۴ |
سائنس اور بائبل مقدّس |
ایوب نبی نے فرمایا ” وہ (خدا) زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے۔ “ — ایوب ٢٦ :٧ |
چند سال ہوۓ مَیں اور میری اہلیہ زمین کی گہرائ میں ایک غار کے اندر گۓ۔ ہماری گائیڈ خاتون ہمیں غار کے فرش سے اوپر کو اُٹھتی ہوئ چٹانیں اور غار کی چھت سے نیچے کو لٹکتی ہوئ چٹانیں دکھا رہی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ ” یہ سب کچھ پانی کی ایک بوند سے شروع ہوا۔ ٣٣٠ ملین سال ہوۓ اِس جگہ پر سمندر کی ایک کھاڑی تھی۔ کیچڑ کی تہ پر تہ جمتی گئ اور چونا پتھر کی یہ چٹانیں بن گئیں ۔۔۔ “
یہ بالکل سائنسی بات معلوم ہوتی ہے۔ گویا انسان ایک مشاہدہ کرنے والے کی حیثیت سے وہاں موجود تھا اور شروع سے سارا عمل دیکھ رہا تھا۔ اُس خاتون کی بات سن کر میرے ذہن میں خدا کی وہ بات گونجنے لگی جو اُس نے ایوب نبی سے کہی تھی، ” تُو کہاں تھا جب مَیں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟ تُو دانش مند ہے تو بتا “ (ایوب ٣٨ : ٤)۔ اِس تفریحی دَورے کے بعد مَیں نے اپنی گائید کا شکریہ ادا کیا اور اُس سے پوچھا ” ماہرینِ ارضیات کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ غار اتنے ملین سال پرانی ہے؟ “ اُس خاتون نے اقرار کیا کہ ” دراصل اُنہیں علم نہیں __ لیکن مَیں نے آپ کو وہی کچھ بتایا جس کی مجھے تربیت دی گئ ہے۔ “
اصلی سائنس
لفظ سائنس لاطینی کے لفظ سائنشا ( scientia ) سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے جاننا یا علم __ ایسا علم جس میں کوئ شک نہ ہو۔ کوئ سائنس دان چاہے تو کسی مفروضے یا نظریے کو ” سائنس “ کا نام دے دے، لیکن اِس طرح وہ مفروضہ سائنس تو نہیں بن جاتا۔
١٩٧٠ ء کی دہائ میں شاہ فیصل کے ذاتی معالج (فرانس کے شہری) مورس بُکئیل نے ” بائبل، قرآن اور سائنس “ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اسلامی دنیا کی ساری کتابوں کی دکانوں اور مسجدوں میں نمایاں جگہ پر رکھی جاتی ہے۔ یہ کتاب وثوق سے کہتی ہے کہ بائبل جدید سائنس کی تردید کرتی ہے۔ بُکئیل راۓ زنی کرتا ہے کہ بائبل مقدس کے پہلے باب میں مرقوم تخلیقِ کائنات کا بیان غالباً کسی خیالی قصے سے ترجمہ کر کے (بائبل میں) لکھا گیا ہے، اِس لۓ کہ یہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں انسانوں کے ہمیشہ بدلتے رہتے نظریات کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ بہت سے دوسرے مفکرین کی طرح بُکئیل نے بھی وہی غلطی کی ہے کہ نظریہ ارتقاء کو اصل سائنس کے برابر قرار دیا ہے۔
ڈارون کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق مادہ نے اربوں کھربوں سالوں میں رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے کائ کی صورت اختیار کی اور مزید اربوں سالوں کے بعد ابیبا بنا اور اِسی طرح ابیبا سے بندر اور بندر سے انسان بنا۔ اِس نظریہ کے مطابق انسان، بندر، سیم باہمی (ایک قسم کی مچھلی) کی اصل ایک ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس نہ تو اتفاقی ارتقاء اور نہ بامقصد تخلیق کو ثابت کر سکی ہے۔ دونوں کے لۓ ایمان کی ضرورت ہے۔
یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پاک نوشتے طبعی سائنس سکھانے کے لۓ نہیں دیۓ گۓ بلکہ روحانی سائنس کو ظاہر کرنے کے لۓ دیۓ گۓ ہیں۔ خدا نے ہمیں اپنی کتاب دی تاکہ دکھاۓ کہ مَیں (خدا) کون ہوں اور کیسا اور کس کی مانند ہوں اور مَیں نے تمہارے لۓ کیا کیا ہے۔ اور یہ کتاب اِس لۓ دی کہ ہمیں بتاۓ کہ ہم کہاں سے آۓ ہیں، ہم اِس دنیا میں کیوں ہیں اور ہمارا انجام کیا ہو گا۔ یہ معلومات کسی تحقیقی تجربہ گاہ میں دریافت نہیں ہو سکتی نہ اِس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ بائبل مقدس زندگی کے ہر ایک پہلو پر بات کرتی ہے اِس لۓ حیرت نہیں ہونی چاہۓ کہ اِس میں طبعی دنیا کے بارے میں بھی مکمل معلومات موجود ہیں جن سے انسان اُس وقت ناواقف تھا جب یہ نوشتے لکھے گۓ۔
خدا نے پہلے فرمایا تھا
آیۓ ہم سات مثالیں دیکھتے ہیں جہاں خدا کی کتاب نے صدیوں پہلے وہ معلومات ریکارڈ کر دی تھیں جو جدید دَور کے سائنس دانوں نے دریافت کی ہیں۔ بعدازاں جب ہم پاک صحیفوں پر غور کریں گے تو بائبل مقدس میں سائنس کی اَور بھی حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں گی۔
١۔ گول زمین
تاریخ کی کتابیں کہتی ہیں کہ ٥٠٠ ق م میں سب سے پہلے یونانیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین گول ہے۔ یونانی فلسفیوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ زمین ایک کرہ ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ اُن کی راۓ میں کرہ ہی ” مکمل ترین “ وضع یا شکل و صورت ہوتی ہے۔ لیکن اِس سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایوب نبی نے علی الاعلان کہہ دیا تھا کہ جو خدا “ زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے “ اُسی نے ” روشنی اور اندھیرے کے ملنے کی جگہ تک پانی کی سطح پر حد باندھ دی ہے “ (لغوی معنی ہیں ” پانی کی سطح پر دائرہ کھینچا ہے “ __ دیکھۓ کیتھولک ترجمہ)۔ اور یونانیوں سے ٤٠٠ سال پہلے سلیمان نبی نے بیان کیا کہ خدا نے ” سمندر کی سطح پر دائرہ کھینچا “ (امثال ٨ : ٢٧ )۔ اور ٧٠٠ ق م میں یعنی یونانی فلسفیوں کے وارد ہونے سے ٢٠٠ سال پہلے یسعیاہ نبی نے فرمایا کہ ” وہ (خدا) محیط زمین (محیط= دائرہ کا گول خط) پر بیٹھا ہے “ (یسعیاہ ٤٠ : ٢٢ )۔ عبرانی زبان میں ” دائرہ “ کے لۓ جو لفظ ہے اُس کا ترجمہ ” کرہ “ یا ” گولائ “ بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کون ہے جس نے پہلے زمین کی گول شکل و صورت کا ذکر کیا؟ یونانی یا خدا؟ بے شک خدا ہے جو زمین کا معمار یا بنانے والا ہے۔
٢۔ پانی کا چکر
ایوب کی کتاب آبی چکر کا بھی ذکر کرتی ہے، ” وہ پانی کے قطروں کو اوپر کھینچتا ہے جو اُسی کے ابخرات سے مینہ کی صورت میں ٹپکتے ہیں۔ جن کو افلاک اُنڈیلتے اور انسان پر کثرت سے برساتے ہیں۔ بلکہ کیا کوئ بادلوں کے پھیلاؤ اور اُس کے شامیانہ کی گرجوں کو سمجھ سکتا ہے؟ “ (ایوب ٣٦ : ٢٧ ۔ ٢٩ )۔ اِس طرح بائبل مقدس بارش کے چکر کا بیان کرتی ہے۔ پہلے بخارات بنتے ہیں۔ وہ اوپر ہوا میں جا کر ٹھنڈ سے منجمد ہو کر ننھے ننھے قطرے بنتے اور بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر یہ قطرے باہم مل کر اتنی بڑی بڑی بوندیں بن جاتے ہیں کہ اوپر کو اُٹھنے والی ہوا اُن کا بوجھ سہار نہیں سکتی اور وہ نیچے ٹپک پڑتے ہیں۔ ایوب پانی کی ناقابلِ یقین مقدار کا بھی ذکر کرتا ہے جو منجمد شکل میں بادلوں کی صورت میں ٹھہری رہ سکتی ہے۔ ” وہ اپنے دَلدار بادلوں میں پانی کو باندھ دیتا ہے اور بادل اُس کے بوجھ سے پھٹتا نہیں “ (ایوب ٢٦: ٨ )۔ آبی چکر کی توثیق کرنے والی دیگر آیات بھی دیکھیں: زبور ١٣٥ : ٧ ؛ یرمیاہ ١٠ : ١٣ ؛ واعظ ١ : ٧ ؛ یسعیاہ ٥٥ : ١٠ ۔
٣۔ ایک ہی اَصل
ساڑھے تین ہزار سال پہلے موسی' نبی نے لکھا تھا ” آدم نے اپنی بیوی کا نام حوا رکھا اِس لۓ کہ وہ سب زندوں کی ماں ہے “ (پیدائش ٣ : ٢٠ )۔ بائبل مقدس کے مطابق سارے انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ نظریہ اِرتقا کے ماننے والے سائنس دان ١٩٨١ ء تک اِس حقیقت کے قائل نہیں تھے۔ خیطی ذرات کے ڈی۔ این۔ اے (انسان کی توالدی خصوصیات کو ماں سے بچے میں منتقل کرنے کا ضابطہ) کے وسیع اور بے شمار تجزئیوں اور تحقیق کے بعد یہ سائنس دان اِس نتیجے پر پہنچے کہ سارے انسانوں کی ” اصل ایک ہی مادہ / عورت ہے۔ “ مذکورہ ذرات دنیا بھر کے مختلف علاقوں سے آنولوں سے حاصل کۓ گۓ تھے۔ مزید مطالعہ کے نتیجے میں چند سالوں کے بعد یہ حقیقت بھی معلوم ہوئ کہ سارے انسان ایک ہی ” نر “ والد کی اصل سے ہیں۔
ٹائم میگزین کے ٤ دسمبر ١٩٥٥ ء کے شمارہ میں اِسی موضوع پر ایک مضمون میں کہا گیا کہ سارے انسانوں کا ایک ہی مورثِ اعلی' ” آدم “ تھا جس کے کروموسوم کا توالدی مواد ساری دنیا کے ہر مرد میں ایک ہی ہے۔ سائنس دانوں کا دعوی' ہے کہ ہمارا ” نر “ (مرد) مشترک جدِ امجد اُتنا قدیم نہیں جتنی ہماری ” مادہ “ (عورت) مشترک جدِامجد قدیم ہے۔ اُن کا دعوی' بائبل مقدس سے موافقت رکھتا ہے جو بیان کرتی ہے کہ ہم سب نوح کی اصل نسل سے ہیں، لیکن ہماری مشترک ماں حوا ہے۔ اِس لۓ کہ نوح کے تین بیٹے اور تین بہوئیں اور آج کی دنیا کے سارے لوگ اُن کی اولاد ہیں۔
اِن تحقیق کرنے والوں کو بالکل خبر نہ تھی کہ ہماری ساری محنت ، کاوش اور اخراجات بائبل مقدس کی صحت کی تصدیق کریں گے۔
٤۔ خون ہی زندگی ہے۔
موسی' نے بھی بیان کیا تھا کہ ” جسم کی جان خون میں ہے “ (احبار ١٧ : ١١)۔ طبی افراد اِس حقیقت کو حال ہی میں سمجھے ہیں، جبکہ انیسویں صدی تک وہ کئ امراض کا علاج ” فصدِخون “ یعنی رَگ کھول کر خون بہانے سے کرتے تھے۔
٥۔ زمین بتدریج معدوم ہو جاۓ گی۔
تین ہزار سال پہلے داؤد نبی نے لکھا تھا کہ ایک دن آۓ گا کہ زمین ” نیست “ اور ” پوشاک کی مانند “ پرانی ہو جاۓ گی (زبور ١٠٢ :٢٥، ٢٦ )۔ جدید سائنس اِس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ زمین رفتہ رفتہ معدوم ہو رہی ہے۔ زمین کا مقناطیسی میدان بوسیدہ اور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اِسے محفوظ رکھنے والی اوزون کی تہہ پتلی ہوتی جا رہی ہے۔
٦۔ بحری جغرافیہ
داؤد نے ” سمندر کے راستوں “ کے بارے میں بھی لکھا ہے (زبور ٨:٨ )۔ یہی چند الفاظ تھے جنہوں نے ایڈمرل میتھیوفانٹین ماری (١٨٠٦ – ١٨٧٣ ء) کو تحریک دی اور اُس نے اپنی زندگی سمندر کی رؤوں کی تحقیق کرنے اور اُن کے بارے میں لکھنے کے لۓ وقف کر دی۔ اُس نے سوچا کہ خدا نے سمندر کے ” راستوں “ کا ذکر کیا ہے تو مجھے توفیق ہونی چاہۓ کہ اُن کا نقشہ بنا دوں۔ ماری نے یہ کارنامہ کر دیا اور ” باباۓ بحری جغرافیہ “ کا لقب پایا۔
ماری نے دریافت کیا کہ سمندروں کے راستےایسے متعین اور مستقل ہیں کہ جہازران لغوی معنی میں سمندروں پر اپنے راستے کا ببانگِ دہل ” چرچا “ کر سکتا ہے (مرقس ١ : ٤٥ )۔
جس زمانے میں داؤد نے ” سمندروں کے راستوں “ کے بارے میں لکھا تو اُسے اور اُس کے لوگوں کو صرف بحیرہ روم، گلیل کی جھیل اور بحیرہ احمر کا علم تھا۔ ان بحیروں میں ” راستے “ یعنی بڑی اور مشاہدہ میں آ سکنے والی رَویں نہیں چلتی تھیں۔
٧۔ علم الافلاک
تقریباً ٢٠٠٠ سال پہلے مقدس پولس نے لکھا ” آفتاب کا جلال اَور ہے مہتاب کا جلال اَور۔ ستاروں کا جلال اَور کیوںکہ ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے “ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٤١ )۔ ننگی آنکھ سے سارے ستارے ایک سے نظر آتے ہیں، لیکن آج طاقتور دُوربینوں اور روشنی کی شعاعوں کے تجزیے سے علم الافلاک کے ماہرین نے تصدیق کر دی ہے کہ ” رنگ اور چمک دمک کے لحاظ سے ستاروں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بعض ستارے سورج کی طرح زرد دکھائ دیتے اور بعض نیلے یا سرخ نظر آتے ہیں۔ فرداً فرداً ہر ایک ستارہ بے مثل اور نادر ہے “
تاریک اور صاف رات کو ننگی آنکھ سے چند ہزار ستارے دکھائ دیتے ہیں۔ طاقتور دُوربین سے اِتنے ستارے نظر آتے ہیں کہ ہم اُنہیں گننے کی اُمید بھی نہیں کر سکتے۔ اگرچہ ہر ایک ستارہ بے مثل ہے، تاہم سارے ستاروں میں کئ باتیں مشترک بھی ہیں۔ بائبل مقدس بھی کہتی ہے کہ ستاروں کا شمار کرنا ممکن نہیں (پیدائش ١٥ : ٥ ؛ ٢٢ : ١٧ )۔ پولس کو پہلی صدی عیسوی میں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہوا؟
اندھا ایمان؟
” بائبل مقدس میں سائنس “ کی کئ اَور مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر اِن سات مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بائبل مقدس اگرچہ سائنس کی نصابی کتاب نہیں ہے، مگر جب بھی سائنس کی بات کرتی ہے تو بالکل درست اور سچی ہوتی ہے۔
بعض لوگ بائبل مقدس پر ایمان کو ” اندھا ایمان “ کہتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے یا یہ شعور اور سمجھ کے ساتھ ایمان ہے جس کی جڑیں مسلمہ اور ناقابلِ تردید شہادت میں ہیں؟ چونکہ یہ معلومات ہمیشہ اور تسلسل سے بائبل مقدس کی باتوں کے مطابق ہیں تو کیا اِن نوشتوں کو سچا ماننے میں ہم بے وقوفی کرتے ہیں یا عقل مندی؟ حالانکہ اِن میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کی ہم پورے طور سے وضاحت نہیں کر سکتے اور نہ اُنہیں ثابت کر سکتے ہیں۔
خدا ہم سے یہ نہیں کہتا کہ ہم عقل کے لحاظ سے خود کشی کر لیں۔ اُس نے ہمیں بہت سے قطعی اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کر دیۓ ہیں (اعمال ١ : ٣) جو اُس کی کتاب کے معتبر ہونے کی توثیق کرتے ہیں۔
تاریخ، جغرافیہ، علمِ آثارِ قدیمہ
گذشتہ باب میں ہم نے چند شہادتوں کا جائزہ لیا تھا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نیا عہد نامہ قدیم زمانے کی سب سے زیادہ محفوظ رکھی گئ کتاب ہے۔ لیکن اِن نوشتوں میں موجود معلومات کے بارے میں کیا راۓ ہے؟ کیا اِس کا یقین کیا جا سکتا ہے؟
بائبل مقدس علما اور تشکیک پرستوں کو ہزاروں مواقع فراہم کرتی ہے کہ اِس کی صحت کا جائزہ لیں۔ اِس کے تقریباً ہر صفحے پر کسی تاریخی شخصیت یا جگہ کا نام یا تاریخی واقعہ کا بیان درج ہے۔
تاریخ، جغرافیہ اور آثارِ قدیمہ کیا کرتے ہیں؟
صدیوں سے بہت سے لوگ کوشش کرتے آ رہے ہیں کہ بائبل مقدس کی تواریخی صحت کے بارے میں بداعتمادی اور بے یقینی پیدا کریں اور اِسے بدنام کریں۔ ایک ایسا ہی تشکیک پرست سر والٹر رمزے (١٨٥١ ۔ ١٩٣٩ء ) تھا۔ وہ ایک مانا ہوا ماہر آثارِ قدیمہ تھا۔ اُس نے ١٩٠٤ ء میں علمِ کیمیا میں نوبل انعام بھی جیتا تھا۔ جوانی کے دنوں میں رمزے اِس بات کا قائل تھا کہ بائبل کو معتبر نہیں مانا جا سکتا۔ لیکن اُس کی دریافتوں نے اُس کی سوچ بدل دی اور اُسے یہ بات لکھنے پر مجبور کر دیا کہ ” لوقا اوّل درجے کا مورخ ہے۔ نہ صرف حقائق کے بیان معتبر ہیں۔۔۔ اِس مورخ کو عظیم ترین مورخوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہۓ۔ “
لوقا ایک طبیب، مورخ اور یسوع کا پیروکار تھا۔ وہ لوقا کی معرفت انجیل اور رسولوں کے اعمال کا مصنف ہے۔ یہ دونوں کتابیں مجموعی طور پر پچانوے جغرافیائ مقامات کا ذکر کرتی ہیں__ ٣٢ ممالک، ٥٤ شہر اور ٩ جزیرے۔ اِن کے علاوہ بہت سی تواریخی شخصیات اور واقعات کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ تنقید نگاروں نے بہت کوشش کی ہے کہ لوقا کے مندرجات اور آثارِ قدیمہ، جغرافیہ اور بائبل مقدس سے باہر کے تاریخی بیان میں عدمِ موافقت ڈھونڈ نکالیں۔ اُنہیں ناکامی اور مایوسی ہوئ ہے۔ مقدّس لوقا کی تحریریں ہر لحاظ سے باکل صحیح ثابت ہوئ ہیں۔
مثال کے طور پر ہم مقدس لوقا کی انجیل سے ایک فقرہ دیکھتے ہیں۔ اِس کا مقصد یسوع ناصری کی دنیاوی خدمت کے لۓ تواریخی زمانے کا تعین کرنا ہے:
” تبریُس قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس جب پُنطیُس پیلاطُس یہودیہ کا حاکم تھا اور ہیرودیس گلیل کا اور اُس کا بھائ فلپُس اِتوریہ اور ترخونی تِس کا اور لِسانیاس اِبلینے کا حاکم تھا، اور حناہ اور کائفا سردار کاہن تھے اُس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریاہ کے بیٹے یوحنا پر نازل ہوا “ (لوقا ٣ : ١، ٢ )۔
کیا لوقا درست کہتا ہے؟
اتنے ناموں اور تفصیل کے باعث ہم فطری طور پر پوچھتے ہیں ” کیا لوقا درست کہتا ہے؟ کیا اُس کی ساری باتیں صحیح ہیں؟ اِمتحان کی خاطر ہم چار اشخاص کا جائزہ لیتے ہیں جن کے نام اوپر کے اقتباس میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
مقدس لوقا نے سب سے پہلے ” تبریُس قیصر “ کا نام لیا ہے اور اُس کے ساتھ پنطیُس پیلاطس کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہودیہ کا گورنر تھا۔ کیا یہ تواریخی شخصیات ہیں؟ کیا وہ ایک ہی وقت میں حکمران تھے؟ ١٩٦١ ء میں قیصریہ میں اُس جگہ کو بحال کیا گیا جہاں ہیرودیس کا تھیٹر تھا (مقدس لوقا نے اعمال ١٢ : ١٩ ۔ ٢٤ میں اِس کا ذکر کیاہے)۔ کام کے دوران ایک پتھر دریافت ہوا جس کی اونچائ ایک میٹر ہے۔ اِس پر کندہ عبارت نے تصدیق کر دی ہے کہ پنطیُس پیلاطس واقعی اُن دنوں گورنر تھا جب تبریُس قیصر بادشاہ تھا۔ غیربائبلی مورخ یوسیفس (٣٧ _١٠١ ء) نے بھی اِن اشخاص، مقامات اور واقعات کے بارے میں لکھا ہے۔ اُس کی کتاب ١٩٨٨ ء میں شائع ہوئ۔ اِس کتاب میں ہیرودیس کے تھیٹر، مذکورہ پتھر اور عبارت کی تصویریں بھی شامل ہیں۔
لوقا نے درست کہا ہے۔
لوقا نے بیان کیا ہے کہ لسانیاس ابلینے کا حاکم تھا۔ ابلینے سیریا (عراق) کا ایک صوبہ تھا اور لسانیاس اُس کے چوتھائ حصے کا گورنر تھا۔ کئ سالوں تک علما حقائق سے متعلق اِس ” غلطی “ کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ لوقا کا بیان غلط ہے کیونکہ مورخین کو صرف ایک ہی لسانیاس کا علم تھا جو یونان میں (Chalsis ) کا حاکم تھا اور جس دَور (تقریباً ٢٧ ء) کی بات مقدّس لوقا کرتا ہے یہ لسانیاس اُس سے تقریباً ساٹھ سال پہلے مارا گیا تھا۔ مورخین کو ابلینے کے چوتھائ ملک کے حاکم لسانیاس کا کچھ علم نہ تھا۔ اِس کا علم اُنہیں ١٤ ء اور ٢٩ ء کے درمیانی عرصے میں ہوا جب دمشق کے نواح میں پتھر کا ایک کتبہ ملا جس پر یہ عبارت کندہ ہے: ” لسانیاس چوتھائ ملک کا حاکم “ ۔ لہذا تاریخ میں دو افراد ہیں جن کا نام ” لسانیاس “ تھا۔
لوقا نے یہ بھی درست کہا ہے۔
لوقا نے کیفا کا بھی ذکر کیا ہے جو یسوع کی دنیاوی زندگی کے ایام میں یہودی ہیکل میں سردار کاہن تھا (دوسرا سردار کاہن حناہ تھا)۔ دسمبر ١٩٩٠ ء میں مزدور پرانے یروشلیم کے جنوب میں ایک سڑک بنا رہے تھے کہ اتفاقاً اُنہیں کیفا کے خاندان کا مزار مل گیا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کو موقعے پر بلایا گیا۔ اُس مزار میں بارہ ہڈیاں رکھنے کے برتن تھے۔ اُن میں سے ایک پر بہت خوبصورت نقش و نگار تھے اور یہ نام کندہ تھا ” یوسف بن کیفا “ ۔ یہ اُس سردار کاہن کا پورا نام تھا جس نے یسوع کو گرفتار کیا تھا اور تابوت کے اندر ایک ساٹھ سالہ مرد کی باقیات تھیں۔ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اُس کیفا کی باقیات ہیں جس کا ذکر نۓ عہدنامے میں آیا ہے۔
لوقا نے یہ بھی درست کہا ہے۔
نامور ماہر آثارِ قدیمہ نیلسن گلوئک کہتا ہے، ” بڑی وضاحت سے اور قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آثارِ قدیمہ کی کسی دریافت نے بائبل کی کسی بھی بات کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ آثارِ قدیمہ کی درجنوں دریافتیں ایسی ہیں جو واضح خاکوں سے اور تفصیلی طور سے تاریخ سے متعلق بائبل کے بیابات کی تصدیق کرتی ہیں۔ دوسری مذہبی کتابوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ مثال کے طور پر آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ مورمن کی کتاب تاریخ اور جغرافیہ سے کوئ مطابقت نہیں رکھتی۔ “
مارمن ازم ایک مذہب ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اِس کے پیرو ہیں۔ جوزف سمتھ نامی ایک شخص نے ١٨٣٠ ء میں امریکہ میں یہ مذہب شروع کیا تھا۔ یہ فرقہ بائبل مقدس کے علاوہ ” مارمن کی کتاب “ کو بھی مانتا ہے۔ آثارِ قدیمہ کی دریافتوں سے اِس کتاب کی تصدیق نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کے سمتھ سونیئن اِنسٹی چیوشن ( Smithsonian Institution ) کا بیان ہے کہ ” سمتھ سونیئن کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو نئ دنیا (امریکہ) کے علمِ آثارِ قدیمہ اور مارمن کی کتاب کے مندرجات میں کوئ تعلق نظر نہیں آتا “ ۔
وہیٹن کالج کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے چیئرمین اور ماہرِ آثارِ قدیمہ جوزف فری اپنی تصنیف ” آثارِ قدیمہ اور تاریخ بائبل “ کے آخر میں کہتے ہیں ” مَیں نے پیدائش کی کتاب کا ایک ایک صفحہ دیکھا کہ اِس کے پچاس ابواب ہیں اور ہر ایک باب آثارِ قدیمہ کی کسی نہ کسی دریافت کو منور کرتا ہے یا اُس کی تصدیق کرتا ہے۔ بائبل کے پرانے اور نۓ دونوں عہدناموں کے اکثر باقی ابواب کے بارے میں بھی یہ بات سچ ہے “ ۔
سائنس کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی
آثارِ قدیمہ کی مستند معلومات ایک تسلسل سے تصدیق کرتی ہیں کہ بالکل درست تاریخی دستاویز کی حیثیت سے بائبل مقدس معتبر کتاب ہے، مگر علمِ آثارِ قدیمہ الہی الہام کو ثابت نہیں کر سکتے۔ بائبل مقدس میں قابلِ توجہ اور اثرانگیز سائنسی بیانات موجود ہیں، مگر سائنس ثابت نہیں کر سکتی کہ کوئ ایک کتاب خدا کا سچا اور برحق کلام ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اِس لۓ ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہماری مذہبی یا مقدس کتاب خدا کے الہام سے ہے کیونکہ اِس میں کئ سائنسی بیانات موجود ہیں۔
روحانی صداقت سائنسی دریافتوں سے ثابت نہیں کی جا سکتی، اور نہ سائنسی حقائق کا کسی کتاب میں موجود ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے ملی ہے۔ شیطان جو شروع ہی سے دنیا میں موجود ہے وہ بھی سائنس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ پاک صحائف میں سے سفر کرنے کے دوران ہماری اُس کے ساتھ ملاقات ہو گی جو پہلے آسمان میں فرشتہ تھا، اب شیطان اور ابلیس کہلاتا ہے کیونکہ خدا کا حریف بن گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ شیطان نہایت عقل مند اور ذہن ہے اور انسانوں کو نہایت اثر انگیز اور مرعوب کرنے والی باتیں لکھنے پر اُبھارتا ہے۔
دانی ایل نبی بہت عقل مند اور زیرک شخص تھا۔ خدا نے اُس سے ایک ایسی کتاب لکھوائ جو پاک صحائف (بائبل) کی بہت گہری کتاب مانی جاتی ہے۔ مگر جب طبعی استعداد اور لیاقت کی بات ہو تو شیطان یعنی خدا کی سچائ کی مخالفت کرنے والی روح ” دانی ایل سے زیادہ دانش مند “ ثابت ہوتی ہے (حزقی ایل ٢٨ : ٣ )۔ ہر جھوٹے مذہب کے پیچھے شیطان ہی کا دماغ کارفرما ہوتا ہے۔ ایسی ماہر منصوبہ بندی وہی کرتا ہے، اُسے دھوکے اور فریب کے فن میں کمال حاصل ہے۔ لفظ ابلیس کا مطلب ہے ” الزام دینے والا “ یا ” تہمت لگانے والا۔ “
ایک عربی ضرب المثل اِس خطرے کا چند لفظوں میں بیان کرتی ہے ” خبردار ! بعض جھوٹے سچ بولتے ہیں۔ “
شاعری کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی
بعض مذاہب کہتے ہیں کہ ہماری کتاب کا خدا کی طرف سے ہونا اِس لۓ ثابت ہے کیونکہ اِس کا اندازِ تحریر ایسا اعلی' ہے کہ کوئ انسان ایسا انداز وضع نہیں کر سکتا۔
مسلمان اور مارمن دونوں ہی اپنی اپنی مذہبی کتاب کے بارے میں دعوی' کرتے ہیں کہ ہماری مقدس کتاب کے خدا کی طرف سے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اِس کا ادبی طرزِ تحریر ہے۔ ایک مسلم ویب سائٹ پر یہ کہا گیا ہے، ” قرآن پاک ۔۔۔ کا سب سے بڑا چیلنج ۔۔۔ چودہ صدیوں سے، جب قرآن شریف نازل ہوا تھا ۔۔۔ کوئی شخص ایک بھی آیت نہیں لکھ سکا جو اپنی خوبصورتی، فصاحت اور شکوہ میں قرآن شریف کی آیات جیسی ہو “ مارمن ویب سائٹ پر بھی اِسی قسم کا دعوی' کیا گیا ہے۔ ” مارمن کی کتاب کا چیلنج ۔۔۔ تمہیں اپنا ریکارڈ قدیم عبرانی شاعری اور متعدد طرزہاۓ تحریر کے انداز میں لکھنا ہو گا، جو تمہارا ریکارڈ شائع ہونے کے بہت سالوں کے بعد دوبارہ دریافت کر کے انگریزی بولنے والوں کو بتایا جاۓ گا۔ “
اِسی طرح احمد نے بھی اپنی ای میل میں لکھا :
ای میل | |
” قرآن شریف سب سے بڑا معجزہ ہے جو کبھی کسی نبی پر اُتارا گیا! ٹھیک ہے، صرف ایک آیت وضع کر کے دکھاؤ جو قرآن شریف کی کسی آیت جیسی ہو یا اِس سے قریب ہو۔ تم بلند پایہ عربی میں کیسے بھی خوش گفتار ہو تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔ دُنیا میں کوئی چیز نہیں جو قرآن شریف کی عظمت کو چھو بھی سکے۔۔۔ اگر تم اِس کے برعکس ثابت کر سکتے ہو تو کرو۔ “ |
احمد کا چیلنج قرآن شریف کی سورہ ٢ کی آیت ٢٣ پر مبنی ہے: ” اور اگر تم کو اِس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اِسی طرح کی ایک صورت تم بھی بنا لاؤ۔۔۔ “
اِس دعوے کے بارے میں مشکل یہ ہے کہ اِسے سچا یا جھوٹا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
ہم وضاحت کے لۓ مثال پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ مَیں مصوری کا مقابلہ منعقد کراتا ہوں۔ اُس میں اپنی بنائ ہوئ تصویر رکھتا ہوں۔ خود ہی منصف ہوں۔ مَیں اپنے آپ کو فاتح قرار دیتا ہوں اور پھر دوسرے مصوروں کو چیلنج کرتا ہوں کہ کوئ بھی میری طرح کی تصویر نہیں بنا سکتا۔ اگر تمہیں شک ہے کہ مَیں دنیا کا عظیم ترین مصور ہوں تو میری تصویر جیسی تصویر بنا کر دکھاؤ!
کیا اِس طرح ثابت ہو جاۓ گا کہ میری بنائ ہوئ تصویر بہترین ہے؟ اور مَیں دنیا کا سب سے بڑا مصور ہوں؟ __ نہیں __ مگر کوئ یہ بھی ثابت نہ کر پاۓ گا کہ میرا دعوی' غلط ہے۔ کیوں نہیں؟ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ یہی حال لکیروں کے توازن کی خوبصورتی اور کسی ادب پارہ کی خوبصورتی کا ہے۔ حُسن فنکار کی ذات کا مظہر ہوتا ہے۔
بائبل مقدس بلند پایہ عبرانی شاعری اور اعداد کی ترتیبوں کا حیرت انگیز خزانہ ہے۔ اِن پر غور کریں تو دماغ چکرا جاتا ہے۔ زبور ١١٩ کی مثال لے لیں۔ یہ بائبل مقدس کا سب سے لمبا باب ہے۔ اِس میں حیرت ناک ادبی ساختیں موجود ہیں۔ یہ زبور صنعتِ توشیح کا اعلی' نمونہ ہے۔ عبرانی میں حروفِ ابجد کی تعداد ٢٢ ہے۔ اِس زبور کے بھی ٢٢ حصے ہیں۔ ہر حصہ بالترتیب عبرانی کے ایک حرف سے نامزد ہے اور ٨ آیات پر مشتمل ہے اور ہر ایک آیت اُسی حرف سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً پہلا حصہ ” الف “ (عبرانی ابجد کا پہلا حرف) ہے اور اِس کی ہر ایک آیت الف سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ بیتھ، (عبرانی ابجد کا دوسرا حرف) ہے اور اِس کی ہر ایک آیت بیتھ سے شروع ہوتی ہے۔ علی' ہذالقیاس عبرانی ابجد کے آخری حرف تاوتک۔ اِس کی ہو بہو نقل کرنے کی کوشش کریں۔ نہیں، رہنے دیں۔ اور زبور ١١٩ میں غوطہ لگائیں اور اِس کے الفاظ میں ڈوب جائیں اور اِن کی قوت اور تاثیر کے مزے لیں۔ لیکن خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم اِس کلام کی ادبی فصاحت و بلاغت کے باعث اِس کا یقین کریں۔
جس طرح سائنس کسی کتاب کا الہامی ہونا ثابت نہیں کر سکتی اُسی طرح خوبصورت اور دل آویز نثر بھی کسی کتاب کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت نہیں کر سکتی۔
دانائ اور عقل مندی یہی ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ شیطان بہت بڑا نقال ہے۔ وہ بھی سحرانگیز شاعری کرنے اور ” بڑے بول “ (یہوداہ آیت ١٦ ) بولنے کی ” آمد “ عطا کر سکتا ہے۔ پاک کلام ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ” چکنی چپڑی باتوں سے جو سادہ دلوں کو بہکاتی ہیں “ فریب نہ کھائیں (رومیوں ١٦ : ١٨ )۔ خاص کر جب یہ باتیں خالق کے منصوبے اور پیغام کی تردید کرتی ہیں جس کا علم ابتداۓ زمانہ سے دیا گیا ہے۔
سائنس، آثارِ قدیمہ یا شاعری کسی بھی کتاب کو خدا کا سچا کلام ثابت نہیں کر سکتی۔ لازم ہے کہ الہی الہام کا ثبوت کسی اعلی' تر عدالت کے فیصلے پر مبنی ہو، کسی ناقابلِ تردید اور مسلمہ شہادت پر مبنی ہو۔
اب ہم اِسی شہادت پر غور کریں گے۔