مسیح کی بیگناہی کا بیان

پہلا باب

مسیح کی بیگناہی کا عقیدہ دین مسیحی کے واسطے ضرور ہے

جیسا مسیحی دین اپنے بانی پر موقوف ہے ویسا اور کوئی مذہب اپنے بانی پر موقوف نہیں۔ اس سبب سے اس کے بانی کی بیگناہی ثابت کرنی اور سب مذہبوں کے بانیوں کی بیگناہی ثابت کرنے سے نہائت ہی زیادہ ضرور ہے۔ ہندو مذہب کا بانی تو کوئی ہے نہیں۔رہے رشی اور منی سو اگر ان کے چال چلن کا حال ٹھیک ٹھیک معلوم بھی ہوتا تو بھی ہندو  مذہب کی خوبی یا برائی اس سے ثابت نہ ہوتی۔ گو وہ لوگ اس سے تو بہت خوش ہو سکتے ہیں کہ ہمارا ساکی سنی ایسا نیک اور حلیم اور نرم دل آدمی تھا۔ مگر وہ یہ کبھی خیال  نہیں کرتے کہ ہمارے مذہب کی سچائی اس بات پر موقوف ہے۔ اگر کوئی راجا رام موہن رائے یا بایوکیشب چندر سین پر عیب لگاتا تو البتہ برہمن لوگ برا مانتے لیکن ان میں عیب ثابت ہونے پر بھی ان کا ایمان نہیں جاتا رہتا۔ محمد صاحب کی بے رحمی اور شہوت پرستی سے البتہ یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص حقیقت میں خدا کا رسول ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر صرف یہی دلیل ہوتی تو شاید اسلام کے رد کرنے کے لئے کافی نہ سمجھی جاتی۔ چنانچہ ہزاروں مسلمانوں کے خیالوں میں یہ بات اسلام کے باطل ہونے کے لئے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی ہے۔

حضرت موسیٰ کا مزاج اور چال چلن البتہ بہت غور کے ساتھ پڑھنے اور کوشش کے ساتھ پیروی کرنے کے لالق ہے۔ مگر اس بات پر ان کی شریعت کی سچائی موقوف نہیں سمجھی جاتی کیونکہ وہ جو ایک خاص موقع پر گناہ میں پڑے اس سے نہ بائبل میں ان کی جاری کی ہوئی شریعت کی نسبت کبھی شک ہوا اور نہ یہودیوں کے خیالوں میں۔ لیکن مسیحی دین کا حال بالکل اور ہے۔ مسیحی دین کی ماہیت نہ کوئی عقیدہ ہے اور نہ چال چلن یا عبادت کے قواعد ہیں بلکہ ایک شخص کے ساتھ مقاربت رکھنی اور اس کے سبب زندہ ہونا اور اس کے لئے زندگی گزارنی ہے۔ اور یہہ شخص اس دین کا بانی ہے۔ اس کا بانی اس کی بنا بھی ہے۔ وہ نہ صرف اس کا جاری کرنے والا ہے بلکہ اس کا چشمہ اور اس کا مقصد بھی ہے۔ وہی نجات دہندہ ہے اور وہی منصف ہے جس کا ذکر اس دین میں ہے۔ اس سبب سے مسیحی دین اپنے بانی کی کیفیت پر بالکل موقوف ہے۔ ساکی منی یا موسی یا رام موہن رائے گنہگار ثابت ہوں تو ہوں اس سے ان کے مذہبوں کا کچھ نقصان نہ ہوگا لیکن اگر یسوع مسیح گنہگار ثابت ہو تو اس کا دین بالکل جڑ سے اکھڑ جائیگا اور جتنا وہ دعوی کرے وہ بالکل ہو گا بلکہ سننے کے بھی قابل نہ ہو گا کیونکہ اور سب مذہبوں کے بانی آئے سکھاتے رہے اور چلے گئے لیکن یسوع مسیح اپنے دین کے عقیدے کے موافق جتنا ہے اور اپنے سب پیروں کے ایمان اور امید کا ملجاوماواہے اور پھر آکر سب آدمیوں کی عدالت خاص کر اسی مقدمہ میں کر یگا کہ وہ اس سے کیا علاقہ رکھتے ہیں اور اس کے نزدیک کیسے ٹھہرتے ہیں۔

دوسرا باب

بیگناہی کی ماہیت

بیگناہی سے یہ مراد نہیں ہے کہ گناہ کرنا ممکن نہ ہو۔ بلکہ جہاں گناہ کا امکان ہے صرف وہیں بیگناہی کا ذکر ہو سکتا ہے۔خدا بیگناہ نہیں کہلاتا اس واسطے کہ وہ بدی سے بالکل الگ ہے اور بدی کے باب میں کوئی اس کی آزمائش بھی نہیں کر سکتا لیکن آدمی میں بالذات گناہ کا امکان ہے اور اس واسطے اس میں بیگنا ہی کایہی امکان ہے جو آدمی با وجود ان ترغیبوں کے گناہ نہیں کرتا جن کے سبب اکثر لوگ گناہ میں پڑ جاتے ہیں وہ بیگناہ ٹھہرتا ہے۔

اگرچہ لفظ بیگناہی بصورت نفی ہے مگر پھر بھی بیگناہی کی صفت محض نفی نہیں اور جہاں محض نفی مقصود ہو وہاں لفظ بے عیبی کا استعمال بہتر ہو گا۔ لیکن جس شحض میں گناہ نہیں ہے اس میں وہ حقیقت ہونی چاہیے جو گناہ کے بر خلاف ہے یعنی جو گنا ہ  سے آزاد ہے وہ راستبای کا تابعدار ہو گا ۔اگر فرض کیا جائے کہ آدم کی پیدائش کے وقت بیگناہی محض صفت نفی تھی تاہم اس وقت کہ دنیا خراب ہو گئی ہے اور گناہ اس میں حکومت کرتا ہے بیگناہی محض صفت نفی نہیں ہو سکتی۔ اب بیگناہی کے واسطے صرف گناہ سے محفوظ رہنا کافی نہیں ہے بلکہ گناہ سے سخت اور متواتر مخالفت رکھی بھی لازم اور یہ مخالفت خالص معصوموں کا کام نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے دل راستبازی اورپاکی کے محکوم ہو گئے ہیں۔

پس چونکہ گناہ شریعت کی مخالفت ٹھہری ہے اس لئے بیگناہی شریعت کے سارے احکام کی پوری تابعداری ہے ۔خواہ اندرونی خواہ بیرونی فعلوں یا حالتوں سے منسوب ہوں۔ دوسرے چونکہ گناہ خدا کی نافرمانی ہے اس لئے بیگناہی کامل دنیداری اور خدا کی فرماں برداری ہوگی۔ تیسرے چونکہ گناہ خدا کی محبت کو چھوڑنا اور خود غرض رہتا ہے اس لئے بیگناہی یہ ہو گی کہ خدا سے کامل محبت رکھی جائے اور انسان کی ذات اور اس کے افعال بالکل اسکی اطاعت میں صرف ہوں۔

مسیح کی بیگناہی واقعی اسی طرح کی ہے۔

اس عقیدہ کا ثبوت اس طرح نہیں ہو سکتا جس طرح علم ریاضی کےنتیجوں کا ہوتا ہے یعنی ایسا ثابت نہیں ہوتا کہ خواہ مخواہ ہر ایک شحض کی عقل اس کو بالضرورمان لے۔ بلکہ کوئی دینی عقیدہ بھی اس طرح ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جہاں شک نہیں وہاں ایمان کی بھی ضرورت نہیں سارے نیک شخصوں کی نیکی سے انکار کرنا ممکن ہے اور اگر کوئی نیک کام سب پر روشن بھی ہو۔ تاہم جس غرض سے وہ کیا گیا اس کے نیک ہو نے سے انکار کرنا ممکن ہے۔ اور یہی مسیح کی بھی بیگناہی کا حال ہے اس کے ماننے کے واسطے یہ ضرور ہے کہ ہم بھی بیگناہی کی طرف مائل اور اس کے مشاق ہوں۔ کیونکہ اسی طرح سے ہم مسیح کے گویا یک دل ہو کر اس کے خیالات اور افعال اور کلمات بخوبی سمجھ سکیں گئے۔

تیسرا باب

بیگناہی کے خیال کے موجود ہونے سے مسیح کی بیگناہی ثابت ہے

وہ قعاات ہیں جن کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ جب سے مسیحی دین دنیا میں پھیلنے لگا اور جہاں تک  وہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس وقت سے اور وہاں تک یعنی مسیح کے سب پیرؤں میں بیگناہی کا خیال اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ ان کے دلوں میں بھی بہت ہی ہوتا ہے اور ان کی زبانوں پر بھی بیگناہی کا لفظ بہت آتا ہے۔ سب مسیحی لوگ دو باتوں میں بالکل متفق ہیں اور متفق بھی ایسے کہ از خود ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا مرشد  جب زمین پر تھا تو بیگناہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جس نجات کے ہم آرزو مند اور امیدوارہیں اسکی خاص خوبی یہ ہو گی کہ ہم بیگناہ ہوں اور ان دونوں باتوں کو ابتداہی سے تمام قوموں اور ملکوں کے مسیحی لوگ کامل یقین کے ساتھ مانتے رہے ہیں۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مسیحی دین کے پیدا ہونے سے پیشتر اور اسکے کسی خاص ملک میں  پھیلنے سے پہلے بیگناہی کا خیال دنیا میں یا ایسے خاص ملک میں نہایت ہی کم تھا اور جہاں وہ خیال تھا وہاں  بھی یہ خیال نہ تھا کہ کوئی آدمی بیگناہ ہے یا پہلے کبھی تھا۔ بلکہ بیگناہ ہونے کے امکان میں بھی شک ہوتا تھا۔ ہاں البتہ (یسعیاہ۵۳: ۹) میں لکھا ہے کہ ‘‘اس نے کسی طرح کا ظلم نہیں کیا اور اس کے منہ میں ہر گز چھل نہ تھا’’ اور چونکہ سب طرح کے گناہ یا تو خبر کے سبب سے ہوتے ہیں یا فریب کے سبب سے۔ اس لئے اس آیت سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جس کا ذکر اس میں ہے وہ بیگناہ تھا۔ لیکن یہ آیت خاص الہام سے لکھی گئی ہے۔ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایسا خیال ازخود نبی اسرائیل کے دلوں میں کبھی پیدا ہوا ہو۔ برعکس اس کے یہ آیت اسی مسیح کی نسبت پیشگوئی ہے جس کی بیگناہی ہم ثابت  کرنی چاہتے ہیں۔

اب یہ دریافت کرنا ہو گا کہ یونانیوں اور رومیوں میں یہ خیال کس قدراور کس طرح کا تھا یونانی لفظ   ان مارتت(بیگناہ) اور ان مارتیسیا (بیگناہی) بہت پرانے تو ہیں۔لیکن ان کے معنی صرف ستوتک  فیلسونوں میں ٹھیک بیگناہ اور بیگناہی ٹھہرے ہیں۔ اس فرتے سے پہلے ان لفظوں کے معنی کہیں غلطی سے آزاد کہیں پاکد امن کہیں کوئی اور ظاہری بے عیبی کے تھے ۔ جن میں گناہ کا حقیقی خیال نہیں آتا تھا۔ ستوتک فیلسونوں میں البتہ ان لفظوں کے معنی ہمارے مطلب کے  بہت نزدیک لئے گئے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معنی مسیح سے پیشتر مستعمل نہ تھے۔ بلکہ صرف ایک تیتس کی تصنیفات میں پائے جاتے ہیں اور شحض پہلی صدی کے آخر میں روما میں رہتا تھا اور اس وقت مسیحی دین نے روما کے باشندوں میں بڑی تا ثیر کی تھی۔ پھر دی اگنشیس لائر  تیس نے اپنی کتاب میں ان لفظوں کا اس معنی میں استعمال کیا اور یہ مصنف تیسری صدی کے شروع میں گزراہے۔

لیکن ان لفظوں سے قطع نظر کر کے ہمیں بیگناہی کے خیال کا بیان  کرنا چاہیے ۔

۱۔ افلاطوں کی کتاب میں راستباز آدمی کی تصریف

افلاطون نے اپنی کتاب ‘‘سلطنت جمہوری’’ افلاطون کی کتاب میں کے ایک مشہور مقام میں راستباز آدمی کی اس طرح تعریف کی ہے کہ ‘‘وہ لو گوں کی نظروں میں نیک ہونا نہیں چاہتا  بلکہ فی الحقیقت نیک ہونا چاہتا ہے اور اس کی راستبازی اسی حال میں حقیقی ثابت ہوگی جب کہ وہ دنیا میں ناراست معلوم ہو۔ اور اس سبب سے وہ بہت ستایا جائیگا اور نہایت دکھ پا کر آخر پھانسی دیا جائیگا۔ لیکن وہ مرتے دم تک اپنی راستبازی پر قائم رہیگا’’ مگر اس بیان میں دو نقص ہیں ایک تو یہ کہ ایک ہی طرح کی بیگناہی یعنی راستبازی کا ذکر ہے دوسرے یہ کہ یہ تمام بیان محض خیالی ہے یعنی افلاطون نے یہ کہیں نہیں کہا کہ ایسا راستباز آدمی کبھی تھا یا ہے یا ہو گا۔

۲۔سقراط کی سیرت ۔

اگر یونانیوں میں کوئی آدمی بیگناہ تھا تو سقراط تھا ۔ اور کسنفون نے جو ایک مشہور مؤرخ گزرا ہے اس کی سیرت کے بیان میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ کسی نے کبھی سقراط کو کوئی بے دنیی یا بے ایمانی کاکام کرتے نہیں دیکھا اور نہ اس کے منہ سے ایسی بات سنی۔ لیکن ایک تو کسنفون کی کتاب کی صحت میں بہت علما شک کرتے ہیں۔ دوسرے ورقرقے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سقراط کے اسی سلوک کا ذکر ہے جو وہ اپنے شہروالوں سے برملارکھتا تھا۔ تیسرے سقراط کی کوئی گواہی جو اس نے اپنی نسبت دی ہو موجود نہیں۔ بلکہ وہ جو ہمشہ یہ کہتا تھا کہ وائمن مجھے سمجھاتا ہے کہ فلاں فلاں کام مت کر اس سے ظاہر ہے کہ اپنے تئیں بدی کی چرف مائل جانتا تھا۔

۳۔سیسرو  کا خیال ۔

سیسرو جو مسیح سے پیشتر پچھلی صدی میں گزار ہے۔ افلاطون اور سقراط کے برابر تو  فلاسفر نہ تھا۔ مگر اس نے اپنے سے پیشتر کے سب فیلسونوں کی کتابیں دیکھ کر ان کے مطالب پر بخوبی غور کی  تھی۔ اس نے اپنی ایک کتاب تھسکیولن ڈسپیوکیشن میں لکھا ہے کہ ‘‘کامل درجہ کا دانا آدمی میں نے تو کبھی نہیں دیکھا لیکن اگر فیلسوفوں کا یہ دعوے ہے کہ ایسا آدمی کسی زمانہ میں ہو گا۔ تو ان کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کس قسم کا شحض ہو گا ۔ یہاں دانا سے مراد وہ آدمی ہے جو اپنی سب خواہشوں کو ضبط کر سکے  اور اس مقام پر خاص اسی کا ذکر ہے جوروکی کامل طور پر برداشت کر سکے۔ کیونکہ سب قوموں  میں سے خاص کر رومی لوگ اور سب فرقوں میں سے خاص  کر ستوئک فرقے  کے لوگ اس بات کو بڑا کمال سمجھتے تھے۔ پس جب سیسرو اس محددو کمال کے امکان میں شک کرتا تھا تو  پورے کمال کا  کیا ذکر۔

۴۔  ایک کا خیال

ایک تیتس  جس کے خیال ایسے عمدہ  ہیں کہ خواہ مخواہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی دین کی اس میں کچھ تا ثیر ہو ئی ہو گی ۔ وہ ایک مقام پر کہتا ہے کہ ‘‘فیلسوف کا یہ مقصد اور ارادہ ہے (یعنی یہ اس پر فرض ہے) کہ بیگناہ ہو جائے’’ اور دوسری جگہ لکھتا ہے کہ ‘‘پس کیا بیگناہ ہونا ممکن ہے ہر گز نہیں۔ بلکہ یہی ممکن ہے کہ ہم برابر بیگناہی کے واسطے کوشش کرتے ہیں۔

۵۔ اپل لونئیس کے بارے میں۔

افلستراتس نے جو دوسری صدی کےآخری لضف میں گر مرا ہے اپل لونیس  تیوافی کی سیرت کا بیان ایک کتاب میں لکھا ہے جس میں اس کو کامل آدمی کر کے بیان کیا ہے ۔ اپل لونیس مسیح کا کسی قدرہمعصر تھا۔ لیکن  اپل لونیس کے مرنے کے بعد تقریباًً سو برس تک اس کا ذکر کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا اس سبب سے اس کی  نسبت فلسترائس کی رائے پایۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپللونیس ان جادوگروں اور شعبدہ بازوں میں سے تھا جو اس وقت تمام رومی سلطنت میں کثرت سے تھے اور چونکہ افلسترائس نے بادشاہ کی بیوی بولیا کے حکم سے جو اس کی مربی تھی اور جس کی نسبت تحقیق ہوا ہے کہ ہر طرح کی باتوں کو تسلیم کر لیتی تھی یہ کتاب لکھی۔ اس لئے غالب ہے کہ اس نے اپل لونیس کے افعال اوراحوال   کو بہت بڑھا کر لکھا ہو گا۔ پیچھے تو بعض غیر مذہب کے علما مسیح سے اس کا مقابلہ کرنے لگے لیکن اگر وہ فی الحقیقت کوئی مشہور آدمی ہوتا تو اس کے ہمعصروں میں بھی اس کا کچھ ذکر پایا جاتا۔

ایشیائی کتابوں کی رائے

ان مثالوں کے سوا تمام رومی اور یونانی غیر مذہب کی کتابوں میں بیگناہی کا مطلق ذکر نہیں ہے ۔ ایشیا کے ملکوں کی کتابوں میں اگرچہ کسی نے اب تک ایسی چھان بین نہیں کی کہ جن مقامات میں بیگناہی کا ذکر ہے ان کا مقابلہ کیا جاتا۔ لیکن یقین ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے بھی تو ایسا ہی نتیجہ نکلے گا جیسا کہ رومی اور یونانی کتابوں کی تحقیقات سے نکلاہے۔

اچھا اب مذکورہ بالا دونوں واقعات کو (صفحہ ۵، ۶ دیکھو) جن میں کچھ شک ہے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تو کیا نتیجہ  نکلتا ہے؟ دنیا کی تواریخ کے ایک خاص زمانے تک بیگنایہ کے خیال کا ذکر بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ اور دینی ہادیوں نے بھی واقعی بیگناہی کو ایک نا ممکن سی بات قرار دیاہے۔ مگر اس زمانے کے بعد بیگناہی کا خیال کڑوروں آدمیوں کے کلام اور کتابوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اور نہ صرف بیگناہی دنیا میں ظاہر ہو چکی ہے اور اپنے بیگناہ ہو جانے کی پختہ امید بھی لوگوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ ایسی بڑی تبدیلی کا سبب آخر کیا ہو سکتا ہے؟ صرف یہی کہ فی الحقیقت ایک بیگناہ آدمی اس زمانے میں گزار ہے۔ البتہ بہت سے عجیب عجیب خیال دنیا میں پیدا ہوئے اور بہت دن تک قائم بھی رہے ہیں۔ لیکن کبھی اور کوئی ایسا خیال دنیا میں پیدا نہیں ہوا ہو پیدا ہونے کے وقت ایسا نیا اور اتنی اور ایسی متفرق قوموں میں جاری اور اتنی مدت تک قائم اور اتنی سر گرمی اور پورے یقین کے ساتھ باقی رہا ہو جیسا کہ یہ بیگناہی کا خیال ہے۔ اگر یہ خیال پہلے سے موجود ہوتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ حواریوں نے اپنے دل سے بنا کر اس کے وقوع میں آنے کا فرضی بیان کر دیا اور اگر یہ خیال کثرت سے جاری ہوتا تو ممکن تھا کہ بہت سے لوگ اس بیان کو یقین کر لیتے۔ لیکن چونکہ واقعی خیال ایسا ہی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اس لئے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس وقت مسیحی دین پھیلنے لگا ہے ٹھیک اسی زمانے میں ایک بیگناہ آدمی اس دنیا میں گزرا ہو گا اور اسی کی بیگناہی کے سبب بیگناہی کے خیال نے ایک لخت دنیا میں ایسا زور پکڑلیا اور جب یہ بات ثابت ہو چکی تو یہ کہنا کہ یہ بیگناہ آدمی کون تھا تحصیل حاصل ہے۔

چوتھا باب

مسیح کی بیگناہی مسیحیوں کی نیکی سے ثابت ہے۔

مسیحی لوگ جو اس بات میں متفق ہیں کہ مسیح بیگناہ ہے اس میں بھی متفق ہیں کہ ہم بیگناہ نہیں بلکہ ہم سے یہی ہو سکتا ہے بیگناہی کی حالت کے امیدوار ہو کر ہمشہ اس منزل مقصود کی طرف قدم بڑھاتے ہیں مگر پھر بھی جیسا وہ اس کو بالکلیہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں ویسا ہی اس کو اپنی رائے میں کم و بیش پا بھی چکے ہیں اور اگر اس کو کچھ بھی نہ پاتے تو اپنے تئیں حقیقتاً مسیحی نہ سمجھتے۔ یہ بھی مخفی نہ رہے کہ نیکی کی نسبت مسیحیوں اور اور لوگوں کے خیالوں میں دو طر ح کے اختلاف ہیں جن کا اس باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔

اول یہ کہ اور لوگ نیکی کو شریعت کے فرائض کی صرف ظاہری تابعداری سمجھتے ہیں اور اگر نیکی میں ان فرائض کی باطنی تابعداری بھی شامل کر لیں تو یہ باطنی تابعداری ایسی ہو گی جو صرف دل کے الگ الگ افعال پر منبی ہے۔ لیکن مسیحی لوگ انسانی نیکی کی اصل دل کی تبدیلی کو سمجھتے ہیں یعنی آدمی کی طبعیت خودی سے پھر کر نیکی کی طرف متوجہ ہو۔ مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ توبہ بمعنی تبدیل نیت اور نئی پیدائش اور نئی انسانیت حقیقی نیکی کی ضروری شرطیں ہیں۔ لیکن جہاں مسیحی دین کی تاثیر نہیں ہوئی وہاں ایسے الفاظ کم پائے جاتے ہیں۔ اور اگر کہیں پائے بھی جائیں تو ان کے معنی ان دونوں میں سے ایک ہونگے۔ اول یہ کہ کسی فرقے کے ساتھ شریک ہونا اور اس کے تمام حقوق کا مستحق ہونا۔ چنانچہ برہمن چھتری ویش جینٹو کو پہن کر دوج (یعنی دوبارا پیدا) ہواکہلاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ صرف رایوں کی تبدیلی چنانچہ افلاطون پرس ثرقا یعنی بدی سے گھومنے کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آدمی کی پرس ثرسفا سیپ کے گھمانے سے بہت مشکل ہے’’ مگر اس کے ہاں اس گھومنے کے اصل معنی یہ لئے گئے ہیں کہ غلطی سے حق کی طرف پھرنا۔ اس لئے وہ بے عقل آدمیوں کی پرس ثرفا نکما جانتا ہے۔

اس کے برعکس مسیحی لوگ سمجھتے ہیں کہ نیکی حاصل کرنے کے لئے ہمارے دلوں میں ایک طرح کی تاثیر ہوتی ہے جو ہماری کسی فطرتی قوت سے نہیں ہوئی اور نہ کسی ایسی قوت پر موقوف ہے۔ اور وہ اس نئی تاثیر کو گناہ سے آزاد سمجھتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں تو گناہ کا نام تک نہیں ہے اور ہم جو گناہ کرتے ہیں وہ اس سبب سے کرتے ہیں کہ اس وقت تک یہ تاثیر ہمارے دلوں پر بالکل غالب نہیں آتی اور گناہ بھی اسی قدر کرتے ہیں جس قدر یہ غالب نہیں آئی۔ پس یہ خیال کس طرح پیدا ہو گا؟ البتہ اس کا ایک سبب تو مسیح کی تعلیم ہو سکتی ہے کہ اس نے اس بات پر بہت تاکید کی۔ لیکن یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ محض اس کی تعلیم سے نیکی کی نسبت ایسا بالکل نیا خیال نہ صرف دنیا میں پیدا ہو گیا ہوبلکہ مسیح کے سبب پیروں میں جاری بھی ہو گیا ہو اور اب تک ان کے دلوں پر غالب ہو۔ ہاں اگر یہ نیا خیال ایسا ہوتا جس سے نیکی بہت آسان معلوم ہوتی تو شاید اس کا اس طرح جاری ہونا ممکن ہوتا۔ لیکن اس خیال سے جو مسیحی لوگ رکھتے ہیں نیکی کا حاصل کرنا بہت ہی مشکل ٹھہرا اور نیکی کا یہ مسیحی خیال انسان کے غررو کے لئے بھی ایک ایسا بڑاتازیانہ ہواکہ لوگ بے ضرورت اس کی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ پس اس خیال کے غالب آنے کا کوئی نہ کوئی کافی سبب تلاش کرنا چاہے ۔ اس کے سوا اور کون سا ایسا سبب ہو گا کہ جنہوں نے پہلے اس خیال کو قبول کیا انہوں نے سمجھا کہ وہ بیگناہی جو تخم کے طور پر ہر ایک مسیحی میں موجود ہے کسی نہ کسی آدمی سے برملا ظہور میں آئی ہے اور وہ نئی انسانیت جو ہر ایک مسیحی کی روح کے اندر چھپی ہوئی ہے کسی نہ کسی آدمی کی کامل انسانیت ہو کر اس کے تمام افعال اور احوال سے ظاہر ہوئی اور جب انہوں نے یہ سمجھا ہو تو اس کےسوا کہ فی الحقیقت ایسا ہی وقوع میں آیا تھا ان کے یہ سمجھنے کا اور کون سا کافی سبب ہو گا۔

پھر یہ بھی خیال کریں کہ مسیحیوں کے نزدیک یہ نئی انسانیت جو حقیقی نیکی کی اصل ہے اور گناہ سے پاک ہے فی الحقیقت مسیح ہی کی تاثیر ہے پولس کہتا ہے کہ تو زندہ نہیں ہوں لیکن مسیح مجھ میں زندہ ہے’’ جو لیکن اگر مسیح خود بیگناہ نہیں ہے تو کس طرح وہ بیگناہی کی بنا اور اس کا بانی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ گنہگاری سے بیگناہی پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اور ادنیٰ اعلیٰ کا ماخذ نہیں بن سکتا۔ یہ دلیل اوروں کو تو شاید کمزور معلوم ہو لیکن مسیحیوں کے لئے اس سے زیادہ پختہ ثبوت غیر ممکن ہے۔ بلکہ یہی امراس بات کا سبب ہو گا کہ وہ گویا از خود مسیح کی بیگناہی کو مانتے ہیں جو اپنے میں ایسی تاثیر دیکھتے ہیں کہ گناہ سے آزاد ہو وہ جانتے ہیں کہ تاثیر کرنے والا بھی بے گناہ ہے۔

دوسرا اختلاف یہ ہے کہ نیکی کے اس خیال میں جو مسیحی لوگ رکھتے ہیں دینداری اور راستبازی دونوں برابر ملی ہوئی ہیں یہاں تک کہ دونوں گویا ایک ہو گئی ہیں یہ تو صاف ظاہر ہے کہ سب لوگ کم و بیش یہ جانتے ہیں کہ دینداری اور راستبازی دونوں میں کچھ کچھ علاقہ ہے مثلاً جو کوئی اپنے دل کی گواہی کو سنتا ہے وہ جانتا ہے کہ انصاف اور پرہیز گاری خدا کا حکم ہے۔ مگر پھر جہاں مسیحی دین کی تاثیر نہیں ہوئی بلکہ جہاں کہیں وہ دل سے مقبول نہیں ہوا وہاں بھی یہ دونوں باتیں کم و بیش الگ الگ رہتی ہیں۔ یورپ میں اکثر راستبازی دینداری سے سبقت لی گئی ہے اور اس کے برعکس ایشیا میں بدھ کے پیروں کے سوا اکثر دینداری راستبازی پر سبقت رکھتی ہے۔ یورپ میں بعض اوقات کانشنس یعنی تمیز کا زیادہ خیال کرنے کے سبب سے دینداری ترک کی گئی اور اس کے برعکس ایشیا میں وقتاً فوقتاً بہت کام دین کے نام سے کئے گئے اور کانشنس کی سندیں داینداری سے دب گئیں۔

مسیحی دین ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ وہ دوونوں طرح کی نیکی کو ملا دیتا ہے اور ان کے آپس میں ملنے سے ایک کو دوسرے کے نزدیکی اور علاقہ کے ذریعے بڑی مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ اس امر کا مفصل بیان رسالہ حقیقت گناہ میں لکھا جا چکا ہے۔ اس مقام ہم اتنا کہہ کر یاد دلاتے ہیں کہ مسیح کی شریعت کی جو اصلی بات ہے۔ یعنی خدا کی محبت اور یہ دونوں عقائد کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس نے اپنے بیٹے کو انسان کے لئے مرنے کے واسطے دے دیا۔ یہ تین چیزیں جب دل سے قبول ہوتی ہیں تو ان سے نیکی کا وہ خیال خواہ مخواہ پیدا ہوتا ہے۔ جو صرف مسیحیوں میں پایا جاتا ہے۔ یعنی ایسا خیال جس میں مذکورہ بالا دونوں طرح کی نیکیاں برابر شامل ہیں۔ اچھا ہندو وہ ہے جو اپنی ذات کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنے دین کے فرائض کو بجا لاتا ہے۔ مگر جو مسیحی صرف دینداری یعنی تقلید مذاہب کے کاموں میں مشغول رہتا ہے خواہ وہ کہتی ہی درستی کے ساتھ کیوں نہ ہوں اور آدمیوں کے ساتھ ناراستی سے پیش آتا ہے وہ کبھی اچھا مسیحی نہیں کہلاتا اور اگر کہلائے بھی تو صرف ایسے ملکوں میں جہاں بائبل مروج نہیں ہے اور نام چار کے مسیحی جب اپنے مذاہب کے ایسے شخص کو دیکھیں جو راستبازی کا پورا مطلب ہو تو وہ اس کو ‘‘مسیحی”کہہ کر ہنستے ہیں لیکن کیا کوئی راستبازی ہندو یا مسلمان بھی بطور تمسخر ہندو یا مسلمان کہا جاتا ہے؟

پس اس بڑے فرق کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ یہی کہ جب مسیحی دین شروع ہو اس وقت دینداری اور راستبازی مجموعہ ایک آدمی سے کامل طور پر ظاہر ہوئی اور ایک ایسا آدمی گزرا کہ نہ اس کی دینداری اس کی راستبازی سے کچھ سبقت لے گئی اور نہ اس کی راستبازی اس کی دینداری سے۔ بلکہ دونوں کامل طور پر ایک دوسرے سے بالکل ملی ہوئی اس میں دکھائی دیں۔ اور مسیح کا دن صفات کے ساتھ موصوف ہونا اس کے تمام احوال سے صاف ظاہر ہے۔

اس بات کا ثابت کرنا کچھ ضرور نہیں کہ دینداری اور راستبازی مجموعہ بیگناہی کے لئےضرور ہیں۔ اگرچہ مسیحی دین سے پیشتر کوئی شاید بیگناہی کا ایسا بیان نہیں کر سکتا تھا کہ اس میں دینداری اور راستبازی دونوں مساوی موجود ہونی چاہئیں۔ مگر اب چونکہ یہ بات ظاہر ہو گئی ہے۔ اس لئے کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دینداری اور راستبازی کے اس طرح جمع ہوئے بغیر بیگناہی غیر ممکن ہے۔ پس جب مسیح میں ان کا اس طرح جمع ہونا ثابت ہوا تو اس کی بیگناہی کے لئے بھی ایک بڑا ثبوت حاصل ہوا۔

پانچواں باب

مسیح کے ہمعصروں کی گواہی

دنیا میں ہر ایک آدمی کے مزاج کی نسبت اس کے ہمعصروں میں کسی نہ کسی کا خیال پیدا ہوتا ہے یعنی وہ اس کو خواہ نیک خوابدہ بد اور خواہ کچھ نیک اور کچھ بد سمجھتے ہیں۔ جتنے ہمعصر یسوع ناصری سے کچھ بھی واقف تھے۔ سب اس امر میں متفق تھے کہ وہ نہایت ہی انوکھا آدمی تھا اور اس کی مانند کوئی آدمی نہیں ہوا۔ یا اگر ہوئے تو بہت تھوڑے آدمی ہوئے۔ پس ممکن نہیں کہ ایسے آدمی کے مزاج کی نسبت اس کے ہمعصر بہت کچھ خیال کئے بغیر رہے ہوں اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ ان کے خیالوں پر ہم لوگوں کا استنا و بجا ہے کیونکہ ان کا ویسی بات میں دھوکا کھانا مشکل تھا۔ لیکن ان کے خیال ہم کو کس طرح معلوم ہوں؟ اب تک تو ہم نے یہ خیالات دلیل کے طور پر پیش کئے ہیں جو اس وقت تک تمام مسیحیوں میں جاری ہیں اور جنہیں کوئی چاہے تو دریافت کر سکتا ہے۔ لیکن اب ہم کو ان پرانی کتابوں سے ثبوت بہم پہنچانا ہو گا جن میں یسوع کے ہمعصروں کے خیال قلمبند ہیں۔ یہ اس بات کے ثابت کرنے کا موقع نہیں کہ عہد نامہ جدید کی کتابیں فی الحقیقت یسوع کے ہمعصروں کی طرف سے لکھی گئی ہیں۔ لیکن چونکہ اور بہت سی کتابوں میں پختہ دلیلوں کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے کہ عہد نامہ جدید کی کتابیں پہلی صدی میں لکھی گئیں ہیں اس لئے یہ امر مسلم تصور کیا جاتا ہے۔ اچھا پھر ان کتابوں میں مسیح کی بیگناہی کی نسبت کون سی گواہی پائی جاتی ہے؟

پہلے ہم ان کی گواہی پر لحاظ کریں جو مسیح کے شاگردوں کے شمار میں نہیں تھے۔

(۱)۔

نپتی اس پی لاتس کا حال انجیل کے علاوہ اسی زمانہ کی اور بہت سی کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ اور سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت ہی سخت اور خود غرض اور ظالم آدمی تھا۔ لیکن اس کی سنو کہ جب یہودی لوگ مسیح کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور بڑے غصہ سے پی لاتس کے سامنے جمع ہو کر پکارتے ہیں کہ “اسے صلیب دے۔ صلیب” تو وہ بار بار ان سے کہتا ہے کہ “میں اس کا کوئی تصور نہیں پاتا۔

(ب)۔

پی لاتس کی بیگم شاید بے رحم تو نہ تھی لیکن اس عزت دار رومی بیوی کو ایک یہودی مرشد سے کیا واسطہ تھا۔ اس کے مارے جانے کا اسے کس واسطے فکر ہوتا؟ مگر اس کو مسیح کی بے قصوری کا ایسا یقین ہے کہ جب وہ دیکھتی ہے کہ اس کی جان بڑے خطرے میں پڑی ہوئی ہے تو اس کو آرام سے نیند نہیں آتی۔ بلکہ غضب الٰہی کا خوف کر کے وہ عدالت گاہ میں اپنے شوہر کے پاس یہ پیغام بھیجتی ہے کہ “تو اس راستباز آدمی سے کچھ کام نہ رکھ۔

(ج)۔

پھر جب مسیح کی جان نکل چکی اور اس کی لاش صلیب پر ٹکی رہی اور اس وقت حق گوئی کے سوا اس کی تعریف کرنے کی کوئی اور وجہ نہ تھی۔ تو جو سپاہی اس کا پہرہ دے رہے تھے ان کا صوبہ دار کیا کہتا ہے۔ فی الحقیقت یہ راستباز آدمی تھا۔

(د)۔

اس سے کچھ پہلے جب مسیح صلیب پر زندہ تو تھا۔ مگر ناچار اور مرنے والا تو اس وقت اس ڈاکو نے جو اس کے پاس ٹنگا ہوا تھاکیا کہا یہ کہ “ اس شخص نے کوئی بیجا کام نہیں کیا”۔ اور اس نے یہ خیال اپنے دل ہی میں نہیں رکھا بلکہ اپنے ساتھی کے برخلاف ظاہر بھی کیا اور اس کے علاوہ وہ اس بے قصور کو اپنا منجی سمجھ کر اس سے اس جہان کی نجات کی درخواست کی۔

۲۔ اب مسیح کے شاگردوں کی گواہی سنو۔

(۱)۔

پہلے یہوداہ اسکر یوتی کی سنو جس نے مسیح کو پکڑوایا۔ دیکھو اسے سچ کے پکڑوانے کا انعام ملا۔ اس کے ہاتھ میں تیس روپے ہیں۔ انہیں وہ کیا کرتا ہے؟ مسیح کے قاتلوں کے پاس لے جاتا ہے اور یہ کہہ کر ان کے پاؤں پر ڈال دیتا ہے کہ میں جو اس بے قصور کے خون بہانے کاباعث ہوا سو گنہگار ٹھہرا۔” پھر جب وہ اس رنج کی برداشت نہیں کر سکتا تو خود کشی کرتا ہے۔اس کاکیا سبب ہے؟ اس لئے کہ اس کو مسیح کی بیگناہی کا یقین ہے۔ وہ تین برس سے برابر مسیح کے ساتھ رہا تھا۔ پس اگر اس میں کوئی گناہ پاتا تو کیا اس گناہ کو اپنی بیوفائی کی حجت ٹھہرا کر ذرا بھی تسلی پذیر نہ ہوتا۔

(ب)۔

دوسرے اس شاگرد پطرس کی گواہی سنو جو مسیح کے جیتے جی سب سے زیادہ اپنے خیالات کو فاش کرتا تھا۔ جب مسیح کی قدرت سے وہ جال جس میں رات بھر کچھ نہ آیا تھا یک لخت مچھلیوں سے بھر گیا تو اس نے مسیح کے پاوں پر گر کر کیا کہا؟ یہ نہیں کہا کہ میں نا طاقت ہوں۔ میں ایسی قدرت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا بلکہ یہ کہا کہ “اے خداوند میرے پاس سے جا اس لئے کہ میں گنہگار ہوں۔” اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نہایت پاکی کا جلال پطرس کے دل میں ایسا بھر گیا تھا کہ وہ اپنے تئیں اس سے کچھ بھی علاقہ رکھنے کے لائق نہ سمجھا۔

(ج)۔

پھر مسیح کے اس جہان سے جانے کے بعد وہی پطرس یہودیوں کے حاکموں کے سامنے کھڑے ہو کر جنہوں نے مسیح کے قتل کا حکم دیا تھا کہتا ہے کہ “وہ القدوس اور الصادق” ہے (اعمال ۳:۱۴) اور اپنے خط میں اسے “ بے داغ اور بے عیب برہ” لکھتا ہے (پطرس ۱: ۱۹)۔ اور یہ بھی کہتا ہے کہ نہ اس نے گناہ کیا اور نہ اس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی”۔ (۱۔ پطرس ۲: ۲۲) اور یہ بھی کہ اس راستباز نے ناراستوں کے لئے دکھ اٹھایا” (۱۔پطرس ۳۔۱۸)۔

(د)۔

یوحنا جو سب رسولوں سے زیادہ مسیح کا دلی دوست اور رفیق تھا اس کی نسبت صاف لکھتا ہے کہ “اس میں گناہ نہیں ہے” (۱۔یوحنا ۳:۵) اور استفنس جس وقت اس پر ایمان لانے کے سبب قتل ہونے ہی کو ہے اسے “ الصادق” کہتا ہے (اعمال ۷: ۵۲) اور پولس جو پہلے مسیح کا جانی دشمن تھا اس کی نسبت لکھتا ہے کہ “وہ گناہ سے واقف نہ تھا” (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۲۱) اور (عبرانیوں ۴: ۱۵) میں یہ لکھا ہے کہ “وہ ہر طرح سے ہماری طرح آزمایا گیا تا ہم بیگناہ رہا”۔

ان گواہیوں کی نسبت خاص کر اس بات پر لحاظ رکھنا چاہئے کہ یہ سب اتفاقاً ہی دی یا لکھی گئی ہیں۔ اگر خاص مسیح کی بیگناہی کے بیان میں کوئی کتاب اس کے کسی ہمعصر کی طرف سےلکھی جاتی یا کوئی وعظ کہا جاتا۔ تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ شاید حواریوں نے یوں ہی اپنی طرف سے یہ خیال پیدا کیا۔ لیکن واقع میں یہ بات نہیں ہے۔ بلکہ ان سب گواہیوں کی پہلی اور پچھلی عبارت میں اور کسی بات کا ذکر ہے اور مسیح کی بیگناہی کی طرف صرف اشارہ ہے۔ یہاں تک کہ صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ سننے والوں یا پڑھنے والوں کو اس باب میں کچھ شک نہیں تھا۔

چھٹا باب

انجیل کی گواہی

مسیح کی بے گناہی کی جن گواہیوں کا اب تک ذکر ہو چکا ہے وہ سب عام طور پر اور اکثر نفی کے الفاظ کے ساتھ دی گئی ہیں یعنی ان میں مسیح قدوس یا بے عیب یا بے قصور کر کے مذکور ہے۔ لیکن ان کے سوا ایک اور طرح کی بھی گواہی موجود ہے جو ان کی طرح ایک فقرے یا جملے میں تو نہیں آ گئی ہے بلکہ بہت ورقوں کے پڑھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ تا ہم جب اس طرح معلوم ہو گئی تو ان گواہیوں سے بھی زیادہ دل پر نقش ہوتی ہے اور بالکل اثباتی بھی ہے۔ یعنی اس میں نفی کا لفظ نہیں ہے۔ یہ مسیح کے افعال کا وہ بیان ہے جو چاروں انجیلوں میں قلم بند ہے۔ اس میں یہ الفاظ تو نہیں ہیں کہ مسیح بے گناہ ہے لیکن اس سب کہیں بہتر بات مندرج ہے یعنی اس میں مسیح کی وہ کامل نیکی تصور کی طرح صاف دکھائی دیتی ہے جس کے ساتھ گناہ نہیں رہ سکتا۔ مگر اس پر زیادہ غور کرنے سے پہلے ضرور ہے کہ ہم ان دو باتوں پر لحاظ کریں۔

۱۔

یہ کہ دینی عقیدوں کا ثبوت دل ہی کی راہ سے عقل کو پہنچتا ہے جیسا کہ پہلے بھی مذکور ہو چکا ہے۔ اس واسطے ممکن ہے کہ کوئی شخص چاروں انجیلوں کو پڑھ کر بھی مسیح کی بیگناہی کا نتیجہ ان سے نہ نکالے بلکہ اسے خاص نیک آدمی بھی نہ سمجھے۔ یہ ممکن تو ہے لیکن آسان نہیں کیونکہ اکثر آدمیوں کے دل ایسے خراب نہیں ہیں کہ ان میں مسیح کے افعال کے بیان سے کچھ اثر نہ ہو۔

۲۔

بات یہ ہے کہ اسکی کچھ دلیل نہیں کہ انجیلوں کے لکھنے کی غرض مسیح کی بیگناہی کا ثابت کرنا تھا اس کے برعکس صاف ظاہر ہے کہ ان کتابوں کے مصنف اور اس زمانہ کے پڑھنے والے مسیح کی بیگناہی کو مان چکے تھے اور چونکہ یسوع ناصری کے مزاج سے ان کے دلوں میں نہائت ہی زور آوراور غالب تاثیر ہو چکی تھی۔ اس لئے مصنفوں نے لکھنے کی تکلیف اختیار کی۔ اور پڑھنے والوں کو یسوع کا احوال کتاب میں لکھا ہوا دیکھنے کی آرزو ہوئی۔ پھر جتنی کتابیں دنیا میں تصنیف ہوتیں کسی کی عبارت انجیلوں سے زیادہ سیدھی سادی نہیں ہے۔ یعنی ان کے مصنف یسوع کی تعریف یا اور کچھ اپنی طرف سے بہت کم لکھتے ہیں۔ بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہی غرض تھی کہ واقعات کو صحیح صحیح بیان کریں۔

یہ ممکن نہیں کہ ہم اس مختصر رسالے میں مسیح کی بیگناہی کے ثبوت میں انجیلوں سے بہت سی مثالیں پیش کریں۔ اس ثبوت کے واسطے یہ ضرور ہے کہ ہر ایک پڑھنے والا یہ باتیں جو ہم اب بیان کرتے ہیں یاد رکھ کر انجیلوں کا مطالعہ کرے۔

۱۔

انجیلوں کے مطالعہ کرنے کے وقت شاید سب سے پہلے یہ بات دلی میں آتی ہے کہ مسیح کے دل کی قوتوں میں کیسی موافقت تھی۔ وہ صفت جو اطمینان کے لفظ سے اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے کس قدر کمال کے ساتھ مسیح میں دکھائی دیتی ہے۔

۲۔

لیکن اکثر جو آدمی مطمن ہیں اور جن کے دل خوب چین سے رہتے ہیں۔ وہ کمزور بھی ہوتے ہیں اور دنیا پر بہت اثر نہیں ڈال سکتے۔ ایسے لوگوں کا اطمینان کچھ بہت تصریف کے قابل نہیں ہے لیکن مسیح کا اطمینان ایسا نہ تھا۔ بلکہ آدمیت میں جو صفتیں یا لذات متضاد ہیں اور جن میں سے ایک نہ ایک غالب ہونے کے سبب اکثر لوگ مطمن نہیں رہتے وہ متضاد صفتیں خوب مضبوط تھیں۔ اب ہم ایسی کئی متضاد صفتوں کا ذکر کرتے ہیں۔

۳۔

مسیح  کے مزاج میں خصوصیت اور عمومیت دونوں انتہا درجے کی پائی جاتی تھیں۔ یسوع ایک خاص خاندان اور قوم اور خاص زمانہ کاشحض تھا اور جو جو فرائض ان تعلقات کے سبب اس پر عائد ہوتے تھے ان سب کو وہ کامل طور پراوا کریا تھا۔ اس نے مرنے تک اپنی ماں کا خیال رکھا اور ہمشہ یہودیوں کی پوشاک پہنتا اور یہودیوں کے جتنے دستور بے عیب تھے ان سب پر عمل کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی اس کا مزاج کسی خاص خاندان یا قوم یا زمانے کے سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں تھا۔ اس کا چھلکا گویا یہودیت تھی لیکن اس کا گووا محض انسانیت تھی۔

یہودیوں کے سےتعصب اور باقی قوموں کی حقارت کرنے کا اس میں نشان بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہمشہ قول وفعل سے اس تعصب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کی نیکیاں خاص یہودیت کی نہیں بلکہ انسانیت کی ہیں اس امرمیں مسیح اور  دنیی مصلحوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ بعض مصلحوں نے حدسے زیادہ عمومیت کو اختیار کیا۔ یعنی اپنے خاندان اور اپنی قوم اور اپنے زمانہ کے خواص کی تحقیر کر کے اپنے تئیں کس مپلٹان ٹھہرایا۔ یعنی تمام دنیا کو اپنا وطن کہا۔ اور اکثر ان میں سے اپنی قوم اور زمانہ کے خواص کے پابند رہے۔ مثلاً محمد صاحب کیسے بالکل عرب تھے۔ اور رام چندر کے احوال خاص اسی واسطے ہندوٰوں کے دل پسند ہیں کہ وہ سراسر ہندستانی تھے۔ اور ان کے دینی خیالوں میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے پس غیر ممکن تھا کہ ان کے ہمعصر اور ہم وطن ان کو مار ڈالیں یا ان کی مخالف کریں۔ بلکہ اگر ایسا کرتے تو گویا اپنے پہلوٹھے کو مار ڈالنا ہوتا۔

۴۔

پھر مسیح کے مزاج میں خود مختاری اور ہمدردی دونوں صاف پائی جاتی ہیں۔وہ آدمیوں سے روحانی مدد لینے کا محتاج نہ رہا اور مخالفوں کے حملے سہنے کے لئے اپنے واسطے آپ کافی تھا۔ اور وہ اوروں سے لیتا نہ تھا بلکہ ہمیشہ اوروں کو دیتا تھا۔ وہ اوروں سنبھا لتا تھا اور آپ کسی کے سنبھالنے کا محتاج نہ تھا۔ اگرچہ یہ صفتیں اور بھی بہت سے آدمیوں میں پائی جاتی ہیں لیکن ساتھ ہی ان میں غروراوراوروں کی تحقیر اور کمزورں پر سختی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اور اس سے کسی کو انکار نہ ہو گا کہ مسیح میں یہ باتیں نہ تھیں۔

۵۔

پھر مسیح کے مزاج میں چستی اور صبر دونوں ملے ہوئے تھے ہم میں اکثر چست آدمی جو  بہت کام کرتا ہےبے صبر ہوتا ہے اور صابر آدمی اکثر سست رہتا ہے لیکن مسیح کا ایسا حال نہ تھا۔ وہ ہمیشہ نیک کام کرتا پھرتا تھا۔ اور جیسا اس کا قول تھا کہ جس نے مجھےبھیجا ہے  مجھے اس کے کام دن ہی دن میں کرنے ضرور ہیں۔ ویسا ہی اس  کاعمل بھی تھا۔ کیا کسی زمانہ میں اس سے کوئی زیادہ کامل ہوا ہے؟ نہیں اور کیا کسی زمانہ میں اس سے کوئی زیادہ صابر ہوا ہے ؟نہیں۔ وہ اس زمانہ میں بھی برابر ‘‘مرد غم ناک اور آشنائے رنج تھا۔’’ جب گنہگاروں کی عداوت اس حد کو نہیں پہنچی تھی کہ وہ جسمانی دکھ میں مبتلا ہو۔ اس وقت بھی وہ اپنے شاگردوں اور دوستوں کی نادانیوں اور سستیوں سے ہمیشہ رنجیدہ رہتا تھا اور اس رنج اور دکھ کی جیسی برداشت کرتا تھا وہ سب پر روشن ہے۔ غرض اس کے سارے کاموں میں دکھ سہنا شامل تھا اور اس کی ساری برداشت اس کا اختیاری فعل تھا۔

۶۔

اسی طرح رعب اور فروتنی دونوں مسیح کے مزاج میں کیسی ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کا ذاتی رعب اس کے چہرہ سے بھی ایسا نمایاں تھا کہ جب لوگوں نے اسے سنگسار کرنے کے اوسطے پتھر اٹھائے تو ہیبت کے مارے ان کا یہ حال ہوا پتھر ہاتھ سے چھوٹ گئے (یوحنا۵۹:۸ اور ۳۱:۱۰) اور جو اسے پکڑنے کے لئے آتے تھے وہ اس کو دیکھ کر فورأٔ پیچھے ہٹ گئے اور زمین پر گر پڑے (یوحنا ۶:۱۸) پھر اس میں فروتنی ایسی تھی کہ ایک دفعہ سوار ہونے کی ضرورت ہوئی تو گدھی کے بچہ پر سوار ہوا۔(یوحنا ۱۴:۱۲) اور جب اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانے بیٹھاتو اپنی کمر باندھ کر ان کے پاؤں کو دھویا (یوحنا۵،۴:۱۳)۔

۷۔

اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا سبب تھا کہ مسیح کے مزاج میں اتنی متضاد صفتیں ایسی انتہا درجے کی اور ایسی موافقت کے ساتھ رہیں؟ ان کا ایسا کون سا مرکز تھا جس پر قرار پکڑکے وہ بے مزاحمت ظاہر ہو سکتی تھیں اور ایک دوسرے کو بالکل نہیں روکتی تھیں؟ یہ مرکز وہی صفت کا باعث ہے۔ یعنی خدا کی محبت۔ وہ جو کچھ کام کرتا یا دکھ سہتا تھا سو دیدہ ودانستہ خدا کی محبت ہی کے سبب کرتا اور سہتا تھا اسی پر اس کی روح ہمشہ قائم رہی۔ یہی اس کے زور اس کے اطمینان اور اس کے صبرکا مبدا تھا۔ اسی کے سبب سے باقی تمام متضاد صفتیں اس سے ظاہر ہوتی تھیں اور اس کا کچھ خطرہ نہ تھا کہ ایک دوسرے پر غالب آئے۔ گھر اور وطن کی محبت اور تمام انسان کی محبت۔ خود مختاری اور ہمدردی۔ چستی اور صبر۔ رعب اور فروتنی یہ سب مسیح میں اسی وجہ سے جمع تھیں اور اسی وجہ سے اپنی اپنی جگہ پر ٹھہری رہیں۔ اور اسی وجہ سے زور آور اور مؤثر تھیں کہ ہمیشہ خدا سے مقاربت رکھتا رہا۔ اسی طرح راستی اور دینداری کا وہ اجتماع (جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مسیحی دین کا ایک خاصہ ہے) پہلے مسیح ہی سے ظاہر ہوا۔ مسیح تو کئی دفعہ رات بھر دعا مانگتا رہا۔ لیکن دعا میں مشغول ہونے کے سبب وہ کبھی آدمیوں کی خدمت کرنے یا ان کی محبت کے اظہار سے غافل نہیں رہا۔ (مرقس ۱:۳۵، ۳۹) دیکھو۔ پھر وہ گوشہ نشینوں کے طور پر نہیں رہتا تھا بلکہ اسی طرح آدمیوں میں رہتا تھا جس طرح اور آدمی رہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کے ساتھ کھاتا پیتا اٹھتا بیٹھتا تھا۔ لیکن باوجود اس کے وہ کھبی دنیا پرست نہیں بنا اور نہ خدا کو بھولا۔ برعکس اس کے جو کچھ وہ آدمیوں کے ساتھ برتاؤ رکھتا تھا اس سب کی محرک اسکی دینداری تھی۔

ساتواں باب

خود مسیح کی گواہی

مسیح کی کامل نیکی کا جو کچھ انجیل میں بیان ہوا ہے اس کو سن کر کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ حواری لوگ صرف اس کے ظاہری چال چلن سے واقفیت رکھتے تھے۔ اور ان کی گواہی سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ باطن میں بھی بیگناہ ہو۔ اس اعتراض کے ہمارے پاس دو جواب ہیں جن میں سے ایک تو ہم آگے لکھیں گے اور ایک اس مقام پر لکھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ البتہ اگر مسیح اپنی بیگناہی کی نسبت خود کچھ گواہی نہ دیتا تو اوروں کی گواہی سے ہم کو کامل یقن نہ ہو سکتا۔ کیونکہ‘‘ انسانوں میں سے کون کسی انسان کا حال جانتا ہے۔ سوا اس انسان کی روح کے جو اس مین ہے’’۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ اگر اکیلے مسیح ہی گواہی ہوتی  تو اس پر کچھ بھی اعتماد نہ ہو سکتا۔ لیکن بیگناہی ایک ایسی عجیب بات ہے جس کے لئے ضرورہے کہ بیگناہ آدمی اوروں کے سامنے اس کا دعوےٰ کرے اور جب وہ خود اس کا دعویٰ نہ کرے اوروں کی گواہی اس کی نسبت کافی نہیں ہو سکتی۔

پس پہلے یہ سوچنا چاہے کہ مسیح نے کبھی اپنے تئیں گنہگار نہیں مانا۔ وہ اور سب مرشدوں سے زیادہ گناہ کا بھید ظاہر کرتا تھا اور ان پردوں کو جن سے گناہ چھپا رہتا تھا پھاڑ ڈالتا تھا اور پھر وہ سب طرح سے آدمیوں کو ابھارتا تھا کہ اپنے گناہ پہچان کر اقرار کریں لیکن جتنی باتیں اس نے کہیں ان میں سے کسی بات میں اس کی اپنی گنہگاری کی طرف کچھ اشارہ نہیں پایا جاتا۔ وہ خدا سے ہمیشہ دعا مانگتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی خدا سے گناہ کی مففرت نہیں چاہی۔ یوحنا جن کو بپتسمہ دیتا تھا ان سے گناہوں کو اقرار کرتا تھا اور وہ اپنے بپتسمے کو توبہ کا بپتسمہ کہتا تھا اور مسیح نے اپنے بپتسمے کو نئی پیدائش کا وسلیہ ٹھہرایا۔ لیکن جب مسیح نے خود یوحنا سے بپتسمہ پایا تونہ گناہوں کا اقرار ہوا اور نہ توبہ اور نہ نئی پیدائش کا ذکر بلکہ اس نے یہی کہا ‘‘ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنی مناسب ہے۔ ’’(متی ۱۵:۳)۔

دوسرے اس نے اپنے تئیں صاف بیگناہ کہا ۔ (یوحنا۴۶:۸) میں لکھا ہے کہ اس نے یہودیوں سے کہا کہ تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے۔ اس قول کو سنے ہی ہم جان لیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ایسی بات نہیں کہ سکتا۔ ہم میں سے جتنا کوئی نیک ہے اتناہی وہ اپنی گنہگاری کو پہچانتا اور اس کا اقرار کرتا ہے۔ لیکن مسیح اپنے شاگردوں بلکہ تمام دنیا سے الگ ہو کر فرماتا ہے کہ تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے۔ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر لفظ ہمرتیا کے وہ معنے ہیں جو یونان میں لکھی ہوئی کتابوں میں پائے جاتے ہیں یعنی غلطی۔ لیکن ایک تو اگر لفظ کے یہ معنی ہوتے تو بھی اس سے ہمارا مدعا ثابت تھا کیونکہ وہی آدمی ہمشہ غلطی سے بچ سکتا ہے جو گناہ سے محفوظ رہتا ہے۔ دوسرے یہ معنی ان کتابوں میں ایسے ہی مقامات پر پائے جاتے ہیں جہاں ہمرتیا کے ساتھ کوئی اور بھی لفظ ہے۔ مثلاًً ایک جگہ یوں لکھا ہے۔

‘‘قوانین کی نسبت صحت اور غلطی۔ ’’دوسری جگہ ‘‘ارادہ کی صحت یا اس کی غلطی۔ ’’تیسری جگہ ‘‘بدی کے ساتھ نہیں بلکہ رائے کی غلطی سے ’’ان مقاموں میں جس لفظ کا ترجمہ غلطی کیا گیا ہے۔ وہ ہمرتیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہاں اس کے یہ معنے یعنی غلطی قرنیدی سے نکلتے ہیں۔ اور عہدنامہ جدید میں کوئی ایسا مقام نہیں ہے جس میں ہمرتیا کے یہ معنی بخوبی صادق آتے ہوں۔ پھر( یوحنا  ۴۶:۸) کے قرنیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیح نے پہلے یہ کہا تھا کہ میں جو تم سے سچ بولتا ہوں اسی لئے تم میرا یقین نہیں کرتے تو اس کے بعد اگر اس کا یہ مقصود ہوتا کہ کون مجھ پر بھی غلطی ثابت کرتا ہے۔ تو اس سے اس پہلے مضمون کی کچھ تائید نہ ہوتی۔ بلکہ یہ اس سے بھی کمزور بات ہوتی۔ لیکن جب ہم اس مقام پر ہمرتیا کے وہی معنے لیتے ہیں جو عہد جدید کے اور سب مقاموں میں ہیں یعنی گناہ۔ تو اوپر اور نچے کے مضمون میں بخوبی ربط پیدا ہو جاتا ہے یعنی مسیح اپنی بیگناہی ظاہر کر کے اپنی سچائی ثابت کرتا ہے۔ گویا وہ یہ کہتا ہے کہ میں جو بیگناہ ہوں اس سے صاف ظاہر ہے کہ میں ان باتوں میں جو خدا سے علاقہ رکھتی ہیں تم کو گمراہ نہیں کرسکتا اور جب میں سچ بولتا ہوں تو پھر تم مجھ پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔

اوپر کے بیان سے یہ ثابت ہو گیا کہ آیت میں ہمرتیا کے معنی گناہ ہیں۔ لیکن پھر اس مقام پر دواعتراض کئے گئے ہیں۔ ایک یہ مسیح نے اتنا ہی کہا کہ کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہےیہ نہیں کہا کہ مجھ میں جو اعتراض کئے گئے ہیں  ہم کو ان کی طرف کچھ بہت توجہ کرنی ضرور نہیں مگر پھر بھی جو مشہور اعتراض ہیں ان کا جواب دینا مناسب ہے ان کو ہم تین قسموں میں منقسم کرتے ہیں۔ اول وہ اعتراض جو مسیح کی بیگناہی کے امکان ہی پر ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ جو انجیل کی گواہی کے معتبر ہونے پر کئے گئے ہیں۔ تیسرے وہ جو مسیح کے بعض افعال اور اقوال پر ہوئے ہیں۔ اب ہم اس بات میں پہلی قسم کے اعتراضوں کے جواب دیتے ہیں۔

۱۔

پہلے ہم اس اعتراض کا ذکر کرتے ہیں جس کا  جواب دنیا ہم کو سب سے زیادہ ضرور ہے کیونکہ اس کا جواب دیے بغیر ہماری اس کتاب سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ بیگناہی آدمی کے لئے بالضرور غیر ممکن ہے۔ اور اس اعتراض کی تین دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی گہنگاری مخلوق کی ناتمامی میں داخل ہے۔ اس کا جواب ہم کتاب ‘‘حقیقت گناہ میں دے چکے ہیں۔ کہ گناہ اور ناتمامی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ آدمی میں جسمانیت کے سبب سے بیگناہی غیر ممکن ہے۔ اس کا جواب بھی اسی کتاب میں دیا گیا ہے کہ گناہ اگرچہ جسم سےظاہر ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی جسم کے سبب سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی خود با لکل روحانی چیز ہے۔ بلکہ جو سب سے بڑے گناہ ہوتے ہیں وہ جسم سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ ہم نے نہ کبھی بیگناہی کا تجربہ کیا اور نہ بیگناہ آدمی کو دیکھا۔ پس اس سبب سے ہم ایسے شحض کا خیال بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ کہنا کمال ناوانی کی بات ہے کہ جو کچھ ہمارے تجربہ سے باہر ہے وہ ہمارے خیال سے بھی باہر ہے۔ گویا ہمارا نہایت محدود تجربہ ساری دنیا کا پیمانہ ہے۔ برعکس اسکے اگر ہم قدوس خدا اور اسکی پاک شریعت پر یقین کرتے ہیں تو آدمی کی بیگناہی کے امکان کو بھی ماننا ضرور ہو گا۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جو گنہگاری ہم اپنے میں اور اوروں میں بھی صاف علامتوں سے پہچانتے ہیں اس سے انکار کریں بلکہ یہ ہے کہ آدمی کی شرارت کا تجربہ کتنا ہی پے در پے کیوں نہ ہو۔ پھر بھی ہم ہمشہ اس بات کے اقرارپر قائم رہیں کہ کسی نہ کسی آدمی میں ایسی انسانی بیگناہی جو خدا کی ذات کا عکس اور اسکی شریعت کی بجا آوری ہو ظاہر ہو یا ہوئی ہو۔

یہ اعتراض کبھی کبھی اس پیرایہ میں پیش کیا جاتا ہے کہ کسی جنس میں تمام خوبیاں اس کے نیک فرد دے کبھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ بلکہ کسی میں کوئی خوبی ہوتی ہے اور کسی میں کوئی۔ یہاں تک کہ تمام جنس تو کامل کہلا سکتی ہے۔ مگر اس کا ایک فرد کامل نہیں کہلا سکتا۔ لیکن یہ دعوے تجربے سے آزمائے جانے کے قابل ہے۔ علاوہ اس کے جاننا چاہیے کہ گناہ اوربیگناہی اور نقصوں اور خوبیوں کے برابر نہیں۔ چنانچہ گھوڑوں کی جتنی خوبیاں ہیں وہ گھوڑوں کی تمام جنس ہی میں پائی جائیں گی۔ اور آدمی کی عقل کی جنتی خوبیاں ہیں شاید وہ بھی تمام آدمیوں کے ملانے سے ہی حاصل ہو نگی۔ لیکن نیکی اور ندی جو ہین وہ ہر فرد و بشر پر موقوف ہیں۔ اور اس سے الگ نہیں ہو سکتیں۔ اس سبب سے جب ہر آدمی گنہگار ٹھہرا تو آدمیوں کی تمام جنس بیگناہ نہیں ۔ بلکہ گنہگار ہی ٹھہر یگی۔ اور اس طرح سے اگر ایک بھی آدمی بیگناہ ہوا تو بیگناہی کسی صورت سے ظاہر نہیں ہوئی۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مسیح جو رفتہ رفتہ کامل ہوا اس سے ظاہر ہے کہ وہ شروع میں بیگناہ نہ تھا۔ بلکہ لڑکپن کے زمانہ میں خواہ مخواہ بچوں کی ہی نادانی اور ضد اس سے ظاہر ہوتی ہوگی۔ پس رفتہ رفتہ ان عیبوں سے پاک ہو کر وہ ایسا کامل شحض نکلا ہو گا۔ جس کا بیان انجیلوں میں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح کی ترقی جو رفتہ رفتہ ہوئی اس میں تو کلام نہیں۔ (لوقا۵۲،۴۰:۲)اور (عبرانیوں ۱۰:۲، ۵:۹) دیکھو۔ لیکن اس سے اسکی گنہگاری کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ معترض کا یہ دعوے کچھ تو معمولی انسانی تجربے پر موقوف ہے اور کچھ اس خیال پر کہ نا تمامی میں گناہ داخل ہے۔ لیکن اوپر ثابت ہو چکا ہےکہ اس بحث میں ہمیں ایک معمولی انسان سے واسطہ نہیں بلکہ ایسے شحض سے جسکی حوخصلتیں بے نظیر تھیں۔ اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ ناتمامی میں گناہ داخل نہیں۔ اسکے علاوہ اعتراض مذکورہ بالا کا کافی جواب یہ ہے کہ آدمی کا مزاج ایسا تغیرپذیرنہیں جس میں ایسی کاملیت کے پیشتر جیسی انجیلوں میں بیان کی گئے ہے گنہگاری کا رہنا ممکن ہو یعنی اول مسیح تیس برس تک تو گنہگار رہے اور پھر ساڑھے تین برس تک بیگناہ رہے۔ اگر اس سے لڑکپن میں گناہ ہوتا تو خواہ مخواہ ان ساڑھے تین برس میں بھی کبھی نہ کبھی ظاہر ہوتا۔

یہ خیال کہ ترقی میں گناہ ضروری ہے اور بیگناہی کے ثبوت کے واسطے تبدریج ترقی سے انکار کرنا ضرور ہے۔ اکثر آدمیوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی سبب سے جب ہندو لوگ رام اور کرشن کو خدا ماننے لگے تو یہ بھی گمان کرنے لگے کہ ان کے لڑکپن کے زمانہ میں بھی الٰہی قدرت اور علم ان سے ضرور ظاہر ہوا ہو گا۔ گویا عام کمزوری اور کم عقلی کاملیت کے منافی ہیں۔ اور اسی سبب سے موضوع انجیلوں میں مسیح کے لڑکپن کے بیان میں ایسے قصے پائے جاتے ہیں۔ لیکن صحیح انجیلوں مین جو مسیح کا ذکر ہے وہ ان کی نسبت کامل انسان کے کس قدر زیادہ لائق ہے یعنی مسیح اپنی زندگی کے ہر ایک حصے میں اسی حصے کے فرائض ادا کرتا تھا اور یہ فرائض گناہ سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے۔ جب چھوٹا بچہ تھا تو اسکی قوتیں کونپل کی طرف پھو ٹنے لگی تھیں۔ اور جب ذرا بڑا ہو گیا تھا تو اپنے بزرگوں کی فرماں برداری کرتا تھا اور سبب کچھ سیکھتا اور دیکھتا تھا۔ جب جو ان ہوا تو اپنے دنیاوی محافظ یوسف کے پیشہ میں اسکی مدد کرنے لگا۔ جب پورا مرد ہوا تو اپنا خاص منصبی کام کرنے لگا۔ چنانچہ ایرے نیوس کہتا ہے کہ مسیح عمر کے ہر ایک حصے میں سے گذرا وہ بچوں کے لئے بچہ ہوا تاکہ بچوں کو پاک کرے اور لڑکوں کے لئے لڑکا ہوا تاکہ لڑکوں کو پاک کرے وغیرہ۔ وہ اپنی ترقی کے ایک درجہ بلکہ ہر ایک لمحہ میں جو جو چیزیں دنیا میں اس کے شایاں تھیں ان سب کو اختیار کرتا رہا اور جو جو چیزیں اس کے لائق نہ تھیں ان کو ترک کرتا رہا۔

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ مسیح کی آزمائش ہوئی اور آزمائش ہونے پر اسکی بیگناہی نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ بالکل بیگناہ ہوتا تو آزمائش میں نہ پڑتا یعنی اگر آزمائش کا احساس اسکے دل میں نہیں ہوا تو اس کی آزمائش از روئے حقیقت نہ ہوتی۔ بلکہ صرف ازروئے صورت ہوئی۔ اور اگر آزمائش کا احساس اسکے دل میں ہوا تو وہ بالکل بیگناہ نہ رہا۔ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ آزمائش کیا چیز ہے اور گناہ سے کیا علاقہ رکھتی ہے۔ اس امر میں دو باتیں سمجھنی اور یاد رکھنی چاہیں۔ ایک یہ کہ اگر برا خیال ہمارے دل ہی سے پیدا ہو تو وہ گناہ ہے کیونکہ وہ گناہ آلودہ دل سے پیدا ہوا ہے لیکن اگر وہ خارج سے آئے تو گناہ نہیں بلکہ صرف آزمائش ہے۔ غرض برے خیال میں زمین وآسمان کا فرق ہے دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم اس برائی کے خیال کو جو خارج سے آنے منظور زمین اور ہمارا دل اس کو قبول کرے تو گناہ ہو گیا۔ ورنہ محض آزمائش رہی۔ پس اگر یہ ثابت ہو سکتا کہ مسیح کی آزمائش کے وقت برائی کے خیال اسی کے سے پیدا ہوئے یا خارج سے اسکے سامنے اگر ایک لمہ کے لئے بھی مقبول ہوئےتو مسیح ہر گز بیگناہ نہ ٹھہر سکتا۔ لیکن ان دو باتوں میں سے اول بات تو اس کے حق میں کبھی ثابت نہیں ہو سکتی اور دوسری بات کے برعکس وہ اکثر آزمائشوں میں برائی کے خیال کو جوں ہی اس کے دل میں آتا تھا وہیں بڑے زور سے نکال دیتا تھا۔ (متی ۷،۴:۴، ۱۰) اور خصوصاً (متی ۲۳:۱۶) کو یکھو۔ لیکن جو آزمائش اسکی موت کے نزدیک ہوئی اس میں البتہ یہ بات ایسی صاف ظاہر نہیں ہوتی۔ بلکہ برعکس اسکے سرسری نظر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مسیح نے موت سے بچنے کا خیال جو خارج سے اس کے دل میں آیا تھا قبول کر لیا تھا۔ (یوحنا ۲۷:۱۲) اور (مرقس ۳۶:۱۴) کو دیکھو۔ یہ البتہ ایسی سخت آزمائش کا وقت تھا اور اس پر ایسے زور سے حملہ ہوتا تھا جس سے گمان ہو سکتا تھا کہ عنقریب گر پڑے۔ اتنا تو ماننا ضرورہے۔ لیکن یہ ہر گز صحیح نہیں کہ موت سے خوف کرنا ہی گناہ ہے۔ بلکہ مسیح کہ جو یہ خوف ہوا اس سے اسکی انسانیت ایسی ثابت ہو گئے کہ اور کسی بات سے ثابت نہ ہو سکتی۔ یہ خوف اور موت سے بچنے کا خیال اور خواہش ہو اس خوف کے ساتھ پیدا ہوئی یہ تینوں باتیں خارج سے یعنی اسکے جسم سے اسکے دل میں آئیں اور اگر وہ ویدہ دانستہ انہیں اپنے دل میں جگہ دیتا یعنی خط کی مرضی کی جو اس کی موت ہی سے پوری ہو سکتی تھی کچھ بھی مخالفت کرتا تو گناہ کرتا۔ مگر برعکس اس کے اس نے فوراً اسی خدا سے وہ خوف اور خیال اور خواہش بیان کی اور بیان کرتے وقت بھی انہیں خدا کی مرضی پر چھوڑدیا۔ پس جب مسیح کی آزمائش میں گناہ کا  لگاؤ ثابت نہیں ہو سکتا تو یہ بات اسکی بیگناہی کے لئے ایک اور پختہ دلیل ہے کہ اگرچہ سب طرح سے اس کی آزمائش ہوئی پھر بھی وہ گناہ میں مبتلا نہیں ہوا۔

چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر مسیح بیگناہ ہوتا تو ہمارے لئے نمونہ نہ ہو سکتا۔ یعنی جب ہم لوگ دنیا میں بالکل بیگناہ نہیں ہو سکتے تو بالکل بیگناہ نمونہ سے ہم کو کیا فائدہ۔ لیکن ہنرا اور سب دنیاوی معاملوں میں کوئی نمونہ جتنا کامل ہو سکتا ہے اتنا ہی فائدہ مند معلوم ہوتا ہے اور اگر بالکل کامل مل سکتا تو اور بہتر ہوتا۔ کیونکہ نمونہ سے غرض نہیں ہوتی کہ ہم یکبارگی بالکل اس جیسے ہو جائیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ اس کو اپنی نظر میں رکھ کر رفتہ رفتہ اس کی مانند ہوتے جائیں۔

پانچواں اعتراض یہ ہے کہ مسیح جو مریم سے پیدا ہوا اس واسطے جو لوگ موروثی گہنگاری کا عقیدہ مانتے ہیں وہ مسیح کو بیگناہ نہیں ٹھہرا سکتے۔ لیکن مسیحی لوگ جو مسیح کی اعجازی پیدائش کو مانتے ہیں خاص کر اسی لحاظ سے اس پر بڑا زور ڈالتے ہیں کہ اس کے سبب موروثی گناہ مسیح کو نہیں پہنچا۔ اور مسلمان لوگ بھی مسیح کی اعجازی پیدائش کے قائل ہیں لیکن انکے مذہب میں اس کے ماننے کا کوئی ضروری سبب نظر نہیں آتا۔ یعنی اگر وہ اس کو نہ مانتے  تو ان کے مذہب میں کوئی خاص خلل نہ آتا۔ لیکن مسیحیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح جو مریم کے رحم میں نہ مرد کے تخم سے پیدا ہوا۔ بلکہ صرف خالق کی قدرت ہی سے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نے مریم سے محض بشریت حاصل کی اور اس کے ساتھ کسی طرح کا فساد یا خرابی نہیں پائی۔ کیونکہ وہ انسانی قاعدہ کے موافق نہیں پیدا ہوا۔

چھٹا اعتراض یہ ہے کہ جب مسیحی دین میں یہ عقیدہ داخل ہے کہ مسیح نے گہنگاروں کے اوسطے دکھ اور موت کو اٹھایا۔ بلکہ مصلوب ہو کر ملعون ٹھہرا۔اس سے ظاہر ہے کہ وہ بیگناہ نہین تھا لیکن جو لوگ یہ اعتراض کر تے ہیں وہ ہونے اور ٹھہرنے میں امتیاز نہیں کرتے۔ جو ضامن ہوتا ہے وہ قصور وار ہوتا تو نہیں قصور وار ٹھہرتا ہے اور اس سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ گویا وہ قصور وار ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ مسیح کے کفارہ کو نہیں مانتے ان کو مناسب نہیں ہے کہ اسے کفارہ کے عقیدہ سے دلیل لے کر اس کو گہنگار ٹھہرائیں۔

نواں باب

ان اعتراضوں کا جواب جو انجیل کی گواہی پر کئی گئے ہیں

۱۔

مسیح کے جو احوال انجیل میں مذکور ہیں جب ان سے اس کا کمال ثابت ہوتا ہے تو بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ البتہ انجیل میں ایسا مذکور تو ہے۔ مگر ہم یہ کس طرح جانیں کہ وہ صحیح ہے؟ اس قصے سے فائدہ تو بہت ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا مفید قصہ دنیا میں کبھی نہیں لکھا گیا۔ مگر پھر ہے تو قصہ ہی۔ اس اعتراض کا کسی نے جواب دیا ہے کہ ‘‘ایسے  قصہ کے لئے میں بڑی خوشی سے شکنجہ میں کھینچا جاتا یا جلایا جاتا۔ ’’یعنی اگر سخت عذاب دیا جاتا تو بھی اس کو نہ چھوڑتا اور ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ مسیح کے سوا ل خیالی ہیں تویہ خیال کہاں سے آئے؟ ایسا حصہ کس طرح بن گیا؟ کیا سب مسیحیوں یا سب حواریوں نے مل کر اسے بنا لیا؟ اگر یہی بات ہے تو اس میں ایسا بالکلیہ اتفاق ہونے کی کیا وجہ ہے؟ پس کیا ایک آدمی نے اسے بنایا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو اس نے یہ خیال اپنے ہی دل سے نکالا ہو گا۔ مگر جب اس کے دل میں ایسے عمدہ خیال گزر سکتے تھے جیسے مسیح کے ذکر سے ظاہر ہوئے تو وہ آدمی خود مسیح کے برابر ٹھہریگا۔ اور پھر اس کے ایسا ہونے کے امکان میں وہی شک پیدا ہو نگے جو مسیح کے حق میں پیدا ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مسیح کے جان پہچانوں میں کوئی عالم یا بڑا فاضل شحض نہ تھا۔ اور یہ بھی کہ مسیح کی خوبیوں میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ اس وقت کے یہودیوں کے خیالوں کے بر خلاف ہیں۔ غرض اگر انجیل کے مضامین خیالی ہیں تو اس لا کیا سبب ہے کہ اب تک کسی زمانہ میں اور کسی ملک میں ایسا قصہ نہیں لکھا گیا؟

۲۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جن آدمیوں کی گواہی پر انجیل کے مضامین موقوف ہیں یعنی حواری وہ مسیح سے اس وقت مواقف ہوتے جب اس کی عمر تیس برس کی ہو گئی تھی۔ پس ان کو اس بات کا علم کہاں سے ہوا کہ وہ اس وقت سے پہلے بیگناہ تھا۔ اس کا جواب ہم یہ دے چکے ہیں کہ ساڑھے تین برس کی بیگناہی تیس برس کی گنہگاری کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ حواریوں میں سے بعض غالباً مسیح کے رشتہ وار تھے اور اکثر اس کے قرب وجوار کے رہنے والے۔

۳۔

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ گواہ صرف مسیح کے ظاہری چال و چلن سے واقف ہو سکتے تھا۔ یہ کیونکر جان سکتے تھا کہ وہ باطن میں بھی بیگناہ ہے؟ اس اعتراض کا ایک جواب تو ہم اوپر دے چکے ہیں۔ یعنی یہ کہ مسیح نے خود بھی بیگناہی پر گواہی دی۔ اور دوسرا یہ ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ باطن کا گناہ ساڑھے تین برس کی صحبت میں کچھ بھی چال چلن سے اوروں پر ظاہر نہ ہو۔ کسی وجہ سے مسیح کی نسبت ریا کا خیال میں گزر سکتا تھا۔ اور جس شحض کی نسبت ریا کا خیال نہ گزر سکتا ہو اس کی بول چال سے اس کے باطن کا حال بخوبی دریافت ہو سکتا ہے۔ پس ضرور ہے کہ لوگوں کو مسیح کے باطن کے حال سے بھی اچھی طرح واقفیت ہوگئی ہو۔

دسواں باب

ان اعتراضوں کے جواب جو مسیح کے بعض افعال و اقوال پر کئے گئے ہیں

جب مسیح ایسا کامل آدمی ٹھہا تو کچھ تعجب نہیں کہ اس کے افعال و اقوال میں بھی بعض ایسی باتیں پائی جائیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوں۔ ہر ایک فاضل آدمی کے افعال و اقوال جو لوگ فضیلت میں اس سے کم ہوتے ہیں کم وپیش ان کی سمجھ سے باہر ہوا کرتے ہیں۔ پس ایسے شحض کے احوال میں جیسا کہ ہم مسیح کو ثابت کر چکے ہیں جس قدر یہ بات پائی جائے کچھ بعید نہیں۔ لیکن مسیح کے افعال واقوال جو انجیل میں مذکور ہیں ان کی نسبت جس قدر شک پیدا ہوں انکادور کرنا انجیل کے مفسروں کا کام ہے۔ ہم اس مقام پر صرف اجماًًلا ان کا جواب دے سکتے ہیں۔

۱۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مسیح کے اظہار مقصدمیں تبدیلی معلوم ہوتی ہے یعنی وہ اوائل میں تو دنیاوی بادشاہت کا مشاق تھا اور جب دیکھا کہ یہودیوں کی مخالفت اور بد سلوکی کے سبب وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تو صرف روحانی بادشاہت قائم کرنے کا خیال کرنے لگا۔ اگر یہ اعتراض صحیح ہوتا تو مسیح کی ایسی ناوانی ثابت ہوتی جس کے سبب اس کی بیگناہی مشکل سے قائم رہ سکتی۔ یہ مسیح ہے کہ ایک خاص وقت سے مسیح اپنی موت کا زیادہ خیال کرنے لگا اور اسی وقت سے اس کا ذکر اپنے شاگردوں سے کرنے لگا۔ (متی ۲۱:۱۲) کو دیکھو۔ لیکن جب اس نے دعوت دین شروع کی اس زمانہ میں بھی تشبیہاًًاپنی موت کی طرف اشارہ کیا۔(یوحنا ۱۹:۲) کو دیکھو۔ اور جب اس نے حواریوں کو مقرر کر کے ان کو پہلی ہی دفعہ منادی کرنے کوبھیجا تو ان سے ان دکھوں کا حال مفصل بیان کر دیا جو ان پر گرنے والے تھے۔ پس اگر وہ خود دنیاوی بادشاہت کرنے کی امید رکھتا تھا تو کیونکہ کر اس کے دل میں یہ خیال گزر سکتا تھا کہ میرے شاگرد اس وقت دکھ اٹھائیں گے۔ بلکہ مارے بھی جائیں گئے۔ (متی ۱۰: ۱۶۔۳۹) تک دیکھو۔ بلکہ اس کے پہلے وعظ میں بھی ایسا ہی ذکر ہے۔ (متی ۵: ۱۰، ۱۱، ۱۲) کو دیکھو۔ اورہنوز  اس نے دعوت دین شروع نہیں کی تھی کہ شیطان نے اسے دنیاوی بادشاہت دکھائی۔ لیکن مسیح نے اسے قبول نہیں فرمایا۔

۲۔

مسیح کے بعض افعال ایسے ہیں کہ اگر وہ ایک عام آدمی ہوتا تو ان کو درست ٹھہرنا بہت مشکل ہوتا۔ لیکن جب ہم یہ جان چکے کہ وہ عام آدمی نہ تھا بلکہ محض ایک خاص کام کرنے کے لئے دنیا میں آیا تھا تو وہ افعال واجب اور مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات ہندوؤں کے اس قول کے مطابق ہے کہ ‘‘سامرتھیوں کو روش نہیں لگتا۔’’ کیونکہ اس میں اور اس میں بہت فرق ہے۔ اور یہ بھی ہماری مراد نہیں ہے کہ الوہیت کے سبب  سے مسیح جو چاہتا تھا کر سکتا تھا۔ ورنہ ہمارا سارا بیان اور مباحثہ عبث ہو جاتا۔ کیونکہ اس سے غرض ہے کہ یسوع ناصری کو ایک بیگناہ آدمی ثابت کریں۔ لیکن اگر ہم اس کو صرف پیغمپر مانیں اور یہ سنجھیں کہ وہ خدا کی طرف سے خاص کام دنیا میں کرنے کے واسطے ظاہر ہوا تھا۔ تو بھی یہ ماننا ہو گا کہ اس کا انجام دنیے کے واسطے اسے بہت سے ایسے کام کرنے ضرور تھے جو عام آدمی کے واسطے ضرور نہیں۔ اور جب ضرور نہیں تو مناسب بھی نہیں۔ چنانچہ یہ کام اس نے کئے بھی۔ مثلاًً جب وہ بارہ برس کا ہوا تو مریم اور یوسف کو چھوڑکر چلا گیا۔ کسی اور لڑکے کو شاید ایسا کرنا مناسب نہ ہوتا۔ لیکن جب مریم نے اسے ہیکل میں پایا اس وقت اس نے مریم سے جو کچھ کہا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خدا سے جو خاص علاقہ رکھتا تھا اور جس کام کے واسطے دنیا میں آیا تھا اس وقت خوب واقف ہونے لگاتھا۔ (لوقا ۴۹:۲) کو دیکھو۔ پھر اٹھارہ برس کے بعد اس نے کوڑا بنا کر جانوروں اور ان کے مالکوں کو ہیکل سے نکال دیا۔ اور صرانوں کے تختے الٹ دیئے (یوحنا ۲: ۱۴، ۱۶) عام آدمی کو ایسا کام کرنا مناسب نہ ہوتا۔ لیکن وہ چونکہ یہودیوں کو خدا کی طرف رجوع کرنے کے لئے آیا تھا۔ اس لئے اس کو جائز تھا کہ وہ موقع پاکر ایسا کام کرے۔ پھر اس نے گر گسا میں دیوؤں کو آدمیوں میں سے نکال کر انہیں سؤروں میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور سؤروں کو ہلاک کرایا۔ (مرقس ۵: ۱۱۔۱۳) ہم یقیناًً تو نہیں کہ سکتے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ مگر ممکن ہے کہ سؤروں کے مالک جو یہودی تھے مسیح نے اس طرح سے ان کی گستاخی آمیز نافرمانی پر تنبیہ کی ہو۔ جیسا کہ پیشتر ہیکل میں  خریدوفروخت کرنے والوں کو کی تھی۔ اور ممکن ہے کہ دیوؤں کا برملا جانوروں میں داخل کر دنیا اس واسطے ضرور ہوا ہو کہ جن آدمیوں پردیو چڑھے ہوئے تھے ان کو یقین ہو جائے کہ ہم ان سے چھوٹ گئے۔ یا شاید اس غرض سےضرور ہوا ہو کہ دیوانہیں مروڑ نے نہ پائیں۔ بے اذیت دئے ان سے نکل آئیں۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ آدمیوں کوچھٹکارے کے واسطے حیوانوں کو دکھ دنیا کچھ انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ خدا کے روزمرہ کے نبدوبست کے موافق ہے۔ اور جب شیاطین کی ایسی مہلک تاثیر ظاہر ہوئی کہ انہوں نے بیعقل حیوانوں میں داخل ہوتے ہی ان کو ہلاک کر ڈالا تو صاف ظاہر ہوا کہ آدمی کو ان سے کیسی نفرت کونی چاہیے۔ پھر مسیح نے انجیر کے بے ثمر درخت کو سراپ  دیا۔

اس کاکام کا ماحصل یعنی یہ جتاتا کہ یہودیوں کی نکمی قوم اسی طرح ملعون ہوگی۔ ایسا بڑا اور ضروری کام تھا کہ اس کے واسطے ایک بے ثمردرخت کا سکھا دینا کچھ قابل لحاظ نہ تھا۔ (متی ۲۱: ۸۱۔ ۲۴) تک پھر مسیح حالانکہ یہودااسکریوتی کا مزاج جانتا تھا۔ تا ہم اس نے اسے اپنے رسولوں کے زمرہ میں داخل کر لیا۔ (متی ۴:۱۰)اور اخیرتک اپنے ساتھ رکھا۔ اس بات کا سمجھنا البتہ بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ دو باتیں یاد رکھنی چاہین۔ ایک تویہ کہ یہودا اگر اپنا دل سخت نہ کرتا تو توبہ کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کا رسولوں کے زمرہ میں داخل ہونا ہر زمانہ کی کلیسیا کی عبرت کے واسطے ضرور تھا۔ پھر مسیح نے صلیب پر کہا کہ ‘‘اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا’’ (متی۲۶:۲۷) اس کا بھید تو فی الحقیقت انہی کو معلوم ہو سکتا ہے جو اس کے کفارہ کو مانتے ہیں۔ لیکن اگر وہ صرف نبی تھا تو بھی اس قول سے بے صبری ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس نے خدا کو اپنا کہا۔ اگردہ بالکل بیگناہ اور خدا کا کامل بندہ نہ ہوتا تو اس کی کچھ وجہ معلوم نہ ہوتی کہ اس نے یہ بات تعجب سے کیوں کہی۔

مسیح کا ایک اور فعل ہے جس کو ہم اس مقام پر کچھ ذکر کر نے کے قابل نہیں سمجھتے۔ لیکن چونکہ بعض مسلمان لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں اس واسطے اس کا ذکر بالکل نہ کرنا بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ وہ یہ ہے کہ مسیح نے پانی کو مے بنایا۔ (یوحنا ۲: ۹۔ ۱۱) لیکن کوئی آدمی کو اپنے خاص مذہب کے سبب شراب کے مطلق نا جائز ہونے کا قائل نہ ہو گا اس فعل کو عیب نہ سمجھے گا۔ نہ توریت میں اس رائے کی طرف کچھ اشارہ ہے اور نہ زبور نہ انجیل میں کہ شراب کا استعمال مطلق ناجائز ہے۔ قرآن نے جو مسیح سے چھ سو برس بعد اس کو ناجائز ٹھہرایا کوئی صاحب انصاف مسیح کو اس کے سبب گنہگار نہیں ٹھہراسکتا۔ البتہ مستی بڑا گناہ ہے۔ اس واسطے بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ ان کو اس گناہ کے خوف کے سبب مناسب ہے کہ مطلق شراب نہ پیئں۔ لیکن جو اعتدال سے پیتا ہے وہ توریت اور زبور اور انجیل کی رو سے گنہگار نہیں ہے۔

۳۔

ایک اور اعتراض ہے جو بعض لوگوں کو سب سے زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ وہ ایہ ہے کہ مسیح نے خود اپنی نیکی سے انکار کیا۔ یعنی یہ کہا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا’’ (مرقس ۱۰: ۱۷۔ ۱۸) کو دیکھو۔ لیکن مسیح نے جس سے یہ فرمایا وہ جو ان اپنے اخلاقی حال سے بالکل خوش اور مطمن ہو کر مسیح کے پاس آیا تھا۔ اور نہ بدی کا بھید جانتا تھا نہ نیکی کا۔ جب اس نےاس طرح بغیر سوچے نیکی کا ذکر کیا تو مسیح نے جواب میں اس نیک ذات کا نام لیا جو اکیلا مطلق نیک ہے اور ساری نیکی کا سر چشمہ۔ چونکہ مسیح بھی آدمی کی نیکی تھی اس واسطے اس نیکی کی بنیاد اس کی بشریت پر نہ تھی  بلکہ وہ اسی کی مقاربت سے ہمشہ قائم رہی۔

گیارہواں باب

مسیح کی بیگناہی کے نتائج

جب یہ ثابت ہو چکا کہ ایک بالکل بیگناہ آدمی اس دنیا میں گزرا ہے تو ضرور ہے کہ ایسا بڑا واقعہ لا حاصل نہ ہو۔ بلکہ ضرور اس سے بہت بڑے نتیجے نکلنے چاہئیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور جو نتیجے نکلے وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کہ خود مسیح سے علاقہ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ہم سے علاقہ رکھتے ہیں۔

۱۔ اول قسم کے نتیجے یہ ہیں۔

(۱)۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ مسیح نے جو کچھ دین اور چال چلن کی نسبت فرمایا ہے اس میں غلطی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ غیر ممکن ہے کہ کوئی بیگناہ ہو کر ہم میں رہے اور پھر جب تاکید کے ساتھ دینی باتوں کی ہدایت کرے تو غلطی کر سکے۔ بلکہ اگر ہم کو یہ معلوم ہو کہ ایک آدمی بیگناہ ہے اور پھر بھی دینی باتوں کی غلط ہدایت کرتا ہے۔ تو ضرور ہم کو یا اس کی بیگناہی میں شک ہو گا۔ یا اس کی ہدایت کی غلطی میں۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہم از خود جانتے ہیں کہ دینی باتوں میں جو نادانی اور غلطی ہوتی ہے وہ دل کی تاریکی کے سبب ہوتی ہے۔ یعنی اس سبب سے کہ گناہ دل پر کم و بیش چھایا ہوا ہوتا ہے۔

(ب)۔ دوسرے جب مسیح بیگناہ ٹھہرا تو اس کا بڑے بڑے معجزے دکھانا کچھ جائے تعجب نہیں۔ جو لوگ معجزوں کو غیر ممکن سمجھتے ہیں ان سے تو اس مقام میں کچھ بحث نہیں۔ کیونکہ وہ نہ بیگناہی کا امکان مانتے ہیں۔ ان کو یہ بھی بھید جانتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ایک زندہ خدا کو مانتے ہیں ان کو یہ بھی ماننا ضرور ہے کہ معجزوں کا وقوع بشر طیکہ وہ مناسب موقع پر ہوں جائے تعجب درکنار۔ بالکل لازم اور واجب ہے۔ اور پھر اس وجہ سے یہ بھی ماننا ہو گا کہ اگر کوئی بیگناہ آدمی کبھی گذرا ہے تو خدا نے خاص اسی کے وسیلہ سے بڑے معجزے دکھائے ہوں گے۔ کیونکہ بنی آدم کی اس خراب حالی میں جواب ہے ایک بیگناہ آدمی کا ظہور خود ایسا بڑا معجزہ ہے کہ تجسم کے سوا اور کوئی معجزہ اس سے کبھی بڑا نہیں ہوا۔ پس جب بشریت کا سلسلہ ایسے بڑے معجزہ سے توڑا گیا تو کچھ بڑی بات نہیں کہ وہ بیگناہ آدمی دنیا کے معمولی قوانیں قدرت کے سلسلے کو بھی توڑ سکے۔ اور دنیا کی حکومت کا نشان دکھائے جو آدمی کی خاص خلقت کے سبب آدمی کا حق ہے (پیدائش ۲۸:۱، زبور۸: ۶۔۸) کیا وہ بھی ان قاعدوں کا پابند رہے گا جن کے ہم اپنی خستہ حالی سے پابند ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسی واسطے انجیل میں جیسا مسیح تعلیم کا یہ بیان ہے کہ وہ اور سب مرشدوں کی نسبت زیادہ اختیار اور یقین کے ساتھ تعلیم دیتا تھا۔ ویسا ہی اس کی قدرت کا بیان ہے کہ وہ اور سب نبیوں سے زیادہ معجزے دکھاتا تھا۔ ہاں اگر اس کا  کوئی معجزہ اس کی بیگناہی کے بر خلاف ہوتا۔

مثلاًً اگر اس نے کوئی معجزہ صرف اپنی قدرت دکھلانے کے واسطے یا اپنے کسی دشمن کا نقصان کرنے یا آرام حاصل کرنے کے لئے دکھایا ہوتا۔ تو  ایسے معجزہ سے اس کی بیگناہی کا عقیدہ رد ہو جاتا۔ لیکن برعکس اس کے مسیح کے سب اوروں کے فائدہ یا روحانی تعلیم کے واسطے وقوع میں آئے بلکہ اس نے کوئی معجزہ اپنی ضروریات کے رفع کرنے کے واسطے بھی نہیں دکھایا۔

(ج) تیسرا نتیجہ فی الحقیقت پہلے نتیجہ میں شامل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب مسیح  بیگناہ تھا تو جو کچھ اس نے اپنی نسبت کہا گو پوری طرح وہ ہماری سمجھ میں نہ آیا ہو پھر بھی قبول کرنا چاہے۔ جب ہم اس کی طرف کامل نیکی منسوب کرتے ہیں تو وہ اپنے حق میں کسی طرح کی گواہی کیوں نہ دے ہم اس کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔ اور جو لوگ کسی قدر بھی غور سے انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں ان پر بخوبی روشن ہے کہ مسیح ہر جگہ اپنے تیئس اور سب سے اعلیٰ اور مقدم کہتا ہے۔اور یہ نہ صرف طبیعت یا مزاج کے اعتبار سے کہتا ہے۔ بلکہ خطرت یا ذات کے اعتبار سے بھی۔ وہ ہر جگہ اس طرح اپنا ذکر کرتا ہے کہ میں باپ کے پاس سے آیا ہوں۔ میں آسمان سے اترا ہوں۔ میں یہاں صرف مدت اور ایک خاص کام کے واسطے ٹھہرا ہوں۔ پھر اپنے بھیجنے والے کے پاس جاتا ہوں۔ ایسی ایسی باتوں سے ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح کی پیدائش اور آدمیوں کی پیدائش کی طرح نہیں ہوئی۔ بلکہ خدا کی محض قدرت سے ہوئی۔ جو لوگ یہ نہیں مانتے کہ مسیح کنواری سے پیدا ہوا ان کو یہ بھی کہنا ہو گا کہ اس کے ان اقوال میں بڑا مبالغہ ہے۔ لیکن چونکہ مسیح کی اکثر گفتارورفتار میں مبالغہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ بات کچھ معقول نہ ہو گی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اور آدمیوں میں ان کی پیدائش کے سبب ایک ایسا بڑا میلان پیدا ہوتا ہے کہ گو وہ گناہ میں شامل تو نہین تا ہم گناہ کا باعث ہوتا ہے۔ اور ہماری اخلاقی ترقی کو ایسا روک دیتا ہے کہ وہ ابتداہی سے درست نہیں ہو سکتی۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ بیگناہ آدمی کے واسطے یہی مناسب تھا کہ وہ آدمیوں کی طرح پیدا نہ ہو۔

اس کے علاوہ مسیح نے اپنے حق میں جو گواہیاں دیں۔ ان سے نہ صرف اس کا کنواری سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ نیک اور بہت بڑانتیجہ بھی نکلتا ہے مثلاًً وہ کہتا ہے کہ میں جو زمین پر ہوں آسمان پر بھی ہوں (یوحنا ۱۲:۳) اور پھر اپنے تیئس سارے آدمیوں کا منصف ٹھہرا کر فرماتا ہے۔ خدا نے عدالت کا سارا کام میرے سپرد کیا ہے۔ (یوحنا ۲۲:۵) پھر تمام جہان کے محنت اٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگوں کو اپنے پاس بلاتا ہے اور ان کو آرام دینے کا وعدہ کرتا ہے (متی ۲۸:۹) پھر اپنے تئیں ہر ایک آدمی کے لئے والدین اور ادلاد سے بھی زیادہ غزیر ٹھہراتا ہے۔ (متی ۳۵:۱۰) پھر اس بات کا دعوےٰ کرتا ہے کہ سب آدمی مجھ پر ایمان لائیں اور مجھ پر توکل رکھیں اور میری خدمت اور اطاعت میں مصروف رہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر ایک آدمی کی ابدی خوشی اور ابدی عذاب میرے ساتھ برتاو ٔ رکھنے پر موقوف ہو گا یعنی جیسا کوئی مجھ سے علاقہ رکھے گا  ویسا وہاں پائے گا۔

(متی ۳۴:۲۵) ان باتوں سے خواہ مخواہ دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شحض یا تو سارے بزرگ ترین ہاویوں اور پاک ترین آدمیوں اور جلیل ترین فرشتوں سے نہایت اعلیٰٰٰ اور مقدم تھا۔ یا معاذا اللہ  ایسا گستاخ اور کافر اور خدا کا مخالف تھا کہ اور کوئی آدمی کبھی نہ ہوا ہو گا۔ بلکہ شاید اس کو دیوانہ ہی کہنا ضرور ہو گا۔ لیکن جو کوئی انجیل کو صرف ایک مشہور کتاب سمجھ کر بھی پڑھے اس کو ایسا نتیجہ نکالنا غیر ممکن ہو گا۔ برعکس اس کے جو کوئی ایک بار اس عظیم ترین معجزہ کو مان لے کہ خدا مجسم ہوا اس پر یہ ساری باتیں بخوبی کھل جاتی ہیں۔ یعنی یسوع کا چال چلن اور اس کی تعلیم دونوں یکساں اور موافق دکھائی دیتے ہیں اور یہ دونوں تجسم کے معجزہ کے ضرور نتیجے معلوم ہوتے ہیں۔

۲۔اب ان نتیجوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو ہم سے علاقہ رکھتے ہیں۔

(ا)

جب مسیح بیگناہ ٹھہرا تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ہمارے لئے خدا کی ذات کا مظہر ہے۔ جو پیغمبر صرف خدا کے پیام کا پہنچانے والا ہو اس کے واسطے تو بیگناہی ضرور نہیں۔ لیکن ہان ایسا پیغام صرف ایک درجے تک خدا کی ذات کا مظہر ہوتا ہے۔ برعکس اس کے جب ایک بے گناہ آدمی خدا کی طرف  سے آئے تو وہ نہ صرف خدا کی ذات کا مظہر ہو گا۔ بلکہ خود اس کا مظہر بھی ہو گا۔ بلکہ خدا کی ذات کا پورا ظہور ایسے ہی آدمی سے ہو سکتا ہے۔ چونکہ خدا ایک شحض ہے اس واسطے اس کی ذات کا پورا ظہور نہ کتاب سے ہو سکتا ہے نہ اور کسی غیرناطق چیز سے۔ بلکہ صرف ایک شحض سے ہو سکتا ہے۔ پس صرف ایک بیگناہ شحض خدا کی ذات کا پورا مظہر ہو سکتا ہے۔ چنانچہ مسیح فرماتا ہے کہ‘‘ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا تو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو اس میں دکھا۔’’ (یوحنا ۹:۱۴) خدا کی راستی ،پاکی، محبت،فضل، صبر، تحمل، سچائی، وفاداری، گناہ سے نفرت وغیرہ کا ایسا پختہ ثبوت ہم اور کہیں نہ پائے گئے جیسا کہ یسوع مسیح کی گفتاردرفتار و موت اور جی اٹھنے سے پاتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ اس کو جانتا تھا۔ یعنی یوحنا رسول۔ اس نے اس کے حق لکھا ہے کہ اس نے فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان خیمہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اسی نے اظہار کیا۔’’(یوحنا ۱۸،۱۴:۱)۔

(ب)

پھریہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیگناہ آدمی نہ صرف خدا کی ذات بلکہ اس کی مرضی کا مظہر ہو گا۔ یعنی وہ آدمیوں کے واسطے کامل نمونہ ہو گا۔ اور سب آدمی اس کے نمونہ ہی پر چلنے سے خدا کو پسند آسکتے ہوں گے۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ انسان کے تمام احوال مسیح پر نہیں گزرے۔ اس واسطے وہ تمام معاملوں میں انسان کے واسطے نمونہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو آپ سے آپ ظاہر ہے کیونکہ ایک ہی آدمی کی عمر میں سب احوال نہیں گزر سکتے۔ لیکن مسیح کے نمونہ پر چلنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم ہر ایک کام ایسا کریں جیسا اس نے کیا۔ اور اگر یہ مراد ہوتی تو سب آدمیوں کو مرشد بنتا بلکہ یہودیوں کی ساری باتیں اختیار کرنی بھی ضرور ہوتیں۔ لیکن اس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح جس سبھاؤ سے اپنا ہر کام کرتا تھا ہم لوگ اسی سبھاؤ سے اپنا اپنا ہر ایک کام کریں۔ یعنی اس کے سبھاؤ ہی کے پیرو ہوںنہ کہ اس کے سب ظاہری افعال کے مگر پھر بھی یہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے مرشد ہونے کے سوا۔ جو خاص سببوں سے ضرور تھا۔ اس کی تمام رفتارروگفتار ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانے اور ہر درجہ اور ہر حالت کے آدمیوں کی پیروی کے ایسی لائق ہے کہ اور کسی کی کبھی نہیں ہوئی۔ نہ ہندوستانیوں کو وہ اجنبی معلوم ہوئی ہے اور نہ انگریزوں کی نسبت یہودیوں سے بہت زیادہ دور اور جدا ہیں۔ ان کو بھی وہ اجنبی نہیں معلوم ہوتیں۔ یہاں تک کہ تمام جہان کے لوگوں کے لئے مسیح ایک عام نمونہ معلوم ہوتا ہے۔ اور اس پر سب چل سکتے ہیں۔ اور جب سب چل سکتے ہیں۔ تو سب کو چلنا واجب اور فرض بھی ہے۔

(ج)

اس کے علاوہ بے گناہ آدمی اور آدمیوں کے واسطے نہ صرف خدا کی ذات اور مرضی کا مظہر ہو گا۔ بلکہ اس نے جو گواہی اپنے حق میں دی ہے جب اس کو مانتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اور آدمیوں کا ان کے گناہوں سے رہائی دینے والا بھی ہو گا۔ نہیں اعتراض ہو سکتا ہے کہ بیگناہ آدمی کیوں دکھ اٹھائے اور مر جائے؟ اگر اس کا دکھ اور موت دوسرے شحض کی طرف سے ہوئی تو وہ دوسرا شحض بے انصاف ٹھہرتا ہے۔ اور اگر اس کی اپنی طرف سے ہوئی تو اس کا اپنی زندگی کو جس سے اوروں کو بہت فائدہ پہنچتا تھا ترک کرنا ہی اس کی بیگناہی کا متناقض ہے۔ ایسے اعتراض کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ وہ  جو دکھ موت میں متبلا کیا گیا اور پھر اس نے خود انہیں اختیار بھی کیا یہ گنہگاروں کی نجات ہی کے واسطے ہوا۔ ورنہ جو سوال مسیح نے صلیب پر کیا کہ ‘‘اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے’’؟ (متی ۴۶:۲۷) اس کا کچھ جواب نہ ہو سکتا۔ اس سوال کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ جو آدمی اس سوال کرنے کے وقت مرنے کو تھا وہ خدا بھی تھا اور اس نے تمام نبی آدم سے ایسا علاقہ رکھا تھا کہ ان کا پیشوا اور عوض ہو سکے اور اس طرح خود بیگناہ ہو کر نبی آدم کے گناہوں کے واسطے دکھ اٹھا سکے اور کفارہ ہو سکے۔ اگر ہمیں ذرابھی گناہ ہوتا تو اس کے تمام دکھوں سے اس کے گناہ کا بھی کچھ کفارہ نہ ہو سکتا۔ لیکن چونکہ وہ بیگناہ تھا اس لئے اب ہم اس کی لا انتہا اذیتوں پر نظر کر کے اور یہ جان کر کہ وہ ان کا کچھ بھی مستوجب نہ تھا اپنے گناہ کو اسپر اورا ہوا اور اس کے خون سے دھویا ہوا جان سکتے ہیں۔

(د)

یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ مسیح کے کفارہ سے کسی کو خواہ مخواہ نجات نہیں ملتی۔ یہ نجات اسی کو مل سکتی ہے جو مسیح سے میل رکھتا ہے۔ اور اس میل سے نہ صرف گناہ کی مغفرت ہوتی ہے بلکہ نئی اور پاک زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ اس نئی زندگی کا پہلا کام توبہ ہے۔ یعنی اپنے گناہ سے افسوس اور نفرت کر کے خدا کی طرف مڑنا۔ لیکن یہ توبہ اور کسی وسیلے سے انسان کے دل میں اس قدر پیدا نہیں ہوتی جس قدر کہ بیگناہ مسیح کے دکھ اٹھانے اور مرنے پر غور کرنے سے ہوتی ہے۔ مسیح کے پاک چال چلن پر غور کرنے سے تو اپنی نیکی کی ایسی تحقیر اور اس کی ترقی کی ایسی بڑی آرزو پیدا ہوتی ہے جیسی اور کسی وسیلے سے نہیں ہوتی۔ مگر جو کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ بیگناہ شحض میرے ہی گناہ کے سبب لاانتہا دکھ میں گرفتار ہو کہ مر گیا۔ وہ پیشک اپنے گناہ سے اس سے بھی زیادہ سخت نفرت کر یگا اور اس سے بالکل پاک ہو نیکا آرزومند ہو گا۔

(ہ)

لیکن مسیح نہ صرف ایسے ایسے خیالات کے وسیلے سے اپنے پیروؤں کو گناہ کے قبضے سے چھڑاتا ہے۔ بلکہ اپنی ذاتی تاثیر سے بھی ایسا کرتا  ہے ۔ جو لوگ اس سے میل رکھتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ مرتے اور جی اٹھتے ہیں۔ وہ ان کے لئے نئی زندگی کی اصل اور دائمی سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس کی بیگناہی نہ صرف ہماری طرف منسوب ہوتی ہے۔ بلکہ ہم کو رفتہ رفتہ زیادہ حاصل بھی ہوتی جاتی ہے۔ ہماری پرانی انسانیت تو گناہ آلودہ رہتی ہے۔ لیکن ایک نئی انسانیت جو گناہ سے پاک ہے ہم میں پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پولس کہتا ہے کہ ‘‘میں زندہ ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے زندہ ہوں۔’’ (گلتیوں ۲۰:۲) دیکھو۔

(و)

اب یہ بیگناہ مسیح نہ صرف ایک ایک فرد بشر میں اپنی زندگانی اور اپنی بیگناہی کا اثر پیدا کرتا ہے۔ بلکہ اس نے ایک جماعت بھی قائم کی ہے۔ جس میں یہ بیگناہی اور زندگی ظاہر ہوتی ہے اور اس جماعت کو کلیسیا کہتے ہیں۔ چونکہ آدمی مدنی الطبع ہے اس واسطے ایک اکیلا آدمی کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو پھر بھی جب تک کسی کامل جماعت میں شامل نہ ہو اس کی کاملیت غیر ممکن ہو گی۔ دنیا میں جماعیتں تو بے شمار طرح کی ہوئی ہیں۔ لیکن چونکہ آدمی کا خاص کام دینداری ہے اس لئے وہ جماعت اور سب جماعتوں سے مقدم ہوگی جس کا مقصود اصلی دینداری ہی ہو۔ پھر دینی جماعتیں بھی دنیا میں بے شمار ہوئی ہیں لیکن وہی دینی جماعت سب سے مقدم ہو گی جس کو اس آدمی نے قائم کیا ہو جو سب آدمیوں میں اکیلا بیگناہ تھا۔ بلکہ یہ بھی ظاہر ہے کہ سب آدمیوں پر فرض ہے کہ اسی جماعت میں شریک ہوں۔ ورنہ اس بیگناہ شحض سے میل رکھنا ممکن نہ ہو گا۔ ہاں چونکہ یہ جماعت ظاہری ہے اس واسطے کچھ عجب نہیں کہ بہت سے ایسے لوگ بھی اس میں پائے جائیں جو باطن میں اس سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے۔ مگر پھر بھی جو دل سے مسیح کے مقلدہیں۔ ان کو اس میں شریک ہونا ضرور ہے۔

(ذ)

لیکن کلیسیا کا یہ حال ہمیشہ نہیں رہ سکتا کہ اس میں برے آدمی بھی شریک رہیں۔ بلکہ بیگناہ مسیح اس کو آخرکار بالکل پاک صاف کر یگا۔ جو آدمی بیگناہ ہے وہ بذاتہ غیر فانی بھی ہے۔ کیونکہ موت کا سبب گناہ ہی ہے پس جو گناہ ہے اس پر کس طرح موت غالب رہ سکتی ہے؟ لیکن چونکہ وہ نبی آدم کا پیشوا بھی ہے اس لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنے ہی میں غیر فنا پذیری رکھنے پر کفایت کرے۔ بلکہ ضرور ہے کہ وہ اسے اپنے سب پناہ گیروں کو جن میں وہ خود رہتا ہے عنایت کرے۔ لیکن صرف بقا آدمی کے لئے کافی نہیں ہے۔ بلکہ جو ہمیشہ کی زندگی اس کو چاہئے وہ کامل زندگی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی جنتے کمال کر پہنچ سکتا ہو وہ اس کو حاصل ہوا اور ہمیشہ حاصل رہے۔ پس یہ بھی بیگناہ منجی کا کام ہے کہ جو پاک زندگی وہ اپنوں کو دیتا ہے اسے کمال کو پہنچائے۔ یہاں تک کہ گناہ کا نام دنشان بھی ان میں رہے۔ اور اس کے علاوہ اپنی کلیسیا کو بھی کمال کو پہنچائے۔ یہاں تک کہ سب بد لوگ ہمیشہ کے لئے اس سے الگ کئے جائیں۔ ‘‘یہی وہ امید ہے جو بائبل میں مذکور ہے۔ یعنی جس طرح گناہ نے موت کے وسیلے سے بادشاہی کی اسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے سبب ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے لئے بادشاہی کرے۔’’ (رومیوں ۲۱:۵)۔

اس بیگناہ شحض سے جو گہنگاروں کو گناہ سے بچاتا ہے ان لوگوں کا غافل رہنا غیرممکن ہے جو اس سے واقف ہو چکے ہوں۔ الغرض خدانے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اس کے بیٹے میں ہے۔ جس کے پاس بیٹا ہے اس کے پاس زندگی ہے۔ اور جس کے پاس خدا کا بیٹا نہیں اس کے پاس زندگی نہیں۔’’(۱۔یوحنا ۵: ۱۱، ۱۲)۔

تتمہ

مسیح کی بیگناہی کے عقیدہ کی تواریخ

حواریوں کو اور پہلی پشت کے مسیحیوں کو مسیح کی بیگناہی مسیحی دین میں ایسی بالضرور شامل معلوم ہوتی تھی کہ وہ کبھی اس میں شک پیدا ہوئے اور نہ کبھی دلیلوں سے اس کو ثابت کیا گیا۔ جہان تک ہم کو معلوم ہے یہ ہے کہ پہلے پہل جس نے اس عقیدہ میں شک کیا وہ گنوستک فرقے میں سے باھل دا نامی ایک آدمی تھا جو دوسری صدی کے اول نصف میں گزرا ہے اس کی یہ راے تھی کہ ہر ایک آدمی اپنے دکھوں سے اپنے گناہوں کا کفارہ دیتا ہے اور اس نے مسیح کی طرف بھی اس کو منسوب کیا۔ لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ مسیح نے کوئی گناہ کیا۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ معصوم تھا اور جس طرح بچے کسی برے کام کے سبب دکھ نہیں اٹھاتے۔ بلکہ اپنے گناہ آلودہ میلان کے سبب اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح کا بھی حال تھا۔

جب گنوستکوں کی مخالفت کے سبب کلیسیا مسیح کی حقیقت و۔ماہیت پر زیادہ غور کرنے لگی تو اس کی بیگناہی کا چرچا بھی شروع ہوا۔یہ خاص کر اوربنیس  ترتلین،کلے منٹ، اورجین کے نوشتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس میں اتنا فرق ہے کہ ترتلین نے تو یہ سمجھا کہ مسیح کی بیگناہی اس کی الوہیت کا ضروری نتیجہ ہے اورجین نے یہ سمجھا کہ مسیح کی انسانی روح اسی واسطے الوہیت سے ملنے کے لائق ٹھہری کہ وہ بیگناہ تھی۔ کلے منٹ مسیح کو ان مارتبس یعنی بیگناہ نہیں کہتا  بلکہ انے پے تھو میتس یعنی بے خواہش کہتا ہے۔ گناہ کے باب میں کلے منٹ کی یہ غلط رائے تھی کہ جہاں خواہش ہوتی ہے وہاں گناہ بالضرور ہوتا ہے۔ اور اس کی غلطی سے یہ لفظ پیدا ہوا۔ مگر جب کلیمنٹ نے مسیح کو بے خواہش ٹھہرایا تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مسیح کو بے گناہ بھی سمجھا ہو گا۔ پہلے پہل جس کی تصنیفات میں (لفظاں مارتیس) مسیح کے حق میں پایا جاتا ہے۔ وہ ھپولیوتس ہے جو تیسری صدی کے اول نصف میں گذرا ہے۔

اپل فارییس نے جو چوتھی صدی کے وسط میں گزرا ہے اپنی خاص رائے کے ثبوت کے لئے مسیح کی بیگناہی پر تکیہ کیا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ پورا انسان بیگناہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نیکی میں ترقی کرنے کی کوشش اور گناہ کے ساتھ جنگ کے بغیر کامل نہیں ہو سکتا۔ اور جہاں یہ ترقی اور جنگ ہوتی ہے وہاں گناہ کا ہونا بھی ضرور ہے۔ لیکن انسان کے نجات دہندہ کے لئے ضرور ہے کہ وہ گناہ سے بری ہواور اس سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو۔ اس سبب سے مسیح پورا انسان نہ تھا۔ بلکہ اس کی انسانی روح کے عوض اس کی الوہیت کام کرتی تھی اور اس کی قدرت سے وہ بیگناہ رہا۔

اس کا جواب اسانے سیس نے یہ دیا کہ اگرچہ گناہ اب سب آدمیوں میں پایا جاتا ہے۔ پھر بھی وہ جزٔانسانیت نہیں ہے اور اس سبب سے ممکن تھا کہ مسیح پوار آدمی بھی ہو اور بیگناہ بھی ہو بلکہ یہ ضرور بھی تھا تاکہ وہ ہم کو دکھائے کہ ہم جو پورے انسان ہیں گناہ سے مخطوظ رہ سکتے ہیں۔

کلیسیا کے جس مجمع میں پہلے پہل مسیح کی بیگناہی کا ذکر ہوا کلے منڈون کا مجمع ہے جو ۴۵۱؁ءہواتھا۔ اس میں یہ ٹھہراکہ ‘‘مسیح فی الحقیقت آدمی تھا۔ روح ناطق اور بدن سے بنا ہوا۔ اپنی آدمیت کے اعتبار سے ہمارا ہم جنس۔ اور گناہ کے سوا سب باتوں میں ہماری مانند۔’’

(۔۔۔)معلموں نے بہت صاف صاف اور بڑی تاکید کے ساتھ مسیح کی بیگناہی کا اقرارکیا۔ لیکن وہ خاص کر اسی بات پر بحث کرتے تھے کہ آیا مسیح کے لئے گناہ کرنا ممکن تھا یا نہیں۔ اس باب میں پترلم بارڈ کا یہ قول اکثرلوگوں نے منظور کیا کہ مسیح کی روح چونکہ الوہیت سے ملی ہوئی تھی۔ اس لئے گناہ نہیں کر سکتی تھی۔

یہ معلوم ہوتا ہے کہ فران سبتبکی لوگ جو بڑے شددمد سے اس عقیدہ کے طرف دار تھے کہ مریم جس وقت سے اپنی ماں کے پیٹ میں پڑی بیگناہ تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ اس سے مسیح کی بیگناہی زیادہ ثابت ہو گی۔ مگر اس سے یہ بڑا نقصان ہوا کہ یا تو مسیح کے سوا ایک اور نجات دہندہ ثابت ہوا یا یہ ثابت ہو ا کہ بیگناہی اور نجات وہی دونوں آپس میں لازم ملزوم کا علاقہ نہیں رکھتیں۔ رومی کلیسیا نے رفتہ رفتہ مریم کی بیگناہی کی رائے کو تسلیم کیا۔ یہاں تک کہ مریم کے نام کا ایسا استعمال ہو گیا جیساکہ نجات دہندہ کے نام کا ہونا چاہے۔ تو آخر کار ۸دسمبر ۱۸۵۴؁ءمیں کلیسیا کے ضروری عقیدہ کے طور پر یہ ٹھہرایا گیا۔ کہ مریم پیٹ میں پڑنے ہی کے وقت سے لے کر بیگناہ تھی۔

چونکہ مریم اور مقدسوں کی حد سے بڑھ کر تعظیم کرنے کے سبب مسیح کے سوا خدا اور انسان کے درمیان بہت سے شفیع قائم ہو گئے تھے۔ اس لئے پانچویں صدی کے مصلحوں کا خاص کام یہی تھا کہ مسیحیوں کے خیالوں میں مسیح جس درجہ سے اتارا گیا تھا۔ پھر اسی درجہ پر اسے بحال کریں۔ اس واسطے ان کو بھی مسیح کی بیگناہی بدیہی بات معلوم ہوتی تھی۔ پس انہوں نے س پر بحث نہیں کی۔ ان کی دوسری پشت میں پھر یہ بحث شروع ہوئی ۔ اور خاص کر انیسویں صدی میں اس عقیدہ کی نسبت بڑا مباحثہ ہوا ہے۔ بہت سے عالموں نے اس عقیدہ کو ترک کیا۔ اور ان میں سے بعض تو دی اسٹ ہیں جو مسیح کو محض آدمی مانتے ہیں کہ انسان کے ساتھ کچھ نہ کچھ گناہ یا بقول ان کے کمزوری ضرور شامل ہے۔بعض پنتھی اسٹ ہیں جو بدیاور نیکی دونوں کو دنیا کی فطرت کی ضروری صورتیں سمجھتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے جواب میں بہت سی کتابیں خصوصاً جرمنی میں خاص اسی عقیدہ کے باب میں تصنیف ہوئیں۔ ان کے مصنفوں میں سے خاص کر شلے آرماخر کا نام لینا ضرور ہے۔ جو ۱۷۶۸؁ءمیں پیدا ہوا اور ۱۸۳۴؁ءمیں مر گیا۔ اس کے بہت سے خیال تو خام تھے مگر اس سبب سے وہ دائمی تعریف کے قابل ہے کہ اس کہ اس نے مسیحی دین کی حقیقت کا یوں بیان کیا۔ کہ اس دو خاص حقیقتوں کا ذکر ہے۔ یعنی گناہ اور فضل کا۔ اور فضل کا یہ عمل ہے کہ بیگناہ نجات دہندہ کے تاثیر سے گناہ کا غلبہ دفع کیا جاتاہے۔

مذکورہ بالا کتابوں میں پروفیسر المن صاحب کی کتاب مسمی یسوع کی بیگناہی خاص ذکر کے لائق ہے۔ اور اسی کے بیان کی بنیاد پر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔

آمین

۱۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ یونانی میں اکثر یہ لفظ بجائے فرشتے کے مستعمل ہو تا تھا۔

۲۔ نیکی دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ایک دینداری یعنی وہ نیکی جو خاص خدا کے ساتھ علاقہ رکھتی ہے۔ دوسرے راستبازی یعنی وہ نیکی جو خاص انسان کے ساتھ علاقہ رکھتی ہے مثلاً انصاف یا پرہیز گاری یہ اسی ہی تقسیم جیسے مسلمانوں کے ہاں عبادت و معاملات۔

۳۔ (اعمال ۳۸:۱۰) کو دیکھو (یوحنا ۴:۹) کو دیکھو (یسعیاہ ۳:۵۳)

۴۔ کرنتھیوں ۱۱:۱ کو دیکھو۔

۵۔ فٹ نوٹ ہمرتیا ایک یونانی لفظ ہے اور دینی کتاباں میں جس جگہ لفظ گناہ آیا ہے وہ اسی لفظ کا تر جمہ ہے۔

۶۔ان سے وہ یونانی کتابیں مراد ہیں جن میں صرف پرانے یونانی مذہب کے خیالات کی تاثیر ہے۔

۷۔ یہ دو کتابیں ہیں جو پہلی صدی کے بعد لکھی گئیں اور انجیلوں کے نام سے مشہور ہوئیں مگر یہ معتبر نہیں گئے جاتیں۔ یہ ایک مشہور مسیحی ہے جو دوسری صدی میں گزرا ہے۔

۸۔ ہاں بنی اسرائیل میں ایک قسم کے لوگ تھے جو نذیر کی منت مانتے تھے اور البتہ ان کے واسطے شراب مطلق ممنوع تھی۔ گنتی کے چھٹے باب کو دیکھو۔ لیکن توریت میں اور کسی قسم کے لوگوں کے واسطے ایسا حکم نہیں ہے۔

۹۔ یعنی یہ عقیدہ کہ خدا مجسم ہو کر مسیح کی صورت میں ظاہر ہوا۔

۱۰۔ علم الہٰیات کی اصطلاح میں لفظ شخص سے مراد ہے (۔۔۔) یعنی ایسا ذی العقل وجود جس میں خود شناسی و خود مختاری پائی جاتی ہے۔

۱۱۔ یعنی جس میں انسانیت کے تمام اجزا موجود ہوں مثلاً روح جسم وغیرہ۔

۱۲۔ کلیسیا کے وہ معلم اس نام سے مشہور ہیں جو یورپ میں گیارھویں صدی سے پندرھویں تک گزرے ہیں۔