرہ کرنے والے جیسی تھی جسے مَیں نے کہتے سنا کہ ”مصلوب مسایاح کسی شادی شدہ کنوارے کی مانند ہو گا۔“

اُس مناظرہ کرنے والے کی طرح پطرس بھی ابھی خدا کے منصوبے کو نہیں سمجھا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ مسایاح کو اپنے وعدے کے مطابق دنیا بھر میں اپنی سلطنت فوراً قائم کرنی چاہئے اور صلیب پر کیلوں سے جڑے جانے کے خوف ناک دکھوں اور شرمندگی اور ذلت کے لئے اپنے آپ کو حوالے نہیں کرنا چاہئے۔ پطرس کی یہ سوچ تو درست تھی کہ خدا کا منصوبہ ہے کہ یسوع کو ساری دنیا پر مطلق العنان اور قادر بادشاہ مقرر کرے، لیکن پطرس کا یہ خیال غلط تھا کہ مسایاح صلیب کے دکھ اور ذلت سے بچ کر نکل جاۓ۔ کچھ عرصے کے بعد پطرس کو خدا کے منصوبے کی سمجھ آ گئی اور اُس نے بڑی دلیری سے کہا ”نبیوں نے ۔۔۔ پیشتر سے مسیح کے دکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دی“ (١۔پطرس ١: ١١ )۔

پطرس کی دوسری باتوں کے لئے پڑھیں اعمال کی کتاب ابواب ٢ تا ٥ اور ١٠ اور  ١۔پطرس ١: ١٠ ۔ ١٢ ؛ ٢: ٢١ ۔ ٢٥ ؛ ٣: ١٨ ۔ علاوہ ازیں مقدّس پولس رسول کی اِس بات پر بھی غور کریں  جو اُس نے لکھی ہے ”۔۔۔ صلیب کا پیغام ہلاک ہونے والوں کے نزدیک تو بے وقوفی ہے، مگر ہم نجات پانے والوں کے نزدیک خدا کی قدرت ہے۔۔۔ خدا کی کمزوری آدمیوں کے زور سے زیادہ زور آور ہے ۔۔۔ خدا نے دنیا کے کمزوروں کو چن لیا کہ زور آوروں کو شرمندہ کرے“ (١۔کرنتھیوں ١: ١٨ ، ٢٥ ، ٢٧ )۔

مسایاح کا مصلوب ہونا کوئ اتفاقی یا حادثانی واقعہ نہیں تھا۔ خدا نے پیش بینی کر کے ”ازل سے“ اِس کا انتظام کیا تھا۔ نبیوں نے پیشتر سے اِس کی خبر دی۔ ”عورت کی نسل“ اِسے پورا کرنے آ گیا۔

کچھ عرصہ ہوا مجھے یہ ای میل موصول ہوئ:

ای میل

”تم اِتنے اندھے ہو کہ یہ ایمان رکھتے ہو کہ خدا اپنے بیٹے کو بھی مصلوب ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا مجبور ہے اور اتنا کمزور ہے کہ اُس نے انسانوں کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی تحقیر اور تذلیل ہونے دی اور اُسے قتل ہونے دیا۔ جو مجبور ہوتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے اور اُسے 'خدا'  نہیں کہلانا چاہۓ۔ خدا تو قادرِ مطلق ہے۔ وہ واحد اور لاشریک اور بے مثل ہے — اللہ اکبر۔“

جیسے پطرس پہلے نہیں سمجھتا تھا ویسے ہی یہ صاحب بھی نہیں سمجھتے تھے کہ مسایاح کیوں ”قتل کیا جاۓ گا اور تیسرے دن جی اُٹھے گا۔“

ایسا ہولناک منصوبہ کیوں ضروری تھا؟ ہمارے ای میل بھیجنے والے دوست نے کہا تھا کہ ”خدا قادرِ مطلق ہے“ تو اُس نے کیوں نہ کیا کہ شیطان کو دوزخ میں پھینک دیتا اور آدم  کی گنہگار نسل سے کہتا کہ تمہیں معاف کر دیا ہے۔ خداوند خدا نے صرف کہہ کر دنیا پیدا کر دی تھی تو صرف کہہ کر دنیا کو مخلصی کیوں نہ دے دی؟

کیوں ضروری تھا کہ خالق کلمہ انسان بنے؟ خدا کے مصنوبے میں مسایاح کا دُکھ اُٹھانا، خون بہانا اور مرنا کیوں شامل کیا گیا؟

ہمارے سفر کا اگلا مرحلہ جواب دیتا ہے۔

۱۹
قربانی کا قاںون
خداوند خدا نے فرمایا ”۔۔۔ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے“ — (احبار  ١٧ : ١١)

تاریخ کے پہلے خاندان  کے حالات پیدائش کی کتاب کے چوتھے باب میں قلم بند ہیں۔ وہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب آدم اور حوا کو عدن کے اِنتہائ دلکش اور خوش منظر باغ سے باہر نکال دیا گیا تو پوری انسانی نسل کو نکال دیا گیا۔ اُن کی اگلی ساری نسلیں لعنتی دنیا میں پیدا ہوں گی اور پرورش پائیں گی اور یہ دنیا دشمن کے کنٹرول میں ہو گی۔

پہلا پیدائشی گنہگار

” ۔۔۔ اور آدم اپنی بیوی حوا کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئ اور اُس کے قائن پیدا ہوا۔ تب اُس نے کہا مجھے خداوند سے ایک مرد ملا“ (پیدائش ٤: ١)۔

”قائن“ کا مطلب ہے ”حاصل کرنا“۔ پہلے درد ناک اور عجیب وضح حمل پر حوا بے ساختہ پکار اُٹھی ”مجھے خداوند سے ایک مرد ملا۔“ مجھے خداوند سے ایک مرد حاصل ہوا۔ شاید اُس نے سوچا کہ قائن ہی وہ موعودہ نجات دہندہ ہے جسے خدا نے بھیجا ہے کہ ہمیں گناہ کے ہلاکت خیز نتائج سے بچاۓ۔

حوا کا یہ ایمان اور یقین تو درست تھا کہ موعودہ نجات دہندہ ”خداوند (خدا) سے“ آۓ گا۔ اُس کا یہ ایمان رکھنا بھی درست تھا کہ مسایاح عورت سے پیدا ہو گا۔ لیکن اُس کی یہ سوچ غلط تھی کہ میرے شوہر سے ہونے والا بچہ موعودہ نجات دہندہ ہے۔

اُس  کی یہ غلط فہمی جلد ہی دُور ہو گئ۔

تھوڑے ہی عرصے میں آدم اور حوا کو معلوم ہو گیا کہ ہمارا چہیتا پہلوٹھا پیدائشی طور پر گناہ کی جبلت رکھتا ہے۔ قائن فطری طور پر گناہ کرتا تھا۔ شیطان کی طرح — اور اپنے والدین کی طرح قائن بھی تکبر اور سرکشی کرتا تھا۔ قائن تو موعودہ فدیہ دینے والا نہیں تھا۔ وہ تو خود ایک بے بس گنہگار تھا جسے خود مخلصی کی ضرورت تھی۔

جب تک آدم اور حوا کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا انسان کی حالت کے بارے میں اُن کی سوچ اور اُن کا تناظر کافی حقیقت پسندانہ ہو چکا تھا۔

” ۔۔۔ پھر قائن کا بھائ ہابل پیدا ہوا “ (پیدائش ٤: ٢)۔

آدم اور حوا نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام ” ہابل“ رکھا جس کا مطلب ہے ”باطل، بطلان، ہیچ یا کچھ نہ“۔ وہ کسی طرح بھی راست باز بچہ پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ گنہگاروں کا موعودہ نجات دہندہ، آدم کی گناہ آلودہ نسل سے پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ آدم اور حوا مل کر صرف اپنے جیسے گنہگاروں ہی کو جنم دے سکتے تھے۔ اُنہیں گناہ کی سزا سے بچانے کے لئے اگر کوئی راست باز  ”آدم“ ہونا تھا تو ضرور تھا کہ وہ خداوند (خدا) سے ہو۔

ہم نے پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں سیکھا تھا کہ پہلا آدمی اور پہلی عورت خدا کی صورت اور شبیہ پر خلق کئے گئے تھے۔ اِس عظیم اعزاز میں یہ بڑی ذمہ داری بھی شامل تھی کہ وہ صحیح انتخاب اور درست فیصلے کریں۔ آدم اور حوا اور اُن کی اولاد کے لئے خدا کی مرضی یہ تھی کہ وہ اپنے خالق کی پاک اور محبت بھری صفات کو منعکس کریں۔ مگر جب آدم اور حوا نے اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی کی تو وہ اُس کی شبیہ کو منعکس کرنے کی اہلیت کھو بیٹھے۔ وہ خدا پرست نہ رہے بلکہ اُسی وقت خود پرست ہو گئے۔ اعلی' درجے سے گر کر ادنی' درجے پر آ گۓ۔ اور وہ اپنے جیسی اولاد پیدا کرنے لگے۔

”اور آدم۔۔۔ اُس کی صورت اور شبیہ کا ایک بیٹا اُس کے ہاں پیدا ہوا۔۔۔ اور اُس (آدم) سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں“ (پیدائش ٥: ٣ ۔ ٥)۔ یہ سب بیٹے اور بیٹیاں اُسی کی صورت اور شبیہ پر تھے (اور ہیں)۔

وُلوف ضرب المثل ہے ”قلانچیں بھرنے والے غزال بھٹ (بل) کھودنے والے بچے پیدا نہیں کرتے۔“ اِسی طرح گنہگار والدین راست باز بچے پیدا نہیں کرتے۔ پاک کلام میں لکھا ہے:

” ۔۔۔ ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئ اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا“ (رومیوں ٥: ١٢ )۔

گنہگار عبادت کرتے ہیں۔

” ۔۔۔ ہابل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور قائن کسان تھا۔ چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا۔ اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا۔۔۔“ (پیدائش ٤: ٢۔ ٤ )۔

قائن کسان اور ہابل چرواہا بن گیا۔ اگر گناہ کے اثرات اُن کے اِرد گرد اور اُن کے اندر موجود تھے تو بھی وہ خدا کی کائنات کی شان و شوکت سے گھرے ہوۓ تھے۔ اور وہ (خدا) محبت سے اُن کی نگہداشت اور پرورش کر رہا تھا۔ اگرچہ قائن اور ہابل دونوں گنہگار تھے تو بھی خدا اُن سے محبت رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ مجھے جانیں اور عبادت اور سجدہ کرنے میرے پاس آئیں۔ لیکن اِس کے لئے اُنہیں اپنے گناہ کے مسئلے کے لئے کوئی علاج، کوئی تریاق چاہئے تھا۔ خدا پاک ہے اور ضرور ہے کہ ”اُس کے پرستار  روح اور سچائی سے پرستش کریں“ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

بے شک والدین نے اُن لڑکوں کو بہت اچھی تعلیم دی تھی۔ ایک وقت تھا کہ وہ خود (والدین) اپنے خالق کے ساتھ قریبی دوستی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ قائن اور ہابل دونوں جانتے تھے کہ گناہ خدا کی نظر میں ناگوار اور گھنونی چیز ہے۔ اپنے والدین کی طرح ہم بھی خدا کی حضوری سے خارج ہیں۔ اگر ہمیں خدا سے کوئ تعلق اور رابطہ رکھنا ہے تو اُسی (خدا) کی شرائط کے مطابق رکھنا ہو گا۔

اور اچھی خبر یہ تھی کہ خدا نے ایک طریقہ بنا دیا تھا جس سے قائن اور ہابل کے گناہ ڈھانکے جا سکتے تھے بشرط یہ کہ وہ خدا پر توکل رکھتے اور اُس کے پاس اُس طریقے سے آتے جو اُس نے قائم کیا تھا۔

آیۓ، اب بیان کا اگلا حصہ سنیں۔

” چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا، پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منطور نہ کیا۔۔۔“ (پیدائش ٤: ٣۔ ٥ )۔

کہانی اچھی طرح سنانے کے اصول کے مطابق یہاں بھی ساری تفصیل ایک ساتھ نہیں بتائی گئی۔ صرف بتایا گیا ہے کہ قائن اور ہابل نے کیا کیا۔ اُنہوں نے یہ کام کیوں کیا؟ اِس کی تفصیل پاک کلام میں کسی دوسری جگہ بتائی گئی ہے۔ یہ دونوں جوان واحد حقیقی خدا کی پرستش کرنا چاہتے تھے۔ دونوں میں سے ہر ایک ”خداوند کے لئے ہدیہ لایا۔“

قائن چن چن کر اچھے سے اچھے پھل اور سبزیاں لایا جن کی کاشت اُس نے بڑی محنت اور مشقت سے کی تھی۔

ہابل ایک معصوم اور بے داغ برہ لایا۔ اُسے ذبح کیا اور اُسے پتھروں یا مٹی کی بنی ہوئ سادہ سی قربان گاہ پر جلایا۔

ہابل کو کیسے معلوم تھا کہ سب کچھ اِسی طرح کرنا ہے؟ خدا نے اُسے بتایا تھا۔ عبرانیوں ١١ :٤ میں بتایا گیا ہے کہ ہابل نے ”ایمان سے“ خداوند کے لئے قربانی گزرانی۔ اُس نے خدا کے حکموں اور وعدوں پر ایمان رکھا۔ پاک کلام نے عوضی قربانی کے لئے خدا کے تفصیلی احکام اور قانون بعد میں آگے چل کر بیان کۓ ہیں، لیکن ہابل نے ان سے بہت عرصہ پہلے ان ہی کے مطابق فرماں برداری سے قربانی چڑھائی۔ مثال کے طور پر پیدائش باب ٤ میں بتایا گیا ہے کہ ہابل ”بھیڑ بکریوں کے پہلوٹھے بچے“ لایا، (موازنہ کریں خروج ١٣ : ١٢ )۔ ہابل اپنے ریوڑ میں سے برہ لایا (دیکھئے احبار ٥: ٦)۔ ہابل نے اُن کی چربی گزرانی (دیکھئے احبار ٣: ١٦ )۔ یہ تو بیان نہیں کیا گیا کہ ہابل نے اپنا برہ مذبح پر چڑھایا،  لیکن امکان ہے کہ اُس نے ویسے ہی کیا، جیسے اُس کے بعد آنے والے ایمان داروں کو کرنا تھا (پیدائش ٨: ٢٠ ؛ ١٢ : ٧ ؛ ١٣ : ٤، ١٨ ؛ ٢٢ : ٨، ٩ ؛ خروج ٢٠ : ٢٤ ۔ ٢٦ )۔

ظاہری لحاظ سے ہابل کا خونین ہدیہ سنگدلانہ، وحشیانہ اور قابلِ نفرت تھا جبکہ قائن کا زرعی چیزوں کا ہدیہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ اِس کے باوجود پاک کلام کہتا ہے:

” خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظُور کیا پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ اِس لئے قائن نہایت غضب ناک ہوا اور اُس کا منہ بگڑا“ (پیدائش ٤: ٤ ، ٥)۔

خدا نے ہابل کا ہدیہ کیوں منظور کیا اور قائن کا ہدیہ نامنظور کیا؟

ہابل نے خدا کے منصوبے کا یقین کیا۔

قائن نے یقین نہ کیا۔

ہابل کا ایمان اور  برہ

پاک کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہابل ”ایمان سے“ خدا کے پاس آیا۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ خدا نے قائن اور ہابل پر ظاہر کر دیا تھا کہ مَیں (خدا) کیا چاہتا ہوں، میری شرائط کیا ہیں۔

” ایمان ہی سے ہابل نے (جس نے خدا کے منصوبے کا یقین کیا) قائن سے (جس نے خدا کے منصوبے کا یقین نہ کیا) افضل قربانی خدا کے لئے گزرانی اور اُسی کے سبب سے اُس (ہابل) کے راست باز ہونے کی گواہی دی گئی ۔۔۔ اور  بغیر ایمان کے اُس (خدا) کو پسند آنا ناممکن ہے“ (عبرانیوں ١١: ٤، ٦)۔

جو ایمان خدا کو پسند آتا ہے وہ ایمان ہے جو اُس کے منصوبے اور اُس کے انتظام کا یقین کرتا اور اُس کی اطاعت کرتا ہے۔

جب آدم اور حوا نے پہلی بار گناہ کیا تو اُنہوں نے گناہ کے مسئلے سے نمٹنے کی خود کوشش کی۔ مگر خدا نے اُس کی کوشش کو منظور نہ کیا، بلکہ اُس (خدا) نے جانور کی پہلی قربانی کی اور آدم اور حوا کو گناہ اور شرمندگی ڈھانپنے کے لئے لباس فراہم کۓ۔ بے گناہ جانوروں کو جان سے مار کر خدا اُنہیں سکھا رہا تھا کہ ”گناہ کی مزدوری موت ہے، مگر خدا کی بخشش۔۔۔ ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ٦: ٢٣ )

بعد میں قائن اور ہابل کو بھی یہی سبق سکھایا گیا۔ لیکن اُن میں سے صرف ایک نے اِس کا یقین کیا۔

ہابل ایمان کے ساتھ فروتنی اور فرماں برداری کے ساتھ خدا کے پاس آیا اور ایک صحت مند پہلوٹھا برہ اُس کے حضور پیش کیا۔

تصور کریں کہ ہابل اپنا ہاتھ برے کے سر پر رکھتا ہے اور خاموشی سے خداوند کا شکر ادا کرتا ہے کہ اگرچہ مَیں (ہابل) موت کی سزا کا حق دار ہوں لیکن خدا اِس برے کے خون کو گناہ کی عارضی قیمت کے طور پر قبول کرے گا۔ پھر وہ چھری پکڑتا ہے اور اُس حلیم جانور کا گلا کاٹتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اُس کی جان کا حامل خون چھلک چھلک کر بہہ رہا ہے۔

برہ ذبح کرنے سے ہابل نے خدا کی پاک ذات کے لئے اور گناہ اور موت کے قانون کے لئے تعظیم کا اظہار کیا۔ چونکہ ہابل نے خدا کے منصوبے پر توکل کیا اِس لئے خدا نے ہابل کے گناہ معاف کر دیۓ اور اُسے راست باز ٹھہرایا۔ ہابل گناہ کی سزا سے آزاد  ہو گیا اِس لئے کہ وہ سزا برے نے پوری کر دی تھی۔ ہابل کی قربانی اُس کامل قربانی کی علامت تھی اور اُس کی طرف اِشارہ کرتی تھی جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں (خدا) ایک دن وہ قربانی مہیا کروں گا جو دنیا کا گناہ دُور کر دے گی۔

یہی وجہ ہے کہ ”خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا۔“

قائن کے کام اور دین داری

اب رہی قائن کی بات۔ وہ کیسا دین دار نوجوان تھا! اُس نے خدا کے حضور میں خوبصورت اور قابلِ تعریف پھلوں اور سبزیوں کو ترتیب سے سجا کر رکھ دیا۔ لیکن خدا نے ”قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

قائن کی خطا یہ نہیں تھی کہ اُس نے کسی جھوٹے معبود کی پرستش کی بلکہ خطا یہ تھی کہ اُس نے واحد سچے خدا کی جھوٹی پرستش کی۔

اپنے خالق کے پاس ایمان کے ساتھ آنے کے بجاۓ قائن اپنی کوشش اور اپنے تصورات پر توکل کر کے آیا۔ خدا نے اُس کے والدین (آدم اور حوا) کے اپنے وضع کۓ ہوۓ انجیر کے پتوں کی پوشش کو منظُور نہیں کیا تھا۔ اور وہ قائن کا پھلوں اور سبزیوں کا ہدیہ بھی منظُور نہیں کرے گا جو وہ خود ہی سوچ کے لے آیا ہے۔

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جو کچھ قائن کے پاس تھا وہی وہ لے آیا تھا!

خدا وہ نہیں چاہتا تھا جو قائن کے پاس تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ مجھ پر توکل کرے اور موت کی قیمت کی بنیاد پر یعنی برے کےخون کے ہدیے کے ساتھ میری پرستش کرے۔ قائن کے پاس برہ نہیں تھا وہ ہابل کو پھل اور سبزیاں دے کر اُس سے برہ خرید سکتا تھا۔ یا وہ فروتنی اور انکساری کے ساتھ ہابل کے مذبح  پر خداوند کے حضور میں آ سکتا تھا کیونکہ اُس مذبحے پر برے کا خون بہایا گیا تھا۔ لیکن قائن اپنے تکبر کے باعث ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کے کاموں سے خداوند کی ”پرستش“ کرنا پسند کیا۔

یہی وجہ ہے کہ خداوند (خدا) نے ”قائن اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

گناہ کی مزدوری

خدا نے ایسا قطعی رویہ کیوں دکھایا؟ اُس نے ہابل کا ذبح کیا ہوا برہ کیوں منظوُر کیا اور قائن کے تازہ پھل کیوں منظور نہ کۓ؟

خدا نے قائن کا ہدیہ نامنظور کیا۔ اِس کی سیدھی سادی وجہ یہ تھی کہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔ گناہ اور موت کا قاںون جو خدا نے شروع میں آدم اور حوا کو بتا دیا تھا وہ بدلا نہیں تھا۔ جو لوگ خدا کے قوانین کو توڑتے ہیں وہ سب خدا کے مقروض ہیں اور یہ قرض صرف ”موت“ سے ادا ہو سکتا ہے۔ کائنات کا عادل منصف اپنے آئین اور قوانین کی خلاف ورزی اور اُن سے انحراف کے لئے موت سے کم کسی سزا کی اجازت نہیں دیتا۔

اخلاص، اپنی کوششیں، نیک اعمال یہ سبھ کچھ کتنا بھی ہو، مگر گناہ کے قرض کا قرض بے باق نہیں ہو سکتا۔

مثال کے لئے فرض کریں کہ مَیں کسی بڑے بینک سے لاکھوں ڈالر قرض لیتا ہوں اور اِتنی بڑی رقم دانائی سے کسی کاروبار میں لگانے کے بجاۓ اللے تللوں میں اڑا دیتا ہوں اور نادہندہ ہو جاتا ہوں۔ پولیس میرے گھر پر آ کر مجھے گرفتار کر لیتی ہے اور عدالت میں مَیں جج سے کہتا ہوں ”حضورِ والا مَیں عمر بھر یہ لاکھوں ڈالر کا قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ لیکں اِس قرض کو منسوخ کرنے کے لئے میرے پاس ایک منصوبہ ہے۔ مَیں یوں کروں گا کہ نقد رقم لوٹانے کے بجاۓ مَیں کاموں سے ادائیگی کر دوں گا! مَیں ہر روز پکے ہوۓ چاولوں کی ایک پلیٹ لا کر بینک کے پریزیڈنٹ کو دیا کروں گا۔ ہفتے میں ایک دن مَیں خود کھانا نہیں کھایا کروں گا بلکہ وہ کھانا غریبوں کو کھلایا کروں گا۔ مَیں ہر روز کئی دفعہ رسمی غسل کیا کروں گا تاکہ میرے قرض کی شرمندگی دُھل جاۓ۔ اور جب تک قرض بے باق نہ ہو جاۓ یہ سب کچھ کرتا رہوں گا۔“

کیا جج مالی قرض کی ادائیگی کے لئے یہ غیر معقول طریقہ منظور کرے گا؟ ہرگز نہیں! اور ساری دنیا کا جج بھی گناہ کے قرض کی ادائیگی کے لئے دعائیں، روزے اور نیک اعمال منظور نہیں کرے گا۔ گناہ کا قرض چکانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے— اِس کی ادائیگی صرف ”موت“ ہے — خدا سے ابدی جدائی اور دُوری۔

کیا کوئی طریقہ ہے کہ بے بس گنہگار گناہ اور موت کے اِس بے لچک قانون سے رہائی پا سکے؟

خدا کا شکر ہو کہ طریقہ ہے۔

قرباںی کا قانون

مَیں تاش نہیں کھیلتا، مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ بعض پتے دوسرے پتوں کو کاٹ دیتے ہیں یعنی اُن سے بازی جیت لیتے ہیں۔ اپنی مجوزہ قیمت کے باعث وہ دوسرے پتوں سے زیادہ قیمت کے حامل ہو جاتے ہیں اور اُنہیں مات دے دیتے ہیں۔

پرانے عہدنامے میں آستر اور دانی ایل کی کتابیں بتاتی ہیں کہ قدیم بادشاہ آئین مقرر کرتے تھے جو ”مادیوں اور فارسیوں کے آئین (کے مطابق) تبدیل نہیں“ ہو سکتے تھے (دانی ایل ٦: ٨)۔ اگر کوئی بادشاہ کسی قانون کو غیر موثر (غیر نافذ) کرنا چاہتا تھا تو اُسے منسوخ کرنے کے بجاۓ وہ ایک زیادہ زبردست یا زور دار قانون نافذ کرتا تھا جو پہلے قانون کا پتا کاٹ دیتا تھا، یعنی اُس کو مات دے دیتا تھا (دانی ایل باب ٦ ؛ آستر ٣: ٨ ۔ ١٥ ؛ ٨: ٧ ۔ ١٧ )۔

اِسی طرح ”گناہ اور موت کے قانون“ پر بازی لے جانے کے لئے شروع ہی سے خدا کا راست طریقہ یہ تھا کہ اُس سے زیادہ زبردست یا زور دار قانون مقرر کرے۔ یہ ہے ”خطا کی قربانی کے بارے میں شرع“ (احبار  ٦: ٢٥ )۔ اِسے ”سلامتی کے ذبیحہ کے بارے میں ۔۔۔ شرع“ بھی کہا گیا ہے (احبار  ٧ : ١١ )۔

خدا اپنے سارے آئین اور قوانین کو بحال رکھتا ہے۔ اِسی لئے اُس نے ”ذبیحہ (قربانی) کے بارے میں قانون (شرع)“ مقرر کیا تاکہ قانونی طور پر لازم (جو منسوخ یا تبدیل نہ ہو سکے) ”قربانی کا قانون“ کو مات ہو جاۓ۔

قربانی کے قانون میں قصوروار گنہگاروں پر رحم کرنے کی گنجائش تو تھی مگر گناہ کے خلاف عدل (کا تقاضا پورا) کرنا بھی ضروری تھا۔ (خدا کو رحم اور عدل میں کامل توازن رکھنا کیوں ضروری ہے — اِس پر دوبارہ نظر ڈالنے کے لئے دیکھئے باب ١٣ )۔ خون کی قربانی کے قانون نے ایک راہ نکالی کہ خدا گنہگار کو سزا دیئے بغیر گناہ کو سزا دے۔ خدا نے وضاحت کی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

” ۔۔۔ جسم کی جان خون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اُسے تم کو دے دیا ہے کہ اُس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے“ (احبار ١٧ : ١١)۔

اِس قانوں میں دو بنیادی اصول موجود ہیں:

١۔ خون زندگی دیتا ہے:  خدا نے فرمایا ”جسم کی جان خون میں ہے۔“ جو بات پاک کلام نے ہزاروں سال پہلے کہی جدید سائنس اُس کی تصدیق کرتی ہے — جاندار کی جان خون میں ہوتی ہے۔ صحت مند خون گردش کرتا اور جسم کو سارے ضروری عناصر پہنچاتا ہے جو زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں اور سارے گندے مادوں کو صاف کرتا ہے۔ خون گراں قدر اور اَنمول چیز ہے۔ اِس کے بغیر انسان اور حیوان سب مر جائیں۔

٢۔ گناہ موت کا تقاضا کرتا ہے: خدا نے یہ بھی فرمایا ”خون (جان کا) کفارہ دیتا ہے۔“ لفظ کفارہ عبرانی زبان کے لفظ ”کفر“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے ڈھانکنا، منسوخ کرنا، صاف کرنا، معاف کرنا، صلح کرانا، میل ملاپ کرانا۔ صرف بہاۓ گۓ خون ہی سے ممکن تھا کہ گنہگار پاک صاف کۓ جائیں اور اپنے عادل خالق سے اُن کا دوبارہ میل ہو جاۓ۔ چونکہ گناہ کی سزا موت ہے اِس لئے خدا نے کہا کہ مَیں انسان کے گناہ کی قیمت کے طور پر اور اُسے (گناہ کو) ڈھانکنے کے لئے پسندیدہ قربانی کا خون قبول کر لوں گا۔

[نوٹ۔ اُردو زبان میں لفظ ”فدیہ“ بھی استعمال ہوتا ہے۔ عبرانی زبان میں اِس کے لئے لفظ ”کوفر“ اور ”فدیون“ ہیں، جن کا مطلب ہے ”غلام کو چھڑانے کی قیمت، جان کا خون بہا، جان کا عوضانہ، ہرجانہ۔“ اِس کے علاوہ ”خلاصی“ اور ”مخلصی“ کے لفظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔]

دیکھئے پیدائش ٦: ١٤ (اندر اور باہر رال لگانا — رال سے ڈھانک دینا) اور احبار ٥: ١٨ (کفارہ — ڈھانکنا)۔ دونوں آیتوں میں عبرانی کا لفظ ”کفر“ استعمال ہوا ہے۔ اِس کی وضاحت اوپر نمبر ٢ میں ہو چکی ہے۔

عوضی

قربانی کے قانون کا اہم اُصول مختصراً ایک لفظ میں بیان ہو سکتا ہے— عوضی۔ ایک بے گناہ جانور ایک سزا یافتہ گنہگار کی جگہ ”عوضی“ کے طور پر مرے گا۔

مسایاح کی آمد سے پہلے کی پشتوں میں خدا نے آدم کی اولاد (نسل) کو بتا دیا تھا کہ مَیں پاک جانور مثلاً برہ، بھیڑ، بکری یا بچھڑے کا خون عارضی طور پر قبول کروں گا۔ کبوتر اور فاختہ بھی قربانی کے لئے چڑھاۓ جا سکتے تھے (احبار ٥: ٧)۔ کوئی شخص کتنا بھی دولت مند یا غریب ہو، کتنا بھی اچھا یا بُرا ہو، سب کو یہ مان کر خدا کے پاس آنا ہوتا تھا کہ مَیں گنہگار ہوں اور ایمان رکھتا ہوں کہ اِس بہاۓ گۓ خون کے وسیلے سے خدا مجھے معاف کرے گا۔

ضرور تھا کہ قربانی کا جانور بے عیب اور بے داغ ہو۔ شریعت میں پچاس سے زائد دفعہ کہا گیا ہے کہ قربانی کا جانور ”بے عیب“ ہو۔ مثلاً ”۔۔۔ اگر اُس کا چڑھاوا ریوڑ میں سے بھیڑ یا بکری کی سوختنی قربانی ہو تو وہ بے عیب نر کو لاۓ“ (احبار  ١: ١٠ )۔ جانور نہ تو بیمار ہو، نہ اُس کی ہڈی یا سینگ ٹوٹا ہوا ہو، بدن پر کوئی زخم یا خراش نہ ہو۔ اُس کا علامتی طور سے بالکل بے عیب ہونا ضروری تھا۔ قربانی چڑھانے والا گنہگار شخص ”جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اُس کی طرف سے مقبول ہو گا تاکہ اُس کے لئے کفارہ ہو۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ ذبح کرے“۔ اور اُس جانور کی چربی مذبح پر جلائی جاۓ۔

اور خدا نے کیا کہا کہ یہ قربانی کیا کام سر انجام دے گی؟

” ۔۔۔ تو اُسے معافی ملے گی۔۔۔“ (احبار ٤: ٢٣ ۔ ٢٦ )۔

قربانی کے جانور کے سر پر ہاتھ رکھنا علامت تھا کہ اُس شخص کا گناہ بے عیب جانور پر منتقل ہو گیا ہے۔ پھر وہ گناہ اُٹھانے والا گنہگار شخص کے عوض ہلاک ہوتا تھا۔

عوضی کے قانون کی بینیاد پر گناہ کو سزا ملتی تھی اور گنہگار کو معافی۔ گناہ کے لئے موت کی سزا خطاکار شخص کے بجاۓ بے گناہ ”کامل“ جانور پر منتقل ہو جاتی تھی۔

گناہ کی قربانی کا قانون گنہگاروں کو سکھاتا تھا کہ خدا پاک ہے اور ”بغیر خون (موت کی قیمت) بہاۓ معافی (گناہ کی سزا کی موقوفی) نہیں ہوتی۔“ (عبرانیوں ٩: ٢٢ )

جانور کی قربانی کے وسیلے سے خدا گناہ کے خلاف عدالت کرتا اور گنہگاروں پر رحم کرتا تھا جو اُس (خدا) پر توکل کرتے تھے۔ خدا نے اُن سب کو برکت دینے کا وعدہ کیا تھا جو اِس طریقے سے اُس کے پاس آتے تھے۔ جس روز خدا نے اپنے قدیم لوگوں کو دس حکم دیئے تھے اُسی دن اُنہیں بتا دیا تھا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ مَیں تمہیں قبول کروں تو اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اُس خون کی قربانی کی بنیاد پر میرے پاس آؤ جو مذبح پر  چڑھائی گئی ہے۔

” ۔۔۔ تُو مٹی کی ایک قربان گاہ میرے لئے بنایا کرنا اور اُس پر اپنی بھیڑ بکریوں اور گاۓ بیلوں کی سوختنی قربانیاں اور سلامتی کی قربانیاں چڑھانا اور جہاں جہاں مَیں اپنے نام کی یادگاری کراؤں گا وہاں مَیں تیرے پاس آ کر تجھے برکت دوں گا“ (خروج ٢٠ : ٢٤ )۔

گناہ کے بدلے خون کے انتظام کا بڑا مقصد یہ تھا کہ گناہ کے خلاف خدا کا راست غضب عملی طور پر دکھایا جاۓ اور یہ نظام اُس وقت تک رہے جب تک موعودہ منجی نہ آۓ۔

مسایاح کا مقصد یہ تھا کہ قربانی کے قاںون کے اصل معنی و مدعا کو پورا کرے۔

خدا کے نزدیک ایک انسانی جان ساری دنیا کے سارے جانوروں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ جانور خدا کی صورت پر پیدا نہیں کۓ گئے تھے۔ جانوروں کی جان ازلی و ابدی نہیں ہے۔ اِس وجہ سے جانوروں کا خون اُس کی صرف علامت ہو سکتا تھا جو انسان کے گناہ کے قرض کو منسوخ کرنے کے لئے ضروری تھا۔

ہابل کے ذبح کۓ ہوۓ برے کا واقعہ پہلا  واقعہ ہے جو قلم بند ہوا ہے۔ پرانے عہدنامے میں بیسیوں واقعات کا ذکر ہے جن میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان دار بے عیب اور بے داغ جانوروں کا خون لے کر خدا کے حضور میں آۓ، اُسے سجدہ کیا اور اُس کی پرستش کی۔ جانوروں کی قربانی کے واقعات میں ایک واقعہ سب سے نمایاں اور منفرد ہے۔

دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اُس کی یاد مناتے ہیں۔

۲۰
ایک عظیم قربانی

سارا خاندان جمع ہے۔ جانور کو قابو کر کے زمین پر رکھا ہوا ہے۔ خاندان کے بڑے چھوٹے سارے افراد اُس برہ، یا بکری پر یا باپ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ باپ کے ہاتھ میں چھری ہے۔

تیز دھار چھری تیزی سے چلتی ہے اور جانور کی جان (خون) چھلک چھلک کر ریت پر بہہ جاتی ہے۔

یہ قربانی ہو گئ — پھر اگلے سال ہو گی۔

عیدالاضحی' پر مسلمان بھائی بائبل مقدس کے اُس چار ہزار سال پرانے واقعہ کی یاد مناتے ہیں جب خدا نے ایک مینڈھا مہیا کیا جو ابرہام کے بیٹے کی جگہ قربان ہوا۔ قرآن شریف اِس معنی خیز واقعہ کا بیان اِن الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہے کہ ”اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اُس بچے کو چھڑا لیا“ (سورہ ٣٧ : ١٠٧ )۔

عیدالاضحی' مسلمانوں کا سب سے اہم مذہبی تہوار ہے۔ یہ اُس واقعہ کی یاد میں منایا جاتا ہے جب خدا نے ابرہام کو ایک مینڈھا مہیا کیا کہ اپنے بیٹے کے عوض قربان کرے۔ مسلمانوں کے عام اعتقاد کے مطابق وہ بیٹا اسماعیل تھا، حالانکہ قرآن شریف میں کہیں وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ اسماعیل ہی تھا، جبکہ بائبل مقدس صاف صاف بیان کرتی ہے کہ وہ اضحاق تھا۔ عید کے موقع پر ساری دنیا میں مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ اور حج کے مناسک میں آخری منسک (ضروری رُکن — فرض) قربانی ہے۔ زائرین عید کی نماز کے بعد کسی جانور (عموماً مینڈھا یا بکرا یا گاۓ بیل) کا خون بہا کر حج مکمل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کا ایمان ہے کہ اِن شعائر (مذہبی رسوم) کی ادائیگی ہمیں ایک طرح سے ”نئی زندگی“ عطا کرتی ہے۔ اور اگر ہم یہ شعائر بالکل صحیح طریقے سے ادا کریں تو ہمارے گناہ دُھل جاتے ہیں۔ البتہ مسلمان یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ یہ شعائر ہمیں بخشش کا یقین نہیں دلا سکتے کیونکہ ہم حج اور عید کی قربانی کے فوراً بعد اور گناہ سمیٹنے لگتے ہیں۔

بائبل مقدس کے تناظر کے لئے پڑھیں عبرانیوں باب ١٠  اور   یوحنا باب٣۔

ابرہام

ابرہام کا (پہلا) نام ابرام تھا، مگر ہم طوالت سے بچنے کے لئے تفصیل میں نہیں جاتے۔ اِس لئے آپ پڑھیں پیدائش ابواب ١١ سے ٢٥ ۔

ابرہام تقریباً ٢٠٠٠ ق م میں اُور (موجودہ عراق) کے ملک میں پیدا ہوا۔ آدم کی ساری نسل کی طرح ابرہام بھی گناہ کی سرشت کے ساتھ پیدا ہوا۔ اگرچہ اُس کی پرورش بے دین بت پرستوں کے درمیان ہوئی، لیکن وہ واحد حقیقی خدا پر ایمان رکھتا تھا۔ ابرہام کو اِس راۓ سے اتفاق نہیں تھا، جیسا کہ آج کل بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہو ہمیں اپنے آباو اجداد کے مذاہب پر قائم رہنا چاہئے۔

ہابل کی طرح ابرہام بھی قربانی کے جانوروں کا خون لے کر خداوند خدا کے حضور میں آتا اور اُسے سجدہ کرتا اور اُس کی عبادت کرتا تھا۔

ابرہام کی عمر پچھتر سال اور اُس کی بیوی کی عمر پینسٹھ  سال تھی جب خداوند اُس پر ظاہر ہوا

” اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو مَیں تجھے دکھاؤں گا۔ اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ سو تُو باعثِ برکت ہو اور جو تجھے مبارک کہیں گے اُن کو مَیں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے“ (پیدائش ١٢: ١۔ ٣ )۔

خدا نے ابرہام کو ایک ”بڑی قوم“ بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کے وسیلے سے وہ (خدا) زمین کے سارے قبیلوں — ساری قوموں کے لئے نجات مہیا کرے گا۔ یہ قوم ”بڑی“ ہو گی، لیکن تعداد میں نہیں بلکہ اہمیت میں بڑی ہو گی۔ اِس نئی قوم کو ایک حقیقت بنانے کی غرض سے خدا نے ابرہام اور اُس کی بانجھ بیوی کو حکم دیا کہ اپنا وطن چھوڑ کر اُس ملک میں چلے جائیں جس کے بارے میں اُس (خدا) نے وعدہ کیا کہ مَیں تیری (ابرہام) اولاد یا نسل کو دوں گا حالانکہ ابھی تک اُن کے کوئی اولاد نہ تھی۔

خدا کا وعدہ بظاہر ناممکن تھا۔ ابرہام نے اِس وعدے پر کیا ردِ عمل کیا؟ اُس نے خدا کا یقین کیا اور اُس کا حکم مانا اور اپنے باپ کے گھرانے کو چھوڑ کر ملکِ کنعان کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج کل یہ ملک فلسطین اور اسرائیل (دوحصے) کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

ابرہام کا ایمان

ابرہام کنعان میں پہنچ گیا تو خداوند نے اُس سے کہا ”یہی ملک مَیں تیری نسل کو دوں گا۔“ اور اُس نے وہاں خداوند کے لئے جو اُسے دکھائی دیا تھا ایک قربان گاہ بنائ (پیدائش ١٢ : ٦، ٧)۔

خدا کا وعدہ نہایت حیرت انگیز تھا۔ اُس وقت کنعان کے ملک میں بہت سی فرق فرق قوموں کے لوگ آباد تھے۔ ابرہام اور اُس کی اولاد اُس پر کیسے قبضہ کر سکتی تھی! طرہ یہ کہ ابرہام اور اُس کی بیوی کے کوئی اولاد نہ تھی۔

تصور کریں کہ بوڑھا جوڑا کسی دُور دراز ملک سے آپ کے ملک میں آیا ہے۔ آپ اُن سے کہتے ہیں ”ایک دن آپ اور آپ کی اولاد اِس ملک کی مالک ہو گی!“ بوڑھا مرد ہنس کر کہتا ہے ”خوب کہی! میرے تو اولاد ہی نہیں۔ مَیں بوڑھا ہوں۔ ایک تو میرا کوئی بچہ نہیں دوسرے میری بیوی بانجھ ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میری اولاد بہت بڑھے گی اور اِس ملک کی مالک ہو جاۓ گی۔ بھئی ہوش کے ناخن لو!“

خدا نے ابرہام سے ایسا ہی ہوش رُبا وعدہ کیا، مگر ابرہام کا ردِ عمل کیا تھا؟ بائبل مقدس کہتی  ہے ”اور وہ خداوند پر ایمان لایا اور اِسے اُس (خدا) نے اُس کے حق میں راست بازی شمار کیا“ (پیدائش ١٥ : ٦)۔ خدا کے وعدے پر بچوں جیسے ایمان کی وجہ سے خدا نے اُسے راست باز ٹھہرایا۔ مرنے کے بعد ابرہام ہمیشہ تک فردوس میں خداوند (خدا) کے ساتھ رہے گا۔

جس لفظ کا ترجمہ ”ایمان لایا“ کیا گیا ہے اصل عبرانی متن میں اُس کے لئے لفظ ”اَمن“ استعمال ہوا ہے جس سے لفظ ”آمین“ بنا ہے جس کا مطلب ہے ”ایسا ہی ہو“ یا ”یہ قابلِ اعتبار اور سچ ہے!“

اِس نکتے کو دھیان سے سمجھیں۔ خداوند (خدا) پر ایمان رکھنے کا مطلب ہے جو کچھ اُس نے کہا ہے وہ سننا اور اُس پر جان و دل سے ”آمین!“ کہنا۔ بچوں جیسا ایمان ہی ہے جو خدا کے ساتھ واصل ہو جاتا، خدا کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہم نے خدا کے کلام کو سچا مان لیا یا نہیں، اِس کا ثبوت ہمارے کاموں سے ہو گا۔ ابرہام کے ایمان کی تصدیق اِس حقیقت سے ہوئ کہ اُس نے مشکل راستہ چن لیا، اپنے با پ کے مذہب سے منہ موڑ لیا تاکہ خداوند (خدا) کی پیروی کرے۔

” ۔۔۔ ابرہام خدا پر ایمان لایا اور یہ اُس کے لئے راست بازی گنا گیا اور وہ خدا کا دوست کہلایا“ (یعقوب ٢: ٢٣ )۔

ابرہام خدا کا دوست تھا کیونکہ وہ خدا کے کلام پر ایمان لایا۔ تاہم اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ابرہام زندگی کے ہر شعبے میں خدا پر ایمان رکھتا تھا۔ خدا نے اُسے قانونی یا عدالتی طور پر کامل راست باز قرار دیا تھا، لیکن وہ  (ابرہام) اپنی روزمرہ زندگی میں کامل نہیں تھا۔ پاک کلام نبیوں کی کوتاہیوں اور گناہوں کی پردہ پوشی نہیں کرتا۔

اسماعیل

ابرہام اور سارہ کنعان کے ملک میں خانہ بدوشوں کی طرح رہتے تھے، خیموں میں سکونت رکھتے اور جگہ بہ جگہ گھومتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابرہام بہت مال دار ہو گیا۔ اُس کے پاس بہت سی بھیڑ بکریاں اور مویشی تھے۔

خدا نے اُسے بڑی قوم بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اِس وعدے کو دس سال ہو گئے تھے۔ اب ابرہام کی عمر چھیاسی سال اور اُس کی بیوی کی عمر چھہتر سال ہو گئی تھی اور اُن کے ہاں ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی۔ اُس کے بچہ نہیں تھا تو وہ بڑی قوم کیسے بن سکتا تھا! ابرہام اور اُس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ اُس کا وعدہ پورا کرنے میں ہم خدا کی ”مدد“ کرتے ہیں۔

بجاۓ انتظار کرنے کے کہ خدا اپنا منصوبہ اپنے وقت پر پورا کرے اُنہوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور مقامی ثقافت اور رواج کے مطابق اِقدام کیا۔ سارہ نے اپنی مصری لونڈی بنام ہاجرہ ابرہام کو دی تاکہ وہ اُس کے ساتھ ہم بستر ہو اور بچہ پیدا ہو۔ ہاجرہ سے ابرہام کے بیٹا پیدا ہوا۔ اُنہوں نے اُس کا نام اسماعیل رکھا۔

اِس کے تیرہ سال بعد جب ابرہام کی عمر ننانوے سال تھی قادرِ مطلق خدا اُس پر ظاہر ہوا اور اُس سے کہا کہ تیری بیوی سارہ کے بیٹا ہو گا۔

” تب ابرہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بُڈھے سے کوئی بچہ ہو گا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہو گی؟ اور ابرہام نے خدا سے کہا کہ کاش اسمعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے! تب خداوند نے فرمایا کہ بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام اضحاق رکھنا اور مَیں اُس سے اور پھر اُس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا۔ اور اسمعیل کے حق میں بھی مَیں نے تیری دعا سنی۔ دیکھ مَیں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھاؤں گا اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور مَیں اُسے بڑی قوم بناؤں گا۔ لیکن مَیں اپنا عہد اضحاق سے باندھوں گا جو اگلے سال اِسی وقتِ معین پر سارہ سے پیدا ہو گا“ (پیدائش ١٧ : ١٧ ۔ ٢١ )۔

اضحاق

خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ سارہ کے بڑھاپے میں ابرہام سے بیٹا پیدا ہوا۔ اُنہوں نے اُس کا نام اضحاق رکھا۔

” اور وہ لڑکا بڑھا اور اُس کا دودھ چھڑایا گیا اور اضحاق کے دودھ چھڑانے کے دن ابرہام نے بڑی ضیافت کی اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اُس کے ابرہام سے ہوا تھا ٹھٹھے مارتا ہے“ (پیدائش ٢١ : ٨، ٩ )۔

اسمعیل کو خدا کا منصوبہ پسند نہ آیا کہ وہ اضحاق سے ایک بڑی قوم پیدا کرے گا جس کے وسیلے سے خداوند (خدا) اپنی سچائی دنیا کو بتاۓ گا اور دنیا کے لئے نجات فراہم کرے گا۔ بلکہ اسمعیل اپنے سوتیلے بھائی کو ٹھٹھے مارتا تھا، اُس کا مذاق اُڑاتا تھا۔ تناؤ اِس حد تک بڑھ گیا کہ ابرہام کو مجبور ہو کر اسمعیل اور ہاجرہ کو گھر سے نکالنا پڑا۔ ابرہام کے لئے یہ بات تکلیف دہ تھی کیونکہ وہ اپنے بیٹے اسمعیل سےمحبت رکھتا تھا۔

لیکن ”خدا نے ابرہام سے کہا کہ تجھے اِس لڑکے (اسمعیل) اور اپنی لونڈی (ہاجرہ) کے باعث بُرا نہ لگے۔۔۔ کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔۔۔ اور خدا اُس لڑکے (اسمعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیر انداز بنا اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اُس کی ماں نے ملکِ مصر سے اُس کے لئے بیوی لی“ (پیدائش ٢١ : ١٢ ، ٢٠ ، ٢١ )۔

اور خداوند (خدا) کے وعدے کے مطابق ایک بڑی قوم کا باپ ہوا۔ خدا نے اُس قوم کو کئ طرح سے بڑی برکت بخشی۔ مگر خدا نے ابرہام پر واضح کر دیا کہ مَیں دنیا کے لئے نجات مہیا کرنے کا اپنا وعدہ ”اضحاق کے وسیلہ“ سے پورا کروں گا۔

اسرائیل

وقت آنے پر اضحاق نے شادی کی اور اُس کے جڑواں بیٹے ہوۓ — عیسو اور یعقوب۔ اور ایک موقعے پر خدا نے یعقوب کا نیا نام رکھا اور اُس سے کہا

” ۔۔۔ تیرا نام اسرائیل ہو گا“ (پیدائش ٣٥ : ١٠ )۔ یعقوب کے بارہ بیٹے ہوۓ جو اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے آبا و اجداد ہیں۔ موسی' کے زمانے میں خدا نے اِن قبیلوں کو منظم کر کے ایک قوم بنا دیا۔ خداوند (خدا) نے ابرہام کی اولاد، اضحاق اور یعقوب کو ”مقدس قوم، خاص اُمت، چنی ہوئی قوم“ کہا(استثنا ٧: ٦، ٧ ؛ ١٤ :٢ )۔

            خدا نے اُن کو کیوں چن لیا؟ کیا وہ دوسری قوموں سے بہتر تھے؟ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا نے اسرائیلیوں کو بتا دیا کہ ”تم سب قوموں سے شمار میں کم تھے“ (استثنا ٧:٧ )۔

خدا نے اُن کمزور اور حقیر عبرانی لوگوں کو اِس لئے چن لیا تاکہ جو کام پورا کرنے کا خدا نے انتظام کیا تھا اُس کے لئے  کوئی انسان، کوئی آدمی نہ کہہ سکے کہ مَیں نے کیا ہے اور اپنی تعریفیں کرے۔

خدا اِسی طرح کرنا پسند کرتا ہے۔

” ۔۔۔ خدا نے دنیا کے کمزوروں کو چن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے، اور خدا نے دنیا کے کمینوں اور حقیروں کو بلکہ بے وجودوں کو چن لیا کہ موجودوں کو نیست کرے تاکہ کوئی بشر خدا کے سامنے فخر نہ کرے۔“ (١۔کرنتھیوں ١: ٢٧ ، ٢٨ )

ابلاغ کا ذریعہ

خدا نے اس نئی قوم کو ایک ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے بڑھایا جس کے ذریعے سے وہ اپنا پیغام زمین کی انتہا تک پہنچانا چاہتا تھا۔ خدا نے یہ ذریعہ ابلاغ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے زمانے سے بہت پہلے تیار کیا تھا، لیکن وہ اِن دونوں سے کسی طرح کم موثر نہیں ہے۔ واحد حقیقی خدا نے اِس قوم میں جو بڑے بڑے قادر کام کۓ ہیں وہ ساری دنیا میں سنے جائیں گے اور مشہور ہوں گے۔ مثال کے طور پر بائبل مقدس میں ایک کنعانی عورت کی یہ گواہی قلم بند ہوئ ہے کہ ”۔۔۔ ہم نے سن لیا ہے کہ جب تم مصر سے نکلے تو خداوند نے تمہارے آگے بحرِ قلزم کے پانی کو سکھا دیا ۔۔۔ خداوند تمہارا خدا ہی اوپر آسمان کا اور نیچے زمین کا خدا ہے“ (یشوع ٢: ١٠، ١١ )۔

مزید برآں یہ کہ خدا اِسی قوم سے انبیا برپا کرے گا جو پاک صحائف لکھیں گے ۔

سب سے اہم بات یہ کہ اِسی قوم کے وسیلے سے خدا ایک ”خلف“ (نیک لڑکا) مہیا کرے گا جو خود ساری دنیا کے لئے باعثِ برکت ہو گا۔ جیسا کہ ہم باب ١٦ میں دیکھ چکے ہیں یہ خلف وہی عورت کی نسل ہے جو آسمان سے اُتر آیا اور ایک غریب یہودی کنواری لڑکی سے پیدا ہوا۔

ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، پسند کریں یا نہ کریں یہ قدیم قوم وہ ذریعہ ابلاغ تھی جسے خدا نے قائم کیا کہ اُس (خدا) کی سچائی اور ابدی برکات کو زمین کی ساری قوموں تک پہنچاۓ اور اِس سارے انتظام (منصوبہ) کا آغاز اِسی سے ہوا کہ خدا نے ابرہام کو حکم دیا کہ اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر ملکِ کنعان میں چلا جاۓ۔

خدا نے ابرہام سے جو عظیم عہدباندھا اُس کے دو حصے ہیں:

١۔ ”مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا۔۔۔“

٢۔ ”زمین کے سب قبیلے (ساری قومیں) تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔“

خدا کی محبت کسی ایک خاص گروہ تک محدود نہیں۔ وہ صرف ابرہام یا اسرائیل کو برکت نہیں دیںا چاہتا تھا۔ اُس کا رحم اور ترس بھرا دل ”زمین کے سب قبیلوں“ — دنیا کی ساری قوموں کا ”بے حد مشتاق“ ہے، اُن کے لۓ شدید آرزو رکھتا ہے۔ پرانا عہدنامہ ایسے واقعات سے بھرا ہوا ہے جب خدا نے اِس چھوٹی اور سرکش قوم اسرائیل کو استعمال کیا تاکہ دنیا کی ساری قوموں اور اہلِ لغت (مختلف زبانیں بولنے والوں) کو برکت دے۔ کئ دفعہ دشمنوں نے کوشش کی کہ اِس حقیر کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاۓ۔ لیکن بائبل مقدس بتاتی ہے کہ خدا اِسے بچا لیتا تھا۔ بائبل مقدس میں جب بھی ایسا واقعہ پڑھیں تو ذہن میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ خدا کا مقصد یہ تھا کہ ساری قومیں اِس کے وسیلے سے برکت پائیں۔ خدا اُن کا دفاع اور حفاظت اِس لئے نہیں کرتا (تھا) کہ وہ دوسری قوموں سے بہتر تھے بلکہ اِس لئے کہ یہ قوم وہ ذریعہ تھی جس کے وسیلے سے وہ اپنی قدرت اور جلال دکھانا اور دنیا کو نجات دینا چاہتا تھا۔ ابرہام کی نسل اضحاق اور یعقوب کو بچانے میں خدا ”زمین کے سب قبیلوں“ کے لئے اپنی برکات کو بچاتا تھا۔

ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں کہ کس طرح خدا نے اسرائیلی قوم کو استعمال کر کے غیر یہودی لوگوں کو برکت دی: — یوسف نے لاکھوں مصریوں کی جانیں بچائیں (پیدائش ابواب ٣٧ ۔ ٥٠ )۔ ابرہام کی نسل سے ایک بیٹی نعومی دو موآبی عورتوں عرفہ اور رُوت کے لئے باعث برکت بنی — (روت کی کتاب)۔ ایلیاہ نبی ایک صیدانی عورت کے لئے باعثِ برکت ہوا (١۔سلاطین باب ١٧ ؛ لوقا ٤: ٢٦ )۔ اگرچہ وہ چاہتا نہیں تھا تو بھی یوناہ نے نینوہ کے لوگوں کو نجات کا پیغام پہنچایا (یوناہ کی کتاب)۔ سلیمان بادشاہ عرب کی ملکہ سبا کے لئے برکت کا باعث ہوا (١۔سلاطین باب ١٠ ؛ لوقا ١١: ٣١ )۔ دانی ایل کے وسیلے سے بابل کے لوگوں کو برکت ملی (دانی ایل ابواب ١ ۔ ٦ )۔ آستر اور مردکی سلطنتِ فارس کے لئے باعثِ برکت ہوۓ (آستر کی کتاب)۔

خداوند خدا اسرائیلیوں کو اِس لئے بھی بچاتا تھا کہ اُس کی اپنی شہرت داؤ پر لگی ہوئ تھی۔ اُس نے اپنے بزرگ نام کی قسم کھائی تھی کہ اِس کمزور اور حقیر قوم کے وسیلے سے ساری قوموں کو برکت دے گا (پیدائش ١٢: ٢، ٣؛ ٢٢: ١٦ ۔ ١٩ ؛ عبرانیوں ٦: ١٣ ۔ ١٨ ؛ یوحنا ٤: ٢٢ ؛ اعمال ابواب ١۔ ١٠ )۔

خدا اپنے نام کی عزت کی خاطر بالکل وہی کرتا ہے جو کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر ہماری یا ہمارے خاندان کی نیک نامی کو خطرہ ہو تو کیا ہم بھی ایسا نہیں کریں گے؟

خدا ابرہام کو آزماتا ہے۔

آئیے، ابرہام کی زبردست قربانی کے بیان کی طرف چلیں۔

پس منظر یوں ہے — ابرہام بہت بوڑھا تھا — اسمعیل کو بہت برس پہلے گھر سے نکال دیا گیا تھا — اب صرف ابرہام کا بیٹا گھر پر تھا۔

خدا ابرہام کو انتہائ حد تک آزمانے کو تھا۔ اور خدا دنیا کے سامنے کچھ مثالیں یا نمونے اور پیش گوئیاں بھی رکھنے کو تھا کہ آدم کی نسل کو گناہ کے باعث موت کی سزا سے بچانے کے لۓ اُس کا اپنا کیا منصوبہ اور انتظام ہے۔

” اِن باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمایا اور اُس سے کہا اے ابرہام! اُس نے کہا مَیں حاضر ہوں۔ تب اُس نے کہا تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو مَیں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا“ (پیدائش ٢٢ : ١، ٢ )۔

خدا نے ابرہام کو ایک خاص سلسلہ کوہ کو جانے کو کہا اور حکم دیا کہ وہاں تُو اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کر کے قربان گاہ پر جلا دے۔ کیسی ہولناک فرمائش تھی! خدا نے اِس سے پہلے کسی انسان کو ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا اور نہ اِس کے بعد کبھی کہے گا۔ لیکن — چونکہ آدم کی ساری نسل کی طرح اضحاق پر بھی گناہ قرض تھا، اِس لئے جو حکم تھا وہ مبنی برانصاف حکم تھا — موت۔

” چنانچہ ابرہام صبح سویرے اُٹھ کر اپنے گدھے پر چارجامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جواںوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کے لئے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اُس جگہ کو جو خدا نے اُسے بتائی تھی رواںہ ہوا“(پیدائش ٢٢: ٣ )۔

ابرہام خدا پر ایمان رکھتا تھا۔ اُسے خدا کی بات کا یقین تھا، لیکن ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔ ابرہام، اُس کا بیٹا اور دو جوان تین دن تک یہ اذیت ناک سفر کرتے رہے۔ ہر قدم اُنہیں حکم پر عمل درآمد کی جگہ — مقتل — کے قریب سے قریب تر لا رہا تھا۔

” تیسرے دن ابرہام نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دُور سے دیکھا۔ تب ابرہام نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔ مَیں اور یہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے“ (پیدائش ٢٢: ٤، ٥ )۔

ابرہام نے اپنے ںوکروں سے کہا ”ہم تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔“

اگر اضحاق کو ذبح کر کے قربان گاہ پر جلا دینا تھا تو ابرہام اور اُس کا بیٹا دونوں کیسے ”لوٹ آئیں گے“؟ پاک کلام نے ایک دوسری جگہ اِس کا جواب دیا ہے۔ چونکہ خدا نے اضحاق کو ایک بڑی قوم بنانے کا وعدہ کیا تھا اِس لئے ابرہام کا ایمان تھا کہ جب مَیں اپنے بیٹے کو قربان کر دوں گا تو خدا اُسے پھر زندہ کر دے گا۔

” ایمان ہی سے ابرہام نے آزمائش کے وقت اضحاق کو نذر گزرانا اور جس نے وعدوں کو سچ مان لیا تھا وہ اُس اکلوتے کو نذر کرنے لگا جس کی بابت کہا گیا تھا کہ اضحاق ہی سے تیری نسل کہلاۓ گی کیونکہ وہ سمجھا کہ خدا مُردوں میں سے جلانے پر بھی قادر ہے۔ چنانچہ اُن ہی میں سے تمثیل کے طور پر وہ اُسے پھر ملا“ (عبرانیوں ١١: ١٧ ۔ ١٩ )۔

ابرہام نے سیکھ لیا تھا کہ خداوند خدا ہمیشہ اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔

خدا عوضی مہیا کرتا ہے۔

” اور ابرہام نے سوختنی قربان کی لکڑیاں لے کر اپنے بیٹے اضحاق پر رکھیں اور چھری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوۓ۔ “ (پیدائش ٢٢: ۶)۔

تب اضحاق نے اپنے باپ ابرہام سے کہا۔

” اے باپ! اُس نے جواب دیا کہ اے میرے بیٹے مَیں حاضر ہوں۔ اُس نے کہا دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کے لئے برہ کہاں ہے؟ ابرہام نے کہا اے میری بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لے گا۔ سو وہ دونوں آگے چلتے گۓ اور اُس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائ تھی۔ وہاں ابرہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ اور ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ تب خداوند کے فرشتے نے اُسے آسمان پر سے پکارا کہ اے ابرہام، اے ابرہام۔ اُس نے کہا مَیں حاضر ہوں۔ پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کر کیونکہ مَیں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے اِس لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ اور ابرہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے“ (پیدائش ٢٢: ٧۔ ١٣ )۔

خداوند خدا نے مداخلت کی۔ ابرہام کا بیٹا موت کی سزا سے بچ گیا!

ابرہام پیچھے مڑا اور اُسی پہاڑ پر ذرا دُور اُن جھاڑیوں میں حرکت ہوتی دیکھی۔ یہ کیا ہے؟ کیا ایسا ہے؟ — ہاں! خدا کی حمد ہو! خدایا تُو مبارک ہے! ایک ”بے عیب“ مینڈھا — ”جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ “

خدا نے اپنے ”قربانی کے قانون“ کے مطابق عوضی مہیا کر دیا۔

” تب ابرہام نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا“ (پیدائش ٢٢: ١٣ )۔

ابرہام کا بیٹا موت کی سزا سے جو اُس کے سر پر لٹک رہی تھی کیوں بچ گیا؟ اِس لئے کہ ”اُس کے بیٹے کے بدلے“ مینڈھا مر گیا تھا۔

خدا نے عوضی مہیا کر دیا تھا۔

خداوند مہیا کرے گا

”اور ابرہام نے اُس مقام کا نام 'یہوواہ یری' (خداوند مہیا کرے گا) رکھا چنانچہ آج تک یہ کہاوت ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا جاۓ گا“ (پیدائش ٢٢: ١٤ )۔

ابرہام نے اپنے بیٹے کے بدلے وہ مینڈھا ذبح کرنے کے بعد اُس جگہ کا نام ”خداوند مہیا کرے گا“ کیوں رکھا ”خداوند نے مہیا کیا ہے“ کیوں نہ رکھا؟

”خداوند (خدا) مہیا کرے گا“ کہنے سے ابرہام نبی مستقبل میں ہونے والے واقعہ کی خبر دے رہا تھا جو تقریباً دو ہزار سال بعد ہونا تھا، کیونکہ اُسی پہاڑ پر (جہاں بعد میں یروشلیم بسایا گیا) خداوند خدا ایک اَور قربانی مہیا کرے گا — صرف ایک آدمی کو موت سے چھڑانے کے لئے نہیں — بلکہ ساری دنیا کے لئے ایک کامل اور قطعی اور آخری فدیہ ہونے کے لئے۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ جب ابرہام اور اُس کا بیٹا اضحاق اُس پہاڑ پر چڑھ رہے تھے جہاں قربانی چڑھائی جانی تھی تو ابرہام نے اضحاق سے کیا کہا تھا؟

”اے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لے گا“۔

 ابرہام کیا بات کر رہا تھا؟ کس کے بارے میں کہہ رہا تھا؟ کیا خدا نے ابرہام کے بیٹے کے بدلے مرنے کو برہ مہیا کر دیا تھا؟ نہیں۔ اُس نے برہ مہیا نہیں کیا تھا۔ خدا نے ایک مینڈھا مہیا کیا تھا۔ تو جب ابرہام نبی نے کہا کہ خدا اپنے لئے ”برہ مہیا کر لے گا“ تو اِس کا کیا مطلب تھا؟

حیرت انگیز جواب سامنے آۓ گا۔ لیکن  پہلے چند اَور اہم باتیں پیش کرنا ضروری ہے۔

۲۱
اَور بھی خون بہایا گیا
 

ہمیں دیانت داری سے مان لینا چاہۓ کہ

جب روحانی سچائی کی بات ہوتی ہے تو ہم سیکھنے میں سُستی کرتے ہیں، جلدی نہیں سیکھتے۔ خدا اِس بات کو جانتا ہے۔

” وقت کے خیال سے تو تمہیں اُستاد ہونا چاہۓ تھا۔ مگر اِس بات کی حاجت ہے کہ کوئی شخص خدا کے کلام کے ابتدائی اصول تمہیں پھر سکھائے اور سخت غذا کی جگہ تمہیں دودھ پینے کی حاجت پڑ گئی“ (عبرانیوں ٥: ١٢ )۔

اوہو!

خدا کی رحمت ہے کہ خدا نہایت ہی صابر اُستاد ہے۔ وہ اُن سچائیوں کو بار بار بیان کرتا اور دہراتا ہے جو ہمیں بہت پہلے سیکھ لینی چاہۓ تھیں۔ ہماری مدد کرنے کی خاطر خدا نے اپنی کتاب میں سینکڑوں واقعات اور تمثیلیں شامل کی ہیں جو نہایت اہم سچائیوں کی وضاحت کرتی ہیں۔

” بغیر خون بہاۓ معافی نہیں ہوتی“ (عبرانیوں ٩: ٢٢ )۔

ہمارے کامل پاک خالق کے لئے معافی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ جس روز گناہ دنیا میں آیا اُسی دن سے خدا گنہگاروں کو سکھانے لگا کہ صرف مناسب قربانی کا خون ہی گناہ کا فدیہ (کفارہ، ڈھانپنے کی چیز) ہو سکتا ہے۔ یہی طریقہ ہے جس سے عادل منصف خدا گنہگار کو سزا دیئے بغیر گناہ  کو (کی) سزا دے سکتا ہے۔

آدم اور حوا نے اپنا گناہ چھپانے کے لئے خود کوششیں کیں مگر خدا نے اُن کی اپنی کوششوں کو رد کر دیا، منظور نہ کیا۔ سواۓ موت سے ادائیگی کے خدا گناہ معاف نہیں کر سکتا۔ قائن اور ہابل کا واقعہ ہمیں یہی سبق سکھاتا ہے اور اِسی طرح ابرہام اور اضحاق کا واقعہ بھی۔

پرانے عہدنامے میں پیدائش کی کتاب کے بعد جو کتابیں ہیں مثلاً خروج اور احبار، اِن میں بھی اُن انسانوں (مردوں اور عورتوں) کے بہت سے واقعات کا بیان ہے جنہوں نے قربانی کے قانون کو مانا اور اُس پر عمل کیا۔

پرانے عہدنامے میں ایسے واقعات کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ چار لفظ — خون، قربانی، نذر اور قربان گاہ یا مذبح — بائبل مقدس میں ١٤٠٠ سے زیادہ مرتبہ آۓ ہیں۔

” مَیں ۔۔۔ چھوڑتا جاؤں گا۔“

خروج کی کتاب یہ جاذبِ توجہ کہانی بیان کرتی ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق خدا نے ابرہام کی اولاد کو منظم کر کے ایک قوم بنایا۔

اُن کے قوم بننے سے پہلے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کے بارے میں خدا نے ابرہام کو پہلے سے بتا دیا تھا۔

” ۔۔۔ اور اُس نے ابرہام سے کہا یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک اُن کو دکھ دیں گے، لیکن مَیں اُس قوم کی عدالت کروں گا جس کی وہ غلامی کریں گے اور بعد میں وہ بڑی دولت لے کر وہاں سے نکل آئیں گے“ (پیدائش ١٥ : ١٣، ١٤ )۔

خدا کے اِس وعدے کے پورا ہونے کا بیان خروج ١:١ ۔ ١٢ ؛ ١٢ : ٣٥ ۔ ٤١ میں درج ہے۔ ہمارے قادرِ مطلق خدا کے منصوبے ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔

واقعات کے ایک طویل سلسلے کے بعد ابرہام کی نسل کے لوگ مصر کے فراعنہ (واحد، فرعون) کے غلام بن گئے۔ اپنے مقررہ وقت پر خدا نے اُنہیں اِس غلامی سے چھڑانے کا وعدہ کیا۔ اُن کی رہائی کے عمل میں خدا نے دنیا کو اپنے اُس منصوبے کی ” تصویریں“ دکھائیں جو اُس نے بنی آدم کو گناہ کی غلامی سے چھڑانے کے لئے بنایا تھا۔

یہ فسح کا واقعہ ہے۔

تقریباً ١٤٩٠ ق م میں خداوند خدا نے موسی' کے وسیلہ سے مصر کے ملک پر دس تعجب خیز اور دہشت ناک آفتیں نازل کیں۔ مصری بہت سے غیر معبودوں (جھوٹے خداؤں) کو مانتے تھے۔ پہلی نو آفتوں میں خدا نے اُن کے جھوٹے معبودوں کو چیلنج کیا اور اُنہیں شکست دی۔ لیکن اِس کے باوجود فرعون نے خدا کی اطاعت نہ کی، اُس کی بات نہ مانی اور اسرائیلیوں کو اپنے ملک سے جانے نہ دیا۔ تب خدا نے موسی' سے کہا کہ لوگوں کو بتا دے کہ مصریوں اور اسرائیلیوں کے سارے پہلوٹھوں پر سزاۓ موت کا حکم ہو چکا ہے۔ مقررہ تاریخ کی آدھی رات کو موت کا فرشتہ ملک میں سے گزرے گا اور ہر ایک گھر میں پہلوٹھے کو ہلاک کرے گا (پیدائش ابواب ٥ ۔ ١١)۔

یہ خبر تو بہت بُری تھی۔

لیکن ایک اچھی خبر بھی تھی۔ خدا نے موت کی اِس آفت سے بچ نکلنے کی راہ بھی مہیا کی تھی۔ خدا نے موسی' سے کہا کہ ہر ایک خاندان کو کہہ دے کہ

” ہر شخص اپنے آبائی خاندان کے مطابق گھر پیچھے ایک برہ لے۔۔۔ یہ برہ بے عیب اور یک سالہ نر ہو اور ایسا بچہ تم بھیڑوں میں سے چن کر لینا یا بکریوں میں سے“ (خروج ١٢ : ٣۔ ٥)۔ مزید حکم تھا کہ مقررہ پر یہ برّہ وقت پر یہ برّہ ذبح کریں اور اُس کا خون ہر گھر کے دروازہ کی اُوپر کی چوکھٹ اور دونوں بازوؤں پر لگا دیں۔ جو لوگ یہ خون دروازوں کی چوکھٹوں پر لگائیں گے اور گھروں کے اندر رہیں گے تو جب موت کی آفت آۓ گی اور موت کا فرشتہ ملک میں سے گزرے گا تو وہ سب زندہ بچے رہیں گے۔

خداوند خدا نے وعدہ کیا

” مَیں اُس خون کو دیکھ کر تم کو چھوڑتا جاؤں گا۔۔۔ وبا تمہارے پاس پھٹکنے کی بھی نہیں کہ تم کو ہلاک کرے“ (خروج ١٢ : ١٣ )۔

سب کچھ خدا کے کہے کے مطابق ہوا۔ اُس رات خدا نے وہ سارے پہلوٹھے محفوظ رکھے جو خون کے نیچے تھے۔ باقی سب ہلاک ہو گۓ۔ مصریوں کا ” ایک بھی ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئ نہ مرا ہو“ (خروج ١٢ : ٣٠ ب)۔ ہر گھرانے نے موت دیکھی۔

جی ہاں، ہر ایک گھرانے میں یا کوئی برہ مرا یا پہلوٹھا۔

جنہوں نے چوکھٹوں پر خون لگایا تھا اُس رات وہ ظلم و جبر اور غلامی کی زندگی سے نکل کر چلے گۓ۔ وہ ایک آزاد قوم بن کر نکلے جن کا فدیہ دیا گیا تھا۔

اُن کی مخلصی اور فدیہ کی قیمت کیا تھی؟

برہ کا خون!

ایک دفعہ پھر قربانی کے قانون نے گناہ اور موت کے قانون کو مات دے دی۔ آئندہ سالوں میں یہودی قوم اِس واقعہ کی یاد ” فسح“ کے نام سے منایا کرے گی۔ یہ سالانہ عید ہو گی جس میں وہ یاد کیا کریں گے کہ خدا نے برہ کے خون کے وسیلے سے ہمیں بڑی رہائی دلائی۔

خدا اپنے لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔

پہلی فسح کے وقت خدا اسرائیلیوں کو مصر کی چار سو سالہ غلامی سے نکال کر بیابان میں لے آیا۔ خدا کا ارادہ اور منصوبہ تھا کہ وہ اُنہیں اُس ملک میں واپس لاۓ جس کا وعدہ اُس نے ابرہام، اضحاق، یعقوب اور اُن کی اولاد سے کیا تھا۔ اُن کے سفر میں خدا ایک دیدنی اور اطمینان بخش طریقے سے اُن کے ساتھ رہتا تھا۔

” خداوند اُن کو دن کو راستہ دکھانے کے لئے بادل کے ستون میں اور رات کو روشنی دینے کے لئے آگ کے ستون میں ہو کر اُن کے آگے آگے چلا کرتا تھا تاکہ وہ دن اور رات دونوں میں چل سکیں“ (خروج ١٣: ٢١)۔

خدا اُنہیں نہ صرف ریگستان میں چلاتا اور روشنی مہیا کرتا تھا بلکہ اُس نے اپنے زور آور بازو (قدرت) سے اُن کے لئے بحرِ قلزم میں سے راستہ کھول دیا، اور اُنہیں فرعون کے لشکر سے بچایا جو اُن کا پیچھا کرتے ہوۓ قریب آ پہنچا تھا۔ اور پھر موسی' کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق وہ اُنہیں کوہِ سینا کے پاس لے آیا۔

اِن واقعات سے کچھ عرصہ پہلے خدا نے سینا کے بیابان میں ایک جلتی ہوئی جھاڑی میں ہو کر موسی' سے وعدہ کیا تھا کہ ” مَیں ضرور تیرے ساتھ رہوں گا اور اِس کا کہ مَیں نے تجھے بھیجا ہے تیرے لئے یہ نشان ہو گا کہ جب تُو اُن لوگوں کو مصر سے نکال لاۓ گا تو تم اِس پہاڑ پر خدا کی عبادت کرو گے“ (خروج ٣: ١٢ )۔

بارہ لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل یہ قوم ایک سال تک اُس پہاڑ کے دامن میں ڈیرے ڈالے رہی۔ ایسے خشک اور بے آب و گیاہ ریگستان میں وہ کیسے گزر بسر کرتے اور زندہ رہ سکتے تھے؟ خدا اپنی شفقت اور فضل سے اُنہیں آسمان سے روٹی اور چٹان سے پانی مہیا کرتا رہا (خروج ابواب ١٣ ۔ ١٧ )۔ ” اُس نے چٹان کو چیرا اور پانی پھوٹ نکلا اور خشک زمین پر ندی کی طرح بہنے لگا“ (زبور ١٠٥ :٤١ )۔

اگرچہ اسرائیلی بار بار ناشکرے پن کا اظہار کرتے تھے، خداوند پر توکل اور بھروسا نہیں رکھتے تھے اور نافرمانی کرتے تھے، لیکن اُنہیں غلامی سے چھڑا لانے والا خداوند خدا ہمیشہ وفادار رہا۔ وہ اُس کے خلاف گناہ کرتے تو وہ اُنہیں سزا دیتا تھا اور جب اُس پر بھروسا اور ایمان رکھتے تو اُنہیں برکت دیتا تھا۔ خداوند خدا اپنی چنی ہوئی قوم سے یہ سلوک اِس لئے کرتا تھا تاکہ اِرد گرد کی قومیں دیکھیں اور اُس کے رہائی اور مخلصی دینے کے طریقے کو سمجھیں۔ خدا یہ بھی چاہتا تھا کہ لوگ سمجھ لیں کہ مجھے شخصی طور سے جان سکتے ہیں۔

بنی اسرائیل کو دس حکم اور دوسرے آئین و قوانین دینے کے بعد خداوند خدا نے اُنہیں ایک بے مثال مقدِس بنانے کا حکم دیا جسے مقدس مسکن یا ” خیمہ اجتماع“ کہتے تھے۔

خیمہ اجتماع

” ۔۔۔ وہ میرے لئے ایک مقدِس بنائیں تاکہ مَیں اُن کے درمیان سکونت کروں۔ اور مسکن اور اُس کے سارے سامان کا جو نمونہ مَیں تجھے دکھاؤں ٹھیک اُسی کے مطابق تم اُسے بنانا“ (خروج ٢٥ : ٨، ٩ )۔

خدا کی اِس قدیم قوم کو یہ خاص خیمہ کس مقصد سے بنانا تھا؟ اور کیوں ضروری تھا کہ وہ ” ٹھیک اُسی نمونہ کے مطابق“ بنایا جاۓ جو خدا اُنہیں دکھاۓ؟

خدا کا ارادہ اور منصوبہ تھا کہ اِس خیمے کے ذریعے اُنہیں خاص دیدنی طریقے سے سکھاۓ کہ مَیں کیسا ہوں اور مجھ تک کیسے رسائ حاصل کی جا سکتی ہے۔

بائبل مقدس میں اِس خیمے اور اِس کے سارے سازو سامان کے بارے میں پچاس باب ہیں۔ یہاں اُن ساری چیزوں کی وضاحت کرنا ممکن نہیں۔ اِس لئے ہم صرف چند بنیادی عناصر کی وضاحت کرتے ہیں۔

ایک راستہ

خدا نے خیمہ اجتماع کا نقشہ دے کر دنیا کو سکھایا کہ اگرچہ مَیں نہایت پاک ہوں تو بھی انسانوں کے ساتھ سکونت رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن خدا اور انسان کے درمیان ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے، ایک دیوار حائل ہے۔

وہ رکاوٹ، وہ دیوار گناہ ہے۔

خیمہ اجتماع جو انسانوں کے درمیان خدا کی حضوری کی علامت تھا اُس کے چاروں طرف ایک وسیع مستطیل صحن تھا۔ اُس صحن کی چاردیواری پیتل کے ستونوں اور نفیس کتانی کپڑے سے بنی ہوئ تھی۔ یہ اڑھائی میٹر (تقریباً ٨ فٹ) اونچی تھی۔ اتنی اونچی کہ کوئی شخص اُس کے اوپر سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ لوگ سمجھ لیں کہ تم میری حضوری سے خارج ہو اور اندر  نہیں آ سکتے۔ یہ بُری خبر تھی۔

اچھی خبر یہ تھی کہ خدا نے ایک راستہ مہیا کر دیا تھا جس سے گنہگار اُس کے نزدیک آ سکتے تھے۔ اُس دیوار میں ایک دروازہ تھا جو آسمانی، قرمزی اور سرخ رنگ کے دھاگوں کا بنا ہوا تھا۔ گنہگاروں کے لئے خدا تک رسائ کرنے، خدا کے پاس آنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ برہ یا کوئی اَور خون کی قربانی لے کر اُس دروازہ سے داخل ہوں (خروج ٢٨ : ١٩ ۔ ٢٩ )۔

بعد کے زمانے میں جب مسیحِ موعود اِس دنیا میں تھا تو اُس نے فرمایا ” دروازہ مَیں ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پاۓ گا۔۔۔“ (یوحنا ١٠ : ٩ )۔ خیمہ اجتماع کا ایک ایک جزو اُس کی ذات اور کام کی طرف اشارہ کرتا تھا۔

خداوند خدا نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ کیکر کی لکڑی کی ایک بڑی قربان گاہ بنائیں اور اُسے پیتل سے منڈھیں۔ اِس مذبح کو خیمہ اجتماع اور دروازہ کے درمیان رکھیں۔ جو کوئی خطا کی قربانی کا جانور لاۓ وہ اُس بے عیب جانور کے سر پر ہاتھ رکھ کر اقرار کرے کہ مَیں بے بس گنہگار ہوں۔ پھر وہ جانور ذبح کر کے مذبح پر جلایا جاۓ۔ ایک دفعہ پھر خدا لوگوں کو بتا رہا تھا کہ گناہ اور موت کے قانون کو صرف قربانی کے قانون سے مات دی جا سکتی ہے۔

” اور وہ اپنا ہاتھ اپنے چڑھاوے کے جانور پر رکھے اور خیمہ اجتماع کے دروازہ  پر اُسے ذبح کرے اور ہارون کے بیٹے جو کاہن ہیں اُس کے خون کو مذبح پر گردا گرد چھڑکیں۔۔۔  اور ہارون کے بیٹے اُنہیں مذبح پر سوختنی قربانی کے اوپر جلائیں۔۔۔“ (احبار ٣: ٢، ٥ )۔

خدا کا قانون بالکل واضح تھا۔ خون بہاۓ بغیر گناہ کا کفارہ نہیں ہو سکتا۔ گناہ کے کفارہ کے بغیر خدا کے ساتھ میل ملاپ نہیں ہو سکتا۔

خدا نے موسی' کو یہ حکم بھی دیا کہ ایک بے مثال صندوق بھی بناۓ اور سونے سے منڈھے۔ اُس کو ” عہد کا صندوق“ یا ” شہادت کا صندوق“ کہتے تھے (خداوند کا صندوق اور یہوواہ کا صندوق بھی کہا گیا ہے، دیکھئے یشوع ٤: ١١ ؛ ١۔سلاطین ٢: ١٦ )۔ یہ آسمان پر خدا کے تخت کی علامت تھا۔ پتھر کی لوحیں جن پر خدا نے دس حکم کندہ کئے تھے وہ اِس صندوق میں رکھی رہتی تھیں۔ اِن کے علاوہ ہارون کا عصا اور من سے بھرا ہوا سونے کا مرتبان بھی تھے۔ اِس کا ڈھکن خالص سونے کا اور ٹھوس تھا۔ اِسے ” سرپوش“ بھی کہا گیا ہے۔ اِس کے اوپر خالص سونے کے دو کروبی سایہ کۓ ہوۓ تھے۔ کروبی (جمع کروبیم) جلالی فرشتے ہیں جو آسمان پر خدا کے تخت کے چاروں طرف کھڑے رہتے ہیں۔ خدا نے موسی' کو حکم دیا کہ عہد کا صندوق خیمہ اجتماع کے بالکل اندرونی مقام پر رکھ دے۔

پاک ترین مقام

خیمہ اجتماع دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سامنے کا حصہ ” پاک مقام“ اور دوسرا حصہ ” پاک ترین مقام“ تھا۔

یہ اندرونی مقدس ” حقیقی پاک مکان کا نمونہ بلکہ آسمان“ کا نمونہ تھا (عبرانیوں ٩: ٢٤ )۔

پاک ترین مقام فردوس یعنی خدا کی سکونت گاہ کی علامت تھا۔ یہ خصوصی مقام مکعب شکل کا تھا یعنی اُس کی لمبائ، چوڑائ اور اونچائی ایک ہی ناپ کی تھیں۔ پاک صحائف میں سے اپنے سفر کے اختتام کے قریب ہم دیکھیں گے کہ آسمانی شہر جو ایک دن سارے ایمان داروں کا گھر ہو گا، وہ بھی مکعب شکل کا ہے۔

بہت سے لوگ کیتھڈرل، گرجے کی عمارت، مسجد، یہودیوں کے عبادت خانہ، مندر، مقبرہ، روضہ، مزار کو بھی ” پاک“ کہتے ہیں (مقبرہ، روضہ اور مزار کو اگر ” پاک“ نہ بھی کہیں تو بھی اُن کی تعظیم کے لۓ اُن کے ساتھ ” شریف“ کا لفظ ضرور لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جس شہر یا قصبے میں کوئی اہم مزار ہو اُس کے نام کے ساتھ بھی ” شریف“ لگاتے ہیں مثلاً تونسہ شریف، شرقپور شریف)۔ حالانکہ مذکورہ عبادت گاہوں میں اکثر ایسے لوگ بھی جمع ہوتے ہیں جو خدا کے مخلصی اور نجات کے طریقے کو رد کرتے ہیں۔ حقیقی پاکیزگی کسی جگہ میں نہیں ہوتی، بلکہ خدا کے معافی اور راست باز ٹھہرانے کے انتظام کو قبول کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

پردہ

خیمہ اجتماع کا بیرون بالکل سادہ تھا۔ اِسے باہر  سے کھالوں کے دوہرے پردے سے ڈھانپا گیا تھا۔ لیکن اندر سے اتنا خوبصورت تھا کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا تھا۔

خیمہ اجتماع ایک لحاظ سے ہمارے نجات دہندے کی تصویر پیش کرتا تھا۔ وہ آسمان سے زمین پر آۓ گا۔ جو لوگ اُس نجات دہندہ کو حقیقت میں جانتے ہیں اُن کے لۓ وہ نہایت دل آویز ہے (موازنہ کریں غزل الغزلات ٥: ١٠ ۔ ١٦ الف) جیسے خیمہ اجتماع کے اندرون کی خوبصورتی — جو اُس نجات دہندے کو نہیں جانتے اُن کے لئے خیمہ اجتماع کے بیرون کی طرح اُس میں ” کچھ حسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں“ (یسعیاہ ٥٢ : ٢)۔

ایک ” پردہ“ لگا کر خیمہ اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

” اور تُو آسمانی اور ارغوانی اور سرخ رنگ کے کپڑوں اور باریک بٹے ہوۓ کتان کا ایک پردہ بنانا اور اُس میں کسی ماہر اُستاد سے کروبی کڑھوانا“ (خروج ٢٦ : ٣١ )۔

پردے نے انسان کو پاک ترین مقام سے خارج کر دیا جہاں خدا کی حضوری کا جلال اور نور رہتا تھا۔ انسان اُس کے اندر نہیں جا سکتا تھا۔ ہر کسی کے لۓ اور سب کے لۓ وہ پردہ اعلان تھا کہ ” باہر رہو یا مرو۔“

یہ خاص پردہ خدا کے راست بازی کے معیار کی علامت تھا۔ خدا نے موسی' کو دس حکم دینے سے بنی نوع انسان کو  اپنا معیار بتا دیا تھا۔ تاہم یہ دس حکم خدا کے تقاضے کا محدود حصہ پیش کرتے تھے۔ خدا کا حتمی منصوبہ یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو دنیا میں بھیجے گا جو عملاً دکھاۓ گا کہ خدا کا تقاضا کیا ہے — کاملیت۔

مسایاح خدا کا معیار ہے۔ اور پردے سے خدا کا مقصد تھا کہ انسان مسایاح کے بارے میں سوچیں۔

وہ خوبصورت پردہ بٹے ہوۓ نفیس کتان کا تھا اور مسایاح کی پاکیزگی کی علامت تھا۔ وہ (مسایاح) پاک ہو گا۔ اُس میں گناہ نہ ہو گا۔

اُس نفیس پردے میں تین شوخ رنگ تھے — آسمانی، ارغوانی اور سرخ

٭ آسمانی— آسمان کا رنگ— مسایاح خداوند ہے اور آسمان سے آۓ گا۔

٭ سرخ — زمین، آدم (انسان) اور خون کا رنگ۔ مسایاح گوشت اور خون کا جسم اختیار کرے گا تاکہ گنہگاروں کے بدلے دکھ اُٹھاۓ اور مرے۔ (خدا نے آدم کا بدن زمین کی سرخ مٹی سے بنایا تھا)۔

٭  ارغوانی — آسمانی (نیلے) اور سرخ کی آمیزش۔ ارغوانی شہنشاہی رنگ ہے۔ مسایاح مجسم خدا— بہ یک وقت خدا اور انسان ہو گا۔ ارغوانی شہنشاہی رنگ ہے۔ مسایاح اُن سب کے دلوں میں اپنی روحانی بادشاہی قائم کرے گا جو اُس پر ایمان لائیں گے اور توکل کریں گے اور وقت آنے پر وہ زمین پر اپنی جسمانی (دنیوی) بادشاہی قائم کرے گا۔

جس طرح ارغوانی رنگ آسمانی اور سرخ رنگوں کا درمیانی رنگ ہے اُسی طرح مسایاح خدا اور انسان کا درمیانی ہو گا۔

” کیونکہ خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیچ میں درمیان بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے جس نے اپنے آپ کو سب کے فدیہ میں دیا کہ مناسب وقتوں پر اِس کی گواہی دی جاۓ“ (١۔تیمتھیس ٢: ٥، ٦ )۔

جلال کا بادل

جب خیمہ اجتماع بن گیا اور ساری چیزیں خدا کے منصوبے کے مطابق اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی گئیں تو اُس نے اپنے آسمانی تخت سے اپنی حضوری کا جلال نازل کیا جو ایک نہایت شاندار اور پُرشکوہ بادل کی صورت میں تھا۔

” تب خیمہ اجتماع پر ابر چھا گیا اور مسکن خداوند کے جلال سے معمور ہو گیا اور موسی' خیمہ اجتماع میں داخل نہ ہو سکا کیونکہ وہ ابر اُس پر ٹھہرا ہوا تھا اور مسکن خداوند کے جلال سے معمور تھا“ (خروج ٤٠ : ٣٤ ۔ ٣٥ )۔

خداوند خدا نے اپنی حضوری کا چندھیا دینے والا نور اُن دو کروبیوں کے درمیان رکھا جو عہد کے صندوق کی رحم گاہ (سرپوش) پر تھے۔

خدا ایک دیدنی طریقے سے اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کو آ گیا تھا۔

” خداوند سلطنت کرتا ہے۔ قومیں کانپیں! وہ کروبیوں پر بیٹھتا ہے۔ زمین لرزے“ (زبور ٩٩: ١)۔

اپنے جلال کو پاک ترین مقام میں رکھنے اور اپنے بادل کو خیمہ اجتماع کے اوپر رکھنے سے خالق دنیا کی ساری قوموں کو اور جو نسلیں آئندہ پیدا ہوں گی اُن کو سب سے اہم سبق سکھا رہا تھا ۔۔۔ واحد حقیقی خدا گنہگاروں کو بلاتا ہے کہ میرے (خدا) ساتھ تعلق رکھو — مگر چند شرائط کے تحت۔

تصویری تشریحات

جو لوگ خدا کے بارے میں اور لوگوں کے لئے اُس کے منصوبے کو جاننا چاہتے تھے خیمہ اجتماع میں اُن کے لئے بے شمار بصری اور تصویری تشریحات موجود تھیں۔

منظر کا تصور کریں۔

خدا کی واضح، تفصیلی اور ٹھیک ٹھیک ہدایات کے مطابق اسرائیل کے بارہ قبیلوں نے کوہِ سینا کے دامن میں ڈیرے لگا رکھے تھے۔ اور ترتیب کے لحاظ سے خیمہ گاہ کی شکل صلیب جیسی تھی۔ خیمہ اجتماع بیچ میں تھا۔ تین قبیلوں کے ڈیرے جنوب میں، تین قبیلوں کے مغرب میں اور تین قبیلوں کے مشرق میں تھے (گنتی ٣: ٢٣ ۔ ٣٩ )۔ خیمہ اجتماع کے اوپر نہایت آب و تاب سے چمکتا ہوا بادل تھا۔ کوئ شخص انکار نہیں کر سکتا تھا کہ واحد حقیقی خدا اُن کے درمیان تھا۔

دوسری بصری یا تصویری تشریحات میں یہ چیزیں شامل تھیں: خیمہ اجتماع کی اونچی چاردیواری جو نفیس سفید کتانی کپڑے کی تھی اور جس میں صرف ایک دروازہ تھا، دروازہ کے اندر مذبح — گنہگار اِس سے باہر رہنے کے پابند تھے۔ جسے بھی خدا کے پاس آنا ہوتا لازم تھا کہ وہ خون کے ساتھ آۓ جو کامل قربانی کی علامت تھا۔

” کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اُسے تم کو دے دیا ہے۔۔۔ کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے“ (احبار ١٧ : ١١)۔

موت سے ادائیگی کے بغیر کسی طرح بھی گناہ کی معافی نہ ہو سکتی تھی۔ اور چونکہ ناممکن تھا کہ ہر دفعہ گناہ کرنے کے بعد کوئی شخصی خیمہ اجتماع میں قربانی لا سکے اِس لئے خدا نے حکم دیا کہ ہر روز ایک برہ صبح کو اور ایک برہ شام کو قربان کر کے قربان گاہ پر جلایا جاۓ۔ جو کوئی خداوند خدا پر اور اُس کے اِس انتظام پر ایمان رکھتا وہ اِن روزانہ کی قربانیوں کے فوائد سے بہرہ ور ہو سکتا تھا اور اپنے خالق کے ساتھ اُس کا رشتہ بحال ہو جاتا تھا۔

” اور تُو ہر روز سدا ایک ایک برس کے دو دو برے قربان گاہ پر چڑھایا کرنا۔ ایک برہ صبح کو اور دوسرا برہ زوال اور غروب کے درمیان چڑھانا۔۔۔ ایسی ہی سوختنی قربانی تمہاری پشت در پشت خیمہ اجتماع کے دروازہ پر خداوند کے آگے ہمیشہ ہوا کرے اور وہیں مَیں بنی اسرائیل سے ملاقات کروں گا اور تجھ سے باتیں کروں گا“ (خروج ٢٩ : ٣٨ ، ٣٩ ، ٤٢ )۔

یومِ کفارہ

اپنی سچائی کی مزید وضاحت کے لئے خدا نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ انسان کے لئے پاک ترین مقام میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ [پاک ترین مقام خیمہ اجتماع کا وہ خاص حصہ تھا جو آسمان (خدا کی سکونت گاہ) کی علامت تھا] وہ طریقہ یہ تھا کہ ایک خاص چنا ہوا آدمی جسے سردار کاہن کہتے تھے، اُسے اجازت ہو گی کہ سال میں صرف ایک دفعہ اندرونی مقدس یعنی پاک ترین مقام میں داخل ہو۔ اِس دن کو یومِ کفارہ کہتے تھے۔ اُس روز سردار کاہن کو قربانی کے بکرے کا خون لے کر اندر جانا ہوتا تھا۔ حکم تھا کہ وہ اُس خون کو سات بار رحم گار (عہد کے صندوق کے ڈھکن) پر چھڑکے۔ اگر سردار کاہن خون کے  بغیر کسی اَور طریقے سے اندر داخل ہوا تو مر جاۓ گا (گنتی ٣: ٢٣ ۔ ٣٩ )۔

خدا کا وعدہ تھا کہ اُس چھڑکے گۓ خون کے باعث مَیں اسرائیلیوں کے سال بھر کے گناہ معاف کروں گا، بشرطیکہ وہ مجھ پر اور میرے انتظام پر ایمان رکھیں۔

خیمہ اجتماع کی ساری تفاصیل، اُس کا ساز و سامان اور اُس میں جو کچھ عمل میں لایا جاتا تھا اُن کا مقصد یہ تھا کہ واضح بصری تصویروں کی مدد سے دنیا کو بتایا جاۓ کہ گنہگار جن کو سزا کا حکم ہو چکا ہے وہ اِس طرح کریں تو اُن کے گناہ ڈھانکے جائیں گے (کفارہ ہو جاۓگا) اور کامل پاک خالق سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو جاۓ گا۔ اور یہ سب کچھ مسیحِ موعود اور اُس کے مشن (خاص کام) کی طرف اشارہ کرتا تھا (احبار باب ١٦ )۔

یوں اِن ساری صدیوں کے دوران خدانے اپنی چنی ہوئی قوم کے وسیلے سے دنیا میں سینکڑوں تصویریں (علامات) نشر کر کے گناہ میں کھوئ ہوئی دنیا کو اپنے وعدے بتاۓ۔

آج کل یہودی ” یومِ کفارہ“ کو ” یومِ کپور“ کہتے ہیں۔ لیکن اِس دن کو صحیح معنوں میں نہیں منا سکتے کیونکہ اُن کی نہ کوئی ہیکل ہے، نہ کاہنوں کا نظام اور نہ قربانی کا برہ۔ ستم ظریفی دیکھۓ کہ اُن کے لئے ایک بچی کھچی دیوار رہ گئی ہے (مغربی دیوار جو ہیرودیسِ اعظم نے ہیکل کا صحن کشادہ کرنے کے لئے بنوائی تھی)۔ یہودی اُس کے پاس کھڑے ہو کر مسایاح کی آمد کے لئے دعائیں مانگتے ہیں حالانکہ وہ آ چکا ہے۔ اِسے ” دیوارِ گریہ“ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہودی وہاں آ کر اپنی قوم کی حالت پر روتے اور ماتم کرتے ہیں۔

جیسا کہ خدا کے نبیوں نے کہا تھا یہودی روحانی طور پر اندھے ہیں (یسعیاہ ٦: ١٠ ؛ ٥٣ : ١ ، یرمیاہ ٥: ٢١ ؛ حزقی ایل ١٢ : ٢ ؛ ٢۔ کرنتھیوں ٣: ١٢ ۔ ٤: ٦)۔ ایک دن آۓ گا کہ یہودیوں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ جانیں گے کہ یسوع ہی وہ ہستی ہے جس نے ہیکل کی علامات، کہانت اور قربانیوں کو پورا کیا ہے (عبرانیوں ابواب ٨ ۔ ١٠ ؛ افسیوں باب ٢)۔ روحانی اندھے پن کی دیوار گر جاۓ گی (افسیوں ٢: ١٤ ؛ رومیوں ابواب ٩ ۔١١ )۔ اور اِسی کتاب میں دیکھئے باب ٥ بعنوان ” ایک قوم کے بارے میں پیش گوئیاں“ اور اُس کے حواشی۔

ہیکل اور اُس کی قربانیاں

موسی' اور بنی اسرائیل نے یہ خاص خیمہ بنایا کہ خداوند خدا کی حضوری اُس میں ہے۔ اِس کے پانچ سو سال بعد خدا نے سلیمان بادشاہ کو ہدایت کی کہ اِس سفری خیمے کی جگہ ایک مستقل عبادت گاہ بناۓ۔ یہ نئی عمارت یروشلیم میں ہو گی۔ اِس کا خاکہ اور وضع قطع خیمہ اجتماع جیسی ہو گی، لیکن اِس سے بہت بڑی اَور زیادہ خوبصورت بھی ہو گی۔ سلیمان کی ہیکل قدیم دنیا میں فنِ تعمیر کا شہکار اور عجوبہ تھی۔

جس دن خیمہ اجتماع کا افتتاح ہوا آسمان سے خدا کا جلال نازل ہوا اور اُس سے پاک ترین مقام معمور ہو گیا۔ اِسی طرح خدا کی حضوری کا قائم بالذات جلال نازل ہوا اور ہیکل معمور ہو گئی۔

” اور جب سلیمان دعا کر چکا تو آسمان پر سے آگ اُتری اور سوختنی قربانی اور  ذبیحوں کو بھسم کر دیا اور مسکن خداوند کے جلال سے معمور ہو گیا اور کاہن خداوند کے گھر میں داخل نہ ہو سکے اِس لئے کہ خداوند کا گھر خداوند کے جلال سے معمور تھا“ (٢۔تواریخ ٧: ١، ٢)۔

ہیکل اُسی جگہ تعمیر ہوئی تھی جس جگہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے ابرہام نے اپنے بیٹے کے بدلے مینڈھا قربان کیا تھا (٢۔تواریخ ٣: ١ موازنہ کریں پیدائش ٢٢: ٢ سے)۔

(اِسی جگہ پر ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے مسجدِ اقصی' تعمیر کی۔ عام تاثر یہی ہے کہ مسجدِ اقصی' سلیمانی ہیکل کی جگہ پر تعمیر ہوئی ہے، لیکن حقیقت میں وہ ہیکل کے صحن میں واقع ہے۔)

ہیکل کی تعمیر مکمل ہوئی تو خدا کے لئے اُس کی تقدیس (مخصوصیت) کرنے کے لئے سلیمان کے حکم سے ایک لاکھ بیس ہزار بھیڑیں اور بائیس ہزار بیل قربان کئے گۓ (٢۔تواریخ ٧: ٥)۔

اِتنی افراط سے قربانیاں کرنا اِس بات کی علامت تھا کہ وہ خون بے حد و حساب قیمتی ہے جو ایک ہزار سال بعد نزدیکی پہاڑ پر بہایا جاۓ گا۔

چنانچہ آدم، ہابل اور ابرہام کے زمانے سے لے کر خون کی لاکھوں علامتی قربانیاں مذبحوں پر چڑھائی جاتی رہیں تاکہ سال بہ سال گناہ کو ڈھانپا جاۓ۔۔۔

اور پھر مسایاح آیا۔

Pages