Religion of Islam
Religion of Islam

Religion   of   Islam   in   Urdu

مصنف

پادری۔ای۔ایم۔ویری صاحب ڈی۔ڈی

جسکو

منشی محمد اسمعٰیل نے انگریزی زبان سے بامحاورہ اور سلسیس اردو میں ترجمہ کیا

اور

امریکن ٹریکٹ سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوا
۱۹۰۵

The  Religion  of  Islam

Rev. Elwood  Morris  Wherry

(1843–1928)

Translated   By

Rev. Munshi  Muhammad  Ismail

دین اسلام

باب اول

تعریفِ اسلام

معمولی مسیحی کے خیال میں اسلام کل کا بچہ ہے۔ اسلام کی نسبت وہ بزرگی وعظمت کا خیال پیدا نہیں ہوتا جو ہندو اور بدھ مذاہب کے حق میں اُن کی قدامت کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔مسیحی کے نزدیک دینِ اسلام عربی نبی کا دین ہے۔ وہ اس میں اپنے یا اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کوئی بڑا تعلق نہیں دیکھتا۔ اُس کے نزدیک عقائد اسلامیہ کی خاص باتیں صرف یہ ہیں (۱) اللہ اوراُس کے نبی محمد صاحب پر ایمان لانا(۲) کثیر الازدواجی کی رسم کو برحق جاننا اور (۳) منکروں سے جہاں کرنے میں متعصبانہ جوش دکھانا۔ لیکن مسلمان کے نزدیک صرف اسلام ہی اکیلا سچا مذہب ہے۔ اُس کے خیال واعتقاد کے مطابق یہ وہ مذہب ہے جو پہلے آدم شیت اورحنوک کو پھر ابراہیم  ۔ موسیٰ اور دیگر بزرگوں اور بعد ازاں داؤد اور تمام نبیوں کو اور عیسیٰ اوراُس کے رسولوں کے اور آخرکار خاتم الانبیاء محمد صاحب کو عنایت کیا گیا۔ اُسکے نزدیک اِس دین میں خدا کی مرضی پورے طور سے مشتمل اور متضمن ہے۔ جنِوں اور فرشتوں کا یہی دین ہے اور عاقبت میں بہشت کی خوشیوں میں پہنچ کر اس کا خاتمہ ہوگا۔ علاوہ بریں اسلام اطاعتِ الہٰی کا دین کہلاسکتا ہے۔ چنانچہ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس نے اپنی گردن الہٰی جوئے کے نیچے رکھدی ہے۔

پس اسلام بھی یہودی اور مسیحی دین کی طرح ایک جدا دین ہے۔  وہ کسی دوسرے دین کو سچا نہیں مانتا۔ وہ کسی کو اپنا ہم حیثیت اورہم رتبہ تسلیم نہیں کرتا ۔ بعض مسیحی مصنفین کا خیال ہے کہ دین اسلام اور دین عیسوی اپنے اپنے ایمان واعتقاد کے نشانوں کی بے تعصبانہ تشریح کرنے کے بعد اس خاص غرض سے قائم ہوئے ہیں کہ ہاتھ میں ہاتھ لئے ہوئے نہایت اتفاق سے کفار سے جہاد کریں لیکن یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ ایسا میل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمیشہ  ایک دوسرے کے تنزل سے خوش ہونگے۔ جہاں تک مشنری معاملے کا تعلق ہے اُس سے صاف اور صحیح نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ لڑائی جاری رہیگی لیکن یہ لڑائی روحانی ہے جسمانی ہتھیاروں سے کام لینا ٹھیک نہیں۔روح القدس کی تلوار کا اسلامی  تلوار سے مقابلہ ہے اور مناسب ہے کہ ہم اسلامی عقائد کوسمجھنے کی خاطر اسلام کے بنیادی اُصول پر غور کریں۔

مسلمان مصنف اسلام کے چار رکن یا ستون بیان کرتے ہیں۔ (۱)قرآن (۲) احاد یث یا روائتیں (۳)اجماعِ امت یا علماء کی متفق رضامندی اور (۴) قیاس یعنی دلیل جوقرآن واحا دیث اوراجماع پر مبنی ہو ۔ پس اِن ارکان پر جُدا جُدا غور کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔

فصل اول

قرآن

مسلمان اس کو قرآن المجید۔ قرآن الشریف۔ فرقان او رکلام اللہ کہتے ہیں۔ اصل کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ خدا کے تخت کے نیچے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہے۔ وہاں سے نقل کرکے جبرائیل فرشتہ کی معرفت محمد صاحب پر نازل کیا گیا۔ اِس سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد صاحب اپنے معتقدوں کے خیال میں اُن تمام باتوں کو بیان کرنے میں جو اُس نے لوگوں کے سامنے پیش کیں گویا خدا کا ترجمان تھا۔

بہت سے خوش اعتقاد مسلمان بڑے وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب قرآن سنانے کے لئے بلا ئے گئے۔ شہر مکہ کے قریب چند ہفتوں تک خلوت نشین کی طرح ایک غار میں رہا۔ ایک روز نہایت خوف زدہ ہوکر کانپتا ہوئے اپنی بیوی خدیجہ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے چھپادو۔ جب تک اُن کا خوف  موقوف نہ ہوا خدیجہ نے اُنہیں کپڑے سے چھپائے رکھا۔ کچھ دیر بعد محمد صاحب نے تھراتھراتے اور کانپتے ہوئے بیان کیاکہ جبرائیل فرشتہ میرے پاس آیا تھا اورمجھ سے کہنے لگا کہ " پڑھ"  میں نے کہا" میں ان پڑھ ہوں"۔ پھر اُس نے مجھے پکڑا اورمیری برداشت کی حد تک مجھے دبایا اور چھوڑ کر کہا "پڑھ" میں نے کہا " میں ان پڑھ ہوں" ۔ اس پر اُس نے پھر مجھے دبایا اور چھوڑدیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی کیا اورکہا "پڑھ" اپنے رب کے نام سے جو انسان کا خالق ہے۔ پڑھ کیونکہ تیرا خدا نہایت ہی کریم ہے۔ اُس نے آدمیوں کو قلم کا استعمال سکھایا۔ اُس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔

یہ قصہ سن کر وفادار خدیجہ اپنے شوہر کو تسلی دینے کے لئے مستعد ہوئی۔ اُس کے خوف کو دور کرنے کی غرض سے اوراِس لئے کہ کہیں وہ خوف سے مر نہ جائے یا کہیں شیطان کے بس میں نہ ہوجائے وہ یوں کہنے لگی کہ" میں خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ کبھی تم کو اُداس یا رنجیدہ نہ کریگا کیونکہ فی الحقیقت تم اپنے رشتہ داروں پر مہربان ہو۔ تم سچ بولنے والے اور امانتدار ہو۔ تم لوگوں کی تکلیفوں میں ہمدرد ہوتے ہو اورکچھ تجارت سے کماتے ہو سب کا سب اچھے کاموں میں صرف کرتے ہو۔مہمان نواز اوراپنے ہم جنسوں کی مدد کرنے والے ہو" ۔ اس کے بعد خدیجہ محمد صاحب کو اپنے عم زاد بھائی ورقہ کے پاس لے گئی۔ ورقہ ایک مقدس آدمی سمجھا جاتا تھا اور یہودی نوشتوں سے واقفیت رکھتا تھا۔ ورقہ نے کہا " اے میرے  بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو"؟ اس پر محمد صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کیا اور ورقہ نے کہا کہ" یہ وہی عزت ہے جو خدا نے موسیٰ کو عنایت فرمائی تھی"۔ اس سے یہ ظاہر کیا کہ اُسے الہام ہوتا ہے۔

محمد صاحب کی نبوت کا شروع یہی تھا۔ اِس وقت سے بیس برس تک برابر اس عجیب وغریب شخص کے اظہار اور بیانات بڑی ہوشیاری سے لکھے گئے اور کلام اللہ کے طورپر پیش کئے گئے ۔ تمام قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا اور نبی کے تجربوں اور مومنین کے حالات کے رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن کے مختلف حصوں کا مختلف موقعوں پر حسب ضرورت اظہار اور استعمال کیا گیا۔ جب کبھی نبی کو کوئی ضرورت  پیش آئی اور کوئی ذاتی فائدہ ملحوظ اور مدنظر فوراً   آسمانی  الہام وضع  کیا گیا۔

اس نبوت کی روح کے جوش نے مکہ میں قومی بتوں کے بُت خانہ اور بتوں پر لعنت کی اور خلقت اور انسانی ضمیر کی شہادت سے خدا کی وحدت کو قائم کیا۔ قبیلہ قریش جوشہر مکہ میں ایک نہایت زبردست فرقہ تھا اور کعبہ کے مقدس مقام کا محافظ تھا  اس تبلیغ  سے نہایت ناراض اور برا فروختہ ہوگیا۔ چنانچہ اُنہوں نے محمد صاحب کو پاگل اورمجنوں ودیوانہ سمجھ کر ٹھٹھوں میں اڑایا اوراُس کے تمام پیروؤں کو ستایا۔محمد صاحب کواپنے زبردست رشتہ داروں کے باعث حفظ وامن نصیب ہوا۔ قرآن اِن واقعات کا بڑی خبرداری اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتاہے اور ستانے والوں کوخوب ملامت کرکے ڈراتا ہے۔ نیز گزشتہ زمانہ کے انبیاء کے حالات کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح بے ایمانوں اور کافروں نے اُن کو ستایا اور ٹھٹھوں میں اڑایا۔ کس طرح خدائے کریم نے اُن کو معجزے عنایت کئے اور تمام دشمنوں پر غلبہ عطافرمایا۔لیکن وہ بدبخت سنگدلی کے باعث آنکھیں بند کئے ہوئے ہلاکت کی طرف دوڑے چلے گئے ۔ بعض کی ہلاکت کے لئے زمین متزلزل ہوکر پھٹ گئی اور وہ زندہ درگور سے بدتر ہوکر غرق ہوگئے اور بعض طوفان میں ڈوب مرے۔ بسا اوقات رات کے وقت بادِ سموم چلی اور تمام باشندوں کو ہلاک کردیا۔ خدا کے انبیاء کے دشمنوں پر اُنہیں ہلاک کرنے کے لئے وبائیں آئیں۔ جب یہودیوں نے مخالفت کی تو گذشتہ زمانہ کے منکرین کی ہلاکت وبربادی کے حالات پیش کرکے اُنہیں متنبہ کیا گیا۔

مدینہ میں نبی کی حالت بالکل تباہ ہوگئی اور قرآن الہام کے طرز بیان میں بھی بہت کچھ فرق آگیا۔ شروع میں تونبوت نہایت دلکش تھی۔ یہودیوں کی بہت کچھ چاپلوسی اور خوشامد کی گئی ۔ مسلمانوں کو حکم ملا کہ یروشلیم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کریں۔ عہد عتیق کے بزرگوں کی بہت کچھ تعریف کی گئی ۔ اس طرح سے محمد صاحب نے بنی اسرائیل کواپنے  ساتھ ملالینے کی کوشش کی لیکن وہ اِس نئے رسول کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کے نبیوں کو ستایا اور قتل کیا۔ بیت المقدس واقعہ یروشلیم کے عوض میں کعبہ قبلہ مقرر ہوا۔ مسلمانوں کو حکم ہوا کہ آئندہ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کریں۔ مسیحیوں کا ذکر نہایت نرمی اور ملائمت سے کیا گیا۔ عیسیٰ کو خدا کا نہایت بھاری اور الوالعزم  نبی تسلیم کیا۔ اُس کے چال چلن کی پاکیزگی اوراُس کے عجیب وغریب معجزات کا ذکر اذکار ہونے لگا۔

اِ س عرصہ میں بہت سے لوگ اِس نئے دین کے پیرو ہوگئے۔ عربی ۔ یہودی اور عیسائی بھی اس میں شامل ہوئے۔ اب ایک  نیا مخالف یعنی عبداللہ نامی ایک شخص برپا ہوا۔ یہ شخص مدینہ کے ایک نہایت زبردست فرقہ کا سردار تھا۔ یہ محمد صاحب کے روز افزوں اقتدار واختیار پر بہت حسد کرنے اور شک کھانے لگا۔

اس وقت سے محمد صاحب کے الہامات نے عبداللہ اوراُس کے فریق کی طرف رُخ کیا۔ الہامات کی ضروریات بہت بڑھ گئیں  اور آنحضرت کے کانوں میں ہر وقت جبرائیل فرشتہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ بقول حضرت محمد بعض اوقات تو یہ آواز گھنٹے کی آواز کی سی تھی اور بعض وقت رعد اور گرج کی سی۔اس کی سندمیں ہم ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

راوی : عبداللہ بن یوسف , مالک , ہشام بن عروہ , عروہ , عائشہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ يَأْتِيکَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَکُ رَجُلًا فَيُکَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔

ترجمہ: عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔(صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث ۲)

ایک دفعہ کا ذکر کیا جاتاہے کہ جبرائیل آنحضرت کے خادموں میں سے ایک شخص دہیاہ کی مانند ہوکر ایسی آواز سے ہم کلام ہوا جو صاف سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ حکم سنایا گیا کہ کاروانِ مکہ سے جنگ کرو۔ کبھی مسلمانوں کے اپنے معاملات کی نسبت احکام آئے۔ اِن احکام سے غالباً اُن کی باہمی راہ ورسم کا انتظام مقصود تھا۔ شاید اُن کی زوجات اورہمسایوں سے برتاؤں کرنے کے متعلق ہدایات تھیں یا اس امر کی تشریح تھی کہ مومنین آنحضرت سے کیسا سلوک کریں۔ کبھی نماز اور روزوں کی تعلیم دی گئی۔ کبھی اہل عرب کے بعض قدیم دستورات موقوف کئے گئے ۔ مثلاً قدیم دستور کے مطابق کوئی عرب اپنے متنبیٰ بیوی سے نکاح نہیں کرسکتا تھا لیکن جب آنحضرت نے اپنے متنبیٰ زید کی حسین بیوی زینب پر عاشق ہوگئے تویہ دستور منسوخ کردیا گیا۔ زید نے آنحضرت کو زینب کا شیفتہ وفریفتہ دیکھ کر اُس طلاق دیدی۔ اگر چہ آنحضرت طلاق دینے سے زید کو ظاہرا منع فرماتے رہے لیکن بمصداقِ " عشق ومشک را نہتواں نہفتن"۔ چونکہ زید حقیقتِ حال کو تاڑ گیا تھا اس لئے اُس نے آنحضرت کو زینب کی ہم آغوشی سے محروم نہ رکھا۔ اگرچہ محمد صاحب کے محبتی بچے اُن کے اس افعل سے ناخوش نہ تھے توبھی اہلِ عرب کا دستور اس کے خلاف تھا۔ اُن کے نزدیک کسی شخص کا اپنے متنبیٰ کی مطلوقہ بیوی سے نکاح کرنا نہایت ہی مکروہ اور معیوب تھا۔ اس موقعہ پر فوراً وحی آسمانی نے آپ کی حمایت کی۔ فی الفور قرآنی وحی آپ کی بریت کی آیت لئے ہوئے لپکتا ہو آیا۔ آنحضرت نے بیان فرمایا کہ یہ اس لئے ہواہے تاکہ آئندہ کے لئے وہ پرانا نامناسبت دستور جومومنین کواپنے لیپالکوں کی مطلوقہ بیویوں سے نکاح کرنے سے منع کرتا اور روکتاہے موقوف کیا جائے۔ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم ٹھیر چکا ہے(سورہ احزاب آیت ۳۸)۔

ایک دفعہ مقدس مہینوں میں جنگ کرنے پر فساد بپا ہوا۔ کیونکہ عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان مہینوں میں جنگ کرنا بالکل منع اور ناجائز تھا۔ تلواریں میان میں کی جاتی تھیں اور ڈھالیں اور تیروکمان وغیرہ خیموں کے اندر لٹکائے جاتے تھے اور دشمن جان ومال کے خطرہ سے بے خوف ہوکر آپس میں ملتے جلتے تھے۔کسی کے باپ یا بھائی کا خونی بھی انتقام سے بے خوف ہوکر اُسکی صحبت میں رہ سکتا تھا۔ ان مقدس مہینوں کے شروع میں ایسا ہوا کہ مسلمان ڈاکوؤں کی ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ دیکھ کر کہ ایک کاروان مکہ ایک چاہ کے قریب نہایت بے فکری اور اطمینان سے خیمہ زن ہے اُس پر فوراً حملہ  کیا اور چونکہ وہ کاروان کسی طرح کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں اس لئے بآسانی  مسلمان لٹیروں کا شکار ہوا۔ چنانچہ مومنین تمام مال واسباب لوٹ کر اور غنیمتِ جنگ  کے طورپر اپنا حق سمجھ کر بمصداقِ

چوپیروزشد دزد تیرہ رواں
چہ غم داردانہ گریہ کاروان

خوشی خوشی اپنے مآرب ومراصد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس پر تمام منکرین ومنافقین مکہ نے شور مچایا اور مسلمان بھی اس سے بہت شرمندہ ہوئے اور چونکہ  یہ سرق ونہب محمد صاحب کے حکم سے وقوع میں آیا تھا اس لئے آنحضرت پر بھی رہزنی اور لوٹ مار کا الزام لگا اور آپکا اختیار نہایت ہی معرض خطر میں آگیا۔ آپ نے عوام کی تسلی کے لئے ڈاکوؤں کو حراست میں رکھا اور مال غنیمت بھی آسمانی فیصلہ کی انتظاری میں کچھ دنوں تک تقسیم نہ کیا لیکن یہ انتظاری دیر تک نہ رہی ۔چنانچہ جبرائیل فرشتہ فوراً پیغام لایا کہ ان مہینوں میں بھی تمام کافروں اور منکروں کو لوٹنا اور قتل کرنا جائز ہے کیونکہ کفراِن مہینوں  میں جنگ کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔ پس ڈاکوؤں کو آزاد کردیا اور اُنہیں خوب انعامات تحسین وآفرین سے خوش کیا اور تمام مالِ غنیمت  مومنین میں تقسیم کیا گیا۔

پھر ایک موقعہ پر حسب الحکم قرآن یہودیوں پر چڑھائی کی گئی۔ بعض گستاخ عرب غیر مناسب بے تکلفی کے ساتھ محمد صاحب سے ملے اور اس پر فوراً قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت سے ملاقات کرنے کے طریق اورآپ کے حضور میں حاضر ہونے کے قواعد بیان کئے گئے ۔پھر آنحضرت  کی پیاری بیوی عائشہ پر الزام لگایا گیا اوراس سے سخت بے عزتی اور بدنامی ہوئی لیکن قرآن نے فوراً  عائشہ کو ان الزامات سے بری کردیا اور الزام لگانے والوں اور بدنام کرنے والوں کے لئے سزا تجویز کی گئی۔ وحی قرآن کا یہ ایک خاصہ نظر آتا ہے کہ وہ آنحضرت کی ضروریات اور تمام کارروائیوں کے حسب حال خوب ہی زمانہ سازی کرتاہے۔ قرآنی الہامات اور آنحضرت کی کارروائیوں میں ایک نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ قرآن کو بخوبی سمجھنے کے لئے آنحضرت کے سوانحِ عمری اورحالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔

محمد صاحب کی وفات کے بعد قرآن کے مختلف حصے ایک صندوق میں پائے گئے جو آنحضرت کی زوجات میں سے ایک کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ قرآنی آیات اور سورتیں کھجور کے پتوں اور سفید پتھروں پر مرقوم تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمانوں کے پاس بھی قرآن کے بعض حصوں کی نقلیں تھیں اور اُن میں سے بعض نے اُن کو ازبرکیا ہواتھا۔ایسے لوگوں کو حافظ کہتے ہیں۔ جنگ وجدل اور کشت وخون سے حافظوں کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ آخرالامران ہی وجوہات سے خلیفہ ابوبکر نے زید ابن ثابت کو قرآن کو مرتب کرنے پر مقرر کیا ۔زید نے اس کام کو سرانجام تک پہنچایا اور وہ تمام حصے جو کھجور کے پتوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے تھے اور بعض جو مومنین نے حفظ کئے ہوئے تھے نہایت احتیاط اور خبرداری سے مرتب کئے ۔ چنانچہ موجودہ قرآن وہی ہے جو زید ابن ثابت نے جمع کیا تھا۔یہ تو سچ ہے کہ خلیفہ عثمان کے عہد میں بھی قرآن میں کچھ ردوبدل اور تغیر و تبدل ہوا لیکن یہ ردوبدل صرف اس حدتک تھا کہ محاورات واصطلاحات مکی عربی اور قبیلہ قریش کے محاورات کے مطابق ہو۔

کل قرآن میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں لیکن اِن ابواب یاسورتوں  کا سلسلہ ترتیب تواریخی نہیں ہے بلکہ کسی قدر یہودی نوشتوں اوراُن کے انبیاء کے صحیفوں کی طرز پر ہے۔ لمبی لمبی سورتوں کوشروع میں درج کیاہے اور چھوٹی چھوٹی سورتیں آخر میں رکھی ہیں۔ تمام سورتوں کے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مندرج ہے اور جو سورت شروع میں رکھی گئی ہے اس کا نام فاتحہ ہے اوراُس کا مضمون دعائیہ ہے۔ چنانچہ وہ سات آیات پر یوں مشتمل ہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ترجمہ: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا مہربان ہے۔ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار ہے تمام جہان کا۔ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ روزجزا کا مالک ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو راہ مستقیم کی ہدایت عنایت کر۔ اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تونے فضل کیا ۔ جن پر تو غضبناک ہے اور جوگمراہ ہیں اُن کی راہ سے ہمیں بچالے۔(سورہ فاتحہ)۔

قرآن کا یہ مضمون قرآن کی تمام عبارت سے زیادہ موثر ہے۔ بیس کروڑ (اُس کی وقت آبادی) بنی آدم کے دلوں پر قرآن کے پر تاثیر ثابت ہونے کے کم از کم دو سبب ہیں۔ اول یہ کہ قرآن کی عبارت نہایت عمدہ ہے اور اصل زبان کا لہجہ بہت ہی شیریں  ہے۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے توسننے والے کو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی خوش الحان کوئی دلکش سرودسنا رہا ہے۔ہزارہا لوگ ایسے ہیں جوقرآن کا شاید ایک حرف بھی نہیں سمجھتے لیکن سنتے وقت عبارت ولہجہ کی خوبی کے باعث بالکل مجذوب ہوجاتے ہیں۔ دوم اس کتاب میں توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اورخدا کی وحدت کی سچائی اورنجات کے باب میں خدا پر توکل کرنے کے بیانات عموماً لوگوں کواسلام کی طرف کھینچتے اورمائل کرتے ہیں۔

قرآن کے متعلق جومسلمانوں کا اعتقاد ہے اُس میں یہ تین باتیں قابل لحاظ ہیں:

(۱)قرآن کے ازلی ہونے کی تعلیم۔اس تعلیم کے رو سے قرآن غیر مخلوق ہے۔ کاغذ اورسیاہی وغیرہ اجزائے کتاب مخلوق مانے جاتے ہیں۔ حروف کی شکلیں بھی مخلوق تسلیم کی جاتی ہیں لیکن کلام اللہ جواُس میں اشکال حروف کے وسیلہ سے ظاہر کیا جاتاہے تمام دیندار اورخوش اعتقاد مسلمانوں کے خیال میں ازل ہی خدا کے ذہن میں موجود تھا۔ باعتبار اپنے وجود کے قرآن ازلی ہے اور اگرچہ خدا نہیں لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں ہے۔

(۲) اس عقیدہ پر شہادت بھی قرآنی ہے۔ جس تعلیم کا اوپر بیان ہوچکا ہے اُس کی روشنی میں ہم اس بات کوبخوبی سمجھ سکیں گے کہ قرآن کے ایک ایک نقطہ اور شوشہ کی مسلمانوں کے نزدیک کہاں تک قدرومنزلت  ہے۔ صرف پاک اور مطہرہی قرآن کو پڑھ سکتے ہیں۔ کسی آیت میں کسی طرح کی تبدیلی جائز نہیں۔ بہت سے خوش اعتقاد مسلمان قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور تمام معتقدات قرآن ہی کی تعلیم سے درست یا نادرست قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ ایمان کے لئے ایک ہی آیت کافی ہے۔

(۳) قرآن کی تعلیم میں مسئلہ " ناسخ ومنسوخ" بھی موجو دہے۔ محمد صاحب کے ایام حیات ہی میں اس مسئلہ کا وجود پایا جاتاہے۔ نبوت کے دعاوی کی ضروریات نے اس مسئلہ کو اختراع کیا۔ وقتاً فوقتاً  حالاتِ زمانہ کے مطابق الہامات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اوریہ نیا مسئلہ وضع کیا گیا کہ نیا الہام پُرانے الہام کو اُس کے موافق نہ ہونے کی حالت میں منسوخ کردیتاہے۔

یہ نسخ کی تعلیم ہوتے ہوتے اہل اسلام کے علمِ الہٰی کی ایک شاخ ہوگئی۔چنانچہ اب یہ تعلیم زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک اگلی کتابوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسلمان بے تامل اور بغیر کسی طرح کے پس وپیش کے کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے منسوخ ہوگئیں  اور پھر اسی طرح عیسائیوں کی کتابوں کوقرآن نے منسوخ کردیا۔

اگر فاخر مسلمان کے ہاتھ میں قرآن ہوتواُسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔اُس کے لئے قرآن میں نہ سچائی ہی ہے بلکہ روایتوں کو شامل کرکے جہاں تک مذہب سے علاقہ ہے اُس میں پوری سچائی موجود ہے۔

خلیفہ عمر کی نسبت یہ قصہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اُس سے پوچھا گیاکہ " سکندریہ کے مشہور کتب خانہ کی نسبت کیا کیا جائے  یعنی اُسے تلف کیا جائے یا محفوظ رکھا جائے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اگر وہاں کی کتابیں قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں تواُن کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر وہ قرآن کے خلاف ہیں تو ضرور اُنہیں برباد کردینا چا ہیے"۔ اس قصہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک عیسائی نوشتوں کی کیا قدرومنزلت ہے۔ جہاں کہیں وہ قرآن سے اتفاق نہیں کرتے فوراً محرف قرار دئیے جاتے ہیں۔اُن کو وہیں تک صحیح تسلیم کیا جاتاہے جہاں تک کہ وہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود یکہ قرآن بائبل کی صحت ودرستی اوراُس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دیتا ہے توبھی مسلمان یہی رائے قائم کئے بیٹھے ہیں کہ موجودہ بائبل قابل اعتبار نہیں اور چونکہ اُس میں قرآنی تعلیم کی مخالفت پائی جاتی ہے اس لئے اُسے رد کرنا ضرور ہے۔

فصل دوم

احادیث

اسلام کا دوسرا رکن اگرچہ قرآن سے بہت قریبی رشتہ رکھتا ہے تاہم اسکی نسبت  کچھ متفرق اورمختلف ہے۔ یہ رکن احادیث یا روایات کا ہے۔ احادیث کی آیات کو سنت کے نام سے بھی نامزد کرتے ہیں۔ مختلف معاملات میں محمد صاحب کے کلام واحکام اورکام کا ذکر پایا جاتاہے۔ یہ تمام روایات محمد صاحب کی وفات سے دو تین سوبرس بعد تحریر ہوئے اور اُن تمام باتوں کا بیان مندرج ہے: (۱) وہ باتیں جو محمد صاحب نے کی(۲) وہ باتیں جومحمد صاحب اپنے مریدوں کے سامنے عمل میں لائے(۳) وہ باتیں جو مرید عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن پر کسی طرح سے نامنظوری ظاہر نہ کی اور(۴) وہ باتیں جو مرید آنحضرت کے سامنے عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن کی تردید کی اوراُنہیں ناجائز قرار دیا۔ یہ ُکل مضامین  چھ بڑی بڑی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں اوراُن  کتابوں کو " الصحاح الستہ" یعنی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔

صحیح اور وضعی احادیث کے درمیان امتیاز کے قواعد نہایت ہی عجیب وغریب ہیں۔ اِن احادیث کو جمع کرنے والوں نے احادیث کی متعلقہ شہادتوں کو بغور آزمانے اور دیکھنے کی نسبت اُن کے روایوں کا زیادہ خیال رکھاہے۔اگر تمام راوی دیندار مسلمان ۔ دانا۔ صاحب اختیار اور پرہیزگار ودوراندیش تھے توروایت قابل قبول اور حدیث صحیح قرار دی گئی اوراگرایک دوراوی ایسے تھے جن کی شہادت کوہرحالت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اُن پر اعتماد نہیں ہوسکتا توایسی احادیث کمزور یا مشکوک متصور ہوتی تھی۔ لہذا یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں احادیث کی تفسیر کرنا علمائے اسلام  کے لئے کوئی ہلکا ساکام نہیں ہے۔

اِ س جگہ مثال کے طورپر احادیث کی ایک مشہور کتاب سے جس کا نام ترمذی  ہے خلاصتًہ کچھ درج کیا جاتاہے۔ اِس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ احادیث کا طرزِ عمل بیان کیا ہے اوراُن کی روایات کے سلسلہ کا کیا ڈھنگ ہے۔"ابوکریب نے ہم سے بیان کیا کہ ابراہیم ابن یوسف ابن ابی اسحاق نے ہم سے کہا کہ میرے باپ نے روایت کی ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے روایت کی طلاطہ ابن مصارف سے کہ سنا ابن مصارف نے عبدالرحٰمن سے  یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول صلعم سے کہ جوکوئی دودھ دینے والی گائے خیرات کرے گا یا چاندی یا پانی کی مشک خیرات میں دے گا اُسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملیگا"۔ اس مقام پر یہ بات قابلِ یاد ہے کہ سلسلہ روایت محمد صاحب سے لے کر آخری راوی تک پورے اورکامل طورسے پایا جاتاہے۔

جس طرح قرآن اپنی تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ اعتماد اور خاص اعتبار کا رتبہ رکھتاہے اُسی طرح احادیث روزمرہ کے کاروبار کے عملی عمل کا ایک خاص چشمہ خیال کی جاتی ہے۔ احادیث نہ صرف اُن رسومات اور دستورات ہی سے تعلق رکھتی ہیں جو روزانہ اور مقرر پنجگانہ نمازوں ۔ ماہِ رمضان کے روزوں اور محرم کی تقریب اور خیرات وحج کے بارے میں ہیں بلکہ بیاہ شادی اور پیدائش واموات۔ زیورات وپوشاک اورمجالس ومحافل کے تمام دستورات احادیث میں بالتشریح پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ داڑھی تراشنے بالوں کو رنگنے اورمسواک کے لئے خاص قسم کی لکڑی استعمال کرنے کے قواعد بھی مندرج ہیں ۔ طہارت اور غسل کے بارے میں جس قدر مسائل ہیں وہ سب کے سب احادیث ہی سے حل ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی کتا چاہ میں گر کر ڈوب مرے تو فوراً یہ سوال پیش آتاہے کہ اب چاہ کا پانی کس طرح پاک وصاف کیا جائے؟ ایسے موقعہ پر علما سے صلاح لی جاتی ہے اور وہ کتاب کھول کر بتاتے ہیں کہ اتنے من یا اتنے پیمانے پانی نکال دو۔ اس سے چاہ کا پانی بالکل پاک وصاف ہوجائے گا۔

یہودی فقیہ ہاتھ دھونے اور دیگچیوں کو صاف کرنے کے مسائل کے ثبوت میں اپنے ربیوں اور عالموں کی تعلیم پیش کرکے کبھی اپنی علمیت کا اس قدر اظہار نہیں کرتے جس قدر مسلمان مولوی اس قسم کے چھوٹے چھوٹے امور پر بحث کرتے وقت کرتے ہیں۔

فصل سوم

اجماع

اسلا م کا تیسرا رکن اجماع ہے۔ اہل اسلام کے ذہن میں لفظ اجماع کا مفہوم وہی ہے جو مسیحیوں کے نزدیک بزرگوں کی متفق رائے  Consensus    of    the    Fathers   سے مراد ہے۔ اجماع سے اُن عالموں اور مجتہدین  کی رایوں کا مجموعہ مقصود ہے جومحمد صاحب کے اصحاب اور انصار ومددگار تھے جو آنحضرت کے ایامِ رسالت میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ان لوگوں کے شاگردوں اور ساتھیوں کی رایوں کا مجموعہ بھی ایسا ہی خیال کیا جاتاہے اوران سب کے حق میں یہ گمان ہے کہ وہ قرآن کا مطلب سمجھنے کی زیادہ قابلیت رکھتے تھے اور خصوصاً آنحضرت کے اقوال یعنی احادیث کو وہی بخوبی سمجھ سکتے تھے باوجود اِس سب کے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ اجماع کسی صورت میں قرآن اوراحادیث کی مخالفت نہ کرے اور ہر حالت میں اُن کی تعلیم کے موافق ہو۔اگر اجماع قرآن واحادیث سے متفق ہو تو شرع وتفسیر کے تمام مسائل پر سب سے بڑی شہادت اجماع ہی ہے۔

فصل چہارم

قیاس

اسلام کا چوتھا رکن قیاس ہے اوراس سے علمائے اسلام کی وہ بحث  اور تحقیقات مراد ہے جو قرآن وحدیث اور اجماع کی تعلیم کے مطابق ہو۔ اہل اسلام کے لئے صرف یہی پہلا موقعہ ہے جہاں عقل کو کام میں لانے کی گنجائش ہے لیکن یہ گنجائش بھی بہت ہی کم ہے۔ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے علما وائمہ اورمجہتدین  نے چند تقریریں کیں۔ یہ تقریریں قرآن اور احادیث پر مبنی ہیں اور مومنین کی ہدایت کے لئے قلم بند کی گئی ہیں۔ پھر بعد ازاں صدہاں سال تک ان علماء اور ائمہ ومجتہدین کا کوئی جائے نشین نہیں ہوا۔ مسلمان فاضلوں نے یہ دریافت کرنیکی کوشش ہی نہیں کی کہ دراصل قرآن اور احادیث کی تعلیم کیا ہے بلکہ صرف اسی قدر دریافت کرنے پر اکتفا کی ہے کہ قرآن واحادیث کی تعلیم کی نسبت علماء کیا کہتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی عقل سے کچھ کام نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک عقلی مداخلت ناجائز ہے۔ خودنمائی نے اُنکے دلوں پر ایسا اختیار جمایا ہوا ہے کہ ان علماء وفضلا ء کی حکومت رومی کلیسیا کے پوپ اور بشپ کے اختیار سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اسلامی امامت دنیاوی حکومت واختیار کے جابرانہ لباس سے ملبس ہوکر اس قابل ہے کہ اُن تمام اشخاص کے لئے جو اسلامی تعلیم اور دینی معاملات کے باب میں کسی طرح کی مخالفت کریں سخت سے سخت سزا تجویز کرے۔ اگراسلام کی اس اصولی تعلیم پر غور کیا جائے تو اس بے حد سختی اور جوروستم کا صاف پتہ لگ جائیگا ورنہ ہرایک بات گویا معدنی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اوراُس کے برآمد ہونے کی کوئی اُمید نہیں اوراسلام میں ترقی کی کوئی صورت نہیں رہتی۔مسلمان مولوی ہمیشہ گذشتہ  کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اپنی عقل کا دخل ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ اُن کے اپنے خیال میں کتب مقدسہ کی تعلیم کیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے فریسیوں کی طرح خوش الحانی سے پڑھ کر صرف وہی بات بتاتے ہیں جو ہزاربرس پیشتر کسی قدیم عالم نے سکھائی تھی۔

ترکی اور ہندوستانی مسلمانوں کے بعض خیر خواہ بڑے وثوق سے اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ اہل مغرب سے ملنے جُلنے اوراُن کی شائستگی  سے واقفیت  حاصل کرنے سے اُن کے مذہب میں ضرور اصلاح ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرگرم خیر خواہ ہزار برس کی صلح بخش اور امن وچین کی اسلامی سلطنت  کی راہ دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُس وقت مستورات کی واجبی  عزت ملحوظ رکھی جائیگی۔کثیر الازدواجی  موقوف ہوجائیگی۔ غلام آزاد کئے جائینگے۔ بردہ فروشی  کی لعنتی رسم کا خاتمہ ہوجائیگا۔ عقل وضمیر آزاد ہونگے اورمسلمان اورمسیحی کمال محبت سے بغلگیر ہوکر تخت ورحمت کے سامنے سرنگوں ہونگے۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے والے دین اسلام کی حقیقت کونہیں سمجھتے ۔ جوبرائیاں اسلامی ممالک میں مشہور اوربکثرت پائی جاتی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوچکا ہے اُن سب کا رواج اور جواز اسلام ہی کی طرف سے ہے۔ جب تک قرآن کا اختیار باقی ہے تب تک غلامی اور غلاموں کی گریہ وزاری کی ذلت اور کثر الازدواجی  کی قباحت قائم رہیگی۔ جب تک اسلامی علماء احادیث  وروایات  اوراجماع کے بس میں ہیں تب تک اسلامی ممالک میں عقل وضمیر بیکاری اور غلامی کی حالت میں ہیں اور رہینگے۔ جب تک مسلمان بردہ فرشوں اور ترکوں اور عربوں کی بردہ فروشی سے قطعی طورپر باز نہ رکھا جائیگا تب تک افریقہ کے زخم بھر نہیں سکتے۔ اونٹ کٹارے سے انگور توڑنا بالکل ناممکن ہے۔

باب دوم

عقائدِ اسلام

اب ہم اسلامی ایمان واعمال پر نظر کریں جوکہ عقائد اسلام پر مبنی ہیں۔ اسلام کی معتبر شہادتوں کے بموجب اسلامی ایمان میں سات باتیں شامل ہیں اور اُن کو صفاتِ ایمان کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے کہ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ والقدر خیرہ وشرہ والبعث بعد الموت ترجمہ: میں ایمان لاتاہوں خدا پر اُس کے فرشتوں  پر اُس کی کتابوں پر اُس کے رسولوں پر آخری دن پر اندازہ خیروشر پر  اور بعد ازموت زندہ ہونے پر۔

خدا پر ایمان رکھنے سے نہ صرف شخصی خدا کا یقین مراد ہے بلکہ خصوصاً اُس کی کامل وحدانیت بھی ملحوظ ہے اوریہ وحدانیت صرف معبود مِن دُونِ اللَّهِ ہی کی تردید نہیں کرتی بلکہ واحد خدا کے وجود اجتماع اقانیم اور تجسم کے ہرایک خیال کو رد کرتی ہے۔ چنانچہ تثلیث فی التوحید اور مسیح میں خدا کے مجسم ہونیکے مسائل کے بالکل برخلاف ہے۔

پھر خدا کی سات صفات یوں بیان کی ہیں ۱(۱)حی القیوم (۲) علیم(۳) قدیر(۴) سمیع(۵) بصیر(۶)کلیم اور (۷) مرضی۔ اہل اسلام کے نزدیک خدا دانائی اورمحبت کی صفات سے اس قدر متصف نہیں ہے جس قدر کہ لاانتہا اور غیر محدود قدرت کی صفت سے۔ ایک مقام پر یوں مندرج ہے کہ وہ عالموں کا خداوند اور آسمان وزمین کا خالق ومالک ہے۔ اُسی نے زندگی اور موت کوخلق کیا اور کل جہان کی حکومت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُ س سے صبح نمودار ہوتی  ہے اور رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ خداوند ہی قادر مطلق اور جلالی تخت کا مالک ہے۔ گرج اُس کے کمالات کا اشتہار دیتی ہے۔ کل زمین  اُس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اُس کے دائیں ہاتھ میں طے کئے جائیں گے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اُس علم کو اخذ کرتا ہے جو راست اور صحیح مقصد کی طرف اُس کی ہدایت کرتاہے۔ خدائے تعالیٰ عاقل ۔ راست سچا اور اندازہ کرنے میں نہایت ہی تیز ہے۔ وہ تمام بنی آدم کے سارے چھوٹے بڑے نیک  وبداعمال کو جانتاہے اور مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

قادر مطلق کی قدرت کا خیال ایسا وسیع الفضا ہے کہ مخلوق کی مرضی کو ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کے دلوں پر آخرکار اس قسم کے خیالات مسلط ہوگئے ہیں کہ خدا گویا انسانی مہروں سے شطرنج کھیلتاہے اور مہروں کے ہلاک ہونے یا مارے جانے سے بالکل لاپرواہ ہوکر بازی جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس کے برخلاف خدا کو رحیم بھی مانا ہے۔ خدا کو رحیم ماننا اسلام کا اعلیٰ خیال نہیں ہے کیونکہ مسلمان بجائے محبت کی کشش کے زیادہ تر خوف ودہشت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔اسلام کا خدا تو بیشک سچا خدا ہے لیکن اُس کی ماہیت کے متعلق اسلامی خیالات قابِل اعتراض ہیں۔ ہمارا اعتراض صرف اِسی  بات پر نہیں ہے کہ اسلام تثلیث کو رد کرتا ہے بلکہ اس پر بھی ہے کہ اُس نے خدا کے قادر مطلق ہونے کی صفت پر بہت زور دیا ہے اوراُسے دیگر صفات پر ترجیح دے کر اُس کی پاکیزگی کے درجہ کو گھٹا دیا ہے۔ قرآن میں خدا کی پاکیزگی کی نسبت جو کچھ مندرج ہے وہ ایک مقدس انسان کے حق میں بھی کہا جاسکتاہے۔ خدا کے رحم اور مہربانی کی صرف مسلمانوں کے لئے محدود اور مخصوص  کرنا خواہ اُن کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ کافروں کے بچوں کوبھی دوزخ میں بھیجنا ۔ گناہ کے کفارہ کی ضرورت سے انکار کرنا ۔ اپنی حفاظت اوراسلام کی ترقی کے لئے جھوٹ بولنے کو جائز سمجھنا اور خداکی سچائی کومحدود کرنا وغیرہ ساری باتیں سخت اعتراض کے قابل ہیں۔ اس مقام پر یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کا خدا نہ صرف وہ اللہ ہے جس کا قرآن میں بیان پایا جاتاہے بلکہ وہ ووہ خدا ہے جوقرآن کے ہرایک لفظ اور حرف میں بولتاہے۔ قرآن کی تعلیم سے جو خیال خدا کی نسبت پیدا ہوتاہے اُس کو اُس خیال سے جُدا نہیں کرنا چاہیے جو محمد صاحب نے اپنی نفسی یا ملکی مقاصد کی ترقی وتحصیل کے لئے ہمیشہ مدنظر رکھا۔ کیونکہ ازروئے اسلام آنحضرت محض خدا کا منہ تھے۔پس اگر ہم اسلامی اللہ کا صحیح تصور اپنے ذہن میں قائم کرنا چاہیں تونہایت ضروری ہے کہ ساتھ ہی اُن تمام افعال واعمال کا بھی خیال کریں جو محمد صاحب نے اُس قرآنی اللہ کی منظوری سے کئے۔ ایسا کرنے سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ جو کچھ ہم نے کہا ہے اُس میں کسی طرح کا مغالطہ یا زیادتی نہیں ہے۔

جن کتابوں کومسلمان اعتقادی طورپر مانتے ہیں اُن کی نسبت یہ کہا جاتاہے کہ وہ تعداد میں ایک سوچار(۱۰۴) ہیں اورسب کی سب الہامی ہیں۔ وہ سب کی سب وقتاً فوقتاً انبیاء پر نازل ہوئیں اوراُن میں سے سب سے آخری قرآن ہی کہتے ہیں کہ اِن کتابوں میں سے ایک سوغائب ہوگئیں۔ یہ وہی کتابیں ہیں جو آدم۔ شیث۔ حنوک اور ابراہیم کو ملیں۔ جو چار کتابیں ابتک موجود ہیں وہ یہ ہی ہیں۔(۱) توریتِ موسیٰ(۲) زبورِ داؤد(۳) انجیل عیسیٰ اور(۴) قرآنِ محمد۔ قرآن اِن تمام کتابوں کو کلام اللہ مانتاہے اور اُن کی نسبت یوں بیان کرتاہے کہ یہ کتابیں بنی آدم کو نوروہدایت اورنجات بخشنے کے لئےنازل ہوئیں۔ لیکن جیسا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں زمانہ  حال کے مسلمان قرآن کے سوا باقی تمام کتب سماوی کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں۔ پس جب کوئی مسلمان کہتاہے کہ " میں کتب یہود ونصاریٰ پر ایمان لاتا ہوں" تویہ کہنے سے اُس کا مطلب صرف یہ ہوتاہے کہ یہ کتابیں کسی زمانہ میں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں لیکن اب تحریف وتخریب کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہیں۔صرف وہ حصص صحیح تسلیم کئے جاسکتے ہیں جن کی قرآن تصدیق کرتا ہے۔

انبیاء کے بارے میں مسلمان خیال کرتے ہیں کہ اُن کا شمار ایک لاکھ چوالیس ہزار ہے۔ لیکن قرآن میں اٹھائیس سے  زیادہ کے نام مندرج نہیں ہیں۔ علاوہ بریں مسلمان یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ تین سو پندرہ(۳۱۵) رسول خاص پیغام کے ساتھ بھیجے گئے۔ ۹  نئے الہٰی احکام کے اجرا کی غرض سے ہادی کے عہدہ پر ممتاز کئے گئے۔ ان میں سے ۶ انبیاء عظام کہلاتے ہیں یعنی (۱) آدم(۲) نوح(۳) ابراہیم(۴) موسیٰ (۵) عیسیٰ اور (۶) محمد۔ اِن میں  سے ہر ایک ایک خاص لقب سے ملقب ومشہور ہے۔ چنانچہ آدم صفی اللہ۔ نوح نبی اللہ ۔ ابراہیم خلیل اللہ اور  موسیٰ کلیم اللہ ۔عیسیٰ روح اللہ اورمحمد رسول اللہ کے لقب سے ملقب ہیں۔اس سلسلہ میں یہ امر نہایت ہی عجیب ہے کہ اگرچہ عام اعتقاد کی رو سے تمام انبیاء بے گناہ اور معصوم ہیں توبھی قرآن اور احادیث کی تعلیم کے لحاظ سے صرف عیسیٰ  ہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔ دیگر انبیاء کی نسبت قرآن میں مرقوم ہے کہ اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اُن سے توبہ کی ۔ احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتاہے ۔ خصوصاً محمد صاحب کو توتوبہ کرنے کا حکم ملا اورآنحضرت نے ایک ہی دن میں ۷۰ مرتبہ اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔ لیکن عیسیٰ کے حق میں کوئی اس قسم کی عبارت نہیں پائی جاتی جس سے وہ گنہگار ثابت ہو۔اُس کے توبہ واستغفار کے باب میں کہیں اشارہ تک بھی نہیں ملتا۔ اُس پر کسی صورت میں گناہ کا الزام نہیں لگ سکتا ۔ وہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔

روز قیامت یا روز انصاف کی تعلیم کی مانند اہل اسلام کے دل پر کوئی اور تعلیم موثر نہیں ہوتی۔ اُن کے نزدیک یہ عدالت کا بڑا دن ہے اور کم از کم ہزار برس  کے عرصہ تک رہے گا۔ اس دن کے قریب ہونے پر بہت سے بڑے بڑے نشانات ظاہر ہونگے۔ لوگوں کے ایمان کمزور ہوجائیں گے شرارت اور بدکاری بہت بڑھ جائیگی سب سے رذیل لوگ بڑے بڑے اعلیٰ رتبوں اور عہدوں پر ممتاز کئے جائینگے۔ تمام جہان میں فساد وبغاوت اور طرح طرح کی مصیبتوں کا زور ہوگا۔ آفتاب مغرب سے طالع ہوگا۔ زمین پر ایک حیوان ظاہر ہوگا جوشہر مکہ میں خانہ کعبہ میں نمودار ہوگا۔ اُس کا سرسانڈ کا آنکھیں سور کی ۔ کان ہاتھی کے سینگ ہرن کے ۔ گردن شُتر مرغ کی۔ سینہ شیرببر کا ۔ رنگ چیتے کا ۔ پیٹھ بلی کی۔ دم مینڈھے کی ٹانگیں اونٹ کی اور آواز گدھے کی سی ہوگی۔ اسی زمانہ میں دجال ظاہر ہوگا۔ وہ کانا ہوگا اوراُس کی پیشانی پر کفر کا لفظ کندہ ہوگا۔ وہ بڑے آرام سے ایک گدھے پر سوار ہوکر نکلیگا اور ستر ہزار یہودی اُس کے ساتھ ہونگے ۔ چودہ مہینوں تک بڑی فتحمندی سے تاخت وتاراج کرتا پھریگا۔ آخر کار عیسیٰ آسمان سے اُتر کر اُسے ہلاک کریگا اور دین اسلام کو تمام جہان میں رائج کریگا اوراُس کے بعد امام مہدی ظاہر ہوگا۔ پھر قیامت کے ہولناک دن کے قریب اور بہت سے نشانات اُس دن کی خبر دینگے۔ آخرکار فرشتہ نرسنگا پھونکیگا پہلی آواز سے زمین وآسمان کے تمام رہنے والوں کے دلوں پر ہول چھاجائیگا  اور دوسری آواز سے تمام مخلوقات پر موت وارد ہوگی۔ بعد ازاں پھر وہی فرشتہ زندہ ہوکر تیسری مرتبہ نرسنگا پھونکیگا اور اس تیسری آواز سے تمام مردہ مخلوقات پھر زندہ ہوجائیگی۔ پھر عدالت شروع ہوگی۔ وہ تمام جانور جنہوں نے اس دنیاوی زندگی میں اپنے مالکوں کے ہاتھ دکھ اورظلم وستم کو برداشت کیا ہوگا وہ اپنے  مالکوں کے جسم کو اپنے پاؤں سے کچلیں گے اور پائمال کرینگے۔ تمام شریر لوگ سیاہ روے کرکے عدالت میں حاضر کئے جائینگے۔ چغلخور بندروں کی شکل میں۔ ظالم سورؤں کی شکل میں۔ ریاکارزمانوں کو چباتے ہوئے اورمکار اور شیخی باز رال سے لتھڑی ہوئی پوشاکیں پہن کر نکلینگے ۔ ان سب کو پل صراط سے گذرنا پڑیگا (پل صراط دوزخ پر ایک ایسا پُل بیان کیا جاتاہے جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے بدکار لوگ اس پُل پر سے گذر نہیں سکیں گے بلکہ نیچے دوزخ میں گر پڑینگے۔ راستباز  یعنی ہر زمانہ اور ملت کے ایماندار نہایت بُراق اور نورانی  لباس پہن کر اور سفید پر دار اور زرین کچاووں والے اونٹوں پر سوار ہوکر بڑی عزت کے ساتھ حاضر ہونگے۔ اُن کے لئے فردوس کے پھاٹک کھولے جائینگے۔ وہ اندر داخل ہوکر ریشمی اور قیمتی جواہرات سے مرصع مندوں پر بیٹھ کر گوری اور سیاہ آنکھوں والی حوران بہشتی کی صحبت سے محظوظ ہونگے۔بہشت کے خوشرنگ اور لذیذ پھلوں کو کھائینگے۔ زرین پیالوں میں حوضِ کوثر کا خوشبودار پانی پینگے۔ چنانچہ  اسی عشر تکدہ بہشت کی اُمیدمیں آتش مزاج عرب تاجِ شہادت کوحاصل کرنے کے لئے اپنی جان بلا توقف یقینی  موت کے حوالے کردیتے ہیں اوریہی اُمید افغانستان کے غازیوں اور سوڈان کے دیوانے دوریشوں کی فوج کے دستوں کی بھرتی رہتی ہے۔ اُن کے نزدیک  کافروں  سے لڑنا بڑی فضیلت  کی بات ہے اورایسی لڑائی میں مرنا بہشت میں داخل ہونیکا شاہی پروانہ ہے۔

باب سوم

اسلامی فرائض

اب ہم دین اسلام کے اعمال پر غور کرینگے۔ اسلامی اعمال یا فرائض میں یہ پانچ باتیں شامل ہیں(۱) کلمہ پڑھنا(۲) مقررہ نماز وں کو ادا کرنا(۳) رمضان کے روزے رکھنا(۴) حسب الحکم شریعت خیرات دینا اور (۵) مکہ جاکر کعبہ کا حج کرنا۔

کلمہ پڑھنے سے یہ عقیدہ مراد ہے کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں اور محمد خدا کا رسول ہے۔ چنانچہ کلمہ کے الفاظ لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ سے یہ بات صاف ظاہرہے کہ کم از کم ایک مرتبہ بلند آواز صدق دل سے کلمہ پڑھنا ضروری ہے۔

فرضِ نماز اس امر کا مقتضی ہے کہ ہرروز نماز پنجگانہ وقت پر ادا کی جائے ۔ علی الصباح طلوعِ آفتاب سے پیشتر موذن نماز فجر کی اذان دیتا ہے۔ پھر بعد از دوپہر نماز ظہر ادا کی جاتی ہے اور نماز عصر قریباً بوقت تین چار بجے قبل از غروب آفتاب پڑھی جاتی ہے۔ پھر آفتاب غروب ہوتے ہی نماز مغرب ادا کی جاتی ہے اور غروب آفتاب کے قریباً دوساعت بعد نماز عشا کا وقت ہوتاہے۔یہ تمام نمازیں عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو ہرایک نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونا ضرور ی ہے۔ لیکن صرف مرد مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور عورتوں کومسجد میں حاضر ہونے سے معذور رکھا گیا ہے۔نماز کے وقت جس جگہ مسلمان جمع ہوں وہیں نماڑ پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی مسجد سے باہر بھی نماز جائز ہے۔ جب مسلمان نماز کے وقت دنیاوی کاروبار سے دست بردار ہوکر مصلے بچھاکر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ منظر قابِل دید ہوتاہے۔ برسرراہ اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھی مسلمان مسافر نماز پڑھتے ہیں اوراُنہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کا نماز کے وقت کچھ خیال نہیں ہوتا۔اہلِ اسلام کے اعتقاد وایمان کی گواہی بالکل صاف وصریح ہے اور وہ اپنے اعتقاد پر بہت نازاں  ہیں۔ جمعہ کے روز مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوکر اپنے مقدس دن کی نماز ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات نماز سے پیشتر یا بعد کچھ دینی گفتگو اور وعظ بھی کرتے ہیں اور جب نماز اور وعظ سے فرصت  وفراغت ہوتی ہے تو پھر اپنے اپنے کاروبار پر چلے جاتے ہیں اور  معمولی دینوی دھندوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

روزہ رکھنے کا فرض خاص کر کے ماہِ رمضان کے روزوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ماہِ رمضان ایک مقدس مہینہ ہے جس میں ہرایک بالغ اور تندرست مسلمان پر ہر روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے۔صبح سے لے کر شام تک پارہ نان یا قطرہ آب روزہ دار کے حلق سے نیچے نہیں اُتر سکتا۔ گرم ممالک میں موسمِ گرما کے لئے لمبے دنوں میں روزوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ بہت سے روزہ دار بیمار ہوجاتے ہیں اور عموماً جانبر نہیں ہوتے۔ بیمار اور کمزور ماہِ رمضان میں روزے رکھنے سے اس شرط پر معذور رکھے جاسکتے ہیں کہ وہ کسی اور موقع پر اسی قدر روزے رکھیں۔ رات کے وقت مسلمان جس قدر چاہیں کھاپی سکتے ہیں ۔ کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔اگر کوئی دینوی طبیعت والا مالدار ہو تو دن کو راست سے تبدیل کرنے سے روزوں کی سختی سے بچ سکتا ہے۔

زکواۃ ایک قسم کا شرعی محصول ہے جو قوم یہود کی دہیکی سے ملتا جلتا ہے۔ زکواۃ دینے والے کی آمد نی کے مطابق  زکواۃ کا وجوب  مختلف طورپر ہے۔ نفع یا آمدنی کا چالیسواں حصہ زکواۃ میں دیا جاتاہے اور دینی امور وغربا پروری میں خرچ کیا جاتاہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ مسلمانوں کی خیرات زکواۃ ہی میں محدود ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں  کہ مسلمان غریبوں کے حق میں بڑے فیاض اور مہربان ہیں۔ پردیسیوں اورمسافروں کی خوب مہمان نوازی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں جب ترکوں اور۔۔کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اُس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے بیماروں اورمجروحوں کے لئے چندہ کی ایک بڑی معقول رقم جمع کی تھی۔ ایک تومستورات نے اپنے سونے چاندی کے زیورات کوبھی اُتار کر چندہ کی تھیلی میں ڈال دیا تھا۔

نماز اور روزہ زکواۃ کی طرح حج کعبہ کی بھی قرآن میں تاکید کی گئی ہے کے نمونہ سے اس قرآنی تاکید وتعلیم کی تصدیق ہوگئی ہے۔ جومسلمان تندرست اور دولتمند ہو اور حج کے اخراجات کا متحمل ہوسکتا ہو اُس پر کم از کم  عمرہ ایک مرتبہ اور حج کرنا فرض ہے۔ وہ رسومات جو حج سے تعلق رکھتی ہیں عربی رسومات کی بقیہ معلومات ہوتی ہیں لیکن بُت پرستی کے خیالات سے بالکل پاک ہیں۔ بت پرستی کے قریب قریب ہے وہ سنگ اسود کو چومنا ہے۔ سنگ اسود خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں لگا ہوا ہے۔ ایک حدیث میں مرقوم ہے کہ خلیفہ عمر نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب پہلا حج کیا تواُس پتھر سے مخاطف ہوکر یوں کہا"

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث ۱۵۳۴

ان روایتوں کا بیان جو حجر اسود کے بارے میں منقول ہیں ۔

راوی : محمد بن کثیر , سفیان , اعمش , ابراہیم , عابس بن ربیعہ , عمر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَائَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ

محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، عابس بن ربیعہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا کہ کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔

باب چہارم

جہاد

اسلام کے جن عملی فرائض کا تیسرے باب میں ذکر ہوا ہے ہم اُن میں جہاد یا جنگ مقدس کا بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔یہ فرض محمد صاحب کے زمانہ میں شروع ہوگیا تھا اور دراصل اسی فرض کو ادا کرنے سے آنحضرت کے کاروبار میں اس قدر کامیابی ہوئی۔ اسلام کی تعلیم کے لحاظ سے ہرایک کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ اسکامطلب یا تویہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کے لئے جنگ کرے یا یہ کہ کافی ہدایت حاصل کرکے کفارہ کے ساتھ اس غرض سے لڑے کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اگر اسلام کوقبول نہ کریں تونیست ونابود ہوجائیں۔اسی تعلیم کی پناہ میں ہوکر اہل اسلام نے کسی منکر قوم یا فریق پر حملہ آور ہونے کے لئے اپنے آپ کو آزاد سمجھ رکھاہے۔ اسی تعلیم کے سہارے پر عربی بردہ فروش وسط افریقہ میں اپنی خونخوار کاگذاری عمل میں لاتے ہیں اور آرمینیا میں ترک مسیحیوں کو قتل کرتے ہیں۔

آرمینیا میں جوجورجفا اورظلم وستم ترکوں اور کردوں نے مسیحیوں پر کئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہولناک بے رحمی اور پرکینہ ظلم اورجدال وقتال کی ایک ایسی عجیب مثال پیش کرتے ہیں جودین کے نام سے جہاد کے ساتھ ایک شرط لازمہ ہے۔ اس میں کچھ شک وشبہ نہیں کہ ملک آرمینیا  کے تمام کشت وخون مذہبی جوش کے بھڑکنے اورسلطان روم اوراُس کے مشیروں کی تحریک سے وقوع میں آئے ہیں۔ ایک محمدی افسر نے اُن تمام مظالم اورکشت وخون کی جوابوکیر اور حارپوت میں ہوئے بڑی تحقیقات  کی ہے اوراُس کے بیان کا خلاصہ ہمارے اس بیان کی تائید کرتاہے۔

اہل آرمینیا نے والیانِ یورپ سے اپنی تباہ حالت کی اصلاح وبہتری کے مضمون پر درخواست کی اورایک شاہی فرمان جاری ہواکہ شاہان یورپ کی صلاح کے مطابق اصلاح کی جائے۔ اس پر اہل ترکستان بہت بگڑے اوراس خیال سے کہ مبادا کہیں آرمینیا کی حکومت قائم ہوجائے اُنہوں نے بیچارے آرمینیوں کی سخت مخالفت کی جو بیچارے چھ سو بیس برس سے برابر اُن کے مطیع اوراُن کے ساتھ صلح سے رہتے چلے آئے تھے۔ ترکوں کے غضب وغصہ کے ساتھ سرکار کی اجازت اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر از انکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر ازانکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے تمام ترکستان اس امر پر آمادہ اور کمربستہ ہوگیاکہ ارمنی نام کو صفحہ ہستی سے بالکل بالکل محو اور نیست ونابود کر ڈالے۔ چنانچہ ہزارہا ترکوں نے کُردوں سے مل کر اوراُن ہتھیاروں کو پہن کر جن کی اجازت سوائے فوجی سپاہیوں کے اورکسی کوبھی نہیں ہے ترکی افسروں کی حمایت اورہدایت سے دن کے وقت ارمنی مکانوں۔ دوکانوں۔ گوداموں۔ راہب خانوں۔ گرجوں اور مدرسوں پر علانیہ حملہ کیا اور کشُت وخون کا بازار گرم کردیا۔

اِن مقامات کولوٹنے کے بعد مٹی کا تیل ڈال کے آگ لگادی اور جلا کر راکھ کردیا۔ جن گرجوں کی عمارت سنگین تھی وہ آگ سے نہ جل سکے لیکن اُنہیں اور طرح سے برباد کیا گیا۔بعض گرجے مسجدوں میں تبدیل کئے گئے اوراسلامی عبادت کے لئے مقرر ہوئے۔ مسیحیوں کی مقدس کتابیں پھاڑ کر پُرزہ پُرزہ کی گئیں۔ بہت سے پادری ۔ کلیسیا کے بزرگ ۔ عورتیں اور چھوٹے بچے جبراً مسلمان بنائے گئے۔ مردوں کو سفید پگڑیاں پہنائیں اور عورتوں کے بال کتر کے مسلمان عورتوں کے بالوں کی مانند بنادئیے اوراُن سے جبراً اسلامی نماز پڑھوائی۔ شادی شدہ عورتوں اور لڑکیوں کی خلافِ شریعت بے حرمتی کی۔بعض سے جبراً نکا ح کئے گئے۔ چنانچہ وہ ابتک ترکوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ خصوصاً طالو۔ سبودک ۔ ملیشیا ۔ ابوکیر اور چونکو ش میں سپاہی بہت سی عورتوں اورلڑکیوں کوپکڑ کر اپنی بارکوں میں لے گئے اوراُنہیں بے عزت کیا۔بہتوں نے ایسی بے عزتی سے بچنے کے لئے دریا میں ڈوب کر جان دی اور بعض نے اور طریقوں سے خودکشی کرلی۔

جہاد کی اس سینکڑوں برس کی تعلیم کا اثر مسلمانوں کی سخت بے پروائی میں ہرجگہ پایا جاتاہے۔ یہ بات نہایت ہی عجیب ہے کہ شاید چند ہی ایسے مسلمان ہونگے جن کو ایسے کاموں سے کچھ نفرت ہو۔ بہت سے سمجھدار اورتعلیم یافتہ مسلمان اِن کاموں کو بڑے اطمینان سے دیکھتے ہیں۔ آرمینیا کے کشت وخون کے وقت سے لے کر ابتک مسیحیوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ مدت سے تمام مسیحی قومیں ان مظالم پر شور مچارہی ہیں مگر ہم نے کسی مسلمان کے منہ سے کبھی اس بے رحمی اور جوروجفا کے خلاف ناراضگی کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔

دین اسلام کی اشاعت وترقی کا عمدہ ذریعہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ جب اسلام کے حامی اسلامی اور مسیحی مشنوں کی ترقی کا باہم مقابلہ کرتے ہیں تواُن پر واجب ہے کہ ٹھیک طور سے اور بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کریں اوربے رعایت ہوکر طرفین کے وسائل ترقی کو محققانہ اور منصفانہ جمع کریں اوراُن کے اخلاق اور نتائج کو بھی بنظر غور دیکھیں۔

باب پنجم

اسلامی فرقے اور بدعتیں

دین اسلام اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ دیگر ادیان کی طرح اس کے جان نثاروں کے طرز زندگی اور دستورات سے اس پر بھی بہت تاثیر ہوئی ہے۔ چنانچہ دین عیسوی کی طرح دین اسلام میں بہت سے جھگڑے اور جدائیاں ہیں۔

اہلِ اسلام کے کم از کم ایک سو پچاس (۱۵۰) فرقے ہیں۔ اُن میں سے بعض توملکی تدابیر کے لحاظ سے ہیں اور بعض تعلیم یافلسفہ کے لحاظ سے۔سنی اور شیعہ فریق کے درمیان شروع ہی سے بڑا بھاری تفرقہ چلا آتاہے۔ اس تفرقہ کی بنیاد یہ ہے کہ محمد صاحب کی وفات پر اُن کے جانشین یا خلیفہ کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ شیعہ چاہتے تھے کہ محمد صاحب کی بیٹی فاطمہ کا شوہر علی خلیفہ مقرر ہو۔ چنانچہ اسی لئے وہ پہلے تین خلیفوں یعنی ابوبکر ۔ عمر اور عثمان کو غاصِب سمجھ کر رد کرتے ہیں۔ ملکی فرقہ بندی کے باعث بہت سی تباہی خیز لڑائیاں  ہوئیں۔ فارس اور ترکستان کا جھگڑا ایسا بھاری ہے کہ ابتک طے نہیں ہوا اورنہ اُس کے طے ہونے کی کچھ اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ ایک جدید اور طاقتور فرقہ وہابیوں کا ہے جنہوں نے عرب اور ہندوستان میں بہت اصلاحوں کی تجویز کی ہیں اور بہت سی خرابیوں کودور کرنے کی کوشش کی ہے اوراسلام کو اُس کی اصل پاکیزگی کی طرف لانا چاہاہے۔محمد علی مرحوم مصری نے اس فرقہ کی ملکی طاقت کو بالکل توڑدیا ہے۔

علم الہٰی کی بنا پر اسلام کے بہت سے فرقے ہیں۔ علی الہٰی فرقہ کے لوگ مانتے ہیں کہ تمام الہامی زمانو ںمیں علی کے زمانہ تک جو کہ آخری تھا خدا مختلف اماموں اور ہادیوں میں مجسم ہوتا چلا آتاہے۔ اہل اسلام خدا کی وحدانیت کے بڑے پکے معتقد ہیں لیکن توبھی یہ معلوم کرنا کہ اُن کے دلوں میں خدا کے مجسم ہونے کا خیال کس طرح داخل ہوا نہایت ہی عجیب معلو م ہوتاہے۔ ایک فرقہ کا یہ اعتقاد تھاکہ خدا انسانی صورت رکھتاہے۔ علاوہ اس کے ایک فرقہ کا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگرچہ خدا انسانی صورت رکھتاہے توبھی اس کا جسم غیر معمولی اور نورانی ہے۔

الہٰی صفات کے اُس مباحثہ سے مذکورہ بالا بدعتیں قائم ہوئیں اور نتیجہً فرقہ معتزلہ پیدا ہوا۔ یہ فرقہ تمام فرقہائے اسلام میں  اکیلا آزاد اور عقلی دلائل کا ماننے والا قرار دیا جاسکتاہے۔ ہندوستان میں بعض عالم اس فرقہ کو بحال کررہے ہیں۔

صوفیوں یا عارفوں  کے فرقے نے ہمہ اوست کے فلسفہ کواختیار کیا ہے اور اسی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک طرف تواعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور دوسری طرف مسئلہ تقدیر جودہریت تک پہنچاتاہے اسکے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

خاتمہ

مسلمانوں کے دلوں میں ایسی ایسی مختلف راویوں کے خیال کا اثر ایسا ہے جو مسیحی مذہب کوپھیلانے کے لئے قابل لحاظ ہیں۔ اہل اسلام میں قومی جوش کے اصول مسیحی مبشروں کی کوشش کے لئے ایک بھاری امید پیدا کرتے ہیں ۔ علم الہٰی کے لحاظ سے اسلام کو بہت سی علمی کتابوں اورالہٰی عرفان کی باقاعدہ تعلیم سے بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ علاوہ اس کے ہزاروں عقلمند مسلمان اپنی زندگی علم الہٰی کے مطالعہ اور دین کی اشاعت میں بسر کرتے ہیں۔ تعلیم کے لئے بڑے بڑے مدرسے قائم کئے گئے ہیں۔ اور شہزادوں اور بادشاہوں کی فیاضی سے اُنہیں بہت مدد ملتی ہے۔عموماً جومسلمان اُن مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں دیگر مذاہب کی تاثیرات سے بچے رہتے ہیں ۔ یہ مذہب کرہ ارض کے آٹھویں حصہ پر حکمراں ہے۔ اور دنیا بھر میں مسیحی مذہب سے دوسرے درجہ پر خیال کیا جاتاہے ۔ مشرقی ممالک میں بڑے بڑے سلاطین اُس کے معتقد اورحامی ہیں۔ جیسا ہم اُوپر ذکر کرچکے ہیں۔ اس مقام پر پھر یاد دلانا مناسب ہے کہ مذہب اسلام ہمارے پاک اور مقدس دین کا اول درجہ کا رقیب ہے۔

پس کیا یہ ایک عجیب بات معلوم نہیں ہوتی کہ ہماری کلیسیاؤں ن جس طرح مارمین اور یہودیوں کے لئے مشن کھولے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے اکثر خاطر خواہ انتظام نہیں کیا؟اس میں شک نہیں کہ بہت سے شتری ہندوستان  مصر ترکستان اور فارس میں بھیجے جاتے ہیں جوعموماً مسلمانوں ہی میں کام کرتے ہیں ۔ تاہم ہماری کلیسیاؤں میں مسلمانوں کے لئے مشنریوں کوخاص خیال اور خاص تیاری کی ضرورت ہے۔ جومشنری اسلامی ممالک میں بھیجے جاتے ہیں اُن کا اس قابل ہونا نہایت ضروری ہے کہ وہ محمد صاحب کے پیروؤں کے خیالات اور حالات کو بخوبی سمجھ سکیں اور عقلمندی کے ساتھ اُنہیں انجیل کی سچائی کی طرف جس کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے لانے کی کوشش کریں اور اُس نجات دہندہ کے دعوؤں کی طرف لائیں جواسلام کا اکیلا بے گناہ نبی ہے جس کی نسبت اہل اسلام یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر سرفراز ہے اورخدا کے سچے دین کو مقرر کرنے کے لئے پھر زمین پر آئیگا۔

ہمارے اس مندرجہ بالا بیان سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم مشنریوں کے اُس کام کی جو مسلمانوں میں کیا جاتاہے بے قدری کرتے ہیں۔ ہماری خواہش صرف یہی ہے کہ موجودہ انتظام میں کچھ ترقی کی جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ جو لوگ اہل اسلام میں کام کرنے کے لئے جائیں اُن کی اچھی طرح  سے تربیت اور تیاری میں کامل اور باقاعدہ کوشش ہو۔

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتاہے کہ اہل اسلام کے اخلاقی چال چلن پر دین اسلام کی کیا تاثیر ہوتی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں اس قدر تو ضرور ماننا پڑتاہے کہ جہاں کہیں اسلام بت پرستوں کواپنی اطاعت کے دائرہ میں لاتاہے اُن کی اخلاقی حالت کو بالکل بدل ڈالتاہے۔ عموماً تواریخ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ حیوانات اورجن بھوت کے پجاریوں ۔ آدم خوروں اور بچہ کشوں میں اسلام کے آنے سے یہ قباحتیں موقوف ہوجاتی ہیں۔ بُت پرستوں کے بداخلاق اور دستورات منسوخ کئے جاتے ہیں۔ سوسائٹی اور سلطنت کے بارے میں چند قوانین جبراً  منوائے جاتے ہیں۔ چوروں اور خونیوں کوسخت سزا ئیں ملتی ہیں۔ منشی اشیاء کا استعمال اگرچہ بالکل موقوف تونہیں ہوتا تاہم بہت کم ہوتاہے۔ بچے کسی قدر تعلیم حاصل کرتے اور سچے خدا کی پرستش  کے لئے تربیت پاتے ہیں۔ عزت اور دلیری اور رریاضت کے کچھ خیالات اُن کے دلوں پر نقش کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اخلاقی پیمانہ بہت کچھ  وسیع کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اسلامی اخلاق کی ترقی ایک خاص حد تک محدود ہے اورمسیحی اخلاق سے پیچھے ہے۔ کثیر الازدواجی  اورطلاق کے بارے میں قرآن کی اجازت  پر بردہ فروشی اورجہاد کی منظوری اور خود محمد صاحب کا نمونہ اورایسے اصول کا ماننا کہ دین کی خاطر ہر طرح کا جھوٹ اور فریب اور ظلم وزبردستی  سب کی سب ایسی باتیں ہیں جن سے اخلاقی ترقی نہ صرف رُکتی  ہے بلکہ خود اخلاق از بیخ برآوردہ اور تباہ ہوجاتاہے۔ اسلامی اقوام اخلاقی  پاکیزگی کی اُن حدود تک نہیں پہنچ سکتیں جوکہ دین عیسوی میں ادنٰی درجہ کے مسیحیوں کے اخلاق قرار دئے جاسکتے ہیں۔ بداخلاق مسیحی اور بداخلاق مسلمان کا باہمی فریق یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مسیحی باوجود اپنے دین کی پاکیزگی کے بداخلاق ہیں اور مسلمان اپنے دین کے سبب سے بداخلاق ہیں۔ فی الحقیقت یہی ایک خاص سبب ہے کہ سلاطین اسلام میں تحمل اور بردباری بالکل مفقود ہے اوراُن کی قومی اور مجلسی زندگی مہلک بیماری سے تباہ وخستہ ہورہی ہے۔

پھر بعض اوقات یہ سوال پیش آتاہے کہ اسلام نے دنیا کو کونسا فائدہ پہنچایا ہے؟ اگر اس اصلی اور حقیقی دلیل سے قطع نظر کریں کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار سیدنا مسیح کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی کلیسیا کی بہتری اور بہبودی کے لئے تمام عالم پر حکمران ہے توہماری سمجھ میں یہ بات تورایخ  سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اگرچہ اسلام نے جس قوم کو فتح کیا اُسے پوری بربادی اور تباہی کا  مود بنایا توبھی دنیا کی روحانی اور ذہنی ترقی کے لئے اسلام خدا کے ہاتھ میں ایک بڑا وسیلہ بنا۔ چنانچہ وہ بُت پرستی کا سخت مخالف رہا خواہ وہ مسیحی کلیسیا میں پائی گئی ہو یا غیر اقوام میں۔ بُت پرست  قوموں میں پُشت  درپُشت  زندہ شخصی خدا کی شہادت دیتا چلاآیا ہے اوراُن کی زبان اور خیالات کو خدا کی وحدانیت کے سانچہ میں ڈھال کر بُت پرستی کی رسوم کو چکنا چور کر ڈالا ہے اورایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خداوند کے لئے راہ تیار کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خداوند نے اسلام کے ذریعہ سے بھی اپنا مقصد پورا کیا ہے۔ تواریخ کلیسیا کا ہرایک  پڑھنے والا جانتا ہے کہ دینی اصلاح  کی ترقی کس قدر ترکوں کے قسطنطنیہ میں ہونے پر موقوف تھی۔ اسلام گویا قادر مطلق خدا کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑا بن کر اُس کے دشمنوں کو مارتا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ جوقومیں مسلمانوں کی حکومت میں آکر اپنی ناموری کو کھوبیٹھی ہیں بہت جلد مسیحی سلطنتوں کے ماتحت ہوجائینگی۔ اُن کے ہلاک کرنے اور ستانے کی طاقت بہت گھٹ گئی ہے۔ قریباً دنیا کے نصف مسلمان اب مسیحی سلاطین  کی حکومت میں ہیں۔ اُن کے درمیان مسیح کے صلح کل قاصد بے خوف  ہوکر انجیل کی تبلیغ کرتے ہیں۔اکثر ممالک میں جو اسلام کو ترک کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر کوڑوں یا موت کے خوف کے مسیح پر ایمان لانے کا اقرار کرسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلام پر ایسی تاثیرات اثر کررہی ہیں جن کے سبب سے بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلاً فارس کے بابیوں اور عرب کے وہابیوں اور ہندوستان کے سید احمدیوں اور مصر اور وسط افریقہ کے مہدویوں کے باہمی جھگڑوں نے اسلام کو بہت کمزور اور خستہ حال بنادیا ہے۔

علاوہ بریں پروٹسنٹ مسیحیوں کی تاثیر بھی جو کے مشنوں اور تعلیمی مدرسوں کے ذریعہ سے ہوتاہے کچھ کم نہیں ہے۔ سوریہ۔ ترکستان مصر اور فارس میں بہت سے سمجھدار مسلمان خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جواگرچہ اس قابل تونہیں کہ اپنے ایمان کا خلاصہ اقرار کریں لیکن دل سے بالکل قائل ہیں۔ ہندوستان میں سینکڑوں مسلمان اسلام کو ترک کرکے مسیحی کلیسیا میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مسلمان نوجوان مسیحی مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں اوران مندرسوں کے بہت سے اُستاد کلیسیا کے دیسی خادم الدینوں میں سے ہیں جوکسی وقت اسلام کے معتقد  اور عالم اشخاص  میں شمار کئے جاتے تھے۔ اس  گروہ میں مسیحی خمیر نے اپنا کام شروع کردیا ہے اورہمیں پختہ اُمید ہے کہ بہت جلد کل روٹی کو خمیر کردیگا۔

اہلِ اسلام میں ایک روایت ہے کہ "جب مسیح الدجال یعنی مخالف مسیح مسلمانوں کو بہت ستائیگا تویکایک نمازیں شروع ہونگی اور عیسیٰ ابن مریم آسمان سے اُتریگا اور اہل اسلام کا امام یا ہادی بنے گا۔ جب دجال عیسیٰ کودیکھیگا تواُس سے خوف کھائیگا اوراُس نمک کی مانند جوپانی میں گر پڑے گذار ہوجائے گا۔ وہ بیشک ہلاک ہوگا اور عیسیٰ کے ہاتھ سے مارا جائیگا"۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ دن بہت دور نہیں ہے جب عیسیٰ فی الحقیقت ان گروہوں کا ہادی ہوگا اور  مخالف مسیح کی فوجیں نمک درآب کی ماننداس کی روح کی تلوار اوراُس کی آمد کی تجلی سے نیست ونابود ہوجائیگی۔


۱. مسٹر سٹینلے لین پول کی کتاب مسمی بہ سلیکشنز فروم قرآن — Lane's  Selection  From  the  Koran, 1879