پہلا مقدمہ

اس مقدمہ میں یہ امر دریافت کیا جائیگا کہ محمد صاحب کے زمانہ میں ملک عرب میں دینی حالات کیسے تھے جن کے درمیان آپ پیدا ہوئے اور بڑھے اور خدا اور دین کی باتیں معلوم کی تھیں ۔ وہ حالات کئی قسم کی گوائیوں سے ثابت ہوتے ہیں۔

قرآن مروجہ بموجب حدیث صحیح بخاری پہلے خلیفہ عمر اور خلیفہ ابوبکر اور زیدبن ثابت کا تب قرآن کے مشورہ اور کوشش سے مرتب ہوا تھا وار پھر خلیفہ عثمان اور اسی زیدبن ثابت کی تجویز سے اس کو صحیح کرکے نئی طبع تیار کر ائی گئی اور ابوبکر والی جلائی گئی تھی ۔ اس میں واقعات ماضی کے وحی کئے جانے کی حسب ذیل کیفیت آئی ہے جو مشرکین عرب کے سامنے جتائی جاتی تھی۔  ١ 

سورہ رکوع ٤ آیت ٥١ اس میں نوح اور اس کے بیٹوں کا قصہ سنا کر اسکو وحی کی تعلیم کہا ہے اور کہ اس سے پہلے محمد صاحب اور عربوں کو اس خبر نہ تھی ۔

تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا

ترجمہ: یعنی یہ خبروں غیب سے ہے کہ وحی کرتے ہیں ہم ان کو تیری طرف نہ تھا تو جانتا ان کو اور نہ تیری قوم اس کے پہلے ، پھر سورہ یوسف رکوع ١١ اور آیت ١٠٢ میں یوسف کا ذکر سنانے کے بعد یہ جتایا ہے کہ

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ

ترجمہ: یعنی یہ خبریں غیب سے ہے کہ وحی کرتے ہیں ہم تیری طر ف اور نہیں تھا تو نزدیک ان کے جس وقت مقرر کیا انہوں نے اپنا کام اور وہ مکر کرتے تھے۔ موضح القرآن میں اس کی توضیح یو ں کی گئی ہے کہ ”یہ مذکور توریت اور پہلی کتابوں میں بھی نہیں تھا “ پھر سور ہ قصس رکوع ٥ آیات ٤٦.٤٤ میں موسیٰ اور طور اور مدیان کے احوال کی بابت کہا ہے :

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ وَلَـٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ

ترجمہ: یعنی اور نہ تھا نہ تو صرف غربی طور کے جس وقت کہ ہم نے فیصل کیا طرف موسیٰ کے حکم اور نہ تھا تو حاضروں سے ، اور نہ تھا تو رہنے والوں مدین سے پڑھتا ۔ ان پر ہماری آئتیں وہ لیکن ہم پیغبر بھیجنے والے ہیں ۔پھر سورہ عمران رکوع ٥ آیت ٤٠ وغیرہ میں مریم کی اور مسیح کی پیدائش کا بیان کرکے کہ ہے کہ ”یہ خبریں غیب سے ہی وحی کرتے ہیں ہم اس کو تیری طرف اور تو ان کے پاس نہ تھا“ ۔ پھر کل قرآن کی بابت سورہ بقررکوع ١٢ اور آیت ٩٧ کے شروع میں ہے کہ

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ: یعنی کہہ جو کوئی دشمن ہے جبرائیل کا پس تحقیق اس نے اتارا ہے اس کو تیر ے دل پر اللہ کے حکم سے سچا کرنے والا اس کو جو اس کے آگے ہے اور ایمان والوں کے واسطے ہدایت اور خوشخبری ۔

غرضیکہ قرآن اپنی موجودگی مضامین کو سراسر بو ساطت وحی جبرائیل جتاتا ہے اور معلومات کے دیگر کل متصل ذریعوں اور حالتوں کے دخل و امداد سے انکاری ہے ۔ اس دعویٰ کے امکان اور احتمال کی صحت کی نسبت دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا محمد صاحب کے زمانہ میں کسی قسم کے ملکی اور دینی دستور اور روائتیں مروج تھیں ۔ یا نہیں اور یا کہ ملک عرب مثل اپنے ریگستانوں کے ان امور کی نسبت ایک ایسا صفا میدان پڑا تھا۔ کہ اس میں کسی قسم کی دینی اور دنیوی باتوں کا رواج اور چرچا نہ تھا۔ حتیٰ کہ بلا موقعہ پر موجود ہوئے ۔ اور یا بدون وحی فوق العادت کے ان باتوں کا علم ناممکن ہو رہا تھا۔ جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں؟ مگر اس بات کے لئے کئی قسم کی گوائیاں ہیں۔ جو قرآن کی موجودگی سے پہلے قرآن والے بیان کے رواج اور چرچا کو ثابت کرتی ہیں۔ چنانچہ

پہلی گواہی خود اہل عرب کی حالت ہے ۔ اہل عرب کو ن تھے اور محمد صاحب سے پہلے اور ان کےے زمانہ میں بھی ان کا دین اور ایمان کیا تھا۔ اہل عرب کچھ تو ابراہیم کے لونڈی زادہ مدیان کی ٢  اولاد سے تھے جو ابراہیم کی لونڈی کتورہ سے پیدا ہوا تھا۔ اور کچھ اسمعیل کی اولاد سے تھے جو ابراہیم کی لونڈی ہاجرہ سے پیدا ہوا تھا۔ مدیانی اور اسمعیلی آپ میں شادی بیاہ کرتے تھے۔ اور مدیانیوں کو اسمعیلی بھی کہا جاتا (قاضیوں ۸باب ٢٤ سے ٢٦ آیت)کیونکہ یہ دونوں ہم نسل تھے (پیدائش ٤,٢,١:٢٥اور آیت ١٨:٢٥) اسمٰعیلی اس ملک میں رہتے تھے۔ جو کنعان سے پورب دکھن طرف واقع ہے (پیدائش ١٨:٢٥) یوسیفس مورخ ان کو عربی قوم لکھنا ہے۔(انٹی کو نٹی کتاب اوّل باب ١٢ فصل ٤) بنی اسرائیل کے ساتھ ان کا فساد رہتا تھا۔ یروشلم کی دوبارہ تعمیر کے وقت عربوں نے عمونیوں کے ساتھ ملکر نحمیا ہ کی مخالفت کی تھی (نحمیاہ ٧:٤) یہ لوگ عرب کے پہلے باشندوں کے ساتھ ملکر نحمیاہ کی مخالفت کی تھی (نحمیاہ ٧:٤) یہ لوگ عرب کے پہلے باشندوں کے ساتھ خلط ملط ہوگئے تھے۔ جو یقطان بن مسیم کی نسل سے تھے اور جو عرب کے ان حصوں میں آباد ہوئے تھے۔ جو یمن اور حجاز کہلاتے تھے  ٣ ۔ یہ دونوں قدیم زمانہ میں اہل عرب کی مشہور ریاستیں تھیں۔ اسمعٰیلی بھی پہلے حجاز میں آکر بسے تھے۔ (حجاز وہ علاقہ ہے جس میں مکہ اور یثرب ( مدینہ ) واقعہ ہیں ۔

(بائبل ڈکشنری ،ولیم سمتھ ، دیکھو لفظ عرب ) محمد صاحب اسمعٰیلیوں کی نسل سے تھے۔

ابراہیم کی نسل ہونے کے سبب ان دونوں خاندانوں کا مذہب بھی ضرور وہی ہو گا۔ جو ابراہام کا تھا۔ ابراہام کی بابت خدا نے یہ فرمایا تھا۔ کہ ”میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور اپنے بعد اپنے گھرانے کو حکم کریگا کہ وہ خدا وند کی راہ کی نگہبانی کر کے عد ل و انصاف کرینگے “ ۔ (پیدائش ١٩:١٨) اور اگرچہ لونڈیوں کی اولاد کبھی وعدے کے فرزند نہیں ہو سکتے تھے۔ تو بھی ابراہام نے اپنے جیتے جی ان کو کچھ انعام دیکر پورب رخ پورب کی سرزمین میں بھیج دیا تھا اور وہ اپنے باپ کی مذہبی باتیں بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اور بہت سے حالات سابقہ بھی اپنے باپ سے معلوم کئے ہونگے ۔اور وہ علم الٰہی اور دیگر حالات قدیم عربوں کی قوی روایتیں بنے رہے ہونگے ۔ مگر مدت پا کے کچھ تو اپنی علیحدگی کے سبب اور کچھ پہلے بت پرستوں کی صحبت کے سبب ان میں سورج اور چاند اور ستاروں اور پھر پتھروں کی پرستش بھی جاری ہو گئی۔ اور نئی روائتیں پرانیوں میں ملائی گئیں ۔اور معاملات اس طور سے بدل گئے محمد صاحب کے زمانہ میںعرب میں بتخانے کثرت سے تھے۔ جن میں سے قرآن میں بھی آٹھ ایک کا ذکر آیا ہے۔باوجود اس کے ابراہیمی عقیدہ کا اصول ان میں کچھ نہ کچھ باقی تھا۔ لا الہ الااللہ اہل عرب کو اسلام سے بہت پہلے معلوم تھا۔ صلح اور امن کے کے ایام میں وہ اپنے بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اور ان کا عذ ر جیسا قرآن میں بیان ہوا ہی یہ تھا۔ کہ ”ہم انہیں پوجتے ہیں تاکہ وہ ہمیں خدا کے زیادہ نزدیک پہنچا دیں“۔ لیکن لڑائی کے وقت وہ خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے تھے۔ ان کی صلوةٰ یہ تھی۔ اے خدا میں اپنے تیئں تیری خدمت کے لئے نذر کرتا ہوں ۔ تیرا کوئی ساتھی نہیں سوائے تیرے اپنے ساتھی کے اس کا اور اس کے سب کچھ کا تو مالک مطلق ہے ٤ ۔ اور پھر یہ بات کہ اہل عرب میں کئی پرانے احوال ابراہام اور اسمعٰیل کے سکھلائے ہوئے روایتاً چلے آئے تھے۔ اس امر سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ کہ ختنہ کا رواج اہل عرب میں وہیں سے چلا آیا تھا۔ اور محمد صاحب کے زمانہ میں جاری تھا۔ چنانچہ یوسیفس یہودی مورخ جو پہلی صدی عیسوی میں ہوا لکھتا ہے کہ اہل عرب تیرھویں برس کے بعد ختنہ کیا گیا تھا۔ (انٹی کو ئٹی کتاب پہلی ۔ باب ١٢فصل ٢) ۔

دوسری گواہی : یہودی عرب میں سیل صاحب دیباچہ ترجمہ انگریزی قرآن کے فصل اوّل میں بیان کرتے ہیں۔ کہ یہودی کثرت سے ملک عرب میں بھاگ آئے تھے۔ جب رومیوں نے ان کے ملک کو تباہ کر دیا تھا۔ اور کئی قبائل کو مرید کیا تھا۔ یعنی کنانہ ، اور خاص کرکے کندا اور عرسہ پا کے بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ اور کئی شہروں اور قلعوں کے مالک تھے۔ اور محمد صاحب سے چار سوبرس پہلے ابو قریبہ اسد نے جو یمن کا بادشاہ تھا بت پرست حمیاریوں میں یہودی مذہب جاری کیا تھا۔ اس کے جانشینوں میں سے کئی ایک نے یہی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ جن میں سے یوسف جس کا لقب ذونوا س تھا۔ بڑا ظالم تھا اور ان کو جو یہودی بننے سے سے انکار کرتے بہت ستاتا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ عرب میں محمد صاحب سے پہلے یہودی ایک مضبوط آبادی کا تھے۔

ان کی تعلیم اور دینیات کے رواج کی بابت عمانوائیل ڈائچ صاحب یوں بیان کرتے ہیں۔ کہ تعلیم میں وہ عربوں سے پر بہت سبقت رکھتے تھے۔ اور سب لکھ پڑھ سکتے تھے۔ حالانکہ عرب اجنبی معلموں کو گرفتا ر کر کے اپنے لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھلانے کی شرط پر انہیں آزاد کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔ یہودی لوگ تمام ملک عرب میں پائے جاتے تھے۔ اور ےمن میں خاصکر بودوباش کرتے تھے۔ ان کی گذران مثل دیگر عربوں کے تھی یعنی بدوؤں کی طرح آوارہ گرد رہتے اور یا کاشتکاری کرتے اور بستیوں میں رہتے تھے۔ جیسے یثرب یعنی مدینہ میں ،دیگر فرقوں کا انکار دین اختیار کرنا اور بیاہ کی باہمی راہ رسم اس وقت کی مشہور باتوں میں کو رواج دیتے تھے۔ تلوار کی لڑائی میں بہادر تھے۔ سبت کا دن مانتے تھے۔ مسیح کی انتظاری کرتے تھے۔ یروشلم کی طرف منہ کرکے دعا کرتے تھے۔ روز ہ رکھتے اور نماز پڑھتے تھے عرب کے لوگ انہیں اہل کتاب کہا کرتے تھے۔ کعبہ اور حج اور قحطان اور اسمعٰیل اور ضمضم اور اور ہاجرہ نے یہودی عربوں ہی سے رنگینی پائی تھی ۔ ان یہودیوں کا مدینہ میں ایک درسہ تھا جس میں حلکاہ اور حگدہ کی تشریح کی جاتی تھی۔ بت پرستوں کی دینی بحث میں عاجز کرتے تھے۔ ابراہیم اور اسمعٰیل اور اوروں کی بابت ایسے قصے کہا نیاں بتلائے تھے۔ کہ انکے بت پرست ہمسایوں کے دل پھر جاتے تھے۔ اور وہ یہودیوں کی دینی فضیلت پر صاو کرتے تھے۔ کہ وہ آکر تمہاری بے ایمانی کی سزا دے گا۔  (Dr.Dautochis Islam)

پس عرب میں یہودی مذہب اور ان کی قدیم روایتوں اور مسیح کی انتظاری کا ایسا چرچا تھا اور ایسی رونق تھی جن کے درمیان محمد صاحب پیدا ہوئے اور بڑھے اور وہ سبق سیکھے جو قرآن کی تقریروں میںپیش کئے گئے ہیں۔ لہذا ان قدیم باتوں کے علم کے واسطے موقعہ وار دات پر موجود ہونے کی ضرورت کیا تھی ۔

تیسری گواہی: عیسائی عرب میں:سیل صاحب ان کی بابت بھی لکھتے ہیں۔ کہ تیسری صدی عیسوی کے شروع کے بعد مشرقی کلیسیاءمیں ایذار سانیوں کے سبب بہتیرے عیسائی مجبور ہوئے کہ اس آزادگی کے ملک یعنی عرب میں پنا ہیگر ہوں اور وہ لوگ اکثر کرکے یعقوبی فرقے کے تھے اور یہ فرقہ عربوں میں عموماً کامیاب ہوا (یہ فرقہ پانچویں صدی عیسوی میں جاری ہوا تھا اور اس میں اور چھٹی اور ساتویں صدی میں قریباً سارے مشرقی ملکوں میں پھیل گیا تھا۔ خاصکر کے چھٹی صدی میں جکوبس کی کوشش سے اور اس لئے اس کا نام اب تک جکوبایٹ چلا آتا ہے۔ اس کا پہلا نام مانو فزائٹ تھا اس فرقے کے لوگوں کے ساتھ محمد صاحب کا اور خلیفہ عمر کا اچھا رسوخ رہاتھا) ۔ مشہور فرقے جہنوں نے عیسوی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ یہ تھے یعنی حمیار ، غصان ، ربیعہ ،تغلب ،بحرہ ، تنوخ ، اورطے اور کداع کے قبیلے ، بخران کے باشندے اور حرا کے عرب ، نجران کے لوگ ذونو اس یہودی بادشاہ کے دنوں میں عیسائی ہوئے تھے۔ جو محمد صاحب سے قریباً ستر برس پہلے گذرا، حرا کا بادشاہ ال نمان ابو کا بوس عیسائی ہو گیا تھا۔ فرقہ جکوبی کے وہ بشپ عرب میں تھے۔ اور نجران بھی ایک بشپ کا علاقہ تھا۔ اور نیسٹورٹین فرقے کا بھی ایک بشپ تھا۔ اور حرا اور اکولہ اس کی نگرانی میں تھے۔ قدیم زمانہ سے عرب بدعتوں کے لئے مشہور تھا۔ عربوں ہی کے درمیان وہ بدعتیں جاری ہوئی تھیں۔ جو ایبی ان اور بیری لس اور نصارینی اور کالی ریڈی ان کر کے مشہور ہوئیں۔ دیباچہ قرآن انگریزی ، دوسری فصل یہ بدعتی فرقے دین عیسوی کی صحیح تواریخ اور اصولوں کے بجائے اور قصے مسیح اور مریم کی بابت بنائے ہوئے تھے۔ جو جعلی انجیلوں میں پائے جاتے ہیں۔ جیسے مسیح کا مہد میں باتیں کرنا۔ لڑکپن میں معجزے کرنا ، مسیح کے بجائے کسی اور کا صلیب دیا جانا ۔ پس اس قسم کے جو بیانات قرآن میں درج ہوئے ان کے لئے موقعہ واردات پر موجود ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ جو بشارت فرشتے نے مسیح کی پیدائش کی بابت مریم کو دی وہ عیسائیوں کی کتاب میں موجود تھی۔ اور زبانی اس کا کس قدر چرچا اس ملک میں ہوتا ہو گا جہاں اس قدر غیر ملکوں کے اور عربی عیسائی بھی موجود تھے۔

چوتھی گواہی: صائبین اور ایرانی مجوسی عرب میں : علامہ سیل صاحب لکھتے ہیں کہ صائبین کا مذہب قریباً ساری قوم عرب میں پھیلا ہوا تھا۔ سوائے ان کے جو یہود اور عیسائی اور مجوسی تھے ۔ صائبین ایک خدا کو مانتے تھے۔ اور ستاروں اور فرشتوں کو بھی پوجتے تھے۔ دن میں تین دفعہ نماز کرتے تھے۔ مکہ اور مصر کے مناروں کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ خیال کرکے کہ وہ منارے سیت بن آدم اور اس کے دو بیٹوں حنوک اور سبا کے مقربے تھے۔ زبور کی کتاب کو پاک کتاب مانتے تھے۔ اور ایک اور کتاب کو بھی جس کو سیت کی کتاب کہتے تھے۔ اور جو کسدی زبان میں تھی ۔ قرآن میں ان صائبین کو بھی اہل کتاب کہا ہے ۔ متاخرین سیا ح ان کو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے عیسائی قرار دیتے ہیں اور وہ خود بھی اپنے تیئں ایسا ہی کہتے ہیں اور ایک قسم کا بپتسمہ بھی دیتے ہیں۔

پس محمد صاحب کے زمانہ سے پیشتر اور ان کے وقت میں بھی اسمعٰیلی عرب ،یہودی اور یہودی عرب ، عیسائی عرب اور صائبین اور مجوسی اپنے اپنے طریقوں کے جیسے تیسے بیان سے لئے ہوئے موجود تھے۔ اور قرآن کے مضامین کو الگ الگ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ کم بیش ملتے ہیں۔ اس رسالہ میں ہم اس کی ایک زبردست مثالیں پیش کرینگے جن سے ظاہر ہو گا کہ یہ دعویٰ کہ یہ باتیں مجھ کو وحی بتلا گیا ہے کیونکہ میں موقعہ واردات پر موجود نہ تھا۔ مضامین قرآن مروجہ سے ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ ان وارواتوں کے اعتقاد اور عام چرچا کے موقع پر تو آپ موجود تھے ۔ اور اگلی کتابیں بھی موجود تھیں۔ عرب کے ان دینی باغات میں محمد صاحب دعویٰ نبوت سے پہلے پندرہ برس سیر کر چکے تھے۔

پانچویں گواہی: مذکورہ بالا بیرونی اور ہمعصر حالات دینیہ کے علاوہ صریح ثبوت کے بھی ایسے پتے لگ سکتے ہیں۔ جن سے صاف صاف ظاہر ہے کہ قرآن اپنے تیئں اس قسم کی وحی ثابت کرنے کے ناقابل تھا ۔ جیسی کا محمد صاحب نے دعویٰ کیا تھا۔ چنانچہ

١۔تاریخ ابوالفد ا  ٥ سے صریح شہادت حسب ذیل ملتی ہے۔ ماسٹر رامچند صاحب دہلوی ،اپنی کتاب اعجاز قرآن طبع ثانی کے صفحہ ٠ ١١ تاریخ ابوالفدا کے اردو ترجمہ سے حال اہل عرب زمانہ جاہلیت کا یوں تحریر کرتے ہیں۔ کہ شہر ستانی ململ اور نحل میں لکھتا ہے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں کئی قسم پر تھے۔ ایک قسم خدا تعالیٰ کا بالکل انکار کرتے تھے۔ اور ان کا یہ مقولہ تھا کہ ہر ایک شے اپنی طبیعت سے زندہ ہو جاتی ہے۔ اور زہر ما ر ڈالتا ہے ۔ اور پھر ہر گذزندہ نہ ہونگے ۔ الخ،پھر لکھا ہے کہ اور ایک قسم کے کا فر خالق کا اقرار کرتے تھے۔ لیکن پھر زندہ ہونے کا انکار کرتے تھے۔ الخ ، پھر لکھا ہے کہ ایک اور قسم کے کافر بتوں کو پوجتے تھے۔ الخ ، پھر لکھا ہے کہ بعض لوگ ان میں سے میدان طبیعت یہودیوں کے مذہب کی طرف بھی رکھتے تھے۔ اور بعض نصرانیت کی طرف ڈھلے ہوئئے تھے۔ بعض صائبہ مذہب کی طرف تھے۔ وہ لوگ انوار منازل اور ستاروں اور منجمین کا بہت اعتقاد رکھتے تھے۔ بعض ان میں کے فرشتوں کو سجدہ کرتے تھے اور بعض جنوں کو پوجتے تھے۔ اور علم اس زمانہ میں یہ پڑھے جاتے تھے۔ علم الا نسان ،یعنی سب نسب ناموں کا علم ، علم الانو ار یعنی ستاروں کی علم ، علم التواریخ ، تعبیر الردیا یعنی تعبیر خواب، اور بعضی بعضی باتیں جو ایام جاہلیت میں کفارہ کرتے تھے۔ شریعت میں بھی وہ جائز رہیں۔ الخ ، پھر لکھا ہے کہ خانہ کعبہ کا حج کیا کرتے تھے۔ اور عمرہ اور احرام باندھتے تھے۔ اور طواف کرتے تھے۔ اور دوڑتے تھے۔ اور جو جائے ٹھہرنے کی ہے وہاں ٹھہرتے اور کنکریاں پھینکتے تھے۔ اور بعد تین سال کے ایک مہینہ پھر مراقبہ کرتے اور غسل کی حاجت سے نہاتے اور کلی کرتے اور ناک پانی سے پاک کرتے اور سرپر پانی ڈالتے اور مسواک کرتے اور استنجا کرتے اور ناخن لواتے اور بغل کے بال لیتے اور موئے زہار منڈ واتے اور ختنہ کرتے اور چور کا دہنا ہاتھ کاٹ ڈالتے ، یہی باتیں ا سلام میں بھی جاری رہیں ۔  ٦ 

اس حال میں قرآن والی باتیں وحی اور لوح محفوظ کی طرف کیونکر منسوب کی جا سکتی ہیں؟ (ب) قرآن سے بھی کئی پتے ملتے ہیں۔ چنانچہ

یہ بات کہ محمد صاحب اپنے زمانہ کے یہود و نصاری اور فرقوں عرب سے خود واقف تھے جیسا کہ سورہ بقررکوع ٨اور سورہ مائدہ رکوع ١٠میں یہود و نصاری اور صائبین کے تذکرہ سے ظاہر ہے۔ اور یہ بھی جانتے تھے۔ کہ ان کے پاس آسمانی کتابیں ہیں یعنی توریت اور انجیل اور زبور ، دیکھو سورہ مائدہ رکوع ١٠آیت ٧٠جس میں توریت اور انجیل اور نام آیا ہے اور اسی سورہ کی آیت ٤٣میں ہے وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ، یعنی ان کے پاس توریت ہے سورہ بقر رکوع ١٤ آیت ١١٣ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ، یعنی اور وہ پڑھا کرتے ہیں کتاب ، اور پھر محمد صاحب اہل کتا ب کے ساتھ یہاں تک خلط ملط تھے۔ کہ آپ کی وحی اپنی باتوں کی تصدیق کے لئے کبھی کبھی حضرت کو مجبور کرتی تھی۔ کہ اہل کتاب سے پوچھ لے۔ چنانچہ سورہ یونس رکوع ١٠آیت ٩٤میں آیا ہے۔ فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ، یعنی پس اگر تو ہے شک میں اس چیز سے کہ نازل کی ہم نے طرف تیرے تو پوچھ ان لوگوں سے کہ پڑھتے ہیں۔ کتاب تجھ سے پہلے سورہ زخرف رکو ع ٤ آیت ٤٤۔ اور پوچھ دیکھ جو رسول بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے ۔ الخ ، اس سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب کو خوب پتا تھا۔ کہ اہل کتاب کو وہ باتیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں یاد تھیں ۔ ان کو اپنی کتابو ں کی باتوں کو چرچا کرتے سنتے ہونگے ، اور اس لئے یہ کہا ہے اسی طرح اہل کتاب اور دیگر عربوں کے مشہور قصوں سے بھی محمد صاحب کی اپنی واقفیت کا ایسا اقبال مصرح ہے کہ اس میں وحی کا دخل غیر ٹھہرتا ہے۔ مثلا سورہ طٓہ رکوع ٨ آیت ١٣٣ میں یہ استفہام اقراری پایا جاتا ہے۔ کہ وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ، کیا نہیں آئی دلیل اس کی پہلی کتابوں میں پھر سورہ توبہ رکوع ٩ آیت أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ، یعنی کیا نہیں آئی ان کو خبر ان لوگوں کی جوان سے پہلے تھے۔ قوم نوح کی اور عاد کی اور تمود کی۔ اور قوم ابراہیم کی اور رہنے والوں مدین کی اور بستیوں الٹی گئی کی۔ ان اجابتوں سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب کو معلوم تھا کہ لوگ اگلی کتابوں کے معجزوں اور اگلے لوگوں کے احوال سے واقف تھے ۔ لہذا اگر محمد صاحب نے بھی ان قصوں کا ذکر سورہ اعراف میں سنا دیا تھا۔ تو وہ کوئی وحی کی بتلائی ہوئی باتیں قرار نہیں پا سکتیں ۔ آپ بھی اور لوگوں کی طرح ان سے واقف ہو سکتے تھے۔ خصوصاً جبکہ آپ ان کے جاننے کے لئے اوروں کی بہ نسبت زیادہ شائق ہوگئے تھے۔

بایں ہم یہ بھی جاننا چاہئے کہ محمد صاحب یہ بھی مانتے تھے۔ کہ قرآن لکھا ہوا ہے پہلوں کی کتابوں میں وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ، (سورہ الشعرا آیت ۱۹ ۶)اور پھر یہ کہ بنی اسرائیل کے عالم اس کو جانتے ہیں ۔ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، سورہ شعرار کوع ١١ آیت ۱۹۷)پس قرآن کی باتیں غیب کی خبر یں نہ ٹھہریں ۔ اور جبکہ آپ کو یہ معلوم تھا۔ ک اہل کتاب کے عالم قرآن والی باتوں کو جانتے ہیں تو آپ نے ضرور یہ باتیں ان سےسنی تھیں ورنہ ان کے علم کا ذکر نہ کرتے ۔ اور پھر جب ان کے مبدا کا منکروں نے سراغ لگایا ، اور کہا کہ یہ باتیں جو تو سناتا ہے ان کا مضمون تجھ کو کوئی عجمی آدمی سکھاتا ہے۔ سورہ نحل رکوع ١٤ آیت نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ، تو اس کا آپ نے یہ دیا کہ وہ آدمی جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں عجمی ہے اور یہ زبان صاف عربی ہے اس نقاب سے وہ آدمی چھپا یا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ معمولی عربی میں وہ مضمون تو بتلا سکتا تھا۔ اور پھر جب مشرکوں نے یہ پتا دیا وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ، یعنی اور کہا انہوں نے یہ کہانیا ں ہیں پہلوں کی کہ لکھ لیا ہے ان کو وہ پڑھی جاتی ہیں اس پر صبح اور شام (سورہ فرقان رکوع ١آیت ۵) اس کے جواب میں آپ نے پھر وہی وحی کا دعویٰ کردیا اور بس ،مگر لوگ محمد صاحب سے اس دعویٰ کے لئے ثبوت طلب کرتے تھے۔ جیسا مابعد کی آیات میں مذکور ہے نہ کہ پہلے لوگوں کے قصے، اور ظاہر ہے کہ لوگ محمد صاحب کے دعویٰ کے قائل نہ ہوئے تھے تو آخر تلوار کے زور سے ان کو منوایا تھا جیسا کہ قرآن اور واقدی کی تواریخ مغازی الرسول سے ثابت ہے یادرہے کہ ایسی کتاب مین جس کی ہر بات میں محمد صاحب اپنے تیئں بالکل مجہول حالت جتاتے اور کہتے تھے۔ کہ وہ سب باتیں مجھے وحی نے بتلائی ہیں ایسے پتے جو ہم نے پیش کئے ہیں قابل غور ہیں۔

(ج۔) قطع نظر اس سے بہتیر ی باتیں ہیں جو محمد صاحب کے تجربہ اور مشاہدہ میں آئی تھیں۔ مگر آپ نے ان کو بھی وحی کے حساب میں لگایا ہے ۔ اس صورت میں کچھ عجب نہیں ہے جو انہوں نے اپنی معلومات احوال ماضیہ کو بھی وحی کے ذمے لگا دیا۔ لیکن ایسی تجویز سے یہ ظاہر ہے کہ محمد صاحب وحی کا فائدہ بالکل نہیں سمجھے تھے۔ مثلاً (١ )کیا یہ محمد صاحب کے تجربہ کہ بات نہ تھی کہ یہودی قرآن کے منکر ہیں؟ سورہ عمران رکوع ٧ آیت ٦٩ اور یا کہ وحی نے ہی بتلایا تھا کہ یہودی منکر ہیں اور محمدصاحب کو خود انکے انکار کا علم نہ تھا ؟

(۲۔)نصاری کو مسلمانوں کا رفیق آپ نے اپنے تجربہ سے معلوم کیا ہوا تھا۔ یا صرف وحی کی بتلائی ہوئی نری بات ہی بات تھی ؟ سورہ مائدہ رکو ع ١١آیت ٨٦۔

(۳۔)محمد صاحب سےجب لوگوں نے طرح بہ طرح معجز ے طلب کئے تھے تو یہ باتیں انہوں سے نے سچ مچ محمد صاحب کے روبرو کہی تھیں ۔ یا کہ صرف وحی نے بتلا یا تھا۔ کہ لوگ یوں کہتے ہیں اور تو یہ جواب دے ؟ سورہ یونس رکوع ٤سورہ رعد رکوع :١سورہ طہٓ رکوع ٨۔

(۴۔)محمد اور ان کے پیروؤں نے جو لڑائی میں زخم پائے تھے۔ گھبراؤ نہیں ، سورہ عمر ان رکوع ١٤ اور جنگ احد میں سچ مچ محمد صاحب کو شکست محسوس ہوئی تھی یا صرف فرشتے کی بتلائی بات تھی جو اسی سورہ کے رکوع ١٢ آیت ١٢١ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ اور اہل مکہ کے ساتھ جنگ و صلح کے تذکرے (سورہ فتح رکوع ٣) کیا محمدصاحب کے اپنے تجربہ کی باتیں نہ تھیں ۔ جن کی طرف وہ اپنے پیروؤں کی خاطر اچھی طرز پر اشارے کرتے ہیں۔ اور یا کہ وہ سب تجربےوحی کی باتیں ہیں۔

(٥۔)زید کی جو روز ینب پر عاشق ہونے اور اسکو اپنے نکاح میں لانے کا تذکرہ محمد صاحب کے اپنے تجربہ کی بات تھی یا کہ صرف وحی کی بات تھی کہ تم نے ایسی حرکت کی ہے اور محمد صاحب اس سے لاعلم تھے ۔ سورہ زخرب رکوع ١۔

(٦ ۔)شراب کی بابت لکھا ہے سورہ نحل رکوع ٩آیت٦٦ وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِوغیر ہ ، یعنی اور رمیووں سے کھجوروں اور انگوروں کے لیتے ہو تم اس سے مست کرنے والی چیزیں اور رزق اچھا ،الخ اب کیا شراب کی یہ خوبنی مثل اور لوگوں کے محمد صاحب کئے تجربہ میں آئی تھی یاکہ صرف وحی اس طرح کہہ گیا تھا۔ اور محمد صاحب کھجور اور انگور کے شراب کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ محمد صاحب ایک رواجی خوراک کا ذکر کرتے ہیں اور کتاب معازی الرسول واقدی سے ظاہر ہے کہ سرید القر وہ جس میں محمد صاحب نے زید بن حارث کو سوسوار کے ساتھ روانہ کرکے صفوان کا قافلہ معہ مال کثیر کے لٹوالیا تھا۔ اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ ہجرت سے ستائیسویں مہینے میں گذرا تھا۔ اس کے بیان میں واقدی ذکر کرتا ہے ۔ کہ اتفاقاً نعیم بن مسعووالا شجعی کہ وہ اپنی قوم کے دین پر تھا مدینہ کو گیا اور کنا نہ بن ابی الحقیق کے یہاں محلہ بنی النضیر میں مقیم ہو ا اور اس کے ساتھ بطریق مہمانی کے شراب پینے میں مشغول ہوا اور ان کے ساتھ سلیطہ بن النعمان بن اسلم بھی شریک تھے اور اس روز تک شراب حرام نہ ہوئی تھی۔ (صفحہ ١٤٤مطبوعہ اگست ١٨٧٤ءنو لکشور لکھنو ) پس محمد صاحب کے یہ تجربے اور مشاہدے اس وحی مانع ہیں جس کی طرف ان کو منسوب کیا گیا ہے۔

(٧ ۔)جلا ل الدین سیوطی کی کتاب تاریخ الخلفا کی ایک فصل میں ان باتوں کا بیان آیا ہے جن میں کلام خدا تعالیٰ نے حضرت عمر کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ ابن مرویہ سے روایت ہے کہ قرآن میں اکثر حضرت عمر کی رائیں موجود ہیں یعنی کلام الٰہی اکثر حضرت عمر کی رائے کے موافق نازل ہوا کرتا تھا۔ اور اس کثرت میں سے بیس مثالیں اس فصل میں درج کی گئی ہیں یہاں دیکھو حضرت عمر وحی کے بھی ہادی ٹھہرتے ہیں ۔ (ترجمہ اردو صفحہ ٦٦، ٦٤) پھراسی تاریخ کے صفحہ ٢٤، ٢٣ میں ان آیات کی مثالیں دی گئی ہیں جو حضرت ابو بکر و عمر و علی کی شان میں نازل ہوئی تھیں ۔ کیا حضرت محمد صاحب اپنے ان اصحابوں کے اوصاف سے خود ناواقف تھے۔ اور خود ہی ان کی تعریف نہیں کرسکتے تھے؟

حضرت عمر کی عادات میں ایک خوبی یہ تھی کہ یہودیوں کی حدیثیں سنا کرتے تھے۔ جیسا مشکوة زبع اوّل کتاب الایمان باب الا عتصام بالکتاب والسنتہ میں مذکورہے ۔

وعن جابر عن النبی ﷺ حین اتاہ عمر افقال انا نسمع احادیث من یہھود تعجبنا افتری ان تکتب بعضہا ۔ یعنی اور روایت ہے جابر سے انہوں نے نقل کی بنی ﷺ سے اس وقت کہ آئے ان کے پس عمر پس کہا تحقیق ہم سنتے ہیں حدیثیں یہودیوں کی اچھی لگتی ہیں ہم کو آیا پس دیکھتے ہو کہ لکھوں میں ان میں سے بعضی ، حضرت عمر کی یہ بات سنکر ناراضگی ظاہر کی تھی ۔ مگر درحقیقت حضرت عمر یہودیوں کی حدیثوں کو معلوم کرنے کا کیسا عمدہ ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ جن کی اکثر رائیں قرآن میں شامل کی گئی تھیں ۔ علاوہ اس کے وہ توریت بھی رکھتے تھے۔ جیسا کہ مشکوة کے باب مذکورہ میں ذکر آیا ہے۔ ان عمر بن الخطاب اتی رسول اﷲ ﷺ بنسختہ من التو را ة فقال یار سول اﷲ ھذہ نسختہ من التور اہ فسلت فجعل یقرءدوجہ رسول اﷲ ﷺ یتفیر فقال ابوبکر وغیر ہ ۔ یعنی تحقیق عمر بن الخطاب لائے پاس رسول اﷲ ﷺ کے نسخہ توریت کا پس کہا اے رسول خدا کے یہ ہی نسخہ توریت کا پس چپ رہے حضرت پس شروع کیا پڑھنا اور چہر ہ رسول خدا ﷺ کا متغیر ہوتا تھا۔ پس کہا ابوبکر نے گم کی جو تجھ کو گم کرنے والیاں کیا نہیں دیکھتے تم اس چیز کو کہ بیچ چہرہ رسول ﷺ کے پس دیکھا عمر نے طرف چہرہ آنحضرت ﷺ کے پس کہا پنا ہ پکڑتا ہوں ،میں ساتھ ا للہ کے غضب سے اور غضب رسول اس کے سے راضی ہوئے ہم ساتھ ا للہ کے رب ہونے پر اور ساتھ اسلام کے دین ہونے پر اور ساتھ محمد کے نبی ہونے پر پس فرمایا رسول خدا ﷺ نے قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جان محمد کی اس کے ہاتھ میں ہے اگر ظاہر ہوتے واسطے تمہارے موسیٰ پس پیروی کرتے تم ان کی اور چھوڑ دیتے تم مجھ کو البتہ گمراہ ہوتے تم سیدھی راہ سے ۔ اور اگر ہوتا موسٰی زندہ اور پاتا بنوت میری کو البتہ پیروی کرتا میری ، تعجب ہے کہ جس کتاب کی آپ تصدیق کرنے آئے تھے۔ اس کے پڑھنے اورسننے سے ایسی سخت ناراضگی اور پریشانی طاری ہوگئی ۔ توریت کی طرف حضرت عمر کی رغبت نظر آئی اور اندیشہ ہوا کہ شاید وہ ہم سے پھر جائے اس لئے اس قسم کے ظاہر مطالع سے ناراض ہوگئے ۔ اور یہ بھی اندیشہ گذرا ہو گا۔ کہ اوروں پر یہ بھید مطالع توریت کا ظاہر نہ ہو جائے ۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ توریت اور یہودیوں کی حدیثوں کے سننے اور جاننے والے آپ کے اصحابیوں میں تھے۔ اور ان کی رائیں قرآن میں درج کی گئی ہیں۔ وحی کے لئے کوئی راہ نظر نہیں آتی ۔

چھٹی گواہی : محمد صاحب کے نزدیکی رشتہ دار خدا اور اس کی کتابوں سے اور عیسائیوں کے قصوں سے واقف تھے اور انہوں نے آپ کو بہت کچھ بتلا یا تھا۔ مثلاً آپ کی بیوی خدیجہ اور اس کا چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل جو عیسائی تھا۔ امام بخاری کی حدیث سے یہ باتیں ثابت ہیں۔ غار حرا والے نظارہ کے بیان کے بعد روایت یہ ہے کہ ،

فانطلقت با خدیجہ حتی اتت بہ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العز ی ابن عم خدیجہ وکان امر اً تنصرفی الجاہلیت وکان یکتب الکتب العبر انی فیکب من الا نجیل بالعبرا انیتہ ماشاً اﷲ ان یکتب وکان شیخاً کبیرا قدعمی فقالت لہ خدیجہ یا ابن عم اسمع من ابن اخیک فقال ورقہ یاابن اخی ماذاتری فاخبرہ رسول اﷲ ﷺ خبر مار اے فقال لہ اے ورقتہ ھذا الناموس الذی نزل اﷲ علی موسیٰ ۔

یعنی پھر خدیجہ آپ کو ساتھ لیکر چلیں یہاں تک کہ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد الغری پاس جو خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے لائیں اور وہ ایک شخص تھے جو جاہلیت کے زمانہ میں عیسائی بن گئے تھے۔ اور وہ عبرانی زبان لکھنا جانتے تھے تو انجیل شریف میں سے جو اللہ ان سے لکھوانا چاہتا وہ عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ اور وہ بوڑھے ضعیف ہو کر اندھے ہو گئے خدیجہ نے ان سے کہا میرے چچا زاد بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بابت تو سنو ، ورقہ نے آپ سے کہا میرے بھتیجے کہو تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ نے جو دیکھا تھا۔ وہ ان سے بیان کر دیا تب تو ورقہ کہہ اٹھے یہ تو وہ (خداکا) ناموس ہے جس کو اللہ نے حضرت موسیٰ پر اتاراتھا( صحیح بخاری پہلا پارہ شروع)۔

اہل اسلام قید ایمانی کے سبب شاید ان خاص باتوں کا وزن نہیں کرتے جو اس حدیث میں آئی ہیں۔ مثلاً دیکھئے کہ محمد صاحب کو ہنوز اپنی رسالت کا یقین نہیں ہوا تھا۔ کہ ورقہ نے آپ کو خدا کے ناموس کا علم دیا ۔ آپ کو خدا پر ہنوز یقین نہیں ہواتھا۔ اور مارے ڈر کے کہتے تھے۔ لقد خثیت علے نفسی ، یعنی مجھے اپنی جان کا ڈر ہے تب خد یجہ نے کہا کلاواﷲ مایخزیک اﷲ ، یعنی قسم خدا کی اللہ تم کو کبھی رسو ا نہیں کریگا۔ آپ کی خدا پر ست بیوی آپکو خدا کا یقین دلاتی تھی۔ جس کی بابت آپ پہلے بھی سن چکے تھے اور پھر محمدصاحب پر ہنوز کوئی وحی اترنی شروع نہ ہوئی تھی کہ وہی ورقہ عربی میں ( اور عبرانی میں بھی ) انجیل لکھا کرتا تھا جیسا صحیح مسلم کتاب الا یمان میں آیا ہے وکان یکتب الکتاب العربی ویکتب من الانجیل ، یعنی اور عربی لکھنا جانتے تھے۔ تو انجیل کو عربی میں لکھتے تھے۔ اس سے مطلب یہ ہوگا ۔ کہ عربی میں انجیل کا ترجمہ کرتے تھے۔ پروفیسر دی ۔ ایس ۔ مارگو لیاتھ اپنی کتاب بنام محمد ٨  کے صفحہ ۴۲ میں لکھتے ہیں کہ "وہ انجیل جس کا ورقہ بن نوفل ترجمہ کرتا تھا غالباً وہ کتاب تھی جو انجیل طفولیت کہلاتی ہے اور بعد میں نبی کے بہت کام آئی تھی چونکہ قرآن کے بیان مسیح کی بابت اس انجیل کے موافق ہیں تو ضرور یہی انجیل تھی جس کا ورقہ ترجمہ کرتا تھا۔ اس کا احوال دوسرے مقدمہ میں آئے گا۔

اگر چہ قرآن میں اس کا صاف اقبال نہیں کیا ہے کہ اسکے مختلف مضامین کس کس گروہ سے معلوم کئے تھے۔ بلکہ اس بات کو فقط دعویٰ وحی سے دبانے کی کوشش ظاہر ہے تاہم عرب کی عام دینی حالت بھلی اور برُی معلومات کا ایک ظاہر ہ ذریعہ پڑا ہوا تھا۔ اور اس کے ساتھ محمد صاحب کے اصحابیوں کی راز داری اور رشتہ دراروں کے اعتقاد قرآنی معلومات کے لئے ایک خفیہ مگر کافی سبیل تھے۔


 ١  صحیح بخاری بیسواں پارہ ۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب جمع القرآن۔ صفحہ ۱۲۱، ۱۲۳۔

 ٢  ابراہام سے ٤٠٠ برس کے بعد مدیانیوں کا دین ایمان وہ تھا۔ جیسا موسیٰ کے سسر پترو نے کہا ”میں جانتا ہوں کہ یہوواہ سب معبودوں سے بڑا ہے۔ اور ایک سوختنی قربانی اور ذبیجہ خدا کے لئے لایا اور ہارون اور اسرائیل کے سب بزرگ موسیٰ کے سسرے کے ساتھ روٹی کھانے خدا کے آگے آئے ۔ (خروج ١٢,١١:١٠) اور انہیں دنوں میں تیرو کا یہ ایمان اور عمل پھر تازہ کیا گیا تھا “ ۔ جب موسیٰ نے سب کچھ اپنے سسر ے سے بیان کیا کہ خداوند نے اسرائیل کے لئے فرعون اور مشریوں سے یوں کیا وغیرہ (آیت ٨) بلکہ تیرو نے موسیٰ کی شریعت سکھلانے اور عدالت کرنے کے بارے میں انتظام کرنے کی عمدہ صلاح بھی دی جبکہ تیرو جیسا کاہن اپنے بموطنوں کا پیشوا تھا تو یہ سب باتیں اس اکیلے ہی کے ذریعہ مدیانیوں میں نسلا ً رواج پا سکتی تھی۔ لہذا اسمعٰیل یا ابراہام اور مو سیٰ کے حالات معلو م کرنے کے لئے بعد میں کسی عربی کا موقعہ دار دات پر حاضر ہونا کچھ ضروری نہیں تھا۔

 ٣  بنی یقطان کی سکونت کا پتہ پیدائش ٣٠:١٠ میں یہ دیا گیا ہے۔ اور ان کے امکان میسا سے سفاری کی راہ میں اور پورب کے پہاڑ تک تھے۔ زمانہ حال کی تحقیقات سے ثابت ہواہے ۔ کہ یہ مکان وہی تھے جو بعد میں یمن اور حجاز کہلائے دیکھو۔   Rawlinsoni’s, Origin of Nations,  Chapter vii.

 ٤    Arnold’s,  Islam and Christianity,  Chapter One   اور بھی دیکھو سیل صاحب انگریز ی ترجمہ قرآن ۔ دیباچہ فصل اوّل۔

 ٥  سلطان عماد الدین ابوالفد اسمعٰیل بن نصر عربوں کے درمیان ایک نامی مصنف ہوا ہے اس نے حامہ واقعہ سر یا میں سلطنت کی تھی ۔ ٦٧٢ ءہجری میں پیدا ہواتھا۔ اور ٧٣٢ ءہجری میں فوت ہوا۔ اس نے ایک کتاب جغرافیہ کی اور ایک مختصر تواریخ اپنے زمانہ تک کی تصنیف کی تھی   Dherbelot

 ٦  حج اور اس کی متعلقہ رسومات کی بابت امام بخاری اپنی حدیث صحیح بخاری میں بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں میں جاری تھے۔ (پارہ ششم ) ۔

 ٨    Heroes of the Nations Series.  Muhammad