تمہید

(الف)

اس دنیا میں اختلا ف مذہبی بہت ہے اور بعض اہل فکر دنیا کے مختلف زمانوں اور مختلف آب و ہوا اور مختلف ضروریات کے لحاظ سے اس اختلاف مذہبی کو ایک ضروری امر خیال کرتے ہیں۔ اور کل دنیا کے لئے فقط ایک مذہب ان کے نزدیک ایک نامعقول تحکم ہے ، مثلا ً کہا جاتا ہے۔ کہ موسیٰ اپنے زمانہ اور قوم کے لئے اچھا ہادی تھا۔ اور زرتشت اپنے زمانہ اور اپنی قوم کے لئے اچھا ریفار مر تھا۔ اسی طرح بد ھ اور مسیح اور محمد اپنے اپنے عہد میں تقلید کے لائق تھے۔ نانک پنجاب کے لئے مناسب تھا۔ جیسا زمانہ کسی قوم پر آیا اسکی حالت کے مطابق انتظام الٰہی سے کوئی نہ کوئی مناسب رہبر برپا ہوتا رہا ۔ ایک وقت محمد صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا۔ اور آپ اپنے تیئں اہل عرب کا ہادی قرار دینے لگے تھے۔

سورہ حج رکو ع ، ٩آیت ٢٨ لک امة ً جعلنا منسگا ہم نا سکوہ فلاینا زعنک فی الا مر۔

ہر فرقے ٹھہر ا دی ہے۔ ہم نے ایک راہ بندگی کی کہ وہ عبادت کرتے ہیں۔ اس کو پس نہ جھگڑیں تجھ سے بیچ حکم کے ، لیکن مشاہد ہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے حصوں میں ہم عصر یا یکے بعددیگر ے مذہبی ہادیوں کے برپا ہونے کا سبب یہ ہے کہ انسان ایک اخلاقی اور مذہبی وجود ہے ۔ مگر لوگو ں کو ہمیشہ یہ موقع نہ ملا کہ اپنے طریق کے ساتھ دیگر طریقوں کا مقابلہ کرکے معلوم کریں کہ اصل میں سچ کیا ہے۔ اور بعض جن کو موقع ملا بھی وہ اپنی خود غرضی یا جہالت کے سبب اسکو استعمال میں نہ لا سکے ۔ اور اپنی اپنی حدود خیالی میں محدود ہوتے گئے جس کو انجیل مقدس میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ خدانے اگلے زمانہ میں سب قوموں کو چھوڑ دیا کہ اپنی اپنی راہ پر چلیں ۔ (اعمال ١٦.١٤ ) اور بجائے خود یہ پکار کرتی ہے کہ ” ساری باتو ں کو آزماؤ جو اچھی ہو اسے پکڑے رہو“۔ (۱ تسلونقییوں ٢١.٥ اور یوحنا ١.٤اور افسیوں ١٠.٥اور متی ١٦.١٥)۔ اور اب انتظام الٰہی سے روشنی کا اور عقل اور ضمیر کی آزادگی کا زمانہ آیا ہے۔ اور ہر ایک آدمی دیگر مذاہب کا احوال معلوم کر سکتا ہے اور اس صداقت کو سمجھ سکتا ہے کہ خدا سچا ہے اور متناقض مکاشفے نہیں دے سکتا ۔ اور اس لئے دنیا کے سارے مذاہب سچے نہیں ہو سکتے ۔ا ور ان سب کو خدا کی طرف سے کہو تو ان میں سے ایک بھی سچا نہیں اور اگر فقط کسی ایک کو سچا اور الٰہی مکاشفہ کہا جائے تو باقی سب باطل ماننے پڑینگے کیونکہ خدا جھوٹ اور تناقض کا بانی نہیں ہے۔ دیگر مذاہب سے طرح دے کے ہم اس رسالہ میں صرف انجیل اور قرآن کے مذاہب کا مقابلہ کرینگے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کس کی پیروی فرض اور فائدہ مندی ہے ۔

قرآن عربی زبان میں وہ کتاب ہے جو انجیل سے قریباً چھ سو برس بعد عرب میں مرتب ہوئی تھی ۔ اس نے توریت اور انجیل کے ساتھ اپنا بہت تعلق جتایا ہے ۔ ا س حال میں جس طرح مسلمان قرآن کی حمائت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ہم اہل کتاب یہی حق رکھتے ہیں کہ اس کی باتو ں کا وزن کریں۔ قرآن اور محمد کی بابت ہمارے تقاضے خواہ مخواہ کے جھگڑے نہیں ہیں۔ بلکہ توریت اور انجیل اور قرآن کی رو سے ہم فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں چنانچہ ۔

توریت کا بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ ” وہ بنی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ بنی قتل کیا جائے ۔ تو جان رکھ کہ جب بنی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی بلکہ اس بنی نے گستاخی کی ہے تو اس سے مت ڈر (استثنا ٢٢,٢٠:١٨) ۔

انجیل کو حکم عیسائیوں کو یہ کہ جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہو ۔ ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچانو گے ۔ (متی ١٦,١٥:٧) ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں نہیں (١یوحنا ١:٤) اور جو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں (آیت ٣.٢) ۔

قرآن کا حکم یہ ہے ، سورہ یونس رکوع ١٠آیت ٩٤۔

فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

ترجمہ:یعنی پس اگر تو شک میں ہے اس چیز سے کہ نازل کی ہم نے تیری طرف پس سوال کر ان لوگو ں سے جو پڑھتے ہیں کتاب تجھ سے پہلے تحقیق آیا ہے ۔ تیر ے پاس حق تیر ے رب سے اور نہ ہو شک لانے والوں میں سے ، اور بھی سورہ شعرار رکو ع ١١آیت ١٩٢،ان سے سندات سے ظاہر ہے کہ اہل کتاب کا حق ہے کہ قرآن کی بابت رائے دیں۔ اور

قرآن میں جو رشتہ اپنا تو ریت اور انجیل کے ساتھ جتایا گیا ہے اس کی کیفیت حسب ذیل ہے :

پہلا رشتہ ۔ اگلی کتابوں پر ایمان ، سورہ بقرر رکوع ١٦آیت ١٣٦۔

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

ترجمہ:یعنی کہو ایمان لائے ہم اللہ پر اور جو کچھ اتاری گئی ہماری طرف اور جو کچھ اتاری گئی طرف ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق کے اور یعقوب کے اور اسکی اولاد کے ، اور جو کچھ دی گئی موسیٰ کو اور عیسیٰ کو اور جو کچھ دی گئی پیغمبر وں کو ان کے رب سے ، نہیں فرق کرتے درمیان کسی کے اور ہم اسی کے مطیع ہیں۔

دوسرا رشتہ ۔ قرآن توریت اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ اور اس لئے خود بھی سچا ہے ۔ سورہ یونس رکو ع ٤آیت ٣٨۔

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ:اورنہیں ہے یہ قرآن کہ بنا لیا جائے سوائے اللہ کے وہ لیکن سچا کرنے والا ہے اس چیز کا کہ اس سے آگے ہے اور تفصیل کرنے والا ہے اس کتاب کی جس میں شبہ نہیں رب العالمین سے، اور بھی دیکھو سورہ بقرررکوع ١١۔سورہ عمران رکوع پہلا ۔ سورہ یوسف آخری آیت ۔

تیسرا رشتہ ۔ قرآن اہل کتاب کے لئے توریت اور انجیل پر عمل کرنا واجب ٹھہراتا ہے ۔ کیونکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ سورہ مائدہ رکو ع ٧آیت ۴۶۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ:یعنی اور پچھاڑی بھیجا ہم نے ان کے پیروں پر عیسیٰ بیٹے مریم کو سچا کرنے والا اس چیز کو جو اس کے آگے تھی یعنی توریت اور دی ہم نے اس کو انجیل اس میں ہدایت اور روشنی ہے اور سچا کرنے والی اس چیز کو کہ اس کے آگے تھی یعنی توریت اور ہدایت اور نصیحت واسطے پرہیز گاروں کو اور چاہئے کہ حکم کریں اہل انجیل ساتھ اس چیز کے اتاری ہے اللہ نے اس میں اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کی نازل کی ہوئی چیز پر پس وہ لوگ فاسق ہیں۔ پھر یہی مضمون رکو ع ١٠آیت ٧٢میں پایا جاتا ہے۔

ان مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن نے توریت اور انجیل کے ساتھ اپنا بہت نزدیکی رشتہ بتلا یا ہے اور محمد صاحب ایک مسیحی کی طرح توریت اور انجیل کے حامی نظر آتے ہیں خوب ہوتا اگر یہی صورت قائم رہتی مگر قائم نہ رہی کیونکہ باوجود ایسے ایمان اور تصدیق اور تاکید عمل کے کچھ وقفہ کے بعد آپ نے اپنے وطن کے کعبہ والا دین پسند کیا اور اس کو دین ابراہیم کے متعلق قرار دیکر یہ جتایا کہ۔

سورہ بقررہ رکوع ١٦آیت ١٣٥:

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ

ترجمہ:یعنی اور کہا انہوں نے ہو جاو یہود یا عیسائی راہ پاوتم۔ کہہ بلکہ ہم ہیں دین ابراہیم حنیف پر ۔ سورہ نحل رکو ع ١٦ آیت ۱۲۳۔

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ ۔ یعنی پھر وحی کی ہم نے تیری طرف کہ پیروی کر دین ابراہیم حنیف کی اور وہ نہیں تھا۔ شرک کرنے والوں سے۔

اگرمحمد صاحب کے مشاہدہ میں یہود اور عیسا ئی شرک کرتے نظر آتے تھے۔ اور انکی کتابوں توریت اور انجیل میں شرک نہیں تھا تو آپ کو ان کی کتابوں سے لپٹے رہنا چاہئے تھا ۔ اور پیروں کی غیر باتوں کے سبب ان کتابوں اور ان کے دین کو چھوڑ دینا واجب نہیں تھا۔ جن پر آپ نے اپنا ایمان بڑے شوق سے ظاہر کیا تھا۔ لہذا جدائی کی یہ کوئی پختہ وجہ نہ تھی اور ایسا کرنے سے آپ نے کا وہ ایمان مردہ ایمان ہو گیا ۔ امام بخاری صاحب اپنی حدیث میں اس علیحدگی کی ایک اور ہی وجہ بیان کرتے ہیں ۔ کہ کتاب والے (یہود ) توریت کو عبرانی میں پڑھتے اور عربی میں ترجمہ کر کے مسلمانوں کو سمجھاتے ۔ آنحضرت ﷺنے فرما یا اہل کتاب کو نہ سچا کہو نہ جھوٹا ۔ یوں کہو کہ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اترا (یعنی قرآن پر ) اور اس پر جو تم پر اترا (توریت وغیرہ ) اخیر تک جو سورہ بقر میں ہے ۔ ابن عباس نے کہا تم اہل کتا ب (یہود و نصاری ) سے کیا پوچھتے ہو تمہاری کتا ب تو ابھی نئ اللہ کے پاس سے اتری ہے تم خالص اس کو پڑھتے ہو اس میں کچھ ملونی نہیں ہوئی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم سے فرمایا ہے کہ کتاب والو ں نے اپنا دین بدل ڈالا اور وہ اپنے ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے تھے   ١۔   پھر کہتے تھے یہ اللہ کے پاس سے اتری ہے ۔ان کامطلب یہ تھا کہ دنیا کا تھوڑا سا مول کمالیں۔ لیکن دیکھو تم کو جو اللہ نے علم دیا (قرآن اور حدیث ) اس میں اس کی ممانعت ہے کہ تم اہل کتاب سے (دین کی باتیں ) پوچھو۔

(صحیح بخاری پارہ تیس کتاب الا عتصام صفحہ ١٧.١٦ترجمہ مولو ي وحید الزمان )۔

یہ بڑے بھاری الزام ہیں اور ازاں موجب علیحدگی بھی کچھ چھوٹا سا کام نہیں ہے ۔ بہ نظر اولا تویہ نہایت مناسب اور سنجیدہ قدم معلوم ہوتا ہے مگر اس الزام اور علیحدگی کی اوٹ میں ایک اور بھید ہے جس کو ظاہر کرنا ہم سعادت جانتے ہیں اور جس سے یہ الزام اور علیحدگی بالکل ناجائز ثابت ہو گی ۔ اور وہ بھید یہ ہے کہ وحی قرآن نے اگرچہ اپنے تئیں توریت اور انجیل کا ایماندار اور مصد ق جتایا تو بھی اپنی بنیاد زمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں اور یہودیوں اور عیسائیوں کی غیر الہامی حدیثوں اور عیسائی بدعتیوں کے خیالوں پر قائم کی اور کہلایا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا ہے اور عربوں کے کعبہ والا دین ابراہیم جاری کرنے کے محمد صاحب روپے ہوئے ۔ اور اسکو مستندٹھہرانے کے لئے آپ کو وحی کا دعوی کرنا پڑا تھا۔ مگر وحی کئے جانے کے ثبوت میں آپ وہی قصے اور دستور سنا تے رہے ۔ جو یہودیوں اور عیسائیوں اور عربوں میں الہامی کتابوں کے علاوہ رائج تھے اور ان کی مدد سے آپ یوں استدلا ل کرتے تھے۔ کہ یہ قرآن اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ قرآنی باتیں ضرور وحی کی معرفت دی گئی تھیں ۔ کیونکہ آپ ان کے موقعہ واردات پر موجود نہ تھے۔ جیسے یوسف کا قصہ بیان کرکے سورہ یوسف رکوع ١١کے آخر میں لکھا ہے کہ ”یہ خبرحں غیب سے ہیں کہ وحی کرتے ہیں۔ ہم تیری طرف اور توان کے نزدیک نہیں تھا۔ حالانکہ یوسف کا احوال توریت اور یہودیوں کی طالمود میں مفصل موجود تھا اور کوئی غیب کی بات نہ تھی ۔ اس حال میں اگر مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی بات پوچھتے اور وہ ان کو بتلاتے کہ فلاں بات یوں نہیں یوں ہے اور قرآن کے مبداءکا بھید معلوم کرتے جو اکثر جہلا عرب کو معلوم نہ تھا۔ تو اندیشہ تھا کہ وہ قرآن کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس لئے علیحدگی اور ممانعت مذکورہ بالا بڑی مصلحت آمیز تھی ، کیونکہ محض ضد کے سبب تھی ضد کے سبب اس لئے کہتا ہوں کہ یہود اور عیسائی قرآن کو نہیںمانتے تھے۔پس اگر ثابت ہو کہ ۔

(۱۔)قرآن مروجہ کے مضامین یہودیوں اور بدعتی عیسائیوں کے قصوں اور خیالوں کے اور زمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں کے نہ صرف مشابہ بلکہ وہی ہےں۔ اور توریت اور انجیل کے مضامین کے مشابہ نہیں ہیں جن کو خد اکی طرف سے اور سچا مانا گیا ہے تو کیا وحی کی مداخلت مانی جاسکتی ہے؟

(۲۔)قرآن مروجہ کے مضامین بموجب دعویٰ قرآن تو ریت اور انجیل کی تصد یق کرنے والے ہیں یعنی ان کے مطابق ہونے چاہئے حالانکہ مطابق نہیں بلکہ بر خلاف ہیں تو کیا اس سے قرآن کا اعتبار ضائع نہیں ہوتا ؟

(۳۔)اگر سچ مچ تصد یق کی جاتی یعنی اگر قرآن کے مضامین تواریخی اور اخلاقی اگلی کتابوں کے مشابہ ہوتے تو اپنا ایک جدادین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ کیونکہ اس صورت میں قرآن والے مضامین توریت اور انجیل کی موجودگی میں دنیا کے لئے کیا خاص فائد ہ رکھتے جو توریت اور انجیل کو قائم رکھنے سے حاصل نہ ہوتا؟

اس رسالہ انجیل اور قرآن میں ہم دین کے ضروری اور مقدم مضامین کو سامنے رکھ کر یہ کل مقدمہ تحقیق کرینگے تا کہ محمدی برادران کو بھی اس زمانہ میں توریت اور انجیل پر قائم ہو جانے کی راہ نظر آجائے ۔ کیونکہ اب سختی کا زمانہ نہیں ہے۔

(ب)

تمہید کے ماقبل حصہ میں ہم نے توریت اور انجیل کے حق میں قرآن سے چند حوالے جو پیش کئے ہیں۔ وہ اس غرض سے نہیں کئے کہ قرآن کے کہنے سے وہ کتابیں کلام اللہ ٹھہرتی ہیں بلکہ صرف مسلمانوں کی خاصر ایسا کیا ہے ۔ قرآن کی گواہی البتہ مسلمانوں پر زور رکھتی ہے الاہم اہل کتاب کو اسکی پر واہ نہیں ہو سکتی کیونکہ توریت اور انجیل محمد صاحب سے سینکڑوں برس پہلے یہودیوں اور عیسائیوں میں الہامی مانی جاتی رہی تھیں ۔ خدا نے انسان کو دینداری اور عرفان الٰہی میں قائم رکھنے کے لئے بنی آدمی کے درمیان اپنے واقعی تعلقات کو لوگوں کی زبانی روائتوں کے آسرے پر نہ چھوڑ دیا تھا بلکہ ان کا ایک دفتر اپنے نبیوں کی معرفت دیا تاکہ وہ مستند مرجع رہے۔ چنانچہ موسیٰ جس کی معرفت توریت دی گئی تھی لکھتا ہے۔ کہ خداوند نے موسیٰ سے کہا اب تو جا اور میں تیری بات کے ساتھ ہوں اور جو کچھ تو کہیگا ۔ تجھکو سکھلا ونگا(خروج ١٢,١١:٤ )۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یاد گاری کے لئے اسے کتاب میں لکھ رکھا ۔ (خروج ١٤:١٧) اور نبیوں کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں کو کرنڈ سا بنایا تا کہ شریعت کو اور ان پیغاموں کو جنہیں رب الا فواج نے اگلے نبیوں کی معرفت اپنی روح سے بھیجا تھا نہ سنیں ، وغیرہ (زکریا ١٢:٧)۔

سیدنا مسیح نے توریت اور زبور انبیاءکی تصدیق کی کہ انکے پاس موسٰی اور انبیاءتو ہیں ان کی سنیں۔ (لوقا ٢٩:١٦اور بھی لوقا ٤٤,٢٧:٢٤)اور خداوند کے رسول بھی یہی ایمان رکھتے تھے۔(٢پطرس ٢١,٢٠:١)پھر سیدنا مسیح کی اپنی زندگی کی تواریخ بھی انسانی روایتوں کے بس میں نہ چھوڑی گئی تھی بلکہ چشم دید گواہوں نے روح القد س کی تاثیر سے اس کو قلم بند کیا ۔ وہ زندگی ایک الٰہی مکاشفہ تھی ۔ چنانچہ خداوند نے فرمایا تھا کہ ”یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے“ ۔ میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس سے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا۔ وہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔ (یوحنا ٢٦,٢٥,١٠:١٤) اورجب روح القد س تم پر نازل ہوگا تو تم تم قوت پاو گے اور زمین کی حد تک میرے گواہ ہو گے (اعمال ٨:١)اس وجہ سے کُل انجیل جو رسولوں نے قلم بند کی وہی ہے جو سیدنا مسیح نے ان کو دی تھی اور جس کو سیکھنے اور یاد رکھنے کے لئے روح القد س کی مد د کا وعدہ فرمایا تھا۔ یاد رہے کہ انجیل سیدنا مسیح اور اس کے کلام اور کام کانام ہے ۔ جیسے مرقس حواری لکھتا ہے کہ خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی انجیل کا شروع (مرقس ١:١) اور یوحنا رسول لکھتا ہے کہ ”یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں گواہی دیتا ہے اور جس نے ان کو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسکی گواہی سچی ہے “ (یوحنا ٢٤:٢١) اسی انجیل کی بابت پولوس رسول لکھتا ہے کہ ”اگر ہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ اس انجیل کے سوا جو ہم نے تمہیں سنائی کوئی اور انجیل تمہیں سنائے تو ملعون ہوئے“۔(گلتیوں ٨:١) وہی انجیل عیسائیوں کے درمیان محمد صاحب کے زمانہ میں مروج تھی ۔ اور جس کو انہوں نے بھی خدا کی طرف سے مانا اور علیی الحساب کہلایا تھا۔ کہ انجیل عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی۔ گو اسکو کبھی پڑھا نہیں تھا اور اسلئے تصدیق بھی برائے نام ہوئی تھی۔

یہ بھی جان لینا چاہئے کہ توریت اور انجیل میں ایک خاص رشتہ بتلایا گیا ہے جو زائل نہیں ہو سکتا جس کا سیدنا مسیح نے یوں اظہار کیا کہ ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ (متی ١٧:٥) اور بھی (لوقا ٤٤:٢٤اور متی ١٢:٧اور ٤٠:٢٢) اس تکمیل کا احوال انجیل ہے اور یہی سبب ہے کہ عیسائیوں نے کبھی توریت اور زبور اور نبیوں کی کتابوں کو جدا نہیں کیا اور ان کی تلاوت نہیں چھوڑی ۔ مقابلہ کرو ۲ تمتھیس ١٧,١٥:٣۔انجیل نے اپنے تیئں عہد عتیق کی بنا پر قائم کیا ہے کیونکہ وہ خداوند سچے کا کلام ہے او ریہودیوں کی حدیثوں اور بناوٹی دستوروں کو دور کیا ہے کیونکہ وہ انسان کے احکام تھے ۔ (متی ٩,٦:١٥)ان سب باتوں کی کیفیت بھی رسالہ ہذا میں ظاہر کی جائے گی ۔


 ١  کسی کا تب توریت کی نقل کرتے دیکھا اور گمان کر لیا کہ خود لکھ کر اس اﷲ کی کتاب کہہ دیگا۔ اس وقت قرآن کی نقلیں کر نے کا موقعہ نہ پہنچا ہو گا۔ اور اس لئے اوروں کے حق میں ایسا ناجائز گمان کیا ۔ اور الزام دیا کہ ایسا کرنے سے کتاب والوں نے اپنا دین بدل ڈالا ۔