تعلیقات التعلیقات
یہ مختصر جواب ہے منشی چراغ علی صاحب کی تعلیقات کا جو
پنجاب رلیجیس بک سوسائٹی پنجاب کے واسطے چھاپی گئی ہے۔
پادری مولوی عماد الدین لاہز صاحب
نے فروری 1869 میں درمیان امرتسر کے لکھا اور اب فائدہ عام کے لئے
ہرایک زبان اقرار کے کہ یسوع مسیح خداوند ہے!
(انجیل مقدس خط فلپیوں ۲باب ۱۱آیت)
Taqliatul Taliqat
The Eradication of the Taliqat
Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz
1830−1900
A reply to Taliqat (Suspensions),
a controversial work by Munshi Chiragud Din of Awadh
called forth by the author’s Tawrikh-i-Muhammadi.
Every tongue acknowledge that Jesus Christ is Lord!
(Philippians 2:11)
تعلیقات التعلیقات
دیباچہ
واضح ہو کہ منشی چرا غ علی صاحب نے ملک اودہ میں ذرا جوش خروش کے ساتھ اسلام کی حمایت کے لئے تواریخ محمدی کے برخلاف ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام تعلیقات ہے ۔ میں نے منشی صاحب کی بہت تعریف سُنی تھی اس لئے اُس رسالہ کو اِن ایام میں منگو اگردیکھاتاکہ منشی صاحب کے خیالات سے کچھ فائدہ اوٹھاؤں مگر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اُس میں کچھ بھی نہیں ہے صرف شور ہی تھا۔
منشی صاحب وہی چال چلے ہیں جو سب اہل اسلام اپنی تحریروتقریر میں چلتے ہیں۔ ارادہ تھاکہ اُن کےفقرے فقرے پر کچھ مناسب باتیں لکھوں مگر اس کام کی نسبت زیادہ مفید کام میں مصروف ہوں پس مفصل جواب کی فرصت نہ پاکر یہ مختصر جواب لکھا جس کا نام تقلیعات التعلیقات ہے ۔ تاکہ ناظرین کم استعداد منشی صاحب کی چکنی چٹری باتوں سے دھوکانہ کھائیں کیونکہ انھوں نے خوب ہی مغالطے دیئے ہیں اوراُس خبر کا مضمون کچھ کچھ پورا کیا ہے کہ اگر ممکن ہوتا تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے ۔ پر دنیا وی حکمت کی کیا طاقت ہے کہ الہٰی حکمت کا مقابلہ کرے ناممکن ہے کہ دین عیسائی کے سامنے کوئی دنیاوی مذہب ٹھہر سکے کیونکہ خُدا آپ اس دین کا بانی اور حمایتی ہے ۔
پہلی بات
منشی صاحب نے اپنے رسالہ کے شروع ہی میں چند اقوال مغربی مورخوں وغیرہ کے محمد صاحب کی نسبت نقل کئے ہیں جن کو وہ محمد صاحب کی صحتِ نبوت کی دلالت اور مخالفوں کی شہادت بتلاتے ہیں۔
میرے گمان میں یہ بات مہمل ہے کیونکہ قطع نظر اس کے کہ منشی صاحب نے اُن کی رائے کا صحیح ترجمہ کیا ہے یا نہیں میں یوں کہتاہوں۔ کہ ان اقوال میں سے ایسی کوئی بھی رائے نہیں ہے جس سے محمد صاحب کی نبوت ثابت ہو۔ کسی مورخ نے نہیں کہا کہ وہ اپنے دعویٰ نبوت کواپنی زندگی کے واقعات میں ضرور ثابت کرتے ہیں۔ پر یہ اوربات ہے کہ وہ نیکی کرنا چاہتے تھے یا عرب کی بت پرستی کے دفع میں ساعی تھے یا ایک بہادر اور اولوالعزم شخص تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ان باتوں میں سے بعض رائے درست ہیں مگر بندہ کی رائے خاص اُن کی نبوت کی نسبت ہے اوراُن مورخوں کی رائے جن کا منشنی صاحب نے ذکر کیا ہے عام طوپر ہے خواہ باعتبار دنیا کے اورسپہ سالا روں کے یا اُن کے اخلاق کے پس اُن کی رائے اورمعاملہ میں ہے اورمیری رائے اورمعاملہ میں ہے ۔
اس کے سوا یہ بات ہے کہ میں ان مورخوں کا مقلدنہیں ہوں میں نے محمد صاحب کے حالات پر خودغور کی ہے اور کچھ میرے ذہن میں آیا اورمحمد ی کتابوں سے مجھے معلوم ہوا وہ سب راستی اورنیک نیتی کے ساتھ میں نے لکھ دیا ہے کہ محمد صاحب ہر گز خُدا کے نبی نہ تھے اورکچھ ہوا کریں مجھے کیا ہزار فضیلتیں دنیا کی اُن میں ہوں یا نہ ہوں میری بحث تو صرف نبوت کے معاملہ میں ہے ۔
علاوہ ازیں ایک اوربات ہے کہ انگریزی مورخوں کی رائے بے تامل میں ہرگز قبول نہیں کرسکتا کیونکہ انہوں نے یا تو انگریزی تواریخیں پڑھ کر رائے لکھی ہے یا کسی کسی نے کچھ عربی زبان بھی پڑی ہے اوربعض کتب سیر بھی دیکھی ہیں اورکسی مولوی صاحب کی مدد سے کچھ انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا ہے ۔ لیکن انہوں نے محمدی تعلیم کی تاثیرات اپنے اندر کبھی نہیں دیکھیں نہ محمدی مذہب کے دقائق سے کبھی واقف ہوئے کیونکہ وہ کبھی مسلمان نہ تھے میں نے تو ۳۵ برس تک اُن کی تعلیمات کے دقائق کی تایثر کو اپنے میں اوراقارب میں اوربڑے بڑے محمدی معلموں میں محمد صاحب کا حلقہ بگوش غلام بن کر آزمایا اورجب میں ہلاکت کے قریب تھا خُدا کے فضل نے مجھے مسیح یسوع میں بچالیا۔
اب خواہ ہزار مغربی مورخوں کے لکچروں یاکتابوں کے فقرےچُن چُن کر کوئی مجھے سنائے میں قبول نہیں کرسکتا کیونکہ میں اس معاملہ میں خود باتجربہ ہوں میں سچ کہتاہوں کہ اُن کی رائے میں بہت غلطیاں ہیں۔
ناظرین کو سوچنا چاہئے کہ اب مسلمانوں کے پاس محمدصاحب کی نبوت پر اورکچھ تو باقی نہیں رہا مگر اہل لندن کے لکچروں کے دُم بریدہ فقرے اب وہ لاکر سناتے ہیں سابق زمانہ میں آیات قرآن پیش کیاکرتے تھے اب لکچروں کے درمیانی فقرے مثل لا تقربولصلوۃ کے پیش کرکے محمدصاحب پر ایمان قائم کرانا چاہتے ہیں پہلے اُن لکچروالوں سے تو کہیں کہ محمدصاحب کو قبول کیوں نہیں کرتے دیکھو ہو کیا سُناتے ہیں اوران اپنے فقروں کے کیا معنی بتلاتے ہیں۔
پر منشی صاحب نے اپنے فقرات پیش کردہ کے آخر میں یہ کیا خوب فقرہ نقل کیا ہے کہ (تو گٹیا وکا رلیل اوراسپر نگر واماری ونولدیک ومیور صاحبان نے تمام جہان پر یہ بات اچھی طرح ثابت کی ہے کہ اسلام ایک زندگی بخشنے والی چیز ہزار وں سودمندجوہروں سےمشحون ہے اوریہ کہ محمدصاحب نے مروت کی سنہری کتاب میں اپنے لئے جگہ حاصل کی ہے )
یہ فقرہ منشی صاحب نے لندن کے کسی کو ارٹرلی ریویو (Quarterly Review) کے آرٹیکل سے نکا لا ہے ۔ اب میں جناب منشی صاحب ہی کو منصف بنا کر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات صحیح ہے اورآپ کی تمیز اسےقبول کرتی ہے کہ اسلام ایک زندگی بخش چیز ہے اہل اسلام میں کچھ زندگی آپ کو نظر آتی ہے ممالک اسلام میں کچھ زندگی ہے عرب ترک ایران کابل وغیرہ ممالکِ اسلام کا کیا حال ہے خودہندوستان میں مشائخ وعلماء محمدیہ کا کیا حال ہے اُن میں کچھ زندگی ہے اس کاجواب آپ ہی خُدا کو دیں صاحب اہل اسلام نے توکبھی زندگی کا مُنہ بھی نہیں دیکھاہاں اگروہ زندگی کو چاہتے ہیں تو مسیح کے کفارہ کو اورمردوں میں جی اُٹھنے کو مانیں ایمان کے وسیلہ سے اُس کے ساتھ تقرب حاصل کریں کیونکہ جس کے ساتھ بیٹا ہے اُس کےساتھ زندگی ہے جس کے ساتھ بیٹا نہیں اُس کے ساتھ زندگی نہیں ہے ۔ آدمی کو اختیار ہے کہ جو چاہے مُنہ سے بول اُٹھے مگر ہر بات کا خُدا کو جواب دینا ہوگا۔
ہاں دنیا میں ایسا توکوئی بھی مذہب نہیں ہے جس میں کچھ بھی اچھی باتیں نہ ہوں سب جھوٹے معلم اپنے بُری تعلیم پر عمدہ باتوں کا ملمع چڑھا کر سکھلایا کرتے ہیں ورنہ اُن کی بات مطلق قبول نہیں ہوسکتی ہے پر سچا دین وہ ہے جس میں سب کچھ سچ ہے ۔ ہاں اسلام میں ایک جسمانی حرارت ضرور موجود ہے اوراس لئے اُس کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ جاندار چیز ہے پر روحانی زندگی کو اُس سے مطلب نہیں ہے اگر منشی صاحب اس فقرے کو لکھنے کے عوض اسلام ہزار وں سوز مند جوہر وں میں سے ایک دو جو ہر ی نکال کےدکھلاتے تو بہتر تھا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ لندن کے لکچروں ا ورتواریخ کے بعض دُم بریدہ فقروں سے نبوتِ محمدی ثابت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ وہ کچھ چیز نہیں ہیں اسلام کی ذاتی خوبی دکھلانا چاہے اورمحمد صاحب کی خوش چلنی جس کا تواریخ ِمحمدی انکار کرتی ہے ظاہر کرنا چاہے پر یہ محال ہے اگر ہوسکتا تو اہل اسلام کبھی درگذر نہ کرتے ۔ اس کے بعد منشنی صاحب نے ۱۶ تعلیقین لکھی ہیں اور اپنے ساری دنیا وی حکمت کا زور لگا کر دین عیسائی پر حملہ کیا ہے میں نے اُنہیں بھی دیکھا مگر ایک تعلیق بھی لایق نہ پائی چنانچہ ذیل میں مختصراً دکھلاتا ہوں مگر پہلے تین باتیں سُنانا مناسب ہے ۔
(۱)منشی صاحب نے اپنی ہر تعلیق کی عبارت میں اس قدر جملے معترضی بھری ہیں کہ اُن کی عبارت ایک جنجال ہوگئی ۔ یہ دنیا وی دانائی اوراِنشا پر دازی کی خوبی ہے پر میں جملے معترضوں کا جواب بہت ہی کم دونگا صرف تعلیق کے منشا پر میری توجہ ہوگی۔
(۲)ناظرین کو چاہئے کہ اگر کتاب مل سکے تو اُن کی ہر تعلیق کو پہلے دیکھ لیں پھر تقلیع کی مختصر عبارت پر غور کریں۔
(۳)منشی صاحب مہربانی کرکے بندہ سے ناراض نہ ہوں کیونکہ میں ایذادینے کی راہ سے نہیں مگر انصاف سے راستی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ باتیں لکھتا ہوں اورمیں خود منشی صاحب سے بہت خوش ہوں کہ اُنہوں نے تعلیقات لکھی جس سے عوام پر بھی ظاہر ہوگیا کہ محمدی عالموں کے پاس تورایخِ محمدی کے جواب میں یہی کچھ تھا جو تعلیقات میں بیان ہوا اس کا شکریہ سلام کی ساتھ میری طرف سے پہنچیں۔
۱۔ تعلیق
اس تعلیق کا نام منشی صاحب نے عمادالدین کی تلبیس رکھا ہے یعنی عمادالدین کی مکاری یا عمادالدین کا شیطان پن ۔ یہاں سے ظاہر ہے تعلیقات کی تصنیف کے وقت منشی صاحب کے دل میں غصہ ہے اور غصہ والے دل میں سے جو باتیں نکلتی ہیں اکثر ناراست ہوتی ہیں کیونکہ محقق اورحقیقت کے درمیان یہ غصہ مثل پردہ کے حائل ہوجایا کرتا ہے ۔
تعلیق اول کا خلاصہ یہ ہے
کہ احادیث کے اقسام اورمحدثوں کے بیان عمادالدین نے محض فریب اورتلبیس کے طورپر کیئے ہیں کیونکہ اُس نے اصول علم حدیث کےضابطہ موافق احادیث کے راویوںپر بحث نہیں کی۔
توضیح
منشی صاحب نے احادیث اورمحدوثوں کا ذکر تواریخ کے اول میں پڑھا تو اُنہیں یہ توقع ہوئی کہ تورایخ کا لکھنے والا مسلمان مجتہدون کی مانند ہر ہر حدیث کو اصول حدیث مقررہ اہل اسلام کے مانند اُس کا درجہ دکھلا کے لکھے گا یعنی اُسے پُرانے دستو ر کے موافق وہی علما ء محمدیہ والی چال چلے گا۔
۱۔ تقلیع
میں حیران ہوں کہ منشی صاحب کو ایسی توقع کہاں سے پیدا ہوئی جس کے برنہ آنے کے سبب حدیثوں کے اقسام سُنا کر عمادالدین مکار بن گیا۔ دیکھو تواریخ کے اول میں ایک دیباچہ ہے جس میں تین سبب تالیف اورماخذ تالیف کا ذکر ہے اورطورِاخذ کا بھی مفصل بیان ہے ۔ اب وہ کون آدمی ہے جو یہ دیباچہ پڑھ کے یہ توقع پیدا کرے گا جو منشی صا حب کو پیداہوئی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب حدیثوں کا بیان شروع ہوا تو اُسکے اول میں قریب دو صفحہ تک جو لکھا ہے وہ یہ ہے کہ احادیث کا سلسلہ جس کو مسلمان سند کہتے ہیں وہ خود سند کا محتاج ہے پس اُس میں بحث کرنا وقت کو خراب کرنا ہے ۔ اب یہ عبارت اُس کی توقع پیدانہیں کرتی ہے یا مطلق دفع کرتی ہے پس تواریخ سے تو یہ توقع پیدا نہیں ہوتی ہے پر اپنے ذہن سے منشی صاحب یہ توقع نکال کے بے مناسب الزام دیتے ہیں۔تیسری بات سرورق پرلکھا ہے کہ یہ تلخیص الا حادیث کا پہلا حصہ ہے دیباچہ میں لکھا ہے کہ یہ کتاب خلاصہ ہے روضتہ الاحباب کا جو اہل اسلام میں مسلم کتاب ہے یہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احادیث اورمحدثیں کا ذکر شاید دوسرے حصہ میں کار آمد ہوگا کیونکہ وہاں تعلیم کا ذکر آتا ہے اورچونکہ تعلیم ناقص ہے اس لئے ضرور ہے کہ حدیث کا درجہ بھی ساتھ ہی دکھلا یاجائے اورپہلے حصہ میں احادیث ومحدثیں کا ذکر کرکے اتنا کہنا بس تھاکہ محمد ی تواریخ اہل اسلام نے ان سب قسم کی روایتوں سے تالیف کی ہے ۔
منشی صاحب تواریخ محمدی کے لئے اسے استخراج کی توقع کیوں کرتے ہیں یہ تو قع تواب دنیا میں سے اُوٹھ گئی ہے نہ کوئی اہل اسلام ایسا کرسکتا ہے نہ غیر ٹھیک تواریخ ِمحمدی وہی ہے جو محمدی علماء مشا ہیرلکھ کے ہاتھ میں دےگئے ہیں جس کا خلاصہ بندہ نے نکالاہے ۔
۲۔ تعلیق
مُولف نےجس ژرف نگاہی سے علم حدیث پر نظر ڈالنا مناسب سمجھا تھا تو کیا اُس کی مناسب کی رعایت کی ہے ۔ یعنی نہیں کی ۔
۲۔ تقلیع
ا س تعلیق میں جو کچھ منشی صاحب نے لکھا ہے بے فائدہ ہے کیونکہ یہی مطلب اُن کی تعلیق اول کا بھی تھا ہاں لفظ جُدابولے ہیں اورکچھ باتیں اور بھی لکھی ہیں جو تعلیق سے علاقہ نہیں رکھتیں سب باتوںکا مختصر جواب یہ ہے کہ تواریخ ِمحمد صفحہ ۶ سطر۱۱ سے ۱۵ تک دیکھیں کہ لکھنے کا طرز کیا اختیار کیاگیا ہے اوراسی طرز کی کیاضرورت بتلائی گئی ہے پس جس مطلب سے وہ طرز اختیار کیاگیا ہے وہ پورا کرنا ضرور ہے منشی صاحب کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ مخالف اس طرح سے کیوں اعتراض کرتا ہے اور اس طرح سے کیو ں نہیں کرتا مخالف کو اختیار ہے جس طرح سے چاہئے اعتراض کرے اور مجیب کو بھی مناسب ہے کہ اعتراض کےموافق جواب دے جن باتوں کو منشی صاحب بدگمانیاں اور جھوٹے اعتراض اورباطل شہبات بتلاتے ہیں اُن میں سے ایک بات کا بھی جواب اُنہوں نے نہیں دیا اُن باتوں کا بطلان ثابت کرنا مناسب تھا بے د لیل اُ نھیں باطل بتلانا جائز نہ تھا تعجب کی بات ہے کہ منشی صاحب اُنہیں بے دلیل باطل بتلاتے ہیں حالانکہ جن باتوں کووہ باطل شہبات کہتے ہیں ان کے ساتھ دلائل بھی مذکور ہیں پر جواب میں صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے بے دلیل۔
یہ کیسی بات ہے کہ اعتراض بادلیل کے مقابلہ میں جواب بے دلیل سُنا کر منشی صاحب عمادالدین کی بے ضابطہ گی اوربے راہ روی ثابت کرتے ہیں۔ہاں خوب یاد آیا کہ منشی صاحب نے دو دلیلیں بھی یہاں پر سنائی ہیں پہلی دلیل اُن کی یہ ہے کہ عیسائی مولف بے علم اوربے وقوف ہوتے ہیں اوردوسری دلیل یہ ہے کہ عیسائی زبان دراز لوگ ہوتے ہیں۔
مگر یہ اُن کی دونوں دلیلیں عمادالدین کی بے راہ روی ثابت نہیں کرسکتیں جب تک کہ مطاعن کے پورے جواب منشی صاحب نہ سُنادیں۔
بھلا صاحب ہم نے فرض کیاکہ عیسائی لوگ نادان کم عقل بے علم اورحرص وہوس میں مبتلا ہیں اوراس لئے محمد صاحب پر قرآن حدیث سے نکال کے بیجا اعتراض کیاکرتے ہیں اورآپ کی اصل اصیل اورماخذ جلیل فن ورایت کے اصول وقواعد کے موافق استدلال نہیں کرتے اوراُن کی تصنیفات کا منشا بقول آپ کی عدم اطلاع اورقلت معلومات ہے اوراسی طرح سے تواریخ ِمحمدی بھی ایک نادان آدمی نے لکھ ماری۔
تو کیا اس کا جواب یہی ہے کہ آپ ہمیں موٹی موٹی عربی کے الفاظ ہی بول کر سُنا دیں اورہزار اعتراضوں میں سے ایک کا بھی جواب نہ دیں۔
اگر ہم لوگ قواعد وضوابطہ اسلامیہ کے پابند ہوکے اعتراض نہیں کرتے تو آپ ہی ہمیں اپنے قواعد کے موافق استدلال کرکےجواب دےدیا کریں۔ میں نے تواریخِ محمدی میں جابجا اپنے گمان میں مناسب اعتراض بھی بہت سے کیئے ہیں اس امیدسے کہ انکا کچھ جواب آپ لوگوں سے سُنوں مگر جواب میں میں نے صرف یہ لفظ آپ سے سُنے ۔ ژرف نگاہی ۔ضوابطہ و قواعد ،مستند ات مطاعن ، تشنیعات،باطل شہادت ،اصل اصیل ماخذ جلیل وغیرہ۔ ایسی باتوں کو ہم لوگ عربی خوانوں کی دہمکیاں جانتےہیں۔ اورجس علم حدیث کو منشی صاحب فن عظیم الشان بتلاتے ہیں ہم اُسے بڈھوں کی کہانیاں جانتے ہیں اوراُس کا چنداں اعتبار بھی نہیں کرتے بار بار منشی صاحب نے ہماری کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ حدیث کچھ نہیں ہے اُسنے ہزاروں روحوں کو برباد کیا ہے صرف خُدا کا کلام انسان کے لئے بس ہے اور وہ حدیث کا محتاج نہیں ہے جیسے قرآن حدیث کا محتاج ہے ۔
اسی حدیث کی پابندی سے یہودی گمراہ ہوئے اوراسی سے رومن کیتھولک لوگ بُت پرستی گمراہ میں پھنس گئے اگر منشی صاحب اس فن کو عظیم الشان اورایک عمدہ چیز جانتے ہیں اور اس میں بہتر کا دعویٰ رکھتے ہیں تو پہلے چاہئے کہ تمام کتب احادیث میں سے انتخا ب کرکے ایک صحیح حدیثوں کی کتا ب اپنے ضوابط اورقواعد کے موافق تیار کریں اورتمام زمین کے علما اسلام سے اُس کی تصدیق کروایں اورپھر اشتہار دیں کہ اگلے اہل اسلام کتب سابقہ کی پابندی کرکے غلطی میں مرگئے اب ہم تیر ہویں صدی میں کامل محقق اوراسلام کی مرمت کرنے والے پیدا ہوئے ہیں چاہئے کہ قرآن اورہماری یہ نئی کتاب اسلام اوربانی اسلام کے بارےمیں معتبر سمجھی جائے اورسب کتب سابقہ میں رطب ویا بس بہرے ہیں۔
یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ منشی صاحب اپنابوجھ مخالف پر ڈالتے ہیں اُس کی اس تعلیق کا حال یہی ہے کہ خبردار کوئی آدمی اسلام پر اعتراض نہ کرے اگر کرے توعلم حدیث کا عالم وفاضل ہوکے اُن کے قواعد وضوابط کی موافق کرے ورنہ اُسے جواب نہ ملے گا یا جاہل وزبان دراز کہاجائے گا اورعربی کے موٹے موٹے لفظ اُسے سُنائے جائینگے ۔
۳۔ تعلیق
مُولف کو خاص اپنے اعتراض والی حدیثوں کے اسناد پر بالا نفر اد نظر چاہی تھی نہ کہ روضتہ الاحباب اورمدارج النبوت میں لکھا ہے ۔
۳۔ تقلیع
یہ وہی بات ہے کہ میرا واجب تجھے ادا کرنا چاہئے تھا صاحب اگرچہ مُولف نے اعتراض والی حدیثوں کی اسناد پر بالا نفراد نظر کرکے اعتر اض نہیں کیا بلکہ اُن کوآپ کی معتبر حدیثیں جانکر اعتراض کردیا اور یہ اُس کی غلطی ہوئی توآپ اُنکی اسناد پر بالا نفراد نظر کرکے اعتراضات کو دفع کرتے جس سے مولف کی غلطی ثابت ہوتی اُس نے توآپ کو جواب کا اچھا موقع دیا تھا مگر آپ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ حدیثیں ضرور ثابت ہیں۔
میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اہل اسلام کے اسناد کا طریقہ ہی ناکارہ ہے دیکھو (تواریخ محمدی صفحہ ۹ سطر۳ سے ۸) پر اُس ناکارہ قاعدہ کا استعمال ہی آپ مجھ سے طلب کرتے ہیں میرا اتنا بتلانا بس ہے کہ اہل اسلام کے علمااپنے محمد صاحب کا احوال یوں سناتے ہیں اوراُس پر ہم یوں اعتراض کرتے ہیں۔ یہ ہمارا کام ہر گز نہیں ہے کہ ہم ان احادیث کے اسناد پر بالا نظر اد نظر کریں علمااسلام جو آپ کے فن ورایت کو خوب جانتے ہیں اوراسلام میں بڑی احتیاط کے لوگ گنے جاتے ہیں جب اُنہوں نے بعد تنقیح ان روایات کو اپنی کتابوں میں درج کرلیا ہے تب اُ ن کی کتابو ں میں دکھلانا ہماری طرف سے کافی ہے تعجب کی بات ہے کہ منشی صاحب کے نزدیک روضتہ الاحباب اورمدارج النبوت کچھ معتبر چیز نہیں ہیں اورمولوی رحمت اللہ صاحب جو حقیقت میں اس وقت اہل اسلام کے ایک مستعداد اورمعتبر عالم ہیں ان کتابوں کو معتبر بتلا کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اورروضتہ الاحباب کا مُولف اپنی تالیف کا ماخذ یوں بتلاتا ہے کہ (از کتب تفاسیر وسیر وحدیث وموالید وتواریخ انچہ ثبوت پیوستہ از سیرت حضرت ومقدمات وممتمات وماتیعلق بہاوازاحوال مشاہیر اہل البیت وصحابہ وتابعین وتبع تابعین وایئہ حدیث الخ۔
پھر شا ہ عبدالحق محدث دہلوی نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنے گمان میں صحیح استخراج کرکے اُسے روضتہ الاحباب وغیرہ سے اپنے مدارج النبوت لکھی ہے۔ اوریہ دونوں مُولف ایسے معتبر محمدی عالم ہیں کہ منشی صاحب اوردیگر علما محمد یہ جو اس وقت ہندو ستان میں ہرگز اُن کی ہم پایہ نہیں ہیں پھر منشی صاحب کیونکر ان کتابوں کو حقیر بتلاتے ہیں۔
ہم یہ کہتے کہ تواریخ محمدی کے لکھنے میں جس استخراج کی اُمید منشی صاحب ہم سے رکھتے تھے اُن کی امید کا منشا ان مولفوں نے پورا کرکے اپنی کتابیں لکھی ہیں اوراس لئے میں نے اُن کی کتابوں کو اپنا ماخذ بنایا ہے ۔ یہ کیا بات ہے اپنے بزرگ عالمو ں کے استخراج کو حقیر جانتے ہیں اورخود استخراج کی طاقت نہیں رکھتے اورعیسائیوں کو تکلیف دیتے ہیں کہ وہ اُن کے لئے استخراج جدید سے دین محمدی کو ثابت کریں۔
میں نے تواریخ لکھتے وقت اگرچہ کئی کتابوں پرنظر رکھی ہے خصوصاً اُس عربی کتاب پربھی جو شفا اوراُس کے شروع معتبرہ سے ہشامی و شامی اورحلبی وغیرہ سے صحت کے ساتھ انتخاب کرکے ایک مشہور عالم احمد وحلان نے ۱۲۷۸ہجری میں درمیان مدینہ شہر کے لکھی ہے جس کا نام سیرت النبی ہے اور ۱۲۸۵ ہجری میں درمیان دوجلد کے شہر مصر میں چھاپی گئی ہے تو بھی میں نے اُس کا حوالہ اس لئے نہیں دیا کہ عام لوگوں کو وہ کتاب ہر کہیں ہاتھ نہیں آسکتی ہے پر یہ فارسی کتابیں معتبر محمدی بزرگوں کی ہرکہیں مل سکتی ہیں اوریہ دونوں کتابیں عطر ہیں تمام سیر کی کتابوں کا۔
کیا منشی صاحب شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے بھی بڑے محقق ہیں کیا اُن کی نسبت زیادہ احتیاط کے شخص ہیں یاعلم حدیث وسیر میں اُس سے زیادہ واقف ہیں پھر کیا اُس سے زیادہ اسلام کے حمایتی ہیں اس کا انصاف ناظرین کی تمیز کرسکتی ہے پس جبکہ اسلام کے معتبر حمایتی نے جو خود محدث ہے اور جس کی خوشیہ چینی سب علماء ہند کرتے ہیں روضتہ الاحباب کو معتبر ماخذ جان کے اپنےمدراج اُس سے لکھی ہے توہمارے لئے بحث کے مقام پر اورکوئی بھی کتاب ایسی معتبر نہیں ہوسکتی جیسی روضتہ الاحباب ہے ۔
منشی صاحب اتنی درد سری ناحق کرتے ہیں جبکہ صرف قرآن سے جو اسلام میں سب فرقوں کی متفق علیہ کتاب ہے یہ بات خوب ثابت ہوچکی ہے کہ محمدصاحب خُدا کی طرف سے رسول نہ تھے اور کہ اُن کا چلن قرآن سے ہرگز اچھا ثابت نہ ہوا اوراُن کی تعلیم میں نقصان پایا گیا چنانچہ ہدایت المسلمین کی آخری فصلوں میں بیان ہوچکا ہے جس کا جواب منشی صاحب نے اب تک نہیں دیا تو پھر ہمیں حدیثوں میں جو پیچھے قلمبند ہوئی ہیں اتنی بڑی تحقیقات کی کیا ضرورت ہے جو کچھ اُن کے بزرگوں کی کتابوں میں دیکھتے ہیں وہی ہم بھی نیک نیتی سے دکھلاتے ہیں جناب منشی صاحب اپنا ہی پیسہ کھوٹا توپر کھنے والے کا کیا دوش۔
باقی اسپرنگر صاحب کا قول جو آ پ نے نقل کیا ہے اگر آپ کو پسند ہے تو مانیں میں تو اُسے نادرست جانتا ہوں کیونکہ خلاف عقل بھی ہے شاید منشی صاحب نے درست ترجمہ نہ کیاہوگا۔
کیا کوئی منصف حاکم کسی مقدمہ میں متعدد گواہوں کی گواہی کو رد کرکے صرف اپنے خیال پر یا ایک کی گواہی پر جو سب کے خلاف ہے فتوی دے سکتا ہے ہر گز نہیں۔
لطف یہ ہے کہ منشی صاحب اپنے اصول حدیث پر بہت زور دیتے ہیں اورپھر اسپر نگر صاحب کا قول جو اصول حدیث کی خلاف ہے پیش کرکے اُس کی تعمیل بھی کرواناچاہتے ہیں۔ طرق متعدد ہ سے جو حدیث آتی ہے اصول اُسے معتبر حدیثوں میں شمار کرتا ہے اسپر نگر صاحب کا قول اُس کے خلاف ہے۔
منشی صاحب کی اس تعلیق سوم کا منشا یہ ہے کہ جو جو مقام مورد اعتراض تھےاُن کی اسناد پر مُولف کو بالا نفراد نظر چاہئے تھی اورجو مقام مورداعتراض نہ تھے اُنہیں یوں ہی نقل کرتا چلا جاتا تو مضائقہ نہ تھا یعنی میری بھلائیو ں کو بے تامُل قبول کرلے اورمیری برائیوں پر کسی طرح تاویلات کا پردہ ڈالے پر یہ منصف آدمی سے کب ہوسکتا ہے یہ اعتراض منشی صاحب کا اُنہیں کے بزرگوں پر عاید ہے نہ اُس پر جو اُن کے اقوال نقل کرتا ہے ۔
۴۔تعلیق
اس تعلیق میں وہی بات ہے جو اوپر کی تعلیق میں منشی صاحب نے بیان کی ہے کتاب بڑھانے کو وہی بات پھر دوسری عبارت میں لکھدی ہے ۔
۴۔ تقلیع
اس تعلیق کا جواب بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہاں ایک بات اس میں نئی ہے کہ روضتہ الاحباب کو منشی صاحب نے ایک قصہ کی کتاب بتلایا ہے۔میں بھی ایسی ہی سمجھتا ہوں کہ سب محمدی کتابیں قصہ ہیں پر تعلیقات قصہ نہیں ہے وہ قصہ پر جھگڑا ہے پر جھگڑے کا فیصلہ میں یوں کرتا ہوں کہ محمدی عالموں نے محمدصاحب کے بہت سے قصے سنائے حلبی ہشامی واقدی وغیرہ بھی لیکن اُن سب قصوں میں سے انتخاب کیاہوا یک قصہ روضتہ الاحباب بھی ہے اوراُس قصہ میں یوں یوں لکھا ہے اوراُس پر ہمارے یہ اعتراض ہیں اُن کا جواب کوئی مسلمان دئے منشی صاحب یوں جواب دیتے ہیں کہ ۔ روضتہ الاحباب غیر معتبر قصہ ہے ہم کہتے ہیں کہ جو باتیں روضتہ الاحباب میں لکھی ہیں وہی باتیں ادنیٰ فرق کے ساتھ سب کتب سیر میں لکھی ہیں اگر روضتہ الاحباب کی باتیں غیرمعتبر ہیں توکل کتابیں علم سیر کی بھی غیر معتبر ہیں کیونکہ سب کا بیان یکساں ہے ۔
پہلے تو منشی صاحب اُس قصہ کو مانے بیٹھےتھے جب اُس پر اعتراض سنے تو معترض سے جھگڑا کرنے کو اُٹھے اورجھگڑا یوں کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگ جھوٹ سچ سب کچھ لکھتے آئے ہیں تم سُننے والوں کو چاہئے کہ جہاں تک اعتراض وار دنہ ہو مان لیا کرو اورجہاں اعتراض کی جگہ آئے اُس کی صحت میں فکر کرو اور تحقیق یوں کرو کہ خود محدث بنو اور محمد صاحب کی نسبت نیک گمان کرکے تاویلات کرو کیونکہ وہ فرضاً بھلے ہیں۔
منشی صاحب کی تحریر سے ایک اچھا خیال میرے ذہن میں آیا کہ اگر خُدا فرصت بخشے تو صرف قرآن سے ایک تواریخ محمدی نکالنا چاہئے پر وہ بھی تواریخ محمدی کے نسبت اہل اسلام کے لئے زیادہ مضر ہوگی اور وہاں بھی منشی صاحب ایک جھگڑا کرسکتے ہیں کہ اس آیت کی اس تفیسر کو نہ مانو اُس تفسیر کو مانو۔
۵۔ تعلیق
مُولف نے ارباب سیر کا ذکر نہیں کیا محدثیں کا ذکر کیا ہے جو فقہہ کے طورپر احادیث کی ترتیب کرنے والےہیں۔
۵۔ تقلیع
محدثین کا ذکر جو دیباچہ میں ہے وہ دوسرے حصے کی رعایت سے لکھا گیا ہے جو فقہہ یا تعلیم محمدی ہے اوروہ تصنیف تو ہوچکا ہے پر اب تک چھپانہیں اُمید ہے کہ ا ب چھپے گا اورارباب سیر کی فہرست اس لئے نہیں لکھی گی کہ تواریخ محمدی کوئی نئی کتاب نہیں ہے وہ انتخاب اورخلاصہ ہے خاص ایک معتبر محمدی کتاب کا پس یہ تعلیق بھی منشی صاحب کی ناجائزہے۔
۶۔ تعلیق
حدیثوں کا مرتبہ نہیں دکھلایا کہ کونسی معتبر اورکونسی کم معتبر ہیں اوراپنی کتاب کے مضامین ہر قسم کے ساتھ منسوب کرکے نہیں بتلائی ۔
۶۔ تقلیع
حدیثوں کے مراتب اعتبار اُ ن کی تعریفات سے جو مذکور ہیں خود ظاہر ہیں فضول عبارت بڑھانےسے کیا فائدہ تھا اور جس مطلب سےاحادیث کا ذکر آیا ہے جہاں وہ مطلب آئیگا یعنی حصہ دوم میں تو وہاں تعلیمات کو کسی نہ کسی حدیث کی طرف آپ منسوب ہی پاینگے کیونکہ تعلیم محمدی کی بحث اس بات کی محتاج ہے اہل اسلام کے لئے پر تواریخ ِمحمد ی کے مضمون اس انتساب کے محتاج نہ تھے کیونکہ وہ خلاصہ اورانتخاب ہے ایک اہل اسلام کی عمدہ کتاب کا۔
۷۔ تعلیق
محمدصاحب کا احوال دریافت کرنے کےلئے صرف دو ماخذ ہیں یعنی قرآن اورحدیث ۔
۷۔تقلیع
انہیں دو ماخذوں سے تواریخِ محمدی لکھی گئی ہے پر میں نے آپ جرات کرکے ان ماخذوں میں ہاتھ بھی نہیں ڈالا اس خیال سے کہ محمدی لوگ یوں نہ کہیں کہ تونے عناد کے طورپر اخذ کیا ہے پر میں نے احتیاط کی راہ سے اہل اسلام کے بزرگوں کے اخذ سے انتخاب کیااور یہ دیکھلایا کہ محمد صاحب کے حالات کی جو دو معتبر ماخذ ہیں یعنی قرآن اورحدیث اُن سے خود محمدی بزرگوں نے یہ اخذ کیا ہے اورخود محمدیوں نے ہمیں یہ اخذ دیا ہے اس پر ہمارے یہ اعتراض ہیں جن کے جواب سے وہ لاچار ہیں۔
کوئی تیسرا ماخذ میں نے نہیں بنایا مگر خود منشی صاحب نے اپنے تعلیقات میں ایک تیسرا ماخذ بھی دکہلایا ہے یعنی انگریزوں کے قول جو نہ حدیث ہیں نہ قرآن ۔
۸۔ تعلیق
جناب سیر میور صاحب لکھتے ہیں کہ محدثیں اپنے کام میں دیانتدار تھے لیکن عمادالدین اُنہیں بے دیانت بتلاتا ہے اوراُن کی بات کا اعتبار نہیں کرتا۔
۸۔ تقلیع
صاحب میں اُنہیں اُن کے کام میں ہر گز بے دیانت نہیں کہتا اور چور یا جعلسازبھی ہر گز نہیں بتلاتا ۔
مگر یہ کہتا ہوں کہ یہ فن ہی ناکارہ شئے ہے جن قواعد اصولیہ اپنے سے اُنہوں نے بڑی محنت اوردیانت کے ساتھ تحقیق کی ہے ۔ وہ قواعد ہی ایسے نہیں ہیں کہ آدمی کو غلطی سے بچایں دیکھوتواریخ ِمحمدی ۹ صفحہ سطر ۳سے ۸۔
۹۔تعلیق
(۱)متواتر اورمعتبر اخبارات ہی سے تواریخیں جہاں کی لکھی گئی ہیں ۔
(۲)اخبار احاد بھی کچھ مفید ہیں۔
(۳)تعددطریق احادیث بھی اسناد کی بناوٹ کو باطل کرتا ہے۔
(۴)ایسا شبہ ْجُز واحدپرہوسکتا ہے نہ سب قسم کی حدیثوں پر۔
۹۔ تقلیع
بیشک متواتر ومعتبر بلکہ ہر قسم کے اخبارات سے تواریخیں دُنیا میں لکھی جاتی ہیں اوربادشاہوں کے حالات اسی طرح سے قلم بند ہوتے ہیں اوریہ بھی سچ ہے کہ اخبارات احاد بھی کسی قدر مفید ہیں ۔ مگر یہ سب علم جو اس طریقہ سے حاصل ہوتا ہے اس کے یقین کا ایک اور ہی عام درجہ ہے جس میں احتما ل صدق وکذب قائم رہتا ہے اسناد میں یا واردات کے وقوع میں یا نہج وقوع میں امکان غلطی کے سبب سے اوراسی سبب سے منشی صاحب علمِ سیرمیں خود رطب ویا بس کے قائل ہیں پس اسی طرح سب بادشاہوں کے تواریخیں بھی جو اُن کا علم سیر ہے رطب یا بس سے بچاہوا نہیں ہے ۔
پر وہ علم اوروہ اخبارات یا وہ علم سیر جس پر انسان کی رُوح کی زندگی کا مدار ہے یعنی دینیات کے واقعات اس دنیا وی تواریخات کے مرتبہ کی معلومات نہیں ہوتی ہیں تواریخات کے یقینیات کی نسبت یہ یقینات دینیہ زیادہ ترثبوت کے محتاج ہیں کیونکہ رُوح کی آبادی یا بربادی کے موقوف علیہ ہیں۔
یہاں معتبر گواہوں کے دید اورشنیدبلاواسطے اوراُن کی اپنی تحریر اورزبردست تحریر درکار ہے نہ عام تواریخوں کے موافق ۔ دیکھومنشی صاحب محمدی دین کے علوم یاحالات کو دنیا کے دیگر علوم تواریخیہ کے مانند بتلاتے ہیں میں اسے مانتا ہوں کیونکہ ایسا ہی ہے لیکن دین عیسائی کے علوم علم تواریخ کے عام درجہ سے زیادہ ترممتاز یقینا ت ہیں اورانہیں کی نسبت محمدی دین کے واقعات کے یقینا ت کوہم کمتر بتلاتے ہیں۔
عیسائی دین کے یقینات معتبر گواہوں کی دید اورشنیداوراُن کی اپنے تحریرات سےجو نہایت زبردست تحریر ہے یہ علوم مسیحیہ اس اعلیٰ درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں کہ کامل یقین رُوح میں پیدا کرکے احتمال کذب کا مطلق دفع کرتے ہیں اورصدق کا نہ صرف احتمال دکھلاتے ہیں مگر عین الیقین بخشتے ہیں۔
پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ تعدد طرق بھی اسناد کی بناوٹ کو باطل کرتا ہے یہ سچ بات ہے مگر میں نے نہیں کہا کہ اسناد کا طریقہ مطلق باطل ہے پر اہل حدیث کے اسناد کے طریقہ پر میرا اعتراض ہے میں جانتا ہوں کہ وہ شُنیدہے بالاواسطہ اوراحتمال صدق وکذب کا جاتا نہیں رہتا ہے ۔
اورتعدد طرق اگرچہ سند میں کچھ جان ڈالتا ہےتو بھی نفس حدیث بامتن حدیث کو سقم کو دور نہیں کرسکتا اوروہ حدیثیں جو تعدد طرق سے ثابت ہیں نہایت کم ہیں اوریہ کچھ بات بھی نہیں ہے ۔
پھر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ بناوٹ کا شُبہ جُزواحد پر ہوسکتا ہے نہ ہر قسم کی حدیث پر ۔
جواب یہ ہے کہ ہرقسم کی حدیث حدیث ہے اورہر حدیث اگر زیادہ سے زیادہ فائدہ بخشے تووہی درجہ دکھلادیگی جو علم ِتواریخ کا درجہ ہے اورعلمِ تواریخ کے درجہ پر تو ہم احادیث محمدیہ کو مان سکتے ہیں اوراسی واسطے ہمیں یقین بھی کچھ ہے کہ محمدصاحب کی تواریخ یہی ہے جوبندہ نے لکھ دی ہے ۔
پر فضیلت میں مبالغی اورمعجزات کا بیان اگرچہ محدثین کرتے ہیں پروہ دوسری قسم کے دلائل سے ردکئے جاتے ہیں نہ صرف حدیث ہونے کے سبب سے اگرچہ ایک سبب یہ بھی ہے ۔
۱۰۔تعلیق
محمد صاحب کے معجزے تین قسم کے ہیں قرآنی جوقرآن سے ثابت ہیں تو اتری جو احادیث متواترہ سے ثابت ہیں احاؔدی جو روایات احاد سے ثابت ہیں ہر عقلمند اس بات کو مانے گا۔
پرمعجزات کے ردمیں عمادالدین نے جو ۶ دلیلیں سُنائی ہیں اُنہیں میں سے (۵،۴،۳)دلیل اخبار احاد پر واقع ہے نہ دوسری قسم کی احادیث پر ۔
اور(۶،۲،۱)دلیل تواریخی واقعات پر ناکارہ ہے وہ اعتقادی باتیں ہیں کہ ہر مخالف اپنے مخالف کے حق میں کہہ سکتا ہے ۔
۱۰۔ تقلیع
اس تعلیق کا سار ا بیان ناکارہ ہے یہاں سے خوب ثابت ہوگیایا کہ اُن چھ دلیلوں کے جواب اہل اسلام کےپاس کچھ نہیں ہیں ناظرین پہلے خود اُن جملہ دلیلوں کو تواریخِ محمدی میں غور سے دیکھ لیں اُس کے بعد منشی صاحب کا بیان اس تعلیق میں سُنیں۔
(۵،۴،۳)دلیل کا منشی صاحب نے یہ جواب دیا کہ یہ دلیلیں ہمارے اخبار احاد پر واقع ہیں یہ کیا عمدہ جواب ہے منشی صاحب بہت ہی جلدی ان دلیلوں کے جواب کی بوجہ سے سبکبار ہوگئے ۔
کیا حقیقت میں یہ اخبار احادپر واقع ہیں ناظرین آپ ہی انصاف کرسکتے ہیں شاید منشی صاحب نے غور نہیں کی یاغصہ کے سبب اُن دلیلوں کا مطلب ذہن میں نہ آیا۔
(۶،۲،۱)دلیل کو منشی صاحب نے امر اعتقادی بتلادیا اوریوں ان کی بوجہ کے نیچے سے نکلے ۔ منشی صاحب کو امر اعتقادی اورامر عقلی میں فرق کرنا چاہئے تھاپس اب میں کہتاہوں کہ جناب منشی صاحب یہ دلیلیں امور عقلیہ میں سے ہیں نہ صرف اعتقادیات ہیں ہاںمنشی صاحب نے وہاں لفظ قرآن یا کلام اللہ کا لکھا پایا توفوراً یہ خیال کیا کہ یہ امر اعتقادی ہیں مگر دلیل کے حاصل پر نہیں سوچا کہ وہ عقلی حاصل ہے مقدمات دلائل کو امور اعتقادی جان لیا نہ امور عقلی پس یہ سمجھ کا پھیر ہے کیونکہ اگر کلام یا قرآن کو حوالہ وہاں سے نکال د یا جائے اوروہی بات اُنہیں دوسری عبارت میں کہی جائے تب منشی صاحب جانیں گے کہ یہ عقلی دلیلیں ہیں۔
پھر کہا کہ ہر کوئی اپنے مخالف کو یہ دلیلیں سُنا سکتا ہے میں کہتا ہوں کہ بھلاآپ ہی ان دلیلوں کو ہماری مخالفت میں پیش تو کریں دیکھو ہم کیا جواب دیتے ہیں صاحب یہ تو آپ ہی کی جان کھانےوالے ہیں۔ ایک اور بڑے مزہ کی بات ہے جو منشی صاحب نے اس تعلیق میں بیان کی ہے کہ محمدصاحب کے معجزے تین قسم کے ہیں قرآنی تواترؔی احاؔدی اوراس اپنے بیان کو وہ امر عقلی جانتے ہیں نہ امر اعتقادی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس کو عقلا جہاں قبول کرینگے اورعقلا ءجہاں قبول کرینگے اورعقلا ءجہاں اُن کے گمان میں وہی مسلمان ہیں جو عربی پڑھےہوئے ہیں اورمحمدصاحب کو خوب مانتے ہیں بیشک یہ عقلا توضرور اس بیان کو عقلی اورمعقول جانیں گے کہ محمدی معجزات تین قسم کے ہیں۔
میری اُمید تھی کہ ان تین قسم کے معجزات کی مثالیں بھی منشی صاحب کچھ دینگے پر کچھ بھی مثالیں نہیں دیں اوراپنے اس بھاری دعوے کے نیچے سے آپ ہی نکل گئے تو بھی میں اُن کے ان تین قسم کےمعجزات کی کچھ تشریح کردیتا ہوں۔
شاید اُن کی مراد معجزات احادی سے وہ معجزات ہوں گے جو شواہد النبوقہ وغیرہ میں صد ہا معجزے لکھے ہوئے ہیں جنکے ساتھ راویوں کا سلسلہ بھی نہیں ہے۔ اچھا صاحب وہ یا اُن کی مانند اورمعجزے احادہی ہیں اورمیری (۵،۴،۳) دلیل باقرار آپ کی اُن پر واقع ہے بھلا صاحب یہ تو آپ مان گئے کہ ان دلیلوں سے آپ کی تیسری قسم کے محمدی معجزات برباد ہوگئے ہیں اورضرور ہے کہ آپ کے دل میں سے بھی اُن کا اعتقاد نکل گیا ہوگا یہاں میں آپ کو شاباش کہتا ہوں۔
مگردوسرے قسم کے معجزات جن کو آپ تو اتری کہتے ہیں اورمیری چھ دلیلوں کے الزام سے بچے ہوئے بتلاتے ہیں لازم تھا کہ اُن کو معرض بیان میں لاتے اوراُن کا تواتر دکھلاتےلیکن منشی صاحب ایسے معجزے کہاں سے لائیں ایک بھی ایسا معجزہ نہیں ہے جو تواتر سے ثابت ہو اور اِسی واسطے منشی صاحب مثال نہیں دے سکے وہ جان گئے کہ اگر کوئی معجزہ حدیث کا تواتر کے دعوےٰ سے پیش بھی کرونگا تو عیسائی تو اتر کا ثبوت طلب کرینگے جو دینا محال ہے اوراس بارہ سو برس میں کسی محمدی کی مجال نہیں ہوئی کہ تواترسے کوئی معجزہ ثابت کردئے اس لئے منشی صاحب صرف تقریری میں دعوےٰ کرکے چُپ رہ گئے اورچُپ رہنا مناسب بھی تھا (ف) ناظرین کو خوب معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کے علم اصول حدیث کے موافق متواتر حدیثیں چند ہیں مثل الاعمال بالنیات) وغیرہ کے اوروہ جُدا کرکے بیان بھی کی گئی ہیں مگر اُن میں کوئی بھی حدیث معجزات کے بارے میں نہیں ہے یہ ملانی ناحق ڈراتے ہیں ان سے بے خوف کہنا چاہئے کہ دکھلاؤ یاوہ کونسے معجزے ہیں جو تواتر سے ثابت ہیں ۔ان لوگوں نے تواتر کے معنی تو اپنے اصول میں دیکھے ہیں مگر کبھی معجزات کے حدیثوں کے سلسلہ میں توا تر پر فکر نہیں کیا تو اتر کا ثابت کرنا آسان بات نہیں ہے اب دیکھو احادی معجزے منشی صاحب کے (۵،۴،۳)دلیل سے برباد ہوگئے اورتواتری کا وجود ہی جہاں میں نہیں ہے اب دو قسم کے معجزے تو اُڑ گئے۔ رہے قرآنی معجزے تو اُن پر غور کرنا چاہئے ۔
منشی صاحب نے اپنے قرآنی معجزوں میں سے ۱۳ معجزے بیان کئے مگر نہایت دبے دبے الفاظ میں باریک قلم سے حاشیہ کے درمیان لکھے ہیں کیونکہ رکیک باتوں کا جلی عبارت میں لکھنا ذرا مشکل تھا مگر میں تواُنکے حاشیہ کو بھی متن ہی جان کے پڑہونگا۔
(۱)
(الصفات آیت۱۵)
وَقَالُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
کہتے ہیں کہ یہ تو صاف جادو ہے ۔
منشی صاحب کو خیال گذرا کہ حضرت نے کوئی معجزہ دیکھلایا ہوگا جسے لوگوں نے سحر کہا ہے پس معجزہ نامعلوم پر ایمان لائے ۔ شاید اس کو بھی اُنہوں نے کوئی بھید سمجھا جو انسان پر ظاہر نہیں ہوسکتا ہے اورمعجزہ کا خیال لفظ سحر سے آیا پر جس علم اصول حدیث پر نازاں ہیں وہا ں لفظ مشترک المعنی کو مطلب واحد پردلیل قطعی بنانا نا جائز ہے اور یہ عقلی قاعدہ ہے پر معجزہ نامعلوم ہاتھ سے نہ جانے پائے اس لئے یہاں کچھ پر واہ اصول کے نہیں کی سحر کے معنی ہیں جاود گری اورعمدہ دلچسپ بیان اورشعبدہ بازی ۔ مکاری دھوکا وغیرہ ۔
(۲)
(سورہ يس آیت۴۶)
وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ
اورجو حکم اُنہیں پہنچتاہے اپنے رب کے حکمو ں میں سے وہ اُسے ٹلادیتے ہیں ۔
پس آیات کے معنی یہاں فقرات یا احکام کے ہیں نہ معجزات کے ۔
(۳)
( سورہ قمر آیت۲)
سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ
قدیمی جادو
یعنی وہ جادو جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے یعنی کوئی خرق عادت نہیں ہے اُسی قسم کے کام میں جو ہم عرب کے لوگ ہمیشہ مکاروں میں دیکھتے ہیں یعنی وہ عام دغا بازی کی قدرت جوہمیشہ عرب میں دیکھی گےیہ آیت نص ہے اس بات پر کہ جو کام اُنہوں نے دیکھا تھا وہ خرق عادت نہ تھی بلکہ کوئی شعبدہ بازی تھی جس کے دیکھنے سے نہ حیرت ہوئی مگر صاف کہاگیا کہ معمولی بات ہے عام شعبدہ بازی ہے نہ خر ق عادت لفظ مستمر نے یہاں بھی سحر کی کیفیت اوڑادی۔ اگر کہا جائے کہ اُس پر لفظ شق القمر کا موجود ہے سوجاننا چاہئے کہ ا نشق بمعنی سنیشق ہے یعنی قیامت کو پھٹے گا کیونکہ الف لام الساعتہ کا بتلاتاہے کہ عین دن قیامت کا مراد ہے اور دو فعل ماضی یعنی اقترب وانشق بھی ملکر استقبال کا ذکر کرتے ہیں اوروہ روایت حدیث کی کہ پھٹ گیا تھامتواتر نہیں ہے بلکہ قول احادمیں ہے جومنشی صاحب کے نزدیک بھی ردہیں اوردلیل اس کی کہ روایت متواتر نہیں ہے یہ عبارت مدارک کی ہے کہ لوظہر عندہم لنقلو امتواتر اً لان الطباع جبلت علے نشراالعجائب لانہ یجوزان یحجب الیہ عنہم بغہیم یعنی کوئی نہ کہیں کہ اگر چاند پھٹ جاتا تواہل اقطار پر چھپانہ رہتا اوراگر اُنہیں معلوم ہوتا تومتواتر نقل بھی کرتے (حالانکہ متواتر روایت اس کی نہیں ہے کیونکہ انسان کی جبلت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ عجائب باتوں کو مشہور کردیتا ہے پس جواب یہ ہے ممکن ہے کہ خُدا نے بادل کر کےاُن سے اس معجزہ کو چھپایا ہو یعنی کونے میں چُپکے سے یہ معجزہ کیاہوگا۔
(۴ )
(سورہ صف آیت ۶ )
فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
بعض قرآنوں میں ہے ساحر مبین ترجمہ حضرت عیسیٰ کہہ گئے تھے کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا اُس کا نام احمد ہوگا پر جب وہ آیا کُھلی نشانیاں لیکر تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ظاہر ۔لفظ سحر کےمعنی پہلے معجزہ میں مذکور ہوچکے ہیں پر یہاں ایک لفظ بینات کے اور ہے اُس کے معنی ہیں کھُلی ہوئی باتیں عام ہے کہ فقرات قرآن جو ظاہر ہیں وہ بینات ہیں یاوہ دلیلیں ہیں جن میں سے ایک کا ذکر اُوپر ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بشارت دی تھی حالانکہ محض غلط ہے حاصل آنکہ بینات سے مراد معجزات تو ہرگز نہیں ہیں کیونکہ کوئی بھی معجزہ ظاہر نہیں ہے اگر معجزات ہیں بھی بقول منشی صاحب کے تونامعلوم اورمبہم گول گول معجزے ہونگے جن پرلفظ بینات صادق نہیں آتا ہاں اُن کا یہ کہنا کہ یہ جادو ہے ظاہر یا محمد جادو گر ہے ظاہر اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس کی باتیں صاف مکاری کی ہیں یا وہ صاف مکار ہے جس میں معجزہ کااحتمال بھی نہیں ہوسکتا۔
(۵)
(سورہ بقرہ آیت ۱۱۸)
قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
ہم نے بیان کی ہیں قرآن کی آیتیں واسطے اُس قوم کے جو یقین کرتی ہے ۔
یا آنکہ ا گلے پیغمبروں کے معجزا ت کا ذکر ہم نے سنایا ہے اُ س قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے پس یہاں سے کیونکہ معلوم ہوا کہ حضرت صاحب معجزات تھے۔
(۶ )
(سورہ بقرہ آیت ۹۹)
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ
اورہم نے اُتارے تیری طرف کھُلے فقرے قرآن کے اورنہ مُنکر ہوں گے اُن سے مگر فاسق لوگ ۔
یہاں لفظ آیات بمعنی فقرات ہے نہ معجزات ۔
(۷)
( آل عمران۔ آیت ۸۶)
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ
کیونکہ اللہ ہدایت کرے گا ایسی قوم کو جو ایمان لاکر کافر ہوگئی اورگواہی دے چُکی تھی کہ رسولِ حق اورپہنچ چُکی تھیں اُنہیں نشانیاں ۔
بینات کے معنی جلالین میں لکھے ہیں (الحجج الظاہرات ) یعنی کھلیں حجُتیں مگر معلوم نہیں ہے کہ وہ کیاکیا حجتیں تھیں بظاہر وہی حُجتیں ہونگی جو اب اہل اسلام سُناتے ہیں مثلاً فضاؔحت قرآٓن غلبہ شمشیر ملک گیری استقامت پر دعوے یا شاید کوئی معجزہ بھی ہو جو نامعلوم ہے پھر بینات کے مغی مدارک میں لکھے ہیں (الشواہد کا لقران وسائر المعجزات) یعنی لفظ بینات کے معنی ہیں قرآن اورسب محمدی معجزات یعنی کل معجزات محمد یہ کا مجموعہ وہ لوگ انکار سے پہلے ہی دیکھ چُکے تھے جس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا ۔
پھر تفسیر حسینی میں ہے (وجاء ہم البنیات ) وامدہ بود بدیشان ایت ہائے روشن یعنی قرآن یا معجزات پیغمبر ۔ پس ناظرین کو انصاف کرنا چاہئے ۔ خُدا کو جان دینی ہے کہ جب تک ٹھیک معلوم نہ ہو کہ آیا و ہ معجزات تھے یا دوسری حجتیں تھیں اوراگر معجزات تھے تو کیا کیا تھے اورکیونکر وقوع میں آئے تھے جب تک صاف بات معلوم نہ ہو تب تک قطعیت کا حکم دینا منشی صاحب ہی کاکام ہےہمارا کام نہیں ہے کیونکہ ہم لوگ اپنا ایمان ہر وہمی بات پر نہیں رکھتے ہیں۔
(۸)
(انعام آیت ۱۲۴)
وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّه
جب آتی ہے اُنکے پس کوئی آیت تو کہتے ہیں کہ ہم گز نہ مانیں گے جب تک ہمیں نہ ملے جیساپاتے ہیں اللہ کے رسول ۔
یعنی جب قرآن کی آیت اُن کو سُنائی گئی تو وہ کہنے لگے ہم نہ مانے گے جیسے قرآن محمد پر اُترتا ہے ایسی ہم پر کیوں نہیں اُتر تا پس ہم اس آیت کو یعنی قرآن کے فقرہ کو جو محمد لایا ہے کلام ا للہ نہیں جان سکتے یہاں کچھ ذکر معجزہ کا نہیں ۔
حسینی میں لکھا ہے چون بیاید بکفار قریش آیتے از قرآن یا معجزہ دراثبات نبوت ۔ یعنی درست معلوم نہیں ہے کہ آیت سے مراد کیا ہے مدارک میں ہے (آیتہ )ان معجزہ اوایتہ من القرآن یعنی ٹھیک معلوم نہیں ہے پس کیا اب منشی صاحب کی خاطر سے آیتہ من القرآن کو چھوڑ کر معجزہ ہی ماننا چاہئے ۔
(۹ )
(یونس ۔آیت ۲)
قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ
یعنی جب محمد کو ہم نے بھیجا ڈرانے اورخوشخبری سُنانے کو توکافروں نے کہا یہ تو صریح جاود گر ہے
یعنی سحربیان شخص ہے یا صاف صاف مکار ہے یعنی اُس کی مکاری ایسی صاف ہے کہ معجزہ کا احتمال نہیں ہوسکتا جلالین میں لکھا ہے (قال الکافرون ان ہذا لقران المشتمل علے ولک وسحر مبین بین وفی قراۃ لسا حرو مشار الیہ) النبی تفسیر بیضیادی میں لکھا ہے (ان ہذا) یعنون الکتاب وماجاء بہ الرسول یعنی یہ سحر بیان شخص ہے یا اسکی تقریری جادو کی تقریر ہے جیسے سب خوش بیان لوگوں کی نسبت کہا کرتے ہیں۔
(۱۰)
(ص۔ آیت ۴)
وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ
کہا کافروں نے کہ محمد جاود گر ہے بڑا جھوٹھا۔
(۱۱ )
(حدید۔ آیت۹)
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
خُدا وہی ہے جو اُتارتا ہے اپنے بندہ پر صاف فقرے قرآ ن کے تاکہ نکالے تمکو اند ھیرے سے طرف روشنی کے۔
آیات بینات کے معنی جلالین نے قرآن بتلاے ہیں معجزہ کا یہاں کچھ ذکر نہیں ہے ۔
(۱۲)
(بقرہ۔رکوع ۲۵)
فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم گمراہ ہو جاؤبعد اس کے کہ پہنچ چکے تمکو صاف حکم تو جان رکھو کہ اللہ ہے زبردست حکمت والا۔
یہاں کچھ ذکر معجزہ کا نہیں ہے۔
(۱۳)
( زخرف آیت۰ ۳)
وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ
یعنی جب پہنچا اُن کے پاس سچا دین تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ہم اس کو نہ مانیں کے یعنی مکاری کی باتیں ہیں
یہا ں بھی معجزہ کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔
اب منشی صاحب کے ۱۳ معجزے قرآنی بھی تمام ہوگئے یہ وہ اعلیٰ درجہ کے معجزے تھے جو متواتر معجزوں سے بھی بلند تھے ۔ ہم ان کے بارے میں زیادہ نہیں لکھتے مگر اتنا تو کہتے ہیں کہ منشی صاحب نے پہلے خود قرآن میں اورتفسیر وں میں اُن کی بابت نہیں دیکھ لیا۔ اگر کسی آدمی کی تمیز ان کو معجزات سمجھ کر قبول کرتی ہے تو وہ اپنا بیش بہا ایمان محمد صاحب کے حوالہ کرےپر ہم تو ان کو توہمات کہتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ لفظ سحر یا آیات بینات سے کبھی معجزہ پر اشارہ نہیں ہوسکتا ہو تو سکتا ہے پر جب کہ اوپر کسی معجزہ کا صاف صاف بیان ہویاکوئی قرینہ قوی ہو پر آیات مذکورہ میں ایسا کہیں نہیں ہے ۔
مثلاً یہاں آیات کا لفظ خاص معجزات کے معنی میں ہے کہ (مامنعنا اِ ن ترسلہ بالآیات الاان کذب بھا الاولون) ۔یعنی ہم نے محمد کو اس لئے معجزے دیکر نہیں بھیجا کہ پہلے لوگوں نے اگلے پیغبروں کے معجزات کی تکذیب کی تھی۔ پس ہم نے کہا کہ معجزات سے کیا فائدہ ہے آگے دنیا میں اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہوا اب بھی نہ ہوگااس لئے محمد صاحب کو بغیر معجزہ کا رسول بنا کر ہم نے بھیج دیا ۔ یہاں لفظ آیات معجزات کے معنی پر قطعی ہے کیونکہ دوسرے معنی اُس کے بیان ہو نہیں سکتے اورالف لام یہا ں الا یاؔت کااستغراق کے لئے پس کوئی بھی معجزہ حضرت میں نہ تھا۔
صاحب جبکہ یہ آیت صریح معجزہ کا مطلق انکار کرتی ہے تو وہ کونسا آدمی ہے کہ لفظ سحرو بینات وآیات کے معنی معجزہ قرار دےکے وہمی معجزے جن کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے کہ کیا کیا تھے مان بیٹھے گا۔
اوروہ کون ہے جو ان مشترک المعنی لفظوں سے جبکہ خود مفسر انہیں مشترک لفظ بتلاتے ہیں توقطعیت کا فتویٰ معجزوں کی نسبت ان الفاظ سے دے گا اوراصول فقیہ وہی مانے گاجو توضیح تلویح میں لکھا ہے ۔
(ف)فائدہ ناظرین کو معلوم ہوجائے کہ اب مسلمانوں نے فصاحت وبلاغت کے معجزے کا ذکر کرنا اکثر چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب اُنہیں بھی کچھ کچھ معلوم ہوا ہے کہ وہ معجزہ نہیں ہے اوراسی سبب سے دیکھو اب منشی صاحب نے اُس کا ذکر نہیں کیا۔
(ف) یہ بھی معلوم ہوجائے کہ منشی صاحب نے جو معجزات محمد یہ کی معقول تقسیم کی تھی اُس میں سے اُن کی احادی معجزے جو مشہور میں منشی صاحب اُن دلائل سے آپ ہی کٹتے ہوئے مان گئے ہیں جیسے اُوپر بیان ہوچکااور تواتری معجزے جو بتلائے تھے وہ معدوم ہیں اُن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے اوراِسی لئے منشی صاحب اُنہیں پیش بھی نہیں کرسکتے تھے پس وہ یوں گئے ۔ باقی قرآنی معجزے رہے تھے سو وہ بیان بالاسے توہمات ثابت ہوئے اب محمد صاحب بغیر معجزے کے بنی رہ گئےاسی واسطے میں نے تواریخ میں اُن چھ دلیلوں سے ثابت کردیا تھا کہ معجزات کا مضمون احادیث میں محض غلط ہے۔
اا۔ تعلیق
مسیح کے حالات کی کوئی اُن کی ہمعصر تحریر موجود نہیں ہے مسیح نے اپنے کلمات ومواعظ وحالات نہ توآپ لکھے نہ اپنے زمانہ قیام میں لکھوائے اورنہ حواریوں نے مسیح کے عہد میں اپنے مشاہدات قلم بند کیئے ۔
اا۔ تقلیع
منشی صاحب نے بعض باتیں اس تعلیق میں بے فائدہ لکھی ہیں جن کی کچھ اصل نہیں ہے یا اور طرح پر ہے ۔
منشی صاحب کو دین عیسائی کے ثبوت کی دلائل سے کچھ مس بھی نہیں ہے شاید اُنہوں نے ہمیشہ مخالفوں کی تحریریں اورتقریریں دیکھی اورسُنی ہیں اورکبھی عیسائیوں کے نزدیک آکے صحیح باتیں دریافت نہیں کہیں منشی صاحب عیسائیوں پر قلِت معلومات کا داغ لگاتے ہیں (۲ تعلیق) اوراپنی معلومات کی یہ خوبیاں ظاہر کرتے ہیں۔
منشی صاحب نے اس تعلیق میں بے سروپادست اندازی کی ہے اورایسی چالاکی کام میں لائے ہیں کہ ناواقف آدمی کہے گا کہ منشی صاحب کو بہت باتیں معلوم ہیں۔ بات میں بات اعتراض پر اعتراض کرکے خوب انشا پردازی کی ہے اورایک بے اصل بات پر دوسری بے اصل بات بلکہ تیسری وچوتھی بھی جمائی ہے اوریوں ایک جال بنایا ہے تاکہ اُس میں بعض روحوں کو پھنسا کے ہلاک کریں اس مقام پر اُن کی انشا پردازی کی توہین تعریف کرتا ہوں ہاں اُنکے تہ بر تہ اعتراضوں کے جواب میں وقت خرچ کرنا فضول ہے پر اُن باتوں کے جواب دوں گا جو اُنکی زبان درازی کے اصول ہیں۔
پہلی بات
مسیح کے وقت کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے ۔
منشی صاحب کیسی سُرخروئی کے ساتھ یہ فقرہ لکھتے ہیں جبکہ عثمان کاقران اور محدثین کی مجُلدات ہاتھ میں لے رہے ہیں۔میں کہتاہوں کیوں صاحب ایسی تحریرکی کیا حاجت ہے جبکہ حواریوں کی تحریرات موجود ہیں جو مسیح کے ساتھ موجود تھے اور اُسی کے رسول ہیں جو انبیا سابقین سے کہیں زیادہ معزز بھی ہیں اور جوالہام اور قدرت کے ساتھ ممتاز بھی نظر آتے ہیں اور دنیاوی شوکت اور مزدوری کے خواہاں بھی نہ تھے پر جانثار تھے۔اگرچہ شروع میں ناچیز تھے مگرمسیح کے شاگرد اور رسول ہو کر کوئی نئی قسم کے آدمی ہو گئے تھےاور ایسے اچھے اور دانا ہو گئے کہ وہ ضرور اپنی تعلیمات کی بابت اور اپنے چلن کی بابت نہایت ہی ممتاز ہوگئے تھے۔نہ صرف ہم عیسائیوں کے سامنے پر سارے جہان کے داناوں کے سامنے بھی اگر غور سے اُنکی طرف دیکھیں۔اُن کی تعلیم نے سارے جہاں کے معلموں کی تعلیم کو ضرور دبالیا ہے بلکہ جہاں کو اُلٹا دیا ہے اور یہ بات نہایت سچ ہے منشی صاحب پھر کہتے ہیں کہ مسیح نے خود کیوں نہ لکھا۔
صاحب خُدا نے خود توریت کیوں نہ لکھی موسیٰ سے کیوں لکھوائی یاقرآن محمد صاحب پرکیوں نازل کیاآپ خُدا نے لکھ کے کیوں نہ دیا۔
منشی صاحب یسوع مسیح خُداوند خُدا ہے وہ انسان بن کے انسانوں کا واجب پورا کرنے کو اورمہربانی سے صلیب پر مرکے اورمردوں میں سے جی اُٹھ کے لوگوں کو الہٰی زندگی عطا کرنے کو آیا تھا (اور لاکھوں آدمیوں نے اُس سے وہ زندگی پائی بھی ہے )۔
پس جن لوگوں کے سامنے اُس نے یہ کام کیا یعنی موا اورجی اُٹھا اورخُدا کے دہنے جا بیٹھا صعود فرما کے اُنہی سے اس واردات کا لکھوانا بھی واجب تھا تاکہ گواہوں کی گواہی کے ساتھ اپنی انجیلِ مبارک کی بشارت منشی صاحب تک بھی پہنچائے۔
پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ حواریوں نے مسیح کے عہد میں کیوں نہ لکھا ؟جواب یہ ہے کہ صاحب جب تک مسیح مرکے جی نہ اُٹھے اورصعود نہ فرمائےاورپیشگوئی کی تکمیل نہ کرچکے تو حواری کس طرح سے پہلے ہی لکھ دیتے جو بات اب تک واقع ہی نہیں ہوئی ہے اُسے پہلے ہی سے کس طرح بیان کریں۔ ضرور ہے کہ پہلے کوئی امر واقع ہو تب تو گواہ اُس کے وقوع یا عدم وقوع پرگواہی دیں۔ منشی صاحب چاہتے ہیں کہ گواہ وار دات کے دیکھنے سے اوراُس کے وقوع سے پہلے ہی گواہی لکھ رکھا کریں صاحب یہ دستور عیسائیوں کے اصول کا نہیں ہے ۔
دوسری بات
عین زمانہ خُداوند مسیح میں تحریر ہونے کی وجہ منشی صاحب نے یوں انشا کی ہے ۔
کہ حواری مغالطہ میں پھنس گئے تھے کہ مسیح ابھی آنے والا ہے ابھی اسرائیل کی بادشاہت کو بحال کرے گا۔ ابھی بارہ شاگرد بارہ تختوں پر بیٹھیں گے پس تحریر کی کیا ضرورت ہے دُنیا تو جلدی ہی اُلٹ پُلٹ ہونے والی ہے۔
دیکھو یہ کیسی واہیات وجہ منشی صاحب نے بنائی ہے یا ملحد کی بات میں سے نکالی ہے تاکہ برا حملہ کریں لیکن وہ عمدہ اورسچی اورمعقول وجہ جو اوپر مذکورہے کہ (مسیح ابھی مرکے جی نہیں اُٹھے تھے اور واقعات پورے وقوع میں نہ آچکےتھے ) ذہن شریف میں نہ گذرے کیونکہ تعصب ذہن کو راستی کی طرف جانے نہیں دیتا۔
اُن آیتوں کے معنی جو منشی صاحب نے اپنے صفحہ ۲۵ پر لکھے ہیں اوراُن کی باطل نتائج اپنے متن میں بیان کیئے ہیں چاہئے کہ ناظرین بندہ کے خزانتہ الاسرار کتاب میں دیکھ لیں۔
یہ منشی صاحب کا مبالغہ بالکل غلط ہے کہ حواریوں کو ایسا اعتقاد تھا کہ اسی زمانہ میں قیامت آنے والی ہے دیکھو حواری لوگ اپنا اعتقاد قیامت کی بابت اپنی تحریر میں اپنے قلم سے اورطرح لکھتے ہیں اورمنشی صاحب اُنہیں کچھ اور ہی الزام لگاتے ہیں ۔
(متی ۲۵۔۱۹)بہت مدت کے بعد اُن نوکر وں کا مالک آیا۔ (متی ۲۵۔۵) جب دولہا نے دیر کی سب اُونگنے لگیں اورسوگئیں ۔ پس مسیح نے تو اُنہیں سکھلایا کہ میں بہت مدت کے بعد آونگا اوروہ آپ لکھتے ہیں کہ ہمیں یوں سکھلایا۔
(متی ۲۴۔۶، ۴۸)پر اب تک آخر نہیں (اعمال ۱۔۶ سے ۸)پس اُنہوں نے جو اکٹھے تھے اُس سے یہ کہہ کے پوچھا کہ اب خُداوند کیا تو اسی وقت اسرائیل کی بادشاہت پھر بحال کرتا ہے اُس نے اُنہیں کہا کہ تمہار ا کام نہیں اُن وقتوں اورموسموں کو جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے جانو لیکن جب رُوح القدس تم پر آئیگا تو تم قوت پاو گے اوریروشلم اورسارے یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی حدتک میرے گواہ ہوگے ۔(اعمال ۳۔۲۱) میں دیکھو کہ رسول لوگ اُس کی آمدثانی کی بابت اپنا کیااعتقاد بتلاتے ہیں یعنی یہ کہ ضرور ہے کہ آسمان اُس لئے رہے اُس وقت تک کہ سب باتیں جن کا خُدا نے اپنے سب مقدس نبیوں کی زبانی قدیم سے ذکر کیا بحال ہو ویں (۲۔پطرس ۳۔۸سے ۱۰)میں ہے کہ پر یہ بات تم پر اے پیار وچھپی نہ رہے کہ خُداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس اورہزار برس ایک دن کے برابر ہے ۔ پس مسیح خُداوند صاف صاف اور بار بار فرماتا ہے کہ میں بہت دیر میں آونگا اوررسول بیان کرتے ہیں کہ وہ دیر میں آئےگا اورپہلے سب نبیوں کی باتیں پوری ہوں گی اوریہ کہ دنیا کی حدتک اُس کی انجیل پر گواہی دی جائے گی۔ پھر منشی صاحب اُنہیں یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ وہ لوگ اُنہیں دنوں میں اُس کی آمد کے منتظر تھے ا س لئے کتاب کے لکھنے میں سُست ہوگئے تھے۔
دیکھو باوجود ایسی خبروں کے جن کا ذکر اوپر ہوا کون کہہ سکتا ہے کہ اُنہیں ایسا خیال تھا کہ ابھی قیامت آنے والی ہے ۔ ۔۔۔۔
البتہ قیامت کے لئے بہت ہی تیارتھے جیسے ہم بھی اس وقت بہت ہی تیار ہیں اورہر وقت اُس کی آمد پر نظر لگی ہے کیونکہ صرف وہ ہمارا حقیقی دوست ہے ہم اُسے ہر وقت رُوح میں تاکتے ہیں پس یہ انتظاری اورتیاری اوربات ہے اوراسی وقت قیامت آنے کا یقین باندھنا اوربات ہے جو باطل ہے ۔
دیکھو جبکہ مسیح خُداوند نے یہاں تک قیامت کی بابت فرمایا کہ قیامت کے دن کا علم کسی فرشتہ یا کسی انسا ن کو نہیں دیاگیابلکہ میری انسانیت بھی اس علم سے معرا ہے صرف میری الوہیت میں وہ علم ہے تو اب حواریوں کی انسانیت میں کہاں سے آگیا تھا کہ حوار ی یہ باتیں آپ ہی قلمبند کرکے بھول گئے تھے ہر گز نہیں یہ خیال حواریوں کا کبھی نہ تھا یہ منشی صاحب کی انشا ہے ۔
تیسری بات
منشی صاحب کہتے ہیں کہ جب زمانہ ممتدگذ ر گیا اورزبانی روایتوں میں ضعف آگیا اُس وقت لوگوں نے تحریری تذکروں پر توجہ کی۔
اس انشا پردازی پر غور کرنا چاہئے کہ ایسی عبار ت بولتے ہیں جس سے کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ آیا احادیث کی نسبت کہتے ہیں یا کلام الہٰی کی نسبت بولتے ہیں ایسی گول گول بات لکھتے ہین جس سے جاہلوں کو کلام کی نسبت شک پڑجائے ۔
پس معلوم کرنا چاہئے کہ اگر وہ احادیث مسیح کی نسبت ایسا بولتے ہیں تو سچ ہے کہ اُن کی نسبت عیسائیوں کی توجہ نہایت کم ہے اورمناسب بھی تھا کہ اُن کی نسبت توجہ کم کرتے کیونکہ حدیثیں بُری بلاہیں اورمسیح خُدا وند نے انہیں حدیثوں کی بابت یہودیوں کو الزام بھی دیا ہے کہ تم اپنی روایتوں کی سبب خُدا کے کلام کو ٹال دیتے ہو پس عیسائیوں کو نہیں چاہیے کہ حدیثوں کے بہت درپے ہوں دیکھو حدیثوں نے یہود کو اور مسلمانوں کو کس درجہ پر پہنچا رکھا ہے کیسی غلطی میں ہیں۔
ہاں اگر منشی صاحب کلام ِالہٰی کی نسبت ایسا خیا ل کرتے ہیں تو بالکل ناواقف ہیں کیونکہ حواریوں نے حدیثیں جمع کرکے یارواتیوں کی ضعف اورسلسلے تلاش کرکے اناجیل اورخطوط نہیں لکھی ہیں یہ اُس قسم کی باتیں نہیں ہیں حواری خود پیغمبر خُدا تھے اورخُدا کے اکلوتے بیٹے کے ساتھ تھے جب وہ دنیا میں جسم کے ساتھ حاضر تھا اوراُس کے صعود کے بعد حواریوں میں خُدا کی رُوح آگئی تھی جو خود خُدا ہے پس اُنہوں نے نہ محدثوں کی مانند احادیث کی کتابیں لکھیں نہ عثمان کی مانند قرآن کو مرمت کیا بلکہ اپنے دید اورشنید رُوح سے اناجیل اور خطوط لکھےاُن کا کلام رب کا کلام ہے کیونکہ رب آپ اُن میں بستا تھا اُن کی قوت سے ظاہر ہے ۔
اسی واسطے ابتدا سے اُن کی تحریرات کو جواناجیل اورخطوط مندرجہ انجیل ہیں کلیسیا ء نے کلام اللہ مانا ہے اورحقیقت میں وہی کلام اللہ ہے ۔
منشی صاحب محمدی قرآن توقبول کرتے ہیں جسے عثمان نے لکھا جو خود پیغمبر نہ تھا اورجس نے محمد صاحب کے زمانہ کا لکھا ہوا قرآن اورابوبکر کا جمع کیا ہوا دوسرا قرآن اوربعض متفرق اورق جلا دیئے اورجب قاریوں کی کثرت دفع ہونے لگی اُس وقت قاریوں کی زبان سے اپنی رائے کی موافق ایک قرآن انتخاب کرکے عرب کو دیا جس پر آج تک شیعوں کا تکرار بھی ہے اورخود منشی صاحب کے ہمسایہ یاہم شہر یعنی لکھنو کے مجتھد صاحب قرآن کے نظم کو نظم عثمانی بتلا کر اُس کے سیاق کو قبول بھی نہیں کرتے ہیں پس یہ قرآن کومنشی صاحب بلا حجت مانتے ہیں کیونکہ اسلام میں پیداہوئے ہیں اور اس قرآن کے ماننے کے خوگر ہیں ۔
مگر مسیح کے رسولوں کی انجیلوں پرشک کرتے ہیں جنہوں نے اپنے قلم سے یا اپنی زبان سے اُسی عہد میں کہ ہزار ہزار آدمی مسیح کے دیکھنے والے جیتے تھے لیکن اوراُسی عہد میں اُنہیں رواج بھی دیا۔ ان پاک اوربرحق کتابوں پر منشی صاحب اپنی حدیثوں کا وبال ڈالکر اُن کی خوبی کو داغ لگانا چاہتے ہیں اس سبب سےکہ قرآن کی چمک ا نکی روشنی کے سامنے تاریک ہوگئی ہے یہی اہل اسلام کا انصاف ہے ۔
چوتھی بات
ابھی یہ لوگ تو ا س آمد موہوم کے خیالی پلاو پکاہی رہے تھے کہ اس پر طرہ ہوا کہ یوحنا حواری نے بڑی ہی عمر پائی اورا س کے زیادہ معمر ہونے سے اس اعتقاد کے ایجاد ہوئے کہ مسیح کے قول کی تصدیق کے لئے خُدا نے یوحنا کی عمر بے حد بڑھادی ہے ۔
دیکھو منشی صاحب کیسے بیباک شخص ہیں جنہیں نہ خُدا کا خوف ہے نہ آدمیوں کا یا اُنہوں نے انجیل نہیں پڑی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان فقروں کی ترتیب درست ہے ان سے کیا معلوم ہوتا ہے نیک نیتی یا ٹھٹھہ بازی کیا (یوحنا ۲۳،۲۲،۲۱) کا یہی مطلب ہے جو منشی صاحب نے نکالا ہے ناظرین انجیل یوحنا میں دیکھیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ ابھی تو مسیح خُداوند نے صعود بھی نہیں کیا تھا صرف مردوں میں سے جی اُٹھے ہیں اورابھی دنیا ہی میں ہے چندر وز بعد جانے والے ہیں ۔پہلے ہی آمد موہوم کا خیالی پلاؤ بھی پک گیا اوریوحنا کا معمر ہونا بھی پہلے ہی ہوگیا اورمعمر ہوجانےکے سبب اس خیال کا ایجاد بھی ہوگیا اورابھی روایات میں ضعف بھی آگیا ۔ یہ واہیات باتیں ہیں یہ خیالی پلاؤ عیسائیوں نے کبھی اپنی ذہن میں نہیں پکایا مگر یہ تو منشی صاحب کے انشا کی کھچڑی ہے۔
پانچویں بات
اس عرصہ تک بہت سی جھوٹی تحریریں انجیلوں اورحواریوں کے خطوط کے نام سے جمع ہوکر ایک انبار ہوگئی تھیں۔
اِس کا جواب یہی ہے کہ ہزار انبار ہو جائیں کچھ پروا نہیں ہے کیونکہ کچھ نقصان نہیں ہے دیکھو جب موسیٰ اورانبیاء دنیا سے چلےگئے تواُن کی حدیثوں اورقصوں کے یہودیوں میں کیسے انبار ہوگئے تھے اورجب محمد صاحب چلے گئے تو سُنی شیعوں اورخارجیوںوغیرہ کی حدیثوں کے کیسے انبار ہوگئے ہیں کیا یہودیوں کے انباروں کے سبب عہد عتیق کی الہٰی کتابیں لایقِ اعتبار نہ رہیں یا محمدی انباروں کے سبب قرآن لائق اعتبار نہ رہا۔ صاحب لاکھ انبار ہوجائیں جو کتابیں رسولوں سے کلیسیا نے دست بدست خود پائی تھیں اُنہیں کی حفاظت قدیم سے نسلاً بعدنسلاً جماعتیں کرتی آئیں اوروہ انبار کبھی کلام ِالہٰی نہ سمجھے گئے وہ ہمیشہ جدار ہے ۔ اوراب تک جو بربادی سے محفوظ ہیں جدا ہیں۔ آپ کےمحمد وزیر خان اورمولوی رحمت اللہ صاحب نے بھی بعد تحقیق لاچار ہوکے اقرار کیا ہے کہ قدیمی کتب مسلمہ عیسائیوں کی وہی ہیں جوا نجیل کی جلدی میں ہیں۔
چھٹی بات
ہر چند کہ یہ قدح ِاجمالی اناجیل اربعہ کے صحیح السندنہ ہونے کے ثبوت میں کافی ہوگا مگر ہم ان پر فرادی فرادی نظر کرینگے ۔
جواب کیا خوب قدح ِاجمالی ہے جس کا سر ہے نہ پیرا اورقدح ِاجمالی بھی کیا خوب مقدمات منشیا نہ سے مرکب ہے جس کا فقرہ فقرہ بحث طلب ہے اور جس میں بہت سے صریح البطلان مقدمے شامل ہیں۔
مگر اُس قدح ِاجمالی کا نتیجہ منشی صاحب یہ نکالتے ہیں کہ اناجیل اربعہ کے صحیح السند نہ ہونے کے ثبوت میں کافی ہوگا ۔ یہ کیاعمدہ تحقیق ہے ایسی باتوں کو منشی صاحب کافی دلائل جانتے ہیں پروہ بھی معذور ہیں کیونکہ اسلام کا ثبوت اسی قسم کے دلائل سے ہوا ہے تب ہی تو مخالف کی تردید میں وہ اس قسم کی باتوں کو کافی جانتے ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے وہ تسلی کے خوگر ہیں۔
مگر جبکہ وہ اس اپنی قدح ِ اجمالی کو انجیل کی تردید کی دلیل جانتے ہیں اورا بھی اُن کا قدح اجمالی قرآن پر اچھی طرح گرتا ہوا اُنہیں دکھلایا گیا ہے تو کیا اب وہ قرآن کے صحیح السند نہ ہونے کے لئے بھی اس اپنے قدح اجمالی کو کافی جانیں گے یا نہیں صاحب یہ قدح آپ کا نہ اناجیل کے حق مضر ہے نہ قرآن کے کیونکہ باطل تقریر وں کا ڈھکو سلا ہے جو اپنے غصہ میں لکھ مارا ہے ۔
ساتویں بات
لوقا کی انجیل کی نسبت فرماتے ہیں کہ اُس نے اپنے مشاہدہ سے نہیں لکھی وہ حواری نہ تھا طبقہ ثانی کا آدمی تھا۔
جواب ۔ہم کب کہتے ہیں کہ لوقا حواری تھااس تحصیل حاصل سے کیا فائدہ ہے ہم لوقا کو اُس انجیل کا مُولف اورمرتب اورمحرر جانتے ہیں وہ پولوس رسول کی خدمت ہیں رہتا تھا اور اُس نے کئی ایک حواریوں کو بھی دیکھا ہے اوراُس نے کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دریافت بھی کرکے لکھا ہے آپ کہتا ہے کہ کلام کے خادموں سے یعنی حو اریوں سے اورواقعات کے دیکھنے والوں سے میں نے کوشش کے ساتھ دریافت کرکے لکھا ہے پس یہ انجیل اگرچہ خود کسی حواری نے نہیں لکھی مگر اُنہیں کی زندگی میں اُنہیں سے پوچھ کر اُنہیں کے ہم خدمت نے اُسی عہد میں جب لکھی ہے تو پھر یہ کیا بات ہے کہ وہ خود حواری نہ تھا اس لئے اُس کی تحریر کو نہ مانیں اوراُسی طبقہ ثانی کا آدمی بتلانا کیا معنی رکھتا ہے وہ تورسولوں سے باتیں کرتا ہے اُن کے عہد میں موجود ہے پس وہ اُسی طبقہ حواریوں کے عہد کا شخص ہے ۔ پھر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ بعد محاصرہ یروشلم لوقا کی انجیل لکھی گئی ہے یہ غلط بات ہے کیونکہ اعمال کی کتاب سے پہلے لوقا نے یہ انجیل لکھی ہے بموجب (اعمال ۱۔۱ ) کے اوراعمال کی کتاب لوقا نے روم میں جاکے تمام کی ہے ۶۳ ء میں اور یروشلم کا محاصرہ ہوا ہے ۷۰ء میں پھر یہ انجیل بعد محاصرہ یروشلم کیونکر لکھی گئی تھی اس کے بعد منشی صاحب نے لوقا کی انجیل پر کچھ گول گول اعتراض بھی کیئے ہیں یعنی آیات کے مضامین پر وہ مہمل عبارت میں لکھے ہیں اس لئے توجہ کے لائق نہیں ہیں۔
آٹھویں بات
یوحنا کی انجیل یوحنا کی نہیں ہے۔ کیونکہ پاپیاس Papias of Hierapolis نے اور پویکارب Polycarp نے اس انجیل کا ذکر نہیں کیا ہاں ارنیوس Irenaeus نے کیا ہے جو پولیکارب کا شاگرد تھا پس شاگردوں نے ذکر کیا اوراُستاد نے نہیں کیا تو سلسلسہ متصل نہ رہا ا س لئے یوحنا کی انجیل نہ رہی۔
جواب
ارنیوس Irenaeus اورتھیاؔ فلس انطاکیہ والے Theophilus of Antioch نے اوررتر تلیان Tertullian نے اورکلیمنؔٹ اسکندر یہ والے نے Clement of Alexandria اورہیو لیؔس نے اورارؔیجن Origen نے اورڈیو ؔینیسوس نے جو سکندریہ والا ہے Pope Dionysius of Alexandria اور یوسیبوس Eusebius of Caesarea نے یوحنا کی انجیل پر گواہی دی ہے ۔
اورمخالفین میں سے بھی جولیؔن نے اور پورؔفری بت پرست فیلسوف Porphyry (philosopher) نے بھی گواہی دی ہے ۔
اوریوحنا کی انجیل کا سریانی ترجمہ جو دوسری صدی کا ہے بقول الفور ڈتفسیرکے وہ بھی ابتک گواہ ہے ۔
پس کلیسیاء میں اس کا دست بدست آنا ہے اوراتنے معتبر اشخاص کی گواہیاں جن کا ذکر اوپر ہے اگر اس کے حق میں کافی دلیل نہیں ہے تواوراس سے زیادہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ۔
ہاں پاپیاؔس Papias of Hierapolis نے اور پولی ؔکارپ Polycarp نے اُس کا ذکر نہیں کیا بلکہ برنباؔس وکلمینؔٹ رومی نے Clement of Rome اوراگنا ؔشیوس نے Ignatius of Antioch بھی اس انجیل کا ذکر نہیں کیا۔
تو بھی سلسلہ متصل باقی ہے منشی صاحب سلسلہ متصل کی تعریف اپنے گھر میں تجویز کرکے دنیا کو اُس کے موافق ٹٹولتے ہیں اور جب اپنی تعریف کے موافق نہیں پاتے تو سلسلہ متصل کے عدم کا فتویٰ دیتے ہیں صاحب سارا جہاں آپ کے اصول حدیث کا غلام نہیں ہے۔
پس معلوم کرناچاہیے کہ پاپیاؔس Papias of Hierapolis اورپولیکاؔرپ Polycarp کا نہ لکھنا ۔ اورارنیوس Irenaeus کا لکھنا سلسلہ متصل میں مخل نہیں ہے کیونکہ پاپیاس Papias of Hierapolis کی کتاب ہی دُنیا میں موجود نہیں ہے جس سے لکھنا یانہ لکھنا ثابت ہو ۔ ہا ں یوسیبؔوس Eusebius of Caesarea نے پاپیاؔس Papias of Hierapolis کی باتوں کا کچھ انتخاب کیا ہے پس پاپیاس کے اقوال ملتے ہیں نہ اُس کے مجلدات۔
اور پولیکاؔرب کی کونسی کتاب موجود ہے جس سے لکھنا یا نہ لکھنا ثابت ہو اُس کا صرف ایک چھوٹا ساخط ہے جو فلپیوں کو اُس نے لکھا تھا پس جبکہ ان لوگوں کی تحریرات ہی موجود نہیں ہیں تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے لکھا ہے یا نہیں لکھا پولیکاؔرپ نے تو لوقا کی انجیل کا ذکر نہیں کیا صرف متی اورمرقس کی انجیل کا ذکر کیا ہے ا س لئے کہ خط میں ہر بات کے ذکر کا موقع نہیں ہوا کرتا ہے ۔
پھر دیکھو بالفرض پاپیؔاس نے یوحنا کی انجیل کا ذکر نہیں کیا تو بھی اُس نے یوحنا کے پہلے خط کاذکر کیا ہے اورضرور یوحنا کا پہلا خط خلاصہ ہے یوحنا کی ساری انجیل کا اُسے ذرا غور سے پڑھ کر دیکھنا۔
حاصل کلام حالانکہ کلیسیا ء نے تحقیقات کرکے مانا ہے کہ یہ انجیل اورسب اناجیل بلکہ ساری بائبل اُنہیں مصنفوں کی ہے جنکے نام پر اس کے حصے منسوب ہیں تب ہمیں کیا پرواہ ہے کہ پولیکارپ نے ذکر کیا ہے یانہیں جب ارنیؔوس کی گواہی موجود ہے جو اُن کے ساتھ ملنے والا معتبر بزرگ اسقف ہے کلیسیاء کی گواہی ہزار گواہیوں سے بہتر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اب تک اہل ہند میں سے پرانے خیالات دفع نہیں ہوئے ۔
نویں بات
متی و مرقس کی انجیل کا زمانہ گوقیا ساً قرار پایا ہے تو بھی ان کا انتساب طرف ان مصنفوں کے دو سو برس تک سلسلہ اسناد سے ثابت نہیں ہے ۔
جواب
ہر بات جو قیاس سے ثابت ہومنشی صاحب کے نزدیک شاید لائق اعتبار نہیں ہے پر جس علم دینی کو منشی صاحب مانے بیٹھیں ہیں اُس کی بنیاد ادلؔہ اربعہ پر رکھی ہوئی ہے اوروہاں چوتھی قسم کی دلیل قیاس شمار ہوا ہے صد ہامسلی قیاسی اسلام میں ہیں جوعبادات اورعقائد کے رتبہ میں بھی پہنچ جاتے ہیں وہاں وہ قیاس کو مکرو ہ چیز نہیں جانتے ۔مگر انجیل کے زمانہ تحریر میں بھی قیاس سے کچھ بولنا اُنہیں اچھا معلوم نہیں ہوتا ہے کیونکہ انجیل کے لئے ذرا ذرا سی باتیں بھی کتاب اللہ سے ثابت ہونی چاہئیں پر قرآن اوراسلام کے لئے دلائل اربعہ ہیں یہ منشی صاحب کا انصاف ہے ۔
پھر یہ جو وہ فرماتے ہیں کہ اُن کا سلسلہ متصل نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کے محدثوں کی اصطلاح کے موافق نہیں ہے تونہ ہو مگر عقل اورانصاف کے موافق تو ہے نام بنام ہے آدمیوں کو شمار کرنے کا نام عقل کے نزدیک سلسلہ متصل نہیں ہے لیکن قرینہ اور وقت مابینی بھی ہماری عقل کے اصول میں سلسلہ متصل کے منافی نہیں ہے پس جبکہ سلسلہ متصل کی اصطلاح ہی میں ہمارے تمہارے درمیان فرق ہے تو اپنی اصطلاح سے غیر پر حملہ کرنااوراُس سے درخواست کرناکہ میری اصطلاح کے موافق بول اورمیری تجویز کے موافق چل نہیں تو تو نادان ہے یہ کونسی دانائی ہے ۔
حاصل کلام حالانکہ سلسلہ متصل تو ضرور ایک عمدہ چیز ہے مگر اُس کے معنی جو آپ لوگوں نے تصنیف کیئے ہیں اُس میں سقم ہے اوراُس سُقم کے سبب آپ ہماری کتابوں پر سقم لگاتے ہیں یہ غلطی آپ لوگوں کی ہے ۔
اور یہ بات منشی صاحب کی بالکل افترا ہے کہ دو سو برس بعد انتساب ہوا ہے یہ کتابیں شروع سے اپنے مصنفوں کی طرف کلیسیاء میں منسوب ہیں۔
دسویں بات
مشائخ متقدمین کے کلام سے جو چند فقرے ان اناجیل کے نکال کر عیسائی کہتے ہیں کہ مشا ئخ مذکورہ نے ان اناجیل سے سندلی ہے اس لئے یہ کتابیں برحق ہیں یہ بات تین دلیلوں سے باطل ہے ۔ (ا)مشائخ یوں نہیں لکھتے کہ یہ بات متی یا مرقس یا لوقا یایوحنا یوں فرماتاہے یا اُن کی کتاب میں یوں لکھا ہے معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں۔ (۲) وہ اقوال زبانی آئے تھے نہ ان کُتب سے (۳) بعض تحریرات ان مشائخ کی بھی موضوعات میں شامل ہیں تو یہ بھی موضوع ہوں گے ۔
جواب
منشی صاحب کی تینوں دلیلیں ناکارہ ہیں اور اُن کا حاصل منشی صاحب کا منشا ہرگز پورا نہیں کرتا (ا) یہ کہنا کہ مشائخ متقدمین اناجیل کے نام یا اُن کے لکھنے والوں کے نام بتلا کے حوالہ نہیں دیتے ہیں اگر چہ باتیں وہی بولتے ہیں جوا ن اناجیل میں پائی جاتی ہیں اس صورت میں منشی صاحب کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں وہ اُن کتابوں میں سے کہتے ہیں جو اُن کی پیدائش سے پہلے لکھی گئی ہیں اورجواُس جماعت میں مروج ہیں جن میں وہ مشائخ بھی شامل ہیں اوروہ کتابیں اُن بزرگوں کی طرف منسوب بھی ہیں جو اُن مشائخ کے بھی بزرگ ہیں اوریہ مشائخ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا اپنی سعادت داریں جانتے ہیں پس اب کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں۔
(۲)یہ کہنا کہ وہ اقوال زبانی آئے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو منشی صاحب کو معلوم نہ تھا کہ کہاں سے کہتے پر اب دوسری دلیل میں معلوم ہوگیا قطعاً کہ وہ زبانی روایات سے کہتے تھے اس کا حاصل یہ ہے کہ منشی صاحب کہہ گئے کہ ہماری پہلی دلیل بھی غلط ہے جہان کہا تھاکہ معلوم نہیں ہے اب معلوم ہوا کہ زبانی اقوال سے کہتے ہیں۔
بالفرض اگرزبانی اقوال سے بھی کہتے ہیں تو کیسی خوبی کی بات ہے کی تحریری اقوال زمانہ قدیم کی زبانی اقوال کی بعینہ مطابق ہیں تب یہ زیادہ تر مضبوط دلیل حقیقت ان کتب کی ہوگی ۔
(۳)یہ کہنا کہ بعض تحریرات ان مشائخ کی بھی موضوعات میں شامل ہیں تو یہ بھی موضوع ہوں گے۔
کیا اچھی دلیل ہے جومنشی صاحب نے نکالی ہے اُس کے بار ے ہمیں اتنا کہنا بس ہے کہ اگر ابوہریر ہ صحابی کی طرف کوئی شریر آدمی اپنے دل سے ایک حدیث بنا کر منسوب کرئےکہ اُس نےیوں کہا ہے اورعلماء محمد یہ یوں کہیں کہ یہ حدیث ہرگز اُس کی نہیں ہے فلاں فلاں وجہ سے تو منشی صاحب کی تیسری دلیل سے یوں کہا جائے گا کہ جو حدیث ابوہریرہ کی ہمیں کہیں نظر آئے شاید وہ بھی موضوع ہے کیونکہ پہلے ایک حدیث اُس کی موضوع ثابت ہوچکی یہ بے جا قیاس ہے ۔
۱۲ ۔تعلیق
عمادالدین نے نہیں بتلایا کہ ایسا جھوٹ بنانے سے محمدصاحب کی کیاغر ض تھی ۔
۱۲ ۔تقلیع
تواریخ ِ محمدی صفحہ ۳۰۹ میں رائے مُولف لکھی ہے اوراُس رائے میں سب کچھ اختصار کے ساتھ مندرجہ ہے ہاں مجھ سے اس قدر ضرور کوتاہی ہوئی کہ میں نے خوب کہو لکھے نہیں کہا کہ اس دعو ی سے حضرت کی کیا غرض تھی لیکن یہ کوتاہی میں نے اس لئے کی تھی کہ تواریخ کے واقعات سے خود ظاہر ہے کہ بادشاہ بنے کا حضرت کہ شوق تھا اورکوئی صورت بادشاہ ہونے کی نہ تھی تب نبوت کا دعویٰ کرکے اُمت پیدا کی اوراُمت کو فوج بنایا اورخُد اکے نام سے جہادکرنا امر ضروری بتلا کے بادشاہت حاصل کی اوربہت مزے بھی اُڑے اس غرض سے یہ دعویٰ کیا تھا اوریہ غرض بھی حاصل ہوگئی تھی ۔
۱۳۔تعلیق
محمد صاحب کے تقلب احوال سے ثابت ہے کہ وہ دعوی ٰ نبوت میں سچے تھے ۔ اُنہوں نے چالیس برس کی عمر میں دعویٰ نبوت کیاا ور اپنے آباؤ اجدا کے مذہب کو بلکہ سب دنیا کی مذہبوں کو باطل بتلا یا اوربرسوں تک مصیبتیں اُٹھا کے اپنے دعوے ٰ پر موت تک ثابت قدم رہے اوراُن کا مال دولت اورعزت بھی خاک میں مل گئی ۔ اگر باطل دعویٰ تھا تو اُنہیں ایسی تکلیف اورنقصان اُٹھانے سے کیا حاجت تھی وہ برابر نماز روزے پر قائم رہے اوردنیا وی سلطنت میں بھی دنیا وی آمیزش سے الگ رہے ۔ اگرکہو کہ وہم ہوگیا تھا تو وہم اوردھوکے کا اثر کچھ اورہوتا ہے اورادراک واحساس کا اثر کچھ اورہوتا ہے ۔
۱۳۔ تقلیع
اس مقام پر بھی منشی صاحب نے اپنی تحریر میں بڑا زور لگایا ہے اورخوب انشاکی ہے لیکن اُن کی ساری تقریر کا خلاصہ یہی ہے جو اوپر لکھا گیا ۔ پر یہ سب بیانات اُن کے مغالطوں سے بھرے ہوئے ہیں پر میں اُن کی اصلی باتوں کاجواب دونگا ہر فقرہ کا
پہلی بات
منشی صاحب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے چالیس برس کی عمر میں دعویٰ نبوت کیا۔
یہ بات سچ ہے لیکن اس سن ِ وسال میں دعوےٰ کرنے سے کیا خوبی نکلتی ہے ہاں اس عمر میں آدمی ذرا تجربہ کا ر تو ہوجاتا ہے مگر جاہل آدمی کے تجربات بھی ذراا چھے نہیں ہوا کرتے ۔
محمدصاحب نے ضرور اس عمر میں کچھ عاقبت کا فکر اورکچھ دنیا کا فکر اورکچھ حصول شوکت کا فکر ذہن میں جمع کیا تھا اوراُس کا یہ نتیجہ دکھلایا جو تواریخ ِمحمدی میں مرقوم ہے توریت میں خُدا کا حکم تھا کہ (۳۰)برس کی عمر میں کاہن خُدا کے خیمہ کی خدمت کا کام شروع کرئے۔ سومسیح نے عین وقت پر ۳۰ برس کی عمر میں کام شروع کیا اگر سن وسال کی کچھ فضیلت ہے تو مسیح کو ہے نہ محمد صاحب کو کیونکہ مسیح نے شریعت کے موافق کام کیا محمد صاحب نے شریعت سے تجاوز فرمایا۔
دوسری بات
محمد صاحب موت تک اپنے دعوے ٰ پر ثابت قدم رہے اس کا کیاباعث تھا یعنی بیس برس اپنے دعوےٰ پر ثابت قدمی دکھلاکے انتقال فرمایا تب وہ اپنے دعوے ٰمیں ضرور سچے نبی تھے ۔
جواب
جناب منشی صاحب مطلق ثابت قدمی کو ئی عمدہ وصف نہیں ہے کہ جس شخص میں جس قسم کی ثابت قدمی پائی جائے تو وہ ضرور سچا ہی ہوتا ہے ہزاروں شریر اورجاہل اورفریب خوردہ اشخاص اپنی بُری حالت میں بھی ثابت قدم رہ کر اوربڑے بڑے دُکھ بھی اُٹھا کر دنیا میں مرگئے ہیں تو کیا اُن کی ثابت قدمی یہ بات ثابت کریگی کہ وہ اپنے خیالات وعقائد میں سچے تھے ہر گز نہیں مگر حالانکہ اپنے نادانی کو خوب پکڑا تھا۔
یہ ثابت قدمی اگر محمد صاحب کی نبوت پر دلیل کافی ہے تواُن بے چارے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے ۔
ثابت قدمی اُسی شخص کی محمود ہے جس کی تعلیم اورچلن اورپاکدامنی نے جہاں کو مجبور کردیا ہے اوروہ مسیح خُداوند یسوع ہے سوپہلی محمد صاحب کی نسبت ان امور ضرور ی کودکھلانا چاہئے اس کے بعد ثابت قدمی بھی محمود اورمقبول ہوسکتی ہے اب تو ہمیں اُن کی طرف سے افسوس ہے کہ کیسی بُری حالت میں ثابت قدم رہ کر انتقال فرمایا جس بات پر ہمیں افسوس ہے اُسی بات کو منشی صاحب دلیل ثبوت بنا لائے ہیں۔
صاحب مدینہ میں جاکر دس برس تک ثابت قدمی دکھلا کے مرنا تو اُنہیں نہایت ہی ضرور تھا کیونکہ جس دعوےٰ کے وسیلے سے یہ شوکت ہاتھ آئی تھی اُس دعوی میں اور بھی گرمجوشی آئے گی یا اُس سے کنارہ کشی ہوگی جو ساری کمائی کی بربادی کا باعث ہے ۔ ہاں دعویٰ نبوت سے ہجرت کے وقت تک زلزلہ آنا ممکن تھا پر کوئی سخت سبب زلزلہ کا بھی نہ تھا ایک دو یا زیادہ کم آدمی کبھی کبھی ضرور مرید ہوتے رہتے تھے اُنہیں امید نظر آتی تھی کہ اگرچہ ابھی کچھ تکلیف ہے مگر میں آہستہ آہستہ قوت پاسکتا ہوں کیونکہ بت پرستی عقلا کچھ چیزنہیں ہے جوکوئی عرب ذرا بھی فکر کرے گا وہ ضرور میرے مجرد وحدت کی نسبت بت پرستی کو بُرا جانے گااورمیں پیر مرشد ہوجاونگا اوراگر میں مربھی گیا تو کیا مضائقہ ہے آخر سب کو مرنا ہے میرا نام تو عرب میں مشہور رہے گا اورضرور ایسی کوشش کہ بت پرستی دفع ہو اورمجرد وحدت جاری ہوہر کسی کی موٹی عقل میں بھی محمود ہے پس یہ باتیں ذہن میں تھیں اورہر طرف مدد کے لئے بھی تاک رہے تھے اورساعی بھی ازحد تھے یہاں تک کہ اہل مدینہ کا قافلہ آگیا جو اہل مکہ کے ساتھ عداوت رکھتے تھے پس محمد صاحب نے اُن کے ساتھ نصف شب میں سازش اور وہ وہ سازش بھی نہایت ہی مفید پڑی ۔ خود مدینہ کے انصار نے جنگ حنین کی لوٹ کے تقسیم کے وقت ان سب باتوں کا ذکر کیا ہے کہ ہم نے تجھے کیا سے کیا بنادیا اورمحمد صاحب نے قبول بھی کیا دیکھو تواریخِ محمد ی میں اورروضتہ الاحباب وغیرہ میں بھی کہ کیا لکھا ہے ۔
تیسری بات
منشی صاحب کا یہ کہنا کہ محمد صاحب اس دعویٰ کے سبب ایک امیر آدمی سے غریب بن گئے اوراُن کا بہت سادنیا وی نقصان ہوگیا۔ یہ بات درست نہیں ہے وہ ہرگز ایسے امیر اوردولتمند نہ تھے جیسے منشی صاحب بتلاتے ہیں اُن کی ریاست ایسی تھی جیسے دیہات میں چوہدری ہوتے ہیں یااس سے بھی کم ہاں عبدالمطلب کے زمانہ میں کچھ دنیاوی طاقت تھی مگر اُس کے دس بیٹے ہوئے تھے اوروراثت تقسیم ہوئی اورکھانے کو روٹی بھی نہ رہی تھی حضرت محتاج تھے دیکھو سیرت النبی کتاب کا (صفحہ۶۲)لکھا ہے باب سفرہ صلعم اے الشام ثانیا مع میسرۃ غلام خدیجتہ وذلک لما بلغ صلعم خمساً و عشرین سنتہً وسبب ذلک ان عمہ ا با طالب قال یا ابن اخی انارجل لامال لی وقد اشتد علینا الزمان والحت علینا سنون منکر ۃ ولیس لنا مادہ ولاتجارۃ الخ۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت کے چچا نے کہا اے بھتیجے ہم نہایت تنگ حال ہیں دیر سے ہمارے اوپر تنگی آگئی ہے فقر فاقہ ہم پر غلبہ کرگیا ہے بہتر ہے کہ تو خدیجہ سے کچھ قرض لیکر شا م کی طرف تجارت کو جائے ۔
اس کے سوا باپ کا ترکہ جو حضرت نے پایا تھا وہ یہ تھا ایک لونڈی پانچ اونٹ اورایک گلہ بکریوں کا اورشاید ایک گھربھی جو محمد ابن یوسف بزاز کا گھر مشہور تھا جہاں حضرت پیدا ہوئے تھے دیکھو یہ بڑےرئیس کی ریاست تھی ۔
اوربظاہر معیشت یہ تھی کہ کعبہ کاچڑھا وا لیتے ہوں گے اوراُن ایام میں چڑھا وابھی بہت نہ تھا کیونکہ اُس وقت کعبہ کی زیارت کو صرف عرب ہی آتے تھے نہ اس وقت کے موافق کہ ہرطرف سے مسلمان جاتے ہیں اورچڑھاوا بھی اپنے حصہ کے موافق پاتے ہونگے ۔ اگر منشی صاحب کہیں کہ خدیجہ کا مال لیکر حضرت بڑے سوداگر ہوگئے تھے تو یادرکھنا چاہئے کہ اس زمانہ کی سوداگری کے مانند اُس وقت عرب کی سوداگری نہ تھی فارغ البالی سے کھانا کپڑا حاصل کرنا وہاں اُس وقت بڑے سوداگر کے لئے بس تھا اور محمدصاحب کچھ سوداگر نہ تھے مگر ایک قسم کے بیوپاری تھے ۔
یہ حضرت کی دولت سابقہ اورریاست کا حال ہے مگر بعد دعوےٰ نبوت کے چند برس کی تکلیف مناسب کے پیچھے ہم اُنہیں اتنا بڑا بادشاہ عرب کا دیکھتے ہیں کہ اُن کے آباء اجداد مین کبھی کوئی ایسا نہیں ہوا پس اب ہم پوچھتے ہیں کہ اس دعویٰ نبوت کے سبب سے نقصان اُٹھا یا فائدہ ناظرین کی تمیز انصاف کرے منشی صاحب ایسے مغالطے دیتے ہیں۔
چوتھی بات
پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت نے یہ تکلیف کیوں اُٹھائی نقد فائدہ تو اُس وقت کچھ نظر نہ آتا تھا۔
جواب
اول تو اس میں کلام ہے کہ کونسی بے حد تکلیف اُٹھائی ہاں شروع میں کچھ تکلیف اُٹھائی کہ شہرکے لوگ دشمن ہوگئے تھے جیسے اس وقت نے عیسائیوں کے دشمن ہوجاتے ہیں پرحضرت کاکوئی نہ کوئی چچا یا رشتہ دار ضرور حمایتی بنا رہا تھا اور اگر اتنی بھی تکلیف نہ اُٹھاتے جو ہر مجد ومذہب کو اُٹھا لازم ہے تو یہ لطف جس کی امید تھی کیونکر حاصل ہوسکتا دنیا میں بغیر تکلیف کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہے ۔
پھر دیکھو کہ باعث تکلیف اُٹھانے کا کیا تھا یہ کہ بُت پرستی سے منع کرتے تھے اوربُت پرستی سے منع کرنا نبوت ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر دانا کی تمیز بھی کہتی ہے کہ اس کی بیخ کنی ہیں جو تکلیف اُٹھائی جائے عین نیکی ہے دیکھو گور ونانک نے کیسی کوشش کرکے پنچاب کے ہندوں میں سے بُت پرستی کو نکالا۔
اورجب اس کے ساتھ ایک اُمید بھی دل میں قائم ہوجائے توکتنی جرات اورہمت دُکھ اُٹھانے میں آجاے گی۔
محمد صاحب کے ذہن میں یہ بات خوب جم گئی تھی کہ بُت پرستی نہایت مکروہ چیز ہے اوریہ کہ ابراہیم جس کے ہم بھی نسل کہلاتے ہیں ہر گز بُت پرست نہ تھا بلکہ وہ خُدا تعالیٰ کا پیغبر تھا ۔
اب کیا کروں اہل کتاب کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں یہودی منتظر ہیں کسی مسیح موہوم کے عیسائی مسیح کو خُدا کا بیٹا بتلاتے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتا اب میں کیا کروں تحقیقات کتب کا میں علم نہیں رکھتا اور دنیا کی طرف سے بھی روزگار کی تنگی ہے۔
بہتر ہے کہ خُدا کی وحدت مجرد کو خوب پکڑوں اورعبادت بھی اپنی مرضی کے موافق کروں اورجو کچھ خُدا ذہن میں ڈالے میں اُسی کو الہام سمجھوں گا۔ جب اس مرتبہ پر خیال آگیا تو اُس روح نے جوسب کے درپے ہے اپنی تایثر کے لئے اچھا موقع پایا اورایسی حالت دیکھ کے اُس نے حضرت کو دعویٰ نبوت پر برانگخیتہ کیااور ذہن نے اس دعوےٰ کو خوب پکڑ بھی لیا اورجب یہ دعویٰ مُنہ سے نکلا تو پھر اُس کے پیچھے بھی زور شو ر سے آگُھسی اورکچھ کچھ شاگرد بھی ہونے لگے تب اُمید قوی ہوئی اور اپنے دعوی ٰ نبوت کی تصدیق بھی اپنے ذہن میں آئی اوردنیا وی شرکت کا خیال اورتنگدستی کی تکلیف بھی اس کے معاون اورمدد گار ہوگئی اس طور سے اس دعویٰ کی تصمیم ذہن میں آگھُسی ۔
اور اس دعویٰ کی بابت جو قدرےتکلیفات آنے لگیں اُن کی برداشت کی طاقت بھی اب مضبوطی سے پیدا ہوگئی اورا س لئے ایک غیرت مندی بھی خُدا کے لئے دل میں جوش زن ہوئی مگر کوئی نہ سمجھےکہ ہر کوئی جو خُدا کے لئے غیر ت مند نظر آتا ہے وہ حقیقت میں راہ راست پر ہے کیونکہ خُدا کے لئے تین قسم کی غیر ت مندی جہاں میں نظر آتی ہے ۔
(ا)نادانی کی غیر ت مندی۔ یہ وہ غیر ت مندی ہے جس میں دل خالص ہے پر ذہن میں تاریکی ہے ایک وقت پولو س رسول بھی اس حالت میں تھا۔
(۲)نادانی بالطمع کی غیر ت مندی۔ یہ وہ ہے جس میں دل کے اندر طمع اورذہن میں نادانی ہے یہ اُن میں پائی جاتی ہے جو خُدا اوردُنیا دونوں کے طالب ہیں۔
(۳)خالص دانائی کی غیر ت مندی۔ یہ وہ ہے جس میں دل پاک اورذہن صاف ہے یہ غیر ت مندی سب سچے دیندار وں میں ہے اوردوسرے وقت پولوس میں بھی آگئی تھی ۔
پس محمد صاحب میں اگرچہ خُدا کے لئے ایک غیر ت مندی ہم دیکھتے ہیں مگر دل میں پاکیزگی اورذہن میں روشنی ہم نہیں دیکھتے اس لئے ہم اُن کی غیر ت مندی پر فریفتہ نہیں ہوسکتے جیسے کہ منشی صاحب اُس پر فریفتہ ہیں اور ہمارے سامنے اس حضرت کی غیر ت مندی کوایک دلیل نبوت بھی بنا کر پیش کرتے ہیں۔
پانچویں بات
محمد صاحب دنیاوی سلطنت میں بھی دنیاوی آمیزش سے الگ رہے ۔
جواب
دنیا کی آمیزش سے منشی صاحب کا کیا مطلب ہے ؟آیا شراب کباب ناچ راگ رنگ کر و پھرعیش وعشرت فلسفانہ یاکچھ اور مطلب ہے ہم جانتے ہیں کہ ضروریہی مطلب ہوگا اوربیشک محمد صاحب ان باتوں سے الگ رہے اورکیوں نہ الگ رہیں اگر ان باتوں میں دھس جائیں تو پھر پیری کہاں اورلوگوں کے اعتقاد جو بمشکل کچھ بند ہی ہیں کیونکہ کر قائم رہیں گے پھر تو ایک دم میں سلطنت ہی اُڑ جائے گی سلطنت کی طرف سے کیا کچھ اطمینان ہے جو ایسی حالت میں قدم رکھیں منشی صاحب ایسا مغالطہ نہ دیجئے ۔
اس مقام پر محمد صاحب کی چالاکی کو خیال فرمانا چاہئے کہ جب عروج ہوا توایسی چال اختیار کی سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
ناچ راگ رنگ شراب کباب کچھ استعمال میں نہ لائے مگر دینداری کے پیرائے میں آیتیں اُتار اُتار کرنفسانی خواہشوں کو خوب ہی پورا کیا اوراُمت کے لئے بھی اسی پیرائے میں ایک کشادہ دروازہ کھول دیا اورجہاں تک قابو چلا ایک بھی دشمن نہ چھوڑا جہاد کے حیلہ سے خوب تلوار چلائی اورلوٹا اورلوگوں کی عورتیں پکڑ کر استعمال میں لائے تعجب کی بات ہے کہ کُتب سیر تو یہ کچھ دکھلاتی ہیں پر منشی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ وہ نبی برحق تھے ایسے منطق کو بھی سلام ہے اورایسی نبوت کو بھی سلام ہے پھر وہ جو بعض انگریزوں کے اقوال منشی صاحب نکال کے دکھلاتے ہیں اوراُن کے ساتھ اپنی اگر مگر ملاتے ہیں۔ ہم اُن باتوںمیں بحث نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اُن کے اقوال کچھ صحیح اورکچھ غلط ہیں محمد صاحب ایشیا کے باشندے تھے اُن کی نسبت ایشیا کے لوگ باتیں کرینگے نہ اہل یورپ چنانچہ مسیح کی نسبت بھی ایشیا کے لوگوں کے اقوال زیادہ تر معتبر ہیں۔
۱۴۔تعلیق
جس زمانہ میں محمد صاحب تھے وہ زمانہ بڑی جہالت کا تھا اورحضرت نے نہ علم پڑہا اور نہ کسی سے کچھ سُنا اورنہ حضرت کسی باہر کے ملک میں کچھ سیکھنے کوگئے تو بھی حضرت نے الہٰی معرفت کے بھید ایسے بیان کیئے کہ تمام عقلاء جہاں حیران ہیں۔
۱۴۔ تقلیع
ا س با ت کا جواب ہم منشی صاحب کو کیا دیں حیران ہیں کیونکہ یہ نہایت تحقیق وتدقیق کی باتیں ہیں جو منشی صاحب نے ظاہر کی ہیں۔
ہاں میں اتنا کہتا ہوں کہ میری تمیز قبول نہیں کرتی کہ اس درجہ کی تاریکی اُس وقت عرب میں تھی کیونکہ اُس عہد کے مصنفوں اورشاعروں کے خیالات ہمیں خوب معلوم ہیں ہاں کسی قدر تاریکی تھی مگر نہ اتنی جتنی منشی صاحب بتلاتے ہیں کیونکہ منشی صاحب نے کتب اسلامیہ میں اسلام سے پہلے زمانہ کا نام ایام جاہلیت سُنا ہے جوعرب کی نسبت محمدیوں نے ایک اصطلاح ٹھہرائی تھی مگر وہ لوگ اپنی شریعت کی عدم موجودگی کے زمانہ کو زمانہ جہالت کہتے تھے نہ حالانکہ عرب محض بے وقوف تھے معاملات دنیاوی میں بھی ۔اور میں یہ بھی قبول نہیں کرسکتا کہ محمد صاحب استفادہ سے اسقدر محروم ہوں جس قد رمنشی صاحب اُنہیں محروم ،ٹھہراتے ہیں۔
کیونکہ جب دنیا کا یہ دستور ہے کہ ادنے اعلیٰ جس قدر قدرت کا آدمی ہے اُس قدر کچھ نہ کچھ استفادہ اپنے احباب کی صحبت سے اوراعدا واجانب کے معاملہ سے اورواقعات روز مرہ کی دید سے اور دینداروں اوربددینوں کے بحث کے سُننے سے اور دوسرے ممالک کے باشندوں اوراُن کے عقاید و دستورات کے سُننے سے اور دیکھنے سے اور بزرگوں کی کہانیوں سے اور دنیا کی مصیبتوں سے اور خوشیوں سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہر آ دمی ضرور ہی حاصل کرتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ اُسکے سر میں بھر جاتا ہے بُرایا بھلا وہ آدمی خواہ خواندہ یانا خواندہ ہو ۔ہر ایک اپنے ظرف اور اپنی استعداد کے موافق آ پ کو خود بخود پیدایش ہی سے بھرنا شروع کرتا ہے ۔
اور عزت دار آدمیوں کے بچے ضرور عوام کے بچوں سے زیادہ تر ہوشیار اور ذکی و شایستہ ہوتے ہیں۔پس نا ممکن ہے کہ محمدصاحب ایسے سخت محروم ہوں جیسے کہ منشی صاحب نے اُنہیں محروم بنا کے اُنکی عزت خراب کی ہے کیونکہ وہ عقلا ایسے سخت محروم نہیں ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ بات منشی صاحب کی شاید ہنسی کی ہے کہ محمدصاحب نے اسقدر معرفت الَہی کے دقائق دکھلائے ہیں کہ تمام جہان کے عقلا حیران ہیں۔
اِسکا جواب یہ ہے کہ وہ عقلا جو تعلیم ِمحمدی سے حیران ہیں اُنکی عقل اور ہماری عقل میں بہت فرق ہے ۔پس چونکہ ہمارے اندر وہ عقل نہیں ہے اسلئے ہم اِس بات کو قبول کرنے سے معذور ہیں۔اور ہم اِن عقلا کی تقلید کرنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ اُنکی راہ میں ہمیں موت نظر آتی ہے ۔منشی صاحب کا دل چاہتا ہے کہ جو بات بائیبل کی نسبت ہر طرف سے بولی جاتی ہے وہی بات قرآن کی نسبت بھی میں بولوں شاباش شاباش حمایت اِسی کا نام ہے۔صاحب کوئی جاہل آدمی اگر قدرت الَہی سے ایسا ہو جائے جیسے حواری ہوگئے تھے توضرور قیاس چاہتا ہے کہ اُس نے خُدا سے سیکھا مگر محمد صاحب ایسے نہیں ہیں کیونکہ اُن کی تعلیم اس درجہ کی نہیں ۔
۱۵۔تعلیق
ضرور محمد صاحب اُمی تھے اوراُنہو ں نے ہر گز کسی سے تعلیم نہیں پائی ۔ اورمخالفین بھی حضرت کو دنیوی کا مونمین دانا اورماہر تسلیم کرتے ہیں مگر ہماری زمانہ کے عیسائی صاف باتوں کا بھی انکار کرتے ہیں تو بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ حضرت اُمی تھی اورعبرانی یونانی نہیں جانتے تھے اورتوریت انجیل نہیں پڑھی تھی مگر یوں کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے خواہ بعض سفروں میں خواہ غلاموں وغیرہ سے اپنی وطن ہی میں کلام ِمقدس سُنا تھا۔ پس یہ عیسائیوں کی غلطی ہے کیونکہ حضرت نے کبھی اہل کتاب سے کچھ نہیں سُنا ذیل کے دس امور سے ثابت ہے ۔
۱۵۔ تقلیع
منشی صاحب ناحق ایک ناکارہ بات میں اس قدر درد سری کرر ہے ہیں اُن کا مختصر جواب یہ ہے ک بیشک محمد صاحب اُمی تھے لیکن اُمی کے کیا معنی ہیں اُم والدہ کوکہتے ہیں یا نسبتی کے ساتھ اُمی یعنی ماں کا یعنی جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ویسا آدمی مراد ہے جس نے دنیا میں کچھ نہیں سیکھا ۔ اگر ان معنی سے محمد صاحب اُمی کہلاتے ہیں تو محض باطل بات ہے عقلاً کیونکہ چالیس برس تک ایسے ہی مضغہ گوشت رہنا قیاس میں نہیں آسکتا ۔
دوسرے معنی اُمی کے اُن پڑھ آدمی کے ہیں سومحمد صاحب بیشک اُن پڑھ آدمی تھے مگر چالیس برس تک جس قدر سب ان پڑھ آدمی بھی ہوشیار ہوسکتے ہیں اُس قدر توہوشیاری اورواقفی حضرت نے ضرور ہی حاصل کی تھی کیونکہ لاکھوں اُمی اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں وہ محض مضغئہ گوشت نہیں ہیں کچھ نہ کچھ اُنہو ں نے بھی سیکھا ہے بلکہ ہزاروں اُمی ایسے ہیں کہ پڑھوں کی نسبت زیادہ چالاک اورہوشیار ہیں کیونکہ اُن میں استعداد ہے اگرچہ تربیت نصیب نہیں ہوئی تو بھی اُنہوں نے زمانہ سے تربیت پائی ہے اس لئے کہ (الدہر فصح المادبین ) مشہور کہاوت ہے پس محمد صاحب بھی ایسی ہی تھے اور اُن کی تعلیم اورچلن اورخیالات بھی اسی درجہ کے ہیں یعنی جیسے وہی اُمی تھے تو آدمیوں کے لائق قرآن کےمضامین بھی ہیں قرآن کونسی عمدہ اورعجیب تعلیم ہے جو اُمی کے تصنیف ہونے سے تعجب کیا جائے وہ تو اُمی کے درجہ کے موافق اپنے اندر بیان رکھتا ہے اُس کی بیانات میں کہیں حقیقی تناقض ہے ناواقفی بھی ہے اوربعض سچےبیان بھی غلطی کے ساتھ منقول ہیں اور بعض وہی باتیں ہیں جو اُس زمانہ میں اہل عرب اورگردنواح کے خاص وعام کے ذہنوں میں اوردستورات میں تھیں اور کوئی گہری پُر مغزر وحانی تعلیم بھی اُس میں نہیں ہے نہ کوئی نئی خوبی تعجب انگیز اُس میں ہے اورانسان کے واجبی ضروری دلی سوالوں کا جواب بھی اُس میں نہیں ہے اوراس سبب سے وہ اوربھی تسلی بخش چیز نہیں ہے پھراس معاملہ میں اس قدر زور دینے سے کیا فائدہ ہے منشی صاحب ناحق اس میں کوشش کرتے ہیں پر اُن کے وہ دس امور بھی دیکھ لینا چاہئے ۔
امر اول
اگر حضرت اہل کتاب کی کتب سے کچھ اخذ کرتے تو ضرور یہ بات ظاہر ہوجاتی اوراس کا چرچا اُس وقت عرب میں ہوجاتا مگر اس کا ذکر کچھ بھی نہیں ہے ۔
جواب
ہمیں اورسب اہل انصاف کوپورا یقین ہے کہ حضرت نے ضرور کتب اہل کتاب سے کچھ اخذ کیا ہے اورایسا اخذ کیا ہے جیسےسب جاہل ان پڑھ بھی سمعیات سے کیا کرتےہیں اوراس کا چرچا بھی اُس وقت عرب میں ہوگیا تھا اورایسا سخت چرچا ہوا تھا کہ محمد صاحب کو لاچار ہوکے قرآن میں اس کا جواب دینا پڑ تھا اوروہ جواب بھی ناقص تھا۔
سورۃ نحل کی ۱۰۳آیت میں لکھا ہے (وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ) ترجمہ خُدا کہتاہے ہم کو معلوم ہے کہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ محمد کو سکھلاتا ہے ایک آدمی جس آدمی کو وہ سکھلانے والا خیال کرتے ہیں اُس آدمی کی زبان تو عجمی ہے اوریہ قرآن تو صاف فصیح عربی زبان ہے ۔ پس اُس عجمی نے یہ فصیح عربی کیونکر سکھلائی ۔
تفسیر جلالین میں لکھا ہے (وہوقین نصرانی کان النبی یدخل علیہ ) یعنی وہ آدمی ایک عیسائی لوہا رتھا پیغمبر صاحب اُس کے پاس جایا کرتے تھے ۔
(تفسیر مدارک میں لکھا ہے) ارادبہ غلا ماً کان لخولطیب قداسلم وحسن اسلامہ واسمہ عایش اویعش دکان صاحب کتب اوہو جبر غلام رومی اوعبدان جبر ویسا ر کانا یقرآن التور اۃ والا نجیل وکان رسول اللہ یسمع مایقران اورسلمان الفارسی ۔ترجمہ بشر سے مراد ہے ایک غلا م جو خولطیب کا غلا م تھا وہ مسلمان ہوگیا تھا اوراچھا مسلمان بنا تھا اُس کا نام عایش یا یعیش اوراُس کے پاس بہت کتابیں تھیں ۔ یا ایک اور رومی غلام تھا جس کا نام جبر تھا یا دو غلام تھے جبر ویساریہ دونوں توریت اورانجیل پڑھا کرتے تھے اورنبی صاحب سُنا کرتے تھے اُن کا پڑھنا ۔ یا سلمان فارسی مراد ہوگا ۔تفسیر حسینی میں لکھا ہے درخبراست کہ غلامی رومی بود مرعامربن خفرمی رامیگو یند کہ جبر گفتند ے وگویند کہ دو غلام بودند جبر یسا رکہ شمشیر ہارا صیقل مے زوندے واہل کتاب بود ندہ پیوستہ توریت وانجیل خواندندے چون رسالت پنا ہ بر الیشان بگذشتے استماع قرات الیشان فرمود ی و گفتہ اند خولطیب راغلامی عایش نام بوداز اہل کتاب یا یعیش یا بعلام یا نحیس یا عداس واصح السنت کہ اورابو فکیہ گفتندے شبہا پیش حضرت پیغمبر آمدی وقرآن تعلیم گرفتی قریش گفتندی کہ محمد ازین غلام کلامے مے آموزدوباما میگویند ۔
منشی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے عیسائی ایسے عیب لگاتے ہیں دیکھو یہ اُس زمانہ کے عیسائیوں کی بات ہے یا عین محمدصاحب کے مُنہ پر قریش کا بیان تھا۔ اورپھر منشی صاحب کس طرح کہتے ہیں کہ ایسی بات کا کبھی چرچا نہیں ہوا کیا منشی صاحب نے قرآن نہیں پڑھا ناظرین آپ ہی انصاف کریں ۔
(و) ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ محمد صاحب نے ان قریش کے معترضوں کو جواب بھی درست نہیں دیا بلکہ فتح معترضوں کی رہی تھی ۔ اعتراض یہ تھا کہ اُس شکستہ زبان نصرانی سے مضامین کتب مقدسہ کے حضرت سُنتے ہیں اوراپنی فصیح عربی میں ہمیں سناتے ہیں ۔ جواب یہ ملا کہ اُس کی زبان غیر فصیح ہے پر ہم فصیح قرآن سکھلاتے ہیں یہ تو وہ پہلے ہی کہتے تھے کہ مضامین اُس کے ہیں عبارت حضرت کی ہے اوراسی کا اقرار جواب میں بھی ہوا۔
دوسرا امر
ملک شام کو جانا کئی بار یہ بات جھوٹ ہے مگر دوبار جانا ثابت ہے تو بھی جلدی آئی تھی اورسریانی زبان نہ جانتے تھےپس ایسی جلد ی اوراس قدر علوم کیونکر سیکھ لئے ۔
جواب
جانا توکئی بار ہوا ہے پر خیر منشی صاحب دوسفر تومانتے ہیں ۔اورہم یہ نہیں کہتے کہ وہاں جاکے علوم پڑھے تھے کیونکہ محمدصاحب کے قرآن میں کچھ علوم اورمعارف نہیں ہیں مگر بات یہ ہے کہ اہل کتاب سے کچھ موقع باتوں کا ملا اورکچھ کچھ سُنا بھی اورغلط پلط یا دبھی رہا۔ مگر یہ کہنا کہ سریانی نہ جانتے تھے بھلا سریانی کی کیاحاجت تھی ہندوستان کے دیہاتی لوگ شہروں کے مسلمانوں میں آتے ہیں اگرچہ عربی نہیں جانتے تو بھی اسلام کی باتیں اپنی زبان میں اُن سے سُن جاتے ہیں جس زبا ن سے محمدصاحب بیو پار کا معاملہ اُن سے کرسکتے تھے اُسی زبان سے اُن کی تقریر بھی سن سکتے تھے اوراتنی زیادہ حجت کی کیا ضرورت ہے گھر میں سکھلانے والی اورتوریت اورانجیل بھی موجود تھی جس کا ذکر اوپر ہوگیا ہے ۔
تیسرا امر
یمن جانا قطاً غیر صحیح ہے کیونکہ اگرچہ ڈاکٹر ویل لکھتے ہیں کہ ۱۶ برس کی عمر میں محمد صاحب اپنے زبیر کے ساتھ یمن کو گئے مگر اسپر نگر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ا سکی کوئی سند نہیں ملتی پس نتیجہ یہ ہوا کہ یمن میں جانا قطعاً غلط ہے ۔
جواب
اسپر نگر صاحب کا قول شاید منشی صاحب نے وحی سمجھا ہے جس پر قطیعت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ صاحب اس پر نگر صاحب کی کتاب اورڈاکٹر ویل وغیرہ کی کتاب کی نسبت زیادہ معتبر سیرؔۃ النبی ہے وہاں لکھا ہے (دسافرصلعم الے الیمن وعمرہ بضع عشرۃ سنتہ وکان مُعہ فی ذلک السفر عمہ الزبیر) ۔ یعنی محمدصاحب نے سفر کیا یمن کی طرف اور اس سفر میں اُن کا زبیر ساتھ تھا اوردس برس سے اوپر کی برس اُن کی عمر تھی لفظ بضع آپ لوگ کہتے ہیں کہ نوتک حدرکھتا ہے پس کیا مضایقہ ہے کہ ۱۶ برس کی عمر میں گئے ہوں ۔
پھر اُسی کتاب کے صفحہ ۶۳ کے آخر میں ہے (نقلہ الجلی فی سیرہ وذکر فہیا ان خدیجتہ استاجرت النبی ایضا سفر تین الی جرش و ہوموضع بالیمن و ہو المراد بقول بعضہم سوق حباشیتہ وذلک یفید انہ صلعم سافر لہا سفرات)۔
یہاں سے ثابت ہے کہ جوانی میں بھی یمن کے سفر کو گئے تھے حَلبی سے زیادہ اسپر نگر صاحب کا قول نہیں ہے جس پر قطیعت کا فتوی منشی صاحب دیتے ہیں۔
چوتھا امر
ماسٹر رام چندر صاحب باربار لکھتے ہیں کہ خدیجہ نے توریت انجیل پڑھی تھی اورحوالہ طبری کا دیتے ہیں۔ مگر میور صاحب اس پر نگر صاحب کا قول یوں نقل کرتے ہیں کہ یہ مضمون طبری کے فارسی ترجمہ میں ہے نہ عربی میں ۔
جواب
یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے اور نہ اس وقت میرے پاس طبری موجود ہے کہ عربی میں دیکھ کر تصدیق یا تکذیب کُروں بالفرض اگر ترجمہ فارسی میں ہے تو وہ ترجمہ بھی آپ ہی لوگوں کا ہے ماسٹر صاحب نے ترجمہ نہیں کرلیا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ خدیجہ کو بہت سی باتیں اہل کتاب کی معلوم تھیں اوراس کے بعض احباب نصرانی تھے خواہ اُس نے پڑھا یا نہ پڑھا ہو اس سے کیا نکلتا ہے بے پڑھے آدمی بھی دین کی موٹی باتو ں سے اکثر واقف ہوتے ہیں۔
پھر یہ بھی منشی صاحب کہتے ہیں کہ ساتویں یاگیارہویں صدی میں کلام کے ترجمے عربی میں ہوئے ہیں پہلے عربی میں ترجمہ نہ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ بالا ستعاب ترجمہ پہلے نہ ہو مگر کسی کسی ٹکڑے کے ترجمے ضرور تھے اوریہودی وعیسائی لوگ عرب میں بھی رہتے تھے بلکہ اُس ملک میں کہیں کہیں زمیندار اوررجاگیردار بھی تھے خود مکہ اورمدینہ میں بھی رہتےتھے یہ ناممکن ہے کہ اپنے دین کی باتیں اپنی زبان میں کچھ بھی نہ رکھتے ہوں اوروہ جو مدینہ میں جاکر یہودیوں کے مقدمہ کے وقت حضرت نے توریت منگوائی تھی اورعمر کو توریت پڑھتا دیکھ کر غصہ کیا تھا وہ کیا تھا؟
پانچواں امر
ورقہ بن نوفل عیسائی نے محمد صاحب کو کچھ تعلیم نہیں دی ۔
جواب
جس قدر تعلیم دینا حدیثوں میں لکھا ہے اُس قدر تو ضرور ہی دی تھی اور اِ س پر ہمارا زور نہیں ہے کہ اُستاد بن کر اُسنے حضرت کو سبق پڑ ھایا ہاں بزرگوں کی صحبت سے جس قدرفائدہ کبھی کبھی کی ملاقات میں پڑھے اور اَن پڑھے لوگ بھی حاصل کیا کرتے ہیں اُ سی قدر اپنی استعداد کے موافق محمد صاحب نے بھی ورقہ بن نوفل بزرگ عیسائی کی باتیں سُن کر حاصل کیا تھا اور یہ ہمارابیان سیر و حدیث کی کتابوں کے موافق ہے ۔منشی صاحب بے دلیل بولتے ہیں کہ وہاں سے کچھ نہیں سیکھا۔
چھٹا امر
بحیرہ راہب عرب میں کبھی نہیں آیا ۔اسپر نگر صاحب کا استدلال فقرہ (ردہ ابو طالب معہ) سے باطل ہے ہاں عرصہ قلیل تک حضرت نے بحیرہ راہب سے ملاقات کی تھی اس عرصہ قلیل کی ملاقات وہ راہب سارے قرآن کی تعلیم کیونکر کر سکتا۔
جواب
کوئی نہیں کہتا کہ سارے قرآن کی تعلیم اُسنے دی ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ کچھ کچھ باتیں اُس سے بھی سُنیں اور وہ قرآن کی تالیف میں کام آئیں۔
ساتواں امر
سلمان فارسی ہجرت کے بعد مدینہ میں آکر مسلمان ہوا تھا۔راوڈیل صاحب کہتے ہیں کہ بہشت کی باتیں اُس نے بتلائیں تھیں یہ غلط ہے کیونکہ ہجرت سے پہلے محمد صاحب نے بہشت کا ذکر سنایا تھا۔
جواب
میں نہیں کہتا کہ بہشت کا ذکر سلمان فارسی نے سکھلایا بلکہ میں جانتا ہوں کہ بہشت کی باتیں جو حضرت نے سُنائیں وہ نفسِ اماَرہ کی سکھلائی ہوئی تھیں کیونکہ اُن کا بہشت ہر نفسانی آدمی کی خواہشوں کے مطابق تجویز ہوا ہے۔سلمان فارسی نے بھی کچھ مدد کی ہو گی اور اپنے ملک فارس کے خیالات تذکرۃً یا صلا حاً کچھ سنائے ہوں گے پر میرا یہ بیان نہیں ہے ۔میرا بیان تمام جہان کے سامنے یہی ہے کہ نفسِ اماَرہ نے نفسانی بہشت تجویز کیا ہے اور ہر گز ایسا بہشت خُدا کا نہیں ہے ۔وہاں پر ہر گز ہم لوگ جانا بھی پسند نہیں کرتے۔
آٹھواں امر
یہ کہنا کہ بعض غلاموں نے سکھلایا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ غُلام لڑکے تھے جب پکڑے آئے جوانی میں لڑکپن کی باتیں بھُول گئے تھے۔
جواب
منشی صاحب کی اسی بات میں بڑی کوشش ہے کہ نہیں سکھلایا مگر جناب منشی صاحب ضرور سکھلایا ہے ۔ امر اول کے جواب پر پھر غور فرمائیے۔منشی صاحب کہتے ہیں کہ غلام جب پکڑے آئے تب وہ لڑکے تھے پر یہ کہاں سے ثابت ہوا جوان لوگ بھی بلکہ بعض وقت بڈھے آدمی بھی اور لڑکے بھی پکڑے آتے تھے پر یہ غلام لڑکے ہی تھے جب پکڑے آئے اِس کا ثبوت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ جوانی میں لڑکپن کی باتیں بھُول جایا کر تے ہیں یہ کیسی بات ہے صاحب بڑ ھاپے تک بلکہ موت تک بھی نہیں بھولتے شاید منشی صاحب لڑکپن کی باتوں کو بھُول گئے ہوں گے ناظر ین آپ انصاف کرلیں کہ وہ غُلام پڑہے ہوئے آدمی تھے اور کتابیں بھی پاس رکھتے تھے اور پڑھکر حضرت کو سُنا تے بھی تھے پر اِسکے کیا معنی ہیں کہ بھُول گئے تھے۔
نواں امر
محمد صاحب کا دین مسیحی سے استفادہ کرنا بھی باطل سند ہے کیونکہ اُس زمانہ کی مسیحیت بت پرستی سے کم نہ تھی۔
جواب
صاحب دین مسیحی کے اقوال وہی تھے جو اسوقت ہیں مگر اُن کے ساتھ روایتوں اور حدیثوں کی مکروہ تعلیم کے سبب کچھ تصویر بُت پرستی کی بھی رائج ہو گئی تھی اور لوگ ایسے تھے جیسے اسوقت محمدیوں میں بدعتیوں یا پیر پرستوں کا فرقہ ہے یعنی جو حال رومن کتیھولک لوگوں کا اسوقت ہے وہی حال اُس وقت بھی تھا آپ پروٹسٹنٹ لوگوں کی حالت کواُس وقت کی رومن کیتھولک کی حالت سے مقابلہ کرکے یہ کہتے ہیں مگر اس تکلیف کی کیاضرورت ہے رومن کیتھولک ابتک کثر ت سے موجود ہیں اوراُسی حالت میں بھی ہیں اورمحمد صاحب نے جو کچھ دین عیسائی کا بیان قرآن میں لکھوایا ہے یا اپنے حدیثوں میں سُنا یا ہے وہ سب بیان موافق ہے انہیں رومن کیتھولک کی حالت کی پس ضرور اُن سے استفادہ کیاگیا دیکھو منشی صاحب وجہ ثبوت کو وجہ نفی بناتے ہیں اورانصاف نہیں کرتے ۔
دسواں امر
نظم قرآن تخالف تناقض سے بچ کر باہم توفیق وتطبیق دکھلاتی ہے اس سے ثابت ہے کہ اُس کی تصنیف میں کسی کی شراکت نہ تھی ۔ اس دلیل کو منشی صاحب ایک نہایت عمدہ اورگہری دلیل بتاتے ہیں اور اس پر خاتمہ کرتے ہیں۔
جواب
قرآن کی نظم بے ربط ہے اور وہ حدیثوں سے ربط پانے کی بہت ہی مختاج ہے اور حدیثیں ہر فرقہ کے پاس جد اہیں ہرفرقہ اپنے حدیثوں کے موافق اُس کی عبار ت کو پھیر کر ایک دوسرے کے خلاف بولتا ہے اور اسی واسطہ شیعہ لوگ اُس کی نظم کو نظم عثمانی بتلا کے قبول نہیں کرتے اس کے سوا قرآن کی ساری عبارت کی خوبیاں اورتخالف وتناقض ہدایت المسلمین کے آخری فصلوں میں دکھلاتے بھی گئے ہیں اور اُن کا تطابق بدون تاویلا ت قریبہ اوربعید کے ہو نہیں سکتا اورمنشی صاحب نے ابتک اُن میری فصلو ںکا جواب بھی نہیں دیا ہے جس سے تسلی ہوجائے کہ بدون تاویلات بعیدہ کی وہ تناقض رفع ہوگیا ہے پس اس لئے یہ بیان منشی صاحب کا باطل ہے بلکہ تناقض ہے اورجب ہے تو شراکت بھی ثابت ہے بموجب بیان منشی صاحب کے ۔
اس کے بعد منشی صاحب فرماتے ہیں کہ (تلک عشرہ کا ملہ ) یعنی یہ دس امر دس دلیلیں کامل ہیں محمد صاحب کی نسبت میں کہتا ہوں کہ یہ تو نہایت ناقص اورمہمل باتیں ہیں اور ان کا بطلان اُنھیں چند اوراق میں ثابت ہوگیا ہے ہر منصف مسلمان کے نزدیک بھی پس ان دس امور کو۔ (تلک عشرہ باطلہ ) کہنا چاہئے ۔ ہاں ایک بات سچ ہے کہ جس قسم کے محمد صاحب نبی کامل ہیں اُسی قسم کے یہ امور عشرہ بھی کامل ہیں۔
۱۶ ۔تعلیق
عمادالدین نے اپنی تواریخ کی آخر میں جو ایک فصل خصایص محمد یہ کی نسبت لکھی ہے یہ بھی اچھا نہیں کیا کیونکہ یہ حدیث کی باتیں ہیں۔
۱۶ ۔تقلیع
صاحب میں بھی جانتا ہوں اورسب ناظرین بھی جانتے ہیں کہ یہ حدیث کی باتیں ہیں جیسے ساری تواریخ بھی حدیث کی باتیں ہیں۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے بزرگوں نے محمد صاحب کی خصایص یوں لکھی ہیں اورآپ کے بزرگان خصایص کو خصایص محمد یہ بتلاتے ہیں اب آپ کو اختیار ہے چاہیں انہیں خصایص مانیں چاہیں اپنے اسلام کی مرمت کریں پر میں نے تو آپ کی کتابوں میں سے نقل کیا ہے ۔
حاصل ِکلام
تواریخ َمحمدی میں سب کچھ درست لکھا ہوا ہے جیسے مسلمانوں کی سب تواریخوں میں بھی مذکورہ ہے ۔ اورجس قد ر اعتراضات تواریخ میں بند ہ نےلکھے ہیں منشی صاحب نے کسی ایک بات کا بھی جواب نہیں دیا بے فائدہ تعلیقات لکھی اُن کی سب تعلیقین ناکارہ ہیں۔ اورعیسائی لوگ جو کچھ محمد صاحب کی نسبت لکھتے اوربولتے ہیں سب درست اوربجا ہے ۔ مگر محمد ی لوگ فکر نہیں کرتے اوراگر فکر بھی کرتے ہیں تو محض یہ فکر کرتے ہیں کہ کس طرح محمدی نبوت ثابت کریں حقیقیت میں خواہ ثابت ہو یا نہ ہو جہاں تک ہوسکے طرفداری کی جائے خواہ مناسب دلائل سے خواہ نامناسب دلائل سے پس ان لوگوں کوحق جو ی منظور نہیں ہے پر طرفداری منظور ہے ہاں اُن میں بھی بعض روحیں ایسی ہیں جو خُدا سے ڈرتی ہیں اور ہدایت کی طالب ہیں اُنہیں پر خُدا کی برکت بھی ہوتی ہے ۔ اب جو کوئی اپنی جان بچانی چاہتا ہے وہ ان مولویوں اورمنشیوں اورجھگڑ الوں کی تقریر ں سے کنارہ کش ہوکے سب کچھ اپنے حوصلہ کے موافق بے طرفداری کی انصاف سے آپ دریافت کر ےاورعیسائیوں کی تقریر وں کو ان صاحبوں کی تقریرو ں کو بھی اپنے دلی انصاف کی ترازومیں تولے اوراپنی جان کو بربادنہ کرے ۔ کیونکہ عیسائی دین ضرور خُدا تعالیٰ کا دین ہے اورسب مذہب دنیا میں باطل اوربناوٹی ہیں ۔ میری دعا جناب منشی صاحب کے حق میں اورسب ناظرین کی لئے بھی یہی ہے کہ یسوع مسیح خُدا کے بیٹے کا فضل تم سب کے شامل حال ہوجائے تاکہ سب زندگی پائیں اورخُدا سب کی آنکھیں کھو ل دے کہ اُس کو جو برحق ہے پہچا نیں اوراس کے سامنے سجدہ کریں آمین ۔