فلپیوں

تفسیربرنامہ

پولوس رسول بنام

فلپیوں

مولفہپادری ٹی۔ واکرصاحب ایم۔ اے
کرسچن نالج سوسائٹی انار کلی ۔لاہور۱۹۴۳

Rev. Thomas Walker
(1859–1912)

دیباچہ

۱۔فلپی

فلپی ایک قصبے کانام ہے جس کے اب صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ مگر جب وہ اپنے عروج کی حالت میں تھا۔ تب اس نے دنیاوی اور دینی باتوں دونوں میں خاصہ اچھا نام حاصل کیا تھا۔ اس کے قریب و جوار میں سونے چاندی کی بڑی مشہور کانیں تھیں ان میں زمانہ قدئم کے اندر وہ محنت کش لوگ جو فیکے کے نام سے مشہور ہیں کام کیا کرتے تھے۔ فیلقوس مقدونیہ کے زمانہ تک ان کانوں کے اندر سے لاکھوں روپیہ کا سونا چاندی نکلتا تھا۔ اس شہر کے اندر سے ہو کر ایک بڑی سڑک گزرا کرتی تھی۔ جس سے اس شہر کے دو حصے ہو جاتے تھے۔ ایک حصہ بالا۔ دوسرا زیرین۔ اس سڑک کا نام سڑک اگنیشئن تھا۔ وہ شہر ہبرس سے لے کر جوصوبہ تھریس میں تھا بخرایڈریاٹک کے ساحل تک پانچ سو میل لمبی سڑک تھی۔ مسافر لوگ یہاں سے سمندر اتر کر ملک اطالیہ میں پہنچ جایا کرتے تھے اس بڑے شاہراہ کے بارے میں مشہور رومی مصنف سسرو نے یہ لکھا ہے کہ وہ ہم رومیوں کی ایک جنگی سڑک ہے جو ہمارے شہر روما کو آبنائے ڈارڈ نلز سی جو یورپ اور ایشیا کے مابین واقع ہے۔ پیوستہ کرتی ہے ماسی جگہ یعنی فلپی کے قریب وہ بڑا خوبصورت میدان بھی ہے جو اپنی زرخیزی کے لئے بڑا مشہور یہاں ہی حضرت مسیح سے بیالیس سال پیشتر وہ آخری لڑائی ہوئی تھی جس میں روما کی سلطنت جمہوری کے جرنیلوں بروٹس اور کاشیس نے قیصر اوگستس اور آنتونی کی فوجوں کا عبث مقابلہ کر کے شکست کھائی تھی۔ مگر ان ساری باتوں سے بڑھ کر اس قصبے کے متعلق یہ امر ہے کہ یہ وہی مقام ہے جس میں غیر قوموں کا بڑا نامی رسول پولوس خدا کی ہدایت سے آیا تھا کہ براعظم یورپ کے اندر اول اول اس مقام پر انجیل کا جھنڈا نصب کرے۔ یہ قصبہ جو بحر یونان کے سرہانے کی طرف واقع تھا اور اس میں جو پولوس مقدس نے مغربی ممالک یعنی یورپ کے اندرانجیل کی بشارت پھیلانے کے لئے رسالت کا اول مرکز بنایا۔ اس سے ایک ملک انگلستان اور ملک ہند ہی کیا بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو جو فائدے اور برکتیں پہنچتی ہیں ان کا بیان کون کر سکتا ہے۔

(۱)   اس قصبے کا موقع یا مقام جغرافیے کے اعتبار سے

فلپی ایک قصبہ تھا جو بڑے شاہراہ گنیشئن پر ایسی جگہ پر واقع تھا کہ جہاں کوہِ بلقان کا مسلسل پہار ایشیا اور یورپ کے براعظموں کے مابین نیچا ہو کر ایک آبناءبن گیا ہے اور ان کے درمیان ایک ایسا قدرتی دروازہ ہے کہ جس میں سے ہو کر ایک براعظم میں سے دوسرے کے اندر جانے کے لئے ایک آسان راہ موجود ہے۔ اس وجہ سے اس مقام کو دونوں براعظموں کے دروازے قفلوں کی کنجی کہنا بالکل درست ہے اور جنگی امور کے اعتبار سے اس مقام کی عظمت ک مقدنیہ کے بادشاہ فیلقوس کی یہ کیفیت تھی تو کیا یہ ایک بڑی مقبول بات نہیں ہے کہ خدا کی روح نے مسیحی منادوں کے سردار پولوس کو ہدایت کی کہ وہ وہاں جائے اگر انجیل کی بشارت نے کوہِ بلقان سے گزر کر آگے کو جانا تھا۔ تو فلپی ہی وہ مقام تھا جس میں سے ہو کر وہاں پہنچنا نہایت آسان تھا۔ بشپ لائیٹ فٹ نے اس خیال کو الفاظ مندرجہ ذیل میں بہت خوب ادا کیا ہے کہ ہم یہاں پہنچ کر ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں گویا پورپ اور ایشیائی زندگی کے دریا کا اتصال ہوتا ہے۔ اور فلپی میں انجیل کا داخل ہونا اس امر کا پیش خیمہ تھا کہ اب دین عیسوی نے مشرق سے مغرب میں گزر کیا۔یہ کہنا درست ہے کہ جس طرح اس زمانے کے مشنری ایشیا سے گزر کر فلپی اور اس کے شاہراہ گنیشئن کے رستے سے یورپ میں داخل ہوتے تھے اسی طرح آج بیسویں صدی کے مشنری یورپ سے روانہ ہو کر نہر سوئز کی راہ سے ایشیا میں آتے ہیں۔

(۲)

اس شہر کا نام فلپی اس لئے تھا کہ سکندر اعظم کے باپ فیلقوس نے اس کی بناڈالی تھی اور اس کا مقصد اس شہر کے بنائے سے یہ تھا کہ اول تو وہ اس بات کا ایک یادگار ہو کہ اس نے اس نئے صوبے کو جس میں یہ شہر بنایا تھا فتح کر کے اپنی قلمرو میں شامل کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ تھا کہ وہ سرحد پر ایک قلعہ تعمیر کر ے کہ جس میں فوج رہا کرے تا کہ صوبہ تھریس کے پہاڑی لوگوں کی شورش سے اس کے ملک کی حفاظت رہے۔ جس مقام پر یہ شہر بسایا گیا تھا۔اس کے قریب قدیم زمانے میں ایک اور شہر بستا تھا جس کا نام گرینائڈینر تھا اور اس نام کے معنی یہ تھے چشموں کا مقام۔ کیونکہ اس کے آس پاس بہت سے دریا تھے ان میں سب سے بڑا دریا گینجائی ٹینر تھا جو شہر کی مغرب طرف ایک دو میل کے فاصلے پر بہتا تھا۔ اور دریائے سڑائی مون میں جا کر مل جاتا ہے۔

(۳)

یہ شہر رومیوں کی ایک بڑی بستی تھی۔ قیصر اوگستس نے اس شہر کے قریب اپنے مخالف بروئس پر لڑائی میں ایک بار بڑی بے لاگ فتح حاصل کی تھی۔ اس لئے اس نے یہاں رومیوں کی ایک بستی بنائی تاکہ اس فتح کی ایک یادگار ہے۔ اس سے فلپی کی قدرومنزلت اور بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ یہ سلطنت روما کا ایک سرحدی قلعہ تھا اور دارالسلطنت روما کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ جب کبھی رومی لوگ کوئی ایسی بستی بنایا کرتے تھے تو دستور یہ تھا۔ کہ جو رومی وہاں جا کر آباد ہوا کرتے تھے۔ وہ فوج کے قاعدے کے موافق صف باندھ کر جھنڈے لہراتے ہوئے وہاں جایا کرتے تھے۔ اور جس مقام پر وہ قبضہ کرتے تھے۔ اس پر ہل چلا کر اپنا نشان کر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ روما کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ جب کبھی رومی لوگ کوئی ایسی بستی بنایا کرتے تھے اس پر ہل چلا کر اپنا نشان کر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ روما سے علیحدہ ہو کر باہر کی بستیوں میں سکونت اختیار کیا کرتے تھے۔ تا ہم ان کے نام ہمیشہ رومی رجسٹروں میں درج رہتے تھے اور ان کی بول چال کی زبان اور سکہ رائج الوقت اور قوانین مجریہ سب بالکل لاطینی یعنی رومی ہوا کرتے تھے۔ جو مجسٹریٹ وہاں ہوتے تھے۔ وہ بھی شہر روما کے مجسٹریٹوں کے اختیارات کے موافق بڑے بڑے خطاب اپنے ناموں کے ساتھ لگایا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ ہر ایک ایسی چھوٹی بستی گویا روما شہر کا ایک چھوٹا بچہ یا پودا ہوا کرتا تھا جو گویا روما کی زمین سے اکھاڑ کر سلطنت کے کسی دور دراز مقام پر لگایا گیا ہو۔

ان باتوں کے علاوہ فلپی کو سلطنت روما کی طرف سے ایسا ایک حق حاصل تھا کہ اس کو زمین کا محصول بھی معاف تھا۔ جو سارے صوبوں کی زمین پر رہنے والوں کو دینا پڑتا تھا۔ اس کے باعث ہے اس کا مرتبہ ایسا ہی تھا۔ جیسا کہ خود ملک اطالیہ کا تھا۔ اس لےے وہاں کے باشندے ان تین باتوں کے لئے پوری طرح سے حق رکھنے کا فخر کر سکتے تھے جو کہ رومی باشندوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے اور وہ یہ تھے۔

  1. سزائے تازیانہ کے گرفتاری کے قابل نہ ہونا۔
  2. سوا بعض حالتوں کے گرفتاری کا قابل نہ ہونا۔
  3. براہِ راست قیصر کی عدالت کو اپیل کرنے کا حق رکھنا۔

بعض رومی باشندوں نے روما شہر کو جو خاتونِ جہان کے نام سے مشہور تھا اور سلطنت روما کا برا شاندار صدر مقام تھا۔ آنکھوں سے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن تا ہم جب وہ اس کی طرف آنکھیں پھیر کر اپنے دلوں میں بحیرایڈریاٹک کے نیلگون سمندر کے پار اس کا خیال باندھتے تھے تو ان کے اندر اس بات کے تصور سے ایک فخریہ جوش اٹھنا درست تھا کہ ہم بھی اسی بڑی سلطنت جمہوری کے رکن ہیں اور اس کے حق وحقوق کے حصہ دار اور اس کی شان وشوکت میں شریک ہیں۔

پولوس رسول نے جو اپنے اسی نام کے خط میں تعلیم دی ہے۔ اس میں اس شہر فلپی کی بستی کے خاص موقعہ سے کئی مفید سبق نکالے ہیں۔ اس لئے جب ہم اس خط کی تعلیم کا مطالعہ کریں توان باتوں کو بھی جو یہاں مختصر طور پر بیان کی گئی ہیں۔ یاد رکھیں۔ اس سے ہم کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ باتیں یہ ہیں کہ ہر مسیحی بھی ایک بڑی عظیم الشان سلطنت جمہوری کا باشندہ یا رکن ہے اور وہ سلطنت کونسی ہے؟ سلطنت آسمانی۔ پس مسیحی بھی ہرگز شہر روما سے کسی کم درجے شہر کا باشندہ نہیں۔ اور مسیح کا سپاہی ہو کر اور وہ اس ٹیرھی اور گمراہ نسل کے درمیان اپنے خداوند کے لئے اپنے دل اور ایمان کے قلعہ کو سنبھالے رہتا ہے۔ اس لئے اس کا حال وہی ہے جو فلپی کے باشندوں کا تھا کہ وہ بھی سلطنت روما کی نہایت دور دراز سر حد پر وحشی اور غیر قوم لوگوں کے درمیان وہ کر اس سلطنت کی عزت اور آبرو کا قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ہند کے دیسی مسیحی بھی یہ جان کر کہ ان کے چاروں طرف بے شمار ہندو اور مسلمان رہتے ہیں۔ اور خط کی تعلیم سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو اپنے آپ کو آسمان کا باشندہ کہتے ہیں اس سے ہم کو نہ صرف بعض فق ے اور استحقاق حاصل ہیں۔ بلکہ بعض فرض بھی انجام دینے کے لئے ہم پر لازم آتے ہیں۔

۲۔پولوس سول اور فلپی شہر کی کلیسیا

جیسا کہ رسولوں کے اعمال کے سولہویں باب میں لکھا ہے پولوس رسول فلپی شہر میں اول اول ۲۵ءمسیحی کے قریب اس وقت گیاتھا جب کہ وہ اپنی رسالت کے دوسرے سفر کے وقت دورہ کر رہا تھا۔ اس وقت اس کے ساتھ ایک تو سیلاس تھا۔ دوسرا تیمتھیس تھا اور جس طرح کہ اعمال کے (اعمال۱۶: ۱۰ اور ۱۲ اور ۲۰: ۶) سے مقابلہ کر کے معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا شخص اس کے ساتھ اس وقت اس کا پیارا طبیب لوقا تھا۔ مقام تروآس سے کشتی پر روانہ ہوکر وہ ہوا اور دریا دونوں کے موافق حال ہونے کے باعث بہت جلد سفر کر کے نیا پلوس مقا م میں پہنچے۔ یہ جگہ غالباً وہی ہے جو اب ملک ترکی میں کوالو کے نام سے مشہور ہے۔ رسول یہاں سے اتر کر فوراً شاہراہ اگنیشئن پر روانہ ہوئے اور یہ سڑک ایک پہاڑ کے سلسلہ کے اوپر سے ہوتی ہوئی شہر فلپی کی طرف کو جاتی ہے۔ جب پہاڑ کی دوسری طرف اترائی شرو ع ہوئی اور سمندر کا خوشنما نظارہ جو جنوب کی طرف تھا دکھنے سے رہ گیا تو ان کو وہ خوبصورت اور سر سبز میدان اپنے سامنے پھیلا ہوا دکھائی دیا جس میں وہ شہر آباد تھا جس کے بارے میں (اعمال ۱۶: ۱۲)میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ مقدونیہ کا صدر مقام تھا اور رسولوں کا مقصد اس راہ سے وہیں جانے کا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس شہر میں بہت تھوڑے سے یہودی رہتے تھے۔ شاید اس کا یہ سبب ہو کہ فلپی رومیوں کی بستی تھی اور یہاں ان کی فوج رہا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ انطاکیہ اور اکونیم میں اور مقاموں کی طرح یہودیوں کا کوئی عبادت خانہ نہ ملا جس میں وہ خدا کا کلام سناتا لیکن سبت کے روز ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسے ایک چھوٹی سی جماعت ملی جو اپنے غریبانہ مقام عبادت میں دریائے گنگیتی پر شہر کے باہر عبادت ادا کرنے کے لئے جمع ہوا کرتی تھی۔ اعمال کی کتاب میں جو بیان درج ہے۔ اس سے ان واقعات کا صاف صاف احوال معلوم ہوجاتا ہے۔ جو پولوس رسول کے اس مقام پر اول وارد ہونے پر ظہور میں آئے یہاں اس وقت تین شخص مسیح پر ایمان لائے اور یہ تینوں نمونے کے لائق تھے اول شخص تو ایک عورت تھی جس کا نام لڈیا تھا۔ وہ سوداگری کرتی تھی۔ دوسری ایک فالکولڑکی تھی جو لونڈی تھی اور تیسرا ایک رومی داروغہ جیل خانہ تھا۔ یہ سرکار کا ایک ماتحت افسر تھا بشپ لائٹ فٹ صاحب نے اس بارے میں یہ رائے لکھی ہے۔ کہ اس مقام کے ان اول تینوں مسیحیوں کے درمیان خاندان اور شرافت اور دینی تعلیم کے اعتبار سے بڑا فرق ہے اور جس ترتیب کے ساتھ وہ مسیحی ایمان میں شریک ہوئے وہ بھی بڑے غور کے لائق ہے۔ کیونکہ تیسرا رومی تھا۔ یہ اس بات کے نمونے تھے کہ عیسائی مذہب ساری دنیا میں اسی ترتیب کے ساتھ پھیلتا ہے۔

اس مقام سے رسولوں کو یکایک چلاجانا پڑا۔ کیونکہ لوگوں نے ان کے لئے بڑی سخت اذیت برپا کی۔ مگر انجام یہ ہوا کہ انہوں نے اس اذیت سے ایک معجزانہ طور پر رہائی پائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول یہاں سے روانہ ہو کر تھسلنیکیوں کی راہ پر چلا جا رہا تھا اس وقت تک بھی فلپی کے لوگ انجیل کی مخالفت کرنے سے باز نہ آئے تھے اور جو لوگ اس شہر میں مسیح پر ایمان لائے تھے ان کو بھی مصیبت اور تکلیف بہت سی اٹھانی پڑی۔ اس کے لئے (۲۔کرنتھیوں۲: ۲۸)کو اور فلپیوں کے (۱: ۲۸۔۲۹۔۳۰) کو دیکھو۔

معلوم ہوتا ہے کہ جب پولوس رسول یہاں سے چلا گیا تو اپنے دوست اور ساتھی لوقا کو اس شہر میں چھوڑ گیا تھا۔ یہ بات (اعمال ۱۷: ۱۔۴)سے ترشح ہوتی ہے۔ کیونکہ لوقا نے یہاں پر اپنے بیان میں صیغہ متکلم کو اڑادیا ہے ۔ ممکن ہے کہ لوقا کے علاوہ یہاں پر تیمتھیس بھی تھا اور وہ وہاں کچھ عرصے تک خداوند کا کام کرتا رہا۔اس وقت کے بعد ٫۵۷رسول نے تیمتھیس اور اراسطوس کو مقدونیہ میں بھیجا تھا ۔ یہ بات (اعمال ۲۲: ۱۹)سے پائی جاتی ہے۔ جب یہ دونوں شخص خداوند کے کام کے لئے مقدونیہ کو گئے ہوں گے۔ تو ضرور ہے کہ انہوں نے فلپی میں بھی اپنی تعلیم سے کچھ فائدہ پہنچایا ہو گا۔ ہم کو اس بات کا بالکل یقین کرنا چاہئے۔ کہ جب ان کے پیارے استاد پولوس نے یہودیہ کے محتاج بھائیوں کے لئے فیاضانہ طور سے مدد کے لئے روپیہ بھیجے کی ان درخواست کی تھی تو فلپی کے مسیحیوں نے اپنی بڑی محبت سے اس کے جواب میں چندہ بھیجنے میں دریغ نہ کیا ہو گا۔اور مقدونیہ کی اور جماعتوں نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا۔ اس بات کے ثبوت میں (۲۔کرنتھیوں۸: ۱) تک ملاحظہ کرو۔

(اعمال۲۰: ۱) سے اور(۲۔ کرنتھیوں ۲: ۱۲۔۱۳اور۷: ۵۔۶) اور (۷: ۵۔۶)سے پایا جاتا ہے۔ کہ مسیح کے بعد۵۸ ء کے شروع جاڑے کے موسم میں پولوس رسول خود پانچ سال کی غیر حاضری کے بعد افسس سے روانہ ہو کر اپنی ان کلیسیاﺅں کو پھر دیکھنے کے لئے گیا تھا۔ جو یورپ میں واقع تھیں۔ پس ضرور فلپیوں نے بھی اس موقع پر اس کی محبت آمیز دینی خدمتوں سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔ پھر جب پولوس ۵۸ءکے موسم بہار میں کرنتھی سے روانہ ہو کر رستے میں اپنے فلپی شہرکے نومریدوں کے پاس عید فسح منانے کے لئے ٹھہرا تھا تو اس وقت ایک بار پھر تھوڑے سے عرصے کے بعد ان کے درمیان آ کر رہا ہو گا۔ یہ بات (اعمال ۲۰:۶)سے معلوم ہوتی ہے۔اس کے بعد پھر مجھ کو فلپی کے عیسائیوں کی اس وقت تک کچھ خبر نہیں ملتی جب تک انہوں نے اپنی دلی وفاداری سے پولوس کے پاس جو شہر روما میں قید خانے کے اندر پڑا تھا۔ اپفرودتیس کے ہاتھ اپنے دل کی خوشی سے اس کی مدد کے لئے اپنی نذریں بھیجی تھیں۔ اس امر کے ثبوت میں(فلپیوں۲:۲۵۔۳۰)کو (فلپیوں۴: ۱۰۔۱۸)تک کو دیکھو۔ پولوس نے اپنا وہ خط جس کے ہر صفحے سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ اس کو ان کے ساتھ بڑی بھاری محبت تھی اسی معتمد ایلچی کے ہاتھ فلپیوںکے پاس بھیجا تھا۔ اس خط کے (۲: ۱۹۔۲۴) سے معلوم ہوتا ہے کہ پولوس نے اپنے دل میں یہ ارادہ باندھ لیا تھا کہ ان کو ایمان کی باتوں میں مضبوطی بخشے کے لئے نہ صرف تیمتھیس کو ان کے پاس بھیجنے بلکہ خود بھی ایک بار اور ان کے پاس جائے۔ اس بات کے جواب میں کہ آیا پولوس کی یہ امید پوری ہوئی تھی یا نہیں ہم کو (۱۔تیمتھیس۱: ۳اور۲۔تیمتھیس۴: ۱۳۔۲۰)آیتوں کے تاریخی حوالوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا کیا۔ اور ان سے یہ پایا جاتا ہے۔ کہ اس عرصے کے مابین جب کہ پولوس روما میں اول دفعہ اور پھر دوسری بار قید میں تھا وہ کم از کم ایک بار تو پھر فلپیوں کی ملاقات کے لئے آیا تھا۔

اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ بیان ہو چکا ہے کہ پولوس کو فلپی کے عیسائیوں کے ساتھ کمال درجے کی گہری اور دلی محبت ہمیشہ قائم رہی پولوس ان سے ہمیشہ محبت کرتارہا اور ان کے لئے ساری عمر دعا مانگتا رہا۔ اور وہ بھی اپنی وفاداری اور احسان مندی اس کے ساتھ کرنے سے کبھی باز نہ رہے۔

اس کلیسیا کا جو حال اس کے بعد کا ہے اس کا نیان جلد کیا جا سکتا ہے۔ جب ابتدائی کلیسیا کا وہ بزرگ جس کا نام اگنیشئیس تھا ایشیا سے روما کو شہید ہونے جا رہا تھا تو وہ فلپی کے رستے سے گزرا تھا۔ وہاں کے مسیحیوں نے اس کی بڑی خاطر وتواضح کی اور اس کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے۔ اس بزرگ کا یہاں آنا ایک ایسا یاد گار ہوا کہ اس کی وجہ سے اس کلیسیااور بزرگ پالیکارپ کے باہم جو اگنیشئیس کا دوست اور سمرنا کے شہر کیا اسقف تھا دوستانہ خط کتابت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ فلپی کے مسیحیوں نے پالیکارپ سے کچھ صلاح اور نصیحت کے بارے میں درخواست کی۔ اس کے جواب میں اس نے ان کو اپنا ایک مشہور خط لکھا اس بزرگ کی تصنیفات میں سے صرف یہی خط اب تک باقی ہے۔ اس میں ایک بات جو اس نے تحریر کی ہے وہ خوشی کی بابت ہے کہ خداوند مسیح کی وجہ سے خوش ہونا چاہئے۔ پھر وہ ان کو تاکید کرتا ہے کہ اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں۔ اور ایمان و محبت اور امید پر بڑا زور دیتا ہے۔ اور بڑے سنجیدہ طور سے ان کو سمجھاتا ہے کہ روپیہ کی محبت میں گرفتار نہ ہو جانا۔ پھروہ ان کو ان کی بیواﺅں اور ڈیکنوں اور پرسبٹروں کے مناسب طرح پر چلنے کے بارے میں نصیحتیں لکھتا ہے۔ اور ان سے یہ فرماتا ہے کہ وہ سب یکساں اس طرح زندگی گزاریں جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ خدا کے شہر کے رہنے والے ہیں۔ وہ ان کو اس بارے میں بڑے زور اور تاکید کے ساتھ لکھتا ہے کہ جو اکیلی سچی انجیل یعنی خوشخبری ہے وہ اس کی خدمت اور تابعداری بڑی وفاداری کے ساتھ کریں۔ اور وہ ان کے سامنے ان مقدسوں کا نمونہ پیش کرتا ہے جو راستبازی کی راہ میں چلے اور پھر اپنے آسمانی گھر میں جا پہنچے، اور ان کو یہ فہمایش کرتا ہے۔ کہ ثابت قدم رہو۔ فروتن بنو۔فیاضی اختیار کرو۔ پرہیز گار ہو۔ اس کے ساتھ ہی بڑا افسوس کرتا ہے کہ ایک شخص ویلز نام جو کبھی ان کے درمیان ایک پرسبٹر تھا۔ وہ ظاہراً طمع کا دامن گیر ہو کر ایمان سے گر گیا ہے۔ آخر یہ کہ وہ ان کو خدا کے اور اس کے کلام کے سپرد کرتا ہے۔ اور ان کو حکم دیتا ہے کہ تمام آدمیوں کے لئے دعا مانگیں۔

اس خط کے بعد فلپی کی کلیسیا کا کچھ حال پایا نہیں جاتا بخبر یا تو ایک اتفاقیہ اشارے کے جوٹرٹلئن اور دوسرے مصنفوں کی تحریروں میںا س کی طرف کیا گیا ہے۔ یا کلیسیائی کونسوں کے نوشتوں میں جو فلپی کے کسی کسی اسقف کا نام کبھی کبھی آ جاتا ہے۔ اس کے سو اس کی تاریخ مابعد کے بارے میں ہم کو در حقیقت اس کا کچھ حال معلوم نہیں۔ اس کلیسیا کا شروع تو ایسا ہوا کہ اس سے آیندہ کی رونق کی بڑی امید ہوتی تھی۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد کی اس رونق گھٹنے لگی اور مدتیں ہو گئی ہیں۔ جب سے کہ اس کی روشنی پر اندھیرا چھا گیا ہے۔ ہماری ہندوستانی جماعتوں کے لئے یہ ہمیشہ ایک عبرت کا مقام ہے۔ کہ خبردار رہیں۔ مبادا حق اور محبت اور مشنری سرگرمی کی راہ سے بھٹک جائیں۔ مگر ہم کو اس کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے کہ فلپی کی کلیسیا میں جو ایمان اور محبت شروع زمانے اور ان کو روحانی غذا دینے کے لئے لکھا گیا تھا وہ بھی ہمارے فائدے کے لئے موجود ہے۔

۳۔اس خط کے لکھنے کی تاریخ اور موقع

(۱)یہ کہ یہ خط کہاں لکھا گیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس باب میں کچھ شک کی جگہ نہیں کہ یہ خط روما شہر میں اس وقت تحریر ہوا تھا۔ جب کہ لوقا کے احوال کے موافق جو اس نے (اعمال ۲۸: ۳۰)میں لکھا ہے پولوس دو برس تک وہاں قید میں رہا اس سے اس کے تحریر کا زمانہ ۶۱ ٫اور٫۶۳کے درمیان قرار پایا ہے۔ اگرچہ بعضوں عالموں کی رائے یہ ہے کہ یہ خط اس وقت لکھا گیا تھا جب کہ پولوس (اعمال ۲۴: ۲۳۔۲۷) تک کے مطابق قیصریہ میں قید تھا۔ ان عالموں میں سے مئیسر صاحب سب میں مقدم شخص ہے۔ لیکن جو شخص کہ واقعات مندرجہ ذیل خوب غور کریں گے۔ اور ان لوگوں کی دلائل سے کبھی قائل نہ ہوں گے۔

اول

یہ بات کہ (فلپیوں ۴: ۲۲) میں جو قیصر کے گھرانے کی طرف اشاری کیا گیا ہے اس کی مراد خواہ مخواہ روما شہر سے ہے اگر کوئی اس کا تعلق قیصریہ شہر کے ساتھ باندھنا چاہے تو صرف نا حق کی زبردستی سے ہو سکتا ہے۔ اور طرح ممکن نہیں۔

دوم

یہ کہ پولوس نے جو( فلپیوں۱: ۱۳۔۱۸) تک انجیل کی ترقی کا حال بڑی خوشی کے ساتھ لکھا ہے وہ اسی صورت میں صحیح بیٹھتا ہے جب یہ سمجھاجاﺅ کہ وہ روما شہر کی بابت ذکر کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ ایک اول درجے کا عظیم الشان شہر تھا اور انجیل کے کام کے حق میں اور مقاموں کے مقابلے میں وہ ایک نیا مقام تھا۔ اور یہ بات مشکل سے یقین کی جا سکتی ہے۔ کہ اس کا اشارہ قیصریہ کی طرف ہو۔ جو کوئی بڑی مشہور جگہ نہ تھی اور اس میں اور لوگ پہلے ہی اچھی طرح سے انجیل کی خوشخبری سنا چکے تھے۔ اس کا ذکر (اعمال۱۰: ۱سے۳۸)تک اور (اعمال۲۱: ۸سے۱۶)تک درج ہے۔

سوم

یہ بات کہ اس خط کے (۱: ۲۶) میں اور (۲: ۲۴) آیت میں رسول اس بات کی امید ظاہر کرتا ہے۔ کہ وہ جلدی رہائی پائے ارادہ کرتا ہے۔ کہ مقدونیہ میں آئے۔ ان دونوں آیتوں کا (فلیمون ۲۲آیت) سے مقابلہ کر کے غور کرو اس کے خلاف جب پولوس قیصریہ میں تھا تو اس کی امید یہ تھی کہ روما کو جائے کیونکہ اس نے قیدی ہو کر قیصر کی عدالت کی طرف اپیل کیا تھا اس امرکے لئے (اعمال۲۵: ۱۱۔۱۲)کو دیکھو۔

چہارم

یہ بات کے(۱: ۱۳) میں جو قیصری سپاہیوں کا ذکر آیا ہے گو اس سے بادی النظر میں ایسا معلوم ہو کہ چونکہ (اعمال ۲۳: ۳۵) میں بھی ہیرودیس کے قلعے یا سپاہیوں کا ذکر آیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خط قیصریہ میں لکھا گیا۔ مگر درحقیقت اس بات سے بھی اس خط کے روما شہر ہی میں لکھے جانے کو اور زیادہ تر مضبوطی ہوتی ہے کیونکہ حقیقی پڑی ٹورئم پلٹن قیصر کے ارولی سپاہیوں کی جماعت کا مقام شہر روما ہی تھا۔ اور اس ذکر میں جتنی باتیں متعلق ہیں ان کا مطلب اسی سے کھلتا ہے۔

پس ان وجوہات کو بیان کر کے ہم عالموں کی بڑی کثرت رائے کے ساتھ یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ اس خط کو پولوس رسول نے روما میں اپنی اول قید کے زمانے میں تحریر کیا تھا۔

(۲)اس خط کے لکھے جانے کی تاریخ۔

عالموں کے درمیان بڑی بحث مباحثہ ہے کہ یہ خط کب لکھا گیا تھا۔ ایک تو اس بات میں بحث ہے کہ آیا پولوس نے یہ خط روما میں اپنی پہلی قید کے ابتدائی زمانے میں لکھا تھایا کہ اس کے پچھلے وقت میں دوسری یہ بات کہ افسیوں اور کلیسوں کے خطوں کے لکھے جانے سے پہلے لکھا گیا تھا یا پیچھے۔ ساری باتوں پر غور کر کے ہم کو ناظرین کے لئے نصاف کی بات یہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ جو دلیلیں اس خط کے دیر کے بعد لکھے جانے کی تائید اور نیز مخالفت میں ہیں۔ ان کو ہم ذرا مفصل بیان کر دیں۔

اول

دلیل جو ہم دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس حال اس خط کے (۱: ۱۲۔۱۳۔۱۴) میں یہ واقع بیان کیا گیا ہے کہ اس خط کے لکھے جانے سے پیشتر روما میں انجیل جلد جلد پھیلنے لگ گئی تھی۔ اس وجہ سے ضرور ہے کہ اس خط کے لکھے جانے اور روانہ کئے جانے کے لئے اس قدر پیچھے کی تاریخ قرار دینی چاہئے جس قدر کہ ممکن ہے۔ اس کا جواب اور عالموں نے یہ دیا ہے کہ جب پولوس روما میں اول اول آیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی کلیسیا موجود ہے اور اس کی حالت بڑی رونق پر ہے۔ بلکہ وہاں عیسائیوں کی جماعت ایسی بڑی تھی کہ پولوس نے اس سے قریب تین سال پہلے اس بات کی ضرورت معلوم کی تھی۔ کہ اپنے تمام خطوں میں سے سب سے بڑا خط ان کو لکھے۔ اس کے علاوہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس خط میں جو الفاظ پولوس نے انجیل کی ترقی کے بارے میں اپنی خوشی کی بھری ہوئی امید کے لکھے ہیں ان کے معنی حد سے زیادہ لگانے نہیں چاہئیں۔ کیونکہ ان لفظوں میں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ روما کے عیسائیوں نے انجیل کا کام نئے سرے سے اور زور شور کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ دیکھا ہو اکہ ان پولوس رسول ہمارے درمیان آیا ہے تو غالباً اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے یہ کام شروع کیا ہو گا اس سے پہلے کہ اس کے آنے سے جو نیا جوش ان کے دلوں میں پیدا ہوا تھا وہ دیر کے باعث ٹھنڈا پڑ جائے۔

دوسری

دلیل جو عالم لوگ اس بارے میں دیتے ہیں کہ پولوس نے فلپیوں کا خط روما میں قید ہونے کے زمانے کے اول اول وقت میں نہیں بلکہ پیچھے کے وقت میں لکھا تھا۔ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس خط کے پڑھنے سے رسول کے دل کی اداسی اور فکر معلوم ہوتا ہے جو اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ اس کو قید سخت معلوم ہوتی ہے اور جان کا خطرہ نظر آیا تھا۔ اس لئے یہ امر قرین قیاس نہیں ہے کہ اس نے یہ خط ان دو برسوں کے ختم ہونے سے پہلے لکھا ہو جس کی بابت لوقا نے (اعمال ۲۸: ۱۶اور۳۰ اور۳۱)میں یہ لکھا ہے کہ پولوس کے وہ دو برس اور زمانے کے مقابلے میں آزادی کے برس تھے۔

اسی زمانے کی تاریخ میں جو حوالے ملتے ہیں ان سے اس دلیل کی اورزیادہ تاکید ہوتی ہے۔ قیصری اردلی گارد کے نرم دل اورنیک بخت حاکم بروس کی جگہ ۶۲ئ میں فنی لُس اوفس اور ٹگلی نس حاکم مقرر ہوئے ان میں سے جو پچھلا شخص تھا وہ ایک چھٹا ہوا بدذات شخص تھا۔ اور مسماة پوپیا جس قدر اس سے ہو سکا ہو گا کہا سنا ہو گا۔ پس ان باتوں سے رسول کو اپنی آئندہ حالت کے بارے میں ضرور فکرواندیشہ رہتا ہو گا جس کے آثاراس خط کی بعض آیتوں میں پائے جاتے ہیں۔

اس تقریر کے متعلق ہم کو یہ بھی یاد رکھنا کہ لوقا نے جوتاریخ نویس ہے۔ پولوس کے ان دونوں سالوں کا حال جہاں تک ہو سکتا تھا نہایت مختصر سا دیا ہے۔ تا ہم وہ ایسا نہیں ہے کہ اس خط کے صورت حال کے موافق نہ ہو۔ اس کے برعکس پولوس جو اس خط کا لکھنے والا ہے وہ اپنی ہر روز کی درو بدل کی حالت کے مطابق اس کے دل کی جیسی کیفیت ہوتی تھی اس کو اپنے خط میں ظاہر کرتا جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے۔ کہ اس خط سے پولوس کی طبیعت کا اداس معلوم ہونا تو رہا درکنااس کے برعکس اس خط کی طرز عبادت سے فی الجملہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کا دل خوشی کے جوش میں ابلا جاتا تھا۔ وہ فلپی کے عیسائیوں کو بار بار یہ لکھتا ہے کہ خداوند میں خوش رہو۔ آگے جب ہم اس خط کی تفیسر کریں گے تو معلوم ہو گا کہ خوشی کا لفظ اس میں ایسا مقدم ہے کہ ا س کی خوشبو ہر ایک باب کے مضمون میں مہک مار رہی ہے۔ اس کے قطع نظر یہ بات بھی قرین قیاس نہیں کہ قیصر کے شہنشاہی دربار میں جو ملکی تغیر وتبدل ہوئے ہوں ان سے پولوس جیسے ایک دور کے مقام کے گمنام قید ی کی حالت میں کچھ چنداں فرق پڑا ہو گا۔ وہ ایک ایسے مذہب کا رسول تھا جو اب تک اس قدرمشہور اور بڑا نہ سمجھا جاتا تھا کہ اس سے سلطنت کو کچھ خوف و خطر خیال کیا جائے۔

سوم

اس دلیل پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ہر چند وہ اس سے پہلی دلیل کے بالکل نامطابق ہے کہ اس خط میں رسول پولوس کی تحریر سے یہ ترشح ہوتا ہے کہ اس کو امید تھی کہ اس کے مقد مے کا فیصلہ فوراً ہونے والا ہے۔ اور وہ اپنی جلد مخلصی کے انتظار میں تھا۔ اس بات کی بنا (۱: ۱۹۔۲۵) اور(۲: ۲۴) ہے۔

مگر صرف اتنی بات کو ہم اس امر کے ثبوت میں قطعی اور ناطق نہیں مان سکتے کیونکہ پولوس دو برس قید رہا۔ اس عرصہ میں اس نے بار ہا امید کی ہوگی کہ میرے مقدمے کی پیشی اب اب ہو۔ اور ایسی حالت میں رومی قیدی کے دل میں طرح طرح کی امیدیں اور نا امیدیاں گزرا کرتی ہوں گی۔ اس کے قطع نظر جو خیالات رسول نے ان آیتوں میں ظاہر کئے ہیں وہ ویسے ہی خیالوں سے جو اس نے (۱: ۲۲) میں لکھے ہیں زیادہ نہیں ہیں۔ اس لئے ایسے موقع پر ان پر اس قدر حد سے زیادہ زور دینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔

چہارم

یہ بات پھر دلیل میں لائی گئی تھی کہ جب رسول صدر مقام یعنی روما میں پہنچ گیا تھا تو اس کے بعد جو اس کے اور فلپیوں کے عیسائیوں کے مابین اور بار آمد ورفت اور رسل رسائل کے ذکر اس خط میں پائے جاتے ہیں۔ اور اپفرودیتس کے آنے کے متعلق جو واقعات ہیں ان سب سے یہ لازم آتا ہے۔ کہ بہت سا وقت گزرا ہو گا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس عرصے میں زیادہ سے زیادہ دو سفر ہوئے ہوں گے دو روما سے فلپی تک اور دو فلپی سے روما تک۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ اس کے لئے سمجھ لو کہ رسول کے روما میں پہنچنے کی خبر فلپیوں تک آئی۔ اور کچھ وقت اس میں بھی لگا ہو گا کہ فلپیوں کا چندہ اپفردویتس کے ہاتھ پولوس کو پہنچا۔ اس کا ذکر (۲: ۲۵اور۴: ۱۸) اور اس میں بھی کچھ وقت صرف ہوا ہو کہ جیسا (۲: ۲۶)میں درج ہے۔ کوئی قاصد روما سے فلپیوں کے اس احوال کو سن کر بڑے فکر مند ہونے کی خبر کوئی قاصد لوٹ کر پولوس کے پاس لے گیا۔

جب ہم روما اور فلپی کے درمیان سفر کی مدت کا حساب اپنی احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ سفر کرنے کے لئے عموماً ایک مہینہ کافی ہے۔ پس اگر بالفرض چار دفعہ بھی سفر ہوئے تو پولوس کے روما میں پہنچ جانے کے بعد سے اس خط کے روانہ ہونے سے پیشتر صرف چار مہینے یا اس کے قریب کا عرصہ گزرا ہو گا۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ جن چار سفروں کا لوگ یقین کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ چار نہیں بلکہ صرف دو ہی تھے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ فلپیوں نے پہلے ہی سن لیا ہو کہ رسول قید ہو کر روما کو جاتا ہے۔ اور یہ خبر سن کر اپفردوتیس فلپیوں کاچندہ لے کر ایسے وقت روانہ ہوا ہو کہ جب پولوس وہاں پہنچے تو وہ اس کر وہاں ملے۔ مگر خبر جو کچھ ہو سو ہو۔ یہ تو ضرور ہے کہ پولوس نے اپنا خط فلپیوں کو روما میں پہنچ کرکئی مہینوں بعد لکھا ہو گا۔ اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیںا س عرصے میں خاطر خواہ وقت مل گیا ہو گا کہ جو سفر اس امر کی حالتوں کے مطابق اُس طرف سے اِس طرف اور اِس طرف سے اُس ہوئے ہوں گے وہ پورے ہو جائیں۔

پنجم

آخری دلیل یہ ہے کہ(اعمال ۲۷: ۲) میں لکھا ہے کہ پولوس رسول کے دریائی سفر میں لوقا اور آرسترخس بھی اس کے ہمراہ تھے اور انہوں نے (کلیسو۴: ۱۰۔۱۴اور فلیمون۱: ۲۴)کے مطابق کلسی کے عیسائیوں اور فلیمون کو پولوس رسول کے سلام کے ساتھ اپنا سلام بھی بھیجا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پولوس نے جو خط فلپیوں کے نام لکھا ہے اس میں دونوں شخصوں کے نام نہیں پائے جاتے ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط پولوس نے ان دو خطوط کے بعد لکھا ہو گا اور اس عرصے میں اس کے یہ دونوں ساتھی روما سے روانہ ہو کر چلے گئے ہوں گے۔

جو لوگ اس خط کے پہلے جانے کی تائید کرتے ہیں وہ اس دلیل کے جواب میں خیالات مندرجہ ذیل کو پیش کرتے ہیں۔

(الف)

جو دلیل کہ کسی بات کی خاموشی یعنی نہ تحریر کئے جانے سے پیدا ہوا کرتی ہے وہ ہمیشہ اس قدر بے تحقیق ہوا کرتی ہے کہ وہ آپ قطعی نہیں سمجھی جاتی۔ افسیوں کے خط میں نہ ارسترخس کا ذکر آیا ہے۔ نہ لوقا کا اور نہ تیمتھیس کا۔ اگرچہ اس بارے میں سب کا اقرار ہے کہ وہ خط اسی زمانے میں لکھا فیا تھا جبکہ کلیسوں اور فلیمون کے خط لکھے گئے تھے۔

ب

یہ بھی ممکن ہے کہ پولوس کے یہ دونوں ساتھی ان عام سلاموں اور مبارکبادوں کے بھیجنے میں شامل ہوں۔ جن کا ذکر(۴: ۲۱۔۲۲) میں ہواہے۔

ج

یہ بات قرین قیاس ہے کہ ارسترخس جو (اعمال ۲۷: ۲۔۵ اور۶) کے مطابق تھسلنیکیوں کا رہنے والا تھا۔ پولوس سے مقام میرا میں اس وقت علیحدہ ہو گیا ہو جبکہ پولوس کو اسکندریہ کی کشتی میں بٹھا کر روما کی طرف روانہ کیا تھا۔ پھر ارسترخس وہاں سے اپنے گھر کی طرف اسی کشتی میں سوا ر ہو کر چلا گیا ہو۔ اور کچھ عرصے بعد پولوس کے پاس روما میں آ گیا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو جس دلیل پر ہم غور کر رہے ہیںاس سے یہ بات ثابت ہو گی کہ یہ خط پولوس کے روما میں قید ہو کر جانے سے پہلے زمانے میں لکھا گیا اس سے پیشتر کہ ارسترخس وہاں پہنچا ہو۔

د

یہ بات بھی ممکن ہے کہ پولوس نے لوقا کو کسی چند عرصے کے کام کے لئے روما سے کسی اور جگہ بھیج دیا ہو۔ جیسا کہ اس نے (۲: ۱۹۔۲۰اور۲۱) کے مطابق تیمتھیس کے بھیجنے کا ارادہ بیان کیا ہے اور اس وجہ سے لوقا اس خط کے لکھنے کے وقت موجود نہ تھا۔

غرض جب ہم ساری دلیلوں اور وجوہات کو میزان عقل میں رکھ کر تولتے ہیں تو جس پلڑے میں پولوس کے روما میں قید ہونے کے ابتدائی زمانے میں اس خط کے لکھے جانے کی دلیلیں آتی ہیں وہ پلڑا جھکتا ہوا معلوم ہوتا ہے یعنی یہ دلیلیں زیادہ تر قوی ہیں اور بشپ لائٹ فٹ صاحب جو ایک بڑے عالم مفسر ہیں انہوں نے بھی بڑے لائق طور پر اسی کی تائید کی ہے۔لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل اس کے مقابلے میں ہیں وہ بھی بالکل بے اثر نہیں ہیں۔ اس رائے کی تائید میں اس بات کا بھی بیان کرنا لازم ہے کہ جب پولوس کے ان خطوں کی طرز تحریر اور مضامین کا مقابلہ جو اس نے اپنی پہلی قید کے درمیان لکھے ہیں۔ اول تو ان خطوں کے ساتھ کیا جائے جو اس کے خطوں کا باب بڑا مرکزی مجموعہ کہلاتا ہے یعنی کرنتھیوں۔گلیتوںاور رومیوںکے خطوں کے ساتھ اور پھر اس کے چوپانی خطوں کے ساتھ۔ تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فلپیوں کا خط ان دونوںتسموں کے خطوں میں سے پہلی قسم کے خطوں کے ساتھ بہت زیادہ ملتا ہے خصوصاً ان خطوں میں سے سب سے پچھلے خط یعنی رومیوں کے نام کے خط کے ساتھ اس کے مشابہت بہت ہی ہے۔ اور افسیوں اور کلیسوں کے خطوں سے وہ اس قدر نہیں ملتا ہے۔ اس کے برعکس یہ دونوں خط صاف چوپانی خطوں کی مانند ہیں۔ غرض رومیوں کے خط اور فلپیوں کے خط کے باہم مشابہت کی باتیں اتنی اور ایسی قریب کی ہیں کہ ان سے خواہ مخواہ یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ فلپیوں کا خط ایک درمیانی پیوند ہے۔ جو رسول کے ان خطوط کو جو اس نے اپنے تیسرے سفر کے درمیان لکھے تھے ان خطوں سے وصل کرتا ہے جو اس کلیسوں اور افسیوں کے نام لکھے ہیں۔

اس بات میں دلائل کا غلبہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان خیالات کے ساتھ جو ہم نے اب تحریر کئے ہیں اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ فلپیوں کا خط پولوس نے اپنے روما میں قید ہونے کے اول اول زمانے میں لکھاتھا۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہایت درجہ قرین قیاس ہے کہ یہ خط ۶۱ ءکے آخر میں یا ۶۲ ءکے شروع میں لکھا گیا تھا۔

۳یہ بات ہے کہ وہ کس موقع پر لکھا گیا ۔

اس امر کی بحث میں یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کوئی شک کا مقام نہیں ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ خود اس خط کے مضمون اور عبارت سے ہو جاتا ہے۔(۲: ۲۵اور۴: ۱۸) سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اپفردوتیس فلپی کے نومرید عیسائیوں کا فیاضیانہ چندہ پولوس رسول کے پاس آپ خود لے گر گیا تھا وہ پولوس کی خدمت ایسا سرگرم تھا کہ اس نے اپنے بدن کی صحت کا بھی کچھ خیال نہ کیا اس لئے وہ سخت بیمار ہو گیا۔پھر (۲: ۲۷سے۳۰) تک یہ ذکر ہے کہ وہ اس بیماری سے ابھی اچھا ہی ہوا تھا کہ اس کو یہ فکر دامنگیر ہوا کہ میری بیماری کی خبر سننے سے جو رنج والم فلپی کے عیسائیوں کو ہوا ہے میں اس کو دور کرنے کے لئے فوراً وہاں واپس چلا جاﺅں۔ اس لئے رسول نے غالباً روح القدس کے الہام سے اور جیسا (۱: ۲۷اور۲: ۲۔۳۔۱۴اور ۴: ۲) سے پایا جاتا ہے۔ کہ رسول کو اس بات کی خبر کی تھی کہ فلپی کے بعض عیسائیوں کی باہم نااتفاقی پھیل رہی ہے کسی قدر اس خیال سے بھی اس موقع پر یہ خط اپفردوتیس کے ہاتھ فلپیوں کے پاس بھیجا۔ اس خط سے رسول کی محبت جو اس کو فلپیوں کے ساتھ تھی اور ان کی روحانی بہبودی کے لئے اس کی دلی خواہش بڑے زور شوو کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ غرض خدا کی کار سازی سے ان باتوں کے باہم جمع ہونے کے باعث فلپیوں کا یہ خط ہم کو نصیب ہوا ہے۔

۴۔اس خط کی تصنیف کی صداقت

اول اس امر کا اندرونی ثبوت۔

یہ بات مشکل سے خیال میں آتی ہے کہ جو شخص اس خط کو بغور مطالعہ کرے وہ اس کی اصلیت کے بارے میں ذرا بھی شک کرے رسول نے اپنے دل کے بڑے گہرے گہرے خیال اور جوش اس طرح بلا تصنع اس خط میں کثرت کے ساتھ داخل کئے ہیں۔ اور اس کی طبیعت اور خصلت جو ہم سب کو اس کے معتبر حالات کے وسیلے سے معلوم ہے اس کی تصویر اس خط میں ایسی صحیح صحیح پائی جاتی ہے کہ اگر اس بات کا گمان بھی کیا جائے کہ یہ خط جعلی یا بناوٹی ہے تو دانستہً حماقت معلوم ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ خط بناوٹی ہے تو اس کی تحریر کے لئے کوئی وجہ قائم کی نہیں جا سکتی۔ اس لئے باور اور اَور شخصوں نے جو یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خط دوسری صدی کی بناوٹ ہے۔ ہم کو اس پر کچھ توجہ کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ خاص کر اس لئے کہ جو نکتہ چینی انہوں نے کی ہے اس کو ایسی آزادانہ عقل کے عالموں نے جیسے ہل گن فلٹ۔ فلیڈرار۔ رینن اوروٹی شن ہیں جھوٹی جان کر رد کر دیا ہے۔ تا ہم مناسب ہے کہ ہم اس خط کی صداقت کے بارے میں جو تاریخی ثبوت ہیں ان کو مختصر طور پر بیان کر دیں۔

دوئم بیرونی شہادت۔

ہم رسولوں کے زمانے کے بزرگوں کی شہادت پہلے لکھتے ہیں۔ روما کا بزرگ کلیمنٹ نام جو پہلی صدی کے آخر میں تھا اپنی تحریر میں وہ عبارتیں کام میں لاتا ہے۔ جو (فلپیوں ۱: ۱۰اور۲۷) اور مقاموں کی تصویریں معلوم ہوتی ہیں۔ پس یہ امر بہت غالب ہے کہ وہ بزرگ اس خط سے واقف تھا۔

بزرگ اگنےئیش جب ۱۱۰ ٫ میں شہید ہونے کے لئے جا رہا تھا تو اس نے اثنا راہ میں کئی خط لکھے ہیں جن میں فلپیوں کے خط کی طرف ظاہر اشارے کئے ہیں دوسرے باب میں اس نے رومیوں کی طرف یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میرا خون خدا کے حضور قربانی کے لئے چڑھایا جائے۔ اس بات کا (فلپیوں ۲: ۱۷) سے مقابلہ کرو۔ پھر یہ بزرگ فلدیفیہ کے مسیحیوں کو اپنے خط کے آٹھویں باب میں یہ فرماتا ہے کہ تفرقے کی طبیعت سے کچھ کام نہ کرو۔ اس بات کا (فلپیوں ۲: ۳)مقابلہ کرو۔ پھر وہ سمرنا کے عیسائیوں سے اپنے خط کے چوتھے باب میں یہ کہتا ہے کہ جس حال وہ جو کامل ہے یعنی خداوند مجھے مضبوطی بخشتا ہے تو میں ساری چیزوں کی برداشت کرتا ہوں۔ اس بزرگ کی یہ بات (فلپیوں ۴: ۱۳) کے موافق ہے۔ پھر وہ گیارہویں باب میں انہیں یہ فہمائش کرتا ہے کہ تم کامل ہو کر اپنے دلوں میں بھی کامل بن جاﺅ۔ بزرگ کا یہ خیال (فلپیوں ۳: ۱۵) کے خیال سے ملتا ہے۔

ایک اور بزرگ پالی کارپ نام جو دوسری صدی کے شروع میں گزرا ہے۔اپنے اس خط کے تیسرے اور گیارہویں بابوں میں جو اس نے ان ہی فلپیوں کی طرف لکھا ہے۔ اس بات کا صریح ذکر کرتا ہے۔ کہ پولوس رسول نے تم کو لکھا ہے اور اس کے خط کے مختلف مقاموں سے ویسے ہی الفاظ اور عبارت سننے میں آتی ہے۔ جیسی کہ پولوس کے فلپیوں کے خط میں ہے۔ مثلاً وہ اپنے خط کے پہلے باب میں یہ کہتا ہے کہ میں خداوند میں تمہارے ساتھ بہت ہی خوش ہوا۔ ایسے ہی الفاظ (فلپیوں ۴: ۱۰)میں بھی آئے ہیں۔

پھر دوسرے باب میں پالی کارپ نے یہ لکھا ہے کہ آسمان اور زمین میں ساری چیزیں اس کے تابع کر دی گئی ہیں۔ ایسے ہی الفاظ پولوس (فلپیوں ۲: ۱۰)میں کام میں لایا ہے۔ پھر وہ بزرگ اپنے خط کے پانچویں باب میں یہ لکھتا ہے کہ اگر ہم اس کے لائق ہم شہریوں کی طرح زندگی گزاریں۔ ایسا ہی خیال (فلپیوں۱: ۲۷) میں بھی پایا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے خط کے بارہویں باب میں یہ لفظ لکھتا ہے کہ صلیب کے دشمن۔ (فلپیوں۳: ۱۸) میں بھی یہی لفظ ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مقام ہیں جن میں ایک ہی طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

ڈیوجنی ٹس نے جو ۱۱۷ ٫کے قریب تھا اپنے خط میں یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ان کی شہریت یا وطن آسمان میں ہے ان لفظوں کو فلپیوں کے تیسرے باب کی بیسویں آیت سے ملا کر دیکھو۔

جسٹن شہید اور ملیطو اور تھیافلوس بزرگ سب دوسری صدی میں گزرے ہیں اور یہ بھی اپنی اپنی تصنیفوں میں اس خط کے محاورے کام میں لاتے ہیں۔

وئنے اور لیئون کی کلیسیاﺅں کو جو خط کہ ۱۷۷ ٫میں تحریر ہوا تھا۔ اس میں (فلپیوں۲: ۶)کے یہ الفاظ درج ہیں کہ جس نے خدا کی صورت پر ہو کر خدا کے ساتھ برابر ہونے کو کوئی قیمتی بخشش نہ سمجھا۔

قدیم ترجموں میں جن کے درمیان سریانی زبان کا سب سے پرانا ترجمہ بھی داخل ہے۔ یہ خط شامل پایا جاتا ہے۔ اور دوسری صدی کی کتاب مقدس کے مختلف مسلم نخسوں میں بھی وہ موجود ہے۔ آئری نئس جو دوسری صدی میں کچھ عرصہ بعد گزرا ہے (فلپیوں ۴: ۱۸) کو نقل کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ پولوس کا کلام ہے فلپیوں کے لئے۔

سکندریہ کا بزرگ کلیمنٹ بھی جو دوسری صدی کے پچھلے زمانے میں گزرا ہے۔ اس خط کی عبارت میں سے کئی بار نقل کر کے اس کی نسبت یہ کہتا ہے کہ یہ رسول یعنی پولوس کے الفاظ ہیں۔ طرطلس جو دوسری اور تیسری صدیوں کے درمیان زندہ تھا(فلیپوں ۳: ۱۱۔۱۲۔۱۳) نقل کرکے یہ کہتا ہے کہ ان کو پولوس نے فلپیوں کے لئے لکھا تھا۔ اور فلپی کے ذکر میں یہ لکھتا ہے کہ وہ ایک ایسی کلیسیا ہے جس کے پاس رسولوں کے اصلی خط موجود ہیں۔ اور مارشئن کے جواب میں (فلپیوں۱: ۱۴تا۱۸اور ۲:۶۔۷۔۸اور۳: ۵۔۱۹اور۲۰۔۲۱) کا صریح طرح سے حوالہ دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہتا ہے کہ یہ خط فلپی کی کلیسیا کے درمیان اس کے زمانے تک برابر پڑھا جاتا تھا۔

غرض اس خط کی صداقت کے بارے میں ابتدائی کلیسیا کی ساری کتابوں میں کہیں ذرا شک کا نشان بھی نہیں ملتا۔

۵۔تاریخی اعتبار سے اس خط کی قدرو منزلت

یہ امر ضرور اور واجبی ہے کہ مسیح کی زندگی اور تعلیم کا حال جو شخص مطالعہ کرنا اور جاننا چاہے وہ اپنے اس علم کی بنیاد سب سے اول اور سب سے مقدم چاروں انجیلوں پر قائم کرے۔ اور جو لوگ مسیح کو نہیں مانتے وہ تو خاص کر لیکن جو مسیح کے پیرو ہیں ان میں سے بھی ایسے شخس تھوڑے ہوں گے جو نئے عہد نامہ کے خطوں کو اس خیال سے پڑھتے ہوں گے۔ کہ ان سے انجیل کا حال معلوم کریں۔ لیکن اگر ہمارا یہ خیال ہو کہ انجیلیں جیسی کہ وہ اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس عرصے تک لکھی نہیں گئی تھیں۔ جبکہ پولوس رسول کے اکثر خط تحریر ہو گئے تھے تو یہ امر ظاہر ہے کہ مسیح کی زندگی اور تعلیم کے بارے میں جو گواہی کہ ان خطوں سے حاصل ہوتی ہے وہ مسیح کے کلام اور کام کے بارے میں تاریخی شہادت کا ایک گراں مایہ اور ضروری حصہ ہے۔

اگر ہم ایک عام بات یہ کہیں تو بجا ہے کہ چاروں انجیلیں ایسی باقاعدہ تصنیفیں ہیں جن میں ان کے مصنفوں نے اس امر کو اپنے مدِنظر رکھا ہے کہ ان میں وہ کلیسیا اور ساری دنیا کے لئے مسیح کی زندگی اور گفتگو کا احوال بیان کریں۔ اس کے برعکس رسولوں کے خط وہ تصنیفیں ہیں جن کے لکھنے کی ضرور ت بعض خاص موقعوں پر پیدا ہوئی تھی۔ اور ان کے لکھے جانے کا مقصد یہ تھا کہ خاص خاص وقتوں پر بعض خاص خاص کلیسیاﺅں میں جو ضرورتیں پیدا ہو گئی تھیںوہ رفع کی جائیں۔ یہ بات ہم ابھی فلپیوں کے خط کے بارے میں بیان کر آئے ہیں۔ پس اگر وہ اتفاقیہ شہادت جو ان اتفاقی تحریروں سے بہم پہنچتی ہے۔ اناجیل اور اعمال کی کتابوں کی گواہی سے کہ جو باقاعدہ نوشتے ہیں مطابق و موافق پائی جائے تو اس صورت میں ان دونوں نوشتوں کی صداقت کی قدرو منزلت تاریخی اعتبار سے اور بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم نے فلپیوں کے خط کی مطابقت کا حال اعمال کی کتاب کے ساتھ تو دیباچے اور توضیع میں کافی طور پر پہلے بیان کر دیا ہے۔ اگر ہم اب ذرا اس کے امر کا کچھ بیان کریں کہ اس خط کو انجیلوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ تو وہ فائدے سے خالی نہ ہو گا۔

ہم دبیاچے کے تیسرے باب میں بیان کر آئے ہیں کہ اس خط کو پولوس رسول نے ۶۲ ٫ کے قریب تحریر کیا تھا۔ اور خداوند مسیح ۳۰ ءکے قریب اول مصلوب ہوا اور پھر مردوں میں سے زندہ ہو گیا۔ پس ان دونوں کے درمیان بہ مشکل ایک پشت کا زما نہ گزرا تھا اس لئے بہت سے لوگ زندہ تھے۔ جن کو یا تو ان واقعات اور اقوال کا ذاتی علم تھا جو انجیلوں میں درج ہوئے ہیں یا جنہوں نے ان واقعات کا حال راہ راست ان لوگوں سے سنا تھا جو خود ان باتوں کے گواہ تھے۔ فرض کرو کہ انجیل کے اس بڑے واعظ یعنی پولوس نے جو پہلی صدی کے درمیان انجیل کی منادی کی اس کا ہمارے اس صرف یہی خط ایک تحریری یاد گار ہوتا۔ تو ہم اس سے انجیل کی تاریخ اور تعلیم کا حال کہاں ۱ تک مرتب کر سکتے۔ اور جو نوشتے کہ چاروں انجیلوں کے نام سے مشہور ہیں ان کی کون کون سی باتوں کی مطابقت اس سے ہوتی۔

ہم مسیح کی زندگی کے بڑے بڑے واقعات کو اول لیتے ہیں۔ جس شخص کو کسی اور طرح سے ان حالات کی واقفیت نہ ہو اس کو مسیح کے بارے میں یہ باتیں وہ خدا کی صورت میں اور خدا کی برابر حالت میں موجود تھا۔ اس امر کے ثبوت میں (فلپیوں ۲: ۶) کا(یوحنا ۱: ۱۔۲۔۳اور۱۵ اور۱۸اور۱۳: ۱اور۳اور۱۷: ۵) سے مقابلہ کرو۔ پھر یہ بات کہ اس نے اپنی مرضی سے اس اپنے الٰہی مرتبے سے کام لینے کو درکنار رکھ کر انسانی طبیعت کو اختیار کر لیا۔ اس بات کے لئے (فلپیوں۲: ۷)کو (یوحنا ۱: ۱۴) سے ملا کر دیکھو۔ پھریہ امر کہ مسیح نے دکھ اٹھایا اور صلیب پر جان دی (فلپیوں ۳: ۱۰ اور۲: ۸) سے معلوم ہوتاہے۔ اور یہ بات کہ مردوں میں سے پھر جی اٹھا اور اپنے اصلی بدن کے ساتھ جو اب جلالی ہو گیا تھا آسمان پر سرفراز ہوا (۳: ۱۰ اور۲۱اور۲: ۹) سے ظاہر ہے۔ اور یہ بات کہ اس کو ساری چیزوں پر اختیار حاصل ہے (۳: ۲۱) کا (متی ۱۱: ۲۷ اور ۲۸: ۱۸) سے مقابلہ کر کے معلوم ہو سکتی ہے۔ اور یہ امر کہ خداوندی لقب کے لئے اس کا دعویٰ واجبی ہے۔ (۲: ۱۱) اور (یوحنا ۱۳:۱۳) سے ثابت ہے۔ اور یہ بات کہ وہ نجات دینے والا اور انصاف کرنے والا بن کر پھر آئے گا۔ (۳: ۲۰اور۱: ۶)کو (متی ۱۶: ۲۷)اور (لوقا۲۱: ۲۷اور۲۸) کے ساتھ مقابلہ کر کے دریافت ہو سکتی ہے۔ اب رہی مسیح کی تعلیم۔ اس کے بارے میں اس کتاب کے پڑھنے والے دیکھ لیں کہ خط کے شروع ہی میں پولوس اپنے آپ کو (۱:۱) میں مسیح کا غلام مانتا ہے اور اس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجھے اور دیگر شخصوں کو درکنار رکھ کر صرف اسی کی فرمانبرداری مطلق طور پر کرنی واجب ہے۔ اس امر کے متعلق (متی ۱۰: ۳۷)اور (لوقا ۱۴: ۲۶)بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ پھر یہ امر کہ مسیح کی خاطر دکھ اٹھانا نہایت فخر کی بات ہے۔ (لوقا ۶: ۲۲۔۲۳اورمرقس ۸:۳۵)کا (فلپیوں ۱: ۲۹اور۳: ۷) سے مقابلہ کر کے معلوم ہو سکتا ۲ ہے۔اور یہ بات کہ مسیح کے نمونے پر چلنا سب سے اعلیٰ بات ہے (یوحنا۱۳: ۱۴)اور(فلپیوں۲: ۵) سے عیاں ہے۔ پھر یہ بات کہ خدا جو ہمارا آسمانی باپ ہے اپنے بچوں کو جو اس سے مانگتے ہیں ساری ضروری بخشیں عنایت کرتا ہے اس خط کے (۴: ۶)اور متی ۷:۷تا۱۱)سے ظاہر ہے۔ اور یہ کہ خدا ہمارا آسمانی باپ خاص کر اپنی پاک روح ان کو دیتا ہے جو مانگتے ہیں (فلپیوں ۱۹:۱)اور (لوقا۱: ۱۳) سے ظاہر ہے اور یہ بات کہ خدا کی پرستش مقبولیت کے لائق صرف اس روح ہی میں کی جا سکتی ہے۔ (فلپیوں ۳:۳)اور (یوحنا ۴: ۲۳۔۲۴)سے ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ بات کہ مسیحی زندگی انسان میں جب پیدا ہوتی ہے کہ خدا اس کو سنبھالے (فلپیوں۳: ۱۲)اور (یوحنا ۶: ۴۴) سے پائی جاتی ہے اور یہ امر کہ باوجود اس کے یہ بات بھی ضرورمفہوم ہے کہ انسان کو بھی اپنی طرف سے نہایت جانفشانی کے ساتھ اس بات کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ اس زندگی کے درخت میں کچھ پھل نہ لگے گا۔ (لوقا ۱۳: ۲۴) اور (فلپیوں ۲: ۱۲۔۱۳اور۳: ۱۳۔۱۴) سے مترشح ہے۔ اور یہ امر کہ ہر عیسائی کا فرض ہے کہ اپنے ایمان کو پھیلائے اس خط کے (۱: ۲۷)اور (متی ۲۸: ۱۹)سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہر مسیحی کو گندی طبیعت کے لوگوں کے ساتھ جن کی تشبیہہ کتوں سے دی گئی ہے راہ و رسم رکھنے سے خبردار رہنا چاہئے۔ یہ بات اس خط کے (۳: ۲)اور (متی ۷: ۶) سے واضح ہے۔ اور یہ امر کہ مسیحی کو اس کا انعام آئندہ یہ ملے گا۔ کہ وہ اپنے خداوند مسیح کو حاصل کرے گا۔ اور اس کے ساتھ رہے گا۔ اس خط کے (۳: ۸اور۱: ۲۳)سے اور اسی کے مقابلے میں (لوقا۲۳: ۳۹)اور(متی ۲۵: ۳۴)سے معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات کہ وہ لوگ جو خدا کے لوگوں میں داخل ہوتے ہیں جن کا ذکر اس خط کے (۴: ۳)اور (لوقا۱۰: ۲۰) میں لکھا ہے ان کو لازم ہے کہ وہ اب اس بات کو اپنے باہمی پیارو محبت کے وسیلے ظاہر کریں۔ اس خط کے (۲:۲)اور (یوحنا ۱۳: ۳۵) سے ثابت ہے اور یہ امر کہ وہ اطمینان جو مسیح کے اندر رہنے سے حاصل ہوتا ہے ان کے دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ (فلپیوں ۴: ۷۔۹)اور( یوحنا ۱۴: ۲۷) آیت سے معلوم ہوتا ہے۔

غرض یہ وہ بڑی بڑی باتیں ہیں کہ جو اس مختصر خط میں انجیلی نوشتوں سے صریح ملتی ہیں اس طرح نہیں کہ وہ نقل کی گئی ہوں بلکہ صرف اس طرح کہ وہ ظاہراً ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اگر کوئی شخص غور کے ساتھ ان باتوں کا پولوس کے اور خطوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ تو اس کو آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ رسول نے ان ہی باتوں کو اور خطوں میں کس قدر پھیلا کر اور بڑھا کر بیان کیا ہے۔

۶۔اس خط کی خاص علامتیں اور مضامین

جو شخص اس خط کو بغور پڑھے گا۔ اس کو اس کی بڑی بڑی علامتیں فوراً ظاہر ہو جائیں گی۔ جو پیغام اس سے ہم کو ملتے ہیںوہ صاف اور ظاہر ہیں۔ اس کے بڑے بڑے نشان ایسے صاف و صریح طور سے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے سمجھنے میں غلطی نہیں ہو سکتی۔

اول نشان تو اس خط کا یہ ہے کہ اس میں کسی امر کے بحث وتکرار نہیں ہے

پولوس کو فلپی کی کلیسیا میں اس بات کی کچھ ضرورت نظر نہیں آئی جیسی کہ گلیتوں اور کرنتھیوں کی کلیسیاﺅں میں تھی کہ اپنے مخالف دینی معلموں کے مقابلے میں اپنے رسولی اختیار کو قائم رکھنے کی حمایت میں کچھ بحث و مباحثہ کرے فلپی کے مسیحی اپنے اس استاد کی اطاعت اور وفاداری میں بلا انحراف قائم رہے جس نے حیات و آرام جاودانی کی راہ میں ان کی ہدایت کی تھی۔ ان کے دل محبت و احسان مندی کی مضبوط بندشوں سے اس کے ساتھ وابستہ تھے۔ جیسا کہ اس خط کے (۴: ۱۰تا۱۸) سے ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کی ضرورتوں کے وقت اس کی مدد اور خدمت کر کے اپنی پختہ الفت کا اظہار بار بار کیا۔ جس طرح کہ پولوس نے اس خط کے (۱:۱) فلپی کے مسیحیوں کو خطاب کیا ہے اگر اس کا رومیوں اور اول کرنتھیوں اور دوکرنتھیوں اور گلیتوں کے خطوں کے پہلے بابوں کی پہلی آیتوں کے خطابوں سے مقابلہ کیا جائے تومعلوم ہوجائے گا کہ پولوس نے اسی لئے اس بات کو مناسب نہ سمجھا کہ ان کی طرف مخاطب ہو کر اپنے آپ کو ان کارسول بیان کرے بلکہ ان کو اس طرح خط لکھا ہے کہ جس طرح ایک دوست اپنے دوستوں سے باتیں کرتا ہے اور اپنے دل سے ان کے دلوں کو چھوتا ہے۔

اس کے علاوہ فلپی کے عیسائیوں کی جماعت میں تعلیم و مسائل کی کوئی سخت غلطی برپا نہیں ہوئی تھی جس سے ان کی طبیعتیں الجھتیں اور رسول کو بھی خدشہ پیدا ہوتا۔ وہ اسی ایمان پر پختہ طرح سے قائم تھے جو کہ ہمیشہ کے لئے مقدسوں کو ایک بار سونپا جا چکا ہے۔ اس بات میں یہ خط کلیسوں کے خط سے جو روما کے اسی قید خانے میں سے لکھا گیا تھا اور اسی طرح ان خطوں سے جو رومیوں اور گلیتوں اور کرنتھیوں کے پاس ان سے پہلے بھیجے گئے تھے ایک علیحدہ طرح کا خط ہے۔ یہ بات تو ہے کہ پولوس نے اس خط کے دوسرے باب میں ایک طرف تو یہودی بننے سے خوب متنبہہ کیا ہے اور دوسری طرف ائنٹی نومئن فرقے کے مسائل سے انہیں خبردار کیا ہے۔ تا ہم ہمارے پاس اس بات کے یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان دونوں غلطیوں میں سے کوئی بھی خاص طرح سے ان کے درمیان پھیل رہی تھی شاید یہ بات ہو کہ چونکہ رسول کے دل میں ایسی باتوں کی طرف سے سچا اندیشہ رہا کرتا تھا۔ اس لئے جب اس نے دیکھا کہ ان مضرباتوں کا گھاس پھوس فلپی کی کلیسیا میں پیدا ہونے لگا ہے تو فوراً اس کے اکھاڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ غالباً اس نے ان کو اس امر میں نصیحت کے کلمے لکھنا اس وجہ سے مناسب سمجھا کہ اس نے ان کے درمیان تو نہیں بلکہ کہیں باہر اورکلیسیاﺅں میں ایسی غلطیاں دیکھی تھیں ممکن ہے کہ جیسا (فلپیوں ۱: ۱۵اور۱۷) اور (رومیوں۶: ۱اور۲) سے پایا جاتا ہے۔ رسول کے ارد گرد خود روما میں یہ حال تھا۔ پولوس کے ان پیارے شاگردوں کو غلطی کے لے کسی سخت لعن طعن کی ضرورت نہ تھی۔ رسول نے جو اطمینان و خوشی و صلح کا پیغام فلپی کے مسیحیوں کو بھیجا ہے اس کو کسی تکرارو بحث مباحثے کے طوفان سے آسیب نہیں پہنچا ہے۔

دوسرا نشان یہ ہے کہ اس خط میں پولوس کی طرف سے اس کی ذاتی محبت کے اظہار بہ کثرت ہیں۔

(۱: ۳) سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بڑا رسول اپنے فلپی کے دوستوں کا ایمان دیکھ کر بڑا ہی شکر گزار تھا۔چوتھی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے ہمیشہ بڑی خوشی کے ساتھ دعا مانگتا رہتا تھا۔ پھر آٹھویں آیت سے دریافت ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ان سب کے لئے مسیح یسوع کی سی الفت کے ساتھ مفارقت کے باعث سے بڑے جوش کے ساتھ ولولے اٹھا کرتے تھے اور اسی(۱: ۲۳اور۲۶) تک یہ بیان ہے کہ اگرچہ رسول اپنی ذاتی خواہش سے تو یہ مانگتا تھا کہ اس دنیا سے رخصت ہو جائے اور مسیح کے پاس چلا جائے جو بہت زیادہ بہتر بات ہے تا ہم ان کی خاطر وہ اس للچانے والی امید سے دست بردار ہو کر آزمائش اور مصیبت کی حالتوں میں رہنے کے لئے اس وجہ سے خوشی کے ساتھ تیار ہے کہ ان کی خدمت کچھ اور کر سکے۔ (۲: ۱۷) سے ظاہر ہے۔ کہ اگر ضرورت پیش آتی تو رسول ان کے لئے اپنی جان بھی دے دینے کے لئے بڑی خوشی کے ساتھ تیار تھا۔ پھر اسی (۲: ۲۵سے۳۰) تک رسول یہ فرماتا ہے۔ کہ مجھے اس قدر محبت اور دل کے ساتھ ان کا خیال رہتا ہے کہ میں خوشی سے گوارا کروں گا کہ اپنے ایک حقیقی آرام کو ترک کر کے اپفرودتیس کو ان کے پاس واپس جانے دوں۔ اور اسی (۲: ۱۹سے۳۰) تک رسول یہ لکھتا ہے کہ وہ مسیح میںاپنے عزیر بیٹے تیمتھیس کو بھی ان کے پاس بھیج دینے کو تیار رہے پھر (۴: ۱۰سے۱۸) تک رسول کہتا ہے۔ کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم کو معلوم ہو جائے۔ کہ تمہارے محبت آمیز خیال اور بخششوں سے مجھے خوشی کی کس قدر دولت حاصل ہوئی ہے ان کی یہ بخشش اس قدر خوشبو دار تھیں کہ جس قدر نہایت میٹھی خوشبوئیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان سے ان کی سچی محبت کی مہکیں نکلتی تھیں۔

غرض کہ یہ سارا خط ایک اعلیٰ دل کی پاک محبت کے عجیب اور از خود جوش سے پھررہا ہے۔

تیسرا نشان اس خط کا یہ ہے کہ وہ مسیحی یگانگت کے لئے ایک چوپانی ہدایت نامہ ہے۔

فلپی کی کلیسیا کی بڑی خوبصورت حالت پر ایک داغ پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ کیونکہ ان کے درمیان ایک کڑوی جڑ ہری ہوتی جا تی تھی۔ جس سے بہتوں کے بگڑ جانے کا واقعی خطرہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کی جماعت میں جھگڑالو طبیعت پیدا ہوتی جاتی تھی۔ اور غالباً اس کا باعث یہ تھا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان ذاتی نفاق پڑ گئے تھے۔ (۴: ۲) سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ خصوصاً دو عورتیں جن کا نام بوآوڈیا اور سنٹخی تھا ان برے جھگڑوں میں سر غنہ تھیں۔ یہ بیماری ابھی ایک بہت بڑھ نہ گئی تھی کہ رسول نے اس کو کھودینے کی دلی امید سے جھٹ اپنی انگلی سے ٹھیک اسی مقام کو جا چھوا جہاں مواد پک رہا تھا۔ اور ناسور پڑ جانے کا ڈر تھا۔ وہ اس کے خطرے کو بڑی حکمت ودانائی سے بتاتا ہے اور اپنی ہمدردی کی طبیعت کی تمام نرمی کے ساتھ ان کی منت و سماجت کرتا ہے کہ نفاق اور جھگڑوں سے باز آﺅ۔ اور نہایت گہرے درجے کا مسیحی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرو (۱: ۱۔۴۔۷۔۸) میں رسول کہتا ہے کہ میں تو اپنی طرف سے تم سب کے ساتھ محبت رکھتا ہوں اور ستائیسویں آیت میں ان سے فرماتا ہے۔ کہ تم بھی اپنی طرف سے ایک روح میں مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔ اور سب مل کر انجیلی ایمان کے لئے جانفشانی کرو۔ پھر (۲: ۱سے۴) تک رسول ان سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے کو خوش کرنا چاہتے ہو۔ تو ہر طرح کے تفرقے اور جھوٹے فخر کو اپنے درمیان میں سے دور دفع کر کے روح القدس کی یگانگت میں باہم ایک دل ہو جاﺅ۔ پھر پانچویں سے آٹھویں آیت تک وہ انہیں نصیحت کرتا ہے۔ کہ ساری باتون میں مسیح کا مزاج۔ اور خود انکاری اور خود انکساری اور حقیقی فروتنی کی طبیعت پیدا کرو۔ اس کے بعد چودہویں اور پندرہویں آیتوں میں وہ ان سے درخواست کرتا ہے۔ کہ تمام شکایتیں اور تکراریں چھوڑ کر دنیا میں خدا کے نورانی ستاروں کی طرح ایسی روشنی کے ساتھ چمکو۔ جس میں دھندلا پن یا کچھ شک وشبہ پایا نہ جائے۔ پھر (۲: ۳،۴) میں یہ صلاح دیتا ہے کہ جن عورتوں کے باعث سے جھگڑا پیدا ہوا تھا۔ وہ آپس میں میل وملاپ کر لیں۔ اورپانچویں آیت میں یہ نصیحت کرتا ہے کہ جہاں پہلے اپنے اپنے خیال کی پچ میں مخالفت ہوتی تھی اب خود غرضی کو ہٹا کر اس کی جگہ برداشت کا مزاج اختیار کیا جائے۔ اوراسی (۱: ۴سے۱۳) تک رسول کہتا ہے کہ اس طرح سے کلیسیا کو خدا کی خوشی اور اطمینان اور قوت حاصل ہوجائے گی۔

چوتھی بات اس خط میں یہ ہے کہ وہ خاص خاص لفطوں اور خیالوں کے جواہرات سے مرصع ہو رہا ہے۔

اس خط کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے اندر بعض الفاظ ایسے پر معنی ہیں۔ کہ ان کواس خط کے وقفوں کی کنجیاں کہنا بجا ہے۔ اور اس میں بعض بعض بڑے موثر مضامین بھی ہیں۔ ان دونوں باتوں سے اس خط کی صورت و شکل وقرار دی جاسکتی ہے۔ جو حق باتیں کہ ان لفظوں کی کنجیوں سے کھل پڑتی ہیں۔ وہ گویا طلاتی زیور کے اندر ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔ جو پڑے جھلک رہے ہیں۔ ان کی خوبصورتی سے سارے خط کی رونق دو چند ہو جاتی ہے۔ ان سے طالب علم کے خیال ایسی ایسی طرف دوڑتے اور ان سے کام لینے کے ایسے ایسے طریق اسے سوجھتے ہیں۔ کہ ان سے اس کو کمال درجے کا فائدہ پہنچتا ہے۔ اس بارے میں آٹھواں عنوان نمونے کی طرح پڑھنے کے لائق ہے۔

(الف)یہ خط مسیح کے نام سے بھرا پڑا ہے۔

اس میں لفظ مسیح ۷۳ دفعہ آیا ہے۔ ہر باب میں یہ لفظ صاف صاف اور نمایاں مقام پر نصب ہے بشپ لائٹ فٹ کا یہ خیال درست ہے کہ اس خط کے پڑھنے سے ہمارا دل علم الٰہی اور کلیسیائی مخمصول سے ہٹ کر انجیل کی عین جگری اور مرکزی بات یعنی مسیح کی زندگی کی طرف اور جو زندگی کہ مسیح میں گزاری جاتی ہے۔ اس کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ اس میں جو مسیح کا حال درج ہے۔ وہ بذات خود ایک مطالعہ کے لائق امر ہے۔ اور جو شخص غور کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے گا۔ اس کو اس سے بڑا بھاری فائدہ ہو گا۔

اس مطالعہ کی مدد سےمسیح کے متعلق بہت سی باتیں ہم کو روشن معلوم ہونے لگتی ہیں۔

مثلاً مسیح کے ساتھ ہمارا تعلق

خواہ ہم اس کے خادم ہوں خواہ اس کے مقدس لوگ خواہ اس کے لئے قیدی خواہ اس کے ایمان کااقرار کرنے والے ہوں۔

پھر یہ کہ مسیح میں ہونے سے ہم کو کن کن چیزوں پر قبضہ مل جاتا ہے۔

فضل۔ صلح۔ آرام۔ خوشی۔ عرفان۔ راستبازی۔ مضبوطی روحانی دولت اور روح کی بخشش پر۔

پھر یہ کہ مسیح کے سامنے ہم کن کن باتوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔

پھل لانے کے لئے۔ اس کی منادی کرنے کے لئے۔ اس کی عظمت بڑھانے کے لئے۔ اس کی سی زندگی گزارنے کے لئے۔ اس کی خاطر دکھ اٹھانے کے لئے۔ اس کی سی طبیعت دکھانے کے لئے۔ اس کا کام کرنے کے لئے۔ اس کی صلیب اٹھانے کےلئے اور اس کے ظہور کے منتظر رہنے کے لئے۔ غرض مسیح کے بارے میں یہ اور اور بہت سے حق امر ہیں کہ اس خط کو بغور پڑھنے سے ہم پر خوب طرح واضح ہو جائیں گے اور اس مطالعہ کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ہماری روش اور دنیاوی جنگ میں ہم کو اس سے کس قدر مضبوطی ہو گئی ہے اور ہمارے دل کا یہ پختہ ارادہ ہو گیا ہے۔ کہ اس خط کی طرح ہم بھی بالکل مسیح کے بن جائیں اور اسی سے معمور ہو جائیں گویا کہ مسیح ہمارے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرایت کرے۔

(ب)یہ ایک ایسا خط ہے۔ جو خوشی سے مالا مال ہے۔

خوش ہونے کے لئے اس خط میں بار بار تاکید ہو گئی ہے۔ اس ایک مختصر سے خط میں خوشی یا خوش ہونے کا لفظ سولہ دفعہ آیا ہے۔ (۴: ۱)میں ایک دفعہ اٹھارہویں میں دو دفعہ۔ پچیسویں میں ایک دفعہ۔ دوسرے باب کی دوسری آیت میں ایک بار۔ سترہویں آیت میں دو بار۔ اٹھارہویں میں دو بار۔ اٹھائیسویں میں ایک بار۔ اور انتیسویں میں ایک بار۔ تیسرے باب کی پہلی آیت میں ایک دفعہ۔ پھر چوتھے باب کی پہلی آیت میں ایک بار اور چوتھی میں دو بار اور دسویں میں ایک بار۔ ہر ایک باب میں یہ لفظ ہم کو نظر آتا ہے۔ اس خط میں ہم جہاں کہیں پر پھر کے دیکھتے ہیں۔ یہی لفظ ہمارے سامنے آتا ہے۔ غرض کہ پولوس رسول نے جو پیغام اپنے نومرید فلپیوں کے پاس بھیجا ہے۔ اس میں اس کا یہ کلام کہ تم خداوند میں خوشی کرو۔ بار بار آتا ہے۔ اور روح القدس کا پیغام ہم سب کے لئے بھی یہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پولوس کے قید خانے میں سے ایسا ایک خوشی کا پیغام آنا در حقیقت بڑی عجیب بات ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ مصیبت اور خطرے کا بادل چاروں طرف سے اس کے اوپر جھوم رہا تھا۔ لیکن کسی شخص کا یہ کیا خوب کلام ہے کہ خدا کے پرندے اندھیرے پنجروںمیں بھی بیٹھے ہوئے خوش الحانی سے گایا کرتے ہیں۔ یہی بات اس موقعہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ کلام الہام میں جو شاید سب سے زیادہ شریں خوشی کا گیت ہے وہ رومہ کے قید خانے میں سے نکلا ہے۔ ہم سب بھی اس خط سے یہ سبق سیکھیں کہ ہمارے دل اس خوشی سے جو پاک اور در حقیقت الٰہی خوشی ہے ہمیشہ لبریز رہیں۔

(ج )اس خط کا

ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ پاک دلی کے کلام سے پھر رہا ہے۔ اس معنی کے لفظ اس خط میں کل دس دفعہ آئے ہیں۔ (۱: ۷اور۲: ۲۔۳اور۵ اور۳: ۱۵)میں دو بار اور انیسویں میں ایک بار۔ اور (۴: ۲) میں ایک بار۔ اور دسویں میں دو بار۔ اور (۳: ۱۶) میں جو لفظ ہے اس کو ہم سب سے معتبر قلمی نسخوں کے مطابق حساب سے خارج کردیتے ہیں۔ جو لفظ اس خیال کے لئے اصل یونانی میں کام میں آیا ہے۔ اس کے معنی میں دل اور مرضی اور عقل اور خیال ان سب کے عمل داخل ہیں۔ پس رسول کی نیت فلپی کے عیسائیوں کے لئے یہ تھی کہ وہ اپنے دل اور عقل اور مرضی سب کی توجہ پاکیزہ طرح سے اکٹھی کر کے اس ایک بات کی طرف لگائیں کہ ان کے خدا اور منجی کا جلال ترقی پائے۔ اس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ مسیح کا سا مزاج یا دل یا طبیعت ان کے دلوں میں پوری پوری طرح پیدا ہو جائے۔ کیونکہ اگر اس معنی میں ان کے مزاج یا دل درست ہوجائیں گے۔ تو ان کی زندگی بھی ضرور درست ہو جائے گی۔ (۳: ۱۹) میں لکھا ہے کہ اور لوگ ہیں۔ جن کا دل دنیاوی چیزوں پر لگا ہوا ہے۔ پس وہ ایسا کریں تو کریں۔ مگر لازم ہے کہ ہر وفادار مسیحی اپنی ساری قوت سے جو خدا کی روح پاک اس کے اندر ڈالتی ہے۔ اپنے دل اور عقل اور مرضی کو مسیح اور اس کی پاکیزگی پر لگائے۔

(د)چوتھا نشان اس خط کا یہ ہے کہ شراکت یا رفاقت کا لفظ بھی اس میں بڑی کثرت سے آیا ہے۔

جب ہم اس خط پر اول اول نظر کرتے ہیں۔ تو حیران ہو جاتے ہیں۔ کہ جس یونانی حرف ربط کے معنی ہیں ساتھ اور جس کا مطلب ہوا کرتا ہے۔ قریب کی رفاقت یا شراکت اور نہایت گہری طرح کی صحبت یا قربت وہ استعارے کے لفظوں کے ساتھ مرکب ہو کر اس خط میں بڑی کثرت سے کام میں آیا ہے ان مرکب مشترک لفظوں کے پڑھنے ہی سے تفرقوں اور پھوٹ کی طبیعت مٹ جانی چاہئے۔ جب ہم ان لفظوں کے معنی پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ کہ جن تعلقات کے رشتوں سے وہ سب جو ہمارے خداوند یسوع مسیح سے صدق دلی کے ساتھ محبت رکھتے ہیں باہم پیوستہ ہیں۔ وہ سب رشتے یا بند کیسے قریب کے اور کیسے سچے بند ہیں۔ان مرکب لفظوں کی فہرست جن کے معنے میں شراکت یا رفاقت کا خیال شامل ہے۔ ذیل میں درج ہے۔

  1. (۷: ۱اور۴: ۱۴) آیتوں میں کسی کام کے کرنے میں ساتھ ہو کر شریک ہونے کا مرکب لفظ اور خیال کام میں آیا ہے۔ پہلے مقام میں تو باہم مسیح کے فضل میں شریک ہونے کا کام ہے اور دوسرے میں باہم ہو کر مسیح کے لئے مصیبتوں میں شریک ہونے کا لفظ ہے۔
  2. پھر (۱: ۲۷اور۴: ۳) میں ایک ساتھ ہو کر لڑنے کا مرکب لفظ آیا ہے۔ یعنی اکٹھے ہو کر مسیح کے لئے لڑنا یا جدوجہد کرنا۔
  3. پھر (۲:۲) میں متفق ہو کر روح میں شریک ہونے کا مرکب لفظ اور خیال واقع ہوا ہے۔ یعنی کہ دل اور روح دونوں کے اعتبار سے مسیح میں باہم ایک یا متحد ہو جانے کا خیال۔
  4. (۲: ۱۷اور۱۸) میں خوشی کرنے میں شریک ہونے کا خیال درج ہے۔ کیونکہ پولوس یہاں فلپیوں کو لکھتا ہے کہ تم بھی میرے ساتھ شریک ہو کر خوشی کرو۔
  5. پھر (۲: ۲۵اور۴: ۳) میں باہم شریک ہو کر کام کرنے والوں کا لفظ ہے۔ کیونکہ ان مقاموں پر رسول یہ خیال ظاہر کرتا ہے۔ کہ فلاں فلاں شخص مسیح کا کام کرنے میں میرے ساتھ شریک ہیں۔
  6. (۲: ۲۵) میں سپاہگری کے کام میں شریک ہونے کا خیال ہے۔ وہاں رسول یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص مسیح کے لئے لڑائی لڑنے میں میرے ساتھ شریک ہے۔
  7. (۴: ۳) میں ایک لفظ ہے۔ جو یہ خیال ادا کرتا ہے کہ بعض شخص کسی کام کے اندر مدد دینے میں شریک تھے۔ یعنی مسیح کے لئے بوجھ اٹھانے میں باہم متفق تھے۔
  8. اسی آیت میں ایک اور لفظ جو اٹھانے میں متفق ہونے کا خیال ظاہر کرتا ہے۔ یعنی مسیح کے لئے جوئے کو اپنے کندھے پر رکھنے میں شریک ہونے کا خیال۔

غرض کہ اس خط کا ہر باب مقدسوں کی رفاقت کی نورانی تعلیم سے مجلی ہے۔ اور اس تعلیم کے بیان کرنے والے مرکب لفظ اس خط میں ایسی افراط ہے! جو انجیل جیسی بیش قیمت چیز کو اپنی تحویل میں بڑی حفاظت اور خبرداری کے ساتھ رکھتی اور اس کے علاوہ مسیحی یگانگت کے شاندار لباس سے بھی آراستہ ہے اس خط کے مضامین کی جو تقسیم وتفصیل ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ وہ ہماری رائے میں بہت آسان بھی ہے اور مفید بھی ہے۔

اول۔ دعا اور پولوس کی ذات خاص کے متعلق باتیں

تمہیدی سلام۔ (۱: ۱، ۲)

شکرانہ اور دعا۔

(۱: ۳سے۱۱) تک۔ ذاتی باتیں یا نج کی باتیں۔ مقدس پولوس کی بیڑیاں۔ اس کا کام اس کے مخالف اس کی کش مکش۔ اس کا یقین(۱: ۱۲سے۱۶)تک۔

دوم۔ نصیحت کی باتیں۔ اور پولوس کی ذات سے متعلق بعض باتیں

  1. چال وچلن کی درستی اور ہمواری کی بابت اور دلیری کے بارے میں نصیحتیں (۱: ۲۷سے۳۰) تک۔
  2. اپنی اپنی ذاتی غرضوں کو چھوڑ کر دوسروں کے فائدوں کو ڈھونڈنے کے بارے میں اور یگانگت کی بابت نصیحیتں(۲: ۱سے۴)تک۔
  3. مسیح کی فروتنی کا نمونہ (۲: ۵سے۱۱)تک۔
  4. فرمانبرداری۔ اور پاکیزگی کی نصیحتیں (۲: ۱۲سے۱۶) تک۔
  5. پنج کی باتیں۔ اپنی تجویزوں کابیان۔ تیمتھیس اور اپفرودتیس کے بھیجے جانے کے مقصد(۲: ۱۷سے۳۰ ) تک۔

سوم۔ صلاحیں

  1. یہودی مذہب کی طرف جانے سے خبردار کرنا(۳: ۱سے۱۴)تک۔
  2. ائن ٹی نو مئن فرقے کے عقیدے سے خبردار کرنا(۳: ۱۵سے۲۱)تک۔

چہارم۔ نصیحتیں اور نج کی باتیں۔

  1. یگانگت اور خوشی اور برداشت اور دعا وغیرہ کے بارے میں نصیحتیں (۴: ۱سے۹)تک۔
  2. نج کی باتیں۔ پولوس کا شکرانہ ان کی بخششوں کے لئے۔ اس کا ہر حالت میں خوش رہنا(۴: ۱۰سے۲۰) تک۔
  3. آخری سلام۔ (۴: ۲۱سے۲۳) تک۔

۷۔ہندوستان کی کلیسیا کے لئے اس خط میں کون کون سے سبق یا نصیحیتں نکل سکتی ہیں۔

فلپی کے نومریدوں کی حالتیں آج کل کے ہندوستانی مسیحیوں کی حالتوں سے بہت سی باتوں میں ملتی ہیں۔ وہ بھی بت پرستوں میں سے زندہ خدا کے لوگ بن جاتے کے لئے چنے گئے تھے۔ ان کے چاروں طرف بھی وہ لوگ رہتے تھے جو آسمانی مالک و خالق خدا کو نہیں مانتے تھے۔ بلکہ بت پرستی کی تاریکی میں قائم رہنا پسند کرتے تھے۔ یونانی اور رومی مذہب بھی اپنی اپنی قدامت کے باعث ہے بڑی تعظیم و عزت کے لائق مانے جاتے تھے۔ اور جو مذہب آج کل ہند میں پھیل رہے ہیں۔ ان سے بہت سی باتوں میں مشابہ بلکہ یکساں تھے۔ ان کے حکما کے مسٔلے بھی بڑے گہرے اور عقل کو دنگ کرنے والے تھے۔ ان کی قدیم اور عالمانہ زبانوں میں بھی جو جو کتابیں موجود تھیں۔ وہ بڑی عمدہ اور کثرت سے تھیں۔ وہاں سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنی بیہودہ مذہبی رسموں اور بتوں کی پرستش سے شرم کھانے لگ گئے تھے۔ وہاں بھی ہر جگہ ایسا وقت آ گیا تھا کہ لوگوں کے خیال بدلنے لگے تھے۔ان باتوں سے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ جو حالت ہند کی آج کل ہے وہ بھی ایسی ہی ہے۔ اس لئے ظاہر حال یہ امید کی جا سکتی ہے کہ فلپیوں کے خط کی تعلیم جو ایک ایسی ہی حالت کی نئی کلیسیا کے لئے تھی۔ ہند کے مسیحیوں کی حاجت کے لئے خصوصاً لائق ہو گی۔ اور ہم جو اس وقت اس خط کی تعلیم کی چھان بین اسی نظرسے کر رہے ہیں امید رکھتے ہیں۔ کہ ہمارا یہ مطلب رائےگانہ جائے گا۔ پس ہم یہ دریافت کریں کہ پولوس نے جو یہ چوپانی خط دلی شوق کے ساتھ ایک ایسی جماعت کے نام بھیجا تھا۔ جس کی حالت اور چوگردہ کی کیفیت ہمارے ہند کے مسیحیوں سے اس قدر ملتی جلتی ہے۔ اس سے ہم کو کون کون سے بڑے سبق سیکھنے چاہئیں مسیح کی بادشاہت پھیلانے اور قائم کرنے کے لئے سرگرمی کرنے میں ہم کو اس سے ایک سبق ملتا ہے۔ کیونکہ فلپیوں کے خط کا ایک نشان تو یہ ہے کہ مسیحی بادشاہت کی ترقی کے لئے اس میں بڑی سرگرمی پائی جاتی ہے۔ انجیل پھیلانے کا جوش اس کے ہر صفحے پر گویا جلی قلم کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ جس شخص کے قلم نے یہ عبارت لکھی ہے وہ ایک ایسا شخص گزرا ہے جس نے اپنی ساری زندگی اور اس کی تمام قوتیں غیر قوموں کی نجات کے کام کو ترقی دینے کے لئے وقف کر دی تھیں۔ اور جو کلمہ کہ تہ دل سے اس کے ورد زبان تھا۔ اور اس کے ہر خط کے عین درمیان میں بڑے موٹے موٹے اور نمایاں حرفوں میں ابھرا ہوا ہے وہ یہ ہے

کہ میں تو ایک کام کے سر ہوں۔

اس کا یہ حال تھا کہ قید خانے میں تو پڑا ہے مگر مسیح کی منادی کئے جاتا ہے۔ جو سپاہی اس کے محافظ ہوتے تھے اور جن زنجیروں سے کہ وہ خود بندھا ہوتا تھا۔ وہی زنجیریں اس کے محافظوں کو بندھی رہتی تھیں۔ کہ وہ کہیںچھٹ کر کہیں بھاگ نہ جائے۔ ان سپاہیوں کو بھی وہ انجیل سنایا کرتا تھا۔ اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ مسیح کی پہچان کی عمدہ خوشبو جیسا کہ (۱: ۱۲۔۱۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ قیصر کے اردلی سپاہیوں کی ساری بارکوں میں پھیل گئی۔ پولوس کو ہم ایک ایسا مشنری پاتے ہیں کہ جو اپنے بڑی محنت کے کاموں سے اپنے آپ کو آرام نہیں دیتا تھا۔ وہ مسیح کا ایک ایسا سپاہی تھا کہ کبھی اپنا جھنڈا یا وردی لوگوں کے سامنے دکھانے سے باز نہ رہتا تھا۔ اس کے مسیحی جوش کو دیکھ کر اوروں میں بھی جوش پیدا ہو جاتا تھا اس کے نمونے سے روما کے مسیحی بھی بڑے دلیر ہو گئے۔ اور جیسا (۱: ۱۴) سے معلوم ہوتا ہے۔ اپنے خداوند کی گواہی بڑی بہادری سے دینے لگے۔ اور جیسا اسی (۱: ۱۲) سے پایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجیل کی بڑی ترقی ہو گئی اور جب کبھی اور جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہو گی کہ خدا کے لوگوں میں انجیل کے پھیلانے کے لئے سرگرمی کی روح جوش مارے گی۔ تو اس سے یہی نتیجہ ہو گا۔ مگر رسول روما کے لوگوں کی یہ سرگرمی دیکھ کر چپکا نہ بیٹھا۔ اس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ ساری کلیسیاﺅں میں اسی طرح کی ترقی ہو۔ اس کو فلپی کے نومریدوں سے اس درجے کی محبت تھی کہ وہ ان میں یہ بات دیکھ کر کبھی خوش نہ ہوتا کہ وہ اپنے روحانی فائدوں کے حاصل کر کے آرام سے اپنے ٹھکانے بیٹھ گئے ہیں۔ مگر ان کو اس امر کا کچھ فکر نہیں ہے کہ جو لوگ ان کے آس پاس رہتے ہیں۔ ان کی روحوں کے بچانے میں بھی کوشش کریں اس نے ان کے دلوں میں شروع ہی سے مسیح کی انجیل پھیلانے کے لئے سرگرمی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا نمونہ اور نصیحت بے فائدہ نہ گئی۔ کیونکہ انہوں نے شروع ہی سے انجیل کے کام میں اس کی مدد کی تھی۔ (۴: ۱۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول تھسلنیکیوں اور اور مقاموں میں انجیل سناتا پھرتا تھا۔ تو انہوں نے اپنی دعاﺅں اور نذروں سے اس کی بار بار مدد کی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ انہوں نے اپفرودتیس کو اس کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ ان کے عرض میں انجیل سنانے کا کام دے۔ یہ بات (۲: ۳۰) آیت سے ظاہر ہے۔ اور اسی (۲: ۲۵سے۳۰) تک اور(۴: ۱۰سے۱۸)سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے اپفرودتیس کے ہاتھ اپنی اور نذریں بھی پولوس کے پاس بھیجیں اور اس کو اس لئے اس کے پاس بھیجا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے میں اس کی خدمت کرے (۱: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے بھی زیادہ تر کام کیا۔ کیونکہ ان کا بڑا فخر اور خوشی اس بات میں تھی کہ انہوں نے اپنی ہمدردی اور دعاﺅں اور نذروں اورغالباً اپنی واقعی انجیلی خدمتوں سے اول روز سے لے کر اس روز تک انجیل کے پھیلانے میں رسول کی بڑی مدد کی تھی۔ بڑی خوشی کی بات تھی۔ کہ فلپی کے مسیحیوں میں اپنے بڑے استاد پولوس نے نمونے سے کسی قدر ویسی ہی طبیعت پیدا ہو گئی تھی۔ ان کے دلوں میں آگ تو سلگ گئی تھی۔ اس کو اور بھڑکانے کے لئے پنکھا کرنے کی ضرورت باقی تھی۔ ان کا دل گرما تو گیا تھا۔ مگر پولوس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ اس میں اس قدر گرمی پیدا ہو جائے کہ انجیلی جوش کے مارے دہک جائے اس لئے وہ اس الہامی خط میں روح القدس کی قوت سے اپنے بھڑکانے والے جوش کو ان کے اندر پھونکتا ہے۔ وہ ان کو ابھارتا ہے کہ اور بھی زیادہ بہادری سے مسیحی لڑائی لڑیں اور مسیح کی گواہی دیں۔ کیونکہ وہ روما سلطنت کے ہم شہری باشندے ہونے کی وجہ سے اس امر کے ذمہ وار ہیں کہ غیر قوموں اور جنگلی لوگوں کے درمیان سلطنت روم کی عزت کو تھامے رکھیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ آسمانی بادشاہت کے بھی باشندے ہیں۔ اس لئے ان کا فرض ہے کہ مسیح کی ریاست جمہوری کے لئے بھی بڑی جوانمردی سے لڑیں۔ چنانچہ وہ (۱: ۲۷۔۲۸)میں ان سے یہ کہتا ہے کہ تم ایک دل ہو کر انجیل کے ایمان کے لئے جدوجہد کرو۔ اور اپنے مخالفوں سے کسی بات میں نہ ڈرو۔ (۲: ۱۵۔۱۶)میں رسول ان کو اکساتا ہے کہ وہ اپنی سچی مسیحی چال کی تاثیر اور نمونے سے انجیل کے پھیلانے میں کوشش کریں۔ اور ان کو چاہئے کہ ایسی نورانی زندگی گزاریں کہ ان کے وسیلے سے خدا کے کلام کی روشنی دنیا میں پھیلے اور جن لوگوں سے وہ ملیں جلیں ان کو حیات جاودانی کا کلام قبول کرنے کے لئے پیش کریں۔ اور جیسا کہ (۲: ۳۰) سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ہی کے شخص یعنی اپفرودتیس نے کیا تھا کہ اپنے خداوند کے جلال اور اپنے ہمجنسوں کی نجات کی خاطر اس کے دل میں مقدس کام کی سرگرمی نے یہاں تک جوش مارا کہ وہ اپنی جان پر کھیل گیا۔ اور مرنے کی حالت کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اسی کی ضد وہ بھی کریں۔ غرض ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سارے خط میں انجیل کے پھیلانے کی سرگرم طبیعت جوش مار رہی ہے۔ ایک اور بات اس خط میں یہ دیکھنے میں آتی ہے۔ کہ انجیل سنانے کے متعلق اصطلاحوں اور محاوروں کا ایک پرا ہے۔ کہ ہمارے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس کو ہم ذیل میں بالترتیب بیان کرتے ہیں۔

  1. (۱: ۵) کے یہ الفاظ کہ تم اول روز سے خوشخبری کے پھیلانے میں میرے شریک رہے ہو۔
  2. (۱: ۷اور۱۶) میں یہ لفظ خوشخبری کی ترقی کا باعث اور ثبوت ہیں۔ تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو۔
  3. (۱: ۱۲) میں یہ لفظ کہ خوشخبری کی ترقی کا باعث۔
  4. (۱: ۲۷) کے یہ لفظ کہ انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے۔
  5. (۲: ۱۵) کے یہ لفظ کہ تم دنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے ہو۔
  6. (۲: ۱۶) کے یہ لفظ کہ تم زندگی کا کلام پیش کرتے ہو۔
  7. (۲: ۳۰) کے یہ لفظ کہ مسیح کے کام کی خاطر۔
  8. (۳: ۱۳) کے یہ لفظ بلکہ میں تو صرف یہ کرتا ہوں۔

اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ انجیل کے پھیلانے کے مقدس کام میں جو سرگرمی ہم یہاں دیکھتے ہی۔ ہم بھی ویسی ہی سرگرمی اختیار کریں۔ ہم بھی آسمان کے باشندے ہیں۔ ہم بھی مسیح کی صلیب کے سپاہی ہونے کے لئے بلائے گئے ہیں۔ ایسی کوشش کرو کہ ہند کی کلیسیا ایک انجیل کے پھیلانے والی کلیسیا بن جائے انجیل کی ترقی اس کی اکیلی بڑی غرض ہو۔ اس کی بڑی حرص یہی ہو کہ غیر ایمان کے لوگوں کے سامنے خدا کی حیات جاودانی کا کلام کسی طرح پیش کیا جائے۔اور انجیل کے ایمان کے لئے ایسی سرگرمی کے ساتھ جانفشانی کرے۔ جو کبھی ہلکی نہ پڑ جائے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس کلیسیا میں انجیل کے پھیلانے کا کام اور شوق نہیں ہے وہ کلیسیا ٹھٹھر گئی ہے۔ اس پر موت کا فتویٰ صادر ہو چکا ہے اور مرنے کے قریب ہے۔

دوم بات یہ ہے

کہ ہم کو اس خط سے فروتنی کاسبق بھی سیکھنا چاہئے۔ کیونکہ اس خط سے ہم کو یہ تعلیم ملتی ہے۔ کہ انسانی غرور اور خود نمائی سے بڑے بڑے خطرے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان کا صرف ایک حقیقی علاج ہم کو نظر آتا ہے کہ ہم ایمان کے وسیلے وہی طبیعت اختیار کر لیں۔جو یسوع مسیح میں تھی۔ پولوس رسول خود جو ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے وہ آپ اس بات کو اپنے نمونے سے ہمیں سکھاتا ہے۔ یہودی خیال کے موافق پیدائش اور تعلیم کے باعث اس کا مرتبہ لوگوں کے درمیان بڑے اختیار اور بزرگی کا تھا وہ یہ دعوےٰ کر سکتا تھا کہ میں امیر خاندان سے پیدا ہوا ہوں۔ اور میری تعلیم و تربیت دین کے صحیح طریق پر ہوئی ہے۔ اور میری حالت ہر طرح سے بے عیب ہے۔ اس کے ثبوت میں (۳: ۴سے۸) تک غور کرو۔ تا ہم پولوس نے ان سارے خاندانی اور قومی نغموں کو جو اور آدمی بڑے فخر کی بات گنتے اس نے مسیح کی خاطر نقصان سمجھا اس کے نزدیک تو بہر حال ذات کا خیال ایک صرف دنیاوی بات تھی پہلے تو وہ اس بات کو کچھ ہی سمجھتا تھا مگر اب تو اس کا خیال اس کی بابت یہی تھا۔ کہ وہ ایک نفسانی بات ہے اور مسیحیت کے بالکل خلاف ہے۔ جب سے اس نے اپنے آپ کومسیح کے حوالے کر دیا تھا۔ اور اس کا غلام بن گیا تھا۔ اس وقت سے اس نے ان خیالات کو اپنے دل میں سے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیا تھا۔ اور جیسا کہ اس نے (۳:۳) میں کہا ہے۔ وہ اب خدا کی روح کی ہدایت سے عبادت کرتا۔ اور مسیح یسوع پر فخر کرتا تھا۔ اور جسم پر بھروسہ نہیں کرتا ہے۔ اس نے پیدائشی اور خاندانی غرور کو جس کے لئے کسی حب الوطن یہودی سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہ ہو گا اور ذات اور مذہب کے جوش کو جو پہلے اس کے دل میں بڑے زور کے ساتھ تھا۔ اور قومی اور دینی دستوروں پر ہر ایک چھوٹے چھوٹے جزو تک ان لوگوں کی طرح چلتے جو اس بات کا بڑا گھمنڈ کیا کرتے ہیں۔ کہ ہم اپنے مذہب کے بڑے پابند ہیں۔ اور اس کی رسموں کو ذرا ذرا بھی بڑی احتیاط کے ساتھ مانتے ہیں جیسا کہ عبرانی فریسیوں کا قاعدہ تھا اور اپنے دل میں سے ہمیشہ کے لئے اس طرح نکال کر پھینک دیا تھا۔ کہ جیسے کوئی شخص فضلے کو کتوں کے سامنے ڈال دیتا ہے پہلے کی نسبت اب مسیح میں اس کا پیدائشی حق بہت زیادہ تر عمدہ ہو گیا تھا اور اس کا مرتبہ بالا تر۔ اس نے اپنے دل میں یوں سمجھا کہ جب ایک جلالی تاج مجھے مل سکتا ہے۔ تو پھر میں زمین کی خاک کے پیچھے کیوں پڑوں۔ جس حال کہ وہ اب فضل کے وسیلے خدا کا فرزند بن گیا تھا تو پھر آدم کی اولاد کے درمیان قومی بزرگی جیسی ایک خفیف بات کی تلاش کرنے سے کیا حاصل۔ غرض کہ اس نے ان ساری باتوں پر غور کرکے اپنے لئے ایک چیز پسند کر لی تھی۔ اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ کیونکہ اس نے اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان حاصل کرنے کی فوقیت کے سامنے ساری اور چیزوں کو کھو دینا منظور کر لیا تھا۔ اس بات کے پسند کرنے میں جو دانائی اور درستی کہ وہ کام میں لایا۔ اس میں کلام کرنے کی کون جرات کر سکتا ہے۔

غرض جب پولوس نے اپنی قوم اور ذات کے بے فائدہ فخر کو اس طرح ہیچ سمجھ لیا۔ تو پھر وہ صاف دلی سے اوروں کو بھی کہہ سکتا ہے کہ آﺅ تم بھی میری ہی طرح کرو۔ اس لئے وہ (۲: ۳سے۸) تک یہ کہتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ مسیحی مزاج اور دنیاوی مزاج کی باہم ہمیشہ مخالفت ہوتی ہے۔ اگر فلپی کے مسیحی خدا کی مرضی پر چلنا چاہتے تھے۔ تو ان کو ضرور تھا کہ تفرقوں کی طبیعت اور خاص جماعتوں کے رکن ہونے کی شیخی سے کنارہ کریں کیونکہ یہ باتیں خداوند مسیح کی انجیل کے برخلاف ہیں ان کے سامنے پولوس کے نمونے سے بھی ایک بڑھ کر نمونہ موجود ہے۔ پس ان کو لازم ہے کہ جو پرلے درجے کی کسر نفسی خدا کے بیٹے یسوع میں پائی جاتی ہے۔ اسے مد نظر رکھیں اور سوچیں جب تک کہ ان کے دل اس کی تاثیر سے چمک نہ جائیں۔ کیا خداوند یسوع مسیح نے اپنی خودی سے اس وقت انکار نہیں کیا جب کہ انسانی شکل کو اختیار کرتے وقت اپنے ذاتی الٰہی حقوق کو کنارے رکھ دیا۔ اور ان کو اپنے ساتھ اس طرح چمٹا کر نہ رکھا جیسا کہ کوئی شخص ایک نہایت بیش قیمت جواہر حاصل کر کے اپنی مٹھی سے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ کیا اس نے اس سے بھی بڑھ کر‘ ایک اور کام نہیں کیا کہ جب گنہگار انسان کی خاطر اپنے آسمانی جلال اور الٰہی شان و شوکت کو اپنی ذات سے اتار رکھ کر اپنے آپ کو جیسا لکھا ہے خالی کر دیا بلکہ اپنے آپ کو اس سے نیچا کر کے یہاں تک فروتنی اختیار کی کہ غلام کی شکل بن گیا اور یہاں تک فرمانبرداری کی کہ صلیبی موت کو اپنے اوپر گوارا کیا جب ہم یسوع مسیح کے اس اعلیٰ کام کی طرف نظر کرتے ہیںکہ اس نے انسان کے لئے اپنے آپ کو اس طرح قربان کر دیا تو پھر دنیاوی بڑائی کے لئے کسی فخر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس امر کے بارے میں جو تعلیم کہ اس خط میں دی گئی ہے وہ ساف اور قطعی ہے اور اس سے ہمارے دل میں یہ بات تہ نشین ہونی چاہئے کہ ہر طرح کا غرور جو ذات و قوم کے خیال سے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا گیا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے۔ کہ ہند کی کلیسیا میں اب اس سبق کی ضرورت نہیں رہی ہے اور اس سے اور بہت سی خرابیاں بھی ہمیشہ نکلتی رہتی ہیں جو بات بغیر کسی شک و شبہ کے ایسی ہے جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی ہے۔ اس بات کو رہنے دینے کے لئے کوشش کرنا بڑے خطرے اور نقصان کا باعث ہے۔ روحانی نئی پیدائش سے جو حق ہم کو دخل ہو گیا ہے اس کو مستحکم کرنا اور ہر بات کی قدرومنزلت مسیح کی قربانی کے اعتبار سے کرنی ہم کو لازم و مناسب ہے۔ ہم خوب یاد رکھیں کہ رسول نے ہم کو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے اندر وہی مزاج پایا جائے جو یسوع مسیح میں بھی تھا اس مزاج کے اندر نہ انسانی غرور کو جگہ ہے اور نہ ذات پات کی جدائیوں کو کچھ دخل ہے۔ یہ باتیں اس مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم جسمانی اور دنیاوی دستوروں سے بالکل برعکس ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم جسمانی اور دنیاوی دستوروں سے بالکل ہاتھ دھوئیں۔ مسیح کی کلیسیا میں جس قدر انجیل کی مطابقت اور تابعداری پائی جائے گی اور جس قدر کہ اس کے اندر روحانیت کا اثر دور تک پہنچے گا۔ اسی قدر وہ کلیسیا مضبوط اور قوی بنے گی۔ لیکن جب کوئی کلیسیا دنیاوی مزاج پر چلتی ہے۔ تو وہ کمزور اور جسمانی بن جاتی ہے۔

سوم اس خط سے ہم کو فیاضی کا بھی سبق ملتا ہے۔

کیونکہ فلپی کے مسیحی ہونے دینے لینے کے بارے میں ہمارے لئے سخاوت اور فیاضی کا ایک بڑا نمونہ ہیں۔ جیسا کہ مقدونیہ کی اور ساری کلیسیاﺅں نے کیا تھا ویسا ہی انہوں نے بھی خدا کے کام کے لئے اپنے مقدور کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر بھی چندہ دیا۔ یہ بات ہم کو (۲۔کرنتھیوں۸: ۱۔۲۔۳اور۴)سے معلوم ہوتی ہے پھر (فلپیوں ۴: ۱۵،۱۶)سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول پولس کو اس بات کا ثبوت پر ثبوت دیا کہ وہ انجیل کی ترقی کے لئے اپنے نفس کو مارنے کے لئے راضی تھے۔ پھر (۱: ۵اور۴: ۱۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو ایک نیا موقع ملا تو انہوں نے مسیح اور انجیل کے کام کے لئے اپنی مفلسی کی حالت میں بھی چندہ بھیجا اور خوشی کے ساتھ دیا۔ یہ کوئی نئی کلیسیا نہ تھی جس کی پرورش کے لئے غیر ملکوں کی کلیسیائیں چندہ بھیجیں۔ بلکہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی جماعت مضبوط اور طاقتور تھی۔ اس کی نگرانی کے لئے اسقف اور اس کے مددگار ڈیکن انتظام کے موافق مقرر تھے۔ اور اس جماعت کا خرچ اپنی ہی آمدنی سے ہوتا تھا۔ اور وہ کسی اور کلیسیا کے بھروسے پر نہ تھی بلکہ اور مقاموں میں انجیل پھیلانے کے لئے بار بار چندے جمع کر کے روپیہ بھیجا کرتی تھی۔

اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ فلپی کی کلیسیا جو اس بارے میں دل کو ابھارنے والا نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہند کی کلیسیا میں بڑی کمی ہے۔ اگرچہ ہم کو اس بات کے لئے تو خدا کابڑا شکر کرنا چاہئے کہ انجیل کے کام میں اس ملک کے اندر ترقی ہوئی ہےاور لوگ اس بات کو روز بروز زیادہ تر سمجھتے جاتے ہیں کہ اپنی کلیسیای کا خرچ آپ اپنے ذمہ لینا اور اس کو اوروں کی مدسے آزاد کرنا ہمرا فرض ہے۔ تا ہم حقیقت حال پر لحاظ کر کے ہم کو اقرار کرنا واجب ہے کہ ہمارے درمیان یعنی ویسی کلیسیا میں یہ بات اب تک بہت پھیل رہی ہے۔ اگرچہ افسوس کے لائق تو ہے کہ وہ انسانی طاقت پر تکیہ کرنے اور روپیہ دوسروں کی مدد پر بھروسہ رکھنے کی طرف بہت مائل ہے۔ ہم نے اب تک یہ بات نہیں سیکھی ہے کہ فلپیوں کی طرح خدا کے کا کے لئے اپنی طاقت کے موافق کہ اس سے بھی زیادہ تر روپیہ دیں۔ اب بے شک وہ وقت آ گیا ہے۔ کہ جو غلطیاں ہم نے کیں ان کو خدا کے فضل سے ہم اب بھول جائیں اور بدل ڈالیں۔ ہم بہت عرصہ تک بچے رہے۔ اب ہم کو لازم ہے کہ مردوں کی طرح کام کریں۔ اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ ر ضرور ہو تو تم اپنی مفلسی کی حالت ہی میں سے پرانے زمانے کے فلپیوں کی طرح جماعتوں کے خرچ کے لئے اور انجیل کے پھیلانے کے لئے فیاضی کے ساتھ روپیہ خرچ کرو یہ دھبہ اپنے اوپر نہ لگاﺅ کہ یوگنڈا اور اور مقاموں کی نئی نئی کلیسیائیں تو خرچ کے اعتبار سے یورپ کی کلیسیاﺅں سے آزاد ہو گئی ہیں۔ مگر ہند کی کلیسیائیں اب تک اپنا بوجھ اوروں پر ڈالنے سے خوش ہیں۔ ہم خدا پر بھروسہ رکھ کر آگے قدم بڑھائیں۔ ہم اس کام میں اس درجے تک روپیہ خرچ کریں کہ جب تک ہم کو اس کا بوجھ معلوم ہونے لگے۔ ہم کو اس وعدے کی حقیقت معلوم ہو جائے گی جو پولس نے (۴:۱۹) میں فلپی کے فیاض مسیحیوں سے کیا ہے کہ میرا خدا تمہاری ضرورت کو یسوع مسیح کے جلال میں اپنی دولت کے موافق پورا کرے گا۔

چہارم

ہم کو اس خط سے روحانیت کے لئے بھی سبق ملتا ہے۔ کیونکہ پولس رسول کو جو مشکلیں پیش آئیں ان میں سے ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ مبادا کلیسیائیں جو ابھی نئی پیدا ہوئی ہیں سچی مسیحیت کی اس بڑی پہچان کو کہ آسمانی باپ کی پرستش روح اور راستی کے ساتھ ہوا کرتی ہے چھوڑ چھاڑ کر ظاہری عبادت کے فریق میں نہ پھنس جائیں۔ اس ستیاناس کرنے والی خرابی کے موجود ہونے اور بار بار سر اٹھانے کا حال اگر ہم اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو ذرا گلیتوں اور کلیسوں کے خطوں کو غور کے ساتھ پڑھیں۔ رسول اس خرابی سے اچھی طرح واقف تھا اس لئے فوراً تاڑ گیا کہ اگر یہ غلطی اس کلیسیا میں پھیلی تو پھر اس میں سچی مسیحی زندگی باقی نہ رہے گی۔ اس لئے اس نے ہمہ تن اس بات کی کوشش کی کہ وہ نہ صرف بڑھنے نہ پائے بلکہ اس کی جڑ تک وہاں باقی نہ رہے۔ اگرچہ اس گمان کے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلپی کی کلیسیا کے کسی ایسے خطرے میں پڑ جانے کا کوئص اندیشہ تھا۔ تا ہم پولس نے اس خط میں ان کو صاف صاف طرح سے اس بات کے لئے خبردار کر دیا ہے۔ کیونکہ (۲: ۲، ۳) میں جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس بات سے چوکس رہنا۔ اور ان معلموں کو بڑی خبرداری کے ساتھ دیکھتے رہنا جو جسمانی دستوروں پر بڑ ازور دیتے ہیں اور رسموں کے ماننے کے لئے بڑی تاکید کرتے ہیں۔ ہمارا فخر اس میں ہے کہ ہم مسیح کے ہیں اور مسیح ہمارا ہے۔ اور ہم نہ تو جسم کا کچھ بھروسہ کرتے ہیں۔ اور نہ ان ظاہری دستوروں کو مانتے ہیں۔ جن کو بعض شخص اپنا اصل مذہب سمجھتے ہیں۔ رسول نے اس بارے میں یہ باتیں فلپی کے مسیحیوں کو اپنے خط میں تحریر کی ہیں۔ کیونکہ اس کو اپنے ذاتی تجربے سے یہ بات خوب طرح معلوم تھی کہ ظاہری دستور اور رسمیں گو کیسے ہی بھاری اور قدیم اور بڑے کیوں نہ ہوں تا ہم ان کے درمیان اور مسیح خداوند کے ساتھ روح القدس کی مدد سے زندہ لگاﺅ اور رفاقت رکھنے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ (گلیتوں ۵: ۴) میں اس نے یہ کہا ہے کہ میری رائے میں روحانی مذہب کو چھوڑ کر جسمانی دستوروں میں پھنس جانا ایسا ہے کہ جیسا کہ خدا کے فضل سے منہ موڑنا جو ایک بڑا مہلک امر ہے۔ اس لئے پولس کا فرض تھا کہ خدا کے اپنے نومریدوں کو اپنا حق بڑی وفاداری سے ادا کرنے کے لئے اس خطرے سے ان کو خبردار کر دے کہ یہ بڑے چپکے چپکے حملہ کرتا ہے اور روح کو ہلاک کرنے والی شے ہے اصلی مذہب یہ ہے کہ مسیح کو پوری طرح سے جاننا اور اس کی قیامت کی قوت کو معلوم کرنا اور اس کی مصیبتوں میں اس کے ساتھ شریک ہونا اور ان باتوں کے سوا اور جتنی باتیں ہیں وہ نکمی ہیں۔ جیسا پولس نے گلتیہ اور فلپی اور کلسی کی کلیسیاﺅں کو خبر دار کیا تھا۔ اسی طرح ہند کی کلیسیاءکو بھی کرنا ضرور ہے۔ کیونکہ ہند میں بھی ہندﺅں اور محمدیوں کے مذہبوں کی ظاہری رسموں کا بادل ہمارے چاروں طرف چھا رہا ہے۔ مسلمانوں میں تونماز اور روزے اور ضروری فرائض کے ادا کرنے کے ظاہری روزمرہ دستور ہیں۔ جو خدا باپ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کی رفاقت کی جگہ پھیل گئے ہیں اور ہندوﺅں کے مذہب کی یہ کیفیت ہے۔ کہ ظاہری رسموں کے ایک بڑے بھاری سلسلے اور بت پرستی کے سازو سامان نے لوگوں کے بیرونی حواسوں کو فریفتہ کر رکھا ہے۔ ان دونوں مذہبوں کے طریقوں سے جو خوف و خطرے کہ ہند کے مسیحیوں کو ہیں ان سے ہم کو ہرگز غافل رہنا نہ چاہئے۔ ہم کو بھی فلپی کی کلیسیا کی طرح خبردار رہنا ضرور ہے کہ مبادا ان ظاہری نظر سے چھپا نہ دیں۔ ہماری سچی دانائی اسی بات میں ہے کہ اس ملک کے غیر مسیحی مذہبوں کے جو ظاہر داری کے طریق ہیں اور انجیل کی جو اصل روحانی صورت ہے ان دونوں میں خوب طرح تمیز رکھیں۔ پس لازم ہے کہ ہم مسیحی کلیسیا کے لوگ روحانی مذہب کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں۔ اور باہر کی علامتوں سے کنارہ کریں جو صرف آنکھوں کو خوبصورت معلوم دیتی اور غیر مسیحی لوگوں کو ارد گرد کی بت پرست قوموں کی ظاہری رسومات جیسی نظر آتی ہیں۔ غرض پولس رسول نے جو کلام ہم کو دیا ہے۔ کہ ہم اس کو ہمیشہ مد نظر رکھیں اس کو قبول کر کے اس پر عمل کریں اور وہ کلام یہ ہے کہ ہم روح میں خدا کی پرستش کرتے اور یسوع مسیح میں خوشی مناتے اور جسم کا بھروسہ نہیں کرتے۔

پنجم سبق جو اس خط سے ہم کو حاصل ہوتا ہے۔

وہ مسیحی زندگی کی موزونی ہے انسان کی طبیعت کا میلان ہمیشہ سے یہ رہا ہے۔ کہ ایمان کچھ اور عمل کچھ اور۔ ہند میں یہ بات جس قدر دیکھنے میں آتی ہے اس قدر اور کسی ملک میں نہ ہو گی۔ یہاں ہندوﺅں میں یہ دستور پشت در پشت چلا آیا ہے۔ کہ جو دینی مسٔلے وہ مانتے ہیں ان سے ان کی زندگی اکثر اوقات مختلف ہوتی ہے۔ ادھرتو ظاہراً صدق دلی کے ساتھ اخلاق کے سکھانے والے شاعروں کی ایسی ایسی نظمیں سناتے ہیں جن میں تب پرستی کی سخت برائی ہوتی ہے۔ ادھر جا کر بتوں کے مندروں میںپوجا کرنے لگتے ہیں۔ یہ انسان کی طبیعت کے ناموزوں ہونے کی ایک عجیب مثال ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی کے عقیدوں کی اصلیت کا کچھ اعتبار نہیں۔

فلپیوں کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی کلیسیا میں بھی اس قسم کی خرابی موجود تھی۔ اس لئے رسول نے اس بارے میں ان کو اپنی صاف اور بے شبہ تحریر سے خبردار کر دیا ہے۔ جیسا کہ (۳: ۱۷سے۱۹) تک ثابت ہوتا ہے کہ فلپی کی کلیسیا میں اور اور کلیسیاﺅں مں بھی پولس رسول کے زمانے میں ایسے شخص تھے اور ان کا شمار کچھ تھوڑا نہ تھا جو مسیحی ایمان کا اقرار تو زبان سے کرتے تھے۔ مگر جس طرح کی زندگی وہ گزارتے تھے۔ اس سے وہ مسیح کا انکار کرتے تھے۔ پولس جب ایسے شخصوں کا حال لکھتا ہے۔ تو رو رو کے بیان کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ان ے شمار لوگوں کی نسبت جو کھل کھلا بے ایمان ہیں انجیل کے حق میں زیادہ نقصان پہنچانے والے ہیں۔ ایسے لوگ سب سے بڑھ کر اور بلاشبہ مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ ایسے سارے ناپاک مسیحیوں پر ایک بڑی خوفناک سزا آنے والی ہے۔ کیونکہ اس کا انجام ہلاکت ہوگا اگر یہ آئٹی نوئن دھوکے باز پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے تو ان کے لئے بہتر تھا۔

اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ یاد رکھو کہ خدا نے ہم کو اس لئے کلیسیا میں بلایا ہے کہ ہم پاکیزگی کی چال چلیں ہم خبردار ہیں کہ ہمارا ایمان کچھ اور اور عمل کچھ اور نہ ہو۔ حقیقت میںکوئی شے اس سے بڑھ کر مسیحیت کے برخلاف نہیں ہے کہ ہم زبان سے تو مسیحی ایمان کا اقرار کریں اور ہماری زندگی ہو مسیحیت کے غیر۔ اس ملک میں جہاں عقیدے اور عمل کے باہم بڑا اور خطرناک فرق ہے لازم ہے کہ مسیحی کلیسیا سارے ملک کے سامنے خدا کی طرف سے سچے مسیحی مذہب کی اصلیت کی گواہ بنی رہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہماری روشنی سب آدمیوں کے سامنے چمکتی رہے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ جیسا ہمارا اقرار وعقیدہ ہے ویسے ہی ہم ہیں بھی۔ اور جو ہم زبان سے مانتے ہیں اسی پر عمل بھی ہے۔ ہم لوگوں پر یہ بات ثابت کر دیں کہ ہم کو ایک نئی قوت ملی ہے یعنی خدا کی وہ قوت جس سے ہماری زندگیاں پاکیزہ ہو گئی ہیں۔ اور ہمارے ارادوں کے تصور نئے بن گئے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارے خداوند کا جلال ہو گا اور دنیا میں خدا کی تعریف کے باعث ہوں گے۔

۸۔اس خط کے مضامین کا خلاصہ غور کےلئے

اس خط کے پڑھنے والوں سے ہماری درخواست یہ ہے کہ وہ اس خط کو کئی مختلف نظر سے غور کے ساتھ پڑھیں تا کہ جو تعلیم اس میں بھر رہی ہے اس کی خوبی ان کی سمجھ میں آئے۔ اس لئے ان کی مدد کے لئے ہم یہاں اس خط کے مختلف مضمونوں کی ایک فہرست لکھ دیتے ہیں۔ جو شخص اس خط کو بغور مطالعہ کرے گا۔ اس کو ان کے سوا اور بھی بہت سی باتیں خیال میں آئیں گی۔ پہلے مضمون کا خلاصہ تو ہم نے کسی قدر طوالت کے ساتھ لکھا ہے تا کہ اس کے نمونے سے فائدہ حاصل ہو۔ مگر باقیوں کو بہت مختصر طور بیان کیا ہے۔ مگر طالب علم اپنی طرف سے آپ اسی طرح پر بڑھا سکتا ہے۔

الف ایک بڑا مضمون اس خط کا یہ ہے

کہ ہم کو مسیح میں خوش رہنا چاہئے۔

اول باب

خدمت کی خوشی۔ اس بات کے لئے خوش ہونا۔ کہ ہم خدا کے خادم ہیں۔

(۱)دعا میں خوش ہونا۔ پہلی آیت سے گیارہویں آیت تک۔

اس میں یہ بات بڑی غور کے لائق ہے کہ خدمت میں دعا کا درجہ پہلے ہے۔ اس مضمون میں اول تو پہلی دوسری آیتوں میں دعائے خیر ہے۔ پھر دوم تیسری آیت سے گیارہویں تک مناجات ہے۔

(۲)قید خانے میں بھی خوشی کرنا۔

بارہویں آیت سے بیسویں آیت تک۔

اول

بیڑیوں میں ہونے کے باوجود۔ بارہویں آیت سے چودھویں تک۔

دوم

مخالفوں کے باوجود۔ پندرہویں آیت سے اٹھاریں تک۔

سوم

آئندہ کے بارے میں کہ کیا حال ہونے والا ہے۔ شک و شبہ میں رہنے کے باوجود۔ انیسویں اور بیسویں آیتیں۔

(۳)اپنے ارادے میں خوش رہنا۔

اکیسویں آیت تک۔

اول

دل میں خوب طرح سوچ کو پسند کرنا۔ اکیسویں سے چوبیسویں تک۔

دوم

خوشی کے ساتھ بھروسہ رکھنا۔ پچیسویں اور چھبیسویں آیتیں۔

سوم

آسمانی باشندوں کی طرح زندگی گزارنا۔ ستائیسویں آیت سے تیسویں تک آسمانی شہر کے باشندوں کا سا چال چلن اوروں کے ساتھ شریک ہوکر کام کرنا۔ ستائیسویں آیت اور انجیل کی خاطر جدوجہد کرنا۔ اٹھائیسویں آیت سے تیسویں آیت تک۔

دوسراباب

قربانی کی خوشی۔ خدا کی قربانگاہ کی خوشی۔ سب سے زیادہ خوشی نیچے درجے تک گھٹانے میں پیدا ہوتی ہے۔

)۱(اپنے آپ سے انکار کرنے کی خوشی۔

پہلی آیت سے گیارہویں تک برکت حاصل کرنے کے لئے دل کی درست حالت ان خوبیوں سے ہوتی ہے۔

اول محبت کا مزاج اور یک دلی۔

پہلی اور دوسری آیتیں۔

دوم فروتن اور غیر مزاج۔

تیسری آیت۔

سوم اوروں کے حال کا فکر رکھنا۔

چوتھی آیت۔

چہارم مسیح جیسا مزاج رکھنا۔

پانچویں آیت سے لے کر گیارہویں تک اس کا اپنے آپ کو پست کرنا۔ چھٹی آیت سے آٹھویں تک۔ اس نے کس طرح اپنے آپ کو درجہ بدرجہ نیچے کیا۔ اول اس نے اپنے نفس سے انکار کیا۔ چھٹی آیت۔ دوم اس نے اپنے آپے کو خالی کر دیا۔ ساتویں آیت سوم اس نے اپنے آپ کو پست کر دیا۔ آٹھویں آیت۔

اس کا سر بلند ہونا نویں آیت سے گیارہویں آیت تک۔ کس طرح وہ درجہ بدرجہ بلند ہوا۔ اول ۔ اونچے درجے کی بلندی۔ نویں آیت۔ دوم۔ سب سے اعلیٰ عزت۔ نویں آیت۔ سوم ساری چیزوں کا اس کے تابع ہوجانا۔ دسویں اور گیارہویں آیتیں۔

۲پولس کا اپنے آپ کو قربان کرنے میں بھی خوش ہونا۔

بارہویں آیت سے اٹھارہویں آیت تک۔

اول نومریدوں کے لئے اس کا فکر۔

بارہویں آیت سے چودہویں آیت تک۔

دوم نومریدوں کا خیال کر کے اس کا دل میں خوش ہونا۔

پندرہویں اور سولہویں آیتوں میں۔

سوم نومریدوں کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنا۔

سترھویں اور اٹھارہویں آیتوں میں۔

۳ہمدردی میں خوشی کرنا۔

انیسویں آیت سے تیسویں آیت تک۔

پولس کا نومریدوں کے لئے بڑی دلسوزی کے ساتھ فکر مند ہونا۔ اور اپنے دوستوں کے لئے اس کی محبت۔ اور ان کا ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ دو خاص شخص جن کو پولس نے فلپیوں کے پاس انجیل کے کام کے لئے اپنی طرف سے بھیجا۔

اول

تیمتھیس بڑا سرگرم مشنری۔ انیسویں آیت سے چوبیسویں تک۔

اس کے بھیجنے کی تجویز(انیسویں آیت میں) اس کی واقعی ہمدردی ۔ (بیسویں اور اکیسویں آیتوں میں) مشنری کام میں اس کی سرگرمی جو خوب طرح ثابت ہو چکی ہے(بائیسویں آیت سے چوبیسویں تک)۔

دوم

اپفرودتیس۔ پولس کے ساتھ محبت رکھنے والا خادم (پچیسویں آیت میں) اس کی دلسوزی اور بیماری چھبیسویں اور ستائیسویں آیتوں میں) اس کا لائق وفائق ہونا(اٹھائیسویں اور انتیسویں آیتوں میں) اس کی وفاداری کا حال(آیت میں)۔

تیسرا باب روحانی خوشی یعنی وہ خوشی جو خدا کی روح سے پیدا ہوتی ہے۔

(۱)مسیح کی خاطر کل چیزوں کا نقصان گوارا کرنا۔

پہلی آیت سے گیارہویں تک۔

اول ۔ روحانی خوشی (پہلی آیت میں)۔

دوم۔

روحانی مذہب (دوسری آیت سے چوتھی آیت تک)۔

سوم۔

روحانی نفع (پانچویں آیت سے نویں تک)۔

چہارم۔

روحانی امنگ (دسویں اور گیارہویںآیتوں میں)۔

۲انعام کے لئے جد وجہد کرتے ہوئے آگے بڑھتے جانا

(بارہویں آیت سے سولہویں تک)۔

اول ۔

فی الحال کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ (بارہویں آیت تک)۔

دوم۔

دانت پیس کر آگے بڑھتے چلے جانا(تیرہویں اور چودھویں آیتوں میں)۔

پیچھے کی چیزوں کو بھول جانا۔ آگے کی طرف تاکنا۔ آگے کی طرف دوڑے چلے جانا۔

سوم۔

کارگرصلاح (پندرہویں اور سولہویں آیت میں)۔

 

(۳)ہمیشہ خداوند کی انتظاری میں رہنا۔

(سترہویں آیت سے اکیسویں آیت تک)۔

 

اول۔

فلپیوں کو نصیحت کہ پاکیزہ طرح سے زندگی گزاریں (سترہویں آیت سے اکیسویں تک)۔

مسیحی چال (سترہویں آیت میں) غیر مسیحی چال۔ (آٹھارہویں اور انیسویں آیتوں میں)۔

دوم۔

کو امنگ کے ساتھ منتظر رہو(بیسویں اور اکیسویں آیتیں)۔

آسمانی شہریت (بیسویں آیت میں) مسیح کے آنے کا انتظار (بیسویں آیت میں) حالت کا بدل جانا(اکیسویں آیت تک)۔

چوتھا باب دل کو آسودہ کرنے والی خوشی۔

دل کے خدا سے آسودہ ہو جانے کی خوشی۔ اس بات کے تین نشان ہیں۔

اول۔

آرام و اطمینان(چھٹی۔ ساتویں اور نویں آیتوں میں)۔

دوم۔

قوت(تیرہویں آیت میں)۔

سوم۔

بہتات (اٹھارہویں اور انیسویں آیتوں میں)۔

(۱)فرمانبرداری میں خوشی کرنا

(پہلی آیت سے نویں تک) یہ امر غور کے لائق ہے کہ سچے مسیحی کی خوشی ذیل کی سات بھاری نصیحتوں سے وابستہ ہے۔

اول۔

خداوند میں مضبوط رہنا(پہلی آیت)۔

دوم۔

خداوند میں ایک دل رہنا(دوسری آیت)۔

سوم۔

انجیل کے کام میں محنت کرنے میں ان کی مدد کرنا (تیسری آیت)۔

(پھر ان سب کے درمیان خوش ہونے کے لئے نصیحت آئی ہے)۔

چہارم۔

تمہاری حلیمی سب پر ظاہر ہو(پانچویں آیت)۔

پنجم۔

کسی بات کے لئے فکر مند نہ ہو(چھٹی اور ساتویں آیت)۔

ششم۔

ان باتوں کا خیال رکھو۔(آٹھویںآیت)۔

ہفتم۔

وہ باتیں کرو۔ جن کی تعلیم تم نے پائی ہے(نویں آیت)۔

(۲)

بہتات کی حالت میں خوشی کرنا(دسویں آیت سے تئیسویں آیت تک)۔

اول۔

اس کا بھید (دسویں سے تیرہویں آیت تک)۔

دوم۔

اس کا میٹھا مزہ(چودہویں آیت سے اٹھارہویں تک) رفاقت (چودھویں آیت سے سولہویں آیت تک)۔ پھل (سترہویں آیت ) دل کی سیری (اٹھاریں آیت)۔

سوم۔

رفع احتیاج(انیسویں اور بیسویں آیتیں) سلام (اکیسویں سے تئیسویں آیت تک)۔

)ب(اس خط کا ایک اور بڑا مضمون یہ ہے کہ مسیحیوں کی شہریت کہاں کی ہے۔

اول باب۔

کس شہر کے باشندے اور ان کی جنگی خدمت (پانچویں۔ ساتویں۔بارہویں۔سترہویں اور ستائیسویں آیتوں کو پڑھو)۔

اس امر کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے۔ کہ جن لوگوں کو رومہ کی شہریت کا حق حاصل ہوتا تھا۔ وہ لڑائی کے وقت جنگی خدمت کے لئے طلب کئے جا سکتے تھے اور ان کو ضرور ہوتا تھا کہ سلطنت کے بچانے میں مدد دیں۔

دوسرا باب

شہر والے اور شہریت کے اعتبار سے اس کا چال و چلن اس امر کے لئے ان میں یہ وصف ہونے درکار تھے۔

اول۔ ایکا(دوسری آیت)۔

دوم۔ فروتنی(تیسری آیت)۔

سوم۔ اپنے نفس کا خیال نہ کرنا(چوتھی آیت)۔

چہارم۔ قناعت (چودہویں آیت)۔

پنجم۔ بیگناہی (پندرہویں آیت)۔

ششم۔بے عیبی (پندرہویںآیت)۔

ہفتم۔ گواہی (پندرہویں اور سولہویں آیتیں)

ہشتم۔ بشاشی (اٹھارہویں۔ اٹھائیسویں اور انتیسویں آیتیں)۔

تیسرا باب شہر کے باشندے اور ان کے خاص استحاق۔

اس کے متعلق یہ یاد رہے کہ رومہ شہر کے باشندے ہونے کا حق تین طریق سے حاصل ہو سکتا تھا۔ اول تو پیدائش سے جیسا کہ پولس رسول کو حاصل تھا۔ (اس کے ثبوت میں اعمال کے بائیسویں آیت کو دیکھو)۔

دوم۔ خریدنے سے جیسا کہ فلپیوں کو حاصل تھا۔ یہ حق ایسا ہوتا تھا جیسا کہ ہم مسیحیوں کو خدا کے متبنیٰ فرزند بن جانے سے حاصل ہوتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا مناسب ہے کہ رومہ کے باشندوں کو تین بڑے استحقاق ہوا کرتے تھے۔

اول

تو سزا یابی سے بری ہونا جیسا کہ اعمال کے بائیسویں باب کی پچیسویں آیت اور رومیوں کے خط کے آٹھویں باب کی پہلی آیت سے عیاں ہے۔

دوم

قیصر کو اپیل کرنے کا اختیار جیسا کہ اعمال کے پچیسویں باب کی گیارہویں آیت اور اول کرنتھیوں کے چوتھے باب کی تیسری اور چوتھی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے۔

سوم۔

جب قیصر فتح یابی کے بعد بڑی شان و شوکت کے ساتھ رومہ کو واپس آیا تھا اس وقت کی عزت و جلال میں شریک ہونا اس امر کے لئے کلسیوں کے خط کے تیسرے باب کی چوتھی آیت کو دیکھو۔

اب اس باب میں ذیل کی باتوں پر غور کرنا۔

اول۔

رومی عزت کا لباس جو چغہ ہوتا تھا وہ یہاں مسیح کی راستبازی ہے۔ اس کے لئے تیسری اور نویں آیتوں کو دیکھو۔

دوم

قیصر کی فتح یابی کی شان و شوکت کی جگہ یہاں جسم کی قیامت ہے۔ اس کے لئے دسویں۔ گیارہویں اور اکیسویں آیتوں کو دیکھو۔

سوم

جو انعام واکرام رومیوں کو ملا کرتے تھے ان کے عوض میں یہاں وہ انعام ہے جس کا ذکر بارہویں اور چودہویں آیتوں میں آ رہا ہے۔

چوتھا باب شہر کے باشندے اور ان کے خاص فرض۔

اس کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ رومہ شہر کے باشندوں کو بعض بعض محصول دینے ہوا کرتے تھے اور سلطنت کے متعلق جو جنگ ہوا کرتی تھی اس کے واسطے چندہ دینا اور سپاہ میں بھرتی ہو کر لڑائی پر جانا ان کے ذمہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے عوض میں ان کو تقویت دینے اور سنبھالنے کے لئے قیصر کی قوت اور سلطنت کے سارے سامان ان کی پشت پناہ ہوا کرتے تھے۔

ج۔فلپیوں کے خط کا ایک اور بڑا مضمون مسیحی خصلت ہے

چنانچہ پہلے باب میں تو یگانگت کی طبیعت کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں فروتنی کی طبیعت کا بیان۔ تیسرے باب میں پاکیزگی کی طبیعت کا تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں فیاضی کی طبیعت کا بیان ہے یا اس مضمون کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ

اول۔

تو جیسا پہلے باب کی چھٹی اور ساتویں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے ایسادل جس کو بھروسے کے ساتھ یقین ہو اور وہ خدا پر اس بات کا تکیہ کرتا ہو کہ جو کام اس نے شروع کیا ہے اسے وہ انجام تک پہنچائے گا۔

دوم۔

ایسا دل کہ جو کل جماعت کے متحد ہو کر ایک بدن بن جانے کا قائل ہے اور سب لوگ خدا کی خدمت کے لئے باہم شریک ہوجاتے ہیں۔ اس بارے میں دوسرے باب کی دوسری آیت اور تیسرے باب کی سولہویں آیت اور چوتھے باب کی دوسری آیت ملاحظہ طلب ہیں۔

سوم۔

وہ دل جس میں مسیح جیسی فروتنی ہو۔ اور اپنے آپ کو خدا کے جلال کی خاطر فروتن کرتا ہو۔ اس کے لئے دوسرے باب کی پانچویں آیت کو دیکھو۔

چہارم۔

ایسا دل جو کہ برابر ترقی کرتا جاتا ہو۔ یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے خدا کے انعام کی حد تک جا پہنچے۔ اس بارے میں تیسرے باب کی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں آیتوں کو دیکھو۔

پنجم۔

وہ دل جس میں سخاوت کی عادت ہو اور وہ خدا کے کام کی ترقی کے لئے مدد دیتا ہو۔ اس کے لئے چوتھے باب کی دسویں اور اور آیتوں کو بھی دیکھو۔

فلپیوں کے نام

پولس رسول کا خط

خطاب

اس خطاب کی سب سے پرانی طرز صرف یہ ہے کہ فلپیوں کی طرف یا ان کے نام فلپیوں کے بجائے فلپشیوں کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ لفظ کلمہ صفت ہے۔ جو چوتھے باب کی پندرہویں آیت میں آیا ہے۔ اور بزرگ بشپ پالی کارپ نے جو ایک مشہور خط اسی کلیسیا کے نام لکھا تھا اس کی پیشانی میں بھی یہی لفظ کام آیا ہے۔ اس خط کا ذکر ہم نے اپنے دیباچے میں کیا ہے۔

باب اول

آیات ۱۔۲ ان میں ابتدائی سلام درج ہے

۱۔ مسیح یسوع کے بندوں پولس اور تمتھیس کی طرف سے فلپی کے سب مقدسوں کے نام جو مسیح یسوع میں ہیں۔ نگہبانوں اور خادموں سمیت

مسیح یسوع۔

سب سے پرانے قلمی نسخوں کے مطابق اور ان دونوں لفظوں کی یہی ترتیب صحیح ہے۔ اور پولس رسول ان لفظوں کو زیادہ تراسی ترتیب میں استعمال کیا کرتا ہے۔ اس ترتیب میں جو زور کہ لفظ مسیح یعنی مسیح بادشاہ مدد دیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اس کے اختیار پر نظر کریں اور یہ امر اس خیال کے موافق ہے جو آیت سے پیدا ہوتا ہے یعنی اس کا حق ہے کہ اپنے غلاموں پر حکومت کرے۔

بندوں

یعنی غلاموں جیسا کہ (رومیوں ۱:۱اور۲۔کرنتھیوں ۴: ۵اور گلیتوں ۱: ۱۰اور ططس ۱:۱) سے معلوم ہوتا ہے ۔ پولس کو یہ لفظ اپنی بابت کام میں لانا بہت پسند تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو اپنے الٰہی مالک خداوند کے قبضہ مطلق میں بالکل سپرد کر دیا تھا۔ اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ مسیح کا حق ہے کہ وہ ایسی مطلق بندگی یا خدمت جس کا صرف خدا ہی حق دار ہے حاصل کرے۔ رومیوں کے دستور کے موافق غلام ۱ اپنے آقا کی ملکیت اسی طرح پر ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ اس آقا کا مال و اسباب اس کی ملکیت ہوتا تھا کہ جس طرح اس کی مرضی چاہے اسے کام میں لائے۔ (رومیوں ۶: ۲۱۔۲۲اور۲۱: ۱اور۱۔کرنتھیوں ۶: ۱۹، ۲۰) آیتوں سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ نئے عہد نامے کے بموجب ہر مسیحی اپنے آپ کو مسیحی کی مرضی کے بالکل تابع کر دینا منظور کرے۔

پولس

جیسا کہ تھسلنیکیوں کے پہلے اور دوسرے خطوں میں اور فلیمون کے خط میں ذکر ہوا ہے۔ اور اس خط میں بھی رسول کا لفظ جو پولس کے عہدے کا لفظ ہے

۔ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولس کے اختیار کے بارے میں فلپی کی کلیسیا میں کسی کو کلام نہ تھا۔ پس پولس کو ضرورت نہ تھی۔ کہ جب وہ اپنے ایسے وفادار اور محبت کرنے والے دوستوں کے نام خط لکھے تو اپنے منصبی خطاب کے ساتھ لکھے۔ (اعمال۱۳: ۹) کے بعد یہ رسول برابر پولس کے نام سے مشہور ہے۔ یا تو ا کا سبب یہ ہے کہ اس کو یہ نام اس وقت اول اول دیا گیا تھا۔ یا یہ سبب ہو کہ جیسا مقدس اگستین کا خیال ہے کہ اس نے یہ نام اس وقت اپنی عجزو انکساری ظاہر کرنے کے لئے پسند کیا تھا۔ کیونکہ یونانی زبان میں اس لفظ کے معنی ہیں نالائق یا شاید یہ سبب ہو کہ جیسا بزرگ جروم کا یقین ہے کہ جب سر جیوس پولس ایک رومی افسر مسیح پر ایمان لایا تو اس نے اس کا نام یاد گار کی طرح اختیار کر لیا تھا۔ یا یہ سبب ہو جو بہت غالب ہے کہ اس کے بچپن ہی سے اس کے عبرانی نام سالس کے ساتھ یہ غیر قومی نام پولس بھی چلا آتا تھا۔ اور یہ بات یہودیوں کے اس زمانے کے عام رواج کے مطابق تھی۔ پس جس وقت کہ یہ رسول آگے کے لئے خصوصاً غیر قوموں کا رسول ٹھہرا تو اس نے اپنے اس نام کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔

تیمتھیس

یہ نہایت درجے غالب ہے کہ یہ شخص اس وقت مسیح پر ایمان لایا تھا جب پولس رسول اول مرتبہ لسٹرا شہر میں گیا تھااس بارے میں (۲۔تیمتھیس ۳: ۱۰۔۱۱اور ۱۔تیمتھیس ۱: ۲) کا (اعمال ۱۴: ۱۹۔۲۰اور۱۶: ۱، ۲) سے مقابلہ کر کے دیکھو اور (اعمال ۱۵: ۳۹۔۴۰ اور۴۱ )اور (۱۶: ۱، ۲، ۳)سے معلوم ہوتا ہے کہ پولس رسول نے برنباس۔ یا جان مرقس کی جگہ اس شخص کو اپنا ساتھی بنایا۔ اس کو فلپی کی کلیسیا کے ساتھ شروع ہی سے بڑا گہرا تعلق رہا۔ (اعمال ۱۶: ۳۔ ۴۔ ۱۰۔۱۱اور۱۲)سے پایا جاتا ہے۔ کہ جب رسول وہاں اول مرتبہ گیا تو یہ بھی اس کے ساتھ تھا۔ اور پھر (اعمال ۱۹: ۲۲۔۲۰: ۳، ۴اور۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد کم از کم دو دفعہ پھر وہاں گیا۔ ممکن ہے کہ ان کے علاوہ وہ اور کئی بار وہاں گیا۔ (فلپیوں۲: ۱۹۔۲۲) تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں ایک بار اور جانے کو تیار تھا۔

اس خط کے شروع میں جہاں پولس نے فلپیوں کو سلام کہنے میں تیمتھیس کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ اس کے سوا اور جو پیغام اس خط میں رسول نے فلپیوں کو بھیجا ہے اس میں تیمتھیس کا کچھ دخل نہیں ہے۔ بلکہ باقی جس قدر ہے وہ پولس کی عبارت ہے۔ چنانچہ اس نے یہ سب صیغہواحد میں لکھا ہے۔

مقدسوں

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے اصلی معنی ہیں کسی شے کی تقدیس کرنا یعنی گناہ کی باتوں سے خدا کے لئے علیحدہ کر دینا۔ سارے مسیحی اس لئے بلائے گئے ہیں کہ وہ مقدس بنیں۔ اورنئے عہد نامے میں یہ بات ایسی مان لی گئی ہے۔ کہ گویا وہ ایک صاف حقیقت ہے اور اس میں کسی کو جائے کلام نہیں ہے۔ اور یہی خیال کر کے کہ وہ سب ایسے ہی ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنے بارے میں اقراربھی کرتے ہیں ان کو اس لفظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ خدا کا جو مطلب اور انتظام ہے اس پر لحاظ کر کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محال ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو کہے تو مسیحی اور ہو وہ ناپاک اس وجہ سے اس لفظ سے مراد وہ سارے شخص ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کا عہد کیا ہے۔ بشرطیکہ جیسا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ویسے وہ دراصل ہوں۔ بھی اگر مسیحی ایمان کو مسیحی عمل سے منقطع کرنے کا ارادہ کیا جائے۔ تو یہ لفظ اور اس کے معنی اس کے مخالف ہیں۔ ہند میں لوگوں کی طبیعت عموماً اس بات پر مائل رہی ہے کہ مذہب کی جو حکیمانہ خاصیت ہے۔ وہ تو بے شک قدرو منزلت کے لائق ہے۔ مگر اس کی اخلاقی اور عملی خاصیتوں پر کچھ لحاظ کرنا ضرور نہیں ہے۔ پس ایسے ملکوں میں مقدس لفظ کا جو اصلی خیال ہے اس پر بڑا زور دینے کی ضرورت ہے۔

مسیح یسوع میں

یہ ہماری پاکیزگی کا چشمہ اور دائرہ بھی ہے۔ ہم صرف اس طرح مقدس ہوتے اور سیکھتے ہیں کہ اس میں جو قدوس ہے زندہ رہیں اور ایمان سے فضل کے وسیلے اس میں قائم رہیں۔ مسیحی مذہب۔ یا مسیحی کلیسیا میں ہونا تو ایک اور بات ہے اور مسیح یسوع میں ہونا ایک اور ہی شے ہے۔

نگہبانوں اور خادموں سمیت

جس قرینے سے رسول نے یہ لفظ لکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ کلیسیا میں کسی طرح کا پادریانہ عہدہ رکھتے ہیں۔ ان سے وہ لوگ جو دنیادار ہیں یا دنیاوی کام کرتے ہیں۔ مقدوم ہیں۔ رسول نے پادریوں کو ان سے علیحدہ لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ مقدسوں کے لفظ میں تو ان کے ساتھ شامل ہیں۔ تاہم اپنے عہدے کے اعتبار سے وہ ان سے علیحدہ ہیں۔ اس لئے کہ وہ وہ شخص ہیں جو جماعت میں سے اس کام کے لئے چن لیے گئے ہے۔ کہ جماعت کے متعلق جو مختلف خادمانہ کام ہیں ان کو بجا لائیں۔ بعض کا یہ خیال ہے کہ ان کے علیحدہ ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ جو چندہ پولس رسول کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس لئے کہ وہ کلیسیا کے عہدہ دار تھے مگر یہ خیال بہت متشبہ ہے۔ غالباً اس ابتدائی زمانے میں بشپ یا نگہبان کا لفظ سارے پرسبتروں یعنی کلیسیا کے بزرگوں کے لئے کام میں آتا تھا۔ اس کے لئے (اعمال ۲۰: ۱۷۔۱۸) قابل غور ہیں۔ ڈیکن کا لفظ جس کا ترجمہ ہم نے یہاں خادم کیا ہے۔ اس آیت میں اپنے خاص دینی معنوں میں اول مرتبہ آیا ۳ ہے اگرچہ یہ لفظ نئے عہد نامے میں تیس مرتبہ آیا ہے۔ مگر عہدے کے لقب کے طور پر صرف تین یا چار ہی مرتبہ کام میں آیا ہے اس کے معنی عموماً صرف یہ ہیں کہ کسی دوسرے کی ماتحتی میں خدمت کرنے والا۔

پس اس آیت سے ہماری نظر کے سامنے یہ خیال گزرتا ہے۔ کہ چرچ یا کلیسیا کا انتظام اب درجہ بدرجہ بڑھتا جاتا تھا۔ اور اس سے اس امر کے لئے بھی ایک بڑے ابتدائی زمانے کی شہادت ہم کو ملتی ہے کہ خادمانِ دین کے معین عہدے اس وقت موجود تھے اور جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان کی صورت میں اور ترقی ہو گئی تھی۔

۲۔ ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے

تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔

ان مسیحی دعائیہ لفظوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے سلامی کلمے ہمیشہ شامل ہوا کرتے ہیں جو مطلب کہ یونانیوں کا اپنے معمولی سلام کے لفظ فضل سے ہوا کرتا تھا۔ وہ سب بھی اس میں شامل ہے اور جو مطلب کہ ایشیا کے لوگ اپنے معمولی لفظ سلام رکھتے ہیں۔ جس کا مترادف ہم نے یہاں وہ لفظ اطمینان لکھا ہے۔ وہ سب ہمیشہ کے لئے مسیح میں مل جاتا اور پورا ہوتا ہے معلوم رہے کہ جو لفظ مقرر ہوئے ہیں ان سے اس امر کا ایک یقین پیدا ہوتا ہے۔ کہ مشرق اور مغرب ہمارے مشترک خداوند مسیح نجات دینے والے ہیں۔ مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ اور وہ اس بات کا بھی نشان ہیں کہ مسیح میں دونوں کے اعلیٰ خیال و خواہش پوری ہو جاتیں اور بخوبی ظہور پاتی ہیں۔ اس سے ہمارے لئے ایک اس بات کا حکم بھی پایا جاتا ہے۔ کہ ہم اپنے اپنے قومی خیالوں اور ملکی تعصبوں کو بالائے طاق رکھ دیں۔ کیونکہ ہم سب مسیح میں مل جاتے اور غلط ملط ہو جاتے ہیں۔ یہ لفظ اس آیت میں اول تو معمولی سلام و دعا کے حکموں کی طرح استعمال ہوئے ہیں۔ دوم یہ بھی ہے کہ جو ان کا اصلی مطلب ہے اس کو بھی وہ بڑے زور کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

فضل۔

اس سے مراد ہے خدا کی وہ مہربانی جس کے ہم مستحق نہیں ہیں اور جو وہ ان سارے آدمیوں کے ساتھ سلوک کرنے میں دکھاتا ہے۔ جو نکمے اور نالائق ہیں۔

اطمینان

جس لفظ کا ترجمہ اس جگہ اطمینان کیا گیا ہے اس میں خدا کے ساتھ وہ صلح بھی شامل ہے جو مسیح کے وسیلے سے خدا کے ساتھ ہمارا میل ملاپ ہو جانے سے ہم کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں (۲۔کرنتھوں ۵: ۱۸سے۲۱اور رومیوں ۵: ۱) کو دیکھو۔ پھر اسی لفظ میں خدا کا وہ اطمینان یا آرام یا سلام بھی داخل ہے جو ان لوگوں کو برابر حاصل ہوتا رہتا ہے جو اس کے ایمان میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس بات میں (فلپیوں ۴: ۶، ۷) کو دیکھو۔ یہ امربھی بیان کرنے کے لائق ہے کہ اس خط میں فضل کا لفظ تو انجیل کے کام کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ (۱: ۷) سے ظاہر ہے کہ اور اطمینان کا لفظ اس آرام کے متعلق آیاہے جواُن شخصوںکی روحوںکو درکار ہے۔ جو مسیحی زندگی گزارنے اور مسیح کے لیے محنتیں اٹھانے کی آزمائشوں میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہ اس خط کے (۴: ۶، ۷) آیتوں سے ظاہر ہے۔ پس ان لفظوں کے ذریعے سے مسیح کے کارندوں کے واسطے خدا کی طرف سے یہ خاص پیغام آیا ہے کہ تم کو کام کے لئے فضل اور خدمت گزاری میں اطمینان و آرام ملے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

پہلے باب کی اس فصل کے متعلق امور ذیل کے غور کے لائق ہیں

اول

خادموں اور کارندوں کی بابت صحیح خیال یہ ہے کہ وہ مسیح یسوع میں غلام ہیں اور خداوند نے ان کو اس لئے بلایا ہے۔ کہ وہ خدا کے ورثے یعنی کلیسیا کی خدمت کریں۔ اور نہ کہ اس پر حاکم بن جائیں۔

دوم

سارے سچے مسیحیوں کے بارے میں درست خیال یہ ہے کہ وہ مسیح یسوع میں مقدس لوگ ہیں اور اس لئے بلائے گئے ہیں کہ اپنی زندگی اور خصلت دونوں میں سچی پاکیزگی اختیار کریں۔

سوم

جو مسیحی کہ خادمان دین نہیں ہیں۔ بلکہ دنیا کے کاروبار میں مشغول ہیں ان کے بارے میں صحیح خیال یہ ہے کہ وہ کاہنوں کی ایک مقدس جماعت ہے بمعہ اسقفوں اور ڈیکنوں کے جو ضروری عہدہ دار ہیں اور انہیں لوگوں میں سے ان کے وہ کام جو کلیسیا سے متعلق ہیں کرنے کے لئے چن لئے گئے ہیں نئے عہد نامے کے خیال کے بموجب یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ کہ خادم دینوں کی جماعت کلیسیا ہے۔ جیسا کہ(۱۔پطرس ۲: ۹) سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہر مسیحی جو دنیاوی کاروبار میں مصروف ہے۔ اس پر فرض ہے کہ ہند میں خدا کی طرف سے گواہی دے۔ اور لوگوں کی شفاعت کرے یعنی ان کے لئے خدا سے دست بدعا ہو اور خدا کا کام کرے۔

۳۔میں جب کبھی تمہیں یاد کرتا ہوں تو اپنے خدا کا شکر بجا لاتا ہوں۔

تیسری آیت سے لے کر گیارہویں تک شکرگزاری اور دعا ہے

ان آیتوں میں یہ باتیں شامل ہیں۔

اول۔

شکرگزاری کے ساتھ یادگاری جیسا کہ تیسری آیت میں۔

دوم۔

خوشی کے ساتھ دعا اور منت جیسا کہ چوتھی اور پانچویں آیتوں میں۔

سوم۔

خوشی کے ساتھ بھروسہ جیسا کہ چھٹی آیت میں۔

چہارم۔

بڑے جوش کی خواہش جیسا کہ ساتویں اور آٹھویں آیتوں میں۔

پنجم۔

دلی دعا جیسا کہ نویں۔ دسویں اور گیارہویں آیتوں میں۔

میں جب کبھی تمہیں یاد کرتا ہوں۔

ان الفاظ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان کو کبھی کبھی یاد کرتا تھا۔ اور ان کاموں کے ذریعے سے یاد کرتا تھا جو علیحدہ علیحدہوں بلکہ اس کو یاد کرنے کی ایک عادت ہو گئی تھی۔ اور جو جو موقعے اس کو ان کی بابت یاد آتے تھے ان سب کے لئے وہ اپنے دل میں شکر گزاری کے ساتھ خیال کر سکتا تھا۔ اس کو ساری یاد ان کے بارے میں اس کے دل کو فرحت دیتی اور تازگی بخشتی تھی اور یہ یاد کر کے اس کے دل میں شکر گزاری کا جوش ہوا کرتا تھا۔ کہ اس قدر روحوں نے گناہ اور شیطان کے ہاتھ سے نجات پائی اور اس قدر آدمیوں کی زندگیاں اعلیٰ اور پاکیزہ بن گئیں۔ اور وہ اپنے خداوند کے فرمانبردار اور خدمت گزار بن گئے۔ (رومیوں۱: ۸، ۹اورافسیوں۱: ۱۶اور ۱۔تھسلنیکیوں۱: ۲اور۲۔تیمتھیس ۱: ۳اورفلیمون ۱: ۴) میں بھی شکرگزاری اور یادگاری کے لفظ اکٹھے آئے ہیں۔ مگر وہاں جو خیال ہے وہ اس سے ذرا مختلف ہے۔

تو اپنے خدا کا

یہ الفاظ مزامیر کی کتاب میں ایسے موقعوں پر بار ہا آئے ہیں۔ جبکہ مصنف کا دل دعا کے جوش میں سرشاد تھا۔ مثلاً (زبور ۶۳: ۱اور۴۶: ۲) اور اور مزامیرمیں بھی یہ الفاظ آئے ہیں۔ ان لفظوں سے اس شخص کا خدا کے ساتھ ذاتی تعلق اور دائمی رفاقت بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ پولس (رومیوں۱: ۸۔۱۔کرنتھیوں ۱: ۴۔۲۔کرنتھیوں۱۲: ۲۱اور فلیمون ۱: ۴) میں بھی یہی لفظ پھر کام میں لایا ہے اور (فلپیوں۴: ۱۹)میں بھی یہ لفظ آئے ہیں غرض یہ خط ان ہی لفظوں سے شروع ہوتا ہے۔ اور ان ہی سے ختم بھی ہوتا ہے۔

شکر بجا لاتا ہوں

پولس رسول جب کلیسیاﺅں کے نام خط لکھتا تھا تو ان سب کے لئے شکر بجا لا سکتا تھا۔ بخر گلیتوں کی کلیسیا کے جہاں مسیحی ایمان سے بڑا انحراف ہو گیا تھا۔ اسی شکر گزاری کے بارے میں (رومیوں۱: ۸۔ ۱کرنتھیوں۱: ۴۔ افسیوں۱: ۱۶۔ کلسیوں۱: ۳۔۱تھسلنیکیوں۱: ۲۔ ۲: ۱۳۔ ۲۔تھسلنیکیوں۱: ۳۔ ۲: ۱۳اور فلیمون ۱: ۴) کو دیکھو۔ مگر رسول سب سے زیادہ شکر گزاری مکدونیہ کی کلیسیاﺅں فلپی اور تھسلنیکیوں کی بابت تھا۔ ان کی طرف اس کی محبت اور اس کی شکر گزاری اس قدر تھی کہ جیسا بشپ لائٹ فٹ صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ پولس رسول اپنے دل کے جوش میں اا کر اس معنی کے لفظ بار بار کام میں لاتا اور ایسے ایسے فقرے جن سے یہی خیال ظاہر ہوتے ہیں گھڑی گھڑی لکھتا ہے۔

۴۔اور ہر ایک دعا میں جو تمہارے لئے مانگتا ہوں ہمیشہ خوشی کے ساتھ تم سب کے لئے درخواست کرتا ہوں۔

ہر ایک دعا میں

جس لفظ کا ترجمہ یہاں دعا کیا گیا ہے۔ اس کے معنی اصل یونانی میں یہ ہیں کہ کسی ضرورت کو واقعی طور سے معلوم کر کے اس کے لئے کسی خاص درخواست کا دل سے اٹھنا۔ یہی لفظ (۱: ۱۹اور۴: ۶)میں آیا ہے۔ بلکہ وہ اول اپنے دل میں خوب طرح نہیں کہ جیسے کوئی دیوانہ شخص ہوا سے لڑتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے دل میں خوب طرح سمجھ لیتا تھا کہ انکو ٹھیک ٹھیک کون کون سی چیزوں کی ضرورت ہے اور پھر وہ ان ہی خاص خاص باتوں کے لئے خدا سے دل وجان کے ساتھ یہ دعا مانگتا تھا کہ وہ ان کو وہی ضرورت کی چیزیں بخش دے۔

جو تمہارے لئے مانگتا ہوں

اصل میں یہ یوں ہونا چاہئے تھا۔ کہ میں ہر ایک دعا میں جو تم سب کے لئے مانگتا ہوںفقط پولس رسول کا ان لفظوں (یعنی تم سب کے لئے) کو خوب طرح جان بوجھ کر بار بار کام میں لانا بڑی غور کی بات ہے۔ وہ لفظوںکو (۱: ۴، ۷، ۸، اور۲۵ اور ۲: ۱۷، ۲۶) میں کام میں لایا ہے۔ غالباً اس سے یہ خیال آتا ہے۔ کہ وہ فلپی کی کلیسیا میں تفرقوں کے ہونے کا خیال کر کے ان کو ان الفاظ کے بار بار لکھنے سے ایک طرح کی ہلکی سی ملامت کرتا ہے۔ غرض کہ یہ ہمارا یہ گمان صحیح ہو یا نہ ہو مگر رسول ان سب کے ساتھ بلا تمیز محبت رکھتا اور ان سب کے لئے دعا مانگتا ہے کیا یہ مناسب نہیں ہے۔ کہ تم بھی اس سے یہ نصیحت سیکھیں۔ اگر مسیحی لوگ اپنے سارے مسیحی بھائیوں کے لے خواہ وہ کسی نسل کے کیوں نہ ہوں محبت کے ساتھ دعا مانگیں تو یہ ذات پات کے خیال کو مٹا دینے کا سب سے اچھا علاج ہو گا اور اس عیب کو اس سے بہت کچھ ملامت ہو گی اور وہ اس سے دور و دفع ہو جائے گا۔ لائٹ فٹ صاحب اپنی تفسیرمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ لفظ یعنی تم سب کے لئے رسول کے ان لفظوں کے ساتھ ہیں کہ میںخدا کا شکر کرتا ہوں اور نہ ان لفظوں کے ساتھ کہ میں اپنی ہر ایک دعا میں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف و نحو کی رو سے ان کا تعلق دونوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور ہر ایک تعلق سے کچھ بامعنی خیال پیدا ہوتا ہے۔

ہمیشہ۔

یہ ہمیشہ کا لفظ پولس کی تحریروں میں کوئی ستائیس بار آیا ہے اور اگر موقع پر جہاں یہ لفظ آیا ہے۔ غور کیا جائے تو فائدے سے خالی نہ رہے گا۔ یہ لفظ چار دفعہ تو اسی خط میں آیا ہے۔

اول

(۱: ۴) میں کہ میں ہمیشہ تم سب کے لئے درخواست کرتا ہوں۔

دوم

(۱: ۲۰)میں جہاں رسول یہ کہتا ہے کہ مسیح کی تعظیم میرے بدن کے سبب سے ہمیشہ ہوتی ہے۔

سوم

(۲: ۱۲) میں جہاں رسول ان کو یہ کہتا ہے کہ تم ہمیشہ فرمانبرداری کرتے آئے ہو۔

چہارم

(۴:۴) میں جہاں رسول فلپیوں کو کہتا ہے کہ خداوند میں ہر وقت۔ یعنی ہمیشہ خوش رہو۔

خوشی کے ساتھ

اصل زبان میں یہ لفظ ایسے موقعے پر آئے ہیں کہ ان سے عبارت کو بڑا زور پہنچتا ہے۔ یعنی کہ خوشی کے ساتھ۔۔۔۔۔درخواست کرتا ہوں بات یہ ہے کہ پولس رسول فلپیوں کے لئے جتنی دعائیں مانگا کرتا تھا ان سب میں خوشی کی روشنی چمکا کرتی تھی۔ ہم دیباچے کے چھٹے باب میں لکھ آئے ہیں کہ یہ لفظ اس خط کے ایک مقتاحی لفظوں میں سے ہے۔ یعنی یہ لفظ ایسے ہیں کہ جن سے اس خط کا مطلب و مقصد کھلتا یعنی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں جو یہ خوشی کا لفظ آیا ہے وہ اس خط میں اول موقع ہے۔

درخواست کرتا ہوں

ان لفظوں کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ میں وہ درخواست کرتا ہوں۔ جس کا ذکر اسی آیت کے پہلے حصے میں آ چکا ہے۔

۵۔اس لئے کہ تم اول روز سے لے کر آج تک خوشخبری کے پھیلانے میں شریک رہے ہو۔

اس لئے کہ تم اول روز سے لے کر آج تک

(۴: ۱۰۔ ۱۹) پڑھ کر دیکھو کہ وہاں کی عبارت سے ان لفظوں کے معنی کھل جاتے ہیں۔ اول روز سے مراد اگر اس سے پیشتر سے نہیں ہے تو بے شک اس روز سے مراد ہے جب کہ رسول پہلی مرتبہ فلپی سے رخصت ہو کر گیا تھا اور اس وقت فلپیوں نے ایک بڑی معقول رقم پیچھے سے اس کی مدد کے لئے بھیجی تھی۔

آج تک

کے لفظ سے اشارہ ان خاص چندوں سے جو ان کی طرف سے رسول کے پاس رومہ میں ابھی حال میں پہنچے تھے۔ چنانچہ (۲: ۲۵) کودیکھو۔ فلپی کے مسیحی جو مدد کہ فیاضی کے ساتھ انجیل کے پھیلانے میں رسول کو سرگرمی کے ساتھ ہمیشہ دیتے رہے وہ ہمارے لئے بھی جو ہند میں رہتے ہیں ایک نمونے کی طرح کا کام دیتی ہے۔

خوشخبری پھیلانے میں شریک رہے ہو۔

شریک رہنے کے لئے جو لفظ ہے اس کے معنی بعض مقاموں میں جیسے کہ (رومیوں ۱۵: ۲۶ اور ۲۔کرنتھیوں ۹: ۱۳) میں صرف دس روپے کی مدد ہی سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اور جیسا کہ اس خط کے (۴: ۱۴سے۱۷) پایا جاتا ہے۔ فلپی کے مسیحیوں نے پولس رسول کی مدد روپے پیسے کے اعتبار سے بہت کچھ کی تھی۔ مگر وہ صرف اسی طرح شریک نہ تھے بلکہ اس کے سوا اور بہت سے طور پر رسول کے کام میں مدد دیتے رہے۔ مثلاً ہمدردی کرنے سے۔ دکھ سہنے سے۔ اور خدمت گزاری سے۔ غرض یہ ہے کہ اس ابتدائی زمانے کے مسیحی مقدس جنگ میں بڑے دل وجان سے مدد دینے والے شخص تھے۔ یہ الفاظ (یعنی خوشخبری کے پھیلانے میں) اور بھی مقاموں پر آئے ہیں۔

اول

تو(۲۔کرنتھیوں ۲: ۱۲اور۹:) میں

دوم

(۲: ۲۲) میں اور یہ لفظ انجیل کے کام کے لئے یاد رکھنے کے لائق ہیں۔

اول

مقام جہاں یہ لفظ آئے ہیں (۲کرنتھوں۲: ۱۲) ۔ وہاں خوشخبری پھیلانے کے لئے سفر کرنے کا ذکر ہے۔

دوم

مقام (۹: ۱۳) ۔ وہاں مسیح کی خوشخبری کا اقرار کر کے اس پر تابعداری کرنے کا ذکر ہے۔

سوم

یہی مقام یعنی فلپیوں کےیعنی (فلپیوں ۱: ۵) میں۔ وہاں خوشخبری کے پھیلانے میں شریک رہنے کا ذکر ہے۔

چہارم

اسی خط کے (۲: ۲۲)میں یہ ذکر ہے کہ خوشخبری پھیلانے میں خدمت کی۔

خوشخبری یا انجیل کا لفظ اس خط میں تو دفعہ آیا ہے۔ (۱: ۵، ۷، ۱۲، ۱۶) ایک ایک دفعہ اور ۷۲آیت میں دو دفعہ اور (۲: ۲۲) میں ایک دفعہ اور (۴: ۳، ۱۵) میں ایک ایک دفعہ۔ پہلے باب میں اس کا بار بار کام میں آنا توجہ کے لائق ہے اور جن الفاظ کے ساتھ وہ کام میں آیا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے سے فائدہ ہو گا۔ ہند کی حالت بہ اعتبار مذہب ایسی ہے کہ وہ گویا ہند کے مسیحیوں کو زور زور سے بلاتی ہے۔ کہ خوشخبری کے پھیلانے میں مدد دو۔

یہ سارا فقرہ رسول کے ان لفظوں کے ساتھ صریحاً شامل ہے۔ جہاں وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا شکر کرتا ہوں۔ فلپیوں کا اس کے ساتھ مدد کے لئے عملی طور پر شریک ہونا اس کے لئے ایک خاص شکر گزاری کا باعث تھا۔

۶۔اور مجھے اس بات کا بھروسہ ہے کہ جس نے تم میں نیک کام شروع کیا ہے وہ اسے یسوع مسیح کے دن تک پورا کر دے گا۔

مجھے بھروسہ ہے

ان لفظو سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کے دل کو آپ اس امر کا یقین تھا۔ اور اس یقین کی بنا یہ تھی کہ اس نے آپ پہلے اس بات کا تجربہ کیا تھا جو انجیل کی منادی کرنے میں مشغول ہیں ان کو ان باتوں کابھروسہ رکھنا ضرور ہے۔

اول

جیسا کہ اسی مقام پر رسول نے فرمایا ہے کہ خدا اپنے کام کو کامل اور پورا کرے گا۔

دوم

جیسا (۲۔کرنتھیوں۲: ۳اور۲۔تھسلنیکیوں ۳: ۴) کا منشا ہے کہ جو لوگ انجیل پر ایمان لاتے ہیں وہ سچے اور ایمان دار مسیحی ہوں گے۔

سوم

جیسا کہ (عبرانیوں ۱۳: ۱۸) میں آیا ہے کہ انجیل سنانے والوں کا دل صاف اور خالص ہے۔

چہارم

یہ کہ جیسا (فلپیوں۱: ۲۵) کا مطلب یہ ہے کہ خدا ان کے کام میں ان کی ہدایت کرے گا۔

اس بات کا

جن اصلی لفظوں کا یہ ترجمہ ہے ان کا بعض شخص اس طرح پر ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ اسی وجہ سے (میرا بھروسہ) مگر اس فقرے کا مطلب یہ کہتا ہے۔ کہ جس امر کا رسول بھروسہ رکھتا ہے۔ وہ یہ ہے اور نہ کہ اس کے بھروسہ رکھنے کی وجہ یہ ہے۔

کہ جس نے شروع کیا ہے

یعنی جس نے تم میں مسیح پر ایمان لانے کے وقت اپنا کام شروع کیا تھا۔ یہی خاص فعل (گلیتوں۳:۳) میں بھی آیا ہے۔ یونانی لوگ اس فعل کو بعض وقت قربانی چڑھانے کے معنی میں کام میں لایا کرتے تھے۔ اور اس معنی میں وہ اس کام کو ظاہر کیا کرتا ہے۔ جو قربانی شروع کرنے سے متعلق ہے۔

نیک کام

یعنی نجات اور تقدیس کا وہ نیک کام جو انجیل پر ایمان لانے کے وقت شروع ہوتا ہے۔ اس میں اور سارے نیک کام شامل ہیں۔ مثلاً خوشخبری کے پھیلانے میں ان کا مدد دینا۔

پورا کرے گا

اس لفظ کے معنی ہیں کمال کے درجے تک لے جانا۔ (زبور۱۳۸: ۸) میں جو یہی لفظ آیا ہے اس کو اس سے مقابلہ کرو۔ یہ بات غور کے قابل ہے کہ یہ لفظ کبھی کبھی قربانی کے متعلق بھی کام میں آیا کرتا ہے۔ پس قربانی کا جو خیال کہ شروع کے لفظ سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس سے پورا ہو جاتا ہے۔

یسوع مسیح کے دن تک

یعنی تقدیس کا کام جو خدا شروع کرتا ہے وہ اس کو اس جلالی وقت تک جس کا حوالہ (۳: ۲۰، ۲۱) میں آیا ہے کرتا رہتا ہے اور اس وقت وہ کامل ہو جائے گا۔ رسول یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ اس کام کو ان کی موت کے وقت تک پورا کردے گا۔ کیونکہ مسیحی کلیسیا کی منزل مقصود مسیح کے آنے کا وقت ہے اور نہ وقت۔ اس آیت سے پایا جاتا ہے۔ کہ رسول کو مسیح کی آمد کی امید نزدیک معلوم ہوتی تھی۔

اس آیت میں جو یہ لفظ آئے ہیں کہ یسوع مسیح کے دن تک۔ یہ صرف اسی ایک مقام کے لئے مخصوص معلوم ہوتے ہیں۔ (۱۔کرنتھیوں ۱: ۸) میں یہ خیال ان لفظوں میں ظاہر ہوا ہے کہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کادن۔ (۱۔کرنتھیوں۵:۵اور ۲۔کرنتھیوں۱: ۱۴) میں یہ لفظ آئے ہیں۔ کہ خداوند یسوع کا دن۔ اور (فلپیوں ۱: ۱۰اور ۲: ۳: ۱۰) میں لفظ ہیں کہ مسیح کا دن۔ اور (۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۲اور ۲۔پطرس ۳: ۱۰) میں یہ لفظ آئے ہیں کہ خداوند کا دن۔ اسی کو پرانے عہد نامے میں نبیوں نے اکثر یہوا کا دن کہا ہے۔

۷۔چنانچہ واجب ہے کہ میں تم سب کی بابت ایس ہی خیال کروں۔ کیونکہ تم میرے دل میں رہتے ہو اور میری قید اور خوشخبری کی جواب دہی اور ثبوت میں تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو۔

تم سب کی بابت

یا تم سب کے لئے یا تم سب کے بارے میں۔ چنانچہ یہ خیا ل بھی آ سکتا ہے کہ رسول ان کی وجہ سے اپنے دل میں شکر گزاری معلوم کرتا تھا۔ یہاں دونوں معنی کی گنجائش ہے۔ اور دونوں خیال اس موقعہ پر موزوں ہیں مگر جو معنی کہ متن میں درج ہیں وہ بہت عمدہ ہیں۔ ان سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ رسول خوشی کے مارے ان کی بابت خدا سے سفارش کرتا تھا۔

ایسا ہی خیال کروں

ایسا ہی خیال کروں۔یا ایسا معلوم کروں یعنی جس شکرگزاری کاذکر اوپر آیا ہے۔ اسے دل میں محسوس کروں۔ جیسا کہ دیباچے کے چھٹے باب میں ہم نے لکھا ہے۔ اس خط میں بعض لفظ ایسے مستعمل ہوئے ہیں کہ جن سے اس خط کی کیفیت منکشف ہو جاتی ہے۔ ان میں سے اس آیت میں ایک اور لفظ اول مرتبہ آیا ہے۔

کیونکہ تم میرے دل میں رہتے ہو

ان لفظوں کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم مجھے اپنے دل میں رکھتے ہو۔ مگر جب قرینے پر غور کیا جاتا ہے کہ وہی ترجمہ قطعی درست معلوم ہوتا ہے جو متن میں ہے۔ یہی خیال (۲۔کرنتھیوں ۳: ۲) میں آیا ہے۔ اس کو بھی دیکھو۔ غرض جب بعض شخصوں کو اپنے دلوں میں رکھتے ہیں تو ان سے محبت رکھنی کچھ مشکل بات نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ہم خدا کی راہوں یا اس کے کام یا شریعت سے محبت رکھنی چاہتے ہیں تو ہم کو لازم ہے کہ اس کو اپنے دلوں میں رکھیں۔ جیسا (زبور ۸۴: ۵اور رومیوں ۱۰: ۸اور عبرانیوں ۸: ۱۰)میں بھی آیا ہے۔

خادم دین اور اس کی جماعت کے لوگوں میں باہم جو بڑی محبت ہونی چاہیے وہ اس آیت سے ظاہر ہے اور ان لفظوں سے ولایتی مشنریوں اور دیسی پاسبانوں اور مسیحی لوگوں سب کو یکساں نصیحت ملتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ سب کے درمیان محبت کا دریا جوش مارنے لگے۔

میری قید یا بیٹریوں میں

(۲۹، ۳۰) آیتوں سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ فلپی کے مسیحی جانتے تھے کہ مسیح کے لئے دکھ اٹھانا کسے کہتے ہیں۔ اور وہ رسول کی طرح جانفشانی بھی کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ایمان کی خاطر قید بھی ہوئے ہوں۔ خیر یہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر اس میں کچھ کلام نہیں کہ وہ اپنی ہمدری اور مدد گاری کے ذریعے سے رسول کی بیڑیوں میں شریک تھے۔ کیا اس ملک ہند میں ہم مسیحیوں کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ مسیح کے لئے صبر کے ساتھ دکھ اٹھانا زیادہ تر منظور کریں اور دنیاوی حاکموں کے پاس استغائے کے لئے اس قدر دوڑ کر نہ جایا کریں؟

خوشخبری کی جواب دہی اور ثبوت میں وغیرہ

یہاںا نجیل کے کام کے دونوں پہلوﺅں کا ذکر ہے۔ یعنی ایک تو جواب دہی یا جب کوئی ہمارے ایمان پر حملہ کرے تو اس کا جواب دینا یا اپنے ایمان کو اس سے بچانے اور حفاظت کرنے کی کوشش کرنی اور دوم اپنے ایمان کو اوروں پر ثابت کرنے کے لئے ان سے گویا لڑنا یا ان پر حملہ کرنا۔ اول کام میں یہ باتیں داخل ہیں کہ مسیحی ایمان کے پھیلنے میں جو رکاوٹیں یا ہرج ہیں ان کو رستے میں سے دور کرنا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے جو جو تعصب جمے ہوئے ہیں ان کو ہٹانا اور اور مقاموں پر جہاں یہی لفظ آیا ہے ان کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پولس رسول نے اول تو یہودیوں کے سامنے حق کی تائید میں جواب دہی کی جس کا ذکر (اعمال ۲۲: ۱) میں آیا ہے۔ پھر حاکموں کے سامنے ایسا ہی کیا جس کا ذکر(اعمال ۲۵: ۱۶) میں درج ہے۔ پھر جھوٹے معلموں سے حق کی حمایت میں ایسا ہی کیا جس کا ذکر (۱۔ کرنتھیوں ۹: ۳) میں ہے۔ اور رومی شہنشاہوں اور باشندوں کے سامنے بھی جواب دہی کی جیسا کہ (۲۔تیمتھیس۴: ۱۶اور فلپیوں ۱: ۷، ۱۶) سے پایا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر ضرورے پڑے تو ہمارا فرض ہے کہ کلیسیا اور سلطنت کی مخالفت میں بھی حق کی حمایت کریں اور برملا دشمنوں اور جھوٹے دوستوں کی مخالفت میں بھی ایسا ہی کریں اور (۱۔پطرس۳: ۱۵) میں فرماتا ہے کہ ہم سارے آدمیوں کے سامنے اس کی حمایت کریں۔

ثبوت

اس لفظ سے کام کا ترقی پانا اور دانائی کے ساتھ قائم ہو جانا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لفظ صرف (عبرانیوں ۶: ۱۶) میں پھر کام میں آیاہے۔ کافی بیر اور ہوسن مفسروں کی رائے اس کے بارے میں یہ ہے کہ پولس اپنی تعلیم کی جواب دہی تو اپنے کلام سے کرتا تھا اور اس کا ثبوت اپن زندگی سے دیتا تھا۔

تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو

اس اصل کا زیادہ لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ ہو کہ میرے فضل میں شریک جیسا کہ تم سب ہو۔ ہم دیباچے کے چھٹے باب میں لکھ آئے ہیں کہ یہ لفظ جس کے معنی ہیں کسی شخص کا کسی کام میں دوسرے کے ساتھ شریک ہونا۔ یہ اس خط میں شراکت کے لفظو میں سے ایک لفظ ہے۔ یہی لفظ تین اور مقاموں میں بھی آیا ہے۔ ان سب کا باہم مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی ذیل کی باتوں میں باہم شریک یا حصہ دار ہوا کرتے ہیں۔

اول

جیسا (رومیوں۱۱: ۱۷) سے پایا جاتا ہے۔ زیتون کے درخت کی جڑ اور چکنائی میں شریک ہونا۔

دوم

جیسا (۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۳) سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجیل اور اس کی مبارک خدمت میں شریک ہونا۔

سوم

جیسا (فلپیوں ۱: ۷) سے ظاہر ہوتا ہے رسالت کی محنت کے خاص فضل میں شریک ہونا۔

چہارم

جیسا کہ (مکاشفہ ۱: ۹) میں آیا ہے۔ اس زندگی میں مسیح کے ساتھ صلیب اٹھانے میں اور دوسری زندگی میں اس کے ساتھ آسمانی بادشاہت میں شریک ہونا۔

فضل میں شریک ہو۔

اس میں نجات کا فضل۔ تقدیس کا فضل۔ خدمت کا فضل اور رسالت کے حق کا فضل عموماً سب کچھ شامل ہو سکتا ہے۔ مگر (۲۹) آیت میں جو اسی قسم کا لفظ کام میں آیا ہے اس کے لحاظ سے شاید فضل کے معنی اس مقام میں صرف یہ ہے کہ خوشخبری کے ثبوت میں دکھ سہنے کی خاص برکت میں شریک ہونا۔ اس بارے میں (افسیوں۳: ۲، ۸) کو بھی دیکھو۔ یاد رہے کہ ہر کسی کا کام نہیں ہے کہ قید میں پڑنے اور دکھ اٹھانے کو فضل جیسے ایک میٹھے لفظ سے تعبیر کرے۔

۸۔ خدا میرا گواہ ہے کہ میں مسیح یسوع کی سی الفت کر کے تم سب کا مشتاق ہوں۔

خدا میرا گواہ ہے

پولس رسول انجیل کا متاد ہو کر ذیل کی باتوں کے لئے خدا کو اپنا گواہ جانتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔

اول

جیسا (رومیوں ۱: ۹) میں لکھا ہے۔ اپنی دعا کے لئے تومریدوں کے حق میں۔

دوم

جیسا کہ اسی آیت میں بیان ہے۔ اس کے ان کے لئے مشتاق ہونے کے بارے میں۔

سوم

جیسا کہ (یعقوب۴: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی روح اس کی آرزو مند ہوتی ہے کہ میں کسی طرح انسانوں کی روحوں پر قبضہ پاﺅں۔

چہارم

جیسا (۱۔پطرس۲:۲) سے ظاہر ہے کہ مسیحی لوگ خدا کے کلام کے مشتاق ہوتے ہیں۔

۹۔ اور یہ دعا کرتا ہوں کہ تمہاری محبت علم اور ہر طرح کی تمیز کے ساتھ اور بھی زیادہ ہوتی جائے۔

(۹سے۱۱) جو ایک لاثانی دعا درج ہے اس میں ایک خاص مقصد کے لئے درخواست ہے کہ وہ ایک خاص طریق پر حاصل ہو جائے۔

اور یہ دعا کرتا ہوں کہ

اس عبارت میں جس اصل یونانی لفظ کی جگہ کہ کا لفظ کام میں آیا ہے۔ وہ یونان کی قدیم علمی زبان میں تو مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے دل میں مانگنے سے کیا مطلب تھا۔ مگر پچھلے زمانے کی یونانی میں وہی اصل لفظ دعا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں دعا مانگنے سے کیا مطلب تھا۔ مگر پچھلے زمانے کی یونانی میں وہی اصل لفظ اکثر مقصد یا مطلب کے معنی دیا کرتا تھا۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس جگہ وہ لفظ رسول کی دعا کا مطلب یا خلاصہ ظاہر کرتا ہے۔

کہ تمہاری محبت اور بھی زیادہ ہوتی جائے

یہ رسول کی دعا ہے۔ کہ محبت اپنے نہایت وسیع معنی یہ ہیں۔ یعنی کہ خدا اور انسان دونوں کی محبت اور ضرور بہ لحاظ ان اندرونی تنازعوں اور تکراروں کے جو کلیسیا میں مسیحیوں کے درمیان ہو رہے تھے۔ بڑھتی جائے۔ جب رسول یہ کہتا ہے کہ وہ اور بھی زیادہ ہوتی جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان میں اب بھی کسی قدر محبت تو ہے مگر اس کے کثرت کے ساتھ بڑھ جانے کی ضرورت ہے۔ جب محبت کثرت سے بڑھ جاتی ہے تو ایمان داروں کاشمار بھی ضرور بڑھ جاتا ہے۔ جب محبت کثرت سے بڑھ جاتی ہے۔ تو ذات پات کے خیالات سب مٹ جائیں گے۔

اور بھی

یا روز بروز جس اصل یونانی لفظ کا یہ ترجمہ ہے وہ نئے عہد نامے میں ٹھیک اس معنی میں صرف اسی مقام میں آیا ہے۔ وہ یونانی میں اگرچہ ایسا ہی ہے مگر معنی کے زور کے اعتبار سے کم ہے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور کوئی خوبی زیادہ ہو یا نہ ہو مگر محبت تو بہر حال بڑھتی جائے۔ رسول کے دل میں جو آگ بھڑکتی ہے وہ اس کہنے پر کبھی قناعت نہیں کرتی کہ بس کافی ہے۔ (یہ بنگل مفسر کا خیال ہے)

علم

جس اصل یونانی لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے معنی ہیں پورا علم۔ اور نئے عہد نامے میں اس لفظ سے مراد ہے روحانی علم زمانہ حال کے ان یورپین دہریوں کے خلاف جو ایگناسٹک کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ دعویٰ یہ ہے کہ ہم کو خدا کے بارے میں کوئی بات تحقیق معلوم نہیں ہو سکتی۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اپی ناسٹک بنیں یعنی کہ ہم کو خدا کی خصلت اور مرضی کا پورا اور صاف علم روحانی ادراک سے حاصل ہو۔

اس سے ہم کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کی آنکھیں بند کر کے اندھوں کی طرح نہ ہونی چاہئے۔ مگر علم و دانائی کے ساتھ ہو۔ جیسا کہ ان کی محبت جن کی دونوں آنکھیں بالکل کھلی ہوئی ہیں۔

ہم کو چاہئے کہ ہم اس روحانی علم میں اور ہندوﺅں کے گیان میں تمیز کریں۔ ہند میں لاکھوں آدمی ہیں جو اس گیان کو غایت درجے کی بھلائی یا سب سے اعلیٰ دینی حاصل خیال کرتے ہیں۔ مگر یہ گیان ایک حکیمانہ علم ہے۔ جو ٹھنڈا ٹھار اور مردہ شے ہے وہ وہمی خیال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر جو علم کہ رسول کہتا ہے وہ الہامی مذہب کی حقیقتوں کا وہ روحانی اکتساب یا ادراک ہوتا ہے کہ محبت کا بھرا ہوا گرم دل الٰہی پیش کش کو روحانی ہاتھ پھیلا کر لے لیتا ہے۔ یہ علم انسان کو ہر طرح سے بہتر بناتا ہے ۔ مگر جیسا کہ آئندہ لفظوں سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا خاص ظہور یہ ہے کہ انسان میں پاکیزہ زندگی پیدا کرے۔ مسیحیوں کے لئے یہ سچا علم ہی ان کے مقصد اعلیٰ کا ذریعہ ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ان کی خصلت اور زندگی بالکل بدل کر نئی ہو جائے۔

ہر طرح کی تمیز کے ساتھ

علم کا لفظ جو اس سے اوپر آیا ہے وہ اصول اور قواعد عام سے متعلق ہے۔ لیکن تمیز کا کام ہے ان اصول پر عمل کرنا۔ غرض ہماری محبت ایسے کاموں سے ظاہر ہو جو بڑی نزاکت اور باریکی کے موقعوں پر حکمت عملی اور پاک عقل عامہ کے ساتھ کئے جائیں۔ ہمارا کام ہے کہ مسائل کی تعلیم میں ہو خواہ روزمرہ کے کاموں میں ہو۔ بڑی تیز فہمی کے ساتھ عقل سے دریافت کریں۔ کہ جو بات یا کام ہمارے در پیش ہے اس کے ہر طرف کے قرائن اور اس کی تاثیروں کی رجوع کیسی اور کیا ہے اور جیسا موقع معلوم ہو اسی کے موافق عمل کرنا جانیں۔ یہ تمیز کا لفظ نئے عہد نامے میں پھر کہیں نہیں آیا ہے۔ مگر اس سے ملتی ہوئی شکل کا ایک لفظ (عبرانیوں۵: ۱۴) میں نیک وبد کی تمیز کرنے والے حواس کے لئے کام میں آیا ہے۔

تمیز کے ساتھ جو لفظ

ہر طرح کا آیا ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمیز کی ضرورت کوئی ایک نہیں۔ بلکہ طرح طرح کی مختلف صورتوں۔ حالتوں اور موقعوں کے موافق ہوا کرتی ہے۔ ایسی کار آمد اور عملی کی تمیز کی ہند کی نازک ابتدائی کلیسیا کے معاملات کے فیصلہ کرنے اور غیر مسیحی لوگوں کے درمیان انجیل سنانے کا کام کرنے میں بڑی ضرورت ہے۔

۱۰۔تا کہ عمدہ باتوں کو پسند کر سکو۔ اور مسیح کے دن تک صاف دل رہو اور ٹھوکر نہ کھاﺅ۔

اس سے پہلی آیت میں تو رسول کی دعا تھی۔ اب اس آیت میں وہ بیان کرتا ہے کہ جن باتوں کے لئے میں تمہارے واسطے دعا کرتا ہوں وہ کس طریق سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ یعنی جب تم کو کثرت کے ساتھ دانا یا نہ محبت حاصل ہو جائے۔ تو اس کو تمیز کی باتوں میں اور ان چیزوں میں کام لاﺅ جن کو تم نے اچھی طرح دیکھ بھال کے پسند کر لیا ہے۔ اس امر میں وہ مطلب ہو سکتے ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

اول

یہ کہ رسول فلپی کے مسیحیوں کے لئے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کو جن میں باہم فرق ہے اس طرح پرکھ سکیں جیسا کہ مقناطیس لوہے اور اور دھاتوں میں فرق دریافت کر لیتا ہے۔یعنی کہ جیسا بشپ مول فرماتے ہیں۔ خوب طرح چھان بین کر کے سچی اور پاک باتوں کو نقلی اور ملمع کی ہوئی باتوں سے الگ کر کے چھانٹ لیں اگر تمیز یا پرکھ اور جانچ کے لفظ کے معنی یہ لئے جائیں توسے معنی یہ لئے جائیں تو اس معنی میں یہ لفظ ذیل کے مقاموں میں بھی کام آیا ہے۔ (لوقا ۱۴: ۱۹) میں۔ (۱۔کرنتھیوں۳: ۱۳اور۱۱: ۲۸ اور ۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۴اور۵: ۲۱) میں وغیرہ وغیرہ ۔ اگر اس کا ترجمہ فرق کرنا کیا جائے تو اس کی تائید (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۱اور گلیتوں ۴: ۱) سے ہوتی ہے۔

دوم

ان لفظوں کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسول ان کے لئے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو پسند کریں جو اعلیٰ قسم کی ہیں یا قیاس سے باہر ہیں۔ یعنی کہ وہ ہمیشہ فضل کی اعلیٰ دولت کی طرف اپنا پسند کرنے والا ہاتھ بڑھایا کریں۔ اور نیچے کی دنیاوی چیزوں پر قناعت نہ کریں بلکہ سچی روحانی سمجھ سے ہمیشہ ان چیزوں کو اپنے لئے چنیں اور پسند کریں اور انہیں سے فائدہ اٹھائیں جو زندگی اور خدا پرستی کے لئے اعلیٰ اور پوری بخششیں ہم کو آسان سے عطا کی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر (۲۔پطرس ۱: ۳اور افسیوں ۱: ۱۸، ۱۹اور عبرانیوں ۶: ۱) اور اور مقاموں میں بھی ہوا ہے۔ پسند کرنے کے لئے جو لفظ ہے۔ اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں تو اس کی تائید (متی۶: ۲۲اور۱۰: ۳۱اور ۱۲: ۱۲اور گلیتوں۲: ۶) سے ہوتی ہے۔

جن عالموں نے انجیل کے ترجمے کی نظر ثانی کی ہے انہوں نے ان دونوں معنوں میں پچھلے معنی کو یعنی پسند کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اور بشپ لائٹ فٹ صاحب مفسر نے بھی اس معنی کو بہتر سمجھاہے۔ مگر بات یہ ہے کہ دونوں معنی جو ہم نے اوپر بیان کئے میں کھپ سکتے ہیں۔ اسی کے موافق لفظ (رومیوں۲: ۱۸) میں بھی آیا ہے۔ اس کے بھی یہ دونوں ترجمے ہو سکتے ہیں۔

مسیح کے دن تک

(۲: ۱۶) میں بھی یہی لفظ آئے ہیں۔ہم ان باتوں کو اس وقت بھی اپنے دلوں میں معلوم کریں اور مسیح کے دن کو ہمیشہ اپنے خیال کے سامنے رکھیں۔ ہم کو لازم ہے کہ اس وقت بے داغ اور بے ٹھوکر رہیں تاکہ جب خداوند آئے تو اس سے خوشی کے ساتھ اور بغیر شرم کے ملاقات کر سکیں مسیح کے دن کے بارے میں جو شرح کہ ہم نے (۵: ۶) میں لکھی ہے اس کو پڑھو۔

صاف دل رہو

ان لفظوں میں رسول اس مقصد کا بیان شروع کرتا ہے جو اس کے مد نظر تھا کہ اس کی ترکیب مذکورہ بالا سے حاصل ہوتا ہے یونانی میں اس مقصد کے شروع میں وہ صرف ربط ہے جو مطلب سے پہلے آتا ہے یعنی تاکہ۔ اور مطلب وہ ہیں ایک پاکیزگی اور دوسری وہ زندگی جس میں اچھے کاموں کے پھل کثرت سے لگتے ہیں۔

جس لفظ کا ترجمہ یہاں صاف دل ہوا ہے اس سے مطلب ہے۔ خالص بے میل بے کھوٹ۔ علیحدہ یعنی اچھوتا اور بے داغ۔

اس کے اصل لفظ کے تین مادے خیال کئے جا سکتے ہیں۔

اول

مادہ ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ فوج یا کمپنی۔ اس سے مطلب ہے۔ وہ لوگ جو باقاعدہ طور پر جنگی صفیں باندھے ہوئے الگ کھڑے ہیں۔ یعنی وہ جوان جو ہیں تو کھڑے ہوئے کھوئے سے کھوا بھڑائے ۔ مگر اور جو ملے جلے لوگ چاروں طرف کھڑے ہیں ان سے وہ علیحدہ ہیں اس میں مسیحی سپاہیوں کے لئے یہ خیال پیش کیا گیا ہے۔ کہ وہ دنیا سے تو علیحدہ رہیں۔ مگر اپنے خداوند کے لئے جو لڑائیاں در پیش ہیں وہ لڑتے رہیں ہم ہند کے مسیحیوں کے لئے اس میں یہ نصیحت ہے کہ ہم بت پرستوںکے درمیان تو بے شک رہنے ہیں۔ مگر چاہئے یہ کہ ہم بت پرستوں اور غلط پرستوں کی باتوں سے علیحدہ رہیں۔ضرور ہے کہ مسیح کی کلیسیا بت پرستوں کے دستوروں اور رسموں کے غلط ملط سے پاک رہے۔

دوم

اس کا مادہ ایک اور یونانی لفظ بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں سورج کی روشنی۔ اس سے جو خیال گزرتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز جس کو آفتاب کی روشنی نے خوب طرح جانچ پرکھ کر معلوم کر لیا ہو کہ وہ اب پاک صاف ہے۔ اور جو آلائش یا گندگی اس میں تھی وہ نکل آئی اور دور کر دی گئی۔ اس میں مسیحی مقدسوں کے لئے یہ نصیحت ہے کہ آفتاب صداقت نے ان کی خوب طرح چھان بین کر کے پاک صاف کر دیا ہے۔

سوم

اس کا مادہ ایک اور یونانی لفظ فعل ہو سکتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں۔ لڑھکتے جانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو باہر کی آلائش کسی چیز میں لگ جاتی ہے اس کو زمین پر لڑھکا کر چھڑا دینا اور اس چیز کو اس طرح خالص اور پاک کر لینا۔ اس میں ہم مسیحیوں کے لئے یہ خیال ہے کہ ہمارا دکھ اٹھانا گویا آزمائش کی جھلنی میں پھٹکا جانا ہے جس سے کوڑا الگ ہو جاتا ہے اور گیہوں الگ۔ مسیحی اس ترکیب سے ایسے صاف ہو جاتے ہیں جیسا کہ سونا جب پتھر میں ملا ہوا کان میں سے نکلتا ہے تو کونٹے اور دھونے سے خالص نکل آتا ہے۔

ان تینوں ترجموں میں سے اول ترجمہ عالمانہ اعتبار سے بالکل بے عیب ہے۔

اور ٹھوکر نہ کھاﺅ

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے دہرے معنی ہیں۔ ایک تو آپ ٹھوکر نہ کھاﺅ اور دوسرے یہ کہ کسی دوسرے کو ٹھوکر نہ کھلانا۔ یہ دونوں معنی اس موقع پر لگتے ہیں۔ مسیحیوں کو خود بھی اس دنیا میں اس طرح چلنا چاہئے۔ کہ بے ایمانی یا نافرمانی جیسے باعثوں سے رک نہ جائیں۔ اور ان کو اس بات کی بھی احتیاط رکھنی ضرور ہے کہ مبادا اپنی بری چاں سے دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوں۔ اس ملک میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کی آنکھیں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بد چلنی ان کو خدا کی راہ میں آنے سے روک دے۔

صاف دل رہنے کا لفظ مسیحی خصلت سے متعلق ہے اور ٹھوکر نہ کھانے کا لفظ مسیحی چال سے علاقہ رکھتا ہے۔

۱۱۔ اور راستبازی کے پھل سے جو یسوع مسیح کے سبب سے ہے بھرے رہو تا کہ خدا کا جلال ظاہر ہو اور اس کی ستائش کی جائے۔

راستبازی کے پھل

پھل کا لفظ (گلیتوں۵: ۲۲) میں بھی آیا ہے اور پھر یہی بات (یعقوب ۳: ۱۸) میں بھی آئی ہے اور (عبرانیوں ۱۲: ۱۱) کو بھی پڑھو کہ وہاں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ ممکن ہے کہ راستبازی کے پھل کا خیال پرانے عہد نامے کے اس ترجمے کی عبارت سے لیا گیا ہے۔ جس کو ستر ربیوں نے کیا تھا اور (امثال ۱۱: ۲۳اور۱۳: ۲اور(عاموس۶: ۱۲) میں یہ لفظ پائے جاتے ہیں۔ ان لفظوں کی ترکیب کو خیال کر کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ پھل جو خود راستبازی ہے یا وہ پھل جو راستبازی سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر (گلیتوں ۵: ۲۲) میں جو روح کے پھل کا ذکر ہے۔ ان سب کے ہم شکل ہونے سے قیاس یہی چاہتا ہے کہ دوسرے معنی صحیح ہیں۔ پس اب اس محاورے کے معنی یہ ہوں گے کہ راستبازی کا پھل یعنی مسیح کی راستبازی جو ایماندار کو منسوب کی جاتی اور اس سے وہ راستباز ٹھہرتا ہے اور روح القدس کے وسیلے سے وہ راستبازی روز بروز اس کے دل میں اثر کر کے اس کی تقدیس کا باعث ہوتی ہے۔ جس کا پھل اس طرح ظاہر ہوتا ہے۔ کہ اس شخص کی خصلت پلٹ کر نئی ہو جاتی۔ اس کا چال چلن خدا کی مرضی کے مطابق بن جاتا وہ دنیا کے سامنے اپنے خداوند کا ایک مبارک گواہ ہو جاتا اور اس کی خدمت و بندگی وفاداری سے بجا لانا ہے۔ اس بارے میں (یسعیاہ ۳۲: ۱۶۔۱۷) کو بھی دیکھو۔

جو یسوع مسیح کے سبب سے

اس پھل لانے کی شرط یہ ہے کہ ایماندار مسیح کے ساتھ ایک رہے (یوحنا ۱۵: ۱سے۱۶) تک جو تقسیم دی گئی ہے وہ سب یہاں چسپاں ہے۔

جب ہم مسیح کے ساتھ ایک ہوتے ہیں اور اس میں قائم بھی رہتے ہیں تو ہم اپنے اندر اس کی زندگی اور روح کے متواتر سرایت کرتے رہنے سے پھل پیدا کرنے بلکہ بہت ساپھل لانے کی قوت حاصل کرتے ہیں۔

بھرے رہو

اصل لفظوں کا مطلب یہ ہے کہ بھرے ہوئے رہ کر۔ یعنی کہ بھری ہوئی حالت جاری رہے۔ جب دل میں سچی پاکیزگی ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پھل پیدا ہو۔ (۹،۱۰) میں جس ترکیب اور پسند کا بیان ہے اگر اسے پورے درجے کا پھل پیدا نہ ہو تو اس کا مقصد پورا نہ ہوا چاہئے یہ کہ خدا کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ پھل سے لدے ہوئے ہیں۔

تاکہ خدا کاس جلال ظاہر ہو اور اس کی ستائش کی جائے۔

یہی مسیحیوں کی زندگی کا اصل مقصد اور مطلب ہونا چاہئے۔ ہماری زندگی کے پاکیزہ اور پھلدار ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم کو خود آرام و خوشی حاصل ہو۔ بلکہ اس سے صرف خدا کی بزرگی اور ستائش ہو۔ پس مشنریوں کی زندگی اور خدمت کے لئے یہ بات بڑی مقدم ہے اور ان کو اسے ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ ہند کی کلیسیا کی زندگی کا بڑا مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ اس سے خدا کی بزرگی اور جلال ظاہر ہو اور اس ملک پر کیا حصر ہے بلکہ ساری دنیا کے ملکوں کا یہی بڑا مقصد ہونا چاہئے کہ ان سے خدا کی حمد و بزرگی ہو۔

جلال و بزرگی

جلال و بزرگی سے مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوصاف ظاہر ہو جائیں۔

حمد ستائش سے مطلب یہ ہے کہ خدا کی ساری مخلوق اس کے اوصاف کی تعریف اور مبارک بادی بیان کیا کرے۔ اس بارے میں (افسیوں ۱: ۶)۔ کو بھی دیکھو۔

۲۱سے۶۲آیت تک پولس کی ذات خاص کا احوال

یعنی اس کی قید اور اس کے کام وغیرہ کا بیان ہے۔ اس حصے میں یعنی (۱۲سے۱۴) تک پولس اپنے قید میں پڑنے کا حاصل بیان کرتا ہے۔ اور (۱۵سے۱۸) تک اپنے مخالفوں کا ذکر کرتا ہے۔ پھر (۱۹ سے۲۰) میں اپنے حال کے بے تحقیق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے۔ اور (۲۱سے ۲۴) تک یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے کس بات کو پسند کر کے چن لیا ہے اور آخر (۲۵ ، ۲۶) میں اپنے بھروسے کا بیان کرتا ہے۔

۲۱۔ اور اے بھائیو۔ میں چاہتا ہوں تم جان لو کہ یہ مجھ پر گزرا وہ خوشخبری کی ترقی ہی کا باعث ہوا۔

مجھ پر گزرا

یہی الفاظ (افسیوں۶: ۲۱اور کلسیوں۴: ۷) میں آئے ہیں۔ انسان کی نظر سے اگر پولس کی ان وارداتوں کو دیکھا جائے تو جو نتیجے وہ بیان کرتا ہے کہ ان سے پیدا ہوئے وہ بالکل قرین قیاس نہیں معلوم ہوتے بلکہ اس کے خلاف ہیں۔ مگر چاہئے یہ کہ جتنی وارداتیں صادر ہوتیں ہیں ہم کو ان سب پر ایمان کی نظر سے خیال کیا کریں۔ اور یہ یاد رکھیں کہ خدا اپنے انتظام سے ان سب کی کچھ ایسی شکل پیداکر لیتا ہے کہ اسی کی مرضی پر آئے۔ جیسا کہ (رومیوں۸: ۲۸) سے بھی پایا جاتا ہے۔

خوشخبری کی ترقی ہی کا باعث ہوا

جس لفظ کا ترجمہ یہاں ترقی کیا گیا ہے اس سے خیال سفر بینا کا سا پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اصل میں اس کے معنی ہیں کہ جب کوئی شخص بے راہ جنگل میں گزر رہا ہو تو جو درخت یا ٹیلے اس کی سد راہ ہوں ان کا کاٹتے جانا اس طرح اپنے آگے کا راستہ صاف کر دینا۔ اس لفظ کا اسم تو اسی باب کی پچیسویں آیت میں اور (۱۔تیمتھیس ۴:۱۵) میں آیا ہے۔ مگر اس حرف کا فعل (لوقا ۲: ۵۲، رومیوں ۱۳:۱۲ ،گلتیوں۱: ۱۴اور۲۔تیمتھیس۲: ۱۶،۳: ۹اور۱۳) میں کام میں آیا ہے۔

ہند میں انجیل کے اس کام کی ضرورت ہے جس کو سفر مینا کا کام کہنا چاہئے۔ یعنی کہ رستہ صاف و تیار کرنا۔ پس ہم سب کو دعا مانگنی چاہئے۔ کہ انجیل کی ترقی اسی طرح ہو اور اسی مطلب کے لئے کام بھی کرنا چاہئے۔ یعنی کہ ہمارا خداوند جو فتح کرنے والا سردار ہے اس کے آگے بڑھنے کے لئے جو راہ سامنے ہے وہ صاف کر دی جائے۔

باعث ہوا

کے لئے جو لفظ ہے وہ زمانہ قریب کا فعل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ انجیل کی ترقی ہی کا باعث ہوا ہے اور اب تک ہوتا جاتا ہے۔

۱۳۔ یہاں تک کہ قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن اور باقی سب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مسیح کے واسطے قید ہوں

قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن

(اعمال۲۸: ۲۳) آیت میں لکھا ہے کہ پولس اپنے کرایہ کے گھر میں رہتا تھا۔ اور اسی جگہ قید تھا۔ پس قیصری پلٹن کے جو سپاہی باری باری سے پہرا دینے اس کے پاس آتے تھے وہ اس سے انجیل کی داستان سنا کرتے تھے اور واپس جا کر اور سپاہیوں کو بھی رسول کا وعظ جہاں تک یاد ہوتا تھا سنایا کرتے تھے۔ اس طرح پر مسیحی الہام کی بڑی بڑی باتیں تھوڑے ہی عرصے میں قیصری پلٹن کے سپاہیوں کو معلوم ہو گئیں۔ اور ہم یقین کر سکتے ہیں کہ ان جوانمرد سپاہیوں میں سے بعض لوگ مسیح کی صلیب کے بڑے مضبوط سپاہی بن گئے تھے۔

اور باقی سب لوگوں میں

ان لفظوں کی توضیح کے لئے (لوقا ۲۴: ۹اور۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۵)کو بھی پڑھنا چاہئے۔ کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسروں کی رائے یہ ہے کہ ان لفظوں سے مراد قیصر کی پلٹن کے سارے باقی سپاہی ہے اور مول صاحب کا خیال ہے کہ اس سے مراد ہے اور سارے لوگ یعنی رومہ کی خلق اللہ اور بشپ لائٹ فٹ صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ان لفظوں کا مطلب ہے عموماً اور سارے لوگ۔ بہر حال ان لفظوں کے معنی میں بہت سے لوگ شامل ہیں اس لئے اس کا ترجمہ بہت کھینچ کر نہیں کرنا چاہتی۔

یہ مشہور ہو گیا کہ میں مسیح کے واسطے قید ہوں

یعنی لوگوں کو صاف طرح معلوم ہو گیا کہ میرا قید میں پڑنا مسیح کی وجہ سے ہے اور اس لئے کہ میں ہمہ تن اس کے ساتھ ہوں اور نہ کسی قومی یا ملکی باعثوں سے۔ پولس رسول کی قید سے یہ نتیجے پیدا ہوئے کہ۔

اول

تو جیسا (اعمال ۱۶: ۲۶) وغیرہ میں لکھا ہے اسی شہر فلپی میں جیل خانہ کا داروغہ مسیح پر ایمان لایا۔

دوم

جیسا (فلیمون ۱۰اور۱۱) آیتوں میں بیان کیا گیا ہے رومہ شہر میں انیسمس ایمان لا کر نجات کا وارث ہوا۔

سوم

یہ کہ (فلپیوں ۱: ۷ ، ۱۳، ۱۴اور۱۷) سے پایا جاتا ہے۔ سارے رومہ شہرمیں انجیل کی منادی خوب طرح سے ہو گئی۔ غرض یہ کہ پولس کی بیڑیوں تک سے مسیح کی منادی اور اس کا کام پھیل گیا۔

۱۴۔ اور جو خداوند میں بھائی ہیں ان میں سے اکثر میرے قید ہونے کے سبب سے دلیر ہو کر بیخوف خدا کا کلام سنانے کی زیادہ جرات کرتے ہیں۔

خداوند میں

اگرچہ ان لفظوں کو دلیر ہونے کے ساتھ بھی لگا سکتے ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ ان کا تعلق لفظ بھائی کے ساتھ ہی سمجھا جائے۔ اس بارے میں اس شرح کو بھی دیکھ لو جو ہم (۲:۱۹) کے متعلق لکھی ہے۔

ان میں سے اکثر بھائی

یعنی خداوند میں جس قدر بھائی وہاں تھے ان میں سے زیادہ تر بھائیوں کے دلوں میں تو خداوند کے لئے جوش کی آگ بھڑک گئی مگر تھوڑے جو باقی رہے وہ بے پروا رہے یا تو اس لئے کہ ان کا دل نہ چاہتا تھا۔ یا وہ اس کام کے لئے کچھ دوستی نہ رکھتے تھے۔ یا وہ ڈر پوک تھے۔ (اعمال ۱۹: ۲۳اور۲۷: ۱۲اور ۱۔کرنتھیوں ۱۰: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں جب اکثر یا زیادہ تر (رومیوںکا ذکر آیا ہے تو وہ بار رہا مخالفت پر پائے گئے ہیں۔ مگر یہاں اس کے برعکس حال ہے۔

میرے قید ہونے کے سبب سے دلیر ہو کر

یعنی میری قید کے باعث سے ان کو دلیری حاصل ہو گئی۔ کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسروں کی بھی رائے یہی ہے اور اسی معنی سے رسول کا صحیح مطلب معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ رسول کی قید کا باعث ایک بڑا شاندار تھا۔ اور وہ ایک بڑے جلالی شخص کی منادی کرتا تھا۔ اس وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایک نیا جوش پیدا ہو گیا۔ خاص کر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ اس سے انجیل کی صاف طرح ترقی ہوتی ہے۔ پولس ایک ایسا شخص تھا کہ مسیح کے لئے بیڑیاں پہننے میں یعنی بڑی عزت سمجھتا تھا۔ اور ہر چند وہ قید میں پڑا ہوا تھا۔ تا ہم ہ جانتا تھا کہ میرا منجی مسیح ہی فتح مند ہے۔ بلکہ فتح کی نسبت بھی زیادہ تر اقبال مند۔ مسیحی جوش اور بہادری میں یہ اثر ہونا چاہئے کہ سب لوگوں میں سحر کی طرح تاثیر کرے۔

بے خوف

یہ لفظ ایک صفتِ فعل ہے اورا نجیل میں صرف چار دفعہ آیا ہے۔ بعض خادمانِ دین تو ایسے نالائق ہوتے ہیں کہ جیسا (یہوداہ ۱: ۱۲) میں لکھا ہے بے دھڑک اپنا پیٹ بھرتے ہیں مگر اس کے برعکس سچے مسیحی بھی ہوتے ہیں جو (لوقا ۱: ۷۴) کے مطابق بے خوف خدا کی عبادت کرتے ہیںیا جیسا (۱۔کرنتھیوں ۱۶: ۱۰) میں ذکر آیا ہے کہ وہ بے خوف خداوند کا کام کرتے ہیں یا جیسا کہ (فلپیوں ۱: ۱۴) میں لکھا ہے کہ خدا کا کلام بے دھڑک سناتے ہیں۔

خدا کا کلام سنانے

کلام کے بارے میں جو جو مختلف نام انجیل میں آئے ہیں ان پر غور کرنے سے بڑا فائدہ ہو گا۔ اس موقعہ پر جو لفظ ہے یعنی خدا کا کلام وہ تو معمولی ہے (متی ۱۳: ۱۹) میں بادشاہت کا کلام آیا ہے اور (اعمال ۱۵: ۷) میں انجیل کا کام یا خوشخبری کا کلام آیا ہے۔ (۱۔کرنتھیوں ۱: ۱۸) صلیب کا کلام لکھا گیا ہے۔ اور (افسیوں ۱: ۱۳) میں بعض اور مقاموں میں کلام حق مذکور ہوا ہے۔ (فلپیوں ۲: ۱۶اور ۱۔یوحنا ۱:۱) میں زندگی کا کلام آیا ہے۔ (کلسیوں ۳: ۱۶) میں مسیح کا کلام لکھا گیا ہے۔ اور (۱۔تھلسنیکیوں ۱: ۸) میں اور مقاموں میں خداوند کا کلام مذکور ہوا ہے۔ اور بعض اور بھی اصطلاحیں کام میں آئی ہیں۔

زیادہ جرات کرتے ہیں

یعنی کلام سنانے میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ دلیری یا جرات کرتے ہیں وہ مسیح کے لئے پہلے کی نسبت زیادہ اکثر اور زیادہ کھل کھلا اور زیادہ دلیری کے ساتھ گواہی دینے لگے۔ مسیحی دلیری یا جوانمردی کے بعض کاموں کے لئے جو یہی لفظ اور مقاموں پر آیا ہے ان پر بھی ذرا غور کریں۔

اول

تو (مرقس ۱۵: ۴۲) میں یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جرات سے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔

دوم

(رومیوں ۵: ۷) میں بعض آدمیوں کے اپنے نیک ہم جنسوں کے لئے اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرنے کا ذکر آیا ہے۔

سوم

پھر (۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۲) میں معلموں کی غلط تعلیم کی مخالفت پر دلیر ہونے کا ذکر ہوا ہے۔

چہارم

پھر اسی خط کے (۱۱: ۲۱سے۲۷) تک یہ بیان آیا ہے کہ انجیل سنانے والوں کو حق کے لئے کام کرنے اور دکھ اٹھانے میں دلیر ہونا چاہئے اور

پنجم

(فلپیوں۱: ۱۴) میں یہ لکھا ہے۔ کہ ایماندار انجیل سنانے کے لئے دلیر ہو گئے۔

۱۵۔بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے مسیح کی منادی کرتے ہیں اور بعض نیک نیتی سے۔

اس آیت میں دو طرح کے منادوں کا بیان ہے اور دونوں کے منادی کرنے کا باعث علیحدہ ہے رسول کہتا ہے کہ۔

بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے مسیح کی منادی کرتے ہیں

ان لفظوں میں ان آدمیوں کی طرف اشارہ ہے جو رومہ شہر کی کلیسیا میں اس بات کی کوشش میں تھے کہ مسیحیوں کو یہودی شریعت کے طریق کا بنا دیں۔ اسی بات کی طرف رسول نے (۳: ۲سے۱۵) تک پھر اشارہ کیا ہے(رومیوں۲اور۴ باب سے اور اور مقاموں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کے تھے اور ان کی تاثیر کہاں تک تھی۔ وہ انجیل کو تو مانتے تھے مگر اس بات پر بھی زور دیتے تھے کہ ختنہ کرنا ضرور ہے اور موسوی شریعت پر چلنا ہمیشہ فرض ہے وہ مسیحی تو تھے۔ مگر موسوی کفن کے اندر لپٹے ہوئے تھے اور ان کے اندر ان تفرقوں کی باتوں کا جوش بڑا سخت تھا وہ مسیح کی منادی تو کرتے تھے مگر ان کا مسیح وہ خاص مسیح تھا جو بالکل عبرانی خیال کے موافق تھا۔ ہم جو ہند میں رہتے ہیں اس سے خبردار ہیں کہ مبادا ایسے مسیحیوں کو برپا کریں جو ہند وﺅں اور مسلمانوں کے کفنوں کو پہن کر پھریں۔ یعنی جو جھوٹے مذہبوں کے پرانے مردہ دستور اور خیالات ہیں اور ان کو اختیار کر لیں۔ ذات پات کے خیال میں پڑے رہیں یا قومی دستوروں کو اپنا لباس پہنائیں۔

بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے

اگر اصل کے لفظوں کا یوں ترجمہ کیا جائے تو بہتر ہو کہ بعض واقعی حسد اور تکرار سے ایسا کرتے ہیں اگرچہ یہ کہنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اس کا یہ مشکل یقین کرے۔ تا ہم یہ بات تھی واقعی۔ حسد سے کرنے کے الفاظ (متی ۲۷: ۱۸اورمرقس ۱۵: ۱۰) آیت میں بھی آئے ہیں۔ ان مقاموں پر بھی ان لفظوں کا آنا قابل افسوس ہے۔ رومہ کی کلیسیا میں جو لوگ ایسا کرتے تھے۔ ان کا باعث یہ تھا کہ وہ پولس رسول کے رسوخ کا حسد کرتے تھے اور اس کے لئے جھگڑتے تھے کہ کسی طرح ہمارے ختنے کے حمایتی فریق کے طرف دار زیادہ ہو جائیں۔ اس ملک میں بھی ضرور ہے کہ ہم ان لوگوں کے حسد سے بری رہیں جو ہماری پیروی نہیں کرتے۔ اور ہم میں یہ تفرقے کا مزاج پیدا نہ ہوجائے کہ ہم کسی خاص ظاہری انتظام کو نجات کے لئے ضروری سمجھنے لگیں۔ کلیسیاﺅں کے باہم جو تفرقے ہیں ان کے لئے ہم سب کو افسوس کرنا اور ان سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ اور اگرچہ ہم کو چاہئے کہ اپنی اپنی کلیسیاﺅں سے ملے رہنے میں وفادار رہیں پھر بھی ہم اس کا خیال رکھیں کہ ہمارا سلوک اوروں کے ساتھ کشادہ دلی اور محبت کے ساتھ ہو۔

اور بعض نیک نیتی سے

جس لفظ کا ترجمہ نیک نیتی کیا گیا ہے۔ وہ انجیل میں یا تو اس معنی میں آتا ہے کہ کوئی شخص وہ کام کرے جو اسے اپنی نظر میں اچھا معلوم ہوتا ہے اس معنی میں یہ لفظ (متی ۱۱: ۲۶اور لوقا۱۰: ۱۹اورافسیوں ۱: ۵ اور۹ اورفلپیوں ۲: ۱۳) میں آیا ہے یا یہ لفظ اس معنی میں آتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک دل کی مرضی سے کوئی کام کرے اس معنی میں یہ لفظ (رومیوں ۱۰: ۱) میں اور شاید (لوقا۲: ۱۴ اور ۲۔تھسلنیکیوں ۱: ۱۱) میں کام آیا ہے۔ مگر جس مقام کی ہم یہاں شرح لکھ رہے ہیں اس میں یہ لفظ دونوں معنی میں شامل معلوم ہوتا ہے۔

یہ لوگ مسیح کی منادی اپنی پسند اور خوشی کی خاطر کے ساتھ بھی کرتے تھے۔ اور اپنی نیک نیتی سے بھی کیونکہ وہ اپنے ہم جنسوں کو بھی فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ اور رسول کے دل کو بھی خوش کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے بشپ مول صاحب اس کو وفاداری کی خوش خاطری کہتے ہیں۔

۱۶۔ ایک تو محبت کی وجہ سے یہ جان کر مسیح کی منادی کرتے ہیں کہ میں خوشخبری کی جواب دہی کے واسطے مقرر ہوں۔

خوشخبری کی جواب دہی کے لئے

ساتویں آیت میں بھی یہی لفظ آئے ہیں اس کو بھی پڑھو۔ جن لوگوں کے دلوں میں خدا کی اور انسانوں کی روحوں کی محبت تھی۔ ان سب کے دلوں میں بے شک پولس رسول کی جوانمردی کے کاموں کو دیکھ کر بڑا جوش سے پیدا ہوا ہو گا۔ کیونکہ اگرچہ وہ اکیلا شخص تھا اور قید میں پڑا ہوا۔ تو بھی کسی بہادری سے مسیحی کے قلعے کی حفاظت میں سرگرم تھا جیسا کہ (۲۔سموئیل ۲۳: ۱۱) میں بادشاہ کے سردار شمہ کا ذکر لکھا ہے کہ وہ اکیلا ساری فلستیوں کی فوج کے مقابلے میں اپنی جگہ پر کھڑا لڑتا رہا اور سارے دشمنوں کو اس اکیلے جوان نے تہ تیغ کیا۔ پولس بھی خوشخبری کی جواب دہی اور حمایت میں ساری مخالفین حملہ کرنے والوں سے اکیلا لڑتا تھا۔ ایسے بہادر سپاہی کو دیکھ کر کون لڑنے سے قدم پیچھے ہٹائے گا۔

میں (اس کام کے لئے) مقرر ہوں۔

بشپ مول صاحب ان لفظوں کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ان سے پاک ایسے سپاہی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جس کا پہرہ کسی لڑائی کے خطرناک مقام پر مقرر کیا گیا ہو۔ اور دشمن کے ہاتھ سے لشکر کی حفاظت کے لئے ایک سلسلہ تجاویز ٹھہرا لیا گیا ہو۔ رسول کے یہ لفظ فلپی کے مسیحیوں کے دلوں پر یہ خیال جمانے کے لئے لکھے گئے ہو کہ سرحد پر دشمنوں سے سلطنت کی حفاظت کرو۔

جس اصل لفظ کا ترجمہ مقرر کیا گیا ہے وہ فعل اور مقاموں پر بھی آیا ہے ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی

اول

تو جیسا کہ (متی ۵: ۱۴) میں لکھا ہے روشنی دینے کے لئے مقرر ہے۔

دوم

جیسا کہ (فلپیوں ۱: ۱۶) آیا ہے کہ وہ خوشخبری کی جواب دہی کے لئے بھی مقرر کیا گیا ہے۔

سوم

جیسا (۱۔تھسلنیکیوں۳:۳) میں مذکور ہے وہ مصیبتیں سہنے کے لئے بھی مقرر ہوا ہے۔ اس بارے میں (لوقا۲: ۳۴) آیت کو بھی دیکھو۔

اس لفظ میں کسی قدر پست ہونے کا بھی خیال گزرتا ہے۔ یعنی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خوشخبری کی عمدہ جواب دہی کرنے والے ہوں تو ضرور ہے کہ ہم اپنے آپ کو خاک کی طرح پست کریں۔ جیسا کہ سپاہی بھی جب میدان جنگ میں خواہ دشمن پر گولی چلاتا ہے۔ خواہ دشمن کے نشانے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے تو اکثر زمین پر لیٹ کر ایسا کرتا ہے۔

۱۷۔ مگر دوسرے تفرقے کی وجہ سے۔ نہ کہ صاف دلی سے۔ بلکہ اس خیال سے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں۔

تفرقے کی وجہ سے

جس یونانی لفظ کا ترجمہ ہے اس کے معنی اول یہ ہوا کرتے تھے۔ کہ مزدوری کے لئے محنت کرنا۔ پھر اس کے معنی یہ پڑ گئے کہ کوئی عہدہ حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کے پاس جا کر ان کی سفارش اور طرف داری حاصل کرنا۔ ہوتے ہوئے اس کے معنی یہ ہو گئے کہ کسی خاص فرقے کی طرف داری کا مزاج پڑجانا کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسر اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ چپکے چپکے اور فطرت کے ساتھ لوگوں کے ساتھ سازش یا جوڑ توڑ کرتے۔غرض یہ ہے کہ جن لوگوں کا رسول ذکر کرتا ہے کہ وہ مسیحیوں کو پرانے یہودی دستوروں اور شریعت کے پابند رکھنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں میں کمینہ پن کا وہ غصہ اور جھگڑا بھی تھا جو روزینہ دار مزدوروں کے باہم اپنی مزدوری کے بارے میں اکثر ہوا کرتا ہے۔ اور ملکی معاملات کی مجلسوں میں جو لوگ شریک ہونے کی خاطر بڑی جانفشانیاں کرتے اور لوگوں کے پاس جا کر اپنے لئے سفارشیں مانگتے ہیں ان کی سی سرگرمی بھی ان میں تھی۔ یہ لفظ (۲: ۳) میں پھر آیا ہے۔

نہ صاف دلی سے

لفظی معنی یہ ہیں کہ خلوص یا صفائی کے ساتھ نہی۔ یعنی ملے جلے اور گندے ارادوں سے کوئی کام کرنا۔ اس لفظ سے رسول مسیحی کام میں سارے کمینے اور نیچے خیالوں کے ساتھ کام کرنے اور کسی فرقے کے لئے طرف دار ہوجانے کی برائی ظاہر کرتا ہے۔ خدا کی بندگی صرف اس نیست سے کرنی کہ ہم کو اس سے روز گار یا روٹی ملتی ہے۔ یا کہ ہمارے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ صد قدلی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہے۔

بلکہ اس خیال سے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں

اس کی تفسیر بشپ لائٹ فٹ صاحب اس طرح کرتے ہیں کہ جو لوگ رسول کی اس تعلیم کی مخالفت میں کہ مسیحی پرانی شریعت کی رسموں سے آزاد ہیں لوگوں کو ابھارتے اور رسول کے برخلاف اس فرقے کی تعداد کو بڑھاتے ہیں وہ اس میں داخل ہیں اور بشپ مول صاحب کی تفسیر یہ ہے کہ جو لوگ متلاشیوں یا نومریدوں کو رسول کے پاس آنے سے روکتے تھے۔ ان سے مراد ہے۔ کافی بیر صاحب اور ہوسن صاحب کی تفسیر یہ ہے کہ ان لفظوں میں اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو رسول پر یہ الزام لگاتے تھے کہ اس کی تعلیم جھوٹی ہے اور قومی تعلیم کے برخلاف ہے اور اس طرح کو یہودی نسل کے مسیحی رومہ شہر میں رہتے تھے ان کی نظر میں رسول کو ذلیل کرتے تھے۔ غرض یہ کہ ان لفظوں میں رسول کا مطلب ان سب لوگوں سے ہے جن میں یہ ساری باتیں جو یہ مفسر بیان کرتے ہیں۔ پائی جاتی تھیں اور جن کی غرض یہ تھی کہ رسول کو بے عزت کریں اور کلیسیا میں نا اتفاقی پھیلائیں۔ جس لفظ کا ترجمہ یہاں یہ کیا گیا ہے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں۔ اس کا ترجمہ لائٹ فٹ صاحب یہ کرتے ہیں کہ وہ میری زنجیروں یا بیڑیوں سے میری ٹانگوں کو گھائل بناتے ہیں۔ حقیقت میں جو مصیبت کے لئے یونانی لفظ ہے اس کے اصلی معنی ہیں بھی یہی کہ کسی چیز کو رگڑنا اور دبانا۔

۱۸۔ پس کیا ہوا؟ صرف یہ کہ ہر طرح سے مسیح کی منادی ہوتی ہے بہانے سے ہو۔ خواہ سچائی سے اور اس سے میں خوش ہوں۔ اور رہوں گا بھی۔

پس کیا ہواصرف یہ کہ ہر طرح سے مسیح کی منادی ہوتی ہے

گویا رسول یہ کہتا ہے کہ اس کا کیا مضائقہ ہے؟ میں تو مسیح کا ایک شخص غلام ہوں اور کچھ چیز ہوں نہیں پس میرا اس میں کیا نقصان ہے؟ غرض رسول یہ کہنا چاہتا ہے کہ سب سے بہتر تو یہ بات ہے کہ میں ان کی مخالفت کا کچھ خیال نہ کروں مگر اس کا ایک اثر ضرور ہوتا ہے اور صرف ایک ہی اثر ہے۔ کہ اس سے میرے مالک مسیح کا نام مشہور ہوتا ہے۔ اور اس کے کام کی ترقی ہوتی ہے۔

بہانے سے

جس لفظ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں ”دکھانے کے ارادے سے“ یعنی جو ارادہ یا مطلب کہ ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ اور منصوبوں کے چھپانے کے لئے پردے کا کام دیتا ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو باتیں نہایت درست ہیں۔ وہ بھی دھوکے بازی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ اسی کی مثالیں انجیل میں اور مقاموں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً

اول

تو(مرقس ۱۲: ۴۰اورلوقا۲۰: ۳۷) میں دکھانے کے لئے دعا مانگنے کا ذکر ہے۔

دوم

(اعمال ۲۷: ۲۳) میں بہانے سے کچھ کام کرنے کا بیان ہوا ہے۔

سوم

(۲۔تھسلنیکیوں ۲: ۵) میں اسی جگہ کی طرح بہانے یا دکھاوے کے لئے منادی کرنے کا ذکر ہے۔

چہارم

(یوحنا ۱۵: ۲۲) ناواقفیت کے بہانے یا عذر کا مذکورہے جویونانی لفظ ان سارے مقاموں پر کام آیا ہے۔ وہ ایک ہی ہے۔

منادی

کے لئے جو لفظ اس آیت میں ہے وہ وہی ہے جو (۱۷) آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں لوگوں میں کسی بات کا اشتہار دینا یا کسی بات کی خبر سنانی۔

اس سے میں خوش ہوں اور خوش رہوں گا بھی

اس کا بہتر ترجمہ یہ ہے کہ میں اس سے خوش ہوتا ہوں۔ ہاں اور ضرور خوش رہوں گا۔ رسول جو یہ بات بیسا ختہ طور پر یکایک بول اٹھا ہے اس سے اس کے دل کے خیالات کی کش مکش پائی جاتی ہے اور یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ میرے دل کے اندر جو دو باتوں کی ردو بدل ہوئی ان کے بارے میں میں نے کس طرح اپنے نفس پر فتح پائی۔ جو شخص کی تابعدار ہے وہ اپنے ملک کی عزت بڑھتی ہوئی دیکھ کر خوشی منا سکتا ہے ہر چند اس سے اس کی اپنی ذات خاص کی بے عزتی ہوتی نظر آتی ہو۔ اس خیال کےمتعلق(یوحنا۳: ۲۹سے۳۰) کو بھی ملاحظہ کرو۔

غرض رسول جب یہ دیکھتا ہے کہ میرے مالک کی بزرگی ظاہر ہونے کاایک نیا موقع ہے تو اپنے دل کے خیالوں کو بالکل دبا دیتا ہے۔ پس اگرچہ یہ لوگ جو اس کے مخالف تھے مسیح کی منادی ایک بڑے نالائق مطلب کے لئے کرتے تھے تو بھی رسول اس میں دل سے خوشی منا سکتا تھا۔ کیونکہ اس بات سے بھی مسیح کی حقیقت غیر قوموں میں ظاہر ہوتی تھی۔ اس بارے میں اب اس کے سامنے یہ سوال پیش نہ تھا کہ وہ ان کے اس مخالف ارادے میں کہ پرانی یہودی شریعت اور دستور مانے جائیں ان باتوں سے انجیل کی تعلیم کے آزاد ہونے کی حمایت کرے۔ جیسا کہ اس نے کلیسیا کو پاک صاف رکھنے کی نیک سرگرمی سے گلیتوں کے بارے میں کیا تھا۔ مگر اس موقع پر غیر قوموں کے درمیان انجیل کی خوشخبری پھیلانے کا صرف ایک امر در پیش ہے۔

۱۹۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری دعا اور یسوع مسیح کے روح کے انعام سے اس کا انجام میری نجات ہو گا۔

تمہاری دعا سے

یہی لفظ چوتھی آیت میں بھی آیا ہے۔

رسول نے ان کے لئے خدا سے درخواست کی تھی۔ اب ان کی باری تھی کہ وہ بھی اس کے لئے خدا سے درخواست کریں۔ پولس اپنے خطوں میں مسیحیوں سے اکثر یہ استدعا کرتاہے کہ وہ اس کے لئے خدا سے دعا مانگیں۔ مثلاً (رومیوں ۱۵: ۲۳اور افسیوں ۶:۱۸، ۱۹اور کلیسوں ۴: ۲، ۳) آیتوں میں اور بعض اور جگہوں میں بھی۔

یونانی میں جس ترکیب سے یہ لفظ آئے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ روح کا انعام ان کی دعا کے جواب میں دیا گیا ہے معاملہ تو ایک ہی ہے اس کے پہلو دو ہیں۔ ایک تو ان کی طرف کا کام ہے۔ یعنی دعا مانگنا۔ دوسرا خدا کی طرف کا کام ہے۔ یعنی روح کا انعام دینا۔

یسوع مسیح کے روح کے انعام سے

ان لفظوں کی اصل ترکیب پر لحاظ کر کے اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

اول تو یہ کہ وہ کثیر انعام جو روح دیتا ہے۔ کافی بیر اور ہوسن مفسر ان ہی معنی کو لے کر اس فقرے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی روح کے وسیلے سے میری ساری احتیاجیں پوری ہو جائیں گی۔

لیکن اگر دوسرے معنی لئے جائیں تو یہ مطلب ہے کہ وہ کثیر انعام جو روح خود ہے۔ جس کی مراد یہ ہے کہ روح القدس جس کا لقب فار قلیط ہے وہ رسول کی روح کے اندر اور بھی زیادہ کثرت کے ساتھ حاصل ہو گا۔

اس مقام پر یہ دونوں معنی اچھی طرح کھپ سکتے ہیں۔ اگر خدا کا روح ہم کو زیادہ تر پورے طور پر حاصل ہو تو ضرور ہے کہ ہماری ساری احتیاجیں زیادہ تر پورے طور پر رفع ہو جائیں۔ مناسب ہے کہ ہند کا ہر مسیحی روح کے اس کثیرانعام کی تلاش میں رہو تو ضرورہے کہ جیسا (اعمال۱: ۸اور۴: ۳۱، ۳۲، ۳۳) میں لکھا ہے ہم کو قوت اور برکت دونوں حاصل ہوجائیں گی۔

انعام

یونانی میں جو لفظ ہے اس کا مطلب ہے کہ بخشش کا بڑی کشادہ دستی سے دیا جانا۔ یا اور زیادہ تر دیا جانا۔ (افسیوں ۴: ۱۶) میں یہی لفظ پھر آیا ہے۔ اور یونانی میں جو لفظ ہے جس کے معنی ہیں ناچنے گانے کی بڑی تکلیف کی محفلوں کا خرچ اٹھانا۔ اسی لفظ سے نکلا ہوا یہ لفظ ہے۔ مگر اس کے معنی میں بہت زور ہے۔ پولس رسول کو روح کے فضل وقوت کا انعام کثرت کے ساتھ ایک تو پہلے ہی حاصل ہو چکا تھا۔ اب وہ فلپی کے مسیحیوں کی دعا کے جواب میں اور زیادہ بخشش یعنی یسوع مسیح کے روح القدس کے نئے اور کثرت سے انڈیلے جانے کا امیدوار تھا۔ یہ وہ فار قلیط ہے جو یسوع مسیح میں سے صادر ہوتا اور اس کا مکاشفہ ایماندار کے دل میں پیدا کرتا ہے۔

اس کا انجام

اس کا اشارہ رسول کی آزمائش اور دکھ کی موجودہ حالتوں کی طرف ہے۔ یعنی رسول کا زنجیر بند قید خانے میں پڑا ہونا اور اسی کے ساتھ اور جس قدر کڑوی کڑوی باتیں اور مصیبتیں اس کو اٹھانی پڑتی تھیں۔

میری نجات ہو گا

یعنی میرے لئے اس کا انجام نجات یا مخلصی ہو گا یہ الفاظ جو رسول کی زبان سے یہاں نکلتے ہیں اس نے (ایوب ۱۳: ۱۶) سے جیسا کہ ستر ربیوں کے ترجمے میں الفاظ ہیں گویا بے معلوم نقل کئے ہیں۔

نجات کا لفظ اس مقام پر جیسا کہ بعض کا خیال ہے رسول کے بدن کی سلامتی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ بلکہ غالباً اس سے مراد ہے آخری یا ابدی نجات اور آسمانی جلال جو اس سے متعلق ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ (۲۸) آیت میں بھی کام میں آیا ہے جو خیال (۳: ۲۰) میں مندرج ہے اس کو بھی دیکھو۔ یہی انجام سچے ایماندار کی باطنی نظر کے رو برو رہنا چاہئے۔ اس بارے میں (رومیوں ۱۳: ۱۱اور ۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۸اور عبرانیوں ۹: ۲۸اور ۱۔پطرس۱: ۵) کو بھی ملاحظہ کرو۔ رسول کے اس خیال میں یہ بھی خیال شامل ہے۔ کہ میری مصیبتوں سے جو تعلیم وتربیت مجھے حاصل ہو گی۔ اس سے میری روحانی زندگی کو اور بھی ترقی ہو گی جو فتح یابیاں رسول کو اپنے نفس پر فی الحال حاصل ہو چکی تھیں۔ وہ خدا کی نجات بخشنے والی قوت اور فضل کے نئے ماحصل تھے۔ نجات جیسا کہ اعمال کے نئے ترجمے گے (۲: ۴۷) سے معلوم ہوتا ہے ایک عملی ترکیب بھی ہے اور انجام بھی۔

۲۰۔ چنانچہ میری دلی آرزو اور امید یہی ہے کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں۔ بلکہ میری کمال دلیری کے باعث جس طرح مسیح کی تعظیم میرے بدن کے سبب سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح اب بھی ہو گی۔ خواہ میں زندہ رہوں خواہ مروں۔

چنانچہ میری دلی آرزو اور امید یہی ہے

یعنی روح کا ایسا انعام میری دلی آرزو کے موافق ہے۔ دلی آزرو کے الفاظ (رومیوں ۸: ۱۹) میں صرف ایک بار پھر آئے ہیں اور ان کا مطلب ہے سر کو آگے کی طرف جھکائے ہوئے شوق کے ساتھ کسی شے کی تاک میں رہنا۔ جس طرح کہ کوئی گھوڑوں دوڑ کو سر آگے نکالے ہوئے تاکتا ہے۔ اس خیال میں یہ بھی شامل ہے کہ جو مطلب دل میں سمایا ہوا ہے اس کے شوق میں بالکل غرق رہنا۔ کسی بات کی لو۔ یا۔ دھن لگ جانے کے لئے جیسا کہ یہ محاورہ ہے اور ملنا مشکل ہے۔ جن دومقاموں پر یہ محاورہ آیا ہے ان سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ کہ مسیحی کا سارا دل و جان دو مطلبوں پر لگ جانا چاہئے۔

اول

تو جیسا اسی آیت میں درج ہے ہماری اسی زندگی کے درمیان مسیح کا جلال و بزرگی ظاہر ہونے پر۔

دوم

جیسا (رومیوں ۸: ۱۹) آیت میں آیا ہے آئندہ زمانے میں مسیح کے آنے اور اس کے متعلق ساری برکتوں پر۔

کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں

کسی بات میں نہیں کے لئے جو لفظ کئی بار اس خط میں آیا ہے اس پر ذرا غور کریں۔

اول

تو اسی مقام پر کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں۔

دوم

اسی باب کی اٹھائیسویں آیت میں کہ تم کسی بات میں دہشت نہیں کھاتے۔

سوم

(۲: ۳)میں کہ تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کوئی بات نہ کرو۔

چہارم

(۴: ۶)میں کہ تم کسی بات کا فکر نہ کرو۔

بشپ مول صاحب مفسر شرمندہ ہونے کے الفاظ کا مطلب اس آیت میں یہ سمجھتے ہیں کہ غلط فہمی کی شرم کے مارے ہراساں ہو جانا۔

بلکہ کمال دلیری کے باعث

دلیری کے لئے جو لفظ ہے اس کے مادے سے یہ خیال پیدا ہوا کرتا ہے کہ بولنے میں دلیر ہونا اور یہ رسول کے دل کا ایک پیارا خیال ہے۔ یہی خیال اس لفظ کا یونان کے پرانے فصیح مصنفوں نے بھی کیا ہے اور یہی خیال انجیل میں (اعمال ۴: ۱۳۔ ۲۹ اور ۳۱ اورافسیوں ۶: ۱۹) اور اور مقاموں پر بھی ظاہر نظر آتا ہے پس جب رسول کو روح کا زیادہ تر انعام ملے تو وہ اس کو مسیح کی گواہی دینے میں زیادہ تر دلیری کے ساتھ کام میں لانا چاہتا تھا۔ دلیری کا لفظ اس مقام میں شرم کے لفظ کے مقابلے میں آیا ہے۔

مسیح کی تعظیم ہو گی۔

یہاں خیال تو یہ گزرتا کہ رسول یہ کہتا کہ کمال دلیری سے فلاں کام کروں گا۔ مگر نہیں۔ پولس اپنے آپ کو چھپاتا ہے تا کہ اپنے خداوند کو دکھائے یہ اس کے قول کی ایک عملی مثال ہے جو اس نے (گلیتوں۲: ۲۰) میں بیان کیا ہے کہ نہ میں۔ بلکہ مسیح اسی خیال کے بارے میں (یوحنا ۳: ۳۰) پر بھی ذرا غور کرو۔ جس ترتیب کے ساتھ یہ لفظ اصل یونانی میں آئے ہیں۔ ا سے یہ خیال زور شور سے پیدا ہوتا ہے۔

میرے بدن کے سبب۔

جیسا (رومیوں۶: ۱۳ اور ۱۲:۱اور ۱۔کرنتھیوں ۶: ۲۰ اور۲۔کرنتھیوں ۴: ۱۰) سے پایا جاتا ہے۔ ایماندار کو لازم ہے کہ اپنا بدن خداکی روح کے نذر کر دے تا کہ وہ اس کے ہاتھ میں کام کرنے کا ایک آلہ بن جائے یہ کیا ہی عمدہ خیال ہے کہ خدائے بریں و قدوس ہمارے ناچیز بدنوں کے وسیلے سے بزرگی و جلال پائے۔ اس تعلیم میں اور ہندوحکما کی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو یہ سیکھاتے ہیں کہ جسم برائی کا پتلا ہے۔

خواہ میں زندہ رہوں۔ خواہ مروں۔

ان لفظوں میں رسول کی زندگی کے اس بھاری موقع کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے بارے میں اس کو تحقیق معلوم نہ تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مگر وہ اس وقت کے لئے خوشی سے بے خوف تیار ہے۔

۲۱۔کیونکہ زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے اور مرنا نفع ۔

کیونکہ میرے لئے

میرے کے لفظ پر یونانی میں بڑا زور دیا گیا ہے۔ پس اس سے رسول کا یہ مطلب ہے کہ اوروں کے لئے یہ بات کچھ ہی ہو۔ مگر میرے لئے تو جینا مسیح ہی ہے وغیرہ یہ یاد رہے کہ رسول یہاں میرے کا لفظ تعلق کے راہ سے نہیں لکھتا مگر اپنے دل کے ذاتی یقین اور تجربے پر زور دینا چاہتا ہے۔

میرے لئے زندہ رہنا مسیح ہے

اگر اسی بات کو مختصر اور پرزور لفظوں میں بیان کرنا چاہیں جو یہ ہے کہ زندگی مسیح ہے۔ ساری زندگی جس میں اس کا سارا تجربہ اور غرضیں اور شوق اور خواہشیں شامل ہیں۔ ان سب کا خلاصہ ایماندار کے لئے اس ایک لفظ میں آ جاتا ہے جو اس خط میں بار بار آیا ہے۔ یعنی مسیح (گلیتوں۲: ۲۰اور کلسیوں۳: ۴) میں بھی رسول نے یہی خیال درج کیا ہے۔ اسے بھی پڑھ لینا مناسب ہے۔ غرض یہ ہے کہ مسیح سے علیحدہ ہو کر زندہ رہنا زندگی نہیں ہے۔ مسیح کے ساتھ رفاقت رکھنا۔ اس کی خدمت میں لگے رہنا ہر بات میں اسی کو اپنی سب سے بڑی غرض سمجھنا۔ اس کا نام تحقیق زندگی ہے۔ ان الفاظ میں جو فعل کا لفظ ہے اس کی مراد ہے زندگی کے اسی طریق پر برابر جاری رہنا۔

اس بات میں مسیحی مذہب اور سارے مذہبوں سے فرق رکھتا ہے۔ کیونکہ در حقیقت اور کسی مذہب کا ماننے والا اپنی نسبت یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی میرے زندہ خداوند کی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہے۔

اور مرنا نفع۔

یعنی موت نفع ہے۔ پہلے جو جینے کا لفظ آیا ہے اس کے مقابلے میں اب مرنے کا فعل جس زمانے کے صیغے میں آیا ہے۔ وہ غور کے لائق ہے۔ اس کا مطلب یا تو وہ ہے کہ انسان کی زندگی کا وہ بڑا بدلنے والا وقت جو مرنے کی حالت میں آتا ہے یا شاید اس سے یہ مطلب ہو جو اس سے بہتر ہے کہ موت کا نتیجہ یعنی وہ حالت جو موت کے بعد ہو گی جیسا رسول نے تئیسویں آیت میں آگے بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے مسیحی کے لئے موت کا ڈنک یعنی اس کا ڈر خوف اب جاتا رہا ہے اور وہ اب صرف وہ دروازہ ہے جس میں سے سچے مسیحی داخل ہو کر آسمانی بادشاہ کی عین حضوری میں داخل ہوتے ہیں۔ نفع کا لفظ جو ایک اسم ہے نئے عہد نامے میں صرف تین بار آیا ہے اگرچہ اسی کے مادے کا جولفظ کہ فعل ہے وہ پندرہ دفعہ کام میں آیا ہے ۔ جیسا مثلاً (۳: ۸) میں۔

اول

تو نفع کا لفظ (طیطس ۱: ۱۱) میں لالچ کے باعث سے شرمناک نفع کے لئے آیا ہے۔

دوم

(فلپیوں۳: ۷) میں ان کی محض مذہبی نفع کی باتوں کے لئے جو بے فائدہ ہیں۔

سوم

(فلپیوں ۱: ۲۱) میں یعنی اس مقام پر جہاں ابدی خوشی کے جلالی نفع کا ذکر ہے۔

۲۲۔لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی میرے کام کے لئے مفید ہے تو میں نہیں جانتا کہ کسے پسند کروں۔

لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی

لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی۔ وغیرہ۔ اس آیت کی ترکیب بڑی ٹوٹی پھوٹی ہوئی سی ہے۔ جس سے رسول کے دل کی حالت میں کچھ پریشانی سی پائی جاتی ہے اس آیت کا اصل سے ترجمہ کرنا مشکل ہے اور اس کے کئی ترجمے کئے گئے ہیں۔ جو ترجمہ کے متن میں ہے۔ اس کے علاوہ ذیل کے ترجموں کی طرفداری میں بھی سالموں کی رائے بہت زور کے ساتھ ہے۔

اول

یہ کہ لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی میری مخنتوں کے باعث سے پھل لائے تو کیا؟ درحقیقت میں نہیں جانتا کہ میں کس کو پسند کروں؟ یہ بشپ لائٹ فٹ صاحب کا ترجمہ ہے۔ اور اس سے ایک بڑا عمدہ مطلب پیدا ہوتا ہے۔

دوم

یہ ہے کہ اگر جسم میں زندہ رہنا میرا حصہ یا میری قسمت ہو۔ تو یہ میرے کاموں کا پھل ہے۔ اور جو بات کہ میں پسند کرتا وہ میں نے نہیں جانی۔

یہ نئے ترجمے کی وہ عبارت ہے جو حاشیہ میں لکھی گئی ہے۔ اور یہ معنی بھی صاف ہیں اگرچہ کچھ بات جو ان میں نہیں ہے۔ عقل سے لگانی پڑتی ہے۔ اس ترجمے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے لئے خدا کی مرضی یہ ہو کہ میں جسم ہی میں زندہ رہوں۔ تو میری آئندہ زندگی میں مسیح کی خدمت کرنے اور اس کے لئے پھل لانے کے لئے نئے نئے موقعے پیدا ہوں گے۔ یہ بے شک اچھی بات ہے۔ تاہم اس جہان سے رخصت ہو کر مسیح کے ساتھ رہنا بھی اچھا ہے۔ اس لئے مجھے صاف صاف دکھائی نہیں دیتا کہ میں ان میں سے کس بات کو پسند کروں اصل یونانی میں جو لفظ دکھائی دینے کے لئے ہے اس کے معنی ہیں پہچاننا جیسا کہ جب کوئی اپنے بڑے واقف کار شخص کے چہرے کو دیکھ کر کہتا ہے۔

ان دونوں ترجموں میں سے چاہے جو فسالے لو۔ دونوں کا مطلب در حقیقت ایک ہی ہے اور جو عبارت کہ نئے ترجمے کے متن میں ہے اس سے یہ دونوں صاف معلوم ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ جو زندگی درحقیقت مسیح میں گزرتی ہے اس کا قدرتی ظہور یہ ہوتا ہے۔ کہ ایسے کام کرے جن سے اچھے پھل پیدا ہوں۔

۲۳۔ میں دونوں طرف پھنسا ہوا ہوں میرا جی تویہ چاہتا ہے کہ کوچ کر کے مسیح کے پاس جا رہوں۔ کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہے۔

میں دونوں طرف پھنسا ہوا ہوں

اس کا بہتر ترجمہ یہ ہے کہ یہی نہیں بلکہ میں دونوں طرف یا دونوں پہلوﺅں سے گھیرا ہو یا رکا ہوا ہوں۔ گویا رسول دونوں پہلو سے بھیجا ہوا تھا جیسا کہ کوئی شخص دو دیواروں کے درمیان بند ہو جاتا ہے۔ (گنتی ۲۲: ۲۶) کو دیکھو کہ وہاں بھی یہی خیال ہے غرض یہ ہے کہ پولس رسول دو مشکلوں کے اندر پھنسا ہوا تھا۔ دو باتیں اس کے سامنے تھیں اور دونوں نے حد برکتوں کا باعث تھیں۔ اس کا کام تھا کہ ان دونوں میںسے ایک کو پسند کر لے۔ ایک طرف تو دنیا میں رہ کر مسیح کے لئے پھلوں سے بھری ہوئی زندگی تھی اوردوسری طرف آسمان میں جا کر مسیح کے ساتھ خوشی کی بھری ہوئی زندگی کا لطف حاصل کرنا تھا۔ یہ لفظ جس کے معنی ہیں پھلسا ہوا۔ یا گھیرا ہوا نئے عہد نامے میں کئی بار آیا ہے۔

اول

(متی۴: ۲۴ اور لوقا ۴: ۳۸ اور اعمال ۲۸: ۸) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ لوگ بیماریوں اور تکلیفوں میں گرفتار تھے۔

دوم

(لوقا ۸: ۳۷) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ گراسین کے ملک کے لوگوں پر بڑی ہیبت چھا گئی تھی۔

سوم

(لوقا ۱۲: ۲۵) میں جہاں مسیح نے کہا کہ مجھے ایک بپتسمہ لینا ہے۔ اور جب تک وہ نہ ہو لے میں کیا ہی تنگ ہو ں گا۔

چہارم

(اعمال ۱۸: ۵) میں یہ لکھا ہے کہ پولس کلام سنانے کے جوش سے مجبور تھا۔

پنجم

یہی فلپیوں کی آیت ہے جہاں پولس دو برعکس خواہشوںکے درمیان سخت طرح پھنسا ہوا ہے۔

میرا جی تو چاہتا ہے

رسول کے دل کی خواہش تو یہی تھی کہ وہ اس جہاں سے رخصت ہو۔ مگر جب وہ یہ دیکھتا تھا کہ میرا فرض کیا ہے۔ تو دوسری طرف کی خواہش پر مائل ہوتا تھا۔ جس لفظ کا ترجمہ خواہش کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے بڑے زور شور کی آرزو۔

کہ کوچ کر کے

اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اپنا بندھن تڑاکر۔ یہ لفظ اس موقع پر آیا کرتا ہے۔ جب فرج سفر میں ہوتی ہے اور جہاں پڑاﺅ کرتی ہے اس کو دوسری صبح توڑ ڈالتی اور آگے کو روانہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ڈیرہ تنب ایک جگہ سے اٹھایا جاتا یا جہاز یا کشتی ایک کنارے پر ٹھہرنے کے لئے رسے سے کسی درخت یا ملبے سے باندھ دی جاتی ہے۔ اور پھر روانہ ہونے کے وقت وہ بندش توڑ دی جاتی ہے۔ غرض پولس کے دل کی بڑی آرزو یہ تھی کہ وہ اپنی کشتی کا لنگر اس دنیاکے سمندر سے اٹھائے یا اپنا خیمہ جو اس دنیا کے میدان میں کھڑا کر رکھا ہے۔ اسے اکھاڑ کر دوسری دنیا کی طرف جو اصلی وطن ہے کوچ کرے اور مسیح کے پاس پہنچ جائے۔ اسی بارے میں (۲۔کرنتھیوں ۵: ۱سے۸) تک پڑھو۔ کوچ کرنے کے لئے جو لفظ ہے۔ وہ (لوقا ۱۲: ۳۶) میں صرف ایک جگہ اور آیا ہے یعنی جب خداوند شادی کے لئے ایک دور دراز پردیس کے ملک کو گیا تھا تو وہاں سے روانہ ہو کر یا کوچ کر کے پھر اپنے مقام کو واپس آیا تھا۔ اسی فعل کے مادے کا اسم بھی صرف ایک بار آیا ہے۔ اور وہ (۲۔تیمتھیس۴: ۶) میں ہے اور وہاں بھی جسم سے رخصت ہونے یا کوچ کرنے کا مطلب ہے۔

مسیح کے پاس جا رہوں

جب ایماندار مر جاتا ہے تو سیدھا اپنے خداوند کے سامنے جا حاضر ہوتا ہے۔ جیسا کہ (۲۔کرنتھیوں ۵: ۶سے۸) تک بیان کیا گیا ہے۔ درمیانی حالت کچھ ہی کیوں نہ ہو مگر ایماندار کے لئے یہ بات جو یہاں لکھی گئی ہے ضرور پوری ہوتی ہے۔ جب تک وہ اس جہان میں رہتا ہے۔ تب بھی تو وہ روحانی اعتبار سے ایمان کے وسیلے مسیح کے ساتھ ہی رہتا ہے مگر موت کے بعد وہ اس سے بھی زیادہ صاف اور پاک طرح پر آمنے سامنے مسیح کے ساتھ رہے گا۔ ہندوﺅں کی امید کے مقابلے میں جو ایک بھیانک اور بلا تحقیق بات ہے کہ انسان اپنے اعمال کی سزا اٹھانے کے لئے بے انتہا دفعہ پے در پے جون بدلتا ہے۔ مسیحی ایماندار کی یہ امید کیسی عمدہ ہے کہ جب میری موت آئے گی تو میرے لئے با تلحقیق ایک ایسی حالت تیار ہے جو خوشی سے بھری ہوئی ہے۔ مسیحی امیدوار روائیتوں کے مسئلے کی بھی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ ان کا ایمان یہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد ہم اس سب سے بزرگ روح میں محو یا مجذوب ہو جائیں گے جس کو اپنی ہستی کا خود ہوش حواس نہیں ہے۔ اس کو کو میں کو مل میں جانا کہتے ہیں۔

کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہے

یعنی بہت زیادہ بہتر ہے ان الفاظ میں ایک دوسرے پر فوقیت کی تین تفصیلی صفتیں لگی ہوئی ہیں۔ یعنی بہت اور زیادہ اور بہتر۔ پر اگر ہم اس بات کو یاد رکھیں کہ اس دنیا سے گزر کر مسیح کی بار گاہ میں جا حاضر ہونا۔ اس جہان میں رہ کر پاکیزہ کاموں یا پھلوں کی خوشی آمیز زندگی کی نسبت بھی بہت زیادہ بہتر بیان کیا گیا ہے۔ تو اس سے ان دونوں باتوں کے درمیان کے مقابلے کو بہت ہی زور پیدا ہو جاتا ہے۔

۲۴۔ مگر جسم میں رہنا تمہاری خاطر زیادہ ضروری ہے۔

اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ جسم کے ساتھ یا جسم کے وسیلے سے قائم رہنا یعنی اس موجود زندگی کو اس کی ساری آزمائش اور ترتیب و سیاست کی حالتوں کے ساتھ چمٹے رہنا۔

تمہاری خاطر

یہاں یہ بات بڑی غور کے لائق ہے کہ پولس جو اول درجے کا ایک مشنری گزرا ہے وہ اپنی ذات کے فائدے کا خیال کچھ نہیں کرتا۔ اوروں کا فائدہ اور مطلب اس کی نظر میں سب سے مقدم ہے۔ (۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۳) میں تو ذکر آیا ہے۔ کہ خوشخبری یا انجیل کا خاطر۔ اور اس مقام پر پولس کہتا ہے کہ تمہاری خاطر۔

زیادہ ضروری ہے

ایک مقابلہ تو (۲۳) آیت میں ہے اور ایک یہاں ہے ان دونوں میں جو فرق ہے اس کو غور کرو۔ رسول کے لئے تو جانا بہت زیادہ بہتر ہوتا۔ مگر ان کے لئے یا ان کی خاطر اس کا ٹھہرے رہنا زیادہ ضروری ہے۔ یعنی اپنے ذاتی فائدے کا پلڑا تو ایک طرف جھکتا ہے اور ان دونوں کے لئے جو اس کا فرض ہے اس کا پلڑا دوسری طرف جھکتا ہے اور ان دونوں میں سے ضرور ہے کہ پچھلا پلڑا بوجھ کے مارے نیچے کو جھک جائے۔ اور غالب آئے۔

۲۵۔ اور چونکہ مجھے اس کا یقین ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ زندہ رہوں گا۔ بلکہ تم سب کے ساتھ رہوں گا۔ تا کہ تم ایمان میں ترقی کرو اور اس میں خوش رہو۔

اور چونکہ مجھے اس کا یقین ہے

یقین کے لئے یہاں بھی وہی لفظ آیا ہے جو (۶) آیت میں ہے۔ رسول کا یقین اس خط میں غور کے قابل ہے۔ (۱: ۶اور۲۵ ا اور ۲: ۲۴ اور ۳:۳ اور۴) میں یہی خیال درج ہے۔

اس لئے میں جانتا ہوں

یہ دل کے بڑے یقین کے لفظ ہیں (اعمال ۲۰: ۲۵) میں بھی یہی لفظ آئے ہیں مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہاں جس یقین کا بیان ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ جو امید پولس رسول نے اس مقام پر ظاہر کی ہے وہ (۱۔تیمتھیس ۱: ۳)کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری بھی ہوئی۔ اب رہی وہ دوسری امید کہ جو اسی رسول نے (اعمال۲۰: ۲۵) میں ظاہر کی تھی۔ اس کے بارے میں لائٹ فٹ صاحب اور اور بھی مفسروں کی رائے ہے کہ اس موقع پر ایسی صورتیں پیش آئیں تھیں کہ خدا نے رسول کی امید کو پورا نہ کیا۔ تا ہم ممکن ہے کہ اس صورت میں بھی رسول کی امید کسی ایسے طور پر جس کا حال معلوم نہیں ہوتا پوری ہو گئی ہو۔ اگرچہ اس امر کے لئے جو شہادت ہے کہ رسول اس وقت کے بعد پھر افسس میں گیا تھا قطعی معلوم ہوتی ہے۔ خیر یہ بات کسی طرح پر ہو مگر اس میں تو کچھ شک نہیں کہ اس موجودہ آیت میں جس امید کا ذکر ہے وہ پوری ہوئی تھی۔

کہ میں زندہ رہوں گا بلکہ تم سب کے ساتھ رہوں گا

(۲۴) آیت میں جو ایسا ہی لفظ ہے۔ اس کا ترجمہ توہے رہے جانا آئندہ زمانے تک۔ چنانچہ وہاں یہ عبارت ہے کہ جسم میں رہنا۔ یا۔ قائم رہنا۔ مگر اس آیت میں جو یہ لفظ دو دفعہ آیا ہے اس کے معنی ہیں کہ میں رہوں گا۔ بلکہ تم سب کے ساتھ ساتھ رہوں گا۔ یعنی میں تمہارے ساتھ ساتھ زندہ رہوں گا یا میری زندگی تمہارے ساتھ ساتھ باقی رہے گی۔ ان دونوں فعلوں میں سے جو پچھلا فعل ہے اس کے معنی ہواکرتے ہیں بعض شخصوں کے ساتھ رہنا یا ایک خاص تعلق میں رہنا۔ پس یہاں معنی یہ ہیں کہ میں پولس تمہارے ساتھ معلم مدد گار اور رفیق کی حیثیت سے قائم رہوں گا۔

تا کہ تم ایمان میں ترقی کرو اور اس میں خوش رہو

ترقی کے لئے یہاں بھی وہی لفظ ہے جو (۱۲) آیت میں آیا ہے۔ ایمان کا جو لفظ ہے وہ ترقی اور خوشی دونوں سے متعلق ہے اور اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ جو مسیحی عقیدے کے ہوتے ہیں۔ یا ایماندار کے دلی بھروسے یا یقین سے بھی مراد ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں ان لفظوں کے معنی ہوں گے تا کہ تم بھروسہ کرنے والی زندگی میں اور جو خوشی کہ اس طرح بھروسہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے اس میں ترقی کرو۔ (۲۔تھسلنیکیوں ۱: ۳ اور رومیوں ۱۵: ۱۳ اور ۱۔پطرس ۱: ۸) میں بھی یہی خیال درج ہے ان کو بھی پڑھو۔

اس آیت میں مسیحیوں کی خوشی پر رسول نے پھر زور دیا ہے۔ جس کا ذکر ہم نے دیباچے کے چھٹے باب میں کیا ہے۔

۲۶۔اور جو تمہیں مجھ پر فخر ہے۔ وہ میرے پھر تمہارے پاس آنے سے مسیح یسوع میں زیادہ ہو جائے۔

اور جو تمہیں فخر ہے

فخر کے لئے جو لفظ یہاں ہے وہ (رومیوں ۴:۲اور۱۔کرنتھیوں۶:۵اور۱۵:۹۔ ۱۶اور۲۔کرنتھیوں ۱:۱۴اور۱۲:۵اور۳:۹اور گلیتوں ۴:۶اورفلپیوں۱۶:۲اور عبرانیوں۶:۳) میں بھی آیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ میرے اندر اور میرے وسیلے سے خداوند کا فضل ظاہر ہوتا ہے کہ جب تم دیکھو کہ میرے اندر اور میرے وسیلے سے خداوند فضل ظاہر ہوتا ہے تو تم میرے باعث سے خوش ہونے یا فخر کرنے کی وجہ معلوم کرو۔

مجھ پر

یا مجھ میں۔ رسول یہ کہتا ہے کہ مجھے دیکھ کر یا میرا خیال کرکے تمہارے تمہارے پاس جو میرے مشتاق دوست ہو آنے کا موقع دے گا تو تم اس وقت میرے باعث سے بہت خوش ہو گے۔

وہ میرے پھر تمہارے پاس آنے سے

یعنی میرے پھر تمہارے پاس حاضر ہونے سے۔ یاد رہے کہ جو لفظ اس مقام پر حاضر ہونے یا موجود ہونے کے لئے آیا ہے۔ وہ نئے عہد نامے میں عموماً ہمارے خداوند کے دوبارہ آنے کے لئے کام میںآیا کرتا ہے۔ پولس رسول اس لفظ کو ایک بار اور اسی خط کے(۲:۱۲) میں کام میں لایا ہے۔ اور وہاں بھی اس کے معنی اس کے خود حاضر ہونے کے ہیں۔

مسیح یسوع میں

یعنی مسیح یسوع تمہارے خوش ہونے اور فخر کرنے کا دائرہ ہو۔ تمہاری خوشی اور فخر اور اسی سے متعلق رہے۔ رسول پولس ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہتا ہے۔ کہ سارے مسیحی جو کچھ دلوں میں معلوم کریں وہ ایمان کئے وسیلے خداوند مسیح میں پیوند ہونے کی وجہ سے معلوم کریں۔ اس بارے میں جو کچھ ہم نے (۱۹:۲) کے متعلق لکھا ہے۔ وہ بھی دیکھو۔

زیادہ ہوجائے گا

جس لفظ کا ترجمہ زیادہ ہو جانا کیا گیا ہے۔ وہ وہی لفظ ہے جو (۹) آیت میںبھی آیا ہے۔ اور یہ رسول کا ایک دل پسند لفظ ہے وہ اس کو اپنے خط میں ۶۲ دفعہ کام میں لایا ہے۔ اور فلپیوں کے خط میں یہ لفظ پانچ دفعہ آیا ہے (۹:۱ اور۲۶اور۴:۱۲) میں دو دفعہ اور پھر (۱۸:۴) میں۔

۲۷۔ صرف یہ کرو کہ تمہارا چال چلن مسیح کی خوشخبری کے موافق رہے تا کہ میں خوا آﺅں اور تمہیں دیکھوں خواہ نہ آﺅں تمہارا حال سنوں کہ تم ایک روح میں قائم ہو اور انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے ہو۔

(۲۷سے۳۰)تک رسول مسیحی چال چلن اور دلیری کے لئے نصیحت کرتا ہے۔

صرف

یعنی خواہ تم مجھے پھر دیکھو خواہ نہ دیکھو۔ صرف کے لفظ کے ساتھ کچھ عبارت مفہوم ہے جو رسول نے چھوڑ دی ہے۔ اسی طریق کی عبارت اسی لفظ صرف کے ساتھ (گلیتوں ۱۰:۲اور۱۲:۶اور۲۔تھسلنیکیوں۲:۷اور شاید ۱۔کرنتھیوں ۷:۳۹) میں بھی آئی ہے۔ ان کو بھی دیکھو۔

کہ تمہارا چال چلن وغیرہ

اس عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ کہ تم اپنی زندگی اس حیثیت سے کہ رومی شہر کے باشندے ہو۔ اس طرح گزارو کہ مسیح کی انجیل کے لائق ہو۔ اس طرح گزارو کہ مسیح کی انجیل کے لائق ہو۔ چونکہ پولس رسول سلطنت رومہ کے پایہ تخت سے اپنا خط ان مسیحیوں کو لکھ رہا تھا۔ جو ایک رومی بستی کے باشندے تھے۔ اس لئے اس کا ان کو بہ حیثیت رومی شہریوں کے استعارے کے پیرایہ میں یہ لکھنا ایک مناسب بات تھی۔ (۲۰:۳) میں بھی ایسی ہی عبارت آئی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لینا۔ یاد ہو گا کہ جب رسول فلپی میں خود تھا تو اس نے اس وقت اپنے لئے بھی اسی بڑے حق کادعویٰ کیا تھا کہ میں ایک رومی باشندوں ہوں چنانچہ (اعمال۱۶: ۳۷سے۳۹تک )دیکھو مسیحیوں کا بھی ایک بڑا دارالسطنت شہر آسمان پر ہے اور ان کے بھی اسی طرح اس بڑے شہر کے باشندے ہونے کے سبب سے بڑے بڑے حقوق اور فرض اور استحاق ہیں۔ (گلیتوں۴:۲۶) کو اس بارے میں پڑھ کر دیکھو۔ جو فعل یہاں استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہی ہیں۔ کہ کسی بڑی سلطنت کے باشندے ہونے کے باعث سے جو فرض ہیں ان کا انجام دینا۔ یہی فعل ایک بار اور (اعمال۱:۲۳)میں آیا ہے جہاں اس لفظ کو ایک زیادہ کشادہ معنی میں کام میں لایا ہے یعنی کہ یہودی سلطنت اسی کے رکن ہونے کی حیثیت سے جو فرض ہیں ان کو وفاداری کے ساتھ پورا کرنا۔ اسی فعل کے مطابق ایک اسم بھی ہے۔ جو (اعمال ۲۸:۲۲ورافسیوں۲:۱۲) میں واقع ہوا ہے اور باشندے یا شہری کے لئے جو لفظ ہے وہ (لوقا۱۵:۱۵’ ۱۴:۱۹اور اعمال۳۹:۲۱)میں ا ٓیا ہے اور ہم شہری یا ہم وطن کے لئے جو لفظ ہے وہ (افسیوں۱۹:۲) میں آیا ہے۔ مسیح کی سلطنت کے باشندے ہونے کے باعث مسیحیوں کا بڑا فرض ہے کہ اپنی زندگی دینداری کے ساتھ گزاریں۔ مسیح کا جھنڈا جوانمردی کے ساتھ دکھائیں اور اس کے لئے کام کریں اور دکھ سہیں۔ کافی بیر اور ہوسن مفسروں نے اس عبارت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ کہ تم صرف اس طرح زندگی بسر کرو۔ جیسا کہ مسیح کی خوشخبری کے لائق ہے اس کے متعلق یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بزرگ پالی کارپ جس نے کچھ عرصے بعد اسی کلیسیا کے نام ایک خط لکھا تھا وہ بھی یہی استعارہ کام میں لایا ہے یعنی اگر ہم اپنے فرض جو مسیح کے بندے ہونے کے متعلق ہم پرواجب ہیں اس طرح انجام دیں جیسا کہ سیدھے سادھے باشندوں کو مناسب ہے تو وہ بھی اپنی سلطنت میں شریک کرنے کی سرفرازی ہم کو دے گا۔

خوشخبری کے موافق

یعنی خوشخبری کے لائق جس سے تمہارے آسمانی باشندے ہونے کا حق پختہ ہو جائے۔ جس صفت فعل کے لفظ کا ترجمہ لائق طور پر ہوا ہے۔ وہ نئے عہد نامے میں چھ جگہ پایا جاتا ہے۔

اول

(رومیوں۲:۱۶) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ مسیحیوں کو جو تمہارے جیسے ہیں اس طرح قبول کرو جیسا کہ مقدسوںکو چاہئے یا ان کے لائق ہے۔

دوم

(افسیوں ۱:۴) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے اپنی روزانہ زندگی میں اسی کے مناسب یا لائق چلو۔

سوم

جیسا کہ فلپیوں کے اسی مقام پر ہے کہ تمہارا چال چلن آسمانی سلطنت کے باشندوں کی حیثیت سے خوشخبری کے موافق رہے۔

چہارم

(کلیسوں۱۰:۱) میں جہاں یہ بیان ہے کہ تمہارا چال چلن ساری باتوں خداوند کے لائق ہو۔

پنجم

(۱۔تھسلنیکیوں۲:۲۱) میں۔

ششم

(یوحنا ۳:۶) میں جہاں یہ لکھا ہے کہ تم ایسی چال چلو اور ایسی مہمان نوازی پر تو جیسی کہ خدا کے لائق ہے۔

تمہارا حال سنو

لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے کہ وہ بائیں جو تمہارے متعلق ہیں سنو۔ یہی عبارت (۲:۱۹’۲۰اور افسیوں۲۲:۶)میں بھی آئی ہے۔

ایک روح میں

بہت سے مفسر اس روح سے انسانی روح مراد لیتے ہیں چنانچہ بشپ لائٹ فٹ صاحب اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ تم سب ایک ہی نیت یا ارادے سے کام کرو۔ مگر جو عبارت یہاں اصل میں ہے وہی (۱۔کرنتھیوں۱۳:۱۲اورافسیوں۱۸:۲) میں بھی آئی ہے اور ان مقاموں میں بیشک اس کا اشارہ خدا کے روح القدس کی طرف ہی ہے لیکن چونکہ خدا کی روح جو ایمان کے وسیلے سے ایماندار کو ملتی ہے اس کے دل کے اندر سکونت کرتی اور اس کی انسانی روح پر اپنا قبضہ کر لیتی اور اس طرح سے اس کی ساری زندگی پر اپنا اثر کرتی ہے۔ اس وجہ سے دونوں معنی جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں آپس میں ملتے ہیں۔ اس مقام پر تو ظاہراً مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فلپی کے مسیحی اس ایک روح کے وسیلے سے جو اصلی اتحاد اور مضبوطی بخشنے والی ہے یگانگت اور قوت میں باہم خوب مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔

قائم رہو۔

جس فعل کا ترجمہ یہاں قائم ہو کیا گیا ہے وہ نئے عہد نامے میں آٹھ جگہ آیا ہے۔ (مرقس۲۵:۱۱) میں تو ظاہراً اس لفظ کے معنی صرف کھڑے ہونے کے ہیں۔ مگر باقی سارے ساتوں مقاموں میں اسکے معنی یہ ہیں۔ کہ مضبوط ہو کر یا جم کر اس طرح کھڑا رہنا کہ جس جگہ یا تو کھڑے ہیں وہاں خوب طرح زمین پر جمے ہوئے ہیں یا یہ کہ کھڑے ہونے والے کے پاﺅں نے زمین پرخوب طرح گرفت کرلی ہے مضبوط اورجم کرکھڑے رہنے کے معنی ہیںیہ فعل۔

اول

تو ایک مطلق طور سے (رومیوں۱۴:۴اور۲۔تھسلنیکیوں۱۵:۲) میں آیا ہے۔

دوم

(۱۔کرنتھیوں۱۳:۱۶) میں ایمان میں قائم رہنے کے معنی ہوں۔

سوم

آزادی کی حالت میں روح میں قائم رہنے کے لئے۔

چہارم

فلپیوں کی اسی آیت میں روح میں قائم رہنے کے لئے۔

پنجم

(فلپیوں ۱:۴اور۱تھسلنیکیوں۸:۳) میں خداوند میں قائم رہنے کے لئے۔

غالب ہے کہ مضبوطی سے کھڑے رہنے یا قائم رہنے کا جو استعارہ رسول کام میں لایا ہے۔ یہ محاورہ اس نے رومیوں کی تماشہ گاہ سے لیا ہے جہاں آدمیوں کو اپنی عزیز جان کے لئے لڑنا ہوا کرتا تھا۔ اس ملک ہند میں انجیل کے پھیلنے کے لئے مسیحیوں کا ان ساری باتوں کے مقابلے میں جو مسیحی دین کے خلاف ہیں مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا نہایت ہی ضرور ہے پس ہم سب مسیحیوں کو اس بات کو جھنڈا کھڑا کرنا چاہئے۔ کہ ہم کسی بے دینی کی بات میں ذرا بھی شریک یا خاموش نہ ہوں گے۔

انجیل کا بیان

یعنی وہ ایمان جو انجیل سے تعلق رکھتا ہے اگرچہ ہم کو اختیار ہے کہ اگر مرضی چاہے تو اس کا مطلب یہ سمجھیں کہ انجیلی عقیدہ یا اعتقاد لیکن اس کا اس سے بہتر مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمان جو انجیل یا خوشخبری کو قبول کر لیتا ہے پس اس آیت سے یہ حکم ہم کو ملتا ہے کہ ہم لوگوں کو انجیل پر ایمان لانے کے لئے جانفشانی کرتے ہیں۔

ایمان کے لئے

لائٹ فٹ صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ ساتھ۔ چنانچہ نئے ترجمے کے حاشئے میں یہ ترجمہ بھی لکھا ہوا ہے۔ اگر یہ معنی لئے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ایمان گویا ایک مجسم شے ہے۔ جس کے ہمراہ ہو کر ہم لڑائی میں مصروف ہوں لیکن جب آس پاس کی عبارت پر بھی لحاظ کریں تو تاکید اس بات پر ہے کہ سارے ایماندار ایمان کی لڑائی میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح رفیق و شریک رہیں۔ جس طرح کہ سپاہی لڑائی میں رہتے ہیں۔

ایک جان ہو کر

یہی عبارت (اعمال۳۲:۴) میں بھی آئی ہے۔ مگر وہاں ایمانداروں کی جماعت کے ایک جان ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہاں تک جان ہو کر لڑائی لڑنے کا بیان ہے۔

جان کا لفظ روح کے لفظ کے بعد آیا ہے اور یہ واجبی بات ہے کیونکہ جان روح کے تابع ہے۔ اور اسی سے اپنا زور قوت حاصل کرتی ہے روح وہ شے ہے جس کے اندر انسان کی مرضی۔ دل کے ولولے اور جذبے وغیرہ رہتے ہیں۔ اس لئے روح القدس فلپیوں کی انسانی روحوں میں قوت اور اتحاد پیدا کر کے ان کی مرضی اور محبت اور خواہشوں پر اس طرح اپنی تاثیر ڈالے گا کہ وہ سب ایک ہی طرف کو رجوع کریں گی مول صاحب اس کا مطلب یہ لکھتے ہیں کہ وہ ایک روح جو تم سب کے درمیان اپنا اثر کرتی ہے اس کے باعث سے تم ایک جان اور محبت کے ساتھ کام کرو۔

جانفشانی کرتے ہو

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے وہ نئے عہد نامے میں صرف ایک جگہ اور آیا ہے یعنی اسی خط کے (۳:۴) میں۔ یہ استعارہ رومیوں کے اکھاڑے کی تماشہ گاہ سے لیا گیا ہے۔ جہاں وہ غلاموں اور اور لڑنے والے جوانوں کو جھوٹی لڑائی پٹے بازی وغیرہ میں نہیں بلکہ سچی جانبازی کی لڑائیوں میں تلواروں سے لڑا کر سیر دیکھا کرتے تھے۔ یہاں ان لڑنے والوں کی جان پر بازی لگی ہوا کرتی تھی۔ اس لئے وہ کمال درجے کی جانفشانی کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں بھی یہی مطلب ہے کہ مسیحی بھی ان کی طرح دشمنوں کے ہر طرح کے حملے کا اگرچہ مخالف شمار میں کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں خوب طرح جم کر اور بازو بہ بازو پرا باندھ کر مقابلہ کریں۔

۲۸۔اور کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے یہ ان کے لئے ہلاکت کا صاف نشان ہے لیکن تمہاری نجات کا اور یہ خدا کی طرف سے ہے۔

کسی بات میں

(۲۰)آیت میں بھی یہی لفظ آئے ہیں ان کو بھی دیکھو۔

مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے

دہشت کھانے کے واسطے جو لفظ ہے اس کا ترجمہ لائٹ فٹ صاحب جھجکتا یا چونکنا اور جھجکتے ہیں۔ خدا کے کلام میں یہ لفظ اور کہیں نہیں آیا ہے۔ (اعمال ۱۶) باب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلپی خدا کے لوگوں کے لئے ایک بڑے شیطانی طوفان کی جگہ تھی۔

مسیحیوں کے مخالفوں کی وہاں کچھ کمی نہ تھی۔ اس لئے رسول ان کو کہتا ہے کہ تم اپنے مخالفوں کے کسی یکایک حملے یا خطرے سے ڈر کر دلجمعی و خاموشی کے ساتھ بہادری سے مقابلہ کرنے میں گھبرا نہ جانا۔ (لوقا ۹:۲۱ سے ۱۹تک )پڑھو کہ وہاں بھی پندرہویں آیت میں مخالفوں کے لئے یہی لفظ آیا ہے۔ یہی لفظ مخالف کے لئے جس کے لفظی معنی ہیں وہ شخص جو تمہاری مخالفت پر کھڑا ہے انجیل میں اور کئی جگہ بھی آیا ہے۔

اول

(۱۔تیمتھیس۱۴:۵)میں جہاں ہمارے بڑے مخالف شیطان کا ذکر ہے۔

دوم

(۲۔تھسلنیکیوں۴:۲) میں جہاں ہمارے بڑے مخالف و جال کا ذکر ہے۔

سوم

(لوقا۱۷:۱۳اور ۱۵:۲۱)میں ہے اور (۱۔کرنتھیوں۹:۱۶)میں جہاں مسیح اور اس کی خوشخبری کے مخالفوں کا بیان ہے۔

یہ ان کے لئے

یونانی میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جس حال وہ ایک ایسی قسم کی بات ہے کہ جس سے فلاں نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ کا اشارہ ظاہراً فلپی مسیحیوں کی دلیری کی طرف ہے جو سچائی کے لئے گواہی ہونے کی برملا دلیل ہے۔ مگر بعض کی رائے میں یہ کا اشارہ مخالفوں کی دشمنی کی طرف ہے جو ان کی آئندہ و ہلاکت کا ایک نشان ہے۔

ہلاکت

یعنی اس نقصان اور بربادی کا جو ہمیشہ تک رہے گی۔ جس طرح کہ ایمانداروں کو بیخوف مقابلہ کرنا ان کے راست امر کا ایک تحقیق ثبوت ہے۔ اسی طرح وہ اس بات کا بھی ایک نشان ہے کہ ان کے دشمنوں کی شکست اور بربادی ہونے والی ہے۔

صاف نشان

اصل یونانی میں اس لفظ کے معنی یا تو انگلی سے اشارہ کر کے بتاناہے کہ کیا ایک یونانی قانون کی اصطلاح ہے کہ کسی شخص کے برخلاف خبر دیتی یا کسی بات کا ثبوت ہونا ہے۔ایک ایسی علامت تھی جو صاف طرح سے ثابت کرتی تھی کہ انجام کار اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چونکہ وہ بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ فتح ہماری طرف کی ہوگی۔ پس ہم کو لازم ہے کہ اس ملک میں ہم مسیح کی گواہی اپنے آتشی کے یقین اور بہادر نہ چلن سے اس طرح دیتے رہیں کہ جو مسیحی نہیں ہیں ان کو ثابت ہو سلطنت کرے گا۔ یہ لفظ نئے عہد نامے میں تین جگہ آیا ہے۔

اول

(رومیوں۳: ۲۵۔۲۶) میں۔ جہاں راستبازی ظاہر کرنے کا ذکر ہے۔

دوم

(۲۔کرنتھیوں۲۴:۸)میں جہاں محبت ثابت کرنے کا بیان ہے۔

سوم

فلپیوں کے اسی مقام میں جہاں ہلاکت اور نجات کےنشان کا ذکر ہے۔

نجات

اس لفظ سے مراد ہے وہ نجات جو ایمانداروں کو آخر میں پورے طور سے حاصل ہو گی۔ (۱۹) آیت میں بھی یہی لفظ آیا ہے۔ چونکہ مسیحی اپنے خداوندیسوع مسیح کے جھنڈے تلے جمع ہو کر لڑائی اور فتح کے لئے ساری جان اور روح سے متفق ہوتے ہیں ان کو اپنے دلوں میں ایک نئی گواہی اور یقین معلوم ہوا کرتا ہے جسے وہ اپنے چال چلن سے دنیا پر اس امر کے ثبوت میں ظاہر کرتے ہیں کہ خدا جلال ظاہر ہونے کا وقت قریب ہے اور بہ آواز بلند یہ کہتے ہیں کہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے فتح حاصل ہونے کا زمانہ آ رہا ہے۔

اور یہ خدا کی طرف سے ہے

لائٹ فٹ صاحب کی رائے میں یہ کا اشارہ صاف نشان کی طرف ہے۔ یعنی یہ کہ خدا کی طرف سے ایک صاف و صریح نشان ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو مسیحی جوان دنیا کے اکھاڑے میں لڑ رہے ہیں۔ وہ رومی نوجوان کی طرح اس بات کی سخت انتظار میں نہیں رہتے  کہ تماشائیوں کا جو مجمع چاروں طرف ہماری سیر دیکھ رہا ہے اور جن کی طبیعت کا کچھ ٹھکانا نہیں کہ وہ کس بات کو پسند کریں۔ ہم کو کیا اشارہ کرتا ہے۔ کہ آیا ہم اپنے مخالف کو جیتا چھوڑیں یا جان سے مار ڈالیں۔ مسیحی مردوں کے ہے ان کے الٰہی سر پنج نے ان کی مخلصی یعنی نجات کو با لتحقیق نشان خود بخود دے دیا ہے۔

مگر یہ بھی درست ہے کہ  یہ کا اشارہ اس سارے خیال کی طرف سمجھیں۔ جو اس سے پہلے آیا ہے یعنی کہ جو مخالفت مسیحیوں کی کی جاتی ہے وہ ان کے ایمان کی تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ کا مطلب ہو گا کہ لڑائی اور بہادری کی یہ حالت خدا کی طرف سے ہے اور نہ اس لئے کہ بعض باتیں اتفاقیہ ایسی واقع ہوتی ہیں کہ ان سے یہ صورت پیدا ہو گئی ہے ۔ خدا نے جو بندوبست کہ اپنی عقل کاملہ سے اپنے لوگوں کے لئے ٹھہرا یا ہے اسی کا یہ بھی ایک حصہ ہے۔

۲۹۔ کیونکہ مسیح کی خاطر تم پریہ فضل ہوا کہ نہ فقط اس پر ایمان لاؤ بلکہ اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

مسیح کی خاطر

حصہ ہے۔مسیح کی خاطر   یہاں جو عبار یونانی میں ہے اس کی ترکیب ایک عجیب ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولس کا ارادہ اول تو یہ تھا کہ وہ صرف یہ بات بیان کرے کہ تم کو فضل کی راہ سے یہ بات بخشی گئی ہے  کہ تم مسیح کی خاطر دکھ اٹھاؤ۔ مگر اس کے بعد ذرا تامل کر کے اس نے آخر کے الفاظ لکھنے سے پہلے ایک اور خیال بھی اس میں داخل کرو یا جو یہ ہے کہ نہ صرف اس پر (یعنی مسیح پر) ایمان لاؤ بلکہ وغیرہ وغیرہ اس وجہ سے اس آیت میں دکھ سہنے کا جو مقصد ہے وہ دوبارہ آیاہے۔

یعنی ایک تو مسیح کی خاطر۔ اور پھر دوبارہ اس کی خاطر۔ یہ مسیح کی خاطر کا محاورہ اور اور جگہ بھی آیا ہے۔

اول

(۲۔کرنتھیوں ۲۰:۵)جہاں یہ بیان ہے کہ ہم اس کی طرف سے یا اس کی خاطر ایلچی اور وکیل ہیں۔

دوم

وکیل ہیں۔اسی خط کے (۱۰:۱۲) میں جیسا کہ فلپیوں کے اسی مقام میں جہاں یہ ذکر ہے کہ تم اس کی خاطر ایمان بھی لائے ہو اور دکھ بھی اٹھاتے ہو۔

تم پر یہ فضل ہوا

اس عبارت میں بڑا زور فضل ہوا یہ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ تم کو یہ بات ایک بڑی برکت کی طرح بخشی گئی ہے۔ جب خدا ہم کو یہ بات عنایت کرتا ہے کہ ہم مسیح کی خاطر دکھ اٹھائیں۔ تو یہ اس کے فضل سے ایک بڑا تبرک ہے یعنی جس طرح کہ گناہوں کے قرضے کا بخشا جانا جس کا (لوقا کی انجیل کے ۴۲:۷ اور ۴۳ اور افسیوں ۳۲:۴ اور کلسیوں ۱۳:۲) میں یہ ذکر ہے خدا کے فضل سے ایک بڑی برکت ہے اسی طرح مسیح کی خاطر دکھ اٹھانا بھی ایک فضل کی بات ہے۔ اس لفظ کے بارے میں (فلپیوں ۷:۱) کو بھی دیکھو۔ کامل نجات کی بخشش یا برکت جس کا (رومیوں ۳۲:۸) میں ذکر ہے اور خدا کے روح القدس کا بڑا انعام جس کا (۱۔ کرنتھیوں ۱۲:۲) میں بیان ہے۔ یہ بھی سب خدا کے فضل سے بڑی برکتیں ہیں جو مسیحیوں کو عنایت ہوتی ہیں۔ ان ساری آیتوں میں منجلہ اور مقاموں کے اصل میں یہی فعل آیا ہے۔

اس پر ایمان لاؤ

ایمان لانے کے لئے جو فعل اصل میں ہے وہ زمانہ حال کا صیغہ ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے کا کام برابر مستقل طرح پر جاری رہے۔ کیونکہ ایماندار کو واجب رہے کہ ہر لمحہ ایمان رکھنے کے کام میں قائم رہے۔ اور اس طرح کامل مسیح سے اس ایمان کے وسیلے اپنی ساری ضرورتیں حاصل کرتا رہے۔ اس خیال کے ثبوت میں (۱۔کرنتھیوں ۳۰:۱ اور یوحنا ۱۶:۱) کو دیکھو۔ اصل میں جو لفظ ہیں ان کے معنی یہ ہیں کہ تم اس کے اندر ایمان رکھنے میں قائم رہو۔ ان لفظوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا مسیحی شخص کا ایمان اس کے اندر سے نکل کر مسیح کی طرف لگ جاتا ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کا بھروسہ جو مسیح پر لگا ہوا ہے۔ روح کے پھل لاتا رہتا ہے اور وہ مسیح کے خزانے میں سے اپنے لئے ساری ضروری برکتیں اپنے دل میں حاصل کرتا رہتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ راستباز شروع سے آخر تک ایمان کے وسیلے سے جیتا ہے۔

کہ نہ ۔ فقط اس پر ایمان لاؤ ۔ بلکہ اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

یہ جو الفاظ اس عبارت میں آئے  ہیں کہ نہ فقط یہ بلکہ یہ بھی۔ یہ نئے عہد نامے میں بار بار آئے ہیں۔ ہم اس کے پڑھنے والوں کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ ان سب مقاموں کو ملاحظہ کریں اور ان پر غور کریں۔

اول

تو یہ الفاظ (اعمال ۲۹:۲۶اور ۱۔تھسلنیکیوں ۲۵:۱)میں سچے دل سے مسیح کی طرف پھرنے کے متعلق کام میں آئے ہیں۔

دو م

(یوحنا ۹:۱۳ اور رومیوں ۳:۵ اور ۲۔کرنتھیوں ۲۱:۸اور ۲۔تیمتھیس ۲۰:۲ اور ۱۔پطرس۱۸:۲) دل کی تقدیس کے بارے میں آئے ہیں۔

سوم

(متی ۲۱:۲۱ اعمال ۱۳:۲۱ ۲۔ کرنتھیوں ۱۰:۸ اور ۱۲:۹ فلپیوں کے اسی مقام میں اور (۱۔تھسلنیکیوں ۸:۲) میں مسیحی زندگی اور خدمت کی بابت استعمال میں آئے ہیں۔

چہارم

(یوحنا ۹:۱۱ اور ۲۰:۱۷ اور رومیوں ۱۲:۴ ۔ ۱۶۔ ۲۳۔ ۲۴۔ اور ۲۴:۹اور ۱۔تھسلنیکیوں ۸:۱ اور ۱۔یوحنا ۲:۲) آدمیوں کو انجیل کی بشارت سنانے کے بارے میں کام میں آئے ہیں۔

پنجم

(رومیوں ۲۳:۸ ۲۔تیمتھیس ۸:۴ اور عبرانیوں ۲۶:۱۲) میں مسیح کے دوبارہ آنے کی بابت عمل میں آئے ہیں۔

ہم جو اس ملک ہندوستان میں رہتے ہیں اس کو یاد رکھیں کہ ہم بھی نہ صرف اس لئے مسیح کے گلے میں بلائے گئے ہیں۔ کہ مسیح پر ایمان رکھیں اور اس کے روحانی فائدے حاصل کریں بلکہ اس لئے بھی کہ اس کی بندگی کریں اس کے لئے دکھ اٹھائیں اس کی خوشخبری لوگوں کو سنائیں اور اس کے آنے کے منتظر رہیں۔ ہم کو یہ بھی لازم ہے مذہبوں کی طرح صرف ایک عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ خاص کر ایک روحانی قوت ہے اور انسان کے لئے زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کے لئے سوا اس قوت کے اور کوئی نہیں ہے۔

اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

جن جن باتوں کے لئے انجیل میں مسیحیوں کے لئے دکھ اٹھانا درست سمجھا گیا ہےان پر غور کرنے سے دل کو نصیحت اور خوشی معلوم ہو گی۔ اسی خط( ۱۰:۳) پر جو شرح ہم نے لکھی ہے اس کو بھی ملاحظہ کر لو نئے عہد نامے میں مندرجہ ذیل باتوں کے لئے مسیحیوں کو دکھ سہنا واجب ہے۔

اول

(اعمال ۱۶:۹) میں ۔ مسیح کے نام کی خاطر۔ 

دوم

(فلپیوں  کے اسی مقام مسیح کی خاطر۔

سوم

(۲۔تھسلنیکیوں۵:۱) میں خدا کی بادشاہت کے  لئے۔

چہارم

(۲۔تیمتھیس ۱۱:۱۔۱۲ ) میں انجیل اور اس کی خدمت کے لئے۔

پنجم

(۱۔پطرس ۱۹:۲ ۔۲۰اور ۱۷:۳ میں نیکی کرنے کے لئے۔

ششم

(۱۔پطرس ۱۴:۳) میں راستبازی کی خاطر ۔

ہفتم

(۱۔پطرس۱۵:۴۔ ۱۶) میں مسیحی ہونے کےلئے۔

ہشتم

(۱۔پطرس ۱۹:۴ ) خدا کی مرضی کے مطابق۔

۳۰۔ اور تم اسی طرح جانفشانی کرتے ہو جس طرح مجھے کرتے دیکھا تھا۔ اور اب بھی سنتے ہو کہ میں ویسی ہی کرتا ہوں۔

ان الفاظ کا رشتہ (جیسا کہ یونانی کی ترکیب سے غالباً معلوم ہوتا ہے) آیات ۲۷،۲۸ کے الفاظ قائم رہو۔’’  جانفشانی کرتے ہو۔ کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے سے لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں درمیانی الفاظ گویا بطور جملہ معترضہ کے ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان الفاظ کا تعلق قریب یا قبل ‘‘ کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر فضل ہوا الخ’’۔ سے ہو۔ اگر چہ اس سے کسی قدر قواعد یونانی صرف و نحو میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن پولس رسول کے عام انشائے طرز سے اس میں کچھ مناسبت نہیں۔ اس صورت میں ان الفاظ سے یہ امراد لی جا سکتی ہے۔ کہ تم پر فضل ہو اکہ اس پر ایمان لاؤ ۔ اور اس کی خاطر دکھ سہو۔ اور اس طرح میری تکلیفوں میں میری ہم تجربہ ہو’’۔

جانفشانی

جس یونانی لفظ (اگون) کا یہ ترجمہ ہے وہ ‘‘کشتی ’’لو ‘‘کشمکش’’ دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ خاص کر وہ ‘‘کشتی’’ و ‘‘کشمکش’’ جو رومی گلاویٹوریل (یعنی خونی کشتی کی تماشہ گاہ) اور اکھاڑوں میں دو مد مقابل پہلوان دشمن کو زیر کرنے و غلبہ حاصل کرنے کے لئے لڑتے تھے۔ یہ لفظ میدان جنگ اور اکھاڑے دونوں موقعوں کے لئے موزوں ہے۔ مقامات ذیل میں بھی یہی لفظ مستعمل ہوا ہے۔ (کلسیوں ۱:۲ اورا۔ تھلسنیکیوں ۴:۲ اور ۱۔تیمتھیس ۱۲:۴ اور ۲۔تیمتھیس ۴:۷ عبرانیوں ۱:۱۲ ان مقامات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ یہ لفظ دعائیں جانفشانی و نیر انجیل کی اشاعت میں جہاد اور مسیحی زندگیوخدمت کی دوڑ  کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔ یہ بات قابل یا رکھنے کے ہے کہ انجیل (لوقا ۴:۲۳) میں صر ف مسیح کا دکھ (اگونیا) کہلایا ہے۔ وہی حقیقت میں خاص جانفشانی ٹھہری۔

جس طرح مجھے  کرتے دیکھا۔

یعنی  رسول اس پہلی مہم فلپی کے موقع پر (اعمال باب ۱۶ سے مقابلہ کرو ۱۔تھسلنیکیوں۲:۲) (جہاں اسی موقع کی طرف ایک اشارہ ہے)  وہاں بھی یہی لفظ جانفشانی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے فلپی کا داروغہ قید خانہ بالخصوص قید کی ان سختیوں کو یاد کرنا ہوگا۔ جو رسول نے وہاں برداشت کی تھیں۔

اور اب بھی سنتے ہو کہ میں ویسے ہی کرتا ہوں۔

یعنی رومہ کے قید خانہ کی قید اور سخت تکلیفوں میں۔

باب دوم

آیات ۱۔۱۴ بے غرضی و اتحاد کی نصیحتیں

ان آیات میں ایک زور دار ددرخواست اہل فلپی سے کی جاتی ہے۔ کہ وہ بلحاظ اپنے گہرے مذہبی اعتقادات کے درمیان صلح و اتحاد کو قائم رکھیں اگر روحانی تجربہ کا اثر بردارانہ محبت کا نتیجہ نہیں پیدا کرتا۔ تو اس میں ضرور کوئی نقص ہو گا۔ کیونکہ مسیح کے ساتھ وفاداری اس بات کی مقتی ہے کہ اس کے نئے حکم (یوحنا ۳۱: ۳۴ ،۳۵ ) پر عمل کیا جائے۔

۱۔پس اگر کچھ تسلی مسیح میں اور محبت کی دلجمعی اور روح کی شراکت اور رحم دلی و ہنر مندی ہے۔

مسیح میں تسلی لفظ ’ تسلی ’ جو یہاں ترجمہ ہوا ہے اس کے مفہوم کے لحاظ سے اس سے ۲ مراد لی جا سکتی ہے۔

(۱)۔ اگر لفظ ‘‘تسلی’’ مندرجہ متن کو اس معنی سے لیں کہ اس سے مراد حوصلہ افزائی ہے تو اس کا مطلب ہو گا اگر مسیح میں کوئی حاصلہ افزائی ہے جو ہم میں اس کی ذات کے ساتھ عام اتحاد کے ذریعہ تسلی پیدا کرنے کا باعث ہے تو اس تسلی کے شریک ہونے کےلحاظ سے تم اپنے تفرقوں کو بھول جاؤ اور میری خوشی کو پورا۔

(ب) لیکن اگر اس لفظ کا ‘‘نصیحت’’ ترجمہ کیا جائے (جیسا کہ اعمال ۳۶۔۴باب ۱۵:۱۳ رومیوں ۸:۱۲ ۲۔کرنتھیوں ۷:۸ ۱۔تھسلنیکیوں ۳:۲ ۱۔تھسلنیکیوں ۱۳:۴ عبرانیوں ۱۵:۱۲ ،۱۳ :۲۲ میں یہ لفظ ترجمہ ہوا ہے) تو اس کا مطلب ہوگا کہ اگر مسیح کا کوئی حق نصیحت تم پر (باعث اس کے کہ تم اس کی زندگی و برکتوں کے ہم شریک ہو) پہنچتا ہے۔ اگر وہ فضل جو تم کو اس میں حاصل ہوا ہے کچھ ہی روز تمہارے دلوں میں اثر رکھنا ہے۔ تو جدائیوں سے باز ہو اور میری خوشی کو پورا کرو۔

پہلی صورت میں استعمال کی بنیاد اس ‘‘قوی تسلی ’’ پر ہے جو مسیح میں ہم کو حاصل ہوتی ہے اور دوسری صورت میں اس دلیل پر جو اس یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ کہ ہم مسیح کے ساتھ پیوست ہیں۔ دونوں خیال صحیح ہیں۔ کونی بیروہوسن کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم ہو مسیح میں منت کی جا سکے۔

محبت کی دلجمعی

اس کے بھی دو معنی لئے جا سکتے ہیں۔

(ا)۔

اگر ہم  لفظ دلجمعی ’ ہی کے ترجمے پر زور دیں تو مطلب یوں ہو گا۔ اگر کوئی ایسی شے ہے جیسی کہ محبت کی درد مندی وہ ہمدردانہ تسلی جو محبت کسی دوست سے پیدا کرتی ہے تو چاہئے کہ اس کو باہم ایک دوسرے کو برتو اور میرے ساتھ بھی۔

(۲)

لیکن اگر ہم دوسرا ترجمہ۔ محرک ۔ ترغیب وہ قبول کریں تو اس کا مطلب یوں ہو گا کہ اگر کوئی ایسی شے ہے۔ جیسے کہ محبت کی ترغیب۔ اگر محبت کوئی تحریکی قوت کا اثر ہم میں پیدا کرتی ہے تو اس اثر پر عمل کرو۔ اور میری خوشی کو پورا کرو پہلی صورت میں دلسوز ہمدردی اور دوسری صورت میں اس کا اثر مراد ہے۔

کونی بیروہوسن اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اگر تم محبت سے منائے جا سکتے ہو۔

روح کی شراکت

قیاس غالب ہے کہ اس سے مراد ‘‘روح کی شرکت’’ ہے اس صورت میں ان کی باہمی شراکت اس کے فضل اور نعمتوں میں ایک قوی ذریعہ اتحاد کا ہونا چاہئے۔ لیکن اس جملہ سے روح کے ساتھ رفاقت یا مشارکت ۲ ہی مراد لی جا سکتی ہے اس حال میں اس کی محبت ان کو صلح و اتفاق پر مجبوری کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے مشابہ (۲۔ کرنتھیوں ۱۴:۱۳) ہے۔

شراکت کا لفظ اسی خط کے (۱: ۵ ،۳ ۔۱۰ میں مقرر آتا ہے۔ اور یہی ۲ خیال یعنی حصہ داری و شراکت’ وہاں بھی پیش نظر میں۔

درد مندی اور رحمدلی

لفظ درد مندی ۸،۱ پر جو شرح ہے اس کو دیکھو  یہ لفظ دل کے جوش محبت اور چاہ کا بھی اظہار کرتا ہے۔ دوسرا لفظ رحمدلی (رومیوں ۱:۱۲ کلیسوں ۱۲:۳عبرانی ۲۸:۱۰ ) میں مقرر آتا ہے۔ یہ یونانی کے ایک لفظ بمعنی ‘‘افسوس’’ اسے مستخرج ہے اور اس آہ دلسوز کو ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے غموں کو محسوس کرنے سے انسان کے دل سے نکلتی ہے عہد جدید میں عموماً بہ حالت جمع مستعمل ہوا ہے اور اس لئے اس کا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے۔ رحمدلی کے رقت انگیز احساس اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اپنے اتحاد کی حجت کو ۴ خاص دلیلوں پر قائم کرتا ہے۔

(۱)۔ تمام شراکت کی بنیاد پر جو بے سبب  اس کے ساتھ متحد ہونے کے ہم پر واجب ہے۔

(۲)۔ مسیحی محبت کی مجبور کرنے والی تاثیر جو رقت آور اور اطاعت کی بنا پر ہے۔

(۳)۔ باہمی حصہ داری کی بنا پر جو روح کے فضل و نعمتوں میں ونیز اور اس کی محبت آمیز تا ثیرات میں ان کو حاصل ہوئی ہے۔

(۴)۔ مسیحی ہمدردی اور رحمدلی کی پاک تحریکوں کی رضا مندانہ اطاعت کی بنا پر جو دل میں اٹھتی رہتی ہیں۔

رسول حقیقتاً صرف یہ چاہتا ہے کہ انجیل کی یہ بڑی تعلیم ان کے عمل میں ظاہر ہو اور یہاں ہمارے لئے بھی یہی نصیحت ہے کہ جن سچائیوں کا ہم زبانی اقرار کرتے ہیں ان کو ہم اسی روزانہ زندگی میں برتنے کی کوشش کریں۔ اے کاش ! انجیل کی سچائیاں ہندو ستان  کے مسیحی فرزندوں اور دفتروں کی با ضع زندگی واعمال میں اس طرح ظاہر ہوں کہ ہندوستان ان کو دیکھ سکے۔

۲۔تومیری یہ خوشی پوری کرو کہ ایک دل رہو۔ یکساں محبت رکھو۔ ایک جان ہو۔ ایک ہی خیال رکھو۔

میری خوشی پوری کرو۔ 

خوشی تو اس کو ان میں ایک درجہ تک پہلے ہی سے حاصل تھی دیکھو (۱: ۴) لیکن وہ ان کو متحد دیکھ کر اس خوشی کو بھرپور اور کامل کرنے کا درخواست گار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فلپی کے مسیحی اپنے تفرقوں کو فراموش کر کے گویا اس کی خوشی کے پیالہ کو لبریز کریں۔ رسول اپنے کو ان کے سامنے گویا اس خاص مقصد سے پیش کرتا ہے۔ کہ وہ اس بات کا ملتجی ہے کہ وہ مسیح میں تسلی محبت کی دلجمعی۔ روح کی شراکت اور رحمد لی اور درد مندی جن کی بنا پر وہ آیت میں مخاطب کئے گئے ہیں۔ ان کو اس تک وسعت دیں۔ کیا پولس سے بھی ایک زیادہ بزرگ اپنے لوگوں سے اس بات کا ملتجی نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے میں میری خوشی پوری کرو(یوحنا ۱۵: ۱۱۔۱۲)۔

کہ یہ کاف غالباً اس مطلب یا مفہوم کا اظہار کرتا ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے(دیکھو ۹:۱)۔

ایک دل

لفظی ترجمہ کی رو سے ایک ہی چیز کا خیال کرو۔ جب مسیحیوں کے دل اور ارادے اور خیال کو دیکھو دیباچہ (باب۶) ایک ہی طریق پر متوجہ اور ایک ہی مرکز پر سمٹ آتے ہیں تو اس سے اتحاد وقوع میں آتا ہے (۲:۴ ) میں بھی یہی محاورہ آتا ہے۔

یونانی ترکیب سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جملے جو اس کے بعد آتے ہیں۔ اس بڑے خیالی کی گویا ایک تفصیل ہیں۔ اگر ان کے دل کا عام میلان اتحاد مقصد و فوائد کی طرف ہے۔ تو اس کا نتیجہ ‘‘خود بخود’’ یکساں محبت وغیرہ وغیرہ ہو گا۔

یکساں محبت وغیرہ 

مثل ان لوگوں کے جو ایک ہی سر چشمہ سے سیراب ہوئے ہیں۔ اس عظیم خدا کی اس عظیم محبت (رومیوں۵:۵) میں بھرپور ہوں تو باہمی محبت ایک دوسرے سے خود بخود آشکارا ہو جائےگی۔ یہاں آیت مذکور ہ بالا اس محبت کی دلجمعی کی طرف اشارہ ہے۔ جس کا ذکر آیت میں ہے ہم دیکھتے ہیں عام اور باہمی محبت ایک متحد کرنے والی قوت ہے۔

ایک جان رہو۔ 

اس میں احساس اور خواہشات قلبی کا کامل اتفاق لازمی ہے اس کی مثال قوی سپاہیوں سے دی جا سکتی ہے۔ جو سب ایک ہی رشتہ جماعت میں پیوست ہونےکے باعث ایک ہی قسم کے جوش سے بھرپور ہوتے ہیں۔

یہاں ہم کو عام خواہش اور ارادہ کے متحد کرنے والی قوت کا پتہ چلتا ہے۔

ایک دل۔ 

‘‘لفظی ترجمہ ایک ہی چیز کا خیال کرنا’’ مقابلہ کرو (۳۱:۳)۔ یہاں خیال اور منصوبے کے اتحاد کو ظاہر کیا جاتا ہے۔  جس کا ایک ہی مرجع و مقصد ہو۔ یہاں ہم کو عام خیال اور مقصد کے متحد کرنے والی قوت بتائی جاتی ہے۔

اصلی و حقیقی اتحاد یہی ہے کہ دلوں کا عام میلان ایک ہو اور سب ایک ہی رشتہ میں باہم پیوستہ ہوں۔ اسی اور ایک ہی تحریک دینے والی محبت سے سب چلائے جائیں۔ اسی اور ایک ہی دلسوز خواہش اور سرگرمی سے سب اثر پذیر ہوں۔ اسی اور ایک ہی بڑے مقصد اور نشانہ کی طرف سب کوشاں ہوں۔

۳۔ تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو۔ بلکہ فرتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ 

تفرقے اور بے جا فخر کے باعث کچھ نہ کرو۔ 

‘‘الفاظ کچھ نہیں’’ سے مراد با لکلیہ اور قطعی ممانعت ہے یعنی کسی حالت و صورت میں تفرقے اور بے جا فخر جائز نہیں ہے ‘‘اس قاعدہ کلیہ کا کوئی استثنا نہیں۔ ’’ ‘‘کچھ نہیں’’ کے متعلق دیکھو (۲۰:۱)۔

تفرقے

۱۷:۱ کو دیکھو۔  جہاں لفظ مستعمل ہوا ہے۔ اس لفظ میں وہ معنی شامل ہو سکتے ہیں۔ یعنی خود مطلبی اور دھڑے بندی اگرچہ دوسرا خیال خاص طور پر مد نظر ہے۔ یہ شخصی خود نمائی اور خود پسندی کا اظہار کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مسیحیوں میں ہمارے تفرقوں کا آخری سبب انہیں دو برائیوں میں سے ایک ہے یعنی دھڑے بندی اور شخصی خود نمائی۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی ہندوستانی جماعتوں میں تفرقے اور فرقہ بندی کے روح سے بچیں جس کا باعث خواہ ذات پات کے تعصبات ہوں یا خاندانی رقابت۔ اس ملک کی تاریخ سے ہم کو ان دو برائیوں کے متعلق جو قومی اور خاندانی جھگڑوں کے باعث اٹھا کرتی ہیں ایک خاص سبق ملتا ہے جس کا  نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے لوگ بہ نسبت ایک متحد ہمجنس قوم ہونے کے زیادہ تر مثل ایک انسانی گلہ کے نظر آتے ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ کم از کم مسیحی کلیسیا میں ایک عمدہ طریق و مثال کی پیروی کریں۔

خود مطلبی کی روح سے بھی ہوشیار رہیں جو کلیسیاؤں میں صدر مقام اور کونسلوں میں خاص اثر اور جماعتوں میں اعلیٰ اختیار کی خواہاں وجویاں ہے۔ پادریوں اور اہل جماعت دونوں کو اس بات کی ضرورت ہے۔ کہ اپنے کو غرور سے بچائے رکھیں۔یہ ایک واقعہ ہے کہ اکثر مقامات میں اگر کسی بھائی کی زبان سے دوسرے کی بابت کو ئی سخت یا نالائق لفظ نکل گیا تو اس سے نہ صرف تفرقے بلکہ نامتناہی عناد مسیحی جماعتوں میں قائم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ شخصی غرور کے خلاف خاص طور پر زور دیا جائے۔

یہ لفظ فروتنی عہد جدید کے زمانہ سے پیشتر استعمال ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ غیر مسیحی یونانیوں میں اسی قسم کی فروتنی کا خیال بالکل نا پسندیدہ تھا۔ ان کی مستند کتابوں میں اس قسم کے الفاظ جو فروتنی کا خیال ظاہر کرتے ہیں۔ کمقدری یا ادنیٰ پن پر دلالت کرتےہیں۔ اور ذلت کمینگی اور نیچ پن کا خیال ان سے متصور ہوتا ہے۔ یہ مسیح کا ہی حق تھا کہ اس نے خاکساری و انکساری کو ایک خاص اعلیٰ اخلاقی صفت قرار دیا۔ اور انجیل میں وہ تعلیم ہے جس میں بنی آدم کو یہ سکھلایا گیا ہے کہ سچی اور اعلیٰ شرافت نفس تک پہنچنے کا طریق کامل خود انکاری میں ہے اگر ہم سچی خاکساری حاصل کرنا چاہیں تو ہم کو چاہئے کہ مسیح سے سکھیں جو خود حلیم اور دل کا فروتن تھا۔ وہ شاہراہ جو ہم کے ہر قسم کے فضل اور برکتوں تک پہنچائی ہے۔ یہی فروتنی ہے (یعقوب ۶:۴ ۱۔پطرس ۵:۵) اور اس صفت کی کمی مسیحی زندگی کی ساری ناکامیوں کا سبب ہے۔

ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے

لفظ‘‘ بہتر ’’ یونانی میں بمعنی بزرگ یا اعلیٰ کے ہے۔ اور (رومیوں ۱:۱۳ ۔ ۱پطرس ۱۳:۲) میں حکام کے لئے مستعمل ہوا ہے جو ہم پر مقرر کئے گئے ہیں۔

یہ (ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھا) نہ تو محض مصنوعی  و رواجی چاپلوسی آداب کےموافق ہو جو اکثر بعض لوگ ایسے جملے لکھنے سے ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ کا ‘‘غلام’’ یا ‘‘حقیر’’ یا آپ کا ادنےٰ ترین اور نہ اپنے ذاتی خدا داد اوصاف کو کم قدر فراموش کرنے سے بلکہ حق لحاظ کے موقع پر ہر ایک اپنے بھائی کا خیال و لحاظ اپنے سے مقدم سمجھے۔

یہاں ہم نے ایک بڑے مسیحی اصول کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جس پر افسوس ہے کہ عموماً بہت کم لحاظ کیا جاتا ہے۔ مقابلہ کرو (رومیوں ۱۰:۱۲ ۔ اگر یورپی اور ہندوستانی پادری اور کیٹی کسٹ وغیرہ اس اصول کے موافق ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ عمل کریں جو ان کے زیر تحویل ہیں اور اسی طرح اہل جماعت بایک دیگر اور نیز اپنے روحانی معلموں کے ساتھ اس اصول کا برتاؤ رکھیں تو مسیحی کلیسیا اس ملک میں ایک زبردست قوت بن جائے۔ اس آیت ہیں اس احسن اصول کی تعلیم ہے جو قومی ذات پات کے تعصبات کی جڑ کا قاطع ہے۔

۴۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ 

ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں۔

لفظ ہر ایک یونانی میں  بصیغہ جمع اس موقع پر آتا ہے اور ان فرقوں ودھیڑے بندیوں’ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس وقت فلپی کی کلیسیا میں موجود تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک جماعت اپنے ہی احوال پر نہیں۔

نظر رکھے۔ 

یونانی میں یہ فعل جس لفظ سے مشتق ہے اس کے معنی کسی شے کو مد نظر رکھنے کے ہیں۔ جیسے کہ کوئی نشانہ یا مقصد۔ فلپی کا ہر ایک فرقہ اپنی ہی ترقی اور فائدے کو دوسرے کے نقصان پر مد نظر رکھتا تھا۔ 

کیا ہندوستان میں ایسی جماعتیں نہیں جہاں روحانی زندگی بہت ہی ادنےٰ نقطہ پر ہے (بلکہ مطلق نہیں) اس لئے کہ بعض جماعت کے لوگ ( جن میں سے بعض کی جڑ ذات پات کی بنیاد میں پائی جاتی ہے) محض اپنے ہی فوائد اور اپنی ہی ٹولی کے شان نمود کے بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اور دوسری ذات یا طبقے کے نومریدوں کو اپنے میں داخل کرنا عبث ذلت سمجھتے ہیں؟ یہی نصیحت مشن اور مشنری سوسائٹیوں کے لئے بھی قابل توجہ ہے کہ اپنے اپنے فوائد دوسروں کے نقصان پر مد نظر رکھنے کے باعث ایک نقصانِ عظیم بشارتی کام میں ہو گیا ہے۔

بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی 

یہاں بھی لفظ ہر ایک یونانی میں بصیغہ جمع ہے۔ تم میں سے ہر ایک کلیسیا۔ مشن سوسائٹی۔ قوم۔ طبقہ (ونیز ہر فرد) دوسروں کے فوائد کو مد نظر رکھے۔ مسیح کے قانون کا اصول بے غرضی ہے۔

آیت ۵سے ۱۱ مسیح کی حلیمی کا نمونہ۔

یہ وہ آئیتیں جن کو ہم اگر ادب سے اور گھٹنے ٹیک کر پڑھیں تو زیبا ہے خاص کر جبکہ خودی اور فخر کی آزمائش ہم کو آزماتی ہو۔ وہ تمام دلائل جو ذات پات کے امتیاز اور تمدنی خود غرضی کو مفید ثابت کرنے میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ خواہ کیسے ہی ظاہری  طورپر خوشنما معلوم ہوتے ہوں۔ لیکن مسیح کے اعلیٰ نمونے کی صاف روشنی میں وہ مثل کمزور مکڑی کے جالے کے نظر آتے ہیں۔ ان کی اہمیت بیان سے باہر ہے خاص کر مسیح کی کامل الٰہی ذات کی تعلیم کےمتعلق بھی۔

۵۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔

یونانی کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔

‘‘وہی خیال رکھو اپنے اندر جو مسیح یسوع میں بھی تھا’’۔

آیت ۲میں رسول نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ایک ہی خیال رکھو۔ اور یہاں اس ایک ہی کی وہ شرح کرتا ہے کہ وہ کامل خود انکاری کی روح ہے جو مسیح یسوع میں تھی۔

فعل تھا یونانی میں نہیں ہے لہذاہم کو حق نہیں کہ اس خیال کو زمان ماضی سے محدود کریں۔ جیسا کہ تھا ویسا ہی اب بھی مسیح یسوع ہے۔

تم میں 

‘‘یعنی’’ تمہارے وجود باطنی میں صرف اس کے نمونے کی تقلید کرنے کی نصیحت نہیں ہے بلکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ عین مسیح کی مزاج و زندگی ایماندار میں روح القدس کی تاثیر کے ذریعہ اور خود خداوند کے ہمارے دلوں میں سکونت پذیر ہونے سے پیدا ہو جائے( افسیوں ۱۷:۳ ۔۱۹) جہاں مسیح ہے وہاں اس کا مزاج بھی ضرور ہو گا۔ مسیحی مذہب محض ایک قانون اخلاق نہیں ہے۔ جو ایک بڑے اور پاک معلم کے لاثانی نمونے پر مبنی ہے بلکہ وہ ایک نجات کا مذہب ہے جو گنہگار انسانوں کو کلوری کی قربانی کے وسیلے سے خدا سے ملاتا ہے اور ان کو ایک قوت یعنی روح القدس کی قوت عطا کرتا ہے۔ جو مسیح کے ساتھ حقیقی اتحاد سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کے وسیلے سے وہ گناہ پر غالب آ سکتے اور اپنے پاک خداوند کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔

۶۔ اس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ 

تھا اس آیت میں ۲ حالتوں کی طرف اشارہ ہے خدا کی صورت پر ‘‘تھا’’ حالت اول کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے اس کی ازلیت اور نیز ایک حد تک الہٰہیت کا بھی اشارہ ہے۔

خدا کی صورت 

جس یونانی لفظ (مورنی ) کا ترجمہ ‘‘صورت’’ کیا گیا ہے اس کو لفظ (سیغما)آیت ۸ سے جس کا ترجمہ شکل کیا گیا ہے خاص طور پر تمیز کرنا چاہئے۔ مفسر لائٹ فٹ کا خیال ہے کہ لفظ اول (موروثی) ذاتی حقیقی اوصاف پر دلالت کرتا ہےنہ کہ ظاہری عوارض پر اور مفسر مول نہایت عمدگی سے اس کی تعریف یوں کرتا ہے کہ گویا وہ صورت مظہر حقیقت تھی۔ دوسرے لفظوں میں لفظ صورت سے وہ صورت مراد ہے جو کہ باطنی زندگی اور جوہر کا حقیقی اظہار ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ لفظ بذاتہ اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ مسیح میں الٰہی ذات و جواہر ہے تو بھی یہ بات صریحاً اس میں متضمن ہے۔ کیونکہ صورت جو جوہر کا بیرونی مظہر ہے اس سے جوہر کے اندرونی و ذاتی اوصاف کیونکہ علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں کی شراکت اس میں لازم و ملزم ہے۔

پس اس آیت سے ہم سیکھتے ہیں کہ مسیح اپنے وجود ماقبل تجسم میں خدا کی تمام اصلی صفات سے متصف تھا۔ المختصریہ کہ وہ خدا تھا۔

قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ 

عہد جدید میں سوائے اس جگہ کے اور کہیں میں لفظ نہیں آتا۔ یونانی کی علمی کتابوں میں بھی صرف ایک جگہ ملتا ہے۔ اس کے ۲ ترجمے بتائے جاتے ہیں۔

(الف) ۔ انعام خزانہ(لفظی معنی مال غنیمت) اور یہاں یہی معنی قبول کئے گئے ہیں جس خیال کے اظہار کا منشا یہاں ہے وہ یہ ہے کہ مسیح نے باوجود اپنی مساوات با خدا کے یہ نہیں کیا کہ وہ حالت مساوات کو مثل ایک انعام مقبوضہ کے زور سےپکڑے اور تھامے رہتا۔ بلکہ ایک اعلیٰ ایثار نفس پر عمل کر کے اپنی آسمانی عظمت کو اس نے چھوڑ دیا۔ تا کہ گنہگار انسان کو بچائے۔ یہاں جس خاص بات پر زور ہے وہ خاص حق مقبوضہ برضا و رغبت چھوڑ دیتا ہے۔

(ب)  نوٹ غضب 

اگر یہ ترجمہ لیا جائے تو گویا یہ معنی ہوں گے کہ ہمارا خداوند اپنے حق مساوات با خدا پر بطور ایک حق غیر ممکن الاانتقال ولاینفک کا دعویٰ رکھ سکتا تھا اس طرح گویا اس کی عظمت یا جبروت پر بہ نسبت اس کی حلیمی کے زور دیا جا سکتا ہے۔

لا کلام پہلا ترجمہ سیاق و سباق عبارت کے لحاظ سے زیادہ پسند کے لائق ہے اس لئے ‘‘ انعام’’ پر اس کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ جس طرح چاہتا اس کو برتتا۔ بشپ لائٹ فٹ فرماتے ہیں کہ ‘‘ اس نے اپنی الٰہی عظمت کے حق غیر ممکن الانفصال پر مضبوطی سے قابض رہنا نہ چاہا۔

خدا کے برابر ہونے۔ 

اصل یونانی میں صاف طور پر مترشح ہوتا ہے کہ یہ ‘‘مساوات بالصفات’’ کی طرف اشارہ ہے نہ کہ اقانیم تقابل کی طرف۔ الہٰیت کی تقسیم کا یہاں کوئی خیال نہیں۔ بشپ مول فرماتے ہیں کہ وہ جلالی شخص جو مد نظر ہے کوئی ایک دوسرا علیحدہ خدا نہیں جو گویا قدرت اور جلال میں مد مقابل ہے بلکہ خدا کا مسیح ہے۔ جس کی الوہیت اور کاملیت بعینہ وہی ہے جو باپ کی بھی ہے۔

ہم کو دیا رکھنا چاہئے کہ مقدس پولس ان آیا ت کا محرر یہودیوں کے مذہب توحید کی نہایت سخت پابندی کا تعلیم یافتہ تھا۔ اس لئے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ وہ ان الفاظ کو جو بے شک وشبہ مسیح کی الوہیت پر دلالت کرتے ہیں یونہی اور خود اس بات پر ایمان نہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقی خدا سے حقیقی خدا تھا۔

۷۔بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔

بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا۔

یعنی اپنی الٰہی شان سے نہ کہ الٰہی ذات سے (کیونکہ یہ ناممکنات سے ہے) بشپ مول فرماتے ہیں کہ ‘‘اپنے حق الہٰہیت کے استعمال اور اظہار سے جو اس کو عرش پر حاصل تھا’’ ابن اللہ کے اس فعل کی تفسیر کے متعلق ہم کو اس بات کی خاص احتیاط کرنی چاہیے کہ کوئی ایسی تفیسر قبول نہ کریں جو اس کے اس فعل خود انکاری سے کسی طرح یہ نتیجہ پیدا کرتی ہو کہ وہ گویا محض انسان اور خطا پذیر ہو گیا۔ کیونکہ کفارہ اس وقت تک صحیح اور مقبول نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ یہ نہ مانا جائے کہ وہ جو صلیب پر مصلوب ہوا نہ صرف اس وقت صلیب کے خاص دکھ کی گھڑیوں میں بلکہ اس کے بعد ابد تک فی الحقیقت کامل خدا تھا۔

مفسر بنگل ان الفاظ کے ظاہری تضاد کو محسوس کر کے فرماتےہیں کہ ‘‘ وہ بھرپور رہا’’۔ (یوحنا ۱: ۱۴) اور تو بھی ا س کا رویہ ایسا تھا کہ گویا وہ خالی تھا۔ لاریب رسول کے ان الفاظ سے مراد  یہ ہے کہ اس نے ‘‘خدا سے خدا’’ اور ‘‘نور سے نور’’ ہوتے ہوئے اپنے کو تجسم میں خالی کر دیا۔ یعنی اپنی الٰہی شان کے حق کو اس خاص کام کے لئے جو اس کے مد نظر تھا برطرف کر دیا۔ تا کہ وہ اس کام کو انجام دے۔ اس نے انسانیت کے تمام لوازمات کو اپنے لئے قبول کیا۔ اور روح القدس پر کامل سہارا کئے ہوئے اس زمین پر رہا۔ دینداری کا راز عظیم ہے۔ (۱۔تیمتھیس۳: ۱۶)۔

یونانی میں لفظ اپنے آپ پر زور ہے جو اس بات پر اشارہ کرتا ہے کہ اس کا یہ فعل بالکلیہ ایک اختیاری فعل تھا۔

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم کو اس خاص بات میں اس کے نقش قدم پر چلنے کی ایک ہدایت ملتی ہے کہ ہم بھی ان خاص حقوق و مرتبوں سے جو ہم کو حاصل ہوں دوسروں کی خاطر سے اپنے آپ کو خالی کر دیں خواہ وہ افتخارِ خاندان ہو یا دولت یا تعلیم ۔ خدا کی خوشنود اطاعت و رضا میں سب اس کے تابع کر دیں اور سب سے زیادہ یہ کہ ہم ‘‘خودی’’ سے جو مختلف پیچیدہ صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ اپنے آپ کو خالی کریں۔

اور خادم کی صورت اختیار کی۔ 

اصل یونانی میں جو مراد ہے وہ بہتر طور پر ان الفاظ میں یوں ظاہر کی جا سکتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا خادم کی صورت اختیار کرنے سے۔ یہ دونوں فعل ہم زبان ہیں جیسا کہ فعل زمانہ سے بھی ظاہر ہے۔ حقیقت میں یہ عظیم کام یعنی اپنے کو خالی کر نا اس کے غلام کی صورت اختیار کرنے پر مشتمل تھا۔ اس حیثیت میں روح القدس کی تاثیر کا تابعدار رہ کر اس نے زندگی بسر کی اور عمل کیا؟

لفظ‘‘ صورت’’ یہاں بھی وہی ہے جو آیت ۶ میں آیا ہے اور یہاں بھی اس سے وہی مراد ہے یعنی صفات ذاتی پر زور ہے نہ کہ علامات خارجی پر۔ اس نے غلام ہونے کا صرف ظاہری جامہ ہی نہیں پہنا بلکہ فی الحقیقت وہ غلام ہو گیا۔ دیکھو (۱:۱)۔ یہ غلامی سب سے زیادہ خدا کی غلامی تھی (مقابلہ کرو مزمور ۴۰: ۶۔۸ اور عبرانیوں ۱۰: ۵سے۷) اس نے انسان ہو کر یہ دکھلایا کہ خدا کی حقیقی غلامی کے کیا معنی ہیں۔ بلا شک یہ سچ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بنی آدم کی خدمت کے لئے بھی پست کیا(متی ۲۰: ۲۷۔۲۸اورمرقس ۱۰: ۴۴۔۴۵ اور یوحنا ۱۲: ۱۔۲۰) لیکن وہ خاص سچائی جس سے یہاں مراد ہے۔ بلا کسی شک و شبہ کے یہ ہے کہ اس نے باپ کی کامل خدمت کی

‘‘حقیقی خدا’’ کی صورت میں اور حقیقی بندہ۔ بندہ کی صورت میں ! ایک سے دوسری حالت میں کیا ہی تفاوت عظیم ہے۔

اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔

یونانی میں یہ فعل جس زمانہ کو ظاہر کرتا ہے وہ دوسرے فعلوں کے ساتھ ( یعنی اپنے آپ کو خالی کرنا اور غلام کی صورت اختیار کرنا ) ہم زبان ہے۔

انسانوں کے مشابہ

یہ محاورہ اس بات پر اشارہ کرتا ہے کہ گو وہ تمام لوازمات حقیقت انسانی کے اعتبار سے انسانوں کے مشابہ تھا۔ تا ہم وہ انسان سے کسی قدر اعلیٰ تھا ورنہ اس جملہ تشبیہی کا استعمال ضرورت سے زائد ہو جاتا ہے۔ (دیکھو عبرانیوں ۱۲: ۱۴۔۱۸) ‘انسانوں’ صیغہ جمع اس بات کا پر اشارہ کرتا ہے۔  کہ وہ تمام انسانی نسل کا وکیل اور سو ربیر ہو گیا۔


۱. نوٹ:۔

جب ہندوستان کے لوگ پولوس کے خطوں کو بلکہ جب عموماًنئے عہد نامے کی کسی کتاب کو پڑھیں تو ان کو یہ یاد رکھنا ضرور ہے کہ انجیل کے لفظ کے دو معنی ہیں۔ ابتدا میں جس طرح کہ یہ لفظ نئے عہد نامے میں مستعمل ہوا ہے۔ اس کی معنی تھے صرف خدا کی طرف کا وہ پیغام جس کی مسیح اور (باقی صفحہ نمبر ۲۸ پر)

۲. (بقیہ صفحہ نمبر ۲۸) اس کے رسولوں نے منادی کی یعنی اس عجات کی خوشخبری جو خدا کی طرف سے ہے جب مسیح کی زندگی کا تحریری حال کلیسیا میں مسلم ہو کر پھیل گیا تو اس کا نام انجیل پڑ گیا کیونکہ اس میں اس خوشخبری کا بیان درج ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہنا درست ہے کہ جب محمد صاحب نے جن کو مسیحی مذہب کا کچھ نامکمل سا علم تھا کل نئے عہد نامے کو بیان کرنا چاہا تو اس کو وہ نام دیا جو چاروں نہایت مشہور کتابوں کا نام ہے یعنی انجیل کے نام سے ا ن کا ذکر کیا۔ ان کا یہ نام دینا چنداں غلط نہ تھا۔ کیونکہ نئے عہد نامے کی ساری کتابوں کا مضمون یہی نجات کی خوشخبری ہے۔

۳. ۱ نوٹ دائرے کے لفظ سے مراد ہے وہ مقام یا چوگرد جس میں کوئی شخص رہتا ہے۔ (۲۔کرنتھیوں ۳: ۱۷)میں آیا ہے کہ خداوند جس سے مراد ہے مسیح) روح ہے جو زندگی ہمارے اندر اس کے ساتھ ایک ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے وہ لا انتہا ہے تاہم وہ ایک شخص یا ایک وجود کے (بقیہ حصہ ۷۶) اندر مقیم ہے اسی شخص کے اندر ہم اس طرح زندہ رہتے ہیں کہ جیسے ایک نئے روحانی ہوا کے کرّہ میں۔