November 2011

Fanaticism is an evil Disease and Sin

تعصب بہت نامُراد مرض اور گناہ کبیرا ہے

مذہب کے نام پر تعصب انسان کوجنگلی اورحیوان سے بھی بدتربنادیتا ہے۔یہ تعصب ہی ہےجوآج کے دورِجہالت سے نظر چرانے والے مسلمانوں کو گذشتہ انبیاءکے سوانح حیات اوران کے اوصاف حمیدہ اورپاک الہٰی کلام (پاک توریت اور پاک انجیل ) نہیں پڑھنے دیتا۔ ہم میں سے کتنے ہی ایسے نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نے کبھی پاک نوشتوں یعنی توریت ۔زبوراور انجیل کی صورت بھی دیکھیں ہو جنہوں نے پاک انجیل میں سیدنا مسیح کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کیا ہو اور مسیح کی روحانیت اورالہٰی سچائی سے بھرے ابدی زندگی بخش واعظ سے فائدہ اٹھا یاہو۔ ایک مرتبہ کسی مولانا صاحب کہا گیا کہ وہ انجیل شریف میں سیدنا مسیح کے خطبتہ الجبل جوبے حد ہی موثر اوردلکش اورنہایت ہی سبق آموز ہے اسے ایک نظر پڑھ سکے !تومولانا صاحب نے فرمایا کہ ۔ جناب !مرنے سے پہلے میرا ایمان توخراب نہ کرو۔ کیا کہنا اس شکستہ اور بے بنیاد کمزور اورباطل ایمان کا ۔ دنیائے اسلام ایسے ہی مسلمانوں سے بھری پڑی ہے جن کا ایمان نہ توشیکسپئر پڑھنے سے خراب ہوتا ہے اورنہ ارسطو اورنہ کوک شاستر کے مطالعہ سے۔ لیکن خدا ئے پاک کے مقدس کلام انجیل کوجوسیدنا مسیح (کلمتہ اللہ اور روح اللہ ) کی وساطت سے انسانیت تک پہنچا ۔چھوبھی لیں توان کا سناسنایا ایمان تباہ اوربرباد ہوجاتاہے اوریہ ہے غلط بینی اورکج فکری اورکج فمی کی انتہا۔ پہلے پہل پاکستان کے ایک شہر روالپنڈی میں صرف گارڈن کالج ہی ہوا کرتا تھا جس کا نظم ونسق امریکی مشن کے ہاتھ میں تھا۔ ایک مومن مسلمان شخص نے غریب ہونے کے باوجود اپنا بچہ لاہور کے ایک کالج میں داخل کرادیا اوراپنے ہی گھر کے کالج سے فائدہ نہ اٹھایا۔ وجہ پوچھنے پر وہ فرمانے لگے کہ گارڈن کالج میں انجیل بھی پڑھائی جاتی ہے جس سے متاع ایمان کے غارت ہوجانے کا خطرہ ہے۔ان کوجواب دیا کہ بی۔ اے کے نصاف میں فارسی ۔اردو اور انگریز شعراء کا عشقیہ کلام بھی شامل ہے جس میں عشق بازی کی تعلیم اورعیاشی کی ترغیب دی جاتی ہے اورایرانی شاعری عریاں مرد پرستی کا سبق دیتی ہے اور حرامکاری اور شراب نوشی کی تاکید کرتی ہے اوراللہ اور حضرت محمد کا تمسخر اور مذاق اڑاتی ہے۔ ۔۔۔ ان عیاشائیوں سے توآپ کے لاڈلے کا ایمان خراب نہیں ہوتا بلکہ تازہ ہوجاتاہے ۔لیکن اگرسیدنا مسیح کے یہ ارشادات سن پائیں کہ !

مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے ۔

مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے ۔

مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے ۔

مبارک ہیں وہ جو نیکی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے ۔

مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔

مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ اللہ وتبارک تعالیٰ کو دیکھیں گے ۔

مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ پروردگار کے پیار ے کہلائیں گے ۔

مبارک ہیں وہ جو نیکی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ " آسمان کی بادشاہی " ان ہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہرطرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہوگے ۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اس لئے کہ لوگوں نے ان نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا۔

نمک اور نور

تم زمین کے نمک ہو لیکن اگر نمک مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا ؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سوا اس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے ۔ تم دنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پربسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔ اور چراغ جلاکر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان پر رکھتے ہیں تو اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے پروردگار کی جو آسمان پر تمجید کریں۔

اِکمال ِ شریعت

یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیاہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے ۔ پس جو کوئی ان سے چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کوسکھائے گا وہ "آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلا ئے گا ۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری نیکی فقہیوں اور فریسیوں کی نیکی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے ۔

غصہ کے بارے میں درس

تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہو ں جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدر عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو اس کو احمق کہے گا وہ آتش ِ جہنم کا سزا وار ہوگا۔ پس اگر تم قربان گاپر اپنی قربانی پیش کررہے ہو اور وہاں تمہیں یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربان گاہ کے آگے اپنی قربانی چھوڑ دو اور جاکر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کرو۔ تب آکر اپنی قربانی پیش کرو۔ جب تک اپنے مدُعی کے ساتھ راہ میں ہو اس سے جلدصلح کرلو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدُعی تمہیں منصف کے حوالہ کردے اور منصف تمہیں سپاہی کے حوالہ کردے اور تم قید خانہ میں ڈالےجاؤ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم کوڑی کوڑی ادا نہ کردو گے وہاں سے ہرگز نہ چھوٹو گے۔

زنا کے بارے میں درس

تم سن چکے ہو کہاگیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے برُی خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا ۔ اگر تمہاری دہنی آنکھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تواسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دوکیوں کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تمہارے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تمہارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے ۔اور اگر تمہارا دہناہاتھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اس کو کاٹ کر اپنے پاس سےپھینک دو کیونکہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تمہارے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تمہارا سارا بدن جہنم میں نہ جائے ۔

طلاق کے بارے میں درس

یہ بھی کہا گیا تھاکہ جو کوئی بیوی کو چھوڑ ے اسے طلاق نامہ لکھ دے ۔لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جوکوئی اپنی بیوی کو حرام کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑدے وہ اس سے زنا کراتاہے اور جوکوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے ۔

قسم کے بارے میں درس

پھر تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں پروردگار کے لئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا ،نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ رب العالمین کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے۔نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تم ایک بال کو بھی سفید یا کا لا نہیں کرسکتے ۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے

بدلہ لینے کے بارے میں درس

تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تمہارے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو۔ اور اگر کوئی تم پر نالش کرکے تمہارا کرُتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دو۔اور جو کوئی تمہیں ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کےساتھ دو کوس چلے جاؤ۔جو کوئی تم سے مانگے اسے دو اور جو تم سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑو۔

دشمنوں کے لئے محبت

تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت ۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنےدشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔ تاکہ تم اپنے پروردگار کے جو آسمان پر ہے پیارے ٹھہروکیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور دیانتدار اور بددیانت دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ مشرکین بھی ایسا نہیں کرتے ؟ پس چاہیے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا پروردگار کامل ہے۔

خیرات کے بارے میں درس

خبردار اپنے دیانتداری کےکام آدمیوں کےسامنے دکھانے کے لئے نہ کرو۔ نہیں توتمہارے پروردگار کے پا س جو آسمان پرہے تمہارے لئےکچھ اجر نہیں ہے۔

پس جب تم خیرات کرو تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا منافق عباد ت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے ۔ بلکہ جب تم خیرات کرو تو جو تمہارا دہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تمہارا بایاں ہاتھ نہ جانے ۔ تاکہ تمہاری خیرات پوشیدہ رہے ۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر دے گا۔

دعا کے بارے میں درس

اور جب تم دعا کرو تو منافقوں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہوکر دعا کرنا پسند کرتےہیں تاکہ لوگ ان کودیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے ۔ بلکہ جب تم دعا کرو تو اپنی کوٹھڑی میں جاؤ اور دروازہ بند کرکے اپنے پروردگار سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کرو۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر عطا کرے گا۔ اور دعا کرتے وقت مشرکین کی طرح طرح بک بک نہ کروکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سنی جائے گی۔پس ان کی مانند نہ بنوکیوں کہ تمہارا پروردگارتمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کن کن چیزوں کے محتاج ہو پس تم اس طرح دعا کیا کروکہ اے ہمارے باپ (پروردگار) آپ جو آسمان پر ہیں آپ کا نام پاک مانا جائے ۔ آپ کی بادشاہی آئے۔ آپ مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہمار ی روز کی روٹی آج ہمیں عطا کیجئے ۔اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے آپ بھی ہمارے قرض معاف کیجئے ۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لائیے بلکہ برائی سے بچائیے ۔(کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ آپ ہی کے ہیں آمین۔) اس لئے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کروگے تو تمہارا پروردگار بھی تم کو معاف کرے گا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا پروردگار بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا

روز ہ کے بار ے میں درس

اور جب تم روزہ رکھو تو منافقین کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑ تے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجرپاچکے ۔ بلکہ جب تم روزہ رکھو تو اپنے سر میں تیل ڈالو اور منہ دھو ۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں ہے تمہیں روزہ دار جانے ۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر عطا کرے گا۔

آسمان میں خزانہ

اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتاہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ۔ کیونکہ جہاں تمہارا مال ہے وہیں تمہارا دل بھی لگا رہے گا۔

بدن کا چراغ

بدن کا چراغ آنکھ ہے۔ پس اگر تمہاری آنکھ درست ہو تو تمہارا سارابدن روشن ہوگا ۔ اور اگر تمہاری آنکھ خراب ہو تو تمہارا سارا بدن تاریک ہوگا۔پس اگر وہ روشنی جو تم میں ہے تاریکی ہو تو تاریکی کیسی بڑی ہوگی !۔

خدا تعالی ٰاور دولت

کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا تعالیٰ اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے ۔اس لئے میں تم سے کہتا ہوں اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاتتے ۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا پروردگار ان کو کھلاتا ہے ۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طر ح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان وشوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبُس نہ تھا۔پس جب پروردگار میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقاد و تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اسلئے فکر مند ہوکر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئں گے یاکیا پہنے گئے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں مشرکین رہتے ہیں اور تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی سچائی تلاش کرو تو یہ سب چیزيں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرلے گا ۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے ۔

عیب جوئی

عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے ۔کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ تم کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتے ہو اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتے ؟ اور جب تمہاری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تم اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتے ہو کہ لاؤ تمہاری آنکھ سے تنکا نکال دوں؟ اے منافقو پہلے اپنی آنکھ میں سے شہتیر نکالو پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکو گے۔

پاک چیزکتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ان کو پاؤں تلے روندیں او رپلٹ کر تم کو پھاڑیں ۔

مانگو ، ڈھونڈو، پاؤ

مانگو تو تم کیا عطا کیا جائے گا۔ڈھونڈو تو پاؤگے ۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا۔ تم میں ایسا کون سا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے ؟یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے ؟ پس جب کہ تم برُے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا پروردگار جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزيں کیوں نہ عطا فرمائے گا ؟پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کروکیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔

تنگ دروازہ

تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازه چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دراوزہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔

درخت اور اس کے پھل

جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگرباطن میں پھاڑنے والے بھیڑئیے ہیں۔ان کے پھلو ں سے تم ان کو پہچان لوگے ۔کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتاہے اوربرادرخت برا پھل لاتاہے ؟ اچھا درخت براُ پھل نہیں لا سکتا اور نہ برُا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے ؟ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے ۔

میں تمہیں نہیں جانتا

جو مجھ سے اے مولا اے مولا کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک "آسمان کی بادشاہی " میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے پروردگار کی رضا کو پورا کرتا ہے۔ اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے مولا ، اے مولا ! کیا ہم نے آپ کے نام سے نبوت نہیں کی اور آپ کے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور آپ کے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے ؟ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس چلے جاؤ۔

دو معمار

پس جوکوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتاہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بیوقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا ۔ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہوگیا۔

ایرانی عشقیہ اورنازیبہ شاعری سے تومسلمان لاڈلے کے ایمان کوصدمہ نہیں آتا مگر انجیل کی آسمانی سچائی سے مسلمان کا سفینہ(ایمان کا جہاز) اس انجیلی صداقت کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ بڑے میاں سن کر کہنے لگے ۔ارے میاں! تمہاری کیا بات ہے تمارے الحاد کا چرچا توسارے ملک میں پھیل چکا ہے ہمیں کیوں غرق کرنے لگے ہو۔ بات یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان ہے ہی بڑا نازک ۔ ذراسی ٹھیس لگ جائے تولالٹین کے شیشے کی طرح چورچور ہوجاتاہے اور اسلام کو خطرہ پڑجاتاہے۔ کالج کے چند طلبہ کے ہمراہ سفر کے دوران ایک اسٹیشن سے ایک مولانا صاحب ریل کے ڈبہ میں تشریف لے آئے اورفرمانے لگے کہ تم لوگوں کا لباس (کوٹ پینٹ) غیر شرعی غیر رسولی اور غیر قرآنی ہے۔ اس لئے تم کافر ہو۔ مطلب یہ کہ اگر مسلمان پتلون پہنے توکافر ہے ۔ سائنس پڑھے توکافر ہے ۔ انجیل کا مطالعہ کرے تو کافر ہے۔ خانقاہوں میں سجدہ نہ کرے توکافر ہے ۔ مولانا صاحب کو حلوہ نہ کھلائیں توکافر ہے۔ اٹھیں توکافر ۔ بیٹھیں توکافر ۔ خدارہ بتائیں کہ مسلمان مولانا کی کافرانہ سنگ بازی سےکیسے اپنے ایمان کو بچائیں۔ عزیز قاری ! جب کہ آپ تورات اور زبور اورانجیل کوخدا کا کلام قبول کرتے توان کے مطالعہ سے آپ کا ایمان ہرگز خراب نہیں ہوگا بلکہ صراط مستقیم (راہ حق اور زندگی ) کوسیدنا مسیح میں حقیقی طورپر اپنے گناہوں کی نجات اورسیدنا مسیح میں ابدی زندگی کی صورت میں پاسکیں گے۔

PDF File: 

Bible or Quran

The Bible or the Quran
By
The Late Allama G.L.Thakurr Dass

A.P Mission Lahore
1910 A.D

Compares the contents of the Quran with the Jewish and Christian Scriptures, showing that the Quran has borrowed from the Talmud and Apocryphal Christian writers.

March 22, 2011

 

Bible or Qur'an

Bible or Qur'an text

 

فصل دوم

صلیب اقوامِ عالم میں

چینی:

عہد قدیم میں چینیوں کا خیال تھا کہ خدا نے کائنات صلیب کی شکل وصورت پر بنائی ہے۔

وسطی امریکہ کے لوگ:

وسطی امریکہ کے باشندوں کے نزدیک صلیب ان چار اطراف کی نشان دہی کرتی تھی جس سے بارش آتی ہے۔

میکسیکو:

میکسیکو کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صلیب زندگی کا درخت ہے ان کا ایمان تھا کہ صلیب پر آفتاب کا دیوتا قربان ہوا ۔

یونانی:

یونانیوں کی نگاہ میں اپالودیوتا کا عصائے شاہی صلیب کی شکل کا تھا اپالو دیوتایونانیوں کے نزدیک سورج کا دیوتا تھا گویا سورج کے دیوتا کا عصائے شاہی صلیب تھی۔

مصری:

مصری صلیب کو کلید حیات تصور کرتے تھے وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ دیوتا صلیب کے ذریعہ سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے مصر کی ایک پُرانی تحریر سے ظاہر وعیاں ہے کہ دیوی انوکت نے اسرٹی سن سوئم جوفراغنہ مصر میں سے تھا صلیب کو اس کے نتھنوں کے قریب کرکے کہا" میں تجھے زندگی استحکام اور تقدس عطا کرتی ہوں"۔

فینکی:

حتیوں اور فنیکیوں نے تصور صلیب مصریوں سے لیا حتیٰ وفنیکی بادشاہوں اور سردار کاہنوں کے ہاتھ میں صلیب زندگی کے درخت کے علامت متصور ہوتی تھی ان کے نزدیک صلیب عستارات دیوی کی مظہر تھی عستارات کے معنی ہیں وہ جوزندگی عطا کرتی ہے۔

ہندوستانی:

ہندوستان میں صلیب کا نشان سوا ستیکا کہلاتا تھا ۔ بدھ مت کے پیرو اس نشان کوبہت استعمال کرتے تھے ہندوستان سے یہ نشان بدھ مت کے مبلغین کے ذریعے چین اور جاپان میں متدادل ہوا۔

چینی سواستیکا کوسرسبزی وخوشحالی اور لمبی عمر کا باعث تصور کرتے تھے جاپانیوں کی نگاہ میں بھی سواستیکا خوشحالی وسرسبزی کا نشان تھا سواستیکا سورج کا نشان متصور ہوتا تھا۔ ہندوؤں میں اب بھی یہ نشان مستعمل ہے یہ نشان نیک فال رضا جوئی برکت خوشحالی زندگی اور سلامتی کا نشان سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ میاں بیوی اور ہندوستان کی چار ذاتوں کے میل ملاپ کا نشان متصور ہوتا رہاہے۔

یہ حقیقت ہے کہ طلوع آفتاب سے پیشتر جس طرح صادق کی روشنی فضاؤں میں پھیل کر طلوع آفتاب کا مژدہ سناتی ہے ۔ اسی طرح ازلی کلمتہ جس کے ذریعہ سے تخلیق کائنات ہوئی اورجوکائنات کا مالک ہے اُس نے اپنی ہی خارجی قربانی اوراپنے ہی مکاشفہ خارجی کا تصور اقوام عالم کے دلوں میں جاگزیں کردیا۔

باب اول

الصلیب فی التاریخ

فصل اول

ازلیت صلیب

مسیحی علم الہیات میں ذات حق تعالیٰ کا مکاشفہ اور صلیب لازم وملزوم ہیں ۔مکاشفہ کا لفظ کشف سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں "کھولنا" ظاہر کرنا" یا معائنہ کرنا" مکاشفہ باب مُفاعلَہ پر ہے جس کا مفہوم ہے دو چیزوں کا ایک دوسری کوظاہر وباہر کرنا۔

کائنات وجود مجازی ہے اور وجود ظہور اور وجود وشعور لازم وملزوم ہیں کائنات کی ہر شے جووجود مجازی کی مصداق ہے اپنے ظہور وبروز کا تقاضا کرتی ہےاوراس تقاضے ظہور کی جہت ہی سے اس کا وجود وجود مجازی ہے اگر وجود مجازی کی یہ شان اور یہ خرابی ہے کہ وہ اپنے ظہور وبروز اپنے مکاشفہ کی متقضی ہو تو اللہ تعالیٰ جووجودحقیقی ہے افضل واکمل طورپر اپنے ظہور وبروز اوراپنے مکاشفہ کا متقاضی ہے۔

کائنات جووجود مجازی ہے وجود حقیقی کا کامل ظہور ومکاشفہ نہیں اللہ کی ذات وصفات کا یہ ظہور ومکاشفہ حادث وغیر کامل ومحدود وناقص ہے اس کا یہ مکاشفہ ۔مکاشفہ خارجی ہے اگرمکاشفہ خارجی کی حقیقت میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی تومکاشفہ باطنی وازلی اعلےٰ وارفع طورپر شکوک وظنون سے بالا تر ہے کیونکہ غیر ممکن ہے کہ اللہ ایک وقت مکاشفہ سے خالی ومحروم ہو اورپھر ایک وقت وہ مکاشفہ خارجی کا محتاج ومفتقر ہوجائے لہذا اللہ تعالیٰ کی کاملیت اس امر کی متقضی ہے کہ اس کا مکاشفہ ۔مکاشفہ ازلی وباطنی اورمکاشفہ خارجی اس کا ایک نتیجہ وثمرہ ہومکاشفہ ازلی اور محبت ازلی سے توقربانی ازل بھی ثابت ہے لیکن یہ سب بطون ذات میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا وجود ازلی اپنے کلام سے ازل ہی سے مختص وممتاز ہے کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت اورکسی آن علم وحکمت کے بغیر ہو اور اس کا علم وحکمت ازل ہی کلام ازلی ہے اوراس کا کلام ازل ہی ازل میں اس کاظہور مکاشفہ ہو اوراُسی نے ازل میں ذات اللہ کے بطون میں اسے ظاہر وباہر اوراس کا مکاشفہ کیا غیر ممکن ومحال ہے کہ اللہ کا وجود ازلی ہو اور حیات ازلیہ سے ممتاز ومختص نہ ہو کیونکہ وجود اور کلامِ حیات کے بغیر نہیں ہوسکتے ۔انجیل میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے جس طرح باپ(وجود ازلی ) اپنے آپ کو زندگی میں رکھتا ہے ۔اسی طرح اس نے اپنے بیٹے (کلام ازلی) کوبھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے(انجیلِ عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع 5آیت 26)۔ اسی لئے کہا گیا حیات ازلی یعنی روح القدس باپ بیٹے اور روح القدس سے صادر ہے۔

کلامِ ازلی نے علم وحکمت ہونے کی جہت سے ازل میں وجود ازلی (باپ) کو جانا اور تمام کائنات کواس کی تخلیق سے پیشتر جانااس لئے ازل میں وہ وجود ازلی کا مکاشفہ اوراس کوظاہر وکشف کرنے والااور تاریخ عالم میں اس کا ظہور اکمل اورمکاشفہ خارجی ٹھہرا۔

وجود ازلی اورکلام ازلی اورحیات کے سریان باہمی (Inter Penetiation) کی جہت سے اللہ محبت ہے اورمحبت قربانی پر دلات کرتی ہے ۔ازلی قربانی کا تقاضا توسریان باہمی سے ہوا لیکن اس ازلی قربانی کا اختصاص کلام ازلی سے ہوا توقربانی خارجی کا اختصاص بھی اسی سے ہوا قربانی خارجی اللہ کی محبت کا ثبوت اکمل ہے خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا پیارا بیٹا بخش دیا تاکہ جوکوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔(یوحنا 3باب آیت 16)۔

ازلی قربانی کے سلسلہ میں آیا ہے" اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اس برہ کی کتاب میں لکھے نہیں گئے جوبنائے عالم کے وقت سے ذبح ہواہے" (مکاشفہ 13باب 8آیت)۔ مذبوح ازلی کلام ازلی ہے کیونک مکاشفہ ازلی اورحکمت وعلم ازلی ہونے کی جہت سے قربانی خارجی کا ارادہ ازلی اور منصوبہ ازلی اسی میں کیا گیا یعنی کلام ازلی (بیٹے) کے خارجی قربانی اورمکاشفہ خارجی ہونے کاارادہ ازلی ہی قربانی ازلی ہے چنانچہ لکھا ہے " اس ازلی ارادہ کے مطابق جواس نے ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح میں کیاتھا"(خطِ ا فسیوں 3باب 11آیت)۔ اس نظریہ کی تشریح وتوضیح یوں بھی کی گئی ہے "تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ بُرے یعنی سیدنا مسیح کے بیش قیمت خون سے اس کا علم توبنائے عالم سے پیشتر تھا۔ مگر اس کاظہور اخیر زمانے میں تمہاری خاطر ہوا(1پطرس 1باب آیت 20)۔

فصل دوم

کائنات میں مکاشفہ وصلیب کی تجلیات

کائنات جوازلی کلمتہ اللہ یا ازلی کلام کے ذریعہ سے تخلیق کی گئی ازلی کلمتہ اللہ کی مظہر ہے وہ ازلی کلام کی ذات وصفات اور شیون وافعال کی تجلی گاہ ومظہر اورمکاشفہ ہے ۔ کس لئے کہ کائنات کی محدودیت کلمتہ اللہ کی لامحدودیت پر اوراس کا حدوث ازلی کلمتہ اللہ کے قدم پر اور ناقص وادنیٰ جمال وجلال ازلی کلمتہ کے کامل جمال وجلال پر اس کا تغیر ازلی کلمتہ اللہ کے عدم تغیر پر اور شمس وقمر اور ستاروں کا نور ازلی کلمتہ اللہ کے حقیقی اور افضل واکمل نور پر دلالت کرتاہے ظاہر ہے کہ تمام اشیائے کائنات قربانی کی جہت سے مکاشفہ ہیں اگر سورج اور چاند اور ستارے اپنا نور فضاؤں پر نچھاور نہ کریں تواُن کا ظہو ر وبروز کیسے ہو؟ اوراگر لالہ وگل اور نسیم سحر اپنی خوشبوئیں نہ پھیلائیں اوراپنی دلکش رعنائی دوسروں تک نہ پہنچائیں توازلی کلمتہ اللہ کے جمال اوراس کی پاکیزگی کا مکاشفہ کیسے ثابت ہوں۔

علاوہ ازیں کائنات جوازلی کلمتہ اللہ کا ادنیٰ وناقص مکاشفہ ہے اس کی بقا پر موقوف ہے غور کیجئے جمادات اپنی قوتیں اوراپنے جوہر نباتات پرقربان کرتی ہیں اورنباتات ۔حیوانات اور انسان کی غذا اورخوراک بنتی ہیں اورانسان حیوانات کورام کرکے ان سے کام لیتاہے اوران کاگوشت کھاتا اور زندگی حاصل کرتاہے۔

مانا کہ ازلی کلمتہ اللہ نے انسا کواپنی شکل وصورت پر پیدا کیا اوراس میں اپنا دم پھونکا اوراسے اپنی رفاقت وقربت کا اعزاز بخشا لیکن انسان اپنی آزاد مرضی اور خود مختاری سے گناہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا انسان کی شکل وصورت مسخ ہوگئی اس کی طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ ازلی کلمتہ اللہ کی رفاقت وقربت سے محروم ہوگیا۔

گناہ سے بیشتر توباغ عدن میں زندگی کے درخت تک جانے کے لئے ایک سیدھا راستہ تھا لیکن گناہ کے بعد اس راستہ پر کروبیوں اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کورکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں اوراسی طرح سے زندگی کے درخت تک والے سیدھے راستہ کوکاٹ دیا گیا جس سے چار راستے پیدا ہوگئے اور سیدھا راستہ۔ سیدھا راستہ نہ رہا یہ چار راستے صلیب پر دلالت کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی لاحق ہوئی کوئی ایسی شخصیت ہوجوکائنات سے اور بالا ئے کائنات ہو جو ناسوت دلاہوت جدوث وقدم کی جامع ہوصلیب پر مصلوب ہوکر وجود حقیقی کے بے حد انصاف جوگناہ آدم کے باعث موجزن ہو ا اور وجود حقیقی کی محبت کوظاہر کرکے اس کےجلال وجمال کا مکاشفہ بنے صلیب کی چاروں سمتیں اس امر پر دال ہیں کہ وہ تمام اکنافِ عالم کے لئے ہے صرف صلیب پر ہی متجسد کلمتہ اللہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر خدا اورانسان میں میل ملاپ کراسکتا تھا۔

فیوض وبرکات

تاریخ شاہد ہے کہ کلمتہ اللہ کے تجسم کے وقت سے وہ تمام خوبیاں اور اُمیدیں نمودار ہوئیں جوموجودہ زمانہ کی تہذیب کے سب سے زیادہ خوبصورت زیور ہیں۔ اگرچہ بعض صحت بخش قوانین آپ کے ظہور سے پہلے ہی دنیا میں رائج تھے۔لیکن " ترقی " کا لفظ اُن کی لغت میں نہیں ملتا۔ مگر کلمتہ اللہ کا کلام ایسا موثر اور ترقی پذیر ہے کہ جس نے نہ صرف ماضی میں مُردہ قوموں کے دلوں میں نئی جان ڈالی بلکہ آج بھی وہ چشمہ حیات رواں ہے۔

کلمتہ اللہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے انسانی شخصیت کی عظمت کا سبق تاریخ عالم میں سب سے پہلے دیا۔ آپ سے پہلے ساری مہذب دنیا پر نظر دوڑائیے ۔ یونان کا فلاسفر ارسطو یہ کہتاہوا نظر آئے گا کہ یونانیوں کے لئے غیر ملکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ واجب ہے جو وہ حیوانات کے ساتھ کرتے تھے۔ رومی شوکت اور تمدن کے علمبردار نوع انسان کو غلام بنانے اوراُن کو خونخوار درندوں سے پھڑوادینے کے لئے تقریریں کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ہندوستان کے کرشن مہاراج نہایت استقلال ومتانت سے ارجن کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار چلانے کے لئے اُبھارتے اور اشتعال دلاتے نظر آئیں گے نیز ملاحظہ ہو ۔ سورہ تحریم آیت ٩ میں یو مرقوم ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ: اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

اور اسی طرح سورہ انفال کی آیات ٦٦ سے ٦٩ میں یوں مرقوم ہے:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ: پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے ۔اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔تو جو مالِ غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لیے) حلال طیب رہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔اے پیغمبر جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

اس کے برعکس کلمتہ اللہ نہایت عدیم اور شفقت آمیز لہجے میں فرماتے ہیں کہ " تمہارے آسمانی باپ کی یہ مرضی کہ ان چھوٹوں میں سے کوئی ہلاک ہو"(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت متی رکوع ١٨آیت ١٤)۔ سچ تویہ ہے کہ خود اذیتیں سہیں مگر مدافعت کے لئے ہاتھ نہ اٹھایا۔ ستم سہے کرم کئے۔ گالیاں سنیں اور دعائیں دیں۔ کسی کا گلا کاٹنے کا کیا ذکر اپنی جان دوست ودشمن کے فدیہ میں دے دی۔

احترامِ نفس

مختصر یہ کہ کلمتہ نے احترام نفس کا سبق دے کر ہرقسم کی خون ریزی اور ایذارسانی کا دروازہ بند کردیا۔ آپ سے پہلے قابلِ قدرہستی وہ کہلاتی تھی جس نے زیادہ سے زیادہ انسانی زندگیوں کوموت کے گھاٹ اتارا ہو ۔ جس نے شہر کے شہر تاخت وتاراج کئے ہوں۔جس نے بے شمار تعداد میں غلام بنائے ہوں۔ چنانچہ جولیس سیزر نے معرکہ زیلا کی فتح کے بعد بڑے تکبر اور بڑی خود پرستی سے کہاکہ " میں آیا میں نے دیکھا اورمیں نے فتح کیا"۔ لیکن اس کے برعکس مسیحیت کا بانی اپنی ظفر مندی اور کامرانی کا صُور یوں پھونکتاہے۔کہ " ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اوراپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے"(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت متی رکوع ٢٠ آیت ٢٨)۔ اوراعلان فرمایاکہ" جوکوئی اپنی جان بچائے گا وہ اُسے کھوئے گا اورجوکھوئے گا وہ اُس کو بچائے گا(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت متی رکوع ١٦ آیت ٢٥)۔ اس فرمان کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی جماعت میں خود نثاری کا جذبہ پیدا ہوگیا اوراُس نے دنیا کی بھلائی میں اپنا تن من دھن لگادیا۔ غرضیکہ مسیحیت کی رُو سے کامیاب شخص وہ ہے جو اوروں کی بہتری کے لئے سب کچھ حتی کہ اپنی قیمتی جان تک قربان کردے۔ کیونکہ بدی کا جواب نیکی ہو تو ایسا پروگرام افراد اور اقوام کی زندگی اور بقا کا موجب ہوتاہے ۔ لیکن اگر بدی کا جواب بدی سے دیا جائے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے ۔ توایسا لائحہ عمل افراد اور اقوام کے فنا کا باعث ہوتاہے۔ اس صداقت کی مثال اپنے ملک کی دورِ حاضرہ کی تاریخ سے ملے گی کہ کس طرح ہمارے محکوم ملک نے عدم تشدد کواختیار کرکے بقا اور آزادی حاصل کی اور ثابت کردیا کہ کلمتہ اللہ کے صبرو تحمل کے اُصول کے ذریعے ہی دنیا میں امن عامہ قائم رہ سکتاہے۔

رحمت اللعالمین

یوں تو" خدا نے کسی قوم کے بے گواہ نہیں چھوڑا (انجیل شریف اعمال الرسل رکوع ١٤: ١٦ تا ١٧ آیت) اور خاص طورپر بنی اسرائیل میں بے شمار نبیوں کو بھیجا جنہوں نے اخلاق کا سبق بھی دیا اور سیدھی راہ بھی بتلائی بلکہ ایسا نظامِ عمل دیا۔ جس کی نظر اہل دنیا پیش نہیں کرسکتے ۔ لیکن یہ سب مصلح اور انبیاء اپنے اپنے زمانے اوراپنی اپنی قوم کے درمیان روشن چراغ کے طورپر تھے۔ لیکن اُن میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو منور ہونے سے پیشتر خود تاریک نہ رہا ہو اور عہد طفولیت ہی سے نوروہدایت کے انمول نعمتوں سے مالا مال ہو۔ نیز ملاحظہ حل القرآن جلد دوازدھم صفحہ ١٥٤٤ ۔ غرضیکہ کلمتہ اللہ کے سوا کوئی ہادی نبی یا رشی ایسا نہیں گزرا جس کے حق میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ " عالم بالا کا آفتا ب ہو"( انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت لوقا رکوع ١آیت ٧٨)۔ یایہ کہ" وہ خدا کے جلال کا پرتو اوراُس کی ذات کا نقش ہے"( انجیل شریف مکتوب الیہ اہل عبرانیوں رکوع ١٢آیت ٨)۔ آپ درحقیقت بنی نوع انسان کے درمیان ہادی نبی یا رشی کی حیثیت سے تشریف نہ لائے تھے بلکہ رحمت ہدایت اور نجات تھے۔آپ صراطِ مستقیم کے پیامبر نہ تھے یا صرف اپنے ساتھ سیدھی راہ اور چلنے کا کوئی ہدایت نامہ لانے والے نہ تھے۔ بلکہ آپ اپنے ساتھ خدا کو لائے تھے " جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کودیکھا"۔ آپ کا دعویٰ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی مصلح پیغمبر یارشی نہ آئے گا۔ کیونکہ آپ ہی رہتی دنیا تک ہر شخص ہر قوم ہر ملک اورہرزمانہ کے لئے نجات ہیں"۔ کیونکہ خدا ایک ہے اورخدا اورانسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک ہے"۔( انجیل شریف مکتوب الیہ اول تمیتھس رکوع ٢آیت ٥)۔

چشمہ فیض

سچ تویہ ہے کہ انبیائے کرام آپ ہی کے مختلف آئینے تھے اگرکسی میں صدق ظاہر ہوا یا کسی میں علم وحیا اگر کوئی عدل کا پیکر بنا یا اگرکسی میں شجاعت ظاہر ہوئی یا اگر کوئی رشدوہدایت کی انمول نعمتیں لے کرآیا۔ یہ سب جلوے کلمتہ اللہ کی ذات یا برکات کے مختلف آئینے تھے۔ جیسے اگر کسی محل میں مختلف آئینے ہوں توہر آئینہ میں انسان کی صورت یکساں نہیں ہوتی۔ مختلف آئینے مختلف ہستیوں اور کیفیتوں کوظاہر کرتے ہیں یعنی جس طرح شیش محل کا ہر آئینہ نئے حُسن نئے جلوے اور نئی شان کا حامل ہے۔ اسی طرح کلمتہ اللہ کے مختلف جلوے انبیاء میں نظر آتے ہیں۔

تکملہ ظہور

چنانچہ کتاب مقدس سے یہ ثابت ہے کہ خدائے قادر مطلق نے اپنے سارے کام اپنے بیٹے ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کے ذریعے انجام دئیے (انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت یوحنا رکوع ١آیت ٣ اور مکتوب الیہ اہل عبرانیوں رکوع ١آیت ٣)۔ حتٰی کہ سیدنا مسیح کا رُوح نبیوں میں رہ کر انسان کے فائدے کے لئے کام اور کلام کرتا رہا۔( انجیل شریف مکتوب الیہ اول حضرت پطرس رکوع ١آیت ١١)۔ اور بصورت فرشتہ حضرت یوسف کو ساری آفتوں سے بچایا(توریت شریف کتابِ پیدائش رکوع ٤٨آیت ١٦)۔ اور حضرت موسیٰ کو اسرائیل کی قیادت کے لئے بلایا(توریت شریف کتابِ خروج رکوع ١٤ آیت ١٩۔ رکوع ٢٣ آیت ٢٠ تا ٢٣۔ رکوع ٣٣آیت ٢ ۔١٢۔ ١٥ +٣٣+٣٤۔ کتابِ گنتی رکوع ٢٠ آیت ١٦۔ گنتی رکوع ٢: ١)۔ پھر جدعون کواسرائیل کی رہائی کے لئے مقرر کیا (گنتی ٦: ١١۔ ٢٣)اور سمسون کو پیدائش ہی سے عجیب وغریب طاقت سے نوازا (قضات ١٣: ٣۔ ٢٥)۔ حتیٰ کہ دانی ایل کے ساتھیوں کو آگ سے بچانے کے لئے جلتی بھٹی میں ظاہر ہوا (دانی ایل ٣: ٢٥)۔ پھر دانی ایل کو شیروں سے چھڑایا۔(دانی ایل ٦: ٢٢) اور اسرائیل کو ساری مصیبت سے بچایا (زبور شریف رکوع ٣٤: آیت ٧۔صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع ٦٣: ٩)۔ اور وہ کوہ سینا پر اسرائیل کوشریعت دی (اعمال الرسل ٧: ٣٨) الغرض کلمتہ اللہ حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کام وکلام فرماتے رہے(مکتوب الیہ اہل عبرانیوں ١: ١+ امثال ٣١: ٨)۔ اور اس زمانہ کے آخر میں بصورتِ مسیح ظاہر ہوناآپ کے مختلف ظہوروں کا تکملہ ہے پس"ہمارے نزدیک توایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اورہم اُسی کے لئے ہیں اورایک ہی خداوند ہے یعنی عیسیٰ مسیح جن کے وسیلہ سے سب چیزیں موجود ہوئیں اورہم بھی اُسی کے وسیلہ سے ہیں"۔(انجیل شریف مکتوب الیہ اول اہل کرنتھیوں رکوع ٨آیت ٦)۔

مسیحی فضائل

آمدم برسرمطلب ؛ تجسم سے پہلے انسانیت کی چند جماعتیں جن کی زندگی اور مال وجان کے ساتھ ہر قسم کا بُرا سلوک جائیز سمجھا تھا اور وہ ظلم وتشدد نیز عیاشی کےلئے تختہ مشق بنائے جاتے تھے۔ اس مظلومیت میں وہ گروہ بھی شامل تھا جسے عورت کہا جاتاہے ۔

چنانچہ کلمتہ اللہ سے پہلے بنی اسرائیل کے درمیان عورت مرد کی خادم تصور کی جاتی تھی۔ بت پرستوں کے درمیان وہ کلیہ طور پر مرد کی داسی سمجھی جاتی ہے اور اسلام میں عورت کو" کھیتی" سے تعبیر کیا گیا ہے۔

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ترجمہ:تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔(سورہ بقرہ آیت ٢٢٣)۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ترجمہ :مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے(سورہ نساء آیت ٣٤)۔

شوہر اپنی بیوی کومارپیٹ سکتاہے۔ ایک کے بجائے دوسری بدل سکتاہے۔(نساء ع) طلاق دے سکتاہے(نساء٢)چار بیویاں نکاح میں لاسکتا ہے اور لونڈیاں بھی رکھ سکتاہے(سورہ نساء آیت ٢۔ ٣) اگرچہ بعض عورتیں اپنی لیاقت اور خاندانی عزت کے باعث اپنے درجہ سے بڑھ کر مردوں کے پہلو بہ پہلو نظر آتی ہیں۔ لیکن عام طورپر مرد کا کھلونا سمجھی جاتی ہیں۔ مگر جب کلمتہ اللہ بنی آدم کے چھٹکارا کے لیۓ مجسم ہوئے توآپ نے " مریم کنواری کے رحم سے نفرت نہ کی جس کے باعث مقدسہ مریم میں دنیا جہاں کی عورتوں کا درجہ بلند ہوا اوراُسے وہ درجہ ملا جوکبھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا۔ ایسا اعلیٰ درجہ اب کوئی اس سے چھین نہیں سکتا ۔ غرضیکہ مسیحی فضائل کا دائرہ میدان جنگ نہیں بلکہ غربا کی مدد بیمار کی تیمارداری اور مظلوم ومتروک کی خبر گیری ہے۔ مسیحیت کا ایک خاص کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے تسلی غرور اور لڑا کا پن فنا کرکے اس کی جگہ علم انکساری خلق وتپاک تسلیم ورضا الفت محبت کے جذبات کوروز مرہ زندگی کے فرائض کے ساتھ وابستہ کردیا۔

انسانیت کی بلندی

یہ صرف کلمتہ اللہ کی تعلیم کے بیرونی نتائج ہیں ممکن تھا کہ ایسے مفید نتائج کسی زبردست دینی مدبر اور مصلح کی حکمت سے برآمد ہوئے ان باتوں کے لئے خدا کے مجسم ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ کلمتہ اللہ کے تجسم نے انسانی احترام کے علاوہ جو بہت بڑا کام انجام دیا۔ وہ ہے" انسانیت کا درجہ بلند ہونا"۔آپ اس لئے مجسم ہوئے کہ وہ دیوار جو خدا اورانسان کے درمیان ہے اٹھ جائے۔ اگرایک بھکاری دُوسرے بھکاری کا ہاتھ پکڑے تویہ امرباعث تعجب نہ ہوگا۔ لیکن اگر بادشاہ کسی بھکاری کا ہاتھ پکڑے تویہ بھکاری کے لئے باعثِ فخر ہوگا۔ خدا بھی اسی قسم کا بادشاہ ہے جو ہم بھکاریوں کو اپنی رفاقت میں لینے سے ہرگز نہیں شرماتا۔

خدا جوآسمان پر ہے وہ ایک غیرمرئی اوراندیکھی ہستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ خدا ہم سے کسی طرح کا کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ حالانکہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ لیکن چونکہ انسان ظاہربین اور ظاہرپسند ہےاورخدا ہی نے ہمارے اس احساس کے مدنظر یہ پسند کیاکہ وہ اپنے آپ کو آدم کی صورت پر جسے اُس نے اپنی صورت پر خلق کیا"ظاہر فرمائے تاکہ بنی آدم اس جانی پہچانی صورت کے ذریعے اپنے خالق کی صورت کا تصور حاصل کریں۔ گویاکہ خدا کی محبت کا تقاضا تھا کہ وہ انسان کے فائدے کے لئے انسان بنے اور ہمارے درمیان رہ کر یہ پُرفضل کام انجام دے تاکہ ہم خدا باپ کی معرفت حاصل کریں۔ پس جس طرح خدا باپ کی ہستی کا یقین مخلوق سے حاصل ہوتاہے۔ اُسی طرح خدائے مجسم کے دیکھنے سے باپ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ خدا کو کسی نے کبھی اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں سے اسی نے ظاہر کیا"۔(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت یوحنا رکوع ١آیت ١٨)۔

ہم جانتے ہیں کہ جب تک محبت ظاہر نہیں ہوتی اُس وقت تک محب کی حد تک رہتی ہے اوراُسی کے واسطے ہوتی ہے۔لیکن جب ظاہر ہوتی ہے تب وہ دوسروں یعنی محبوب کے واسطے ہوتی ہے"۔ خدا کی محبت کا بھی یہی حال ہے"۔ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا"۔ جب وہ حقیقی جسم میں ظاہر ہوکر محبت کے کام انجام دیتا رہا توہم نے جانا کہ وہ محض انسان نہیں بلکہ"ابد تک خدائے محمود " (انجیل شریف مکتوب الیہ اہلِ رومیوں رکوع ٩آیت ٥)اسی سبب سے ہرایماندار کا یہ نعرہ ہے کہ" اب ہم تیرے کہنے ہی سے ایمان نہیں لائے کیونکہ ہم نے خود سن لیا ہےاورجانتے ہیں کہ یہ فی الحقیقت دنیا کا منجی ہے۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ٤آیت ٤٢)۔

محبت کی خوُبی

اس پہچان نے ہمیں یہ عرفان بخشا کہ ہمارا نجات دہندہ سیدنا مسیح ذات وماہیت کے اعتبار سے جیسا کہ ارشاد ہے"۔ میں اورباپ ایک ہیں"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١٠آیت ٣٠)۔لیکن آپ نے ہماری نجات کی خاطر پسند فرمایا کہ آپ ایک مقدس کنواری کے بطن اطہر سے پیدا ہوکر(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ١آیت ١٨) انسان کی طرح قدوقامت میں بڑھیں(حضرت لوقارکوع ٢آیت ٤٠) ۔

یہ خدا کی محبت کی خوبی ہے کہ آپ نے انسان بن کر انسان کو اپنابنالیا اور بشریت کا لبادہ اوڑھ کر بشریت کی حالت بدل ڈالی ۔اورآپ نے فرمایا جس نے مجھے دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١٤آیت ١٩) اور یوں وہ خدا جو" کل " کائنات کا مالک ہے وہی تجسم کے باعث "جز" میں ظاہرہوا۔ لیکن جس شے کا اطلاق "کل" کے ساتھ آیاہے اُس کا " جز" کے ساتھ ہونا ناممکن ہے۔

احساس الوہیت

مانا کہ تجسم کے اعتبار سے ابن اللہ کا دائرہ عمل محدود تھا جیسے روح بحیثیت روح ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔ ویسے ہی آپ کا دائرہ عمل ہے جہاں دویا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ٢٨ آیت ٢٠) اور بحیثیت بیٹا کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کواٹھاتا اور زندہ کرتاہے۔ اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتاہے زندہ کرتا ہے"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ٥آیت ٢١)۔یا جیسے آفتاب زمینی اورفلکی اجرام سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی ذاتی خوبی سے الگ نہیں ہوتا ویسے آپ بھی جسم میں ظاہر ہونے کے باوجود "میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١٤آیت ١٩) غرضیکہ جسم آپ کے لئے روکاٹ کا باعث نہ تھا ۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ٤آیت ٢٤۔ حضرت مرقس رکوع ٦آیت ٤٩۔حضرت یوحنا رکوع ٦آیت ١٩) غیب دان ہونے کی حیثیت سے انسان کی ہرروش سے واقف تھے(حضرت یوحنا رکوع ١آیت ٤٨ اور رکوع ٦آیت ٦٤۔ رکوع ١٣آیت ١اور رکوع ١٨آیت ٤ اوررکوع ١٩آیت ٢٨)۔ آپ کو زمین وآسمان کا سارا اختیار حاصل تھا۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ٨ آیت ٢٧ اور رکوع ٢٨ آیت ١٨) یہی وجہ ہے کہ آپ کو اس امر کا پورا احساس تھا کہ آپ کے قول وفعل خدا کے قول وفعل ہیں اورآپ کی ذات الوہیت کے ساتھ کامل اتحاد حاصل ہے۔ اسی بنا پر ارشاد فرمایا کہ" ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور سیدنا مسیح کوجسے تونے بھیجا ہے جانیں (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١٧آیت ٣)۔

بلاشبہ تجسم سے پیشتر بھی انسان خدا کی نسبت سوچتا اوراس کی عبادت کرتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود خالق اورمخلوق کے درمیان ایک دیوار تھی۔ انسان کوشش کے باوجود ملاپ خداوندی حاصل نہ کرسکا۔اس ناکامی نے انسان کے حوصلے پست کردئیے ۔اس لئے وہ مجسم ہوا تاکہ لوگ قربت الہٰی حاصل کریں۔مقام شُکر ہے کہ وہ ہمیں اس قابل بناتاہے کہ ہم خدا کو اباکہہ کر پکاریں(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ٤آیت ٥تا٦)۔ بدیں وجہ اب ایماندار کے لئے آسمان اور زمین میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لہذا ربنا المسیح کی عظمت صرف اسی کی تعلیم ہی کے سبب سے نہیں بلکہ اس کی ذاتِ اقدس سے ثابت ہے ۔ سچ تویہ ہے کہ وہ "بذاتِ خود مجسم تعلیم تھا۔ وہ محض نئے خیالات کا فیلسوف نہ تھا بلکہ خود سرپا مکاشفہ تھا۔ وہ صرف خوشخبری دینے والا نہ تھا ۔ وہ صرف خدا کا پیغام دینے والا پیغمبرنہ تھا۔ بلکہ خود خدا کاکلام تھا۔ وہ صرف انجیل لے کر دنیا میں نہ آئے تھے بلکہ خدا کولے کرآئے تھے ۔درحقیقت وہ بشریت کے پردے میں خدائے ذوالجلال تھا۔

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم اُن کوکبھی اپنے گھر کودیکھتے ہیں

عدیم المثال

یہاں یہ جتلادینا ضروری ہے کہ ہم نے اس مسئلہ کے حل کے سلسلے میں قصداً مختلف زاوئیے پیش کئے ہیں۔مبادانکتہ چھوٹ نہ جائے اورہم پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ ہم اس مسئلہ پر کامیاب روشنی ڈالنے سے قاصر رہے ہیں گوہمیں طوالت کا بھی ہمیں خوف ہے تاہم ہماری کوشش یہ ہے کہ خدا کی اس بڑی محبت سے کوئی محروم نہ رہے جواس کے کلمہ بیٹے ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح میں ظاہر ہے۔

لیکن افسوس کہ ہم نے فرض کرلیاہے کہ خدا مجسم نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے پہلے وہ کبھی انسانی صورت میں ظاہر نہیں ہوا۔اس لئے ہرعدیم المثال واقعہ ہمارے لئے معمہ بن جاتاہے۔لیکن فرض کیجئے کہ خدا تعالیٰ مسیح کی صورت میں ظاہر ہوا ہوگا اور وہ ہماری سطح پر آکر ایک حقیقی انسان کی طرح رہا ہوگا توکیا وہ تصورجوانجیل میں پیشا ہواہے قابل قبول نہ ہوگا مانا کہ ہم یہ گمان نہیں کرسکتےکہ خدا مثل چوپان کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈھتاہے اورگنہگاروں کے فدیہ میں اپنی جان صلیب پر قربان کرتاہےلیکن جب ہم خدا کی محبت کا تصور کرتے ہیں توہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ ضرور ایسا ہی ہوا ہوگا؟ ایمان ہی کے باعث ہماری ساری دماغی الجھنیں دوُر ہوجاتی ہیں اورہم یہ جان لیتے ہیں کہ خدا محبت ہے ۔ جس کے پیار کوبڑی قیمت ادا کرنی پڑی اورمرنے کے بعدہم ضرور اُس کے ساتھ آسمانی مقاموں پر ہوں گے۔ لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ خدا خود سیدنا مسیح کی صورت میں ظاہر ہوکر کھوئے ہوؤں کوڈھونڈتاہے۔ تھکے ماندوں کو آرام دیتاہے بوجھ سے دبے ہوؤں کو بلاتاہے ۔تب سیدنا مسیح نہیں رہتے یا وہ ایک مقدس ہستی رہتا بلکہ ہم حضرت پطرس کی طرح محسوس کرتے ہیں کہ" سچ مچ آپ زندہ ابن اللہ ہیں"۔

انسانوں کے مشابہ

اب تک ہم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تجسم میں خدا کی محبت کا سماں ہماری آنکھوں کے سامنے بندھ جاتاہے۔کہ کس طرح خدا نے مسیح میں ہمیں پیارکیا ہماری نجات کا بندوبست کیا۔ اب کس طرح سے اپنے پاس بلاتاہے اورکس طرح مسیح میں انسانی ذات صورت اور زبان اختیار کرتاہے۔ اگرہر برگ وثمر میں نقش کروگار نظر آتے ہیں توکیوں خدا کا انسانی جامہ پہننا غیر ممکن تصور کیا جائے ۔ جبکہ وہ اپنے کریکٹر کوظاہر کرنے کے لئے کرے۔

یہ نہیں کہ تجسم میں خدا خدا نہیں رہتا اورنہ ہی وہ منقسم ہوتاہے بلکہ یہ کہ" خدا کی اندیکھی صفتیں صاف نظر آتی ہیں۔ کیونکہ الوہیت کی ساری معموری کلمتہ اللہ میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے"(انجیل شریف مکتوب الیہ اہلِ کلسیوں رکوع ٢آیت ٩) پس تجسم میں خدا نے اپنی لاانتہا صفات کو جوہماری سمجھ میں نہ آسکتی تھیں اُن کوبرطرف کیا اورہماری مانند بشربن کر ہم پر اپنی محبت اور رحم کوظاہر کیا۔جیسے دُوربین ایسے ستاروں کوظاہر کرتی ہے جودوری کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتے ۔یا جیسے سُورج اپنی چمک اور تیز روشنی سے ہماری آنکھوں کوچند ھیادیتاہے۔ لیکن اب ایسے آلے ایجاد ہوئے ہیں جن کے باعث ہم سورج کوبڑی صفائی سے دیکھ سکتے ہیں ۔اسی طرح کلمتہ اللہ بھی اپنے جاہ وجلال کوچھوڑکر عام آدمیوں کی طرح ہمارے درمیان رہے اور ایسے عجیب نشانوں سے ثابت کیاکہ وہ محض انسان نہیں بلکہ باپ کا کلمہ اورساری کائنات کاحاکم اور بادشاہ ہے۔ جو وہ مضافات کے بغیر بنائے عالم سے پیشتر باپ کے ساتھ رکھتا تھا ۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١٧آیت ٥)۔

ہومر ایک واقعہ بڑی دلچسپی سے لکھتاہے کہ میدانِ جنگ میں جانے سے پہلے ہیکٹر ٹرائے جنگی لباس پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنے بچے کی طرف بڑھا کہ اُسے گود میں اٹھائے۔ مگربچہ اپنے باپ کی پیتل کی زرہ بکتر چمکتی ہوئی خود آورہوا میں اڑتا ہوا پھندنا دیکھ کر اس قدر ڈراکہ چیخ مارکراپنی دایہ سے چمٹ گیا۔ تب ہیکٹر ٹرائے نے جنگی لباس اُتارا اور بڑے پیار سےاپنے بچے کو بلایا۔ جوُں ہی بچہ نے باپ کو عام لباس میں دیکھا اورپہچان کر ہنستے اور کھلکھلاتے باپ کی گود میں لپک پڑا۔اسی طرح بنی اسرائیل خدا کے اس جلال کو جوکوہ سینا پر ظاہر ہوا ۔ دیکھ کر ڈرگئے(عبرانیوں ١٢: ١٨) لیکن اب وہی خدا جس کے بے پایاں جاہ وجلال سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ بیت لحم کی چرنی میں ایسے خوش پیرایہ میں نظر آتا ہے جیسے سورج کی کرن قو س وقزح میں خدا کی لاانتہا محبت ابن آدم میں ایسی ظہور پذیر ہے جسے ہم آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کانوں سے سن سکتے ہیں اوردل سے محسوس کرسکتے ہیں۔گویاکہ وہ خدا اب ہم سے محبت کرتاہے حالانکہ ہم محبت کے لائق نہ تھے ۔ وہ خدا جس کی شان وشوکت پر نظر نہ ٹھہرتی تھی۔ اب وہی اپنے آپ کو خالی کرکے انسانوں کے مشابہ ہوگیاکہ اُنہیں اپنے جلال میں داخل کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ

عام ہے یار کی تجلی میر

خاص موسےٰ و کوہ طور نہیں

غفور ورحیم

مانا کہ خدا غفور ورحیم ہے۔ لیکن کس طرح یقین آئے کہ وہ رحیم وکریم ہے ۔اگروہ آسمانوں پر جلوہ گر رہ کر ہمارے پیچھے سی۔ آئی ۔ڈی جسے شرعی زبان میں کراماً کا تبین" کہتے ہیں بھیج دے کہ لوگوں کے نامہ اعمال لکھیں۔ کیا خدا کا یہی کام ہے کہ کسی کو سزا دے اورکسی کو جزا؟ اگرخدا واقعی رحیم وغفور ہے ضرور ہے کہ ہماری کمزوریوں کا چارہ ساز ہو۔ایک نوکر کواس سے بحث نہیں ہوتی کہ آیا مالک حسین ہے نہیں بانکا ہے یا ترچھا اُس کا کتنا اقتدار ہے ؟ دولتمند ہے کہ نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتاہے کہ مالک کا سلوک کس قسم کا ہے ؟ اس کا برتاؤ کیسا ہے؟ آیا محبت پر مبنی ہے یا سختی پر۔

عزیزو! ہمارا خدا صرف بلند مقاموں پر رہنے والا نہیں بلکہ وہ مجسم ہوکر ہماری زمین پر مارا مارا پھرا گویاکہ اسے اپنی پیاری مخلوق سے عشق ہے اگروہ کسی کوکبیدہ خاطر دیکھتا تو اس کے دل کوٹھیس لگتی۔ اگر کسی کی پیشیانی پر بل یا کسی چہرے کو پُر ملال پاتا تو بیقرار ہوجاتا گویاکہ وہ خود اپنے درد میں مبتلا ہے اورجب دکھ درد میں مبتلا اُس کے پاس آتے تووہ اُن کے سارے روگ دُور کردیتا۔جب اُس نے لعزر کی موت کی خبر سنی تووہ رویا اُس کے دل میں درد تھا گداز تھا ۔ اس کے پیار ومحبت کا کون اندازہ لگاسکتاہے؟ وہ سراسر محبت ہے خواہ ہم اس سے محبت رکھیں یا نہ رکھیں ۔ وہ ہر حال میں ہم سے محبت رکھتاہے"۔ خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تومسیح ہماری خاطر موا"۔(رومیوں ٥: ٨)۔

پدرانہ دل

یہ سچ ہے کہ انسان نہایت ناسپاس اور غیر منصف ہے۔ قرآن بھی انسان کا ناشکریہ پن ظلم وجہالت کی شکایت ان الفاظ میں کرتاہے إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ(انسان ناسپاس ہے) ایک اورجگہ ارشاد ہے ظَلُومًا جَهُولًا انسان ظالم اورجاہل ہے۔ ماناکہ انسان بڑا سرکش ہے لیکن خدا کا پدرانہ دل کب یہ گوارا کرسکتا تھا کہ جس انسان کواُس نے اپنی صورت پر خلق کیا وہ دوزخ کا ایندھن بن جائے۔ بدیں وجہ خدا انسانی ذات انسانی صورت اور زبان اختیار کرتاہے تاکہ ہمیں نئی زندگی دے کر آسمانی خوشیوں سے مالا مال کرے۔ کیونکہ خدا محبت ہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو ہمارے بچانے کی خاطر پست کرتاہے اور خدا کا یہ فعل اسکے جلال کوچار چاند لگادیتاہے۔

یہ محض ہمارا دعویٰ ہی نہیں ذرا مسیحیت کی تواریخ کی ورق گردانی کیجئے ۔ وہ شروع ہی سے آج تک ناممکنات کی فتح ونصرت کے کارناموں سے لبریز ہے۔ گناہ آلودہ لوگ اس کے نور سے منور ہوئے۔ بیماروں نے شفا پائی ۔ جلوہ ہائے حقیقت دیکھے اسرار معرفت سمجھے عالم روحانی کی سیر کی حیاتِ جاودانی پائی نغمہ ہائے محبت سے سرمست ہوئے۔

دوستو! ہم صرف کلمتہ اللہ پر ایمان لانے کے باعث بچ سکتے ہیں"آسمان کے نیچے کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں"(اعمال الرسل رکوع ٤آیت ١٢)۔ دنیا میں کوئی اور طاقت نہیں جو انسان کی مادیت کا انسداد کرسکے۔ اس میں بلند نظری پیدا کرسکے۔ وہی ایک ایسے باغبان کی طرح ہے جوجنگلی گلاب میں اصلی گلاب کی زندگی دوڑادیتاہے۔ کیونکہ کلمتہ اللہ انسان میں بستاہے۔ اس میں خیال کرتاہے ۔ اسے اپنی صورت پر تبدیل کرتاہے اوریوں اُس کے خیال ہمارے خیال ہوجاتے ہیں۔ اس کی زندگی ہماری زندگی ہوجاتی ہے۔ یہ کیسا بھاری فضل ہے کیسی اعلیٰ برکت ہے کون ہے جودنیا میں ذرہ کواٹھا کر آفتاب بنادے اورخاک کو اکسیر کردے۔

" پر اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکر بچ سکتے ہیں؟"(انجیل شریف مکتوب الیہ اہل عبرانیوں رکوع ٢آیت ٢)۔ اس لئے آؤ اوراپنی جبین نیاز کلمتہ اللہ کے آستانہ پر رکھ دو ۔ وہ تمہاری روحوں کو سکون بخشے گا۔ وہی تمہارے کلیئہ تاریک کوجگمگادے گا۔ وہ اس لئے ابن مریم بناتاکہ تمہیں آسمانی خوشیوں سے مالامال کرے۔ اُس نے اپنے آپ کو اس لئے پست کیا کہ آسمانی مقاموں پر پہنچائے۔ غرض اس سے باہر موت اورہلاکت کی وادی ہے چنانچہ اس ظلمت کدہ کے بسنے والوں میں جنہوں نے اُسے قبول کیا اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ١ آیت ١٢)۔

وَماَ عَلینا الا البلاغ

Crucifixion of Jesus Christ

According to History

فہرست

باب

مضمون

۱

آمد آمد کی خبر

۲

آغوشِ مادر اور خاموش تربیت

۳

قوم اور زمانہ کی حالت

۴

تیاری کی آخری منزلیں

۵

اُس کے کام کے حصے

گمنامی کا سال

۶

دُوسرا سال۔ قبول عام

مسیح کی تعلیم اوراُس کی تاثیر

۷

مخالف کا سال

۸

کام کا خاتمہ

 

Pages