November 2011

حیات المسیح

پہلا باب ۔ آمد آمد کی خبر

جہاں کو روشن کرنے والے سورج نے ابھی رات کی تاریکی کو اپنی کرنوں سے دور نہیں کیا تھا ۔ کہ ہیکل کے کار گذار اپنے اپنے کام میں مصروف ہونے کی تیاری کرنے لگے ۔ وہ اپنے دستور کے مطابق ہر صبح ایک مکان می جمع ہوا کرتے تھے۔ تاکہ ان میں سے ہر کاہن قرعہ کے وسیلے سے دن بھر کے لئے اپنی خاص خدمت پر مقرر کیا جائے ۔ یہ طریقہ اس واسطے اختیار کیاگیا تھا۔ کہ وہ حسد کی آگ سے محفوظ رہیں اور چھٹائی بڑائی کا خیال ان کی یگانگی میں رخنہ ڈالنے پائے۔ قرعہ چار مرتبہ ڈالا جاتا تھا۔ دو دفعہ ہیکل کا دروازہ کھلنے سے پیشتر اور دو دفعہ دروازہ کھلنے کے بعد، پہلا قرعہ ڈالنے کے وقت وہ آگ کا شعلہ اپنی روشنی دیا کرتا تھا۔ جو چراغ سحر ی کی طر ح مذبح پر جلتا ہوا اپنی کرنیں چاروں طرف پھیلاتا تھا۔ دوسرا قرعہ اس وقت ڈالا جا تا تھا۔ جبکہ صبح صادق رات کی تاریکی کا پردہ اٹھا کر اپنے جمال جہاں آراسے دنیا کو روشن کرتی تھی۔ اس موقع پر وہ لوگ اپنی اپنی خدمت پر مقرر ہوتے تھے۔ جو قربانی چڑھانے اور سونے کے شمعدان کے آراستہ کرنے اور بخور کے مذبح کے سنوارنے میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد برہ لایا جاتا تھا۔ تاکہ بڑے غور سے دیکھا جائے کہ آیا وہ قربانی کے لائق ہے۔ یا نہیں اور اگر اس میں ضروری صفتیں پائی جاتی تھیں ۔ تو اس پر سونے کے پیالے سے پانی ڈال کر اور اس کا منہ مغرب کی جانب کرکے اسے مذبح کے شمالی حصے پر باندھ کر رکھ دیتے تھے۔ اس پر راز طریقے کی نسبت یہ روایت جاتی تھی۔ کہ ابرہام نے بھی اضحاق کو اسی طرح قربان کرنے کے لئے باندھا تھا۔ د

اور پھر جب قربانی مذبح کے لئے تیا رکی جاتی تھی۔ تو اس عرصہ میں مقرری کاہن پاک جگہ کو آراستہ کر دیتے تھے۔ تاکہ وہاں بخور جلایا جائے جو کہ اسرائیل کی قبول کی ہوئی دعاو ں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس موقع پر تیسری دفعہ چٹھی ڈالی جاتی تھی اور اس کا یہ مقصد ہوتا تھا۔ کہ اس کے وسیلے سے وہ شحض چنا جائے جو بخور جلانے کی خدمت کو انجام دے ۔ یہ کام عمر بھی میں صرف ایک مرتبہ نصیب ہوا کرتا تھا۔ اس وقت تمام کاہن دعا مانگتے اور اپنے عقیدے کا اقرار کیا کرتے تھے۔ جس دن کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔ اس دن چٹھی ایک ایسے کاہن کے نام نکلی جو اس دنیا کے سفر کی کم ازکم ساٹھ منزلیں طے کر چکا تھا۔وہ زکریا ہ کاہن تھا۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے کبھی بخور جلانے کی خدمت کے لئے منتخب نہیں ہواتھا۔ تو بھی ہیکل کے خادم اس سے ناآشنا نہ تھے۔ کیونکہ کاہنوں کا ہر گروہ سال میں دو دفعہ ہییکل کی خدمات میں مصروف ہوا کرتا تھا۔اور کاہن لادیوں کی طرح بڑھاپے کے سبب سے معزول نہیں کئے جاتے تھے۔ پھر بھی کئی باتوں کے سبب سے اس مین اور دیگر کاہنوں میں بڑا فرقپایا جاتا تھا۔ مثلاً اس کا گھر ان بڑے بڑ ے شہروں میں نہ تھا۔ جو کاہنوں کی سکونت گاہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا تھا جو اس کی کوہستانی علاقے میں آباد تھے۔ جو یروشلیم کے جنوب میں واقع تھا۔مگر وہ ہر طرح سے عزت کے لائق تھا۔ کیونکہ اوّل تو کاہن ہونا ہی بڑے فخر کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ اور پھر جب کوئی کاہن کسی دوسرے کاہن کی لڑکی سے شادی کر لیتا تھا۔تواس کی عزت اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ لوقا ١:٥٨-٥٩-١-٦-٦٥-٦٦، سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ زکریاہ اپنے علاقہ میں نزدیک ودور خوب مشہور تھا۔ اس کے پڑوسی اس کے معاملات میں دلچسپی لیتے اور اس کے ساتھ کمال تعظیم سے پیش آتے تھے۔ وہ اور اس کی بیوی الیشبع ان احکام اور فرائض کے بجا لانے میں دل و جان سے کوشاں تھے۔ جن کا بجا لانا ان پر فرض تھا۔

لیکن زکریاہ لا ولد تھا۔ کیونکہ اس کی بیو ی بانجھ تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے اس معاملے میں کئی سال تک دست دعا دراز کیا ہو گا۔ اور الیشبع نے اپنی بے اولادی سے بار ہا غم کھا یا ہو گا۔ کیونکہ عورت کے رحم کا بند ہو نا ان دنوں بڑی بے حرمتی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ ہر خاتون یہ امید رکھتی تھی کہ شاید میرے ہی بطن سے مسیح پیداہو اور اسرائیل کی امیدیں برآئیں۔

لیکن اس وقت زکریا ہ کے دل میں اولاد کا خیال نہ تھا۔ بلکہ اس وعظیم خدمت کے خیال میں جو اس کے سپردکی گئی تھی محور ہو گا۔ اسے بخور جلانا تھا۔ او ر اس وقت وہ اسی کے دھیان میں مگن تھا۔ مگر بخور جلانے سے پہلے سے اپنے دوستوں یا عزیزوں میں سے دو اور شخصوں کو مد د کے لئے چننا تھا۔ ان میں سے ایک کا کام یہ تھا۔ کہ وہ بخور کے مذبح کو صاف کر کے یایو ں کہیں کہ گذشتہ شام سے جو کچھ مذبح پر بچ رہا تھا۔ اسے ہٹا کر اور سجدہ کرکے چلا جائے اور دوسرا سوختنی قربنی کے مذبح پر سے وہکتے ہوئے کوئلے لے کر ان کو بخور کے مذبح پر بچھا ئے اور پھر وہ بھی سجدہ کرکے نکل جائے۔

یہ دونوں شخص اپنا اپنا کام کرکے چلے گئے ۔ اب زکریاہ اکیلا سونے کا بخور د ان ہاتھ میں لئے پاک جگہ میں کھڑا تھا جو سات شاخوں والے شمعدان کی روشنی سے نورانی ہو رہی تھی۔ اس کے سامنے اور اس پردے کے پاس جو پاک ترین جگہ کے سامنے لٹک رہاتھا۔ سونے کا مذبح رکھا تھا۔ جس پر دہکتے ہوئے کوئلے چمک رہے تھے۔ اس کی دہنی طرف نذر کی روٹیوں کی میز پڑی تھی۔ اور اس کی بائیں جانب سونے کا شمعدان دھرا تھا۔ اب زکریاہ خاموش کھڑا اس اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔ جو یہ خبر دیا کر تا تھا۔ کہ مذبح پر بخور ڈالنے کا وقت آگیا ہے ۔ کاہن اور دیگر اشخاص مذبح سے الگ ہو کر اور اوندھے منہ گر کر چپ چاپ دعا مانگ رہے تھے۔ اور جب تک بخور کو آگ نہ لگی ، زکریاہ وہیں کھڑا رہا اور اگر ایک رویا اس پر ظاہر نہ ہوتی تو وہ بھی سجدہ کرکے نکل آتا مگر اس عجیب رویا کے سبب سے وہیں کھڑا رہا اور وہ رویا یہ تھی ۔ کہ اس نے سونے کے مذبح اور شمعدان کے درمیان ایک فرشتے کو دیکھا۔ آگے کبھی کسی کاہن کو بخور جلاتے وقت اس قسم کی رویا کا نظارہ نصیب نہیں ہواتھا۔ تو بھی جس وقت کوئی کاہن خدا کے حضور جایا کرتا تھا۔ تو لوگوں کے دل خوف سے کانپ اٹھتے تھے۔ اور اگر اس کے آنے میں ذرا دیرہو جاتی تھی۔ تو وہ اور بھی گھبرانے لگ جاتے تھے۔

زکریاہ یہ رویادیکھ کر ڈر گیا اور جب فرشتے نے اسے اس کی دعائیں اور امیدیں یاد دلائیں ، اور کہا کہ وہ اب پوری ہوں گی ۔ تو وہ حیرت کا پتلابن گیا ۔ اسے بتایا گیا کہ جو لڑکا اس کے ہاں پیدا ہوگا، اس کا نام یوحنا ، خدا مہربان ہے۔ رکھا جائے گا اور اس کے سبب سے نہ صرف ماں باپ بلکہ غیروں کے دل بھی شادمان ہوں گے۔ وہ خدا کے حضور میں بزرگ اور سمسن اور سیموایل کی طرح عمر بھر کے واسطے خدا کا نذیر ہو گا اور ماں کےپیت ہی سے الہی خدمت کے لئے مخصوص کیا جائےگا۔ وہ ایک طرح سے سمسون اور سیموایل سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ کیونکہ اس میں خدا کی قدرت بیرونی اور باطنی ہر دو صورت میں نمایاں ہو گی کیونکہ وہ اسی وقت سے جبکہ زندگی کا دم اس میں پھونکا جائے گا روح القدس سے بھر جائے گا۔

سمسمون کی طرح خدا کی قدرت سے مامور ہو کر ان درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھے گا۔ جن کی بیخ کنی خدا کو منظور ہے اور سیموایل کی طرح بہت سے بنی اسرائیل کو خدا کی طرف رجوع کرے گا اور یوں ان دونوں بزرگوں کی خوبیوں سے بہرہ و ر ہو کر جیسا کہ الیاس کو ہ کرمل پر ان سے مامور ہوا وہ بنوت کے مطابق الیاس کی طاقت کے ساتھ مسیح کے ظاہر ہونے سے پہلے نمودار ہو گا اور الیاس کے دوبارہ آنے کے علامتی معنوں کو پورا کرنے گا اور اس صورت میں یہ نیا الیاس خداوند کے لئے ایک گروہ تیار کرے گا۔

اب جس طرح وہ فرشتے کی شکل دیکھ کر دریائے حیرت میں ڈوب رہا تھا۔ اسی طرح اس کے الفاظ سن کر تعجب سے بھر گیا اور کچھ مدت تک ان کا مطلب سمجھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ البتہ ایک خیال جو مدت سے اس کے دل میں جا گز ین تھا۔اب پھر دل میں کھٹک رہا تھا۔ اور وہ بیٹے کا خیال تھا۔ وہ سوچتا تھاکہ اس بڑھاپے میں یہ کہاں ممکن ہے؟ پس اس کم اعتقادی کے باعث اس نے جو کچھ فرشتے سے سنا تھا۔ اس کا نشان مانگا، اس کو یہ نشان دیا گیا کہ وہ گونگاہو گیا پر چونکہ یہ نشان بے اعتقادی کی دعا کا نتیجہ تھا اس لئے اس اسے ایک طرح زکریاہ کی سزا سمجھنا چاہےے ۔ پر وہ ایک دوسرے معنی میں اس جماعت کے لئے جو ہیکل میں منتظر کھڑی تھی اور الیشبع کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو زکریاہ سے واقف تھے اور خود زکریاہ کاہن کے لئے بھی اسکی نوماہ کی تنہائی اور گوشہ نشینی میں ایک حقیقی نشان تھا۔ ہاں ایک ایسا نشان تھاجو اس وقت جب کہ اس کی زبان کھولی گئی آگ کے شعلے کی طرح چمک اٹھا۔ زکریاہ کو ہیکل میں معمول کے برخلاف زیادہ دیر لگی۔ لوگ دعا مانگ چکے تھے اور اب پاک جگہ کی طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آخر کار زکریاہ پاک جگہ سے باہر آیا اور ان سیڑھیوں پر کھڑا ہوا جو ہیکل کے اسارے سے کاہنوں کے صحن کی طرف جاتی تھیں۔ اور وہاں کاہنی برکت کے کلمات ادا کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ پہلے وہ برکت دی جاتی تھی۔ جو گنتی ٦:24-2٦، میں قلمبند ہے اور پھر نذر کی قربانی چڑھائی جاتی تھی۔ اور تپاون کے ساتھ حمد و ستائش کے مزا میر خوش آواز ی سے شروع کئے جاتے تھے۔ قربانیوں کے ٹکڑے مذبحے پر حسب ترتیب چنے گئے تھے۔ اور کاہن سیڑھیوں پر صف باندھے تھے ۔ نیز عابدوں کی جماعت منتظر کھڑی تھی ۔ زکریاہ بولنا چاہتا تھا ، پر بول نہیں سکتا تھا کیونکہ ابھی اس نے محسوس نہیں کیا تھا۔ کہ گویائی کی طاقت مجھ سے بالکل جاتی رہی ہے۔ لیکن لوگوں نے اسکی خاموشی سے جان لیا کہ اس نے ہیکل میں کوئی رویا دیکھی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کاہن اور دیگر اشخاص تتر پتر ہوگئے ۔ بعض عفل کو اور بعض یریحو کو اور بعض اپنے اپنے گاؤں کی طرف چلے گئے،مگر خدا نے اپنے وعدہ کو جو فرشتے کے وسیلے سے کیا تھا۔ وقت معینہ پر پورا کیا۔

اب الیشبع کو حاملہ ہوئے قریباً پانچ ماہ گذر گئے تھے۔ کہ ایک اجنبی قاصد اس کی رشتہ دار مریم کے پاس جو ملک گلیل میں رہا کرتی تھی۔ ایک عجیب پیغام کے ساتھ آیا ۔ وہ قاصد جبرئیل تھا۔ اس وقت وہ سونے کے مذبح اور شمعدان کے درمیان جہاں شوکت اور جلال بڑی سنجیدگی سے اپنا جلوہ دکھاتے تھے ۔ نمودار نہ ہوا بلکہ شہر ناصرت میں ایک غریب شخص کی جھونپڑی میں ظاہر ہوا۔ اس غیر معمولی نظارے کو دیکھ کر مریم پر خوف چھا گیا ہوگا پر وہ اس عجیب قاصد کی صورت سے اس قدر متحیر نہیں ہوئی جس قدر اس کلام سے جو اس قاصد کے منہ سے نکلا ، اور جس کے وسیلے سے ایسی بے نظیر برکت کی خبر اس کو دی گئی جو کبھی اس کے خواب و خیال میں نہ آئی تھی ۔ ”سلام تجھ کو “ البتہ یہ الفاظ تو کچھ غیر معمولی نہ تھے کیونکہ سلام کرتے وقت عموماً یہی الفاظ استعمال کئے جاتے تھے۔ اور نہ کوئی ایسی عجیب بات الفاظ ”خداوند تیر ے ساتھ ہے“ سے ظاہر ہوتی تھی کیونکہ اس سے ان چھٹکاروں کا سماں جو زمانہ ماضی میں فرشتے کی امداد سے وقوع میں آئے تھے۔ آنکھوں میں پھر جاتا تھا۔ مگر یہ کہنا کہ خدا کی طرف تجھ پر فضل ہوا ہے ۔ کسی بہت ہی بڑی نعمت کی خبر دیتا تھا۔ اور اسی خیال نے اسے حیرانی میں ڈال دیا پر یہ حیرت غالباً اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ اپنے افلاس کو دیکھ کر یہ کہتی تھی۔ کہ مجھ ایسی بے بس و بے کس کو کب ایسی برکت مل سکتی ہے ۔ بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی ذاتی اور اندرونی غریبی کو فروتنی سے محسوس کر رہی تھی۔ جب وہ اس حیرت افزاءکلام کو جو فضل الٰہی کا پتہ دیتا تھا۔ سن کر حیران ہوئی تو فرشتے نے اس فضل کی تفصیل بیان کی اور بتایا کہ وہ کس طرح حاملہ ہو گی ۔ اور اس لڑکے کا نام جو اس سے پیدا ہو گا کیا رکھا جائے گا اور کہ وہ نام کس طرح اس کے کام پر دلالت کریگا۔ فرشتے نے اس کی لا محدود عظمت کو بھی اس پر ظاہر کیااور بتایا کہ وہ خدا بیٹا کہلائے گا اور اس میں وہ امید برآئے گی جس کا وعدہ[١] ، داؤد کے ساتھ کیاگیا تھا یعنی اُس میں داؤد کے خاندان کی بادشاہی ہمیشہ تک قائم رہیگی اوراُس کی کوئی انتہا نہ ہوگی ، یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس کو تسلیم کرنا ناممکن ہوتا کیونکہ جو لوگ اسرائیل کی عظیم اُمید کے برآنے کی راہ دیکھ رہے تھے وہ اُسی قسم کے نادر اظہار کےمنتظر تھے، اورنہ نام کے پیش ازقت بتلائے جانے میں کوئی انہونی بات پائی جاتی تھی کیونکہ مریم جانتی تھی کہ کئی بزرگوں کا نام اُن کی پیدائش سے پہلے بتلایا گیا ہے اوراُسی طرح مسیح موعود کا نام بھی پہلے ہی سے بتلایا جائےگا۔ اُس کے دل میں بے اعتقادی کی روح نہ تھی۔ وہ خدا کے وعدوں کوسچا جانتی تھی اوراگر اُس نے فرشتے سے سوال کیا تواس خیال سے کہ وہ اپنے آپ کو ہیچ اورناچیز سمجھتی تھی اور چاہتی تھی کہ اس کو زیادہ ہدایت کی جائے کہ وہ کس طرح سے پورے طور پر اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں سونپ دے۔ فرشتے نے خدا کی برکت کے وعدہ کاباقی حصہ بھی اُس پر ظاہر کیا اور روح القدس کے نازل ہونے اوراُس پر سایہ کرنے کی بشارت اُس کودی۔ یہ بات اُس کے لئے غیر مانوس نہ تھی کیونکہ یہودی اُس بات کےقائل تھے کہ بڑے بڑے واقعات میں روح القدس کاکام کرتاہے گویہ ممکن ہے کہ وہ اُس کے تشخص کے بھید کوپورے طورپر نہیں سمجھتے تھے، پر وہ یہ بھی مانتے تھے کہ روح القدس کی مدد اور طاقت صرف بزرگوں اوراہل علم وفضل کوحاصل ہوتی ہے، پھر جبرئیل نے اس فضل کاجومریم ہونے والا تھا اُس کو یہ نشان دیا کہ جو کچھ خدا نے اپنی رحمت سے الیشبع کے حق میں کیاتھا وہ سب کچھ اُس کوخود بخود بتادیا۔

یہ نشان ایک طورپر اُس کے لئے رہنمائی کاکام کرگیا یعنی شروع ہی سے اُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ بڑھتا گیا کہ میں اُس عورت کےپاس جاؤں جوہر بات میں میرے ساتھ طبیعت اور مزاج میں روحانی یگانگی رکھتی ہے اوراُسے اپنا حال سناکر اپنے دل کو ٹھنڈا کروں اوراُس سے برکت آمیز کلمات سنوں۔ پس اُس کا اٹھنا اورجلدی سے اپنے رشتہ دار کے پاس جانا بہت موزوں تھا۔

الیشبع نے اُس کنواری ماں کو بڑے تپاک سے قبول کیا ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ الیشبع نے وہ تمام باتیں جو اُس کے بیٹے کی پیدائش اوراُس کے کام سے علاقہ رکھتی تھیں اپنے شوہر سے معلوم کی ہونگی۔ پس وہ جانتی تھی کہ مسیح اب آنے والا ہے کیونکہ یوحنا جس کی خبر زکریاہ کو دی گئی تھی اُس کا پیش رو تھا ، پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کب آئے گا اور کس کے گھر پیدا ہوگا لیکن جونہی اُس نے مریم کے سلام آواز سنی ، بچہ اُس کے پیٹ میں اچھل پڑا۔ بچہ کا پیٹ میں اچھلنا ایک نشان تھا جس سے سب یہودی خوب واقف تھے اورجب یہ نشان وجود میں آیا تو الیشبع نے فوراً پہچان لیا کہ یہی مریم جو میرے نزدیکی رشتہ داروں میں سے ہے خداوند کی ماں ہے ، وہ روح القدس سے بھر گئی اور بآواز بلند بول اٹھی " تو عورتوں میں مبارک اور تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہو"۔ یہ وہ دعائے خیر تھی جو بچوں والیاں بچوں والیوں کو دیاکرتی تھیں اور یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ راستہ تیار کرنے والے کی ماں اُس کی ماں کو جس کے لئے راستہ تیار کیا جانا تھا دعا دیتی تھی۔

تین ماہ تک مریم الیشبع کے یہاں رہی مگر جب الیشبع کے د ن نزدیک آئے تو اس نے دیکھا کہ اب الیشبع کے پڑوسی اور رشتہ دار اس کے پاس آئیں گے اور اس کی خوشی میں شامل ہوں گے مگر ایسے مجمعومیں حاضر ہونا میرے لئے زیبا نہیں ،اگر چہ وہ خوب جانتی تھی کہ جوکچھ میرے ساتھ ہو اہے اس کا کیا مطلب ہے تو بھی جب اس نے یوسف کے پاس اس ماجرے کا ذکر کیا ہو گا تو یہ تذکرہ اس کے لئے گویا اس تلوارکا پہلا زخم ہو ا ہوگا جس کی نبوت شمعون نے بعد میں اس طرح کی ”بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھد جائے گی اور ہم دیکھتے ہیں کہ یوسف کے دل سے اس وقت تک بد گمانی دور نہ ہوئی جب تک خدا نے اس کو نہ بتایا کہ جو مریم کے رحم میں ہے وہ روح القدس سے ہے ۔اس آگاہی سے پہلے وہ حیران و پریشان نظر آتا تھا اور کبھی مریم کو چھوڑ دینے کا ارادہ کرتا تھا مگر اس کے پورا کرنے میں لجلدی بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔ کبھی کہتا تھا کہ اگر اس سے قطع تعلق کرنا چاہوں تو مجھے دستور کے مطابق طلاق دنیی پڑے گی اوراگر مجھے ایسا کرنا ہی پڑا توچپکے سے دو گواہوں کے سامنے طلاق نامہ اس کے حوا لہ کردوں گا ، لیکن اس کو دنیا کی انگشت نمائی کا نشانہ بناوں گا ۔ جس طریقہ سے وہ الہٰی ارادوںسے آگا ہ کیا گیا اس کی امید اس کو مطلق نہ تھی ۔ چنانچہ خواب کے وسیلے سے خدا نے اس کو ساری باتیں بتا دی ۔ اس کے بعد تمام شکوک کا غبار یک بارگی اسکے دل سے دور ہوا گیا ۔ کیونکہ جب یہ آواز اس کے کان میں آئی ”ائے یوسف ابن داود “تو و فرشتہ کے پیغام کے لئے تیار ہو گیا اور پھر جب مسیح کا نام پیشتر سے بتایا گیا تو اس نے اس خبر کو بھی خیالات مروجہ کے عین مطابق پایا اور پھر یسوع نام کی یہ تشریح کہ وہ اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچائے گا ، مسیح موعود کے اصل کا م پر دلالت کرتی ہوئی معلوم ہوئی اور چونکہ یہ خبر اس کو خواب میں ملی تھی لہذا اس نے اسے بے تامل قبول کر لیا ۔تین چیزیں تھیں جو کہ خدا کی خاص رحمت کا نشان سمجھی جاتی تھیں اور ان میں سے ایک اچھا خواب تھا ۔ اب جب اس خواب کے وسیلے سے یوسف کے دل کی تمام کدورت دور ہو گئی اور اس نے محسوس کیا کہ پیدا ہونے والے یسوع اور اس کی کنواری ماں کے متعلق اب میرا فرض یہ ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے میں مریم سے نکا ح کر لو ں جس سے نہ صرف ظاہری نیک نامی بنی رہے گی بلکہ ہم دونوں کی اخلاقی محافظت بھی ہو گی ۔

اسی اثنا میں زکریا ہ کے گھر میں وہ عجیب واقعہ ہو ا جس کی راہ مدت سے دیکھی جارہی تھی یعنی یوحنا پیدا ہو ا ۔ یہودی خاندانوں میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور سب سے زیادہ خوشی کا موقع وہ ہو تا تھا جبکہ لڑکے کا ختنہ کیا جاتا تھا ۔ اس رسم کے وسیلے سے شریعت کا جوا بچے کے کندھے پر آپڑتا تھا اور وہ ان تمام فرائض کا ذمہ داراور حقوق کا مستحق ٹھہرتا تھا جس پر یہ ضابطہ دلالت کرتا تھا ۔ راوایت تھی کہ جب یہ رسم وقوع میں آتی ہے تو باپ سردار کا ہن کی جگہ لے کر خو د اپنے بچے کو خدا کے حضور شکر گزاری اور محبت کی راہ سے نذر کرتاہے ۔یوحنا کا ختنہ حسب معمول آٹھویں دن کیا گیا اور جب نام رکھنے کا وقت آیا تو زکریا ہ اور الیشبع کے دوستوں اور عزیزوں نے اس کو اس کا باپ کا نام دنیا چاہا ۔اس موقع پر لڑکے کی ماں نے کہا کہ اس کا نام زکریا ہ نہیں بلکہ یوحنا رکھا جائے گا ۔

واضح ہو کہ ختنے سے پہلے کلمات دعائیہ استعمال کئے جاتے تھے اور جب ختنہ ہو چکا ہو چکا چکتا تھا تو پھر مے کے پیالے پر برکت مانگی جاتی تھی اور دعا کے ساتھ لڑکے کا نام رکھا جاتا تھا اورجو دعا اس وقت مانگی گئی وہ کچھ اسی قسم کی ہوگی جو اب بھی یہودیوں میں مانگی جاتی ہے ”ہمارا خدا اور ہمارے باپ دادوں کا خدااس بچے کو اس کواس کے باپ کے لئے برپا کرئے اور وہ اسرائیل میں زکریا ہ ابن زکریاہ کہلائے ۔زکریاہ اس وقت خاموش بیٹھا تھا کیونکہ بول نہیں سکتا تھا پر وہ اس نشان کو پورا ہوتے دیکھ رہا تھا جو ہیکل میں اس کو دیا گیا تھا اور جب اس سے لڑکے کے نام کی بابت پوچھا گیا تو اس نے بھی تختی منگا کر وہی نام بتایا جوا لیشبع نے بتا یا تھا ۔ اس بات کودیکھکر حاضرین متعجب ہو ئے ، مگر اس ست بھی زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ اسی دم اس کی زبان کھل گئی اور وہ بولنے اور خدا کی حمد کرنے لگا ۔

ہیکل میں اس کے الفاظ سے بے اعتقادی پائی جاتی تھی مگر اب جب اس کی زبان کھلی تو وہ حمد و توصیف کے گیت گانے لگا اور جوکلمات اب اس کی زبان سے برآمد ہوئے وہ یقین اور ایمان سے معمور تھے ۔ ان باتوں کو دیکھ کر آس پاس کے رہنےوالوں پر دہشت چھا گئی اور یہودیہ کے تمام ملک میں ان باتوں کا چرچا پھیل گیا اور سب سننے والوں نے دل میں سوچ کر کہا ،۔

”پھر یہ لڑکا کیسا ہونے والا ہے“


[١] جو لوگ مسیحی نہیں وہ مسیح کے مجسم ہونے اور اس دنیا میں معجزانہ طور پر آنے سے ہمیشہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور چونکہ ہمیں امید ہے کہ کتاب حیات المسیح ہمارے داو ¿د کے ساتھ کیا گیا تھا یعنی اس میں داؤد کے خاندان کی بادشاہی ہمیشہ تک قائم رہیگی ۔ اور اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی، یہ کوئی ایسی بات نہ تھی۔ ہندو بھائیوں اور مسلمان دوستوں کے مطالعہ سے بھی گذرے گی لہذا ہم ان کے لئے چند سطور اس امر پر تحریر کرنا چاہتے ہیں۔ گو ایک ایسی لائف آف کراسٹ میں جس کا مقصد فقط یہ ہے کہ خداوند مسیح کی انسانی زندگی کے واقعات کو ترتیب وقت کے مطابق ناظرین کے سامنے رکھے تاکہ وہ اس کے مطالعہ سے فائدہ اٹھائیں۔ اس قسم کی بحث کے لئے جگہ نہیں ، پر ہم مختصر طور پر چند خیالات ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ مفصل بحث کے لئے جرمنی کے مشہور عالم نیا نڈر صاحب کی ”لائف آف کراسٹ کا ملاحظہ کرنا چاہےے جو سٹراس وغیرہ معترضوں کے جواب میں تحریر کی گئی ہے“۔

اگر ہم مسیح کی پیدائش اور تجسم کے اصل مقصدکو سمجھ لیں جو یہ تھا کہ بنی انسان میں اخلاقی تبدیلی پیدا ہوا اور بنی آدم کی ترقی کا ایک نیا سلسلہ جاری ہو تو خدا کا مجسم ہونا اور معجزانہ طور پر اس دنیا میں آنا خلاف عقل معلوم نہ ہوگا۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح کی انسانی زندگی تاریخی واقعات کے سلسلہ میں منسلک ہے بلکہ ہم یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ تمام تاریخ منشائے الٰہی کے مطابق اس طورپر مرتب کی گئی تھی۔ کہ یہ عجیب و غریب واقعہ جب سر زد ہوا اس وقت اس میں اپنی مقرر ی جگہ لے۔ تاہم یاد رکھنا چاہےے کہ یہ عدم المثل واقعہ دنیوی تاریخ میں سے پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ ایک اعلیٰ عنصر ہے جو دنیا کی اصلاح اور درستی کے لئے ہے۔

وہ اوپر سے داخل ہوا جو شے انسان کے فطر ی سلسلہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ ضرور ہے کہ انسانیت کے نفض اور خرابیوں سے بھی حصہ لے اور اس پر اس کے عیوب کی مہر لگی ہوئی ہو۔ پس یہ نا ممکن ہے کہ وہ شخص جو انسانیت کی ایک نئی نسل پیدا کرنے کو مقرر ہوا ہے اور جو دوسرا آدم بننے والا ہے۔ وہ خود انہی گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو جن سے نجات سے دینے کے لئے وہ نمودار ہواہے۔ پس اگر ہم مسیح کو بنی آدم میںسے ایک عام آدمی نہ سمجھیں بلکہ ایک نئی نسل کا بانی تصور کریں تو اس کا تجسم نا ممکن معلوم نہ ہوگا ۔ یہ عقل کی گواہی ہے اور جب ہم حقیقی واقعات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو خیال ہم کوعقلاً صحیح معلوم ہوتاہے۔ اس کے وقوع میں آنے پر تاریخ بھی گواہی دیتی ہے مثلاً متی اور لوقا کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ خداوند مسیح پیدائش کے معمولی قواعد کے مطابق اس دنیا میںنہیں آیا ۔ اب جو لوگ اس توار یخی گواہی کو ردکرتے ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ دو دعووؤں میں سے ایک دعولےٰ کو اختیار کریں ۔ایک یہ ہے کہ متی اور لوقا کا بیان بالکل بناوٹی ہے اور دوسرا یہ کہ کوئی نہ کوئی بات اس کی جڑیں ضرور ہو گی پر جس پر مسیحی مورخوں نے مسیح کے معجزانہ طور پر پیدا ہونے کا دعویٰ قائم کر لیا۔

جو لوگ پہلا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب مسیح کے شاگردوں نے اس کی نادر سیرت اور اس کی عجیب تعلیم کو دیکھا اور سنا تو اس کے بعد اس فکر میں میں لگے کہ اس کی پیدائش کا ایک ایسا فوق العادت بیان تجویز کریں جو اس کی عظمت کے شایاں ہو مگر یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ وہ عبارتیں جو اس بیان کو پیش کرتی ہیں۔ بالکل سادہ اور ہر طرح کے تصنع سے پاک ہیں اور پھر یوسف کی پریشانی اور اس کی دلی حالت کا وہ نقشہ جو متی کے بیان میں پایا جاتا ہے۔ اس خیال کا سخت مخالف ہے وہ نقشہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ اس وقت کھنچا جاتا ہے جب انسانی غیرت مشتعل ہوتی ہے۔

اور دوسرا دعویٰ کرنے والے لوگ کوئی اصلی واقعہ جس کی بناءپر انجیلی بیان رقم کیا گیا پیش نہیں کر سکتے ۔ بجز اس کے جو ایک گندے اور ناقص خیال پر مبنی ہے اور جس سے دینی خیالات کی جڑ کٹتی اور الٰہی پرور گار ی کی بیخ کنی ہو جاتی ہے ۔ علاوہ بریں اس قسم کی بناوٹ یہودیوں میں نہ پیدا ہو سکتی تھی۔ اور نہ ان کے درمیان رواج پا سکتی تھی۔ اگر ہنددوؤں کے درمیان اس قسم کی کہانی گھڑی جاتی توناممکن نہ تھا۔ لیکن پھر بھی طرز بیان کی وہ صورت نہ ہوتی جو کہ ہم انجیلوں میں پاتے ہیں۔ ہندو طرز اپنی مصنوعی خاصیت کو فوراً ظاہر کر دیتی ہے۔ مگر یہودیوں کے درمیان اس قسم کی کہانی کا دخل پانا بالکل ناممکن تھا۔ مثلاً و حدت الٰہی کی تعلیم جس کے وہ دل و جان سے پابند تھے اس کی مانع تھی پھر یہودی بیاہ کے بیاہ کے رشتہ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ اور عورت کے تنہا رہنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے نہ وہ مسیح کی الوہیت کو بخوبی سمجھتے تھے۔ پس یہ تمام باتیں مانع تھیں ۔ کہ اس قسم کی کوئی بات یہودیوں کے وہم سے پیدا ہو یا ان کے قلم سے نکلے تاوقتیکہ فی الحقیقت واقع نہ ہوئی ہو۔

اور نہ اضحاق اور سمسون اور سموئیل کی نظریں پیش کرکے یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ مسیح کی پیدائش کا حال بھی کچھ کچھ ان بزرگوں کی پیدائش کے حال کی مانند ہو گا یا ان کی پیدا ئش کے بیان نے انجیل نویسوں کے ذہن کو ایک نئے بیان کے اختراع کرنے میں مدد دی کیونکہ یہودی تاریخ میں ان بزرگوں کی تاریخ کا حال بالکل مختلف صورت رکھتا ہے۔ ان کی مائیں بانجھ تھیں مگر مریم بانجھ نہ تھی اور نہ ان بزرگوں کی پیدائش ان کو قانون قدرت سے مستثنیٰ ٹھہراتی ۔

بعض دفعہ یہ اعتراض کیا جاتاہے ۔ کہ اگروہ معجزانہ طور پر پیدا ہوا تھا۔ تو اس کے نزدیکی رشتہ دار اس پر ایمان کیوں نہ لائے ۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ تعجب نہیں کہ شروع میں اس کے تمام رشتہ دار اس واقعہ کو برحق سمجھ کر اس سے بڑ ی بڑی باتوں کی امید رکھتے ہو ں گے۔ مگر چونکہ تیس برس کا عرصہ گذر گیا اور انہوں نے کوئی عجائبات اس سے نہ دیکھے اور جب وہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے لگا تو اس وقت بھی وہ ایس مسیح ثابت نہ ہوا جیسا وہ اپنے ذہن میں سمجھے بیٹھے تھے تو انہوں نے اس کو قبول نہ کیا مگر اس کی ماں اس کی فو ق العادت پیدا ئش کے سبب اس پر ایمان رکھتی تھی اور یہ اس موقعہ سے بخوبی ثابت ہے جبکہ اس نے قانائے گلیل میں اس سے معجزہ دکھانے کی درخواست کی حالانکہ اب تک اس نے کو ئی معجزہ نہ دکھایا تھا ۔ اگر و ہ اس کی معجزانہ قدرت کی قائل نہ ہوتی تو کبھی ایسی درخواست نہ کرتی ۔واضح ہو کہ اس معجزے کے لئے مریم کی درخواست کا ذکر وہ انجیل نویس کرتا ہے جو اس کے معجزانہ طور پر پیداہوانے کا مطلق ذکر نہیں کرتا ۔

اسی جگہ ایک اور بات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ معترض یہ بھی کہا کرتے ہں کہ یوحنا نے اس کی غیر معمولی پیدائش کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ اس کے جواب میں پہلے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس رسول کواپنی انجیل میں یہ دکھانامنظو ر تھا کہ مسیح جو مجسم ہو کر اس دنیا میں آیا اس کی انسانی زاندگی میں کوئی کس طرح باپ کے اکلوتے کا جلال ظاہر ہوا ۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی انجیل میں کو ئی بات نہیں پائی جاتی جو اس واقعہ کے بر خلاف ہو بلکہ اشارے ملتے ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں مثلاًوہ تعلیم جو کلمے کے متعلق اس کی انجیل میں پائی جاتی ہے کہ یوحنا اس کی معجزانہ پیدائش کا قائل ہے اور پھر ہم لدیکھتے ہیں کہ اسی کی انجیل میں مسیح یہ کہتا ہے کہ ”جو جسم سے پیدا ہواہے وہ جسم ہے “۔

پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسیح کے روبرواس کے مخالف کہا کرتے تھے ”کیا یہ یوسف اور مریم کا بیٹا نہیں “؟اس بات کوسن کر مسیح نےاپنے فوق العادت پیدائش کا دعوے کیوں نہ کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے دعووں کا ثبوت میں ایک ایسا واقعہ پیش نہیںکرنا چاہتا تھا جو گزر چکا تھا اور جس کا ثابت کرنا مشکل بلکہ نا ممکن تھا ۔ پس وہ اس واقعہ کی طرف اشارہکرنے کی جگہ یہ بہتر سمجتا تھا کہ ’لوگ اس کے کامو ں اور اس کی تعلیم سے جن کو وہ دیکھنے سے جن کو وہ دیکھنے اور سنتے تھے قائل کئے جائیں پس وہ ایک ایسے واقعہ کاحوالہ نہیں دینا چاہتا تھا جس کو وہ دیکھ نہیں سکتے تھے ۔

پھر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اکثر غیر قوموں لہ میتھیالوجی (علم الاصنام )سے نظریں ڈھونڈلاتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ ان قصوں نے انجیل نویسوں کو مسیح کی معجزانہ پیدائش کا حال گھڑنے میں مدد دی ہوگی ۔

ہم اوپر دکھا چکے ہیں کہ اس قسم کے قصہ کہانیاں یہودی دماغ میں راہ نہیں ؛پا سکتے سکتے تھے پر ہم یہا ں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ میتھولاجیکل اور انجیل بیان میںجو مشابہت پائی جاتی ہے اس کے اصل حل تک پہنچنے کے لئے اس رشتے پر غور کرنا چاہیے کہ جو کہ متھیالوجی کے نیچرل مذہب اور انجیلوں کے الہامی اور تواریخی مذہب میں پایا جاتا ہے ۔ متھیالوجی میں دیوتاوں کے بیٹوں اور ان کے پیدا ہو نے کا خیال اور اس ادراک سے پیدا ہوتا ہے جوبت پرستی کی بطالت سے ناقص ہوجاتا ہے۔مگر ساتھ ہی اس خیال کا بھی محکوم ہو تا ہے پر انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہی خیال تواریخی صداقت پر مبنی اور سادگی سے ملبس ہے اور بڑی وضاحت اور صفائی کے ساتھ اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے ۔

اب جو بات بت پرست قصوں کی تہ میں نہاں ہے وہ یہ ہے کہ انسان میںایک زبردست خواہش پائی جاتی ہے جسے وہ اپنی روح سے جدا نہیں کر سکتا وہ خدا کی صحبت اور اس کے وصل کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اس کی روح اور خدا کے بابین جو بعد پاجا تا ہے و ہ دور ہو جائے اور ایسا اتصال ذات الہٰی کے ساتھ حاصل ہو کر اس کی زندگی بالکل تبدیل ہو جائے ۔ مسیحی مذہب انسانیت کے اور الوہیت کا ایسا میل مسیح میں دکھاتا ہے اب اگر اس حقیقت کے اشتیاق میں پرانے مذہبوں نے وہ قصے اور کہانیاں گھڑلیں جو انجیل بیان کے ساتھ نہایت ہی خفیف سی مشابہت رکھتی ہیں تو کچھ تعجب نہیں ۔

پر یہ بات یاد رکھنے کے قائل ہے کہ انجیلوں کے بیان اور پرانے بت پرست مذاہب کے بیان میں بڑافرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بت پرست مذاہب کے بیان خدا کے ساتھ نیچرل اسباب کو بھی عجیب واقعات کے برپا کرنے میں شامل کرتے ہیں اور یوں وہ طری طاقتوں کو خدا کا ہم پلہ بنا دیتے ہیں اور اسی لئے ان کی شرح بھی نیچرل اصول کی بنا پر ہو سکتی ہے مگر مسیحی مذہب جب مسیح کی معجزانہ پیدائش کا ذکر کرتا ہے تو نیچرل اسباب کو دخل نہیں دیتا بلکہ سب کچھ براہ راست خدا کی مرضی اورقدرت سے منسو ب کرتا ہے ۔

دوسراباب

آغوش مادر اور خاموش تربیت

پیدائش ۔جس زمانہ میں مسیح پیدا ہو ا ان دنو ں قیصر اگستس روم کابادشاہ تھا اور روم کے تخت پر متمکن ہو نا گویا تمام مہذب دنیا کی عنان حکومت کو ہاتھ میں لا نا تھا ۔ پس یہ کہنا بے جانیں کہ اگستس ذرا سے اشارے سے تمام عالم کو تہ بالا کرسکتا تھا ۔ وہ اپنی دولت اور بے انتہا اختیار پر نازاں تھا اور چاہتا تھا کہ انہیں اور بھی رونق دے او ر اس آرزوکو پو را کرنے کے لئے وہ اس فکر میں تھا کہ اس آرزو کو پو را کرنے کے لئے وہ اس فکر میں تھا کہ ایک ایسا رجسڑ تیا رکیا جائے جس میں تمام ممالک [١]کی آبادی کوشمار اور آمدنی کی تفصیل درج ہو ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس نے وہ حکم جاری کیا جو مقدس لو قا کی انجیل میں اس طرح قلمبند ہے۔ ”ان دنوں میں ایسا ہو کہ قیصر اگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں “۔اس اسم نویسی یا مردم شماری کا مطلب یہ تھا کہ آیندہ اسی کے مطابق محصو ل اور جزیہ لیا جائے۔جن ممالک پر اس فرمان کی اطاعت فرض تھی ۔ ان میں سے ایک فلسطین تھاجس کا بادشاہردویس شہنشاہ روم کے با جگزاور ں میں شامل تھا ۔اس حکم سے تمام ملک میں ہل چل پڑگئی کیونکہ یہودیوں کا یہ قدیم دستور تھا کہ اسم نویسی کے وقت جہاں وہ رہا کرتے تھے وہاں اپنے نام نہیں لکھوایا کرتے تھے بلکہ ہر فرقہ کے لوگ اپنے نام لکھوانے کے لئے ان جگہوں کو چلے جانے تھے جو ان کے باپ دادوں سے علاقہ رکھتی تھیں ۔

جن لو گوں کو قیصر حکم مختلف جگہوں کو کھینچے لئے جاتا تھا ان میں یوسف اور مقدسہ مریم بھی شامل تھے یہ دونوں مقدسین ناصرت سے بیت لحم کی طرف روانہ ہوئے ۔ سو میل کا کھٹن سفر ان کے سامنے تھا تو بھی وہ اس سفر کو جو مشکلات اور تکلیفوں کے سبب سے دوزخ کا نمونہ تھا ، اختیار کرنے کو تیار تھے تا کہ اپنے شہر میں جا کر اصل رجسٹر میں اپنے نام درج کرائیں ۔گو اس وقت وہ تنگی کپنجہ میں گرفتار تھے اور ان کو سیدھی سادی وضع سے غریبی ٹپکتی تھی مگر بیت لحم کو جانا ظاہر کر رہا تھا اکہ شاہی خون ان کی رگوں میں حرکت کر رہا ہے ۔ بادشاہ کا حکم ان دونوں کودھکیلتے ہو ے ان کوا منزل مقصود کی طرف لئے جاتا تھا اور وہ دشوار گزار راستے کی سختیوں کا مقابلہ کرتے ہو ئے دن بدن آگے بڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک دن چٹانی چڑھائی طے کرکے اپنی منزل پرجا پہنچے ۔ مگر اس وقت یوسف طرح طرح کی فکروںمیں ڈوبا ہوا تھااور مریم تھکان کے مارے بے دم ہو ئی جاتی تھی اور جب سرائے[٢] میں داخل ہو ئے تو دیکھاوہ مسافروں سے پھری پڑی ہے اور ان مسافروں کو بھی وہی مقصد اس جگہ کھینچ لا یا تھا۔ جو یوسف اور مریم کے سفر کا موجب ہوا تھا۔ سرائے میں کہیں تل رکھنے کو جگہ نہ تھی ۔ اور نہ شہر میں کوئی ایسا دوست تھا جو آؤ بھگت کرتا اور نہ کوئی ایسا ہمدرد تھا جو ان مسافروں کے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھولتا اور دستر خوان بچھاتا ۔ آخر اس بے کسی اور بے بسی کی حالت میں اصطبل کے ایک گوشہ پر جہاں مسافروں کے گھوڑے اور خچر بندھے تھے۔ قناعت کی، اسی رات اور اسی جگہ مریم کا پہلو ٹھا بیٹا پیدا ہوا ۔ اب چونکہ نہ تو کوئی ایسی عورت پاس تھی جو اس مشکل وقت میں اس کی مدد کرتی اور نہ کوئی پلنگ یا کھٹولا موجود تھا۔ جس پر اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو لٹاتی لہذا اسے ،چیتھڑوں میں لپیٹ کر چرنی[٣] میں رکھ دیا۔ سٹاکر صاحب فرماتے ہیں کہ جب تک میں وسط جرمنی کے مشہور تجارتی شہرا ٓئس لیبن میں ، نہ گیا تب تک یہ عجیب سماں پور ے پورے طورپر میری سمجھ میں نہ آیا۔ جب میں آئس لیبن کی سرائے میں پہنچا تو میں نے اس کمرے کو دیکھا جہاں مارٹن لوتھر پیدا ہوا تھا۔ اس کے ماں باپ بھی کسی کام کے لئے یہاں آئے تھے ۔ اور وہ بھی تنگدستی کے چنگل میں گرفتار تھے اور جب یہ سرائے ایک بڑی بھیڑ سے پرُ اور شور و غوغا سے گونج رہی تھی۔ عین اس وقت وہ شخص پیدا ہوا جو یورپ کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے والا تھا۔

مسیح کی پیدائش کے بعد صبح کو سرائے میں پھر شور غل کا بازار گرم ہوا۔ بیت الحم کے باشندے حسب معمول پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے ، کوئی نہیں جانتا تھاکہ گزری رات ایک ایسی بات وقوع میں آئی ۔ جو تما م دنیا کی تاریخ میں بے نظیر ہے ہر ایک بچہ جواس دنیا میں آتا ہے۔ گویا راز سر بستہ کی طرح یا یو ں کہیں کہ بند ڈبیا کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں طرح طرح کے امکانات کے جواہر بند ہوتے ہیں۔ بے شک یوسف اور مریم اس بھید سے واقف تھے۔ اور جانتے تھے، اور جانتے تھے، کہ مریم جو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی اور ایک غریب نجار سے بیاہی گئی ہے ، اور اعزاز سے ممتاز کی گئی ہے۔ کہ اپنی قوم کے مسیح موعود اور دنیا کے نجات دہندہ کی اور جس کے اعتبار سے خدا کے بیٹے کی ماں کہلائے ۔

ایک قدیم نبوت کے مطابق اسے اسی جگہ پیدا ہونا تھا۔ وہ نبوت یہ تھی کہ اے بیت الحم افراتاً ہر چند کہ تو یہوداہ کے سرادروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے وہ شخص نکل کے مجھ پاس آئیگا۔ جو اسرائیل میں حاکم ہو گا۔ اگرچہ ان دو جانوں کو متکبر مزاج اگستس کا حکم بیت الحم کی جانب جو جنوب کی طرف واقع تھا۔ کھینچ لایا تھا ، تو بھی یہ یا د رکھنا چاہےے کہ ساتھ ہی ساتھ ایک اور ہاتھ بھی کام کررہا تھا۔ اور وہ ہاتھ اس کا تھا جو اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے شہنشاہوں اور بادشاہوں ، بڑے بڑے مدبروں اور پارلیمنٹوں کے ارادوں کو اپنے بس میں رکھتا ہے ۔ خواہ وہ اسے جانیں یا نہ جانیں۔ اسی نے فرعون کے دل کو سخت کیا ۔ اسی نے خور س کو غلام کی طرح اپنے قدموں میں بلایا ۔ اسی نے زاد اور بنوکدنضر کو اپنا چا کر بنایا ۔ پس وہ اس قابل تھا کہ اگستس کی حرص اور تکبر کو اپنے اغراض کے پورا کرنے کی خاطر اپنی حکمت کے مطابق کام میں لائے ۔

مختلف پرستار ۔اگرچہ مسیح نے بڑی پستی اور خاموشی سے زندگی کی سٹیج پر اپنا قدم رکھا۔ اگرچہ باشندگان بیت الحم نے نہ جانا کہ ہمارے درمیان کیسا عجیب واقعہ سرزد ہوا ہے۔ اگرچہ شنہشاہ روم اس بات سے بالکل بے خبر تھا۔ کہ باغ عالم میںایک نیا گل کھلا ہے۔ جس کی خوشبو سے تمام دنیا مہک اٹھے گی اور آج وہ بادشاہوں کا بادشاہ پیدا ہوا ہے۔ جو نہ صرف سلطنت روم پر حکمران ہو گا۔ بلکہ اس کی بادشاہی کا سکہ ان ممالک میں بھی رائج ہو گا جہاں رومی عقاب نے اب تک پر نہیں مارا ۔ اگرچہ بنی آدم کی تاریخ موجزن دریا کی طرح شور مچاتی ہوئی یعنی معمولی طرز پر جارہی تھی۔ اور اس نادر واقعہ سے جو سرزد ہو چکا تھا۔ نا آشنا تھی تو بھی کئی لوگ ایسے بھی تھے جو اس عجیب واقعہ سے واقف تھے جس طرح الیشبع کے رحم میں جب اس کے خداوند کی ماں اس کے نزدیک آئی تو لڑکا اچھل پڑا تھا۔ اسی طرح جب وہ جو نئی دنیا کو اپنے ساتھ لایا اور نمودار ہوا تو جا بجا پرانی دنیا میں جو اب مٹنے والی تھی۔ لوگوں کے درمیان آنے والے بادشاہ اور نجات دہندے کے متعلق طرح طرح کے نشانات اور خیالات پیدا ہوئے۔ چنانچہ جولوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے اور روحانی بینائی اور باطنی پاکیزگی کے سبب ان نشانات کو دیکھنے اور سمجھنے کی لیاقت رکھتے تھے۔ ان کے دل میں کچھ کچھ روشنی چمک اٹھی کہ جو آنے والا تھا وہ آگیا ہے۔

جن لوگوں نے سب سے پہلے اس بچہ کی زیارت کی اور اس کے سامنے سر بسجود ہوئے ۔ وہ چوپان تھے، جس بے مثال واقعہ سے عالیجاہ بادشاہ اور زمانے کے بڑے بڑے نامور لوگ بے خبر تھے۔ اہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ آسمانی شہزادے اس میں اس قدر محور اور مگن تھے کہ انہوں نے علوم غیب اٹھا ڈالے تاکہ اپنی خوشی کے جوش کو ظاہر کریں اور اس جلیل القدر واقعہ کا مطلب سمجھائیں۔ اور وہ جیسے لوگوں سے ملنا چاہتے تھے۔ ویسے لوگ ان کو مل گئے اور وہ گڈریے تھے جو گیان دھیان میں مصروف اور دعا و مناجات میں مشغول ہو کر ان کھیتوں میں اپنے گلے چرار ہے تھے۔ یہ لوگ یہودی تاریخ بعض عجیب واقعات کا مظہر ہونے کی وجہ سے روحانی حقیقتوں کے پھولوں کا گویا ایک گلدستہ بنے ہوئے تھے۔ جس میں سے تازہ تازہ خیالات خوشبو کی طرح اٹھتے تھے۔ انہیں کھیتوں میں یعقوب اپنی بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ یہیں روت ،بوعز کے نکاح میںآئی ۔ اسی جگہ داؤد نے جو عہد عتیق میں مسیح کا علامتی نمونہ تھا اپنی جوانی کے دن کاٹے تھے۔ سویہ گڈریے ان یاد گاروں کے مرکز میں اپنے دل کی مخفی ضرورتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے آنے والے نجات دہندے کے بارے میں تازہ سبق لے رہے تھے۔ اس علم میں ان کے کی لیاقت ان فریسیوں پر سبقت لے گئی تھی۔ جو ہیکل کی شاندار عبادت میں اپنی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ اور نہ ہی وہ فقیہ اس امر میں ان کے ہم پلہ تھے جو پرانے عہد نامے کی نبوتوں کی ورق گردانی تو کیا کرتے تھے۔ مگر اس عمیق بحر میں جو موتی چھپا ہوا تھا اس کے دیکھنے کی آنکھ نہ رکھتے تھے۔ فرشتے ان گڈریوں کو بتایا کہ دنیا کا نجات دہندہ چرنی میں پڑا ہے۔ اور وہ یہ خبر پاتے ہی فی الفور اس طرف روانہ ہوئے تاکہ اس کے دیدار سے آنکھیں روشن کریں۔ ان گڈریوں کو ان مفلس اور غریب لوگوں کے نمائندے سے سمجھنا چاہےے جو کچھ عرصہ کے بعد بکثرت اس کے پیرو ہوئے۔

گڈریوں کے بعد شمعون ، اور اناّآئے جنہیں ان لوگوں کے نمائندے سمجھنا چاہےے جو مقدس نوشتوں کو بڑے عجز و شوق سے پڑھا کرتے اور ان کے معانی کو بھی سمجھتے تھے۔ ان دنوں اس قسم کے لوگ مسیح کے ظہور کے منتظر تھے اور ان میں سے کئی ایک نے بعد میں اس کی پیروی اختیار کی اور اس کے وفا دار اور جان نثار شاگرد بنے۔ پیدائش سے آٹھ روز بعد معمول کے مطابق اس کا ختنہ کیا گیااور اس طرح شریعت کے تابع اور عہد میں شامل اور اپنا نام اپنے خون سے لکھ کر اپنی قوم کے شمار میں داخل ہوا اور جب تھوڑی مدت بعد مریم کی طہارت کے ایاّم پورے ہوئے تو مسیح کو بیت الحم سے یروشلیم میں لائے تا کہ ہیکل میں خدا کے حضور نذر کریں۔ یہ کیسا عجیب سماں تھا ۔ گویا اس وقت ہیکل کا خداوند ، خداوند کی ہیکل میں داخل ہو رہا تھا۔ کاہنوں نے شاید کبھی کسی زائر کو ایسی کم التفاتی سے نہ دیکھا ہو گا جیسا مریم اس کے بچے کو دیکھا ،کیونکہ مریم اپنے ساتھ وہ قربانی نہیں لائی تھی جو عموماً ایسا موقعو ں پر چڑھا ئی جاتی تھی۔ وہ فقط قمر یوں کا ایک جو ڑ ا الائی تھی جو کنگالوں کی قربانی سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ ہیکل کے کار گذاروں نے اسے نہ پہچانا پر بعض اہل بصیرت نے جن کی آنکھوں پر اس گندم نما جو فروش کے چمکیلے نظاروں کی جھلک سے چکا چوندی کا پردہ نہیں چھا یا تھا اسے پہچان لیا۔ تنگ دستی کا پردہ ان سے اس کے جلال کو نہیں چھپا سکتا تھا۔ ان اہل نظرمیں سے ایک شمعون تھا جس نے اپنی بے شما ر دعاوؤں کے جواب میں یہ وعدہ پایا تھا۔ کہ جب تک وہ مسیح کو نہ دیکھ لے تب تک اس دنیا ئے فانی سے کوچ نہ کریگا۔ اور جب اس نے مریم اور اس کے بچے کو دیکھا توفوراًیہ خیال بجلی کی طرح اس کے دل میں سے گزر گیا کہ یہی بچہ وہ نجات دہندہ ہے جس کےے اشتیاق دیدار میں مدت سے چشم براہ ہوں۔ اس نے اسے اپنی گود میں لیا اور غیر قوموں کے نور اور اسرائیل کے جلا ل کو دیکھ کر خدا کا لشکر ادا کیا۔ وہ اپنا کلام ہنوز ختم نہ کرنے پایا تھا۔ کہ ایک اور گواہ ان موجود ہوا۔ یہ ایک خدا پرست بیوہ تھی جس کا نام اناّ تھا۔ جو مدت سے ہیکل ہی میں رہا کرتی تھی۔ اس کی آنکھیں دعا اور دروزاے کے سرمہ سے ایسی صاف ہو گئی تھی۔ کہ اس کی نظر ظاہری صورت کو دیکھنے سے اندرونی حقیقت کی تہ تک بآسانی پہنچ سکتی تھی۔ اس نے بوڑھے شمعون کی گواہی کی تائید کی اور س راز سے دیگر بند گان خدا کو جو اسرائیل کی نجات کی انتظاری میں تھے۔ آگاہ کیا، اب یہ چرواے اور یہ عمر رسیدہ مقدس تو اس جگہ کے نزدیک ہی رہا کرتے تھے۔ جہاں یہ نئی طاقت دنیا میں داخل ہوئی مگر اس عجیب واقعہ نے دور دراز ممالک میںبھی اثر پذیر دلو ں پر عکس جا ڈالا ۔ جب مجوسی اسے دیکھنے آئے تو اس وقت غالباً وہ ہیکل میں جا چکا تھا۔ اور اس کے ماں باپ اسے بیت الحم کو واپس لے گئے تھے۔ تاکہ وہیں بودوباش اختیار کریں اور ناصرت کو واپس نہ جائیں۔ یہ مجوسی ان ممالک کے رہنے والے تھے۔ وہ گویا گنجینہ علوم کے محافظ تھے جس میں سائنس اور فلسفہ اور طب شامل تھے اور دینی رازوں کے خزانوں کی کنجیاں بھی انہیں کے سپرد تھیں۔ ٹے سیٹس اور سوٹائینس اور یوسیفس جیسے نامور مورخ بتاتے ہیں کہ جن ممالک سے یہ لوگ آئے تھے۔ وہاں ان دنوں اس بات کا انتظار عالمگیر تھا کہ ملک یہودیہ میں ایک بادشاہ پیدا ہونے والا ہے اور ہمیں قابل منجم کپلر کے حساب سے معلوم ہواہے۔ کہ انہیں ایاّم میں سطح آسمان پر ایک چند روزہ مگر نہایت چمکتا ہوا ستارہ[٤] نمودار ہواتھا۔ اب یہ ، مجوسی علم نجوم کے بڑے شائق تھے۔ اور مانتے تھے، کہ غیر معمولی اظہار جو سطح آسمان پر نمودار ہوتا ہے۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سطح زمین پر بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو گا۔ پس ممکن ہے کہ انہوں نے اس ستارے کو جس کی طرف ان کی توجہ ہوئی ہو گی اور اس عالمگیر انتظار کو جو ان کے ممالک میں پایا جاتا تھا۔ کہ پہلو یہ رکھ کر زیادہ جوش حاصل کیا ہو کہ چلیں اور چل کر دیکھیں ، کہ جس بات کی انتظاری میںبے قراری ہو رہی ہے۔ وہ ابھی پوری ہوئی ہے یا نہیں ، ناممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ہی اپنی ذاتی محتاجی اور بے کسی کو بھی پہچانا ہو اور آسودگی کی خبر عالم غیب سے پائی ہو ۔ پس ممکن ہے کہ گو ان کی تلاش کا آغاز محض ایک علمی شوق اور تصور پر مبنی ہو سکتا ہے۔ تو بھی خدا نے انہیں کامل صداقت کی راہ دکھائی ۔ خدا ہمیشہ اسی طرح کیا کرتا ہے۔ مثلاً ہم ناکاملوں کو لعنت ملامت کرنے کی جگہ وہ ہمارے ساتھ ایسی زبان میں ہم کلام ہوتا ہے جو ہم سمجھ سکتے ہیں خواہ اس کا مطلب ادھورے طورپر ہی ظاہر ہو ، اور یوں وہ ہمیں کامل صداقت ،کی طرف لے چلتا ہے جس طرح اس نے اسٹرا لو جی (علم نجوم ) سے دنیا کو اسٹرانو می (ہیت ) تک پہنچایا اور مہوسوں کی کیمیا گری کے پہنچہ سے رہا کرکے حقیقی علم کیمیا (کمسٹری ) کا دروازہ دکھایا اور جسا طرح ”ریولول آف لرننگ “کے بعد آفتاب ریفارمشن کو طلوع کیا اسی طرح اس نے لو گو ں کے علم سے کیا جو پہلے نصف سے زیادہ لغو اور باطل ہو گا یعنی اسی کے وسیلے سے انہیں دنیا کے نو ر کے حضور لے گیا ۔ ان کا آنا گویا اس بات کی نبوت تھا کہ آنے والے زمانوں میں کس طرح غیر قومیں اس کی تعلیم اور نجات کو قبول کریں اور کیونکہ اپنی دولت اور حکمت اپنا علم اور فلسفہ اسکے پا ﺅں پر نثار کر ڈالیں گے ۔

یہ لوگ تو اس کے گہوارے کے اردگرد اس لئے جمع ہو ئے تھے کہ اس کے ساتھ سر نیاز خم کریں ۔چنانچہ گڈرئیے اپنی سادی سی ہییت کے ساتھ اس کے حضور سر نگوں ہو ئے ۔ شمعون اور انا اس گہری تعظیم کے ساتھ جو صدیوں کی دانائی اور دینداری سے پر تھی اس کے سامنے سر بسجود ہو ئے اور مجوسیوں نے بڑے بڑے نذرانوں اور مایہ علم کے ہدیوں کے ساتھ ڈنڈوت کی ۔ ادھر یہ لوگ اس کے در پر سجدے کر تے ہیں ادھر ایک اور شخص نمودار ہوتا ہے جس کے چہرے سے دغا اور خو نریری کے آثار ظاہر ہیں ۔ یہ ہیرودیس ہے جو اس ملک کا بادشاہ ہے اور اس وقت در حقیقت ایک اجنبی کمینہ اور غاصب آدمی تھا اس کی ماں عربی تھی اور باپ ادومی تھا ۔ کہتے ہیں کہ جب وہ تخت نشین ہوا تو ممبران سہڈرم نے کمال سے اس کو آگاہ کیا کہ ہم بموجب استثنا 15:17 کے ایک اجنبی کو اپنا بادشاہ نہیں بنا سکتے ۔ ہیرودیس نے ان میں سے کئی ایک کو مر وا ڈالا ۔ اس کی رعایا اس سے نفرت رکھتی تھی اور اگر وہ اپنے تخت پر قائم تھا توا رومیوں کے طفیل سے تھا اس میں شک نہیں کہ وہ ایک قاتل اور حریص اور شان و شکوہ کو پسند کرنے والا آدمی تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ ظالم اور فریبی اور مردہ اور پلید دل بھی رکھتا تھا ۔ اس کا ثانی سوا مشرقی ظالوں کے اور کہیں نہیں مل سکتا ۔ کو ئی ایسا جرم نہ تھا جس کا مرتکب وہ نہ تھا ۔ ا س کے محل خون میں تیر رہا تھا اپنی چہتی بیوی کوا اس نے قتل کیا اپنے تین بیٹوں کا خون اس نے پیا اور اپنے کئی رشتہ داروں کوتلوار کے گھٹ پار اتا ر ا ۔ ان دنوں بڑھاپے کا عالم تھا ۔ کھبی بیماری دکھ دیتی تھی اور کبھی نا کر ونی افعال کی مذامت اس کو ستاتی تھی ۔ کھبی یہ خیال بے آرام کرتا تھا کہ لوگ مجھ کو پسند نہیں کرتے اور کبھی تخت کے دعوے داروں کی دعوے داری کا ڈر گلے کا ہار بن جاتا تھا ۔ مجوسی قاعدے کے مطابق پہلے دارالسلطنت کی طرف آے تا کہ دریافت کریں کہ جس کا ستا رہ انہوں نے سوال ہیرودیس سے کیا تو اس کے پر دبر چھیا ں چلنے لگیں ۔ لیکن اس نے اپنے خیالات کو بڑ ی احتیاط سے شیطانی ریا کا ری کے پردے تلے چھپا رکھا اور کا ہنوں سے پتہ لے کر کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہو گا ان پر دیسیوں کووہاں جانے کی ترغیب دی اور کہا کہ لوٹتے وقت ضرو ر مجھے وہ گھر بتاتے جانا جہاں وہ نیا بادشاہ سکونت پذیر ہے ۔ وہ اپنے خیال میں یہ سمجھے ہوئے تھا کہ میں اسے ایک ہی ضرب سے چکنا چور کر ڈالوں گا لیکن اس کے تمام خیا لات بیکار نکلے کیونکہ مجوسی خدا سے آگہی پا کر دوسری راہ سے وطن کو روانہ ہو ئے اور پھر کبھی ہیرودیس کے پاس واپس نہ آے ۔ یہ دیکھ کر ہیرودیس کے غضب کی آگ بھڑک اٹھی ۔ اور اس نے اپنے سپاہیوں کوا روانہ کیا کہ جا کر تمام بچوں کو جو دوبرس[٥] سے نیچے تھے ،ہلاک کر ڈالیں پر اگر وہ پہاڑی چٹان کو ہوائی ضربوں سے چکنا چور کر سکتا تو خدا کے ارادوں کو بھی کاٹ ڈالتا ۔ اس نے مر غ بلند پر وار کو شکار کرنے کے لئے اپنی تلوار گھونسلے ؛پر چلائی ، پر وہ پہلے ہی سے لڑ کے اڑگیا تھا یعنی لکو یوسف مصر لے گی ااور ہیرودیس کی موت تک وہیں رہا جب ہیرودیس ملک عدم کو روانہ ہو اتو و ہ ناصرت کو واپس آیا اور وہاں رہنے لگا کیونکہ بیت لہم لجانے سے خدا نے اس کو روک دیا تھا وجہ یہ تھی کہ بیت لحم ہیرودیس کے بیٹے ارخلاوس کی حددو میں واقع تھا جو اپنے قاتل باپ کا ہم مزاج اور ہم طبع بیٹا رتھا ۔ ہیرودیس کی خوبی آنکھوں کا اس بچے کی؛ طرف دیکھنا اس بات کی افسوس ناک نبوت تھی کہ دنیا کی طاقیتں اسے ستایئں گی اور اس کی زندگی کے درخت کو باغ عالم سے کاٹ ڈالیں گی ۔

ناصرت میں خاموش زندگی ۔مسیح کی پیدا ئش سے لے کر مصر جانے تک جو واقعات سر زد ہوئے وہ تو مفصل طور پر انجیلوں میں قلمبند ہیں لیکن ناصرت ست واپس آنے کے بعد اس تفصیل کا سلسلہ کٹ جاتا ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہی کہ اس کی عام خدکے آغازا تک جو کچھ واقع ہو ا اس پر ایک پردہ سا پڑا ہے جو صرف ایک ہی مرتبہ اٹھایا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ ہمارے دل تو یہ چاہتے ہیں کہ؛ جس طرح ولسبط کے ساتھ مصر ست واپس آنے تک اس کی زندگی کے واقعات کا سلسلہ چلا آیا تھ اسی طرح اس کی پبلک خدمت کے شروع تک برابرچلا جاتا اور وقائع نویس خاموش نہ ہو تے کیو نکہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں جو سوانح عمریاں تحریر کی جاتی ہیں ان میں بچپن کے زمانہ کی دلچسپ حرکا ت و سکنات کو ابھری ہو ئی جگہ دی جاتی ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ جو واقعات اس عرصہ میں سر زد ہو تے ہیں وہ گویا اس بات کی نبوت کرتے ہیں کہ؛ جس شخص کی زندگی سے وہ علاقہ رکھتے ہیں وہ آیندہ کیا ہوگا اور کیا کر یگا یا یوں کہیں کہ چھٹپن کے واقعات ہو نار برواکے چکنے چکنے پات ہوتے ہیں پس اگر کوئی ہم کو یہ بتا دے کہ مسیح کی زندگی کے اس عرصہ میں اس کی ایسی عادتیں تھیں ،ایسے ایسے اس کے دوست تھے تو شاید اس علم کے لئے اس کے خیالات اور الفاظ اور کام تھے تو شاید اس علم کے لئے ہم اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جاہیں لین ان تمام باتوں پر مہر لگی ہو ئی ہے اور خاموشی کی دیوار پر سے جو اس چمنستان کو چاروں طرف دامن اشتیاق میں پھنیکا جاتا ہے جوا اپنے رنگ و بوسے مشتے نمونہ از خروارے کا کام کرکے ہمیں اور بھی اس خواہش سے بھرجاتا ہے کہ اگر ممکن ہوتو کل باغ کی سیر کریں ۔لیکن خدا کو پسند آیا کہ اس باغ کے دروازے بند رہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی خاموشی اس کے بولنے سے کچھ کم عجیب نہیں ہوتی ۔

لیکن یہ بات انسان کی ذات میں داخل ہے کہ جب خدا کسی بات کو چھپاتا ہے اور آدمی اسے جاننا چاہتا ہے تو اس کی قوت واہمہ اپنا کا م وع کردیتی ہے او ر تھوڑے عرصہ میں خالی صفحہ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے قیاسوں سے بھر دیتی ہے اسی طرح کلیسیاکے ابتدائی زمانہ میں ہوا کہ جعلی انجیلں شائع کی گیئں تا کہ جس زامانہ کی نسبت اصل انجیلں خاموش ہیں اس کے واقعات کی کیفیت رقم کریں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں مسیح کی طفولیت کی باتیں اور کام کثرت سے قلمبند ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ایسے بڑے کا م کو انجام دینے کے لئے انسا ن کی قوت متخیلہ کا فی نہیں اور جب ہم ان انجیلوں کو موجودہ اناجیل کے مقابل رکھ کر دوانوں کا ملاحظ کرتے ہیں صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ایک کا م البتہ وہ انجیلیں کرتی ہیں اور وہ یہکہ جس جعل اور بناوٹ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جھوٹی اور مروجہ اناجیل صحیح ہین ۔ ان سے معلوم ہو تا ہے کہ گویا مسیح ادنے قسم کی کرامات اور غیر ضروری اچنھبے دکھاتا پھرتا ہے ۔کہیں دکھا تا پھرتا ہے کہیں مٹی کے جانور بنا کر ہو ا میں اڑاتا ؛ہے اور کہیں اپنے ہم جولیو ں کو بکری کے بچوں میں تبدیل کر کے حاضرین کوتماشہ دکھا تا ہے ۔ غرضیکہ یہ قیاسی انجیلیں نکمی باتوں بلکہ کنر آمیز کا طومار ہیں ۔

اور اس انسانی ناکامی سے ہم کویہ نصیحت ملتی ؛ہے کہ اس مقدس جگہ کے اند ر واہمہ کی رسائی نہیں اور اکہ ہمارے لئے فقط اتنا جاننا کا فی ہے کہ مسیح دانا ئی اور قدوقامت میں خدا اورانسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ ہوا کا پتلا نہ تھا بلکہ واقعی ایک حقیقی بچہ اور حقیقی لڑکا تھا اور نشوونما کے قدرتی قوانین کے مطابق بڑھتا اور سیاناہوتا گیا ۔ جسم اور دماغ معمول کے مطابق برابر برابر ترقی کرتے گئے ،۔جسم نے نشوونما پا کر جوانمردی کا پھل دیا اور دماغ کے شگوفہ میں حکمت ار دانائی کا میوہ لگااس کی خصلت کے ابتدائی حسن و جمال نے شروع ہی سے دیکھنے والوں کو اپنی خوبی اور پاکیزگی کا گرویدہ بنالیا ۔

اب اگر چہ یہ صحیح ہے کہ اس معاملہ میں اپنی قوت واہمہ کو حدا اعتدال سے باہر نہ جانے دینا چاہیے تو بھی ہمیں اس بات کی ممانعت نہیں بلکہ یہ ہمارا عین فرض ہے کہ ہم اس زمانے کے او ٓضاع واطوار اور رسم و رواج کو مدنظر رکھ کر یا ان واقعات سے جو بعد میں اس کی زندگی میں سر زد ہ؛وئاےا مدد پا کر اس کے زمانہ طفلی کو اس کے عرصہ خدامت سے ربط دیں ۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ ہم کسی قدر اس بات کا پتہ لگ جائے کہ اس کی طولیت کا عالم اوع شباب کا زمانہ کیسا تھا۔ اور کہ وہ کیسے تاثیرات کے درمیان اتنے برسوں تک خاموشی میں ترقی کر تا گیا۔

ہم جانتے ہیں کہ جن خانگی تاثرات کے درمیان اس نے پرورش پائی وہ کیسے تھے۔ اس کا گھر ان گھروں میں سے تھا۔ جنہیں ملک کا فخر سمجھا چاہےے ۔ یا یوں کہیں کہ اس کا مسکن خداپرست اور خرد مند اور مخت کش لوگوں کا گھر تھا۔ یوسف جو اس گھرانے کا سرگروہ تھا نہایت دیندار اور بڑا بافراست آدمی تھا۔ مگر چونکہ اس کا ذکر خداوند مسیح کی سوانح عمری کے آخری ابواب مین بہت کم آتا ہے۔ اس لئے لوگ خیال کرتے ہیں۔ کہ وہ کانگی ذمہ داری کابوجھ مسیح پر چھوڑ کر راہی ملک بقا ہو گیا تھا۔ پس گمان غالب ہے کہ جن خارجی تاثیرات نے مسیح کی نشوونما میں حصہ لیا وہ بیشتر اس کی ماں کی طرف سے آئی تھیں ۔اس کی عظمت کا موازنہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ دنیا کی عورتوں میں سے وہی انتخاب کی گئی کہ مسیح کی ماں بننے کے عالی رتبہ سے ممتاز کی جائے جو گیت اس نے اپنی اس خدا داد عزت اور مقدرت پر گا یا اس سے عیاں ہے کہ وہ بڑی پارسا عورت تھی جو شاعرانہ طبیعت اور حب الوحنی کی صفت سے بہرہ ور تھی ۔ اسی گیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاک نوشتوں کا مطالعہ کرنے والی اورپرانے عہد کی دیندار عورتوں کی خصلت پر غور کرنے والی عورت تھی۔ کیونکہ یہ گیت عہد عتیق کے خیالات سے پُر اور حنہ کے گیت کے تصورات سے مملوہے۔ ہاں وہ ایسی عورت تھی۔ جوایک طرف زیور حلم سے آراستہ تھی۔ اور دوسری جانب یہ لیاقت بھی رکھتی تھی۔ کہ اس عزت جو اسے بخشی گئی تھی۔ بخوبی محسوس کرے پر وہ آسمان کی ملکہ نہ تھی۔ جیسا کہ باطل پرستی نے اسے بنانے کی کوشش کیہے بلکہ وہ ایک پاک اور مقدس اور پُر محبت اور بلند مزاج عورت تھی۔ اور کیا ان حمیدہ صفات کا ہالہ کافی نہیں؟ مسیح نے اس کی محبت کے زیر سایہ پر ورش پائی اور اس محبت کا جواب فرزندانہ محبت میں ادا کیا۔

لیکن اس گھر میں اور بھی کئی لوگ رہتے تھے۔ اس کے کئی بھائی اور کئی بہنیں تھیں ۔ا ن میں سے دو یعنی یعقوب اور یہوادہ کے خطوط نئے عہد نامہ میں مندرج ہیں۔ اور ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ لوگ کس خصلت کے آدمی تھے۔ شاہد کہنا گستاخی نہ ہو گا کہ ان کے خطوط میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ایمان لانے سے پہلے وہ سخت گیر اور ہمدردی میں قاصر تھے۔ بہر حال یہ ثابت ہے کہ وہ اس کے جیتے جی اس پر ایمان نہ لائےاور غالباً ناصرت میں کبھی اس کے ساتھ شیر وہ شکر نہیں ہوئے تھے۔ وہ غالباً بیشتر تنہائی میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اور اس کا وہ اندو ہناک نالہ جو ان الفاظ سے ٹپکتا ہے۔ کہ بنی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا اور کسی جگہ بے عزت نہیں ہوتا ۔ نہ صرف اس بدسلوکی کی خبر دیتا ہے۔ جو اسے اپنے ایام خدمت میںپیش آئی بلکہ اس زمانے کی سرد مہری پر بھی اشارہ کرتا ہے۔

اس نے اسی مکتب میں او شاید اسی فقہ سے تعلیم پائی ہوگی جو اس گاوں کے عبادت خانہ سے علاقہ رکھتا تھا۔ اس کی علمی استعداد بظاہر ایک غریب آدمی کی تعلیم سے زیادہ نہ تھی اور اسی واسطے فقیہ طنز اً کہا کرتے تھے۔ کہ وہ کچھ نہیں جانتا پر گو اس نے کسی کالج میں تربیت نہیں پائی تھی۔ تو بھی شروع ہی سے علم کی محبت اس کے دل میں پید ا ہو گئی تھی۔ اور وہ ہر روز گہری سوچ اور فرحت بخش خیالات کی لذت سے محظوظ ہوتا تھا۔ حقیقی علم کے دروازے کی کلید اس کے ہاتھ میں تھی یعنی وہ ایک وسیع دماغ اور محبت سے بھر ہوا دل رکھتا تھا۔ اور تین بڑ ی بڑی کتابیں ہر وقت اس کے سامنے کھلی رہتی تھیں یعنی بائبل ، انسان اور کائنات ۔

وہ بڑی سرگرمی کے ساتھ پرانے عہد نامہ کی تلاوت کیا کرتا ہو گا۔ اس کا کلام جو پرانے عہد نامے کے اقتباسوں سے بھرا ہوا ہے۔ ثابت کرتا ہے کہ یہ پاک نوشتے اس کی روح کی غذا اور اس کے دل کی تسلی کا باعث تھے۔ نے شروع جوانی میں جو مطالعہ کیا وہ بعد میں بہت کام آیا ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑی آسانی اور سرعت سے اس کلام کا کام میں لاتا ہے۔ تاکہ اپنی منادی کو اس سے زیب دے اور اپنی تعلیمات کو اس کے وسیلے سے تقویت بخشے اور اپنے دشمنوں کا منہ اس کی شہادت سے بند کرے اور شیطان کی آزمائشوں پر اس کے زور سے غالب آئے ۔ اس کے اقتباسوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ ان نوشتوں کی اصل عبرانی میں پڑھا کرتا تھا۔ نہ کہ یونانی ترجمہ جو اس وقت عموماً استعمال کیا جاتا تھا۔ البتہ اس وقت عبرانی زبان کا رواج ملک فلسطین سے بھی اٹھ گیا تھا۔ اور جس طرح اب ملک اٹلی میں لاطینی یا ہندوستان میں سنسکرت مردہ زبانوں کے زمرے میںشامل ہے اسی طرح مسیح کے زمانے میں عبرانی تھی پر تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ اس کی دلی آرزو یہی ہو گی کہ وہ کلام اﷲ کو اصل زبان میں پڑھے جن لوگوں کو وسیع تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ شروع میں نہیں ملا اور جنہوں نے خود باد جود طرح طرح کی مشکلات کے یونانی سمجھنے کی استعد اد بہم پہنچائی ہے۔ تاکہ نئے عہد نامہ کو اصل زبان میں پڑھ سکیں ۔ وہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس نے کس طرح ایک گاو ں میں رہ کر اس قدیم زبان کو سمجھنے کا ملکہ پیدا کیا ہو گا اور کیسے ذوق و شوق کے ساتھ عبادتخانہ کے طوماروں کو لے کر یا اس نسخہ کو جو اس کے پاس ہو تا ہوگا ۔ کھول کر مقدس نوشتوں کی تلاوت کی ہو گی ۔ لجس زبان کو وہ عموماً سوچتے اور بولتے وقت کام میں لاتا تھا۔ وہ ارمنی تھی اور جو اسی قدیم زبان کی شاخ تھی۔ جس کی ایک شاخ عبرانی بھی ہے۔ اس کے جو الفاظ اس زمانہ تک پہنچے ہیں۔ ان میں کہیں کہیں اس زبان کے بعض جملے موجود ہیں مثلاً ”تالیتا قومی “اور ”ایلی ایلی لما سبقتنی “ وغیر ہ اور یونانی سیکھنے کا موقع اسی طرح اسے بھی حاصل تھا جس طرح سکاٹ لینڈ ہائی لینڈز کو انگریزمی یا پنجابیوں کو اردو سےکھنے کا حاصل ہے۔ غیرقوموں کا جلیل اس وقت یونانی بولنے والوں سے پُر تھا ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ تین زبانوں سے بخوبی واقف تھا جن میں سے ایک عبرانی تھی جسے مذہبی معاملات کے اعتبار سے دنیا کی زبانوں میںدینی زبان کہنا چاہےے ، اس کے نوشتوں سے وہ بخوبی ماہر تھا۔ اوردوسری یونانی تھی۔ جو دنیاوی علوم و فنون کے خیالات کو ادا کرنے میں اپنا ثانی نہیں کررکھتی تھی۔ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ یونان کے بڑے بڑے مصنفوں کی تصانیف سے بھی واقف تھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور تیسری ارمنی تھی جو عام لوگوں کی زبان تھی۔ جسے اس نے اپنے وعظ و نصیحت کے کام میں زیادہ استعمال کیا ۔

انسانی طبیعت کا علم اور کسی جگہ ایسی اچھی طرح حاصل نہیں ہوتا جیسا کہ دیہات میں ہوتا ہے ۔ ایک چھوٹے سے گاوں میں ہم پانے ہمسایوں کے مفصل حالات سے بلکہ ہر شخص کی زندگی کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں ہم زیادہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں بہت تھوڑوں سے اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیںکیونکہ شہروں میں صرف زندگی کی سطح دکھائی دیتی ہے۔ لیکن گاو ں میں سطح کا دکھاوا بہت گم ہوتا ہے۔ اور وہ باتیں جو دل کی تہ سے نکلتی ہیں ریا کاری کی ملمع سازی سے بری ہوتی ہیں۔ ناصرت بُر ے باشندوں کے لئے مشہور تھا جیسا کہ اس ضرب المثل سوال سے سے متر شح ہے۔ کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے۔ مسیح کی ذات میں گناہ کا تخم نہ تھا پر اس قصبہ میں رہنے سے اس نے گناہ کی گرم بازاری کو خوب دیکھا یا یوں کہ جس بات سے اسے عمر بھر لڑنا تھا۔ اس کے زور شور کو اچھی طرح محسو س کیا اور پھر اپنے پیشے کے وسیلے سے بھی اسے انسانی خصلت کو معائنہ کرنے کا موقع ملا ۔ وہ یوسف کی دکان میں بڑھئی کا کام کیا کرتاتھا۔ اور اس کی عجیب منادی سے متحیرہو کر کہتے ہیں۔ کیا یہ بڑھئی نہیں ہے۔ پر اس بات کی خوبی اور مطلب کی تہ تک پہنچنا کہ کیوں خدا نے سب بڑے بڑ ے عہدوں کو چھوڑ کر اپنے بیٹے کے لئے ایک پست کا م منتخب کیا آسان نہیں ہے؟ اتنا صاف ظاہر ہے کہ اس سے انسانی محنت اور مشقت کے سر پر ابدی شرافت کا تاج رکھا گیا ۔ اس سے مسیح نے سینکڑوں لوگوں کے دلی خیالات سے واقفیت حاصل کی اور جانا کہ انسان میں کیا ہے بعد میں اس کے حق میں کہا گیا کہ وہ انسان سے ایسا واقف تھا کہ اس بات کا محتاج نہ تھا ۔ کہ کوئی اس فن میں اسے درس دے۔

سیدنا مسیح کا بڑھئی کی دکان میں بیٹھ کر کام کرنا کئی نصیحت خیز اور حوصلہ افزاءباتیں ہمیں سکھاتا ہے۔

ہماری خوش قسمتی سے مرقس کی انجیل میں وہ الفاظ محفوظ ہیںجو اس کے مخالف طنزاً کہا کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی بڑھئی نہیں؟ یہ الفاظ جیسا ہم نے اوپر کہا بنی آدم کی محنتوں کو وہی زیب دیتے ہیں۔ جو بادشاہو ں کو افسر شاہانہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے افلا س کے زخموں کے لئے مرہم کا کام دیا ۔ غریب مزدور کے حوصلے بڑھائے اور سب سے بڑھ کر بنی آدم کو یہ سبق دیا کہ انسانیت میں ایک جو ہر ہے۔ جو آپ ہی آپ اپنی جھلک دکھا تا ہے۔ اور اس بات کا محتاج نہیں کہ سونا چاندی اس کی رونق کو دوبالا کرے ۔

(۱)اب لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ہمارا خداوند شروع ہی سے ایک غریب آدمی تھا۔ نہ صرف منادی کے تین سال میں وہ بے زر معلوم ہوتا ہے بلکہ بچپن ہی سے دنیوی عیش و عشر ت کے سازوسامان سے ناآشنا تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں تو غالباً یونانی بڑھئی کام کیا کرتے تھے۔ اور وہ اپنے فن میں ماہر و مشتاق ہونے کے سبب سے فارغ البالی اور چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن یوسف فلسطین کے ایک قصبے کا بڑھئی تھا اور اگر روایت صحیح ہے تو اپنے کام مین پوری پوری مہارت بھی نہیں رکھتا تھا۔ سو وہ ایک عام درجہ کا آدمی تھا۔ جس کی آمدنی فقط خانگی ضروریات کے لئے کافی ہوتی ہو گی ، ایک ہر زمانہ میں دولت کے نہ ہونے سے بے چینی میں تڑپتے ہیں۔ اور جن کو س دنیا کا مال نصیب ہو جاتا ہے۔ ان کو دنیا کے لوگ خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ ہم خوشی کو دولت کی باندی سمجھتے ہیں۔ پر اس غلط فہمی سے طرح طرح کی فکر اور قسم قسم کے حاسدانہ خیالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی لئے مسیح نے قصداً غریبی کی حالت اختیار کی پر اس کی غریبی وہ غریبی نہ تھی۔ جو آدمی کو افکا ر کی چکی میں پیس ڈالتی ہے۔ اور اس کے خیال کو ہر وقت کھانے اور کپڑے کی دھن میں لگائے رکھتی ہے اور آخر کار اسے شرافت کے پایہ سے گرا کر رذیل اور پست ہمت بنا دیتی ہے ۔ اس کی غریبی ایسی غریبی تھی ۔ جو اس دنیا میں بہت لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔ اس قسم کی غریبی میں البتہ عیاشی کی جگہ نہیں ملتی مگر زندگی کی تمام سادہ ضروریات بخوبی رفع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ ادومی خاندان جو اب داو د کے تخت و تاج کا وارث بنا ہوا تھا۔ ان عیاشوں اور اوباشیوں میں ڈوبا ہوا ہو گا۔ جو دولت کی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں مگر مسیح ان سے بری تھا اور زیبا بھی یہی تھا۔ کہ وہ جو تمام بنی آدم کا ہمدرد دوست اور نجات دہندہ اور بادشاہ بن کر آیا تھا۔ ایسی حالت اختیار کرتا جو بہت لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ اور ہمیشہ آتی رہے گی۔

(۲)اور پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کی طبیعت ہمیشہ سستی کی طرف مائل ہے۔ وہ آرام طلبی کو امیری کا لازمی جزو یا خاصہ سمجھتا ہے۔ محنت و مشقت کو کم درجہ اشخاص کا حصہ جانتا ہے۔ بلکہ ہر طرح کی محنت پر حقارت اور ذلت کا داغ لگاتا ہے۔ لیکن یسوع یہ دکھانا چاہتا تھا۔ کہ جو محنت دیانت داری سے کی جاتی ہے ۔ وہ انسان کے فخر کا باعث ہے۔ وہی زندگی کا نمک اور مردمی کا کمر بند ہے کیونکہ اسی کے طفیل سے انسان بے جانزاکتوں سے بچتا اور اسی کی بدولت اس کی روح ناپاک خیالات میں ڈوبنے سے محفوظ رہتی ہے یہی سبب تھا کہ مسیح نے محنت کش زندگی اختیار کی اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنا، ہل بنایا اور جوئے تیار کرنا روا رکھا۔ اس کے مخالف اس کی پست حالی کو ٹھٹھوں میں اڑایا کرتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ ناممکن ہے کہ دنیا کا نجات دہندہ ایسے خاندان میں پیدا ہو یا ایسا تنگ دست ہو کہ اپنی روزی کمانے کے لئے نیچ لوگوں کی طرح اپنے ہاتھ سے کام کرے ، پر ہم دیکھتے ہیںکہ سوسائٹی کو نئے سانچے میں ڈھالنے اور پرانی باتوں کو نئی بنانے کے لئے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ جوان تبدیلیوں کو وجود میں لانے والا تھا۔ خود حقیقی خاکساری اور فروتنی کا نمونہ ہے۔

(۳)پھر مسیح کی زندگی کا وہ زمانہ جو گمنامی میں کٹا، جس کا حال انجیلوں میں قلمبند نہیں اور جس میں شاید بہت بڑے بڑے واقعا ت بھی سرزد نہ ہوئے ایک اور سبق ہمارے لئے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ خدا ہماری زندگی کی اندرونی حالت پر نگاہ کرتاہے نہ کہ ظاہر ی شان و شوکت اور خارجی سازو سامان پر ، دنیا اپنی آنکھ ان لوگوں پر لگاتی ہے جو شجاعت میں نام پیدا کرتے ، جو علم و ہنر میں یکتائے زمانہ سمجھے جاتے اور عرصہ دار گیر میں سکندر کے ہم پلہ ہوتے اور حکمت و دانائی میں افلاطون وارسطو پر سبقت لے جاتے ہیں مگر ایسے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ گویا سمندر میں سے ایک قطرہ اورپھر مرنے کے بعد صفحہ ہستی سے ایسے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ کہ فقط کسی کسی کتاب کے چند اوراق کے سوا اور کسی جگہ ان کا پتہ نہیں ملتا۔ ہاں چند دن کے بعد ان کتبوں کو بھی جو ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ان کی تربتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ کیڑا کھا جاتا ہے اور اگر بالفرض حروف نہ بھی مٹیں تو بھی کون ان میں سے جو قبرستان میں آتے ہیں ان کے کارناموں کو یاد کرکے ان پر آنسو بہاتے ہیں؟ لیکن خدا کی نظر میں نہ صرف وہی شخص پسندیدہ ہے جس کی زندگی اس دریا کی طرح ہے جو چٹانوں میں سے گزرتے وقت پتھروں سے ٹکرکھا کر شور مچاتا ہے۔ بلکہ وہ بھی جس کی زندگی ایسی خاموش ہے کہ آس پاس کے لوگ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ذرا تحریک نہیں پاتے مگر خدا اس شخص کی اندرونی زندگی کی حقیقی خوبی سے واقف ہے۔

(۴)ہم دیکھتے ہیں کہ بے قدری کی جاتی ہے ۔ تو وہ خود اپنے آپ کو ناچیز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں۔ کہ ہم جو ایک زرہ بے مقدار سے بھی حیثیت میں کم ہیں ۔ اس دنیا میں مصرف کے نہیں۔ پس وہ کھانے پینے اور مرجانے ہی کو سب کچھ جانتے ہیں ۔ مگر یسوع نے غریبوں کے طرز زندگی کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ ممکن ہے کہ جو زندگی بظاہر ناچیز سمجھی جاتی ہے۔ وہی دنیا کی تاریخ میں انقلاب پیدا کرنے والی ہو اس نے ظاہر کر دیا کہ سچی اور صادق زندگی ہمیشہ بڑے بڑے واقعات کے شور و غل اور بڑی بڑی کا میابیوں کے مغوں سے ممتاز نہیں ہوتی بلکہ خدا کے بے شمار پیارے ان لوگوں میںبھی پائے جاتے ہیں جن کو دنیا ناچیز اور حقیر سمجھتی ہے پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند کی زندگی کے وہ سال جو بڑھئی کے کام میں صرف ہوئے اگرچہ خاموشی میں گزرے تو بھی حقیقی خوشی سے لبالب بھرے تھے۔ جب اس نے منادی کا کام شروع کیا اور لوگوں کی بے پروائی اور سخت دلی کے معائنہ سے غمگین ہوا اس وقت بھی وہ خوشی اور تروتازگی جو اسے ان دنوں حاصل تھی اپنا جلوہ دکھا جاتی تھی۔

شائقین سیرو سیاحت بتاتے ہیں کہ جس جگہ مسیح نے پرورش پائی وہ ان جگہوں میں سے ہے جو دنیا میں اپنی خوبصورتی کے سبب بے مثال ہیں۔ ناصرت کوہستان زبلون کی ایک وادی میں واقع ہے جو اپنے نظاروں کا جو بن دکھا رہی اسی جگہ زبلون کا پہاڑ گویا اپنی بلندی سے نیچے اتر کر اسدرلان کے میدان سے ہاتھ ملاتا ہے۔ ناصرت کے سفید گھر جن کی دیواروں سے تاک کی ٹہنیاں بغل گیر ہوتی ہیں۔ زیتون اور انجیر اور نارنج اور انار کے پُر بہار جھرمٹوں میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کھیتوں کو تھوہر کی باڑیں جدا کرتی ہیں اور جا بجا رنگار رنگ پھولوں کی رنگینی ان کی خوش نمائی کو دوبالا کرتی ہے۔ گاوں کے پیچھے ایک پہاڑی کھڑی ہے جو قریباً پانسو فیٹ اونچی ہے۔ اس کی چوٹی پر سے دنیا کا عجیب نظارہ آنکھوں کو نصیب ہوتا ہے۔ شمال کی طرف گلیل کے پہاڑ جن میں برفانی ہرمون بھی شامل ہے۔ آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ کرمل کی چوٹی ،صور کا کنارہ ، بحیرہ اعظم کا چمکتا ہوا پانی مغرب کی جانب دکھائی دیتا ہے۔ اور مشرق کی جانب کوہ تیبور اپنے جنگلات کے ساتھ مخروطی شکل اختیار کرتا ہوا سر بلند ہوتا ہے۔ جنوب میں اسدرلان کا میدان پھیل رہا ہے جس کی دوسری طرف کوہستان افرائیم کا سلسلہ موجود ہے۔ خداوند مسیح کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اس قدرتی خوبصورتی سے کیا حظ اٹھا یا اور موسموں کی تبدیلی کو کس آنکھ سے دیکھا ۔ معلوم ہو تا ہے کہ اس نے اپنے لڑکپن میں انہیں کھیتوں کی سیر کرتے کرتے ان قدرتی خوبصورتیوں کا سرمایہ جمع کیا جو آگے چل کر تمثیلوں اور درسوں کو سجانے کے کام آیا ۔ اسی پہاڑی پر آنے جانے کی عادت سے پہاڑو ں میں جا کر رات رات بھر دعا مانگنے کی وہ عادت پختہ ہوئی جو اس کی زندگی میں جا بجا جلوہ نما ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہےے کہ جو تعلیم وہ دیا کرتا تھا۔ وہ اس کے ذہن میں اتفاقیہ طور پر نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس کی تعلیمات کو ایک دریا کہنا چاہےے جس کا پانی کئی سال تک جمع ہو تا رہا اور جب وقت آیا تو بہہ نکلا۔ ہاں اس نے انہیں کھتیوں کے گوشو ں اور انہیں پہاڑوں کے کناروں پر ان تعلیمات کو اپنی دعا اور دھیا ن کے زمانہ میں سوچا ہو گا۔

ایک اور بات کا ذکر باقی ہے جس نے اس کی تعلیم میں بڑا حصہ لیا ۔ بارہ برس کی عمر کو پہنچ کر وہ ہر سال اپنے ماں باپ کے ساتھ عید فسح کے موقع پر یروشلیم جانے لگا۔ ہماری خوش قسمتی سے پہلی مرتبہ کا حال انجیل میں قلمبند ہے اور یہی وہ موقع ہے جبکہ تیس برس کے عرصہ پر سے ایک دفعہ پردہ اٹھا یا جا تا ہے۔ جو لوگ اس وقت کو یاد رکھتے ہیں جبکہ وہ پہلی مرتبہ اپنے گاوں سے اپنے ملک کے دارالخلافہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ قیاس کر سکتے ہیں کہ یسوع اس موقعہ پر کیسے جوش و خروش سے پرُکر ہو گا۔ اسے اسی میل کا سفر کرنا تھا۔ اور ایسے ملک میں سے گزرنا تھا ۔ جس کا ہر میل تاریخی واقعا ت اور جو ش انگیز یاد گاروں سے پرُتھا۔ علاوہ اس کے وہ ایسے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوا جو قدم قدم پر ایسے مسافروں کے شمار سے بڑھتا جاتا تھا۔ جو بڑی عید کے سبب سے مذہبی جو ش اور سرگرمی سے معمور تھے۔ اور جس شہر کو وہ جا رہے تھے۔ وہ ایسا شہر تھا،جسے ہر یہودی دل وجان سے پیار کرتا تھا۔ اور اتنا کہ اور کسی دارالخلافہ سے کبھی نہیں کیا گیا ۔ یہ شہر ایسی چیزوں اور یادگاروں سے پرُتھا۔ جو اس کے دل میں ہر قسم کی تحریک اور دلچسپی پیدا کر سکتی تھیں۔ عید فسح کے موقع پر کم ازکم پچاس ممالک سے یہودی مختلف بولیاں بولتے اور مختلف لباس پہنے ہوئے آتے اور یروشلیم میں جمع ہوتے تھے۔پس تعجب نہیں کہ وہ نئی نئی دلچسپ باتوں کے خیال میں ایسا مگن ہوا کہ جب واپس لوٹنے کا دن آیا تو مقررہ وقت اور جگہ تھی جس پر وہ فریفتہ ہو گیا ۔ اور وہ ہیکل تھی اورخصوصاً اس کا وہ حصہ جہاں اصحاب علم و حکمت لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس کے دل میں بے شمار سوالات جوش زن تھے ۔ جن کا جواب وہ ان حکما ءسے مطلب کرنا چاہتا تھا۔ یو یوں کہیں تحصیل علم کی پیاس کو جو اس کے دل میں چمک رہی تھی ۔ اب آسودہ ہونے کا موقع ملا ۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں اس کے فکر مند ماں باپ نے اسے پایا جب کہ وہ اس کی تلاش میںیہ سمجھ کر یروشلیم کی طرف لوٹے کہ وہ کھو گیا ہے اور جب یہاں آئے تو دیکھا کہ بڑی توجہ کے ساتھ اس زمانہ کی حکمت کی باتیں سن رہا ہے اور وہ الفاظ جو اس نے اپنی ماں کے ملامت آمیز سوال کے جواب میں بیان فریائے اس کے دل پر سے پردہ اٹھا دیتے ہیں اور ہمیں تھوڑی سی دیر کے لئے اجازت ملتی ہے کہ ان خیالات کو ایک نظر دیکھ لیں جو ناصرت کے کھتیوں میں اس کے دل کو معمور کیا کرتے تھے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ ابھی بچہ ہی تھا تو بھی ان لاکھوں آدمیوں پر سبقت لے گیا تھا۔ جو زندگی کی راہ سے ہر روز گزرتے ہیں پر ایک لمحہ کے لئے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ زندگی کا کیا مطلب اور کیا مقصد ہے ، پروہ اسی وقت سے جانتا تھا ۔ کہ مجھے اپنی زندگی کے ایاّم میں اس کام کو انجام دینا ہے ۔ جو خدا نے میرے لئے مقرر کیا ہے ۔ اور میرے جینے کا یہی مدعا ہے کہ میں اسے پورا کروں ، چنانچہ یہ پرُجوش خیال تما م عمر اس کے دل میں جاگزیں رہا ۔ یہی خیال ہر فردوبشر کی زندگی کا اوّل اور آخر خیال ہونا چاہےے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خیال بار بار بعد اس کی باتوں میں ظاہر ہوا اور آخر کار اس کی زمینی زندگی کے خاتمہ پر ان الفاظ میں گونج اٹھا کہ پورا ہوا۔

اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا یسوع شروع ہی سے جانتا تھا۔ کہ میں مسیح ہوں اور نجات کے کام کے لئے مقرر کیا گیا ہوں ۔ اگر ایسا نہیںتو کب اور کس طرح یہ علم اس کو حاصل ہوا؟ کیا یہ خیال اس وقت اس اس کے دل میں پیدا ہوا جبکہ اس نے اپنی ماں سے اپنی معجزانہ پیدائش کا حال سنایا خود بخود اس کے دل میں روشن ہو گیا؟ پھر کیا یہ خیال یکبارگی یا رفتہ رفتہ رونما ہوا؟ اس نے کب اپنے کام کا وہ نقشہ تیارکیا جس کے مطابق وہ اپنی خدمت کے شروع سے آخر تک بے ہچکچائے کام کرتا رہا؟ وہ کئی سال کے گیان دھیان کے بعد رفتہ رفتہ اس اس کے خیال میں آیا یا یکبارگی اس کی نظر سے گذر گیا؟ ان سوالات پر بڑے بڑے مسیحی علماءنے غور کیا ہے۔ اور مختلف جواب دینے ہیں پر اگر ہم اس کے جواب کو جو اس نے اپنی ماں کو دیا نظر اندازنہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا۔ کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا۔ جبکہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ میں کس کام کے لئے آیا ہوں۔

ضرور ہے کہ یروشلیم میں بار بار آنے نے اس کی عارضی نشوونما پر بڑا اثر ڈالا ہو۔ اور اگر وہ ہیکل کے مکتبوں میں اکثر آیا جایا کرتا تھا۔ تو اس نے بہت جلد دریافتکر لیا ہو گا کہ ربیوں کی مشہور حکمت کیسی تنگ ہے۔ غالباً انہیں سالانہ موقعوں پر اس نے معلوم کیا کہ مذہب کی حالت ردی ہو رہی ہے۔ تعلیم اور تعمیل دونوں کامل صلاح کی محتاج ہیں اور یہیں اس نے ان رسموں اور ان شخصوں کو دیکھا ہو گا جن پر کچھ عرصہ کے بعد اس نے پاک غیرت سے معمو ر ہو کر سخت حملہ کیا ۔

اب ہم ان خارجی اسباب کو دیکھ چکے ہیں ۔ جن کے درمیان مسیح نے پرورش پائی اور جوانی کی طرف قدم اٹھایا ۔ اس تاثیر کی نسبت مبالغہ کرنا جو ان اسباب نے اس کی نشوونما میں کی بڑا آسان کام ہے۔ پر یاد رکھنا چاہےے کہ جس قدر کسی شخص کی طبیعت زیادہ اعلیٰ اور خود رو ہوتی ہے۔ اسی قدر وہ اپنی نشوونما میں خارجی اسباب و شرائط پر کم انحصار رکھتا ہے۔ اس کی ذات ان اندرونی چشموں سے سیرا ب ہوتی ہے۔ جو اس کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور اس میں وہ لیاقت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ جو اس کی ذات کے مطابق خود پھوٹ کر پھول جاتی اور بیرونی اسباب کی پر واہ نہیں کرتی ۔ پس یسوع خواہ کسی حالت میں رکھا جاتا بہرحال اپنی بڑی بڑی خاصیتوں کے سبب سے ویسا ہی شخص بنتا جیسا کہ ناصرت میں رہ کر بنا۔

 

[١] لوقاصرف ہم کو یہ بتا یا ہے کہ ”قیصر اگستس کی طرف سے حکم جاری ہو ا کہ ساری دینا کے لو گوں کے نام لکھے جائیں ۔ یہ پہلی اسم نویسی شام کے حاکم کورنیس کے عہد میں ہو ئی “۔وہ یہ نہیں بتایا کہ کو ن سے سال اور کو ن سے مہینے میں ہو ئی اور اس کی انجام دہی میں کو ن سے طریقے اختیار کئے گئے اور نہ یہ بتایا ہے کہ اس اسم نویسی کیا مقصد تھا آیا یہ صرف لوگوں کے شمار سے واقفیت پیدا کی جائے یا ا س کے ساتھ ان کی جائداد اور ملکیت کا بھی تخمینہ معلوم ہو تا کہ پھر ان پر ٹیکس لگا یا جائے ۔ وہ ان باتوں کا اس لئے کچھ ذکر نہیں کرتا کیونکہ اسے ان باتوں سے کچھ سروکا ر نہ تھا ۔ وہ صرفیہ بتا نا چاہتا ہے کہ یوسف اور مریم کس طرح بیت الحم میں آئے جہاں مسیح پیدا ہو ۔ ہم اس بحث کو لوقا کے اس مقام سے علاقہ رکھتی ہے ۔ بقیہ نوٹ صفحہ (٢١) درج نہیں کرسکتے کیونکہ جگہ کی قلت ہم کو اجازت نہیں دیتی ۔ پر ہم یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ اگر کو ئی دلچسپ بحث کو دیکھنا چاہے تو انڈریوزلالف آف کرسٹ کو پڑ ھے یا عمدہ تفسیروں کا ملا حظ کرے۔ انڈریوز صاحب اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ پر غور کرتے ہیں و ہ حصے یہ ہیں ۔

(١) اس اسم نویسی کی کیا غرض تھی اور کہاں کہاں وقوع میں آئی ۔

(٢) اس بات کا ثبوت کہ یہ اسم نویسی فی الحقیقت لوقا کے بیان کے مطابق وقوع میں آئی اور ۔

(٣) کہ کورنیس کے ساتھ اس کا کیا تعلق تھا ۔

[٣] دیکھئے لوقا کیسی سادگی سے دنیا کے نجات دہندے کی پیدائش کا بیان کر تا ہے۔ ایک لفظ بھی اس کے بیان میں یسا نہیں پایا جاتا جس سے اس قسم کی کوشش ظاہر ہوکہ گویا وہ مسیح کی پست حالی کو خارجی اچنبھوں اور عجیب نظاروں سے ملبس کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے زمانوں کو کے غیر الہامی اور غیر مستند ا حوال بھی موجود ہیں جن کو اپا کر فل کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اگر اس بیان کا مقابلہ کیا جائے۔ تو فوراً معلوم ہو جائے گا۔ کہ اس میں اور ان میں آسمان و زمین کا فرق ہے بے شک ان کو جن کے دل منور نہیں یہ بات ناممکن معلوم ہوتی ہے۔ کہ مسیح جو ابن خدا تھا دنیا میں آئے اور اس کی پیدائش کےوقت نیچر تہ وبالا نہ ہو اور جابجا جبنش نہ آئے ۔ فیر ر صاحب ایک کتاب کا جو مقدس یعقوب کی انجیل کہلاتی ہے۔اور اپا کر فل کتابوں میں شامل ہے ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک باب ہے جس میں مسیح کی پیدائش کے متعلق کئی عجیب باتیں قلمبند ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب وہ پیدا ہوا تو قطب آسمانی بے حس و حرکت ہو گیا اور تمام جانور خاموش ہو گئے۔ بھیڑیں ہو گئے۔ بھیڑیں جو تتر بتر ہو رہی تھیں۔ جہاں تھیں ، وہیں کھڑی ہو گئیں ۔ گڈریے نے انہیں مارنے کو اپنا ہاتھ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ وہیں رہ گیا ۔ بروں نے ندی پر پانی پینے کے لئے سر جھکا یا پر نہ پیا ، کیونکہ بے حرکت ہو گئے۔ غرضیکہ جو شے آگے بڑھ رہی تھی ا س کی رفتار آنا ً فاناً رُک گئی۔ مگر الہامی انجیلوں میں نیچر کے عمل کے دفعتہ ساکن ہو جانے کا کوئی اشارہ نہیں پایا اور نہ ان میں یہ بتا یا گیا ہے۔ کہ سورج کے آس پاس عجیب قسم کے روشنی نمودار ہوئی اور نہ یہ کہ دنیا میں کئی جگہ پر راز جلوہ نما ہوا اور مریم دروازہ سے بالکل آزاد ہی اور بیل اور گدھے نے جھک کر یسوع کو سجدہ کیا جبکہ وہ چرنی میں پڑا ہوا تھا۔ اور اس پیدا ہونے کے بعد اپنی ماں سے کہا کہ میں خدا بیٹا ہوں وغیرہ۔ ہماری انجیلوں کا ان فضول باتوںسے محفوظ رہنا ان کی سچائی اور ان کے مصنفوں کی کی دیانتداری کا پکا ثبوت ہے۔

[٤] اس ستار ے کی نسبت جو کچھ مشہور منجم کپلر نے کہاہے۔ اس سے زیادیہ واقف ہونے کے لئے فیرر اور انڈریور صاحبان کی کتابوں کو دیکھنا چاہےے۔ ان میں یہ مفصل ذکر پایا جاتا ہے۔ کہ کس طرح کپلر نے 1603ءاور 1604ءکے دور میں پہلے زحل اور مشتری کا قرآن معلوم کیا اور پھر یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد مریخ بھی ان سے آ ملا اور پھر زحلاور مشتری کے درمیان ایک نیا ستارہ دیکھا جو اپنی چمک دمک میں زہرہ سے بھی کہیں بڑھ کر تھا ۔ یہ قرآن قریباً آٹھ سو سال کے بعد وقوع میں آتا ہے اور حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جن دنوں ہمارا خداوند پیدا ہوا ان دنوں یہ قرآن واقع ہوا تھا۔ اور یہ ستارہ بھی جو کپلر نے زحل اور مشتری کے مابین دیکھا اس وقت غالباً دکھائی دیا ہو گا۔ مجوسیوں کے ستارے کی نسبت تین رائیں مروج ہیں۔ اوّ ل یہ کہ اس ستارے سے وہ قرآن مراد ہے۔ جو کپلر صاحب کے حساب کے مطابق مسیح کی پیدائش سے ذرا پہلے واقع ہوا ۔ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں فقط دو سیارے ایک دوسرے کے نزدیک آجاتے ہیں۔ مگر مل کرایک نہیں ہوتے۔ اس کے جواب میں وہ لوگ جو قرآن والی تھیوری کو مانتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ، کہ یونانی لفظ ستارے کے لئے بھی آتا ہے ۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ وہ ستارہ وہی تھا۔جو زحل اور مشتری کے درمیان دکھائی دیا اور تیسرا یہ ہے کہ وہ بالکل ایک نیا ستارہ تھا جو خدا نے اپنی قدرت سے انہیں دنو ں معجزانہ طور پر خلق کرکے سطح آسمان پر ظاہر فرمایا ۔ ڈاکٹر سٹاکر کی رائے جو متن میں درج ہے۔ زیادہ صاف اور مشکلا ت سے بری معلوم ہوتی ہے۔

[٥] اس ظالمانہ واقعہ کے بارے میں بعض لوگ اعتراض کرتے ہی کہ یہ واقع سرزد نہیں ہو ا کیونکہ یہودی مورخ جو سیفس اس کا ذکر اپنی کتابوں میں نہیں کرتا اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ ہیرودیس نے طرح طرح کے ظلم کئے جن کا شمار کرنا آسان نہیں ۔ پس اگر اس کی بے شمار ظالمانہ حرکا ت میں سے جوسیفس نے بعض کا ذکر نہ کیا تو کچھ تعجب کی بات نہیں اور یہ جواب تسلی بخش معلوم ہو تا ہے ۔اصل میں متی کے الفاظ ”دو دو برس کے یا ان سے چھوٹے “پڑھنے والے کو کسی قدر حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے قتال کئے گئے تھے ان کی بے شمارکو پیش کرتے ہیں اور ان کے قتل کئے جانے کی خبر جا بجا پھیل گئی ہو گی پر ہم بعض علما ءکے قیاسوں کو پیش کرتے ہیں جن کے مطابق لڑکو ن کا شمار بہت قلیل نظر آتا ہے ۔ انڈر یوز صاحب ایک شخص کی رائے اسی کے لفظوں میں اس طرح رم کرتے ہیں ”صرف وہی لڑکے اس شمار میں داخل تھے جہنوں نے دوسراسال شروع کیا تھا “‘اور ایک اور عالم یہ کہتا ہے کہ فقط وہی لڑکے مراد ہیں جوتیرہ مہنے کے تھے بعض علما نے حساب لگا کر یہ رائے دی ہے کہ بیت الحم کے باشندئے ٥٠٠٠٠ ہزار کے قریب تھے لہذا وہ لڑکے جو قتل کئے گئے ٩٠ سے زیادہ نہ ہوں گے او ر بعضوں نے بیت لحم کے باشندوں کی تعداد ٢٠٠٠ بتائی ہے اور مقتول لڑکوں کی تعداد ٥٠ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا شمار دس یا پندرہ سے زیادہ نہ ہوگا جو سیفیں ہیرودیس کی نسبت تحریر کرتے ہوءے یو ں کہتا ہے ”وہ (یعنی ہیرودیس )سب بنی آدم پر ظلم کرتارہا تھا اور انسانیت سے بالکل بے بہرہ تھا “۔ پس جس شخصنے اپنی بیوی کو قتل کیا اور اپنے بچوں کا خون پینے سے دریغ نہ کیا اور مرتے دم بھی غضبناک ہو کر یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کے تمام امرا ءقتل کئے جائیں تا کہ ان کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے اٹھے اگر ایسا شخص چند بچوں کو مروا ڈالتا تو یہ ان لوگوں کے لئے (بقیہ نوٹ صفحہ ۱۹)جوا اس کی طالمانہ طیعبت سے بخوبی واقف تھے تعجب کا باعث نہ ہو تا پس ممکن ہے کہ یہودی مورخ جوسیفس جوا س واقعہ سے نہت مدت بعد لکھنے لگا اس سے واقف نہ تھا اور اگر تھا تو بھی لازام نہ تھا کہ وہ اس کو ضرور لکھتا ۔بعض اشخاص نے اس کی خاموشی کےیہ بواعث پیش کئے ہیں ۔

اوًل ۔ کہ وہ ان باتوں کوجو سچی امیدوں سے واسبتہ تھیں ظاہر کرنا چاہتا ۔

دوئم ۔ یہ کہ وہ کو ئی ایسی بات اپنی تحریر میں درج کرنا نہیں چاہتا تھا جس سے مسیحی مذہب کی طرف توجہ کھینچی جائے ۔غالبا ً کہ یہ وجوہات صحیح ہیں اور اگر نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بھی کچھ ہرج نہیں کیونکہ ہم متی کے بیان کو رد نہیں کر سکتے ۔ صرف وہی لوگ اس کی معتبر ی پر شک لاتے ہیں جو ہر واقعہ کے ثبوت میں یہودی یا غیر قوموں کی تواریخ سے تائید طلب کرتے ہیں ۔

غیر قوم مورخوں نے بھی اس کا ذکر اپنی کتابوں میں نہیں کیا اور اس کی وجہ غالباًیہ تھی کہ ان کی دانست میں یہودیہ رومی مقبوضات میںایک ادنی درجہ کا ملک تھا ، اور اس کے بعض واقعات کو غیر وں کے لئے کچھ دلچسپی نہیں رکھتے تھے رقم کرنا انہیں بہت ضروری معلوم نہ ہو ا ۔ اس شخص نے جس کا نام مکروبی اس تھا اور مسیحی نہ تھا یہ لکھا ہے کہ جب اگتس (شہنشاروم ) نے سنا کہ آراوم کے ان دو دو برس کے لڑکو ں میں جن لکے قتل کرنے کا حکم ہیرودیس نے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیرودیس کا بھی ایک لڑکا تھا تو اس نے کہا کہ ہیرودیس کا بیٹا بننے کی نسبت اس کے سوارو ں میں شامل ہو نا بہتر ہے۔

 

 

تیسرا باب

قوم اور زمانہ کی حالت

اب ہم مسیح کی زندگی کے اس حصہ کے نزدیک آپہنچے ہیںجس کا مفصل حال انجیلوں میں قلمبند ہے۔ مسیح اب کبخ تنہائی کو چھوڑ کر دینا کے سامنے آتا اور اپنا اصل کام اختیار کرتا ہے۔ پس اس موقعہ پر زیبا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس قوم کے رسم ورواج پر غور کریں جس کے درمیان اسے کام کرتا تھا اور نیز یہ دریافت کریں کر اسے اپنی خدمات کے متعلق کون سے مقاصد مدنظر تھے۔ بزرگوں کی زندگیوں کے وسیلے سے کوئی نہ کوئی نئی طاقت اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ پس ان کے سوانح عمری تحریر کرنا گویا دو باتوں کو رقم کرنا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کونسی نئی بات ان کے وسیلہ سے اس دنیا میں داخل ہوئی اور وہ کیوں کر پرانی طاقتوں سے شیر و شکر ہو کر بعد کے زمانے کا حصہ بن گئی۔ پس ضرور ہے کہ ہر ایک شخص کے سوانح عمری کی تاثیرات کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے پہلے ہم اس نئی طاقت کی ماہیت کے سمجھنے کی کوشش کریں جو اس کی زندگی سے صادر ہوئی ، اور نیز اس بات پر غور کریں کہ جس زمانہ میںوہ طاقت نمودار ہوئی اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی۔ اگرہم دوسری بات کو نظرانداز کردیں تو پہلی بات کی خصوصتیں سمجھ میں نہ آئیںگی اور نہ ہی یہ عقدہ حل ہو گا۔ کہ کس طرح اس نئی طاقت کو دنیا نے قبول کیا کیا صدائے خوش آمدید بلند کرکے اس دنیا نے اسے سینہ سے لگایا یا دشمنی اور عداوت کا پہلو اختیار کر کے اسے رد کرنا چاہا۔ خدواند مسیح ایسی نئی طاقت اپنے ساتھ لایا تھا جس کا کام یہ تھا۔ کہ انسانی تاریخ کو ایک نئے سانچے میں ڈھال کر نئی صورت میں تبدیل کرے۔ پس جب تک ہم ان لوگوں کے حالات سے واقف نہ ہوں جن کے درمیان اس نے بودوباش اختیار کی تب تک نہ ہم اس کی خصلت کو اور نہ اس بات کو جان سکتے ہیں۔ کہ جس بڑی بخشش کو وہ اپنے ساتھ لایا اس کو تاریخی واقعات کی لڑی میں پڑنے کے لئے اسے کون کون سی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا۔

جب ہم عہد عتیق کی آخری کتاب کا آخری ورق بند کرکے عہد جدید کو کھول کر اس کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔ تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ گویا ہم انہیں لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے اور اسی قسم کی رسوم کا دور دیکھ رہے ہیں۔ جو ہم نے ملاکی کی کتاب میں چھوڑ ی تھیں۔ لیکن یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ ملاکی اور متی کے درمیان چار سوسال کا فاصلہ ہے۔ اور جو تبدیلیاں اتنے عرصہ کے اندر کسی ملک میں پیدا ہو سکتی ہیں وہ اس ملک میں واقع ہو چکی تھیں۔ جو زبان ملاکی کے زمانہ میں مروج تھی۔ وہ اب معدوم ہو گئی تھی اور نئی رسمیں نئے رواج نئے خیالات نئے طریقے اور نئے فرقے برپا ہو گئے تھے۔ غرضیکہ ملک ایسی کایا پلٹ گئی تھی کہ اگر ملاکی زندہ ہو کر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو دیکھتا تو حیرت کا پتلا بن جاتا اور مشکل سے ان کو پہچانتا۔

ملکی انتظام میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔ مثلاً اسیری کے بعد یہودی قوم کا انتظام سردار کاہنوں کے ہاتھ آیا اور یہودیوں کا تما م ملک ایک دینی حکومت کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ کئی فتح مند بادشاہوں نے باربار اس پر حملہ کرکے ہر پہلے انتظام کو نیا لباس پہنایا۔ کچھ عرصہ کے لئے دلیر مکابیوں نے موروثی بادشاہی کے قدیم کے اختیارات کو پھر بحال اور آزادی کے لئے جنگ و جدل کرتے ہوئے کبھی شکست کھائی اور کبھی دشمن کو نیچا دکھایا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک ظالم نے زبردستی تخت نشینی اور حکمرانی کا لطف اڑایا۔ اور اب آخر میں عنان حکومت اہل روم کے ہاتھ آئی جن کا سکہ تمام مہذب دنیا میں جاری تھا۔ انہوں نے ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے کچھ ایسی ہی حکومت جاری کی جیسی اب ہندوستان میں رائج ہے۔ گلیل اور پیریا چھوٹے چھوٹے راجاوں کے ہاتھ میں تھے۔ وہ ہیرودیس کے بیٹے تھے۔ جس کے عہد میں مسیح پیدا ہوا تھا۔یہ راجے قیصر روم کے ساتھ وہی علاقہ رکھتے تھے جو ریاست ہائے ہند کے سردار اور راجے شہنشاہ انگلستان کے ساتھ رکھتے ہیں۔ یہودیہ ایک رومی عامل کے اختیار میں تھا۔ جو سریا کے رومی صوبہ کے فرمانروا کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔ رومی سپاہی یروشلیم کے گلی کوچوں میں پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ رومی پھر یرا ہر قلعہ کی چوٹی پر لہرا رہا تھا۔ رومی محصول لینے والے ہر شہر کے پھاٹک پر بیٹھے تھے۔ سنہڈوم (یہودیوں کی مجلس حکام )جسے یہودی اختیارات کا ایک آلہ کہنا چاہےے ، برائے نام ذرا سا اختیار رکھتی تھی مگر در حقیقت اس کے صدر اور سردار کاہن رومیوں کے ہاتھ میں کٹ پتلی سے بڑھ کر نہ تھے۔ چنانچہ جیسا ناچ وہ نچاتے تھے ویسا ناچتے تھے۔ جس قوم کو دیگر اقوام سے ایک قسم کا امتیاز حاصل تھا اور جس کے سامنے دنیا کی تمام سلطنتوں کو سر تسلیم خم کرنا چاہےے تھا۔ اور جس کی حب الوطنی میں دینی اور قومی محبت کا ایک وایسا مادہ موجودہ تھا کہ دوسری قوموں کو ویسا کبھی نصیب نہیں ہوا وہ قوم اس وقت اپنے اعلےٰ پایہ سے گر کر ذلیل ہو رہی تھی۔

اور جب ہم مذہب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ تو مذہبی عالم میں بھی بڑی تبدیلی اور عجیب طرح کا تنزل نظر آتا ہے۔ ظاہری کی صورت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تنزل کے عوض مذہب بڑے فروغ پر ہے۔ چنانچہ یہودی قوم جیسی اس وقت اپنے عقائد کی پابند تھی ویسی پہلے کبھی ہیں ہوئی تھی۔ ایک وہ وقت تھاکہ بت پرستی کنٹھ مالا بن کر گلے کو ہار ہورہی تھی۔ مگر اسیر ی کے تلخ نسخہ نے اس بیماری کی ایسی بیخ کنی کی کہ اب ہر جگہ کے یہودی بجز خدائے واحد اور کسی کو عبادت کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے بابل سے واپس آکر کاہنی عہد وں کو ازسر نو قائم کیا اور ہیکل کی عبادت اور عیدوں کی حفاظت میں ایسے مشغول ہوئے کہ رسول کی ادائیگی میں سرموفرق نہیں آنے دیتے تھے۔ علاوہ بریں اسی عرصہ میں ایک اور طریق عبادت برپا ہوا جس نے ہیکل اور ہیکل کے کاہنوں کی بھی جوت مدھم کر دی۔ اسے سنیگاگ (عبادت خانہ )کہا کرتے تھے۔ اور اس کے کار پرداز ربی کہلاتے تھے۔ قدیم زمانوں میں سینگاگ کا وجود کہیں نہیں ملتا کیونکہ اس طریق نے اسیری کے بعدجنم لیا اور اس تعلیم کے پہلو میں پرورش پائی جو اس وقت کلام الٰہی کے لئے لوگوں کے دلوں میں موجود تھی۔ جہاں جہاں یہودی آباد ہوئے۔ وہاں یہ عبادت خانے بکثرت برپا ہوئے۔ ہر سبت کے روز یہ عبادت خانے خدا کے پرستاروں کی کثرت سے مونہامنہ بھر جاتے تھے۔ اور ربی حاضرین کو پند نصیحت کیا کرتے تھے۔ عبادت خانہ کے ساتھ ربیوں کا فرقہ بھی پیدا ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ زبان عبرانی اس وقت بولی نہیں جاتی تھی۔ سواس بات کی ضرورت تھی کہ پرانے عہد نامہ کا جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک سال میں ایک مرتبہ ہمیشہ پڑھا جاتا تھا ، مروجہ زبان میں ترجمہ کیا جائے ، علم الٰہی کے مدرسے قائم کئے گئے جہاں ربی تربیت پاتے اور فن تفسیر میں مہارت حاصل کرتے تھے۔

لیکن باوجود اس ظاہر ی دینداری کی گرم بازاری کے مذہب دراصل تنزل کی طرف مائل تھا۔ یعنی خارجی رسوم کی تعداد تو ترقی پر تھی۔ مگر باطنی روح اور زندگی چراغ سحری کی طرح گل ہونے پر تھی گو پرانے زمانہ میںیہ قوم بار بار گناہ کے پھندے میں گرفتار ہوئی تو بھی ہمیشہ اس قابل تھی کہ اپنی تاریخ کے بد ترین زمانوں میں بھی ایسے جلیل القدر اشخاص پیدا کرے جو زندگی کا اعلےٰ سے اعلےٰ نمونہ قائم رکھیں اور اس رابطہ کو مضبوط کریں جو ان کی قوم اور آسمانی بادشاہ کے درمیان موجود تھا۔ پس ہم دیکھتے ہیںکہ وہ انبیاءجو صفاءصدق کی دولت سے مالا مال تھے۔ سچائی کو ہر طرح کی آلائش سے محفوظ رکھتے تھے۔ ان کے سلسلہ میں ان چار صدیوں کے اندر جن کا ذکر اوپر ہوا کوئی بنی برپا نہ ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے مقدس کلام کی محافظت تو ایسی تعظیم سے کی جاتی تھی کہ اس تعظیم میں سے بسا اوقات بت پرستی کی بو آنے جاتی تھی۔ لیکن ایسے آدمی بہت ہی کم تھے۔ جن کے اندرروح پاک کا وہ نور ہدایت درخشاں ہوتا جو نبیوں کے کلا م کا اصل مطلب سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

دین کے دائرہ میں جو فرقہ ان دنوں پیشوا سمجھا جاتا تھا۔ وہ فریسیوں کا فرقہ تھا فریسی اس بات پر زور دیا کرتے تھے۔ کہ خدانے قوم یہود کو دیگر اقوام سے امتیاز خاص کے ساتھ جدا کیا ہے۔ اب اگر یہ امتیاز پاکیزگی میں ظاہر ہوتا تا اس پر زور دینا بہت عمدہ اور موزون ہوتا مگر چونکہ لباس اور خوراک اور زبان کے ظاہر ی امتیازات کی نسبت اس اخلاقی امتیاز کا برقرار رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ اس لئے لباس اور خوراک کے بیرونی فرق و امتیاز نے رفتہ رفتہ اس اصلی امتیاز کی جگہ لے لی۔ فریسی حب الوطنی کے عجیب جوش سے پُر اور ملکی آزادی کے لئے اپنی جان پرکھیل جانے کو تیار تھے۔ وہ غیروں کی حکمرانی سے دل ہی دل میں جلتے اور دوسری قوموں کو نظر حقارت سے دیکھا کرتے تھے۔ اور اس امید میں محو تھے۔ کہ ہماری قوم کو کچھ عرصہ کے بعد ایک خوش نما اور پرُ جلال زمانہ نصیب ہو گا۔ مگر مدت تک اس راگ کو الاپنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ مغرور ہو کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ چونکہ ہم ابرہام کی نسل سے ہیں۔ اس لئے خدا کی نظر میں ہم ہی پسندیدہ ہیں اور اس بات کو بھول گئے کہ خدا کی نظر ہیں۔ ہم ہی پسندیدہ ہیں اور اس بات کو بھو ل گئے کہ خدا کی نظر میںجو ہے وہ نسبی شرافت نہیں بلکہ ذاتی خصلت ہے پس وہ یہودی رسموں کو بڑھاتے گئے اور انجام کار دعا اور روزہ اور وہ یکی کی خارجی رسوم نے اس اعلےٰ امتیاز کی جگہ لے لی جو انسان اور خدا کی محبت میں جلوہ گر ہونا چاہےے تھی۔

فریسیوں کے فرقہ کے ساتھ کئی فقیہہ بھی ملحق تھے۔ ان کو اس لئے فقیہہ کہتے تھے۔ کیونکہ پاک نوشتوں کی تشریح اور کتابت ان کے سپرد تھی۔ اور وہی لوگوں کے لئے وکالت کا کام کیا کرتے تھے۔ کیونکہ یہودیوں کے ملکی قوانین کا مجموعہ پاک نوشتوں ہی میں داخل تھا۔ اس لئے علم فقہ علم الہیات کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا۔ عبادت خانوںمیں کلام الٰہی کی شرح اکثر وہی کیا کرتے تھے۔ اگرچہ ہر شخص کو اجازت تھی کہ اگر بولنا چاہے تو بولے، وہ نوشتوں کے ایک ایک لفظ اور حرف کی تعظیم کا دم بھرتے تھے۔ اور واقعی پرانے عہد نامے کے مذہبی اصول کو لوگوں کے درمیان پھیلانے اور اس کے بڑے بڑ ے اولوالعز م بہادوں میں بونے کا نمونہ ان کے سامنے رکھنے اور نبیوں کے کلام کو بیج کی طرح دلوں میں بونے کا عمدہ موقع ان کو حاصل تھا کیونکہ اس کام کو انجام دےنے کے لئے عبادت خانہ ایک عمدہ مقام تھا۔ کیونکہ اس کام کو انجام دےنے کے لئے عبادت خانہ ایک عمدہ مقام تھا۔ لیکن انہوں نے اس عمدہ موقع کو بالکل کھو دیا اور مذہبی حاکموں اور متکلموں کی پھیلی سی گروہ بننے پر اکتفائی اور اپنے اعلےٰ مرتبہ کو اپنے ذاتی اغراض کو پورا کرنے کا وسیلہ بنایا ، اور ان لوگوں کو جنہیں وہ روٹی کے عوض پتھر دیا کرتے تھے۔ جاہل اور بے علم سمجھ کر نظر حقارت سے دیکھنا شروع کیا۔ پاک نوشتوں میںجو جو باتیں روحانی اور زندگی بخش تھیں۔ اور انسانی بہبودی کے لئے اکسیر تھیں ان کو نظر انداز کر دیا۔ پشت در پشت مشاہیر مفسرین ، کی تفسیریں بڑھتی گئیں۔ اور وہ تفسیر ی حاشیوں کو متن پر ترجیح دینے لگے۔ مزید برآں یہ خیال مروج ہو گیا۔ کہ صحیح تفسیر کو وہی رتبہ دیا جائے جو کلام اﷲ کو حاصل ہے اور چونکہ بڑے بڑے مشہور معلموں کی تفسیریں صحیح سمجھی جاتی تھیں۔ لہذا یہ نتیجہ ہوا کہ ہزار ہا رائیں جو بائبل کی طرح مستند اور بیش قیمت سمجھی جاتی تھیں۔ روز بروز بڑھنے لگیں یہاں تک کہ ان کا شمار بہت زیادہ ہو گیا۔ رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرنے لگا اور یوں ہر قسم رائے کلام اﷲ کی کسی نہ کسی آیت سے مربوط کرنا یا اس کو جائز قرار دینے کے لئے الٰہی سند ڈھونڈھنا آسان کام ہو گیا۔

پس اس طرح فریسیوں کی ہر نئی ایجاد نے ناجائز ہونے کا رتبہ حاصل کیا اور ان نئی ایجادوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ زندگی کے دائرہ میںکوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ شخصی اور خاندانی غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر ان لوگوں کی نو ایجادیاں حکمران تھیں۔ ان کے شمار کی کثرت کے سبب سے ان کے سیکھنے کے لئے مدت العمر کی ضرورت تھی اور ان فقہقوں کی تربیت کا بھی بڑا جزو یہی تھا۔ کہ وہ ان مختلف خیالات سے واقف ہوں اور بڑے بڑے ربیوں کے مفتیانہ کلام کا علم رکھیں۔ اور تفسیر کے ان طریقوں کو ضبط کریں جن کی بناپر ربیوں نے اپنے خیالات کو جائز ٹھہرایا تھا۔ یہی وہ بھوسہ تھا جس سے وہ عبادت خانہ میںآنے والوں کو سیرو آسودہ کرنا چاہتے تھے۔ ضمیر کی گردن پر ایسی بے شمار چھوٹی چھوٹی باتوں کو بوجھ ڈالتے تھے جن میں سے ہر ایک کو دس احکام کی مانند خدا کی طرف سے بتاتے تھے یہی وہ ناقابل برداشت بوجھ تھا۔ جس کی نسبت پطرس نے کہا کہ نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اسے اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وہ بوجھ تھا جس نے خواب پریشان کی طرح پولوس کی ضمیر کو دبارکھا تھا۔ اس سے بہت سے برُے نتیجے پیدا ہوئے۔یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب رسوم کو وہی جگہ دی جاتی ہے جو اخلاقی صداقت کا حق ہے تو اخلاق کی رونق کا نور ہوتی ہے فقہقہ اور فریسی اس فن میں طاق تھے کہ اپنی خود رائی کے موافق شرح کرکے اور ضمیری معاملا ت پر اپنی مرضی کے مطابق بحث کرکے بڑے بڑے اخلاقی فرائض کی بنیادی ہلا دیں اور نئے نئے دستوروں کی پابندی کے ستون برپا کریں۔ اس طرح یہ لوگ ہاتھی کے دانتوں کی طرح ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور ہی تھے۔ دیکھنے میں سراپا پاکیزگی مگر خلوت میںخود غرضی کے عاشق اور نفساتی خواہشات کے نشے میں چور تھے۔ اور یہی حال قوم کا تھا۔ وہ بھی قبر کی طرح اوپر سے آراستہ پر اندر بدی کی عفونت سے سڑرہی تھی۔

ان کے مقابل ایک اور فرقہ مخالفت میں ڈٹا کھڑا تھا۔ وہ صدوقیوں کا فرقہ تھا۔ صدوقی بزرگوں کی روائتوں کو سند نہیں مانتے تھے بلکہ برعکس اس کے یہ چاہتے تھے۔ کہ بائبل کے فیصلے مستند سمجھے جائیں اور بغیر اس کے اور کسی رائے کی قدر نہ کی جائے اور نہ ہی وہ یہ چاہتے تھے کہ اخلاق کی جگہ خارجی رسوم کو دی جائے مگر اس مخالفت کا باعث مذہبی اصول کی پابندی نہ تھی بلکہ ان کی منکرانہ طبیعت اس کی موجد تھی۔ یہ لوگ سرمایہ ایمان سے خالی اور شیر گرمی اور دینوی مزاج سے پُر تھے۔ اگرچہ وہ اخلاقی صداقتوں کی تعریف میں بڑی سرگرمی دکھایا کرتے تھے۔ تو بھی ان کا عالم اخلاق کچھ اور ہی تھا۔ ان کے اخلاق میں حقیقی جوش اور روشنی جلوہ نمانہ تھی۔ کیونکہ وہ الٰہی قدرت کی ان اعلےٰ منازل سے ناواقف تھے جہاں سے سچی اخلاقی زندگی کی مذیاں جاری ہوتی ہیں وہ فریسیوں کی دستور پر ستی سے اپنی ضمیر کو زیر بار کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر اس کا اصل سبب یہ تھا۔ کہ وہ چاہتے تھے کہ عیش و عشرت سے زندگی بسر کریں اور ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات ہو۔ وہ فریسیوں کی اس خصوصیت کو ہنسی میں اڑایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے تیئں اوروں سے الگ رکھتے تھے۔ مگر صدوقی اس ایمان اور ان قومی امیدوں سے بھی اپنے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جو فریسی فرقہ کا خاصہ تھیں۔ سووہ غیر قوموں کے ساتھ کھلم کھلا ، ملتے جلتے ،یونانی تہذیب و شائستگی کی پیروی کرتے اور غیر ممالک کے مشاغل سے دل بہلاتے تھے۔ ملکی آزادی کے لئے لڑنا ان کو ناپسند تھا۔ اس فرقے کی ایک شاخ ان خیالات میں اس درجہ تک پہنچ گئی تھی۔ کہ ان کو ہیر و دی کہتے تھے۔ انہوں نے ہیرودیس غاصب کی مد دکی اور اب خوشامد کی وجہ سے اس کے بیٹوں کے منہ لگے ہوئے تھے۔

یہ صدوقی بیشتر اعلےٰ خاندانوں اور دولت مند گھرانوں سے علاقہ رکھتے تھے۔ اور فقیہہ اور فریسی زیادہ تر درمیانہ درجہ کے لوگوں میںسے تھے گو کئی ان میں سے بھی عالی خاندانوں سے علاقہ رکھتے تھے۔ ادنیٰ درجہ کے لوگوں اور دیہاتی باشندوں کو دولت نے امیروں سے جدا کر رکھا تھا۔ مگر وہ فریسیوں پر فریفتہ ہو کر انہیں کا دم بھرتے تھے۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے جاہل لوگ جس طرف گرم جوشی دیکھنے ہیں اسی طر ف ہو جاتے ہیں۔ سب سے آخری درجہ پر ایک کثیر جماعت موجو د تھی۔ جس نے مذہب اور مروجہ سوسائٹی سے ہر طرح کا رشتہ منقطع کر لیا تھا۔ وہ محصول لینے والے اور کسبیاں اور گنہگار کہلاتے تھے اور کوئی ان کی روحوں کی پروانہ کرتاتھا۔

ہم نے دیکھا کہ قوم یہود کی اس وقت دینی اور اخلاقی حالت نہایت ردی ہو رہی تھی۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے۔ کہ کیا یہی لوگ خدا کے لوگ ہیں؟ ہاں یہی لوگ ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کی اولاد اور وعدوں کے وارث تھے، اگرچہ ضلالت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اگر ہم اس زمانہ سے قطع نظر کر کے پیچھے کی طرف دیکھیں۔ تو کئی صدیاں پہلے قدیم بزرگوں کی نورانی صورتیں اور ان بادشاہوں کے جلالی چہرے جو خدا کے ہم خیال اور ہم مزاج تھے۔ ہماری نظروں سے گزریں گے اور کئی دیندار زبور نویس اور سچے نبی دکھائی دیں گے۔ اور کئی ایسی پشتیں دیکھنے میں آئیں گی جو اپنے ایمان اور امید کے سبب مشہور تھیں اور اسی طرح اگر آئندہ زمانے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو ادھر بھی بزرگی اور فضیلت کا دور دورہ نظر آئے گا۔ خدا کا وہ کلام جو آسمان نازل ہوا اور نبیوں کے وسیلے سے بیان کیا گیا۔ کبھی بے انجام نہیں رو سکتا تھا۔ اس نے فرما دیا تھا۔ کہ میرا کامل مکاشفہ اسی قوم کو عطا کیا جائے گااور انسانیت کا بے نقص اور کامل نمونہ اسی قوم میں سے نکلے گا اور اسی میں سے وہ چشمہ جاری ہو گا۔ جو بنی آدم کو نئی زندگی اور تازگی اور نئی طاقتیں دے گا۔ پس اس قول کے مطابق ابھی عجیب زمانہ ظاہر ہونے والا تھا یا یوں کہیںکہ یہودی تاریخ کا دریا اس وقت کچھ عرصہ کے لئے ریگستانی خطوں میں جذب ہو کر غائب ہو گیا تھا۔ لیکن تھوڑ ی دیر کے بعد پھر زور و شور کے ساتھ خدا کی مقر ر کر دہ راہ میں بہنے کو تھا۔ اگرچہ اس وقت زمانہ کے ظاہری حالات کسی قدر ناموافق سے معلوم ہوتے تھے۔ تو بھی خدا کا فرمان پورا ہونے کا وقت آپہنچا تھا۔ چنانچہ کئی خدا پرست دیندار اس وقت آپس میں کہتے تھے۔ کہ کیا موسیٰ سے لے کر سب بنی ایک بزرگ کے آنے کی خبر دیتے ہوئے یہ نہیںبتاتے رہے کہ وہ عین اس وقت آئے گا۔جبکہ اخلاقی تاریکی تاریک رات کے اندھیر ے سے بھی بڑھ جائے گی۔ اور قومی ابتری انتہا درجہ کو پہنچ جائے گی؟ وہ زمانہ ہائے گذشتہ کے کھوئے ہوئے جلال کو دوبارہ روشن کرے گا۔ یادرہے کہ بدترین زمانوں میں میں بھی نیک اشخاص کا وجود معدوم نہیں ہوتا لہذا اس وقت بھی یہودیوں کے خود غرض اور بداخلاق فرقوں میں بعض بعض صاحب دل باقی تھے۔ لیکن ایسے زمانوں میں حقیقی دینداری زیادہ ترکم حیثیت لوگوں کی جھونپڑیوں میں بسیرا کرتی ہے۔ اور جس طرح ہم کو امید ہے کہ رومن کیتھولک کلیسیاءمیں بھی بہت ایسے لوگ ہیں۔ جو ان رسوم کوجومسیح اور ان کے درمیان پردہ کرتی ہیں۔ ترک کرکے حیات کے چشمہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور روحانی مذاق کی امداد سے لغویات سے کنارہ کش ہو کر صداقت کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم یہ امید بھی رکھتے ہیں۔ کہ فلسطین کے عام لوگوں میں بھی کئی ایسے لوگ تھے۔ جو خدا کے کلام کو عبادت خانوں میں سن کر یا اپنے گھروں میں پڑھ کر اپنے استادوں کی بھاری اور بے شمار تشریحوں کو نظر انداز کر دیتے ہوں گے۔ اور گذشتہ زمانوں کے جلا ل یعنی پاکیزگی کی رونق اور خدا کے کمال کو دیکھتے ہوں گے۔ جن کے نظارے سے فقیہہ محروم تھے۔

لیکن فقیہہ بھی نوشتوں کی پیشن گوئیوں سے بے پروانہ تھے۔ وہ بھی ایک طرح ان کی چھان بین میں لگے ہوئے تھے۔ اور فریسیوں کی توبہ ایک خصوصیت ہی تھی۔ کہ وہ مسیح کے آنے کی امیدوں پر فریضتہ ہو رہے تھے۔ مگر قباحت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بے ڈھب تشریحوں سے نبیوں کے کلام پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ اور آنے والے زمانہ یعنی مسیح کے عہد کی شان و شوکت اور جاہ جلال کی ایک فرضی تصویر اپنے قیاس کے مطابق کھینچ رکھی تھی۔ مسیح کو خدا کا بیٹا اور اس کے آنے کو خدا کی بادشاہت کا آغاز سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کے بھی معتقد تھے کہ کہ جب مسیح آئیگا۔ تو وہ بڑے بڑے معجزوں اور اپنی قدرت سے یہودی قوم کو غلامی کی قید سے آزاد کرکے دینوی عزت اور شوکت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچائے گا اور اس امید کے نشے سے بھی مسرور ہو رہے تھے۔ کہ ہم جو چنی ہوئی قوم کے شریک ہیں، اس کی بادشاہی میں اعلیٰ منصبوں اور مرتبوں پر مامور کئے جائیں گے۔ بر کبھی نہ نہیں سوچتے تھے۔ کہ یہ بھی ضروری امر ہے۔ کہ اس کی ملاقات کے لئے ہماری زندگی میں باطنی تبدیلیاں پیدا ہوں اور اس کا سبب یہ تھا۔ کہ دنیاوی جلال کی جھلک نے پاکیزگی اور محبت کے روحانی عنصروں کو ان سے چھپا دیا تھا۔

جب اس قوم کے اصل مدعا یا انجام کے پورا ہونے کا زمانہ آیا تو یہودی تاریخ کی ایسی صورت تھی جیسی کہ بیا ن ہوئی اور اس صورت اس کام کو جسے مسیح موعود کو انجام دینا تھا۔ پیچ در پیچ الجھنوں سے بھر دیا۔ امید تو یہ ہوئی چاہےے تھی کہ جب مسیح آئے تو وہ تمام قوم کو گذشتہ نبیوں کے خیالوں اور روائتوں کے حقیقی معانی سے بھر پور پائے اور اسے اپنے تابع کرکے اس سے ایسی امداد حاصل کرے جو جوش اور تاثیر سے پُر ہو مگر ایسا نہ ہوا بلکہ برعکس اس کے یہ دیکھنے ہیں کہ جب وہ آیا اس وقت تمام قوم اپنے اعلیٰ تصورات کو کھو بیٹھی اور ان کے عوض ادنیٰ خیالات پیدا ہو گئے تھے۔ پس وہ ایک ایسی قوم کے عوض میں جو پاکیزگی سے بہرہ ور اور خدا کے مقرر کردہ انتظام کے مطابق دوسری قوموں کو برکت پہنچانے کے لئے تیار ہوتی او ر اس کی پیروی اختیار کرکے درجہ کمال تک پہنچتی اور پھر تما م دنیا پر روحانی فتح پانے میں اس کی مدد کرتی وہ ایسی قوم سے دوچار ہوا جس سے ان باتوں میں سے کسی کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ لہذا اسے پہلے اپنے ہی ملک کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا اور ان تعصبات کا نشانہ بننا پڑا جو سالہا سال کی پست حالی سے پیدا ہو گئے تھے۔

چوتھا با ب

تیاری کی آخری منزلیں

اب جس وقت قوم کی یہ حالت ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ جس کے آنے کی راہ لوگ اپنے اپنے خیال کے کے مطابق دیکھ رہے تھے۔ اس دنیا میں آیا۔ لیکن انہوں نے نہ جانا کہ وہ آگیا ہے اور وہ کب یہ خیال کر سکتے تھے کہ جس کی انتظاری کے متعلق ہم غور و فکر میں مصر وف اور دعا و مناجات میں مشغول ہو رہے ہیں۔ وہ ناصرت جیسے حقیر شہر میں ایک بڑھئی کے گھر میں پرورش پا رہا ہے۔ اور درحقیقت یہی ہور ہا تھا۔ یعنی وہ یوسف کے گھر میں اپنے کام کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ وہاں وہ پرا نے زمانے کی نبوتو ں اور موجود حالات کو دیکھ کر اپنے کام کی عظیم وسعت کے سمجھنے میں مصروف تھا۔ وہاں اس کی آنکھیں ملک کا معائنہ کر وہی تھیں۔ اور اس کا دل گناہ اور خرابی کی کثرت کو دیکھ کر اس کے پہلو میںتڑپ رہا تھا۔ وہ اپنے اندر ان عظیم طاقتوں کو جنبش کرتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ جواس کےے بھاری مقصد کی انجام وہی کے لئے ضروری تھیں۔ آخر کار یہ جذبہ شوق دریا کی طرح اُمڈ آیا اور وہ مجبور ہوا کہ اپنے دل کا حال ظاہر کرے اور جس کام کے لئے آیا ہے اسے انجام دے۔

یسوع کو اپنے اصل کام کی بجا آوری کے لئے صرف تین سال ملے اور اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ انسانی زندگی کے معمولی تین سال کس قدر جلد گذر جاتے ہیں۔ اور ان کے خاتمہ پر کیسا تھوڑا کام ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ تو ہم محسوس کریں گے۔ کہ وہ سیرت عجیب وقسم اور عظیم قامت کی ہو گی اور وہ زندگی لاثانی طور پر اپنے ارادوں کی یکتائی اور پختگی سے معمور ہو گی۔ جس نے ایسے قلیل سے عرصہ میں دنیا پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہے۔ جسے کسی تدبیر کا ہاتھ دور نہیں کر سکتا اور بنی آدم کے لئے صداقت اور معرفت کی دولت کی ایسی میراث پیچھے چھوڑی جسے کوئی رہزن لُوٹ ہیں سکتا۔

عموماً مانا جاتا ہے کہ جب مسیح دنیا کے سامنے آیا اس وقت اس کے تصورات نشوونما پا کر ترتیب کے سانچے میں مرتب ہو چکے تھے اور اس کی سیرت کا ہر پہلو پختہ بن گیا تھا۔ اور اس کے ارادے ایسے راسخ اور پکے ہو گئے تھے۔ کہ وہ بے ہچکچاہٹ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے کے لئے لگا تار کوشش کر سکتا تھا۔ تیس سال کے عرصہ میں کبھی ایک دم کے لئے اس راستے سے دائیں بائیں نہ پھرا ، جس پر اس نے اپنے کام کے شروع میں قدم رکھا تھا۔ اور اس کا یہی سبب ہو گا کہ کام شروع کرنے سے پہلے تیس برس کے عرصہ میں اس کے تصورات اور اس کی سیرت اور اس کی تدبیریں اپنی نشوونما کی تما م منزلیں طے کرتی ہو ں گی۔

اس کی زندگی کاجو حصہ ناصرت میں گزرا، اس میں بظاہر کسی طرح کوئی غیر معمولی خصوصیت نظر نہیں آتی۔ پھر اگر پردہ اٹھا کر دیکھا جائے تو تہ میںقسم قسم کے تصورات اور گونا گوں خیالات کی کثرت بڑے بڑے ارادوں اور تجویزوں کی شوکت اپنا رنگ دکھائے گی یا یوں کہیں کہ اس پاک اور سنجیدہ زندگی کی سطح کے نیچے بالیدگی کے تما م عمل جاری تھے جو انجام کار اس خوبصورت پھول اور خوش نما پھل میں نمودار ہوئے جن کو اب تمام زمانہ حیرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس تیاری میں بہت ساوقت لگا۔ تیس برس تک خاموش رہنا اور اپنے اصل کام کو ہاتھ نہ لگا نا واقعی ایک طویل زمانہ تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھی اور کوئی بات اس کی زندگی میں اس خاموشی سے زیادہ شاندار نہیں جو وہ کام اور کلام دونوں میں ظاہر کرتا ہے۔ یہ خاصیت بھی اس میں ناصرت ہی میں پیدا ہوئی جہاں وہ خاموشی کے ساتھ اس وقت تک انتظاری کر تا رہا جب تک کہ تیاری پوری نہ ہوئی۔ وقت سے پہلے کوئی چیز اس کو تنہائی سے باہر نہیں لا سکتی تھی۔ چنانچہ نہ یہ زبردست خواہش کہ اپنے گھر سے نکل کر اپنے زمانہ کی خرابیوں اور غلطیوں کا مقابلہ کر ے اور نہ یہ آرزو کہ اپنے ہم جنسوں کو فائدہ پہنچائے وقت سے پہلے اس کو باہر لائی۔

مگر جب وقت آیا تو اس نے بڑھئی کے اوزاروں سے ہاتھ اٹھایا اور اس لباس کو جو اپنی دکان میں پہنا کر تا تھا۔ اتار ڈالا اور اپنے گھر اور ناصر ت کی دلکش وادی کو خیر باد کہہ کر نئے طریق زندگی پر قدم رکھا مگر ابھی سب کچھ تیار نہ تھا۔ کیونکہ اگرچہ اس کی انسانیت خاموشی کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کر گئی تھی۔ تو بھی اپنے کام کو ہاتھ لگانے سے پہلے اسے ایک خاص قسم کی مد د کی ابھی ضرورت تھی۔

اور اسی طرح یہ بھی ضرور تھا۔ کہ اس کے تصور اور ارادے ایک عجیب قسم کی آزمائش کی آگ کے وسیلے سے نہایت مضبوط و پختہ کئے جائیں۔ پس اس کی تیاری کے آخری دو باتیں یعنی بپتسمہ اور آزمائش ابھی وقوع میں آنے والی تھیں۔

اس کا بپتسمہ۔ واضح ہو کہ مسیح ناصرت کی خاموشی سے نکل کر یک بیک لوگوں کے سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اس کے آنے کے اطلاع پہلے دی گئی یایوں کہیں کہ ایک طرح سے اس کاکام اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مسیح موعود کی آواز سننے سے پہلے قوم کو ایک مرتبہ پھر نبوت کی آوا ز جو مدت سے خاموش ہو رہی تھی۔ نصیب ہوئی چنانچہ تمام ملک میں یہ خبر پھیل گئی تھی۔ کہ یہودیہ کے صحرا میں ایک مبشر نمودور ہوا ہے۔ وہ نہ ان لکیر کے فقیروں کی مانند ہے جو مرے کھپے لوگوں کے خیالات کو عبادت خانوں میں سنا یا کرتے ہیں۔ اور نہ ان یروشلیم کے رہنے والے استادوں کی طرح ہے۔ جو مہذبانہہ آداب میں تاک اور فصیح بیانی میں مشاق ہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جو خوشامد کی آلودگی سے آزاد اور بدن میں قوی ہیکل ہے اور دل کی طرف مخاطب ہو کر بولتا ہے اور پھر ایسے اختیار کے ساتھ کہ گویا اپنے الہام کے متعلق کسی طرح کاشک وشبہ مطلق نہیں رکھتا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا اپنی ماں کے پیٹ ہی سے نذیر تھا۔ اس نے کئی سال صحرا میں کاٹے تھے۔ جہاں وہ بحیرہ مردار کے ساحلوں پر اپنے دل کے خیالات میں مگن ہو کر سیر کیا کرتا تھا۔ وہ پرانے نبیوں کی طرح بالوں کی پوشاک اور چمڑے کا کمربند پہنا کرتا تھا۔ اور نفس کشی کی شدت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ کہ وہ اچھے اچھے کھانوں کا محتاج نہ تھا۔ بلکہ ان ٹڈیوں اور جنگلی شہد پر گذار ا کیا کرتا تھا۔ جو اس بیابان میں مل سکتے تھے۔

یوحنا کی نسبت جو کچھ کلام الٰہی میں لکھا ہے اس معلوم ہوتا ہے کہ وہ گوشہ نشین اور نہایت ریاضت کرنے والا اور نفس کش آدمی تھا۔ اس نے آباد جگہوں کو چھوڑ کر بیابان میں رہنا اختیار کیا پر اس تنہائی سے اس کی یہ غرض نہ تھی کہ مشہور دیو جانس کلبی کی طرح بنی آدم سے بے پروا اور متنفرہو کر کنج تنہائی میں جاچھپے یا اپنی نفسانیت سے تنگ آکر یا اس سے پناہ پانے کے لئے بھا گ جائے بلکہ اس کی صحرا نشینی کا یہ مقصد تھا کہ اپنے اوپر قابو پائے اور وہ صفتیں پیدا کرے جو خدا کے سچے نبی اور مسیح کے پیشرو کے لئے ضروری ہیں۔

یوحنا کی طبیعت میں جوش بہت تھا۔ پس اس نے بڑی محنت اور جنگ و جدل سے اپنے مزاج پر قابو پایا۔ اگر اس میں سلامتی یا شانتی نظر آتی ہے تو وہ بڑی دعا اور سچی توبہ سے حاصل کی گئی تھی۔ پر اس کی دعا اور توبہ کی جگہ وہی بیابان تھا۔ اس فتح کی پیشانی پر جو اس کو نصیب ہوئی لڑائی کے ایسے آثار موجود تھے جو ظاہر کرتے تھے کہ جنگل میں بڑی جدوجہد کے ساتھ غلبہ حاصل کیا ہے اور جو امن اس کی زندگی سے ظاہر ہوتا تھا۔ اس میں سے بھی اب تک اس بے آرامی اور بے چینی کے طوفان کی بو آتی تھی جو صحرا میں اس پر آئی۔ اسی طرح اس کی تعلیم سے بھی اس بیابان کا رنگ ظاہر ہو جاتا ہے۔ جہاں اس نے اپنے کام کی تیاری کی چنانچہ وہ اپنی تقریر میں بار ہا پتھر اور سانپ اور سوکھے ہوئے یا بے پھل درختوں کی نظیریں پیش کر تاہے۔

خداوند مسیح نے اسے اس کی طبیعت اور کام کے لحاظ سے جلتے ہوئے چراغ یا مشعل سے تشبیہ دی اور فے الحقیقت وہ ازسر تا پا ایک وعظ تھا۔ پس اس کا اپنے آپ کو آواز کہنا نہایت درست اور موزوں لقب تھا۔ اس کی ایک ایک حرکت سے یہی آواز کہنا نہایت درست اور موزوں لقب تھا۔ اس کی ایک ایک حرکت سے یہی آواز آتی تھی۔ کہ ”خداوند کی راہ تیا ر کرو“۔ یہی شخص پیشروی کے کام کے لائق تھا کیونکہ اس میں الیاس کی روح بکثرت پائی جاتی تھی۔

مگر باوجود اس گوشہ نشینی کے وہ زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی واقف اور اپنے زمانے کی تمام خرابیوں سے آگاہ تھا۔ مذہبی فرقوں کی ریا کاری کو خوب جانتا تھا۔ اور عام و خاص کی بدیاں بھی اس سے پوشیدہ نہ تھیں۔ علاوہ بریں وہ دل کو جانچینے اور ضمیر کو ہلانے کی عجیب قدرت رکھتا تھا۔ قدرت رکھتا تھا۔ اور بے خوف و خطر ہر قسم کے لوگوں کے دلفریب گناہوں کو فاش کرنا جانتا تھا۔ لیکن جس بات کے سبب سے لوگ اس کی طرف زیادہ راغب ہوئے اور جس نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک ہر یہودی کے دل میں ایک جنبش پیدا کردی۔ وہ اس کا پیغام تھا اور وہ یہ تھا۔ کہ مسیح کا وقت نزدیک آگیا ہے اور وہ بہت جلد خدا کی بادشاہی قائم کرنے والا ہے۔ یہ سن کر تمام یروشلیم اور سارا علاقہ اس کی طرف اُمڈ آیا کیونکہ یہ سبت کا سال تھا۔ اور لوگ زراعت کے کام سے فارغ تھے۔ پس طرح طرح کے لوگ آکر اس کی باتیں سنتے تھے۔ فریسی ہمہ تن گوش تھے کہ مسیح کی بابت کچھ سنیں بلکہ صدوقی بھی اس کی باتیں سن کر کروٹ بدلنے لگے۔ ادھر اُدھر کے تمام صوبوں سے ہزاروں لوگ اس کی منادی سننے کے لئے آئے اور بہت سے لوگ جا بجا اسرائیل کی نجات کے منتظر اور دست بدعا تھا۔ اس کے پاس جمع ہوئے تاکہ اس سے اس جو ش انگیز وعدہ کی خبر سنیں ،مگر علاوہ اس پیغام کے یوحنا کے پاس ایک اور پیغام تھا جس نے مختلف دلوں میں مختلف قسم کے خیالات پیدا کئے یعنی اس نے اپنے سننے والوں کو یہ بھی بتایا کہ تم قوم کی مجموعی صورت میں مسیح موعود کی ملاقات کے لئے بالکل تیا رنہیں اور تمہارا ابرہام کی نسل سے ہونا اس کی بادشاہی میں دخل پانے کے لئے کافی حق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس کی بادشاہی راست بازی اور پاکیزگی کی بادشاہی ہے۔ پس مسیح کا پہلا کام یہ ہو گاکہ وہ ان کو جو ان صفات سے بے بہرہ ہیں اس طرح رد کرے گا۔ جس طرح زمنیدار بھوسے کو خارج کرتا ہے۔ یا جس طرح باغ کا مالک درخت کو جو میوہ نہیں لاتا جڑ سے کاٹ ڈالتا ہے۔ اس نے قوم کے ہر فرقے اور ہر شخص کو ہدایت کی کہ جب تک وقت ہے اسے غنیمت جانو اور توبہ کرو کیونکہ نئی بادشاہی کی برکتوں سے مخطوظ ہونے کی یہی ایک لازمی شرط ہے۔ پس اس اندرونی تبدیلی کو ایک خارجی رسم کے وسیلے سے ظاہر کرنے کے لئے اس نے ان سب کو جنہوں نے اس کے پیغام کو ایمان سے قبول کیا۔ دریائے یردن میں بپتسمہ دیا۔ کئی لوگوں کو خوف اور امید نے ہلا دیا۔ اور انہوں نے اس سے بپتسمہ پایا مگر بہت ایسے بھی تھے جو اپنے گناہوں کے فاش کئے جانے سے سخت ناراض ہوئے اور اسی ناراضگی اور بے ایمانی کی حالت میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان میں زیادہ ترفریسی شامل تھے۔ جن کے ساتھ وہ زیادہ سختی سے پیش آیا اور جو خاص کر اس سبب سے ناخوش ہوئے کہ اس نے اس بات کی چنداں قدر نہ کی کہ وہ ابراہام کی اولاد ہیں کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان کا سارا دار و مدار اسی بات پر تھا۔

ایک روز یوحنا بپتسمہ دینے والے کے سننے والوں کے درمیان ایک شخص نمودار ہوا جس کی طرف یہ بپتسمہ دینے والا بڑی توجہ سے دیکھنے لگا۔ اس کی آواز جو بڑے بڑے استادوں کو تنبیہ کرتے وقت کبھی نہیں لڑکھڑائی تھی۔ اس نو وارد شخص کی صورت دیکھ کر کانپنے لگ گئی۔ اور جب گفتگو کرنے کے بعد اس نے بپتسمہ پانے کی درخواست کی تو یوحنا نے پہلو تی کرنا چاہا کیونکہ وہ جان گیا کہ یہ شخص اس توبہ کے بپتسمہ کا محتا ج نہیںجو میں اوروں کو بے تامل دے رہا ہوں۔ اور نہ ہی یہ میرا حق ہے کہ میں اسے بپتسمہ دُوں۔ اس نووار د شخص کے چہرے پر کچھ ایسی شاہانہ عظمت اور پاکیزگی اور شانتی نمایاں تھی کہ یوحنا جیسا مضبوط شخص بھی تھر تھر ا اُٹھا۔ اور اپنی نالائقی اور گنہگار ی کو دیکھ کر نہایت پشیمان ہوا۔ یہ شخص یسوع تھا جو ناصرت سے اپنی دکان چھوڑ کر سیدھا ادھر چلا آیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یسوع اور یوحنا کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگرچہ ان کے خاندانوں میںباہمی رشتے داری کا تعلق پایا جاتا تھا۔ اور ان کی زندگیوں کے باہمی رابطے کی پشین گوئی ہو چکی تھی۔ اس ناواقفی[١] کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایک کا گھر گلیل میں اور دوسر ے کا یہودیہ میں تھا۔ اور ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل تھا اور اس کے سوا ایک بڑا سبب یہ بھی ہو گا۔ کہ یوحنا عجیب قسم کی عادتوں کا آدمی تھا اور اس کی زندگی کا اکثرحصہ جنگلوں میں صرف ہوا تھا۔ لیکن جب یسوع کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے یوحنا بپتسمہ دینے لگاتو اس وقت اس نے معلوم کیا کہ اس اجنبی کے عجیب رعب داب کا کیا مطلب ہے کیونکہ خدا کی ہدایت کے بموجب اس وقت اس کو وہ نشان بخشا گیا جس کے وسیلے سے اسے مسیح کو جس کا پیشرو وہ تھا پہچاننا تھا۔چنانچہ روح القدس یسوع پر جبکہ وہ یردن سے دعا مانگتا ہوا باہر آیا نازل ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔

یوحنا پر یسوع کے دیدار سے جو تاثیر پیدا ہوئی وہ لفظوں کی نسبت کہیں زیادہ خوش اسلوبی سے یسوع کی مبارک صورت کا نقشہ کھینچتی اور اس کی سیرت کی ان خاصیتوں کا پتہ دیتی ہے۔ جو ناصرت میں رفتہ رفتہ ترقی پا کر آخر کار کامل ہو گئی تھیں۔

یہ بپتسمہ یسوع کے لئے ایک بڑا مطلب رکھتاتھا۔ عام لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ دو مطالب رکھتا تھا۔ یعنی اس سے ایک تو پرانے گناہوں کو ترک کرنا اور دوسرے مسیح کے زمانے میں داخل ہونا مراد تھا۔ پر یسوع کے لئے گناہوں کو ترک کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ بے گناہ تھا۔ پس اگر اس معنی کے مطابق اس نے بپتسمہ پایا تو صرف اس طرح کہ اس نے اپنی قوم کی جگہ کھڑے ہو کر اس بات کا قرار کیا کہ میں اپنی قوم کے لئے محسوس کرتا ہوں کہ وہ پاکیزگی کی محتاج ہے مگر اس کے بپتسمہ پانے کا اصل مطلب یہ تھا۔ کہ وہ خود اسی دروازے سے اس نئے زمانے میں داخل ہو جس کا بانی مبانی وہ آپ ہی تھا۔ گویا اس ضابطے کے وسیلے سے اس نے ظاہر کیا کہ وقت آپہنچا ہے کہ میں ناصرت کے کاروبار کو ترک کرکے اپنے خاص کام میں کام مصروف ہو جاوں۔

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسیح نے کیوں بپتسمہ پایا؟ اسے اس کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال کا جواب ہم اوپر رقم کر چکے ہیں۔ مگر یہاں ایڈر شام صاحب ایک مختصر مگر نہایت معقول بیان لگا تو اس وقت اس نے معلوم کیا کہ اس اجنبی کے عجیب رعب داب کا کیا مطلب ہے کیونکہ خداکی ہدایت کے بموجب اس وقت اس کو وہ نشان بخشا گیا جس کے وسیلے سے اسے مسیح کو جس کا پیشر و وہ تھا پہچاننا تھا چنانچہ روح القدس یسوع جبکہ وہ یردن سے دعا مانگتا ہوا باہر آیا نازل ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کی یہ میرا پیارا بیٹاہے۔لکھتے ہیں کہ مسیح نے اس بپتسمہ کے بارے میں ایک دفعہ پوچھا تھا کہ یوحنا کا بپتسمہ کہاں سے ہے آسمان سے یا آدمیوں سے ؟ اس سوال کے جواب میں سوال زیر نظر کا جواب چھپا ہوا ہے وہ یوحنا کے بپتسمہ کو خدا کی طرف سے سمجھتا تھا اور جو کچھ خدا کا مقرر کیا ہو ا تھا۔ اسے خوشی سے پورا کرنے کا تیار تھا۔

مگر روح القدس کا اس پر نازل ہونا اس کے بپتسمہ پانے سے بھی زیادہ پُر مطلب تھا۔ روح پاک کا نزول ایک بے معنی اظہار نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ ایک ایسا نشان تھا جو فقط یوحنا کی خاطر دیا گیا تھا۔ بلکہ وہ اس خاص برکت کا ایک نشان تھا جو اس وقت یسوع کو بخشی گئی تھی تاکہ وہ اپنے کام کے لئے زیادہ طاقت حاصل کرے ، اور اس کی طبعی طاقتوں کی نشوونما کو تاج بن کر سجائے۔ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یسوع کی انسانیت اوّل سے آخر تک روح القدس کی محتاج تھی۔ ہم اکثر یہ خیال کرتے ہیں۔ کہ اس علاقہ کے سبب سے جو اس کی انسانیت اور الوہیت میںپایا جاتا ہے۔ اسے روح القدس کی مددکی ضرورت نہ تھی۔ مگر حقیقت میں اس کی مددکی بڑی ضرورت تھی۔ کیونکہ الٰہی ذات کا آلہ بننے کے لئے اس کی انسانی ذات کو اس بات کی اشد ضرورت تھی۔ کہ اعلیٰ سے اعلیٰ برکت سے ممتاز ہو اور پھر ان برکتوں کے استعمال میں کسی طرح کی غلطی اس سے سرزدنہ ہو۔ ہم اکثر اس کے کلام کی حکمت اور خوبی کو اور اس کی عالم الغیبی کو جس سے وہ لوگوں کے خیالات کو جان لیتا تھا۔ اور اس کے معجزات کو اس کی الٰہی ذات سے منسوب کیا کرتے ہیں۔ لیکن انجیلوں میں یہ کام عموماً روح القدس سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیںکہ ان باتوں کاتعلق اس کی الٰہی ذات سے کچھ بھی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ روح القدس نے اس کی انسانی ذات کو اس لائق بنایا کہ وہ ان باتوں کے متعلق اس کی الٰہی ذات کا آلہ بنے۔ یہ برکت اسے بپتسمہ کے وقت خاص طور پر بخشی گئی اور اس الہام کی روح سے مشابہت رکھتی تھی۔ جو یسعیا ہ اور یرمیاہ جیسے نبیوں کو ان موقعوں پر مرحمت ہوئی جبکہ وہ اپنی اپنی خدمات کی انجام دہی کے کے لئے بلائے گئے اور جن کا ذکر ان کی کتابوں میںپایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح کی برکت اب بھی انہیں عطا کی جاتی ہے۔ جو خادم الدین کے عہدے پر سرفراز ہو کر اپنے آقا کی خدمت بجالاتے ہیں۔ لیکن فرق اتنا ہو تا ہے۔ کہ اوروں کو یہ روح محدود انداز ہ میں دی جاتی ہے اور یسوع کو غیر محدود طور پر بخشی گئی تھی۔ اور اس میں خصوصاً معجزہ دکھانے کی طاقت بھی شامل تھی۔

مسیح کی آزمائش :بپتسمہ کے بعد روح کے نزول سے مسےح پر وہی حالت ہوئی جو بسا اوقات ان لوگوں کی زندگی میں نمودار ہوا کرتی ہے۔ جو اپنی خدمات کی انجام دہی کے لئے روح کا انعام پاتے ہیں۔ گو ان کی زندگیوں میں وہ حالت محدود طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ حالت یہ تھی کہ اس کی تمام ہستی ازسرتا پا جوش کی آگ سے مشتعل ہو گئی۔ اس کی خواہشات واردات نے تازگی حاصل کی اور اس کے خیالات اس دھیان میں محو ہوئے کہ کون سے وسیلے اپنی خدمت کی بجا آوری کے لئے استعمال کرے۔ گو ایک طرح وہ کئی سال سے تیار ہو رہا تھا۔ اور مدت سے اس کا دل اپنے کام پر لگا ہوا تھا۔ اور اس کے سرانجام کی تجویزیں بھی سوچ چکا تھا۔ تو بھی یہ عین فطرت کے مطابق تھا کہ جس وقت الٰہی نشان ظاہر ہو اور یہ خبر دے کہ کام اب شروع ہونا چاہےے اور جس وقت وہ محسوس کرے کہ جن طاقتوں کے وسیلے میراکام انجام پائے گا۔ وہ میرے قبضے میں ہیں۔ تو اسی وقت کچھ عرصہ کےلئے کنج تنہائی اختیار کرے تاکہ ایک مرتبہ پھر اپنے سارے کام پر نظر ڈالے۔ اس اس نے سست بننے کے لئے روح کے ہتھیاروں کو نہیں پہنا تھا۔ بلکہ جنگ کے لئے ، پس وہ یردن کا کنارہ چھوڑ کر روح القدس کی رہنمائی سے ایک بیابان میں داخل ہوا اور چالیس روز تک ریگستانی وادیوں اور پہاڑوں میں گشت کرتا رہا۔ وہاں اس کے دل میںایسے خیالات اور ایسی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ کہ وہ ان میں محو ہو کر اپنا کھان پینا بھی بھول گیا۔

ایک روائیت سے جو بہت پرانی نہیں ظاہر ہوتا ہے۔کہ یہ آزمائش ایک پہاڑ پر واقع ہوئی جو کہ یریحو سے بہت دور نہ تھا۔ اور جو اس سبب سے کہ مسیح وہاں چالیس دن تک روزے کی حالت میں رہا۔قوارنٹے نیا کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پہاڑ سبزے کے ہرے ہرے لباس سے بالکل محروم اور ایک خشک جنگل میںعریاں کھڑا بحیرہ مردار کے پانی کو جس میں کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہتا دیکھ رہا ہے۔ یہ جگہ اس پہاڑ سے کیسی مختلف تھی جہاں مسیح نے مبارکباد یاں ا پنی زبان مبارک سے فرمائیں۔ وہ پہاڑ اچھے اچھے درختوں کے سبب سے بہت خوش نما تھا۔ اور اس کے پاس جھیل گنسرت کا پانی بلور کی طرح چمک رہا تھا۔جس پہاڑ جس پر مسیح آزمایا گیا بے درخت ہونے اور بے رونقی کے سبب سے بد روحوں کے لئے ایک موزوں مسکن معلوم ہوتا ہے۔ پریا درہے کہ یہ ایک روایت ہی ہے۔

واضح ہو کہ یہ آزمائش ایک حقیقی واقعہ ہے۔ اگرچہ یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ کہ آیا یہ آزمائش خارج میں واقع ہوئی یا صرف اس کا خیال ہی مسیح کے دل میں پید ا ہو ا اور وہ اس پر غالب آیا۔ ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جنہوں نے ان آزمائشوں کو رقم کیاہے۔ انہوں نے ان کا حال یا تو خود مسیح سے سنا ہو گا۔ یا ان سے جنہیں مسیح نے بتایا۔ ہمارے خداوند نے اس عجیب تجربہ کا حال ایسی صورت میں بیا ن کیا ہو گا۔ جس سے اس کا اصل مطلب بہت اچھی طرح سے واضح ہو گیا ہو گا۔ اور جس سے سننے والوں کو نہایت مفید سبق ملا ہو گا۔ پس جس بات کا سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کی آزمائش بڑی پُر زور اور شخصی اور حقیقی قسم کی تھی۔

چالیس دن کی افاقہ کشی نے خداوند مسیح کے بد ن پر بڑا اثر کیا ہو گا۔ کیونکہ وہ اس قسم کی فاقہ کشی کا خوگر نہ تھا۔ وہ اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا تھا۔ کہ تنہائی کے گوشے میں گھسا رہے یا وہ اس لئے آیا تھا۔ کہ اس دنیا میں بنی آدم سے ملے اور جس طرح آدمی آدمی سے ملتا جلتا ہے۔ ویسا ہی ہر ایک سے راہ و ربط رکھے۔ اس نے کبھی روزہ کے متعلق بھی کوئی خاص حکم نہیں دیا۔ البتہ دو جگہ سے ظاہر ہوتاہے۔ کہ اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو بے شک رکھے کوئی ممانعت نہیں (متی ١٨-١٦:١٦ ١٩:٩-)۔ اس کے الفاظ سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ کھانا پیتا آیا اور وہ کسی چیز کوحرام نہیں کہتا تھا، بلکہ ہر چیز میں اعتدال کو روا رکھتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کی بے ضرر ضیافتوں میں جاتا اور بنی آدم کے جلسوں میں شامل ہوتا تھا۔ اسی لئے اس کے دشمن اسے ” اور شرابی “ کہتے تھے۔ پس چالیس دن کے روزے کے باوجود دعا اور گیان دھیان میں مگن رہنے کے بھوک بڑی شدت سے اس پر غالب آئی ہو گی۔ اب اسی موقعہ پر آزمائش کرنیوالا بھی آن موجود ہوا۔ کیا وہ کسی بدشکل روح کی بدہیئت صورت میں دکھائی دیا نورانی فرشتے کے چہرے کے ساتھ نمودار ہوا؟ کیا وہ انسان کا بھیس بدل کر اس کے سامنے آیا یا صرف دلی خیالات کے وسیلے سے اس کے پاس آیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب دینا جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں۔ کہ یہ واقعات خواہ کسی صورت میں پیش آئے ہوں حقیقی واقعات تھے۔ کیونکہ جس بیان میںیہ واقعات قلمبند ہیں اس پر الہام کی مہر لگی ہوئی ہے اور ہم اس کی حقیقت پر شک نہیں لا سکتے۔ تینوں آزمائشوں میں شیطان کی بے نظیر مکاری اور آزمائشوں کی عالمگیری اور خیال کا انوکھا پن اور انسانی طبیعت کے علم کی باریک بینی ایسی ہے۔ جو انسان کی ایجاد کے دائرے سے بالکل باہر ہے۔

لیکن پھر یہ سوال پیش آتا ہے کہ شیطان نے اس کو اس متبرک عرصہ میں جبکہ وہ روزہ رکھے ہوئے اور الٰہی گیان دھیان میں مشغول تھا۔ کیوں اور کس طرح آزمایا؟

اس بات کے سمجھنے کئے لئے یہ ضروری امر ہے۔ کہ جو کچھ یہودی قوم کی نسبت تحریر ہو چکا ہے ہم اس پر پھر غور کریں اور خصوصاً اس بات پر کہ مسیح کی آمد اور اس کی بادشاہی کی نسبت جو امیدیں ان کے دلوں میں تھیں وہ کس قسم کی تھیں؟ وہ ایسے مسیح کی انتظاری کرتے تھے۔ جسے ان کے خیال کے مطابق لوگوں کو اپنی کرامات سے حیرت کا پتلا بنانا اور ایک عالمگیر سلطنت کی بنیاد ڈالنا تھا۔ اور جس کے کام کا مرکز یروشلیم کو بننا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ راست بازی اور پاکیزگی اس سے بعد کے زما نہ میں ہوں گی۔ پس انہوں نے مسیح کی بادشاہی کے الٰہی تصور کو بالکل الٹ دیا۔ وہ تصور تو روحانی اور اخلاقی خوبیوں کو پولٹیکل معاملات پر ترجیح دیتا تھا۔ مگر ان حضرات نے اس ترتیب کا کو خاک میں ملا دیا۔ اب جس بات میں مسیح کی آزمائش کی گئی وہ یہی تھی کہ اس کام کو پورا کرنے میں جو باپ نے اس کے سپرد کیا تھا۔ شیطان نے اس کو بہکانا چاہا اور کہا کہ تو پہلے اپنی قوم کی امیدوں کو تو کسی قدر پورا کر، ہاں مسیح نے ضرور محسوس کیا ہو گا۔ کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو میری قوم کے لو گ مایوس ہو جائیں گے۔ اور مجھ سے ناراض اور بے ایمانی کے پنجہ میں گرفتار ہو کر میری پیروی چھوڑدیں گے۔ پس اس کی مختلف آزمائشیں اسی ایک خیال کی مختلف صورتیں تھیں۔ مثلا ً سیری اور آسودگی کے لئے پتھروں کو روٹی بنانے کی ترغیب اس غرض سے دی گئی کہ وہ اپنی معجزانہ قدرت کو جو اسے عطاہوئی تھی۔ ایسی اغراض کے پورا کرنے میں صرف کرے جو اس اعلیٰ غرض سے کہیں کمتر تھیں۔ جس کے پورا کرنے کے لئے وہ قدرت اس کو دی گئی تھی۔ اور یہ آزمائش ان آزمائشوں میں جو بعد میں اس پر حادث ہوئیں پہلی تھی۔ کیونکہ اس کے بعد بھیڑ کا یہ درخواست کرنا کہ ہم کو ایک نشان دکھایا یہ کہنا کہ اگر تو صلیب پرسے اتر آئے۔ تو ہم تجھ پر ایمان لائےں گے اسی قسم کی آزمائشیں تھیں۔

یہ پہلی آزمائش جو اس سے علاقہ رکھتی تھی یا یوں کہیں کہ اس کا تعلق اس حیوانی روح سے تھا جو انسان اور حیوان دونوں میں موجود ہے مگر یہ آزمائش ایک کھلی صورت میں پیش نہیں آئی بلکہ شیطان اسے مکاری کے برقع میںپیش کرتا ہے۔ شیطان دراصل مگر در پردہ یہ کہہ رہا تھا۔ کہ اسرائیل کو بھی ایک مرتبہ بیابان میں فروتن بننا اور بھوک کے چنگل میں گرفتار ہونا پڑا لیکن خدا نے ان کو اس من سے جسے فرشتوں کی خوراک اور آسمانی روٹی کہنا چاہےے آسودہ کیا۔ اب کیا خدا کا بیٹا اس جنگل میں پانے لئے دستر خوان تیار نہ کرے۔ پس اگر تو چاہے تو بآسانی ایسا کر سکتا ہے۔ پھر دیر کرنے سے کیا فائدہ ؟ اگر ہاجرہ کے لئے جبکہ وہ غم کے مارے بے حال ہورہی تھی، فرشتے نے جائز سمجھا کہ اسے ایک کو آں دکھائے اور اور اگر بھوک سے مرتے ہوئے الیاس کے واسطے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فرشتہ اسے چھو کر اس کا کھانا اسے دکھائے تو کیایہ مناسب نہیں کہ خدا کا بیٹا جو فرشتوں کی خدمت گذاری کا محتاج نہیں بھوکا نہ مرے؟

جو جواب اس کو ملا اسے حکمت کی کان کہنا چاہےے۔ ہمارے خداوند نے اسی سبق کی طرف جو اسرائیل کو بیابان میں بھوک کے وسیلے سے سکھایا گیا تھا۔ اشارہ کرکے وہ الفاظ بیان فرمائے جو پرانے عہد نامےں نہایت پرُمعنی ہیں۔ کہ ”انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے“۔ کیسی عمدہ نصیحتیں ہمارے لئے ان کلمات میں چھپی ہوئی ہیں۔ کیا ہم ان سے یہ نہیں سیکھتے کہ ہمارے لئے مناسب نہیںکہ ہم نفس حیوانی کی ضرورتوں کی پیروی کریں اور نہ یہ زیباہے۔ کہ ہم اپنی زندگی اور عشرت کے لئے اپنے نفس کی طاقتوں کو بُرے طور پر استعمال کریں۔ ہم اپنے نہیں ہیں بلکہ خداوند کے ہیں۔ پس جن چیزوں کو ہم اپنا سمجھتے ہیں ہم ان کے ساتھ جو چاہیں سونہیںکرسکتے۔ جس طرح انسان میں جسمانی مادے سے بڑھ کر ایک روح موجود ہے اسی طرح مادی خواہشات سے بڑھ کر زندگی کے افضل اصول بھی اس میں موجود ہیں وہ جو یہ خیال کرتا ہے۔ کہ میں صرف روٹی سے جیوں گا۔ اور روٹی ہی کے حاصل کرنے میںجائز اور ناجائز کو ششوں کا کام میں لاتا ہے۔ وہ جب اس روٹی کے حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ تو اپنے آپ کو سخت تکلیف میں پائیگا۔ اور آخر کار خدا سے باغی ہو جائے گا۔ اور چونکہ وہ الٰہی اور روحانی خوراک کا جویاں نہیں ہوا ، لہذا وہ ضرور بھوکا مرے گا۔ پرو ہ جو یہ جانتا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہیں جیتا وہ شکم پوری کی خاطر ان برکتوں کو جن کے سبب سے زندگی پیاری معلوم ہوتی ہے۔ ہرگز نہ کھوئے گا۔ وہ اپنے فرض کا ادا کریگا،اور اپنے اپنے جسم کی محافظت خدا کے سپرد کرے گا۔ جس نے جسم کو پیدا کیا وہ آسمانی روٹی اور اس پانی کی تلاش میں رہے گا۔ جسے پی کر پھر کوئی پیاسا نہیں ہوتا۔

ہیکل کے کنگر ے پر سے اپنے تئیں گرانے کی آزمائش بھی گویا اچنبھے دیکھنے کے شوق کو پورا کرنے کی ایک ترغیب تھی کیونکہ لوگوں کے درمیان مسیح کی نسبت یہ خیال مروج تھا۔ کہ وہ لیکایک ہیکل پر سے کود کر لوگوں کے درمیان نمودار ہوگا۔ شیطان کی شرارت دیکھئے ! پہلے تو اس نے اس کے بھروسے پر حملہ کیا لیکن جب دیکھا کہ اس کا بھروسہ مضبوط ہے اور وہ نفسانی خواہشوں کے پھندے میں گرفتار نہیں ہوسکتا تو یہ دوسری پیش کرتا ہے۔ جس میں نفسانی خواہش کی ترغیب مطلق نہیں پائی جاتی۔ اس میں روحانی فخر یا شیخی کو اکساتا ہے گویا یہ کہتا ہے ، ہ تو خدا پر کامل بھروسہ رکھتا ہے۔ اگر سچ مچ تیرا بھروسا کامل ہے۔ تو ہیکل کے کنگر ے پر سے گر کر اس کا ثبوت دے۔ اگر تیرا بھروسابے نقص ہے تو اس وعدہ کو جو تیرے حق میں کیا گیاہے۔ برحق سمجھے گا ، اور اس کے مطابق عمل کرکے دکھائے گا۔ پھر دیکھئے چونکہ مسیح نے پہلی آزمائش کا جواب کلام الٰہی سے دیا تھا۔ اسی لئے اس دوسری آزمائش میں وہ بھی کلام کے ذریعہ سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ تیسری آزمائش میں وہ بھی کلام کے ذریعہ سے اس پر حملہ کرتاہے۔ تیسری آزمائش جو سب سے بڑی تھی۔ یہ تھی کہ شیطان کو سجدہ کرکے تمام دنیا کی بادشاہتوں پر قابض ہو۔ اس آزمائش کا یہ مطلب تھا کہ وہ اس عالمگیر تصور کا جو مسیح کی بادشاہی کے متعلق یہودیوں کے درمیان مروج تھا پابند ہو اور وہ یہ تھا۔ کہ وہ کہتے تھے ، کہ اس کی بادشاہی سراسر دنیاوی طاقت کا اظہار ہو گی۔ یہ آزمائش وہی آزمائش ہے جو خدا کے ہر خادم کے سامنے اس وقت آتی ہے جبکہ وہ یہ دیکھ کر اپنے دل میں کڑھتا ہے۔ کہ نیکی دنیا میں بہت کم ترقی کر رہی ہے۔ اس آزمائش میں خدا کے نیک اور سرگرم بندے بھی کبھی کبھی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ وہ مذہبی رسوم کے خارجی چھلکے کو پہلے پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس میں حقیقت کا مغز بھرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہی وہ آزمائش تھی جس میں حضرت محمد صاحب گرفتار ہوئے اور انہوں نے پہلے تلوار سے لوگوں کو مطیع کیا تاکہ بعد میں انہیں دیندار بنائیں۔ یہی وہ آزمائش ہے جس میں فرقہ جیرا واسٹ گرفتار ہے جو پہلے غیر قوموں کو بپتسمہ دیتے اور پھر ان کو انجیل سناتے ہیں۔

ہم کو ایک قسم کی دہشت دامن گیر ہوتی ہے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں۔ کہ کیا اس قسم کے ادنیٰ اور نالائق خیالات مسیح کی پاک اور مقدس روح پر سے بھی گذر سکتے تھے؟ کیا شیطان اس کو یہ ترغیب دے سکتا تھا۔ کہ تو خدا پر بھروسا رکھنا چھوڑدے اور مجھے سجدہ کر؟ اس میں شک نہیں کہ یہ آزمائشیں اسی طرح کمزور اور بیکار ہو کر لوٹ گئیں جس طرح سمندر کی موجیں سنگین چٹان سے ٹکر کھا کر واپس چلی جاتی ہےں۔ اور ہم یہ بھی نہ بھولیں کہ اس قسم کی آزمائشیں اس وقت سے پہلے بھی بار ہا نا صرت کی وادی میں اور پھر کئی دفعہ اس کی زندگی کے نازک وقتوں میں اس کے سامنے آئیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہےے کہ آزمایا جانا گناہ نہیں بلکہ آزمائش میں گرفتار ہو کر گر جانا گناہ ہے۔ اور یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ جس قدر کوئی شخص زیادہ کاملیت کے ساتھ پاک ہوتا ہے اسی قدر آزمائش کے درد کو زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اب اگرچہ شیطان نے اس پر فقط تھوڑے عرصے کے لئے حملہ کرنا چھوڑا تو بھی ہم اس جنگ کو فیصلہ کن سمجھیں کیونکہ اس نے اس موقع پر شکست فاش کھائی اور اس کی طاقت مغلوب ہو گئی۔ انگلستان کے مشہور شاعر ملٹن نے اس کی موقع پر اپنی کتاب ”پیرے ڈائز ر ی گنیڈ “ کو ختم کرکے مسیح کی کامل فتح کو خوب ظاہر کیا ہے۔ اب مسیح اپنے کام کی تجویز پر سوچتا ہو ا بیابان سے واپس آیا۔ اس نے پہلے ہی سے اپنی تجویز سوچ رکھی تھی۔ مگر اس وقت آزمائش کی آنچ کھا کر وہ اور بھی مضبوط ہوگئی۔ اس کی زندگی میں اور کوئی بات اتنی ابھری ہوئی نظر نہیں آتی جتنی یہ کہ اس نے بڑی مستقل مزاجی سے اپنی تجویز کو پورا کیا۔ جن لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ ان کی نسبت دیکھا جاتا ہے۔ کہ ان میں کئی ایسے گذرے ہیںجو اپنے کام کے متعلق کوئی خاص تجویز مد نظر رکھتے تھے۔ بلک انہوں نے رفتہ رفتہ خاص خاص حالات کے پیدا ہونے پر اس راستہ کو دیکھا جس پر انہیں قدم مارنا تھا۔ اور ان کے ارادوں میں نئے نئے واقعات اور دیگر اشخاص کے صلاح و مشورے نے نئی تبدیلیاں پیدا کیں۔ لیکن مسیح نے اپنا کام اپنی تجویز کو مکمل کرکے شروع کیا اور آخر تک ایک مرتبہ بھی سرمو اس تجویز سے ادھر اُدھر نہ ہوا۔ جس طرح وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اس پر قائم رہا اس طرح اپنی ماں اورشاگردوںکی دست اندازی کے وقت بھی اس پر جما رہا اور وہ تجویز یہ تھی۔ کہ وہ خدا کی بادشاہی کو لوگوں کے دلوں میں قائم کرکے اور اس کے انجام دینے میں پولیٹکل اور میٹر یل طاقت کو استعمال نہ کرے بلکہ محبت کی قدرت اور صداقت کی طاقت کو کام میں لائے۔

 

[١]  یوحنا بپتسمہ دینے والے اور مسیح کی ناواقفی جو مسیح کے بپتسمہ کے وقت ظاہر ہوئی، ہمیشہ سے معرض بحث میں رہی ہے۔ واقعی یہ ناواقفی حیرت انگیز ہے کیونکہ دونوں کی مائیں آپس میں رشتہ دار تھیں۔ اور دونوں کو اپنے فرزندوں کے معجزانہ طور پر پیدا ہونے اور ان کے جدا گانہ کام ، اور اس کام کے باہمی تعلق کی خبر تھی۔ پس یہ کیونکر ہوا کہ اتنی مدت تک یوحنا مسیح سے ناواقف رہا؟ اس سوال کا جواب متن میں دیا گیا ہے کہ یوحنا کا گھر ناصرت سے بہت دور تھا۔ اور اس کی طبیعت بھی عزلت پسند واقع ہوئی تھی۔ مگر انڈ ریوز صاحب نے اپنی ”لائف آف کرائسٹ “ کتاب میں اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ایک اور وجہ بیان کی ہے جو نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس نے ان ماوں کو ان کے بچوں کی عجیب پیدائش اورکام کی خبردی، اسی نے ان کے لبوں کو مہر خاموشی سے بند کر دیا تاکہ وہ کسی سے حتیٰ کہ اپنے بچوں سے بھی ان عجیب و غریب باتوں کا چرچانہ کریں ، تاکہ وہ خود بخود الٰہی انتظام اور ہدایت کے مطابق پرورش پا کر اور اس کی روح پاک سے معمور ہو کر اپنے اپنے کام اور باہمی تعلقات سے واقفیت پیدا کریں ، پس ان ماوں کا کام صرف یہ تھا۔ کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش دینداری کے اصول کے مطابق کر یں اور باقی باتوں کے پورا ہونے کی نسبت خاموش رہیں اور انہیں خدا کے ہاتھ سونپیں۔

 

پانچواں باب

اس کے کام کے حصے

ہمارے خداوند کا کام قریباً تین برس کے عرصے میں ختم ہوا اور ان میںسے ہر ایک سال اپنی اپنی خصوصیتیں رکھتا ہے۔ مثلاً پہلے سال اس کو بہت شہر ت حاصل نہ ہوئی ، اور چونکہ اس سال کے حالات مفصل قلمبند نہیں اور نیز وہ اس سال کے اندر رفتہ رفتہ لوگوں کے سامنے آیا ، لہذا ان دونوں باتوں کی وجہ سے ہم اس سال کو گمنامی کا سال کہیں گے۔ اس سال کا زیادہ حصہ یہودیہ میں صرف ہوا۔ دوسرے سال کو قبول عام کا سال کہہ سکتے ہیں۔ اس سال کے اندر اس کی شہرت تمام ملک میں پھیل گئی اور وہ شب و روز اپنے کام میں مصروف رہا ، یہاں تک کہ سب چھوٹے بڑے اس کے نام سے واقف ہو گئے۔ یہ سال گلیل میں صرف ہوا۔ تیسرے سال کو ہم مخالفت کا سال کہہ سکتے ہیں۔ اس سال کے دور میں عوام کی مہرو محبت کا فور ہو گئی۔ اور اس کے دشمن بڑے زور سے اس پر حملہ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ اسے جان سے مار ڈالا۔ اس آخر ی سال کے پہلے چھ مہینے گلیل میں صرف ہوئے اور باقی چھ مہینے ملک کے دیگر حصوں میں کٹے۔

جب ہم اس تقسیم پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمین معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خداوند کی زندگی اپنی ظاہر ی شکل کے اعتبار سے بڑے بڑے مصلحوں اور خیر خواہان بنی آدم کی زندگی سے بہت مشابہت رکھتی تھی۔ عموماً اس قسم کی زندگی ایسے وقت سے شروع ہوتی ہے۔ جبہ مصلح رفتہ رفتہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مائل کرنے لگتا ہے۔ اورپھر ایس زمانہ آتا ہے کہ اس کی تعلیم اور اصلاح شہرت کے وسیلہ سے ملک کے ہر کونے اور ہر گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔ اور آخر کار وہ دن آتے ہیں۔ جبکہ لوگوں کے تعصبات جن پر اس نے حملہ کیا تھا ازسر نو صف آرا ہوتے اور عوام کے جذبات کی تازہ جمعیت سے مسلح ہو کر اس پر ایسا حملہ کرتے ہیں۔ کہ اپنی نفرت کی دھن میں اسے چکنا چور کر ڈالتے ہیں۔

گمنامی کا سال

اس سال کی نسبت جو تحریری حالات ہم تک پہنچے ہیں وہ بہت ہی نامکمل ہیں مثلاً ان میں صرف دو یا تین واقعات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اور اس جگہ ان کا بیان انسب معلو م ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ مسیح کے آئندہ کام کی گویا ایک فہرست ہے۔

جب مسیح اپنی آزمائش کے چالیس دن پورے کر کے اور اپنے کام کی اس تجویز کو جو آزمائش کے وسیلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ اور اس تحریک کو جو بپتسمہ کے وقت سے اب تک اس کے سینہ میںجوش زن تھی۔ اپنے ساتھ لے کر بیابان سے واپس آیا تو ایک مرتبہ پھر یردن کے کنارے پر نمودار ہوا اور یوحنا نے گواہی دی۔ کہ یہی وہ میرا جانشین ہے جس کی بابت میں بار بار لوگوں کو خبر دے چکا ہوں۔ یوحنا نے اپنے کئی عمدہ شاگردوں سے اس کی ملاقات کر وائی اور انہوںنے اسی وقت سے اس کی پیروی اختیار کی۔ اغلب ہے کہ اس کے شاگردوں میں سے جو شخص سب سے پہلے مسیح سے دو چار ہوا، وہ یوحنا تھا۔ جو بعد میں مسیح کا سب سے پیارا شاگرد نکلا اور جس نے اس کی زندگی اور سیرت کی الٰہی تصو یر دنیا کے حوالے کی۔ یوحنا ہی نے اس پہلی ملاقات اور مکالمے کا بیان قلمبند کیا ہے۔ اور جو اثر مسیح کی عظمت اور پاکیزگی نے اس کے تایثر پذیروں پر ڈالا وہ اب تک تازگی کے ساتھ اس بیان سے مترشح ہے۔ دوسرے نوجوان جنہوں نے اسی وقت اس کی پیروی اختیار کی ، اندریاس ، پطرس، فیلبوس ، اور نتھایل تھے۔ یہ سبب نوجوان یوحنا بپتسمہ دینے والے کے وسیلے سے اس نئے استاد کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار کئے گئے اور گو انہوں نے اس موقعہ پر اپنے کام کاج کو ترک کرکے اس کی ایسی پیروی اختیار نہ کی جیسے کہ کچھ دن بعد کی تو بھی اس پہلی ملاقات میں ایسی تاثیریں ان پر طاری ہوئیں جو ان کی بعد کی زندگی کے لئے نئے سانچے کا کام کر گئیں۔ یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ آیا بپتسمہ دینے والے کے تمام شاگرد یکبار گی مسیح کے پیرو بن گئے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ جو سب سے اچھے تھے وہ ایک دم اس کے پیچھے ہولئے۔ تعبض مفسدوں نے بپتسمہ دینے والے کے دل میں بھی آتش حسد بھڑ کانی چاہی۔ چنانچہ اس نے کہا کہ ایک اور شخص تیری عزت اور مقدرت کی متاع کو لوٹ رہا ہے۔ لیکن وہ اس بزرگ آدمی کی خاصیت کو بخوبی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی اعلیٰ درجہ کی فرونتی ہی اس کی اعلیٰ درجہ کی بزرگی تھی۔ سو اس نے ان کو جواب دیا کہ میری خوشی یہی ہے۔ کہ میں گھٹوں ں اور وہ بڑھے اور بتایا کہ مسیح ہی وہ دلھا ہے۔ جو دلھن کو اپنے ساتھ بہشت میں لے جائے گا۔ میں تو فقط ضیافت کی خوشی کا تاج اسی کے سر پر سجا ہوا دیکھوں۔

اب یسوع اپنے ان نئے پیرووں کو ساتھ لے کر اور اس جگہ کو چھوڑ کر جہاں یوحنا کام کرتا تھا۔ شمال کی جانب قانائے گلیل کو روانہ ہواجہاں ایک شادی کی تقریب پر اسے جانا تھا کیونکہ وہاں جانے کے لئے اسے دعوت دی گئی تھی۔ وہاں اس نے پانی کو مے بنا کر اس معجزے کی قوت کو ظاہر کیا جو اسے دی گئی تھی۔ یہ معجزہ گویا اس کے جلال کا اظہار تھا۔ جو بالخصوص اس کے شاگردوں کے لئے جلوہ نما ہوا اور ہم پڑھتے ہیں کہ وہ اس وقت سے اس پر ایمان لائے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے اب پورے طور پر مان لیا ہے کہ یہی مسیح ہے علاوہ بریں اس معجزہ کا یہ بھی مقصد تھا۔ کہ وہ اس کے وسیلے سے اپنی خدمت کا اصل مطلب ظاہر کرے ،اور دکھائے کہ اس کا کام یوحنا بپتسمہ دینے والے کے کام سے بالکل مختلف ہے۔ یوحنا ایک گوشہ نشین اور صاحب ریاضت شخص تھا جو بنی آدم کی رہائش گاہوں اور مسکنوں سے قطع تعلق کرکے صحرا نشینی پسند کرتا تھا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحرا ہی میں اس نے اپنے سامعین کو جمع کیا لیکن مسیح کا یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کے گھروں میں خوشی کی خبرلائے۔ ہاں اسے ان کے عام کاروبار میں ان کے شامل حال ہو کر ان کے حالات کو خوشحالی کے نئے قالب میں ڈھالنا تھا۔ اور یہ تبدیلی گویا ایسی تھی جیسی کہ مے بنانے کی تبدیلی ہوتی ہے۔

اس معجزے کے بعد وہ عید فسح میں شامل ہونے کے بعد یہودیہ کو واپس آیا اور یہاں پہنچ کر ایک اور بھی زیادہ پُر تایثر ثبوت اس بشاش اور پر جوش طبیعت کا دیا جو ان دنوں اسے حاصل تھی یعنی ہیکل سے صرافوں اور اور بھیڑ بکری وغیرہ بیچنے والوں کو جنہوں نے اس کے صحن میں تجارت جاری کررکھی تھی۔ نکال کر اسے پاک صاف کیا۔ ان لوگوں کو اس ناجائز تجارت کی اجازت اس لئے دی گئی تھی۔ کہ اجنیوں کی ضرورتیں رفع کی جائیں۔ یعنی یہ سوداگر مسافروں کے پاس ایسے ذبیحوں کو فروخت کریں جو وہ غیر ملکوں سے اپنے ساتھ نہیں لا سکتے تھے اور نیز ان کو غیر ملکوں کے سکوں کے تبادلہ میںوہ یہودی سکے دیں۔جن میں انہیںہیکل کے نذرانے ادا کرنے پڑتے تھے۔لیکن جو کام بظاہر نیک صورت سے شروع کیا گیا تھا۔ وہ آخر کار عبادت میں ایک سخت رخنہ اندازی کا باعث اور نو مریدوں کوا س جگہ سے نکالنے کا موجب ہوا جو خدا نے انہیںاپنے گھر میں عطا کی تھی۔ یسوع نے اس شرم ناک حالت کو اپنے یروشلیم میں آنے کے موقع پر غالباً کئی بار غیرت کی نظر سے دیکھا ہو گا۔ مگر اب جبکہ وہ بپتسمہ پا کر نبیوں کی سی سرگرمی اور جوش سے معمور ہورہا تھا۔ اس نے علانیہ رواج پر حملہ کیا اور اس وقت بھی کچھ کچھ وہی شاہانہ دبدبہ اور الٰہی پاکیز گی اس کے چہر ے سے عیاں ہوئی ہو گی۔ جو اس وقت نمودار ہوئی تھی جبکہ وہ یوحنا سے بپتسمہ کا ملتجی ہوا اور وہ اس کی صورت کو دیکھ کر بالکل حیران سارہ گیاتھا۔ اس دبدبہ کے سبب سے اس نا ہنجار گروہ میں سے کسی نے اس کے برخلاف چوں تک نہ کی اور دیکھنے والوں نے اس کی صورت میں ان قدیم نبیوں کے آثار دیکھے جن کے سامنے کیا بادشاہ اور کیا غریب سب دم بخود ہو جاتے تھے۔اس کا یہ جعل گویا اس کے مصلحانہ کام کا آغاز تھا جس کا بیڑ ااس نے ان دینی خرابیوں کی اصلاح کے لئے اٹھایا تھا۔ جو اس وقت مروج تھیں۔

اس عید کے موقع پر اس نے کئی معجزے دکھائے جن سے ان اجنبیوں کے درمیان جو مختلف ملکوں سے اس شہر میں جمع ہو رہے تھے۔ اس کا چرچا پھیلا دیا ہو گا۔ ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس کے پاس ایک رات کو وہ عزت دار اور فکر کا شکار متلاشی آیا جس کے روبرو اس نے نئی بادشاہی کی خاصیت اور اس میں داخل ہونے کی شرائط پر وہ تقریر کی جو یوحنا کی انجیل کے تیسرے باب میں مرقوم ہے۔ قوم کے سرداروں میں سے ایک سردار کا کمال فروتنی کی روح سے اس کے پاس آنا گویا اس ی کامیابی کا ایک پرُ امید نشان تھا۔ لیکن نیکو دیمس ہی فقط اس زمرے میںسے تھا۔ جس پر مسیح کی قدرت کے ابتدائی اظہار نے دار الخلافہ میںگہرا اثر پیدا کیا۔

اس جگہ تک تو ہم مسیح کے کام کے شروع کا کسی قدر مفصل حال پاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد اس کے کام کے پہلے سال کا مفصل بیان یک بیک قطع ہو جاتا ہے۔ اور آئندہ آٹھ ماہ کی نسبت صرف اتنا پتہ ملتا ہے۔ کہ وہ یہودیہ میں بپتسمہ دیتا تھا۔ ”اگرچہ یسوع آپ نہیں بلکہ اس کے شاگرد بپتسمہ دیتے تھے“۔ اور یہ کہ وہ یوحنا کی نسبت زیادہ لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور شاگرد بناتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو کچھ ہمیں اس سال کے نسبت معلوم ہے وہ صرف چوتھی انجیل سے معلوم ہوا ہے۔ پہلی تین انجیلیں بالکل اس سا ل کے حالات کو بیان نہیں کرتیں۔ وہ گلیل کے کام سے شروع ہوتی ہےں۔ البتہ ان سے اتنا اشارہ ملتا ہے۔ کہ گلیل میں کام کرنے سے پہلے یہودیہ میں بھی اس نے کام کیا تھا۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ خاموشی کیوں اختیار کی گئی اور اس سال کے مفصل حالات کیوں درج نہیں کئے گئے ؟ اس کا جواب دینا ذرا مشکل کام ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوحنا جو یہاں تک واقعات کو بالتفصیل بیان کرتا آیا ہے آن آٹھ ماہ کے واقعات سے ناواقف نہ تھا۔ لہذا اس کی خاموشی کا کوئی اور ہی سبب ہو گا۔ مگر وہ کونسا سبب ہے ؟ شاید ہم اس مشکل کا حل کسی قدر یوحنا کے اس اشارہ میں پاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کےلئے مسیح نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا کام اختیار کیا یعنی وہ اپنے شاگردوں کے وسیلے سے بپتسمہ دیتا اور یوحنا سے بھی زیادہ شاگرد بنا تا رہا۔ اب کیا اس کایہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اس نے یہ جان کر کہ عید فسح کے موقع پر میرے اظہارات نے جو اثر پیدا کیا اس سے عیاں ہے کہ میری قوم ابھی مجھ کو مسیح سمجھ کر قبول کرنے کو تیار نہیں ؟ پس انسب ہے کہ جو کام تو بہ اور بپتسمہ کے وسیلے سے اس قوم کو تیار کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ وہ بھی جاری رہے؟ پس اس بات کو اپنے دل میں جگہ دے کر اس نے ایک مدت کے لئے اپنی اعلیٰ ذات اور عہدہ کو چھپایا اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ہم خدمت بننا مناسب سمجھا۔

پہلی تین انجیلوں میں جو خاموشی اس عرصہ کے متعلق پائی جاتی اور نیز اس بات کے متعلق کہ وہ اس کے بعد مسیح کے یروشلیم آنے کا حال بھی رقم نہیں کرتیں اس کی یہ شرح پیش کی جاتی ہے کہ مسیح پہلے یہودی قوم کے پاس آیا جس کے بااختیار پیشوا یروشلیم میں موجود تھے اور وہ وہی مسیح تھا جس کا وعدہ ان کے باپ دادوں سے کیا گیا اور جس میں ان کی تاریخ اپنے کمال کوپہنچنے والی تھیں اس میں شک نہیں کہ اس کا کام تمام دنیا میں پھیلنے کو تھا مگر ضرور تھا کہ وہ اسے یہودیوں سے شروع کرے لیکن اس قوم نے اپنے سرداروں کے وسیلے سے اسے رد کر دیا۔ لہذا وہ مجبور ہوا کہ اپنی جماعت کسی اور مرکز پر جمع کرے اور چونکہ یہ نکتہ اس وقت جبکہ اناجیل تحریر ہوئیں بخوبی صاف ہو گیا تھا۔ پس پہلے تین حواریوں نے اس کام کو نظر انداز کر دیا۔ جو قوم کے دارالخلافہ اور دیگر بڑی بڑی جگہوںمیں کیا گیا تھا کیونکہ اس سے کوئی بڑے نتائج پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اور اپنی توجہ اس زمانہ پر لگائی جبکہ اس نے ایمانداروں کی جماعت کو فراہم کیا تاکہ اپنی کلیسیاءکی بنیاد ڈالے۔ یہ خیا ل صحیح ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات میں شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ مسیح کے پہلے ہی سال کے کام کے آخر میں یہودیہ اور یروشلیم پر اس خوفناک واقعہ کا سایہ پڑگیا جو کچھ عرصہ کے بعد وجود میں آنے والا تھا یا یوں کہیں کہ اس بدترین قومی جرم کر سایہ پڑگیا جس کی مانند دنیا میں اور کوئی قبیح جرم سرزد نہیں ہو ااور وہ جرم یہ تھا۔ کہ یہودیوں نے اپنے مسیح کو رد کیا اور صلیب پر چڑھا یا۔

چھٹا باب

دوسرا سال ،قبول عام

ہمارے خداوند نے جنوبی اطراف یعنی (یہودیہ ) میں سال بھرکام کرنے کے بعد پھر شمال کا رخ کیا۔ کیونکہ گلیل کے رہنے والوں میں نہ تو وہ تعصبات پائے جاتے تھے۔ جو باشندگان یہودیہ میں تھے۔اور نہ ان میں وہ بے جا فخر موجود تھا۔ جو یہودیہ کے رہنے والوں میں پایا جا تا تھا۔ لہذا اس کو یہ امید تھی کہ میں گلیل میں ایسے لوگوں سے دو چار ہو ں گا۔ ججو ان عیوب سے پاک ہیں۔ علاوہ بریں اس نے یہ بھی سوچا ہو گا۔ کہ گوگلیل اس جگہ سے جو قوم کے کے پیشواوں کا مرکز ہے۔ بہت دور ہے تو بھی تو میری تعلیم اور میرے نمونہ کی تاثیر ملک کے ایک حصہ میں بخوبی جڑپکڑ گئی تو میں قومی امداد پر تکیہ کرکے جنوب کی طرف پھر جاونگا۔ اور ہر طرح کے کے تعصب کو بیخ و بن سے اڑا دوں گا۔

گلیل صوبہ گلیل جس میںآئندہ اٹھارہ ماہ تک ہمارے خداوند نے کام کیا ایک چھوٹا سا علاقہ تھا بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ تما م فلسطین ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ چنانچہ اس کا طول سکاٹ لینڈ کے طول سے قریباً سو میل کم تھا۔اور اسی طرح اس کا عرض بھی سکاٹ لینڈ کے عام عرض سے بہت تھوڑا تھا۔ ہماری رائے میں اس بات سے واقف ہونا بہت ضروری امر ہے کیونکہ اس سے اس تیزی کا حال بخوبی کھل جا تا جس سے وہ تما م ملک کا دورہ کیا کرتا تھا۔ اور جگہ جگہ کے لوگ اس کا کلام سننے کے لئے اس کے پس جمع ہو جایا کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ بتانا بھی خالی از فائد ہ نہیں کہ جن لوگوں نے تہذیب کو ترقی دی ہے۔ وہ اپنی حقیقی عظمت کے ایاّم میں چھوٹی چھوٹی جگہوں سے وابستہ تھے۔ مثلاً روم ایک اکیلا شہر اور یونان ایک چھوٹا سا ملک تھا۔

ملک فلسطین چار حصوں میں منقسم اور ان میں سے گلیل سب سے شمال میں واقع تھا۔ یہ صوبہ ساٹھ میل لمبا اور تیس میل چوڑا تھا۔ اس کی زمین بیشتر مرتفع تھی۔ اور بے ترتیب پہاڑوں کی مداخلت سے کہیں اونچی اور کہیں نیچی تھی۔ مشرقی سرحد پر ایک نشیب واقع تھا جس کے بیچ میں سے دریائے یردن گرزرتا تھا۔ اور جس کے وسط میں جھیل گلیل بحیرہ اعظم کی سطح سے قریباً ٥٠٠ فٹ نیچے بربط کی طرح واقع تھی۔ تمام ملک زرخیزی اور زرریزی سے مالا مال تھا۔ جابجا دیہات اور شہر آباد تھے۔وسعت کے مقابلے میں آبادی بہت زیادہ تھی۔ جھیل کے کنارے پر ہر قسم کے کار بار کا بازار گرم تھا۔ یہ جھیل تیرہ میل لمبی اور چھ میل چوڑی تھی۔ اس کے مشرقی ساحل کے گرد ایک سبز قطعہ ١/٤ میل وسیع اس طرح واقع تھا۔ کہ گویا چاندی کی چادر پر سبز مخمل کی مغزی لگی ہے۔ اس کی دوسری جانب بڑے بڑے پہاڑ کھڑے تھے۔جن کی سطح پر سبزے اور گھاس کا نام ونشان نہ تھا۔ بلکہ جابجا وہ نالیاں جو ندی نالوں کے بہاو سے پیدا ہو گئی تھی۔ دکھائی دیتی تھی مگر مغربی ساحل کے نزدیک یہ پہاڑکسی قدر ہموار ہو گئے تھے۔ لہذا جا بجا کا شت اور سبزے سے ملبس دکھائی دیتے تھے۔ کھیتوں سے ہر طرح کا اناج پیدا ہوتا تھا۔ اور جھیل کا کنارہ جو دامن کوہ سے لگا ہوا تھا۔ زیتون اور نارنگی اور انجیر کے خوبصورت درختوں سے پرُ بہار تھا۔ شمالی سرحد کا نقشہ کچھ اور ہی تھا۔ وہاں جھیل اور پہاڑوں کے درمیان جو جگہ واقع تھی۔ وہ دریا کے ڈیلٹا ، کے سبب سے ایک وسیع میدان کی شکل رکھتی تھی۔ اور ان ندی نالوں سے سیراب ہوتی تھی۔ جو پہاڑوں سے نکلتے تھے۔ یہ جگہ گنیسرت کا میدان کہلاتی تھی۔ اور اپنی خوش نمائی اور زرخیری کے باعث باغ ارم کا مقابلہ کرتی تھی۔ اب بھی جبکہ جھیل کے طاس کا باقی حصہ ویرانہ سا پڑا ہے جہاں کہیں اہل زراعت کا ہاتھ پہنچتا ہے وہاں یہ جگہ خوبصورت کھیتوں سے لہلہاتی ہے اور جہاں زراعت نہیںہوتی وہاں خاردار جھاڑیوں کے جنگل کھڑے ہیں۔ ہمارے خداوند کے زمانہ میں کفر نحوم ، بیت صیدا اور قرازین بڑے بڑے شہر آبادتھے۔ مگر چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاوں سے جھیل کا ساحل بھرا پڑا تھا۔ اور بے شمار لوگ اس جگہ ہر وقت موجود رہتے تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں کثرت سے دستیاب ہوتی تھیں۔ کھیتوں اور باغوں سے ہر طرح کا اناج اور پھل برآمد ہوتا تھا۔ جھیل میں اس قدر مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔کہ ہزار ہا ماہی گیر انہیں سے روزی کماتے تھے اور علاوہ بریں وہ راستے جو مصر اور دمشق ، فنیکی اور فرات کے درمیان واقع تھے۔ وہ بھی اسی جگہ سے گزرتے تھے اور ان کے سبب سے یہ جگہ تجارت کی منڈی بن گئی تھی۔ جھیل کی سطح پر ہزاروں کشتیاں دکھائی دیتی تھیں۔ کئی ماہی گیری کی غرض سے اور کئی مال اسباب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے اور کئی تفریخ طبع کے واسطے استعمال کی جاتی تھیں۔ غرضیکہ یہ علاقہ کام اور رونق کے اعتبار سے زندگی اور اقبال مندی کا مرکز تھا۔

جو معجزات ہمارے خدا وند نے یروشلیم میں دکھائے ان کی خبر ان لوگوں کے وسیلے سے جو عید سے واپس آئے گلیل میںپہنچ گئی تھی۔ اور اغلب ہے کہ اس کی منادی اور بپتسمہ کا چرچا بھی اس کے وراد ہونے سے پہلے گلیل میں شروع ہو گیا تھا۔ پہلے پہل تو وہ ناصرت کی طرف روانہ ہو ا جہاں اس نے پرورش پائی تھی۔ اور وہاں سبت کے روز عبادت خانہ میں داخل ہوا۔ وہا ںاس سے درخواست کی گئی کہ کلام الٰہی پڑھے اور حاضرین کو پندو نصیحت سے بہرہ ور فرمائے کیونکہ اس کی منادی کی شہرت بھی جا بجا پھیل گئی تھی۔ اس موقع پر مسیح نے یسعیاہ بنی کی کتاب سے ایک جگہ جس میں مسیح کی آمد اور کام کا بہت عمدہ بیان پایا جاتا ہے پڑھ کر سنائی۔ خداوند کی روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبرسناوں۔ کچلے ہووں کو آزاد کروں او ر خداوند کے سا ل مقبول کی منادی کروں۔ جب اس نے ان آیات کا مطلب سمجھانا اور مسیح کے زمانے کی خصوصیتوں کی تصویر کھینچنا شروع کیا۔ یعنی جب غلاموں کی آزادی اور غریبوں کی دولت مندی اور مریضوں کی سفا یابی کا راز ظاہر فرمایا تو سامعین کے دل میں جن کے درمیان اس نوجوان واعظ نے پرورش پائی تھی۔ یہ شوق پیدا ہوا کہ اس کی باتیں کان لگا کر سنیں۔ چنانچہ کچھ مدت کے لئے سب ہمہ تن گوش معلوم ہوتے تھے۔ اور سب طرف سے تحسین و آفرین کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ ان دنوں یہودی عبادت خانوں میں تحسین و آفرین کے کلمات کا استعمال بیجا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آن کی آن میںیہ نقشہ بالکل بدل گیا اور لوگوں نے کانا پھوسی شروع کی۔ کوئی کہتا تھا ”کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو ہمارے یہاں کام کیا کرتا تھا“؟کوئی بول اٹھا ”کیا اس کے ماں باپ اسی جگہ کے رہنے والے نہیں “؟ کوئی پوچھتا تھا ”کیا اس کی بہنوں کی شادی اسی شہر میں نہیں ہوئی “؟ غرضیکہ آتش حسد بھڑک اٹھی اور جب اس نے یہ بتا یا کہ جو نبوت اس وقت پڑھی گئی ہے۔

وہ مجھ میں پوری ہوئی تو وہ لوگ سخت غصے سے بھر گئے اور کہا کہ جیسے نشان تو نے یروشلیم میں دکھائے ہیں۔ ویسے ہی یہاںبھی دکھا لیکن اس نے انہیںجواب دیا کہ میں بے ایمانوں کے درمیان کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ یہ سن کر انہوں نے بڑے غضب کے ساتھ حملہ کیا اور اسے عبادت خانہ سے نکال کر فوراً شہر کے پچھواڑے ایک ٹیلے پر لے گئے تاکہ وہاں سے سر کے بل گرادیں۔ اور اگر کوئی معجزانہ طور پر غائب نہ ہو جاتاتو گراہی دیتے اور اپنی ضرب المثل شرارت پر مسیح کے قاتل ہونے کی شہرت کو اضافہ کرتے جو بعد میں یروشلیم کے حصہ میں آئی۔

اس موقع کے بعد اس نے ناصرت کو بالکل چھوڑ دیا۔ البتہ ایک مرتبہ پھر پرانے واقفوں کی محبت کے باعث وہاں گیا مگر اس وقت بھی کوئی تسلی بخش نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ پھجر اس نے کفر نحوم میں جو بحیرہ گلیل کے شمال مغربی ساحل پر واقع تھا۔ رہنا اختیا ر کیا۔ یہ شہراب بالکل معدوم ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ کون سی جگہ آباد تھا اور شاید یہی سبب ہے کہ ہمیں اس شہر اور مسیح کی زندگی میں ایسا ربط محسوس نہیں ہوتا جیسا دیگر مقاموں کی کی بابت ہوتا ہے۔ مثلاً بیت لحم جہاں وہ پیدا ہوا۔ ناصرت جہاں اس نے پرورش پائی اور یروشلیم جہاں وہ مصلوب ہوا ہماری یادداشت میں ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ لیکن انسب ہے کہ ان جگہوں کے ساتھ ہم کفر نحوم کو بھی اپنے حافظہ میں جگہ دیں کیونکہ آئندہ اٹھارہ ماہ کے لئے( یہ عرصہ اس کی زندگی کا ایک افضل حصہ تھا ) یہی جگہ اس کا گھر یا مسکن تھی۔ یہ جگہ اس کا شہر کہلاتی تھیاور اسی کا باشندہ ہونے کے سبب اسے جزیہ بھی دینا پڑا۔ کفر نحوم گلیل میںکام کرنے کے لئے ایک عمدہ مرکز تھا کیونکہ جس قدر کارروائی جھیل گلیل کے قرب و جوار میں ہوتی تھی۔ اس کا مرکز یہ شہر تھا۔ مزید برآں کفر نحوم سے صوبہ گلیل کے دیگر حصوں میں بآسانی جاسکتے تھے۔ اور جو کچھ اس شہر میںسرزد ہوتا تھا۔ اس کی خبر بھی بہت جلد دوسرے علاقوں میں پھیل جاتی تھی۔

اب اس نے کفر نحوم میں کام شروع کیا۔ اور کئی ماہ تک یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس جگہ کو اپنی خاص قیام کی جگہ بنایا اور یہاں سے ہر طرف دورہ کرنا اور گلیل کے قصبوں اور گاوں میں منادی کرنا شروع کیا۔ کبھی کبھی مغرب کی جانب ملک کی اندرونی اطراف کو جاتا ہو گا۔ اور کبھی ان گاوں کا دورہ کرتا ہو گا جو جھیل کے کنارے پر واقع تھے اور کبھی اس ملک کو تشریف لے جا تا ہو گا۔ جو مشرقی ساحل پر واقع تھا۔ ایک کشتی ہر وقت تیار رہتی تھی۔ تاکہ جہاں کہیں وہ جانا چاہے بآسانی جا سکے۔ دورہ کرنے کے بعد کفر نحوم کو واپس آجاتا ہو گا اور وہاں کبھی ایک دن کبھی ایک ہفتہ اور کبھی دو ہفتہ کے لئے قیام کرتا ہو گا۔

چند ہفتوں کے عرصہ میں اس کا نام تما م ملک میں مشہور ہو گیا۔ جدھر دیکھو اُدھر اسی کا چرچا ہوتا تھا۔ کشیتوں میں لوگ اسی کی باتیں کرتے تھے اور گھر گھر میں اسی کے نام کا ورد ہوتا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں عجیب قسم کی تحریک پیدا ہو رہی تھی۔ جسے دیکھو وہی اس سے دیدار کا مشتاق تھا۔ ہزاروں لوگ اس کے پاس جمع رہتے تھے۔ اور روز بروز ان کا شمار بڑھتا جاتا تھا۔ جہاں کہیں وہ جاتا تھا۔ کے پیچھے جاتے تھے۔ یوں تھوڑے سے عرصہ میں اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور بے شمار لوگ یروشلیم ، یہودیہ ، اور پیریا سے آنے لگے بلکہ ادومیہ سے بھی جو کہ جنوب میں واقع تھا اور اسی طرح صور اور صیدا سے جو شمال میں واقع تھے۔ ہزارہا آدمی آتے تھے۔ اور کبھی کبھی اس کثرت سے جمع ہوتے تھے کہ جگہ چھوڑنی پڑتی تھی کیونکہ لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ ایسے ایسے موقعوں پر میدانوں اور بیابانوں میں لوگوں کو لے جانا پڑتا تھا ، غرضیکہ تمام ملک ایک سرے سے دوسرے سرے تک حرکت میں آیا ہوتا تھا اور گلیل میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں لوگ اس کے نام سے واقف نہ تھے۔

اب یہ سوال پیش کرآتا ہے کہ مسیح نے کونسا طریقہ اختیار کیا جو تما م ملک میں ایسی حرکت پیدا ہو گئی ؟ واضح ہو کہ یہ تحریک اس دعویٰ کا نتیجہ نہ تھی کہ یسوع ناصر ی مسیح موعود ہے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ دعویٰ تما م ملک کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک عجیب جوش سے بھر سکتا تھا۔ مگر مسیح نے ابھی اس دعویٰ پر بہت زور دینا شروع نہیں کیا تھا۔ البتہ کبھی کبھی اشارتاً جتا دیا کرتا تھا۔ کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کی راہ تم دیکھ رہے ہو جیسا کہ اس نے ناصرت کے عبادت خانے میں کیا۔ مگر متواتر یا پے در پے اسی دعویٰ کو پیش نہیں کیا کرتا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ گلیل کے لوگ ایسے تھے جو جلد متاثر ہو کر جوش میں آ جانے والے تھے۔ علاوہ بریں وہ مسیح کی بادشاہی کی دینوی شان وشوکت کے نہایت دلدادہ تھے پس اگر ان کے سامنے یہ دعویٰ بار بار کیا جاتا تو ممکن ہے کہ وہ رومی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے بغاوت پر آمادہ ہو جاتے اور اس ناسزا حرکت کا یہ نتیجہ ہوتا کہ لوگوں کے دل مسیح سے منحرف ہو جاتے اور وہ رومی تلوار کا شکار بن جاتا اور اگر یہ دعویٰ یروشلیم میںکیا جاتا تو وہاں بھی یہی خطرہ تھا۔ کہ یہودی اس کے برخلاف اٹھ کر اس کا کام تمام کر ڈالتے۔ پس ہر طرح کی خلل اندازی سے بچنے کے لئے اس نے یہی بہتر سمجھا کہ میرے ذات اور عہدے کی حقیقت کچھ عرصہ کے لئے منکشف نہ ہو اور لوگوں کے دل تیار کئے جائیں۔ تاکہ جب اظہار و انکشاف کا وقت آئے تو میری بادشاہی کو جلد قبول کر لیں مگر فی الحال یہی بہتر ہے کہ میری سیرت اور کام کو دیکھ کر وہ آپ ہی نتیجہ نکالیں کہ میں کون ہوں۔ پس وہ وسیلے جو اس نے آپ کام میں استعمال کئے اور جن کی وجہ سے لوگ اس قدر جوش وخروش سے بھر گئے اور اس کی طرف راغب ہوئے وہ ہی تھے۔ یعنی اس کی منادی اور اس کے معجزات تھے۔

مسیح کے معجزات :شاید اور سب باتوں کی نسبت اس کے معجزات نے لوگوں کو زیادہ تر اس کی طرف راغب کیا۔ انجیل کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کفرنحوم میںجو معجزہ اس نے پہلے پہل دکھا یا اس کی خبر پھول کی خوشبو کی طرح تمام شہر میں پھیل گئی اور ہزاروںاشخاص اس گھر پر جہاںوہ رہتا تھا۔ جمع ہو گئے اور جب کبھی وہ کوئی عجیب قسم کا معجزہ دکھا تا تھا۔ تو لوگوں کا جوش اور بھی دوبالا ہو جاتا تھا اور اس کی خبر ہر جگہ پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً جب اس نے پہلی دفعہ کوڑھ کی بیماری کو دور کیا تو لوگ حیرت سے بھر گئے اور یہی حال اس وقت ہوا جب اس نے پہلی دفعہ ایک دیو کو نکا لا اور جب اس نے ایک بیوہ کے لڑکے کو شہر نائن میں زندہ کیا تو پہلے سب لوگوں پر خوف چھا گیا پھر سب کے سب خوشی سے بھرگئے اور حیرت اور تعجب سے معمور ہو کر اس عجیب واقعہ کی بابت آپس میں گفتگو کرنے لگے۔تمام گلیل میں عجیب قسم کی حرکت پیدا رہوگئی۔ ہزار ہا بیمار جو چل سکتے تھے۔ یا گرتے پڑتے اس کے پاس آسکتے تھے، آتے تھے اور جو آپ نہیں چل سکتے تھے۔ انہیں ان کے دوست چار پائیوں پر اٹھا کر اس کے پاس لاتے تھے۔ غرضیکہ شہروں اور گاوں کی گلیاں جدھر سے اس کا گزر ہوتا تھا۔ بیماروں سے بھر جاتی تھیں اور کبھی کبھی شمار اس قدر بڑھ جاتاتھا کہ اسے کھا نا کھانے تک کی بھی مہلت نہیں تھی چنانچہ ایک دفعہ وہ اس محبت بھرے کام میںایسا ستغرق ہوا اور لوگوں کے دکھوں کو دیکھ کر ایسا جو ش میں آیا کہ اس کے رشتہ دار اسی رقت کو دیکھ کرنا مناسب مداخلت پر آمادہ ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ وہ بیخود ہوگیا ہے۔

ہمارے خداوند کے معجزات دو قسم کے تھے یعنی اوّل وہ جن سے بیمار چنگے کئے گئے اور دوم وہ جو فطرت کی طاقتوں پر غالب آئے۔ مثلاً پانی کومے بنانا، طوفان کو تھما دینا اور روٹیوں کے شمار کو بڑھانا۔ لیکن پہلی قسم کے معجزے دوسری قسم کے معجزوں سے شمار میں بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اس نے طرح طرح کی بیماریوں کو اپنی معجزانہ قدرت سے دور کیا۔ لنگڑوں کو چلنے، اندھوں کو دیکھنے اور بہروں کو سننے کی طاقت عطا فرمائی اور مغلوجوں کو چنگا اور کوڑھیوں کو پاک صاف کیا۔ وہ ان میں طرح طرح کے طریقے کام میں لاتا تھا۔ لیکن ہم کو یہ وجہ معلوم نہیں کہ وہ کیوں ایسا کرتا تھا۔ کبھی تو وہ بیمار کو چھوتا تھاکبھی گیلی مٹی آنکھ پر لگا تا تھا اور کبھی مریض کو غسل کرنے کا حکم دیتا تھا۔ اور بسا اوقات بلاوسائل بھی مریض کو چنگا کر دیتا تھا۔ بلکہ کبھی کبھی بیمار کو دیکھتا بھی نہ تھا اور ہی سے کہہ دیتا تھا۔ اور وہ چنگا ہو جاتا تھا جسمانی امراض کے علاوہ وہ عقلی امراض کو بھی اپنی معجزانہ قوت سے دور کر دیا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے زمانے میں عقلی امراض کثرت پھیل گئے تھے۔ اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک طرح اسی زمانہ کے ساتھ مخصوص تھے۔ لوگ ان سے بہت ڈرتے تھے اور خیال کرتے تھے۔ کہ یہ امراض بدروحوں کے داخل ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ خیال ان کا بالکل صحیح تھا۔ وہ شخص جسے مسیح نے گدرینیوں ملک میں قبروں کے درمیان چنگا کیا اس ہولناک مرض کا ایک عجیب نمونہ ہے۔ اس کا کپڑے پہن کر اور شفا پا کر مسیح کے پاوں کے پاس بیٹھنا ظاہر کر تا ہے۔ کہ مسیح کی پرُ محبت اور تسلی بخش اور شاہانہ حضوری ان لوگوں کے دلوں پر جن کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ عجیب قسم کا اثر رکھتی تھی۔ لیکن مسیح کے معجزات میں سے سے مردوں کو زندہ کرنے کے معجزات سب سے زیادہ حیرت انگیز تھے گو وہ باربار وقوع میں نہیں آتے تھے۔ تو لوگوں کو حیرت کا پتلا بنا دیتے تھے۔ دوسری قسم کے معجزے بھی یعنی وہ جو دائرہ فطرت میں نمودار ہوئے اسی طرح بیان سے باہر ہیں۔ اگر وہ فقط عقلی امراض کو چنگا کرتا تو شائد لوگ یہ کہتے کہ اس کی زور آور طبیعت کے اثر نے عقلی نقصوں کو دور کر دیا۔ اور بعض جسمانی امراض کی مدافعت کی نسبت بھی یہ کہا جا سکتا تھا۔ کہ وہ ایک پرُزور مرضی کی تایثر کے وسیلے سے دور کئے گئے ، لیکن موج مارتے سمندر کی سطح پر چلنا ہر طرح کی تفسیر کے دائرہ سے باہر ہے۔

اب یہ سوال پیش کرتا ہے کہ مسیح نے کس لئے اپنے کام میں معجزات کو ایک وسیلہ بنایا ؟ اس سوال کے کئی جواب دیئے جا سکتے ہیں۔

(۱)اس نے یہ معجزات اس لئے دکھائے کہ اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو۔ گویا معجزات وہ ”نشانات “تھے جو اس کی رسالت کو ثابت کرتے تھے۔ پرانے عہد کے کئی نبیوں کو اس سے پہلے معجزات دکھانے کی قدرت عطا کی گئی تاکہ ان کی رسالت پایہ ثبوت کو پہنچے اور گو یوحنا بپتسمہ دینے والے نے جو مدت دراز کے بعد عہدہ نبوت کو تازہ کرنیوالا شخص تھا کوئی معجزہ نہ دکھایا جیسا کہ ہم اناجیل کے سادے اور سچے بیان سے معلوم کرتے ہیں۔ تو بھی مسیح کے لئے جو بزرگ سے بزرگ نبی سے بھی بزرگتر تھا۔ معجزات کی نفی زیبانہ تھی بلکہ ضرور تھا۔ کہ وہ گذشتہ نبیوں کے معجزات سے بڑے بڑے معجزات دکھا کر اپنی رسالت کو ثابت کرے۔ اس کا یہ دعویٰ کہ میں مسیح ہوں ایک عظیم دعویٰ تھا اور وہ لوگ جو رسالت کے ثبوت میں معجزات دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ اس کے ایسے دعویٰ کو ہرگز قبول نہ کرتے اگر وہ کوئی معجزانہ نشانات نہ دکھاتا۔

(۲)پھر مسیح کے معجزات اس الٰہی بھر پوری یا الوہیت کے کمال کا جو اس میں مجسم ہو رہا تھا۔ لازمی اظہار تھے وہ خدا کا مظہر تھا اور اس کی انسانیت روح القدس کی بے قیاس قدرت سے مالا مال تھی۔ پس یہ بات قواعدفطرت کے عین مطابق تھی۔کہ جب ایسا شخص دنیا میں آئے تو عجیب قسم کے کام اس سے سرزد ہوں۔ وہ وہ بذات خود ایک عجیب معجزہ تھا اور اس کے دیگر معجزات اس بڑے معجزے کی کرنیں تھے۔ اس کا اس دنیا میں قدم رکھنا بذات خود قانون قدرت کی ترتیب کے برعکس تھا یا یوں کہیں کہ اس کا اس دنیا میں آنا گویا انتظام موجوادت میں ایک نئے عنصر کا داخل ہونا تھا۔ تاکہ دنیا کو اپنی حضوری کی برکتوں سے مالا مال کرے اور جب وہ داخل ہوا تو اس کے ساتھ اس کے معجزے بھی داخل ہوئے نہ اس لئے کہ ترتیب میں فتور پیدا ہو بلکہ اس لئے کہ جو خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی اصلاح کی جائے لہذا اس کے تمام معجزات نہ صرف اس کی الٰہی قدرت کا اظہار تھے۔ بلکہ اس کی پاکیزگی اور حکمت اور محبت کو بھی ظاہر کرتے تھے۔ یہودی اکثر اس سے بڑے بڑے اچنبھے طلب کیا کرتے تھے۔ تاکہ عجائبات دیکھنے والی ہوس کو پورا کریں مگر وہ کبھی ان کو کہنا نہیں مانتا تھا۔ اور صرف اسی قسم کے معجزے دکھایا کرتا تھا۔ جو ایمان کو تقویت دینے کے لئے ضروری شرط تھا۔ غرضیکہ وہ نہ کبھی لوگوں کے شوق کو پورا کرنے کے لئے اور نہ کبھی ان بے ایمانوں منہ بند کرنے کے لئے معجزے دکھا تا تھا جو اکثر اوقات اس سے معجزے طلب کیا کرتے تھے۔ اس کے معجزات پر یہ خاصیت انہیں ان اچنبھوں سے جدا کرتی ہے۔ جو قدیم اچنبھے دکھانے والوں یا رومن کتیھلک درویشوں سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ مسیح کے معجزات پر سنجیدگی اور رحم اور محبت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی سیرت کا اظہار تھے۔

(۳) اس کے معجزات اس کے روحانی اورنجات بخش کام کی علامتیں ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر غورکریں تو آپ قائل ہو جائیں گے کہ اس کے معجزات دنیا کی خرابی اور تکلیف پر فتح پانے کا نشان تھے۔ بنی آدم کئی قسم کی خرابیوں کا شکارہو گئے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ تمام فطرت کے ڈھانچے میں وہ آثار ہو گئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ تمام فطرت کے ڈھانچے میں وہ آثار پائے جاتے ہیں جو کسی گزری ہوئی تباہی پر دلالت کرتے ہیں۔ ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردزہ میں پڑی تڑپتی ہے“۔

موجودات کی یہ بے قیاس ابتر ی اور خرابی بنی آدم کے لئے گناہ کا نتیجہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک بیماری یا نقصان کسی خاص گناہ سے علاقہ رکھنا ہے۔ گو بہت سی بیماریوں او نقصانات ضرور خاص خاص گناہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ او گذشتہ گناہ کے نتائج تمام بنی آدم میں عموماً بٹے ہوئے ہیں، پھر بھی دنیاکی خرابی گویا اس کے گناہ کا سایہ ہے۔ اور چونکہ مادی اور اخلاقی خرابیاں ایک دوسری سے علاقہ رکھتی ہےں۔ لہذا ایک سے دوسری کا حال کھل جاتا ہے۔ پس جب اس نے جسمانی پن کو دور کیا تو یہ فعل گویا باطنی بصیرت کو بحال کرنے کی علامت ٹھہرا۔ اسی طرح جب اس نے مردوں کو زندہ کیا کہ روحانی دنیا میں بھی میں ہی زندگی اور قیامت ہوں۔ جب اس کے کوڑھ دور کیا تو گویا یہ پتہ دیاکہ میں ہی گناہ کا کوڑھ بھی دور کر سکتا ہوں۔ جب اس نے روٹیوں کو معجزانہ طور پر چڑھایا تو گویا اس معجزے سے زندگی کی روٹی پر بھی تقریر کی اور اس کا طوفان کو بند کرنا یہ دلالت کرتا تھا۔ وہ پریشان ضمیر کو بھی اطمینا ن اور سکون عطاکر سکتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ مسیح کے معجزات اس کے کام کا ضروری اور لازمی حصہ اور اسے قوم میں مشہور کرنے کا ایک عمدہ وسیلہ تھے۔اس کے علاوہ وہ لوگ جو شفا یاب ہوتے تھے۔ وہ شکر گذاری کے رشتہ سے اس کے ساتھ جکڑے جاتے تھے۔اور اس میں شک نہیں کہ جو پہلے اس کے معجزات پر ایمان لائے ان میں سے کئی بعد میں ایمان کی اعلیٰ منز ل تک پہنچے مثلاً مریم مگدلینی کو جس میں سے اس نے ساتھ دیو نکالے تھے۔ اسی قسم کا تجربہ نصیب ہوا۔

اور اگر اس کی نسبت سوچاجائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے اس کا م سے کبھی بہت دکھ اور کبھی بڑی خوشی ہوتی ہو گی۔ طرح طرح کی بیماریوں اور گناہ کے اندو ہناک نتیجوں کو دیکھ کر اس کا پرُمحبت اور ہمدرد دل جس کی نرمی کبھی کم نہیں ہوتی تھی۔ زخمی ہو جاتا ہوگا،مگر اس کی عظیم محبت کا مسکن ایسی ہی جگہوں میں ہونا چاہےے جہاں مد د کی ضرورت تھی اور طرح طرح کی برکتوں کو ہر طرف تقیسم کرنا اور گناہ کے داغوں کو جابجا مٹانا اس کے لئے بڑی فرحت کا باعث ہوا ہو گا۔ اس کے معجزانہ چھونے سے صحت کا لوٹ آنا ، بند آنکھوں کو خوشی اور شکر گذاری کے ساتھ کھلتے دیکھنا ، ماو ¿ں اور بہنوں کی دعائے خیر کو اس وقت جبکہ وہ ان کے عزیزوں کو چنگا کرکے ان کے حوالے کرتا تھا۔ سننا،شہروں اور گاو ¿ں میں داخل ہوتے وقت غریبوں کے چہروں پر محبت اور تعظیم کے آثار کو دیکھنا اس کے دل کو خوشی سے بھر دیتا ہو گا۔ غرضیکہ وہ اس چشمہ سے جو بھلائی کا منبع ہے خوب سیر ہو چکا تھااور چاہتا تھا ، اور اب چاہتا ہے کہ اس کے شاگرد بھی اس سے سیر ہوں۔

مسیح کی تعلیم اور اس کی تاثیر

ہمیں یقین ہے کہ اوپر کے بیان سے ہمارے ناظرین پر بخوبی واضح ہوگیا ہو گا۔ کہ مسیح کے کام میں معجزات کیا جگہ رکھتے ہیں۔ اب ہم اس کی منادی یا تعلیم کی نسبت چند خیالاتپیش کرنا چاہتے ہیں۔اس کی تعلیم اس کے معجزات سے بڑا رتبہ رکھتی ہے۔ اس کے معجزات گھنٹے کی طرح لوگوں کو اس کے پاس بلانے کا کام دیتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کے حضور فراہم ہو کر اس کے کلام کو سنیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے معجزات کے سبب سے اس کا نام نزدیک اور دور سب جگہ مشہور ہو گیا مگر اس کی تعلیم بھی اس کی شہرت کا سبب تھی۔ فصاحت وہ جادو ہے جو لوگوں کو ایک دم میں حیرت کا پتلا بناکر مسخر کر لیتی ہے۔ ہر قوم اس جادو متاثر ہوتی آئی ہے۔ بربری ہمہ تن گوش ہو کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کے افسانے اور کہانیاں سنتے تھے۔ مہذب یونانی اپنے معلموں کے ایک ایک لفظ کی قدر کرتے تھے۔ اور اہل روم بھی جو زندگی کے معمولی کار وربار کے سا اور کسی کام سے سر و کار نہیں رکھتے تھے۔ اس جادو کے اثر اور قوت کے قائل تھے۔ یہودی تو اس کے ایسے عاشق تھے کہ اور کسی چیز پر ایسے فریفتہ نہ تھے جیسے فصاحت و بلاغت پر ، ان کے بزرگوں میں کوئی ایسا فصیح نہ تھا۔ جیسے ان کے بنی جنہوں نے آسمانی صداقت کو فصاحت کا لباس پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اگرچہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کبھی کوئی معجزہ نہیں دکھا یا تھا۔ تو بھی لوگ اس کی باتوں کے سننے کے لئے ہر طرف سے کثرت سے جمع ہوتے تھے۔ کیونکہ اس کے کلام میںنبیوں کی فصاحت کی قدرت رعد کی طرح کڑ کتی تھی۔ اور لوگوں نے اس عجیب قدرت کو جس کا نظارہ ایک مدت سے نصیب نہیں ہوا تھا ،اس کے پرُزور الفاظ میں محسوس کیا اور اس طرح اس کے پاس جمع ہوئے جس طرح چشمہ شیریں پر چیونٹیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اور چونکہ مسیح بھی بنی تھا لہذا اس کی منادی کا شہرہ ہر جگہ پھیل گیا۔ ”اور وہ ان کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اس کی بڑائی کرتے رہے“۔ لوگ اس کی باتوں کو بڑی حیرت سے سنتے تھے۔ کبھی کبھی ایسا بڑا مجمع ہو جاتا تھا۔ کہ اسے جھیل کا کنارا چھوڑ کر کشتی پر سوار ہونا اور وہاں سے ان کی طرف مخاطب ہو کر اپنی زبان حقیقت بیا ن کو کھولنا پڑتا تھا۔ اس کے کلام میں کچھ ایسی تاثیر تھی۔ کہ اس کے مخالفوں کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ” انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں گیا “۔ اگرچہ اس کے الفاظ جو قلمبند ہو کر ہمارے زمانے تک پہنچے ہیں۔ بہت ہی تھوڑے ہیں تاہم ان سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے۔ کہ آیا اس کے مخالفوں کی یہ رائے جواوپر بیان ہوئی صحیح ہے۔ یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کا کلام سامعین پر کیسا اثر ڈالتا تھا۔ اس کی پُر تاثیر تقریروں کا خلاصہ جو انجیلوں میں محفوظ ہے۔ اگر الگ کرکے چھایہ جائے تو معمولی قسم کے چھ سرمنوں سے زیادہ جگہ نہ لے گا۔ تاہم یہ کہنا بے جانہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی علمی خزانہ بنی آدم کے ورثہ میں نہیں آیا۔ جس طرح اس کے معجزے اس کی ذات مبارک کا اظہار تھے۔ اسی طرح اس کا کلام اس کی ذات کا مظہر تھا۔ چنانچہ اس کے ایک ایک لفظ اس کی سیرت کا جلا ل چمک رہاہے۔

اس کی منادی کا طریقہ اس کی قوم کے بزرگوں کے طرز تقریر کی مانند تھا۔ اس امر میں اہل مشرق اور اہل مغرب میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً مغربی ممالک کے باشندے جب کسی بات پر غور کرتے یا کسی خیال کو الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ تو عبارت کی روانی اور تشریح و تفسیر کو مد نظر رکھتے اور اپنے خیالات کو منطقی ترتیب اور سلسلے کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ پس جس طرز سخن پر اہل یورپ فریفتہ ہیں وہ یہ ہے کہ بولنے والاایک عمدہ مضمون انتخاب کرکے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرے اور پھر ایک ایک حصے پر سلسلہ وار اپنے خیالات ظاہر کرے اور یوں ایک حصے کو دوسرے حصے سے ربط دیتا ہوا اپنی تقریر کو ایسی رقت انگیز اپیل سے ختم کرے کہ سامعین کے دل اس کے ہاتھ میں آجائیں۔ اور جو کام ان سے کرانا چاہے کر اے لیکن برعکس اس کے اہل مشرق کا یہ طریق ہے۔ کہ وہ ایک نکتہ کو لے کر اسی کی دھن میں لگے رہتے ہیںاسی کے نشیب و فراز پر غور کرتے اور جو صداقتیں اس کے متعلق ذہن نشین ہوتی ہیں، انہیں ایک جگہ جمع کرکے چند جان گداز اور قابل یا د الفاظ میں ادا کر دیتے ہیں۔ وہ اختصار کو پسند کرتے اور دل میں کھب جانے والے محاورات کا م میں لاتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اہل مغرب اپنی تقریر کو بڑی ترکیب اور مناسبت سے مرتبت کرتے ہیں چنانچہ ان کی تقریرمیں زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک خیال دوسرے سے وابستہ ہوتا ہے لیکن اہل مشرق کی تقریر اور تحریر تاروں بھری رات کی مانند ہوتی ہے۔ جس طرح رات کے وقت سیا ہ یا نیلگوں آسمان کی سطح پر تارے چمکتے ہیں۔ اسی طرح ان کی تحریر میں نورانی نکات کے جواہر جگمگاتے ہیں۔

مسیح اس قسم کے طرز سخن کو کام میں لا یا۔ اس کے کلام میں بیشمار الفاظ اور محاورات ایسے موجود ہیں کہ ان میں سے ایک ایک ”کوزہ میں دریا بند “ کو مصداق ہے یعنی بڑی بڑی گہری حقیقتیں چھوٹے چھوٹے جملوں میں ادا گئی ہیں اور ایسی پُر تاثیر صورت میں کہ تیر کی طرح دل میں کھب جاتی ہیں۔اگر آپ ان الفاظ کو جو اس سے منسوب کئے جاتے ہیں اور جو انجیلوں میںقلمبند ہیں پڑھیں اور ان پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے ہر ایک لفظ دل کو کھینچ لیتا ہے۔ اور ایسے عمیق معانی رکھتا ہے کہ بہ سبب لطافت اور حلاوت کے دل سیر نہیں ہوتا اور پھر یہ بھی دیکھیں گے کہ باوجود اس کے اس کلام میں کچھ ایسی خاصیت پائی جاتی ہے۔ کہ ا س کی باتیں جلد حفظ ہو جاتی ہیں۔ چنا نچہ وہ اس کی امت کے حافظہ میں پتھر پر کی لکیر کی طرح قائم ہیں۔ہا ں ان کی یہ عجیب خاصیت ہے کہہ دماغ ابھی ان کے معانی کو سمجھنے نہیں پاتا کہ وہ پہلے ہی سے امثال کی طرح ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔

علاوہ بریں اس کی تعلیم کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی صنعتوں اور تشبیہوں سے پُر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قوت متخیلہ خیال کے عوض تشبیہات کے ذریعے سے اپنا کام کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ فطرت کی گو ناگوں صنعتوں کو بڑے شوق سے ملا حظہ کیا کرتا تھا۔ پھولوں کے رنگ پرندوں کے ڈھنگ ، درختوں کا بڑھنا موسموں کا بدلنا اس کی حقیقت شناس چشم سے پوشیدہ نہ تھا۔ اور اسی طرح وہ بنی آدم کی زندگی کی ہر رہگذر سے بخوبی تھا۔ چنانچہ وہ جانتا تھا کہ مذہبی امور اور کاروبار ار خانگی تعلقات میں انسان کیا ہے۔ لہذا وہ کسی نہ کسی فطرتی تشبیہ کو کام میں لائے بغیر نہیں بول سکتا تھا۔ اور نہ بغیر اس کے غور کر سکتا تھا۔ پس ہم دیکھتے ہیں۔ کہ اس کاکلام طرح طرح کی تشبیہوں سے پُر ہے۔ جن کے سبب سے ایک قسم کی بوقلمونی اور حرکت اس سے ہویدا ہے، وہ قیاسی قضیئے اور وہمی دعویٰ پیش نہیں کرتا بلکہ حقیقتوں کا فوٹو کھینچ دیتا ہے۔ اور اس کے الفاظ سے ملک کی خصوصیات اور زمانہ کے حالات اس طرح ٹپکتے ہیں جس طرح تصویر سے ٹپکا کرتے ہیں۔کہیں سوسن کی پھواڑیا ںجن کے حسن خدا داد کی دید سے اس کی آنکھیں ترو تازہ ہوتی تھیں۔ ، سرسبز کھیتوں میں لہلہارہی ہیں۔ کہیںبھیڑیں اپنے چوپان کے پیچھے پیچھے جارہی ہیں۔ کہیں شہروں کے تنگ اور کشادہ دروازے نظر آتے ہیں۔ کہیں کنواریوں کے مشعل جو دولھا کی منتظر کھڑی ہیں اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ اگر ہیکل میں ایک طرف فریسی پاک نوشتوں کی آیات ماتھے اور بازوں پر لگائے کھڑا ہے تو دوسری طرف ایک محصول لینے والا گردن جھکائے دعا مانگ رہا ہے۔ اگر ایک دولتمند اپنے محل میں بیٹھا ضیافت کے مزے اڑا رہا ہے۔ تو ایک مصیبت زدہ غریب جس کے زخموں کو کتے چاٹ رہے ہیں۔ اس کے دروازے پرپڑا کر اہ رہا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے اور سینکڑوں دلچسپ فوٹو اس کے کلام میں بکثرت موجود ہیں۔ اور ان کے وسیلے سے اس زمانے کے اوضاع و اطوار اور طرز معاشرت کے اندرونی اور جزوی حالات کھل جاتے ہیں۔ جن کا ذکر عام تاریخی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر ا س کے کلام کا یہ خاصہ تھا کہ اس میں تمثیلات کا استعمال بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس میں وہ دونوں باتیں جن کا ذکر اوپر ہوا مل جاتی ہیں۔ یا یوں کہیں کہ تمثیل مختصر بیان اور تشبیہی کلام کی ترکیب سے پیدا ہوتی ہے۔ تمثیل زندگی کے عام واقعات میں سے کسی واقعہ کو چن لیتی اور اس کی ایک چمکتی دمکتی تصو یر بنا کر اسے اپنے کام میں لاتی ہے اور اس کے وسیلے کسی روحانی بھیدکو جو اس سے مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے۔ ظاہرکرتی ہے اظہار حقائق کے لئے یہ طریقہ قوم یہود کے درمیان عام تھا۔ مگر مسیح نے اس کو خوب جلا دی اور کمال تک پہنچایا۔ اس کی باتیں جو اب تک محفوظ ہیں ایک تہائی کے قریب تمثیلوں پر مشتمل ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ کس طرح سامعین کے حافظہ پر جم جاتی تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ منادوں کے سرمنوں سے چند سال کے بعد فقط وہی مثالیں یاد رہتی ہیںجو وہ تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمثیلیں اس وقت سے لے کر اس وقت تک پشت در پشت مسیحیوں کے حافظہ میں محفوظ چلی آئی ہیں۔ مسرف بیٹا بیج بولنے والا ، دس کنواریا ں نیک سامری اور دیگر تمثیلیںلاکھوں لوگوں کے دلوں میں گویا خوبصورت تصویروں کی طرح لٹک رہی ہیں۔ کیا دنیا کے بڑے بڑے شاعروں یا نثر نویسوں کے کلام میں مثلاً سعدی ، ابوالفضل ، ظہوری اور فردوسی وغیرہ کے کلام میں کوئی ایسے حصے یا ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے مسیح کی تمثیلوں کی مانند بنی آدم کے دل پر گرفت پیدا کی ہو؟ مسیح کو مثالوں کی تلاش میں دور نہیں جانا پڑتا تھا۔ جس طرح ایک ماہر اور مشاق کی تلاش مصور کھڑ یا مٹی کی ڈلی یا ایک بجھا ہوا کوئلہ لے کر ایک ایسی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ کہ اسے دیکھ کر یا تو ہنسی کے مارے کلیجہ تھامنا پڑتا یا آنسووں کے دریا جاری ہو جاتے ہیں یاد دیکھنے والا نقش بردیوار سارہ جاتا ہے۔ اسی طرح مسیح بھی زندگی کے عام واقعات کو چن لیتا ہے مثلاً نئے جامے پر نئے پارچے کا پیوند لگانا۔ پرانی مشکوں کا نئی مے کے سبب سے پھٹ جانا۔ لڑکوں کا بازاروں میں کھڑے ہو کر شادی اور ماتم کے کھیل کھیلنا۔ کسی جھونپڑی کا طوفان کے تھپیڑے کھا کر گر پڑنا وغیرہ عام واقعات ہیں اور وہ انہیں چن کر اپنے بینظیر فن سے ایسے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کہ وہ دائمی حقیقتوں اور آسمانی رازوں کو روز روشن کی طرح آشکارا کر دیتے ہیں۔ پس تعجب کی بات نہیں کہ ہزارہا لوگ اس کے پاس جمع رہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے کلام کی تہ تک پہنچنے کے لئے صد ہا سال کی غور فکر کی ضرورت تھی تاہم سادہ سے سادہ اور جاہل سے جاہل سننے والا بھی اس کی مثالوں کو سن کر محفوظ ہو جاتا ہو گا۔ اور ان الفاظ کو جن کے وسیلے سے وہ اپنے خیالات ادا کیا کرتا تھا۔ عمر بھر کے لئے اپنے ساتھ لے جاتا ہو گا۔ پس یہ کہنا بے جا نہیں کہ اس کے کلام کی مانند اور کوئی کلام نہیں کیونکہ جس قدر وہ سادہ ہے۔ اسی قدر گہرا بھی ہے ، جس قدر صنعتوں سے پُر ہے اسی قدر صداقت اور راستی سے بھی معمور ہے۔

یہ تو اس کے کلام کی خاصیتیں ہیں۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے دکھائیں گے کہ اس لاثانی مناد کی منادی میں کون کون سی خاص باتیں توجہ طلب ہیں۔ ان کا ذکر اس کے سامعین کی نکتہ چینی میں موجود ہے۔ اور نیز ان تقریروں سے ان کا پتہ ملتا ہے جو انجیلوں میں قلمبندہیں۔

ان میں جو سب سے بڑھ کر ہے ، وہ اختیار ہے۔ جو لکھا ہے کہ ”بھیڑ اس کی تعلیم سے حیران ہوئی کیونکہ وہ ان کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحب اختیار کی طرح انہیں تعلیم دیتا تھا“۔پس پہلی بات جسے اس کے سامعین نے محسوس کیا ، وہ فرق تھا جو اس کے کلام میں اور فقیہوں کی اس منادی میں پایا جاتا تھا۔ جو وہ عبادت خانوں میں کیا کرتے تھے۔ یہ فقیہہ ایسے مردہ اور خشک مسائل کی منادی کرتے تھے۔ کہ ان سے بڑھ کر بے تاثیر اور بے جان مسائل اور کسی جگہ نہیں ملتے۔ اگر وہ ان پاک نوشتوں میں سے جو ان کے پاس موجود تھے لوگوں کو نصیحت کرتے اور ان کے مطالب کھول کر بتاتے تو اس سے ان کے کلام کو ایک طرح کی طاقت اور تازگی حاصل ہوتی مگر وہ مفسروں کے کہنہ خیالات کی خوردہ فروشی میں لگے رہتے تھے۔ اور کوئی ایسی رائے پیش نہیں کرتے تھے۔ جو کسی ربی کی سند پر مبنی نہ ہو۔ وہ انصاف اور رحم ، محبت اور خدا کے متعلق لوگو ں کو تعلیم دینے کی جگہ پاک نوشتوں کو ایک رسوم نامہ کی صورت دے کر ادنیٰ باتوں کی منادی کرنے لگ گئے مثلاً لوگوںکو صرف ایسی ایسی باتیں بتانے لگ گئے کہ جو آیات ماتھے اور بازو ¿وں پر لگانی چاہئیں۔ دعا کے وقت کس طرح بیٹھنا یا کھڑا ہونا چاہےے۔ روزہ کتنی دیر تک رکھنا چاہےے اور سبت اور دن کتنا فاصلہ طے کرنا چاہےے وغیرہ۔ انہی باتوں پر اس زمانے کا مذہب منحصر تھا۔ اور جس طرز کی منادی اس زمانے میں مروج تھی اگر ہم اس کا نمونہ جدید زمانوں میں دیکھنا چاہیں تو ہمیں ریفارمیشن کے زمانے پر نظر ڈالنا چاہےے۔ جس شخص نے سکاٹ لینڈ کے مصلح ناکس کے سوانح عمری تحریر کئے ہیں۔ بتا تا ہے کہ ریفارمیشن کے ایاّم میں رومن کیتھلک درویشوں کی تقریریں بالکل بے مغز بے لطف اور ناقص ہوتی تھیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ”ایسی کہانیا ں جو کسی رومن کتیھلک مذہبی فرقہ کے بانی سے منسوب کی جاتی تھیں۔ یعنی دہ معجزے جو ان کے خیال میں اس نے دکھائے وہ لڑائیاں جو اس نے شیطان کے ساتھ کیں، اس کی دعائیں اس کے روزے اس کا اپنے آپ کو کوڑوں سے مارنا وغیرہ وہ مضامین تھے جن پر منادی کی جاتی تھی۔ یا مقدس پانی اور مقدس تیل کی تاثیر یا اپنے بدن پر صلیب کا نشان بنانے اور کلام کے وسیلے سے آسیب دور کرنے کی خوبیوں کا راگ الاپاکرتے تھے۔ یا پر گیٹوری (اعراف ) کے شدید عذاب کا خاکہ کھینچا کرتے تھے۔ اور بتایا کرتے تھے کہ کتنے اس عذاب سے فلاں صاحب کرامت دلی کی سفارشی دعاوں کے وسیلے سے چھوٹ گئے ہیں۔ یا فضول ہزلیات اور یا وہ گوئی میں اپنا وقت خراب کیا کرتے تھے۔ غرضیکہ بائبل کی پاک اور فائدہ بخش اور بلند پایہ تعلیمات کے عوض میں اس قسم کی باتوں سے لوگوںکو آسودہ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ”مسیح کی منادی سے لوگوں کے دل پر کچھ اسی قسم کا اثر پیدا ہو گا۔ جیسا ریفارمشن کے زمانے میں اہل سکاٹ لینڈ پر و شرٹ اور ناکس کی منادی سے پیدا ہوا۔ مسیح ربیوں اور مفسروں کے مختلف خیالات سے کچھ سرو کار نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ اس طرح تقریر کرتا تھا۔ کہ گویا اس نے ازلی اور ابدی حقیقتوں کو بچشم خود دیکھا ہے۔ وہ اس بات کا محتاج نہ تھا کہ کوئی اور اس کی خدا اور انسان کی نسبت سکھائے کیونکہ وہ خود دونوں سے بخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا، کہ میں ایک خاص کام کے لئے آیا ہوں اور یہ خیال اسے اس کے کام میں لگائے اور اس کے ہر لفظ اور حرکت کو سر گرمی سے معمور رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے اور جو باتیں میں بیان کرتا ہوں میری نہیں بلکہ خدا کی ہیں۔ پس وہ ان کو جو اس کی بات نہیں سنتے تھے۔ بے تامل کہہ دیتا تھا۔ کہ قیامت کے دن تم پر نینوہ کے لوگ فتویٰ لگائیںگے اور سبا کی ملکہ تمہیں مجرم ٹھہرائے گی۔ کیونکہ اہل نینوہ نے یوناہ کی باتوں پر کان لگایا اور سبا کی ملکہ نے سلیمان کے حکمت آمیز کلمات کو سنا مگر تم اس کی جو نبیوں سے بڑا اور پرانے بادشاہوں سے بزرگ اترہے۔ نہیں سنتے ،اس نے ان کو خوب آگاہ کر دیا کہ جو پیغام میں لایا ہوں اس کے قبول کرنے یا رد کرنے پر تمہاری آئندہ بہبودی یا خرابی منحصر ہے۔ یہی وہ سرگرمی اور شاہانہ دبدبہ اور اختیار تھا۔ جو سننے والوں کو ہلا دیتا تھا۔

 

ایک اور صفت جو لوگوں نے اس کی تعلیم یا منادی میں پائی دلیری تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے۔ ”دیکھو دیہ صاف کہتا ہے“۔ اور یہ بات اس لئے نہایت عجیب معلوم ہوتی تھی۔ کہ وہ تعلیم یافتہ آدمی ہ تھا۔ کیونکہ نہ اس نے یروشلیم کے مشہور مدارس میں کبھی تحصیل علم کے لئے قدم رکھا تھا۔ اور نہ کسی دارا لعلوم سے سند حاصل کی تھی۔ لہذا وہ تعجب کرتے تھے۔ کہ یہ دلیر ی اس میں کہاں سے آگئی۔ معلوم ہو کہ یہ صفت اسی چشمہ سے برآمد ہوئی جس سے اس کے شاہانہ اختیار کی عجیب صفت پیدا ہوئی تھی۔ بزدلی عموماً ا س وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ مناد اپنے پیغام کی نسبت اپنی طرف زیادہ تر دیکھتا ہے۔ جو مناد حاضرین سے ڈرتا اور عالموں اور فاضلوں کو دیکھ کر گھبرا جا تا ہے وہ محض اس خیال میں مستغرق ہوتا ہے کہ لوگ میری لیاقت اور میرے کلام کی نسبت کیا کہیں گے۔ لیکن جو شخص یہ محسوس کرتا ہے۔ کہ میں ایک الٰہی پیغام لے کر آیا ہوں جس کو ادا کرنا میرامقد م فرض ہے وہ صرف اپنے پیغام کی دھن میں لگا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے پیغام کے سننے والے عالم ہوں۔ یا جاہل ، امیر ہوں یا غریب سب یکساں ہوتے ہیں۔ مسیح کی آنکھ روحانی اور جاو دانی صداقتوں پر لگی ہوئی تھی۔ ان کی عظمت اس کے دل پر نقش تھی۔ لہذا انسانی علم و فضل کا خیال ان باتوں کے رو برو ناچیز تھا۔ ہر رتبہ کا آدمی اس کے سامنے عام آدمیوں کی طرح تھا۔ اور چونکہ وہ اپنے کام کے خیال میں محو رہتا تھا۔ اس لئے کسی ذاتی یا شخصی خیال سے نہیں ڈرتا تھا۔ اگر ہم اس کی دلیری دیکھنا چاہیں تو ان حملا ت کو دیکھیں جو اس نے ان خرابیوں پر کئے جنہیں لوگ اس وقت عمدہ سمجھتے تھے۔ یہ خیال کرنا کہ اس میں نرمی اور فر وتنی کے سوا اور کچھ نہیں پایا جاتا تھا۔ بڑی غلطی ہے کیونکہ اس کے الفاظ میں کئی جگہ ایک قسم کی تندی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زمانہ ملمع سازی کا زمانہ تھا۔ جتنے بڑے بڑے مراتب اور مناصب تھے۔ ان سب پر ملمع پھرا ہوا تھا۔

سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں میں علم و فضل کے بلند مرتبوں میں اور مذہب کے ہر پہلو میں گندم نمائی اور جو فروشی کام کر رہی تھی۔ غرضیکہ ریا کاری ایسی عالمگیر ہو گئی تھی۔ کہ لوگ ریا کاری کو ریاکاری نہیں سمجھتے تھے۔ اور جن باتوں کی تقلید اور پیروی کی جاتی تھی۔ وہ نہایت نکمی اور ناقص تھیں۔ مسیح کے الفاظ کو پڑھنے والے بآسانی اس بات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کہ اوّل سے آخر تک اس کے کلام میں ان خرابیوں کے برخلاف ایک قسم کا غصہ پا یا جاتا ہے جو ناصرت کے حالات کے مشاہدے سے شروع ہوا اور جوں جوں مسیح کاعلم حالات زمانہ کے بارے میں ترقی کرتا گیا اسی قدر وہ بھی بڑھتا گیا۔ جن باتوں کو لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ وہ ان کی نسبت کہتا تھا۔ کہ یہ باتیں خدا کی نظر میں نہایت مکروہ ہیں۔ تاریخ کی زبان میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے کلام میں پائے جاتے ہیں اوریہ حملات اس نے ان لوگوں پر کئے جن کے سامنے اس کی منادی سے پہلے سرتسلیم خم کئے جاتے تھے۔ اور وہ لوگ فقیہ اور فریسی اور کاہن اور لاوی تھے۔

ایک اور وصف اس کے کلام میں یہ تھا۔ کہ وہ قدرت سے ملبس تھا چنانچہ لوگ حیران ہوتے تھے۔ کہ وہ قدر ت سے کلام کرتا ہے اور یہ قدرت روح پاک کے اس مسیح کا پھل تھی جس کی امداد کے بغیر بڑی بڑی سچائیاں دل پر کچھ اثر نہیں کرتی ہیں۔ وہ روح پاک سے معمور تھا۔ لہذا سچائی سے معمور تھا اور اس سچائی کو جو اس کے دل میں جو ش زن تھی دوسروںکے دلوں تک پہنچا دیتا تھا۔ وہ روح پاک ایسے قلیل یا محدود اندازہ میں نہیں رکھتا تھا۔ کہ مشکل سے اسی کے لئے کافی ہو بلکہ اس کثرت سے رکھتا تھا۔ کہ اوروں کو بھی افراط سے دے سکتا تھا۔ لہذا روح کی تاثیر اس کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی تھی۔ اور سننے والوں کے دل و دماغ کو جو ش سے بھر دیتی تھی۔

چوتھی صفت کو جو اس کے کلام میں پائی جاتی تھی۔ رحم و فضل کہنا چاہےے ، لوگ ” ان پرُ فضل باتوں سے جو اس کے منہ سے نکلتی تھیں تعجب کرتے تھے“۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود دبد بے اور اختیار کے اور باوجود ان سخت حملوں کے جو اس نے زمانہ کی خرابیوں پر کئے اس کا کلام رحم اور محبت سے پرُتھا۔ اس صفت کے وسیلے سے اس کی اصل سیرت کا پتہ ملتا ہے۔ وہ جو محبت مجسم تھا۔ کس طرح اس آسمانی آگ کی تیزی اور روشنی کو جو اس کے دل میں بھڑک رہی تھی۔لفظوں میں چمکنے سے روک سکتا تھا؟ فقیہ بڑے سخت اور مغرور اور بے مہر لوگ تھے وہ دولت مندوں کی خوشامد اور عالموں کی عزت کیا کرتے تھے۔ مگر عوام کی نسبت کہا کرتے تھے۔ ”یہ عام لوگ جو شریعت سے ناواقف ہیں لعنتی ہیں“۔ لیکن یسو ع کے نزدیک ہر روح ایسی بیش قیمت تھی کہ کوئی اس کی وقعت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اگر وہ میلے کچیلے کپڑوں میں چھپی ہوئی ہوتی تھی۔ یا کسی اور نقص کے تلے دبی ہوئی ہوتی تھی۔ تو اس کی آنکھ وہا ں بھی اس موتی کو دیکھ لیتی تھی۔ اگر اس پر گناہ کی نجاست کا انبار لگا ہو ا ہوتا تھا۔ تو وہ بھی اسے اس کی نظر سے نہیں چھپا سکتا تھا۔ لہذا وہ اپنے سننے والوں میںسے ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتا تھا۔ کیا جب ہم لوقا کے 15باب کی تمثیلوں کو پڑھتے ہیں تویہ معلوم نہیں ہوتا کہ گویا الٰہی محبت خدا کے دل سے نکل کر ان تمثیلوں کے وسیلے سے اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے۔

ایک اور صفت بیان کرنے کے لائق ہے جسے سب صفات کی جامع اور اور اس کی تقریر کی جان سمجھنا چاہےے۔ اس صفت کی طرف اوپر کہیں کہیں اشارہ ہو چکا ہے۔ مگر اس جگہ اس کا کچھ مفصل ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مسیح جب لوگو ں کی طر ف مخاطب ہو کر کلام کیا کرتا تھا۔ تویہ خیال نہیں کرتا تھا۔ کہ میں کس درجہ اور کس لیاقت کے لوگوں سے متکلم ہوں ، بلکہ سب کو یکساں سمجھ کر ان سے مخاطب ہوا کرتا تھا۔ دولت اور عزت اور علم جو بھی آدم میں فرق ڈالتے ہیں بالائی یا خارجی اسباب ہیں۔ جو ہم کو انسانی زندگی کی سطح پر ملتے ہیں۔مگر ذہنی قوتیں ، دلی جذبات اور ضمیر کی حقیقتیں وہ باطنی اور گہری خاصیتیں ہیں جو تما م بنی آدم میں مشترک ہیں۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ یہ صفتیں سب میںیکساں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ، کہ کسی میں زیادہ اور کسی میں کم ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اور باتوں کی نسبت یہی سب میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اور جو شخص ان صفتوں کی طرف مخاطب ہوتا ہے۔ وہ گویا اپنے سننے والوں کی زندگی کے سب سے اصلی اور گہرے حصوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور سب اس کی بات کو سمجھتے ہیں۔ ہر ایک شخص اپنا اپنا حصہ پاتا ہے۔ یعنی جس قدر کم فہم آدمی کی سمجھ میں سمائی ہوتی ہےوہ اس سمائی کے مطابق اس چشمہ سے لیتا ہے۔ اور جس قدر وسیع خیال آدمی کے ذہن میں وسعت ہوتی ہے۔ وہ اس وسعت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسیح کا کلام آب رواں کی طرح ہر وقت ترو تازہ رہتا ہے۔ وہ ہر زمانہ اور ہر قسم کے لوگوںکے لئے ہے۔ وہ آج بنی نوع انسان کو انگلستان اور چین اور ہندوستان میں اسی طرح موثر کرتا ہے۔ جس طرح فلسطین میں مسیح کے زمانہ میں کیا کرتا تھا۔

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس کی تعلیم کے نفس مضمون پر غور کریں گے۔ جب ہم اس بات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ خیال دل میں پیدا ہو تا ہے۔ کہ جس طرح اس زمانے کے لکچرار مسیحی مذہب کی تعلیمات اور مسائل پر درس دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح شائد وہ بھی دیا کرتا تھا۔ لیکن جب ہم اناجیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو بالکل اور ہی حالت نظر آتی ہے۔ البتہ وہ سب باتیں جو ہم سوال و جواب کی کتابوں یا عقائد نامہ میں مسیحی مسائل اور تعلیمات کے متعلق پاتے ہیں۔ وہ اس کے ذہن میں موجود تھیں مگر وہ انہیں اپنی منادی کے وسیلے سے بہت ظاہر نہیں کیا کرتا تھا۔ نہ وہ علم الٰہی کی اصطلاحات کو استعمال میں لایا کرتا تھا۔ مثلاً الفاظ تثلیث ، تقدیر ، برگزیدگی اور موثر بلاہٹ جو مسیحی علوم الہٰیہ کی اصطلاحات میں داخل ہیں۔ اس کی منادی میں نظر نہیں آتے ہیں گو وہ صداقتیں جو ان اصطلاحی الفاظ سے مفہوم ہوتی ہیں۔ اس کے کلام کی تہ میںپائی جاتی ہیں مگر انہیں ظاہر کرنا یا اصطلاحی طو ر پر پیش کرنا سائنس کا کام تھا۔ وہ فقط زندگی کے معمولی تعلقات پر بولا کرتا تھا۔ اور چند دل گداز باتوں کو اپنی تقریر کا مرکز بنا کر دل اور ضمیر کو چھید ڈالتا تھا۔

اس کی منادی کا عطر یہ الفاظ تھے” خداکی بادشاہی “۔اس چیز یا اس چیز کی مانند ہے۔ ایک مرتبہ اس نے یہ بھی فرمایا کہ ” مجھے اور شہروں میں بھی خد اکی بادشاہی کی منادی کرنا ضرور ہے“۔ اس سے اس نے یہ ظاہر کیا کہ میری منادی کا مضمون خدا کی بادشاہی ہے اور یہی بات اس کے رسولوں کے حق میں لکھی ہے کہ اس نے انہیں بھی اسی لئے بھیجا کہ ”خدا کی بادشاہی کی منادی کریں“۔ مگر یہ الفاظ اس کے ایجاد کردہ نہ تھے۔ یہ خیال پرانے زمانوں سے چلا آتا تھا۔ اور اس کے زمانے کے لوگ اس دینی محاورے سے بخوبی واقف تھے چنانچہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ان الفاظ کو کثرت سے اپنی منادی میںاستعمال کیا چنانچہ ”خدا کی بادشاہی نزدیک ہے“۔ ہم باربار اس کے منہ سے سنتے ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟ یہ الفاظ اس نئے زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جس کی خبر نبوت کی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔اور جس کی راہ خدا کے مقدس بندے مدت سے دیکھ رہے تھے۔ خداوند مسیح نے اپنی منادی کے وسیلے سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ زمانہ اب آگیا ہے۔ اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں۔ انتظاری کا وقت تما م ہو چکا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے ہمعصروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کئی بنی اور کئی برگزیدہ اشخاص یہ آرزو رکھتے تھے۔ کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو دیکھیں۔ مگر انہیں دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ پھر ایک مرتبہ اس نے یہ بھی کہا کہ اس نئے زمانے کا جلا ل اور رونق اور حقوق ایسے بے بہا ہیں کہ جو ان سے بہرہ ور ہیں۔ان میں سے وہ جو سب سے چھوٹا ہے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے افضل ہے۔ حالانکہ وہ پرانے عہد کے بزرگوں میں سب سے بڑا ہے۔

ان باتوں کاماننا اس کے معاصرین کے لئے کچھ مشکل نہ ہوتا اگر وہ اس بات کو بھی مان لیتے کہ خد ا کی بادشاہی فی الحقیقت آگئی ہے کیونکہ وہ ان سے سب باتوں کے قائل تھے۔ البتہ انہوںنے مسیح کے ان دعووں کو سن کر ذرا سی دیر کے لئے کروٹ بدلی اور آنکھ اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا لیکن جب اس کا کوئی ظاہر ی نشان نہ پایا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ نیاز زمانہ کہاں ہے جس کا آمد کا ذکر یسوع ناصری کرتا ہے؟ اور اسی بات کے سمجھنے میں وہ مسیح سے اختلاف رکھتے تھے۔ وہ ”خد ا کی بادشاہی “ کے آخر ی لفظ ”بادشاہی “ پر زور دیتے تھے مگر یسوع پہلے لفظ ” خدا “ پر زور دیتا تھا۔ انہیں یہ امید تھی کہ نیاز مانہ شاہانہ کر و فر اور دنیوی شان و شوکت کے ساتھ نمودار ہو گا۔ بے شک وہ یہ مانتے تھے۔ کہ اس بادشاہی میں خدا ہی کے نام کا سکہ جاری ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی امید رکھتے تھے۔ کہ اس کا ظہور بے قیاس دولت و ثروت ، جنگی افواج کی حشمت و قدرت اور ایک عالم گیر حکومت و سلطنت سے ہو گا۔ لیکن برعکس اس کے خداوند مسیح نئے زمانے کا آغاز اس بات میں دیکھتا ہے۔ کہ خدا محبت کرنے والے دل اور اطاعت کرنے والی مرضی پر حکمران ہو گا۔ وہ اس نئے زمانے کو خارج میں تلاش کرتے تھے۔ مگر مسیح اسے باطن میں بتاتا تھا۔ وہ اسے دنیوی شان و شوکت میں ڈھونڈ ھتے تھے مگر مسیح اس نے اپنے پہاڑی وعظ میں اس نئے زمانے کو طرح طرح کی مبارک بادیوں سے ظاہر فرمایا اور ہم دیکھتے ہیں۔ کہ وہ مبارک حالی جو ان سے متر شح ہے سراسر سیرت یا خصلت کی مبارک حالی ہے مگر جس سیرت کا نقشہ ان مبارک بادیوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ اس سیرت اس جس کی قدر ان دنوں کی جاتی تھی۔ اور جو اس زمانے میں حقیقی جلا ل اور خوشی کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ بالکل مختلف تھی ان دنوں مغرور فریسی یا دولتمند صدوقی یا عالم فقیہ کی سیرت نمونے کے لائق سمجھی جاتی تھی۔ مگر مسیح نے برعکس اس کے یہ سکھایا کہ جو دل کے غریب ہیں۔ جو غمگین ہیں ، جو حلیم ہیں، جو راست بازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں، جو رحمدل ہیں، جو پاک دل ہیں، جو صلح کرانے والے ہیں، اور جو راستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں وہ مبارک ہیں۔

پس مسیح کی منادی کا اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ جان جائیں کہ خدا کی بادشاہی کا کیا مطلب ہے اور کہ جو لوگ اس بادشاہی میں دخل پاتے ہیں ان کی سیرت کیسی ہوتی ہے۔ اور ان کو اپنے آسمانی باپ کی محبت اور قربت سے کیسی برکت ملتی ہے۔ اور آنے والی دنیا میں ان کے لئے کیسی خوشیاں موجود ہیں۔ اور اس نے یہ بھی دکھایا کہ جس مذہب کی میں تلقین کرتا ہوں اس میں اور تمہارے موجودہ مذہب میں کیا فرق ہے۔ تمہارے موجودہ مذہب میں روحانیت کا نام ونشان نہیں پایا جا تا اور سیرت کے عوض میں چند خارجی رسوم کی پیروی پر قناعت کی جاتی ہے۔ مسیح ہر رتبہ اور درجہ کے لوگوں کو اس بادشاہی میں شامل ہو نے کی دعوت دیتا تھا۔ دولتمندوں کو دعوت دیتے وقت یہ بتاتا تھا (جیسا کہ ”دولتمند اور لعاذر“کی تمثیل سے آشکار ا ہے) کہ دولت میںحقیقی آرام وراحت کو تلاش کرنا بطلان کی دلیل اور خطرہ کا موجب ہے اور جب تنگدست غریبوں کو بلاتا تھا۔ تو ا ن پر ان کے انسانی جوہر کی عظمت کو ظاہر کیا کرتا تھا۔ اور پرُمحبت اور پرُ تاثیر الفاظ سے ان کو سمجھایا کرتا تھا۔کہ جو حقیقی دولت ہے وہ سیرت کے خزانوں میں جمع ہے اور انہیں یقین دلاتاتھا۔ کہ اگر تم پہلے آسمان کی بادشاہی کو ڈھونڈ و تو تمہار ا آسمانی باپ جو ہوا کے پرندوں کو کھلاتا اور جنگلی سوسنوں کو پہناتا ہے۔ تمہیں کبھی محتاجی کی حالت میں نہ چھوڑے گا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی منادی کو مرکز اور اپنی تعلیم کی جان وہ آپ ہی تھا۔ جس نئے زمانے کا ذکر اوپر ہوا وہ اسی میں موجودتھا۔ وہ نہ فقط اس کی خبر دینے والا تھا۔ بلکہ اسے وجود میں لانے والا بھی تھا۔اور وہ سیرت جس کے سبب سے انسان اس بادشاہی میں داخل ہو سکتا اور اس کے حقوق میں شراکت پید اکرسکتا ہے۔ اسی سے ملتی ہے لہذا اس کی ہر نصیحت آمیز تقریر کا اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ اس کے پاس آئیں۔ اس سے سیکھیں اور اس کی پیروی اختیار کریں” اے تم لوگو! جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو میرے پاس آو “۔ اس کی نصیحتوں کا لب لباب اور اس کی تقریروں کا خلاصہ مطلب انہیں الفاظ میں جمع ہے۔

مسیح کی تقریروں کے ملاحظہ سے ایک بڑی غور طلب بات نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جن خاص مسیح مسائل کا ذکر پولوس سے خطوط میں پایا جاتا ہے اور جن کو آج خدا پرست اور روشن ضمیر مسیحی مان رہے ہیںوہ مسیح کی تقریروں میں صاف صاف دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ یہ کمی خصوصاً دو مسئلوں کے متعلق دیکھنے میں آتی ہے۔ اوّل۔اس تعلیم متعلق جس کی رو سے گنہگار خدا سے میل پیدا کرتا ہے۔ دوم۔ اس طریق کے بارے میں جس کے وسیلے معافی یافتہ انسان کے اندر وہ سیرت پیدا ہو تی ہے۔ جو مسیح کی سیرت کی مانند ہوتی اور باپ کو پسند آتی ہے۔ پر اس معاملے میں بڑی خبرداری سے کام لینا چاہےے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کمی کی نسبت ایسا مبالغہ کیا جائے کہ ہم کو مجبور ا ً یہ ماننا پڑے کہ ان تعلیمات کا نام و نشان بھی مسیح کی تقریروں میں نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پولوس رسول کسی مسئلہ یا تعلیم کو پیش کرتا جس کا تخم مسیح کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ پھر بھی یہ ماننا پڑتا ہے۔ کہ دونوں کے بیانوں میں ایسا فرق پا یا جاتا ہے۔ کہ مسیح کے بیان کے اختصا ر اور رسول کے بیان کی تفصیل کا مقابلہ کرکے بعض لوگ یہ کہہ اٹھتے ہیں۔ کہ جو تعلیمات تم اب مان رہے ہو ، وہ پولوس کی ساختہ ہیں، مسیح کے کلام میں نہیں پائی جاتی ہےں۔ لیکن اصل شرح اس معمے کی اور ہی ہے۔ مسیح محض معلم نہ تھا۔ اس کی سیرت اس کی تعلیم پر فوقیت رکھتی تھی۔ اور اسی طرح اس کا کام بھی اس کی تعلیم پر فائق تھا۔ اور اس کے کام کا سب سے بڑا حصہ یہ تھا۔ کہ وہ صلیب پر چڑھ کر دنیا کے گناہوں کا کفارہ دے، لیکن اس کے پیرو جو ہر دم اس کے ساتھ رہتے تھے۔ نہیں ماننا چاہتے تھے ، کہ اس کو مرنا پڑے گا۔ پس اس کے مرنے سے پہلے اس کی موت کا گہرا اور عمیق مطلب سمجھنا مشکل تھا۔ اب جن مسئلوں کو ذکر پولوس رسول کے خطوط میں پایا جاتا ہے۔ وہ صرف دو بڑے بڑے واقعات کی شرح ہیں ان میں سے ایک مسیح کی موت اور دوسرا سرفراز نجات دہندہ کی طرف سے روح القدس کا بھیجا جانا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ باتیں مسیح کے کلام میں بہت جگہ نہیں لے سکتی تھیں۔ کیونکہ وہ ابھی واقع نہ ہوئی تھیں۔ مگر ان کے الہامی مطالب کے اظہار کو دبانا گویا انجیل کے چراغ کو بجھانا اور مسیح کو اس کے اعلیٰ جلا ل سے محروم رکھنا ہے۔

جو لوگ مسیح کی باتیں سننے آتے تھے۔ وہ مختلف طبعیت اور مزاج کے لوگ تھے اور ان کا شمار کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا تھا۔ اور جس جگہ اس کو موقع ملتا تھا۔ وہیں ان کی طرف مخاطب ہو کر ان کو سکھلانے لگ جاتا تھا۔ کبھی پہاڑ پر چڑھ کر ، کبھی سمندر کے ساحل پر کھڑا ہو کر، کبھی راستہ میں، کبھی عبادت خانہ میں اور کبھی ہیکل کے صحن میں جاکر لوگوں کو تعلیم دیا کرتا تھا۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وہ نہ صرف بڑی بڑی جماعتوں کے سامنے بولا کر تا تھا۔ بلکہ اگر اس کو کسی جگہ ایک یا دو شخص مل جاتے تھے۔ توان کے ساتھ بھی اسی سرگرمی سے کلام کیا کرتا تھا۔ غرضیکہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک دفعہ بہت تھکا ہوا تھا۔ مگر پھر بھی سامریہ کے کنوئیں پر ایک عورت کو روحانی تعلیم دیتا رہا۔ اسی طرح نیکدیمس کو بھی جو اکیلا اس کے پاس آیا تھا۔ اپنی زبان معجزبیان سے روحا نی اسرارکی کی باتیں سنا تا رہا۔ مریم بھی کبھی کبھی اکیلی اس کے پاو ¿ں سے پاس بیٹھ کر اس کی زندگی بخش باتیں سنتی تھی۔ انجیل میں اس قسم کی تنہائی کی ملاقاتوں کا انیس مرتبہ ذکر آیا ہے۔ اور وہ اس کے شاگردوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ ہیں کیونکہ یہ طریقہ ان تمام طریقوں سے جو تعلیم دینے میں کام آتے ہیں۔ شاید سب سے زیادہ موثر اور کارگر ہوتا ہے اور نیز اس سے واعظ کی سرگرمی کاپتہ ملتاہے۔ کیونکہ جو شخص ہزاروں کے مجمع کے سامنے جوش اور سرگرمی سے کلام کرتا ہے۔ اور جب سامعین کا شمار کم ہو جاتا ہے۔ تو اس کے جو ش کی آگ بھی بجھ جاتی ہے۔ وہ محض اپنی فصاحت دکھانے کا شائق ہے لیکن جو شخص موقع ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ کہ جو کوئی اسے ملے اسی کو اس کی روح کی نجات کا مثردہ دے وہ در حقیقت روحوں کی بھلائی چاہتا ہے اور اس کے دل میں فی الحقیقت آسمانی جو ش کی آگ جل رہی ہے۔

اکثر اوقات اس کے کلام کو سننے کے لئے صرف اس کے شاگرد ہی جمع ہوتے تھے۔ لیکن اس کی منادی کا اثر سننے والوں پر یکساں نہیں ہوتا تھا۔ اس نے خود ” بیج بولنے والے “ اور ”کی تمثیلوں کے وسیلے سے بڑی صفائی سے ظاہر کر دیا کہ سننے والوں پر میرے کلام کا اثر مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ اس کی تقریر سن کر مطلق پروا نہیں کرتے تھے۔ اور بعض حیرت سے سنتے تھے۔ مگر ان کے دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ اور بعض کچھ عرصہ کے لئے متاثر ہوتے تھے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر پرانی عادتوں میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ اور جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خد ا بیٹے کے کلام کو سن کر بھی بہت تھوڑے لوگ ایمان لاتے تھے توایک ہیبت سی چھاجاتی ہے۔ جو لو گ اس کی منادی سن کر اس پر ایمان لاتے تھے۔ وہ اس کے شاگرد کہلاتے تھے۔ وہ اکثر اس کا کلام سننے کو اس کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ اور وہ بار بار ان کے ساتھ خلو ت و جلوت میں ہمکلام ہوا کرتا تھا۔ وہ پانچ سوشاگرد جنہوں نے اس کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد دیکھا ، غالباً مریم مگدلینی اور یوانہ اور سوسنا ہ جو اپنے مال سے اس کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ وہ عوام کی نسبت ان شاگردوں کو خاص طور پر اپنی تعلیمات سے آگاہ کیا کرتا تھا۔ مثلاً جو کچھ اس کی پبلک تقریروں میں بعید الفہم معلوم ہو تا تھا۔ وہ اسے خلوت میں ان سب کے سامنے حل کر دیا کرتا تھا۔ کئی دفعہ اس نے یہ کہا کہ میں تمثیلوں میں اس لئے بولتا ہوں کہ لوگ سنیں پر نہ سمجھیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ اس سچائی سے جو وہ بیان کیا کرتا تھا۔ کچھ دلچسپی نہ رکھتے تھے۔ وہ اس کی بات کو تو سنتے تھے۔ مگر صرف ایک خوبصورت چھلکا ان کے ہاتھ آتا تھا۔ مگر مغز سے محروم رہتے تھے۔ یہی رازداری جو بے پرواوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیتی تھی۔ ایمان داروں کے لئے مزید تحقیق کا باعث ٹھہرتی تھی اور جس طرح کسی خوبصورت چہرہ کو جس کا نصف حصہ نقاب کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ دیکھنے کی آرزو از حد دامن گیر ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا تھا۔ کہ جن باتوں پر بھید کا نقاب پڑا ہوا ہے۔ ان کا مطلب ان پر صاف صاف کھل جائے ارو وہ ان لوگوں کو جو معرفت کا ایسا اشتیاق رکھتے تھے۔ ان کے پوشیدہ معنی سے واقف کر دیتا تھا۔ جب قوم اس کو رد کر بیٹھی اور اس بات میں قاصر نکلی کہ مسیح کے کام اور تعلیم کی تاثیرات کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے تو یہی لوگ اس روحانی سوسائٹی کی بنیادبنے جو ملکی قیود اور خاندانی اور قومی امتیازات کے بندھنوں سے آزاد تھی۔ اور جس کے وسیلے سے مسیح کی روح اور تعلیم کو دنیا میں پھیلنا اور قائم رہنا تھا۔

رسولوں کی جماعت

شاید یہ بہتر ہو گا کہ ہم رسولوں کے چننے کا ذکر مسیح کے معجزات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ یہیں کر دیں کیونکہ ہم رسولی عہدے کے تقرر کو وہ تیسرا طریقہ قرار دے سکتے ہیںجس کے وسیلے سے اس نے اپنے کام کو انجام دیا۔ وہ بارہ اشخاص جو اس عہدے پر سرفراز ہوئے شروع میں عام شاگردوں کے زمرہ میں شامل تھے۔ اور جن لوگوں نے اس کے کام کے پہلے سال میں اس کی پیروی اختیار کی وہ بھی شاگرد کہلاتے تھے۔ لیکن جب اس نے اپنا کام گلیل میں شروع کیا تو ان بارہ آدمیوں کو ایک خاص قسم کی قربت سے سرفراز فرمایا، یعنی انہوں نے اپنے معمولی کاروبار کو چھوڑ ہر دم اس کی صحبت میں رہنا اختیار کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ مسیحی قربت اپنی تیسری اور آخری منزل پر جا پہنچی یعنی وہ لوگ رسولی عہدے سے ممتاز کئے گئے۔

جب اس نے دیکھا کہ میرا کام بڑھتا جاتا ہے۔ اور اسے پورا کرنا لازمی امر ہے۔ لیکن میں اکیلا اسے کر نہیں سکتا تو اس نے ان لوگوں کو رسالت کے عہدے پر سرفراز فرماکر اپنا مد د گار بنایا اور انہیں بھیجا کہ جاکر اس کی تعلیم کی سادہ سادہ باتیں لوگوں کو سکھائیں اور اس کام کی انجام دہی کے لئے ان کو وہی معجزانہ طاقت مرحمت فرمائی جس سے خود مالا مال تھا۔ اس طرح کئی جگہ جہاں وہ عدم فرصتی کے سبب خود نہیں جا سکتا تھا۔ انجیل کی منادی کی گئی اور کئی بیمار جو اس کے پاس نہیں آسکتے تھے۔ شفا یاب ہوئے۔ لیکن ان لوگوں کے چننے میں اس سے بھی گہرے مقاصد اور وسیع نتائج مدنظر تھے۔ اس کا کام سب زمانوں اور تمام دنیا کے لئے تھا لہذا وہ ایک شخص کی مدت عمر میں پورا نہیں ہو سکتا تھا اور اس نے اس بات کو پہلے ہی سے دیکھ لیا ، لہذ اان لوگوں کو چن کر اس بات کا انتظام کی کیا کہ وہ اس کے بعد اس کی تجاویز کی پیروی کریں اور اس کے کام اور تعلیم کی تاثیرات کو دنیا کے ہر کونے اور ہر گوشے تک پہنچائیں۔ اس نے اپنے دست مبارک سے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ ناممکن نہیں کہ ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر وہ اپنے خیالات کو خود رقم کرتا اس کے نام اور کام کو بقائے دوام حاصل ہوتی اور دنیا کے ہاتھ میں اس کی ایک کامل تصو یر آجاتی اور شاید ہم اس بات کو سوچ کر شوق سے بھر جاتے اور بے ساختہ بول اٹھتے کہ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا رسالہ ہمارے لئے بے قیاس دولت کا خزانہ ہوتا۔ لیکن اس بے نظیر حکیم نے اس قسم کے کام میں ہاتھ لگانا مناسب نہ جانا بلکہ یہ بہتر سمجھا کہ اپنے مرنے کے بعد اپنی تصنیف کردہ کتابوں کے عوض میں برگزیدہ اشخاص کی زندگیوں میں جیتا رہے لیکن جب ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جنہیں اس نے ایسے بڑے کام کے لئے چنا تو ہم کو حیرت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ عالی خاندان ہونے کا فخر نہ رکھتے تھے۔ اور نہ سرمایہ علم سے بہرہ در تھے۔ لازم تھا، کہ قوم کے رہبر اور پیشوا اپنے مسیح کی خدمت میں کام آتے پر انہوںنے اپنی سخت دلی کے وسیلے سے ظاہر کر دیا کہ ہم اس خدمت کے لائق نہیں۔ لیکن وہ ان کی مد د کا طالب نہ تھا۔ اور چونکہ وہ ہمیشہ سیرت کی کی خوبیوں سے کام لیاکرتا تھا۔ اور سیرت دنیوی جاہ جلال اور علمی لیاقت اور کمال کی مقید نہیں ہوتی لہذا اس نے بے ہچکچاہٹ اپنا سارا کام بارہ سیدھے سادے اشخاص کے ہاتھ میں سونپ دیا جنہیں نہ خاندانی فخر اور نہ علمی لیاقت کا ناز تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ انتخاب کئی دنوں کی سوچ اور فکر اور رات بھر کی دعا مناجات کے بعد کیا تھا۔ اور اس انتخاب نے بعد میں ثابت کر دیاکہ اس نے اس امر میں ایسی باریک بینی سے کام لیا جو سیرت انسانی کی تہ کو پہنچ جاتی ہے۔ چناچہجس مقصد کے پورا کرنے واسطے یہ لوگ چنے گئے تھے۔ اس کے لئے نہایت موزوں نکلے اور ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کم ازکم یعنی یوحنا اور پطرس (کیونکہ ان کا کسی قدر مفصل حال ہمارے پاس موجود ہے) اعلیٰ قسم کی لیاقتوں کے آدمی ثابت ہوئے۔ ان بارہ میں سے ایک بے وفا نکلا۔ اس کے انتخاب کے بارے میں طرح طرح کی تشریحیں پیش کی گئی ہیں۔ پر یہ ایک ایسا عقدہ ہے جو پورے طور پر حل نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔ لیکن یہ کہنا عین انصاف ہے کہ ایسے اشخاص کو جو شروع میں بالکل نالائق معلوم ہوتے تھے۔ بعد میں کامیابی کے تاج سے تاجدار ہوئے۔چن لینا ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ بادشاہی ستونوں کی طرح اس بات پر شہادت دیتا رہے گا۔ کہ مسیح لکیر کا فقیر نہ تھا۔ بلکہ ساری باتیں ایسی تازگی اور نئے پن سے کرتا تھا۔ کہ ان میں ذرا بوسیدگی کی بوُنہیں آتی۔

اب اگر ہم صرف یہی بتا کر خاموش ہو جائیں کہ مسیح نے اپنی باریک بینی سے جان لیا کہ یہ لوگ کچھ عرصہ کے بعد میرے کام کو بخوبی انجام دیں گے تو اس رشتہ کاجو وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ رکھتا تھا۔ پورا پورا حال نہ کھلے گا۔ پس چند اور باتوں کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے مسیح کلیسیاو ¿ں کے قائم کرنے میں گویا ایک ایسے کام کو پورا کیاجس کی عظمت کا اندازہ لگانا انسان کے وہم سے بعید ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں۔ (گویا خیال ان کے دل میںکبھی نہ آیا ہو) کہ وہ تختوں پر بیٹھے موجودہ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ جب ہم لوٹ کر دیکھتے ہیں۔ تو وہ ہمیں ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ کہ گویا عالی شان ستونوں کی قطار کی طرح آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ پر وہ نور جس سے ملبس ہو کر یہ عظیم الشان ستون چمک رہے ہیں۔اسی چشمہ نور سے نکلتا ہے جس سے انہیں چنا تھا۔ اسی نے ان کو وہ عظمت بخشی جو دنیا کے داناوں کو حیران کرتی ہے۔ اور ان کی عظمت اسی کی عظمت کو ثابت کرتی ہے۔ کیا ان کو دیکھ کر یہ خیال نہیں آتا کہ وہ جس نے ان لوگوں کو ایسی خوبصورت اور مضبوط سیرت عطا فرمائی اور ایسے جلیل القدر کام کے لائق بنا دیا ، خوو د کیا ہو گا ؟ شروع میں وہ حد درجہ کے گنوار اور جسمانی مزاج کے آدمی تھے۔ کیا ان سے اس بات کی کوئی امیدکی جا سکتی تھی۔ کہ وہ کبھی اس کی الٰہی تجویزوں کی خوبی کو پہچان سکیں گے یا اس کے کام کو اس کے بعد انجام دیں گے۔ اور اس کی سیرت کا ایک سچا فوٹو آنے والی پشتوں کے حوالے کریں گے لیکن اس نے محبت بھر ی برداشت کے ساتھ ان کی تربیت کی۔بڑی بردباری سے ان کی دنیوی امیدوں کی اصلاح اور ان غلط فہمیوں کی جو اس کے کلام کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی تھی۔ تصحیح کی اور چونکہ وہ جانتا تھا۔ کہ ان لوگوں کو آئندہ بڑی بڑی مہمات کو طے کرنا اور اہم خدماتت کو انجام دنیا ہے اس لئے وہ انہیں دم بھر بھی اپنے سے جدا نہ کرتا تھا۔ بلکہ ہروقت ان کی تربیت میں لگا رہتا تھا۔ چنانچہ باقی شاگردوں کی نسبت یہ لوگ زیادہ اس کی صحبت میں رہتے تھے۔ اور جو کچھ وہ کرتا تھا۔ اسے دیکھتے تھے اور جو کچھ وہ کہتا تھا۔ اسے سنتے تھے۔ بعض اوقات وہ صرف انہیں سے ہمکلام ہوا کرتا تھا۔ اور آسمانی صداقتوں کے بھید اور جلال کو ان پر ظاہر اور سچائی کا تخم ان کے دلوں میں بویا کر تا تھا۔ جو وقت اور تجربہ کی مدد سے اپنے وقت پر بہت سا پھل لایا۔ لیکن جو بات ان کی تربیت میں بہت کام آئی وہ یہ تھی۔ کہ اس کی سیرت کا اثر ان پر نادیدنی اور خاموش طور پر پڑتا رہا۔ گو اس وقت کسی نے اس بات کو محسوس نہ کیا پر اس میں شک نہیںکہ اس سے بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوئے۔ اس اثر نے ان کو رفتہ رفتہ اس کی صورت میں تبدیل کر دیا۔ یہی وہ بات تھی جس نے ان کو ایسا مقدس بنا یا جیسے وہ اب نظر آتے ہیں اور اگر اس کو پیار کرنے والے ان بزرگ رسولوں کو کسی بات کے سبب رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ ان کو اس کی سیرت کا جمال دیکھنے موقع نہیں ملا۔ ہم اس کی بے نظیر سیرت کی خوبیوں کو دور ہی سے دیکھ کر ان پر قربان ہو تے اور گرگر کر سجدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ نزدیک سے دیکھتے تھے اور انہیں اس کی زندگی میں گندھی ہوئی دیکھنا اور کئی سال تک ان کے زور اور اثر کو محسوس کرنا واقعی عجیب لطف رکھتا ہو گا۔ کیا ہمیں اس نادر سیرت کے خدوخال یا دہیں۔ جس کے جلا ل کو ان رسولوں نے دیکھا اور جس کی قدرت نے ان کی سیرت کو عجیب سانچے میں ڈھالا۔

مسیح کی سیرت

ہم نے اوپر دکھا دیا کہ مسیح میں بہ حیثیت معلم ہونے کے کون کون سی صفتیں پائی جاتی تھیں۔ اب ہم اس کی انسانی سیرت پر چند سطور ہدیہ ناظرین کریں گے ، اور پہلی بات جو اس کے متعلق بہت عیاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مقصد کو خوب پہچانتا تھا۔ یہ شناخت یا احساس جا بجا اس کے کلام اور کام سے ٹپکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ، کہ گویا اس کی زندگی کا مقصد جو ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے چمکتا تھا۔ ہر فعل میں اس کی رہنمائی کرتا اور ہر مہم کو ہاتھ لگانے میں اسے عجیب قدرت اور طاقت بخشتا تھا۔ دنیا میں بے شمار زندگیاں بے مقصد اور بے مصرف نظر آتی ہیں۔ وہ مختلف کیفیتوں سے پُر ہوتی ہیں۔ اور طبعی خواہشات کے اثر سے متاثرہو کر حرکت میں آتی ہیں یا سوسائٹی کی چند روزہ لہروں سے ہم کنار ہو کر بہ جاتی ہیں۔ لیکن مسیح ایک خاص غرض اور خاص مقصد کے لئے آیا تھا۔ اور وہ مقصد رنج اور و راحت میں برابر اس کی آنکھوں کے سامنے چمکتا رہتا تھا۔ مثلاوہ اکثر کہا کرتا تھا ”میرا وقت ابھی نہیں آیا “۔ گویا اس سے یہ پتہ دیتا تھا۔ کہ میری زندگی کے ہر لمحہ میں ہونا چاہےے۔ اس وقت کی پابندی سے دو باتیں پیدا ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر کام سر گرمی سے کیا کرتا تھا۔ اور دوسری یہ کہ اس کی انجام دہی کو کبھی ٹال مٹول میں نہیں ڈالا کرتا تھا۔ اور پھر ان عادت سے نتیجہ بھی پیدا ہوا کہ اس کی قوت کبھی منتشر نہیں ہونے پاتی تھی۔ اور نہ وہ اس غفلت میں گرفتا ر ہوتا تھا۔ جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو فضول سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔ پس اس مقصد شناسی کی وجہ سے اس کی زندگی کے مختلف کاموں میں ایک قسم کا اتحاد پایا جاتا تھا۔

ایک اور صفت جو اس کی کثرت سے پائی جاتی تھی اور صفت مذکورہ بالا سے ایک گہرا رشتہ رکھتی تھی۔ یہ تھی ، کہ اسے اپنی کامیابی کا پورا پورا یقین تھا ، اس لئے نہ تو وہ وسائل کی چنداں فکر کرتا تھا۔ اور نہ مخالفت سے ڈرتا تھا۔ اگر ہم ذرا غور کرکے دیکھیں کہ اسے ایک عظیم کام کو انجام دینا تھا۔ اور اپنی قوم کی اصلاح کرنا اور ایک ایسی مذہبی تحریک کو وجود میں لانا تھا۔ جو گویا ہمیشہ تک قائم رہنے اور دنیا کے کناروں تک پہنچنے والی تھی۔ پھر اگر اسی طرح ہم اس مخالفت پر بھی نظر ڈالیں۔ جو اس کے مذہب کی ترقی کی ہر منزل پر برپا ہونے کو تھی۔ اور اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ انسان ہونے کے اعتبار ہونے کو تھی اور اس بات کو بھی یاد دیکھیں کہ انسان ہونے کے اعتبار سے وہ کسی طرح کی غیر معمولی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ وہ محض ایک ان پڑھ آدمی تھا۔ ہاں اگر ہم ان سے باتوں پر نظر ڈالیں تو اس کا بھروسہ جس میں بے چینی اور ڈانو انڈ ولی کو بالکل جگہ نہ تھی۔ ایک نہایت حیرت خیز بات معلوم ہو گی اگر اس سے بھی زیادہ حیرت خیز کوئی بات ہے تو اس کی کامیابی ہے۔ انجیلوں کے پڑھنے کے بعد ہم متعجب ہر کر پوچھتے ہیں کہ اس میں کیا تھا۔ اور اس نے کیا کیا جو تمام دنیا اس سے مغلوب ہو رہی ہے۔اس نے اس نتیجہ کو پیدا کرنے کے لئے کوئی بھاری تیاری نہیں کی تھی۔ ہم جانتے ہیںکہ وہ اپنے کام کی انجام دہی میں اس بات کا محتاج نہ تھا۔ کہ پہلے عزت اور علم اور دولت اور اختیاروالوں کو اپنا معتقد بنائے اور پھر ان کے وسیلے سے دنیا کو فتح کرے۔ یہ سچ ہے کہ اس نے اس کلیسیا ءکو اپنی عین حیات میں قائم کر دیا تھا۔ مگر یہ بھی سچ ہے۔ کہ اس نے اس کلیسیاءکی خاصیت اور انتظام کے متعلق بہت کچھ نہیں بتایا تھا۔ ہاں اس نے کوئی ایسی تیاریاں نہیں کی تھیں۔ جیسی اکثر وہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ جو مشکل خدمات اور اہم مہات کو ہاتھ لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بھر وہ سے اور خاص ایمان سے کام کیا کرتا تھا۔ نہ تدبیروں کے ادھیڑ بن میں پھنستا اور نہ ساز و سامان کی تیاریوں کی الجھنوں میں گرفتار ہوتا تھا۔ بلکہ ہمت مردانہ کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کو ہاتھ لگا تا تھا۔ یہی وہ صفت تھی جس کی نسبت اس نے کہا کہ وہ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا سکتی ہے۔ یہی وہ ”منادی کی بیوقوفی “ تھی جس پر پولوس فخر کرتا تھا۔ جس کی ظاہری بے سرو سامانی کو لوگ مضحکہ میں اڑاتے تھے۔ لیکن اسی کے حصہ میں یہ بات آئی تھی۔ کہ یونانی اور رومی دنیا کو فتح کرے۔

ایک اور صفت اس میں یہ تھی کہ وہ تازہ خیال اور تازہ بیا ن آدمی تھی، انگریزی میں اس صفت کو ارجنا لیٹی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ذیل کے بیان سے بخوبی ظاہر ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ ان حالات اور واقعات کی پیدائش ہیں جن کا دورہ دورہ ان کے زمانے میں ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ان بے شمار لوگوں کی جو ان کے زمانے میں ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ان بے شمار لوگوں کی جو ان کے زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس کی عا دتیں اوراس کی رسمیں ، جس پشت سے ہم علاقہ رکھتے ہیں۔ اس کے مذاق اور اس کے فیشن ، جو تعلیم ہم نے حاصل کی ہے اس کی روئتیں ، جس جماعت سے ہم وابستہ ہیں، اس کے تعصبات اور جس فرقے کے ہم پیرو ہیں اس کے خیالات ، یہ سب باتیں مل کر ہمیں اپنے سانچے میں ڈھا لتی ہیں۔ہم وہی کام کرتے ہیں، اس کے تعصبات اور جس فرقے کے ہم پیرو ہیں۔ اس کے خیالات ، یہ سب باتیں مل کر ہمیں اپنے سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ ہم وہی کام کرتے ہیں۔ جو اتفاقی واقعات یا موجودہ حالات کی کیفیتیں ہمارے لئے تجویز کرتی ہیں۔ ہم جن باتوں کو مانتے ہیں انہیں سے لئے مانتے ہیں کہ خارخی باتوں کا زور اور لحاظ ہمیں مجبو رکرتا ہے۔ کہ ہم انہیں مانیں، نہ اس لئے کہ باطن میں ان کی حقیقت ہم پر درخشاں ہوتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ رائیں جنہیں ہم اپنی بتاتے ہیں ان کے ٹکڑے ہوا کے ہر جھونکے میں اڑتے ہوئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم انہیں لے کر اپنی رائیں بناتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یسوع مسیح کو کن حالات نے ایسا انسان بنا یا جیسا کہ وہ تھا۔ جس زمانہ میں وہ موجود تھا۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی زمانہ خشک اور بنجر نہ تھا۔ وہ اس نخل کی طرح تھا۔ جو ریگستا ن میں تنہا دکھائی دیتا ہے۔ ناصرت کے ناچیز باشندوں میں کون سی ایسی چیز تھی۔ جو ایسی عظیم الشان سیرت پیدا کرتی ؟ کس طرح وہ جو بدی کے لئے ضرب المثل تھی۔ ایسی مجسم پاکیزگی دنیا کے نمونہ کے لئے پیدا کر سکتی تھی؟ ممکن ہے کہ کسی فقیہ نے اسے معرفت کی ابجد بتائی ہو، مگر اس کی تعلیم فقیہوں کی تعلیم کے بالکل برعکس تھی۔ اور اس کی آزاد روح کبھی مختلف فرقوں کے خیالات کے پنجہ میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ اس شور میں غل کے درمیان جس نے اس زمانے کے کان بھر رکھے تھے اس نے کس طرح سچائی کی آواز کو سنا جو ان صداوں سے جو چاروں طرف سے اٹھ رہی تھیں۔ بالکل مختلف تھی؟پس جو باتیں اس کے زمانے میں پائی جاتی تھیں۔ ان میں سے کسی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلا ں بات نے یسوع کو ایسا بنا یا جیسا کہ وہ تھا۔ بلکہ ہم اس کی حقیقت کو اپنی زبان میں اچھی طرح بیان بھی نہیں کر سکتے جس طرح چھوٹا پودا باطن سے باہر کی طرف اگتا یا پھوٹ نکلتا ہے۔ اسی طرح اس کی اندرونی طاقتوں سے نے بیرونی اظہاروں میں اپنا جلوہ دکھایا۔ وہ آپ اپنی آنکھ سے فطرت اور زندگی کے نظاروں پر غور کیا کرتا تھا۔ اور کبھی اپنی باریک بین نگاہ کو دوسروں کی اصلاح اور اصلاح پر نہیں چھوڑتا تھا اور جیسی رعایت سچائی کی اپنی تحقیقات میں کیا کرتا تھا۔ ویسی ہی اس کی پاسداری اپنے بیان میں بھی کیا کرتا تھا۔

چنانچہ وہ بڑی دلیری اور جرا ت سے ان باتوں کو جنہوں راست سمجھتا تھا بیان کر دیا کرتا تھا۔ خواہ ان کے وسیلے سے موجودہ دستوروں اور عقیدوں اور رسموں کی بنیادیں ہلیں ، اور وہ خیالات جنبش میں آئیں ، جو عام لوگوں کے دلوں میں جمع ہوئے ہوئے تھے۔ا س کی قوم ایسی بنجر اور شورخوردہ زمین کی مانند تھی جس سے کسی طرح کے سبزے کی امید نہیں ہوتی مگر وہ موسیٰ اور نبیوں کے صحائف کی طرف متوجہ ہو کر اپنے خیالات کو تروتازہ کرتا تھا۔ مگر اس میں شک نہیں کو گو وہ ان بزرگوں کی بڑی قدر کر تا اور بڑے ادب اور عزت سے ان کی مطالب بیا ن کیا کرتا تھا۔ چنانچہ وہ ان خیالات کو جو بیج کی طرح ان کے کلام میں پوشیدہ تھے۔ کھول کر ایک مکمل صورت میں پیش کر دیا کرتا تھا مثلاً دیکھئے کہ پرانے عہد کے خدا اور اس آسمانی باپ میں جسے اس نے ظاہر کیا تکمیل مکاشفہ کے اعتبار سے کیسا فرق ہے اور اسی طرح ہیکل اور اس کے کاہنوں اور خون آلودہ قربانیوں میں اور اس عبادت میں جس کی ہدایت اس نے اس طرح کی کہ وہ روح اور راستی سے ہونی چاہےے کیسا عجیب مقابلہ پایا جاتا ہے۔ اور شریعت کی وہ قومی اور رسمی نیکی جس پر یہودی فدا تھے۔ اس نیکی سے جو ضمیر اور دل سے برآمد ہوتی ہے۔ کیسی دور ہے پس یسوع اپنی ارجنا لیٹی کے اعتبار سے موسیٰ اور الیاس اور یسعیا ہ پر بھی فائق تھا۔

پھر اس کی سیرت کی ایک جلالی خاصیت یہ بھی تھی۔ کہ وہ بنی آدم کو پیار کیا کرتا تھا۔ ہم اوپر ایک جگہ بتا آئے ہیں کہ ایک بڑ ا مقصد اس کے دل میں تھا۔ پر یاد رکھنا چاہےے کہ زندگی کے مقصد کی تہ میں ہمیشہ ایک بڑ ا جذبہ جو اس کے مقصد اور غرض کو ہمیشہ برقرار رکھتا تھا۔ یہی تھا کہ وہ انسان سے محبت رکھتا تھا۔ اس بات کی خبر تو ہم کو نہیں دی گئی کہ کس طرح ناصرت کی تنہائی میں یہ محبت اس کے رگ و ریشے میں ایسی سموئی ہوئی تھی۔ کہ اسے اپنی بہتر ی اور بچاو کی مطلق فکر نہ تھی۔ بلکہ مصیبت زدوں سے ہمددری کرنے کے خیال میں سراسر ڈوبا ہوا تھا۔ یہی سبب تھا، کہ اس نے کبھی لوٹ کر نہ دیکھا بلکہ جس کام کو ہاتھ لگایا اس کے آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ ہم عام طور پر یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ انسانی محبت غالباً اس تصور سے تقویت پاتی رہی ہو گی جو وہ انسانی روح کی بیش بہا قیمت کے متعلق رکھتا تھا۔ اور یہی باعث تھا کہ اس کی محبت ان تمام حدود سے تجاوز کر گئی جو اکثر لوگوں کی ہمدردی اور سخاوت کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ کیسا اوقات ذات پات یا قومی امتیاز کے خیالات ہم کو ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں، کہ قریباً تمام ممالک میں دشمنوں سے نفرت سے کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ اور قریباً سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ جو اشخاص تہذیب کا ستیاناس کرتے ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہےے ، پر یسوع ان باتوں کی پروا نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ اس کو وہ بیش قیمت شے جو اسے دشمن اور اجنبی اور مردوں لوگوں میں برابر نظرآتی تھی۔ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ پس یہی محبت وہ شے تھی جس سے اس کی زندگی کا مقصد پیدا ہوا تھا۔ یہی سبب تھا، کہ وہ ہر طرح کے درد اور دکھ میں مد د دینے کے لئے ہمیشہ تیار تھا۔ یہی وہ خاص وجہ تھی جس کے سبب سے اس نے شفا بخشنے کے کام کو اختیارکیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں مد د کی ضرورت ہوتی تھی اس کا محبت بھرا دل اس کو وہاں کھینچ لے جاتا تھا۔ پر اس کی پُر جوش محبت خاص کر اس بات میں نظر آئی کہ وہ روحوں کے بچانے کی بڑی کوشش کیا کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ یہی وہ موتی ہے جس کے بچانے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرنا چاہےے کیونکہ اس کے دکھوں سے بڑھ کر اور کوئی دکھ ناقابل برداشت نہیں لوگ اکثر اوروں سے تو محبت رکھتے ہیں۔ پر ان کی روحوں کی نسبت کبھی خیال نہیں کرتے لیکن اس کی حکمت نے اس کی حکمت نے اس کی محبت پر ظاہر کر دیا جن سے محبت کی جاتی ہے ان کی اصل بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ان کی روحیں بچائی جائیں۔ پس وہ محسوس کرتا تھا کہ اگر میں لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچاوں تو ان کی اصل اور حقیقی بہتری وجود میں آئے گی۔

لیکن اس کی انسانی سیرت کے متعلق جو صفت سب کی سرتاج ہے یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت رکھتا تھا۔ خدا کے ساتھ خواہش اور خیال اور ارادہ میں موافقت پیدا کرنا سب خوبیوں سے بڑی خوبی ہے ، مسیح میں یہ خوبی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ ہمارے لئے خدا کو محسوس کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے اور عام لوگوں میں تو ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کبھی اس کی نسبت سوچتے ہی نہیں بلکہ دیندار بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے دل اور دماغ کی سخت تربیت کرنی پڑتی ہے۔ اور کیا یہ یہ ٹھیک نہیں کہ جب کبھی ہم خدا کو یاد کرتے ہیں تو ہمارے دل چھد جاتے ہیں۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ہم میں ہے وہ اس سے جو خدا میں پایا جاتا ہے۔ بالکل مختلف ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ جب ہم اس کی حضوری میں جاتے ہیں تو چند لمحوں کے بعد ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ہمارے خیالات اس کے خیالات نہیں اور ہماری راہیں اس کی راہیں نہیں لیکن یسوع کا یہ حال نہ تھا۔ اس کے دل میں خدا کا خیال اور عرفان ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ اس کی زندگی میں نہ کوئی ایسا لمحہ تھا اور نہ کوئی ایسا کام جس میں خدا کا خیال نہ ہو۔ جس طرح وہ ہوا جو سانس کے وسیلے سے اندر آتی جاتی تھی۔ یا جس طرح سورج کی وہ روشنی جو اس کو منور کرتی اور اسے چاروں طرف سے گھیرے تھی اسی طرح خدا بھی اس کی ہستی کے ہر جانب موجود تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ میرے خیالات خدا کے خیالات ہیں اور میری خواہش خدا کی خواہش سے متفق ہے۔ اور جو مقصد میرا ہے وہی میرے خدا کا ہے۔ اب سوال پیش آتا ہے۔ کہ یہ اتحاد جو اس میں اور خدا میں پایا جاتا تھا کس طرح پیدا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت کچھ تو یہ اتحاد اس کامل اتحاد سے پیدا ہوا ہو گا جو اس کی ذات کی مختلف طاقتوں میں پایا جاتا تھا۔ اور پھر کسی حد تک انہیں وسائل کے ذریعے سے بھی دستیاب ہوا ہوگا۔ جن کے ذریعے سے ہم اس کی تلاش کیا کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ وہ خدا کے خیالات اور ارادوں سے کلام اﷲ کے وسیلے سے واقف ہوا جس کا مطالعہ بچپن ہی سے اس کی خوشی کا باعث تھا۔ اور اسی طرح دعا نے بھی اس کو خدا کا ہم خیال بنا یا ، کیونکہ وہ دعا کا ایسا قائل تھا کہ اگر کھانا کھانے کو وقت نہ ملے تو نہ ملے لیکن دعا کے لئے ضرور وقت نکال لیتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی تھی۔ جس نے اس کے اور خدا کے خیالوں میں موافقت پیدا کر دی تھی، اور وہ یہ تھی۔ کہ وہ ان آزمائشوں کا مقابلہ کیا کرتا تھا، جو ایسے خیالات اس کے دل میں ڈالنا چاہتی تھی۔ جو خدا کے خیالوں کے مخالف ہوتے تھے۔

یہی وہ بات تھی۔ جس کے سبب سے وہ اپنے کام کو بڑے اعتقاد اور دلیری سے کرتا رہتا۔ وہ جانتا تھا ، کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس کے لئے خدا نے مجھے بلایا ہے۔ اور جب تک اسے پورا نہ کر لوں تب تک کوئی میرا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔ یہی عرفان وہ چیز تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی خوبیوں اور لیاقتوں کو جانتا ہوا فروتنی اور فرمانبرداری کا نمونہ بنا رہا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے خیال اور خواہش کو خدا کی مرضی سے کے تابع رکھتا تھا یہی اس پرُ شان اطمینان کا راز تھا۔ جو سخت سے سخت موقعوں پر بھی اس کی سیرت کو نورانی زینت سے سجائے رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا ، کہ بڑی سے بڑی مشکل جو مجھ پر آسکتی ہے۔ وہی ہے جو میرے باپ نے میرے لئے تجویز کی ہے ، پس اس بڑھ کر اب اور کون سی تکلیف آئے گی۔ سو وہ ہمیشہ کامل آرام اور خاموشی اور خوشی کا سرچشمہ اپنے نزدیک پاتا تھا۔ جس میں ادھر اُدھر کے شور غل اور ابتری سے پناہ پاتا تھا۔ یہی وہ بیش بہا خزانہ ہے جو اس نے جانے سے پہلے شاگردوں کو میراث کے طور پر عطا فرمایا جس وقت یہ کہا ” میں تمہیں اطمینا ن دیئے جاتا ہوں اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں “۔

اکثر مسیح کی بے گناہی بھی اس کی سیرت کی اعلیٰ خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ اور واقعی اس کی یہ صفت نہایت توجہ طلب ہے۔ ابرہام اور موسیٰ جیسے خدا پر ست بزرگوں کے گناہ بڑی سچائی اور صفائی کے ساتھ نوشتوں میں قلمبند ہیںلیکن مسیح کی کوئی کمزوری ان میںرقم نہیں۔ پرانے زمانے کے خدا ترس بندوں کی دینداری کا سب سے اعلیٰ خاصہ یہی تھا۔ کہ وہ بار بار اپنے گناہوں کو یاد کرکے پچھتاتے اور توبہ کیا کرتے تھے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ جس قدر دینداری کی اعلیٰ منز ل تک پہنچے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی قدر اپنی گناہ آلودگی کو دیکھ کر زیادہ آنسو بہاتے اور غمناک نالے بلند کیا کرتے تھے۔ لیکن مسیح کے حق میںیہ نہیں کہا جا سکتا ، حالانکہ سب لوگ مقفق ہیں۔ کہ وہی اکیلا دین کی تاریخ میں ایک لاثانی آدمی ہے تو بھی اس کی زندگی میں وہ توبہ جو دینداری کی جان سمجھی جاتی ہے دکھائی نہیں دیتی کیا اس کا یہی سبب نہیں کہ اس سے کبھی کہ اس سے کبھی کوئی گناہ سر زد نہ ہوا جس سے توبہ سے کرنے کی ضرورت ہوتی ؟

اب یہ تو بالکل صحیح ہے کہ وہ بے گناہ تھا پر سوال برپا ہوتا ہے۔ کہ کیوں اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ محبت مجسم تھا۔ خدا کے برخلاف گناہ کرنا خدا سے محبت نہ سے رکھنے کی وجہ سے ہے اور اسی طرح انسان کا قصووار ہونا انسان سے محبت نہ رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔ اب وہ شخص جو خدا اور انسان دونوں کی محبت سے معمور تھا۔ نہ خدا کا اور نہ انسان کا گناہ کر سکتا تھا۔ پس اسی محبت میں جو وہ اپنے باپ اور بنی آدم کے ساتھ پورے طور پر رکھتا تھا، اس کی سیرت کے کمال کا اصل راز تھا۔

سیدنا مسیح کے شاگردوں میں جو خوبیاں اور لیاقتیں پیدا ہوئیں ، ان کا اصل منبع وہی اثر تھا۔جس کا پر تو اس کے وسیلے سے ان پر پڑتا رہا۔ پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے وہ صداقت کب پہچاننی شروع کی جو مسیحی مذہب کی جان ہے۔ اور جس کی منادی انہوں نے مسیح کے بعد دنیا میں جا بجا کی اور یہ بتایا کہ اس کی انسانی سیرت کی نرمی اور تحمل کے پیچھے ایک اور ذات بھی نہاں تھی۔ جو اس کی سب صفتوں سے افضل اور بزرگ تر تھی۔ یا یو ں کہیں کہ نہیں جانتے کہ کس طرح انہوں نے معلوم کیا کہ اس میں کامل انسانیت کے ساتھ کامل الوہیت بھی مل ہوئی تھی۔ البتہ ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ جو کچھ اس نے ان پر اپنی نسبت ظاہر فرمایا اس کا یہی مطلب تھا کہ وہ اس عجیب راز سے واقف ہوں لیکن اس کی صلیب کے وقت تک ان کا خیال اس کی شخصیت کی نسبت پورے طور پر قائم نہیں ہوا تھا۔ گو کئی بار پہلے انہوں نے اس کی عجیب شخصیت کے بارے میںبڑے بڑے اقرار بھی کئے تھے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھید ان پر اس وقت ظاہر ہوا جب وہ مردوں میں سے جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا یا یوں کہیں کہ جب یہ واقعات ظہور میں آئے تب وہ اعتقادات جو اس کی شخص کی نسبت ان کے دل میں رقیق چیز کی طرح حرکت کر تے تھے۔ بلو ر کی طرح ایک جا منجمد ہو گئے اور وہ یہ ماننے لگے۔ کہ جس کے ساتھ ہم کو اتنے دن تک رہنے سہنے کا موقعہ ملا وہ خدا ئے مجسم تھا۔

ساتواں باب

مخالفت کا سال

خدا وند مسیح سال بھر تک بڑی سرگرمی اور جانفشانی سے ملک گلیل میں کام کرتا رہا اور جہاں جہاں وہ جاتا تھا۔ وہاں قابل رحم بیماروں کو اپنی قدرت سے شفا بخشتا اور طالبان حق کو اپنے فضل اور سچائی کے کلام سے بہرہ در فرماتا تھا۔غالباً سینکڑوں خاندان جنہیں اس کے طفیل سے صحت اور خوشی حاصل ہوئی اس کے نام کو محبت سے یاد کرتے اور ہزاروں اشخاص جن کے دلوں کو اس کی تعلیم اور منادی نے ہلا دیا تھا۔ اس کی الفت کا دم بھرتے تھے۔ اس کی شہرت روز بروزبڑھتی جاتی تھی۔ اور معلوم ہوتاتھا ، کہ تھوڑے دنوں کے بعد تمام گلیل اس کی پیروی اختیار کرلیگا۔ اور آخر کار یہ تحریک تمام مخالفتوں پر غالب آجائے گی او ر تمام ملک کو اس طبیب حاذق کی محبت اور اس استاد کا مل کی اطاعت سے معمور کرکے جنوب کی طرف بڑھ جائے گی۔

لیکن ایک سال بھی نہیں ہونے پایا تھا۔ کہ یہ امید مایوسی کی صورت اختیار کرنے لگی۔ اہل گلیل کے دل پتھر یلی زمین کی مانند تھے کیونکہ ان میں خدا کی بادشاہی کا بیج جس قدر جلد اگا اسی قدر جلد کملانے لگا اور یہ عجیب تبدیلی یک بیک وجود میں آئی اور ایسے مستقل طور پر کہ پھر اس میں سر موفرق نہ آیا اور اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے خدا وند کی زندگی نے بھی ایک نئی صورت اختیار کی۔ گو وہ اس کے بعدچھ ماہ تک وہیں رہا مگر یہ چھ ماہ گذشتہ بارہ ماہ کی مانند نہ تھے۔ کیونکہ اب جو صدائیں اس کے ارد گرد بلند ہوتی تھیں۔ انہیں جوش لحن حمد اور شکر گزاری کے نغمے نہیں کہ سکتے۔ ان سے عداوت اوردشمنی اورکفر کی کی بو آتی تھی۔ پہلے وہ ملک کے وسط میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک آزادی سے جایا کرتا تھا۔ اور لوگ ہر جگہ اس سے تپاک سے ملا کرتے تھے۔ اور جو لوگ اس کا کلام سننے کا اشتیاق رکھتے تھے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ لیکن اب وہ دلکش سماں مفقود ہو گیا۔ چنانچہ اب وہ چند رفیقوں کی ساتھ لے کر غیر علاقوں میں جا جا کر پناہ گزیں ہوتا تھا۔

پھر اس نے چھ مہینے کے بعد گلیل سے روانہ ہو کر یہودیہ کا رخ کیا۔ ایک وقت تھا ، جب یہ امید جھلک دکھا رہی تھی۔ کہ جب اس کی قوم کے لوگ گلیل میں اس کی مسیحائی کے قائل ہو جائیں گے۔ تو جنوبی حصے کے باشندوں کے دل بآسانی مسخرہو جائیںگے۔ اور یروشلیم بھی قومی اتفاق کے مقابلہ سے عاجزآ کر اس کی پیروی اختیار کر لیگا۔ مگر اب یہ امید بالکل کا فور ہو گئی۔ پس وہ جنوبی اطراف کی جانب روانہ ہوا اور جا کر چھ ماہ تک یہودیہ اور پیریہ میںبڑی عرق ریزی سے کام کرتارہا ، اور اس میں شک نہیں کہ ان جگہوں میں جہاں جہاں اس معجزے پہلی مرتبہ وجود میں آئے وہا ں وہی پبلک جوش پیدا ہوا جو گلیل کے پُر امید زمانہ میںپیدا ہواتھا۔ مگر ان معجزوں کا اثر صرف اتنا ہوا کہ تھوڑے سے جاں نثار شاگرد اور اس کے پیرووں کے زمرے میں شامل ہو گئے۔ جس دن سے اس نے گلیل کو چھوڑ ا ، اسی دن سے اس نے یروشلیم کا رخ کیا ، اور جو چھ ماہ یہودیہ اور پیریہ میں صرف ہوئے انہیں اس سفر کا عرصہ خیال کرنا چاہےے جو آہستہ آستہ طے ہوا لیکن اس سفر کا اختیار کرنے سے کہیں پہلے اسے معلوم تھا(اور اس نے اپنے شاگردوں کو بھی مطلع کر دیا تھا) کہ یروشلیم میں میرے سر پر تاج نہیں رکھا جائے گا بلکہ وہاں لوگ مجھے بالکل رد کر دیں گے۔ آو ہم اس بات پر غو ر کریں کہ گلیلیوں کی اس تبدیلی کی اور کیونکر اس کے سبب سے مسیح کی زندگی اور کام میں ایک افسوسناک تبدیلی واقعہ ہوئی۔

واضح ہو کہ جو لوگ علم اور عزت رکھتے تھے۔ وہ شروع ہی سے اس کے مخالف تھے۔ البتہ وہ فرقے جو صدوقی اور ہیرودی کہلاتے تھے کچھ مدت تک بے پروار ہے کیونکہ ان کی توجہ دولت جمع کرنے اور حکام کے حضور میں عزت پانے کی طرف لگی ہوئی تھی۔ لہذا وہ اس مذہبی تحریک کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ جو ادنیٰ درجے کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئی۔ اگر چہ یہ شہرت جا بجا پھیل رہی تھی۔ کہ ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ لیکن انہیں اس بات سے چنداں دلچسپی نہ تھی کیونکہ عوام جو کچھ مسیح کے بارے میں مانتے تھے۔ صدوقی اور ہیرودی اس کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ یہ بھی ان فریبیوں میں سے ہو گا جو عام لوگوں کے خیالات کے مطابق وقتاً فوقتاً برپا ہوتے رہتے ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس تحریک کے باعث لوگو ں کے باغی ہوجانے کا خطرہ ہے اور ڈر ہے کہ آخر کار رومی حکام ملک پر ظلم کرنے لگ جائیں، پروکیور یٹر کو لوٹ مار کرنے کا موقع ملے ،اور ہمارا مال و جان خطرے میں پڑ جائے تب انہوں نے بھی کروٹ بدلی۔

لیکن جو لوگ زیادہ تر مذہب کی طرف مائل تھے اور فریسی اور فقیہ کہلاتے تھے۔ ان کا حال دگر گوں تھا۔ وہ کلیسیائی اور دینی معاملا ت کو دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔ اور جب کبھی عام لوگوں کے درمیان کسی طرح کی مذہبی تحریک برپا ہوتی تھی۔ تو وہ چونک اٹھتے تھے کیونکہ وہ خود عوام سے تعظیم اور عزت کرانے کے کے خواہاںتھے۔ پس جب کبھی کوئی ایسی بات مشہور ہوتی کہ فلاں شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی نئی تعلیم یا نیا مسئلہ رواج پکڑتا جاتا ہے۔ تو وہ فوراً اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور خصوصاً جب وہ یہ سنتے تھے۔ کہ کوئی شخص دعوائے مسیحائی کے ساتھ ہمارے ملک میں نمودار ہوا ہے تو سراسر جوش سے بھر جاتے تھے۔ کیونکہ وہ بڑے اصضطراب اور بیقراری کے ساتھ مسیحی امیدوں کے برآنے کی راہ دیکھ رہے تھے اور اس کے علاوہ غیروں کی حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں، کہ اس وقت وہ غالباً چھ ہزار کے قریب تھے اوراپنے ملک میں بڑے ذی عزت اور باوقار سمجھے جاتے تھے۔ یا یوں کہنا چاہےے کہ اپنے وطن میں خالص دین اور بزرگوں کے آئین کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔ لوگ انہیں اپنا رہبر جانتے تھے۔ اور خیال کرتے تھے، کہ مذہبی معاملات میں رائے دینا اور فیصلہ کرنا انہیں کا حق ہے۔ پس ان لوگوں پر صدوقیوں کی کی طرح یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ انہوں نے مسیح یسوع کی طرف مطلق تو جہ نہ کی کیونکہ وہ ایک ایک قدم پر اس کا پیچھا کرتے اور اس کی ایک ایک تعلیم اور اس کے ایک ایک دعویٰ پر بحث کیا کرتے تھے۔ مگر ان کا فیصلہ اس کے برخلاف ہوتا تھا۔ اور انہوں نے اپنے فیصلے کی ایسی پیروی کی کہ ان کی مخالفت میں کبھی فرق نہ آیا۔

مسیح کی تمام غمناک زندگی میں شاید یہ بات سب باتوں سے زیادہ غمناک اور ناموافق معلوم ہوتی ہے۔ کہ جن لوگوں نے اسے رد کیا اور جنہوں سے اسے صلیب پر کھینچا وہ وہی لوگ تھے جو تمام قوم کا فخر اور لوگوں کے پیشوا اور رہبر تصور کئے جاتے تھے۔ جو بائبل اور گذشتہ زمانوں کی روایتوں کے سرگرم محافظ سمجھے جاتے تھے اور جو کمال شوق سے مسیح کی انتظاری کر رہے تھے۔ انہوں نے مسیح کا فیصلہ اپنے زعم میں نوشتوں کے مطابق کیا اور یہ خیال کیا کہ جو کچھ ہم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ وہ اپنی ضمیر کے مطابق اور خدا کی خدمت اور عزت کے لئے کیا ہے۔ جو لوگ انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ ان کے دل میں کبھی کبھی ان لوگوں کے لئے ہمددری کا خیال پیدا نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک یسوع بالکل اس مسیح کی مانند نہ تھا جس کی انتظاری وہ کررہے تھے۔ اور جس کی انتظاری کرنا انہوں نے اپنے باپ دادوں سے سیکھا تھا۔ وہ ان کے تعصبات اور مذہبی تو ہمات کو پامال اور ان باتوں کی تحقیر کرتا تھا۔ جنہیں وہ بچپن سے مقد س سمجھتے تھے۔ بے شک ہمیں ان کے ساتھ ہمددری کرنا چاہےے کیونکہ کبھی کسی قوم نے ایسا جرم نہیں کیا ، جیسا انہوں نے کےا اور نہ کبھی کسی قوم کو ایسی سز املی۔ اسی قسم کا تاسف اور اسی قسم کی غمگینی ان لوگوں کے حالا ت سے ٹپکتی ہے جو دنیا کی تاریخ کے کسی نازک حصے سے دوچار ہو کر اور زمانہ کے آثار سے ناواقف رہ کر طرح طرح کی غلطیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں کا یہی حال تھا جو ریفارمیشن کے زمانے میں بہ سبب اپنی کو تاہ بینی کے انتظام ربی کی رفتار کے ساتھ پہلونہ پہلو نہ چل سکے۔

لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ ان کی جڑ میں کیا گھن لگا ہوا تھا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ان کی آنکھو ں پر ایسا گناہ کا پردہ پڑا ہو اتھا۔ کہ وہ نور کی شعاعوں کو محسوس نہیں کر سکتے تھے۔ صدیوں کی دنیاداری کی روحانی طبیعت کی کمزوری نے مسیح تصور کی ہیت لگا ڑ دی تھی۔ پس انہوں نے مسیح کا ایک بگڑ ا ہوا تصور ورثہ میں پایا تھا۔ وہ یسوع کو گنہگار سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کی ان رسومات سے اتفاق نہیں کر تا تھا۔ جو انہوں اور ان کے آباو جداد نے کلام الٰہی پر اضافہ کر دی تھیں اور نہ وہ اس اندازہ کو درست جانتا تھا۔ جس سے وہ لوگوں کی نیکی کو نا پا کرتے تھے۔ مسیح نے اپنے دعووں کے ثبوت میں مضبوط گواہی ان کے سامنے پیش کی لیکن انہیں اس اس کے پرکھنے اور دیکھنے کی آنکھیں میسر نہ تھیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ دیانتدار اور صادق دلوں کی تہ میں ایک ایسا وصف نہاں ہوتا ہے۔ جو خواہ کیسے ہی سخت تعصب اور گناہ کے پردو سے دبا ہواہو بھی جس وقت وہ شے جو برحق اور قابل تعظیم ہے جو پاک اور عظیم ہے۔ اس کے نزدیک آتی ہے تاکہ لوگ اسے قبول کریں تو خوشی اور شوق کی وجہ سے وہ پوشید ہ وصف ظاہر ہوجاتا ہے۔ لیکن لوگوں میں اس قسم کی کوئی خاصیت نہ تھی۔ بلکہ ان کے دل داغدار اور سخت اور مردہ تھے۔ وہ اپنے قواعد اور اپنے اندازوں سے اس کے دعاوی کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔وہ کبھی اس کی سیرت کی عظمت کو دیکھ کر اپنی نکتہ چینیوںسے سے باز نہ آئے۔ یسوع حقیقت اور صداقت کو ان کے پاس لایا مگر چونکہ وہ صداقت پسند کا ن نہ رکھتے تھے۔ لہذا صداقت کی میٹھی آواز کی شیرینی کا حظ نہ اٹھا سکے۔ وہ ایسی بےھ داغ پاکیزگی ان کے پاس لایا جو برف سے سفید اور اُون سے اجلی تھی۔ جس کے دیکھنے کی تاب فرشتے نہیں رکھتے تھے۔ پر ان کے دل اسے دیکھ کر ملائم نہ ہوئے۔ اس نے ان کے پاس آکر الٰہی رحمت اورمحبت کے چہرے سے نقاب اٹھا دیا۔ مگر ان کو رچشموں نے اس کے حسن تقدس کو ذرا محسوس نہ کیا۔ ہم ایسے لوگوں کی روش کوان کی افسوسناگ بدقسمتی تصور کر سکتے ہیں۔ لیکن شاید زیادہ بہتر یہ ہے۔ کہ ہم اسے خطرناک جرم سمجھ کر اس سے ڈریں اور اپنے دلوں میں کا پنیں۔ جس قدر لوگ شرارت میں پختہ کار ہو تا ہے۔ جس قدر کسی قوم کے گناہ بڑھتے جاتے ہیں۔ اور صدی بصدی میراث کے طور پر آنے والی نسلوں کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ اسی قدر یہ یقین بڑھتا جاتا ہے۔ کہ یہ ہولناک حالت انجام کار کسی عظیم قومی جرم یا ناگریز قومی حادثے پر ختم ہو گی۔ اب جب وہ ناگریز حادثہ سر زد ہو جائے تب اسے نہ صرف قابل رحم سانحہ گرد اننا چاہےے بلکہ خدا کے پاک اور غیرت مند غضب کا موجب بھی سمجھنا چاہے۔

جن باتوں کی سبب سے ان کی مخالفت شروع ہی سے اپنا جو ہر دکھانے لگ گئی ان میں ایک یہ تھی۔ کہ وہ ایک غریب خاندان میں پیداہوا۔ ان کی آنکھوں اہل دنیا اور ارباب علم و فضل کے تعصبات کے پردہ میں تھیں۔ لہذا وہ مرتبے اور تہذیب کی عارضی صفات سے جدا روح کے اصل جو ہر کی جھلک کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ وہ ان کی نظر میں عام آدمی تھا۔ بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ اور بد تہذیب اور شیر یر لوگوں کے ملک گلیل میں پیدا ہو اتھا۔ اس نے یروشلیم کے مشہور مدارس میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ سب نبیوں اور بالخصوص مسیح کی یروشلیم میں پیدا ہونا چاہےے اور یروشلیم میں آکر تہذیب اور مذہب کے بڑے بڑے مرکزوں میں پرورش پانا اور ان اشیا ءسے جو قوم میں ممتاز اور قابل قدر سمجھی جاتی ہیں۔ رسوخ پیدا کرنا چاہے۔

اور اسی طرح وہ شاگرد جو اس نے چنے اور وہ سنگت جو اس نے اختیار کی ان کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوئی۔ جن لوگوں کو اس نے کام کے لئے چنا وہ ان میں سے نہ تھے۔ انہیں نہ اپنی حکمت کا فخر اور نہ اپنے خاندان پر ناز تھا۔ بلکہ وہ کم علم لوگوںمیں سے تھے۔جن کا پیشہ ماہی گیرتھا۔ ان میں سے ایک محصول لینے والا بھی تھا۔ شاید یسوع کے کسی اور فعل سے ان لوگوں کواتنی چوٹ نہیں لگی جتنی محصول لینے والے متی کے انتخاب سے لگی۔ محصول لینے والے جو غیرقوم حاکموں کے نوکر ہوا کرتے تھے۔ بہ سبب اپنے کام اور ظلم اور سیرت کے حقیر سمجھے جاتے تھے۔جو لوگ حب الوطنی کی صفت رکھتے تھے۔ اور مال و عزت سے مالامال ہوتے تھے۔ وہ انہیں بالکل خاطر میں نہ لاتے تھے۔ پس خدا وند یسوع کب یہ تو قع رکھ سکتا تھا۔ کہ ذی عزت اورذی علم اشخاص ان لوگوں کے حلقے میں داخل ہوں جو اس کے ارد گرد جمع تھے۔ علاوہ بریں وہ سب ذیل لوگوں سے پڑی آزادی کے ساتھ ملتا جلتا تھا۔ مثلاً محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے پاس اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس مسیحی زمانہ میں ہم زیادہ تر انہیں باتوں کے لئے اس اس پر فدا ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں۔ کہ اگر وہ واقعی نجات دینے کو آیا تھا۔تو یہ لازمی امر تھا کہ وہ زیادہ تر ایسے لوگوں کی سنگت میں پایا جائے جن کو نجات کی زیادہ تر ضرورت تھی۔ ہم جانتے ہیں۔ کہ اس کو یہ یقین تھا کہ ان کھوئے ہووں کے درمیان بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خاص حالات کے سبب سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے قصدا ً گناہ آلود زندگی کو اپنے لئے نہیں چنا اور اگر میں محبت کی مقناطیسی کشش کو اس کوڑے کرکٹ کے درمیان کام میں پاک طینت اور عالی نسب لوگوں نے بھی اس کے نقش قدم پر چلنا سیکھ لیا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے نمونے کے مطابق گناہ اور ضلالت کے گندے گندے طبقوں میں اترتے ہیں تاکہ کھوئے ہوو ¿ں کو ڈھونڈیں اور بچائیں۔ لیکن اس کے آنے تک اس قسم کے خیالات دنیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پس وہ گنہگار جو تہذیب و تعظیم کے دائرے سے باہرتھے۔ حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھے اور سوسائٹی کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ اور کوئی ان کے بچانے کی کوشش نہ کرتاتھا۔ بلکہ برعکس اس کے یہ دیکھا جاتا تھا۔ کہ جو لوگ دین داری میں نام پیدا کرنا چاہتے تھے۔وہ ان سے بالکل الگ رہتے تھے۔ مثلاً شمعون ، فریسی کو جو مسیح کا میزبان تھا پکا یقین تھا۔ کہ مسیح بنی نہیں اگر ہوتا تو فوراً جان لیتا کہ جس عورت نے مجھے چھوا ہے۔ وہ گنہگار ہے اور فوراً اسے دھمکا کر دور کر دیتا۔ جو سال شمعون فریسی کا تھا وہی سارے زمانے کا تھا۔پھر بھی اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جب مسیح نئی حالت کو دنیا میں لایااور جس وقت اس نے اس کا جلوہ انہیں دکھا یا تب چاہےے تھا۔ کہ وہ نئے اصول کو پہچان لیتے اور اگر ان کے دل سخت اور ظلم سے معمور نہ ہوتے تو وہ اس الٰہی طرز کی انسانیت کے کشف کو آگے بڑھ کر قبول کرتے۔ لازم تھا ، کہ وہ گناہگاروں کو اپنے گناہوں سے تائب ہوتے اور بد چلن عورتوں کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی پر آنسو بہاتے اور زکائی جیسے لالچی اشخاص کو سرگرم دیندار اور کشادہ دل ضیاض بنتے دیکھ کر خوش ہوتے مگر وہ خوش نہ ہوئے بلکہ اس کے اسی رحم کے باعث اس سے متنفر ہو گئے اور اسے محصول لینے والوں اور گناہگاورں کا دوست کہنے لگ گئے۔

تیسر ی وجہ ان کی مخالفت کی یہ تھی کہ وہ بعض بعض رسومات (مثلاً روزہ رکھنے اور کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے وغیرہ )پر نہ خود عمل کر تا تھا اورنہ اپنے شاگردوں کو عمل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ حالانکہ یہی باتیں اس زمانے میں دینداری کا نشان سمجھی جاتی تھیں۔ اس بات کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ کہ کس طرح یہ رسوم وجودمیں آئیں۔ یہ سب رسمیں ایک سر گرمی کے زمانہ میں پیدا ہوئیں۔ اور اس غرض سے کہ ان کے وسیلے سے یہودی قوم کی خصوصیتیں قائم رہیں۔اور وہ غیر قوموں کے ساتھ ملنے نہ پائیں۔ بلکہ ان میں اور دوسری قوموں میں نمایاں طرق نظر ائے۔ اصل مقصد تو درست تھا مگر اس کا نتیجہ افسوسنا ک ہوا۔لوگ بہت جلد بھول گئے کہ یہ رسمیں انسان کی ایجاد ہیں اور یہ ماننے لگ گئے کہ وہ خداکی طرف سے ہیں اور ان کا ماننا ہم پر فرض ہے۔ ان کا شمار رفتہ رفتہ بڑھتا گیا حتیٰ کہ روز مرہ زندگی میںکوئی فعل اور کوئی حرکت ایسی نہ تھی جس پر ان رسموں کا کچھ نہ کچھ اثر نہ پڑتاتھا۔ بہت سے لوگوں نے ان رسموں کو سچی دینداری اور اخلاق کی جگہ دے رکھی تھی۔ مگر روشن ضمیر لوگوں کے لئے یہ فضول رسمیںبڑے بوجھ کا باعث تھیں۔ کیونکہ ہر وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میںبھی اندیشہ ہوتا تھا۔ کہ کہیں کوئی رسم ٹوٹ نہ جائے۔ کوئی شخص ان کے جائز ہونے پر شک نہ لاتا تھا۔ اور بڑی خبر دار ی کے ساتھ ان کو بجا لانا دین داری کا تمغہ سمجھا جاتا تھا۔ پر یسو ع ان رسموں کو اس زمانے کی خرابیوں میں شمار کرتا تھا۔ لہذا وہ ان کی پابندی کا قائل نہ تھا۔ اور نہ دوسروں کوان کا غلام بننے کی اصلاح دیتا تھا۔ وہ لوگوں کو ان کی پابندی کے عوض میں انصاف اور رحم اور ایمان کے سچے اصول کی طرف متوجہ ہونے کی تاکید کرتا تھا۔ اور یہ لیاقت ان میں پیدا کر نا چاہتا تھا۔ کہ وہ ضمیر کی عظمت کو پہچاننا اور شریعت کی گہری باتوں اور روحانی معنو ں کو جاننا سیکھ جائیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ لوگ اسے بے دین اور گمراہ کرنے والا کہنے لگ گئے۔

اس میں اور مذہبی استادوں میں جو نااتفاقی پائی جاتی تھی۔ وہ سبت کے متعلق بڑے شور سے ظاہر ہوئی۔ سبت کے روز کے متعلق ان کے تجویز کئے ہوئے اوامر و نواہی اس حدتک پہنچ گئے تھے۔ کہ آرام اور خوشی اور برکت کا دن ایسا ناگوار ہو گیا تھا۔ کہ لوگ اس تنگ آ گئے تھے ، مسیح اکثر سبت کے روز بیماروں کو چنگا کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ ایسے کاموں کے چوتھے حکم کے برخلاف سمجھتے تھے۔ اس نے بار بار ان کے اعتراضوں کی غلطی فاش کی یا یوں کہیں کہ سبت کے حقیقی مطلب اور مقصد کو کئی طرح سے ظاہر فرمایا کہ وہ آدمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی اس کے لئے ، اور اس کے ثبوت میں پرانے مقدسوں کی نظیریں پیش کیں۔ اور ان کے دستورات کو جو سبت کے روز عمل میں آتے تھے۔ ان کے سامنے رکھا مگر وہ قائل نہ ہوئے اور چونکہ وہ باوجود ان کے اعتراض کے بیماروں کو سبت کے دن چنگا کرتا رہا اس لئے وہ ہمیشہ اس سے عداوت رکھتے تھے۔

اب ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ جو لوگ اس کی نسبتگ اس قسم کے ناقص اور کمینے خیالات اپنے دل میں رکھتے تھے۔ وہ کب اس کے اعلیٰ قسم کے دعوے سننے کو تیار ہو سکتے تھے۔ مثلاً جب اس نے یہ بتایا کہ میں مسیح موعود ہوں، میںگناہوں کو معاف کر سکتا ہوں اور جب اس نے ازلی رشتے کی جو وہ باپ سے رکھتا تھا۔ ان کو خبر دی تو وہ اس کے شنوا نہ ہوئے بلکہ الٹے اس کے مخالف ہو گئے ، اور ان باتوں کو کفر گوئی سمجھ کر اس کا منہ کرنے کے درپے ہوئے۔

ممکن ہے کہ ہم یہ سوچ کر اپنے دل میں حیران ہوں کہ کیا اس کے معجزوںنے بھی اسن کو قائل نہ کیا۔ اگر واقعی اس نے وہ عظیم اور اور بے شمار معجزات دکھائے جو اس سے منسوب کئے جاتے ہیںتو پھر کس طرح انہوں نے اس کے خدا کی طرف ہونے کی اس اعلیٰ گواہی کو رد کیا ؟ وہ بحث جو جو سنہیڈروم کے ممبروں اور جنم کے اندھے کے درمیان واقع ہوئی جس کا بیان یوحنا کی انجیل کے نویں باب میں پایا جانا ظاہر کر تی ہے۔ کہ اس قسم کی شہادت بڑے شدو مد کے ساتھ ان کے روبرو دلائجی جاتی تھی۔ لیکن وہ ایک نامعقول سے جواب سے اپنی خاطر جمعی کر لیا کرتے تھے۔ واضح وہ کہ یہودیوں کے درمیان معجزات کسی شخص کے حق میں خد ا کی طرف سے ہونے کا کامل ثبوت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ ، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ جھوٹے بنی بھی معجزات دکھا سکتے ہیں۔ اور نہ صرف خد اکی قدرت بلکہ شیطانی طاقت بھی معجزے دکھا سکتی ہے۔ پس مسیح کے معجزوں کی سچائی کا فیصلہ ان کی رائے میں دیگر دلائل پر مبنی تھا۔ اور ان دیگر دلائل کی بنا پر وہ مدت سے فیصلہ کر چکے تھے۔ کہ ان کا دکھانے والا خدا کی طرف سے نہیں۔ پس وہ کہتے تھے، کہ اس کے معجزے تاریکی کی قوتوں کی مدد سے وجود میں آتے ہیں۔ مسیح نے اس کفر آمیز الزام کا مقابلہ بار ہا زبردست دلیلوں کے ساتھ کیا اور ان کو لا جواب کر دیا مگر اس کے مخالف اپنے آپ کو محفو ظ سمجھتے رہے۔

وہ ابتداءہی سے اپنے مخالفانہ فیصلے پر جم گئے تھے۔ اور س لئے وہ کبھی مسیح سے متفق نہ ہوئے۔ ابھی اس نے پہلے سال یہودیہ میں اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ وہ اس کی مخالفت پر امادہ ہو گئے اور جب ان کو یہ خبر ملی کہ وہ گلیل میں کامیاب ہو رہاہے۔تو گھبرا گئے اور یروشلیم سے اپنے گماشتے روانہ کئے تاکہ جابجا ان کے معتقدوں کی مددسے یسوع کے کام کی بیخ کنی کریں۔ جو سال اس کی خوشی کا سال تھااس میں بھی اس باربار ان کا مقابلہ کرنا پڑا۔ پہلے پہل وہ ان کے ساتھ بڑی امید رکھتا تھا مگر تھوڑے عرصے بعد بخوبی ظاہر ہو گیا کہ یہ امید کبھی بر نہ آئے گی۔ پس اس نے ان کی مخالفت کو ایک ضروری بات کے طور پر سمجھ کر قبول کیا۔ ان کے بے بنیاد دعووں کی بطالت کو لوگوں پر آشکار ا کیا۔ اور اپنے شاگردوں کو ان کے خمیر سے بچنے کی تاکید کی مگر یہ لوگ بھی لوگوں کے دلوں میں کانٹے بو رہے تھے۔ اور جو بیج مخالفت اور دشمنی کا انہوں نے بویا وہ کثرت سے پھل لایا چنانچہ جب سال کے خاتمہ پر اس کی ہر دلعزیزی میں ضعف آنے لگا ، تو وہ زیادہ دلیری سے اس کی مخالفت کرنے لگے۔

اسی طرح انہوں نے صدوقیوں اور ہر و دیوں کے ٹھنڈے دلوں میںبھی کسی قدر آگ بھر دی۔ شاید ان کو یہ کہا ہو گا۔ کہ یسوع بغاوت کے سامان تیار کر رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے آقا ہیرودیس سے تخت و تاج جاتا رہے گا۔ وہ دُون ہمت اور بدچلن بادشاہ خود اس کے لہو کا پیاسا تھا ، پروہ اور ہی باتوں کی وجہ سے اس سے خائف ہو رہا تھا۔ قریباً انہیں ایاّم میں اس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کیا تھا۔ یہ جرم صفحہ تاریخ پر اپنا ثانی نہیں رکھتا اور اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ گناہ کا نتیجہ گناہ ہوتا ہے۔ اور کہ جب کوئی کینہ در عور ت بدلہ لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ تو لے کر ہی چھوڑتی ہے۔ اس سخت اور گھناو نے جرم کے بعد ہیرودیس کے مصاحبوں نے اس کو ان پولٹیکل تجویزوں کی خبر دی۔ جو ان کے زعم میں یسوع برپا کر رہا تھا۔ پر جب ہیرودیس نے اس نئے بنی کی خبر سنی تو ایک ہولناک خیال اس کے مجرم ضمیر کو حرکت میں لانے کا باعث ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے۔ جس کو میں نے قتل کیا تھا۔ وہ اب مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ گو یہ خواہش شیر ببر کی تھی جو برّے کو اپنا شکار کرنا چاہتی تھی۔ مگر یسوع نے کبھی اس کی دعوت قبول نہ کی اور ناممکن نہیں کہ اسی سبب سے ہیرودیس اپنے اراکین کی باتوں کو اور بھی توجہ سے سنتا اور اسے خطر ناک آدمی سمجھ کر گرفتار کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ اس کے مارنے کے درپے ہوا۔ اب یسوع کو اپنے تیئں اس کے چنگل سے بچانا پڑا اور اس میں شک نہیں کہ اس بات نے دیگر بڑ ی بڑی باتوں کے ساتھ مل کر پچھلے چھ ماہ کے لئے جو خداوند نے گلیل میں کاٹے ، اس کے طرز عمل کو بالکل بدل دیا۔

کچھ عرصہ سے تو ایسا معلوم ہونے لگا تھا۔ کہ خداوند مسیح نے جو اثر عام لوگوں پر ڈال رکھا ہے وہ رفتہ رفتہ اس قدر زور پکڑ جائیگا۔ کہ بڑے بڑے عالی رتبہ اور فاضل لوگ بھی اس کے مطیع ہو جائیں گے۔ کیونکہ بار ہا ایسا اتفاق ہوا ہے۔ کہ جس تحریک کو شروع میں ذی اقتدار اور با اختیار بزرگوں نے ٹھٹھوں میںاڑایا آخر کار وہی عام لوگوں کے دلوں میں گھرکرکے اور ان کی سرگر م امداد سے مضبوط ہو کر اعلیٰ درجہ کے کے لوگوں پر غالب آئی اور عزت اور مقدرت کے مرکزوں میں تسلیم کی گئی۔ قومی قبولیت میں ایک درجہ ہوتا ہے اور جب کوئی تحریک اس درجہ یاحد تک پہنچ جاتی ہے۔ تو سیلاب کی مانند پرُ زور ہو جاتی ہے۔ پھر کوئی تعصب یا حاکمانہ مخالفت اس کی روانی کو روک نہیں سکتی۔ یسوع گلیل کے عام لوگوں کے ساتھ بے تکلف ملتا جلتا تھا۔ اور وہ بھی اس کے ساتھ محبت اور تعظیم سے پیش آتے تھے۔ وہ اسے فریسیوں اور فقیہوں کی طرح کھاو ¿ اور شرابی نہیں کہتے تھے۔ بلکہ اس کی رسالت کے قائل تھے۔ وہ اسے گذشتہ زمانوں کے بڑ ے بڑے انبیاءکے برابر جانتے تھے۔ اور جو لوگ اس کی عظمت کو کسی قدر زیادہ صفائی سے دیکھتے یا اس کی رقت انگیز تعلیم کی خوبیوں کو زیادہ محسوس کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ وہ یا تو یسعیاہ ہے یا یرمیاہ ہے ، لوگو ں کے درمیان یہ خیال مروج تھا کہ جب مسیح آئے گا۔ تو اس سے پہلے ایک بڑ ا بنی بر پا ہو گا۔ اور وہ بنی ان کے گمان کے مطابق ایلیا ہ تھا۔

پس بعضوں کا یہ خیال تھا۔ کہ یسوع ایلیاہ ہے یا یوں کہیں کہ لوگ اسے مسیح نہیںبلکہ مسیح کا پیشر و تصور کرتے تھے۔ اور اس کا سبب یہ تھا کہ جو تصورمسیح کا وہ باندھے بیٹھے تھے۔ اس کی بنیاد دنیوی شان و شوکت پر تھی اور یسوع کی ظاہری حیثیت اس تصور کے بالکل برخلاف تھی۔ البتہ بعض اوقات بڑے بڑے معجزات کو دیکھ کر کوئی ان میں سے یہ کہہ اٹھتا ہے ، کیا وہ مسیح نہیں ہے؟ مگر عموماً باوجود اس کے اور معجزات اور لاثانی تعلیمات کے وہ اس کو وہ مسیح نہیں مانتے تھے۔ جو ان کے ذہن پر نقش ہو رہا تھا۔ لہذا وہ لوگ پختہ اور عالم گیر طور پر اس کی مسیحائی کے قائل نہ تھے۔

آخر کار فیصلہ کی ساعت آ پہنچی۔ یہ وہی ساعت تھی جس کی طر ف بار ہا اشارہ ہو چکا ہے یعنی اس سال کا آخری حصہ جو اس نے گلیل میں کاٹا تھا۔ اس موقع پر ہمارا خداوند یوحنا بپتسمہ دینے والے کی شہادت کا حال سن کر شاگردوں کےساتھ بیابان کی طرف روانہ ہوا تاکہ وہاں جاکر اس افسوس ناک حادثہ پر غور کرکے اور اپنے جان نثاروں سے اس کے بارے میں ہم کلام ہو۔ پس وہ ایک کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے مشرقی کنارے کی جانب بڑھا اور کشتی سے بیت صیدا کے ہریالے میدان میںاترا ، اور پھر اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا ، لیکن بہت دیر نہ ہونے پائی تھی۔ کہ دامن کوہ میں لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا اور اس غرض سے کہ اس کےکلام اور اس کے دیدار سے مخطوظ ہوں، لوگ اس کی قیام گاہ سے آگاہ ہو کر ہر سمت سے امڈ آئے اور وہ جو کہ ہر قوت اوروں کے لئے اپنے آپ کو تصد ق کرنے کو تیار تھا۔ پہاڑ پر سے نیچے اتر آیا تا کہ انہیں تعلیم دے اور ان کے امراض کو دفع کرے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد آفتاب غروب ہو گیا۔ اب اس نے لوگوں کی بے کسی اور بے بسی پر ترس کھا کر وہ عظیم الشان معجزہ دکھا یا جس میں پانچہزار اشخاص کو سیرو آسودہ کیا۔ اس معجزے کا اثر بڑے زور کے ساتھ نمودار ہوا چنانچہ لوگوں نے خیال کیا کہ یہی مسیح موعود ہے۔ اور چونکہ مسیح کی مسیحائی کا ایک ہی تصور ان کے دل میں جما ہوا تھا۔ اس لئے اس تصور کے مطابق انہوں نے اسے جبراً اپنا بادشاہ بنا نا چاہا۔ یعنی وہ چاہتے تھے کہ وہ ایک بغاوت کا جو مسیح کانام میں برپا کی جائے سر غنہ بنے اور قیصر روم سے اور ان شہزادوں کے ہاتھ سے تاج و تخت چھین لے جنہیں قیصر نے مختلف صوبجات پر حکمران بنا دیا تھا۔

بظاہر معلوم ہوتا تھا ، کہ گویا وہ وقت آ گیا ہے، جس میں اس کی محنتوں کے سر پر کامیابی کا تاج رکھا جائے گا۔ لیکن یسوع کی نظر میں یہ وقت رنج اور ناکامیابی کا وقت تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا میری سال بھر کی محنت کا یہی نتیجہ ہوا؟ کیا لوگوں نے میری باتوں کو سن کر یہی خیال میری نسبت قائم کیا ؟ کیا انہوں نے یہی واجب سمجھا کہ مجھے سکھائیں کہ مجھے آئندہ کیا کر نا چاہےے اور نہ جانا کہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مجھ سے پوچھیں کہ انہیں کیا کرنا چاہےے ؟ اس ناموافق نتیجہ کو دیکھ کر اس نے جان لیا کہ میرے کام نے گلیل کے لوگوں پر جو اثر کیا اس کا ثبوت آج مجھ کو مل گیا ، وہ بہت گہرا اثر نہیں ہے۔ اور گلیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس قابل نہیں کہ میں اسے اپنا مرکز بنا کر اس سے اپنی بادشاہی کو باقی سر زمین میں پھیلاوں۔ پس و ہ ان کی نفسانی خواہشات کو دیکھ کر اس جگہ سے چل نکلا اور دوسرے دن کفر نحوم میں پھر ان سے ملا اور اس موقع پر ان کو بتایا کہ تم میری نسبت سخت غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ تم روٹیوں کے بادشاہ کی تلاش کرتے ہو تا کہ وہ تم کو بیکاری کے ساتھ مال کی فراوانی عطا کرے۔ روٹیوں کے ڈھیر لگائے۔ اور دودھ کی نہریں تمہارے لئے جاری کرے اور تم بے مشقت زندگی کا مزہ لوُٹو ، پر میں وہ بادشاہ نہیں ہوں۔ جو برکت میں اپنے بندوں کو عطا کرتا ہوں۔ وہ ہمیشہ کی زندگی کی روٹی ہے۔ لیکن اس کی یہ باتیں لوگو ںکے آتشی جو ش کے لئے ٹھنڈے پانی کاکام کر گئیں۔ چنانچہ اسی وقت سے اس کاکام گلیل میں نامرغوب ساہوگیا۔ اور لکھا ہے کہ ” اس پر اس کے شاگردوں میں سے بہت سے پھر گئے اور اس کے بعد اس کے ساتھ نہ رہے“۔ پر وہ خود یہی چاہتا تھا، یا یوں کہیں کہ اس نے اپنی ہر لعزیزی کی جڑ پر آپ کلہار ا مارا۔ اب اس وقت سے لے کر آئندہ اس نے اپنے تیئں ان چند اشخاص کی طرف متوجہ کیا جو اس کی حقیقت سے کسی قدر زیادہ واقف تھے اور روحانی باتوں کا زیادہ مذاق رکھتے تھے۔

اس کے کام کی صورت کا تبدیل ہو جانا اگرچہ اہل گلیل نے بہ حیثیت مجموعی اپنے آپ کو ناقابل ثابت کیا تو بھی ان میں ایک بقیہ موجود تھا۔ جو وفا دار نکلا ، اس بقیہ کا مرکز رسول تھے ، دیگر شاگردوں کی تعداد کئی سو تک پہنچ گئی تھی۔ یسوع اب خاص طور سے ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ جس وقت تمام گلیل نے اس کو رد کیا۔ اس وقت اس نے ان وفاداروں کو اس طرح بچا لیا۔ جس طرح کوئی جلتی ہوئی لکڑی کو بچا لیتا ہے۔لیکن ان کے لئے بھی یہ وقت ایک بڑی آزمائش کا قت تھا کیونکہ ان کے خیالات بھی بہت کچھ عام لوگوں کے خیالات تھے وہ بھی دنیاوی حشمت اور اور شوکت والے مسیح کا انتظار کر رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے تصور میں روحانی مطالب کو ملانا سیکھ گئے تھے۔ پر پھر بھی ابھی روحانی خیالات کے ساتھ روائتی اور دنیوی تو ہمات لگے ہوئے تھے۔ وہ بڑے ارمان اور حسرت سے کہتے ہو ں گے کہ یہ عجیب راز ہے۔ کہ یسوع اب تک شاہانہ تاج سے اپنے سرکو زیب نہیں دیتا۔ یہی خیال تھا ، جس نے بپتسمہ دینے والے یوحنا کو قید خانہ میں ایسا پریشان کیا کہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہوئے ، اور کہنے لگا کہ کیا یردن کے کنارے پر جو رویا مجھے نصیب ہوئی وہ کسی حقیقت کا نقشہ تھی یا محض سراب ؟ یہی بات سوچ کر اس نے یسوع کے پاس پیغام بھیجا اور دریافت کیا کہ تو مسیح ہے یا نہیں؟ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی موت مسیح کے شاگردوں کے لئے بڑی بے چینی کا باعث ہوئی ہو گی۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر مسیح فی الحقیقت ایسا قادر ہے جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں تو پھر اس نے کیوں اپنے دوست (یوحنا ) کو ایسی شرمناک موت سے مرنے دیا؟ اگر باوجود اس قسم کی سرگرداینوں کے وہ اس کا دامن پکڑے رہے اور جس بات کے سبب سے وہ اس سے چپٹے رہے وہ اس جواب سے عیاں ہے جو انہوں نے یسوع کو اس وقت دیا جب اس نے ان سے یہ سوال کیا کہ” کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو“؟انہوں نے کہا ”اے خداوند ! کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں“ ۔ اگرچہ ان کے خیالات صاف نہ تھے۔ اور وہ پریشانیوں اور سرگرداینوں کی تاریکی سے گھرے ہوئے تھے تو بھی اتنا ضرور جانتے تھے۔ کہ ہم اسی یسوع سے ہمیشہ کی زندگی پا رہے ہیں۔ اسی بات کے باعث وہ اس کے قدموں سے لگے رہے اور خوشی سے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ وہ خود ساری مشکلات کا حل کر دے گا۔

آخری چھ چاہ جو گلیل میں صرف ہوئے ان میں اس نے منادی کرنے اور معجزات دکھانے کا معمولی کام زیادہ تر بند کر دیا ور اپنی توجہ اپنے شاگردوں کو سکھانے کی طرف کی۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر ملک کے دور دور حصوں میں جا یا کرتا تھا۔ اور جہاں تک ہو سکتا تھا۔ شہرت سے بچتا تھا، چنانچہ ان دنوں وہ کبھی ہم کو شمال کی جانب صور اور صیدا میں ملتا ہے اور کبھی شمال مشرق میں قیصر یہ فلّپی کے علاقہ میں دکھائی دیتا ہے۔ اور کبھی دکپلس میں جھیل کے جنوب اور مشرق میں نظر آتا ہے۔ ان سفروں کا باعث کچھ تو فریسیوں کی مخالفت تھی۔ اور کچھ ہیرودیس کے کینے کا خیال۔ مگر زیادہ تر اپنے شاگردوں کے ساتھ اکیلا رہنا چاہتا تھا۔ ان گردشوں کا ایک بیش قیمت نتیجہ قیصر یہ فلّپی میں ظاہر ہوا۔ وہاں خداوند نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ لوگ میری نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟ انہوں نے لوگوں کے مختلف قیاس بیان کئے اور بتا یا کہ کوئی کہتا ہے کہ تو ایک بنی ہے۔ کوئی خیال کرتا ہے کہ تو ایلیا ہ ہے کہ اور بعضوں کا گمان ہے کہ تو یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے۔ اس پر اس نے ان سے پوچھا کہ ”تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں “۔ پطرس نے ان سب کے لئے جواب دیا اور کہا ”تو خداوند خدا کا بیٹا مسیح ہے “۔ اسی بات سے قائل ہو کر انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہی ہو ہم یسوع کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ یسوع نے ان کے اس اقرار کو بڑی شادمانی سے قبول کیا اور جان لیا کہ جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے۔ میں انہی میں سے وہ آئندہ کلیسیاءپیدا کروں گا۔ جو اسی صداقت پر مبنی ہو گی جسے شاگردوں نے اپنے اقرار کے وسیلے ظاہر کر دیا ہے۔

مگر اس فضیلت کو پہنچنا ان کے لئے گویا ایمان کی ایک نئی آزمائش کے لئے تیا ر ہونا تھا۔ چنانچہ ہم پڑھتے ہیںکہ اس وقت سے اس نے اپنے آنے والی تکلیفوں اور موت کی خبر دینی شروع کی۔ اس کی تکلیفیں اور موت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھیں۔ اور وہ جانتا تھا، کہ میرے کام کا انجام یہی ہے۔ اس بات کی طرف اس نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا تھا۔ مگر اس پُر محبت احتیاط کے ساتھ جس کے مطابق وہ ہمیشہ ان کی سمجھ کی سمائی کے مطابق ان کو تعلیم دیا کرتا تھا۔ یہ جاننا ضروری امر ہے کہ اس سے پہلے اس نے ان کے سامنے بار بار اپنے دکھوں اور موت کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا مگر اب وہ کچھ کچھ ان باتوں کو سننے اور برادشت کرنے کے لئے تیار تھے۔ اور چونکہ دکھ اور موت کا آنا لازم تھا ، اور وقت بھی بہت نزدیک آگیا تھا۔ اس لئے وہ بار بار ان کو اپنی مصیبتوں کی خبر دیتا رہا مگر وہ خود ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ اس کا مطلب اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے ہم وطنوں کی طرح ایک طرف تو وہ یہ مانتے تھے۔ کہ مسیح آتے ہی داود کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے۔ کہ یسوع ہی وہ مسیح ہے پس یسوع کا یروشلیم میںجا کر جان سے مارا جانا اور تخت پر نہ بیٹھنا ان کے لئے ایک معمہ سا تھا۔ وہ اس کے دکھوں کی باتوں کو سنتے اور آپس میں بحث کرتے تھے۔ لیکن ان کو ناممکن سمجھتے تھے۔ وہ خیال کرتے تھے ، کہ وہ اس معاملے میں بھی تمثیلی طرز پر کلام کر رہا ہے۔ جیسا کہ دیگر معاملات پر کیا کرتا ہے۔ اور کہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کی موجود ہ پست حالی ہوتی رہے گی۔ اور اس کاکام ایسے جلال اور فتح مندی کے ساتھ نئی صورت اختیار کر ے گا۔ کہ گویا مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ جو ں جوں اس کی موت اور دکھوں کا وقت نزدیک آتا جاتا تھا۔ وہ اسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ ان کو اپنے دکھوں کی کیفیت سے آگاہ کرتا جاتا تھا۔ تاکہ تمام غلط فہمیاں ان کے دل سے دور ہو جائیں مگر ان کے دل اس صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپس میں اکثر اس بات پر جھگڑا کرتے تھے۔ کہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے بڑ ا کون ہو گا۔ اور سلومی کی اس درخواست سے بھی کہ اس کی بادشاہی میںا س کے دونوں بیٹوں میںسے ایک اس کے دہنے اور دوسرا اس کے بائیں بیٹھے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اور جب وہ گلیل سے یروشلیم کی طرف روانہ ہوئے تو اسی خیال سے روانہ ہوئے کہ اب خدا کی بادشاہی نمودار ہو گی۔ اور یسوع دار الخلافہ میںپہنچ کر اس پستی کے لباس کو جواب تک پہنے سے پھینکے گا اور ہر قسم کی مخالفت کو اپنی قدرت سے مغلوب کرکے اپنے باپ دادا کے تخت پر بیٹھ جائے گا۔

اب ہم دیکھیں گے کہ یسوع خود اس سال میںکیا سوچتا تھا اور کیسے کیسے خیالات اس کے دل میں گزرتے تھے؟ اس کے لئے بھی یہ سال سخت آزمائش کا سال تھا۔ یہ پہلا مرتبہ تھا کہ اس کے چہرے پر فکر اور اندیشے کے آثار نمودار ہونے لگے۔ بارہ مہینے کے عرصے میں جو گلیل میں گزرا وہ اپنی ظاہر ی کامیابی کو دیکھ کر نہایت بشاش رہا کرتا تھا۔ پر اب حقیقت میںوہ مردغمناک بن گیا۔ جسب وہ پیچھے لوٹ کر دیکھتا تھا۔ تو اسے یہ با ت نظر آتی تھی کہ گلیل نے مجھے رد کر دیا ہے۔ اس ملک کے بنجر پن کر دیکھ کر جس پر اس نے اتنی محنت صرف کی جو غم اس کے دل میں پیدا ہوا اگر ہم اس کا تخمینہ لگانا چاہیں تو اس محبت کو دیکھنا چاہےے جس سے وہ ان روحوں کو پیار کرتا تھا جن کے بچانے کے لئے اپنے کام میں جان فشانی کے ساتھ مصروف تھا۔ اسی طرح جب آگے کی طرف دیکھتا تھا۔ تو ادھر بھی یہی نظر آتا تھا۔ کہ جب میں یروشلیم پہنچوںگا۔ تو وہاں بھی رد کیا جاو ¿ں گا۔ اس میں ذرا بھی شک نہ تھا۔ آئندہ کے بارے میں جب کوئی خیال اس کے دل میںآتا تھا۔ تو اس کے ساتھ ہی اس واقعہ کا خیال بھی اس کی آنکھوں کے سامنے بڑی صفائی کے ساتھ موجود ہو جاتا تھا۔ اس کا خیال اس وقت اسی بات کی طرف لگا ہواتھا۔ کہ یہ آنے والا واقعہ نہایت سخت واقعہ تھا۔ اور چونکہ وہ نزدیک آتا جاتا تھا اس لئے کبھی کبھی ایسی کش مکش اس کے دل میں بر پا ہوتی تھی کہ ہم اس کی تصویر کھینچنے کی جرات نہیں کر سکتے۔

ان دنوں وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ دعا میںصرف کیا کرتا تھا دعا میں لگے رہنا ہمیشہ اس کی خوشی اور تقویت کا باعث تھا چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ جب وہ اپنے کام میںبہت مصروف ہوتا تھا۔ اور شام کے وقت دن بھر کی محنت سے ایسا چور چور ہو جاتا تھا۔ کہ تکان کے مارے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ تو اس وقت بھی لوگوں سے اور اپنے شاگردوں سے جدا ہو کر اکیلا پہاڑ کی چوٹی پر چلا جاتا تھا۔ اور وہاں اپنے باپ کی صحبت میں پوری پوری رات صرف کر دیتا تھا۔ وہ کوئی بڑ اکام دعا کے بغیر نہیں کیا کرتا تھا۔ لیکن آگے سے بھی کہیں زیادہ دعا میں لگا رہتا تھا۔ اور اپنا مقدمہ خدا کے حضور آنسو بہا رکر پیش کیا کرتا تھا۔ اس کی دعاوں کا جوا ب ایک عظیم الشان صور ت میں اس وقت اس کو ملا جبکہ اس کی صورت پہاڑ پر تبدیل ہوئی۔ یہ پرُ جلا ل نظارہ مخالفت کے سال کے وسط میں گلیل چھوڑ نے اور یروشلیم کی طرف روانہ ہونے سے جہاں وہ دشمنوں کے فتوے کا نشانہ بنا ذرا پہے عیاں ہوا۔ اس عجیب اور جلالی واقعہ کا مقصد کچھ تو یہ تھا کہ اس کے تین شاگردوں کا ایمان اس کے وسیلے سے مضبوط ہو تا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لائق بن جائیں اور کچھ یہ کہ خود اس کے دل کو تسلی ملے۔ گویا اس کی صورت کا تبدیل ہونا اس کے باپ کی طرف سے اس کے لئے ایک انعام تھا۔ خدا نے اس نظار ے کے ذریعے سے اس کی وفاداری کو جو اب تک اس سے ظاہر ہوئی اعلانیہ قبول کیا اور اس کو اس باقی کام کے لئے جو اسے ابھی کرنا تھا۔ تیاری اور تقویت بخشی۔ اس موقعہ پر اس نے اپنی صلیبی موت کے بارے میں مو سیٰ اور ایلیاہ سے گفتگو کی جو اس کے ساتھ پوری ہمددری کر سکتے تھے۔ اور جن کا کام اس کی موت سے پورا اور مکمل ہونے کو تھا۔

گلیل کو چھوڑ کر یسوع یروشلیم کی طرف روانہ ہوا اور راستے کو طے کرنے میں چھ مہینے لگے۔ اس دراز عرصے کی وجہ یہ تھی۔ کہ اسے بادشاہی کی منادی تمام ملک میںکرنی تھی۔ یہ کام اس کے کل کا م کا ایک ضروری حصہ تھا۔ اور اس نے اسے خوب انجام دیا ، پہلے اپنے شاگردوں میں سے چالیس کو بھیجا کہ وہ جا کر گاوں اور شہروں کو اس کے لئے تیار کریں اور جب خود روانہ ہوا تو پھر وہی نظارے ظہور میںآئے جو گلیل میں رونما ہوئے تھے۔ اسی طرح لوگوں کی بھیڑ اس کے پیچھے پیچھے چلتی تھی۔ اور اسی طرح معجزے وقوع میں آتے تھے۔ مگر چونکہ اس عرصہ کے مفصل حالات قلمبند نہیں ہوئے اس لئے ہم قدم بقدم اس کی پیروی نہیں کر سکتے تو بھی ہم اسے سامریہ ، پیریہ ، یردن کے کناروں اور بیت عنیا اور افرائیم کے گاوں میں کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں تاہم یروشلیم ہی وہ منزل مقصود تھی جس کی طرف وہ رفتہ رفتہ بڑ ھ رہا تھا۔ اس شہر میں جو کچھ اس پر واقعہ ہونے والا تھا۔ اس کے خیال میںوہ اس قدر محو تھا، کہ کبھی کبھی اس کے شاگرداس کی خاموشی اور تیز رفتاری کودیکھ کر حیران ہوتے اور ڈر جاتے تھے۔ گاہے گاہے خوشی اور فرحت بھی نمایا ں ہوتی تھی۔ جیسے اس وقت ہوئی جبکہ اس نے چھوٹے بچوں کو برکت دی یا جیسے بیت عنیا میں دوستوں کے گھر میں جانے سے ہوئی۔ پر ان دنوں عموماً اس کی طبیعت اور صورت سے ایسی فکر مندی عیا ں تھی۔ کہ پہلے کبھی اس درجہ تک ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ پس اس زمانہ میں جو گفتگو یا بحث اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان واقع ہوتی تھی وہ بھی پہلے کی نسبت زیادہ پرُ جوش ہو ا کرتی تھی۔ اور جو شرائط وہ ان کو جو اس کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت بتا یا کرتا تھا۔ وہ بھی پہلے کی نسبت زیادہ سخت ہوتی تھیں۔ غرضیکہ ہر بات سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ خاتمہ نزدیک آتا جاتا ہے۔ وہ اس وقت دنیا کے گناہ کے کفارہ کے خیال میں مستغرق تھا اور اس کام کے انجام پانے تک اس کی روح کو سخت دکھ میںگرفتار رہنا پڑا۔ یہ غمناک واقعہ نزدیک آتا جاتاتھا۔ ان چھ مہینوں کے عرصہ میں اس نے آخری بار سے پہلے دو فعہ یروشلیم میں قدم رکھ اور دنوں دفعہ صاحب اقتدار اشخاص نے سخت مخالفت کی۔ پہلی دفعہ وہ اس کے گرفتار کرنے کے درپے ہوئے اور دوسری دفعہ سنگ سار کرنے پر آمادہ ہو گئے اور یہ حکم اس سے بھی پہلے جاری کر چکے تھے کہ جو کوئی اسے مسیح کہے گا۔ وہ قوم سے خارج کیا جائے گا، پر جب لعاذر کے زندہ ہونے سے قومی دارالخلافہ کے دروازوں کے کے پاس عام لوگوں میں جوش وخروش کی روح پیدا ہوئی تو دین کے حاکموں نے دیکھا کہ اس کو جان سے مارنا ضروری ہے اور یہی فیصلہ انہوں نے اپنی کونسل میں کیا۔ یہ فیصلہ خاتمہ سے کوئی ایک یا دوماہ پہلے ہوا تھا۔ اور اس کے سبب سے کچھ عرصے کے لئے مسیح یروشلیم سے چلا گیا لیکن وہ صرف اسی وقت تک یروشلیم سے دور رہا جب تک کہ وہ گھڑی نہ آئی جو اس کے باپ نے اس کے لئے مقر ر کی تھی۔

آٹھواں باب

کام کا خاتمہ

اب ہمارے خداوند کے کام کے تیسرا سال بھی خاتمہ کو پہنچا اور فسح کی عید نزدیک آئی۔ کہتے ہیں کہ اس عید کی تقریب پر کم ازکم بیس یا تیس لاکھ آدمی یروشلیم میںجمع ہو جاتے تھے۔ جو نہ صرف فلسطین کے مختلف علاقوں سے بلکہ دور دور کے ملکوں سے خشکی اور تری کی سختیاں سہہ کر آتے تھے۔ تاکہ اس عید میں جو ان کی قومی تواریخ کی بنیاد سمجھی جاتی تھی شامل ہوں،ان میں سے کئی تو سنجیدہ خیالات اور حقیقی خوشی کے ساتھ آتے ہوں گے اور ان کے دلی تصورات اس عظیم عید کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں گے۔ لیکن کئی اس لئے آتے ہو ں گے کہ بچھڑے ہوئے عزیزوں اور دور افتادہ دوستوں کو دیکھ کر دل ٹھنڈ ا کر یں اور کئی تجارت اور بیوپار کے منافع سے ہاتھ گرم کرنا چاہتے ہوںگے۔ پر اس دفعہ بے شمار لوگوں کے دلوں ایک میں اور ہی تحریک پیدا ہو رہی تھی۔ وہ اب کی دفعہ یروشلیم میں عجیب کام دیکھنے کی امید رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے، کہ اس دفعہ ہم یسوع کو وہاں دیکھیں گے۔ وہ اس کے بارے میں طرح طر ح کے خیالات اپنے ذہن میںجمائے ہوئے تھے۔ اگر ہم وہاں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ ہزاروں مسافر جو یروشلیم کو جارہے ہیں۔ راستے میں اسی کی بابت گفتگو کرتے جاتے ہیں۔اور سینکٹروں یہودی جو جہازوں پر بیٹھے ایشائے کو چک او ر مصر سے یروشیلم کو آرہے ہیں اسی کے نام کا ورد کر رہے ہیں۔ماسواان کے اس کے شاگرد بھی وہاں موجود تھے۔ان کے دل میں بھی یہ امید جوش زن ہوگی کہ اب تو لاکھوں لوگ دارالسظنیت میں موجود ہیں ،اب ہمارا خداوند ضرور پستی کے پردے کو اتار کر اپنے جلال کو آشکارہ کرئے گا اور کسی نہ کسی عجیب صورت سے لوگوں کو قائل کر دے گا کہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔علاوہ ان کے ہزارو ں آدمی ملک کے جنوبی حصہ سے آئے ہوئے تھے اور چونکہ چند دنوںسے وہ ان کے درمیان کام کر رہا تھا۔اس لئے وہ بھی اس کی نسبت کچھ اسی طرح کا خیال رکھتے تھے جیسا گلیل میں پہلے سال ک آخر میں گلیلوں کا تھا ۔اس موقعہ پر بے شمار گلیلی حاضر تھے جو اس کی نسبت اچھی رائے رکھتے اور اس کے متعلق ہر امر میں دلچسپی دکھانے کو تیار تھے۔لاکھوں اشخاص جہنوں نے اسے کبھی دیکھا تو نہیں تھا مگر اس کے بارے میں سنا بہت کچھ تھا اور اور ممالک سے بھی آئے ہوئے تھے وہ اپنے دلوں میں یہ امید لئے بیٹھے تھے کہ یا تو ہم اس کا کوئی عجیب معجزہ دیکھیں گے یا اس کا معجزانہ باتیں سن کر مخظوظ ہوں گے۔ان سب لوگوں کے علاوہ یروشلیم کے دینی عہدیدار بھی اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ان کے دلوں میں بھی طرح طرح کے خیالات جوش مار رہے تھے۔وہ ا س گھات میں تھے کہ اب کی دفعہ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اتنا ضرور کریں گے۔کہ آگے کو اسے کام کرنے سے بند کر دیں مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی ڈرا رہاتھا کہ اگر وہ گلیل یا کسی اور صوبہ کے لوگوں کا سپہ سالار بن کر آگیا تو ہمیں ضرو ر اس کا مطیع ہو نا پڑے گا۔

قوم کے ساتھ آخری ناچاقی فسح سے چھ دن پہلے یسوع مریم و مارتھا کے ہمراہ لعاذر کے گاؤں یعنی بیت عینا میں وارد ہوا۔بیت عنیایروشیلم سے دو یا تین میل کے فاصلے پر کوہ زیتون کی چوٹی کی دوسر ی طرف واقع تھا اورچونکہ وہ یروشیلم سے کل نصف گھنٹے کا راستہ تھا۔اس لئے عید کے دنوں میں وہاں ٹھہرنا یسوع کے لئے زیادہ آرام کا باعث تھا۔عید کی رسوم جمعرات سے شروع ہونے کو تھیں مگر یسوع چھ دن پہلے یعنی جمعہ کے روز بیت عنیامیں آگیا۔اس کے سفر کے آخری بیس میل میں ہزاروں مسافر اس کے ہمراہ تھے۔جن کی آنکھیں اس پر لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے اس کو یریحو میں برتمائی کی آنکھیں روشن کر تے دیکھا تھا اور اس معجزے نے ان میں عجیب قسم کی نرم دلی پید اکردی تھی۔اور اب جب وہ بیت عنیامیں آئے توا نہوں نے دیکھا کہ یہ گاﺅں لعاذر کو زندہ کرنے کے معجزے سے گونج رہاہے۔اور جب وہ یروشلیم میں پہنچے تو انہوں نے جا بجا یہ خبر پھیلا دی کہ یسوع آگیا ہے۔

پس جب وہ سبت کے روز آرام کر کے اتوار کویروشلیم کی طرف جانے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ گاﺅںکی گلیاں اور آس پاس کی سڑکیں لوگوں سے بھری پڑی ہیں ؛۔ان میں کچھ تو وہ لوگ شامل تھے جو اسکے ساتھ آئے تھے اور کچھ وہ لوگ شامل تھے جو اس کے ساتھ آئے تھے اور کچھ وہ جواس کے پیچھے یریحو سے گزرے تھے اور جہنوں نے وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے معجزے کی خبر سنی تھی۔او ر کئی ان میں سے ایسے بھی تھے جوا سے دیکھنے کو یروشلیم سے آئے تھے انہوں نے اس کو بڑی سرگرمی اور گرم جوشی سے قبول کیا اور یہ نعرے مارنے شروع کئے۔

ابن داؤد کو ہو شعنا۔مبارک وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔یہ نعرہ گویا اس کی مسیحائی کی منادی تھے۔اس لئے پہلے وہ اس قسم کی باتوں سے بچتا تھااور لوگوں کو روک دیا کرتا تھا۔مگر اب کی دفعہ اس نے انہیں ان باتوںسے نہ روکا۔شاید اس لئے کہ یہ اظہار ات ان کی سچی تعظیم سے پیداہوئے تھے۔بہرحال اب ایسا وقت آگیا تھا کہ وہ اپنی مسیحانہ بادشاہی کے دعوے کو چھپا نہیں سکتا تھا لیکن یہ یاد رہے کہ جب اس کے ساتھ اس بات کو بھی بخوبی ظاہر کر دیا کہ میری بادشاہی کس طرح کی ہے۔چنانچہ اس نے ایک گدھی کا بچہ منگوایااور جب اس کے شاگردوں نے اس پر اپنے کپڑے ڈال دئیے تو اس پر سوار ہوا اور بھیڑ کے آگے آگے چل پڑا۔اس سے ظاہر ہوا کہ وہ جنگ کے ہتھیار وں سے آراستہ یا کسی بادرفتار کوتل پر سوار ہو کر یروشلیم میں نہیں آتا بلکہ سادگی اور سلامتی کا شہزادہ بن کر اس میں داخل ہوتا ہے۔جب جلوس کوہ زتیون کی چوٹی اور پہاڑ کے دامن سے گزر کر اور نالہ کدرون کو عبور کر کے شہر کے پھاٹک پر پہنچا تو وہاں سے شہر کے کوچوں میں سے ہو کر ہیکل میں آئے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتے جاتے تھے اژدہام زیادہ ہوتا جاتا تھا اور دیکھنے والے کھجور اور زیتو ن کی ٹہنیان لے کر فتمند انہ طور پر ہلاتے اور زرو زور سے ہو شعنا۔ہوشعنا کہتے جاتے تھے۔شہر کے باشندے اپنے گھروں کے دروازوں اور مکانوں کی کھڑکیوں پر سے جھک جھک کر دیکھتے تھے اور پوچھتے تھے۔”یہ کون ہے ؟اہل گلیل اور دیگر لوگ ملکی فخر سے معمور ہو کر یہ جواب دیتے تھے یہ ناصرت کا بنی یسوع ہے “۔مگر یہ سب اعزاز باہر والوں کی طرف سے تھایروشلیم کے لوگوں نے اس کچھ حصہ نہ لیا بلکہ بڑی سرددلی سے کنارہ کشی اختیار کی۔یہودیوں کے دینی سردار خوب جانتے تھے کہ اس سار ی کاروائی کا کیا مطلب ہے۔پس وہ غیظ وغضب سے بھر گئے اور یسوع کے پاس آکر پیروﺅں کو ان ناشائستہ حرکات سے بند کر ؟شاید انہوں نے اس کو اشارتاً یہ بھی کہاہو گا کہ اگر تو ان کو منع نہیں کرے گا تو رومی قلعے سے نکلیں گے ؛اور تجھ پر اور تیرے شاگردوں پر حملہ آور ہوںگے اور تمام شہر کو سر کشی کے جرم میں سزا وار ٹھہرائیں گے۔

سیدنا مسیح کی زندگی میں اس موقع سے بڑھ کرا ور کوئی موقعہ نہیں ہے جس کی نسبت یہ سوال کیا جائے کہ لوگ اس کے دعوے کو قبول کر لیتے تو کیا نتیجہ ہوتا؟پس یہ خیال آتا ہے کہ اگر یروشلیم کے باشندے بھی بیرونی صویحات کے باشندوں کے جوش و خروش سے مغلوب ہو کر اس کے مطیع ہوجاتے اور کاہنوں اور فقہیوں کے تعصبات کو عام لوگوں کی مدد چکنا چور کر دتیی تو یسوع عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر ایک ایسا تاریخی زمانہ جاری کر دتیا جوا س سے بعد میں جاری ہوا بالکل مختلف ہو تا ؟اس قسم کے خیالات ہماری رسائی سے بعید ہیں اگرچہ دانش مند آدمی ان سے بری بھی نہیں رہ سکتا۔

یسوع نے اس سے پہلے یروشلیم اور یروشلیم کے سرداروں سے اطاعت طلب کی مگر انہوں نے کچھ توجہ نہ کی اور اس وقت دوسری جگہ کے لوگوںسے قبول کیا جانا قومی قبولیت کے لئے کافی نہ تھا۔پس اس نے اس وقت اہل یروشلیم کے فیصلے کو آخری فیصلہ سمجھا۔حالانکہ وہ لوگ جو اس وقت یروشلیم میں موجود تھے صرف اس کے اشارہ کے منتظر تھے۔اس وقت جو کچھ وہ کہتا وہ اسے بجا لانے کو بالکل تیار تھے مگر اس نے کوئی حکم نہ دیا بلکہ ہیکل میں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر اور ادھر ادھر دیکھ کر بیت عنیا کو واپس چلا گیا۔

مگر عوام کو جو مایوسی اس سے ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔اب سرداروں نے عوام الناس کی مایوسی کو غنیمت جانا اور اس موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔فریسیوں کوتو اکسانے کی کچھ ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ تو سرااس کے خون کے پیاسے تھے رہے صدوقی جو مروجہ انتظام اور امن پر جان دیتے تھے انہوں نے بھی عام لوگوں کے حال اور ملکی امن کو خطرے میں دیکھ کرا پنے جانی دشمن فریسیوںکا ساتھ دینا منطور کیا تاکہ یسوع کو نیست و نابود کریں۔

یسوع پھر پیر اور منگل کے روز شہر میں آیا اور لوگوں کوشفا بخشنے اور تعلیم دینے کے کام میں حسب معمول مصروف ہوا مگر منگل کے روز دینی سرداروں نے آکر مداخلت کی۔ فریسی۔ صدوقی۔ ہیرودی سردار کاہن ،کاہن اور فقیہ سب اس سازش میں جو یسوع کے بر خلاف کی گئی تھی متفق ہوئے اور اس کے پاس آکر کہنے لگے کہ تو کس کے اختیار سے یہ باتیں کہتا اور یہ کام کرتا ہے ؟وہ لوگ اپنے عہدوں کے پر شوکت لباس پہنے اور تمدنی اعزاز و افتخار و دستا ر سر پر رکھے ہوئے بڑے کرّوفر کے ساتھ اس سادہ سے گلیلی کے پیچھے پڑ گئے۔لوگوں کا اژدہام اس عجیب تماشے کو دیکھ رہاتھا۔تھوڑی دیر کے بعد بحث کا بازار گرم ہوا۔مخالفوں نے وہ سوال پوچھنے شروع کئے جو پہلے ہی سے تیا ر کر رکھے تھے۔او راس مباحثے کا اہتمام شاید ان اشخاص کے سپرد کیا جو رشک افلاطون اور غیرت ارسطو سمجھے جاتے تھے۔ان کا مطلب یا تو غالبایہ تھا کہ اسے خاص و عام کے سامنے شکست دے کر شرمندہ کریں یا یہ کہ اگر تقریر میں تیز ہو کر کوئی ایسا لفظ اس کی زبان سے نکل جائے جو شنشاہ وقت کی شان کے خلاف ہو توا س پر بغاوت کی تہمت لگائیں۔چنانچہ انہوں نے اس سے پوچھا کہ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں ؟وہ جانتے تھے کہ اگر اس نے کہا ”ہاں “ تو اس کا تمام اثر جو عوام الناس پر پیدا گیا ہے ایک دم میں کا فور ہو جائے گا کیونکہ قیصر کی حکومت کے تابع رہنا مسیحائی زمانے کی امیدوں کے بالکل برخلاف تھا اور اگر اس نے کہا ”نہیں “ تو پھر اسے قیصر سے باغی ثابت کر کے رومی حاکم کے دربار میں اس پر سرکشی کی نالش دائیر کریں گے وہ ان کے پھندوں میں کب آنے والا تھا پس وہ بڑی مدت تک ان کے حملوں سے بڑی خوبی کے ساتھ اپنے آپ کو بچاتا رہا او را ٓخر کا راس کی صاف دلی نے ان کی ریاکاری کو فاش کر دیا او راس کے طریق استدلال کی راستی نے ہر نیزہ کو جو اس پر چلایا جاتا تھا مخالفوں ہی کے سینے میںجا گاڑا۔اب جب ان کا منہ بند ہو گیا توا س نے ان پر حملہ شروع کیا اور ان کی صداقت کی کمی بلکہ نفی فاش کر کے تمام حاضرین کے رو برو ان کو ایسا شرمندہ کیا کہ وہ پانی پانی ہو گئے اور پھر اس کی زبان سے وہ غضب آمیز اور دہشت انگیزالفاظ نکلے جومتی کے تیئسویں 23 باب میں مر قوم ہیں جن سے ان کے عیوب جن پر اب تک خاموشی کا پر دہ پڑا تھا صاف طور پر ظاہر ہوگئے اور عادا ت و حرکا ت پر سے وہ پوست اتا ر ڈالا گیا جس نے ان کی ریا کارطبیعت کو بالکل چھپا رکھا تھا اور ایسے کلمات ان کے حق میں کئے جو بجلی کی طرح ان پر گرے اور ان کو نہ صرف اس وقت سب لوگوں کے سامنے شرمندہ کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے ان پر شرمندگی کی مہر لگا دی۔

لیکن ان باتوں کے سبب سے ناچاقی اور بھی بڑھ گئی کیونکہ یہ لوگ ملک کے سردار او ر قوم کے رہبر سمجھے جاتے تھے پس ہزار ہاآدمیوں کے سامنے عجز او ر شرمندگی کے ؛پنجہ میں گرفتار ہوناان کے لئے بڑی حقارت کا موجب تھا۔سوانہوں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ گستاخیال ہماری برداشت سے باہر ہیں۔اور جب تک ان کا بدلہ نہ لے لیں گے تب تک ہم بھی آرام کی نیند نہ سو ئیں گے پس سنہیڈریم کے شرکا ءطیش میں آکر اسی شام کو فراہم ہوئے اور اس غرض سے فراہم ہوئے کہ اس کے نام و نشان کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی تدبیر نکالیں۔ممکن ہے کہ نیکدیمس یا ارمتیا کے یوسف نے ان کی حاسدانہ او ر مجنونانہ کاروائی کو دیکھ کر کچھ مخالفت کی ہو مگر انہوں نے ان کو بھی دھمکا کر خاموش کر دیا اور پھر بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ قرین مصلحت یہی ہے کہ یسوع جان سے مارا جائے۔اب وہ چاہتے تھے کہ یہ فیصلہ جس قدر جلد ہو سکے عمل میں آئے مگر موقع اس خواہش کے برخلاف تھاکیونکہ کم ازکم مقرری دستوروں اور قانون کی پیروی کرنا ان پر لازم تھا۔ماسواے اس کے تمام اجنبی جو اس وقت یروشیلم میں آئے ہوئے تھے یسوع کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے پس ان سرداروں کو اندیشہ دامن گیر ہوا کہ اگر ہم نے اسے ان لوگوں کے روبرو گرفتار کیا تو کیا جانے کیا ہو جائے۔لہذ امناسب ہے کہ جب تک مسافر شہر میں ہیں تب تک اس کو کچھ نہ کہا جائے لیکن ابھی وہ اس بات کا فیصلہ کرنے نہیں پائے تھے کہ ایک ایسا واقعہ سر زد ہوا جس کی توقع ان کو ہر گز ہر گز نہ تھی اور جس نے ان کے دلوں کو شاد کر دیا وہ عجیب واقعہ یہ تھا کہ اسی کے شاگردوں میںسے ایک نے ان سے رشوت لے کر اسے پکڑوانے کا وعدہ کیا۔

یہوداہ اسکریوطی وہ نام ہے جس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔مشہور و معروف شاعر ڈانٹے نے اپنی کتاب ”دوزخ کی رویا “ میں اس شخص کو تمام مردود اور سزا یافتہ اشخاص کے درمیان سب سے نیچی اور ادنے جگہ دی ہے اور ا س طرح ظاہر کیا ہے کہ گویا وہی اکیلا اس سزامیں حصہ دار ہے جو خدا کی طرف سے ابلیس لعین پر نازل ہوئی ہے اور جو فتوے اس شاعر نے اس پر لگا یا ہے وہی تمام بنی آدم اس ہر لگاتے ہیں۔پھر بھی یہ کہنا بیجا نہیں کہ وہ ایسا شرارت کا پتلا نہ تھا کہ اس کی کاروائی سمجھ میں نہ آئے یا اس کے ساتھ ذرا بھی ہمددری نہ کی جائے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا گر جانے کا افسوس ناک قصہ بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے اس نے بھی دوسرے رسولوں کی طرح اسی امید سے اس کی شاگردی اختیا ر کی تھی کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب مجھے ایک بڑی ملکی تحریک میںشامل ہونے کافخر حاصل ہوگا او ر فتح کے بعد ،مسیح کی دنیوی بادشاہی میں مجھے ایک اعلےٰ منصب عطا کیا جائے گا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرم اس میں سے پہلے کسی طرح کا جوش اور محبت کا کوئی اظہار دکھائی نہ دیتا تو شاید مسیح اسے رسولوں کے زمرے میں داخل نہ کرتا۔رسولوں کی جماعت میں وہی ایک ایسا شخص تھا جس کے ہاتھ میں روپوں کی تھیلی رہاکرتی تھی اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ نہایت پھرتیلا اور انتظامی معاملات میں صاحب لیاقت آدمی تھا پراس کی خصلت کی جڑمیں وہ گھن لگا ہوا تھا جس نے رفتہ رفتہ ان تمام اچھی صفتوں کو جو اس میں پائی جاتی تھیں کھا لیا اور آخر کار ایک ہو لناک جذبے کی صورت اختیار کی۔یہ کیڑاوہی تھا جسے زر کی دوستی کہتے ہیں۔اس نے اس کیڑے کو محبت سے پالا۔چنانچہ شروع میں اس نے اس خیرات میں سے جو یسوع کو اس کے شاگردوں کے لئے یا ان غریبوں کی مدد کے واسطے جن سے وہ ہر روز گھرا رہتا تھادی جاتی تھی۔تھوڑاتھوڑا چرانا شروع کیا اور یہ امید رکھی کہ جب میں نئی بادشاہی میں شاہی خزانوں کا نگران مقرر کیا جاﺅںگا تو دل کھول کر زر پرستی کی پیاس بجھاﺅں گا۔اب اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں دوسرے رسولوں کے خیالات بھی اسی قسم کے دینوی تھے لیکن ان کے اور ا س شخص کے حال میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔وہ تو ہر دم روحانی بنتے جاتے تھے مگر یہ ہر گھڑی دینوی مزاج میں ترقی کرتا جاتا تھا مسیح کی حین حیات میں تو بے شک باقی رسول بھی کبھی اس منزل تک نہ پہنچے کہ روحانی بادشاہی کو زمینی بادشاہی سے بالکل جدا سمجھتے مگر باوجود اس نقص کے جو کچھ ان کے استا د سے بالکل جدا سمجھتے مگر باوجود اس نقص کے جوکچھ ان کے استاد نے روحانیت کی بابت سکھایا وہ ان کے دل میںگھر کر گیا اور رفتہ رفتہ اس قدر نگل گئے یا یوں کہیں کہ دنیاداری کے خیالات کو روحانی تصورا ت بالکل نگل گئے یا یوں کہیں دنیوی بادشاہی کے خیال کا ایک چھلکا ساباقی رہ گیا اور وہ بھی جب وقت آیا تو بھوسے کی طرح اڑ گیا مگر یہوداہ اسکریوطی کے خیالات دن بدن دنیاداری میں بڑھتے گئے اور اپنی خواہش کے سبب سے بے چین ہونے لگا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ میری خواہش ایک دم میں پوری ہو جائے۔منادی کرنا اور شفا بخشنا اس کے نزدیک صرف وقت ضائع کرنا تھا اور اسی طرح یسوع کی پاکیزکی اور اس کا دنیا وی عزت، و حرمت سے بے پرواہ ہونا یہوداہ کی جان کا وبال تھا وہ کہتا تھا کہ یسوع اپنی بادشاہی کو پہلے قائم کیوں نہیں کرلیتا۔اس کے بعد جتنی منادی کرنا چاہے کرے۔جب اس نے دیکھا کہ جس بادشاہی کی میں توقع کئے بیٹھا ہوں وہ کبھی وجود میں نہیں آئے گی تو اس نے اپنے دل میں کہا کہ میں نے بڑا دھوکا کھایا اور جب یہ خیال اس کے دل میں جم گیا تووہ نہ صرف اپنے استاد کو نظر حقارت سے دیکھنے لگا بلکہ اس سے متنفر بھی ہو گیا اور پھر جب اس نے اتوار کے روز جب کہ لوگ کجھور کی ڈالیا ںبچھاتے اور ہلاتے تھے یہ دیکھا کہ یسوع ان لوگوں کی تیاری سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا نا چاہتا توا س کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی اور اس نے سوچا کہ اب یسوع ناصری کی پیروی کرنا بالکل فضول ہے پس اس نے اپنے دل میں کہا کہ اب تو جہاز غرق ہونے پر ہے میں کیوں مفت میں اپنی جان کھوﺅں۔بہتر ہے کہ اس کشتی سے کودکر سلامتی کے کنارے پر پہنچ جاﺅں اور اس کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اب مجھے رسولوں کے زمرے سے نکلنا تو ہے ہی ایسے طور پر کیوں نہ نکلوں کہ ایک پنتھ دو کاج کی مثل میرے حق میں پوری ہو۔پس کوئی ایسا طریقہ اختیار کرﺅں کہ جیب بھی گرم ہو اور یہودی سردار بھی احسان مند ہو جائیں۔ان نالائق خیالات نے اس کو ایسا اندھا کر دیا کہ وہ یہودی حکام کے پاس حاضر ہوا اور ایسے موقع پر حاضر ہوا جبکہ اس کی مدد کی ان کو اشد ضرورت تھی۔پس انہوں نے اس کی مد د کو غنیمت سمجھا اوردام ٹھہراکر اسے روانہ کر دیا اور کہا کہ جب اچھا موقعہ ہاتھ آئے تو ہمیں خبر دنیا۔جس جلدی سے اس نے اپنے مناسب کام کو پورا کیا انہیں اس کی امیدبھی نہ تھی چنا نچہ جس رات یہ لعنتی سودا کیا گیا اس سے دوسری رات اس نے اپنے مہربان او ر محسن نجات دہندے اور استاد کو ظالموں کے سپرد کیا۔

سیدنا مسیح اور موت۔اس ہفتہ میں موت اپنا منہ کھولے یسوع کے سامنے کھڑی تھی اور جو حالت اس کی اس وقت تھی اس کی یاد بڑھ کر اور کوئی بیش بہا ہمار ے پاس موجود نہیں۔یوں تو ہر وقت اس کی جلیل اور جمیل سیرت اپنا جلوہ دکھاتی رہتی تھی مگر اس ناقابل برداشت مصیبت کے دنوں میں جو شوکت اور عظمت نمایاں ہوئی اس کا بیان انسان بالکل نہیں کر سکتا۔اتنا کہنا کافی ہے کہ اس قلیل عرصہ میں اس کی سیرت کی سب سے شان دار اور نہایت ملائم خاصیتں اورا س کی انسانی اور الہٰی ذات کی بے نظیر خوبیاں روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیئں۔

یروشلیم میں آنے سے کہیں پہلے اس کو معلوم تھا کہ میں وہاں جان سے مارا جاﺅں گا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک سال سے یہ کانٹا اس کے دل میں کھٹک رہاتھا او ر وہ جانتا تھا کہ میرے باپ کی یہی مرضی ہے کہ میں اسی طرح اس دنیا سے کوچ کرﺅں اور جب وقت آیا تو اس نے ایک بے مثال دلیری اور ہمت سے مقتل کی طرف قدم اٹھایا مگر بڑی جدوجہد کے ساتھ طرح طرح کے خیالات اس کے دل میں پیدا ہو تا تھا کبھی دیر تک دریائے فکر میں ڈوبا رہتا تھا کبھی فتح مندی کی خوشی اور سلامتی کے خیال سے بھرجاتا تھا۔غرض یہ کہ مختلف قسم کے خیالات اس کے دل میں سمندر کے مدوّجزر کی طرح موجزن ہو رہے تھے۔

بعض لوگ ڈرتے ہیں اوریہ نہیں کہنا چاہتے کہ جس طرح عام انسان موت سے بچنے کی کوشش کر تے ہیں اسی طرح وہ بھی اس سے دور رہنا چاہتا تھا پروہ اپنے ڈر کی معقول وجہ پیش نہیں کرتے۔ہم یاد رکھیں کہ یہ احساس قدرتی ہے اور بالکل اپنی ذات میں بے بد ہے اور تعجب نہیں کہ اس میں یہ احساس ہماری نسبت زیادہ پایا جاتا ہو کیونکہ اسکا جسم بالکل پاک تھا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ وہ اس وقت نوجوانی کی حالت میں تھا۔یہ اس کی عمر کا تنتیسواں سال تھا۔زندگی کی دھاڑ بڑے زرو شور سے بہ رہی تھی اور تمام حسات کی طاقت سر سبز تھی۔پس جوانی کی طاقتوں کا جو سیل رواں کی طرح بہ رہی تھی یک بیک سوکھ جانا ااور نخل زندگانی کا مرجھا جانا بے شک اس کو ناگوار گذار ہو گا۔اسی دور کو ایک واقعہ نے جو پیر کے روز سرزد ہو ا،اس کے دل میں شدت سے پیدا کردیا۔چنانچہ چند یونانیوں نے اس کے دو شاگردوں کے پاس آکر کہا کہ ہم یسوع کو دیکھنا چاہتے ہیں۔اس زمانے میں کئی بت پرست لوگوں نے جو یونانی عملداری میں رہاکرتے تھے اپنے زمانے کی بیدنیی اور بد اخلاقی سے تنگ آکریہودیوں کے مذہب میں پناہ پائی تھی جو ان کے درمیان مقیم تھے اوریہواہ کی پرستش اختیار کی تھی۔یہ یونانی جو یسوع کو دیکھنا چاہتے تھے اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے مگر ان کی درخواست نے اس کے دل میں وہ خیال پیدا کئے جن کا خواب بھی ان کو کبھی نہیں آیا تھا۔مسیح کو فقط دو یا تین مرتبہ ان لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ، وہ فلسطین کے اردگرد کے ملکوں میں رہتے تھے مسیح صرف اسرائیل کی کھوئی ہو ئی بھیڑوںکے لئے آیا تھا مگر جب اسے ایسے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقعہ ملا اس نے ان میں ایسا ایمان اور ایسی شرافت پائی کہ کئی موقعوں پر اس نے خود یہودیوں کی بے اعتقادی اور بے ادبی اور کمنیگی سے ان کا مقابلہ کیا۔اب یہ خیال بار بار اس کے دل میں آتا ہوگا کہ کاش میں فلسطین کی حددو کو چھوڑ کر ان قوموں سے جاہلوں جن کی طیبعت ایسی سادہ اور ایسی فیاض ہے۔اس کی آنکھوں کے سامنے بارہا اس کے کام کے متعلق ایسے نظارے آئے ہوں گے جیسے بعد میں پولوس کو نصیب ہوئے جس نے جابجا مسیح کے نام کی منادی کی اور اتیھنز اور روم اور دیگر بڑے بڑے مغربی مرکزوں میں جا کر انجیل سنائی۔اگر مسیح بھی اسی طرح کام کرتا تو اس کو کیسی خوشی حاصل ہو تی۔کیونکہ اس کے اندر قدرت کی ندیاں جاری اور رحمت کا دریا موجزن تھا اور یہ صفیتں اس قسم کے کام سے خاص مناسبت رکھتی ہیں پر موت امیدوں کے چراغ کو بجھانے کے لئے سامنے کھڑی تھی۔پس ان یونانیوں کی ملاقات نے ایسے خیالات کا سلسلہ برپا کر دیا کہ ان کی درخواست کا جواب دینے کے عوض وہ رنج کے بھنور میں پڑگیا۔چہرے پراداسی چھا گئی اور تمام بدن اندرونی جدّو جہد کے سبب کانپ اٹھا مگر یہ غمناک حالت فوراّکا فور ہو گئی اور اس نے ان خیالات کو ظاہر کیا جن کے وسیلے سے ان دنوں اپنی روح کو مضبوط کیا کرتا تھا۔وہ خیالات ان الفاظ میں قلمبند ہیں۔جب تک گہیوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلارہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے اور میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاﺅ ں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچ لو نگا “۔ان کلمات مبارک کا کیا مطلب ہے ؟ کیا ان کا یہ مطلب نہیں کہ اگر چہ موت اس کو بڑی بھیانک معلوم ہوتی تھی تو بھی اس کی حقیقت شناس آنکھ اس کے پرئے تک دیکھتی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اگر میں شخصی طور پر غیر قومو ں میں جا کر کام کرتا توا س کا اثر اور نتیجہ ایسا عظیم اور وسیع نہ ہوتا جیسا اب میری قربانی سے پیدا ہوگا لیکن ان تمام خیالات کے علاوہ ایک اور خیال اس کے دل میں موجود تھا جو ا ن سب پر حاوی تھا۔چنانچہ وہ سوچتا تھا کہ یہی موت تو وہ موت ہے جو میرے باپ نے میرے لئے مقرر کی ہے۔یہ خیال تمام تسلی کی جڑ اور اطمینان کا منبع تھا اور اسی سے وہ اپنی خاکسار اور پر تو کل روح کی تشفی اس قسم کے مشکل وقتوں میں کیا کر تا تھا۔”اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کہوں ؟اے باپ مجھے اس گھڑی سے بچا۔لیکن میں اسی سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔اے باپ !اپنے نام کو جلال دے “۔

ہم یہ بھی یادرکھیں کہ موت اس کے پاس اکیلی نہیں آئی بلکہ ہر طرح کے دہشت ناک معاونوں کو اپنے ساتھ لے کر آئی یا یوں کہیں کہ کئی واقعات اس کی موت کے ساتھ ایسے وابستہ تھے جہنوں نے اس کے پیالے کواور بھی تلخ کر دیا۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ اسے اپنے ہی شاگرد کے فریب کا نشانہ بننا پڑا جسے اس نے چن کر اپنے آغوش محبت میں جگہ دی تھی اور پھر دیکھئے کہ کوئی غیر قوم اس کی جان کے در پے نہ تھی بلکہ اسی کی قوم اس کے خون کی پیاسی تھی اور وہی شہر اس کا مقتل بنا جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتا تھا۔وہ تو اس لئے آیا تھا کہ اپنی قوم کو عرش تک پہنچائے اور اسے دل و جان سے پیار کر تا تھا کیونکہ اس کے تمام حالات سے پوری پوری واقفیت رکھتا تھا اوران لوگوں کو خوب جانتا تھا جو اس کی مانند اس سے پہلے اس کو پیار کر تے کرتے گزر گئے تھے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ میں اس کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہوں اور یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں مار اگیا تو فلسطین اور یروشلیم پر ہزار ہا قسم کی لعنتیں نازل ہوں گی۔متی کی انجیل کے چوبیسویں باب میں وہ الفاظ قلمبند ہیں جو اس نے منگل کی شام کو اپنے شاگردوں کے رو برو اس وقت بیان فرمائے جس وقت وہ کوہ زتیون پر بیٹھے تھے اور وہ شہر جس پر قہر الہٰی نازل ہونے والا تھا ان کے سامنے تھا۔ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے ان واقعات کو جو یروشلیم پر حادث ہونے کو تھے بڑی صفائی سے دیکھا۔اگر ہم اس کے غم کا اندازہ لگانا چاہیں توا ن کلمات کی طرف متوجہ ہوں جو اس کے لبو ں سے اتوار کے روز نکلے۔وہ وقت اس کی فتمندی کا وقت تھا۔جو لوگ خوشی سے معمو ر تھے اس کو خوشی کے نعرے مارتے ہوئے آگے لئے جاتے تھے مگر جب وہ اس مقام پر پہنچا جہاں یروشلیم یک بیک اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا تووہاں ٹھہر گیا اور نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ان حوادث کی جو اس پر ناز ل ہونے والے تھے نبوت کرنے لگا۔لازم تو یہ تھا کہ وہ دن یر وشلیم کی شادی کا دن ہوتا ،ہاں اس دن خدا کے بیٹے کے ساتھ شادی کر کے اس بستی کو جشن منانا چاہیے تھا مگر جشن کہاں ؟ وہاں تووہ زردی تو وہ زردی اور سردی یروشلیم کے منہ پر چھائی ہوئی تھی جو موت کے وقت مرنے والوں کے چہروں پر نمودار ہوتی ہے۔پس وہ اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے چھپاتی ہے اسی طرح اس کو اپنی رحمت کے سائے تلے لینے کو آمادہ تھا۔اب دیکھتا ہے کہ زاغ و زعن ہوا میں اڑ رہے ہیں اورمنتظر ہیں کہ اس کے گوشت و پوست کو نوچ کر کھا جائیں۔

اس ہفتے میں وہ ہر روز شام کے وقت بیت عنیا کو لو ٹ جاتا تھا پر کبھی لمبی تان کر نہیںسوتا تھا۔اغلب ہے کہ اس نے اپنی کئی راتیں اس ہفتے میں تنہا جاگ جاگ کر کاٹیں۔غالباًوہ اکیلا پہاڑ کی غیر آباد چو ٹی پر جایا کرتا تھا یا ان زتیون کے درختوں اور باغوں میں جو پہاڑ کے پہلوﺅں میں لہلہاتے تھے جاکر اپنا وقت کاٹا کرتا تھا اور ناممکن نہیں کہ بارہااس سڑک پر بھی جاتا ہوگا جس پر سے اتوار کے روز جلوس گزرا تھا اور جب چلتے چلتے اس موقع پر پہنچتا ہوگا جہاں ایک دفعہ پہلے ٹھہر ا تھا تو وادی میں سے شہر یروشلیم کو دیکھتا ہو گا جس کے رہنے والے رات کی خاموشی اور چاند کی روشنی میں نیند کے مزے لیتے تھے او را سے دیکھ کر ایسے جگر فگار نالے بلند کر تا ہو گا جو اس نوحے سے بھی جس نے اتوار کے روز لوگوں کے دل ہلادئے کہیں زیادہ درد انگیز ہوتے ہوں گے اور کئی بارا رات کی تنہائی میں اپنے دل کو وہی صداقت آمیز باتیں سناتا ہو گا جو اس نے یونانیوں کے سامنے بیان فر مائیں۔

اس وقت وہ بالکل اکیلا تھا ،ایسا کہ اس کی غم ناک تنہائی کو دیکھ کر دل پاش پاش ہو جا تا ہے۔ساری دنیا اس کی مخالفت پر تلی کھڑی تھی یروشلیم کے لوگ حسد کے مارے اس کی جان کے خواہاں تھے اور باہر سے آئے تھے وہ بھی مایوس ہو کر رو گرداں ہو گئے تھے او رنہ کوئی اس کے رسولوں میں ایسا تھا جو ا س کی درد ناک حالت سے بخوبی واقف ہوتا اور اسے اپنا ہم راز بناتا۔یوحنا سے بھی اس بات کی توقع نہ تھی اس ہو لناک تنہائی نے اس کے تلخ پیالے کو اور بھی کڑوا بنا دیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میں مرنے کے بعد بھی جیتا رہوں۔اس نے دیکھا کہ جو بادشاہی میں قائم کر نے آیا ہوںؓاور اسے فنا نہیں ہونا چاہیے وہ تو تمام دنیا کے لئے ہے او ر اسے تمام پشتوں اور زمانوں میں قائم رہنا اور دنیا کے ہر حصے میں پھیلنا ہے مگر میرے مرنے کے بعد یہ کام میرے رسولوں کے ہاتھ میں آئے گا جوا ب اپنے تئیں ایسے کم درد اور بے درد اور بے علم ظاہر کر رہے ہیں۔کیا وہ اس کا م کے لائق ہیں کیا ان میں سے بھی ایک دشمن نہیں نکلا ؟کیا میرے پیچھے میرا کام (شاید شیطان نے بھی اس کو اسی طرح کہہ کر آزمایا ) تباہ نہیں ہو جائے گا اور میری وہ تمام تدبیریں جو دنیا کی اصلاح کے لئے کی گئی ہیں کا فور نہیں ہوجائیں گی ؟

لیکن وہ حقیقت میں اکیلا نہ تھا وہ درختوں کے گھنے سائے میں جا کر اور کوہ زتیون کی چوٹیوں پر چڑھ کر اس کے زوال تسلی کو ڈھونڈتا تھا جوا سے ان دنوں میسر تھی اور وہی تسلی اس کو بے بیان فکر کے وقت کثرت سے حاصل ہوئی۔اس کا باپ ا سکے ساتھ تھا۔پس جب اس نے رو رو کر اور آنسو بہا بہا کر دعا مانگی تو اس کی سنی گئی کیونکہ وہ خدا سے ڈرتا تھا۔اس نے اپنی روح کی بے چینی کو اس خیال کے وسیلے سے دور کیا کہ جو کچھ مجھ پر بیت رہا ہے اسے باپ کی حکمت اور محبت نے بھیجا ہے اور میں اپنے باپ کا جلال ظاہر کرتا ہوں اور وہ کام کر رہاہوں جو اس نے میرے سپرد کیا ہے۔اس خیال کے وسیلے سے وہ ہر طرح کے خوف کو دور اور اپنے دل کو ایک بے بیان اور پر جلال خوشی سے معمور کر سکتا تھا۔

آخر کا ر خاتمہ کا وقت آپہنچا یعنی جمعرات کی وہ شام آگئی جبکہ یروشلیم کے ہر گھر میں فسح کھا یا جاتا تھا۔یسوع بھی اپنے بارہ رسولوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھا۔وہ جانتا تھا کہ اس دنیا میں یہ میر ی آخری رات اور میرے دوستوں کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہے۔ہماری خوش قسمتی سے اس وقت اور موقع کا مفصل حال ہمارے پاس موجود ہے جس سے ہر مسیحی کم و بیش واقف ہے یہ وقت اس کی زندگی میں ایک عظیم الشان وقت تھا اس کی روح ایک بے بیان محبت اور جلال سے معمور تھی۔البتہ شام کے شروع میں غم کے بادل نے اپنی تاریکی کا کچھ کچھ سایہ اس پر ڈالا تھا ،مگر اب وہ بالکل غائب ہو گیا تھا۔چنانچہ جب اس نے شاگردوں کے پاﺅں دھوئے ،فسح کھایا ،عشائے ربانی کی رسم مقرر کی ، آخری تقریریں بیان فرمائیں اور سردار کاہن ہونے کی حیثیت سے سفارسی دعا مانگی توا س کی سیرت کی جلالی شوکت تمام کمال کے ساتھ جلوہ نما ہوئی۔وہ اس وقت ان خیالوں میں محو تھا جودوستی سے تعلقل رکھتے ہیں۔چنانچہ وہ ”محبت جس سے وہ اپنوں کو پیار کر تا تھا “ دریا کی طرح جاری تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ اپنے شاگردوں کے تمام نقصوں کو بھول گیا ہے۔اور ان کی کامیابی اور فتح مندی کی پیش بینی سے شاداں ہو رہا ہے۔کوئی خیال ایسا نہ تھا جوا س کے باپ کے چہرے کو اس سے چھپاتا۔کوئی بات ایسی نہ تھی اس کے دل سے دور کر تی بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہر طرح کا دکھ اور غم بالکل دور ہو گیا ہے اور ا س کی سرفرازی کا جلال اس کو چاروں اطراف سے۔ گھیر رہاہے۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد غم اور دکھ کی حالت نے پھر عود کیا۔فسح کھانے کے بعد کوئی آدھی رات کے قریب وہ اور اس کے شاگرد بازار سے گزر کر مشرقی دروازے پر پہنچے اوراس دروازے سے شہر کے باہر نکل کر اور کدرون کے نالے کو عبور کر کے اس جگہ گئے جہاں وہ اکثر جایا کرتاتھا۔یہ جگہ کوہ زتیوں کے دامن میں واقع تھی اور گتسمنی کا باغ کہلاتی تھی۔وہاں وہ جانکا ہ اور دہشت انگیز جان کنی واقع ہوئی جس کی یاد کبھی دنیا سے نہیں کٹے گی۔یہ اس گہری غمگینی کا جو تمام ہفتہ بھر اس شادمانی سے لڑتی رہی جس کا اعلیٰ نظارہ فسح کے وقت جلوہ گر ہوا ایک آخری حملہ تھا یا یوں کہیں یہ جان کنی ان آزمائشوں کا آخری دھاوا تھا جن سے اس کی زندگی کبھی آزادنہ نہ تھی۔لیکن ہم اس نظارے کی تشریح نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اس ک نسبت خواہ کہتا ہی لکھیں اس کا گہر امطلب پورے طور پر بیان نہیں کرسکتے مثلاًہم کس طرح دنیا کی گناہ کے بوجھ کی جوا س وقت اس پر آگرا تھا اور جو اس کی جان کنی میں سب سے بڑا عنصر تھا اور جس کا کفارہ وہ دے رہاتھا تشریح کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ جان کنی کامل فتح میں تبدیل ہو گئی۔اس کے شاگردوں نے تو ان گھنٹوں کو سوار کر ضائع کیا جن میں ان کو اس نازک وقت کے لئے تیار ہونا چاہیے تھا جو تھوڑی دیر کے بعد آنے والا تھا مگر اس نے انہی گھنٹوں میں اپنے آپ کو تیار کر لیا۔آزمائش کے آخری حملے پر بھی فتح پائی پس موت کی تلخی دور ہو گئی اور اب وہ بالکل تیار تھا کہ ان دکھوں میں سے گذرے جو تھوڑی دیر کے بعد آنے والے تھے اور ایسے اطمینا ن اورجلال کے ساتھ گذرے کہ اس کا دکھ اور صلیب دونوں بنی آدم کے لئے فخر کا باعث ہوں۔

پیشی۔اس باطنی جدوجہد پر فتح پائے ،بہت دیر نہ ہوئی تھی کہ اس نے زتیون کے درختوں میں سے اپنے دشمنوں کو جو آرہے تھے ،چاند کی روشنی میں دیکھا۔وہ اسے پکڑنے کے لئے آئے تھے اور ان کا پیشوا یہوداہ اسکریوطی تھا۔وہ جانتا تھا کہ یسوع اکثر اسی جگہ آرام کیا کرتا ہے اور سوچتا تھا کہ میں اسے وقت سوتا پاﺅں گا۔یہی سبب تھا کہ اس نے یسوع کے پکڑوانے کے لئے آدھی رات کا وقت پسند کیا۔یہودی سرداروں کے نزدیک ببھی یہی وقت زیادہ موزوں تھا کیونکہ وہ ان گلیلیوں کے مزاج کو خواب جانتے تھے جو اس وقت شہر میں آئے ہوئے تھے کہ اگر صبح ہونے سے پہلے پہلے یسوع گرفتار ہو جائے اور اس پر قوم اور حاکم کی طرف سے سزاکا فتوےٰ لگ جائے تو پھر کسی طرح کا خوف نہ رہے گا کیونکہ اس وقت ہم اسے ایسے مجرم کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے جو ازروئے قانون سزا کے لائق سمجھا گیا ہے۔یہ لوگ اپنے ساتھ لالیٹنیں اور مشعلیں لائے کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی غار میں گھس جائے یا ہمیں جنگل میں اس کا پیچھا کر نا پڑے۔مگر ان کا یہ خیال غلط تھا کیونکہ جب وہ باغ کے دروازے پر پہنچا تو یسوع خود بخود ان کے پاس آیا اوراس وقت اس کی پر جلال اور پر شوکت حضوری نے اس کے مخالفوں پر ایسا اثر کیا کہ وہ لڑکھڑاکر گر پڑے۔اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کیا او روہ اسے شہر کی طرف لے گئے۔رات کا باقی حصہ اور صبح کا وقت ان قانونی رسوم کے ادا کرنے میں کٹا جن کا بجانا لانا لازمی امر تھا۔یسوع کے مخالف جانتے تھے کہ جب تک یہ قانونی منزلیں طے نہ ہوں تب تک و ہ جان سے نہیں مارا جاسکتا۔

مسیح کی پیشی دو عدالتوں میں ہوئی۔ان میں سے ایک دینی اور دوسری سرکا ری تھی اور ہر ایک کی تین تین منزلیں تھیں۔پہلی پیشی ،پہلے حناّ کے ،پھر کائفا کے اور پھر سنہیڈرم کے سامنے ہوئی سنہیڈریم کے سامنے وہ دو مرتبہ آیا۔ایک دفعہ اس وقت جبکہ ممبران سنہیڈرم مقررہ باقاعدے طور پر فراہم ہوگئی تھی۔سرکاری پیشی پہلے پلاطوس کے ہیرودیس کے اور پھر دوبارہ پلاطوس کے سامنے ہوئی۔

اگر پوچھا جائے کہ ان دوہری دوہری پیشوں کا کیا سبب تھا تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس دوہری پیشی کا باعث ملک کی پو لٹیکل حالت تھی ہم کئی بار بتا چکے ہیں کہ یہودیہ رومیوں کے قبضے میں تھا اور اس رومی صوبہ کا حصہ سمجھا جاتا تھا جو سریایاارام کہلاتا تھا اس کا رومی حاکم قیصر یہ میں رہا کرتا تھا۔مگر رومیوںں کا یہ معمول تھا کہ جن ممالک کو اپنے قبضے میں لاتے تھے انہیں ان کے طرز حکومت سے بالکل محروم نہیں کیا کرتے تھے۔اس میں شک نہیں کہ وہ لوہے کے عصا سے حکمرانی کیا کرتے تھے۔محصول اور جزیہ بڑی سختی سے لیتے تھے۔بغاوت کو فوراًاپنے زرو آور بازو سے دور کر دیتے تھے اور بڑے بڑے موقعوں پر اپنے اختیار اور حکومت کا سکہ جمانے سے باز نہیں آتے تھے مگر باوجود اس سختی اور تحکم کے اپنی مفتوحہ قوموں کوایسے ایسے قومی دستور جاری رکھنے کی اجازت دیتے تھے جو ان کے شاہانہ اختیار اور دبدبے میں کس طرح کی خلل اندازی نہیں کرتے تھے خصوصاًمذہبی معاملات میں تو یہ آزادی سب کو دی جاتی تھی۔پس سنہیڈرم کو جو یہودیوں کے مذہبی مقامات کی ایک اعلیٰ کچہری تھی اب تک دینی معاملات کا فیصلہ کرنے کا اخیتار حاصل تھا مگر جب جائے توا س مجرم کو قیصریہ بھیجنا پڑتا تھا تاکہ اس کے جرم پر پہلے رومی حاکم غور کرے اور اگر وہ بھی سنہیڈرن کے فیصلے کی تائید کرتا تھا تو مجرم جان سے مارا جاتا تھا ورنہ بری ہو جاتا تھا پر اگر رومی حاکم ایسے موقع پر یروشلیم میں حاضر ہوتا تھا تو مجرم کو قیصر یہ نہیں جاتا پڑتا تھا۔اب چونکہ وہ جرم جو مسیح پر لگا یا گیا دینی تھا اس لئے اسے یہودیوں کی دینی کچہری میںا ٓنا پڑا اورجو فتوے سنہیڈرم نے اس پر لگایا وہ یہی تھا کہ وہ جان سے مارا جائے مگر رومی قانوں کے مطابق سنہیڈرم کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ اپنے فتوے کو آپ عمل میں لائے پس ضرور تھا کہ وہ پہلے رومی حاکم کے حضور بھیجا جائے جواس وقت یروشلیم میں حاضر تھا کیونکہ فسح کی تقریب پر وہ ہمیشہ یروشلیم میں آجاتا تھا اب ہم ان جان گذار واقعات کا جو ان پیشوںسے وابستہ ہیں کچھ مفصل حال بیان کریں گے۔

مسیح کے دشمن پہلے اس کو حنا کے محل میں لے گئے۔یہ پیر فرتوت اس وقت اسی سال کا تھا اور بیس برس تک سردار کاہن رہ چکا تھا۔اگر چہ وہ کہانت کے عہدے پر مامو ر نہ تھا تو بھی لوگ اس کو سردار کاہن ہی کہا کرتے تھے اور اس کے پانچ بیٹے بھی اسی لقب سے ملقب تھے حالانکہ ان میں سے کوئی اس وقت اس عہدے پر مامور نہ تھا۔اس وقت جوشخص اس رتبہ پر ممتاز تھا وہ کائفاکا داماد تھا۔حنا ّ بسیب اپنی پیری اور لیاقت اور خاندانی مقدرت کے بڑے بزرگ سمجھا جاتا تھا اور گووہ اس وقت ا نتظامی طور پر تو سنہیڈرم کا میر مجلس نہ تھا تو بھی حقیقت میں کرسی نشین ہونے کی عزت اس کو دی جاتی تھی مگر اس نے مسیح کے معاملے میں کوئی رائے نہ دی۔وہ صرف اسے دیکھنا اور چند سوالات پو چھنا چاہتا تھا۔پس تھوڑی دیر کے بعد اس نے اسے کائفا کے پاس بھیج دیا۔کائفا کا محل سے غالباًبہت دور نہ تھا ،بلکہ اسی قطار میں واقع تھا جس میں یہودی عہددار رہاکرتے تھے۔کائفا سردار کاہن تھا اور سردار کاہن ہونے کے سبب سے اس سنہیڈرم کی میٹنگ ازروے قانون طلوع آفتاب سے پہلے منعقد نہیں ہو سکتی تھی مگر یہ لوگ مخالفت کے سبب سے ایسے اندھے ہورہے تھے کہ جتنے اس جگہ اس وقت موجود تھے وہ سب ایک جافراہم ہوگئے تاکہ صبح سے پہلے پہلے قرار داد جرم تیار کریں اور مسیح کے برخلاف اس کے مدعیوں کی گواہی جمع کریں۔مطلب یہ تھا کہ دن چڑھے پر ان لوگوں کو جو باہر سے یروشلیم میں آئے ہوئے تھے کسی طرح کی مداخلت کا موقع نہ ملے اور جب سورج نکل آئے تو تھوڑی دیر کے لئے باقاعدہ طور پر فراہم ہو کر اس پر سزا کا فتوی لگا دیں اور پھر اسے حاکم کے پاس لے جائیں۔اسی تجویز کی پیروی کی گئی چنانچہ جس وقت یروشلیم کے باشندے لمبی تانے پڑتے تھے اس وقت یہ حسد کے پتلے اپنی سیاہ اور ڈراونی تدبیروں کو پورا کرنے کے جور توڑ میں لگے ہوئے تھے۔

اس عجیب کچہری کی بات جو بات ہماری توجہ سب سے پہلے اپنی طرف کھنیچتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس مقدمے کوکسی خاص جرم کی بنا پر شروع نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنا بہت ہی مشکل تھا اور اس کا باعث یہ تھا کہ ممبران سنہیڈرم میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔مسیح کی زندگی میں کئی باتیں ایسی تھیں جہنیں فریسی تو بہت برا سمجھتے تھے مگر صدوقی ان کی کچھ پرواہ نہیںکیا کرتے تھے۔اسی طرح کئی ایسی باتیں بھی تھیں جن کی برداشت صدوقی نہیں کرتے تھے۔مگر فریسی ان کوا چھا جانتے تھے مثلاًمسیح کا ہیکل کو پاک و صاف کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے صدوقیوں کو غیظ و غضب سے بھر دیا مگر فریسی اس سے بہت خوش ہوئے۔

کائفا نے اس کی تعلیمات اور اس کے رسولوں کے بارے میں سوال کرنا شروع کیا۔غالباًاس کا مطلب یہ تھا کہ دیکھے کہ اس کی تعلیمات میں کوئی ایسی تعلیم بھی پائی جاتی ہے جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ وہ ملکی انتظام کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے اور اگر کوئی ایس نکتہ مل جائے تو اس کی بنا پر اسے حاکم کے سامنے پیش کر ے مگر یسو ع نے اس کے سوال کا یہ جواب دیا کہ میں حفیہ نہیں دبلکہ اعلانیہ تمام دنیا کے سامنے تعلیم دیتا رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے بتایا جائے کہ میں نے کیا قصور کیا ہے اس نے جواب کی غیر معمولی طرز کو دیکھ کر کائفا کے کسی خوشامدی اہل کار نے اس کے رخسار پر طمانچہ مار امگر ان منصف مزاج حضرات نے اس نابکا ر کو کچھ بھی نہ کہا۔اس ناسزاحرکت سے روشن ہے کہ وہ ان بے انصافوں سے کیسے انصاف کی توقع رکھ سکتا تھا۔اس کے بعد کو شش کی گئی کہ اس کے بر خلاف گواہوں کی گواہی لی جائے اور اس سے کسی قسم کا الزام تیا ر کیا جائے۔اس غرض کی انجام دہی کے لئے کئی شخص اٹھے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس کویہ کہتے سنا ہے اور وہ کہتے سنا ہے مگر اس کوشش کا نتیجہ کچھ نہ نکلا کیونکہ گواہ آپس میں متفق نہ تھے آخرکا ر دو آدمی اٹھے جو ایک بات پر جو اس کے کام کے آغاز میںاس کی زبان سے نکلی تھی اس پر الزام لگانے لگے ،کیونکہ ان کے زعم میں وہ بڑی خراب بات تھی مگریہ الزام بھی بوسیدہ تھا اور اگر اسے حاکم کے سامنے جرم کی صورت میں پیش کرتے تو ان کی نادانی فاش ہو جاتی۔

اب ارادہ تو انہوں نے مصمم باندھ رکھا تھا کہ اسے جان سے مار ڈالیں لیکن شکار ان کے ہاتھ سے نکلا جاتا تھا اور یسوع خاموش کھڑا دیکھ رہاتھا کہ مخالفوں کی گواہیاں کس طرح ایک دوسر ی کی کاٹ رہی ہیں۔اس عجیب خاموشی ظاہر کر رہی تھی کہ وہ اپنے منصبوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہے اور اسکے دشمن بھی اس بات کو محسوس کر رہے تھے۔پس آخر کا ر جب اور کچھ نہ ہو سکا تو میر مجلس بگولا ہو کر اسے بولنے کے لئے مجبور کرنے لگا۔کیا سبب تھا کہ وہ رعد کی طرح کڑکنے لگا ؟اس کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف تووہ شرمناک نظارہ جو گواہوں کی جھوٹی گواہی سے عیاں ہورہاتھاان لوگوں کو شرمندہ کر رہاتھا اور دوسر ی طرف یسوع کی پرجلا ل خاموشی ان حضرات کی ضمیروں کو جو آدھی رات کے اندھیرے میں ایک بے قصور کے خون کی ادھیڑبن میں لگے ہوئے تھے ستا رہی تھی

جب مقدمہ میں کچھ جان نظر نہ آئی تو کائفا اپنی جگہ سے اٹھا اور مصنوعی سنجیدگی سے پو چھنے لگا ”کیا تو خدا کا بیٹا مسیح ہے “؟۔یہ سوال یسوع پر محض جرم لگانے کی نیت سے کیا گیا تھا ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا خداوندا جس وقت بول سکتا تھا ،اس وقت چپ رہامگر اس وقت جب کہ جپ رہ سکتا تھا بول اٹھا اور اس نے بڑی سنجیدگی سے اقرار کیا کہ میں مسیح خدا کا بیٹا ہوں۔یہ بات سن کر وہ جو اس کی عدالت کرنے بیٹھے تھے ،بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ جواب ان کی حسب منشا تھا۔پس انہوں نے متفق ہو کر اس پر کفر کا فتوی لگایا اور اسے واجب القتل ٹھہرایا۔

ساری کاروائی جلد جلد طے کی گئی اور کسی نے ان قوانین کی پروانہ کی جو انصاف کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ان کی کا روائی کا مدعا یہ نہیں تھا کہ انصاف یا حق رسی ہو لیکن صرف یہ کہ یسوع مجرم گردانا جائے۔کیسا غضب ہے کہ جو لوگ اس کے مدعی تھے وہی اس کے منصف بھی تھے کسی نے اس سے یہ سوال نہ پوچھا کہ ائے یسوع کیا تو بھی اپنے گواہ اپنی بریت کے لئے پیش کرنا چاہتا ہے ؟ہاں !اتنا اس کے مخالفوں کی تعریف میں کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ فتوٰے ایک طرح بالکل راست تھا کیونکہ کوئی انسان وہ دعوی نہیں کر سکتا جو مسیح نے کیا۔کوئی بشر اپنے آپ کو خد ا نہین کہہ سکتا مگر ان کی شقاوت اور بد بختی اس میں تھی کہ انہوں نے کبھی اس کی حقیقت سے واقف ہونے کی کوشش نہ کی اور نہ کبھی رضا مندی ہی دکھائی۔ان کے دل کی آنکھوں کو خود غرضی اور تعصب نے اندھا کر دیا تھا۔پس یہ فیصلہ جو انہوں نے اس وقت کیا ایسے دل سے نکلاتھا جس کے دروازے صداقت کے بر خلاف بند تھے اور جس میں عناد اور انتظام کا زہر اپنا کام کر گیا تھا۔

ان کے نزدیک پیشی کے متعلق جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ صبح کے وقت جو اجلاس حسب قاعدہ منعقد ہو گا وہ چار لمحوں میں ختم ہو جائے گا۔اب یسوع ظلم پیشہ اور ستم شعار محافظان جیل اور بیرحم لوگوں کے سپرد کیا گیا۔اس قلم عاری ہے۔طعن اور دشنام کی بوچھاڑ جو ہمیشہ اہل مشرق کی بدنامی کا باعث سمجھی جاتی ہے شروع ہوئی۔معلوم ہوتا ہے کہ ممبران سنہیڈرم بھی اس بد لگامی میں شامل تھے کیونکہ یہ شخص جو ان کو شرمندہ کرتا اور ان کے اختیارات پر حملہ آور ہوتا تھا اور ان کی ریاکاری کی قلعی کھول دیا کرتا تھا ان کے نزدیک سخت نفرت کا باعث تھا۔صدوقی البتہ کسی قدر بے پرواتھے مگر جب ان کو ایک دفعہ جوش آجاتا تھا توا ن کی بے پروائی بالکل دور ہوجاتی تھی اور وہ ایک دم آتش غضب سے بھر کر شعلہ اور بھبوکا ہوجاتے تھے اور اگر فریسیوں کے مجذوبانہ جوش کی پوچھو تو اس کی نسبت چپ ہی رہنا بہتر ہے کیونکہ وہ کبھی اسے گھونسے مارتے ،کبھی اس پر تھوکتے اور کبھی اس کی آنکھیں بند کر کے اسے طمانچوں سے پیٹتے تھے اورا س کے پیغمبری دعوﺅںکو ٹھٹھوں میں اڑانے کے لئے اس سےکہتے تھے اگر تو نبی ہے تو بتا کہ تجھے کس نے مارا ہے ؟ہم ان باتوں کو جوا نسانیت پر داغ لگاتی ہیں زیادہ طول دینا نہیں چاہتے۔اب وہ مسیح کو چھ یا سات بجے صبح کے زنجیریں پہنا کر رومی حاکم کے مکان کی طرف چلے۔وہ کیسا عجیب اور دل خراش نظارہ تھا جس وقت یہودی قوم کے کاہن اور معلم اور قاضی اپنے مسیح کو لئے جاتے تھے تاکہ ایک غیر قوم شخص کے ہاتھ سے اس کاخون کرائیں۔یہ ساعت گویا تمام قوم کی خودکشی کی ساعت تھی۔کیا اسی واسطے خدا نے ان کو چنا اور ایسی فضیلت اور فوقیت بخشی تھی ؟کیا اسی واسطے عقاب نے قدرت کے بازوﺅں پر بٹھا کر ان کو آسمانوں کی ہوا کھلائی اور ہر مشکل او ر آفت کے نیچے سے پناہ دی تھی ؟کیا یہی دن دیکھنے کو ان کے باپ دادا کو مصراور بابل کے چنگل سے چھڑایا ؟کیا اسی نتیجے کے باپ دادا کو مصر اور بابل کے چنگل سے چھڑایا ؟ کیا اسی نتیجے کے لئے وہ صدیوں سے اپنے جلال کے کرشمے ان کو دکھا رہاتھا ؟ان کی حرکت تو یہی ظاہر کرتی تھی کہ گویا انتظامات ربی ٹھٹھوں میں اڑا ئے جارہے ہیں مگر کون خدا کو ٹھٹھوں میں اڑا سکتا ہے ؟ اس کے ارادے دہمیشہ تاریخ کے دور میں اس طرح آگے آگے بڑھتے جاتے ہیں کہ کوئی چیز سد راہ نہیں ہو سکتی۔وہ انسان کی رضامندی اور مد د کا محتاج نہیں۔پس یہ اندو ہناک گھڑی بھی جس میں یہودی قوم اس کے انتظاموں کو ٹھٹھوں میں اڑا رہی تھی ،اسی لئے مقرر ہوئی تھی کہ اس کی حکمت اور محبت کی گہرائی ظاہر ہو۔

جس رومی حاکم کے رو برو مسیح کو حاضر ہونا تھا وہ پنطیس پیلاطس تھا جو چھ سال سے یہودیہ کا حاکم تھا یہ شخص پکا رومی تھا ،مگر ان پرانے اور سادہ رومیوں کی مانند نہ تھا جو گذشتہ زمانہ میں موجود تھے بلکہ قیصری زمانے کے رومیوں کی مانند تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس کی طبعیت میں پرانے رومیوں کے انصاف کی کچھ کچھ رمق باقی تھی لیکن وہ عشرت پسند اور متکبر اور بد چلن آدمی تھا وہ ان یہودیوں کو جن پر حکمرانی کرتا تھا حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا پس وہ اس کو بالکل عزیز نہیں رکھتے تھے بلکہ اس پر بد انتظامی اور ظلم اور لوٹ مار کی تہمت لگایا کرتے تھے۔پیلاطس یروشلیم میں بہت کم آتا تھا اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ وہ شخص جو روم کے عشرتی سامانوںکا شیفتہ تھا جو تھیڑوں اور طرح طرح کی فرحت بخشی کھیلوں کی گرم بازاری میں لگا ہوا تھااور عیاش سوسائٹی کا فریفتہ ہو رہاتھا ،کب یروشلیم جیسے شہر کو جہاں دینی باتوں کا چرچا ہوتا رہتا تھا او ر بغاوت کی آگ سدا سلگتی رہتی تھی ،پسند کر سکتا تھا ؟ اور جب کبھی آتا تھا تو ہیرودیس کے شاہی محل میں اتر اکر تا تھا کیونکہ رومی حاکموں کا دستور تھا کہ جب وہ مفتوحہ ممالک میں جاتے تھے توا ن بادشاہوں کے محلوں میں رہتے تھے جو حکومت سے بر طرف کئے جاتے تھے۔

اہل سنیہڈرن اور وہ لوگ جو بازار میں ان کے ساتھ مل گئے تھے یسو ع کو اس سڑک سے لے گئے جو اس باغ کے بیچ سے گذرتی تھی جسمیںخو بصورت روشیں اور تالاب اور درخت پائے جاتے تھے اور شاہی محل پر پہنچ کر اسے محل کے سامنے کھڑا کیا۔پیلاطس میدان میں اس جگہ کے سامنے جہاں محل کے دونوں بازو آپس میں ملتے تھے اور جہاں فرش پر طرح طرح کے رنگ اور قطع کے پتھر جڑے ہوئے تھے اپنی مسند پر بیٹھ کر کچہری کرنے لگا۔

یہودی سرداروں کو یہ یقین تھا کہ پیلاطس ہمار ے فیصلہ کو قبول کر لیگا اور مقدمہ کے نشیب و فراز پر غور کئے بغیر اس فتوی کو تائید کرئے گا جوہم نے لگا یا ہے کیونکہ رومی صوبجات کے حاکم بسا اوقات اسی طرح کیا کرتے تھے۔خصوصاًمذہبی مقدمات میں یہ اسدتفاق اکثر دیکھنے میں آتا تھا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ بسیب اجنبی ہونے کے ہو مذہبی معاملوں کو بخوبی سمجھ نہیں سکتے تھے۔پس جب پیلاطس نے پو چھا کہ یسوع نے کیا قصور کیا ہے تو وہ ایک زبان ہو کر چلااٹھے کہ ”اگر یہ بدکار نہ ہوتا توہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے“۔مگر پیلاطس اس وقت ان کی درخواست قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔لہذا اس نے کہا کہ اگر تم نہیں چاہتے کہ میں حالات دریافت کروں تو بہتر ہے کہ تم اسے وہ سزا دے کر چھوڑ دو جس کے دینے کی اجازت تم کو سرکار کی طرف سے ملی ہوئی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ یسوع کے حالات سے کسی قدر واقف تھا۔چنانچہ وہ چاہتا تھا کہ حسد کے سبب سے انہوں نے اس کو پکڑا ہے۔یسوع اتوار کے روز شاہانہ شوکت سے جب یروشلیم میں داخل ہواتھا تواس عجیب واقعہ کی خبر ضرور پیلاطس کو ملی ہوگی مگر اس نے یہ دیکھ کر کہ یسو ع نے لوگوں کے جوش اور تعظیم سے کو ئی پو لیٹکل مقصد پورا کرنے کی کوشش نہیں کی ،یہ نتیجہ نکال لیا ہوگا کہ وہ سرکار ی معاملات میں خلل اندازی کر نے والا آدمی نہیں اور اسکی بیوی کا خواب بھی دلالت کرتا ہے کہ مسیح نسبت محل میں بات چیت ہو اکرتی تھی او ر ناممکن نہیں کہ ا س دنیا دار مہذب حاکم اور اس کی بیوی نے یہ دلچسپ قصہ سن کر کہ یروشلیم میں ایک دہقان آیا ہے جس نے کاہنوں کا دم ناک میں کر رکھا ہے بڑی خوشی منائی اور ہنس ہنس کر راہ کی تکان کو دور کیا ہو۔اب جب ان سے پو چھا گیا کہ اس کا کیا جرم ہے ،او رتم کس طرح اس کو ثابت کرتے ہو تو انہوں نے طرح طرح کے جھوٹے الزام لگانے شروع کئے جن میں سے تین بالکل صاف ہیں۔

پہلا الزام یہ تھا کہ وہ قوم کو بہکاتا ہے۔دوسرا یہ کہ وہ قیصر کو خراج دینے سے منع کرتا ہے۔تیسرا یہ کہ وہ اپنے آپ کو بادشاہ کہتا ہے۔غور کیجئے کہ سنہیڈرم میں تو اس پر کفر کوئی کا الزام لگایا تھا ،پراب اور ہی الزام لگائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خوب جانتے تھے کہ کفر گوئی کا الزام پلاطوس کے دربار میں کا ر گر نہ ہوگا۔رومی اس قسم کے الزاموں اور جرموں کی چند اں پرواہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب چند سال بعد پرواہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب چند سال بعد پولوس پر یہی الزام گالیو کی کچہری میں لگایا گیا تو اس کے مدعیوں کی طرف ذرا توجہ نہ کی بلکہ ان کو کچہری سے نکال دیا۔پس مسیح کے مخالفوں نے ایسے نئے جرم گھڑنے شروع کئے جو ثابت کرتے تھے کہ وہ گورنمنٹ سے باغی ہے ،لیکن یہ کیسا کمینہ پن تھا۔دیکھیے انہیں نہ صرف ریا کاری کے بند میں پھنسنا پڑا بلکہ صاف صاف جھوٹ بھی بولنا پڑا۔اب ہم ان کو دروغ گونہ کہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ منگل کو جب اس سے اسی مضمون پر سوال کیا گیا تواس نے اس جرم سے بالکل مختلف جواب دیا تھا۔چنانچہ اس نے بڑی صفائی سے بتا دیا تھا کہ ”جو قیصر کا ہے قیصر کو دو “۔

لیکن پلاطوس خوب جانتا تھا کہ یہ وفا داری جو اس وقت قیصر کو خراج دینے کے بارے میں دکھائی جاتی ہے اس کا کیا مطلب ہے وہ ان کو نمک حلالی اور سر گرمی کو اچھی طرح سمجھتا تھا پس و ہ ان کے شور و غل سے جان بچانے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھا اور مسیح کو محل کے اند ر لے گیا تا کہ وہاں جا کر اس سے خود حالات دریافت کرے۔یہ گھڑی اس کے لئے نہایت سنجیدہ گھڑی تھی لیکن وہ اس کو نہیں جانتا تھا کہ وہ کس کا ہاتھ تھا جو اسے اس جگہ کھینچ لایا ؟ہزاروں رومی حاکم جا بجا رومی سلظنیت میں پائے جاتے تھے اور انہی اصولوں کے پابند تھے جن کا پابند پلاطوس تھا مگر اس کا کیا سبب ہے کہ یہی حاکم چنا گیا کہ ان اصولوں کو مسیح کے مقدمہ کے متعلق کا م لائے ؟جن باتوں کا پلاطوس اس وقت فیصلہ کر رہاتھا ،ان کے نتا ئج اس کو معلوم نہ تھے شاید اس مجرم کوا س وقت اس کے سامنے کھڑا تھا وہ اوروں کی نسبت کسی قدر زیادہ عجیب سمجھتا ہو مگر وہ یہ کہتا ہو گا کہ میرا ایسے ایسے ہزاروں آدمیوں سے بالا پڑچکا ہے۔پس وہ کب یہ خیال کر سکتا تھا کہ اگرچہ اس وقت انصاف کی چوکی پر تو میں ہی بیٹھا ہوا ہوں لیکن در حقیقت میری اور اس انتظام کی جس کے اصولوں کے مطابق میں عدالت کر رہا ہوں اس عادل حقیقی کے رو برو پیشی ہو رہی ہے جس کے کمال کا نو ر ہر شخص کے عیب اور ہر انسانی انتظام کو فاش کر دیتا ہے۔پلاطوس نے اس وقت مسیح سے چند سوالات ان الزاموں کی نسبت کئے جو اس پر لگائے گئے تھے خصوصاًاس کے بادشاہی دعوے ٰکے متعلق اس سے دریافت کیا۔یسو ع نے اسے بتا یا کہ میں پولٹیکل معنی میں کبھی بادشاہ بننے کا دعوے ٰ نہیں کیا مگر صداقت کا بادشاہ ہونے کا دعوے ٰ کیا ہے۔یہ ایسا جوا ب تھا جو ان صداقت دوست لوگوں کی توجہ کھنچنے کے لئے کافی تھا جو غیر قوموں کے درمیان تلاش حق میں سرگرداں ہو رہے تھے کہ پلاطوس کے دل میں حق کا احساس ہے یا نہیں۔لیکن وہ اس قسم کی باتوں کا ذوق نہیں رکھتا تھا لہذا اس کی بات ہنسی میں اڑا دی۔پھر بھی وہ اس بات کا قائل ہو گیا کہ یسوع کے پاک اور مطمین اور غمناک چہرے پر کوئی ایسے آثار نہیں پائے جاتے جن سے یہ ظاہر ہو کہ وہ سرکاری امن میں ابتری پیدا کرنا چاہتا ہے۔پس وہ محل سے نکل آیا اور یہودیوں سے کہنے لگا کہ چونکہ میں یسو ع میں کوئی ایسا قصور نہیں پاتا۔اس لئے اسے چھوڑ دیتا ہوں ۔

یہ سن کر یہودی مایوسی کے مارے غصہ سے بھر گئے اور چلا ّچلاّکر ان الزاموں کو مسیح پر لگائے گئے تھے دہرانے لگے۔یہ طریقہ یہودیوں ہی سے مخصوص تھا چنانچہ کئی دفعہ اس سے پہلے انہوں نے اپنے شورو غل کی منطق سے اپنے اجنبی حاکموں پرفتح پائی تھی اور ان کے فیصلوں کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کروا لیا تھا اب پلاطوس کا فرض یہ تھا کہ وہ ان کو شورو گل کی طرف ذرا توجہ نہ کرتا بلکہ اسکو اسی وقت چھوڑ دیتا مگر اس کے خمیر میں وہ حکمت عملی گھسی ہوئی تھی جو رومی انتظام کی جان تھی یعنی وہ باہمی امن اور مدّبرانہ چالاکیوں کا معتقد تھا۔پس جب اس نے ان چیخوں کے درمیان جو اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں ،ان کو یہ کہتے سنا ”یہ سارے یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھاسکھا کر ابھارتا ہے “ تو اس بات سے وہ بہت خوش ہو ا ،کیونکہ اس کو ایک بہانہ مل گیا جس سے وہ اس تکلیف دہ معاملے سے بالکل سبکدوش ہوسکتا تھا۔چنانچہ اس نے کہا کہ میں یسوع کو ہیرودیس کے پاس جو گلیل کا حاکم ہے اور اس وقت یروشلیم میں آیا ہوا ہے بھیج دوں گا تاکہ وہ اس کا مقدمہ کرے۔رومی عملداری میں یہ دستور تھا کہ جس علاقہ میں کوئی شخص گرفتار کیا جاتا تھا ،اس کا حاکم اس کو علاقے کے حاکم کے پاس بھیج دیا کرتا تھا جس سے وہم علاقہ رکھتا تھا۔لہذا پلاطوس نے یسوع کو اپنے باڈی گارڈ کے ہمراہ ہیرودیس کے محل کی طرف روانہ کیا اور مسیح کے مخالف بھی ان کے ساتھ اسی طرف چل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تودیکھا کہ ہیرودیس اپنے چھوٹے سے دربار میں خوشامدی اہل کاروں اور مذیموں کے بیچ مسند پر بیٹھا ہے اور ادھر ادھر باڈی گارد کے سپا ہی موجود ہیں۔ہیردویس بھی رومیوں کی طرح جن کا وہ حلقہ بگوش تھا باڈی گارڈ رکھا کرتا تھا اور اس وقت عہد کے لئے یروشلیم میںآیا ہواتھا۔وہ یہ سن کرکہ یسوع آیا ہے بڑاخوش ہوا کیونکہ جس ملک پر وہ حکمران تھا اس کے اس سرے سے اس سرے تک یسوع کی شہرت پھیل رہی تھی۔ہیرودیس مشرقی بادشاہوں کا ایک عمدہ نمونہ تھا کیونکہ اس کے دل میں صرف ایک ہی خیال بھرا ہو اتھا اور وہ یہ کہ اپنے دل کو ہر طرح خوش رکھناچاہیے۔عشرت اور تفریح اس کادستور العمل تھا اور یروشلیم میں بھی اس وقت تماشے ہی کے لئے آیا تھا۔سو جب یسو ع اس کے پاس آیا توا س نے خیال کیا کہ آب دل لگی کا اچھا موقعہ مل گیا۔کچھ عرصہ کے لئے میری اور میرے درباریوں کی طبیعت خوب لگی رہی گی۔اسے امید تھی کہ یسوع ضرور کسی نہ کسی طرح کی کرامات دکھا کر ہمیں خوش کریگا۔ہیرودیس کسی بات کی طرف سنجیدگی سے دھیان نہیں لگا سکتا تھا۔چنانچہ یہودی تو جوش و خروش سے بھر ے ہوے اس بات کی امید رکھتے تھے کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کر یگا مگر اس نے ذرا توجہ نہ کی بلکہ ایسے بے ترتیب سوال یکے دیگرے کرنے شروع کئے کہ جواب دینے کی مہلت نہ دی۔آخر کا ر تھک کر چپ ہو گیا۔اور یسوع کے جواب کی انتظاری کرنے لگا مگر یسوع نے اس کے سامنے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نہ نکالا۔ہیرودیس یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کو بھو ل گیا تھا اور جو خیالات اس کی خونریزی سے اس کے دل میں پیدا ہوئے وہ بھی کا فور ہو گئے تھے ،کیونکہ اس کا دل چکنے گھڑئے کی مانند تھا جس پر پانی کی بوند کبھی نہیں تھہرتی ،مگر یسوع یوحنا کے قتل کو نہیں بھولا تھا اور وہ اپنے دل میں کہتا تھا کہ ہیرودیس کو میرے سامنے جو یوحنا کا دوست ہوں آنکھ اٹھانے سے شرم کھانا چاہیے۔پس خداوند نے ارادہ کیا کہ میں ایسے شخص کے ساتھ ہرگز ہرگز بات نہ کروں گا ،جو مجھے فقط ایک اچنبھے دکھا نے والا آدمی تصور کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میں اسے اپنی کرامات کے تماشے سے رجھاﺅں سووہ اس شخص کی طرف جس نے اپنے آپ کو یہاں تک خراب کر دیا تھا کہ ضمیر اور انسانیت کا نام و نشان تک اس میں نہ رہا ،دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن ہیرودیس جو بالکل مردہ ہو گیا تھا اس خاموش نفرت کی پیسنے والی تا ثیر کو محسوس نہیں کر سکتا تھا۔

مگر ہیرودیس بھی اس مقدمہ میں سنجیدگی کو کام میں نہ لایا اور مسیح سے معجزہ دیکھنے کی بے فائدہ کو شش کرنے کے بعد اب اس نے اور اس کے سپاہیوں نے یسو ع کو ذلیل کرنا شروع کیا۔چنانچہ اسے ایک ایسی چمک دات پو شاک پہنائی جیسی رومی دربار میں وہ لوگ پہنا کرتے تھے جوشاہانہ تخت پر بیٹھنے کی امید رکھتے تھے او ر ہیرودیس کا بھی یہی مطلب تھا کہ اس پو شاک سے ظاہرہو کہ کہ یسوع بھی یہودیوں کے تخت کا امیدوار ہے لیکن ایسا امیدوار جو ذلت اور خواری کے سوا او ر کسی بات کے لائق نہیں۔اس ذلت کے ساتھ یسوع کو پھر رومی حاکم کے دربار کی طرف لو ٹنا پڑا۔اب پلاطوس سے وہ باتیں سر زد ہوئیں جہنوں نے اس کو زمانہ سازی کا ایک ایسا نمونہ بنا دیا جس کو مسیح کی بے گناہی کا نور صدیوں سے فاش کر تا آیا تھا اس کو اسی وقت بری کر دیتا مگر اس نے چالاکی سے کام لیناچاہا او ر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک غلطی کے بعد دوسر ی غلطی میں گرفتا ر ہو گیا اورراستی کا بالکل خون کر بیٹھا۔اس نے یہودیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اس شخص میں نہ مجھے اور نہ ہیرودیس کو کو ئی قصور معلوم ہو تا ہے ،پس میں اسے کوڑے مار کر چھوڑ دیتا ہوں۔اس میں پلاطوس کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ خیال کر تا تھا کہ کوڑے یہودیوں کے آنسو پو نچھ دیں گے اور یسو ع کو چھوڑ دنیا انصاف کی دیوی کے لئے بھینٹ کا کا م کر جائے گا۔

لیکن ابھی وہ اس تجویز کو پو را کر نے نہیں پایا تھا کہ ایک او ر واقعہ سر زد ہو ا جس نے ایک مرتبہ پھر پلاطوس کو یسوع کے چھوڑنے کا موقعہ دیا۔رومی حاکم کو اجازت تھی کہ فسح کے روز قیدیوں میں سے ایک قیدی کو لوگوں کے لئے چھوڑ دے۔اس دستور کو اہل یروشلیم بہت پسند کرتے تھے کیونکہ قید خانہ میں بہتےرے ایسے قیدی ہوتے تھے جورومیوں کے جوئے سے متنفر ہو کر آزادی کے لئے بغاوت کا جھنڈا اٹھاتے تھے اور عوام کے نزدیک اسی حرکت کے سبب سے بڑے بہادر گنے جاتے تھے۔آج چو نکہ فسح کا دن تھا لہذا لوگ شہر کی گلیوں اور کو چوں سے جوق در جوق نکل آئے اور بڑے جوش و خروش اور شورو غل کے ساتھ شاہی محل کے دروازے پر آن موجود ہوئے تاکہ اپنا سالانہ انعام پائیں۔لوگوں کی یہ پر شور درخواست پلاطوس کے حسب خواہش تھی کیونکہ اس کے دل میں یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید ا ب بھی میں اس مشکل حالت سے جس میں پھنس رہاہوں بچ نکلوں گا مگر یہ ان کی گردن کے لئے ایک نیا پھندا تھا۔اب پلاطوس نے ان سے کہا کہ اگر چاہو تو یسوع کو تمہارے لئے چھوڑ دوں۔تھوڑی دیر کے لئے وہ خاموش رہے مگر جب یاد آیا کہ ہمارا ایک رفیق شفیق برابا بھی قید میں پڑا ہے توا س کی رہائی کی درخواست کی۔یہ شخص اپنی سر کشی کے سبب مشہور تھا کیونکہ اس نے رومی حکومت کی بیج کنی کے لئے علم بغاوت بلند کیا تھا۔لوگ ابھی اس کی نسبت سوچ ہی رہے تھے کہ یہودی سرداروں نے کانا پھوسی شروع کر دی او ر انہیں ترغیب دی کہ یسو ع کی رہائی پر متفق نہ ہوں۔دیکھئے سنہیڈرم کے ممبران کی یہ کا روائی کیسی قابل داد ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ وہ یہ جتاتے تھے کہ ہم جان نثاراور وفادار رعایا ہیں اور رومی قانون اور انتظام کو پسند کرتے ہیں لیکن جب یسوع کے رہا ہونے کی ایک صورت نظر آئی تو فوراً اس کی طرف ہو گئے جو بغاوت کا سرغنہ تھا اور اپنی کو ششوں میں کامیاب ہوئے کہ تمام لوگوں کو ور غلا لیا۔چنانچہ وہ سب کے سب برابا ّ براباّ پکارنے لگے۔پلاطوس نے یہ سن کر کہا میں یسوع سے کیا کرﺅں ؟شاید وہ سوچتا تھا کہ میرے اس سوال کو سن کر لوگ کہیں گے کہ اسے بھی چھوڑ دے مگر یہ اس کی غلطی تھی۔کیونکہ سنہیڈرم والوں نے اپنا کام ایسی خوبی سے کر لیا تھا کہ ہزار ہا آوازیں یہ کہتی ہوئی آائیں ”’اسے صلیب دے “ ؟پس جس طرح ان کے دینی حاکموں نے کہا اسی طرح وہ بول اٹھے یا یوں کہیں کہ جو فیصلہ ان کے رہبروں نے کیااس پر انہوں نے بھی اپنے دستخط کر دئیے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر پلاطوس بڑاغصے ہوا اور کہنے لگا۔”کیوں ؟ اس نے کیا قصور کیا ہے ؟مگر اس کی خفگی اور ایسے جوابوں سے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔کیونکہ فیصلہ توا ن کے ہاتھا میں چھوڑ دیا گیا تھا جن کے سر پر بھوت سوار ہو رہاتھا پس اس کا یہ سوال سن کروہ اور بھی چلاّچلا ّ کر کہنے لگے ”اسے لے جا اور صلیب دے !صلیب“!!

لیکن پلاطوس ابھی انصاف کا خون کرنے کے لئے پورے طور پر تیار نہ تھا۔وہ ابھی ایک اور چال چلنا چاہتا تھا مگر پہلے اس نے یہ حکم دیا کہ یسوع کے کوڑے لگائے جائیں۔یہ فعل عموماً صلیب دینے سے پہلے وقوع میں آیا کرتا تھا۔اب سپاہی ا س کو اپنی چوکی میں لے گئے او ر وہاں اس کو بے عزت کر کے اور تکلیف دے کر اپنی ظلم پسند طبعیت کو سیر کیا۔ہم ا س شرمناک اور درد انگیز نظارے کا حال بہت دیر تک سناناچاہتے۔غور کیجئے کہ جب یہ لوگ اپنے سخت ہاتھوں سے اس کو جو انسانیت کو ایسی عزت دیتا اور ایسا پیار کرتا تھا دکھ دیتے ہوں گے توا س کے دل میں کیا کچھ گذرتا ہوگا او ر کیسا صدمہ پہنچتا ہوگا جب وہ اس قدر نزدیک سے اس بے حد ظلم کو دیکھتا تھا جو انسا ن سے سر زد ہو سکتا ہے۔سپاہی اپنی ظالمانہ حرکات کے مزے لے رہے تھے اور ظلم پر ظلم کرتے جاتے تھے ،چنانچہ جب کوڑے لگا چکے تواس کو ایک کر سی پر بٹھا دیا او ر بادشاہوں کے ارغونی چوغہ کی نقل میں کہیں سے پھٹا پرانا چوغہ لا کر اسے پہنا دیا۔عصا کی جگہ ایک سر کنڈا اس کے ہاتھ میں دیا اور ان جھاڑیوں میں سے جوا ٓس پاس اگ رہی تھیں خاردار ٹہنیاں لے کر او ر انہیں توڑ مروڑ کر تاج بنا یا اور اس کے سر پر رکھ کر ایسا دبا یا کہ کانٹے اس کی نورانی پیشانی میں جا گھسے۔اس کے بعد ہر ایک ٹھٹھے سے اس کے سامنے جا کر سجدہ کرتا اور اس کے منہ پر تھوکتا تھا اور جو سر کنڈا اس کے ہاتھ میں تھا وہی چھین کر اس کے سر ا ور منہ پر مارتا تھا۔

جب وہ اپنی ناشائستہ حرکات او ر ظلم سے آخر کا ر سیر ہو گئے تو اسے ارغونی چوغے اور کانٹوں کے تاج کے ساتھ پلاطوس کے پاس لائے۔لوگ سپاہیوں کے اس نئے چٹکلے کو دیکھ کر ہنستے ہنستے پاگل ہو گئے۔اب پلاطوس نے اس کو ایسی جگہ کھڑا کیا جہاں سے سب لوگ اسے دیکھ سکتے تھے اور یہودیوں سے کہاکہ ”اس آدمی کو دیکھو “اس کا مطلب یہ تھا کہ تم اس آدمی کو دیکھو جس کے ساتھ اس سے زیادہ سختی کرنے کی ضرورت نہیں۔تم کیوں اس کی جان کے پیچھے پڑے ہو ؟ اس کو مارنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ کیا ایسا خستہ حال آدمی کسی طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ مگر جو الفا ظ پلاطوس کے منہ سے نکلے وہ ان کا مطلب آپ ہی نہیں سمجھتا تھا۔اس کے یہ الفاظ ”’ اس آدمی کو دیکھو “ تما م دنیا میں گونج رہے ہیں اور ان کے سبب سے ہر زمانہ کے لوگوں کی آنکھیں اس مرد غمناک کی مائل ہیں۔لیکن جب ہم اس کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں ؟ یہ کہ اس کے چہرے پر سے تو شرم کا سایہ دور ہو گیا ہے اور پلا طوس اور سپاہیوں او رکاہنوں اور دیگر مخالفوں کے چہروں پر جا پڑا ہے۔اس کے جلال کے نو ر نے بے حرمتی کے داغوں کو دور کر دیا ہے اور کانٹوں کے تاج کے سنیکڑوں کناروں کو جلتے ہوئے شعلے کی طرح درخشاں کر دیا ہے۔اب ہم تھوڑی دیر کے لئے پلاطوس کی طرف آتے ہیںجس طرح وہ یسوع کی عظمت کو محسوس کرنے میں قاصر نکلا ،اسی طرح ان لوگوں کی طبیعت اورمزاج کے جاننے میں ناقص نکلا جن پرحکومت کیا کرتا تھا وہ سوچتا تھا کہ وہ مسیح کو ایسی خستہ حالی میں دیکھ کر خاموش ہو جائیں گے اور ان کے انتقام کی پیاس اس ذلیل نظارے سے بجھ جائے گی مگر وہ ان باتوں کو کب سنتے تھے۔وہ تو شروع ہی سے یہی حجت کرتے تھے کہ یہ شخص جو نہ دولت کا فخر رکھتا ہے اور نہ بادشاہ بننے کی طمع کب مسیح ہو نے کا دعوی کر سکتا ہے ؟اور اب تو بات اور بھی بگڑ گئی تھی کیونکہ وہ غیر قوم سپاہیوں کے ہاتھ سے کوڑے کھا چکا تھا اور ٹھٹھوں میں اڑا جا چکا تھا۔پس اب یہ بے حرمتی کا نظارہ ان کے دلوں کو پلاطوس کی بات ماننے کی ترغیب کہاں دے سکتا تھا ؟نہیں بلکہ ان باتوں نے ان کو اور بھی نفرت اور دیوانہ پن سے بھر دیا اور وہ پہلے سے زیادہ زور سے چلانے لگے۔”اسے صلیب دے !اسے صلیب دے !!

آخر کا ر انہوں نے وہ الزام بھی اگل دیا جو اب تک ان کے دلوں کی تہ میں چھپا ہوا تھا اور جسے اب زیادہ چھپا نہیں سکتے تھے۔چنانچہ وہ چلا ّاٹھے ”ہم اہل شریعت ہیں اور رشریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرایا “۔مگر یہ بات سن کر پلاطوس کے دل میں اور ہی خیالات پیدا ہوگئے جو یہودیوں کے وہم میں بھی نہیں آئے تھے۔پلاطوس کے وطن میں کئی پرانی روائتیں دیوتاﺅں کے بیٹوں کی مروج تھیں جو بتائی تھیں کہ وہ دنیا میں غریب بن کر آئے اور ایسے طور پر رہے کہ کوئی ان کو عام لوگوں سے امتیاز نہیں کر سکتا تھا اور لوگوں کا ان کے متعلق یہ عقیدہ بھی تھا کہ ان سے دو چار ہو نا بڑے خطرے کا باعث ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ان کو کسی سے دکھ پہنچا توان کے دیوتا باپ ضرور دکھ دینے والے کو دکھ پہنچائیں گے لیکن اب لوگ اس قسم کے قصوں کو ماننا چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ بنی آدم میں کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا تھا جس میں ایسی عجیب خصوصیتیں ظاہر ہوں جن کے سبب سے وہ دیوتاﺅں کا فرزند مانا جائے لیکن پلاطوس کی آنکھ نے یسو ع میں کچھ ایسے سر کی بات محسوس کی ہوگی جس کے سبب سے اس کا دل دہشت سے بھر گیا او راب جب اس نے لوگوں کے ہجوم کو یہ کہتے سنا کہ ”اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرایا “۔تو یہ نیا مکاشفہ بجلی کی طرح اس پر آیا۔ان لفظوں نے اس کے حافظے کی تہوں میںسے ان پرانے اور بھولے ہوئے قصوں کو جو اس نے عالم طفلی میں سنے تھے نکال کر اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا کر دیا او را س کے دل میںایسا خوف بھر دیا جو بت پرستی سے خاص ہے اور جس پر یونانی زبان میں کئی بڑے بڑے ناٹک (ڈرامے ) موجو د ہیں یا یوؓں کہیں کہ ایسے ڈرامے ہوئے ہیں جن کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں بھو ل چوک سے بھی ایسا جرم نہ ہو جائے جس کے سبب سے آسمانی طاقتیں انتقام لینے پر آمادہ ہو جائیں۔اب پلاطوس کے دل میںیہ خیال پیدا ہو ا کہ جس طرح کیسٹراو ر پالکس جو پیٹر کے بیٹے تھے کہیں اسی طرح یسوع بھی یہودیوں کے یہواہ کا بیٹا نہ ہو۔پس وہ فوراً اسے محل میں لے گیا اور ایک نئے خوف اور ذوق سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا ”توکہاں سے ہے “؟ مگر یسوع نے اس کے جواب میںایک لفظ نہ کہا اور اس کا سبب یہ تھا کہ جب یسوع اسے اپنی بابت سب کچھ بتانے کو تیار تھا اس وقت اس نے اس کی طرف ذراالتفات نہ کی بلکہ اسے کوڑے لگوا کرانصاف کا ستیا ناس کر دیا۔یادر کھنا چاہیے کہ کوئی اس وقت مسیح کی طرف توجہ نہیں کرتا جس وقت وہ اس سے بولتا یابولنا چاہتا ہے۔وہ ایک ایسا وقت دیکھے گا جب وہ چاہے گا کہ مسیح بولے لیکن اسے کچھ جواب نہ دیا جائے گا۔اب یہ مغرور حاکم کبھی یسوع کی اس خاموشی سے تعجب کر تا تھا اور کبھی غصہ ہوتا تھا۔آخر طیش میں آکر کہنے لگا ”تو مجھ سے بولتا نہیں ؟کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے تیرے چھوڑ دینے کا بھی اختیا ر ہے اور صلیب دینے کا بھی“؟ اس کے جواب میں یسوع نے اس شاہانہ دبدبہ سے جو باوجو د ظالمانہ ذلت و خواری کے اس کی صورت سے ٹپک رہاتھا یہ کہا ”اگر تجھے اوپر سے نہ دیا جا تا تو تیرا مجھ پر کچھ اختیار نہ ہوتا “۔

پلاطوس اپنے اختیا ر او ر طاقت پر ناز کر کے کہتا تھا کہ ”میں جو چاہوں سو تیرے ساتھ کر سکتا ہوں “ مگر در حقیقت وہ بہت ہی کمزور تھا کیونکہ وہ اس پکے ارادے سے باہر آیا تھا کہ میں یسوع کو چھوڑ دوں گا مگر ا س پر قائم نہ رہا ۔یہودیوں نے اس کے چہرے کو دیکھ کر معلوم کر لیا کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔پس انہوں نے اپنا آخری جملہ ان الفاظ کے وسیلے سے کیا جہنیں وہ اب تک دل میں چھپائے ہوئے بیٹھے تھے یعنی اسے دھمکی دے کر کہا کہ ”اگر تو اسے چھوڑ دئے گا تو ہم تجھ پر قیصر کے دربا ر میں نالش کریں گے “ ہماری دانست میں الفاظ مذکورہ ذیل کا جو ان کی زبان سے نکلے یہی مطلب ہے ” اگر تو اسے چھوڑ دیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں“ ۔یہی اندیشہ پیشی کے شروع سے پلاطوس کے دل میں کھٹک رہا تھا ۔یہی وہ بات تھی جس کے سبب سے پلاطوس منصفانہ فیصلہ پر قائم نہ رہا ۔رومی حکام کسی بات سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا ان نالشوں اور شکایتوں سے جو ان کے بر خلاف قیصر کے در با ر میں کی جاتی تھیں ۔پلاطوس کے زمانہ میں اس قسم کی شکائتےں اور بھی نقصان دہ سمجھی جاتی تھیں کیونکہ اس وقت ایک ایسا شخص رومی تخت پر بیٹھا ہو اتھا جو بڑا ردی اور بد گمان اور ظالم آدمی تھا ۔وہ اپنے خادمو ں کو بے عزت کر کے خوش ہوتا تھا اور اگر اپنے ماتختوں میں سے کسی کو تخت کے دعوے دار کی رعایت کرتے دیکھ لیتا تھا تو وہ فوراًآگ بگولا ہو جاتا تھا ۔پلاطوس یہ خوب جانتا تھا کہ میرا کام ملاخطے کے لائق نہیں کیونکہ اس میں ظلم اور خرابی کے داغ لگے ہوئے ہیں ۔یاد رکھنا چاہیے کہ کسی شخص کو نیکی کرنے سے کوئی بات اتنا نہیں روکتی جتنا اس کی گذشتہ عمر کی بدی روکتی ہے ۔پس یہودیوں کا ڈراوا پلاطوس کے اس ارادے کو ہلانے میں وہی کا م کر گیا جو پانیوں کے سیلاسب عین اسی وقت آئے جب کہ اس نے اپنے ضمیر کی اطاعت کا قصد کر لیا تھا ۔مگر وہ ایسا بہادر نہ تھا کہ اپنا نقصان گوارا کر کے بھی اس بات کی پیروی کر تا جس کووہ راست سمجھتا تھا وہ دنیا کا غلام تھا سو اس نے فوراًدیکھ لیا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ یسوع کو یہودیوں کے حوالے کر دے ۔

اب کچھ تو وہ اس بات سے غصہ ہو رہا تھا کہ ان یہودیوں نے مجھے بڑالتاڑا ہے اور کچھ کچھ مذہبی خیال کے سبب سے بھی پژمردہ خاطرہورہاتھا ۔اس آخری خیال کے سبب سے اس نے پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھوکر کہا میںاس راستباز کے خون سے بری ہوں ۔لیکن اس نے بڑی غلطی کی کیونکہ ہاتھ دھونے کے عوض لازم یہ تھا کہ وہ انہیں مسیح کی رہائی کے لئے استعمال کرتا ۔خون آسانی سے دھویا نہیں جاتا ۔لوگوں نے پلاطوس کے پس و پیش کرنے کو خوب ٹھٹھوں میں اڑا یا اور چلا کر کہنا شروع کیا ’اس نے خون ہم پر اور ہماری اولاد پر “۔

اب پلاطوس نے ان کی بے ادبی سے تنگ آکر یہ ارادہ کیا کہ میں بھی ان کو خوب شرمندہ کرﺅں گا۔پس اس نے یسوع کوایک ایسی جگہ جہاں سے اسے سب دیکھ سکتے تھے کھڑا کر کے ان کو ٹھٹھوں میں اڑانا شروع کیا ۔چنانچہ یسوع کو یہودیوں کا بادشاہ کہہ یہ جتانے لگا کہ یہی شخص جو نہایت گنگال اور بے لاچار ہے حقیقت میں تمہارا بادشاہ ہے ۔”کیا میں تمہارے بادشاہ کو صلیب دوں “؟وہ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اوربلند آواز سے کہنے لگے ”قیصر کے سو اہمارا کوئی بادشاہ نہیں “۔دیکھئے یہ اقرار یہودیوں کے لبوں سے کیسا سجتا ہے ۔یہ کہنا گویا اپنی قوم کی آزادی اور تواسریخ کو برباد کر نا تھا ۔پلاطوس نے ان کے اس اقرار کو تسلیم کیا اور یسوع کو ان کے حوالے کر دیا۔

صلیب

جب وہ پلاطوس کے ہاتھوں سے اپنا شکار چھنینے میں کامیاب نکلے تواسے صلیب دینے کو مقتل کی طرف روانہ ہوئے ۔اب ان کے دل ٹھندے ہوگئے ۔چنانچہ وہ راستے میں اپنی نالائق او ر ناروافتحمندی کو طرح طرح سے ظاہر کرتے جاتے تھے ۔یوں تو مسیح کے جلاّدیہودی سردار تھے وہ اس خراب کا م کے متعلق ایسے سر گرم تھے کہ اسے سرکاری پیادوں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتے تھے بلکہ ساری جماعت کے آگے آگے خود جارہے تھے تاکہ مقتل میں جاکر اور اس کی تکلیفوں کو دیکھ کر اس کے خون سے اپنے انتقام کی پیاس بجھائیں ۔اس وقت قریباًصبح کے دس بج گئے تھے اور لوگوں کا شمار جو حاکم کے محل پر حاضر تھے ،رفتہ رفتہ بڑھ گیا تھا اور جب وہ اہل سنہیڈرم کے پیچھے پیچھے شہر میں سے گزرتے ہوں گے توا س وقت اور لوگ بھی ان سے آملے ہوں گے اور چونکہ آج فسح کا دن تھا اور لوگوں کو اپنے کاروبار سے فرصت تھی اور اس لئے ہزار ہا لوگ تماشے کے لئے جمع ہوگئے ۔خصوصا ًوہ لوگ جو سنہیڈرم کے ممبروں کے ہمددر تھے مسیح کو صلیب پر دیکھنے کے لئے ضرور موجود ہوئے ہوں گے ۔ان لوگوں کو دیکھ کر ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے خداوند کو ہزاروں سخت دل اور بید رد لوگوں میں سے گزر کر اپنے مقتل کو جانا پڑا ۔

جس جگہ و ہ صلیب پر کھینچا گیا اس کا ٹھیک پتہ معلوم نہیں غالباً یہ شہر کے باہر تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی جگہ لوگ پھانسی دئیے جاتے تھے ۔انجیل میں کوئی ایسا مقام نہیں پایا جاتا جس سے ظاہر ہو کہ وہ کلوری کہلاتی تھی ۔اور نہ مقتل کے قرب و جوار میں کوئی ایسا پہاڑہی واقع ہے جسے دیکھ کر ہم یہ نتیجہ نکال سکیں کہ وہ پہاڑ پر مصلوب ہوا تھا گلگتھا کی جس کا ترجمہ” کھوپڑی کی جگہ “کیا گیاہے یا تو یہ وجہ تسمیہ ہے کہ اس جگہ کی شکل انسان کی کھوپڑی کی مانند تھی یا یہ کہ وہاں ان لوگوں کی کھو پڑیاں پائی جاتی تھیں جو قتل ازیں موت کا شکار ہو چکے تھے ۔یہ وجہ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے بہر حال یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جگہ ایسی کشادہ اور کھلی تھی کہ بہت سے لوگ وہاں سما سکتے تھے اوراسی طرح یہ بھی روشن ہے کہ وہ سڑک کے کنارے تھی ۔کیونکہ انجیلوں کے پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان لوگوں کے سوا جو وہاں پہلے سے موجود تھے آتے جاتے تماشائی بھی کھڑے ہو کر یسوع کے دکھوں کو دیکھنے لگ گئے تھے ۔

صلیب کی موت واقعی بڑی ہولناک موت تھی ۔سیسرو جو اس سے خوب واقف تھا بتاتا ہے کہ وہ نہایت سخت اور حقیرقسم کی موت تھی ۔چنانچہ وہ کہتا ہے ”وہ کسی رومی کے بد ن کے نزدیک نہ آنے پائے ۔نہیں بلکہ اس کے خیالات او ر آنکھوں او ر کانوں کے پاس بھی نہ آنے پائے “۔ یہ سزاا غلاموں اور باغیوں کو دی جاتی تھی اور ان کی ذلت کا خاص نشان سمجھی جاتی تھی ۔واقعی ایک زندہ آدمی کو صلیب پر میخوں سے گاڑنا ایک ایسا نظارہ تھا کہ اس سے زیادہ ہیبت ناک اور کو ئی نظارہ نہیں ہو سکتا ۔اگر میخیں گاڑتے گاڑتے مو ت آجاتی تو بھی مصلوب کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی ،مگر صلیبی موت کی بڑی قباحت یہ تھی کہ مصلوب کو دو دو تین تین دن تک عذاب کے مارے کراہنا پڑتا تھا ۔ہاتھ اور پاﺅں جن میںمیخیں ٹھونکی جاتی تھیں اور پیاس اس قدر لگتی تھی اور اس قدر دم بدم بڑھتی جاتی تھی کہ مصلوب ” پیاس پیاس “ پکارتا رہتا تھا ۔بدن کو ساکن رکھنا بڑا مشکل کا م تھا کیونکہ جب درد محسوس ہوتا تھا تو اس سے بچنے کے لئے جسم خود بخود ہلنے لگ جاتا تھا مگر جسم کی ہر جنبش دکھ کی نئی صورت پیدا کرتی تھی ۔

ہم اس ہیبت ناک نظارے کے بیان کو طول دینا نہیں چاہتے سو ہم اس کا ذکر چھوڑ کر اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح یسوع اپنی روح کی طاقت اوررضا الٰہی پر راضی ہونے کی قدرت اور اپنی محبت کے زرو سے صلیب کی شرم اور سختی پر غالب آیا ۔جس طرح شام کے وقت جب شفق پھولی ہوئی ہے آفتاب اپنی رنگین کر نوں سے ایک میلے سے حوض کو سونے کی سیر بنا دیتا ہے اور ہر چیز کو جو اس کی روشنی میں آتی ہے اپنے نور سے ملبس کر دیتا ہے اسی طرح مسیح نے صلیب کو جو غلامی اور ذلت کا نشان سمجھی جاتی تھی دنیا کی سب سے ؛پاک اور جلالی چیز کی علامت بنا دیا چونکہ مصلوب کے سر میں میخیں نہیں گاڑی جاتی تھیں اس لئے سر کھلا رہتا تھا پس یسوع ادھرادھر ہورہاتھا اسے دیکھ سکتا تھا اور بول بھی سکتا تھا ۔جب وہ صلیب پر ٹنگا ہواتھا اس وقت سات جملے اس کی زبان سے نکلے جہنیں سات روز ن کہنا چاہیے جن میں سے ہم اس کے دل اور دماغ کے اندر نظر ڈال کر یہ دریافت کر سکتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت اس کے دہنے بائیں ہو رہا تھا اس کا اثر اس پر کیسا ہو رہا تھ ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سکون اور شوکت جوا س کی ذات سے پیشی کے تمام عرصہ میں ظاہر ہوئی صلیب پر بھی جلوہ نما تھی اور اس کے اطمینا ن اور جلا ل نے ان تمام صفات کو جن میں اور کوئی اس کا ثانی نہ تھا پو رے طور سے روشن کر دیا ۔یاد رہے کہ اس نے اپنے دکھوں پر فتح پانے کے لئے اس جبر اور صبر سے کا م نہیں لیا جو فرقہ سٹواک کے ساتھ مخصوص تھا بلکہ اس نے ان دکھوں پر اس محبت کے وسیلے سے فتح پائی جو خود کو بھول جاتی ہے ۔جب وہ اپنی صلیب اٹھائے مقتل کی طرف جا رہا تھا ،اس وقت وہ اپنی تکان اور ماندگی کو بھول گیا اور یروشلیم کی بیٹوں اور ان فرزندوں کے فکر سے غمگین ہو ا ۔جب لوگ اسے صلیب پر میخوں سے ٹانگ رہے تھے اس وقت وہ میخوں کے درد کو بھول کر اپنے خونیوں کے لئے معافی کی دعا مانگتا تھا اور جب صلیب پر لٹکا یا گیا تو اس نے اپنی تکلیفوں کوا س چو ر سے دلچسپ گفتگو کر کے ہلکا کیا جو اس کے ساتھ مصلوب ہو ا تھا او ر اسی طرح اپنے درد کی شدت کے وقت اپنی ماں کے آرام و آسائش کے لئے ایک نیا گھر تجویز فرمایا ۔پس جب ہم اس کو صلیب پر دیکھتے ہیں تو وہ ہم کو بدلا ہوا یسوع نہیں دکھا ئی دیتا بلکہ وہی یسوع معلوم ہوتا ہے جو خود غرضی سے بالکل آزاد اور اوروں کے لئے اپنے آپ کو نثاسر کرنے والا تھا ۔

اگر کسی جگہ اس پر گہرا زخم لگ سکتا تھا تو اس کی محبت پر لگ سکتا تھا اگرچہ وہ جسمانی تکلیفیں جو اس کی مبارک بدن کو سہنی پڑیں ،نہایت شدید اور دیرپا تھیں تو بھی ہم اس کی تکلیفوں کوان سے جو بہتوں کو اس دنیا میں اٹھانی پڑیں زیادہ شدید نہیں کہہ سکتے تاوقت یہ کہ یہ نہ مانیں کہ ا نے اپنے بدن کی اعلےٰ ساخت کے باعث ان دکھوں کو اس درجہ تک محسوس کیا جہاں تک عام آدمی محسوس نہیں کر سکتے ۔وہ پانچ گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہ رہا اور یہ عرصہ معمولی عرصہ سے اتنا کم تھا کہ جب سپاہی اس کی ٹانگیں توڑنے لگے تو وہ یہ دیکھ کر وہ مر گیا ہے حیران ہوئے لیکن اس کا اصل دکھ اوراس کی سب سے بڑی تکلیفیں وہ تھیں جو دل اور دماغ سے علاقہ رکھتی تھیں وہ جو سرتا پا محبت کے لئے اس طرح ترستا تھا جس طرح ہر نی پانی کے چشموں کے لئے ترستی ہے اس وقت لوگوں کی نفرت اور دشمنی کے سمندر سے جوطغیانی پر آیا ہوا تھا اور جس کی لہریں صلیب تک جادتی تھیں ،گھراہوا تھا اس کی روح ہر طرح کے داغ سے منزہ تھی ۔پاکیزگی اس کی جان تھی مگر گناہ اس وقت اس پر گرا پڑتا تھا اور اس سے مس پیداکرنا چاہتا تھا مگر اس کا ایک ایک روتگٹااس سے بچنا چاہتا تھا ۔

سنہیڈرم کے ممبران نے ہر طرح حقارت آمیز طعنوں اور حاسدانہ نفرت سے بھرے ہوئے ٹھٹھوں کا پل باندھ دیا اور سب لوگوں نے بڑی وفاداری سے ان کی تقلید کی لیکن یہ لوگ کو ن تھے ؟کیا وہی نہ تھے جن کو وہ ہمیشہ پیار کرتا رہا اور اب بھی کر تا تھا ؟مگر انہی لو گوں نے اس کی محبت کو پامال کیا ۔ان کے الفاظ کے وسیلے سے شیطان نے پھر وہی آزمائش پیش کی جس کے ساتھ وہ اس پر ہمیشہ حملہ کر تا رہا او روہ یہ کہ اپنے فائدہ کے لئے کوئی فوق العادت کرشمہ دکھا کر اب بھی اپنی قوم کو مطیع بنا ئے ۔ان لوگوں کو جواس وقت جوش سے بھر ے کھڑے تھے جن کے چہروں کو ان کے دلی کینے اور حسد نے بدہئیت بنا رکھا تھا ۔تمام بنی آدم کی بدی کا ایک خلاصہ کہنا چاہیے ۔اس کی آنکھیں ان کو دیکھتی تھیں ان کی سختی ان کی بد حالی ،ان کے کفر اور ان کے کمینہ پن نے برچھیوں کی طرح اس کے سینے کو چھلنی چھلنی کر ڈالا تھا ۔

پر اس کے دکھوں میںایک اور پر راز دکھ شامل تھا اوروہ یہ کہ دنیا کا گناہ نہ صرف انہی لوگوں کے وسیلے سے جو اس وقت اس کے پاس حاضر تھے اس پرا ٓگرا ،بلکہ گذشتہ اور آیندہ کے زمانے کا گناہ بھی اس پر رکھا گیا اور خدا کی بھسم کر نے والی خاصیت جوا س پاکیزگی اور محبت کے نو ر کا دوسرا پہلوہے اپنی بھسم کر نے والی خاصیت جوا س پاکیزگی اور محبت کے نو ر کا دوسرا پہلوہے اپنی بھسم کرنے والی آگ کے شعلے مسیح کے اردگرد بلند کر رہی تھی تا کہ دنیا کا گناہ جوا س پر آپڑا تھا ،بھسم کیا جائے ۔خدا کو یونہی پسند آیا کہ وہ اس کو جو گناہ سے واقف نہ تھا لیکن ہمارے لئے گہنگار بناغم میںڈالے ۔

جن دکھوں کا اوپر ہوا وہی وہ دکھ تھے جہنوں نے صلیب کی موت کو بھیانک اور ہولناک بنا دیا ۔دو گھنٹے کے بعد اس نے اس دنیا سے اپنا منہ پھر کر عالم جاودانی کی طرف رخ کیا ۔اس وقت ایک عجیب قسم کی تاریکی تمام سر زمین پر چھاگئی اور یروشلیم اس کا بے بادل کے نیچے جس کی بڑھتی ہوئی سیاہی اس کی سزا کی مانند معلوم ہوتی تھی کانپ اٹھا ۔قریباًسب لوگ اسے چھوڑ کر گلگتھا سے چلے گئے اوروہ اس کی تاریکی میں جو باہر پھیلی ہوئی تھی اوراس غم کے اندھیرے میں جو باطن میں پھیل رہاتھا کتنی مدت تک صلیب پر لٹکا رہا اور آخر کا ر اندرونی دکھ کے سمندر کی تہ سے وہ آواز پیدا ہوئی جس کا مطلب بیان کر نا انسان کی طاقت سے بعید ہے۔”ائے میرے خدا !ائے میرے خدا !تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟یہ سب وقت تھا جبکہ اس مرد غمناک کی روح نے اپنے دکھ کی سب سے گہری تہ کو چھوا ۔

تھوڑی دیر کے بعد اندھیرا زمین کی سطح پر سے کا فور ہو گیا اور سورج نمودار ہوا او ر مسیح کی روح بھی دکھ کے گہن سے نکل آئی چنانچہ جو فتح اس نے ظاہر ہوئی ” پورا ہو ا“ ۔اس کے بعد اس نے اپنی جان ایک دل پسندزبور کی آیت کے الفاظ اپنی زبان سے نکا لتے ہوئے خدا کے سپرد کی ’۔’ائے خدا میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں “ ۔

مردوں میں سے جی اٹھنا او ر آسمان پر چڑھ جانا

دنیامیں کبھی کسی کام یا مہم کے نامکمل ہونے سے ایسی مایوسی نہیں ہوئی جیسی مسیح کے کام سے اس سبت کے روز ہوئی جو پرانے عہد نامے کا آخری سبت تھا ۔معلوم ہوتا تھا کہ اب یسوع کے ارادے کبھی پورئے نہیں ہوں گے ۔جب وہ مر گیا اور دفن کیا گیا توا یسا معلوم ہوتاتھا کہ گویا مسیحی مذہب بھی فوت ہو گیا اور اس کی قبر میں اس کے ساتھا گاڑا گیا ہے ۔ہم جو اس زمانے کے ہیں جب گذشتہ صدیوں کی طرف لوٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں قبر پر سےءپتھر ہٹتا ہو ا دکھائی دیتا ہے اور ہمارے دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جوا س وقت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئی اور اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے واقعات نے ہم کو انتظام ربی کے بھید سے آگاہ کر دیا ہے ۔پس جب ہم اس کی قبر پر کھڑے ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں مایوسی نہیں آتی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پتھر ہٹایا جائے گا اور وہ جی اٹھے گا لیکن جب وہ گاڑا گیا اس وقت وہاں ایک شخص بھی یہ امید نہ رکھتا تھا کہ وہ روز حشر سے پہلے کبھی مردوں میں سے جی اٹھے گا ۔

اور سنیہڈرم کے شریک او ر یہودی سردار تو اس با ت کے بالکل قائی ہو گئے تھے ۔موت ہر طرح کی بحث اور جھگڑوں کو تما م کر دیتی ہے اسی طرح مسیح کی موت نے بھی اس جھگڑے کو جو اس کے اور یہودی سرداروں کے درمیان پایا جاتا تھا تمام کر دیا اور ایسی صورت میں فتح یہودی لیڈروں کے حصے میں آئی ۔یسوع نے مسیح موعودہونے کا دعوی کیا پرا س دعوے کے ساتھ ان نشانات میں سے جن کے وہ منتظر تھے کوئی بھی ان کی حسب خواہش نہ دکھایا ۔اسے قوم نے کبھی اپنا مسیح سمجھ کر قبول نہ کیا اور نہ اس کے شاگرد ہی بے شمار یا صاحب اقتدار تھے اور اگر اس کے کام کی طرف دیکھا جائے تو و ہ بھی دو یا تین سال سے زیادہ عمر کا نہ تھا اور وہ خود اس وقت قبر میں بے حس و حرکت پڑا تھا ۔پس کو ن اس کو یاد کر سکتا تھا ؟۔

شاگردوں کی دل شکنی میں بھی کوئی کسر باقی نہ تھی ۔چنانچہ جس وقت وہ پکڑا گیا اس وقت وہ سب اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔پطرس سردار کاہن کے گھر تک اس کے ساتھ گیا ،مگر وہ وہاں جا کر اور بھی زیادہ شرمناک حالت میں گرفتار ہوا ۔چنانچہ اپنے مالک کا انکار کر بیٹھا ۔یوحنا نے البتہ گلگتھا تک اسکا ساتھ دیا مگر وہ بھی شاید ناامیدی میں یہ امید رکھتا ہوگا ِ،کہ ممکن ہے کہ اب بھی وہ صلیب سے اتر آئے او ر داﺅد کے تخت پر رونق افروز ہو لیکن یہ آخری لمحہ بھی گزر گیا اور وہ امید بر نہ آئی اب یہ شاگردا س کے سوا اور کیا کر سکتے تھے کہ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو واپس آئیں اور پھر ماہی گیری کا پیشہ اختیا ر کریں اور عمر بھر اپنی غلطی کو جس کے سبب سے انہوں نے ایک جھوٹے مسیح کی پیروی کی تھی یاد کر کے اپنے سر دھنا کریں اور اپنے دل سے پوچھا کریں کہ وہ تخت کہاں ہیں جن پر ہمکو بٹھانے کا وعدہ اس نے کیا تھا ؟

بیشک یسوع نے توا پنے دکھوں اور موت اور جی اٹھنے کی خبر ان کو دے دی تھی مگر وہ ان باتوں کا مطلب نہیں سمجھتے تھے ۔اب یا تو وہ ان کو بالکل بھول گئے تھے یا ان کا مطلب اورہی نکالنے لگ گئے تھے ۔سو جب وہ اس دنیا سے رحلت کر گیا توان باتوں نے ان کو تسلی نہ دی ۔چنانچہ وہ عورتیں جو پہلے مسیحی سبت کے دن اس کی قبر پر آئیں ،اس امید سے نہیں آئی تھیں کہ قبر کو خالی پائیں گی بلکہ وہ اس لئے آئی تھیں کہ لاش کو مصالحہ اور خوشبو سے آراستہ کریں ۔مریم شاگردوں کے پاس اس لئے دوڑی دوڑی نہیں گئی تھی کہ ان کو یہ بتائے کہ خداوند جی اٹھا ہے بلکہ وہ ان کو یہ کہنے گئی تھی کہ ان کو یہ بتائے کہ خداوند جی اٹھا ہے بلکہ وہ ان کو یہ کہنے گئی تھی کہ اس کی نعش قبر میں نہیں ہے معلوم نہیں کہ لوگوں نے اسے کہاں رکھ دیا ہے ؟پھر جب عورتوں نے شاگردوں کو بتا یا کہ خداوند نے ہم سے ملاقات کی ہے توا ن کے الفاظ بھی شاگردوں کو مہمل سے معلوم ہوئے ۔یوحنا خود بتایا ہے کہ نہ پطرس اور نہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ نوشتوں کے مطابق پھر جی اٹھے گا ۔کیا ان لفظوں سے جو ان دو شاگردوں کے منہ سے نکلے جو اماﺅس کو جارہے تھے بڑھ کر اور الفاظ بھی تاسف آمیز ہیں ؟وہ کہتے تھے ”ہم کو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دیگا ؟۔جب شاگرد فراہم ہوئے تو انہوں نے رونا اور ماتم کر نا شروع کیا ۔ہاں ان لوگوں سے زیادہ اور کوئی مایوس اور شکستہ دل نہ تھا ۔

مگرہم خوش ہیں کہ وہ مغموم اور مایوس ہوئے ۔وہ شک لائے تاکہ ہم ایمان لائیں یہی عقیدہ اس مشکل سوال کا حل ہے ،کہ وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے چند ہی دنوں کے بعد یہ لوگ جو اب مایوس معلوم ہوتے ہیں بڑی خوشی اور بھروسے سے بھر گئے اور ان کا ایمان تروتازہ ہوا اور مسیحی مذہب ایسی تازگی اور طاقت سے حرکت میںآیا کہ دیسی تازگی اور طاقت اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی تھی ؟یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کا سبب یہ تھا مسیح مردوں میں سے کہ جی اٹھا تھا ۔وہ ہم کو بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح خالی قبر پر گئے کس طرح یسوع مریم مگدلینی اور دوسری عورتوں کو دکھائی دیا‘ کس طرح پطرس پر اور ان دو شاگردوں پر جو اماﺅس کو جا رہے تھے ظاہر ہو ا کس طرح ایک دفعہ گیارہ کو نظر آیا ؛۔کس طرح ایک دفعہ یعقوب نے اور ایک دفعہ پانچ سو نے اس کو دیکھا ۔کیا یہ شہا دتیں ماننے کے قابل نہیں ؟اگر یہ شہادتیں اکیلی ہوتیں تو شاید ہم ان کونہ ماننے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ( جس کا دعویٰ وہ کرتے ہیں ) ایسا واقعہ تھا جس کے ساتھ واقعہ تھا جس کے ساتھ مسیحی مذہب بھی اپنی قبر میں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر پہلا دعویٰ سچا نہیں تو مسیحی مذہب جو اس کی موت کے سبب سے بے جان ہو گیا تھا۔ کس طرح پھر زندہ ہوا؟ شاید کوئی یہ کہے کہ سبب سے بے جان ہو گیا تھا۔کس طرح پھر زندہ ہوا؟ شاید کوئی یہ کہے کہ یسوع نے ان کے دلوں شاہانہ امیدوں سے بھر دیاتھا۔ اور اگرچہ وہ امیدیں پوری نہ ہوئیں تو بھی ان لوگوں کے لئے مشکل تھا ۔ کہ ایسی امیدوں کو دل میں ایک مرتبہ جگہ دے کر پھر اپنے ادنیٰ کاموں میں مصروف ہوں ۔ پس انہوں نے آپ لئے مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا ایک قصہ گھڑ لیا لیکن انہیں وہم گیا تھا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے مگر یہ دعوےٰ قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ جب ان کے ایمان نے پھر تقویت پائی تو انہوں نے دنیوی خیالات کو بالکل چھو ڑ دیا اور روحانی مزاج بن گئے ۔ پھر وہ تختوں کی امید نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر دم اپنے آپ کو ایذا اور موت کا شکار سمجھتے تھے مگر باوجود اس کے ایسی دانائی اور سرگرمی اور بڑے بڑے نتائج کی امید رکھنے والے ایمان سے مسیح کے نام کی منادی میں مصروف تھے کہ پیشتر کبھی ایسی خوبیاں ان میں نظر نہیں آتی تھیں ۔ پس اب اصل میں یہ ہے کہ جس طرح مسیح کی عجیب تبدیلی کے ساتھ جی اٹھا اس کا دین بھی عجیب تبدیلی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا یا یوں کہیں کہ اس کے مذہب نے بھی جسمانیت کو اتار پھینکا لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ یہ تبدیلی کس طرح وقوع میںآئی ؟ شاگرد یہ جواب دیتے ہیں کہ اس تبدیلی کا باعث مسیح کا کا جی اٹھنا اور اس کے دیدار کا وہ نظارہ ہے جو اس کے جی اٹھنے کے بعد ہم کو نصیب ہوا مگر ان کی گواہی فیصلہ کن ثبوت نہیں بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی عجیب تبدیلی جو وقوع میں آئی، یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا سب سے پختہ ثبوت ہے وہ تبدیلی یہ تھی کہ وہ جو پہلے بزدل تھے یک بیک دلیرین گئے۔ وہ جو پہلے ناامید تھے امید سے بھر گئے ۔ وہ جو پہلے کم اعتقاد تھے ایمان میں پختہ ہو گئے اور دنیا کو آئندہ کے بارے میں پرحکمت تصورات سے بھر گئے اور کلیسیاءکو قائم کرنے کے لئے تمام ضروری اوصاف ان میں پیدا ہو گئے اور دنیا کو مسیح کے پاس لانے اور بنی آدم کے درمیان مسیحی مذہب کو پاکیزگی کے ساتھ قائم کرنے کی حکمت ان میں آگئی۔ پرانے عہد نامے کے آخری سبت اور ان دو تین ہفتوں کے درمیان جن کے اندر یہ عجیب تبدیلی وجود میں آئی ضرور کوئی نہ کوئی واقعہ سرز د ہوا ہو گا۔ جسے اس نتیجہ کا کافی سبب سمجھنا چاہےے ۔ اس عقد ہ کو صرف یہی دعویٰ حل کر سکتا ہے کہ یسوع مردوں میں سے جی اٹھا ۔ پس اس کا جی اٹھنا ایک ایسے ثبوت پر قائم ہے جو گواہوں کے ثبوت سے کہیں مضبوط اور زبردست ہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ مسیح کا جی اٹھنا ایسے ثبوت پر قائم ہے کیونکہ اگر مسیح نہیں جیا تو ہمارا ایمان بے فائد ہ ہے لیکن اگر وہ جی اٹھا ہے تو اس کی تمام زندگی جو اعجاز سے پر تھی اعتبار اور قبول کرنے کے لائق ہے کیونکہ اس کا جی اٹھنا تمام معجزوں سے بڑا معجزہ ہے اس کا خدا کی طرف سے ہونا بھی اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے سوا اور کون اس کو زندہ کر سکتا تھا؟ اور اسی سے ابدی دنیا کی حقیقتیں بر حق معلوم ہوتی ہیں۔

خدا وند مسیح زندہ ہونے کے بعد اتنی مدت تک اس دنیا میں رہا کہ اس کے پیرو اس کے جی اٹھنے کے بالکل قائل ہو گئے ۔یاد رہے کہ شاگرد بڑی دیر میں اس بات سے قائل ہوئے۔ چنانچہ جب انہوں نے عورتوں سے اس کے جی اٹھنے کی خبر سنی تو انہوں نے پورا یقین نہ کیا۔ تو مانے دوسرے رسولوں کی گواہی پر شک کیا اور ان پانچ سونے جن کو وہ ایک گلیلی پہاڑ پر ملا اپنی آنکھ کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جب تک کہ اس کی آوازکو نہ پہچانا مگر جس صبر و برداشت سے وہ ان شک لانے والوں کے ساتھ سلوک کرتا رہا اس نے ثابت کر دیا کہ گو اس وقت اس کی جسمانی صور ت کسی قدر تبدیلی ہو گئی ہے تو بھی اس کا دل پہلے طرح محبت اور برداشت سے بھرا ہواہے۔ یہ حقیقت بڑے موثر طور پر اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ ان کو انہی جگہوں میں ملتا رہا جہاں جلال کو پہنچنے سے پہلے آیا جایا کرتا تھا۔ یہ وہی پرانی جگہیں تھیں ۔ جہاں وہ دعا مانگا اور منادی کیا کرتا تھا۔ جہاں جا جا کر اس نے اپنے کام کو انجام دیا ۔ جہاں اپنے دکھ سہے تھے یا یوں کہیں کہ وہ جی اٹھنے کے بعد بھی گلیل کے پہاڑ اور پسندیدہ جھیل اور کو ہ زیتون اور بیت عنیاہ میں نمودار ہوا اور یروشلیم میں جس نے اسے قتل کیا دکھائی دیا اور وہ اب بھی اسے پیار کر نے سے باز نہیں رہ سکتا ۔

مگراس کے ساتھ ہی ایسے نشانات بھی موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب اس دنیا سے کچھ تعلق نہیں رکھتا تھا ۔چنا نچہ اسکی انسانیت میں جی اٹھنے کے بعد ایک قسم کی جدائی پید اہو گئی تھی مثلاًجب مریم نے اس پاﺅں کو چو منا چاہا توا س نے اس کو چھونے سے منع کیا ۔وہ اپنے دوستوں کے درمیان ایسے طور پر یک بیک نمودار ہو جاتا تھا کہ اس راز کا بیان ہماری طاقت سے بعید ہے ،اور جس طرح یک بیک ظاہر ہوتا تھا اسی طرح غائب بھی ہو جاتا تھا اور کبھی کبھی دکھائی دیتا تھا کیونکہ جس طرح پہلے ان کے ساتھ شیرو شکر تھا اس طرح اب نہ تھا ۔آخر کار چالیس دن کے بعد جب وہ غرض جس کے لئے وہ اتنے دن تک زمین پر رہا پوری ہو گئی اور اس کے شاگرد اپنی خوشی کی نئی طاقت کے ساتھ تمام قوموں کو اس کی زندگی اور محبت کا مثردہ دینے کے لئے تیا ر ہو گئے تو اس کی جلالی انسانیت اس دنیا کو صعو د کر گئی جوا س کا اصلی وطن تھا ۔

فائدہ ۔جب وہ جسم جس کے وسیلے سے کو ئی زندگی اس دنیا میں نمودار ہوتی ہے ،فنا ہو جاتا ہے تواس زندگی کا تعلق اس دنیا سے قطع نہیں ہو تا کیونکہ وہ بنی آدم کی زندگی کے دریا میں گر کر اپنے سارے زرو سے اپنا اثردکھاتی رہتی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ بسا اوقات یہی تاثیر جو بعدظاہر ہوتی ہے ثابت کر تی ہے کہ آدمی کی زندگی در حققیقت کیسی وزن دار تھی ۔مسیح کی زندگی کا بھی یہی حال ہے کہ انجیلوںکے بے مبالغہ بیان سے تواس نتائج آفرین قدرت کا پتہ نہیں لگتا جو اس کی زندگی سے اس وقت جاری ہوئی جس وقت معلوم ہو تا تھا کہ یسوع بالکل فنا ہو گیا ہے ۔جو اثر اس کی زندگی نے موجو د ہ دنیا پر پیدا کر رکھا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ حقیقت میں کیسا عظیم الشان شخص تھا ۔ہاں جو نتیجہ اب ہم کو نظر آتا ہے اسے دیکھ کریہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس نتیجے میں نظر آتا ہے وہ سب کچھ اس کے سبب یا علت میں بھی موجود تھا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی تمام بنی آدم کی زندگی کی پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی تاثیروں کے طفیل سے انسان کے دل میں روحانیت کی گلزار کھلی ہوئی ہے اورتمام تاثیروں کو اس طرح جذب کر تی جاتی ہے جس طرح کسی دریا میں جو ملک کے بیچ سے گزرتا ہے کہ اس کے معاون گر کر معدوم ہو جاتے ہیں ۔اس کی وسعت کی نسبت اس خاصیت زیادہ قابل غور ہے ۔

پراس کی حقیقت کی اصل شہادت نہ تو زمانہ حال کی تہذیب کی عام تاریخ میں ملتی ہے اورنہ کلیسیا کی ظاہری سر گذشت میں اس قدر پائی جاتی ہے جس قدر ان کا ایمان داروں کے مسلسل تجربوں میں دیکھی جاتی ہے ۔جو مسیحی پشتوں کے بیج میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک سلسلہ باندھ کر اپنے خداوند سے جا ملتے ہیں وہ لاکھوں روحیں جہنیں اس نے ان کے گناہ اور دنیا سے نجات دی اپنے تجربہ کے وسیلے سے ثابت کرتی ہیں کہ تاریخ نئی پیدائش بخشنے والے نجات دہندے کے وسیلے سے جو بنی آدم کے سلسلے میں ایک عام کڑی نہ تھا دو ٹکڑے ہوگئی ہے ۔ان کا تجربہ ظاہر کر تا ہے کہ اسے بنی آدم اپنی طاقتوں کے وسیلے سے پیدا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک کامل نمونہ ہے اور بنی آدم میں خاص ابن آدم وہی ہے ۔وہ لوگ جو ایک طرف خدا کی پاکیزگی کو محسوس کرتے اور دوسری طرف اپنی گنہگاری کو پورے طور سے جانتے ہیں مگر پھربھی اس سلامتی سے خوش حال ہیں جو پاک زندگی کا ایک بے زوال منبع ہے ۔ان کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں ایک حقیقی میل کی ایک راہ کھل گئی ہے جس کے وسیلے سے گنہگارانسان خدائے پاک کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ہزارا ہا بنی آدم جو اس خدا کے دیدار سے مالا مال ہیں جو مسیح کے کلام سے صاف کی ہوئی آنکھ کو ایسا خالص نور معلوم ہو ا ہے جس میں تاریکی کو ذرا دخل نہیں ،اپنے تجربہ سے ظاہر کرتے ہیں کہ ازلی خدا کا آخری مکاشفہ دنیا کو اسی کے وسیلے سے پہنچا جو خدا کوایسے کامل طور سے جانتا تھا کہ اس کا علم کو دیکھ کرا سے خدا سے کم نہیں کہہ سکتے ۔

مسیح کی زندگی دنیا کی تاریخ سے کبھی معدوم نہ ہوگی بلکہ اس کا اثر دن بدن زیادہ زور پکڑتا جاتا ہے ۔موجودہ دنیا میں جس قدر نئی باتیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں اور بنی آدم کے افضل تصورات جس قدر نشوو نما پاتے جاتے ہیں اور جس قدر ان کی اعلیٰ طاقتیں بڑھتی جاتی ہیں اور بہتر جذبات پاک ہوتے جاتے ہیں اسی قدر مسیح کی حقیقت روز بروز منکشف ہوتی جاتی ہے او ر بنی نو ع انسان یہ چاہتے ہیں کہ تمام انسانی زندگی اس کے تصورات اورا س کی سیرت کے سانچے میں ڈھالی جائے ۔

التماس

کتاب ”حیات المسیح “جو اب جدا چھپ کر ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے اوراق ترقی میں کئی صاحبان کی نظر سے گذر چکی ہے ۔اردو زبان میں دو تین نامکمل کتابوں کو چھوڑ کر اور کوئی کتاب اس قسم موجود نہیں اورمجھے امید ہے کہ جب تک ا س سے بہتر کوئی اور حیات المسیح تیار نہ ہو تب تک یہی موجودہ ضرورت کو رفع کرتی رہے گی ۔انگریزی زبان میں کئی کتابیں اس مضمون پر پائی جاتی ہیں جن کے مطالعہ سے پڑھنے والے کو بہت فائدہ حاصل ہو تا ہے ۔مسیح کی زندگی کے تمام واقعات سلسلہ وار ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں واقعہ اس کی زندگی کے فلاں وقت سے علاقہ رکھتا ہے ۔یہ کام آسانی سے نہیں ہوسکتا کیونکہ جوا یسا کرنے کی لیاقت رکھتے ہیں ان کو اشغال زندگی فرصت نہیں دیتے اور جہیں فر صت حاصل ہے وہ شاید لیاقت نہیں رکھتے ۔

لہذا اناجیل کے مطالعہ میں اس قسم کی کتابیں بہت مدد دیتی ہیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حیات المسیح خواہ کیسی ہی مطول اور مفصل ہو پھر بی وہ رتبہ نہیں رکھتی جوا ناجیل کو حاصل ہے ۔پس حیات المسیح گویا ایک طرح کی مدد ہے جس کے وسیلے سے انجیلوں کے بیانات روشن ہو جاتے ہیں ۔جو شخص انسان کے تالیف کردہ سوانح عمری پر اکتفا کر تا ہے اور انجیلوں کا مطالعہ نہیں کر تا وہ اس روحانی لطف سے کلام کے پڑھنے سے حاصل ہو تا ہے محروم رہتا ہے ۔پس مجھے امید ہے کہ جوصاحبان اس کتاب کوپڑھیں گے وہ اس سے ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی تحریک پائیں گے جس میں خداوند کی زندگی کا اصل حال درج ہے ۔میں یہ بھی جتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے اس کتاب کی تالیف کا بھی حق حاصل نہیں گو اس کے تیار کرنے میں میں نے ایڈرشام اور فیرر اور انڈریوز اور نینڈر کی تصانیف سے بھی بعض بعض جگہ مدد لی ہے اور میں ان کی کتابوں سے بہت کچھ اس میں درج کر سکتا تھا مگر چو نکہ اس بات کا خیال دامن گیر تھا کہ کتاب کی ضخامت بڑھنے نہ پائے ،لہذا فقط چند موقعوں پر اکتفا کی ۔

زیادہ تر مدد اس کے تیار کر نے میں سٹاکر صاحب کی کتاب حیات المسیح سے لی گئی ہے بلکہ اس کتاب کا بہت سا حصہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے ۔ترقی میں جو کچھ شائع ہوا وہ صرف سٹاکر صاحب کی کتاب کا خلاصہ تھا ،مگر اب اس پربہت کچھ بڑھایا گیا ہے ۔کئی مفید اور کار آمد حواشی بھی اضافہ کئے گئے ہیں اور جتنا حصہ تر قی میں شائع ہو چکا ہے اس کی نظرثانی کی گئی ہے ۔مجھے امید ہے او ر میری دعا بھی یہی ہے کہ اس کتاب کے وسیلے سے بہت لوگوں کی زندگیاں اس کتاب کی مانند بن جائیں جس کی پاک اور الٰہی زندگی کا بیان اس کتاب میں قلمبند ہے او رکئی ایک کے دل میں اس کا ایسا عشق پیدا ہو کہ جب تک وہ اس پر ایمان نہ لائیں تب تک ان کوآرام نہ ملے کیونکہ دلی آرام کی ندیاں اسی طرح ان کے اندر جاری ہو سکتی ہیں ۔

خادم طالب الدین پاسٹر ۔ہندوستانی پر یسبٹیرین چرچ ۔لاہور

فہرست مضامین

مقدمہ

فصل

مضمون

 

تمہید

(الف) قرآن نے توریت اورانجیل کومنجانب اللہ مان کر ان کے ساتھ اپنا خاص رشتہ جتایا ہے۔

 

 

(ب) توریت اورانجیل کے الہام کا مختصر بیان ۔

پہلا مقدمہ

 

اس میں اس بات کا تصفیہ ہے کہ حضرت محمد کے زمانہ میں اہلِ عرب کے دینی حالات کیسے تھے۔ جن کے درمیان حضرت محمد پیدا ہوئے۔

دوسرا مقدمہ

تواریخی بیان

اس میں دریافت کیا گی ہے کہ قرآن میں زمانہ ماضی کے جوقصے ہیں وہ توریت اور انجیل کے مشابہ نہیں ہیں لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کی غیر الہامی راویتوںیا ناولوں کے مشابہ ہیں جو ان لوگوں میں مروج تھیں۔

 

۱۔مثال

آدم کا قصہ

 

۲۔مثال

ابراہیم کا قصہ

 

 

دین ابراہیم کی کیفیت طالمود اورقرآن مطابق ، دین ابراہیم توریت اورانجیل کے دین سے جدایا غیر نہیں تھا۔

 

 

کعبہ ابراہیم نے نہیں بنایا تھا اورنہ اسماعیل نے۔

 

 

ابراہیم کی بودوباش وعبادتگاہ۔

 

۳۔مثال

سلیمان کا قصہ ،طالمود اورقرآن کے مطابق۔

 

 

۱۔شیاطین اورجن اور ہوا کے پرندے سلیمان کے تابع تھے۔ وہ انکی بولی سمجھتاتھا۔

 

 

۲۔یہودیوں کی طالمودوالے شدیم اورقرآن جن ایک ہی تھے۔

 

 

۳۔سلیمان اور ہدہد ،ملکہ صبا کا قصہ (طالمود کا قصہ قرآن میں آیا ہے)۔

 

۴۔مثال

موسیٰ کا قصہ (طالمودی بیان قرآن میں)۔

 

۵۔مثال

سیدنا مسیح کے قصے جیسے کہ عیسائیوں یعنی بدعتی عیسائیوں کی جعلی انجیلوں اورقرآن میں پائے جاتے ہیں۔

 

 

الف۔ ۔مریم کے جننے کا قصہ

 

 

ب۔ سیدنا مسیح کا والدہ کی گود میں باتیں کرنا۔

 

 

ج۔سیدنا مسیح کے معجزات سن طفلی

 

 

د۔سیدنا مسیح کی صلیبی موت سے قرآن میں انکار اوراس کا سبب انجیل میں صلیبی موت ثابت ہے۔

تیسرا مقدمہ

 

علم الہٰی کے بیان میں ۔

 

پہلی فصل

خدا اورا س کی صفات کے بیان میں۔

 

 

خدا ایک اور ازلی اورخالق اوراکیلا معبود ہے۔

 

 

خدا مہربان اور بخشنے والا ہے۔

 

 

خدا محبت ہے۔ (بائبل اورقرآن میں فرق)۔

 

 

خدا راست ہے ۔ (بائبل اورقرآن میں فرق )۔

 

 

خدا پاک ہے۔ (بائبل اورقرآن میں فرق)۔

 

دوسری فصل

خداکی واحد ذات میں تین اقانیم ، باپ بیٹا اور روح القدس (قرآن میں خدا،ابن مریم اورمریم کی تثلیث سے انکار ہے)۔

 

 

انجیلی تثلیث کا ذکر نہیں ہے۔

 

تیسری فصل

سیدنا مسیح خدا کا بیٹا ہے۔(قرآن میں اس سےانکار ہے۔ انکار کی تفتیش )۔

چوتھا مقدمہ

 

طریق الحیات کے بیان میں ۔

 

 

نجات کی ضرورت اوراس کا ممکن طریق ۔

 

 

نجات خدا کے فضل سے ہے۔

 

 

فضل سے نجات کی سبیل،پہلا امر، کیا توبہ اورنیک کاموں کے عوض میں فضل ہوتاہے۔

 

 

دوسرا امر۔ فضل سے نجات کی سبیل مسیح کاکفارہ ہے۔

 

 

اول۔ جانوروں کے کفارہ کی کیفیت ، عارضی انتطام تھا۔

 

 

مگرقرآن میں جاری رکھاگیا ہے۔

 

 

دوم۔ مسیح کا کفارہ وانجیل میں قرآن میں مسیح کی موت سے انکار بدعیتوں کے خیالات کے سلسلہ میں تھا۔

 

 

سوم۔ روح القدس کے وسیلے نیا جنم(قرآن میں نہیں ہے)۔

 

 

تیسرا امر۔ ایمان کے بیان میں یعنی نجات کے لئے کس پر ایمان لانا ضرور ہے۔

پانچواں مقدمہ

 

اخلاقی شریعت کے بیان میں انسان کی حالت اوراخلاقی شریعت کی کیفیت اور فائدہ

 

 

نیک کاموں کی فہرست ۔

تمہید

(الف)

اس دنیا میں اختلا ف مذہبی بہت ہے اور بعض اہل فکر دنیا کے مختلف زمانوں اور مختلف آب و ہوا اور مختلف ضروریات کے لحاظ سے اس اختلاف مذہبی کو ایک ضروری امر خیال کرتے ہیں۔ اور کل دنیا کے لئے فقط ایک مذہب ان کے نزدیک ایک نامعقول تحکم ہے ، مثلا ً کہا جاتا ہے۔ کہ موسیٰ اپنے زمانہ اور قوم کے لئے اچھا ہادی تھا۔ اور زرتشت اپنے زمانہ اور اپنی قوم کے لئے اچھا ریفار مر تھا۔ اسی طرح بد ھ اور مسیح اور محمد اپنے اپنے عہد میں تقلید کے لائق تھے۔ نانک پنجاب کے لئے مناسب تھا۔ جیسا زمانہ کسی قوم پر آیا اسکی حالت کے مطابق انتظام الٰہی سے کوئی نہ کوئی مناسب رہبر برپا ہوتا رہا ۔ ایک وقت محمد صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا۔ اور آپ اپنے تیئں اہل عرب کا ہادی قرار دینے لگے تھے۔

سورہ حج رکو ع ، ٩آیت ٢٨ لک امة ً جعلنا منسگا ہم نا سکوہ فلاینا زعنک فی الا مر۔

ہر فرقے ٹھہر ا دی ہے۔ ہم نے ایک راہ بندگی کی کہ وہ عبادت کرتے ہیں۔ اس کو پس نہ جھگڑیں تجھ سے بیچ حکم کے ، لیکن مشاہد ہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے حصوں میں ہم عصر یا یکے بعددیگر ے مذہبی ہادیوں کے برپا ہونے کا سبب یہ ہے کہ انسان ایک اخلاقی اور مذہبی وجود ہے ۔ مگر لوگو ں کو ہمیشہ یہ موقع نہ ملا کہ اپنے طریق کے ساتھ دیگر طریقوں کا مقابلہ کرکے معلوم کریں کہ اصل میں سچ کیا ہے۔ اور بعض جن کو موقع ملا بھی وہ اپنی خود غرضی یا جہالت کے سبب اسکو استعمال میں نہ لا سکے ۔ اور اپنی اپنی حدود خیالی میں محدود ہوتے گئے جس کو انجیل مقدس میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ خدانے اگلے زمانہ میں سب قوموں کو چھوڑ دیا کہ اپنی اپنی راہ پر چلیں ۔ (اعمال ١٦.١٤ ) اور بجائے خود یہ پکار کرتی ہے کہ ” ساری باتو ں کو آزماؤ جو اچھی ہو اسے پکڑے رہو“۔ (۱ تسلونقییوں ٢١.٥ اور یوحنا ١.٤اور افسیوں ١٠.٥اور متی ١٦.١٥)۔ اور اب انتظام الٰہی سے روشنی کا اور عقل اور ضمیر کی آزادگی کا زمانہ آیا ہے۔ اور ہر ایک آدمی دیگر مذاہب کا احوال معلوم کر سکتا ہے اور اس صداقت کو سمجھ سکتا ہے کہ خدا سچا ہے اور متناقض مکاشفے نہیں دے سکتا ۔ اور اس لئے دنیا کے سارے مذاہب سچے نہیں ہو سکتے ۔ا ور ان سب کو خدا کی طرف سے کہو تو ان میں سے ایک بھی سچا نہیں اور اگر فقط کسی ایک کو سچا اور الٰہی مکاشفہ کہا جائے تو باقی سب باطل ماننے پڑینگے کیونکہ خدا جھوٹ اور تناقض کا بانی نہیں ہے۔ دیگر مذاہب سے طرح دے کے ہم اس رسالہ میں صرف انجیل اور قرآن کے مذاہب کا مقابلہ کرینگے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کس کی پیروی فرض اور فائدہ مندی ہے ۔

قرآن عربی زبان میں وہ کتاب ہے جو انجیل سے قریباً چھ سو برس بعد عرب میں مرتب ہوئی تھی ۔ اس نے توریت اور انجیل کے ساتھ اپنا بہت تعلق جتایا ہے ۔ ا س حال میں جس طرح مسلمان قرآن کی حمائت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ہم اہل کتاب یہی حق رکھتے ہیں کہ اس کی باتو ں کا وزن کریں۔ قرآن اور محمد کی بابت ہمارے تقاضے خواہ مخواہ کے جھگڑے نہیں ہیں۔ بلکہ توریت اور انجیل اور قرآن کی رو سے ہم فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں چنانچہ ۔

توریت کا بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ ” وہ بنی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ بنی قتل کیا جائے ۔ تو جان رکھ کہ جب بنی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی بلکہ اس بنی نے گستاخی کی ہے تو اس سے مت ڈر (استثنا ٢٢,٢٠:١٨) ۔

انجیل کو حکم عیسائیوں کو یہ کہ جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہو ۔ ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچانو گے ۔ (متی ١٦,١٥:٧) ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں نہیں (١یوحنا ١:٤) اور جو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں (آیت ٣.٢) ۔

قرآن کا حکم یہ ہے ، سورہ یونس رکوع ١٠آیت ٩٤۔

فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

ترجمہ:یعنی پس اگر تو شک میں ہے اس چیز سے کہ نازل کی ہم نے تیری طرف پس سوال کر ان لوگو ں سے جو پڑھتے ہیں کتاب تجھ سے پہلے تحقیق آیا ہے ۔ تیر ے پاس حق تیر ے رب سے اور نہ ہو شک لانے والوں میں سے ، اور بھی سورہ شعرار رکو ع ١١آیت ١٩٢،ان سے سندات سے ظاہر ہے کہ اہل کتاب کا حق ہے کہ قرآن کی بابت رائے دیں۔ اور

قرآن میں جو رشتہ اپنا تو ریت اور انجیل کے ساتھ جتایا گیا ہے اس کی کیفیت حسب ذیل ہے :

پہلا رشتہ ۔ اگلی کتابوں پر ایمان ، سورہ بقرر رکوع ١٦آیت ١٣٦۔

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

ترجمہ:یعنی کہو ایمان لائے ہم اللہ پر اور جو کچھ اتاری گئی ہماری طرف اور جو کچھ اتاری گئی طرف ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق کے اور یعقوب کے اور اسکی اولاد کے ، اور جو کچھ دی گئی موسیٰ کو اور عیسیٰ کو اور جو کچھ دی گئی پیغمبر وں کو ان کے رب سے ، نہیں فرق کرتے درمیان کسی کے اور ہم اسی کے مطیع ہیں۔

دوسرا رشتہ ۔ قرآن توریت اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ اور اس لئے خود بھی سچا ہے ۔ سورہ یونس رکو ع ٤آیت ٣٨۔

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ:اورنہیں ہے یہ قرآن کہ بنا لیا جائے سوائے اللہ کے وہ لیکن سچا کرنے والا ہے اس چیز کا کہ اس سے آگے ہے اور تفصیل کرنے والا ہے اس کتاب کی جس میں شبہ نہیں رب العالمین سے، اور بھی دیکھو سورہ بقرررکوع ١١۔سورہ عمران رکوع پہلا ۔ سورہ یوسف آخری آیت ۔

تیسرا رشتہ ۔ قرآن اہل کتاب کے لئے توریت اور انجیل پر عمل کرنا واجب ٹھہراتا ہے ۔ کیونکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ سورہ مائدہ رکو ع ٧آیت ۴۶۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ:یعنی اور پچھاڑی بھیجا ہم نے ان کے پیروں پر عیسیٰ بیٹے مریم کو سچا کرنے والا اس چیز کو جو اس کے آگے تھی یعنی توریت اور دی ہم نے اس کو انجیل اس میں ہدایت اور روشنی ہے اور سچا کرنے والی اس چیز کو کہ اس کے آگے تھی یعنی توریت اور ہدایت اور نصیحت واسطے پرہیز گاروں کو اور چاہئے کہ حکم کریں اہل انجیل ساتھ اس چیز کے اتاری ہے اللہ نے اس میں اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کی نازل کی ہوئی چیز پر پس وہ لوگ فاسق ہیں۔ پھر یہی مضمون رکو ع ١٠آیت ٧٢میں پایا جاتا ہے۔

ان مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن نے توریت اور انجیل کے ساتھ اپنا بہت نزدیکی رشتہ بتلا یا ہے اور محمد صاحب ایک مسیحی کی طرح توریت اور انجیل کے حامی نظر آتے ہیں خوب ہوتا اگر یہی صورت قائم رہتی مگر قائم نہ رہی کیونکہ باوجود ایسے ایمان اور تصدیق اور تاکید عمل کے کچھ وقفہ کے بعد آپ نے اپنے وطن کے کعبہ والا دین پسند کیا اور اس کو دین ابراہیم کے متعلق قرار دیکر یہ جتایا کہ۔

سورہ بقررہ رکوع ١٦آیت ١٣٥:

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ

ترجمہ:یعنی اور کہا انہوں نے ہو جاو یہود یا عیسائی راہ پاوتم۔ کہہ بلکہ ہم ہیں دین ابراہیم حنیف پر ۔ سورہ نحل رکو ع ١٦ آیت ۱۲۳۔

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ ۔ یعنی پھر وحی کی ہم نے تیری طرف کہ پیروی کر دین ابراہیم حنیف کی اور وہ نہیں تھا۔ شرک کرنے والوں سے۔

اگرمحمد صاحب کے مشاہدہ میں یہود اور عیسا ئی شرک کرتے نظر آتے تھے۔ اور انکی کتابوں توریت اور انجیل میں شرک نہیں تھا تو آپ کو ان کی کتابوں سے لپٹے رہنا چاہئے تھا ۔ اور پیروں کی غیر باتوں کے سبب ان کتابوں اور ان کے دین کو چھوڑ دینا واجب نہیں تھا۔ جن پر آپ نے اپنا ایمان بڑے شوق سے ظاہر کیا تھا۔ لہذا جدائی کی یہ کوئی پختہ وجہ نہ تھی اور ایسا کرنے سے آپ نے کا وہ ایمان مردہ ایمان ہو گیا ۔ امام بخاری صاحب اپنی حدیث میں اس علیحدگی کی ایک اور ہی وجہ بیان کرتے ہیں ۔ کہ کتاب والے (یہود ) توریت کو عبرانی میں پڑھتے اور عربی میں ترجمہ کر کے مسلمانوں کو سمجھاتے ۔ آنحضرت ﷺنے فرما یا اہل کتاب کو نہ سچا کہو نہ جھوٹا ۔ یوں کہو کہ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اترا (یعنی قرآن پر ) اور اس پر جو تم پر اترا (توریت وغیرہ ) اخیر تک جو سورہ بقر میں ہے ۔ ابن عباس نے کہا تم اہل کتا ب (یہود و نصاری ) سے کیا پوچھتے ہو تمہاری کتا ب تو ابھی نئ اللہ کے پاس سے اتری ہے تم خالص اس کو پڑھتے ہو اس میں کچھ ملونی نہیں ہوئی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم سے فرمایا ہے کہ کتاب والو ں نے اپنا دین بدل ڈالا اور وہ اپنے ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے تھے   ١۔   پھر کہتے تھے یہ اللہ کے پاس سے اتری ہے ۔ان کامطلب یہ تھا کہ دنیا کا تھوڑا سا مول کمالیں۔ لیکن دیکھو تم کو جو اللہ نے علم دیا (قرآن اور حدیث ) اس میں اس کی ممانعت ہے کہ تم اہل کتاب سے (دین کی باتیں ) پوچھو۔

(صحیح بخاری پارہ تیس کتاب الا عتصام صفحہ ١٧.١٦ترجمہ مولو ي وحید الزمان )۔

یہ بڑے بھاری الزام ہیں اور ازاں موجب علیحدگی بھی کچھ چھوٹا سا کام نہیں ہے ۔ بہ نظر اولا تویہ نہایت مناسب اور سنجیدہ قدم معلوم ہوتا ہے مگر اس الزام اور علیحدگی کی اوٹ میں ایک اور بھید ہے جس کو ظاہر کرنا ہم سعادت جانتے ہیں اور جس سے یہ الزام اور علیحدگی بالکل ناجائز ثابت ہو گی ۔ اور وہ بھید یہ ہے کہ وحی قرآن نے اگرچہ اپنے تئیں توریت اور انجیل کا ایماندار اور مصد ق جتایا تو بھی اپنی بنیاد زمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں اور یہودیوں اور عیسائیوں کی غیر الہامی حدیثوں اور عیسائی بدعتیوں کے خیالوں پر قائم کی اور کہلایا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا ہے اور عربوں کے کعبہ والا دین ابراہیم جاری کرنے کے محمد صاحب روپے ہوئے ۔ اور اسکو مستندٹھہرانے کے لئے آپ کو وحی کا دعوی کرنا پڑا تھا۔ مگر وحی کئے جانے کے ثبوت میں آپ وہی قصے اور دستور سنا تے رہے ۔ جو یہودیوں اور عیسائیوں اور عربوں میں الہامی کتابوں کے علاوہ رائج تھے اور ان کی مدد سے آپ یوں استدلا ل کرتے تھے۔ کہ یہ قرآن اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ قرآنی باتیں ضرور وحی کی معرفت دی گئی تھیں ۔ کیونکہ آپ ان کے موقعہ واردات پر موجود نہ تھے۔ جیسے یوسف کا قصہ بیان کرکے سورہ یوسف رکوع ١١کے آخر میں لکھا ہے کہ ”یہ خبرحں غیب سے ہیں کہ وحی کرتے ہیں۔ ہم تیری طرف اور توان کے نزدیک نہیں تھا۔ حالانکہ یوسف کا احوال توریت اور یہودیوں کی طالمود میں مفصل موجود تھا اور کوئی غیب کی بات نہ تھی ۔ اس حال میں اگر مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی بات پوچھتے اور وہ ان کو بتلاتے کہ فلاں بات یوں نہیں یوں ہے اور قرآن کے مبداءکا بھید معلوم کرتے جو اکثر جہلا عرب کو معلوم نہ تھا۔ تو اندیشہ تھا کہ وہ قرآن کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس لئے علیحدگی اور ممانعت مذکورہ بالا بڑی مصلحت آمیز تھی ، کیونکہ محض ضد کے سبب تھی ضد کے سبب اس لئے کہتا ہوں کہ یہود اور عیسائی قرآن کو نہیںمانتے تھے۔پس اگر ثابت ہو کہ ۔

(۱۔)قرآن مروجہ کے مضامین یہودیوں اور بدعتی عیسائیوں کے قصوں اور خیالوں کے اور زمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں کے نہ صرف مشابہ بلکہ وہی ہےں۔ اور توریت اور انجیل کے مضامین کے مشابہ نہیں ہیں جن کو خد اکی طرف سے اور سچا مانا گیا ہے تو کیا وحی کی مداخلت مانی جاسکتی ہے؟

(۲۔)قرآن مروجہ کے مضامین بموجب دعویٰ قرآن تو ریت اور انجیل کی تصد یق کرنے والے ہیں یعنی ان کے مطابق ہونے چاہئے حالانکہ مطابق نہیں بلکہ بر خلاف ہیں تو کیا اس سے قرآن کا اعتبار ضائع نہیں ہوتا ؟

(۳۔)اگر سچ مچ تصد یق کی جاتی یعنی اگر قرآن کے مضامین تواریخی اور اخلاقی اگلی کتابوں کے مشابہ ہوتے تو اپنا ایک جدادین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ کیونکہ اس صورت میں قرآن والے مضامین توریت اور انجیل کی موجودگی میں دنیا کے لئے کیا خاص فائد ہ رکھتے جو توریت اور انجیل کو قائم رکھنے سے حاصل نہ ہوتا؟

اس رسالہ انجیل اور قرآن میں ہم دین کے ضروری اور مقدم مضامین کو سامنے رکھ کر یہ کل مقدمہ تحقیق کرینگے تا کہ محمدی برادران کو بھی اس زمانہ میں توریت اور انجیل پر قائم ہو جانے کی راہ نظر آجائے ۔ کیونکہ اب سختی کا زمانہ نہیں ہے۔

(ب)

تمہید کے ماقبل حصہ میں ہم نے توریت اور انجیل کے حق میں قرآن سے چند حوالے جو پیش کئے ہیں۔ وہ اس غرض سے نہیں کئے کہ قرآن کے کہنے سے وہ کتابیں کلام اللہ ٹھہرتی ہیں بلکہ صرف مسلمانوں کی خاصر ایسا کیا ہے ۔ قرآن کی گواہی البتہ مسلمانوں پر زور رکھتی ہے الاہم اہل کتاب کو اسکی پر واہ نہیں ہو سکتی کیونکہ توریت اور انجیل محمد صاحب سے سینکڑوں برس پہلے یہودیوں اور عیسائیوں میں الہامی مانی جاتی رہی تھیں ۔ خدا نے انسان کو دینداری اور عرفان الٰہی میں قائم رکھنے کے لئے بنی آدمی کے درمیان اپنے واقعی تعلقات کو لوگوں کی زبانی روائتوں کے آسرے پر نہ چھوڑ دیا تھا بلکہ ان کا ایک دفتر اپنے نبیوں کی معرفت دیا تاکہ وہ مستند مرجع رہے۔ چنانچہ موسیٰ جس کی معرفت توریت دی گئی تھی لکھتا ہے۔ کہ خداوند نے موسیٰ سے کہا اب تو جا اور میں تیری بات کے ساتھ ہوں اور جو کچھ تو کہیگا ۔ تجھکو سکھلا ونگا(خروج ١٢,١١:٤ )۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یاد گاری کے لئے اسے کتاب میں لکھ رکھا ۔ (خروج ١٤:١٧) اور نبیوں کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں کو کرنڈ سا بنایا تا کہ شریعت کو اور ان پیغاموں کو جنہیں رب الا فواج نے اگلے نبیوں کی معرفت اپنی روح سے بھیجا تھا نہ سنیں ، وغیرہ (زکریا ١٢:٧)۔

سیدنا مسیح نے توریت اور زبور انبیاءکی تصدیق کی کہ انکے پاس موسٰی اور انبیاءتو ہیں ان کی سنیں۔ (لوقا ٢٩:١٦اور بھی لوقا ٤٤,٢٧:٢٤)اور خداوند کے رسول بھی یہی ایمان رکھتے تھے۔(٢پطرس ٢١,٢٠:١)پھر سیدنا مسیح کی اپنی زندگی کی تواریخ بھی انسانی روایتوں کے بس میں نہ چھوڑی گئی تھی بلکہ چشم دید گواہوں نے روح القد س کی تاثیر سے اس کو قلم بند کیا ۔ وہ زندگی ایک الٰہی مکاشفہ تھی ۔ چنانچہ خداوند نے فرمایا تھا کہ ”یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے“ ۔ میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس سے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا۔ وہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔ (یوحنا ٢٦,٢٥,١٠:١٤) اورجب روح القد س تم پر نازل ہوگا تو تم تم قوت پاو گے اور زمین کی حد تک میرے گواہ ہو گے (اعمال ٨:١)اس وجہ سے کُل انجیل جو رسولوں نے قلم بند کی وہی ہے جو سیدنا مسیح نے ان کو دی تھی اور جس کو سیکھنے اور یاد رکھنے کے لئے روح القد س کی مد د کا وعدہ فرمایا تھا۔ یاد رہے کہ انجیل سیدنا مسیح اور اس کے کلام اور کام کانام ہے ۔ جیسے مرقس حواری لکھتا ہے کہ خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی انجیل کا شروع (مرقس ١:١) اور یوحنا رسول لکھتا ہے کہ ”یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں گواہی دیتا ہے اور جس نے ان کو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسکی گواہی سچی ہے “ (یوحنا ٢٤:٢١) اسی انجیل کی بابت پولوس رسول لکھتا ہے کہ ”اگر ہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ اس انجیل کے سوا جو ہم نے تمہیں سنائی کوئی اور انجیل تمہیں سنائے تو ملعون ہوئے“۔(گلتیوں ٨:١) وہی انجیل عیسائیوں کے درمیان محمد صاحب کے زمانہ میں مروج تھی ۔ اور جس کو انہوں نے بھی خدا کی طرف سے مانا اور علیی الحساب کہلایا تھا۔ کہ انجیل عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی۔ گو اسکو کبھی پڑھا نہیں تھا اور اسلئے تصدیق بھی برائے نام ہوئی تھی۔

یہ بھی جان لینا چاہئے کہ توریت اور انجیل میں ایک خاص رشتہ بتلایا گیا ہے جو زائل نہیں ہو سکتا جس کا سیدنا مسیح نے یوں اظہار کیا کہ ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ (متی ١٧:٥) اور بھی (لوقا ٤٤:٢٤اور متی ١٢:٧اور ٤٠:٢٢) اس تکمیل کا احوال انجیل ہے اور یہی سبب ہے کہ عیسائیوں نے کبھی توریت اور زبور اور نبیوں کی کتابوں کو جدا نہیں کیا اور ان کی تلاوت نہیں چھوڑی ۔ مقابلہ کرو ۲ تمتھیس ١٧,١٥:٣۔انجیل نے اپنے تیئں عہد عتیق کی بنا پر قائم کیا ہے کیونکہ وہ خداوند سچے کا کلام ہے او ریہودیوں کی حدیثوں اور بناوٹی دستوروں کو دور کیا ہے کیونکہ وہ انسان کے احکام تھے ۔ (متی ٩,٦:١٥)ان سب باتوں کی کیفیت بھی رسالہ ہذا میں ظاہر کی جائے گی ۔


 ١  کسی کا تب توریت کی نقل کرتے دیکھا اور گمان کر لیا کہ خود لکھ کر اس اﷲ کی کتاب کہہ دیگا۔ اس وقت قرآن کی نقلیں کر نے کا موقعہ نہ پہنچا ہو گا۔ اور اس لئے اوروں کے حق میں ایسا ناجائز گمان کیا ۔ اور الزام دیا کہ ایسا کرنے سے کتاب والوں نے اپنا دین بدل ڈالا ۔

Pages